7. کتاب الصوم

【1】

ماہ رمضان کے فضائل و برکات

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں .... (اور ایک روایت میں بجائے “ ابواب جنت ” کے “ ابوب رحمت ” کا لفظ ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح بسم اللہ الرحمن الرحیم توحید و رسالت کی شہادت کے بعد نماز ، زکوٰۃ ، روزہ اور حج اسلام کے عناصر اربعہ ہیں ۔ وہ حدیثیں اسی سلسلہ “ معارف الحدیث ” کے بالکل شروع میں ذکر کی جا چکی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچوں چیزوں کو اسلام کے ارکان اور بنیادی ستون بتایا ہے ۔ ان کے ارکان اور عناصر ہونے کا مطلب جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ اسلام اللہ کی فرمانبرداری والے جس طرز حیات کا نام ہے اس کی تخلیق و تعمیر اور نشوو نما میں ان پانچوں کو خاص الخاص دخل ہے .... اس لحاظ سے نماز اور زکوٰۃ کی جو تاثیری خصوصیات ہیں وہ اپنے موقع پر ذکر کی جا چکی ہیں .... روزے کی اس تاثیر و خصوصیت کا ذکر خود قرآن مجید میں صراحت اور وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے .... سورہ بقرہ میں رمضان کے روزوں کی فرضیت کا اعلان فرمانے کے ساتھ ہی ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ ” لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ “ یعنی اس حکم کا مقصد یہ ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو روحانیت اور حیوانیت کا یا دوسرے الفاظ میں کہئے کہ ملکوتیت اور بہیمیت کا نسخہ جامعہ بنایا ہے ، اس کی طبیعت اور جبلت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں ، اور اسی کے ساتھ اس کی فطرت میں روحانیت اور ملکوتیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو ملاء اعلیٰ کی لطیف مخلوق فرشتوں کی خاص دولت ہے ۔ انسان کی سعادت کا دار و مدار اس پر ہے کہ اس کا یہ روحانی اور ملکوتی عنصر بہیمی اور حیوانی عنصر پر غالب اور حاوی رہے اور اس کو حدود کا پابند رکھے ، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب کہ بہیمی پہلو روحانی اور ملکوتی پہلو کی فرمانبرداری اور اطاعت شعاری کا عادی ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی نہ کر سکے .... روزہ کی ریاضت کا خاص مقصد و موضوع یہی ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی حیوانیت اور بہیمیت کو اللہ کے احکام کی پابندی اور ایمانی و روحانی تقاضوں کی تابعداری و فرمانبرداری کا خوگر بنایا جائے اور چونکہ یہ چیز نبوت اور شریعت کے خاص مقاصد میں سے ہے اس لیے پہلی تمام شریعتوں میں بھی روزے کا حکم رہا ہے ۔ قرآن مجید میں اس امت کو روزے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے : “ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ” (البقرۃ آیت ۱۸۳) اے ایمان والوں ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں ، جس طرح تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کئے گئے تھے ، تا کہ تمہارے اندر تقویٰ اور پرہیزگاری پیدا ہو ۔ بہر حال روزہ چونکہ انسان کی قوت بہیمی کو اس کی ملکوتی اور روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلہ میں نفس کی خواہشات اور پیٹ اور شہوت کے تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ اور وسیلہ ہے ، اس لیے اگلی امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا ہے ۔ اگرچہ روزوں کی م دت اور بعض دوسرے تفصیلی احکام میں ان امتوں کے خاص حالات اور ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا .... اس آخری امت کے لیے جس کا دور دنیا کے آخری دن تک ہے سال میں ایک مہینے کے روزے فرض کئے گئے ہیں اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا ہے ، اور بلا شبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے لیے اس دور کے واسطے مناسب ترین اور نہایت معتدل مدت اور وقت ہے ، اس سے میں ریاضت اور نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا ، اور اگر اس سے زیادہ رکھا جاتا ۔ مثلاً روزے میں دن کے ساتھ رات بھی شامل کر دی جاتی ، اور بس سحر کے وقت کھانے پینے کی اجازت ہوتی ، یا سال میں دو چار مہینے مسلسل روزے رکھنے کا حکم ہوتا ، تو انسانوں کی اکثریت کے ناقابل برداشت اور صحتوں کے لیے مضر ہوتا .... بہر حال طلوع سحر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت اس دور کے عام انسانوں کے حالات کے لحاظ سے ریاضت و تربیت کے مقصد کے لیے بالکل مناسب اور معتدل ہے ۔ پھر اس کے لیے مہینہ وہ مقرر کیا گیا ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا ، اور جس میں بے حساب برکتوں اور رحمتوں والی رات (لیلۃ القدر) ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہی مبارک مہینہ اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں اور مناسب ہو سکتا تھا .... پھر اس مہینے میں دن کے روزوں کے علاوہ رات میں بھی ایک خاص عبادت کا عمومی اور اجتماعی نظام قائم کیا گیا ہے جو تراویح کی شکل میں امت پر رائج ہے .... دن کے روزوں کے ساتھ رات کی تراویح کی برکات مل جانے کی برکات مل جانے سے اس مہینے کی نورانیت اور تاثیر میں وہ اضافہ ہو جاتا ہے جس کو اپنے اپنے ادراک و احساس کے مطابق ہر وہ بندہ محسوس کرتا ہے جو ان باتوں سے کچھ بھی تعلق اور مناسبت رکھتا ہے ۔ ان مختصر تمہیدی اشارات کے بعد رمضان اور روزوں وغیرہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ذیل میں پڑھئے ۔ تشریح .....استاذ الاساتذہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے “ حجۃ اللہ البالغہ ” میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ .... اللہ کے صالح اور اطاعت شعار بندے رمضان میں چونکہ طاعات و حسنات میں مشغول و منہمک ہو جاتے ہیں وہ دنوں کو روزہ رکھ کے ذکر و تلاوت میں گزارتے ہیں اور راتوں کا بڑا حصہ تراویح و تہجد اور دعا و استغفار میں بسر کرتے ہیں اور ان کے انوار و برکات سے متاثر ہو کر عوام مومنین کے قلوب بھی رمضان میں عبادات اور نیکیوں کی طرف زیادہ راغب اور بہت سے گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں ، تو اسلام اور ایمان کے حلقے میں سعادت اور تقوے کے اس عمومی رجحان اور نیکی اور عبادت کی اس عام فضاء کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے وہ تمام طبائع جن میں کچھ بھی صلاحیت ہوتی ہے ۔ اللہ کی مرضیات کی جانب مائل اور شر و خباثت سے متنفر ہو جاتی ہیں ، اور پھر اس ماہ مبارک میں تھوڑے سے عمل خیر کی قیمت بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے دوسرے دنوں کی بہ نسبت بہت زیادہ بڑھا دی جاتی ہے ، تو ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے لیے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے ان پر بند کر دئیے جاتے ہیں ، اور شیاطین ان کو گمراہ کرنے سے عاجز اور بے بس ہو جاتے ہیں ۔ اس تشریح کے مطابق ان تینوں باتوں (یعنی جنت و رحمت کے دروازے کھل جانے ، دوزخ کے دروازے بند ہو جانے اور شیاطین کے مقید اور بے بس کر دئیے جانے) کا تعلق صرف ان اہل ایمان سے ہے جو رمضان مبارک میں خیر و سعادت حاصل کرنے کی طرف مائل ہوتے اور رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے مستفید ہونے کے لیے عبادات و طاعات کو اپنا شغل بناتے ہیں .... باقی رہے وہ کفار اور خدا ناشناس اور وہ خدا فراموش اور غفلت شعار لوگ جو رمضان اور اس کے احکام و برکات سے کوئی سرو کار ہی نہیں رکھتے اور نہ اس کے آنے پر ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے ، ظاہر ہے کہ اس قسم کی بشارتوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں ، انہوں نے جب اپنے آپ کو خود ہی محروم کر لیا ہے اور بارہ مہینے شیطان کی پیروی پر وہ مطمئن ہیں تو پھر اللہ کے یہاں بھی ان کے لیے محرومی کے سوا اور کچھ نہیں ۔

【2】

ماہ رمضان کے فضائل و برکات

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات جکڑ دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا اور جنت کے تمام دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ، ان کا کوئی دروازہ بھی بند نہیں کیا جاتا ، اور اللہ کا منادی پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب قدم بڑھا کے آ ، اور اے بدی اور بدکرداری کے شائق رک ، آگے نہ آ ، اور اللہ کی طرف سے بہت سے (گناہ گار) بندوں کو دوزخ سے رہائی دی جاتی ہے (یعنی ان کی مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جاتا ہے) اور یہ سب رمضان کی ہر رات میں ہوتا رہتا ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح اس حدیث کے ابتدائی حصے کا مضمون تو وہی ہے جو اس سے پہلی حدیث کا تھا ، آخر میں عالم غیب کے منادی کی جس کی ندا کا ذکر ہے اگرچہ ہم اس کو اپنے کانوں سے نہیں سنتے اور نہیں سن سکتے ، لیکن اس کا یہ اثر اور یہ ظہور ہم اس دنیا میں بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ رمضان میں عموماً اہل ایمان کا رجحان اور میلان خیر و سعادت والے اعمال کی طرف بڑھ جاتا ہے ، یہاں تک کہ بہت سے غیر محتاط اور آزاد منش عامی مسلمان بھی رمضان میں اپنی روش کو کچھ بدل لیتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک ایک یہ ملاء اعلیٰ کی اس ندا اور پکار ہی کا ظہور اور اثر ہے ۔

【3】

ماہ رمضان کے فضائل و برکات

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر کی بخشش اور خلق اللہ کی نفع رسانی میں اللہ تعالیٰ کے سب بندوں سے فائق تھے اور رمضان مبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کریمانہ صفت اور زیادہ ترقی کر جاتی تھی ۔ رمضان کی ہر رات میں جبرائیل امین آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو قرآن مجید سناتے تھے ۔ تو جب روزانہ جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کریمانہ نفع رسانی اور خیر کی بخشش میں اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہواؤں سے بھی زیادہ تیزی آ جاتی اور زور پیدا ہو جاتا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح گویا رمضان مبارک کا مہینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبع مبارک کے لیے بہار و نشاط اور نشر خیر کی صفت میں ترقی کا مہینہ تھا ، اور اس میں اس چیز کو بھی دخل تھا کہ اس مہینے کی ہر رات میں اللہ کے خاص پیغامبر جبرئیل امین آتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو قرآن مجید سناتے تھے ۔

【4】

رمضان کی آمد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک خطبہ دیا .... اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو ! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ افگن ہو رہا ہے ، اس مبارک مہینہ کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں کھڑا ہونے (یعنی نماز تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے) جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا ۔ اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستر فرضوں کے برابر ہے ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ۔ یہ ہمددی اور غمخواری کا مہینہ ہے ، اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہو گا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا ۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے .... آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ : یا رسول اللہ ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان نیسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے ؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے ارشاد فرمایا کہ) اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (یعنی کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تا آنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا .... (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اور اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کر دے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے دے گا ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح اس خطبہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب و مدعا واضح ہے ، تاہم اس کے چند اجزاء کی مزید وضاحت کے لیے کچھ عرض کیا جاتا ہے : ۱۔ اس خطبہ میں ماہ رمضان کی سب سے بڑی اور پہلی عظمت کی فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس میں ایک ایسی رات ہوتی ہے جو ہزار دنوں اور راتوں سے نہیں بلکہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ یہ بات جیسا کہ معلوم ہے قرآن مجید سورۃ القدر میں بھی فرمائی گئی ہے بلکہ اس پوری سورۃ میں اس مبارک رات کی عطمت اور فضیلت ہی کا بیان ہے ، اور اس رات کی عظمت و اہمیت سمجھنے کے لیے بس یہی کافی ہے ۔ ایک ہزار مہینوں میں تقریباً تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں ، اس لیلۃ القدر کے ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے اور اس کے قرب و رضا کے طالب بندے اس ایک رات میں قرب الہی کی اتنی مسافت طے کر سکتے ہیں جو دوسری ہزاروں راتوں میں طے نہیں ہو سکتی ۔ ہم جس طرح اپنی اس مادی دنیا میں دیکھتے ہیں کہ تیز رفتار ہوئی جہاز یا راکٹ کے ذریعہ اب ایک دن بلکہ ایک گھنٹہ میں اس سے زیادہ مسافت طے کی جا سکتی ہے جتنی پرانے زمانے میں سینکڑوں برس میں طے ہوا کرتی تھی ۔ اسی طرح حصول رضائے خداوندی اور قرب الہی کے سفر کی رفتار لیلۃ القدر میں اتنی تیز کر دی جاتی ہے کہ جو بات صادق طالبوں کو سینکڑوں مہینوں میں حاصل نہیں ہو سکتی ، وہ اس مبارک رات میں حاصل ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح اور اسی کی روشنی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب بھی سمجھنا چاہیے کہ اس مبارک مہینہ میں جو شخص کسی قسم کی نفلی نیکی کرے گا اس کا ثواب دوسرے زمانہ کی فرض نیکی کے برابر ملے گا اور فرض نیکی کرنے والے کو دوسرے زمانہ کے ستر فرض ادا کرنے کا ثواب ملے گا .... گویا “ لیلۃ القدر ” کی خصوصیت تو رمضان مبارک کی ایک مخصوص رات کی خصوصیت ہے لیکن نیکی کا ثواب ستر گنا ملنا یہ رمضان مبارک کے ہر دن اور ہر رات کی برکت اور فضیلت ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقیقتوں کا یقین نصیب فرمائے ، اور ان سے مستفید اور متمتع ہونے کی توفیق دے ۔ ۲۔ اس خطبہ میں رمضان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے ۔ دینی زبان میں صبر کے اصل معنی ہیں اللہ کی رضا کے لیے اپنے نفس کی خواہشوں کو دبانا اور تلخیوں اور ناگواریوں کو جھیلنا ۔ ظاہر ہے کہ روزہ کا اول و آخر بالکل یہی ہے ، اسی طرح روزہ رکھ کر ہر روزہ دار کو تجربہ ہوتا ہے کہ فاقہ کیسی تکلیف کی چیز ہے ، اس سے اس کے اندر ان غرباء اور مساکین کی ہمدردی اور غمخواری کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے جو بے چارے ناداری کی وجہ سے فاقوں پہ فاقے کرتے ہیں ۔ اس لیے رمضان کا مہینہ بلاشبہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے ۔ ۳۔ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ : “ اس بابرکت مہینہ میں اہل ایمان کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ ” اس کا تجربہ تو بلا استثناء ہر صاحب ایمان روزہ دار کو ہوتا ہے کہ رمضان مبارک میں جتنا اچھا اور جتنی فراغت سے کھانے پینے کو ملتا ہے باقی گیارہ مہینوں میں اتنا نصیب نہیں ہوتا ۔ خواہ اس عالم اسباب میں وہ کسی بھی راستے سے آئے ، سب اللہ ہی کے حکم سے اور اسی کے فیصلے سے آتا ہے ۔ ۴۔ خطبہ کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ : “ رمضان کا ابتدائی حصہ رحمت ہے ، درمیانہ حصہ مغفرت ہے ، اور آخری حصہ جہنم سے آزادی کا وقت ہے ” ۔ اس عاجز کے نزدیک اس کی راجح اور دل کو زیادہ لگنے والی توجیہ اور تشریح یہ ہے کہ رمضان کی برکتوں سے مستفید ہونے والے بندے تین طرح کے ہو سکتے ہیں ، ایک وہ اصحاب صلاح و تقویٰ جو ہمیشہ گناہوں سے بچنے کا اہتمام رکھتے ہیں اور جب کبھی ان سے کوئی خطا اور لغزش ہو جاتی ہے تو اسی وقت توبہ و استغفار سے اس کی صفائی تلافی کر لیتے ہیں ، تو ان بندوں پر تو شروع مہینہ ہی سے بلکہ اس کی پہلی ہی رات سے اللہ کی رحمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے ۔ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو ایسے متقی اور پرہیز گار تو نہیں ہیں لیکن اس لحاظ سے بالکل گئے گزرے بھی نہیں ہیں ، تو ایسے لوگ جب رمضان کے ابتدائی حصے میں روزوں اور دوسرے اعمال خیر اور توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے حال کو بہتر اور اپنے کو رحمت و مغفرت کے لائق بنا لیتے ہیں ، تو درمیانی حصے میں ان کی بھی مغفرت اور معافی کا فیصلہ فرما دیا جاتا ہے .... اور تیسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو اپنے نفسوں پر بہت ظلم کر چکے ہیں اور ان کا حال بڑا ابتر رہا ہے اور اپنی بداعمالیوں سے وہ گویا دوزخ کے پورے پورے مستحق ہو چکے ہیں ، وہ بھی جب رمضان کے پہلے اور درمیانی حصے میں عام مسلمانوں کے ساتھ روزے رکھ کے اور توبہ و استغفار کر کے اپنی سیاہ کاریوں کی کچھ صفائی اور تلافی کر لیتے ہیں تو اخیر عشرہ میں (جو دریائے رحمت کے جوش کا عشرہ ہے) اللہ تعالیٰ دوزخ سے ان کی بھی نجات اور رہائی کا فیصلہ فرما دیتا ہے .... اس کی تشریح کی بناء پر رمضان مبارک کے ابتدائی حصے کی رحمت ، درمیانی حصے کی مغفرت اور آخری حصے میں جہنم سے آزادی کا تعلق بالترتیب امت مسلمہ کے ان مذکورہ بالا تین طبقوں سے ہو گا ۔ واللہ اعلم ۔

【5】

روزہ کی قدر و قیمت اور اس کا صلہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (روزہ کی فضیلت اور قدر و قیمت بیان کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دن گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے ۔ (یعنی اس امت مرحومہ کے اعمال خیر کے متعلق عام قانون الہی یہی ہے ک ایک نیکی کا اجر اگلی امتوں کے لحاظ سے کم از کم دس گنا ضرور عطا ہو گا اور بعض اوقات عمل کرنے کے خاص حالات اور اخلاص و خشیت وغیرہ کیفیات کی وجہ سے اس سے بھی بہت زیادہ عطا ہو گا ، یہاں تک کہ بعض مقبول بندوں کو ان کے اعمالِ حسنہ کا اجر سات سو گنا عطا فرمایا جائے گا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس عام قانون رحمت کا ذکر فرمایا) مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ اور بالا تر ہے وہ بندہ کی طرف سے خاص میرے لیے ایک تحفہ ہے ، اور میں ہی (جس طرح چاہوں گا) اس کا اجر و ثواب دوں گا ۔ میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے (پس میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی اس قربانی اور نفس کشی کا صلہ دوں گا) روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں : ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک و مولیٰ کی بارگاہ میں حضور ی اور شرف باریابی کے وقت اور قسم ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے (یعنی انسانوں کے لیے مشک کی خوشبو جتنی اچھی اور جتنیپیاری ہے اللہ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بو اس سے بھی اچھی ہے) اور روزہ (دنیا میں شیطان و نفس کے حملوں سے بچاؤ کے لیے اور آخرت میں آتش دوزخ سے حفاظت کے لیے ڈھال ہے ۔ اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو چاہئے کہ وہ بے ہودہ اور فحش باتیں بکے اور شور و شغب نہ کرے ، اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ یا جھگڑا کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کے اکثر وضاحت طلب اجزاء کی تشریح ترجمہ کے ضمن میں کر دی گئی ہے ۔ آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ : “ جب کسی کا روزہ ہو تو وہ فحش اور گندی باتیں اور شور و شغب بالکل نہ کرے ، اور اگر بالفرض کوئی دوسرا اس سے الجھے اور گالیاں بکے جب بھی یہ کوئی سخت بات نہ کہے ، بلکہ صرف اتنا کہہ دے کہ : بھائی میرا روزہ ہے ۔ اس آخری ہدایت میں اشارہ ہے کہ اس حدیث میں روزہ کی جو خاص فضیلتیں اور برکتیں بیان کی گئی ہیں یہ انہی روزوں کی فضیلتیں اور برکتیں بیان کی گئی ہیں یہ انہی روزوں کی ہیں جن میں شہوت نفس اور کھانے پینے کے علاوہ گناہوں سے حتیٰ کہ بری اور نا پسند باتوں سے بھی پرہیز کیا گیا ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں (جو عنقریب درج ہو گی) فرمایا گیا ہے ک جو شخص روزہ رکھے لیکن برے کاموں اور غلط باتوں سے پرہیز نہ کرے تو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی اللہ کو کوئی احتیاج نہیں ہے ۔

【6】

روزہ کی قدر و قیمت اور اس کا صلہ

حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جس کو “ باب الریان ” کہا جاتا ہے ۔ اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہو گا ، ان کے سوا کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکے گا ۔ اس دن پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کے لیے روزے رکھا کرتے گھے اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے ؟ وہ اس پکار پر چل پڑیں گے ۔ اس کے سوا کسی اور کا اس دروازے سے داخلہ نہیں ہو سکے گا ۔ جب وہ روزہ دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا ، پھر کسی کا اس سے دخلہ نہیں ہو سکے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح روزہ میں جس تکلیف کا احساس سب سے زیادہ ہوتا ہے اور جو روزہ دار کی سب سے بڑی قربانی ہے وہ اس کا پیاسا رہنا ہے ، اس لیے اس کو جو صلہ اور انعام دیا جاے گا اس میں سب سے زیادہ نمایاں اور غالب پہلو سیرابی کا ہونا چاہئے ۔ اسی مناسبت سے جنت میں روزہ داروں کے داخلہ کے لیے جو مخصوص دروازہ مقرر کیا گیا ہے اس کی خاطر صفت سیرابی و شادابی ہے ۔ ریان کے لغوی معنی ہیں “ پورا پورا سیراب ” یہ بھرپور سیرابی تو اس دروازہ کی صفت ہے جس سے روزہ داروں کا داخلہ ہو گا ، آگے جنت میں پہنچ کر جو کچھ اللہ تعالیٰ کے انعامات ان پر ہوں گے ان کا علم تو بس اس اللہ تعالیٰ کو ہی ہے جس کا ارشاد ہے کہ : الصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ .... “ بندہ کا روزہ بس میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کا صلہ دوں گا ” ۔

【7】

روزہ کی قدر و قیمت اور اس کا صلہ

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ : مجھے کسی عمل کا حکم فرمائیے ، جس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع دے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ رکھا کرو ، اس کی مثل کوئی بھی عمل نہیں ہے ۔ (سنن نسائی) تشریح نماز ، روزہ ، صدقہ ، حج اور خلق اللہ کی خدمت وغیرہ اعمال صالحہ میں یہ بات مشترک ہونے کے باوجود کہ یہ سب تقرب الی اللہ کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں ان کی الگ الگ کچھ خاص تاثیرات اور خصوصیات بھی ہیں جن میں یہ ایک دوسرے سے ممتاز اور منفرد ہیں ۔ گویا ؎ “ ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است ” ان انفرادی اور امتیازی خصوصیات کے لحاظ سے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ : “ اس جکے مثل کوئی عمل نہیں ہے ” مثلاً نفس کو مغلوب اور مقہور کرنے اور اس کی خواہشوں کو دبانے کے لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اس صفت میں کوئی دوسرا عمل روزہ کے مثل نہیں ہے ۔ پس حضرت ابو امامہؓ کی اس حدیث میں روزہ کے بارے میں جو فرمایا گیا ہے کہ : “ اس کے مثل کوئی عمل نہیں ہے ” اس کی حقیقت یہی سمجھنی چاہئے ۔ نیز ملحوظ رہنا چاہئے کہ ابو امامہؓ کے خاص حالات میں ان کے لیے زیادہ نفع مند روزہ ہی تھا ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسی کی ہدایت فرمائی .... اور اسی حدیث کی بعض روایات میں ہے کہ ابو امامہ نے یہ جواب پانے کے بع دوبارہ اور سہ بارہ بھی عرض کیا کہ : “ مجھے کسی عمل کا حکم فرمائیے جس کو میں کیا کروں ” تو دونوں دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ ہی کی ہدایت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ : بس روزہ رکھا کرو ، اس کے مثل کوئی دوسرا عمل نہیں ہے ۔ یعنی تمہارے خاص حالات میں تم کو اسی سے زیادہ نفع ہو گا ۔ واللہ اعلم ۔

【8】

روزے اور تراویح باعث مغفرت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو لوگ رمضان کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھیں گے ان کے سب گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اور ایسے ہی جو لوگ ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں نوافل (تراویح و تہجد) پڑھیں گے ان کے بھی سب پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ، اور اسی طرح جو لوگ شب قدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نوافل پڑھیں گے ان کے بھی سارے پہلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں رمضان کے روزوں ، اس کی راتوں کے نوافل اور خصوصیت سے شب قدر کے نوافل کو پچھلے گناہوں کی مغفرت اور معافی کا یقینی وسیلہ بتایا گیا ہے بشرطیکہ یہ روزے اور نوافل ایمان و احتساب کے ساتھ ہوں .... یہ ایمان و احتساب خاص دینی اصطلاحیں ہیں ، اور ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو نیک عمل کیا جائے اس کی بنیاد اور اس کا محرک بس اللہ و رسول کو ماننا اور اس کے وعدہ وعید پر یقین لانا اور ان کو بتائے ہوئے اجر و ثواب کی طمع اور امید ہی ہو ، کوئی دوسرا جذبہ اور مقصد اس کا محرک نہ ہو ۔ اسی ایمان و احتساب سے ہمارے اعمال کا تعلق اللہ تعالیٰ سے جڑتا ہے ، بلکہ یہی ایمان و احتساب ہمارے اعمال کے قلب و روح ہیں ، اگر یہ نہ ہوں تو پھر ظاہر کے لحاظ سے بڑے سے بڑے اعمال بھی بے جان اور کھوکھلے ہیں جو خدانخواستہ قیامت کے دن کھوٹے سکے ثابت ہوں گے اور ایمان و احتساب کے ساتھ بندوں کا ایک عمل بھی اللہ کے ہاں اتنا عزیز اور قیمتی ہے کہ اس کے صدقہ اور طفیل میں اس کے برسہا برس کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ایمان و احتساب کی یہ صفت اپنےفضل سے نصیب فرمائے ۔

【9】

روزہ اور قرآن کی شفاعت

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے (یعنی اس بندے کی جو دن میں روزے رکھے گا اور رات میں اللہ کے حضور میں کھڑے ہوکر اس کا پاک کلام قران مجید پڑھے گا یا سنے گا) روزہ عرض کرے گا : اے میرے پروردگار ! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا ، آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما (اور اس کے ساتھ مغفرت و رحمت کا معاملہ فرما) اور قرآن کہے گا کہ میں نے اس کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا ، خداوندا ! آج اس کی حق میں میری سفارش قبول فرما (اور اس کے ساتھ بخشش اور عنایت کا معاملہ فرما) چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش اس بندہ کے حق میں قبول فرمائی جائے گی (اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا) اور خاص مراحم خسروانہ سے اس کو نوازا جائے گا ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح کیسے خوش نصیب ہیں وہ بندے جن کے حق میں ان کے روزوں کی اور نوافل میں ان کے پڑھے ہوئے یا سنے ہوئے قرآن پاک کی سفارش قبول ہو گی ، یہ ان کے لیے کیسی مسرت اور فرحت کا وقت ہو گا .... اللہ تعالیٰ اپنے اس سیاہ کار بندے کو بھی محض اپنے کرم سے ان خوش بختوں کے ساتھ کر دے ۔

【10】

رمضان کا ایک روزہ چھوڑنے کا نقصان باقابل تلافی

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی سفر وغیرہ کی شرعی رخصت کے بغیر اور بیماری (جیسے کسی عذر کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑے گا) وہ اگر اس کے بجائے عمر بھر بھی روزے رکھے تو جو چیز فوت ہو گئی وہ پوری ادا نہیں ہو سکتی .... (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی) (اور صحیح بخاری میں بھی بغیر سند کے ایک ترجمہ باب میں اس حدیث کا ذکر کیا گیا ہے) ۔ تشریح حدیث کا مدعا اور مطلب یہ ہے کہ شرعی عذر اور رخصت کے بغیر رمضان کا ایک روزہ دانستہ چھوڑنے سے رمضان مبارک کی خاص برکتوں اور اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص رحمتوں سے جو محرومی ہوتی ہے ، عمر بھر نفل روزے رکھنے سے بھی اس محرومی اور خسران کی تلافی نہیں ہو سکتی ، اگرچہ ایک روزے کی قانونی قضا ایک ہی دن کا روزہ ہے ، لیکن اس سے وہ ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا جو روزہ چھوڑنے سے کھو گیا .... پس جو لوگ بے پروائی کے ساتھ رمضان کے روزے چھوڑتے ہیں وہ سوچیں کہ اپنے کو وہ کتنا نقصان پہنچاتے ہیں ۔

【11】

روزے میں معصیتوں سے پرہیز

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے ، تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ (صحیح بخاری) تشریح معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں روزے کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات و منکرات سے بھی زبان و دہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے ۔ اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کو اس کے روزے کی کوئی پرواہ نہیں ۔

【12】

عشرہ اخیر اور لیلۃ القدر

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت وغیرہ میں مجاہدہ کرتے اور وہ مشقت اٹھاتے جو دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم) تشریح جس طرح رمضان المبارک کو دوسرے مہینوں کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے اسی طرح اس کا آخری عشرہ پہلے دونوں عشروں سے بہتر ہے اور لیلۃ القدر اکثر و بیشتر اسی عشرہ میں ہوتی ہے ۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت وغیرہ کا اہتمام اس میں اور زیادہ کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے ۔

【13】

عشرہ اخیر اور لیلۃ القدر

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کا عشرہ اخیر شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے (یعنی پوری رات عبادت اور ذکر و دعا میں مشغول رہتے) اور اپنے گھر کے لوگوں (یعنی ازواج مطہرات اور دوسرے متعلقین) کو بھی جگا دیتے (تا کہ وہ بھی ان راتوں کی برکتوں اور سعادتوں میں حصہ لیں) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

【14】

عشرہ اخیر اور لیلۃ القدر

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : شب قدر کو تلاش کرو رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق راتوں میں ۔ (صحیح بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ شب قدر زیادہ تر عشرہ اخیر کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے ، یعنی اکیسویں یا تئیسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا انتیسویں .... شب قدر کی اگر اس طرح تعین کر دی جاتی کہ وہ خاص فلاں رات ہے تو بہت سے لوگ بس اسی رات میں عبادت وغیرہ کا خاص اہتمام کیا کرتے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس طرح مبہم رکھا کہ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا کہ قرآ ن شب قدر میں نازل ہوا ۔ اور دوسری جگہ فرمایا گیا کہ قرآن کا نزول ماہ رمضان میں ہوا ۔ س سے اشارہ ملا کہ وہ شب قدر رمضان کی راتوں میں سے کوئی رات تھی .... پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید نشاندہی کی طور پر فرمایا کہ : رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے اس کا زیادہ امکان ہے ، لہذا ان راتوں کا خاص اہتمام کیا جائے ۔ اس مضمون کی حدیثیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں .... اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کا خیال تھا کہ شب قدر عموماً رمضان کی ستائیسویں ہی ہوتی ہے ۔

【15】

عشرہ اخیر اور لیلۃ القدر

زرابن حبیش جو اکابر تابعین میں سے ہیں بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ کے دینی بھائی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو کوئی پورے سال کی راتوں میں کھڑا ہو گا (یعنی ہر رات عبادت کیا کرے گا) اس کو شب قدر نصیب ہو ہی جائے گی (یعنی لیلۃ القدر سال کی کوئی نہ کوئی رات ہے ، پس جو اس کی برکات کا طالب ہو اسے چاہئے کہ سال کی ہر رات کو عبادت سے معمور کرے اس طرح وہ یقینی طور پر شب قدر کی برکات پا سکے گا .... زر ابن حبیش نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ بات نقل کر کے حضرت ابی بن کعب سے دریافت کیا کہ آپ کا اس بارے میں کیا ارشاد ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ بھائی ابن مسعود پر خدا کی رحمت ہو ، ان کا مقصد اس بات سے یہ تھا کہ لوگ (کسی ایک ہی رات کی عبادت پر) قناعت نہ کر لیں ورنہ ان کو یہ بات یقیناً معلوم تھی کہ شب قدر رمضان ہی کے مہینہ میں ہوتی ہے اور اس کے بھی خاص آخری عشرہ ہی میں ہوتی ہے (یعنی اکیسویں سے انتیسویں یا تیسویں تک) اور وہ معین ستائیسویں شب ہے ۔ پھر انہوں نے پوری قطعیت کے ساتھ قسم کھا کر کہا کہ : وہ بلا شبہ ستائیسویں شب ہی ہوتی ہے (اور اپنے یقین و اطمینان کے اظہار کے لیے قسم کے ساتھ) انہوں نے ان شاء اللہ بھی نہیں کہا (زر ابن حبیش کہتے ہیں کہ) میں نے عرض کیا کہ اے ابو المنذر ! (یہ حضرت ابی کی کنیت ہے) یہ آپ کس بناء پر فرماتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ : میں یہ بات اس نشانی کی بناء پر کہتا ہوں جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو خبر دی تھی ، اور وہ یہ کہ شب قدر کی صبح کو جب سورج نکلتا ہے تو اس کی شعاع نہیں ہوتی ۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے جواب سے معلوم ہوا کہ انہوں نے جو قطعیت کے ساتھ یہ بات کہی کہ شب قدر معین طور پر ستائیسویں شب ہی ہوتی ہے ۔ یہ بات نہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی تھی ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جو ایک خاص نشانی بتائی تھی انہوں نے چونکہ وہ نشانی عموماً سائیسویں شب کی صبح ہی کو دیکھی تھی ، اس لیے یقین کے ساتھ انہوں نے رائے قائم کر لی تھی ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تو یہ فرمایا کہ اس کو آخری عشرہ میں تلاش کرو ، اور کبھی فرمایا کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ، کبھی عشرہ اخیرہ کی پانچ طاق راتوں میں سے چار یا تین راتوں کے لیے فرمایا ، کسی خاص رات کی تعیین آپ نے نہیں فرمائی ۔ ہاں بہت سے اصحاب ادراک کا تجربہ یہی ہے کہ وہ زیادہ تر ستائیسویں شب ہی ہوتی ہے .... اس عدم تعیین کی بڑی حکمت یہی ہے کہ طالب بندے مختلف راتوں میں عبادت و ذکر و دعا کا اہتمام کریں ، ایسا کرنے والوں کی کامیابی یقینی ہے ۔

【16】

عشرہ اخیر اور لیلۃ القدر

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب شب قدر ہوتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے جھرمٹ میں نازل ہوتے ہیں اور ہر اس بندے کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں جو کھڑا یا بیٹھا اللہ کے ذکر و عبادت میں مشغول ہوتا ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی)

【17】

شب قدر کی خاص دعا

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے بتائیے کہ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کون رات شب قدر ہے تو میں اس رات اللہ سے کیا عرض کروں اور کیا دعا مانگوں ؟ آپ نے فرمایا یہ عرض کرو : إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي اے میرے اللہ ! تو بہت معاف فرمانے والا اور بڑا کرم فرما ہے ، اور معاف کر دینا تجھے پسند ہے ۔ پس تو میری خطائیں معاف فرما دے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح اس حدیث کی بناء پر اللہ کے بہت سے بندوں کا یہ معمول ہے کہ وہ ہر رات میں یہ دعا خصوصیت سے کرتے ہیں ، اور رمضان مبارک کی راتوں میں اور ان میں سے بھی خاص کر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اس دعا کا اور بھی زیادہ اہتمام کرتے ہیں ۔

【18】

رمضان کی آخری رات

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : رمضان کی آخری رات میں آپ کی امت کے لیے مغفرت اور بخشش کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا : یا رسول اللہ ! کیا وہ شب قدر ہوتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : شب قدر تو نہیں ہوتی ، لیکن بات یہ ہے کہ عمل کرنے والا جب اپنا عمل پورا کر دے تو اس کو پوری اجرت مل جاتی ہے ۔ (مسند احمد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کی آخری رات بھی خاص مغفرت کے فیصلہ کی رات ہے لیکن اس رات میں مغفرت اور بخشش کا فیصلہ انہی بندوں کے لیے ہو گا جو رمضان مبارک کے عملی مطالبات کسی دررجہ میں پورے کر کے اس کا استحقات پیدا کر لیں ، اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق دے ۔

【19】

اعتکاف

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے ، وفات تک آپ کا یہ معمول رہا ، آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رمضان مبارک اور بالخصوص اس کے آخری عشرہ کے اعمال میں سے ایک اعتکاف بھی ہے .... اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف سے یکسو اور سب سے منقطع ہو کر بس اللہ سے لو لگا کے اس کے در پہ (یعنی کسی مسجد کے کونہ میں) پڑ جانے ، اور سب سے الگ تنہائی میں اس کی عبادت اور اسی کے ذکر و فکر میں مشغول رہے ، یہ خواص بلکہ اخص الخواص کی عبادت ہے ۔ اس عبادت کے لیے بہترین وقت رمضان مبارک اور خاص کر اس کا آخری عشرہ ہی ہو سکتا ہے ۔ اس لیے اس کو اس کے لیے انتخاب کیا گیا ۔ نزول قرآن سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت مبارک میں سب سے یکسو اور الگ ہو کر تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکر و فکر کا جو بیتابانہ جذبہ پیدا ہوا تھا جس کے نتیجہ میں آپ مسلسل کئی مہینے غارِ حرا میں میں خلوت کزینی کرتے رہے ، یہ گویا آپ کا پہلا اعتکاف تھا اور اس اعتکاف ہی میں آپ کی روحانیت اس مقام تک پہنچ گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا نزول شروع ہو جائے ۔ چنانچہ حرا کے اس اعتکام کے آخری ایام ہی میں اللہ کے حامل وحی فرشتے جبرئیل اورہ اقرأ کی ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے .... تحقیق یہ ہے کہ یہ رمضان المبارک کا مہینہ (1) اور اس کا آخری عشرہ تھا اور وہ رات شب قدر تھی ، اس لیے بھی اعتکاف کے لیے رمضان مبارک کے آخری عشرہ کا انتخاب کیا گیا ۔ روح کی تریبیت و ترقی اور نفسانی قوتوں پر اس کو غالب کرنے کے لیے پورے مہینے رمضان کے روزے تو تمام افراد امت پر فرض کیے گئے ، گویا کہ اپنے باطن میں ملکوتیت کو غالب اور بہیمیت کو مغلوب کرنے کے لیے اتنا مجاہدہ اور نفسانی کواہشات کی اتنی قربانی تو ہر مسلمان کے لیے لازم کر دی گئی کہ وہ اس پورے محترم اور مقدس مہینے میں اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس کی عبادت کی نیت سے دن کو نہ کھائے نہ پئے ، نہ بیوی سے متمتع ہو ، اور اسی کے ساتھ ہر قسم کے گناہوں بلکہ فضول باتوں سے بھی پرہیز کرےاور یہ پورا مہینہ ان پابندیوں کے ساتھ گزارے ..... جپس یہ تو رمضان مبارک میں روحانی تربیت و تزکیہ کا عوامی اور کمپلسری کورس مقرر کیا گیا ، اور اس سے آگے تعلق باللہ میں ترقی اور ملاء اعلیٰ سے خصوصی مناسبت پیدا کرنے کے لیے اعتکاف رکھا گیا ۔ اس اعتکاف میں اللہ کا بندہ سب سے کٹ کے اور سب سے ہٹ کر اپنے مالک و مولا کے آستانے پر اور گویا اسی کے قدموں میں پڑ جاتا ہے ، اس کو یاد کرتا ہے ، اسی کے دھیان میں رہتا ہے ، اس کی تسبیح و تقدیس کرتا ہے ، اس کے حضور میں توبہ و استغفار کرتا ہے ، اپنے گناہوں اور قصوروں پر روتا ہے ، اور رحیم و کریم مالک سے رحمت و مغفرت مانگتا ہے ، اس کی رضا اور اس کا قرب چاہتا ہے ۔ اسی حال میں اس کے دن گزرتے ہیں اور اسی حال میں اس کی راتیں .... ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی بندے کی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہتمام سے ہر سال رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے تھے ، بلکہ ایک سال کسی وجہ سے رہ گیا تو اگلے سال آپ نے دو عشروں کا اعتکاف فرمایا .... اس تمہید کے بعد اس سلسلے کی حدیثیں پڑھئے ۔ تشریح ..... ازواج مطہرات اپنے حجروں میں اعتکاف فرماتی تھیں ، اور خواتین کے لیے اعتکاف کی جگہ ان کے گھر کی وہی جگہ ہے جو انہوں نے نماز پڑھنے کی مقرر کر رکھی ہو ، اگر گھر میں نماز کی کوئی خاص جگہ مقرر نہ ہو تو اعتکاف کرنے والی خواتین کو ایسی جگہ مقرر کر لینی چاہئے ۔

【20】

اعتکاف

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے ۔ ایک سال آپ اعتکاف نہیں کر سکے ، تو اگلے سال بیس دن تک اعتکاف فرمایا ۔ (جامع ترمذی) تشریح حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ ایک سال اعتکاف نہ ہو سکنے کی کیا وجہ پیش ائی تھی ۔ سنن نسائی اور سنن ابی داؤد وغیرہ میں حضرت ابی بن کعب کی ایک حدیث مروی ہے اس میں تصریح ہے کہ ایک سال رمضان کے عشرہ اخیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی سفر کرنا پڑ گیا تھا اس کی وجہ سے اعتکاف نہیں ہو سکا تھا اس لیے اگلے سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا ۔ اور صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے کہ جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اس سال کے رمضان میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا تھا ۔ یہ بیس دن کا اعتکاف غالباً اس وجہ سے فرمایا تھا کہ آپ کو یہ اشارہ مل چکا تھا کہ عنقریب آپ کو اس دنیا سے اٹھا لیا جائے گا اس لیے اعتکاف جیسے اعمال کا شغف بڑھ جانا بالکل قدرتی بات تھی ؎ وعدہ وصل چوں شود نزدیک آتش شوق تیز تر گردد

【21】

اعتکاف

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ معتکف کے لیے شرعی دستور اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ نہ مریض کی عیادت کو جائے ، نہ نماز جنازہ میں شرکت کے لیے باہر نکلے ، نہ عورت سے صحبت کرنے ، نہ بوس و کنار کرے اور اپنی ضرورتوں کے لیے بھی مسجد سے باہر نہ جائے سوائے ان حوائج کے جو بالکل ناگزیر ہیں (جیسے پیشاب پاخانہ وغیرہ) اور اعتکاف (روزہ کے ساتھ ہونا چاہئے) بغیر روزہ کے اعتکاف نہیں ، اور مسجد جامع میں ہونا چاہئے ، اس کے سوا نہیں ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس سلسلہ معارف الحدیث میں یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جب کوئی یہ کہے کہ “ سنت ” یہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شرعی مسئلہ یہ ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد یا طرز عمل سے جانا ہے ۔ اس لیے یہ حدیث مرفوع ہی کے حکم میں ہوتا ہے ، اس بناء پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں اعتکاف کے جو مسائل بیان کئے گئے ہیں وہ نبوی ہدایات ہی کے حکم میں ہیں ، اس کے بالکل آخر میں “ مسجد جامع ” کا جو لفظ ہے اس سے مراد جماعت والی مسجد ہے ۔ یعنی ایسی مسجد جس میں پانچوں وقت جماعت پابندی سے ہوئی ہو .... حضرت امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اعتکاف کے لیے روزہ بھی شرط ہے اور جماعت والی مسجد کا ہونا بھی ۔

【22】

اعتکاف

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ وہ (اعتکاف کی وجہ سے مسجد میں مقید ہو جانے کی وجہ سے) گناہوں سے بچا رہتا ہے ، اور اس کا نیکیوں کا حساب ساری نیکیاں کرنے والے بندے کی طرف جاری رہتا ہے ، اور ن امہ اعمال میں لکھا جاتا رہتا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح جب بندہ اعتکاف کی نیت سے اپنے کو مسجد میں مقید کر دیتا ہے تو اگرچہ وہ عبادت اور ذکر و تلاوت وغیرہ کے راستہ سے اپنی نیکیوں میں خوب اضافہ کرتا ہے لیکن بعض بہت بڑی نیکیوں سے وہ مجبور بھی ہو جاتا ہے ۔ مثلاً وہ بیماروں کی عیادت اور خدمت نہیں کر سکتا ، کسی میت کو غسل نہیں دے سکتا ، جو اگر ثواب کے لیے اور اخلاص کے ساتھ ہو تو بہت بڑے اجر کا کام ہے ، اسی طرح نماز جنازہ کی شرکت کے لیے نہیں نکل سکتا ، میت کے ساتھ قبرستان نہیں جا سکتا ۔ جس کے ایک ایک قدم پر گناہ معاف ہوتے ہیں اور نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔ لیکن اس حدیث میں اعتکاف والے کو بشارت سنائی گئی ہے ہے کہ اس کے حساب اور اس کی صحیفہ اعمال میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ سب نیکیاں بھی لکھی جاتی ہیں جن کے کرنے سے وہ اعتکاف کی وجہ سے مجبور ہو جاتا ہے ، اور وہ ان کا عادی تھا ؎ کیا نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے

【23】

رؤیتِ ہلال

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر رمضان کا ذکر فرمایا ، اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : رمضان کا روزہ اس وقت تک مت رکھو جب تک کہ چاند نہ دیکھ لو اور روزوں کا سلسلہ ختم نہ کرو جب تک شوال کا چاند نہ دیکھو لو ، اور اگر (۲۹) کو چاند دکھائی نہ دے تو اس کا حساب پورا کرو (یعنی مہینے کو ۳۰ دن کا سمجھو) .... (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح شریعت اسلامی نے خاص اعمال و عبادات کے لیے جو مخصوص اوقات یا دن یا زمانے مقرر کئے ہیں ان کی تعیین میں اس بات کا خصوصیت سے لحاظ رکھا گیا ہے کہ اس وقت یا دن یا اس زمانہ کا جاننا پہچاننا کسی علم یا فلسفہ پر یا کسی آلہ کے استعمال پر موقوف نہ ہو ، بلکہ ایک عامی اور بے پڑھا دیہاتی آدمی بھی مشاہدہ سے اس کو جان سکے ۔ اسی طرح بند اور روزے کے اوقات سورج کے حساب سے مقرر کئے گئے ۔ مثلاً فجر کا وقت صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک کا مقرر کیا گیا ، ظہر کا وقت سورج کے نصف النہار سے ڈھل جانے کے بعد سے ایک مثل یا دو مثل سایہ ہو جانے تک اور عصر کا وقت اس کے بعد سے غروب آفتاب تک کا رکھا گیا ، اسی طرح مغرب کا وقت غروب آفتاب کے بعد سے شفق کے رہنے تک اور عشاء کا شفق سے غائب ہو جانے کے بعد بتایا گیا ۔ ایسا ہی روزہ کا وقت صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کا رکھا گیا .... ظاہر ہے کہ ان اوقات کو جاننے کے لیے کسی علم یا فلسفہ کی اور اور کسی آلہ کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ ہر آدمی اپنے مشاہدہ سے اس کو جان سکتا ہے ، اور جس طرح عوام کی سہولت کے پیش نظر نماز اور روزہ کو ان اوقات کے لیے سورج کے طلوع و غروب اور اتار چڑھاؤ کو معیار اور نشان قرار دیا گیا ، اسی طرح زکوٰۃ اور حج اور روزہ وغیرہ ان اعمال اور عبادات کے لیے جن کا تعلق مہینے یا سال سے ہے چاند کو معیار قرار دیا گیا ، اور بجائے شمسی سال اور مہینوں کے قمری سال اور مہینوں کا اعتبار کیا گیا ، کیوں کہ عوام اپنے مشاہدہ سے قمری مہینوں ہی کو جان سکتے ہیں ۔ شمسی مہینوں کے آغاز پر کوئی ایسی علامت آسمان یا زمین پر ظاہر نہیں ہوتی جو خود دیکھ کر ہر عام آدمی سمجھ سکے کہ اب پہلا مہینہ ختم ہو کر دوسرا مہینہ شروع ہو گیا ، ہر قمری مہینوں کا آغاز چونکہ چاند نکلنے سے ہوتا ہے اس لیے ایک ان پڑھ دیہاتی بھی آسمان پر نیا چاند دیکھ کر جان لیتا ہے کہ پچھلا مہینہ ختم ہو کر اب اگلا مہینہ شروع ہو گیا ۔ بہر حال شریعت اسلامی نے مہینے اور سال کے سلسلے میں نظام قمری کا جو اعتبار کیا ہے اس کی ایک خاص حکمت عوام کی یہ سہولت بھی ہے .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم سنایا ، تو یہ بھی بتایا کہ رمضان کے شروع یا ختم کا ضابطہ اور معیار کیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ شعبان کے ۲۹ دن پورے ہونے کے بعد اگر چاند نظر آ جائے تو رمضان کے روزے شروع کر دو اور اگر ۲۹ویں کو چاند نظر نہ آئے تو مہینہ کے تیس دن پورے کر کے روزے شروع کرو ، اور اسی طرح رمضان کے روزے ۲۹ یا ۳۰ رکھو .... پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف موقعوں پر رؤیت ہلال کے متعلق اور سب ضروری ہدایات دیں .... اس تمہید کے بعد مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے :

【24】

رؤیتِ ہلال

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر روزے چھوڑ دو ، اور اگر (۲۹ تاریخ کو) چاند دکھائی نہ دے تو شعبان کی ۳۰ کی گنتی پوری کرو .... (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ رمضان کے شروع ہونے اور ختم ہونے کا دار و مدار رؤیت ہلال (یعنی چاند دکھائی دینے پر ہے .... صرف کسی حساب یا قرینہ و قیاس کی بناء پر اس کا حکم نہیں لگایا جا سکتا .... پھر رؤیت ہلال کے ثبوت کی ایک شکل تو یہ ہے کہ خود ہم نے اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھا ہو ، اور دوسری صورت یہ ہے کہ کسی دوسرے نے دیکھ کر ہم کو بتایا ہو اور وہ ہمارے نزدیک قابل اعتبار ہو ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے مبارک میں بھی کبھی کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دیکھنے والے کی اطلاع اور شہادت پر رؤیت ہلال کو مان لیا ، اور روزہ رکھنے یا عید کرنے کا حکم دے دیا ۔ جیسا کہ آگے درج ہونے والی بعض احادیث سے معلوم ہو گا ۔

【25】

رؤیتِ ہلال

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رمضان کے لحاظ سے شعبان کے چاند کو خوب اچھی طرح گنو ۔ (جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ رمضان کے پیش نظر شعبان کا چاند دیکھنے کا بھی خاص اہتمام کیا جائے اور اس کی تاریخیں یاد رکھنے کی خاص فکر اور کوشش کی جائے ، اور جب ۲۹ دن پورے ہو جائیں تو رمضان کا چاند دیکھنے کی کوشش کی جائے ۔

【26】

رؤیتِ ہلال

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان کے دن اور اس کی تاریخیں جتنے اہتمام سے یاد رکھتے تھے اتنے اہتمام سے کسی دوسرے مہینے کی تاریخیں یاد نہیں رکھتے تھے ، پھر رمضان کا چاند دیکھ کر روزے رکھتے تھے ، اور اگر (۲۹ شعبان کو) چاند دکھائی نہ دیتا تو ۳۰ دن کی شمار پورا کر کے پھر روزے رکھتے تھے ..... (سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان مبارک کے اہتمام کی وجہ سے شعبان کا چاند دیکھنے اور اس کی تاریخیں یاد رکھنے کا خاص اہتمام فرماتے تھے ۔ پھر اگر ۲۹ شعبان کو رمضان کا چاند نظر آتا تو رمضان کے روزے رکھنے شروع فرما دیتے تھے ، اور اگر نظر نہ آتا تو شعبان کے ۳۰ دن پورے کر کے روزے رکھتے تھے ۔

【27】

خبر اور شہادت سے چاند کا ثبوت

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بدوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے بتایا کہ میں نے آج چاند دیکھا ہے (یعنی رمضان کا چاند) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا : کیا تم لا الہ الا اللہ کی شہادت دیتے ہو ؟ اس نے عرض کیا کہ : ہاں ً میں لا الہ الا اللہ کی شہادت دیتا ہوں ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اور کیا تم محمد الرسول اللہ کی شہادت دیتے ہو؟ اس نے کہا : ہاں ! میں اس کی بھی شہادت دیتا ہوں (یعنی میں توحید و رسالت پر ایمان رکھتا ہوں ، مسلمان ہوں اس تصدیق کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں میں اس کا اعلان کر دو کہ کل سے روزے رکھیں) (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رؤیت ہلال کی شہادت یا اطلاع قبول کرنے کے لیے ضرور ہے کہ شہادت یا اطلاع دینے والا صاحب ایمان ہو ، کیوں کہ وہی اس کی نزاکت اور اہمیت کو اور اس کی بھاری ذمہ داری کو محسوس کر سکتا ہے ۔

【28】

خبر اور شہادت سے چاند کا ثبوت

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں نے رمضان کا چاند دیکھنے کی کوشش کی (لیکن عام طور سے لوگ دیکھ نہ سکے) تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے ، تو آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ بھی روزے رکھیں ۔ (سنن ابی داؤد ، مسند دارمی) تشریح ان دونوں حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رمضان کا چاند ثابت ہونے کے لیے صرف ایک مسلمان کی شہادت اور اطلاع بھی کافی ہو سکتی ہے ۔ امام ابو حنیفہؒ کے مشہور قول کے مطابق ایک آدمی کی شہادت اس صوورت میں کافی ہوتی ہے جب کہ مطلع صاف نہ ہو ، ابر یا غبار وغیرہ کا اثر ہو ، یا وہ شخص بستی کے باہر سے یا کسی بلند علاقہ سے آیا ہو ، لیکن اگر مطلع بالکل صاف ہو اور چاند دیکھنے والا آدمی باہر سے یا کسی بلند مقام سے بھی نہ آیا ہو ، بلکہ اس بستی ہی میں چاند دیکھنے کا دعویٰ کرے جس میں باوجود کوشش کے اور کسی نے چاند نہ دیکھا ہو ، تو ایسی صورت میں اس کی شہادت پر چاند ہو جانے کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا ، بلکہ اس صورت میں دیکھنے والے اتنے آدمی ہونے چاہئیں جن کی شہادت پر اطمینان ہو جائے ، امام ابو حنیفہ کا مشہور قول یہی ہے ۔ لیکن ایک روایت امام صاحب سے یہ بھی ہے کہ رمضان کے چاند کے ثبوت کے لیے ایک دیندار اور قابل اعتبار مسلمان کی شہادت بہرحال کافی ہے ، اور اکثر دوسرے ائمہ کا مسلک بھی یہی ہے ۔ یہ جو کچھ ذکر کیا گیا اس کا تعلق رمجان کے چاند سے ہے ، لیکن عید کے چاند کے ثبوت کے لیے جمہور ائمہ کے نزدیک کم سے کم ود دیندار اور قابل اعتبار مسلمانوں کی شہادت ضروری ہے ..... دار قطنی اور طبرانی نے اپنی اپنی سند کے ساتھ عکرمہ تابعی سے روایت کیا ہے کہ : ایک دفعہ مدینہ کے حاکم کے سامنے ایک آدمی نے رمضان کا چاند دیکھنے کی شہادت دی ، اس وقت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ دونوں مدینہ میں موجود تھے ، والی مدینہ نے ان دونوں بزرگوں کی طرف رجوع کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس ایک آدمی کی شہادت قبول کر لی جائے ، اور رمضان ہونے کا اعلان کر دیا جائے اور ساتھ ہی فرمایا کہ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجَازَ شَهَادَةَ وَاحِدٍ عَلَى رُؤْيَةِ هِلَالِ رَمَضَانَ ، وَكَانَ لَا يُجِيزُ شَهَادَةً فِي الْإِفْطَارِ إِلَّا بِشَهَادَةِ رَجُلَيْنِ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیت ہلال رمضان کی ایک آدمی کی شہادت کو بھی کافی مانا ہے ، اور عید کے چاند کی شہادت دو آدمیوں سے کم کی آپ کافی نہیں قرار دیتے تھے) ۔

【29】

رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت

حضرت ابوہریرہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : تم میں سے کوئی آدمی رمضان کے ایک دن پہلے سے روزے نہ رکھے الا یہ کہ اتفاق سے وہ دن پڑ جائے جس میں روزہ رکھنے کا کسی آدمی کا معمول ہو تو وہ شخص اپنے معمول کے مطابق اس دن بھی روزہ رکھ سکتا ہے۔ (مثلاً ایک آدمی کا معمول ہے کہ وہ ہر جمعرات یا پیر کو روزہ رکھتا ہے تو اگر ۲۹ ، ۳۰ شعبان کو جمعرات یا پیر پڑ جائے تو اس آدمی کو اس دن روزہ رکھنے کی اجازت ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح شریعت اسلام میں پورے رمضان کے روزے فرض کیے گئے ہیں اور جیسا کہ ابھی معلوم ہو چکا یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ رمضان کا چاند دیکھنے کا خاص اہتمام کیا جائے ، بلکہ اس مقصد سے شعبان کا چاند دیکھنے کا بھی خصوصی اہتمام کیا جائے تا کہ کسی دھوکہ یا غفلت سے رمضان کا کوئی روزہ چھوٹ نہ جائے ۔ لیکن حدود و شریعت کی حفاظت کے لیے یہ بھی حکم دیا گیا ہے رمضان کے ایک دو دن پہلے سے روزے نہ رکھے جائین ، اگر عبادت کے شوقین ایسا کریں گے تو خطرہ ہے کہ بیچارے ناواقف عوام اسی کو شریعت کا حکم اور مسئلہ سمجھنے لگیں ، اس لئے اس کی ممانعت فرما دی گئی ۔

【30】

رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا کہ : جس آدمی نےشک والے دن کا روزہ رکھا اس نے پیغمبر خدا ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی) تشریح “ شک والے دن ” سے مراد وہ دن ہے جس کے بارے میں شک ہو کہ یہ شاید رمضان کا دن ہو ۔ مثلاً ۲۹ شعبان کو مطلع پر ابر یا غبار ہو اور چاند نظر نہ آئے تو اگلے دن کے بارے میں شک ہوتا ہے کہ شاید آج چاند ہو چکا ہو اور غبار یا ابر کی وجہ سے نظر نہ آیا ہو ، اور اس لحاظ سے کل رمضان کا دن ہو ..... تو شریعت مین اس شک اور وہم کا اعتبار نہین ہے اور اس کی بناء پر اس دن روزہ رکھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ، اور جیسا کہ اوپر درج ہونے والی بعض احادیث سے معلوم ہو چکا ، ایسی سورت میں شعبان کے ۳۰ دن پورے کرنے کا حکم دیا ہے ۔

【31】

سحر اور افطار کے بارے میں ہدایات

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سحری کھایا کرو کیوں کہ سحر میں برکت ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

【32】

سحر اور افطار کے بارے میں ہدایات

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری کھانا ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب کے ہاں روزوں کے لیے سحری نہیں ہے ، اور ہمارے ہاں سحری کھانے کا حکم ہے ، اس لیے اس فرق اور امتیاز کو عملاً بھی قائم رکھنا چاہئے ، اور اللہ کی اس نعمت کا کہ اس نے ہم کو یہ سہولت بخشی شکر ادا کرنا چاہئے ۔

【33】

افطار میں تعجیل اور سحری میں تاخیر کا حکم

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اپنے بندوں میں مجھے وہ بندہ زیادہ محبوب ہے جو روزہ کے افطار میں جلدی کرے ۔ (یعنی غروب آفتاب کے بعد بالکل دیر نہ کرے) ۔ (جامع ترمذی)

【34】

افطار میں تعجیل اور سحری میں تاخیر کا حکم

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جب تک میری امت کے لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے وہ اچھے حال میں رہیں گے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اسی مضمون کی حدیث مسند احمد میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور اس میں مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ کے آگے وَأَخَّرُوا السُّحُورَ بھی ہے (یعنی اس امت کے حالات اس وقت تک اچھے رہیں گے جب تک کہ افطار میں تاخیر نہ کرنا بلکہ جلدی کرنا ، اور سحری میں جلدی نہ کرنا بلکہ تاخیر کرنا اس کا طریقہ اور طرز عمل رہے گا ۔ اس کا راز یہ ہے کہ افطار میں جلدی کرنا اور سحری میں تاخیر کرنا شریعت کا حکم اور اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے ، اور اس میں عام بندگان خدا کے لیے سہولت اور آسانی بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نگاہ کرم کا ایک مستقل وسیلہ ہے اس لیے امت جب تک اس پر عامل رہے گی وہ اللہ تعالیٰ کی نظر کرم کی مستحق رہے گی اور اس کے حالات اچھے رہیں گے ، اور اس کے برعکس افطار میں تاخیر اور سحری میں جلدی کرنے میں چونکہ اللہ کے تمام بندوں کے لیے مشقت ہے اور یہ ایک طرح کی بدعت اور یہود و نصاریٰ کا طریقہ ہے اس لیے وہ اس امت کے لیے بجائے رضا اور رحمت کے اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہے ، اس واسطے جب امت اس طریقے کو اپنائے گی تو اللہ تعالیٰ کی نظر کرم سے محرورم ہو گی اور اس کے حالات بگڑیں گئے ۔ افطار میں جلدی کا مطلب یہ ہے کہ جب آفتاب غروب ہونے کا یقین ہو جائے تو پھر تاخیر نہ کی جائے اور اسی طرح سحری میں تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ صبح صادق سے بہت پہلے سحری نہ کھا لی جائے بلکہ جب صبح صادق کا وقت قریب ہو تو اس وقت کھایا پیا جائے ۔ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور دستور تھا ۔

【35】

افطار میں تعجیل اور سحری میں تاخیر کا حکم

حضرت انس زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کے ساتھ سحری کھائی ، پھر (جلد ہی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کے لیے کھڑے ہوگئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے دریافت کیا کہ سحری کھانے اور فجر کی اذان کے درمیان کتنا وقفہ رہا ہو گا ؟ انہوں نے فرمایا : پچاس آیتوں کی تلاوت کے بقدر ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح صحت مخارج اور قواعد قرات کے لحاظ کے ساتھ پچاس آیات کی تلاوت میں پانچ منٹ سے بھی کم وقت صرف ہوتا ہے ، اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سحری اور اذان فجر کے درمیان صرف چار پانچ منٹ کا فصل تھا ۔

【36】

صوم وصال کی ممانعت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم وصال سے لوگوں کو منع فرمایا تو ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ خود تو صوم وصال رکھتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کون میری طرح ہے (یعنی اس بارے میں میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا خاص معاملہ ہے جو دوسروں کے ساتھ نہیں ہے اور و ہ یہ ہے) میری رات اس طرح گزرتی ہے کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے (یعنی مجھے عالم غیب سے غذا ملتی ہے اس لیے اس معاملہ میں اپنے کو مجھ پر قیاس نہ کرو) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح “ صوم وصال ” یہ ہے کہ بغیر افطار اور سحری کے مسلسل روزے رکھے جائین اور دنوں کی طرح راتیں بھی بلا کھائے پئے گزریں ، چونکہ اس طرح کے روزے سخت مشقت اور ضعف کا باعث ہوتے ہین ، اور اس کا قوی خطرہ ہوتا ہے کہ آدمی اتنا کمزور ہو جائے کہ دوسرے فرائض اور دوسری ذمہ داریوں کو ادا نہ کر سکے ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس طرح روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے ، لیکن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال چونکہ یہ تھا کہ اس طرح روزے رکھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت اور توانائی میں کوئی فرق نہیں آتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قسم کی غیر مادی غذا اور روحانی قوت ملتی رہتی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ایسے روزے رکھتے تھے ۔ تشریح ..... اس مضمون کی حدیثیں الفاظ کے خفیف فرق کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہیں ۔ ان تمام روایات سے یہ بات ظاہر ہے کہ اس ممانعت کا مقصد اور منشاء یہی تھا کہ اللہ کے بندے مشقت اور تکلیف میں مبتلا ہوں اور ان کی صحتوں کو نقصان نہ پہنچے ، بلکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں تو یہ بات اور زیادہ صراحت کے ساتھ مذکور ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں : نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الوِصَالِ رَحْمَةٌ لَّهُمْ (بخارى ومسلم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترحم اور شفقت کی بناء پر صوم وصال سے منع فرمایا ہے ۔ اور آگے درج ہونے والی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم وصال کا شوق رکھنے والوں کو سحر تک کے وصال کی اجازت بھی دے دی تھی ۔

【37】

صوم وصال کی ممانعت

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تھے کہ : تم لوگ صوم وصا نہ رکھو اور جو کوئی (اپنے شوق اور دل کے داعیہ اور جذبہ کی بناء پر) صوم وصال رکھنا ہی چاہے تو وہ بس سحر تک رکھے (یعنی سحر سے سحر تک قریباً ۲۴ گھنٹے کا) ۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ : آپ خود تو صوم وصال رکھتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : (اس معاملے میں) میرا حال تمہارا سا نہیں ہے ، میں اس طرح رات گزارتا ہوں کہ ایک کھلانے والا مجھے کھلاتا ہے اور ایک پلانے والا مجھے پلاتا ہے ۔ (صحیح بخاری) تشریح ان حدیثوں میں صوم وصال کی راتوں میں اللہ تعالیٰ کے کھلانے اور پلانے کا جو ذکر ہے اس کی کوئی وضاحت اور خاص صورت احادیث سے معلوم نہیں ہوتی ، بعض حضرات نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صوم وصال میں خاص کر رات کے اوقات میں اللہ تعالیٰ کا جو خاص الخاص قرب حاصل ہوتا تھا اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اور قلب کو وہ طاقت اور توانائی ملتی تھی جو کھانے پینے کے قائم مقام ہو ج اتی تھی ، اس کی تعبیر روحانی غذا سے بھی کی جا سکتی ہے .... اور بعض حضرات نے اس کا یہ مطلب سمجھا ہے کہ صوم وصال کی راتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت اور عالم غیب کے ماکولات و مشروبات کھلائے پلائے جاتے تھے .... لیکن یہ کھانا پینا اس عالم میں نہیں ہوتا تھا ، اس وقت آپ کسی دوسرے عالم میں ہوتے تھے ۔ ہم جیسے عوام خواب کے کھانے پینے میں غور کر کے اس کو سمجھ سکتے ہیں ۔

【38】

افطار کے لیے کیا چیز بہتر ہے ؟

حضرت سلمان بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ کھجور سے افطار کرے ، اگر کھجور نہ پائے تو پھر پانی ہی سے افطار کرے ، اس لیے کہ پانی کو اللہ تعالیٰ نے طہور بنایا ہے ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی) تشریح اہل عرب خاص طور سے اہل مدینہ کے لیے کھجور بہترین غذا تھی اور سہل الحصول اور ارشاں بھی تھی ، کہ غربا اور فقراء بھی اس کو کھاتے تھے ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے افطار کی ترغیب دی اور جس کو بروقت کھجور بھی نہ ملے اس کو پانی سے افطار کی ترغیب دی ، اور اس کی یہ مبارک خصوصیت بتائی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو طہور قرار دیا ہے ۔ اس سے افطار کرنے میں ظاہر و باطن کی طہارت کی نیک فالی بھی ہے ۔

【39】

افطار کے لیے کیا چیز بہتر ہے ؟

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز سے پہلے چند تر کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے تھے ، اگر تر کھجوریں بروقت موجود نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں سے افطار فرماتے تھے اور اگر خشک کھجوریں بھی نہ ہوتیں تو چند گھونٹ پانی پی لیتے تھے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)

【40】

افطار کی دعا

معاذ بن زہرہ تابعی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب روزہ افطار فرماتے تھے تو کہتے تھے : اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ (اے اللہ ! میں نے تیرے ہی واسطے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا) ۔

【41】

افطار کی دعا

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب روزہ افطار فرماتے تھے تو کہتے تھے : پیاس چلی گئی ، اور رگیں (جو سوکھ گئی تھیں وہ) تر ہو گئیں ، اور خدا نے چاہا تو اجر و ثواب قائم ہو گیا ۔ تشریح یعنی پیاس اور خشکی کی جو تکلیف ہم نے کچھ دیر اٹھائی وہ تو افطار کرتے ہی ختم ہو گئی ، اب نہ پیاس باقی ہے اور نہ رگوں میں خشکی ، اور ان شاء اللہ آخرت کا نہ ختم ہونے والا ثواب ثابت و قائم ہو گیا .... یہ اللہ کے حضور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکر بھی ہے اور دوسروں کو تعلیم و تلقین بھی کہ روزہ داروں کا احساس اور اذعان یہ ہونا چاہئے .... مندرجہ بالا دونوں دعاؤدں کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے بعد یہ کلمات کہتے تھے ۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے وقت دعا کرتے تھے : يَا وَاسِعَ الْفَضْل اغْفِرْ لِىْ (اے وسیع فضل و کرم والے مالک ! میری مغفرت فرما) ۔

【42】

روزہ افطار کرانے کا ثواب

حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کسی نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا ، یا کسی مجاہد کو جہاد کا سامان دیا (مثلاً اسلحہ وغیرہ) تو اس کو روزہ دار اور مجاہد کے مثل ہی ثواب ملے گا ۔ (شعب الایمان للبیہقی و شرح السنۃ للبغوی) تشریح اللہ تعالیٰ کے کریمانہ قوانین میں سے یہ بھی ایک قانون ہے کہ کسی نیک عمل کی ترغیب دینے والے اور اس میں مدد دینے والے کو بھی اس عمل کے کرنے والے کا سا ثواب عطا فرماتے ہیں جو نا حقیقت شناس اللہ تعالیٰ کی شان کرم سے آشنا نہیں ہیں انہی کو اس طرح کی بشارتوں میں شکوک و شبہات ہوتے ہیں ..... اللهُمَّ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ.

【43】

مسافرت میں روزہ

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حمزہ بن عمر اسلمی نے جو بہت روزے رکھا کرتے تھے .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میں سفر میں روزے رکھ لیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چاہو تو رکھو اور چاہو نہ رکھو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح قرآن مجید سورہ بقرہ میں جس جگہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کا اعلان کیا گیا ہے وہیں مریضوں اور مسافروں کو رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے ، اور حکم دیا گیا ہے کہ وہ سفر اور بیماری کے بعد اپنے روزے پورے کریں اور وہیں بتا دیا گیا ہے کہ یہ اجازت اور رخصت بندوں کی سہولت اور آسانی کے لیے دی گئی ہے ۔ ارشاد ہے : فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ، يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ العُسْرَ. (البقره ، 158 : 2) اور جو تم میں سے رمضان کا مہینہ پائے تو وہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے ، اور جو مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس کے ذمہ دوسرے دنوں میں رمضان کے دنوں کی گنتی پوری کرنی ہے ۔ اللہ کو تمہارے لیے سہولت اور آسانی منظور ہے ، وہ تمہارے واسطے دشواری نہیں چاہتا ۔ اس آیت سے خود معلوم ہو گیا کہ یہ رخصت بندوں کی سہولت اور آسانی کے لیے اور تنگی اور دشواری سے ان کو بچانے کے لیے دی گئی ہے ، اس لیے اگر کوئی شخص سفر میں ہونے کے باوجود روزے میں اپنے لیے کوئی خاص تکلیف اور دشواری محسوس نہ کرے تو وہ روزہ رکھ سکتا ہے اور چاہے تو رخصت پر بھی عمل کر سکتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل چونکہ امت کے لیے اسوہ اور نمونہ ہے ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی سفر میں روزے رکھے اور کبھی قضا کئے تا کہ امتی اپنے حالات کے مطابق جس طریقے پر چاہیں عمل کر سکیں .... اس سلسلے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور طرز عمل سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ سفر میں روزہ رکھنے سے اگر دوسرے ضروری کاموں کا حرج اور نقصان ہوتا ہو تو روزہ قضا کرنا بہتر ہے اور اگر ایسی بات نہ ہو تو پھر روزہ رکھنا بہتر ہے ۔

【44】

مسافرت میں روزہ

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر روزے رکھتے رہے ، یہاں تک کہ آپ مقام عسفان تک پہنچ گئے (وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے رکھنے چھوڑ دئیے ، اور سب پر یہ بات واضح کر دینے کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پانی کو ہاتھ میں لے کر اوپر اٹھایا ، تا کہ سب لوگ دیکھ لیں (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیا) پھر مکہ پہنچنے تک آپ نے روزے نہیں رکھے ، اور یہ سب ماہ رمضان میں پیش آیا .... تو ابن عباس رضی اللہ عنہ (اسی بناء پر) کہا کرتے تھے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزے رکھے بھی ہیں اور قضاء بھی کئے ہیں ، تو (گنجائش ہے) کہ جس کا جی چاہے سفر میں روزے رکھے اور جس کا جی چاہے قضا کرے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں مکہ کے جس سفر کا ذکر ہے یہ فتح مکہ والا سفر تھا جو رمضان ۸؁ھ میں ہوا تھا ، اس م یں آپ صلی اللہ علیہ وسلم شروع میں روزے رکھتے رہے جب مقام عسفان پہ پہنچے (جو مکہ معظمہ سے قریباً ۳۵ ، ۳۶ میل پہلے ایک چشمہ پڑتا تھا) اور وہاں سے مکہ صرف دو منزل رہ گیا ، اور اس کا امکان پیدا ہو گیا کہ قریبی وقت میں کوئی مزاحمت یا معرکہ پیش آ جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا کہ روزے نہ رکھے جائیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ قضا کر دیا ، اور سب کو دکھا کے پانی پیا تا کہ کسی کے لیے روزہ قضا کرنا گراں نہ ہو ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل سے معلوم ہوا کہ جب تک روزہ قضاء کرنے میں کوئی ایسی مصلحت نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے ، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عسفان تک برابر روزے رکھے ، اگر بغیر کسی خاص مصلحت کے بھی سفر میں روزہ قضا کرنا ہی افضل ہوتا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم شروع سفر ہی سے قضا کرتے ۔ اسی اقعہ کے باتے میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی بھی ای روایت صحیح مسلم میں ہے ، اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرح بالاعلان روزہ قضا کرنے اور سب کو دکھا کر پانی پینے کے بعد بھی روزے جاری رکھے ۔ جب رسول خدا کے سامنے یہ بات آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “ یہ لوگ خطا کار اور گناہ گار ہیں ” (کیوں کہ انہوں نے منشاء نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہر ہونے کے بعد اس کی خلاف ورزی کی) اگر نادانستہ اور غلط فہمی سے کی ، لیکن “ حسنات الأبرار سيئات المقربين ”

【45】

مسافرت میں روزہ

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم جہاد کے لیے چلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہویں رمضان کو ، تو ہم میں سے بعض نے روزے رکھے اور بعض نے رخصت سفر کی بناء پر قضاء کئے ، تو نہ تو روزے رکھنے والوں نے قضاء سفر کرنے والوں پر اعتراض کیا اور نہ قضاء کرنے والوں نے روزے رکھنے والوں پر اعتراض کیا (یعنی ہر ایک نے دوسرے کے طرز عمل کو جائز اور شریعت کے مطابق سمجھا) ۔

【46】

مسافرت میں روزہ

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو ہم میں سے بعضے روزے رکھتے تھے ، اور بعضے روزے قضاء کرتے تھے تو ایک دن جب کہ سخت گرمی تھی ہم ایک منزل پر اترے ، تو روزے رکھنے والے تو گر گئے اور پڑ گئے اور جو روزے قضا کرنے والے تھے وہ اٹھے ، انہوں نے سب کے لیے خیمے لگائے اور سب کی سواریوں کو (یعنی سواری کے اونٹوں) کو پانی پلایا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : آج روزے قجاء کرنے والے ثواب مار لے گئے ۔ (یعنی انہوں نے زیادہ ثواب کما لیا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

【47】

مسافرت میں روزہ

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی بھیڑ دیکھی اور ایک آدمی کو دیکھا جس پر سایہ کیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : کیا معاملہ ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ : یہ صاحب روزہ دار ہیں (ان کی حالت غیر ہو رہی ہے اس لیے یہ سایہ کیا جا رہا ہے اور لوگ جمع ہو گئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سفر کی حالت میں یہ روزہ تو کوئی نیکی کا کام نہیں ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ جب سفر میں اللہ تعالیٰ نے روزہ قضاء کرنے کی رخصت اور اجازت دی ہے اور میں خود بھی اس پر عمل کرتا ہوں تو پھر مسلمانوں میں سے کسی کو ایسے حال میں روزہ رکھنا کہ خود بھی گر جائیں اور دوسرے لوگ بھی ان کی دیکھ بھال میں لگ جائیں کوئی نیکی کی بات نہیں ہے ، ایسی حالت میں تو رخصت پر عمل کر کے روزہ قضاء کرنا ضروری ہے اور اس میں اللہ کی رضا ہے ؎ گر طمع خواہد ز من سلطان دیںخاک بر فرق قناعت بعد ازیں

【48】

فرض روزوں کی قضا

معاذہ عدویہ (جو ایک تابعی خاتون ہیں) وہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ : یہ کیا بات ہے کہ ایام حیض میں جو روزے قضا ہوتے ہیں ان کی تو قضا ہو جاتی ہے اور جو نمازیں قجا ہوتی ہیں ان کی قضا نہیں پڑھی جاتی ؟ ام المؤمنین نے فرمایا کہ : (بس اللہ و رسول کا حکم ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب ہم اس میں مبتلا ہوتے تھے (اور اس کی وجہ سے ان دنوں میں روزہ نماز کچھ نہیں کر سکتے تھے) تو ہم کو ان دنوں کی قضا شدہ روزے رکھنے کا حکم دیا جاتا تھا اور قضا نماز پڑھنے کی حکم نہیں دیا جاتا تھا ۔ (صحیح مسلم)

【49】

نفس کی خواہش سے بلا عذر شرعی فرض روزہ توڑنے کا کفارہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں تو ہلاک ہو گیا (یعنی میں ایک ایسا کام کر بیٹھا ہوں جس نے مجھے ہلاک و برباد کر دیا ہے) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا ہو گیا ؟ اس آدمی نے کہا : میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی (دوسری روایت میں ہے کہ یہ رمضان کا واقعہ ہے) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو کیا تمہارے پاس اور تمہاری ملکیت میں کوئی غلام ہے جس کو تم اس غلطی کے کفارہ میں آزاد کر سکو ؟ اس آدمی نے کہا : نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو پھر کیا تم یہ کر سکتے ہو کہ متواتر دو مہینے کے روزے رکھو ؟ اس نے عرض کیا کہ : یہ بھی میرے بس کی بات نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو کیا تمہارے پاس اتنا ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکو ؟ اس نے عرض کیا کہ : مجھے اس کی بھی مقدرت نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو بیٹھے رہو (شاید اللہ تعالیٰ کوئی سبیل تمہارے لیے پیدا کرے ۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) : ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں تشریف فرما رہے اور ہم لوگ بھی ابھی وہیں حاضر تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھجوروں کا ایک بہت بڑا بورا آیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا کہ : مسئلہ پوچھنے والا وہ آدمی کدھر ہے ؟ اس آدمی نے عرض کیا کہ : میں حاضر ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس بورے کو لے لو (اور اپنی طرف سے) صدقہ کر دو ۔ اس نے عرض کیا کہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ایسے محتاجوں پر صدقہ کروں جو مجھ سے زیادہ حاجت مند ہوں ؟ خدا کی قسم ! مدینہ کی دونوں طرف کی پتھریلی زمین کے درمیان (یعنی مدینہ کی پوری بستی) میں کسی گھر کے لوگ بھی میرے گھر والوں سے زیادہ حاجت مند نہیں ہیں (اس کی اس بات پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (خلاف عادت) ایسی ہنسی آئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں کنارے والے دانت (کچلیاں) بھی ظاہر ہو گئیں (حالانکہ عادت مبارکہ صرف تبسم کی تھی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی سے فرمایا : اچھا ! یہ کھجوریں اپنے اہل و عیال ہی کو کھلا دو ..... (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر آدمی رمضان کے روزہ میں نفس کی خواہش سے ایسی غلطی کر بیٹھے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرنے کی مقدرت ہو تو غلام آزاد کرے ، اگر اس کی مقدرت نہ ہو تو متواتر دو مہینے کے روزے رکھے ، اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے .... جمہور ائمہ و فقہاء کا مسلک بھی یہی ہے ، البتہ اس میں ائمہ کی رائے میں اختلاف ہو گیا ہے کہ یہ کفارہ کیا صرف اسی صورت میں واجب ہو گا جب کہ کسی نے رمضان کے روزہ میں جماع کیا ہو ۔ یا اس صورت میں بھی واجب ہو گا جب کسی نے دانستہ کچھ کھا پی کے روزہ توٹ ڈالا ہو ۔ حضرت امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک یہ کفارہ صرف جماع والی صورت کے ساتھ مخصوص ہے ، کیوں کہ حدیث میں جو واقعہ مذکور ہے وہ جماع ہی کا ہے .... لیکن امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ ، سفیان ثوریؒ اور عبداللہ بن مبارکؒ وغیرہ ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ یہ کفارہ دراصل رمضان کے روزہ کی بےحرمتی کا ہے اور اس جرم کی سزا ہے کہ اس نے اپنے نفس کی خواہش کے مقابلہ میں رمضان کے روزہ کا احترام نہیں کیا اور اس کو توڑ ڈالا ، اور یہ جرم دونوں صورتوں میں یکساں ہے اس لیے اگر کسی نے دانستہ کھا پی کے روزہ توڑا تو اس پر بھی یہ کفارہ واجب ہو گا ۔ اس واقعہ میں ایک عجیب و غریب بات یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صاحب واقعہ صحابی کو کھجوروں کا جو بورا اس لیے عنایت فرمایا تھا کہ مساکین پر صدقہ کر کے وہ اپنا کفارہ ادا کریں ، ان کے اس کہنے پر کہ مدینہ بھر میں مجھ سے اور میرے اہل و عیال سے زیادہ حاجت مند کوئی بھی نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں ان کو اجازت دے دی کہ اس کو اپنے ہی کام میں لے آئیں .... اس کے بارے میں جمہور ائمہ کی رائے یہ ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح ان کا کفارہ ادا ہو گیا ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وقتی ضرورت اور حاجت مندی کا لحاظ کر کے ان کھجوروں کو اپنے خرچ میں لے آنے کی ان کو اس وقت اجازت دے دی اور کفارہ ان کےک ذمہ واجب رہا .... اور مسئلہ یہی ہے کہ اگر رمضان کا روزہ کوئی ایسا آدمی اس طرح توڑ ڈالے جو نہ تو فی الوقت غلام آزاد کر سکتا ہو ، نہ دو مہینے متواتر روزے رکھ سکتا ہو اور نہ افلاس و غربت کی وجہ سے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہو تو کفارہ اس کے ذمہ واجب رہے گا ، وہ اس کی ادائیگی کی نیت رکھے اور جب کبھی اس کو استطاعت ہو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے .... اور امام زہری وغیرہ ائمہ کی رائے یہ ہے کہ عام شرعی قانون اور مسئلہ تو یہی ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابی کے ساتھ ایک طرح کا استثنائی معاملہ کیا اور ان کا کفارہ اسی طرح ادا ہو گیا ۔ یہ واقعہ صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی میں کسی قدر اختصار کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے ۔ حافظ ابن حجرؒ نے “ فتح الباری ” شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ بعض علمائے کبار نے (جن کو ہمارے اساتذہ اور شیوخ نے دیکھا ہے) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی اس حدیث کی شرح دو جلدوں میں لکھی ہے اور دکھایا ہے کہ اس حدیث سے ایک ہزار علمی فائدے اور نکتے پیدا ہوتے ہیں ۔

【50】

کن چیزوں سے روزہ خراب نہیں ہوتا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : جس نے روزہ کی ھالت میں بھول کر کچھ کھا لیا یا پی لیا تو (اس سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹا ، اس لیے) وہ قاعدہ کے مطابق اپنا روزہ پورا کرے ، کیوں کہ اس کو اللہ نے کھلایا اور پلایا ہے (اس نے خود ارادہ کر کے روزہ نہیں توڑا ہے ، اس لیے اس کا روزہ علیٰ حالہ ہے) (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح بعض چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں شبہ ہو سکتا ہے کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہو گا ، یا اس میں کچھ خرابی آ جاتی ہو گی ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات یا عمل سے واضح فرما دیا کہ ان چیزوں سے روزہ میں کوئی خرابی نہیں آتی ۔ اس سلسلہ میں چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے ۔

【51】

کن چیزوں سے روزہ خراب نہیں ہوتا

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان تین چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ پچھنے لگوانا ، قے ہو جانا اور احتلام ۔ (جامع ترمذی)

【52】

کن چیزوں سے روزہ خراب نہیں ہوتا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روزے کی حالت میں بیوی کے ساتھ لیٹنے لپٹنے کے بارے میں سوال کیا (کہ اس کی گنجائش ہے یا نہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتایا کہ گنجائش ہے ، اور دوسرے ایک صاحب نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرما دی (اور اجازت نہیں دی) تو جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گنجائش بتلائی تھی وہ بوڑھی عمر کے آدمی تھے اور جن کو ممانعت فرمائی وہ جواب تھے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح فرق کی وجہ ظاہر ہے ، جوان آدمی کے لیے چونکہ اس کا قوی خطرہ ہوتا ہے کہ نفس کی خواہش اس پر غالب آ جائے گی اور وہ روزہ خراب کر بیٹھے اس لیے آپ نے جوان سائل کو اجازت نہیں دی ، اور بوڑھا آدمی چونکہ اس خطرے سے نسبتاً مامون ہوتا ہے اس لیے بوڑھے سائل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت اور گنجائش بتلا دی ۔

【53】

کن چیزوں سے روزہ خراب نہیں ہوتا

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ : میری آنکھ میں تکلیف ہے تو کیا میں روزہ کی حالت میں سرمہ لگا سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! لگا سکتے ہو ۔ (جامع ترمذی) تشریح معلوم ہوا کہ آنکھ میں سرمہ یا کسی دوا کے لگانے سے روزہ پر اثر نہیں پڑتا ۔

【54】

کن چیزوں سے روزہ خراب نہیں ہوتا

حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی دفعہ کہ میں شمار بھی نہیں کر سکتا ، روزہ کی حالت میں مسواک کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)

【55】

کن چیزوں سے روزہ خراب نہیں ہوتا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام عرج میں دیکھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے اور پیاس یا گرمی کی (شدت) کی وجہ سے سر مبارک پر پانی بہا رہے تھے ۔ (مؤطا امام مالک ، سنن ابی داؤد) تشریح معلوم ہوا کہ روزہ کی حالت میں پیاس یا گرمی کی شدت کم کرنے کے لیے سر پر پانی ڈالنا اور اس قسم کی دوسری تدابیر کرنا جائز ہے ۔اور یہ روزہ کی روح کے بھی خلاف نہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کے بعض اعمال اس لیے بھی کرتے تھے کہ اس طرز عمل سے اپنی عاجزی ظاہر ہوتی ہے جو بندگی کی روح ہے .... اللہ رحمتیں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس کا سلام ۔ عرج ، مدینہ سے مکہ جاتے ہوئے تین منزل پر ایک آباد موضع تھا ، اس لیے یہ واقعہ کسی سفر کا ہے ، ہو سکتا ہے کہ فتح مکہ والے سفر ہی کا ہو ، جو رمضان مبارک میں ہوا تھا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام عسفان پہنچنے تک برابر روزے رکھے تھے ۔

【56】

کن چیزوں سے روزہ خراب نہیں ہوتا

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ (روزے کی حالت میں) میرے اندر سخت تقاجا اور جذبہ پیدا ہوا ، اور میں نے (اپنی بیوی) کا بوسہ لے لیا ۔ اس کے بعد میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج مجھ سے بہت بڑا قصور ہو گیا ، میں نے روزے کی حالت میں بوسہ لے لیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بتاؤ اگر تم پانی منہ میں لے کر کلی کرو (تو کیا اس سے تمہارے روزہ میں خرابی آئے گی؟) میں نے عرض کیا اس سے تو کوئی خرابی نہ آئے گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو پھر (خالی بوسہ لینے سے) کیا ہوا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جواب سے صرف یہ جزئی مسئلہ ہی نہیں معلوم ہوا کہ خالی بوسہ لینے سے روزہ میں خرابی نہیں آتی ، بلکہ ایک اصول اور قاعدہ کلیہ معلوم ہو گیا ، اور وہ یہ کہ دراصل روزے کو توڑنے والی چیز کھانا پینا اور جماع ہے ، اور جس طرح کھانے پینے کی کسی چیز کا صرف منہ میں رکھنا (جو کھانے پینے کا گویا مقدمہ اور دیباچہ ہوتا ہے) روزہ کو نہیں توڑتا ، اسی طرح بوس و کنار وغیرہ (جو جماع کے صرف مقدمات ہوتے ہیں) روزے کو خراب نہیں کرتے .... ہاں جس آدمی کو یہ خطرہ ہو کہ وہ خواہش اور تقاضے سے مغلوب ہو کر کہیں جماع میں مبتلا نہ ہو جائے اس کو اس قسم کی باتوں سے ورزے میں پورا پرہیز کرنا چاہئے .... جیسا کہ اوپر کی بعض حدیثوں سے معلوم ہو چکا ۔

【57】

نفلی روزے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر چیز کی زکوٰۃ ہے (جس کے نکالنے سے وہ چیز پاک ہو جاتی ہے) اور جسم کی زکوٰۃ روزے ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح نماز اور زکوٰۃ کی طرح روزوں کا ایک نصاب اور کورس تو اسلام کا رکن اور گویا شرط لازم قرار دی گئی ہے ۔ جس کے بغیر کسی مسلمان کی زندگی اسلامی زندگی نہیں بن سکتی ، اور وہ رمضان کے پورے مہینے کے روزے ہیں ۔ اس کے علاوہ شریعت اسلام میں روحانی تربیت اور تزکیہ کے لیے اور اللہ تعالیٰ کا خاص تقرب حاصل کرنے کے لیے دوسری نفلی عبادات کی طرح نفلی روزوں کی بھی تعلیم دی گئی ہے ، اور بعض خاص دنوں اور تاریخوں کی خاص فضیلتیں اور برکتیں بیان فرما کے ان کے روزوں کی خصوصی ترغیب دی گئی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زبانی تعلیم و تلقین کے علاوہ اپنے عمل سے بھی امت کو ان نفلی روزوں کی ترغیب دیتے تھے ، لیکن اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بھی پوری احتیاط فرماتے تھے کہ نفلی روزوں میں حد اعتدال سے آگے نہ بڑھیں ، اور ان کا اہتمام اور پابندی فرض روزوں کی طرح نہ کریں ، بلکہ حدود اللہ کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنے فرائض کو فرائض کی طرح ادا کریں اور نوافل کو نوافل کے درجے میں رکھیں .... اس مختصر تمہید کے بعد اس سلسلے کی حدیثیں ذیل میں پڑھئے ۔

【58】

ماہ شعبان میں نفلی روزوں کی کثرت

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور (نفلی روزوں کے بارے میں) یہ تھا کہ آپ (کبھی کبھی) مسلسل بلاناغہ روزے رکھنے شروع کرتے ، یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ اب ناغہ ہی نہیں کریں گے ، اور (کبھی اس کے برعکس ایسا ہوتا کہ) آپ روزے نہ رکھتے اور مسلسل بغیر روزے کے دن گزارتے ، یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ اب آپ بلا روزے کے ہی رہا کریں گے .... اور فرماتی ہیں حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کہ .... میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں ، اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں (اس حدیث کی بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آپ شعبان کے (قریباً) پورے مہینے ہی کے روزے رکھتے تھے) ۔ تشریح حدیث کے پہلے جز کا مطلب تو یہ ہے کہ نفلی روزوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی لگاؤ بندھا دستور و معمول نہیں تھا ، بلکہ کبھی آپ مسلسل بلا ناغہ روزے رکھتے تھے ، اور کبھی مسلسل بغیر روزے کے رہتے تھے ۔ مقصد یہ تھا کہ امت کے لیے ؟ آپ کی پیروی میں مشکل اور تنگی نہ ہو بلکہ وسعت کا راستہ کھلا رہے ، اور ہر شخص اپنے حالات اور اپنی ہمت کے مطابق آپ کے کسی رویہ کی پیروی کر سکے ۔ دوسرے جز کا مطلب یہ ہے کہ آپ پورے اہتمام سے پورے مہینے کے روزے صرف رمضان کے رکھتے تھے (جو اللہ نے فرض کئے ہیں) ہاں شعبان میں دوسرے مہینوں کی بہ نسبت زیادہ روزے رکھتے ہوں .... بلکہ اسی حدیث کی ایک روایت میں ہے کہ قریب قریب پورے مہینے شعبان کے روزے رکھتے تھے اور بہت کم دن ناغہ فرماتے تھے ۔ ماہ شعبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ نفلی روزے رکھنے کے کئی سبب اور کئی حکمتیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے بعض وہ ہیں جن کی طرف بعض حدیثوں میں بھی اشارہ ملتا ہے ۔ چنانچہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اسی مہینے میں بارگاہ الہی میں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے ، میں پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال کی پیشی ہو تو میں روزے سے ہوں ۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک حدیث مروی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان میں بہت زیادہ روزے اس لیے رکھتے تھے کہ پورے سال میں مرنے والوں کی فہرست اسی مہینے میں ملک الموت کے حوالہ کی جاتی ہے ، آپ چاہتے تھے کہ جب آپ کی وفات کے بارے میں ملک الموت کو احکام دئیے جا رہے ہوں تو اس وقت آپ روزے سے ہوں ۔ اس کے علاوہ رمضان کا قرب اور اس کے خاص انوار و برکات سے مزید مناسبت پیدا کرنے کا شوق اور داعیہ بھی غالباً اس کا سبب اور محرک ہو گا ، اور شعبان کے ان روزوں کو رمضان کے روزوں سے وہی نسبت ہو گی جو فرض نمازوں سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل کو فرضوں سے ہوتی ہے ، اور اسی طرح رمضان کے بعد شوال میں چھ نفلی روزوں کی تعلیم و ترغیب جو آگے درج ہونے والی حدیث میں آ رہی ہے ، اس کو رمجان کے روزوں سے وہی نسبت ہو گی ، جو فرض نمازوں کے بعد والی سنتوں اور نفلوں کو فرضوں سے ہوتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔

【59】

رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جس نے ماہ رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد ماہ شوال میں چھ نفلی روزے رکھے تو اس کا یہ عمل ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہو گا ۔ (صحیح مسلم) تشریح رمضان کا مہینہ اگر ۲۹ ہی دن کا ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے ۳۰ روزوں کا ثواب دیتے ہیں اور شوال کے ۶ نفلی روزے شامل کرنے کے بعد روزوں کی تعداد ۳۶ ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے کریمانہ قانون “ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا ” (ایک نیکی کا ثواب دس گنا) کے مطابق کا دس گنا ۳۶۰ ہو جاتا ہے اور پورے سال کے دن ۳۶۰ سے کم ہی ہوتے ہیں .... پس جس نے پورے رمضان مبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال میں ۶ نفلی روزے رکھے وہ اس حساب سے ۳۶۰ روزوں کے ثواب کا مستحق ہو گا پس اجر و ثواب کے لحاظ سے یہ ایسا ہی ہوا جیسے کوئی بندہ سال کے ۳۶۰ دن برابر روزے رکھے ۔

【60】

ہر مہینہ میں تین نفلی روزے کافی ہیں

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ : مجھے بتایا گیا ہے کہ تم نے یہ معمول بنا رکھا ہے کہ تم ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے ہو اور رات بھر نوافل پڑھتے ہو (کیا واقعہ ایسا ہی ہے؟) میں نے عرض کیا کہ : ہاں حضرت ! میں ایسا ہی کرتا ہ۲وں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ طریقہ چھوڑ دو روزے بھی رکھا کرو اور ناغہ بھی کیا کرو ، اسی طرح رات کو نماز بھی پڑھا کرو اور سویا بھی کرو کیاں کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے (تمہیں اس کی اجازت نہیں ہے کہ جسم پر حد سے زیادہ بوجھ ڈالو اور اس کے ضروری تقاضے بھی پورے نہ کرو) اسی طرح تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے (کہ تم اس کو سونے اور آرام لینے کا موقع دو) اسی طرح بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے ملاقاتیوں مہمانوں کا بھی تم پر حق ہے (تم کو جائز نہیں کہ ان کی حق تلفی کر کے) اللہ کی عبادت کرو ۔ سنو ! جو ہمیشہ بلا ناغہ روزہ رکھے اس نے گویا روزہ رکھا ہی نہیں ، ہر مہینے میں تین دن کے نفلی روزے رکھ لینا ہمیشہ روزہ رکھنے کے حکم میں ہے ، اس لئے تم ہر مہینے بس تین روزے رکھ لیا کرو ، اور مہینے میں ایک قرآن (تہجد میں) ختم کر لیا کرو ۔ (عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا کہ : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں (اس لیے مجھے زیادہ کی اجازت مرحمت فرمائیے ۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو پھر تم داؤد علیہ السلام کے روزوں کا طریقہ اختیار کر لو ، اور یہ کہ ایک دن روزہ اور ایک دن افطار (یعنی روزہ کا ناغہ) اور تہجد میں سات راتوں میں ایک قرآن ختم کر لیا کرو ، اور اس سے زیادہ نہ کرو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا ذوق عبادت بہت بڑھا ہوا تھا وہ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات بھر نوافل پڑھتے اور اس میں روزونہ پورا قرآن مجید ختم کر لیتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو وہ ہدایت فرمائی جو حدیث میں مذکور ہوئی اور اس کی عبادت میں اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیا اور فرمایا کہ : تم پر اپنے جسم و جان اور اپنے اہل تعلق کی بھی ذمہ داریاں ہیں اور ان کی بھی رعایت اور ادائیگی ضروری ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے انہیں مہینے میں تین نفلی روزے رکھنے اور تہجد میں پورے مہینے میں ایک قرآن پڑھنے کے لیے فرمایا ، اور جب انہوں نے عرض کیا کہ میں با آسانی اس سے زیادہ کر سکتا ہوں لہٰذا کچھ زیادہ کی مجھے اجازت دے دیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صوم داؤد کی (یعنی ہمیشہ ایک دن روزہ اور ایک دن افطار کی) اور ہفتہ میں ایک قرآن مجید رات کے نوافل میں پورا کر لینے کی اجازت مرحمت فرما دی اور اس سے زیادہ کے لیے منع فرما دیا .... لیکن اس حدیث سے یہ بات ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کا منشاء یہ نہیں تھا کہ زیادہ عبادت کرنا کوئی بری بات ہے ، بلکہ یہ ممانعت بر بنائے شفقت تھی (جس طرح چھوٹے بچوں کو زیادہ بوجھ اٹھانے سے منع کیا جاتا ہے) یہی وجہ ہے کہ ان کے یہ عرض کرنے پر کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مہینہ میں صرف تین روزوں کے بجائے صوم داؤد کی یعنی ۱۵ دن روزہ اور ۱۵ دن افطار کی اور مہینہ میں قرآن ختم کرنے کے بجائے ہفتہ میں قرآن ختم کرنے کی اجازت دے دی ۔ بلکہ ترمذی کی روایت کے مطابق بعد میں صرف پانچ دن میں قرآن مجید ختم کرنے کی بھی اجازت دے دی تھی اور بعض صحابہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن میں قرآن ختم کرنے کی اجازت دی ہے ۔

【61】

ہر مہینہ میں تین نفلی روزے کافی ہیں

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ : آپ روزے کس طرح رکھتے ہیں ؟ (یعنی نفلی روزے رکھنے کے بارے میں آپ کا کیا معمول و دستور ہے؟) اس کے اس سوال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگواری ہوئی (یعنی چہرہ مبارک پر تکدر اور برہمی کے آثار ظاہر ہوئے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (جو حاضر تھے) جب آپ کی ناگواری کی کیفیت کو محسوس کیا تو کہا : رَضِينَا بِاللهِ رَبًّا ، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا ، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا ، نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ غَضَبِ اللهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ ہم راضی ہیں اللہ کو اپنا رب مان کر اور اسلام کو اپنا دین بنا کر اور محمد علیہ السلام کو نبی مان کر ، اللہ کی پناہ اس کی ناراضی سے اور اس کے رسول کی ناراضی سے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بار بار اپنی یہی بات دہراتے رہے ، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج مبارک میں جو ناگواری پیدا ہو گئی تھی اس کا اثر زائل ہو گیا ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ شخص کیسا ہے جو ہمیشہ بلا ناغہ روزے رکھے ، اور اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہ اس نے روزہ رکھا نہ افطار کیا ۔ پھر حضرت عمرؓ نے عرض کیا اور اس آدمی کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو دو دن روزے رکھے اور اییک دن ناغہ کرے یعنی بغیر روزے کے رہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا کسی میں اس کی طاقت ہے ؟ (یعنی یہ بہت مشکل ہے ہمیشہ روزہ رکھنے سے بھی زیادہ مشکل ہے اس لیے اس کا ارادہ نہ کرنا چاہئے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اور اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے : جو ہمیشہ ایک دن روزے رکھے اور ایک دن ناغہ کرے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ صوم داؤد ہے (یعنی حضرت داؤد علیہ السلام جن کو اللہ نے غیر معمولی جسمانی قوت بخشی تھی ان کا معمول یہی تھا کہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ : اس آدمی کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن ناغہ کرے ؟ اور اس طرح اوسطاً ہر مہینے میں دن دن روزہ رکھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میرا جی چاہتا ہے کہ مجھے اس کی طاقت عطا فرمائی جائے .... پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر مہینے کے تین نفلی روزے اور رمضان تا رمضان یہ (یہ اجر و ثواب کے لحاظ سے) ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہے (لہذا جو صوم دہر کا ثواب حاصل کرنا چاہے وہ اس کو اپنا معمول بنا لے) اور یوم عرفہ (۹ ذی الحجہ) کے روزے کے بارے میں ، میں امید کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے کرم سے کہ وہ صفائی کر دے گا اس سے پہلے ساتل کی اور بعد کے سال کی (یعنی اس کی برکت سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی گندگیاں دھل جائیں) اور یوم عاشورا (۱۰ محرم) کے روزے کے بارے میں میں امید کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے کہ وہ صفائی کر دے گا اس سے پہلے سال کی ۔ (صحیح مسلم) تشریح حدیث کا اصل مفہوم و مقصد تو ظاہر ہے لیکن چند ضمنی باتیں وضاحت طلب ہیں ، انہی کے بارے میں کچھ عرض کیا جاتا ہے ۔ حدیث کے بالکل شروع میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ : آپ کس طرح روزے رکھتے ہیں ؟ (یعنی نفلی روزوں کے بارے میں خود آپ کا معمول اور طریقہ کیا ہے) آپ کو اس سوال پر ناراضی اور ناگواری ہوئی .... یہ ناراضی اور ناگواری ایسی ہی تھی جیسی شفیق استاد اور مربی کو کسی شاگرد اور زیر تربیت طالب و مرید کے غلط اور نامناسب سوال سے ہوتی ہے ۔ سوال کرنے والے کو اصل بات دریافت کرنی چاہئے تھی ۔ یعنی یہ پوچھنا چاہئے تھا کہ میرے لیے نفلی روزوں کے بارے میں کیا طرز عمل مناسب ہے ؟ اس نے بجائے اس کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول دریافت کیا تھا ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے بہت سے شعبوں میں ان بہت سے اسباب کی بناء پر جو آپ کے منصب نبوت اور مصالح امت سے تعلق رکھتے تھے ایسا طرز عمل بھی اختیار کرتے تھے جس کی تقلید ہر ایک کے لیے مناسب نہیں ہے اس لیے سائل کو آپ کا معمول دریافت کرنے کے بجائے اصل مسئلہ دریافت کرنا چاہئے تھا ..... استاذ اور مربی کی اس طرح کی ناگواری بھی در اصل تربیت ہی کا ایک جز ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سوال سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناگواری کو محسوس کر کے مسلمانوں کی طرف سے عرض کیا : رَضِينَا بِاللهِ رَبًّا ، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا ، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا ، نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ غَضَبِ اللهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ اس کے بعد آپ نے نفلی روزوں ہی کے بارے میں صحیح طریقے پر سوال کئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جوابات مرحمت فرمائے ۔ جو شخص ہمیشہ بلا ناغہ روزہ رکھے اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ 44 : لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ (نہ اس نے روزہ رکھا نہ افطار کیا) اس سے آپ کا مقصد ناپسندیدگی کا اظہار ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ غلط ہے ، نہ صوم ہے نہ افطار ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوالات کے جوابات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے جو مزید فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ روزہ کے باب میں عام مسلمین کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ وہ رمضان کے فرض روزے رکھا کریں ، اس کے علاوہ ہر مہینے میں تین نفلی روزے رکھ لیا کریں جو الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا کے حساب سے ثواب میں تیس روزوں کے برابر ہوں گے اور اس طرح ان کو صوم دہر کا ثواب مل جائے گا .... مزید نفع مندی اور کمائی کے لیے یوم عرفہ اور یوم عاشورا کے دو روزے بھی رکھ لیا کریں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امید ظاہر فرمائی کہ رب کریم کے کرم سے مجھے امید ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ ایک سال پہلی اور ایک سال بعد کی خطاکاریوں کا اور یوم عاشورا کا روزہ پہلے سال کی غلط کاریوں کا کفارہ بن جائے گا ۔ واضح رہے کہ عرفہ کے دن جو دراصل حج کا دن ہے روزہ کی یہ فضیلت اور ترغیب غیر حاجیوں کے لیے ہے ، حاجیوں کی اس دن کی خاص الخاص اور مقبول ترین عبادت میدان عرفات کا وقوف ہے جس کے لیے ظہر و عصر کی نماز مختصر اور ایک ساتھ پڑھ لینے کا حکم ہے اور ظہر کی سنتیں بھی اس دن چھوڑ دینے کا حکم ہے ، اگر حاجی لوگ اس دن روزہ رکھیں گے تو ان کے لیے عرفات میں وقوف اور آفتاب غروب ہوتے ہی مزدلفہ کو چل دینا مشکل ہو گا ، اس لیے حاجیوں کے لیے عرفہ کے دن روزہ رکھنا پسندیدہ نہیں ہے (بلکہ ایک حدیث میں ممانعت بھی وارد ہوئی ہے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اپنے عمل سے بھی اس کی تعلیم امت کو دی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے عرفہ کے دن ٹھیک اس وقت جب کہ آپ میدان عرفات میں اپنے اونٹ پر تھے اور وقوف فرما رہے تھے سب کے سامنے دودھ نوش فرمایا تا کہ سب دیکھ لیں کہ آپ آپ روزے سے نہیں ہیں ۔ غیر حاجیوں کے لیے یوم عرفہ کا روزہ در اصل اس دن کی ان رحمتوں اور برکتوں میں شریک اور حصہ دار ہونے ہی کے لیے ہے جو عرفات میں حجاج پر نازل ہوتی ہیں ، اور اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اللہ کے جو صاحب ایمان بندے حج میں شریک نہیں ہیں وہ اس پورے دن میں روزہ رکھ کر اس دن کی خاص الخاص رحمتوں اور برکتوں میں کسی درجے کا حصہ لے لیں ۔ اسی طرح یوم النحر یعنی بقر عید کے دن غیر حاجیوں کو قربانی کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا راز بھی یہی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ یوم عاشورا کا روزہ نفلی روزوں میں اس لحاظ سے سب سے زیادہ اہم ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے وہی فرض تھا ۔ جب رمضان المبارک کے روزے فرض کئے گئے تو اس کی فرضیت منسوخ ہو گئی اور صرف نفلی درجہ رہ گیا ۔ اس کے بارے میں احادیث آگے مستقل عنوان کے تحت ان شاء اللہ درج ہوں گی ۔

【62】

مہینہ کے تین روزوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ چار چیزیں وہ ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہیں چھوڑتے تھے .... (۱) عاشورا کا روزہ ، (۲) عشرہ ذی الحجہ (یعنی یکم ذی الحجہ سے یوم العفرہ نویں ذی الحجہ تک) کے روازے ، (۳) ہر مہینے کے تین روزے ، (اور قبل فجر کی دو رکعتیں) (سنن نسائی) تشریح مطلب یہ ہے کہ یہ چار چیزیں اگرچہ فرض یا واجب نہیں ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا اتنا اہتمام اور ایسی پابندی فرماتے تھے کہ کبھی یہ چیزیں ترک نہیں ہوتی تھیں ۔

【63】

مہینہ کے تین روزوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول

معاذہ عدویہ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے تین روزے رکھتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ! آپ ہر مہینے تین روزے رکھتے تھے ۔ معاذہ نے پوچھا کہ : مہینے کے کس حصے میں (اور کن تاریخوں) میں رکھتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ : اس کی فکر نہیں فرماتے تھے کہ مہینہ کے کس حصے میں رکھیں ۔ (و صحیح مسلم) تشریح بعض روایات میں ہر مہینے کے شروع میں روزے رکھنے کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول ذکر کیا گیا ہے اور بعض روایات میں مہینہ کی تیرھویں ، چودھویں اور پندرھویں کا ، اور بعض روایات میں ہفتہ کے خاص خاص تین دنوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس بیان سے جیسا کہ معلوم ہوا ان میں سے کوئی بھی آپ کا دوامی معمول نہیں تھا ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر اور اس کے علاوہ بھی دوسری چیزیں بکثرت پیش آتی رہتی تھیں جس کی وجہ سے آپ کے لیے خاص تاریخوں یا دنوں کی پابندی مناسب نہیں تھی ۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ آپ کا خاص تاریخوں اور خاص دنوں میں ہمیشہ روزے رکھنا امت کے مختلف الحال لوگوں کے لئے باعث زحمت ہوتا اور اس سے یہ غلط فہمی بھی ہو سکتی تھی کہ یہ روزے واجبات میں سے ہیں ۔ الغرض اس طرح کی مصلحتوں کی وجہ سے آپ خود کاص تاریخوں اور دنوں کی پابندی نہیں فرماتے تھے ، اور آپ کے حق میں یہی افضل اور اولیٰ تھا ، لیکن صحابہ کرام کو آپ مہینے کے تین دن کے روزوں کے سلسلے میں اکثر ایام بیض (۱۳ ، ۱۴ ، ۱۵ تاریخ) کی ترغیب دیتے تھے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیثوں سے معلوم ہو گا ۔

【64】

ایام بیض کے روزے

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرمایا کہ : اے ابو ذر ! جب تم مہینے کے تین روزے رکھو تو تیرھویں ، چودھویں ، پندرھویں کے روزے رکھا کرو ۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی) تشریح (قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث سنن نسائی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ، اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بھی یہی ہدایت فرمائی تھی) ۔

【65】

ایام بیض کے روزے

حضرت قتادہ بن ملحان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کو حکم فرماتے تھے کہ ہم ایام بیض یعنی مہینہ کی تیرھویں ، چودھویں ، پندرھویں کو روزہ رکھا کریں ۔ اور فرماتے تھی کہ میہنے کے ان تین دنوں کے روزے رکھنا اجر و ثواب کے لحاظ سے ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہے ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح یہاں تک جو حدیثیں درج ہوئی ان سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ ہر مہینے تین نفلی روزے رکھنے والا صاحب ایمان بندہ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا کے کریمانہ قانون کے حساب سے مہینے کے تیس دن یعنی ہمیشہ روزے رکھنے کے ثواب کا مستحق ہو گا ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ روزے تیرھویں ، چودھویں ، پندرھویں کو رکھے جائیں ۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اہم دینی مسالح کی وجہ سے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ۔ ان تاریخوں کی پابندی نہیں فرماتے تھے ، اور آپ کے حق میں یہی افضل اور اولیٰ تھا ۔

【66】

یوم عاشورہ کا روزہ اور اس کی تاریخی اہمیت

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو یوم عاشورہ (۱۰ محرم) کا روزہ رکھتے دیکھا ۔ آپ نے ان سے دریافت کیا (تمہاری مذہبی روایات میں) یہ کیا خاص دن ہے (اور اس کی کیا خصوصیت اور اہمیت ہے) کہ تم اس کا روزہ رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ : ہمارے ہاں یہ بڑی عظمت والا دن ہے ، اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرق آب کیا تھا تو موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کے اس انعام کے شکر میں اس دن کا روزہ رکھا تھا اس لیے ہم بھی (ان کی پیروی میں) اس دن روزہ رکھتے ہیں .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ کے پیغمبر موسیٰؑ سے ہمارا تعلق تم سے زیادہ ہے اور ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی عاشورہ کا روزہ رکھا اور امت کو بھی اس دن کے روزے کا حکم دیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اوپر جو حدیثیں ہر مہینہ میں تین دن کے نفلی روزوں کے بارے میں درج ہوئیں ، ان میں سے بھی بعض یوم عاشورہ کے روزے کی فضیلتے اور ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی اہتمام و پابندی کا ذکر ضمناً آ چکا ہے ۔ ذیل میں چند حدیثیں درج کی جا رہی ہیں جو خاص اسی سے متعلق ہیں ، اور جن سے اس دن کی خصوصیت اور تاریخی اہمیت بھی معلوم ہو گی ۔ تشریح ..... اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچ کر ہی عاشورہ کے دن روزہ رکھنا شروع فرمایا ۔ حالانکہ صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی صریح روایت موجود ہے کہ قریش مکہ میں قبل از اسلام بھی یومِ عاشورہ کے روزے کا رواج تھا اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ میں یہ روزہ رکھا کرتے تھے ۔ پھر جب آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو یہاں آ کر آپ نے خود بھی یہ روزہ رکھا اور مسلمانوں کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ یوم عاشورہ زمانہ جاہلیت میں قریش مکہ کے نزدیک بھی بڑا محترم دن تھا اسی دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے ۔ قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کی کچھ روایات اس دن کے بارے میں ان تک پہنچی ہو گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ قریش ملت ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اتفاق اور اشتراک فرماتے تھے ۔ اسی بناء پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے ۔ پس اپنے اس اصول کی بناء پر آپ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے ، لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے .... پھر جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں کے یہود کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان سے آپ کو یہ معلوم ہوا کہ وہ یہ مبارک تاریخی دن ہے جس میں حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کو اللہ نے نجات فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا (اور مسند احمد وغیرہ کی روایت کے مطابق اسی یوم عاشورہ کو حضرت نوحؑ کی کشتی جودی پہاڑ پر لگی تھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا ، اور مسلمانوں کو عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں ۔ بعض احادیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لیے دیا جاتا ہے ۔ چنانچہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ربیع بن معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا اور سلمہ بن الاکوع سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کی صبح مدینہ کے آس پاس کی ان بستیوں میں جن میں انصار رہتے تھے یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ آج کے دن روزہ داروں کی طرح رہیں ..... ان حدیثوں کی بناء پر بہت سے ائمہ نے یہ سمجھا ہے کہ شروع مین عاشورہ کا روزہ واجب تھا ، بعد میں جب رمضان مبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہو گئی اور اس کی حیثیت ایک نفلی روزے کی رہ گئی ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ابھی اوپر گزر چکا ہے کہ “ مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس کی برکت سے پہلے ایک سال کے گناہوں کی صفائی ہو جائے گی ۔ ” اور صوم یوم عاشورہ کی فرضیت منسوخ ہو جانے کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہی رہا کہ آپ رمضان مبارک کے فرض روزوں کے علاوہ سب سے زیادہ اہتمام نفلی روزوں میں اسی کا کرتے تھے ۔

【67】

یوم عاشورہ کا روزہ اور اس کی تاریخی اہمیت

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپ کسی فضیلت والے دن کے روزے کا بہت زیادہ اہتمام اور فکر کرتے ہوں ، سوائے اس دن یوم عاشورہ کے اور سوائے اس ماہ مبارک رمضان کے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہی سمجھا کہ نفلی روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یوم عاشورہ کے روزے کا کرتے تھے اتنا کسی دوسرے نفلی روزے کا نہیں کرتے تھے ۔

【68】

یوم عاشورہ کا روزہ اور اس کی تاریخی اہمیت

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ میں روزہ رکھنے کو اپنا اصول و معمول بنا لیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ : یا رسول اللہ ! اس دن کو تو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (اور یہ گویا ان کا قومی و مذہبی شعار ہے اور خاص اس دن ہمارے روزہ رکھنے کے ان کے ساتھ اشتراک اور تشابہ ہوتا ہے ، تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہو سکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات باقی نہ رہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ان شاء اللہ ! جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو روزہ رکھیں گے .... عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لیکن اگلے سال کا ماہ محرم آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات واقع ہو گی ۔ (صحیح مسلم) تشریح ظاہر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اشکال عرض کرنے پر یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات شریف سے کچھ ہی پہلے فرمائی ، اتنی پہلے کہ اس کے بعد محرم کا مہینہ آیا ہی نہیں ، اور اس لیے اس نئے فیصلے پر عمل درآمد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں نہیں ہو سکا ، لیکن امت کو رہنمائی مل گئی کہ اس طرح کے اشتراک اور تشابہ سے بچنا چاہئے .... چنانچہ اسی مقصد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طے فرمایا کہ ان شاء اللہ آئندہ سال سے ہم نویں کا روزہ رکھیں گے ۔ نویں کا روزہ رکھنے کا آپ نے جو فیصلہ فرمایا اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور علماء نے دونوں بیان کئے ہیں ۔ ایک یہ کہ آئندہ سے ہم بجائے دسویں محرم کے یہ روزہ نویں محرم ہی کو رکھا کریں گے اور دوسرا یہ کہ آئندہ سے ہم دسویں محرم کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھا کریں گے ، اور اس طرح سے ہمارے اور یہود و نصاریٰ کے طرز عمل میں فرق ہو جائے گا .... اکثر عملاء نے اسی دوسرے مطلب کو ترجیح دی ہے اور یہ کہا ہے کہ یوم عاشورہ کے ساتھ اس سے پہلے نویں کا روزہ بھی رکھا جائے اور اگر نویں کو کسی وجہ سے نہ رکھا جا سکے تو اس کے بعد کے دن گیارہویں کو رکھ لیا جائے ۔ یہ عاجز عرض کرتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں چونکہ یہود و نصاریٰ وغیرہ یوم عاشورہ (دسویں محرم) کو روزہ نہیں رکھتے ، بلکہ ان کا کوئی کام بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا ، اس لیے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں رہا ، لہذا فی زمانہ ارفع تشابہ کے لیے نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہئے ۔ واللہ اعلم ۔

【69】

عشرہ ذی الحجہ اور یوم العرفہ کا روزہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : دنوں میں سے کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کو اتنا محبوب نہیں جتنا کہ عشرہ ذی الحجہ میں محبوب ہے (یعنی ان دنوں کی عبادت اللہ تعالیٰ کو دوسرے تمام دنوں سے زیادہ محبوب ہے) اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہیں ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس سے پہلے بھی ایک حدیث میں ضمنی طور پر عشرہ ذی الحجہ کے نفلی روزوں کا ذکر آ چکا ہے اور وہاں یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ اس سے مراد یکم ذی الحجہ سے نویں ذی الحجہ تک کے ۹ دن ہیں ، کیوں کہ عید کے دن تو روزہ رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے ۔

【70】

عشرہ ذی الحجہ اور یوم العرفہ کا روزہ

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں عرفہ کے دن کا روزہ اس کے بعد والے سال اور پہلے والے سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا ۔ (جامع ترمذی) تشریح حضرت ابو قتادہ کی ایک طویل حدی ث صحیح مسلم کے حوالہ سے زیر عنوان “ ہر مہینہ کے تین نفلی روزے ” پہلے گزر چکی ہے ، اس میں یہ مضمون بھی قریب قریب انہی الفاظ میں آ چکا ہے اور وہاں دوسری احادیث کی روشنی میں یہ وضاحت بھی کی جا چکی ہے کہ یوم عرفہ کے روزہ کی فضیلت اور ترغیب ان حجاج کے لیے نہیں ہے جو اداء حج کے لیے عرجہ کے دن میدان عرفات میں حاضر ہوں ، ان کے لیے وہاں روزہ نہ رکھنا افضل ہے .... اور وہیں اس کی حکمت بھی بیان کی جا چکی ہے ۔ فائدہ .... بعض لوگ ایسی حدیثوں میں شک کرنے لگتے ہیں جن میں کسی عمل کا ثواب اور ثمرہ ان کے خیال کے لحاظ سے بہت زیادہ اور غیر معموملی بیان کیا گیا ہو ، جس طرح کہ اس حدیث میں عرفہ کے روزے کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ “ اس کی برکت سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کے معاف ہو جانے کی امید ہے ۔ ” اس میں شک کی بنیاد ارحم الراحمین کی رحمت و کرم کی وسعت سے نا آشنائی ہے ۔ اللہ تعالیٰ انتہائی کریم اور مختار مطلق ہے جس دن کے جس عمل کی اپنے کرم سے جتنی بڑی چاہے قیمت مقرر فرمائے ۔ سال کی ایک رات “ لَيْلَةُ الْقَدْرِ ” کو اس نے “ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ” ہزار مہینوں یعنی قریباً تیس ہزار دنوں اور راتوں سے بہتر قرار دیا ہے ، یہ اس کی کریمی ہے .... الغرض جب حدیث صحیح ہو تو اس طرح کے وساوس مومن کو نہ ہونے چاہئیں ۔

【71】

پندرھویں شعبان کا روزہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب شعبان کی پندرھویں رات آئے تو اس رات میں اللہ کے حضور میں نوافل پڑھو اور اس دن کو روزہ رکھو کیوں کہ اس رات میں آفتاب غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی خاص تجلی اور رحمت پہلے آسمان پر اترتی ہے اور وہ ارشاد فرماتا ہے کہ کوئی بندہ ہے جو مجھ سے مغفرت اور بخشش طلب کرے اور میں اس کی مغفرت کا فیصلہ کروں ، کوئی بندہ ہے جو روزی مانگے اور میں اس کو روزی دینے کا فیصلہ کروں ، کوئی مبتلائے مصیبت بندہ ہے جو مجھ سے صحت و عافیت کا سوال کرے اور میں اس کو عافیت عطا کروں ، اسی طرح مختلف قسم کے حاجت مندوں کو اللہ پکارتا ہے کہ وہ اس وقت مجھ سے اپنی حاجتیں مانگیں اور میں عطا کروں ۔ غروب آفتاب سے لے کر صبح صادق تک اللہ تعالیٰ کی رحمت اسی طرح انے بندوں کو اس رات میں پکارتی رہتی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح اس حدیث کی بناء پر اکثر بلاد اسلامیہ کے دیندار حلقوں میں پندرھویں شعبان کے نفلی روزے کا رواج ہے ، لیکن محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ حدیث سند کے لحاظ سے نہایت ضعیف قسم کی ہے ۔ اس کے ایک راوی ابو بکر بن عبداللہ کے متعلق ائمہ جرح و تعدیل نے یہاں تک کہا ہے کہ وہ حدیثیں وضع کیا کرتا تھا ۔ پندرھویں شعبان کے روزے کے متعلق تو صرف یہی ایک حدیث روایت کی گئی ہے ، البتہ شعبان کی پندرھویں شب میں عبادت اور دعا و استغفار کے متعلق بعض کتب حدیث میں اور بھی متعدد حدیثیں مروی ہیں لیکن ان میں کوئی بھی ایسی نہیں ہے جس کی سند محدثین کے اصول و معیار کے مطابق قابل اعتماد ہو ، مگر چونکہ یہ متعدد حدیثیں ہیں اور مختلف صحابہ کرام سے مختلف سندوں سے روایت کی گئی ہیں اس لیے ابن الصلاح وغیرہ بعض اکابر محدثین نے لکھا ہے کہ غالباً اس کی کوئی بنیاد ہے ۔ واللہ اعلم ۔

【72】

خاص دنوں میں نفلی روزے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پیر کو اور جمعرات کو اعمال کی ایک پیشی ہوتی ہے میں یہ چاہتا ہوں کہ جب میرے عمل کی پیشی ہو تو میں اس دن روزہ سے ہوں ۔ (جامع ترمذی) تشریح جس طرح اب تک کی درج ہونے والی حدیثوں میں سال کے بعض متعین مہینوں اور مہینوں کی بعض مخصوص تاریخوں میں نفلی روزے رکھنے کی خاص ترغیب دی گئی ہے اسی طرح ہفتہ کے بعض مخصوص دنوں کے لیے بھی یہ ترغیب دی گئی ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی اس بارے میں رہنمائی ملتی ہے ۔

【73】

خاص دنوں میں نفلی روزے

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے ۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی)

【74】

خاص دنوں میں نفلی روزے

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میں پیر ہی کے دن پیدا ہوا ، اور پیر ہی کے دن سے مجھ پر قرآن کا نزول شروع ہوا ۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ پیر کا دن بڑی برکت اور رحمت والا دن ہے ، اسی دن میں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی اور اسی دن کتاب اللہ کا نزول شروع ہوا ، پھر اس دن کے روزے کا کیا پوچھنا ! .... اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو پیر کے دن (کبھی کبھی یا اکثر) روزہ رکھتےتھے تو اس کا ایک محرک تو وہ تھا جس کا اوپر کی حدیث میں ذکر آیا ، یعنی یہ کہ “ اس دن اعمال کی ایک پیشی ہوتی ہے اور آپ چاہتے تھے کہ اس پیشی کے دن آپ روزہ کی حالت میں ہوں ” ۔ اور دوسرا محرک اللہ تعالیٰ کی ان دو عظیم نعمتوں (ولادت اور وحی و نبوت) کے شکر کا جذبہ بھی تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیر ہی کے دن عطا ہوئیں اور جو ساری دنیا کے لیے بھی نعمت اور رحمت ہے .... وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ

【75】

خاص دنوں میں نفلی روزے

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کم ایسا ہوتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن روزہ نہ رکھتے تھے ۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن اکثر و بیشتر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ ہوتا تھا ، لیکن دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع فرماتے تھے کہ جمعہ کی فضیلت اور خصوصیت کی وجہ سے لوگ ایسا کرنے لگیں کہ نفلی روزے جمعہ ہی کو رکھیں اور شب بیداری اور عبادت کے لیے شب جمعہ ہی کو مخصوص کریں ۔

【76】

خاص دنوں میں نفلی روزے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : تم لوگ راتوں میں سے جمعہ کی رات کو نماز اور عبادت کے لیے مخصوص نہ کرو اور اسی طرح دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے مخصوص نہ کرو ، الا یہ کہ جمعہ کسی ایسی تاریخ کو پڑ جائے جس کو تم میں سے کوئی روزہ رکھتا ہو (اس صورت میں اس جمعہ کے نفلی روزے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ (صحیح مسلم) تشریح جمعہ کے دن اور اس کی راقت کی خاص فضیلت کی وجہ سے چونکہ اس کا امکان زیادہ تھا کہ فضیلت پسند لوگ اس دن نفلی روزہ رکھنے کا اور اس کی رات میں شب بیداری اور عبادت کا بہت زیادہ اہتمام کرنے لگیں اور جس چیز کو اللہ و رسول نے فرض و واجب نہیں بتایا اس کے ساتھ فرض و واجب کا سا معاملہ ہونے لگے ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ممانعت فرمائی .... اس کے علاوہ اس ممانعت کے علمائے کرام نے اور بھی بعض مصالح لکھنے ہیں ۔ بہر حال یہ ممانعت انتظامی ہے اور منشاء یہ ہے کہ جمعہ کا روزہ اور شب جمعہ کی شب بیداری ایک زائد رسم نہ بن جائے ۔ واللہ اعلم ۔

【77】

خاص دنوں میں نفلی روزے

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایسا بھی کرتے تھے کہ) ایک مہینہ میں سینچر ، اتوار اور پیر کا روزہ رکھتے ، اور دوسرے مہینہ میں منگل ، بدھ اور جمعرات کا ۔ (جامع ترمذی) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی روایت سے معلوم ہو چکا ہے کہ مہینہ کے تین روزوں کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی لگا بندھا معمول نہیں تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس روایت کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ ایسا بھی کرتے تھے کہ ایک مہینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ہفتہ کے پہلے تین دنوں سینچر ، اتوار ، پیر کا روزہ رکھ لیا اور دوسرے مہینہ میں بعد والے تین دنوں منگل ، بدھ اور جمعرات کا .... (اور جمعہ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان گزر ہی چکا کہ آپ جمعہ کے دن اکثر و بیشتر روزہ رکھتے تھے) .... گویا علاوہ ان مخصوص تاریخوں اور دنوں کے جن کے روزہ کی خاص فضیلت ہے ۔ آپ اس کا بھی اہتمام فرماتے تھے کہ آپ کا نفلی روزہ ہفتہ کے ہر دن میں پڑ جائے تا کہ لوگ جان لیں کہ اللہ کے بنائے ہوئے ساتوں دن مبارک اور عبادت کے دن ہیں ۔

【78】

وہ دن جن میں نفلی روزہ رکھنا منع ہے

حضرت ابو سعیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا : یوم الفطر کے روزے ، اور قربانی کے دن کے روزہ رکھنے سے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح سال میں بعض مخصوص دن وہ بھی ہیں جن میں روزہ رکھنے کی ممانعت ہے ، اور اللہ تعالیٰ حاکم مطلق ہے ، اس نے نماز کو عظیم عبادت بھی قرار دیا اور بعض خاص اوقات میں (مثلاً طلوع و غروب اور استواء کے وقت) نماز کی ممانعت بھی فرما دی ۔ اسی طرح اس نے روزہ کو محبوب ترین عبادت اور روحانی ترقی کا خاص وسیلہ بھی قرار دیا ، اور بعض خاص دنوں میں روزہ رکھنا حرام بھی کر دیا ، یہ بات حاکم مطلق کی شان حاکمیت کے عین مطابق ہے اور ہم بندوں کا کام بس حکم کی تعمیل اور فرمانبرداری ہے ۔

【79】

وہ دن جن میں نفلی روزہ رکھنا منع ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا : یوم الاضحیٰ اور یوم الفطر میں روزہ رکھنے سے ۔ (صحیح مسلم)

【80】

وہ دن جن میں نفلی روزہ رکھنا منع ہے

ابو عبید مولیٰ ابن ازہر تابعی سے روایت ہے کہ میں نے عید کی نماز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں پڑھی ۔ انہوں نے نماز پڑھائی ، نماز سے فارغ ہو کر خطبہ دیا ، اس میں فرمایا کہ : دید کے یہ دونوں دن وہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ۔ ان میں سے ایک دن تو (پورے مہینے رمضان کے روزوں کے بعد) تمہارے فطر کا دن ہے ، اور دوسرا اپنی قربانیوں کے گوشت کھانے کا دن ہے ۔ (صحیح مسلم)

【81】

وہ دن جن میں نفلی روزہ رکھنا منع ہے

نبیشۃ ھذلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ایام تشریق (۱۱ ، ۱۲ ، ۱۳ ذی الحجہ) کھانے پینے کے اور اللہ کی یاد کے دن ہیں ۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت ابو سعید خدری ، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہمکی مندرجہ بالا حدیثوں میں یوم الفطر اور یوم النحر کے دنوں میں روزہ رکھنے کی صریح ممانعت فرمائی گئی ہے ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یوم الفطر کا روزہ تو اس لیے منع ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے رمضان کے بعد “ فطر کا دن ” یعنی روزہ نہ رکھنے اور کھانے پیننے کا دن قرار دیا ہے اس لیے اس دن روزہ رکھنے میں منشاء الٰہی کی مخالفت ہے اور یوم النحر کا روزہ اس لیے منع ہے کہ وہ قربانی کا گوشت کھانے کا دن ہے ۔ گویا اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ اس دن جو قربانیاں اللہ تعالیٰ کے لیے کی جائیں اس کے بندے ان قربانیوں کا گوشت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس کی ضیافت سمجھ کر اور اس کے در کے فقیر بن کر شکر کے ساتھ کھائیں ، اور وہ بندہ بلا شبہ بڑا متکبر اور کافر نعمت ہے جو اللہ کی عام ضیافت کے دن دانستہ روزہ رکھ لے ، اور چونکہ ذی الحجہ کی گیارھویں اور بارہویں بھی قربانی کے دن ہیں ، اس لیے ان کا حکم بھی یہی ہے .... اور نبیشۃ ہذلی کی آخری حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے ایام تشریق کو کھانے پینے کے ، یعنی اللہ تعالیٰ کی ضیافت کے دن فرمایا ہے جس میں ۱۳ ذی الحجہ بھی شامل ہے ، اس لئے ۱۰ ذی الحجہ سے ۱۳ ذی الحجہ تک پانچوں دن روزہ رکھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے ، اب ان دنوں میںروزہ رکھنا عبادت نہیں بلکہ معصیت ہو گا ۔ ؎ چوں طمع خواہد ز من سلطان دیں خاک بر فرقِ قناعت بعد ازیں

【82】

نفلی روزہ توڑا بھی جا سکتا ہے

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا : کیا تمہارے ہاں کھانے کے لیے اس وقت کچھ ہے ؟ ہم نےعرض کیا کہ : اس وقت تو کچھ بھی نہیں ہے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو اب ہم روزہ رکھتے ہیں .... پھر ایک اور دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا کہ : آج ہمارے ہاں حنیس (خرما اور مکھن کا ملیدہ) ہدیہ آیا ہے ، اس کو نوش فرما لیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دکھاؤ ! ہم نے آج روزے کی نیت کر لی تھی .... پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے نوش فرمایا اور روزہ نہیں رکھا ۔ (صحیح مسلم) تشریح رمضان کا روزہ اگر بغیر عذر شرعی توڑ دیا جائے تو اس کا بہت بھاری کفارہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے ، جس کا تفصیلی بیان اپنے موقع پر گزر چکا ہے ۔ لیکن نفلی روزہ رکھنے والا اگر چاہے تو توڑ بھی سکتا ہے ، اس پر کفارہ واجب نہیں ہو گا اور وہ گناہ گار بھی نہیں ہو گا .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھی خود ایسا کیا ہے ، اور دوسروں کو بھی یہ مسئلہ بتلایا ہے ۔ تشریح ..... اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں : ایک یہ کہ نفلی روزے کی نیت دن میں بھی کی جا سکتی ہے ، اور دوسری یہ کہ نفلی روزے کی نیت کر لینے کے بعد اگر رائے بدل جائے تو اس کو توڑا بھی جا سکتا ہے .... اگلی حدیثوںسے یہ بات اور زیادہ صراحت کے ساتھ معلوم ہو گی ۔

【83】

نفلی روزہ توڑا بھی جا سکتا ہے

حضرت ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے بعد (جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں تشریف فرما تھے) حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب بیٹھ گئیں اور ام ہانی رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنی جانب تھیں کہ ایک بچی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے کے لیے کوئی مشروب لے کر آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کچھ پی لیا اور پھر ام ہانی رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھا دیا ۔ انہوں نے بھی اس میں سے پی لیا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں روزے سے تھی اور میں نے یہ پی کر روزہ توڑ دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس روزے کے ذریعے کسی فرض یا واجب کو ادا کرنا چاہتی تھیں ؟ انہوں نے عرض کیا : نہیں (بلکہ صرف نفلی روزہ تھا) ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر نفلی تھا ، تو پھر کوئی مضائقہ نہیں ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن دارمی) تشریح اس حدیث میں تصریح ہے کہ نفلی روزہ توڑ دینے سے کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔ اسی حدیث کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں : الصَّائِمُ الْمُتَطَوِّعُ أَمِيرُ نَفْسِهِ ، إِنْ شَاءَ صَامَ ، وَإِنْ شَاءَ أَفْطَرَ (یعنی نفل روزہ رکھنے والے کو اختیار ہے کہ چاہے تو روزہ پورا کرے اور کسی وجہ سے توڑنا چاہے تو توڑ دے) ۔ مندرجہ بالا دونوں حدیثوں سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ نفلی روزہ توڑ دینے کی صورت میں اس کی جگہ دوسرا روزہ رکھنا پڑے گا یا نہیں .... آگے درج ہونے والی حدیث میں اس کی قضا رکھنے کا بھی حکم ہے ۔

【84】

نفلی روزہ توڑا بھی جا سکتا ہے

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : میں اور حفصہ (رضی اللہ عنہا) دونوں نفلی روزے سے تھے ، ہمارے سامنے کھانا پیش کیا گیا جس کو کھانے کا ہمارا جی چاہا ، اور ہم نے اس کو کھا لیا ۔ پھر حفصہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم دونوں روزے سے گھے ، ہمارے سامنے کھانا آیا ، جس کو کھانے کے لیے ہمارا جی چاہا ، تو ہم نے اس میں سے کچھ کھا لیا (اور روزہ توڑ دیا) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی جگہ کسی دن قضا روزہ رکھو ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نفلی روزہ توڑ دینے کی صورت میں اس کی قضاکے طور پر روزہ رکھنا چاہئے ۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ قضا واجب ہے ، اور امام شافعیؒ کے نزدیک واجب نہیں صرف مستحب ہے ۔ تَمَّ كِتَابُ الصَّوْمِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ