41. حضرت ابومحذورہ کی مرویات۔

【1】

حضرت ابومحذورہ کی مرویات۔

حضرت ابومحذورہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں دس نوجوانوں کے ساتھ نکلا اس وقت نبی ﷺ بھی ساتھ تھے لیکن وہ تمام لوگوں میں ہمیں سب سے زیادہ مبغوض تھے کیونکہ ہم نے اس وقت اسلام قبول نہیں کیا تھا مسلمانوں نے اذان دی تو ہم لوگ بھی کھڑے ہو کر ان کی نقل اتار کر ان کا مذاق اڑانے لگے نبی ﷺ نے فرمایا ان نوجوانوں کو پکڑ کر میرے پاس لاؤ اور ہم سے فرمایا کہ کہ اب اذان دو چناچہ سب نے اذان دی ان میں میں بھی شامل تھا نبی ﷺ نے میری آواز سن کر فرمایا کہ اس کی آواز کتنی اچھی ہے تم جاؤ اور اہل مکہ کے لئے اذان دو پھر نبی ﷺ نے ان کی پیشانی پر اپنا دست مبارک پھیرا اور فرمایا کہ چار مرتبہ اللہ اکبر کہو دو مرتبہ اشہد ان لا الہ الا اللہ کہنادومرتبہ اشہد ان محمد رسول اللہ کہنا دو دو مرتبہ حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کہنا پھر دو مرتبہ اللہ اکبر کہنا اور پھر لا الہ الا اللہ کہنا اور جب صبح کی اذان دینا تو دو مرتبہ الصلوۃ خیرالنوم کہنا اور جب اقامت کہو تو دو مرتبہ قدقامت الصلوۃ کہنا سنایا نہیں مروی ہے کہ اس واقعے کے بعد سے حضرت ابومحذورہ نے کبھی اپنی پیشانی کے بال نہیں کاٹے اور نہ ہی مانگ نکالی کیونکہ نبی ﷺ نے اس جگہ پر ہاتھ پھیرا تھا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

【2】

حضرت ابومحذورہ کی مرویات۔

حضرت ابومحذورہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کے دور باسعادت میں فجر کی اذان دیا کرتا تھا جب حی الفلاح کہہ چکتا تو دو مرتبہ اذان میں الصلوۃ خیرمن النوم کہتا تھا۔

【3】

حضرت ابومحذورہ کی مرویات۔

حضرت ابومحذورہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اذان سکھا دیجیے نبی ﷺ نے میری پیشانی پر اپنا دست مبارک پھیرا اور فرمایا بلند آواز سے اللہ اکبر کہنا دو مرتبہ اشہد ان لا الہ اللہ کہنا دو دو مرتبہ اشہد ان محمد رسول اللہ آہستہ آواز سے کہنا پھر دو دو مرتبہ بلند آواز سے کہنا پھر دو دو مرتبہ حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کہنا اور جب صبح کی اذان دینا تو دو مرتبہ الصلاۃ خیرالنوم کہنا اور آخر میں اللہ اللہ اکبر کہنا اور لا الہ الا اللہ کہنا۔

【4】

حضرت ابومحذورہ کی مرویات۔

عبداللہ بن محریز جو کہ جو حضرت ابومحذورہ کی پرورش میں تھے شام روانہ ہوتے وقت کہنے لگے کہ چچاجان مجے اندیشہ ہے کہ لوگ مجھ سے آپ کی اذان کا واقعہ ضرور پوچھیں گے چناچہ انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں چند نوجوانوں کے ساتھ نکلا ہم لوگ حنین کے راستے میں تھے کہ نبی ﷺ واپس آتے نظر آئے راستے میں نبی ﷺ سے آمنا سامنا ہوگیا نماز کا وقت ہوا تو مؤذن نے اذان دی تو ہم لوگ بھی کھڑے ہو کر ان کی نقل اتار کر ان کا مذاق اڑانے لگے نبی ﷺ نے فرمایا ان نوجوانوں کو پکڑ کر میرے پاس لاؤ اور ہم سے فرمایا کہ تم میں سے کون اونچی آواز نکال رہا تھا سب نے میری طرف اشارہ کردیا اور اس میں سچے بھی تھے۔ نبی ﷺ نے ان سب کو چھوڑ دیا اور مجھے روک لیا نبی ﷺ نے فرمایا اب اذان دو چناچہ میں کھڑ ہوا لیکن اس وقت میری نظروں میں نبی ﷺ اور ان کا دیا ہوا حکم سب سے زیادہ پسندیدہ تھا میں کھڑا ہوا نبی ﷺ نے خود مجھے اذان کے کلمات سکھائے اور فرمایا دو مرتبہ اللہ اکبر کہنا، دو مرتبہ اشہد ان لا الہ الا اللہ کہنا دو مرتبہ اشہد ان محمد رسول اللہ کہنا پھر دوبارہ یہی کلمات بلند آواز سے کہنا دو مرتبہ حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح کہنا پھر دو مرتبہ اللہ اکبر کہنا اور پھر لا الہ الا اللہ کہنا جب میں اذان دے کر فارغ ہوا تو نبی ﷺ نے مجھے ایک تھیلی عطا فرمائی جس میں کچھ چاندی تھی پھر میری پیشانی پر اپنا دست مبارک رکھ کردومرتبہ چہرے پر پھیرا پھر سامنے پھر جگر پر حتی کہ ناف تک ہاتھ پہنچا پھر فرمایا اللہ تمہیں برکت دے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے مکہ مکرمہ میں اذان کے لئے مقرر کردیجیے نبی ﷺ نے فرمایا میں اس کا حکم جاری کر دیتاہوں اسی وقت ان کے دل سے نبی ﷺ کی نفرت دور ہوگئ اور اس کی جگہ محبت پیداہو گئی پھر میں گورنر مکہ حضرت عتاب بن اسید کے پاس پہنچا اور انہیں نبی ﷺ کے حکم سے مطلع کیا۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

【5】

حضرت ابومحذورہ کی مرویات۔

حضرت ابومحذورہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے انہیں اذان کے انیس اور اقامت کے سترہ کلمات سکھائے تھے اذان کے کلمات یہ تھے اور دو مرتبہ اللہ اکبر دو مرتبہ اشہد ان لا الہ اللہ اور دو مرتبہ اشہد ان محمد رسول اللہ پھر دو مرتبہ کلمات دو دو مرتبہ حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح پھر دو مرتبہ اللہ اکبر کہنا اور لا الہ الا اللہ کہنا اور اقامت کے کلمات اس طرح ہیں۔ اللہ اکبر اللہ اکبر، اشہدان لا الہ الا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ الخ۔۔ یعنی دو دو کلمات ادا کئے۔