49. اختلافات قرأت ولغات اور قرآن جمع کرنے کا بیان

【1】

اختلاف قرأت ولغات اور قرآن جمع کرنے کا بیان

مشکوۃ کے اکثر نسخوں میں یہاں صرف باب لکھ کر عنوان قائم کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ باب متعلقات قرآن کے بیان میں ہے مگر بعض نسخوں میں اس موقع پر یہ عنوان لکھا ہوا ہے باب اختلاف القرآن وجمع القرآن یعنی اختلافات قرأت ولغات اور قرآن جمع کرنے سے مراد ہے کتابت قرآن یعنی اس کا مصحف میں لکھا جانا۔

【2】

اختلافات قرات

امیرالمومنین حضرت عمر بن الخطاب (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک دن جب) میں نے ہشام بن حکیم بن حزام (رض) کو سنا کہ وہ سورت فرقان اس طریقہ کے خلاف پڑھ رہے ہیں جس طریقہ کے مطابق میں پڑھتا ہوں اور جس طریقہ سے مجھے رسول کریم ﷺ نے وہ سورت پڑھائی تھی تو قریب تھا کہ میں ان کی طرف جھپٹ پڑوں یعنی قرأت ختم کرنے سے پہلے ہی میں ان سے لڑ پڑوں مگر پھر میں نے ان کو اتنی مہلت دی کہ وہ پڑھنے سے فارغ ہوئے اس کے بعد میں نے ان کی چادر ان کی گردن میں ڈالی اور انہیں کھینچتا ہوا رسول کریم ﷺ کی خدمت میں لایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے سنا ہے کہ یہ سورت فرقان اس طریقہ کے خلاف پڑھتے ہیں جس طریقہ سے آپ نے مجھے وہ سورت پڑھائی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ عمر ! انہیں چھوڑ دو ۔ پھر ہشام سے کہا کہ تم پڑھو، پھر ہشام نے اسی طریقے سے پڑھا جس طریقے سے میں نے انہیں پڑھتے ہوئے سنا۔ آنحضرت ﷺ نے ان کی قرأت سن کر فرمایا کہ یہ سورت اسی طرح اتاری گئی ہے۔ پھر مجھ سے فرمایا کہ اب تم پڑھو۔ چناچہ میں نے پڑھا (تو آپ نے میری قرأت بھی سن کر فرمایا کہ یہ سورت اس طرح اتاری گئی ہے یاد رکھو کہ یہ قرآن سات طریقہ پر اتارا گیا ہے لہٰذا ان میں سے جس طریقہ سے ہو سکے پڑھو ! (اس روایت کو بخاری ومسلم نے نقل کیا ہے مگر الفاظ مسلم کے ہیں) تشریح اس حدیث کے معنی و مفہوم میں علماء کا بہت زیادہ اختلاف ہے چناچہ اس کی تشریح و وضاحت کے سلسلے میں تقریبا چالیس اقوال منقول ہیں ان میں سے ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ حدیث متشابہات میں سے ہے جس کے معنی پورے بسط کے ساتھ کسی کو بھی معلوم نہیں ہیں۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اختلاف قرأت اگرچہ سات طریقوں سے زائد منقول ہے لیکن وہ تمام اختلاف سات وجہوں کی طرف راجع ہیں اور سات وجہیں یہ ہیں۔ (١) اختلاف کی پہلی وجہ کلمہ کی ذات میں یعنی کلمہ کی کمی وزیادت کا اختلاف ہونا (٢) دوسری وجہ صیغہ جمع وواحد کے ساتھ متغیر ہونا۔ (٣) تیسری وجہ مذکر ومونث کا اختلاف (٤) چوتھی وجہ حروف کا صرفی اختلاف یعنی تخفیف وتشدید، فتح وکسرہ اور ضمہ اختلاف جیسے مَیِّت بھی پڑھا جاتا ہے اور مَیْت بھی ایسے یَقْنِطُ اور یَقْنُطُ یا یَعْرِشُ اور یَعْرُشُ وغیرہ (٥) پانچویں وجہ حرکات کا اختلاف (٦) وجہ حروف کا اختلاف جیسے لکن الشیاطین کہ بعض تو اسے نون کی تشدید کے ساتھ پڑھتے ہیں اور بعض نون کی تخفیف کے ساتھ (٧) ساتویں وجہ ادائیگی لغات کا اختلاف جیسے تفخیم اور امالہ۔ کتاب العم (مظاہر حق جدید جلد اول باب علم) میں اس باب کو یہاں کی بہ نسب زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے) ۔

【3】

ہر قرأت صحیح ہے

حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا اور رسول کریم ﷺ کو سنا کہ آپ کی قرأت اس شخص کی قرأت سے مختلف تھی چناچہ میں اس شخص کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لایا اور آپ ﷺ سے صورت حال بیان کی (کہ اس شخص کی قرأت آپ کی قرأت سے مختلف ہے) پھر میں نے محسوس کیا کہ (میرے جھگڑے اور اختلاف کی وجہ سے) آپ کے چہرہ اقدس پر ناگواری کے آثار نمایاں ہیں بہرکیف آپ نے فرمایا تم دونوں صحیح اور اچھا پڑھتے ہو (دیکھو) آپس میں اختلاف نہ کرو کیونکہ وہ لوگ جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں (یعنی پہلی امتوں کے لوگ) وہ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوگئے یعنی وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو جھٹلایا کرتے تھے۔ (بخاری) تشریح یہاں اختلاف سے مراد قرآن کے ان وجوہ میں سے کسی ایک وجہ کا انکار ہے کہ جن کے مطابق قرآن کریم نازل کیا گیا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ قرآن کریم کی جتنی بھی قرأتیں منقول اور رائج ہیں وہ سب برحق ہیں ان میں سے کسی ایک قرأت کا بھی انکار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اگر کسی شخص نے ان میں سے کسی ایک قرأت کا بھی انکار کیا تو گویا اس نے قرآن کریم ہی کا انکار کیا اس موقع پر یہ تفصیل بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ بعض قرآتیں تو متواتر ہیں اور بعض آحاد متواتر وہ سات قرآتیں ہیں جو پڑھی جاتی ہیں۔

【4】

ہر قرأت صحیح ہے

حضرت ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن میں مسجد میں تھا کہ ایک شخص وہاں آیا اور نماز پڑھنے لگا اس نے نماز ہی میں یا نماز کے بعد ایسی قرأت پڑھی (یعنی ایسے لہجے میں قرآن شریف پڑھا) کہ میں نے اسے درست نہیں سمجھا پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے پہلے شخص کے خلاف طریقہ سے قرأت پڑھی جب ہم سب نماز سے فارغ ہوچکے تو رسول کریم ﷺ کے پاس (مسجد ہی میں آپ ﷺ کی نماز کی جگہ یا آپ کے حجرہ مبارک میں) حاضر ہوئے میں نے عرض کیا کہ حضرت ! اس شخص نے ایسی قرأت پڑھی جسے میں نے درست نہیں سمجھا اس کے بعد یہ دوسرا شخص آیا اس نے پہلے شخص کے خلاف طریقہ سے قرأت پڑھی ! نبی کریم ﷺ نے یہ سن کر دونوں کو اپنے سامنے قرآن پڑھنے کا حکم دیا ان دونوں نے پڑھا آپ ﷺ نے ان دونوں کی قرأت کی تحسین و توثیق کی یہ دیکھ کر میرے دل میں اس بات کی تکذیب کا وسوسہ پیدا ہوگیا ایسا وسوسہ اور شبہ جو ایام جاہلیت میں پیدا نہیں ہوا تھا جب آنحضرت ﷺ نے میری یہ کیفیت دیکھی جو مجھ پر طاری تھی یعنی جب آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوا کہ میرے دل میں تردد و شبہ پیدا ہوگیا تو آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر مارا تاکہ اس کی برکت سے وسوسہ ختم ہوجائے چناچہ میں پسینہ پسینہ ہوگیا اور خوف کی وجہ سے میری ایسی حالت ہوگئی کہ گویا میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں اس کے بعد آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ ابی ! جب قرآن نازل ہوا تو میرے پاس حضرت جبرائیل کے ذریعہ سے یہ حکم بھیجا گیا کہ میں ایک طریقہ یعنی ایک قرأت پر یا ایک لغت پر قرآن پڑھوں میں نے بارگاہ الوہیت میں درخواست پیش کی کہ میری امت پر آسانی عطا فرمائی جائے تاکہ آسانی ہو بایں طور کہ ایک ہی قرأت میں قرآن پڑھنا مشکل ہے اس لئے کئی قرأتوں کے مطابق پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تاکہ آسانی ہو چناچہ دوسری مرتبہ مجھے حکم یہ دیا گیا کہ میں دو قرأتوں پر قرآن پڑھوں ! میں نے پھر درخواست پیش کی کہ میری امت کو مزید آسانی عطا فرمائی جائے چناچہ تیسری مرتبہ مجھے یہ حکم دیا گیا کہ میں قرآن کریم کو سات طریقوں سے یعنی سات لغات یا سات قرأت کے مطابق پڑھوں اور یہ بھی فرمایا کہ جتنی مرتبہ ہم نے آپ کو حکم دیا ہے اتنی ہی مرتبہ آپ ہم سے دعا مانگئے ہم اسے قبول کریں گے چناچہ میں نے بارگاہ الوہیت میں دو مرتبہ یہ دعا کی کہ اے اللہ میری امت میں سے کبیرہ گناہ کرنے والوں کو بخش دے اے اللہ میری امت میں سے صغیرہ گناہ کرنے والوں کو بخش دے اور تیسری دعا میں نے اس دن کے لئے رکھ چھوڑی ہے جس دن مخلوق مجھ سے سفارش و شفاعت کی خواہش کرے گی یہاں تک کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی مجھ سے شفاعت کی خواہش کریں گے۔ (مسلم) تشریح میرے دل میں تکذیب کا وسوسہ پیدا ہوگیا۔ جب آنحضرت ﷺ نے دونوں قرأتوں کی تحسین و توثیق کی تو حضرت ابی (رض) کے دل میں اس بات کی تکذیب کا وسوسہ اور شبہ اس لئے پیدا ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے تو دونوں قرأتوں کو اچھا کہا حالانکہ قرآن کریم چونکہ اللہ رب العزت کا کلام ہے اس لئے وہ کسی ایک خاص طریقہ کے مطابق ہی پڑھا جانا چاہئے یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی کلام کوئی شخص کئی طریقہ سے پڑھیں اور ان سب کا پڑھنا درست ہو ؟ ایسا وسوسہ اور شبہ جو ایام جاہلیت میں بھی پیدا نہیں ہوا تھا۔ کا مطلب یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں چونکہ میرا قلب و دماغ ایمان یقین کی روشنی سے منور نہیں تھا۔ اس لئے اس حالت میں بڑے سے بڑا وسوسہ اور شبہ بھی اتنا بعید اور بڑا معلوم نہیں ہوتا تھا لیکن اب جب اللہ کے فضل سے قلب و دماغ ایمان واسلام کے نور سے منور ہیں اور یقین و معرفت کی دولت حاصل ہے تو یہ وسوسہ اور شبہ بھی بہت ہی زیادہ بڑا اور سنگین معلوم ہوا۔ جتنی مرتبہ ہم نے آپ ﷺ کو حکم دیا الخ۔ اس ارشاد ربانی کا مطلب یہ تھا کہ ہم نے آپ کو تین مرتبہ حکم دیا یعنی ایک مرتبہ تو ایک قرأت کے مطابق دوسری مرتبہ دو قرأت کے مطابق اور تیسری مرتبہ سات قرأت کے مطابق قرآن پڑھنے کا حکم دیا اب آپ ان تینوں مرتبہ کے عوض ہم سے تین سوال کیجئے تاکہ ہم تینوں کو پورا کریں۔ چناچہ رحمت عالم ﷺ نے تینوں سوال اپنی امت کی مغفرت کے لئے ہی کئے کیونکہ اصل چیز تو مغفرت ہی ہے اگر مغفرت نہ ہو تو کسی کی نجات ممکن نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ آیت (وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین) (اے اللہ اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو بلاشبہ ہم ٹوٹا پانے والوں میں سے ہونگے) لیکن آپ ﷺ نے اس موقع پر مغفرت کو تین زمروں میں تقسیم کیا دو مغفرت تو آپ ﷺ نے اپنی امت کے لئے یعنی گناہ کبیرہ اور صغیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے چاہی اور تیسری مغفرت کو تمام ہی مخلوق کے لئے قیامت کے دن پر چھوڑا اسی کو شفاعت کبریٰ کہتے ہیں یعنی قیامت کے دن جب سب ہی نفسی نفسی کہتے ہوں گے اور کوئی بھی نبی و پیغمبر مخلوق اللہ کی شفاعت کی جرات نہیں کر پائے گا تو آخر کار شافع محشر سرکار دو عالم ﷺ سے درخواست کی جائے گی کہ آپ ﷺ پروردگار کے حضور مخلوق اللہ کی شفاعت کیجئے نبی کریم ﷺ سب کی شفاعت کریں گے اسی طرح وہ تیسری دعا جس کی قبولیت کا وعدہ بارگاہ رب العزت سے اس وقت کیا گیا تھا اور جسے سرکار دو عالم ﷺ نے آج کے لئے رکھ چھوڑا تھا وہ اس موقع پر کام آئے گا۔ اگرچہ پوری مخلوق یہاں تک کہ تمام ہی انبیاء آنحضرت ﷺ سے شفاعت کی آرزو و خواہش کریں گے لیکن اس جگہ حضرت ابراہیم کا نام بطور خاص اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم تمام انبیاء میں آنحضر ﷺ کے بعد سب سے افضل ہیں۔

【5】

اختلاف قرأت سے دینی احکام پر اثر نہیں پڑتا

حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے پہلی مرتبہ مجھے ایک قرأت یعنی ایک لہجہ پر قرآن پڑھایا پھر میں نے اپنی امت کی آسانی کے لئے اللہ کی طرف مراجعت کی اور میں آسانی میں برابر زیادتی طلب کرتا رہا جس کے نتیجہ میں مجھے زیادہ آسانی حاصل ہوتی رہی یہاں تک کہ سات قرأتوں تک نوبت پہنچ گئی اور یہ آخری فیصلہ دے دیا گیا کہ قرآن کریم سات لغات پر پڑھا جاسکتا ہے۔ اس حدیث کے راوی حضرت ابن شہاب زہری (تابعی) (رح) کہتے ہیں کہ یہ بات مجھ تک تحقیق طور پر پہنچی ہے کہ قرأت کے یہ سات طریقے دینی احکام و امور میں متفق و متحد ہیں حلال و حرام میں ان سے کوئی اختلاف واقع نہیں ہوتا۔ (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اختلاف قرأت سے قرآن کریم میں مذکور احکام و مسائل میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ قرآن کی کوئی آیت اگر ایک قرأت سے پڑھی جائے اور اس آیت میں کسی چیز کے حلال ہونے کا ذکر موجود ہو اور پھر جب وہی آیت دوسری قرأت سے پڑھی جائے تو اس اختلاف قرأت سے حکم میں تغیر ہوجائے اور وہی چیز جو پہلی قرأت سے حلال ثابت ہو رہی تھی اب دوسری قرأت کی بنا پر حرام ہوجائے ایسا نہیں بلکہ ایک قرأت سے کسی چیز کے حلال ہونے کا حکم ثابت ہوتا ہے تو دوسری قرأت سے بھی اس چیز کے حلال ہونے ہی کا حکم ثابت ہوتا ہے حاصل یہ کہ اختلاف قرأت کا تعلق صرف الفاظ لہجہ اور صوت سے ہے احکام ومعانی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

【6】

قرات قرآن میں آسانی کے لئے آنحضرت ﷺ کی خواہش

حضرت ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے ملاقات کی اور ان سے فرمایا کہ جبریل ! میں ایک ناخواندہ قوم کی طرف بھیجا گیا ہوں میری قوم میں بوڑھی عورتیں اور بڑے بوڑھے مرد ہیں لڑکے اور لڑکیاں ہیں اور اس قوم میں ایسا شخص بھی ہے جس نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی، حضرت جبرائیل نے کہا اے محمد ﷺ ! قرآن کریم سات طرح پر یعنی سات لغات یا سات قرأت پر اتارا گیا ہے لہٰذا جسے جو قرأت آسان معلوم ہو اس کے مطابق قرآن کریم پڑھے۔ (ترمذی) اور احمد و ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ حضرت جبرائیل نے (لفظ) حرف کے بعد آخر میں یہ بھی کہا کہ ان سات میں سے ہر قرأت شافی ہے یعنی ( کفر وشرک اور ظلم وجہل کے روگ کو دفع کرتی ہے) اور کافی ہے یعنی نبی کی صداقت دین اسلام کی حقانیت اور منکرین دین کے رد کے لئے کافی ہے۔ نسائی کی روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل ومیکائیل میرے پاس آئے جبرائیل تو میرے طرف بیٹھ گئے۔ اور میکائیل میرے بائیں طرف۔ اس کے بعد جبرائیل نے کہا کہ ایک قرأت کے مطابق قرآن پڑھو۔ یہ سن کر میکائیل نے مجھ سے کہا کہ ایک قرأت سے زیادہ کی طلب کیجئے یعنی اللہ تعالیٰ سے درخواست کیجئے کہ اور قرأتوں کے مطابق بھی پڑھنے کا حکم دیا جائے یا جبرائیل سے کہئے کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے عرض کر کے اسانی دلائیں چناچہ میں زیادتی کرتا رہا اور مجھے زیادہ قرأتوں کی اجازت حاصل ہوتی رہی یہاں تک کہ سات قرأتوں تک نوبت پہنچ گئی لہٰذا ان میں سے ہر قرأت شافی اور کافی ہے۔ تشریح ناخواندہ قوم کی طرف، کا مطلب یہ ہے کہ میں ایک ایسی قوم میں بھیجا گیا ہوں جس میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اچھی طرح پڑھنا نہیں جانتے اگر میں ان کو کسی ایک کے مطابق قرآن کریم پڑھاؤں تو وہ اس پر قادر نہیں ہوسکتے کیونکہ مثال کے طور پر ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی زبان صرف امالہ یا فتح پر چلتی ہے اور بعض لوگ ایسے ہیں جن کی زبان پر ادغام یا اظہار غالب ہوتا ہے پھر یہ کہ قوم میں بوڑی عورتیں بھی ہیں اور بوڑھے مرد بھی ہیں اور صغیر السن بچے بھی ہیں ان کے لئے ناممکن ہے کہ وہ اپنے بڑھاپے یا اپنی کم عمری کی وجہ سے کوئی مخصوص قرأت سیکھ سکیں لہٰذا ان کے لئے ضروری ہے کہ کئی قرأتیں ہوں تاکہ جسے جو آسان معلوم ہو اور جو جس قرأت پر قادر ہو اس کے مطابق قرآن کریم پڑھا کرے۔

【7】

قرآن کریم کو بھیک مانگنے کا ذریعہ نہ بناؤ

حضرت عمران بن حصین (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ وہ ایک مرتبہ ایک قصہ گو کے پاس سے گزرے جو قرآن کریم پڑھتا تھا اور لوگوں سے بھیک مانگتا تھا حضرت عمران (رض) نے یہ سن کر انتہائی تکلیف کے ساتھ کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کیونکہ یہ بدعت اور علامت قیامت میں سے ہے پھر انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص قرآن پڑھے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کے ذریعہ اللہ ہی سے مانگے اور وہ وقت آنے والا ہے جب لوگ قرآن کریم پڑھیں گے اور اس کے ذریعہ دوسروں کے آگے دست سوال دراز کریں گے۔ (احمد و ترمذی) تشریح اس حدیث میں ان لوگوں کے لئے تنبیہ اور وعید ہے جو قرآن کریم کو بھیک مانگنے کا ذریعہ بناتے ہیں یوں تو یہ بات بطور خود انسانی شرف کے خلاف ہے کہ کوئی شخص اپنے اللہ کو چھوڑ کر اپنے ہی جیسے ایک انسان کے سامنے دست سوال دراز کرے اور اسے حاجت رو قرار دے چہ جائیکہ اس قبیح فعل کے لئے قرآن کریم کو ذریعہ بنایا جائے اسی لئے فرمایا جا رہا ہے کہ قرآن پڑھ کر صرف اللہ کے آگے دست سوال دراز کرو۔ اپنے اخروی و دنیوی امور میں سے جو چاہو صرف اسی سے مانگو لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلاؤ کیونکہ وہ خود اسی ذات کے محتاج ہیں وہ تمہاری کیا حاجت پوری کریں گے تلاوت قرآن کے وقت اللہ سے مانگنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جب آیت رحمت یا جنت کے ذکر پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت اور جنت کا طلب گار ہوا ور جب آیت عذاب اور ذکر دوزخ پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے۔ یا پھر یہ کہ قرأت سے فارغ ہونے کے بعد وہ دعائیں مانگے جو ماثورہ ہیں نیز اس موقع پر ایسی دعا مانگنا لائق ہے جس کا تعلق آخرت کی باتوں اور دین و دنیا میں مومنین کی بہتری و بھلائی سے ہو۔

【8】

دنیاوی منفعت کے لئے قرآن کو وسیلہ بنانے والوں کو تنبیہ وآگاہی

حضرت بریدہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص قرآن کریم اس لئے پڑھے کہ اس کے ذریعہ لوگوں سے کمائے (یعنی قرآن کریم کو دنیاوی فائدہ کے لئے وسیلہ بنائے) تو وہ قیامت کے دن اس حالت میں اٹھ کر آئے گا کہ اس کا چہرہ صرف ہڈی ہوگا اس پر گوشت نہیں ہوگا۔ (بیہقی)

【9】

بسم اللہ قرآن کی آیت ہے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک سورت سے دوسری سورت کا فرق نہیں کر پاتے تھے یہاں تک کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم نازل ہوئی۔ (ابو داؤد) تشریح یہ حدیث وضاحت کے ساتھ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن کی ایک آیت ہے جو دو سورتوں کے درمیاں فرق و امتیاز کو ظاہر کرنے کے لئے نازل فرمائی گئی جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے۔

【10】

حضرت عبداللہ بن مسعود کے ساتھ ایک واقعہ

حضرت علقمہ (رح) کہتے ہیں کہ ہم حمص میں کہ (جو ایک شہر کا نام ہے) مقیم تھے وہیں ایک مرتبہ ابن مسعود نے سورت یوسف کی قرأت کی تو ایک شخص نے ان کی قرأت سن کر کہا کہ یہ سورت اس طرح نازل نہیں کی گئی ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ! میں نے یہ سورت اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں پڑھی ہے چناچہ آپ ﷺ نے اسے سن کر فرمایا کہ تم نے خوب پڑھا۔ وہ شخص جب حضرت ابن مسعود (رض) سے گفتگو کر رہا تھا تو اچانک حضرت ابن مسعود (رض) نے اس کے منہ سے آتی ہوئی شراب کی بو محسوس کی حضرت ابن مسعود (رض) نے اس سے فرمایا تم شراب پیتے ہو ؟ یعنی قرآن کے خلاف عمل کرتے ہو اور اس پر طرہ یہ کہ قرآن کریم کو یعنی اس کی قرأت کو یا قرأت کے لہجہ وطرز ادائیگی کو جھٹلاتے بھی ہو۔ پھر حضرت ابن مسعود (رض) نے اس پر حد جاری کی یعنی شراب پینے کی سزا کے طور پر اسے کوڑے مارے۔ (بخاری ومسلم) تشریح اگر حضرت ابن مسعود (رض) کی قرأت، قرأت مشہورہ (یعنی متواترہ) تھی تو اس شخص نے اس قرت کی تکذیب کر کے کتاب اللہ کی تکذیب کی لہٰذا اس کے اس انکار اور تکذیب نے یقینا اسے کفر کی حد میں داخل کردیا تھا اور اگر ابن مسعود (رض) کی قرأت قرأت شاذ تھی تو ان کی اس قرأت کی تکذیب کتاب اللہ کی تکذیب کو مستلزم نہیں تھی اس لئے کہا جائے گا کہ اس صورت میں ابن مسعود (رض) کا اس شخص سے یہ کہنا کہ تم کتاب اللہ کی تکذیب کرتے ہو۔ تغلیظا اور تہدیداً تھا اور بظاہر یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ اس موقع پر حضرت ابن مسعود (رض) کسی قرأت شاذ کے مطابق سورت یوسف پڑھ رہے تھے یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے اس شخص کے مرتد ہوجانے کا حکم نہیں لگایا تھا بلکہ صرف شراب کی حد جاری کردینے ہی پر اکتفا کیا۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے اس شخص کی یہ بات تغلیظاً ہی کہی کیونکہ قرأت و قرآن کے اصل کلمہ کا انکار اور جھٹلانا کفر ہے نہ کہ لہجہ اور ادائیگی کلمات کا انکار کفر کو مستلزم ہے۔ حاصل یہ کہ اس شخص نے لہجہ اور ادائیگی کلمات کا انکار کیا تھا اصل قرآن یا اصل قرأت کا انکار نہیں کیا تھا اسی لئے حضرت ابن مسعود (رض) نے اس پر صرف شراب کی حد جاری کی مرتد ہونے کی حد جاری نہیں کی۔ حدیث کے ظاہری مفہوم سے ایک اور مسئلہ پر روشنی پڑ رہی ہے اور وہ یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے اس شخص کو شراب پینے کی سزا دی یعنی اس پر حد جاری کردی جب کہ شراب نوشی کا بظاہر واحد ثبوت اس کے منہ سے آنے والی بو تھی چناچہ علماء کی ایک جماعت کا یہی مسلک ہے یعنی ان کے نزدیک شراب نوشی کا جرم منہ سے شراب کی بو آنے سے بھی ثابت ہوجاتا ہے لیکن حنفیہ اور شوافع دونوں کا مسلک یہ ہے کہ شراب نوشی کا جرم محض منہ سے شراب کی بو آنے سے ثابت نہیں ہوتا اور نہ کسی ایسے شخص پر شراب کی حد جاری کی جاسکتی ہے جس کے منہ سے شراب کی بو آرہی ہو اور اس کے علاوہ اس کی شراب نوشی کا اور کوئی ثبوت نہ ہو کیونکہ بسا اوقات ترش سیب اور امرود کی بو بعض شراب کی بو کے مشابہ ہوتی ہے۔ جہاں تک حضرت ابن مسعود (رض) کے اس واقعہ کا تعلق ہے اس کے بارے میں ان حضرات کی طرف سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس شخص نے خود شراب نوشی کا اقرار کیا ہوگا یا اس کی شراب نوشی پر گواہ قائم ہوگئے ہوں گے اس وجہ سے انہوں نے حد جاری کی۔

【11】

قرآن جمع کرنے کی ابتدئ

حضرت زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ جن دنوں اہل یمامہ کا قتل ہوا انہیں دنوں کی بات ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے کسی شخص کو میرے پاس مجھے بلانے کے لئے بھیجا میں ان کے پاس حاضر ہوا اور وہاں پہنچ کر میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس حضرت عمر فاروق (رض) بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے مجھ سے فرمایا کہ عمر (رض) میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن کے قاریوں کی شہادت کا حادثہ یمامہ کے دن گرم ہوگیا (یعنی یمامہ کی لڑائی میں بہت سے قاری شہید ہوگئے ہیں) مجھے خدشہ ہے کہ اگر اسی کثرت سے مختلف جنگوں میں قاریوں کی شہادت ہوتی رہی تو قرآن کا بہت بڑا حصہ جاتا رہے گا لہٰذا مجھے اسی میں بہتری اور مصلحت نظر آتی ہے کہ آپ قرآن کو جمع کرنے کا حکم دے دیں (حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ میں نے یہ سن کر حضرت عمر (رض) سے کہا کہ تم اس کام کس طرح کرو گے جسے رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا عمر (رض) نے کہا کہ اللہ کی قسم ! اس کام میں بھلائی اور بہتری ہے۔ عمر (رض) نے اس مسئلہ میں برابر مجھ سے گفتگو کی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام (یعنی قرآن جمع کرنے) کے لئے میرا سینہ کھول دیا۔ اور مجھے بھی اس میں وہی مصلحت نظر آئی جو عمر (رض) نے دیکھی ہے حضرت زید (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے مجھ سے فرمایا کہ تم ایک سمجھ دار نوجوان مرد ہو تمہاری نیک بختی اور سعادت کی وجہ سے قرآن کو جمع کرنے اور نقل کرنے کے سلسلے میں جھوٹ وغیرہ کا تم پر کوئی اتہام نہیں لگا سکتا کیونکہ تم رسول کریم ﷺ کی وحی لکھا کرتے تھے لہٰذا تم قرآن کو تلاش کرو اور اس کو (مصحف میں) جمع کرو۔ حضرت زید (رض) کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم ! اگر پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کو اٹھا کر منتقل کرنے کی خدمت میرے سپرد کی جاتی تو یہ خدمت میرے لئے اس خدمت سے زیادہ سخت اور بھاری نہ ہوتی جو ابوبکر (رض) نے قرآن جمع کرنے کی میرے سپرد فرمائی تھی۔ حضرت زید (رض) کہتے ہیں کہ بہرکیف میں نے یہ حکم سن کر حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے عرض کیا ! کہ آپ وہ کام کسی طرح کریں گے جو رسول کریم ﷺ نے کیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم ! اس کام میں بھلائی اور بہتری ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) مجھ سے اس سلسلہ میں گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرا بھی سینہ اس طرح کھول دیا جس طرح حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کا سینہ کھولا تھا۔ چناچہ میں نے قرآن کو تلاش کرنا شروع کیا اس طرح کہ میں اس کو جمع کرتا تھا۔ کھجور کی شاخوں میں سفید پتھروں میں سے اور لوگوں میں سے (یعنی حافظوں کے سینوں میں سے) یہاں تک کہ میں نے سورت توبہ کا آخری حصہ ابوخزیمہ انصاری کے پاس پایا اور یہ حصہ مجھے ان کے سوا اور کسی کے پاس سے نہیں ملا اور وہ حصہ یہ ہے آیت (لقد جاء کم رسول من انفسکم) الی آخر السورۃ، سورت برأت تک وہ صحیفے جو میں نے جمع اور نقل کئے تھے ان کی زندگی تک رہے اور پھر ان کے بعد حضرت عمر (رض) کی صاحبزادی حضرت حفصہ (رض) کے پاس رہے۔ (بخاری) تشریح یمامہ ایک شہر کا نام ہے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اپنے دور خلافت میں حضرت خالد بن ولید (رض) کی قیادت میں ایک لشکر وہاں بھیجا۔ اور وہاں کے لوگوں سے خوب زوردار جنگ ہوئی جس میں مسیلمہ کذاب بھی مارا گیا مسلمانوں کے لشکر کا بھی بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ لشکر اسلام کے شہداء میں ان مقدس نفوس کی اکثریت بھی شامل تھی جن کے سینوں میں قرآن کریم محفوظ تھا۔ یعنی حفاظ اور قراء چناچہ بعض حضرات کی تحقیق تو یہ ہے کہ اس جنگ میں شہداء کی تعداد سات سو تھی اور بعضوں نے بارہ سو تک بتائی ہے۔ اس تشویش ناک صورت حال کے پیش نظر حضرت عمر (رض) کو خیال ہوا کہ قرآن کریم کی حفاظت کے معاملہ میں صرف ایک ہی ذریعہ یعنی حفاظ پر اعتماد اور بھروسہ کرلینا مناسب نہیں ہے بلکہ اس عظیم امانت کو حفاظ کے سینوں کے ساتھ ساتھ صفحہ قرطاس پر بھی محفوظ کرنے کا انتظام کیا جائے۔ چناچہ انہوں نے اس کا تذکرہ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے کیا یہاں تک کہ حضرت ابوبکر (رض) نے کچھ تامل کے بعد اس رائے سے اتفاق کیا اور حضرت زید (رض) کو بلا کر اس عظیم خدمت پر معمور کیا۔ تم رسول کریم ﷺ کی وحی لکھا کرتے تھے۔ کا مطلب یہ ہے کہ تم اکثر رسول کریم ﷺ کی وحی لکھا کرتے تھے اکثر کی قید اس لئے لگائی کہ آنحضرت ﷺ کے پاس نازل ہونے والی وحی لکھنے والے چوبیس صحابہ تھے جن میں خلفاء اربعہ بھی تھے لہٰذا ابوبکر (رض) کے ارشاد کا حاصل یہ تھا کہ چونکہ تم کاتب وحی ہو اس لئے قرآن کو جمع کرنے اور لکھنے کے سلسلہ میں تمہاری امانت داری اور فرض شناسی مسلم اور متیقن ہے۔

【12】

زمانہ رسالت میں قرآن کریم کس شکل میں تھا

آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں قرآن کریم یوں تو پورا لکھا ہوا تھا لیکن مصحف میں اور یک جا نہیں تھا بلکہ متفرق طور پر لکھا ہوا تھا چناچہ کچھ حصہ کسی کے پاس کھجور کی شاخوں پر کچھ حصہ کسی کے پاس پتھروں کے ٹکڑوں پر کچھ حصہ کسی کے پاس جھلی کے ٹکڑوں پر اور کچھ حصہ کسی کے پاس چوڑی ہڈیوں پر لکھا ہوا تھا کیونکہ قرآن کریم جیسے جیسے نازل ہوتا آنحضرت ﷺ اپنے کا تبوں سے مذکورہ بالا چیزوں میں جو چیز بھی دستیاب ہوتی اس پر قلم بند کرا لیا کرتے تھے آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حضرت عمر فاروق (رض) کے مشورہ سے جیسا کہ اوپر تفصیل بیان کی گئی قرآن کے ان متفرق حصوں کو یکجا اور جمع کیا لہٰذا یہ ایسا ہی ہوا کہ وہ اوراق کہ جن میں قرآن لکھا ہوا متفرق طور پر پائے جائیں اور پھر انہیں جمع کردیا جائے۔ اسی طرح آج کل قرآن کریم سورتوں کی جس ترتیب کے ساتھ ہمارے سامنے ہے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں سورتوں کی ترتیب یہ نہیں تھی بلکہ سورتوں کی یہ ترتیب آنحضرت ﷺ کے بعد صحابہ کے اجتہاد سے عمل میں آئی ہے۔ ہاں آیتوں کی ترتیب آنحضرت ﷺ کے سامنے رہی اور آپ ﷺ کے حکم کے مطابق ہی عمل میں آگئی تھی اور اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حسب موقع کوئی آیت لاتے تو یہ بھی فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں فلاں آیت سے پہلے اور فلاں آیت کے بعد رکھا جائے چناچہ لوح محفوظ میں قرآن کریم آیتوں کی اس ترتیب کے مطابق لکھا ہوا ہے۔ وہاں سے قرآن کریم آسمان دنیا پر لایا گیا۔ پھر وہاں سے حسب موقع اور حسب ضرورت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سورتیں آنحضرت ﷺ کے پاس لاتے تھے۔ حاصل یہ کہ نزول قرآن کی ترتیب وہ نہیں تھی جو موجودہ ترتیب تلاوت ہے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہر سال رمضان میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ ایک مرتبہ پورے قرآن کا دور ترتیب نزول کے مطابق کیا کرتے تھے اور جس سال آنحضرت ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے اس سال کے رمضان میں انہوں نے دو مرتبہ دور کیا۔ لم اجدھا مع احد غیرہ۔ کا مطلب یہ ہے کہ سورت براۃ کا آخری حصہ میں نے ابوخزیمہ کے علاوہ اور کسی کے پاس لکھا ہوا نہیں پایا ویسے تو جس طرح پورا پورا قرآن حفاظ صحابہ کے سینوں میں محفوظ تھا اسی طرح سورت براۃ کا یہ آخری حصہ بھی ان کے سینوں میں محفوظ تھا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ ہی میں صحابہ مثلاً ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابودرداء وغیرہ (رض) عنھم ورضوا عنہ نے پورا کلام اللہ یاد کرلیا تھا۔ حدیث کے آخری جملوں کا مطلب یہ ہے کہ حضرت زید بن ثابت (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) کے حکم کے مطابق جب قرآن کریم کو جمع کرلیا اور اس پر تمام صحابہ کا اتفاق بھی ہوگیا تو اسے متعدد صحیفوں یعنی اجزاء کی شکل میں منتقل کیا گیا ابھی تک وہ ایک مصحف کی شکل اختیار نہیں کر پایا تھا چناچہ وہ صحیفے یا اجزاء حضرت ابوبکر (رض) کے پاس رہتے تھے حضرت ابوبکر (رض) کے بعد یہ صحیفے حضرت عمر (رض) کے پاس کی ان کی زندگی بھر رہے پھر ان کے بعد ان کی صاحبزادی حضرت حفصہ (رض) کے پاس آگئے۔ اب حضرت عثمان (رض) نے ان صحیفوں یعنی پورے قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کیا اور کئی مصحف لکھا کر مملکت اسلام کے کئی شہروں میں بھیجے جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کا ذکر آئے گا۔

【13】

حضرت عثمان کے ذریعہ قرآن کی ترتیب وجمع

حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان حضرت عثمان غنی ( رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت حضرت عثمان (رض) شام عراق کے آرمینیہ اور آذر بائیجان کی جنگوں کی غرض سے سامان جہاد کی فراہمی اور تیاری میں مصروف تھے حذیفہ کی قرأت کے بارے میں لوگوں کے اختلاف نے اضطراب میں اور خوف میں مبتلا کردیا تھا۔ کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ لوگ بےمحابا آپس میں ایک دوسرے کی قرأت کا انکار کرتے ہیں۔ چناچہ انہوں نے حضرت عثمان (رض) سے عرض کیا کہ امیرالمومنین اس امت کے بارے میں تدارک کی کوئی راہ نکالئے قبل اس کے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کلام اللہ میں اختلاف کرنے لگیں۔ حضرت عثمان (رض) نے ان کی بات سن کر حضرت حفصہ (رض) کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ آپ وہ صحیفے جو حضرت ابوبکر نے جمع کئے تھے ہمارے پاس بھیج دیجئے ہم ان کو نقل کرا کر یہ مصاحف آپ کے پاس بھیج دیں گے حضرت حفصہ (رض) نے وہ تمام صحیفے حضرت عثمان (رض) کے پاس بھیج دیئے حضرت عثمان (رض) نے انصار میں سے زید بن ثابت (رض) کو اور قریش میں عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاس اور عبداللہ بن حارث بن ہشام (رض) کو ان صحیفوں کو نقل کرنے پر مامور کیا چناچہ ان سب ان صحیفوں کو مصاحف میں نقل کیا حضرت عثمان (رض) نے قریش کے تینوں حضرات سے فرمایا کہ اگر قرآن کے لغات میں کسی جگہ تم میں اور زید بن ثابت (رض) میں اختلاف ہوجائے تو وہاں لغت قریش کے مطابق لکھو کیونکہ کلام اللہ لغت قریش کے مطابق ہی نازل ہوا ہے چناچہ ان سب نے اس پر عمل کیا اور جب مصاحف میں صحیفے نقل کئے جا چکے تو حضرت عثمان (رض) نے ان صحیفوں کو تو حضرت حفصہ (رض) کے پاس بھیج دیا اور ان مصاحف میں جو نقل کئے تھے ایک ایک مصحف (اسلامی مملکت میں) ہر جگہ بھیج دیا اس کے ساتھ ہی یہ حکم جاری فرمایا کہ ان مصاحف کے علاوہ ہر اس مصحف یا صحیفے کو جلا دیا جائے جس میں قرآن لکھا ہوا ہے۔ حدیث کے ایک راوی حضرت ابن شہاب (رض) فرماتے ہیں کہ زید بن ثابت (رض) کے صاحبزادے خارجہ نے مجھے بتایا کہ میں نے اپنے والد حضرت زید بن ثابت (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس وقت کہ ہم (یعنی میں اور دونوں قریشی صحابہ سعید بن عاص اور عبداللہ بن حارث (رض) قرآن کریم (مصحف عثمانی میں) نقل کر رہے تھے مجھے سورت احزاب کی ایک آیت نہیں مل رہی تھی۔ حالانکہ میں رسول کریم ﷺ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا کرتا تھا۔ چناچہ تلاش و جستجو کے بعد مجھے یہ آیت حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری (رض) کے پاس سے لکھی ہوئی ملی۔ اور وہ آیت یہ ہے۔ (مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ ) 33 ۔ الاحزاب 23) ۔ پھر میں نے یہ آیت مصحف میں اس کی سورت یعنی سورت احزاب کے ساتھ ملا دی۔ (بخاری) تشریح کرمانی (رح) نے شرح بخاری میں لکھا ہے کہ لفظ یغازی معنی کے اعتبار سے یغزی کے مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے گویا اس لفظ کا مطلب یہ ہے کہ کان عثمان یجہز اہل الشام واہل العراق لغزوۃ ہاتین الناحیتین وفتحہما۔ حضرت عثمان (رض) ان دنوں اہل شام و اہل عراق کے لئے ان دونوں ملکوں کی جنگ اور ان کی فتح کی غرض سے سامان جہاد کی فراہمی میں مصروف تھے۔ لہٰذا حدیث میں اس لفظ کا ترجمہ بھی اسی وضاحت کے مطابق کیا گیا ہے۔ نیز کرمانی نے یہ بھی لکھا ہے کہ آرمینیہ نواح روم (بیز نطین) میں ایک علاقہ کا نام تھا اور آذربائیجان تبریز کے علاقوں میں سے ایک علاقہ تھا۔ ملا علی قاری اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے کان کا اسم اور یغازی فاعل حذیفہ کو لکھا ہے نیز ملا علی قاری نے قاموس کے حوالہ سے بھی لکھا ہے کہ آرمینیہ اور آذربائیجان کا ایک علاقہ تھا لہٰذا اس طرح حدیث میں آذربائیجان تعمیم بعد تخصیص کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ قبل اس کے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کلام اللہ میں اختلاف کرنے لگیں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہود و نصاریٰ نے توریت و انجیل میں تغیر تبدل کیا اور اس طرح اپنی خواہشات کے مطابق کلام اللہ میں کمی و زیادتی کی کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان بھی ایسا ہی کرنے لگیں۔ اور وہ اس فتنہ میں مبتلا ہوجائیں اس لئے اس فتنہ کے برپا ہونے سے پہلے ہی آپ کچھ تدبیر کیجئے۔ چناچہ حضرت حذیفہ (رض) نے حضرت عثمان (رض) کے سامنے اپنے اس خدشہ کا اظہار کیا تو حضرت عثمان (رض) نے تو اس اہم مسئلہ پر غور کرنے کے لئے لوگوں کو جمع کیا جن کی تعداد اس وقت پچاس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ حضرت عثمان (رض) نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مجھے یہ بات معلوم ہوئی کہ قرآن پڑھنے والوں میں سے کچھ لوگ ایک دوسرے سے یہ کہتے ہیں کہ میری قرأت تمہاری قرأت سے بہتر ہے۔ یعنی وہ ایک دوسرے کی قرأت سے اختلاف کرتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا کفر کے بالکل قریب ہے ! لوگوں نے عرض کیا کہ پھر آپ کی کیا رائے ہے اور اس کے سدباب کے لئے آپ کیا چیز مناسب سمجھتے ہیں ؟ حضرت عثمان (رض) نے کہا کہ میں تو یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ تمام لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دوں تاکہ کوئی اختلاف ہی پیدا نہ ہو، لوگوں نے کہا کہ جس چیز کو آپ مناسب سمجھتے ہیں وہ بہت بہتر ہے اس کے بعد حضرت عثمان (رض) نے یہ ارادہ کیا کہ لوگوں کو ایک مصحفہ پر جمع کریں گے۔ چناچہ حدیث میں فارسل عثمان الخ (حضرت عثمان (رض) نے حضرت حفصہ (رض) کے پاس پیغام بھیجا) سے اسی بات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ کلام اللہ لغت قریش کے مطابق ہی نازل ہوا ہے یہ بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ اصل میں تو قرآن کریم لغت قریش کے مطابق ہی نازل ہوا تھا۔ پھر آنحضرت ﷺ کی درخواست پر اس بات میں وسعت و فراخی عطا فرمائی گئی یعنی یہ اجازت دے دی گئی کہ ہر شخص اپنی لغت کے مطابق پڑھ سکتا ہے۔ اب حضرت عثمان (رض) نے جب یہ دیکھا کہ یہ اختلاف لغت امت میں ایک زبردست انتشار اور دین میں ایک بڑے فتنہ کا باعث ہو رہا ہے تو انہوں نے حکم دیا کہ لغت قریش کے علاوہ اور تمام لغات منسوخ کردی جائیں اور سب لوگ قرآن کریم لغت قریش کے مطابق پڑھیں چناچہ حدیث میں مذکور حضرت عثمان (رض) کے الفاظ فاکتبوا بلسان قریش کا یہی مطلب ہے۔ سخاوی نے مصحف عثمانی میں قرآن کریم نقل کرتے وقت مذکورہ ناقلین کے درمیان واقع ہونے والے کچھ اختلافات کو بیان بھی کیا ہے۔ چناچہ انہوں نے لکھا ہے کہ ایک موقع پر لفظ تابوت کے بارے میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ حضرت زید (رض) نے تو کہا کہ اسے التابوہ لکھا جائے مگر دوسرے حضرات کا کہنا تھا کہ التابوت لکھنا چاہئے۔ اس کے بعد ان لوگوں نے حضرت عثمان (رض) کی طرف رجوع کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کو ت کے ساتھ لکھو یعنی التابوت ہی لکھو۔ کیونکہ لغت قریش میں یہ لفظ یوں ہی ہے۔ اسی طرح اس موقع پر ان لوگوں نے حضرت عثمان (رض) سے لم یتسن کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اس میں ہ لکھو۔ اس مصحف کے علاوہ ہر اس صحیفہ یا مصحف کو جلا دیا جائے الخ۔ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ہر صحیفہ سے مراد تو وہ صحیفے ہیں۔ جو حضرت حفصہ (رض) کے پاس تھے اور مصحف سے مراد وہ صحیفے ہیں جو دیگر لوگوں نے جمع کئے تھے اور وہ ان کے پاس تھے تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ اس جملہ فی کل صحیفۃ او مصحف میں لفظ او راوی کے شک کے اظہار کے لئے ہو۔ حدیث کے ظاہری مفہوم میں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حفصہ (رض) کے پاس جو صحیفے تھے انہیں حضرت عثمان (رض) نے ایفاء وعدہ کے پیش نظر حضرت حفصہ (رض) کے پاس واپس بھیج دیا تھا مگر پھر انہیں بھی دوبارہ حاصل کر کے جلا ڈالا تھا۔ لیکن سخاوی نے اس بارے میں تفصیل لکھی ہے کہ حضرت عثمان (رض) جب مصحف عثمانی کی تکمیل سے فارغ ہوئے تو حضرت حفصہ (رض) کے پاس ان کے صحیفے واپس بھجوا دئیے ان صحیفوں اور اپنے مصحف کے علاوہ بقیہ تمام صحیفے انہوں نے نذر آتش کرا دئیے چناچہ وہ صحیفے حضرت حفصہ (رض) کے پاس رہے جب مروان مدینہ کا حاکم ہوا تو اس نے وہ صحیفے جلانے کے لئے حضرت حفصہ (رض) سے منگوا بھیجے مگر انہوں نے دینے سے انکار کردیا۔ حضرت حفصہ (رض) کے انتقال کے بعد مروان نے وہ صحیفے ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے منگا کر اس خوف سے جلا دئیے کہ یہ صحیفے اگر کبھی باہر آگئے اور لوگوں نے دیکھا تو پھر اختلاف کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ حضرت عثمان (رض) نے جو مصحف تیار کر کے اطراف عالم میں بھیجے تھے ان کی تعداد کے بارے میں مختلف اقوال منقول ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ ان مصاحف کی تعداد پانچ تھی۔ لیکن ابوداؤد (رح) کہ میں نے ابوحاتم سجستانی سے سنا کہ ان کی تعداد سات تھی۔ ان میں سے ایک مکہ بھیجا گیا (ایک شام ایک یمن ایک بحرین ایک بصرہ ایک کوفہ اور ایک مدینہ میں رکھا گیا۔

【14】

مصحف کے بوسیدہ اوراق کا مسئلہ

اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ مصحف (قرآن کریم) کے ان پرانے اور بوسیدہ اوراق کا کیا جائے جن سے فائدہ نہ اٹھایا جاسکتا ہو یعنی ان میں پڑھنا اور تلاوت کرنا ممکن نہ رہا۔ آیا انہیں جلا دینا اولی ہے یا دھو ڈالنا۔ چناچہ بعض حضرات تو فرماتے ہیں کہ ان اوراق کو جلا دینا بہتر ہے کیونکہ جلا دینے کی صورت میں کلام اللہ کی ذلت وبے حرمتی کی کسی بھی صورت کے واقع ہونے کا مکان نہیں رہتا۔ بخلاف دھونے کہ اس کا دھو ون زمین پر بہتا ہے اور پیروں کے نیچے پڑتا ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ دھونا اولیٰ ہے اور اس کا دھو ون پاک جگہ میں ڈالا جائے بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ اس کا پانی پی لیا جائے کیونکہ وہ ہر مرض کی دوا اور سینہ کی علتوں کی شفاء ہے۔ ،

【15】

حضرت عثمان کا فعل

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عثمان (رض) نے مصحف عثمانی کے علاوہ وہ بقیہ تمام صحیفوں کو جلا کیوں دیا۔ اس کا سیدھا سادھ سا جواب یہ ہے کہ اگر ان صحیفوں کو جلایا نہ جاتا اور اس طرح باقی رہنے دیا جاتا تو ہوسکتا تھا کہ پھر بعد میں لوگوں کے اختلاف و فتنہ کا باعث بن جاتا ؟ لہٰذا حضرت عثمان (رض) نے اس مصلحت کی بنا پر کہ اختلاف باقی نہ رہے ان صحیفوں کو جلا ڈالا۔ اس طرح حضرت عثمان (رض) کے اس فعل کو مورد طعن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ ان پر طعن تو اس وقت وارد ہو جب کہیں بھی شریعت سے یہ ثابت ہو کہ قرآن کے اوراق کو جلانا بےادبی ہے۔ جب یہ بات ثابت ہی نہیں ہے اور پھر یہ کہ ان کا یہ فعل مصلحت پر مبنی تھا تو ان پر کوئی الزام وارد ہی نہیں ہوسکتا تھا۔

【16】

اول جامع قرآن

علماء نے لکھا ہے کہ قرآن کا جمع ہونا تین مرتبہ واقع ہوا ہے ایک مرتبہ تو خود سرکار دو عالم ﷺ کے زمانہ میں لیکن اس وقت پورا قرآن کریم ایک مصحف میں مرتب طریقہ سے جمع نہیں ہوا تھا۔ دوسری مرتبہ حضرت ابوبکر (رض) کے سامنے جمع ہوا گویا اول جامع قرآن حضرت ابوبکر صدیق ہی ہیں اللہ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ اور وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے کتاب اللہ کو جمع کیا۔ تیسری مرتبہ حضرت عثمان (رض) کے زمانہ میں جمع ہوا کہ حضرت عثمان (رض) نے تمام صحابہ کو جمع کیا اور ان کے مشورہ سے قرآن کریم مصاحف میں مرتب طور پر لغت قریش کے مطابق نقل کرایا اور پھر وہ مصاحف اطراف و جوانب میں بھیجے یہ بات ٢٥ ہجری کی ہے۔ لہٰذا حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت عثمان (رض) دونوں کے قرآن جمع کرنے میں فرق یہ ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے تو قرآن کو اس خوف سے جمع کیا کہ کہیں اس کے بغیر قران کا کچھ حصہ جاتا نہ رہے اور حضرت عثمان (رض) نے اس لئے جمع کیا کہ امت میں اختلاف و انتشار کا فتنہ نہ پیدا کیا جائے اس طرح کہا جائے گا کہ حضرت عثمان (رض) نے حقیقت میں قرآن جمع نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے امت کو اختلاف و انتشار کی راہ سے بچا کر ایک لغت (لغت قریش) پر قائم و جمع کیا ہے۔

【17】

سورۃ براۃ کے شروع میں بسملہ نہ ہونے کی ایک وجہ

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان (رض) سے کہا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ نے سورت انفال کی جو مثانی میں ہے اور سورت براۃ کو جو میئین میں سے ہے پاس پاس رکھا ہے اور دونوں سورتوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ کر امتیاز بھی قائم نہیں کیا ہے پھر یہ کہ آپ نے سورت انفال کو سات لمبی سورتوں کے درمیان رکھا ہے آخر اس کا سبب کیا ہے ؟ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں وقت گزرتا رہتا تھا اور آیتوں والی سورتیں نازل ہوتی رہتی تھیں (یعنی قرآن کی آیتیں حسب موقع اور حسب ضرورت بتدریج اترتی تھیں) چناچہ آپ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کی کوئی آیت یا اس کا کچھ حصہ آپ ﷺ پر نازل ہوتا تو آپ کا تبان وحی میں سے کسی کو یعنی زید بن ثابت (رض) وغیرہ کو بلاتے اور فرماتے کہ اس آیت کو سورت میں شامل کردو جس میں ایسا اور ایسا ذکر ہے یعنی کسی خاص موضوع مثلا حیض و طلاق وغیرہ کا نام لیتے اور فرماتے کہ جس سورت میں اس کے بارے میں ذکر ہے اس آیت کو اسی میں شامل کردو۔ اس کے بعد پھر جب کوئی آیت نازل ہوتی تو اس کے بارے میں فرماتے کہ اسے اس سورت میں شامل کردو اور جس میں ایسا اور ایسا ذکر ہے اور سورت انفال ان سورتوں میں سے ہے جو مدینہ میں نازل ہوئی ہیں جب کہ سورت برأت قرآن کا وہ حصہ ہے جو آخر میں نازل ہوا ہے لیکن سورت انفال میں مذکورہ باتیں سورت براۃ میں مذکورہ باتوں کے مشابہ ہیں یعنی دونوں سورتوں میں کافروں سے برسر پیکار ہونے اور عہد ختم کرنے کا بیان ہے رسول کریم ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے لیکن ہمیں یہ نہیں بتا گئے کہ سورت برأت انفال ہی کا حصہ ہے یا نہیں ؟ لہٰذا نبی کریم ﷺ کے نہ بتانے کے سبب اور دونوں سورتوں میں از روئے مفہوم معنی مماثلت و مشابہت ہونے کے باعث ہم نے دونوں سورتوں کو پاس پاس رکھا لیکن ہم نے دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ کر امیتاز قائم نہیں کیا اور پھر ہم نے ان دونوں سورتوں کو پاس پاس سات بڑی سورتوں کے درمیان رکھا لیکن ان دونوں کے فاصلہ رکھا یعنی دونوں کو الگ الگ رکھا کیونکہ جس طرح دونوں کے دو ہونے میں شبہ تھا اسی طرح دونوں کے ایک ہونے بھی شبہ تھا۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد ) تشریح قرآن مجید کی سورتوں کو اسی طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ سوت بقرہ سے سورت یونس تک کو طوال کہتے ہیں عربی میں طوال لمبے کو کہتے ہیں اور قرآن کی ابتدائی سات سورتیں چونکہ لمبی ہیں اس لئے اس مناسبت سے ان کا نام سبع طوال سالت لمبی سورتیں ہوا۔ سورت یونس سے سورت شعراء تک کی سورتوں کو میئین کہا جاتا ہے۔ میئین مأۃ کی جمع ہے اور عربی میں مأۃ سو کو کہتے ہیں اور یہ سورتیں چونکہ سو سو آیتوں سے زیادہ پر مشتمل ہیں یا سو کے قریب ہیں اس لئے ان سورتوں کو میئین کہتے ہیں اور سورت شعراء سے سورت حجرات تک کی سورتیں مثانی کہلاتی ہیں یہ سورتیں سو سو آیتوں سے کم ہیں اور پھ یہ کہ ان سوتوں کے مضمون اور قصے مکرر ہیں اس لئے ان کو مثانی کہا جاتا ہے۔ سورت حجرات سے آخر قرآن تک کی سورتوں کو مفصل کہتے ہیں کیونکہ ان سورتوں کے درمیان بسم اللہ کا فاصلہ اتنا قریب ہے۔ یہ گویا تین قسمیں ہوئی پھر ان میں سے آخری قسم یعنی مفصل کی بھی تین قسمیں ہیں۔ (١) طوال (٢) اوساط (٣) قصار۔ سورت حجرات سے (والسماء ذات البروج) تک کی سورتیں طوال مفصل کہلاتی ہیں۔۔ والسماء ذات البروج سے لم یکن تک کی سورتوں کو اوساط مفصل کہتے ہیں اور سورت لم یکن سے آخر قرآن تک کی سورتوں کو قصار مفصل کہا جاتا ہے۔ اس تفصیل کو ذہن میں رکھ کر اب حدیث کے مفہوم کی طرف آئیے۔ حضرت عثمان (رض) سے حضرت عباس (رض) کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ سورت انفال مثانی میں سے ہے کیونکہ وہ سو آیتوں سے کم ہے اور سوت براۃ میئین میں سے ہے کیونکہ وہ سو آیتوں سے زیادہ ہے لہٰذا آپ نے قرآن کو جمع اور نقل کراتے وقت ان دونوں سورتوں کو نزدیک نزدیک طوال میں کیوں رکھا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ انفال مثانی رکھتے اور براۃ کو میئین میں آخر میں بھی ایک خلش کی بات یہ ہے کہ ان دونوں سورتوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی۔ حضرت عثمان (رض) نے ان کی اس بات کا جواب دیا اس کا حاصل یہ ہے کہ ان دونوں سورتوں کے درمیان اشتباہ پیدا ہوگیا ہے ایک وجہ تو یہ کہ دونوں سورتیں ایک ہی سورت ہیں (جیسا کہ ترجمہ میں بیان کیا گیا) اس سبب سے ان کو طوال میں رکھنا اور ان دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھنا درست ہوا اور ایک وجہ سے یہ دونوں سورتیں الگ الگ دو سورتیں ہیں اس لئے ان کے درمیان فاصلہ رکھا گیا۔ الحمد للہ کتاب فضائل القرآن ختم ہوئی۔