39. بیوی اپنے شوہر کے مال میں سے جو چیز خرچ کرسکتی ہے اس کا بیان

【1】

بیوی اپنے شوہر کے مال میں سے جو چیز خرچ کرسکتی ہے اس کا بیان

مشکوۃ کے مؤلف علیہ الرحمۃ بعض مقامات پر کوئی عنوان متعین نہیں کرتے بلکہ صرف باب لکھ کر اگلا باب شروع کردیتے ہیں اور اس کے تحت وہ احادیث نقل کردیتے ہیں جو پچھلے ابواب کی متمات اور ملحقات ہوتی ہیں چناچہ یہاں بھی موصوف نے صرف باب لکھ کر باب شروع کیا ہے کوئی متعین عنوان نہیں لکھا ہے۔ مگر مشکوۃ کے بعض دوسرے نسخوں میں اس موقع پر یہ عنوان لکھا ہوا ہے باب ماینفقہ المرأۃ من مال بعلہا یعنی بیوی اپنے شوہر کے مال میں سے جو چیز خرچ کرسکتی ہے اس کا بیان۔

【2】

بیوی اپنے شوہر کے مال میں سے خرچ کرسکتی ہے

ام المومنین حضرت عائشہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی عورت اپنے گھر کھانے میں سے صدقہ دیتی ہے بشرطیکہ وہ اسراف نہیں کرتی تو اسے اس کے خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے اور اس کے شوہر کو مال کمانے کی وجہ سے ثواب ملتا ہے اور داروغہ (مطبخ کے نگران) کو بھی ایسا ہی ثواب ملتا ہے (جیسا کہ مالک کو ثواب ملتا ہے) اور ان میں سے کسی کے ثواب میں دوسرے کے ثواب کی وجہ سے کمی نہیں ہوتی (یعنی ہر ایک کو پورا ثواب ملتا ہے) (بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ شوہر نے بیوی کو اپنے مال سے صدقہ و خیرات کرنے کی اجازت دے رکھی ہو خواہ اس نے صراحۃً اجازت دی ہو یا دلالۃً ۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اہل حجاز کا یہ معمول تھا کہ انہوں نے اپنی مہمان نوازی اور سخاوت کے پیش نظر اپنی بیویوں اور اپنے خدمت گاروں (مثلا داروغہ مطبخ وغیرہ) کو یہ اجازت دے رکھی تھی کہ وہ مہمانوں کی بھر پور ضیافت کریں اور فقراء و مساکین نیز پڑوس کے لوگوں کو کھانا وغیرہ کھلا دیا کریں، چناچہ آنحضرت ﷺ اس ارشاد گرامی کے ذریعے اپنی امت کو ترغیب دلائی کہ یہ نیک اور اچھی عادت اختیار کریں۔

【3】

بیوی اپنے شوہر کے مال میں سے خرچ کرسکتی ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی عورت اپنے شوہر کی کمائی (کے مال) میں سے اس کی اجازت کے بغیر صدقہ خیرات دیتی ہے تو اسے آدھا ثواب ملتا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس کی اجازت کے بغیر، کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز وہ صدقہ میں دے رہی ہے خاص طور پر اس کی اجازت شوہر نے نہیں دی ہوئی ہے لیکن وہ شوہر کی صراحۃ یا دلالۃ اجمالی رضا جانتی ہو اور وہ چیز تھوڑی اور کمتر ہو کہ اس کو دینے کو کوئی منع نہیں کرتا جیسے ہمارے یہاں عام طور پر عورتیں دروازوں پر مانگنے والوں کو آٹے کی چٹکی روٹی کا ٹکڑا یا ایک آدھ پیسہ دے دیتی ہیں۔

【4】

آقا کے حکم سے صدقہ دینے والے خدمت گار کا ثواب

حضرت ابوموسی اشعری (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو دیانت دار مسلمان داروغہ (یعنی ملازم جیسے خزانچی وغیرہ) وہ چیز کہ جسے دینے کا مالک نے حکم کیا ہو بغیر کسی نقصان کے خوش دلی کے ساتھ اس شخص کو دے کہ جس کے لئے مالک نے حکم دیا ہے تو وہ صدقہ کرنے والے دو اشخاص میں سے ایک ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح اپنے آقا ومالک کے مال میں سے صدقہ و خیرات دینے والے ملازم کے لئے اس حدیث میں چار شرطیں مذکور ہوئی ہیں۔ (١) صدقہ و خیرات کے لئے مالک کا حکم ہونا (٢) مالک نے جتنا مال صدقہ میں دینے کا حکم دیا ہو وہ بغیر کسی کمی کے پورا دینا (٣) خوش دلی کے ساتھ دینا۔ اس شرط کا اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ مالک جو مال صدقہ میں دینے کا حکم دیتا ہے بعض ملازم اسے خوش دلی کے ساتھ نہیں دیتے (٤) مالک نے جس شخص کو مال دینے کا حکم دیا ہے اسی کو دینا اس کے علاوہ کسی دوسرے فقیر و مسکین کو نہ دینا۔ لفظ متصدقین (صدقہ دینے والے دو اشخاص) تثنیہ کے صیغہ کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے یعنی ایک تو مالک کہ جس کا مال صدقہ میں دیا گیا اور دوسرا ملازم جس کے ذریعے صدقہ دیا گیا اس طرح ملازم ان دونوں میں ایک ہوا۔ مشکوۃ کے ایک اور صحیح نسخہ میں متصدقین جمع کے صیغے کے ساتھ منقول ہے اس طرح اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ملازم بھی صدقہ دینے والوں میں سے ایک ہے۔ بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ جو ملازم مسلمان اور امانت دار ہو کہ اس کا مالک صدقہ میں جو کچھ دینے کا حکم کرتا ہو وہ پورا پورا اور خوش دلی کے ساتھ دیتا ہو، نیز صدقہ کا مال اسی شخص کو دیتا ہو جس کو دینے کے لئے مالک نے حکم دیا ہو تو اس ملازم کو بھی اس کے مالک کے ثواب کی مانند ثواب ملتا ہے۔

【5】

میت کے لئے صدقہ کا ایصال ثواب

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیا اور میرا خیال ہے کہ اگر (وہ مرنے سے پہلے) کچھ کہنے پاتیں تو صدقہ دینے کی (ضرور) وصیت کرتیں لہٰذا اگر میں ان کی طرف سے صدقہ دوں تو انہیں اس صدقہ کا ثوب مل جائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ۔ (بخاری ومسلم) تشریح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی مرحوم عزیز کی طرف سے بطور صدقہ کچھ مال وغیرہ دے تو اس میت کو ثواب ملتا ہے اسی طرح میت کے لئے دعائے استغفار وغیرہ بھی کار آمد ہے چناچہ اہل سنت والجماعت کے متفقہ طور پر یہی مسلک ہے ہاں بدنی عبادت نماز و روزہ اور تلاوت قرآنی وغیرہ کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں لیکن اس بارے میں بھی قابل اعتمال اور زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ میت کو عبادت بدنی کا بھی ثواب پہنچتا ہے۔ چناچہ امام عبداللہ یافعی (رح) نے لکھا ہے کہ ایک عالی بزرگ شیخ عبدالسلام (رح) کو ان کے انتقال کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا تو شیخ مرحوم نے فرمایا کہ ہم تو دنیا میں کہا کرتے تھے کہ تلاوت قرآن کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا مگر اس عالم میں آ کر ہم نے معاملہ برعکس دیکھا ہے۔

【6】

بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ نہ کرے

حضرت ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے سنا رسول کریم ﷺ حجۃ الوداع میں اپنے خطبہ میں فرماتے تھے کہ کوئی عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر گھر میں سے کچھ خرچ نہ کرے۔ (خواہ صراحۃ ہو یا دلالۃ) عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! کیا کھانے میں سے بھی خرچ نہ کرے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کھانا ہمارے اموال میں نفیس ترین چیز ہے۔ (ترمذی) تشریح آپ ﷺ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ جب شوہر کی اجازت کے بغیر ان چیزوں کو خرچ کرنا جائز نہیں ہے جو کھانے سے کم تر درجہ کی ہیں تو کھانا خرچ کرنا کیسے درست ہوگا، جب کہ یہ افضل ترین چیز ہے۔ بظاہر اس حدیث میں اور اس بارے میں ذکر کی گئی گزشتہ احادیث میں تعارض نظر آتا ہے لیکن ان احادیث کی تشریحات اگر سامنے ہوں تو پھر کوئی تعارض نظر نہیں آئے گا کیونکہ ان تشریحات کے ذریعے احادیث میں تطبیق بیان کردی گئی ہے۔

【7】

بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ نہ کرے

حضرت سعد (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ نے عورتوں سے بیعت لی (یعنی ان سے احکام شریعت پر عمل کرنے کا عہد لیا) تو ان میں ایک بڑے قد کی یا بڑے مرتبہ کی عورت کھڑی ہوئی جو غالباً قبیلہ مضر سے معلوم ہوتی تھی اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہمارا بار اپنے والدین، اپنی اولاد اور اپنے شوہروں پر ہے، کیا ان کا مال ہمارے لئے ان کی اجازت کے بغیر حلال ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جو تازہ مال ہو اسے کھاؤ اور بطور تحفہ کے بھیجو۔ (ابو داؤد) تشریح تازہ مال سے وہ چیزیں مراد ہیں جو دیر پا نہ ہوں بلکہ جلدی خراب ہوجاتی ہوں جیسے سالن ترکاری اور دودھ وغیرہ۔ لہٰذا ان چیزوں کے استعمال میں اجازت کی ضرورت نہیں کیونکہ عام طور سے لوگ ان کو خرچ کرنے سے منع نہیں کرتے گویا اس طرح ان چیزوں کے خرچ کرنے کے لئے دلالۃ اجازت حاصل ہوتی ہے بخلاف ان چیزوں کے جو خشک اور خراب نہ ہونے والی ہوں کہ ان کے خرچ کرنے کے لئے اجازت و رضاء کا حاصل ہونا ضروری ہے۔

【8】

مالک کی اجازت کے بغیر خرچ کرنا مناسب نہیں ہے

حضرت ابواللحم (رض) کے آزاد کردہ غلام عمیر (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے آقا کے حکم کے مطابق گوشت (کو سکھانے کے لئے اس) کے پارچے بنا رہا تھا کہ میرے پاس ایک مسکین و فقیر آیا میں نے اسے اس میں سے کھانے کے لئے دے دیا۔ جب میرے آقا کو اس کا علم ہوا تو اس نے مجھے مارا میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے پورا ماجرا کہہ سنایا۔ آپ ﷺ نے میرے آقا کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تم نے اسے کیوں مارا ہے ؟ اس نے کہا کہ یہ میرے کھانے میں سے بغیر میری اجازت کے دے دیتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ (اگر تم صدقہ کرنے کا حکم دے دیتے یا اس کے صدقہ کرنے سے تم راضی و خوش ہوتے تو) تم دونوں ثواب کے حق دار ہوتے۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ عمیر نے کہا کہ میں ایک شخص کا غلام تھا چناچہ میں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ کیا میں اپنے مالک کے مال میں کچھ (یعنی قلیل و کمتر درجہ کی چیز جس کے خرچ کرنے کی عام طور پر اجازت ہوتی ہے) بطور صدقہ خرچ کرسکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اور اس کا ثواب تم دونوں کو آدھا آدھا ملے گا (مسلم) تشریح علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے عمیر کی شکایت پر ان کے آقا ابواللحم سے جو کچھ کہا یا عمیر کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مالک کے مال میں غلام و ملازم کو مطلقاً تصرف کا حق حاصل ہے بلکہ آپ ﷺ نے تو صرف اس بات پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا کہ غلام و ملازم کو کسی ایسی بات پر مارا جائے جسے مالک تو غلطی یا اپنا نقصان تصور کرتا ہے مگر حقیقت میں وہ مالک کے حق میں غلطی یا نقصان نہیں ہے بلکہ اس کے اس میں بہتری و بھلائی ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ نے ابواللحم (رض) کو ترغیب دلائی کہ ان کے غلام نے ان کے حق میں چونکہ بہتر اور نیک کام ہی کیا ہے۔ اس لئے اس سے درگرزر کریں اور ثواب کو غنیمت جانیں جو ان کا مال خرچ ہونے کی وجہ سے انہیں ملا ہے۔ گویا یہ ابواللحم کے لئے آپ ﷺ کی رہنمائی اور تعلیم تھی نہ کہ عمیر کے فعل کی تقریر یعنی عمیر کے فعل کو آپ نے جائز قرار نہیں دیا۔

【9】

صدقہ دے کر اسے واپس لینے یا خریدنے کی ممانعت

امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے کہا ایک مرتبہ میں نے ایک شخص کو اللہ کی راہ میں سواری کے لئے گھوڑا دیا (یعنی ایک مجاہد کے پاس گھوڑا نہیں تھا اس لئے میں نے اسے گھوڑا دے دیا) اس شخص نے اس گھوڑے کو جو اس کے پاس تھا ضائع کردیا (یعنی اس نے گھوڑے کی دیکھ بھال نہیں کی جس کی وجہ سے گھوڑا دبلا ہوگیا) میں نے سوچا کہ میں وہ گھوڑا اس سے خرید لوں اور خیال تھا کہ وہ اس گھوڑے کو سستے داموں بیچ دے گا، مگر (خریدنے سے پہلے) میں نے اس بارے میں رسول کریم ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اسے نہ خریدو اور نہ اپنا دیا ہو صدقہ واپس لو اگرچہ وہ تمہیں ایک درہم ہی میں کیوں نہ دے (گویا یہ حقیقۃ نہیں بلکہ صورۃ اپنا صدقہ واپس لینا ہے) کیونکہ اپنا دیا ہوا صدقہ واپس لینے والا شخص اس کتے کی مانند ہے جو اپنی قے چاٹتا ہے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اپنا دیا ہوا صدقہ واپس نہ لو ( خواہ واپس لینا صورۃ ہی کیوں نہ ہو) کیونکہ اپنا دیا ہوا صدقہ واپس لینے والا اس شخص کی مانند ہے جو قے کرے اور اسے چاٹ لے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حضرت عمر (رض) کے ذہن میں گھوڑے کے سستے داموں حاصل ہوجانے کا خیال اس لئے پیدا ہوا کہ گھوڑا چونکہ دبلا ہوگیا تھا اس صورت میں ظاہر ہے کہ اس کی اصلی قیمت نہیں لگتی یا پھر انہوں نے ایسا خیال اس لئے قائم کیا کہ میں نے چونکہ اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا تھا اس لئے ہوسکتا ہے کہ وہ بھی اس وقت میرے ساتھ رعایت و مروت کا معاملہ کرے۔ ابن ملک (رح) فرماتے ہیں کہ حدیث کے ظاہری الفاظ و مفہوم کے پیش نظر بعض حضرات کا مسلک یہ ہے کہ اپنا دیا ہوا صدقہ خریدنا حرام ہے لیکن اکثر علماء کہتے ہیں کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ اس طرح صرف قبح لغیرہ لازم آتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جس شخص کو صدقہ کا مال دیا جاتا ہے وہ اس مال کو جب صدقہ دینے والے ہی کے ہاتھوں بیچتا ہے تو اس بناء پر کہ اس نے اس کو صدقہ دے کر اس کے ساتھ احسان کیا ہے وہ اسے سستے داموں ہی بیچ دیتا ہے لہٰذا صدقہ دینے والا اس صورت میں بقدر رعایت مال جو اس صدقہ ہی کا حصہ تھا، واپس لینے والوں میں شمار ہوتا ہے۔ بہرحال صحیح اور قابل اعتماد قول یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد لا تشتریہ (اسے نہ خریدو) نہی تنزیہی کے طور پر ہے۔

【10】

صدقہ میں دیا ہو امال واپس ہوجانے کی ایک صورت

حضرت بریدہ (رض) راوی ہیں کہ دن میں نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک عورت آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کہ یا رسول اللہ ! میں نے ایک لونڈی اپنی ماں کو بطور صدقہ دی تھی اب میری ماں مرگئی ہے (کیا میں اسے واپس لے لوں اور اس طرح وہ لونڈی دوبارہ میری ملکیت میں آجائے گی یا نہیں ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا (صدقہ دینے کی وجہ سے) تمہارا ثواب تو ثابت ہوگیا (یعنی اس کا ثواب تمہیں یقینا مل گیا) اور اب میراث نے اس لونڈی کو تمہیں واپس کردیا۔ اس عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری ماں کے ذمہ مہینہ بھر کے روزے تھے تو میں اس کی طرف حقیقۃ یا حکما روزے رکھ سکتی ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس کی طرف سے روزے رکھ لو۔ پھر اس عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری ماں نے کبھی حج نہیں کیا تو کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اس کی طرف سے حج کرلو۔ (مسلم) تشریح وردہا علیک المیراث (میراث نے تمہیں اس لونڈی کو واپس کردیا) میں میراث کی طرف واپس کرنے کی نسبت مجازی ہے چناچہ اس جملے کے حقیقی معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اس لونڈی کو میراث کے ذریعے تمہیں واپس کردیا اور وہ لونڈی بسبب ارث کے تمہاری ملکیت ہوگئی گویا وہ تمہارے پاس حلال ذریعے اور حلال طریقے سے آئی۔ اس مفہوم کا حاصل یہ ہے کہ صدقہ میں دیا ہوا مال واپس لینے کی جو ممانعت کی گئی ہے صورت مذکورہ کا تعلق اس ممانعت سے نہیں ہے کیونکہ یہ امر اختیاری نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہ صورت ہے کہ صدقہ میں دیا ہوا مال بطور میراث ملکیت میں آیا ہے جو ظاہر ہے کہ بالکل جائز ہے۔ سائلہ کو روزے رکھنے کے بارے میں آنحضرت ﷺ کی اجازت کا مطلب یہ تھا کہ حقیقۃ روزہ نہ رکھو بلکہ حکما رکھو اور فدیہ کی ادائیگی ہے چناچہ جمہور علماء کا مسلک یہی ہے کہ اگر کسی شخص کا انتقال اس حالت میں ہوجائے کہ اس کے ذمہ فرض روزے ہوں تو یہ کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ مرنے والے کی طرف سے روزے نہ رکھے بلکہ اس صورت میں حکم یہ ہے کہ اس کے ورثاء اس کی طرف سے فدیہ ادا کریں۔ اس مسئلے کو تفصیل کے ساتھ اختلاف مذاہب انشاء اللہ روزہ کی قضا کے بیان کے ضمن میں بیان کیا جائے گا تاہم اس موقع پر اصولی طور پر یہ جان لیجئے یہ عبادت کی کئی قسمیں ہیں اول عبادت مالی جس کا تعلق صرف مال کی ادائیگی سے ہوگا جیسے زکوٰۃ دوم عبادت بدنی کہ جس کا تعلق صرف نفس و بدن کی مشقت و محنت سے ہو جیسے نماز اور سوم مرکب یعنی وہ عبادت جس کا تعلق مال اور نفس و بدن دونوں سے ہو جیسے حج۔ لہٰذا عبادت مالی میں تو نیابت جائز ہے خواہ حالت اختیار ہو یا حالت اضطرار و ضرورت کیونکہ اس کا مقصود فقیر و مفلس کی حاجت روائی ہے سو وہ نائب کے ادا کرنے سے بھی ادا ہوجاتا ہے۔ عبادت بدنی میں نیابت کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے کیونکہ عبادت بدنی کا مقصود اپنے نفس کو محنت و مشقت میں مبتلا کرنا ہوتا ہے جو نائب کے کرنے سے حاصل نہیں ہوتا۔ مرکب میں نیابت کسی مجبوری و ضرورت کے وقت تو جائز ہے لیکن حالت قدرت و اختیار میں جائز نہیں ہے البتہ نفلی حج کی صورت میں حالت قدرت و اختیار میں بھی نیابت جائز ہے کیونکہ نفل کا دائرہ وسیع تر ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ نعم حجی عنہا (ہاں اس کی طرف سے حج کرو۔ کا مفہوم دونوں صورتوں سے متعلق ہے کہ خواہ اس پر حج واجب تھا یا نہیں، اسی طرح اس نے حج کی وصیت کی تھی یا نہیں ؟ چناچہ وارث کے لئے جائز ہے کہ وہ مورث کی طرف سے چاہے تو کسی دوسرے کو حج کرا دے اور چاہے تو خود ہی حج کرلے، خود حج کرنے کی صورت میں مورث کی اجازت شرط نہیں ہے جب کہ اگر کسی دوسرے سے حج کرائے تو اس کے لئے مورث کی اجازت شرط ہوگی۔ واللہ اعلم اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی مدد سے کتاب الزکوۃ پوری ہوئی اب کتاب الصوم شروع ہوتی ہے رب العزت اس کی تکمیل کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔