38. بہترین صدقہ کا بیان

【1】

بہترین صدقہ

حضرت ابوہریرہ (رض) اور حضرت حکیم بن حزام (رض) دونوں راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بہتر صدقہ وہ ہے جو بےپروائی کے ساتھ دیا ہے اور صدقہ دینے کی ابتداء اس شخص سے کرو جس کا نفقہ تم پر لازم ہے (بخاری) اور امام مسلم نے اس روایت کو صرف حضرت حکیم بن حزام سے نقل کیا ہے۔ تشریح بےپروائی کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ کا مال اس انداز سے دو کہ تم خود فقیر و مفلس نہ بن جاؤ بلکہ غنا باقی رہے یعنی اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کے بقدر مال و اسباب رکھ لو۔ اس کے بعد جو کچھ بچ رہے اسے اللہ کے نام پر خیرات کردو، ایسا نہ ہو کہ تمام ہی مال و زر اللہ کی راہ میں خرچ کردو اور اپنے اہل و عیال کو محتاجگی اور بھوک سے بلکنے کے لئے چھوڑ دو ، چناچہ آپ ﷺ نے بعد میں ہی بات کی وضاحت فرمائی کہ صدقہ کا مال پہلے تو ان لوگوں کو دو جن کی ضروریات زندگی تمہاری ذات سے وابستہ ہوں جب ان سے بچ رہے تو پھر بعد میں دوسروں کو دے دو ۔

【2】

صدقہ دینے کے بعد غنائے نفس یا غنائے مال ہونا ضروری ہے

اس بارے میں تحقیقی مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں اپنا مال و زر خرچ کرنا چاہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے یا تو غنائے نفس حاصل ہو بایں طور کہ از راہ سخاوت نفس وہ اپنا مال و زر اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہے تو اسے اللہ کی ذات پر اس درجے کامل اعتماد اور توکل ہو کہ اس کا دل بالکل مستغنی ہو اور اسے اس بات کی پرواہ نہ ہو کہ میرے اہل و عیال کل کیا کھائیں گے، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک موقع پر اپنا تمام مال و اسباب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ کے قدموں میں ڈالا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر (رض) گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ؟ انہوں نے عرض کیا اللہ (یعنی اہل و عیال کے لئے اللہ کی ذات پر کامل اعتماد اور توکل چھوڑ آیا ہوں کہ جس نے اب تک مجھے اتنا مال و زر دیا ہے وہی کل کو ان کی بھی ضروریات زندگی پوری کرے گا) آنحضرت ﷺ نے ان کی سخاوت اور ان کے اس عظیم جذبے کو بہت سراہا، یہ تو پہلا درجہ ہوا دوسرا درجہ یہ ہے کہ اگر غنائے نفس حاصل نہ ہو پھر غنائے مال ہونا ضروری ہے یعنی اللہ کی راہ میں اتنا ہی مال خرچ کرے کہ خود مفلس و فقیر نہ ہوجائے بلکہ اتنا مال باقی رکھ چھوڑنا ضروری ہے کہ اہل و عیال کی ضروریات زندگی پوری ہو سکیں جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ حاصل یہ کہ اگر توکل کی دولت نصیب ہو تو پھر جو کچھ چاہے اللہ کی راہ میں خرچ کر دے اگر یہ مرتبہ حاصل نہ ہو تو اپنے اہل و عیال کو مقدم رکھے، صدقہ و خیرات میں اتنا مال نہ دے دے کہ خود اور اہل و عیال ضروریات زندگی کے لئے محتاج ہوجائیں۔

【3】

اہل وعیال پر خرچ کرنا صدقہ ہے

حضرت ابومسعود (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو مسلمان اپنے اہل یعنی بیوی اور اقرباء پر کچھ خرچ کرتا ہے اور اس میں ثواب کی توقع رکھتا ہے تو اس کا یہ خرچ اس کے حق میں (بڑا مقبول) صدقہ ہوجاتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

【4】

اہل وعیال پر خرچ کرنا صدقہ ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ایک دینار تو وہ ہے جسے تم اللہ کی راہ میں ( یعنی حج یا جہاد، یا طالب علم) میں خرچ کرو ایک دینار تو وہ جسے تم غلام کو آزاد کرنے میں خرچ کرو، تو ان تمام دیناروں میں از روئے ثواب سب سے بڑا دینار وہ ہے جسے تم نے اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا ہے۔ (مسلم)

【5】

بہترین مصرف

حضرت ثوبان (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ بہتر دینار وہ ہے جو کوئی شخص اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے بہتر دینار وہ ہے جو کوئی شخص اپنے اس جانور پر خرچ کرے جو جہاد کے لئے پالا گیا ہو اور بہتر دینار وہ ہے جو کوئی شخص اپنے ان دوستوں پر خرچ کرے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہوں۔ (مسلم) تشریح یہاں مال و زر کے تین بہترین مصرف بیان فرمائے گئے ہیں کہ ان تینوں پر اپنا مال و زر خرچ کرنا ان کے علاوہ دوسروں پر خرچ کرنے سے بہتر ہے۔

【6】

اولاد پر خرچ کرنا ثواب ہے

ام المومنین حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک دن میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ابوسلمہ کے بیٹوں پر خرچ کرنے میں میرے لئے ثواب ہے کہ نہیں درآنحالیکہ وہ میرے ہی بیٹے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ان پر خرچ کرو جو چیز تم ان پر خرچ کرو گی اس کا تمہیں ثواب ملے گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح حضرت ابوسلمہ (رض) ایک صحابی تھے حضرت ام سلمہ (رض) پہلے ان کے عقد میں تھیں، ابوسلمہ سے ان کے کئی بچے ہوئے عمر زینب اور درہ، جب ابوسلمہ کا انتقال ہوگیا، تو ام سلمہ (رض) کو نبی کریم ﷺ کی زوجیت میں آنے کا شرف حاصل ہوا۔ ابوسلمہ سے ان کے جو بچے تھے وہ ان کے اخراجات میں انہیں کچھ دیا کرتی تھیں۔ چناچہ اسی کو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ ان کو میں جو کچھ دیتی ہوں آیا اس کا ثواب بھی مجھے ملتا ہے یا نہیں ؟ لہٰذا اس صورت میں بیٹوں سے حضرت ام سلمہ (رض) کے حقیقی بیٹے مراد ہوں گے جو ابوسلمہ (رض) سے تھے یا یہ بھی احتمال ہے کہ ابوسلمہ (رض) کی دوسری بیوی کے کچھ بچے ہوں گے ام سلمہ نے ان پر مال خرچ کرنے کے بارے میں آنحضرت ﷺ سے پوچھا اس صورت میں بیٹوں سے ام سلمہ (رض) کے سوتیلے بیٹے مراد ہوں گے۔

【7】

اپنی بیوی یا اپنے شوہر کو صدقہ دینے کا مسئلہ

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی زوجہ محترمہ حضرت زینب (رض) کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ مجلس ذکر و نصیحت میں عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اے عورتوں کی جماعت ! صدقہ و خیرات کرو، اگرچہ وہ تمہارے زیورات ہی میں سے کیوں نہ ہو ! حضرت زینب (رض) کہتی ہیں کہ یہ سن کر میں آنحضرت ﷺ کی مجلس سے عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آئی اور ان سے کہنے لگی کہ آپ خالی ہاتھ یعنی مفلس مرد ہیں اور چونکہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں صدقہ و خیرات کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اس لئے آپ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جا کر یہ معلوم کریں کہ اگر میں آپ پر اور آپ کی اولاد پر بطور صدقہ خرچ کروں تو آیا یہ صدقہ میرے لئے کافی ہوگا یا نہیں ؟ اگر آپ کو اور آپ کی اولاد کو میرا صدقہ دینا میرے لئے کافی ہوجائے تو پھر آپ ہی کو صدقہ دے دوں اور اگر یہ میرے لئے کافی نہ ہو تو پھر آپ کے علاوہ دوسرے لوگوں پر بطور صدقہ خرچ کروں ! حضرت زینب (رض) کہتی ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے مجھ سے کہا کہ تم ہی جاؤ اور رسول کریم ﷺ سے اس بارے میں پوچھ لو چناچہ میں خود آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی میں وہاں کیا دیکھتی ہوں کہ رسول کریم ﷺ کے دروازے پر انصار کی ایک عورت کھڑی ہے اور (وہاں آنے کی) ہماری حاجت یکساں تھی۔ (یعنی وہ وہ بھی معلوم کرنے آئی تھی کہ آیا میں اپنے صدقہ کا مال اپنے خاوند اور اس کے متعلقین کو دے سکتی ہوں یا نہیں ؟ حضرت زینب (رض) کہتی ہیں کہ چونکہ رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس ہیبت و عظمت کا پیکر تھی اس لئے ہمیں آپ ﷺ کے پاس جانے کی جرات نہ ہوئی اور ہم وہاں سے نکل کر حضرت بلال (رض) کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ آپ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں جا کر کہئے کہ دروازے پر کھڑی ہوئی دو عورتیں آپ ﷺ سے پوچھتی ہیں کہ کیا اپنے شوہروں اور ان یتیموں کو جو ان کی پرورش میں ہیں ان کا صدقہ دینا ان کے لئے کافی ہوجائے گا مگر دیکھئے آنحضرت ﷺ کو یہ نہ بتائیے گا کہ ہم کون ہیں ؟ یعنی انہوں نے اپنے آپ کو ظاہر کر کے ریا سے بچنے میں مبالغہ کیا کہ پہلے تو آنحضرت ﷺ نے بلال سے پوچھا کہ دو عورتیں کون ہیں ؟ حضرت بلال (رض) نے کہا کہ ایک تو انصار کی کوئی عورت ہے اور دوسری زینب (رض) ہیں اپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کون سی زینب ؟ (کیونکہ زینب نام کی کئی عورتیں ہیں) حضرت بلال (رض) نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی ! پھر آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ (ان سے جا کر کہہ دو کہ اس صورت میں) ان کے لئے دوہرا ثواب ہے، ایک تو حق قربت کی ادائیگی کا اور دوسرا صدقہ دینے کا۔ (بخاری و مسلم الفاظ مسلم کے ہیں) ۔ تشریح قد القیت علیہ المہایہ، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس کو ہیبت و عظمت کا ایسا پیکر بنایا تھا کہ لوگ آپ ﷺ سے مرعوب ہوتے، ڈرتے اور آپ ﷺ کی بےانتہا تعظیم کرتے تھے اسی وجہ سے کسی کو بھی جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ اچانک آپ ﷺ کی خدمت میں پہنچ جائے اور ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کی یہ عظمت وہیبت (نعوذ باللہ) آپ ﷺ کی کسی بد خلقی اور خشونت کی وجہ سے نہیں تھی۔ بلکہ یہ تو اللہ داد تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اس عظمت وہیبت کو آپ ﷺ کی عزت و تعظیم کا سبب بنایا تھا۔ جب حضرت زینب (رض) نے حضرت بلال (رض) کو منع کردیا تھا کہ وہ ان کے نام آنحضرت ﷺ کو نہ بتائیں تو انہیں ان کی اس خواہش کا احترام کرنا چاہئے تھا مگر آنحضرت ﷺ نے چونکہ ان سے ان عورتوں کا نام پوچھا اس لئے آنحضرت ﷺ کے حکم کی بناء پر ان کے لئے یہ ہی ضروری ہوگیا تھا کہ وہ ان کا نام بتادیں چناچہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل کی۔ یہ حدیث کی وضاحت تھی اب اصل مسئلہ کی طرف آئیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آیا کوئی عورت اپنے خاوند یا کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنی زکوٰۃ کا مال دے سکتا ہے یا نہیں۔ لہٰذا اس بارے میں تو بالاتفاق تمام علماء کا یہ مسلک ہے کہ کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنی زکوٰۃ کا مال نہ دے مگر اس کے برعکس صورت میں امام ابوحنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ کوئی عورت اپنے خاوند کو اپنی زکوٰۃ کا مال نہ دے کیونکہ مرد کے منافع اور مال میں عادۃ اکثر دونوں ہی شریک ہوتے ہیں اس طرح کوئی عورت اپنے خاوند کو زکوٰۃ کا مال دے گی تو اس مال سے خود بھی فائدہ حاصل کرے گی جو جائز نہیں ہوگا۔ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ جس طرح مرد کا اپنی بیوی کو زکوٰۃ کا مال دینا جائز ہے اسی طرح بیوی بھی اپنی زکوٰۃ کا مال اپنے خاوند کو دے سکتی ہے ائمہ کے اس اختلاف کی بنا پر کہا جائے گا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اس مذکور صدقہ سے صدقہ نفل مراد ہوگا اور صاحبین کے نزدیک اس سے صدقہ نفل بھی مراد ہوسکتا ہے اور صدقہ فرض یعنی زکوٰۃ کو بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔

【8】

اپنے اقرباء کو صدقہ دینا بڑے ثواب کی بات ہے

ام المومنین حضرت میمونہ بنت حارث (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ کے زمانے میں ایک لونڈی آزاد کی اور سرکار دو عالم ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا، آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم وہ لونڈی اپنے ماموں کو دے دیتیں تو تمہیں بہت زیادہ ثواب ملتا۔ (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ تمہارے ماموں کو چونکہ ایک خدمت گار کی ضرورت تھی اس لئے اگر تم وہ لونڈی انہیں دے دیتیں تو تمہیں صدقہ کا ثواب تو ملتا ہی اس کے ساتھ ہی صلہ رحمی کا ثواب بھی ملتا۔

【9】

ہمسایہ کا خیال رکھو

ام المومنین حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! میرے دو پڑوسی ہیں میں ان میں سے کسے تحفہ بھیجوں ؟ (یعنی پہلے یا زیادہ کسے دوں ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا۔ اس پڑوسی کو جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری) تشریح اگر کسی کے دو پڑوسی ہوں اس طرح کہ ان میں ایک پڑوسی کی دیوار اپنے سے زیادہ قریب ہو اور دوسرے پڑوسی کا دروازہ زیادہ قریب ہو تو قریبی دروازہ والے ہی کو مقدم رکھا جائے۔ لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ یہاں حدیث میں حصر مراد نہیں ہے، یعنی آپ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف اسی کو دیا جائے دوسرے کو نہ دیا جائے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ پہلے یا زیادہ اس پڑوسی کو بھیجا جائے جس کا دروازہ قریب ہو اور اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس پڑوسی کا دروازہ زیادہ قریب ہوتا ہے اور اس سے ملنا جلنا اور اس کے یہاں آنا جانا زیادہ رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کے حالات کا بھی زیادہ علم رہتا ہے لہٰذا اس کے ساتھ محبت و سلوک کا معاملہ کرنا اولیٰ ہے۔

【10】

ہمسایہ کا خیال رکھو

حضرت ابوذر غفاری (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ڈالو اور اپنے ہمسایہ کا خیال رکھو۔ (مسلم) تشریح اس ارشاد گرامی کا منشاء یہ ہے کہ جب سالن پکاؤ تو اپنی لذت و خواہش ہی کو مقدم نہ رکھو بلکہ ہمسایہ اور پڑوسی کی ضرورت کا بھی خیال رکھو اور اس کی شکل یہ ہے کہ سالن میں پانی زیادہ ڈالو تاکہ شوربا زیادہ ہو اور تم اسے اپنے ہمسایہ میں ضرورت مند لوگوں کو بانٹ سکو۔

【11】

کم مال رکھنے والے کا صدقہ افضل ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کونسا صدقہ زیادہ ثواب کا باعث ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کم مال رکھنے والے کی زیادہ سعی و کوشش اور صدقہ کا مال پہلے اس شخص کو دو جس کی ضروریات زندگی تمہاری ذات سے وابستہ ہوں۔ ( ابوداؤد) تشریح کم مال رکھنے والے کی زیادہ سعی و کوشش کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کا صدقہ زیادہ افضل ہے جو اگرچہ بہت کم مال کا مالک ہے لیکن صدقہ دینے کے معاملے میں اپنی پوری سعی و کوشش اور مشقت کرتا ہے اور جو کچھ اس کے بس میں ہوتا ہے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ اسی باب کی جو پہلی حدیث گزری ہے اس سے تو یہ معلوم ہوا کہ بہترین صدقہ وہ ہے جو حالت غنا میں دیا جائے جب کہ یہ حدیث اس صدقہ کو افضل قرار دے رہی ہے جو مال کی کمی کی حالت میں دیا جائے لہٰذا ان دونوں روایتوں کی تطبیق یہ ہوگی کہ صدقہ کی فضیلت کا تعلق اشخاص و حالات اور قوت توکل و ضعف یقین کے تفاوت سے ہے پہلی حدیث ان لوگوں کے بارے میں ہے جو توکل کے معیار پر پورے نہ اترتے ہوں اور یہ حدیث ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہیں کامل توقع و یقین کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہاں حدیث میں مقل یعنی کم مال والے سے غنی القلب یعنی وہ شخص مراد ہے جس کا دل غنی و بےپرواہ ہو اس صورت میں یہ حدیث پہلی حدیث کے الفاظ خیر الصدقۃ ما کان عن ظہر غنی کے موافق ہوجائے گی۔ اس طرح حاصل یہ نکلے گا کہ اس شخص کا تھوڑا سا صدقہ بھی کہ جو کم مال دار مگر غنی دل ہو مالدار کے صدقہ سے افضل ہے خواہ اس کا صدقہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔

【12】

اپنے اقرباء کو صدقہ دینا دوہرے ثواب کا باعث ہے

حضرت سلیمان بن عامر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ کسی مسکین کو صدقہ دینا ایک صدقہ ہے یعنی اس کو دینے میں صرف صدقہ ہی کا ثواب ملتا ہے) مگر اپنے اقرباء میں سے کسی کو صدقہ دینا دوہرے ثواب کا باعث ہے، ایک ثواب تو صدقہ کا اور دوسرا ثواب صلہ رحمی کا ہوتا ہے۔ (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)

【13】

خرچ کرنے کی ترتیب

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میرے پاس ایک دینار ہے جسے میں خرچ کرنا چاہتا ہوں سو اسے کہاں خرچ کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اسے اپنی اولاد پر خرچ کرو۔ اس نے عرض کیا میرے پاس ایک اور دینار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اسے اپنے اہل (یعنی اپنی بیوی، ماں، باپ اور دوسرے اقرباء) پر خرچ کرو، اس نے کہا کہ میرے پاس ایک اور دینار ہے۔ فرمایا کہ اسے اپنے خادم پر خرچ کرو پھر اس نے کہا کہ میرے پاس ایک اور دینار ہے فرمایا کہ اب تم اس بارے میں زیادہ جان سکتے ہو ! (یعنی اب اس کے بعد کے مستحق کو تم ہی بہتر جان سکتے ہو جسے اس کا مستحق سمجھو اسے دے دو ۔ (ابو داؤد، نسائی)

【14】

بہترین اور بدترین لوگوں میں چند

حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں بتاؤں کہ بہتر آدمی کون ہے ؟ وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے کھڑا ہے یعنی میدان جنگ میں گھوڑے پر سوار ہو کر کافروں کے ساتھ جنگ کا منتظر ہے کیا میں تمہیں بتاؤں کہ وہ کون شخص ہے جو مذکورہ بالا شخص (یعنی مجاہد) کے مرتبہ کے قریب ہے ؟ وہ شخص ہے جس نے اپنی چند بکریوں کے ساتھ گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرتا ہے یعنی وہ چند بکریاں لے کر لوگوں سے دور ہو کر جنگل میں جا بسا اور وہاں اپنی بکریوں پر گزر بسر کرتا ہے اور ان کی بروقت زکوٰۃ ادا کرتا رہتا ہے) کیا میں تمہیں بتاؤں کہ بدترین آدمی کون ہے ؟ وہ شخص ہے جس سے اللہ کی قسم کے ساتھ سوال کیا جاتا ہے (یعنی کوئی سائل اس سے اس طرح مانگتا ہے کہ تمہیں اللہ کی قسم ! مجھے عطا کرو) مگر وہ سائل کا سوال پورا نہیں کرتا۔ (ترمذی، نسائی، دارمی) تشریح اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بہترین اور اچھے لوگوں میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جو اللہ کی راہ میں کافروں کے ساتھ جنگ کا منتظر ہوتا ہے۔ یہ مفہوم اس لئے اختیار کیا جاتا ہے کہ غازی یا مجاہد سب لوگوں سے افضل نہیں ہے۔ اسی طرح بدترین سے بھی یہ مراد ہے کہ بد اور برے لوگوں میں سے ایک شخص وہ بھی ہے جس سے کوئی سائل اللہ کی قسم دے کر سوال کرے مگر وہ اس کا سوال پورا نہ کرے۔

【15】

سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ جانے دو

حضرت ام مجید (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ سائل کو کچھ دے کر واپس کرو اگرچہ وہ جلا ہوا کھر ہی کیوں نہ ہو۔ (مالک و نسائی) ترمذی اور ابوداؤد نے اس کے ہم معنی روایت نقل کی ہے۔ تشریح بظلف محرق اپنے اصل معنی کے لئے استعمال نہیں کیا گیا ہے یعنی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سائل کو جلا ہوا کھر ہی دے دیا جائے کیونکہ یہ کوئی قابل انتفاع چیز نہیں ہے بلکہ یہ لفظ بطور مبالغہ استعمال فرمایا گیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی سائل تمہارے پاس آئے تو اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو۔ بلکہ تمہیں اس وقت جو بھی ادنیٰ ٰسے ادنیٰ اور کمتر چیز میسر ہو وہ سائل کو دے دو ۔

【16】

دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم

حضرت ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص تم سے بواسطہ اللہ پناہ مانگے اسے پناہ دو ۔ جو شخص تم سے اللہ کے نام پر کچھ مانگے اس کا سوال پورا کرو۔ جو شخص تمہیں کھانے کے لئے بلائے یعنی تمہاری دعوت کرے تو اس کی دعوت قبول کرو (بشرطیکہ کوئی حسی یا شرعی مانع نہ ہو) جو شخص تمہارے ساتھ (قولی یا فعلی) احسان کرے تو تم بھی اس کا بدلہ دو (یعنی تم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی احسان کرو) اور اگر تم مال و زر نہ پاؤ کہ اس کا بدلہ چکا سکو تو اپنے محسن کے کے لئے دعا کرو جب تک کہ تم یہ جان لو کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے۔ (احمد، ابوداؤد، نسائی) تشریح جو شخص تم سے بواسطہ اللہ پناہ مانگے، کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خود تمہاری ذات کی وجہ سے یا کسی دوسرے کی طرف سے کسی حادثے و شر میں مبتلا ہو اور وہ اس وقت اللہ کا واسطہ دے کر تم سے پناہ مانگے یعنی اس وقت یوں کہے کہ میں اللہ کا واسطہ دے کر تم سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے اس مصیبت سے نجات دلاؤ تو تمہیں چاہئے تو کہ تم اس کی درخواست قبول کرو۔ اور اللہ تعالیٰ کے نام کی تعظیم کے پیش نظر اس کو اس آفت و مصیبت سے بچاؤ۔ من استعاذ منکم باللہ میں باللہ کے حرف با کے بارے میں بھی یہ احتمال ہے کہ لفظ استعاذ کا صلہ واقع ہو رہا ہو اس صورت میں اس جملے کے یہ معنی ہوں گے کہ جو شخص کسی آفت و مصیبت کے وقت اللہ سے پناہ مانگ رہا ہو تم اس سے تعرض نہ کرو بلکہ اسے پناہ دو اور اس کو آفت و مصیبت سے نجات دلانے کی کوشش کرو۔ حدیث کے آخری الفاظ حتی ترد الخ جب تک تم یہ نہ جان لو، کا مطلب یہ ہے کہ تم اس کے لئے اس وقت تک مکرر سہ کرر دعا کرتے رہو جب تک کہ تمہیں یہ یقین نہ ہوجائے کہ تم نے اس کا حق ادا کردیا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ارشاد گرامی منقول ہے کہ جس شخص کے ساتھ احسان کیا گیا اور اس نے احسان کرنے والے سے کہا جزاک اللہ خیرا تو اس نے اپنے محسن کی تعریف اور اس کے احسان کے بدلے میں مبالغہ کیا۔ لہٰذا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس شخص نے اپنے کسی محسن کے لئے ایک مرتبہ جزاک اللہ خیرا کہا تو اس نے اس کے احسان کا بدلہ چکا دیا بلکہ حق سے بھی زیادہ بدلہ دیا، کیونکہ یہ جملہ کہہ کر گویا اس نے اپنے نفس کو بدلہ چکانے میں عاجز جانا اور اس کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا کہ سب سے بہتر اجر اور بدلہ وہی دے سکتا ہے، لہٰذا یہ جملہ ایک بار کہنا مکرر سہ کرر دعا کرنے کے برابر ہے۔ حضرت عائشہ (رض) کا معمول حضرت عائشہ (رض) کا معمول تھا کہ جب کوئی سائل ان کے لئے دعا کرتا تو وہ بھی پہلے اسی طرح اس کے لئے دعا کرتیں پھر اسے صدقہ دیتیں، لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں اس کے لئے دعا نہ کروں تو اس کا حق اور میرا حق برابر ہوجائے گا کیونکہ جب اس نے میرے لئے دعا کی اور میں نے اسے صرف صدقہ دے دیا (تو اس طرح دونوں کے حسنات برابر ہوگئے) لہٰذا میں بھی اس کے لئے دعا کردیتی ہوں تاکہ میری دعا تو اس کی دعا کا بدلہ ہوجائے اور جو صدقہ میں نے دیا ہے وہ خالص رہے (اس طرح دونوں کا حق برابر نہیں رہتا بلکہ میری نیکیاں بڑھ جاتی ہیں)

【17】

خدا کے نام پر سوال نہ کرو

حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ کی ذات واسطے سے جنت کے علاوہ اور کوئی چیز نہ مانگو۔ (ابو داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ذات کے واسطے سے لوگوں سے کوئی چیز نہ مانگو یعنی کسی کے سامنے ان الفاظ کے ساتھ دست سوال دراز نہ کرو کہ ذات الٰہی کے واسطے سے یا بالواسطہ اللہ مجھے فلاں چیز دو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا نام بہت بڑا ہے اور اس کی ذات و اس کے اسم کی یہ شان نہیں ہے۔ کہ اس کو واسطہ بنا کر دنیا کی حقیر چیزیں مانگی جائیں ہاں اس کے واسطہ سے جنت مانگو یعنی یوں کہو کہ اے اللہ ! ہم تیری ذات کریم کے واسطہ سے تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں جنت میں داخل کیجئے۔

【18】

ابو طلحہ (رض) کا جذبہ سخاوت

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ (رض) مدینہ کے انصار میں کھجوروں کے اعتبار سے بہت زیادہ مال دار تھے اپنے مال میں انہوں سب سے زیادہ پسند اپنا باغ بیر حاء (نامی) تھا جو مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا، رسول کریم ﷺ بھی اکثر اس باغ میں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں کا پانی پیتے تھے جو بہت اچھا (یعنی شیریں یا یہ کہ بلا کسی شک و شبہہ کے حلال و پاک تھا) حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی نیکی (یعنی جنت) کو اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ تم وہ چیز (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کرو جو تمہارے نزدیک پسندیدہ ہے۔ تو حضرت ابوطلحہ (رض) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی یعنی جنت تک نہیں پہنچ سکتے تا وقتیکہ اپنی اس چیز کو خرچ نہ کرو جو تمہارے نزدیک پسندیدہ ہے لہٰذا بیر حاء جو تمام مال میں مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ ہے میں اسے اللہ کے واسطے صدقہ کرتا ہوں اور (اس آیت کریمہ کے پیش نظر) اس سے نیکی کی امید رکھتا ہوں اور امیدوار ہوں کہ اللہ کے نزدیک میرے لئے ذخیر آخرت ہوگا۔ پس یا رسول اللہ ! اسے قبول فرمائیے (اور) جہاں اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو بتائے (یعنی جس جگہ آپ ﷺ مناسب سمجھیں اسے خرچ فرمائیے) رول کریم ﷺ نے فرمایا شاباش ! شاباش ! یہ باغ نفع پہنچانے والا مال ہے جو کچھ تم نے کہا ہے میں نے سن لیا ہے میرے نزدیک مناسب ہے کہ تم اس باغ کو اپنے (محتاج) اقرباء میں تقسیم کردو (تاکہ صدقہ کے ثواب کے ساتھ صلہ رحمی کا ثواب بھی مل جائے) ابوطلحہ (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کے ارشاد کے مطابق ہی عمل کروں گا، چناچہ ابوطلحہ (رض) نے اس باغ کو اپنے اقرباء اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کردیا۔ (بخاری ومسلم) تشریح جہاں یہ احتمال ہے کہ بنی عمہ (چچا کے بیٹے) اقاربہ کا بیان ہو وہیں یہ احتمال بھی ہے کہ اقا رب سے چچا کے بیٹوں کے علاوہ دوسرے اقرباء مراد ہوں۔

【19】

ہر جاندار کا پیٹ بھرنا بہترین صدقہ ہے

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایک بہترین صدقہ یہ بھی ہے کہ کسی جاندار کا جو بھوکا ہو پیٹ بھرا جائے۔ (بیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ کوئی جاندار، خواہ مسلمان ہو، یا کافر اور خواہ جانور ہو اگر بھوکا ہے تو اس کو کھانا کھلانا ایک بہترین صدقہ ہے ہاں اس حکم سے موذی جانور مستثنی ہیں جن کو مار ڈالنے ہی کا حکم دیا گیا ہے یعنی سانپ وغیرہ کو کھلانا پلانا اچھا اور مناسب نہیں ہے۔