13. کفاروں کا بیان۔

【1】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس چیز کی قسم کھاتے ؟

رفاعہ جہنی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قسم کھاتے تو یہ فرماتے : والذي نفس محمد بيده قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٦١٢، ومصباح الزجاجة : ٧٣٥) (صحیح) (اس سند میں محمد بن مصعب ضعیف راوی ہیں، لیکن یہ شواہد کی بناء پر صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ قسم کھانی جائز ہے، بشرطیکہ سچ بات پر کھائے، لیکن یہ ضروری ہے کہ سوائے اللہ کے نام یا اس کی صفت کے دوسرے کسی کی قسم نہ کھائے۔

【2】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس چیز کی قسم کھاتے ؟

رفاعہ بن عرابہ جہنی (رض) کہتے ہیں کہ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کی قسم جو آپ کھایا کرتے تھے، یوں ہوتی تھی : والذي نفسي بيده قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٦١٢، ومصباح الزجاجة : ٧٣٦) (صحیح) (سند میں عبد الملک صنعانی ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے )

【3】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس چیز کی قسم کھاتے ؟

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی قسم اکثر یوں ہوتی تھی : لا ومصرف القلوب قسم ہے اس ذات کی جو دلوں کو پھیرنے والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الأیمان والنذور ١ (٣٧٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٦٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/القدر ١٤ (٦٦١٧) ، الأیمان ٣ (٦٦٢٨) ، التوحید ١١ (٧٣٩١) ، سنن ابی داود/الأیمان والنذور ١٢ (٣٢٦٣) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٢ (١٥٤٠) ، مسند احمد (٢/٢٦، ٦٧، ١٢٧) ، سنن الدارمی/الأیمان والنذور ١٢ (٢٣٩٥) (حسن )

【4】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس چیز کی قسم کھاتے ؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی قسم یوں ہوتی تھی : لا وأستغفر الله ایسا نہیں ہے، اور میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان والنذور ١٢ (٣٢٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٨) (ضعیف) (سند میں محمد بن ہلال اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو : المشکاة : ٣٤٢٣ ) وضاحت : ١ ؎: لغو وہ قسم ہے جو آدمی کی زبان پر بےقصد و ارادہ جاری ہوجائے، اس سے کوئی کفارہ لازم نہیں آتا، یہ قسمیں آپ کی اسی قبیل سے ہوتیں مگر اس سے بھی آپ ﷺ نے استغفار کیا تاکہ امت کے لوگ اس سے بھی پرہیز کریں، صحیح بخاری میں ہے کہ اکثر آپ ﷺ یوں قسم کھاتے تھے : لا ومقلب القلوب اور صحیحین میں ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : وأيم الله إن کان لخليقاً للإمارة یعنی، اللہ کی قسم ! زید بن حارثہ امیر ہونے کے لائق تھا، اور جبریل (علیہ السلام) نے اللہ سے کہا : رب تیری عزت کی قسم، جو کوئی اس کو سن پائے گا، وہ جنت میں جائے گا۔

【5】

ماسوا اللہ (کی ذات کے) کے قسم کھانے کی ممانعت۔

عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا : اللہ تمہیں باپ دادا کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے ، اس کے بعد میں نے کبھی باپ دادا کی قسم نہیں کھائی، نہ اپنی طرف سے، اور نہ دوسرے کی نقل کر کے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان ٤ (٦٦٤٧) ، صحیح مسلم/الأیمان والنذور ٥ (١٦٤٦) ، سنن النسائی/الأیمان والنذور ٤ (٣٧٩٨) ، سنن ابی داود/الأیمان والنذور ٥ (٣٢٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥١٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأیمان ٨ (١٥٣٣) ، مسند احمد (٢/١١، ٣٤، ٦٩، ٨٧، ١٢٥، ١٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: امام مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر جو کوئی قسم کھانا چاہے تو اللہ کی قسم کھائے یا چپ رہے۔

【6】

ماسوا اللہ (کی ذات کے) کے قسم کھانے کی ممانعت۔

عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہ طاغوتوں (بتوں) کی، اور نہ اپنے باپ دادا کی قسم کھاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الایمان ٢ (١٦٤٨) ، سنن النسائی/الأیمان ٩ (٣٨٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٦٢) (صحیح )

【7】

ماسوا اللہ (کی ذات کے) کے قسم کھانے کی ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قسم کھائی، اور اپنی قسم میں لات اور عزیٰ کی قسم کھائی، تو اسے چاہیئے کہ وہ لا إله إلا الله کہے : اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة النجم ٢ (٤٨٦٠) ، الادب ٧٤ (٦١٠٧) ، الاستئذان ٥٢ (٦٣٠١) ، الأیمان ٥ (٦٦٥٠) ، صحیح مسلم/الأیمان ٢ (١٦٤٧) ، سنن ابی داود/الایمان ٤ (٢٣٤٧) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٧ (١٥٤٥) ، سنن النسائی/الأیمان ١٠ (٣٨٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لات اور عزی دو بڑے بت تھے جن کی زمانہ جاہلیت میں عرب عبادت کرتے تھے، واضح رہے اگر بےاختیار عادت کے طور پر ان کا نام نکل جائے اور دل میں ان کی کوئی تعظیم نہ ہو تو آدمی کافر نہ ہوگا، اگر تعظیم کی نیت سے کہا تو وہ کافر و مرتد ہے، اس پر دوبارہ اسلام لانا واجب ہے (لمعات التنقیح) ۔

【8】

ماسوا اللہ (کی ذات کے) کے قسم کھانے کی ممانعت۔

سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے لات اور عزیٰ کی قسم کھالی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لا إله إلا الله وحده لا شريك له اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اس کا کوئی شریک نہیں ، پھر اپنے بائیں طرف تین بار تھو تھو کرو، اور اعوذ باللہ کہو میں شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں پھر ایسی قسم نہ کھانا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الأیمان والنذور ١١ (٣٨٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٨٣) (ضعیف) (سند میں ابو اسحاق مختلط ومدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ملاحظہ ہو : إلارواء : ٨/١٩٢ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے اور اوپر کی حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ اگر غیر اللہ کی قسم اس کو معظم سمجھ کر کھائے تو آدمی کافر ہوجاتا ہے، لیکن معظم سمجھنے سے کیا مراد ہے ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے، بعضوں نے کہا : ان کو اللہ تعالیٰ کے برابر اور ہمسر سمجھے، لیکن ایسا تو کفار و مشرکین بھی نہیں سمجھتے تھے، وہ بھی جانتے تھے کہ اللہ سب سے بڑا ہے، اور آسمان اور زمین کا وہی خالق ہے جیسے اس آیت میں ہے : وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ( سورة لقمان : 25 ) اور اس آیت میں : مَا نَعْبُدُهُمْ إِلا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى ( سورة الزمر :3 ) یعنی ہم بتوں کو اس لئے پوجتے ہیں تاکہ وہ ہم کو اللہ کے نزدیک کردیں، اور یہ مسئلہ بڑا نازک ہے اور شرک کا معاملہ بہت بڑا ہے، شرک ایسا گناہ ہے جو کبھی نہیں بخشا جائے گا، پس ہر مسلمان کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے، شرک یہ ہے کہ جب اللہ کے علاوہ کسی کو کوئی اس لائق سمجھے کہ وہ بغیر اللہ کی مشیت اور ارادے کے کوئی برائی یا بھلائی کا کام کرسکتا ہے، یا اس کا کچھ زور اللہ تعالیٰ پر ہے، معاذ اللہ، دنیا کے بادشاہوں کی طرح جیسے وہ اپنے نائبوں کا لحاظ رکھتے ہیں، یہ ڈر کر کہ اگر وہ ناراض ہوجائیں گے تو ان کے کارخانہ میں خلل ہوجائے گا۔ یا وہ اللہ کی طرح ہر پکارنے والے کی پکار سن لیتا ہے، یا نزدیک ہو یا دور، یا ہر مشکل کے وقت نزدیک ہو یا دور کام آسکتا ہے، یا ہر بات دیکھتا اور سنتا ہے، تو اس نے شرک کیا، گو وہ اس کو اللہ کے برابر نہ سمجھے، معظم سمجھنے کے یہی معنی ہیں، یہ مطلب نہیں ہے کہ غیر اللہ کی عظمت بالکل نہ کرے، انبیاء ورسل، فرشتوں اور اولیاء وصلحاء کی تعظیم ہماری شریعت میں ہے، مگر یہ تعظیم یہی ہے کہ ان سے محبت کی جائے، ان کو اللہ کا نیک بندہ سمجھا جائے، مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اللہ کی مشیت کے بغیر کسی کا رتی بھر کام نکال سکتے ہیں، یا اللہ تعالیٰ کے حکم میں کچھ چوں چرا کرسکتے ہیں، یا ان کا کچھ زور۔ معاذ اللہ۔ اللہ تعالیٰ پر ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کو کسی سے رتی برابر بھی ڈر و خوف نہیں ہے۔ اور یہ سب اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف متحد ہوجائیں تو وہ ایک لحظہ میں ان سب کو تباہ و برباد کرسکتا ہے، اور ان سب کے خلاف ہوجانے سے اس کا ذرہ برابر بھی کوئی کام متاثر نہیں ہوسکتا، یہ موحدوں کا اعتقاد ہے، پس موحد جب غیر اللہ کی قسم کھائے گا تو یقینا کہا جائے گا کہ اس کی قسم لغو اور عادت کے طور پر ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ موحد غیر اللہ میں سے کسی میں کچھ بالاستقلال قدرت یا اختیار سمجھے۔ جو شرکیہ افعال کیا کرتا ہے لیکن نام کا مسلمان ہے وہ جب غیر اللہ کی قسم کھائے گا تو شرک کا گمان اس کی طرف اور زیادہ قوی ہوگا، اور بہت مسلمان ایسے ہیں کہ اللہ کی قسم کہو تو وہ سو کھا ڈالیں لیکن کیا ممکن ہے کہ اپنے پیر مرشد یا مدار یا سالار یا غوث کی جھوٹی قسم کھائیں، ان کے مشرک ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں ہے، اب یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جو چیزیں ہماری شریعت میں بالکل لائق تعظیم نہیں ہیں بلکہ ان کی تحقیر اور توڑ ڈالنے کا حکم ہے، جیسے بت، اور تعزیہ والے جھنڈے وغیرہ ان کی تو ذرا سی تعظیم بھی کفر ہے، اس لیے کہ ان کی تعظیم مشرکین کی خاص نشانی ہے مثلاً ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی قبر یا کسی ولی یا نبی کی قبر پر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو، اور دوسرا شخص کسی بت کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو تو دوسرے شخص کے کفر میں کوئی شبہ نہ رہے گا، لیکن پہلے شخص کی نیت معلوم کی جائے گی، اگر عبادت کی نیت سے اس نے ایسا کیا تو وہ بھی کافر ہوجائے گا، اور جو صرف ادب اور تعظیم میں ایسا کیا لیکن عقیدہ اس کا توحید کا ہے، تو وہ کافر نہ ہوگا مگر شرع کے خلاف کرنے پر اس کو اس سے منع کیا جائے گا۔ اکثر علماء محققین نے اس فرق کو مانا ہے، اور بعضوں نے اس باب میں دونوں کا حکم ایک سا رکھا ہے جو فعل ایک کے ساتھ کفر ہے وہ دوسرے کے ساتھ بھی کفر ہے، مثلاً بت کا سجدہ بھی کفر ہے اور قبر کا سجدہ بھی کفر ہے البتہ فرق یہ ہے کہ بت کی اہانت و تذلیل اور اس کے توڑنے کا حکم ہے، اور مومنین صالحین کی قبریں کھودنے کا حکم نہیں ہے اور یہ فرقہ کہتا ہے کہ انبیاء، اولیاء، ملائکہ اور شعائر اللہ کی تعظیم درحقیقت اللہ کی ہی تعظیم ہے کیونکہ اللہ ہی کے حکم سے اللہ کا مقبول بندہ سمجھ کر اس کی تعظیم کرتے ہیں، پس یہ غیر اللہ کی تعظیم نہیں ہوئی بلکہ صلحاء کی تعظیم ہوئی، وہ اس میں مستثنیٰ رہے گی، اس لیے کہ وہ اللہ ہی کی تعظیم ہے۔ اس فائدہ کو یاد رکھنا چاہیے اور ممکنہ حد تک جس کام میں شرک شک و شبہ بھی ہو اسے باز رہنا چاہیے۔

【9】

جس نے ماسوا اسلام کے کسی دین میں چلے جانے کی قسم کھائی۔

ثابت بن ضحاک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اسلام کے سوا کسی اور دین میں چلے جانے کی جھوٹی قسم جان بوجھ کر کھائی، تو وہ ویسے ہی ہوگا جیسا اس نے کہا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٣ (١٣٦٣) ، الأدب ٤٤ (٦٠٤٧) ، ٧٣ (٦١٠٥) ، الأیمان ٧ (٦٦٥٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٧ (١١٠) ، سنن ابی داود/الأیمان ٩ (٣٢٥٧) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٥ (١٥٤٣) ، سنن النسائی/الأیمان ٦ (٣٨٠١) ، ٣١ (٣٨٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٣، ٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مثلاً یوں کہا : اگر میں فلاں کام کروں تو یہودی ہوں، یا نصرانی ہوں، یا اسلام سے یا نبی سے بری ہوں۔ اور اس کی طرح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کافر ہوجائے گا، اور اسلام سے نکل جائے گا، ظاہر حدیث کا یہی مطلب ہے، واضح رہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اتنی سختی سے یہ بات اس لیے فرمائی کہ لوگ ایسا کہنے سے بچیں، ورنہ اگر اس کا عقیدہ اسلام کا ہے تو کافر نہ ہوگا۔

【10】

جس نے ماسوا اسلام کے کسی دین میں چلے جانے کی قسم کھائی۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا کہ اگر میں ایسا کروں تو یہودی ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس پر یہ قسم واجب ہوگئی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣١٠، ومصباح الزجاجة : ٧٣٧) (ضعیف جدا) ( سند میں بقیہ بن ولید مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور عبد اللہ بن محرر منکر الحدیث اور متروک ہے )

【11】

جس نے ماسوا اسلام کے کسی دین میں چلے جانے کی قسم کھائی۔

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کہے اگر ایسا کروں تو اسلام سے بری ہوں، اگر وہ جھوٹا ہے تو ویسا ہی ہے جیسا اس نے کہا، اور اگر وہ اپنی بات میں سچا ہے تو بھی اسلام کی جانب صحیح سالم سے نہیں لوٹے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان ٩ (٣٢٥٨) ، سنن النسائی/الأیمان ٧ (٣٨٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٩٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٥، ٣٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ اس نے اسلام کی عظمت تسلیم نہیں کی، اور دین کو ایسا حقیر سمجھا کہ بات بات پر اس سے جدا ہوجانے کی شرط لگاتا ہے، مسلمان کو ہرگز ایسی شرط نہ لگانی چاہیے، گو وہ کتنا ہی بڑا کام ہو، اپنا دین سب سے زیادہ پیارا ہے، اور سب پر مقدم ہے، کوئی کام ہو یا نہ ہو، دین کی شرط لگانے سے کیا فائدہ ؟ اور حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جو کوئی ایسی شرط لگائے، پھر اس میں سچا بھی ہو جب بھی گنہگار ہوگا، اور اس کے دین میں خلل آئے گا۔

【12】

جس کے سامنے اللہ کی قسم کھائی جائے اس کو راضی بہ رضا ہوجانا چاہئے۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا : اپنے باپ دادا کی قسمیں نہ کھاؤ، جو شخص اللہ کی قسم کھائے تو چاہیئے کہ وہ سچ کہے، اور جس سے اللہ کی قسم کھا کر کوئی بات کہی جائے تو اس کو راضی ہونا چاہیئے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے نام پہ راضی نہ ہو وہ اللہ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٤٣٩، ومصباح الزجاجة : ٧٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ جب مسلمان نے اللہ کی قسم کھائی، تو اب اس کے بیان کو مان لینا اور اس پر رضا مند ہوجانا چاہیے، اب اس سے یوں نہ کہنا چاہیے کہ تمہاری قسم جھوٹی ہے، یا اللہ کے سوا اب کسی اور شخص کی اس کو قسم نہ کھلانی چاہیے، جیسے جاہلوں کا ہمارے زمانہ میں حال ہے کہ اللہ کی قسم کھانے پر ان کی تسلی نہیں ہوتی، اور اس کے بعد پیر و مرشد یا نبی و رسول یا کعبہ یا ماں باپ کی قسم کھلاتے ہیں، یہ نری حماقت اور سراسر جہالت ہے، اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کسی کا درجہ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے برابر بھی کوئی نہیں ہے، سب سے زیادہ مومن کو اللہ کے نام کی حرمت و عزت اور عظمت کرنی چاہیے، اور احتیاط رکھنی چاہیے کہ اول تو اللہ کے سوا اور کسی کی قسم ہی نہ کھائے، اور اگر عادت کے طور پر اور کسی کے نام کی قسم نکل جائے اور جھوٹ اور غلط ہوجائے تو فوراً لا إِلَهَ إِلا الله کہے یعنی میں اللہ رب العالمین کے سوا کسی اور کو اس معاملے میں عظمت و احترام کے لائق نہیں جانتا غیر کے الفاظ تو یونہی سہواً یا عادتاً میرے زبان سے نکل گئے تھے، مگر ایک بات یاد رہے کہ اللہ کے نام کی کبھی جھوٹی قسم نہ کھائے، اگر پیر، رسول، نبی، مرشد، ولی، غوث اور قطب وغیرہ کے نام پر لاکھوں قسمیں جھوٹ ہوجائیں تو اتنا ڈر نہیں ہے جتنا اللہ تعالیٰ کے نام کی ایک قسم جھوٹ ہونے سے ہے، یہ حکم مسلمانوں کے لئے ہے کہ جب وہ اللہ کی قسم کھا لیں تو اب زیادہ تکلیف ان کو نہ دی جائے کہ وہ کسی اور کے نام کی بھی قسم کھائیں۔

【13】

جس کے سامنے اللہ کی قسم کھائی جائے اس کو راضی بہ رضا ہوجانا چاہئے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے ایک شخص کو چوری کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : تم نے چوری کی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : میں اللہ پر ایمان لایا، اور میں نے اپنی آنکھ کو جھٹلا دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : (١٤٨١٦) )، وقد آخرجہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٤٨ (٣٤٤٣ تعلیقاً ) ، صحیح مسلم/الفضائل ٤٠ (٢٣٦٨) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٣٦ (٥٤٢٩) ، مسند احمد (٢/٣١٤، ٣٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اللہ کی عظمت کے سامنے میری آنکھ کی کوئی حقیقت نہیں ہے، ممکن ہے کہ مجھ کو دھوکا ہوا ہو، آنکھ نے دیکھنے میں غلطی کی ہو، لیکن یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا کہ مسلمان کی قسم کو جھٹلاؤں، ہمیشہ صالح، نیک اور بزرگ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب مسلمان ان کے سامنے قسم کھا لیتا ہے تو ان کو یقین آجاتا ہے، اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ مسلمان کبھی جھوٹی قسم نہیں کھائے گا۔

【14】

قسم کھانے میں یا قسم توڑنا ہوتا ہے یا شرمندگی۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم یا تو حنث (قسم توڑنا) ہے یا ندامت (شرمندگی) ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤٣٤، ومصباح الزجاجة : ٧٣٩) (ضعیف) (سند میں بشار بن کدام ضعیف راوی ہے ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ قسم اکثر ان دونوں باتوں سے خالی نہیں ہوتی، آدمی اکثر غصے میں بےسوچے سمجھے قسم کھا بیٹھتا ہے کہ فلانی چیز نہ کھائیں گے، یا فلانے سے بات نہ کریں گے، پھر ایسی ضرورت پیش آتی ہے کہ قسم توڑنی پڑتی ہے، اور جب توڑے تو کفارہ دینا پڑا، مال بےفائدہ خرچ ہوا، اور ندامت اور شرمندگی بھی ہوئی، اگر نہ توڑا تو بھی ندامت ہوئی کہ قسم کی وجہ سے ایک لذت سے محروم رہے۔

【15】

قسم میں انشاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا) کہہ دیا تو ؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قسم کھائی، اور إن شاء الله کہا، تو اس کا إن شاء الله کہنا اسے فائدہ دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأیمان والنذور ٧ (١٥٣٢) ، سنن النسائی/الإیمان والنذور ٤٢ (٣٨٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فائدہ یہ ہوگا کہ اگر قسم کے خلاف بھی کرے تو کفارہ لازم نہ ہوگا، اور آدمی جھوٹا نہ ہوگا، اس لئے کہ اس کی قسم اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت پر معلق تھی، معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا نہ چاہا تو اس نے قسم کے خلاف عمل کیا، یہ قسم کے کفارے سے بچنے کا عمدہ طریقہ ہے، صحیحین میں ہے کہ سلیمان بن داود (علیہما الصلاۃ والسلام) نے فرمایا : میں آج کی رات ستر عورتوں کے پاس جاؤں گا، اخیر حدیث تک، اس میں یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر وہ انشاء اللہ کہتے تو ان کی بات غلط نہ ہوتی ، اور جمہور کا مذہب ہے کہ جب قسم میں إن شاء الله لگا دے تو وہ منعقد نہ ہوگی، یعنی توڑنے میں کفارہ واجب نہ ہوگا، لیکن شرط یہ ہے کہ إن شاء الله قسم کے ساتھ ہی کہے۔

【16】

قسم میں انشاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا) کہہ دیا تو ؟

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قسم کھائی، اور إن شاء الله کہا، تو وہ چاہے قسم کے خلاف کرے، یا قسم کے موافق، حانث یعنی قسم توڑنے والا نہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان والنذور ١١ (٣٢٦١، ٣٢٦٢) ، سنن الترمذی/الأیمان والنذور ٧ (١٥٣١) ، سنن النسائی/الأیمان ١٨ (٣٨٢٤) ، ٣٩ (٣٨٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٥١٧) ، موطا امام مالک/النذ ور ٦ (١٠) ، مسند احمد (٢/٦، ١٠، ٤٨، ١٥٣) ، سنن الدارمی/النذور ٧ (٢٣٨٨) (صحیح )

【17】

قسم میں انشاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا) کہہ دیا تو ؟

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جس نے قسم کھائی اور إن شاء الله کہا، وہ حانث یعنی قسم توڑنے والا نہ ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٧٥١٧) (صحیح )

【18】

قسم اٹھالی پھر خیال ہوا کہ اس کے خلاف کرنابہتر ہے تو۔

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اشعری قبیلہ کے چند لوگوں کے ہمراہ آپ سے سواری مانگنے کے لیے حاضر ہوا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں تم کو سواری نہیں دوں گا، اور میرے پاس سواری ہے بھی نہیں کہ تم کو دوں ، پھر ہم جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، پھر آپ کے پاس زکاۃ کے اونٹ آگئے، تو آپ ﷺ نے ہمارے لیے سفید کوہان والے تین اونٹ دینے کا حکم دیا، جب ہم انہیں لے کر چلے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس سواری مانگنے گئے تو آپ نے قسم کھالی کہ ہم کو سواری نہ دیں گے، پھر ہم کو سواری دی ؟ چلو واپس آپ کے پاس لوٹ چلو، آخر ہم آپ کے پاس آئے اور ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم آپ کے پاس سواری مانگنے آئے تھے تو آپ نے قسم کھالی تھی کہ ہم کو سواری نہ دیں گے، پھر آپ نے ہم کو سواری دے دی، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں نے تم کو سواری نہیں دی ہے بلکہ اللہ نے دی ہے، اللہ کی قسم ! انشاء اللہ میں جب کوئی قسم کھاتا ہوں، پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھتا ہوں، تو اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں اور جو کام بہتر ہوتا ہے اس کو کرتا ہوں یا یوں فرمایا : جو کام بہتر ہوتا ہے اس کو کرتا ہوں، اور قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ١٥ (٣١٣٣) ، المغازي ٧٤ (٤٣٨٥) ، الصید ٢٦ (٥٥١٧، ٥٥١٨) ، ا لأیمان ١ (٦٦٢٣) ، ٤ (٦٦٤٩) ، ١٨ (٦٦٨٠) ، کفارات الأیمان ٩ (٦٧١٨) ، ١٠ (٦٧١٩) ، التوحید ٥٦ (٧٥٥٥) ، صحیح مسلم/الأیمان ٣ (١٦٤٩) ، سنن ابی داود/الأیمان والنذور ١٧ (٢٢٧٦) ، سنن النسائی/الأیمان والنذور ١٤ (٣٨١١) ، (تحفة الأشراف : ٩١٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٨، ٤٠١، ٤٠٤، ٤١٨) (صحیح )

【19】

قسم اٹھالی پھر خیال ہوا کہ اس کے خلاف کرنابہتر ہے تو۔

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے قسم کھائی، اور اس کے خلاف کرنے کو بہتر سمجھا تو جو بہتر ہو اس کو کرے، اور اپنی قسم کا کفارہ دیدے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان ٣ (١٦٥١) ، سنن النسائی/الأیمان ١٥ (٣٨١٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٦، ٢٥٧، ٢٥٨، ٢٥٩) ، سنن الدارمی/النذور ٩ (٢٣٩٠) (صحیح )

【20】

قسم اٹھالی پھر خیال ہوا کہ اس کے خلاف کرنابہتر ہے تو۔

مالک جشمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرا چچا زاد بھائی میرے پاس آتا ہے، اور میں قسم کھا لیتا ہوں کہ اس کو کچھ نہ دوں گا، اور نہ ہی اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا : اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الأیمان والنذور ١٥ (٣٨١٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٦، ١٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو، اور یہ قسم کے خلاف بہتر کام ہے لہذا قسم کو توڑ دو ، اور اس کا کفارہ ادا کرو۔

【21】

نامناسب قسم کا کفارہ اس نامناسب کام کو نہ کرنا ہے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے رشتہ توڑنے کی قسم کھائی، یا کسی ایسی چیز کی قسم کھائی جو درست نہیں، تو اس قسم کا پورا کرنا یہ ہے کہ اسے چھوڑ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٩، ومصباح الزجاجة : ٧٤٠) (صحیح) (سند میں حارثہ ضعیف راوی ہیں، لیکن مشکل الآثار ١ /٢٨٧، میں قوی شاہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٣٣٤ )

【22】

نامناسب قسم کا کفارہ اس نامناسب کام کو نہ کرنا ہے۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے قسم کھائی، پھر اس کے خلاف کرنا اس سے بہتر سمجھا، تو قسم توڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفردبہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٦٢، ومصباح الزجاجة : ٧٤١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأیمان والنذور ١٥ (٣٢٧٤) ، سنن النسائی/الأیمان ١٦ (٣٨٢٣) ، مسند احمد (٢/٢١٢) (منکر) (سند میں عون بن عمارہ منکر الحدیث راوی ہے، ملاحظہ ہو : إلارواء : ٧ / ١٦٨، سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٣٦٥ )

【23】

قسم کے کفارہ میں کتناکھلائے۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صاع کھجور کفارہ میں دی، میں لوگوں کو اسی کا حکم دیتا ہوں، تو جس کسی کے پاس ایک صاع کھجور نہ ہو تو آدھا صاع گیہوں دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٦٣٦، ومصباح الزجاجة : ٧٤٢) (ضعیف) (سند میں عمر بن عبد اللہ ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: صاع : تقریبا ڈھائی کلو کا ہوتا ہے۔

【24】

قسم کے کفارہ میں میانہ روی کے ساتھ کھلانا۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ بعض آدمی اپنے گھر والوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں جس میں فراخی ہوتی ہے، اور بعض آدمی تنگی کے ساتھ دیتے ہیں تب یہ آیت اتری : من أوسط ما تطعمون أهليكم مسکینوں کو وہ کھانا دو جو درمیانی قسم کا اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٥١٨، ومصباح الزجاجة : ٧٤٣) (صحیح الإسناد )

【25】

اپنی قسم پر اصرار کرنے اور کفارہ نہ دینے سے ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے کہ اللہ کے رسول ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنی قسم پر اصرار کرے، تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کفارے سے زیادہ گنہگار ہوگا، جس کی ادائیگی کا اسے حکم دیا گیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٧٩٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأیمان ١ (٦٦٢٥) ، صحیح مسلم/الأیمان ٦ (١٦٥٥) ، مسند احمد (٢/٢٧٨، ٣١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کفارہ ہمیشہ گناہ کا ہوتا ہے، تو قسم کا توڑنا بھی ایک گناہ ہے، اس لئے کہ اس میں اللہ کے نام کی بےحرمتی ہے، اسی کے نام پر کفارہ مقرر ہوا ہے، لیکن بری قسم کا نہ توڑنا، توڑنے سے زیادہ گناہ ہے۔ اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الإیمان والنذور ١ (٦٦٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٥٦ )

【26】

قسم کھانے والوں کو قسم پوری کرنے میں مدد دینا۔

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں قسم دینے والے کی قسم پوری کرنے کا حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢ (١٢٣٩) ، المظالم ٥ (٢٤٤٥) ، النکاح ٧١ (٥١٧٥) ، الأشربة ٣٨ (٥٦٣٥) ، المرضی ٤ (٥٦٥٠) ، اللباس ٣٦ (٥٨٤٩) ، ٤٥ (٥٨٦٣) ، الأدب ١٢٤ (٥٨٤٩) ، الاستئذان ٨ (٦٢٣٥) ، صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٦٦) ، سنن الترمذی/الأدب ٤٥ (٢٨٠٩) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٣ (١٩٤١) ، الأیمان ١٢ (٣٨٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٩١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٤، ٢٨٧، ٢٩٩) (صحیح )

【27】

قسم کھانے والوں کو قسم پوری کرنے میں مدد دینا۔

عبدالرحمٰن بن صفوان یا صفوان بن عبدالرحمٰن قرشی کہتے ہیں کہ جس دن مکہ فتح ہوا، وہ اپنے والد کو لے کر آئے، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے والد کو ہجرت کے ثواب سے ایک حصہ دلوائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : اب ہجرت نہیں ہے، آخر وہ چلا گیا، اور عباس (رض) کے پاس آیا، اور کہنے لگا : آپ نے مجھے پہچانا ؟ انہوں نے کہا : ہاں، پھر عباس (رض) ایک قمیص پہنے ہوئے نکلے ان پر چادر بھی نہ تھی عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھ میں اور فلاں شخص میں جو تعلقات ہیں وہ آپ کو معلوم ہیں، اور وہ اپنے والد کو لے کر آیا ہے تاکہ آپ اس سے ہجرت پہ بیعت کرلیں ١ ؎، آپ ﷺ نے فرمایا : اب ہجرت نہیں رہی ، عباس (رض) نے کہا : میں آپ کو قسم دیتا ہوں، یہ سن کر آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا، اور اس کا ہاتھ چھو لیا، اور فرمایا : میں نے اپنے چچا کی قسم پوری کی، لیکن ہجرت تو نہیں رہی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٧٠٤، ومصباح الزجاجة : ٧٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٠) (ضعیف) (سند میں یزید بن آبی زیاد ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یعنی میرے اور آپ کے درمیان جو دوستی ہے، اب اس کا حق ادا کیجیے، اور ہجرت کا ثواب دلوائیے۔ یزید بن ابی زیاد کہتے ہیں کہ اس شہر سے ہجرت نہیں جس کے رہنے والے مسلمان ہوگئے ہوں۔ اس سند سے بھی یزید بن ابی زیاد نے ایسے ہی روایت کی ہے، اور سند دونوں کی ایک ہی ہے۔

【28】

ماشاء اللہ وشئت (جو اللہ اور آپ چاہیں) کہنے کی ممانعت۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص قسم کھائے تو ما شاء الله وشئت جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں نہ کہے، بلکہ یوں کہے : ما شاء الله ثم شئت جو اللہ چاہے پھر آپ چاہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٥٢، ومصباح الزجاجة : ٧٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٤، ٢٢٤، ٢٨٣، ٣٤٧) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لئے کہ اس میں مخاطب کو اللہ کے ساتھ کردیا ہے جس سے شرک کی بو آتی ہے، اگرچہ مومن کی نیت شرک کی نہیں ہوتی پھر بھی ایسی بات کہنی جس میں شرک کا وہم ہو منع ہے۔

【29】

ماشاء اللہ وشئت (جو اللہ اور آپ چاہیں) کہنے کی ممانعت۔

حذیفہ بن یمان (رض) سے روایت ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ وہ اہل کتاب کے ایک شخص سے ملا تو اس نے کہا : تم کیا ہی اچھے لوگ ہوتے اگر شرک نہ کرتے، تم کہتے ہو : جو اللہ چاہے اور محمد چاہیں، اس مسلمان نے یہ خواب نبی اکرم ﷺ سے بیان کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں اس بات کو جانتا ہوں (کہ ایسا کہنے میں شرک کی بو ہے) ۔ لہٰذا تم ما شاء الله ثم شاء محمد جو اللہ چاہے پھر محمد چاہیں کہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تجفة الأشراف : ٣٣١٨، ومصباح الزجاجة : ٧٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣٩٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اللہ کے بعد محمد کو رکھو تو حرج نہیں اس لئے کہ اللہ کے برابر کوئی نہیں، سب اس کے بندے اور غلام ہیں، جب نبی کریم ﷺ نے اپنی نسبت ایسا کہنے سے منع فرمایا تو اب کسی ولی، پیر و مرشد اور فقیر و درویش کی کیا بساط ہے کہ وہ کسی کام کے کرنے یا ہونے یا نہ ہونے میں اللہ کے نام کے ساتھ شریک ہوجائے۔ اس سند سے ام المؤمنین عائشہ (رض) کے علاتی بھائی طفیل بن سخبرہ (رض) سے بھی اسی طرح کی مرفوعاً روایت آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٩٢، ومصباح الزجاجة : ٧٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧٢، ٣٩٨ )

【30】

قسم میں توریہ کرلینا۔

سوید بن حنظلہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہونے کے ارادے سے نکلے، اور ہمارے ساتھ وائل بن حجر (رض) بھی تھے، ان کو ان کے ایک دشمن نے پکڑ لیا، تو لوگوں نے قسم کھانے میں حرج محسوس کیا، آخر میں نے قسم کھائی کہ یہ میرا بھائی ہے، تو اس نے انہیں چھوڑ دیا، ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور میں نے آپ کو بتایا کہ لوگوں نے قسم کھانے میں حرج محسوس کیا، اور میں نے قسم کھائی کہ یہ میرا بھائی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے سچ کہا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان ٨ (٣٢٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٧٩) (ضعیف) (قصہ کے تذکرہ کے ساتھ یہ ضعیف ہے لیکن مرفوع حدیث صحیح ہے )

【31】

قسم میں توریہ کرلینا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم کا اعتبار صرف قسم دلانے والے کی نیت پر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان ٤ (١٦٥٣) ، سنن ابی داود/الأیمان ٧ (٣٢٥٥) ، سنن الترمذی/الأحکام ١ (١٣٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٢٦) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/النذور ١١ (٢٣٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گو قسم کھانے والا دوسرا کچھ مطلب رکھ کر قسم کھائے یعنی توریہ کرے تو اس کا توریہ اس کو مفید نہ ہوگا بلکہ جھوٹی قسم کا وبال اس پر ہوگا، اس حدیث کا محل یہ ہے کہ جب کوئی شخص قسم کھا کر دوسرے کا حق دبانا چاہے اور اگلی حدیث کا محل یہ ہے کہ جب کسی مسلمان کی ظالم کے ظلم سے جان یا عزت بچانی مقصود ہو، اور دونوں قسموں میں منافات نہ ہوگی۔ امام احمد (رح) کا قول اس حدیث کے موافق ہے۔

【32】

قسم میں توریہ کرلینا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہاری قسم اسی مطلب پر واقع ہوگی جس پر تمہارا ساتھی تمہاری تصدیق کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث بھی اس مقام پر محمول ہے کہ معاملات میں آدمی قسم کھائے تو قسم دینے والے کے مطلب پر ہوگی، جیسے اگلی حدیث ہے۔

【33】

منت ماننے سے ممانعت۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نذر سے منع کرتے ہوئے فرمایا : اس سے صرف بخیل کا مال نکالا جاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/القدر ٦ (٦٦٠٨) ، الأیمان ٢٦ (٦٦٩٣) ، صحیح مسلم/النذور ٢ (١٦٣٩) ، سنن ابی داود/الایمان ٢١ (٣٢٨٧) ، سنن النسائی/الایمان ٢٤ (٣٨٣٢، ٣٨٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦١، ٨٦، ١٨) ، سنن الدارمی/النذور ٥ (٢٣٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بخیل بغیر مصیبت پڑے خرچ نہیں کرتا، جب آفت آتی ہے تو نذر مانتا ہے، اس وجہ سے نذر کو نبی کریم ﷺ نے مکروہ جانا کیونکہ وہ بخلاء کا شعار ہے، اور سخی تو بغیر نذر کے اللہ کی راہ میں ہمیشہ خرچ کرتے ہیں، اور بعضوں نے کہا : نذر سے ممانعت اس حال میں ہے جب یہ سمجھ کر نذر کرے کہ اس کی وجہ سے تقدیر بدل جائے گی، یا مقدر میں جو آفت ہے، وہ ٹل جائے گی۔

【34】

منت ماننے سے ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نذر سے آدمی کو کچھ نہیں ملتا مگر وہ جو اس کے لیے مقدر کردیا گیا ہے، لیکن آدمی کی تقدیر میں جو ہوتا ہے وہ نذر پر غالب آجاتا ہے، تو اس نذر سے بخیل کا مال نکالا جاتا ہے، اور اس پہ وہ بات آسان کردی جاتی ہے، جو پہلے آسان نہ تھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تو مال خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٧٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأیمان ٢٦ (٦٦٩٢) ، صحیح مسلم/النذر ٢ (١٦٤٠) ، سنن ابی داود/الأیمان ٢١ (٣٢٨٨) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٠ (١٥٣٨) ، سنن النسائی/الأیمان ٢٥ (٣٨٣٦) ، مسند احمد (٢/٢٣٥، ٢٤٢، ٣٠١، ٣١٤، ٤١٢، ٤٦٣) (صحیح )

【35】

معصیت کی منت ماننا۔

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معصیت (گناہ) میں نذر نہیں ہے، اور نہ اس میں نذر ہے جس کا آدمی مالک نہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النذر ٣ (١٦٤١) ، سنن ابی داود/الأیمان ٢٨ (٣٣١٦) ، سنن النسائی/الأیمان ٣٠ (٣٨٤٣) ، ٤١ (٣٨٨٠) ، (تحفة الأشرف : ١٠٨٨٤، ١٠٨٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٢٩، ٤٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مثلاً دوسرے کے غلام آزاد کرنے کی نذر کرے۔

【36】

معصیت کی منت ماننا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معصیت (گناہ) میں نذر نہیں ہے، اور ایسی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان ٢٢ (٣٢٩٠، ٣٢٩١) ، سنن الترمذی/الایمان ٢ (١٥٢٤) ، سنن النسائی/الأیمان ٤٠ (٣٨٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٧٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأیمان ٢٨ (٦٦٩٦) ، ٣١ (٦٧٠٠) ، موطا امام مالک/النذور ٤ (٨) ، مسند احمد (٦/٣٦، ٤١، ٢٢٤) ، سنن الدارمی/النذور ٣ (٢٣٨٣) (صحیح )

【37】

معصیت کی منت ماننا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نذر مانی ہو وہ اس کی اطاعت کرے، اور جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی نذر مانی ہو تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان والنذور ٢٨ (٦٦٩٦) ، ٣١ (٦٧٠٠) ، سنن ابی داود/الإیمان والنذور ٢٢ (٣٢٨٩) ، سنن الترمذی/النذور الإیمان ٢ (١٥٢٦) ، سنن النسائی/الإیمان والنذور ٢٦ (٣٨٣٧) ، ٢٧ (٣٨٣٨، ٣٨٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٥٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النذور (٨) ، مسند احمد (٦/٣٦، ٤١، ٢٢٤، سنن الدارمی/النذور ٣ (٢٣٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آیت کریمہ : يُوفُونَ بِالنَّذْرِ (سورة الإنسان : 7) سے مراد یہی اطاعت کی نذر ہے، طبری نے باسناد صحیح قتادہ سے آیت کریمہ :يُوفُونَ بِالنَّذْرِ کی تفسیر نقل کی ہے کہ اگلے لوگ صوم، صلاۃ، زکاۃ، حج و عمرہ اور فرائض کی نذر کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ابرار کہا، اور احمد، ابوداود نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : نذر صرف وہی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی مطلوب ہو ۔

【38】

جس نے نذر مانی لیکن اسکی تعین نہ کی (کہ کس بات پر منت مان رہا ہے؟)

عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے نذر مانی، اور اس کی تعیین نہ کی تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/النذر ٥ (١٦٤٥) ، سنن ابی داود/الأیمان ٣١ (٣٣٢٣) ، سنن الترمذی/الأیمان ٤ (١٥٢٨) ، سنن النسائی/الأیمان ٤٠ (٣٨٦٣) ، مسند احمد (٤/١٤٤، ١٤٦، ١٤٧) (صحیح) دون قولہ اذا لم یسمّہ من غیر ھذا السند وأما ھذا السند فضعیف لأجل إسماعیل بن رافع (ملاحظہ ہو : إلارواء : ٢٥٨٦ )

【39】

جس نے نذر مانی لیکن اسکی تعین نہ کی (کہ کس بات پر منت مان رہا ہے؟)

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے نذر مانی اور اس کی تعیین نہ کی، تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے، اور جس نے ایسی نذر مانی جس کے پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے، اور جس نے ایسی نذر مانی جس کے پورا کرنے کی طاقت ہو تو اس کو پورا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان والنذور ٣٠ (٣٣٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٤١) (ضعیف جدا) (سند میں خارجہ بن مصعب متروک راوی ہے جو کذابین سے تدلیس کرتا تھا، صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٨ / ٢١١ )

【40】

منت پوری کرنا۔

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی، پھر اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا، تو آپ ﷺ نے مجھے اپنی نذر پوری کرنے کا حکم دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ٥ (٢٠٣٢) ، ١٥ (٢٠٤٢) ، ١٦ (٢٠٤٣) ، صحیح مسلم/الأیمان ٦ (١٦٥٦) ، سنن ابی داود/الصوم ٨٠ (٢٤٧٤) ، الأیمان ٣٢ (٣٣٢٥) ، سنن الترمذی/الأیمان ١١ (١٥٣٩) ، سنن النسائی/الأیمان ٣٥ (٣٨٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧، ٢/٢٠، ٨٢، ١٥٣) ، سنن الدارمی/النذور ١ (٢٣٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کافر یا مشرک حالت شرک و کفر میں کسی نیک کام کی نذر مانے جیسے اعتکاف یا صدقہ وغیرہ اور پھر اس کے بعد اسلام لے آئے تو اس نذر کا پورا کرنا واجب ہے۔

【41】

منت پوری کرنا۔

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے مقام بوانہ میں قربانی کرنے کی نذر مانی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے دل میں جاہلیت کا کوئی اعتقاد باقی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٤٨٦، ومصباح الزجاجة : ٧٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مکہ کے نشیب میں یا ینبوع کے پیچھے ایک جگہ ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بت یا قبر جس کی لوگ پوجا کریں، اس پر ذبح کرنا جائز نہیں، اور جو جانور اولیاء اللہ کی قبروں پر ذبح کئے جاتے ہیں اور انہی کے نام پر پالے جاتے ہیں ان کا کھانا حرام ہے، اگرچہ ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے، کیونکہ مقصود ان کے ذبح کرنے سے غیر اللہ کی تعظیم ہے، تو وہ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ (سورة البقرة : 173) میں سے ہوا۔

【42】

منت پوری کرنا۔

میمونہ بنت کردم یساریہ (رض) سے روایت ہے کہ ان کے والد نے نبی اکرم ﷺ سے ملاقات کی، وہ اس وقت اپنے والد کے پیچھے ایک اونٹ پر بیٹھی تھیں، والد نے کہا : میں نے مقام بوانہ میں اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہاں کوئی بت ہے ؟ کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٩٢، ومصباح الزجاجة : ٧٥١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأیمان ٢٧ (٣٣١٤) ، مسند احمد (٦/٣٦٦) (صحیح ) اس سند سے بھی میمونہ بنت کردم (رض) سے اسی طرح روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ١٨٠٩٢) (یزید بن مقسم نے میمونہ سے نہیں سنا ہے، اس لئے اس میں انقطاع ہے )

【43】

جو شخص مرجائے حالانکہ اس کی ذمہ نذرہو۔

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے فتویٰ پوچھا کہ میری ماں کے ذمہ ایک نذر تھی وہ مرگئیں، اور اس کو ادا نہ کرسکیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم ان کی جانب سے اسے پوری کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١٩ (٢٧٦١) ، الأیمان والنذور ٣٠ (٦٦٩٨) ، الحیل ٣ (٦٩٥٩) ، صحیح مسلم/النذور ١ (١٦٣٨) ، سنن ابی داود/الأیمان ٢٥ (٣٣٠٧) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٩ (١٥٤٦) ، سنن النسائی/الوصایا ٨ (٣٦٨٦) ، الأیمان ٣٤ (٣٨٤٨، ٣٨٤٩، ٣٨٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النذور ١ (١) ، مسند احمد (١/٢١٩، ٣٢٩) (صحیح )

【44】

جو شخص مرجائے حالانکہ اس کی ذمہ نذرہو۔

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی، اور اس نے کہا : میری ماں کا انتقال ہوگیا، اور ان کے ذمہ روزوں کی نذر تھی، اور وہ اس کی ادائیگی سے پہلے وفات پا گئیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان کا ولی ان کی جانب سے روزے رکھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٥٥٤) (صحیح) (سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٢٠٧٧ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے نذر کا روزہ ہو یا نماز اس کا ولی رکھ سکتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے ایک عورت کو جس کی ماں نے قبا میں نماز پڑھنے کی نذر مانی تھی اور وہ مرگئی تھی، حکم دیا کہ تم اس کی طرف سے پڑھ لو۔

【45】

پیدل حج کی منت ماننا۔

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ ان کی بہن نے نذر مانی کہ ننگے پاؤں، ننگے سر اور پیدل چل کر حج کے لیے جائیں گی، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے حکم دو کہ سوار ہوجائے، دوپٹہ اوڑھ لے، اور تین دن کے روزے رکھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان ٢٣ (٣٢٩٣، ٣٢٩٤) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٦ (١٥٤٤) ، سنن النسائی/الأیمان ٣٢ (٣٨٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٤٣، ٤/ ١٤٥، ١٤٩، ١٥١) ، سنن الدارمی/النذور ٢ (٢٣٧٩) (ضعیف) (سند میں عبید اللہ بن زحر ضعیف راوی ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی قسم کو توڑ دے، اور بطور کفارہ تین دن کے روزے رکھے۔

【46】

پیدل حج کی منت ماننا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک بوڑھے کو دیکھا کہ اپنے دو بیٹوں کے درمیان چل رہا ہے، آپ ﷺ نے پوچھا : اس کا کیا معاملہ ہے ؟ اس کے بیٹوں نے کہا : اس نے نذر مانی ہے، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : بوڑھے سوار ہوجاؤ، اللہ تم سے اور تمہاری نذر سے بےنیاز ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النذ ر ٤ (١٦٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٧٣) ، سنن الدارمی/النذور ٢ (٢٣٨١) (صحیح )

【47】

منت میں طاعت ومعصیت جمع کردینا۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں ایک آدمی کے پاس سے گزرے، وہ دھوپ میں کھڑا تھا، آپ ﷺ نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : اس نے نذر مانی ہے کہ وہ روزہ رکھے گا، اور رات تک سایہ میں نہیں رہے گا، اور نہ بولے گا، اور برابر کھڑا رہے گا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کو چاہیئے کہ بولے، سایہ میں آجائے، بیٹھ جائے اور اپنا روزہ پورا کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٩٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس شخص نے بری اور اچھی دونوں کو ملا کر نذر کی تھی جیسے روزہ جس کا رکھنا ایک اچھا اور ثواب کا کام ہے، لیکن کسی سے بات نہ کرنا یہ لغو اور بےکار چیز ہے، بلکہ گناہ ہے، تو آپ ﷺ نے بری باتوں کو ختم کردیا، اور اچھی بات کے پورا کرنے کا حکم دیا۔ اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی مرفوعاً روایت آئی ہے۔ واللہ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان والنذور ٣١ (٦٧٠٤) ، سنن ابی داود/الأیمان ٢٣ (٣٣٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٩١ )