8. طلاق کا بیان

【1】

عورت کو مرد کے خلاف برگشتہ کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی عورت کو اس کے شوہر سے یا غلام کو مالک سے برگشتہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : * تخريج : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٤٨١٧) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری/ عشرة النساء (٩٢١٤) ، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (٥١٧٠) ، مسند احمد (٢/٣٩٧) (صحیح )

【2】

عورت اپنے ہونے والے شوہر سے اسکی پہلی والی بیوی کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کا پیالہ خالی کرا لے (یعنی اس کا حصہ خود لے لے) اور خود نکاح کرلے، جو اس کے مقدر میں ہوگا وہ اسے ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٨ (٢١٠٤) ، والشروط ٨ (٢٧٢٣) ، والنکاح ٤٥ (٥١٤٤) ، سنن النسائی/النکاح ٢٠ (٣٢٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨١٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/النکاح ٤ (١٤٠٨) ، سنن الترمذی/الطلاق ١٤ (١١٩٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٠ (١٨٦٧) ، موطا امام مالک/النکاح ١(١) ، مسند احمد (٢/٢٣٨، ٢٧٤، ٣١١، ٣١٨، ٣٩٤) (صحیح )

【3】

طلاق انتہائی نا پسندیدہ عمل ہے

محارب کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ کوئی چیز نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٤١١، ١٩٢٨١) (ضعیف) (مرسل ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے )

【4】

طلاق انتہائی نا پسندیدہ عمل ہے

عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطلاق ١ (٢٠١٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٤١١) (ضعیف) (اس کے راوی کثیر بن عبید لین الحدیث ہیں، اس حدیث کا مرسل ہونا ہی صحیح ہے مرسل کے رواة عدد میں زیادہ اور اوثق ہیں اور مرسل حدیث ضعیف ہوتی ہے )

【5】

مسنون طریقہ پر طلاق دینے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، تو عمر بن خطاب (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے، پھر اسے روکے رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے، پھر حیض آجائے، پھر پاک ہوجائے، پھر اس کے بعد اگر چاہے تو رکھے، ورنہ چھونے سے پہلے طلاق دیدے، یہی وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کے سلسلے میں حکم دیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق (٤٩٠٨) ، والطلاق ٢ (٥٢٥٢) ، ٣ (٥٢٥٨) ، ٤٥ (٥٣٣٣) ، والأحکام ١٣ (٧١٦٠) ، صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، سنن النسائی/الطلاق ١ (٣٤١٩) ، ٥ (٣٤٢٩) ، ٧٦ (٣٥٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٣٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطلاق ١ (١١٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢ (٢٠١٩) ، موطا امام مالک/الطلاق ٢٠(٥٢) ، مسند احمد (٢/٤٣، ٥١، ٧٩، ١٢٤) ، سنن الدارمی/الطلاق ١ (٢٣٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حالت حیض میں طلاق سنت کے خلاف ہے ، سنت یہ ہے کہ اس طہر میں طلاق دی جائے جس میں ہمبستری نہ کی ہو تاکہ وہ طہر (یا حیض) عدت کے شمار کئے جاسکیں، حیض سمیت تین طہر گزر جائیں تو اس کی عدت پوری ہوجائے گی۔

【6】

مسنون طریقہ پر طلاق دینے کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) نے اپنی ایک عورت کو حالت حیض میں ایک طلاق دے دی، آگے مالک کی حدیث کے ہم معنی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٤٥ (٥٣٣٢) ، صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٧٧) (صحیح )

【7】

مسنون طریقہ پر طلاق دینے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو عمر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے حکم دو کہ وہ رجوع کرلے پھر جب وہ پاک ہوجائے یا حاملہ ہو تو اسے طلاق دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الطلاق ١ (١٤٧١) ، سنن الترمذی/الطلاق ١ (١١٧٦) ، سنن النسائی/الطلاق ٣ (٣٤٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣ (٢٠٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٦، ٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اگر حاملہ ہوگی تو اس کی عدت وضع حمل سے ختم ہوگی ورنہ تین حیض سے ختم ہوجائے گی۔

【8】

مسنون طریقہ پر طلاق دینے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو رسول اللہ ﷺ غصہ ہوگئے پھر فرمایا : اسے حکم دو کہ اس سے رجوع کرلے پھر اسے روکے رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے، پھر حائضہ ہو پھر پاک ہوجائے پھر چاہیئے کہ وہ پاکی کی حالت میں اسے چھوئے بغیر طلاق دے، یہی عدت کا طلاق ہے جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأحکام ١٣ (٧١٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٩٦) (صحیح )

【9】

مسنون طریقہ پر طلاق دینے کا بیان

ابن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے یونس بن جبیر نے خبر دی کہ انہوں نے ابن عمر (رض) سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنی بیوی کو کتنی طلاق دی ؟ تو انہوں نے کہا : ایک۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١٧٩، (تحفة الأشراف : ٨٥٧٣) (صحیح )

【10】

مسنون طریقہ پر طلاق دینے کا بیان

حدیث نمبر : 2184 محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے یونس بن جبیر نے بتایا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے مسئلہ دریافت کیا، میں نے کہا کہ جس آدمی نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے (تو اس کا کیا حکم ہے ؟ ) کہنے لگے کہ تم عبداللہ بن عمر (رض) کو پہچانتے ہو ؟ میں نے کہا : ہاں، تو انہوں نے کہا : عبداللہ بن عمر (رض) نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو عمر (رض) نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسئلہ دریافت کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے حکم دو کہ وہ رجوع کرلے اور عدت کے آغاز میں اسے طلاق دے ۔ میں نے پوچھا : کیا اس طلاق کا شمار ہوگا ؟ انہوں نے کہا : تم کیا سمجھتے ہو اگر وہ عاجز ہوجائے یا دیوانہ ہوجائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١٧٩، (تحفة الأشراف : ٨٥٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جب رجعت سے عاجز ہوجانے یا دیوانہ ہوجانے کی صورت میں بھی وہ طلاق شمار کی جائے گی تو رجعت کے بعد بھی ضرور شمار کی جائے گی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجائے گی کیونکہ اگر وہ واقع نہ ہوتی تو آپ ﷺ کا مره فليراجعها کہنا بےمعنی ہوگا، جمہور کا یہی مسلک ہے کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہوجائے گی اور اس سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا لیکن اہل ظاہر کا مذہب ہے کہ طلاق نہیں ہوگی ابن القیم نے زادالمعاد میں اس پر لمبی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی، کیونکہ ابوداود کی اگلی حدیث کے الفاظ ہیں ولم يرها شيئا۔

【11】

مسنون طریقہ پر طلاق دینے کا بیان

ابن جریج کہتے ہیں کہ ہمیں ابوالزبیر نے خبر دی ہے کہ انہوں نے عروہ کے غلام عبدالرحمٰن بن ایمن کو ابن عمر (رض) سے پوچھتے سنا اور وہ سن رہے تھے کہ آپ اس شخص کے متعلق کیا کہتے ہیں جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دیدی ہو ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، تو عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، اور کہا کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے، عبداللہ (رض) کہتے ہیں : تو آپ ﷺ نے اس عورت کو مجھ پر لوٹا دیا اور اس طلاق کو شمار نہیں کیا اور فرمایا : جب وہ پاک ہوجائے تو وہ طلاق دے یا اسے روک لے ، ابن عمر (رض) کہتے ہیں : اور نبی اکرم ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن اے نبی ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو تم انہیں ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو (سورۃ الطلاق : ١) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو ابن عمر (رض) سے یونس بن جبیر، انس بن سیرین، سعید بن جبیر، زید بن اسلم، ابوالزبیر اور منصور نے ابو وائل کے طریق سے روایت کیا ہے، سب کا مفہوم یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ وہ رجوع کرلیں یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے پھر اگر چاہیں تو طلاق دیدیں اور چاہیں تو باقی رکھیں ۔ اسی طرح اسے محمد بن عبدالرحمٰن نے سالم سے، اور سالم نے ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے البتہ زہری کی جو روایت سالم اور نافع کے طریق سے ابن عمر سے مروی ہے، اس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس سے رجوع کرلیں یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے، پھر اسے حیض آئے اور پھر پاک ہو، پھر اگر چاہیں تو طلاق دیں اور اگر چاہیں تو رکھے رہیں، اور عطاء خراسانی سے روایت کیا گیا ہے انہوں نے حسن سے انہوں نے ابن عمر سے نافع اور زہری کی طرح روایت کی ہے، اور یہ تمام حدیثیں ابوالزبیر کی بیان کردہ روایت کے مخالف ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، سنن النسائی/الطلاق ١ (٣٤٢١) ، (ولیس عندہما قولہ ” لَمْ یَرَہَا شَیْئاً “ ) (تحفة الأشراف : ٧٤٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦١، ٨٠، ٨١، ١٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کسی کی روایت میں یہ لفظ نہیں ہے کہ ” اور اس طلاق کو شمار نہیں کیا “

【12】

تین طلاقوں کے بعد رجعت نہیں ہو سکتی

مطرف بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عمران بن حصین (رض) سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو طلاق دیدے پھر اس کے ساتھ صحبت بھی کرلے اور اپنی طلاق اور رجعت کے لیے کسی کو گواہ نہ بنائے تو انہوں نے کہا کہ تم نے سنت کے خلاف طلاق دی اور سنت کے خلاف رجعت کی، اپنی طلاق اور رجعت دونوں کے لیے گواہ بناؤ اور پھر اس طرح نہ کرنا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطلاق ٥ (٢٠٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٦٠) (صحیح )

【13】

غلام کی طلاق کا بیان

بنی نوفل کے غلام ابوحسن نے ابن عباس (رض) سے اس غلام کے بارے میں فتویٰ پوچھا جس کے نکاح میں کوئی لونڈی تھی تو اس نے اسے دو طلاق دے دی اس کے بعد وہ دونوں آزاد کردیئے گئے، تو کیا غلام کے لیے درست ہے کہ وہ اس لونڈی کو نکاح کا پیغام دے ؟ ابن عباس (رض) نے کہا : ہاں رسول اللہ ﷺ نے اسی کا فیصلہ دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ١٩ (٣٤٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣٢ (٢٠٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٩، ٣٣٤) (ضعیف )

【14】

غلام کی طلاق کا بیان

عثمان بن عمر کہتے ہیں کہ ہمیں علی نے خبر دی ہے آگے سابقہ سند سے اسی مفہوم کی روایت مذکور ہے لیکن عنعنہ کے صیغے کے ساتھ ہے نہ کہ أخبرنا کے صیغے کے ساتھ، اس میں ہے کہ ابن عباس (رض) نے کہا : تیرے لیے ایک طلاق باقی رہ گئی ہے، اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے اسی کا فیصلہ فرمایا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا کہ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ ابن مبارک نے معمر سے پوچھا کہ یہ ابوالحسن کون ہیں ؟ انہوں نے ایک بھاری چٹان اٹھا لی ہے ؟ ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوالحسن وہی ہیں جن سے زہری نے روایت کی ہے، زہری کہتے ہیں کہ وہ فقہاء میں سے تھے، زہری نے ابوالحسن سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوالحسن معروف ہیں اور اس حدیث پر عمل نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٦١، ١٨٩٣٤) (ضعیف) (عمر بن معتب کی وجہ سے یہ روایت بھی ضعیف ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس جملہ سے اس روایت میں جو کچھ ہے اس کا انکار مقصود ہے۔

【15】

غلام کی طلاق کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لونڈی کی طلاق دو ہیں اور اس کے قروء دو حیض ہیں ۔ ابوعاصم کہتے ہیں : مجھ سے مظاہر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں : مجھ سے قاسم نے انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کیا ہے، لیکن اس میں ہے کہ اس کی عدت دو حیض ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ مجہول حدیث ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطلاق ٧ (١١٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣٠ (٢٠٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٥٥) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطلاق ١٧ (٢٣٤٠) (ضعیف )

【16】

نکاح سے پہلے طلاق دینے کا بیان

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : طلاق صرف انہیں میں ہے جو تمہارے نکاح میں ہوں، اور آزادی صرف انہیں میں ہے جو تمہاری ملکیت میں ہوں، اور بیع بھی صرف انہیں چیزوں میں ہے جو تمہاری ملکیت میں ہوں ۔ ابن صباح کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ (تمہارے ذمہ) صرف اسی نذر کا پورا کرنا ہے جس کے تم مالک ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٧٣٦، ٨٨٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٩، ١٩٠) ، سنن الترمذی/الطلاق ٦ (١١٨١) ، ق ١٧ (٢٠٤٧) (حسن )

【17】

نکاح سے پہلے طلاق دینے کا بیان

اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو (رض) سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے : جس نے گناہ کرنے کی قسم کھالی تو اس قسم کا کوئی اعتبار نہیں نیز جس نے رشتہ توڑنے کی قسم کھالی اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ الطلاق ١٧ (٢٠٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٥) (حسن )

【18】

نکاح سے پہلے طلاق دینے کا بیان

اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو (رض) سے یہی روایت آئی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے کہ وہی نذر ماننا درست ہے جس کے ذکر سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ٨٧٣٦) ، ویأتی ہذا الحدیث فی الأیمان برقم : (٣٢٧٣) (حسن )

【19】

غصہ کی حالت میں طلاق دینا

محمد بن عبید بن ابوصالح (جو ایلیاء میں رہتے تھے) کہتے ہیں کہ میں عدی بن عدی کندی کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ میں مکہ آیا تو انہوں نے مجھے صفیہ بنت شیبہ کے پاس بھیجا، اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے حدیثیں یاد کر رکھی تھیں، وہ کہتی ہیں : میں نے عائشہ (رض) کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : زبردستی کی صورت میں طلاق دینے اور آزاد کرنے کا اعتبار نہیں ہوگا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ غلاق کا مطلب غصہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٨٥٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٦ (٢٠٤٦) ، مسند احمد (٦/٢٧٦) (حسن) (اس کے راوی محمد بن عبید ضعیف ہیں، لیکن دوسرے رواة کی متابعت و تقویت سے یہ حدیث حسن ہے ، ملاحظہ ہو : ا رواء الغلیل : ٢٠٤٧ ، و صحیح ابی داود : ٦ ؍ ٣٩٦ ) وضاحت : ١ ؎ : اس باب کے الفاظ کی روایت تین طرح ہے : على غيظ ، على غضب ، على غلطٍ اور حدیث میں غلاق ،إغلاق جس کے معنی مؤلف نے غضب کے لئے ہیں ، حالانکہ کوئی بھی آدمی بغیر غیظ و غضب کے طلاق نہیں دیتا، اس طرح تو کوئی طلاق واقع ہی نہیں ہوگی ، اس لئے إغلاق کا معنی ” زبردستی “ لینا بہتر ہے ، اور تحقیقی بات یہی ہے کہ زبردستی لی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

【20】

ہنسی مذاق میں طلاق دینا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں چاہے سنجیدگی سے کیا جائے یا ہنسی مذاق میں ان کا اعتبار ہوگا، وہ یہ ہیں : نکاح، طلاق اور رجعت ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطلاق ٩(١١٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٣(٢٠٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٥٤) (حسن) (شواہد اور آثار صحابہ سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے ، ورنہ عبدالرحمن بن حبیب کو نسائی نے منکرالحدیث کہا ہے اور حافظ ابن حجرنے لین الحدیث ، ملاحظہ ہو : ارواء الغلیل ١٨٢٥ )

【21】

تین طلاقوں کے بعد رجعت نہیں ہو سکتی

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء ولا يحل لهن أن يکتمن ما خلق الله في أرحامهن اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہے وہ تین طہر تک ٹھہری رہیں اور ان کے لیے حلال نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں جو پیدا کردیا ہے اسے چھپائیں (سورۃ البقرہ : ٢٢٨) یہ اس وجہ سے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تھا تو رجعت کا وہ زیادہ حقدار رہتا تھا گرچہ اس نے تین طلاقیں دے دی ہوں پھر اسے منسوخ کردیا گیا اور ارشاد ہوا الطلاق مرتان یعنی طلاق کا اختیار صرف دو بار ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٥٤ (٣٥٢٩) ، ٧٥ (٣٥٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٥٣) ویأتی ہذا الحدیث برقم (٢٢٨٢) (حسن صحیح )

【22】

ہنسی مذاق میں طلاق دینا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رکانہ اور اس کے بھائیوں کے والد عبد یزید نے رکانہ کی ماں کو طلاق دے دی، اور قبیلہ مزینہ کی ایک عورت سے نکاح کرلیا، وہ عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے سر سے ایک بال لے کر کہنے لگی کہ وہ میرے کام کا نہیں مگر اس بال برابر لہٰذا میرے اور اس کے درمیان جدائی کرا دیجئیے، یہ سن کر آپ ﷺ کو غصہ آگیا، آپ نے رکانہ اور اس کے بھائیوں کو بلوا لیا، پھر پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا کہ : کیا فلاں کی شکل اس اس طرح اور فلاں کی اس اس طرح عبد یزید سے نہیں ملتی ؟ ، لوگوں نے کہا : ہاں (ملتی ہے) ، نبی اکرم ﷺ نے عبد یزید سے فرمایا : اسے طلاق دے دو ، چناچہ انہوں نے طلاق دے دی، پھر فرمایا : اپنی بیوی یعنی رکانہ اور اس کے بھائیوں کی ماں سے رجوع کرلو ، عبد یزید نے کہا : اللہ کے رسول میں تو اسے تین طلاق دے چکا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے معلوم ہے، تم اس سے رجوع کرلو ، اور آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن (سورۃ الطلاق : ١) اے نبی ! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت میں طلاق دو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نافع بن عجیر اور عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ کی حدیث جسے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت (حدیث نمبر : ٢٢٠٦) کیا ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دے دی، پھر بھی نبی اکرم ﷺ نے اس سے رجوع کرا دیا، زیادہ صحیح ہے کیونکہ رکانہ کے لڑکے اور ان کے گھر والے اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تھی تو نبی اکرم ﷺ نے اسے ایک ہی شمار کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٦٢٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٦٥) (عندہ ” داود بن حصین “ مکان ” بعض بنی أبی رافع “ (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث حسن ہے، اور مؤلف نے جس حدیث (نمبر : ٢٢٠٦) کی طرف اشارہ کیا ہے وہ ضعیف ہے، نیز اولاد رکانہ واقعہ کے بیان میں خود مضطرب ہیں، یاد رہے کہ عہد نبوی میں ” تین طلاق “ اور ” طلاقہ بتہ “ ہم معنی الفاظ تھے، عہد نبوی و عہد صحابہ کے بعد لوگوں نے ” طلاق بتہ “ کا یہ معنی بنادیا کہ جس میں ایک دو ، تین طلاق دہندہ کی نیت کے مطابق طے کیا جائیگا (تفصیل کے لے دیکھئے تنویر الآفاق )

【23】

ہنسی مذاق میں طلاق دینا

مجاہد کہتے ہیں : میں ابن عباس (رض) کے پاس تھا کہ ایک آدمی آیا اور ان سے کہنے لگا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہے، ابن عباس (رض) خاموش رہے، یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے اس کی طرف لوٹا دیں گے، پھر انہوں نے کہا : تم لوگ بیوقوفی تو خود کرتے ہو پھر آ کر کہتے ہو : اے ابن عباس ! اے ابن عباس ! حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ومن يتق الله يجعل له مخرجا ١ ؎ اور تو اللہ سے نہیں ڈرا لہٰذا میں تیرے لیے کوئی راستہ بھی نہیں پاتا، تو نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی لہٰذا تیری بیوی تیرے لیے بائنہ ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن ، في قبل عدتهن ٢ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو حمید اعرج وغیرہ نے مجاہد سے، مجاہد نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے۔ اور اسے شعبہ نے عمرو بن مرہ سے عمرو نے سعید بن جبیر سے سعید نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے۔ اور ایوب و ابن جریج نے عکرمہ بن خالد سے عکرمہ نے سعید بن جبیر سے سعید نے ابن عباس (رض) سے، اور ابن جریج نے عبدالحمید بن رافع سے ابن رافع نے عطاء سے عطاء نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے۔ نیز اسے اعمش نے مالک بن حارث سے مالک نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے اور ابن جریج نے عمرو بن دینار سے عمرو نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے۔ ان سبھوں نے تین طلاق کے بارے میں کہا ہے کہ ابن عباس (رض) نے ان کو تین ہی مانا اور کہا کہ وہ تمہارے لیے بائنہ ہوگئی جیسے اسماعیل کی روایت میں ہے جسے انہوں نے ایوب سے ایوب نے عبداللہ بن کثیر سے روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور حماد بن زید نے ایوب سے ایوب نے عکرمہ سے عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب ایک ہی منہ سے (یکبارگی یوں کہے کہ تجھے تین طلاق دی) تو وہ ایک شمار ہوگی۔ اور اسے اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب سے ایوب نے عکرمہ سے روایت کیا ہے اور یہ ان کا اپنا قول ہے البتہ انہوں نے ابن عباس کا ذکر نہیں کیا بلکہ اسے عکرمہ کا قول بتایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داودٔ (تحفة الأشراف : ٦٤٠١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری/ التفسیر (١١٦٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے ، وہ اس کے لئے راستہ نکال دیتا ہے۔ ٢ ؎ : اے نبی ! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے شروع میں دو ۔

【24】

ہنسی مذاق میں طلاق دینا

ابوداؤد کہتے ہیں : ابن عباس (رض) کا قول اگلی والی حدیث میں ہے جسے محمد بن ایاس نے روایت کیا ہے کہ ابن عباس، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے باکرہ (کنواری) کے بارے میں جسے اس کے شوہر نے تین طلاق دے دی ہو، دریافت کیا گیا تو ان سب نے کہا کہ وہ اپنے اس شوہر کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوسکتی، جب تک کہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور مالک نے یحییٰ بن سعید سے یحییٰ نے بکیر بن اشبح سے بکیر نے معاویہ بن ابی عیاش سے روایت کیا ہے کہ وہ اس واقعہ میں موجود تھے جس وقت محمد بن ایاس بن بکیر، ابن زبیر اور عاصم بن عمر کے پاس آئے، اور ان دونوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو ان دونوں نے ہی کہا کہ تم ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) کے پاس جاؤ میں انہیں ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس چھوڑ کر آیا ہوں، پھر انہوں نے یہ پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور ابن عباس (رض) کا یہ قول کہ تین طلاق سے عورت اپنے شوہر کے لیے بائنہ ہوجائے گی، چاہے وہ اس کا دخول ہوچکا ہو، یا ابھی دخول نہ ہوا ہو، اور وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہوگی، جب تک کہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے اس کی مثال صَرْف والی حدیث کی طرح ہے ١ ؎ اس میں ہے کہ پھر انہوں یعنی ابن عباس نے اس سے رجوع کرلیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٤٣٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المغازی ١٠ (٣٩٩١ تعلیقًا) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جس طرح وہ نقدی کو نقدی سے بیچنے کے متعلق کہتے تھے کہ اس میں ربا صرف ادھار کی صورت میں ہے نقد کی صورت میں نہیں پھر انہوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا اسی طرح یہ معاملہ بھی ہے اس سے بھی انہوں نے بعد میں رجوع کرلیا تھا۔

【25】

ہنسی مذاق میں طلاق دینا

طاؤس سے روایت ہے کہ ایک صاحب جنہیں ابوصہبا کہا جاتا تھا ابن عباس (رض) سے کثرت سے سوال کرتے تھے انہوں نے پوچھا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا، تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) کے زمانے نیز عمر (رض) کے ابتدائی دور خلافت میں اسے ایک طلاق مانا جاتا تھا ؟ ابن عباس (رض) نے جواب دیا : ہاں کیوں نہیں ؟ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا تھا، تو اسے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) کے زمانے میں نیز عمر (رض) کے ابتدائی دور خلافت میں ایک ہی طلاق مانا جاتا تھا، لیکن جب عمر (رض) نے دیکھا کہ لوگ بہت زیادہ ایسا کرنے لگے ہیں تو کہا کہ میں انہیں تین ہی نافذ کروں گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٧٦٣) (ضعیف) (اس سند میں غیر واحد مبہم رواة ہیں ، مگر اس میں غیرمدخول بہا کا لفظ ہی منکر ہے باقی باتیں اگلی روایت سے ثابت ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مگر عمر (رض) کا یہ حکم واجب العمل نہیں ہوسکتا ، کیونکہ حدیث صحیح سے رسول اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں تین طلاق کا ایک طلاق ہونا ثابت ہے۔

【26】

ہنسی مذاق میں طلاق دینا

طاؤس سے روایت ہے کہ ابوصہباء نے ابن عباس (رض) سے پوچھا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) کے زمانے میں نیز عمر (رض) کے دور خلافت کے ابتدائی تین سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی مانا جاتا تھا ؟ ابن عباس (رض) نے جواب دیا : ہاں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٢ (١٤٧٢) ، سنن النسائی/الطلاق ٨ (٣٤٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٧١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ائمہ حدیث اور علما ظاہر کا اسی پر عمل ہے۔

【27】

طلاق کنایہ کا بیان اور یہ کہ احکام نیت پر مرتب ہوتے ہیں

علقمہ بن وقاص لیثی کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی چناچہ جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی تو اسی کی ہجرت اللہ اور رسول کے لیے مانی جائے گی، اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی غرض سے ہجرت کی ہوگی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے مانی جائے گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الوحي ١ (١) ، الایمان ٤١ (٥٤) ، العتق ٦ (٢٥٢٩) ، مناقب الأنصار ٤٥ (٣٨٩٨) ، النکاح ٥ (٥٠٧٠) ، النذور ٢٣ (٦٦٨٩) ، الحیل ١ (٦٩٥٣) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٥ (١٩٠٧) ، سنن الترمذی/فضائل الجھاد ١٦ (١٦٤٧) ، سنن النسائی/الطھارة ٦٠ (٧٥) ، الطلاق ٢٤ (٣٤٦٧) ، الأیمان والنذور ١٩ (٣٨٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ٢٦ (٤٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥، ٤٣) (صحیح )

【28】

طلاق کنایہ کا بیان اور یہ کہ احکام نیت پر مرتب ہوتے ہیں

عبداللہ بن کعب بن مالک (جو کہ اپنے والد کعب (رض) کے نابینا ہوجانے کے بعد ان کے قائد تھے) کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے والد) کعب بن مالک سے سنا، پھر انہوں نے جنگ تبوک والا اپنا قصہ سنایا اس میں انہوں نے بیان کیا کہ جب پچاس دنوں میں سے چالیس دن گزر گئے تو رسول اللہ ﷺ کا قاصد آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے علیحدہ رہو، میں نے پوچھا : کیا میں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں ؟ اس نے کہا : نہیں بلکہ اس سے علیحدہ رہو اس کے قریب نہ جاؤ، چناچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا : تم اپنے میکے چلی جاؤ ١ ؎ اور جب تک اللہ تعالیٰ اس معاملہ کا فیصلہ نہ فرما دے وہیں رہنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٢٦ (٢٧٥٧) ، والجھاد ١٠٣ (٢٩٤٧) ، ١٩٨ (٣٠٨٨) ، و تفسیر سورة البراء ة ١٤ (٤٦٧٣) ، ١٧ (٤٦٧٧) ، ١٨ (٤٦٧٧) ، ١٩ (٤٦٧٨) ، والاستئذان ٢١ (٦٢٥٥) ، والأیمان والنذور ٢٤ (٦٦٩١) ، والأحکام ٥٣ (٧٢٢٥) ، صحیح مسلم/التوبة ٩ (٢٧٦٩) ، سنن النسائی/المساجد ٣٨ (٧٣٢) ، والطلاق ١٨ (٣٤٥٣) ، والأیمان والنذور ٣٦(٣٨٥٤) ، ٣٧ (٣٨٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١١١٣١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر سورة التوبة (٣١٠١) ، مسند احمد (٣/٤٥٥، ٤٥٧، ٤٥٩، ٦/٣٨٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٤ (١٥٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی انہوں نے اپنے اس قول سے طلاق کی نیت نہیں کی تو اس سے طلاق نہیں مراد لی گئی، اگر وہ طلاق کی نیت کرتے تو طلاق واقع ہوجاتی، کنائی الفاظ سے اسی وقت طلاق واقع ہوتی ہے جب اس کی نیت کی ہو۔

【29】

عورت کو طلاق کا اختیار دینا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں (اپنے عقد میں رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا تو ہم نے آپ ﷺ ہی کو اختیار کیا، پھر آپ نے اسے کچھ بھی شمار نہیں کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٥ (٥٢٦٢) ، صحیح مسلم/الطلاق ٤ (١٤٧٧) ، سنن الترمذی/الطلاق ٤ (١١٧٩) ، سنن النسائی/النکاح ٢ (٣٢٠٤) والطلاق ٢٧ (٣٤٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٠ (٢٠٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٥، ٤٧، ١٧١، ١٧٣، ١٨٥، ٢٠٢، ٢٠٥، ٢٣٩) ، سنن الدارمی/الطلاق ٥ (٢٣١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اسے طلاق قرار نہیں دیا، اکثر علماء کی یہی رائے ہے کہ جب شوہر بیوی کو اختیار دے اور وہ شوہر ہی کو اختیار کرلے تو کوئی طلاق واقع نہ ہوگی اور زید بن ثابت اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک طلاق پڑجائے گی، مگر پہلی بات ہی ثابت ہے۔

【30】

اگر کوئی مرد اپنی عورت سے کہہ دے کہ اب طلاق کا اختیار تجھے ہے تو اسکا کیا حکم ہے؟

حماد بن زید کہتے ہیں کہ میں نے ایوب سے پوچھا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ کسی اور نے بھی أمرک بيدك کے سلسلہ میں وہی بات کہی ہے جو حسن نے کہی تو انہوں نے کہا : نہیں، مگر وہی روایت ہے جسے ہم سے قتادہ نے بیان کیا، قتادہ نے کثیر مولی ابن سبرہ سے کثیر نے ابوسلمہ سے ابوسلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ ایوب کہتے ہیں : تو کثیر ہمارے پاس آئے تو میں نے ان سے دریافت کیا، وہ بولے : میں نے تو کبھی یہ حدیث بیان نہیں کی، پھر میں نے قتادہ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا : ہاں کیوں نہیں انہوں نے اسے بیان کیا تھا لیکن وہ بھول گئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطلاق ٣ (١١٧٨) ، سنن النسائی/الطلاق ١١(٣٤٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٩٢) (ضعیف) (اس کے راوی کثیر لین الحدیث ہیں )

【31】

اگر کوئی مرد اپنی عورت سے کہہ دے کہ اب طلاق کا اختیار تجھے ہے تو اسکا کیا حکم ہے؟

حسن سے أمرک بيدك کے سلسلہ میں مروی ہے کہ اس سے تین طلاق واقع ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٩٢، ١٨٥٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : أمرک بيدك کے معنی ہیں : تمہارا معاملہ تمہارے ہاتھ میں ہے، یعنی تمہیں اختیار ہے، بعض کے نزدیک اس سے ایک طلاق واقع ہوتی ہے، اور حسن بصری سے مروی ہے کہ اس سے تین طلاق واقع ہوگی، لیکن ام المومنین عائشہ (رض) کی مذکورہ حدیث نمبر (٢٢٠٣) سے معلوم ہوا کہ کچھ واقع نہیں ہوگا۔

【32】

طلاق بتہ کا بیان

نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ سے روایت ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو طلاق بتہ ١ ؎ (قطعی طلاق) دے دی، پھر نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر دی اور کہا : اللہ کی قسم ! میں نے تو ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم اللہ کی تم نے صرف ایک کی نیت کی تھی ؟ رکانہ نے کہا : قسم اللہ کی میں نے صرف ایک کی نیت کی تھی، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی بیوی انہیں واپس لوٹا دی، پھر انہوں نے اسے دوسری طلاق عمر (رض) کے دور خلافت میں دی اور تیسری عثمان (رض) کے دور خلافت میں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطلاق ٢ (١١٧٧) ، ق / الطلاق ١٩ (٢٠٥١) ، (تحفة الأشراف : ٣٦١٣) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/ الطلاق ٨ (٢٣١٨) (ضعیف) (اس کے راوی نافع مجہول ہیں ، نیز اس حدیث میں بہت ہی اضطراب ہے اس لئے بروایت امام ترمذی امام بخاری نے بھی اس کو ضعیف قرارد یا ہے ) وضاحت : ١ ؎ : البتہ : بتّ کا اسم مرہ ہے ، البتہ اور بتات کے معنی یقیناً اور قطعاً کے ہیں، طلاق بتہ یا البتہ ایسی طلاق جو یقینی اور قطعی طور پر پڑچکی ہے ، اور صحیح احادیث کی روشنی میں تین طلاق سنت کے مطابق تین طہر میں دی جائے ، تو اس کے بعد یہ طلاق قطعی اور بتہ ہوگی، واضح رہے کہ یزید بن رکانہ کی یہ حدیث ضعیف ہے۔

【33】

طلاق بتہ کا بیان

اس سند سے بھی رکانہ بن عبد یزید سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٦١٣) (ضعیف )

【34】

طلاق بتہ کا بیان

رکانہ بن عبد یزید (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دے دی پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا : تم نے کیا نیت کی تھی ؟ انہوں نے کہا : ایک کی، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہے ہو ؟ انہوں نے کہا : ہاں اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : جس کا تم نے ارادہ کیا ہے وہی ہوگا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ روایت ابن جریج والی روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھی کیونکہ یہ روایت ان کے اہل خانہ کی بیان کردہ ہے اور وہ حقیقت حال سے زیادہ واقف ہیں اور ابن جریج والی روایت بعض بنی رافع (جو ایک مجہول ہے) سے منقول ہے جسے وہ عکرمہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابن عباس (رض) سے، (دیکھئیے حدیث نمبر : ٢٠٩٦) تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٢٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٦١٣) (اس کے تین رواة ضعیف ہیں ، دیکھئے : إرواء الغلیل : ٢٠٦٣) (ضعیف )

【35】

محض طلاق کے خیال سے طلاق واقع نہیں ہوتی

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت سے ان چیزوں کو معاف کردیا ہے جنہیں وہ زبان پر نہ لائے یا ان پر عمل نہ کرے، اور ان چیزوں کو بھی جو اس کے دل میں گزرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العتق ٦ (٢٥٢٨) ، والطلاق ١١ (٥٢٦٩) ، والأیمان والنذور ١٥ (٦٦٦٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٥٨ (١٢٧) ، سنن الترمذی/الطلاق ٨ (١١٨٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٢٢ (٣٤٦٤، ٣٤٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٤ (٢٠٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٩٣، ٣٩٨، ٤٢٥، ٤٧٤، ٤٨١، ٤٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دل میں طلاق کا صرف خیال کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔

【36】

بیوی کو بہن کہنا

ابوتمیمہ ہجیمی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اے چھوٹی بہن ! کہہ کر پکارا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا یہ تیری بہن ہے ؟ آپ ﷺ نے اسے ناپسند فرمایا اور اس سے منع کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٥٩٩، ١٨٨٤٦) (اس کے راوی ابوتمیمة تابعی ہیں اس لئے مرسل ہے) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : اگرچہ اس کے کہنے سے وہ اس کی بہن نہیں ہوجائے گی مگر نامناسب بات زبان سے نکالنی مناسب نہیں، گو وہ اس کی دینی بہن ہو یا رشتہ میں بھی بہن کے مرتبہ کی ہو جیسے چچا یا پھوپھی یا خالہ کی بیٹی۔

【37】

بیوی کو بہن کہنا

ابو تمیمہ سے روایت ہے، وہ اپنی قوم کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو اپنی بیوی کو اے چھوٹی بہن ! کہہ کر پکارتے ہوئے سنا تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے عبدالعزیز بن مختار نے خالد سے خالد نے ابوعثمان سے اور ابوعثمان نے ابو تمیمہ سے اور ابوتمیمہ نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے، نیز اسے شعبہ نے خالد سے خالد نے ایک شخص سے اس نے ابو تمیمہ سے اور ابو تمیمہ نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٥٩٩، ١٨٨٤٦) (ضعیف) (اس کی سند میں سخت اضطراب ہے جیسا کہ مؤلف نے بیان کردیا ہے )

【38】

بیوی کو بہن کہنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ابراہیم (علیہ السلام) نے صرف تین جھوٹ بولے ١ ؎ جن میں سے دو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے تھے، پہلا جب انہوں نے کہا کہ میں بیمار ہوں ٢ ؎، دوسرا جب انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا : بلکہ یہ تو ان کے اس بڑے کی کارستانی ہے، تیسرا اس موقعہ پر جب کہ وہ ایک سرکش بادشاہ کے ملک سے گزر رہے تھے ایک مقام پر انہوں نے قیام فرمایا تو اس سرکش تک یہ بات پہنچی، اور اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص ٹھہرا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت عورت ہے، چناچہ اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بلوایا اور عورت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا : یہ تو میری بہن ہے ، جب وہ لوٹ کر بیوی کے پاس آئے تو انہوں نے بتایا کہ اس نے مجھ سے تمہارے بارے میں دریافت کیا تو میں نے اسے یہ بتایا ہے کہ تم میری بہن ہو کیونکہ آج میرے اور تمہارے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہیں ہے لہٰذا تم میری دینی بہن ہو، تو تم اس کے پاس جا کر مجھے جھٹلا نہ دینا ، اور پھر پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : شعیب بن ابی حمزہ نے ابوالزناد سے ابوالزناد نے اعرج سے، اعرج نے ابوہریرہ (رض) سے، ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٥٣٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٨ (٣٣٥٧) ، والنکاح ١٢(٥٠١٢) ، صحیح مسلم/الفضائل ٤١ (٢٣٧١) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة الأنبیاء (٣١٦٥) ، مسند احمد (٢/٤٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : انہیں جھوٹ اس لئے کہا گیا ہے کہ ظاہر میں تینوں باتیں جھوٹ تھیں، لیکن حقیقت میں ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ تینوں باتیں بطور تعریض و توریہ کہی تھیں، توریہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ذومعنی گفتگو کرے، جس کا ایک ظاہری مفہوم ہو اور ایک باطنی، وہ اپنی گفتگو سے صحیح مقصود کی نیت کرے اور اس کی طرف نسبت کرنے میں جھوٹا نہ ہو، اگرچہ ظاہری الفاظ میں اور اس کی چیز کی طرف نسبت کرنے میں جسے مخاطب سمجھ رہا ہو جھوٹا ہو۔ ٢ ؎ : یہ بات ابراہیم (علیہ السلام) نے اس وقت کہی تھی جب ان کے شہر کے لوگ باہر میلے کے لئے جارہے تھے، ان سے بھی لوگوں نے چلنے کے لئے کہا، تو انہوں نے بہانہ کیا کہ میں بیمار ہوں، یہ بہانہ بتوں کو توڑنے کے لئے کیا تھا، پھر جب لوگ میلہ سے واپس آئے تو پوچھا بتوں کو کس نے توڑا ؟ ابراہیم وضاحت نے جواب دیا : ” بڑے بت نے توڑا “ ، اگرچہ یہ دونوں قول خلاف واقعہ تھے لیکن حکمت سے خالی نہ تھے، اللہ کی رضامندی کے واسطے تھے۔

【39】

ظہار کا بیان

سلمہ بن صخر بیاضی (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں کے مقابلے میں میں کچھ زیادہ ہی عورتوں کا شوقین تھا، جب ماہ رمضان آیا تو مجھے ڈر ہوا کہ اپنی بیوی کے ساتھ کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھوں جس کی برائی صبح تک پیچھا نہ چھوڑے چناچہ میں نے ماہ رمضان کے ختم ہونے تک کے لیے اس سے ظہار کرلیا۔ ایک رات کی بات ہے وہ میری خدمت کر رہی تھی کہ اچانک اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آگیا تو میں اس سے صحبت کئے بغیر نہیں رہ سکا، پھر جب میں نے صبح کی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اور انہیں سارا ماجرا سنایا، نیز ان سے درخواست کی کہ وہ میرے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلیں، وہ کہنے لگے : اللہ کی قسم یہ نہیں ہوسکتا تو میں خود ہی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ ﷺ کو پوری بات بتائی، آپ ﷺ نے فرمایا : سلمہ ! تم نے ایسا کیا ؟ میں نے جواب دیا : ہاں اللہ کے رسول، مجھ سے یہ حرکت ہوگئی، دو بار اس طرح کہا، میں اللہ کا حکم بجا لانے کے لیے تیار ہوں، تو آپ میرے بارے میں حکم کیجئے جو اللہ آپ کو سجھائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ایک گردن آزاد کرو ، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے علاوہ میرے پاس کوئی گردن نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تو دو مہینے کے مسلسل روزے رکھو ، میں نے کہا : میں تو روزے ہی کے سبب اس صورت حال سے دوچار ہوا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : تو پھر ساٹھ صاع کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ ، میں نے جواب دیا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہم دونوں تو رات بھی بھوکے سوئے، ہمارے پاس کھانا ہی نہیں تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : بنی زریق کے صدقے والے کے پاس جاؤ، وہ تمہیں اسے دے دیں گے اور ساٹھ صاع کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلا دینا اور جو بچے اسے تم خود کھا لینا، اور اپنے اہل و عیال کو کھلا دینا ، اس کے بعد میں نے اپنی قوم کے پاس آ کر کہا : مجھے تمہارے پاس تنگی اور غلط رائے ملی جب کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گنجائش اور اچھی رائے ملی، آپ ﷺ نے مجھے یا میرے لیے تمہارے صدقے کا حکم فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطلاق ٢٠ (١١٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٥ (٢٠٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٧، ٥/٤٣٦) ، سنن الدارمی/الطلاق ٩ (٢٣١٩) (حسن صحیح) (ملاحظہ ہو الإرواء : ٢٠٩١) ویأتی ہذا الحدیث برقم (٢٢١٣ ) وضاحت : ١ ؎ : ظہار ی ہے کہ آدمی اپنی بیوی سے کہے أنت علي كظهر أمي یعنی تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے، زمانہ جاہلیت میں ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا، شریعت اسلامیہ میں ایسا کہنے والا گنہگار ہوگا اور اس پر کفارہ لازم ہوگا، جب تک کفارہ ادا نہ کر دے وہ بیوی کے قریب نہیں جاسکتا۔

【40】

ظہار کا بیان

خویلہ بنت مالک بن ثعلبہ (رض) کہتی ہیں کہ میرے شوہر اوس بن صامت نے مجھ سے ظہار کرلیا تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، میں آپ سے شکایت کر رہی تھی اور رسول اللہ ﷺ مجھ سے ان کے بارے میں جھگڑ رہے تھے اور آپ ﷺ فرما رہے تھے : اللہ سے ڈر، وہ تیرا چچا زاد بھائی ہے ، میں وہاں سے ہٹی بھی نہ تھی کہ یہ آیت نازل ہوئی : قد سمع الله قول التي تجادلک في زوجها اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی گفتگو سن لی ہے جو آپ سے اپنے شوہر کے متعلق جھگڑ رہی تھی (سورۃ المجادلہ : ١) ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ ایک گردن آزاد کریں ، کہنے لگیں : ان کے پاس نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھیں ، کہنے لگیں : اللہ کے رسول ! وہ بوڑھے کھوسٹ ہیں انہیں روزے کی طاقت نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو پھر وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائیں ، کہنے لگیں : ان کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ کہتی ہیں : اسی وقت آپ ﷺ کے پاس کھجوروں کی ایک زنبیل آگئی، میں نے کہا : اللہ کے رسول (آپ یہ دے دیجئیے) ایک اور زنبیل میں دے دوں گی، آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے ٹھیک ہی کہا ہے، لے جاؤ اور ان کی جانب سے ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو ، اور اپنے چچا زاد بھائی (یعنی شوہر) کے پاس لوٹ جاؤ ۔ راوی کا بیان ہے کہ زنبیل ساٹھ صاع کی تھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : کہ اس عورت نے اپنے شوہر سے مشورہ کئے بغیر اس کی جانب سے کفارہ ادا کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ عبادہ بن صامت کے بھائی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤١٠) (حسن )

【41】

ظہار کا بیان

اس سند سے بھی ابن اسحاق سے اسی طرح کی روایت منقول ہے لیکن اس میں ہے کہ عرق ایسی زنبیل ہے جس میں تیس صاع کے بقدر کھجور آتی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث یحییٰ بن آدم کی روایت کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢٥) (حسن )

【42】

ظہار کا بیان

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ عرق سے مراد ایسی زنبیل ہے جس میں پندرہ صاع کھجوریں آجائیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٥٨٦) (صحیح )

【43】

ظہار کا بیان

سلیمان بن یسار سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : آپ ﷺ کے پاس کھجوریں آئیں تو آپ نے وہ انہیں دے دیں، وہ تقریباً پندرہ صاع تھیں، آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں صدقہ کر دو ، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! مجھ سے اور میرے گھر والوں سے زیادہ کوئی ضرورت مند نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اور تمہارے گھر والے ہی انہیں کھالو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٢١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٧٩٠) (حسن )

【44】

ظہار کا بیان

عبادہ بن صامت (رض) کے بھائی اوس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں پندرہ صاع جو دی تاکہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عطا نے اوس کو نہیں پایا ہے اور وہ بدری صحابی ہیں ان کا انتقال بہت پہلے ہوگیا تھا، لہٰذا یہ حدیث مرسل ہے، اور لوگوں نے اسے اوزاعی سے اوزاعی نے عطاء سے روایت کیا اس میں عن أوس کے بجائے أوسا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٤٣) (صحیح) (دیگر شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ خود یہ منقطع ہے )

【45】

ظہار کا بیان

ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ جمیلہ (رض) اوس بن صامت (رض) کے نکاح میں تھیں، اور وہ عورتوں کے دیوانے تھے جب ان کی دیوانگی بڑھ جاتی تو وہ اپنی عورت سے ظہار کرلیتے، اللہ تعالیٰ نے انہیں کے متعلق ظہار کے کفارے کا حکم نازل فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٨٨٤) (صحیح )

【46】

ظہار کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے بھی اسی کے مثل مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٨٨٤) (صحیح )

【47】

ظہار کا بیان

عکرمہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا، پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی وہ اس سے صحبت کر بیٹھا چناچہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو اس کی خبر دی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں اس فعل پر کس چیز نے آمادہ کیا ؟ اس نے کہا : چاندنی رات میں میں نے اس کی پنڈلی کی سفیدی دیکھی، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تم اس سے اس وقت تک الگ رہو جب تک کہ تم اپنی طرف سے کفارہ ادا نہ کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطلاق ١٩ (١١٩٩) ، سنن النسائی/الطلاق ٣٣ (٣٤٨٧) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٦ (٢٠٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٣٦) (صحیح) (دیگر شواہد اور متابعات سے تقویت پاکر روایت بھی صحیح ہے ورنہ خود یہ روایت مرسل ہے )

【48】

None

ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا، پھر اس نے چاندنی میں اس کی پنڈلی کی چمک دیکھی، تو اس سے صحبت کر بیٹھا، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے اسے کفارہ ادا کرنے کا حکم فرمایا۔

【49】

ظہار کا بیان

اس سند سے ابن عباس (رض) سے مرفوعاً اسی طرح روایت ہے لیکن اس میں پنڈلی کا ذکر نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٢١، (تحفة الأشراف : ٦٠٣٦) (صحیح )

【50】

ظہار کا بیان

اس سند سے بھی عکرمہ سے سفیان کی حدیث (نمبر : ٢٢٢١) کی طرح روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٢١، (تحفة الأشراف : ٦٠٣٦) (صحیح ) ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے محمد بن عیسیٰ کو اسے بیان کرتے سنا ہے، وہ کہتے ہیں ہم سے معتمر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں : میں نے حکم بن ابان کو یہی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے وہ اسے عکرمہ سے روایت کر رہے تھے اس میں انہوں نے ابن عباس (رض) کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھے حسین بن حریث نے لکھا وہ کہتے ہیں کہ مجھے فضل بن موسیٰ نے خبر دی ہے وہ معمر سے وہ حکم بن ابان سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس (رض) سے وہ نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٢١، (تحفة الأشراف : ٦٠٣٦) (صحیح )

【51】

None

ہم سے معتمر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: میں نے حکم بن ابان کو یہی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے وہ اسے عکرمہ سے روایت کر رہے تھے اس میں انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے حسین بن حریث نے لکھا وہ کہتے ہیں کہ مجھے فضل بن موسیٰ نے خبر دی ہے وہ معمر سے وہ حکم بن ابان سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں۔

【52】

خلع کا بیان

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو اسے طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطلاق ١١(١١٨٧) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢١ (٢٠٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٢١٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٧، ٢٨٣) ، سنن الدارمی/الطلاق ٦ (٢٣١٦) (صحیح )

【53】

خلع کا بیان

حبیبہ بنت سہل انصاریہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ ثابت بن قیس بن شماس (رض) کے نکاح میں تھیں، ایک بار کیا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ فجر پڑھنے کے لیے نکلے تو آپ نے حبیبہ بنت سہل کو اندھیرے میں اپنے دروازے پر پایا، آپ ﷺ نے پوچھا : کون ہے ؟ بولیں : میں حبیبہ بنت سہل ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا بات ہے ؟ وہ اپنے شوہر ثابت بن قیس کے متعلق بولیں کہ میرا ان کے ساتھ گزارا نہیں ہوسکتا، پھر جب ثابت بن قیس آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : یہ حبیبہ بنت سہل ہیں انہوں نے مجھ سے بہت سی باتیں جنہیں اللہ نے چاہا ذکر کی ہیں ، حبیبہ کہنے لگیں : اللہ کے رسول ! انہوں نے جو کچھ مجھے (مہر وغیرہ) دیا تھا وہ سب میرے پاس ہے، چناچہ آپ ﷺ نے ثابت بن قیس سے کہا : اس (مال) میں سے لے لو ، تو انہوں نے اس میں سے لے لیا اور وہ اپنے گھر والوں کے پاس بیٹھی رہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٣٤ (٣٤٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٩٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ١١(٣١) ، مسند احمد (٦/٤٣٤) ، سنن الدارمی/الطلاق ٧ (٢٣١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہی اسلام میں پہلا خلع تھا ، خلع سے نکاح منسوخ ہوجاتا ہے، خلع کی عدت ایک حیض ہے، بعض علماء کے نزدیک خلع سے ایک طلاق پڑجاتی ہے، اس لئے ان لوگوں کے نزدیک اس کی عدت طلاق کی عدت کی طرح ہے ، یعنی تین حیض ہے ، پہلا قول راجح ہے۔

【54】

خلع کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حبیبہ بنت سہل (رض) ثابت بن قیس بن شماس (رض) کے نکاح میں تھیں تو ان کو ان کے شوہر نے اتنا مارا کہ کوئی عضو ٹوٹ گیا، وہ فجر کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور آپ سے ان کی شکایت کی تو نبی اکرم ﷺ نے ثابت کو بلوایا، اور کہا کہ تم اس سے کچھ مال لے کر اس سے الگ ہوجاؤ، ثابت نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، وہ بولے، میں نے اسے دو باغ مہر میں دیئے ہیں یہ ابھی بھی اس کے پاس موجود ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں لے لو اور اس سے جدا ہوجاؤ ، چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٩٠٣) (صحیح )

【55】

خلع کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس (رض) کی بیوی نے ان سے خلع کرلیا تو نبی اکرم ﷺ نے اس کی عدت ایک حیض مقرر فرمائی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو عبدالرزاق نے معمر سے معمر نے عمرو بن مسلم سے عمرو نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطلاق ١٠ (١١٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٦١٨٢) (صحیح )

【56】

خلع کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے کہ خلع کرانے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٣٩٥) (صحیح )

【57】

جو باندی کسی آزاد مرد یا غلام کے نکاح میں ہو اور وہ آزاد کردی جائے تو کیا اس کو فسخ نکاح کا اختیار ہے؟

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ مغیث (رض) ایک غلام تھے وہ کہنے لگے : اللہ کے رسول ! اس سے میری سفارش کر دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : بریرہ ! اللہ سے ڈرو، وہ تمہارا شوہر ہے اور تمہارے لڑکے کا باپ ہے کہنے لگیں : اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے ایسا کرنے کا حکم فرما رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں بلکہ میں تو سفارشی ہوں مغیث کے آنسو گالوں پر بہہ رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے عباس (رض) سے کہا : کیا آپ کو مغیث کی بریرہ کے تئیں محبت اور بریرہ کی مغیث کے تئیں نفرت سے تعجب نہیں ہو رہا ہے ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ١٥ (٥٢٨٢) ، ١٦ (٥٢٨٣) ، سنن النسائی/ آداب القضاء ٢٧ (٥٤١٩) سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٩ (٢٠٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٤٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الرضاع ٧ (١١٥٤) ، مسند احمد (١/٢١٥) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٥ (٢٣٣٨) (صحیح )

【58】

جو باندی کسی آزاد مرد یا غلام کے نکاح میں ہو اور وہ آزاد کردی جائے تو کیا اس کو فسخ نکاح کا اختیار ہے؟

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ بریرہ (رض) کے شوہر ایک کالے کلوٹے غلام تھے جن کا نام مغیث (رض) تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں (مغیث کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا اور (نہ رہنے کی صورت میں) انہیں عدت گزارنے کا حکم فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ١٥ (٥٢٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٦١٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٨١، ٣٦١) (صحیح )

【59】

جو باندی کسی آزاد مرد یا غلام کے نکاح میں ہو اور وہ آزاد کردی جائے تو کیا اس کو فسخ نکاح کا اختیار ہے؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے بریرہ کے قصہ میں روایت ہے کہ اس کا شوہر غلام تھا، رسول اللہ ﷺ نے بریرہ کو (آزاد ہونے کے بعد) اختیار دے دیا تو انہوں نے اپنے آپ کو اختیار کیا، اگر وہ آزاد ہوتا تو آپ اسے (بریرہ کو) اختیار نہ دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العتق ٢ (١٥٠٤) ، سنن الترمذی/الرضاع ٧ (١١٥٤) ، والبیوع ٣٣ (١٢٥٦) ، والوصایا ا ٧ (٢١٢٤) ، والولاء ١ (٢١٢٥) ، سنن النسائی/الزکاة ٩٩ (٢٦١٥) ، والطلاق ٢٩ (٣٤٧٧) ، ٣٠ (٣٤٨٠) ، ٣١ (٣٤٨٣، ٣٤٨٤) ، والبیوع ٧٨ (٤٦٤٦، ٧٤٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٩ (٢٠٧٤) ، والأحکام ٣ (٢٣٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٧٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العتق ١٠ (٢٥٣٦) ، والھبة ٧ (٢٥٨٧) ، والنکاح ١٨ (٥٠٩٧) ، والطلاق ١٤ (٥٢٧٩) ، ١٧ (٥٢٨٤) ، والأطعمة ٣١ (٥٠٣٠) ، والأیمان ٨ (٦٧١٧) ، والفرائض ٢٢ (٦٧٥١) ، ٢٣ (٦٧٥٤) ، موطا امام مالک/الطلاق ١٠(٢٥) ، مسند احمد (٦/٤٦، ١١٥، ١٢٣، ١٧٢، ١٧٥، ١٧٨، ١٩١، ٢٠٧) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٥ (٢٣٣٧) (صحیح) (لیکن ” اگر وہ آزاد ہوتا تو… “ کا جملہ عروة کا اپنا قول ہے )

【60】

جو باندی کسی آزاد مرد یا غلام کے نکاح میں ہو اور وہ آزاد کردی جائے تو کیا اس کو فسخ نکاح کا اختیار ہے؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بریرہ کو اختیار دیا اس کا شوہر غلام تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ العتق ٢ (١٥٠٤) ، الزکاة ٥٢ (١٠٧٥) ، سنن النسائی/الکبری/ الفرائض (٦٤٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٩٠) (صحیح )

【61】

جس نے کہا کہ بریرہ کا شوہر آزاد تھا

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جس وقت بریرہ (رض) آزاد ہوئی اس وقت اس کا شوہر آزاد ١ ؎ تھا، اسے اختیار دیا گیا، تو اس نے کہا کہ اگر مجھے اتنا اتنا مال بھی مل جائے تب بھی میں اس کے ساتھ رہنا پسند نہ کروں گی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٩٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : صحیح یہ ہے کہ وہ اس وقت غلام تھے جیسا کہ متعدد صحیح روایتیں اوپر گزریں۔

【62】

عورت کے لئے اختیار کی مدت

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ بریرہ (رض) آزاد کی گئی اس وقت وہ آل ابواحمد کے غلام مغیث (رض) کے نکاح میں تھی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے اختیار دیا اور اس سے کہا : اگر اس نے تجھ سے صحبت کرلی تو پھر تجھے اختیار حاصل نہیں رہے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود ، (تحفة الأشراف : ١٧١٨٤، ١٩٢٦٠) (حسن )

【63】

اگر شوہروبیوی دونوں ایک ساتھ آزاد ہوں تو کیا بیوی کو اختیار ملے گا

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے لونڈی غلام کے ایک جوڑے کو آزاد کرنا چاہا تو نبی اکرم ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے حکم دیا کہ وہ عورت سے پہلے مرد کو آزاد کریں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٢٨ (٣٤٧٦) ، سنن ابن ماجہ/العتق ١٠ (٢٥٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٣٤) (ضعیف) (اس کے راوی ” عبید اللہ بن عبد الرحمن “ ضعیف ہیں )

【64】

جب میاں بیوی ایک ساتھ مسلمان ہوں

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص مسلمان ہو کر آیا پھر اس کے بعد اس کی بیوی بھی مسلمان ہو کر آگئی، تو اس نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ میرے ساتھ ہی مسلمان ہوئی ہے تو آپ اسے میرے پاس لوٹا دیجئیے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٤٢ (١١٤٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٦٠ (٢٠٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٢، ٣٢٣) (ضعیف) (سماک کی عکرمہ سے روایت میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے، اور یہاں بھی دونوں روایتوں میں اضطراب ظاہر ہے )

【65】

جب میاں بیوی ایک ساتھ مسلمان ہوں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت مسلمان ہوگئی اور اس نے نکاح بھی کرلیا، اس کے بعد اس کا شوہر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! میں اسلام لے آیا تھا اور اسے میرے اسلام لانے کا علم تھا چناچہ رسول اللہ ﷺ نے دوسرے شوہر سے اسے چھین کر اس کے پہلے شوہر کو لوٹا دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٧) (ضعیف) (سابقہ حدیث دیکھئے )

【66】

جب عورت مرد کے بعد مسلمان ہو تو وہ اس کو کب تک مل سکتی ہے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی زینب (رض) کو ابوالعاص کے پاس پہلے نکاح پر واپس بھیج دیا اور نئے سرے سے کوئی نکاح نہیں پڑھایا۔ محمد بن عمرو کی روایت میں ہے چھ سال کے بعد ایسا کیا اور حسن بن علی نے کہا : دو سال کے بعد۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٤٢ (١١٤٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٦٠ (٢٠٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٧، ٢٦١، ٣٥١) (صحیح )

【67】

جو شخص مسلمان ہو اور اس کے پاس چار سے زائد بیویاں موجود ہوں تو وہ کیا کرے؟

حارث بن قیس اسدی (رض) کہتے ہیں میں نے اسلام قبول کیا، میرے پاس آٹھ بیویاں تھیں تو میں نے اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ان میں سے چار کا انتخاب کرلو (اور باقی کو طلاق دے دو ) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٠ (١٩٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٨٩) (صحیح )

【68】

جو شخص مسلمان ہو اور اس کے پاس چار سے زائد بیویاں موجود ہوں تو وہ کیا کرے؟

اس سند سے بھی قیس بن حارث (رض) سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٨٩) (صحیح )

【69】

جو شخص مسلمان ہو اور اس کے پاس چار سے زائد بیویاں موجود ہوں تو وہ کیا کرے؟

فیروز (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ان دونوں میں سے جس کو چاہو طلاق دے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٣٣ (١١٢٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٩ (١٩٥١) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٣٢) (حسن )

【70】

جب ماں باپ میں سے کوئی ایک مسلمان ہو تو اولاد کس کے پاس رہے گی

رافع بن سنان (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا، لیکن ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا، اور آپ کے پاس آ کر کہنے لگی : بیٹی میری ہے (اسے میں اپنے پاس رکھوں گی) اس کا دودھ چھوٹ چکا تھا، یا چھوٹنے والا تھا، اور رافع نے کہا کہ بیٹی میری ہے (اسے میں اپنے پاس رکھوں گا) تو رسول اللہ ﷺ نے رافع کو ایک طرف اور عورت کو دوسری طرف بیٹھنے کے لیے فرمایا، اور بچی کو درمیان میں بٹھا دیا، پھر دونوں کو اپنی اپنی جانب بلانے کے لیے کہا بچی ماں کی طرف مائل ہوئی، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ اسے ہدایت دے ، چناچہ بچی اپنے باپ کی طرف مائل ہوگئی تو انہوں نے اسے لے لیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطلاق ٥٢ (٣٤٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٢ (٢٣٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٤٦، ٤٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ باشعور بچے کو اختیار دیا جائیگا کہ ماں باپ میں سے جس کو چاہے اختیار کرلے ، اور دودھ پیتا بچہ ماں کے تابع ہوگا۔

【71】

لعان کا بیان

سہل بن سعد ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ عویمر بن اشقر عجلانی، عاصم بن عدی (رض) سے آ کر کہنے لگے : عاصم ! ذرا بتاؤ، اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی (اجنبی) شخص کو پالے تو کیا وہ اسے قتل کر دے پھر اس کے بدلے میں تم اسے بھی قتل کر دو گے، یا وہ کیا کرے ؟ میرے لیے رسول اللہ ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھو، چناچہ عاصم (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے (بغیر ضرورت) اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور اس کی اس قدر برائی کی کہ عاصم (رض) پر رسول اللہ ﷺ کی بات گراں گزری، جب عاصم (رض) گھر لوٹے تو عویمر (رض) نے ان کے پاس آ کر پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے تم سے کیا فرمایا ؟ تو عاصم (رض) نے کہا : مجھے تم سے کوئی بھلائی نہیں ملی جس مسئلہ کے بارے میں، میں نے سوال کیا اسے رسول ﷺ نے ناپسند فرمایا۔ عویمر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم میں نبی اکرم ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھ کر رہوں گا، وہ سیدھے آپ کے پاس پہنچ گئے اس وقت آپ لوگوں کے بیچ تشریف فرما تھے، عویمر (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! بتائیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ (اجنبی) آدمی کو پالے تو کیا وہ اسے قتل کر دے پھر آپ لوگ اسے اس کے بدلے میں قتل کردیں گے، یا وہ کیا کرے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق قرآن نازل ہوا ہے لہٰذا اسے لے کر آؤ ، سہل کا بیان ہے کہ ان دونوں نے لعان ١ ؎ کیا، اس وقت میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا، جب وہ (لعان سے) فارغ ہوگئے تو عویمر (رض) نے کہا : اگر میں اسے اپنے پاس رکھوں تو (گویا) میں نے جھوٹ کہا ہے چناچہ عویمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے پہلے ہی اسے تین طلاق دے دی۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں : تو یہی (ان دونوں) لعان کرنے والوں کا طریقہ بن گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤٤ (٤٢٣) ، تفسیر سورة النور ١ (٤٧٤٥) ، ٢ (٤٧٤٦) ، الطلاق ٤ (٥٢٥٩) ، ٢٩ (٥٣٠٨) ، ٣٠ (٥٣٠٩) ، الحدود ٤٣ (٦٨٥٤) ، الأحکام ١٨ (٧١٦٦) ، الاعتصام ٥ (٧٣٠٤) ، صحیح مسلم/اللعان ١(١٤٩٢) ، سنن النسائی/الطلاق ٣٥ (٣٤٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٧ (٢٠٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ١٣(٣٤) ، مسند احمد (٥/٣٣٠، ٣٣٤، ٣٣٦، ٣٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : لعان کا مطلب کسی عدالت میں یا کسی حاکم مجاز کے سامنے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہنا ہے کہ وہ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے میں سچا ہے یا یہ بچہ یا حمل اس کا نہیں ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اللہ کی اس پر لعنت ہو، اب خاوند کے جواب میں بیوی بھی چار مرتبہ قسم کھا کر یہ کہے کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر اس کا خاوند سچا ہے اور میں جھوٹی ہوں تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو، ایسا کہنے سے خاوند حد قذف سے بچ جائے گا اور بیوی زنا کی سزا سے بچ جائے گی اور دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لئے جدائی ہوجائے گی۔

【72】

لعان کا طریقہ

سہل (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عاصم بن عدی (رض) سے فرمایا : بچے کی ولادت تک عورت کو اپنے پاس روکے رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٧٩٦) ، وقد أخرجہ : (حم ٥/٣٣٥) (حسن )

【73】

لعان کا طریقہ

سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ میں ان دونوں کے لعان میں نبی اکرم ﷺ کے پاس موجود رہا اور میں پندرہ سال کا تھا، پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی لیکن اس میں اتنا اضافہ کیا کہ پھر وہ عورت حاملہ نکلی چناچہ لڑکے کو اس کی ماں کی جانب منسوب کر کے پکارا جاتا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود ، وانظر حدیث رقم (٢٢٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٥) (صحیح )

【74】

لعان کا طریقہ

لعان والی حدیث میں سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس عورت پر نظر رکھو اگر بچہ سیاہ آنکھوں والا، بڑی سرینوں والا ہو تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ اس (شوہر) نے سچ کہا ہے، اور اگر سرخ رنگ گیرو کی طرح ہو تو میں سمجھتا ہوں کی وہ جھوٹا ہے ، چناچہ اس کا بچہ ناپسندیدہ صفت پر پیدا ہوا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٢٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٥) (صحیح )

【75】

لعان کا طریقہ

اس سند سے بھی سہل بن سعد ساعدی (رض) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : تو اسے یعنی لڑکے کو اس کی ماں کی جانب منسوب کر کے پکارا جاتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٢٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٥) (صحیح )

【76】

لعان کا طریقہ

اس سند سے بھی سہل بن سعد (رض) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : انہوں (عاصم بن عدی) نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں اسے تین طلاق دے دی تو رسول ﷺ نے اسے نافذ فرما دیا، اور جو کام آپ کی موجودگی میں کیا گیا ہو وہ سنت ہے۔ سہل (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اس وقت میں موجود تھا، اس کے بعد لعان کرنے والے مرد اور عورت کے سلسلہ میں طریقہ ہی یہ ہوگیا کہ انہیں جدا کردیا جائے، اور وہ دونوں پھر کبھی اکٹھے نہ ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٢٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٥) (صحیح )

【77】

لعان کا طریقہ

سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے عہد میں دونوں لعان کرنے والوں کے پاس موجود تھا، اور میں پندرہ سال کا تھا، آپ ﷺ نے ان دونوں کے درمیان لعان کے بعد جدائی کرا دی، یہاں مسدد کی روایت پوری ہوگئی، دیگر لوگوں کی روایت میں ہے کہ : وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس موجود تھے آپ نے دونوں لعان کرنے والے مرد اور عورت کے درمیان جدائی کرا دی تو مرد کہنے لگا : اللہ کے رسول ! اگر میں اسے رکھوں تو میں نے اس پر بہتان لگایا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ سفیان ابن عیینہ کی کسی نے اس بات پر متابعت نہیں کی کہ : آپ ﷺ نے دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرا دی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٢٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٥) (صحیح )

【78】

لعان کا طریقہ

اس سند سے سہل بن سعد (رض) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ : وہ عورت حاملہ تھی اور اس نے اس کے حمل کا انکار کیا، چناچہ اس عورت کا بیٹا اسی طرف منسوب کر کے پکارا جاتا تھا، اس کے بعد میراث میں بھی یہی طریقہ رہا کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حصہ میں ماں لڑکے کی وارث ہوتی اور لڑکا ماں کا وارث ہوتا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٢٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٥) (صحیح )

【79】

لعان کا طریقہ

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں (ایک دفعہ) جمعہ کی رات مسجد میں تھا کہ اچانک انصار کا ایک شخص مسجد میں آیا، اور کہنے لگا : اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی (اجنبی) آدمی کو پالے اور (حقیقت حال) بیان کرے تو تم لوگ اسے کوڑے لگاؤ گے، یا وہ قتل کر دے تو اس کے بدلے میں تم لوگ اسے قتل کر دو گے، اور اگر وہ چپ رہے تو اندر ہی اندر غصہ میں جلے بھنے، اللہ کی قسم، میں اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ سے ضرور دریافت کروں گا، چناچہ جب دوسرا دن ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی (اجنبی) آدمی کو پالے اور حقیقت حال بیان کرے تو (تہمت کی حد کے طور پر) آپ اسے کوڑے لگائیں گے، یا وہ قتل کر دے تو اسے قتل کردیں گے، یا وہ خاموشی اختیار کر کے اندر ہی غصہ سے جلے بھنے، یہ سن کر آپ ﷺ دعا کرنے لگے : اے اللہ ! معاملے کی وضاحت فرما دے ، چناچہ لعان کی آیت والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم اور جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس گواہ نہ ہوں (سورۃ النور : ٦) آخر تک نازل ہوئی تو لوگوں میں یہی شخص اس مصیبت میں مبتلا ہوا چناچہ وہ دونوں میاں بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں نے لعان کیا، اس آدمی نے چار بار اللہ کا نام لے کر اپنے سچے ہونے کی گواہی دی، اور پانچویں بار کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو، پھر عورت لعان کرنے چلی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ٹھہرو ، لیکن وہ نہیں مانی اور لعان کر ہی لیا، تو جب وہ دونوں جانے لگے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : شاید یہ عورت کالا گھنگرالے بالوں والا بچہ جنم دے چناچہ اس نے وہ کالا اور گھنگرالے بالوں والا بچہ ہی جنم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللعان ١٠ (١٤٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٧ (٢٠٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٢١، ٤٤٨) (صحیح )

【80】

لعان کا طریقہ

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ (زنا کی) تہمت لگائی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ثبوت لاؤ ورنہ پیٹھ پر کوڑے لگیں گے ، تو ہلال نے کہا کہ : اللہ کے رسول ! جب ہم میں سے کوئی شخص کسی آدمی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھے تو وہ گواہ ڈھونڈنے جائے ؟ اس پر بھی نبی اکرم ﷺ یہی فرمائے جا رہے تھے کہ : گواہ لاؤ، ورنہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے پڑیں گے ، تو ہلال نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے میں بالکل سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور میرے بارے میں وحی نازل کر کے میری پیٹھ کو حد سے بری کرے گا، چناچہ والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم کی آیت نازل ہوئی، آپ ﷺ نے اسے پڑھا یہاں تک کہ آپ پڑھتے پڑھتے من الصادقين ١ ؎ تک پہنچے، پھر آپ ﷺ پلٹے اور آپ نے ان دونوں کو بلوایا، وہ دونوں آئے، پہلے ہلال بن امیہ کھڑے ہوئے اور گواہی دینے لگے، نبی اکرم ﷺ فرما رہے تھے : اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کرنے والا ہے ؟ پھر عورت کھڑی ہوئی اور گواہی دینے لگی، پانچویں بار میں جب ان الفاظ کے کہنے کی باری آئی کہ اگر وہ سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو تو لوگ اس سے کہنے لگے : یہ عذاب کو واجب کردینے والا ہے۔ عبداللہ بن عباس (رض) کا بیان ہے : تو وہ ہچکچائی اور ہٹ گئی اور ہمیں یہ گمان ہوا کہ وہ باز آجائے گی، لیکن پھر کہنے لگی : ہمیشہ کے لیے میں اپنی قوم پر رسوائی کا داغ نہ لگاؤں گی (یہ کہہ کر) اس نے آخری جملہ کو بھی ادا کردیا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دیکھو اس کا ہونے والا بچہ اگر سرمگیں آنکھوں، بڑی سرینوں اور موٹی پنڈلیوں والا ہوا تو وہ شریک بن سحماء کا ہے ، چناچہ انہیں صفات کا بچہ پیدا ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر اللہ کی کتاب کا فیصلہ نہ آگیا ہوتا تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہوتا ، یعنی میں اس پر حد جاری کرتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر سورة النور (٣١٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٧ (٢٠٦٧) ، مسند احمد (١/٢٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٢٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة النور ٢ (٤٧٤٦) ، الطلاق ٢٩ (٥٣٠٨) (صحیح ) وضاحت : وضاحت ١ ؎ : سورة النور : (٩-٦ )

【81】

لعان کا طریقہ

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جس وقت دونوں کو لعان کا حکم فرمایا تو ایک شخص کو حکم دیا کہ پانچویں بار میں اپنا ہاتھ مرد کے منہ پر رکھ دے اور کہے : یہ (عذاب کو) واجب کرنے والا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٤٠ (٣٥٠٣) (تحفة الأشراف : ٦٣٧٢) (صحیح )

【82】

لعان کا طریقہ

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ (رض) (جو کہ ان تین اشخاص میں سے ایک تھے جن کی اللہ تعالیٰ نے (ایک غزوہ میں پچھڑ جانے کی وجہ سے سرزنش کے بعد) توبہ قبول فرمائی تھی، وہ) اپنی زمین سے رات کو آئے تو اپنی بیوی کے پاس ایک آدمی کو پایا، اپنی آنکھوں سے سارا منظر دیکھا، اور کانوں سے پوری گفتگو سنی، لیکن صبح تک اس معاملہ کو دبا کر رکھا، صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! رات کو میں گھر آیا تو اپنی بیوی کے پاس ایک مرد کو پایا، اپنی آنکھوں سے (سب کچھ) دیکھا، اور کانوں سے (سب) سنا، ان کی ان باتوں کو آپ نے ناپسند کیا اور ان پر ناگواری کا اظہار فرمایا، تو یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم فشهادة أحدهم اور جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس کوئی گواہ بجز ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو (سورۃ النور : ٧، ٦) پھر رسول اللہ ﷺ سے جب وحی کی کیفیت دور ہوئی تو آپ نے فرمایا : ہلال ! خوش ہوجاؤ، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کشادگی کا راستہ نکال دیا ہے ، ہلال (رض) نے کہا : مجھے اپنے پروردگار سے اسی کی امید تھی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے بلواؤ ، تو وہ آئی تو آپ نے دونوں پر یہ آیتیں تلاوت فرمائیں، اور نصیحت کی نیز بتایا کہ : آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے بہت سخت ہے ۔ ہلال (رض) نے کہا : قسم اللہ کی میں نے اس کے متعلق جو کہا ہے سچ کہا ہے، وہ کہنے لگی : یہ جھوٹے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان کے درمیان لعان کراؤ ، چناچہ ہلال (رض) سے کہا گیا کہ وہ گواہی دیں تو انہوں نے چار بار اللہ کا نام لے کر گواہی دی کہ وہ سچے ہیں، پانچویں کے وقت کہا گیا : ہلال ! اللہ سے ڈرو کیونکہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت آسان ہے، اور اس بار کی گواہی تمہارے لیے عذاب کو واجب کر دے گی، وہ بولے : اللہ کی قسم ! جس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے کوڑوں سے بچایا ہے اسی طرح عذاب سے بھی بچائے گا، چناچہ پانچویں گواہی بھی دے دی کہ اگر وہ جھوٹے ہوں تو ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر عورت سے گواہی دینے کے لیے کہا گیا، تو اس نے بھی چار بار گواہی دی کہ وہ جھوٹے ہیں، پانچویں بار اس سے بھی کہا گیا کہ اللہ سے ڈر جا کیونکہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت آسان ہے، اور اس دفعہ کی گواہی عذاب کو واجب کر دے گی، یہ سن کر وہ ایک لمحہ کے لیے ہچکچائی پھر بولی : اللہ کی قسم میں اپنی قوم کو رسوا نہ کروں گی، چناچہ پانچویں بار بھی گواہی دے دی کہ اگر وہ سچے ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کے درمیان تفریق کرا دی، اور فیصلہ فرمایا کہ اس کا لڑکا باپ کی طرف نہ منسوب کیا جائے، اور لڑکے اور عورت کو تہمت نہ لگائی جائے جو اس پر یا اس کے لڑکے پر اب تہمت لگائے گا تو اس پر تہمت کی حد جاری کی جائے گی، نیز آپ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ اسے نان نفقہ اور رہائش نہیں ملے گی، کیونکہ ان کی جدائی نہ تو طلاق کی بنا پر ہوئی ہے اور نہ شوہر کے انتقال کی وجہ سے، اور آپ ﷺ نے فرمایا : اگر وہ بھورے بالوں والا، پتلی سرین والا، چوڑی پیٹھ والا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنے تو وہ ہلال کا (نطفہ) ہے، اور اگر مٹیالے رنگ والا، گھنگرالے بالوں والا، موٹی پنڈلیوں والا، اور بھاری سرین والا جنے تو اس کا جس کے نام کی تہمت لگائی گئی ہے ، چناچہ اس عورت کا بچہ مٹیالے رنگ کا گھنگرالے بالوں والا، موٹی پنڈلیوں والا اور بھاری سرین والا پیدا ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر قسمیں نہ ہوتیں تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہوتا ۔ عکرمہ کہتے ہیں : یہی بچہ آگے چل کر مضر کا امیر بنا، اسے باپ کی جانب منسوب نہیں کیا جاتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : وانظر حدیث رقم (٢٢٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٦١٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٨، ٢٤٥) (ضعیف) (اس کے راوی عباد بن منصور کی اکثر ائمہ نے تضعیف کی ہے اس لئے ان کی اس روایت کے جن بیانات کی متابعت سابقہ حدیث سے ہوجاتی ہے انہیں کو لیا جائیگا اور باقی منفرد بیانات سے قطع نظر کیا جائے گا )

【83】

لعان کا طریقہ

سعید بن جبیر کہتے ہیں : میں نے ابن عمر (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں لعان کرنے والوں سے فرمایا : تم دونوں کا حساب اللہ پر ہے، تم میں سے ایک تو جھوٹا ہے ہی (مرد سے فرمایا) اب تجھے اس پر کچھ اختیار نہیں ، اس پر اس نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے مال کا کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارا کوئی مال نہیں، اگر تم اس پر تہمت لگانے میں سچے ہو تو مال کے بدلے اس کی شرمگاہ حلال کرچکے ہو اور اگر تم نے اس پر جھوٹ بولا ہے تب تو کسی طرح بھی تم مال کے مستحق نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٣٢ (٥٣١٢) ، صحیح مسلم/اللعان ١ (١٤٩٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٤٤ (٣٥٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٥١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطلاق ٢٢ (١٢٠٢) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٧ (٢٠٦٦) ، مسند احمد (٢/١٢) ، (٤٥٨٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٩ (٢٢٧٧) (صحیح )

【84】

لعان کا طریقہ

سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے جو کہا کہ ایک شخص اپنی عورت کو تہمت لگائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے بنو عجلان کے دونوں بھائی بہنوں ١ ؎ کو (اس صورت میں) جدا کرا دیا تھا اور فرمایا تھا : اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں ایک ضرور جھوٹا ہے، تو کیا تم دونوں میں کوئی توبہ کرنے والا ہے ؟ آپ ﷺ نے ان الفاظ کو تین بار دہرایا لیکن ان دونوں نے انکار کیا تو آپ نے ان کے درمیان علیحدگی کرا دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٣٢ (٥٣٢١) ، ٥٢ (٥٣٤٩) ، صحیح مسلم/اللعان ١(١٤٩٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٤٣ (٣٥٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٥٧، ٢/٤، ٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مراد عویمر اور ان کی بیوی ہیں، اور دونوں کو تغلیبا اخوین کہا گیا ہے، اور ان دونوں پر اخوة کا اطلاق إنما المؤمنون اخوة کے اعتبار سے کیا گیا ہے۔

【85】

لعان کا طریقہ

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص نے اپنی عورت سے لعان کیا اور اس کے بچے کا باپ ہونے سے انکار کردیا چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے درمیان علیحدگی کرا دی، اور بچے کو عورت سے ملا دیا ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جس کی روایت میں مالک منفرد ہیں وہ وألحق الولد بالمرأة کا جملہ ہے، اور یونس نے زہری سے انہوں نے سہل بن سعد (رض) سے لعان کی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے : اس نے اس کے حمل کا انکار کیا تو اس (عورت) کا بیٹا اسی (عورت) کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٣٥ (٥٣٥١) ، الفرائض ١٧ (٦٧٤٨) ، صحیح مسلم/اللعان ١(١٤٩٤) ، سنن الترمذی/الطلاق ٢٢ (١٢٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٢ ٢٠٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٥٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ١٣ (٣٥) ، مسند احمد (٢/٧، ٣٨، ٦٤، ٧١) ، دی/ النکاح ٣٩ (٢٢٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اسے نسب اور وراثت میں ماں سے ملا دیا لہٰذا وہ ماں ہی کی طرف منسوب کیا جائے گا اور ماں اور بیٹا دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے برخلاف باپ کے نہ تو اس کی طرف وہ منسوب ہوگا اور نہ وہ دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوسکتے ہیں۔

【86】

جب بچہ کے بارے میں شک پیدا ہوجائے تو کیا حکم ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس بنی فزارہ کا ایک شخص آیا اور کہنے لگا : میری عورت نے ایک کالا بچہ جنا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے جواب دیا : ہاں، پوچھا : کون سے رنگ کے ہیں ؟ جواب دیا : سرخ ہیں، آپ ﷺ نے پوچھا : کیا کوئی خاکستری بھی ہے ؟ جواب دیا : ہاں، خاکی رنگ کا بھی ہے، آپ ﷺ نے پوچھا : پھر یہ کہاں سے آگیا ؟ ، بولا : شاید کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو، آپ ﷺ نے فرمایا : یہاں بھی ہوسکتا ہے (تمہارے لڑکے میں بھی) کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللعان ١ (١٥٠٠) ، سنن الترمذی/الولاء ٤ (٢١٢٩) ، سنن النسائی/الطلاق ٤٦ (٣٥٨٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٨ (٢٢٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطلاق ٢٦ (٥٣٠٥) ، الحدود ٤١ (٦٨٤٧) ، الاعتصام ١٢ (٧٣١٤) ، مسند احمد (٢/٢٣٤، ٢٣٩، ٤٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس وقت کسی رگ میں سے جس میں کالا پن زیادہ تھا نطفہ میں سواد (کالا رنگ) زیادہ مل گیا ہو، اور اس کی وجہ سے لڑکا کالا اور سیاہ رنگ ہو تو اس قسم کے اختلاف سے اس کے نسب سے متعلق دل میں شبہ کرنا صحیح نہیں ہے۔

【87】

جب بچہ کے بارے میں شک پیدا ہوجائے تو کیا حکم ہے

اس سند سے بھی زہری سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے لیکن اس میں یہ ہے کہ یہ کہہ کر اس کا مقصد اپنے سے بچہ کی نفی کرنی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللعان ١ (١٥٠٠) ، سنن النسائی/الطلاق ٤٦ (٣٥٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٣، ٢٧٩) (صحیح )

【88】

جب بچہ کے بارے میں شک پیدا ہوجائے تو کیا حکم ہے

اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : میری عورت نے ایک کالا لڑکا جنا ہے اور میں اس کا انکار کرتا ہوں، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتصام ١٢ (٧٣١٤) ، صحیح مسلم/اللعان ١ (١٥٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣١١) (صحیح )

【89】

بچہ کے نسب سے انکار کی مذمت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جس وقت آیت لعان نازل ہوئی انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس عورت نے کسی قوم میں ایسے فرد کو شامل کردیا جو حقیقت میں اس قوم کا فرد نہیں ہے، تو وہ اللہ کی رحمت سے دور رہے گی، اسے اللہ تعالیٰ جنت میں ہرگز داخل نہ کرے گا، اسی طرح جس شخص نے اپنے بچے کا انکار کیا حالانکہ اسے معلوم ہے کہ وہ اس کا بچہ ہے، اسے اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب نہ ہوگا، اور وہ اگلی پچھلی ساری مخلوق کے سامنے اسے رسوا کرے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٤٧ (٣٥١١) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ١٣ (٢٧٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٧٢) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/ النکاح ٤٢ (٢٢٨٤) (ضعیف) (اس کے راوی عبد اللہ بن یونس مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : حاصل یہ ہے کہ نہ عورت کو چاہیے کہ حرام کا بچہ کسی غیر سے جن کر اس کو اپنے خاوند کی طرف منسوب کرے اور نہ مرد کو چاہیے کہ دیدہ و دانستہ اپنے بچے کا انکار کرے اور عورت پر زنا کی تہمت لگائے۔

【90】

ولد الزنا کا مدعی ہونا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام میں اجرت پر بدکاری اور زنا نہیں ہے، جس نے زمانہ جاہلیت میں بدکاری اور زنا سے کمائی کی، تو زنا سے پیدا ہونے والا بچہ اپنے عصبہ (مالک) سے مل جائے گا اور جس نے بغیر نکاح یا ملک کے کسی بچے کا دعویٰ کیا تو نہ تو (بچہ) اس کا وارث ہوگا اور نہ وہ بچے کا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٦٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٦٢) (ضعیف) (اس کے سند میں ایک مبہم راوی ہے )

【91】

ولد الزنا کا مدعی ہونا

حدیث نمبر : 2265 عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ جس لڑکے کو اس کے باپ کے مرنے کے بعد اس باپ سے ملایا جائے جس کے نام سے اسے پکارا جاتا ہے اور باپ کے وارث اسے اپنے سے ملانے کا دعویٰ کریں تو اگر اس کی پیدائش ایسی لونڈی سے ہوئی ہے جو صحبت کے دن اس کے ملکیت میں رہی ہو تو ملانے والے سے اس کا نسب مل جائے گا اور جو ترکہ اس کے ملائے جانے سے پہلے تقسیم ہوگیا ہے اس میں اس کو حصہ نہ ملے گا، البتہ جو ترکہ تقسیم نہیں ہوا ہے اس میں اسے حصہ دیا جائے گا، لیکن جس باپ سے اس کا نسب ملایا جاتا ہے اس نے (اپنی زندگی میں اس کے بیٹا ہونے سے) انکار کیا ہو تو وارثوں کے ملانے سے وہ نہیں ملے گا، اگر وہ لڑکا ایسی لونڈی سے ہو جس کا مالک اس کا باپ نہ تھا یا آزاد عورت سے ہو جس سے اس کے باپ نے زنا کیا تو اس کا نسب نہ ملے گا اور نہ اس کا وارث ہوگا گرچہ جس کے نام سے اسے پکارا جاتا ہے اسی نے (اپنی زندگی میں) اس کے بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا ہو کیونکہ وہ زنا کی اولاد ہے آزاد عورت سے ہو یا لونڈی سے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفرائض ١٤ (٢٧٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٧١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ١٨١، ٢١٩) ، سنن الدارمی/الفرائض ٤٥ (٣١٥٤) (حسن )

【92】

ولد الزنا کا مدعی ہونا

اس سند سے بھی محمد بن راشد سے اسی مفہوم کی روایت منقول ہے لیکن اس میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ وہ ولد الزنا ہے اور اپنی ماں کے خاندان سے ملے گا چاہے وہ آزاد ہوں یا غلام، یہ شروع اسلام میں پیش آمدہ معاملہ کا حکم ہے، رہا جو مال قبل از اسلام تقسیم ہوچکا اس سے کچھ سروکار نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٨٧١٢) (حسن )

【93】

قیافہ شناسی کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس (مسدد اور ابن سرح کی روایت میں ہے) ایک دن خوش و خرم تشریف لائے (اور عثمان کی روایت میں ہے آپ کے چہرے پر خوشی کی لکیریں ١ ؎ محسوس کی جا رہی تھیں) تو آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! کیا تو نے دیکھا نہیں کہ مجزز مدلجی نے زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کو اس حال میں دیکھا کہ وہ دونوں اپنے سر چادر سے ڈھانکے ہوئے تھے اور پیر کھلے ہوئے تھے تو کہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسامہ کالے تھے اور زید گورے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٥٥) ، و فضائل الصحابة ١٧ (٣٧٣١) ، والفرائض ٣١ (٦٧٧٠) ، صحیح مسلم/الرضاع ١١ (١٤٥٩) ، سنن الترمذی/الولاء ٥ (٢١٢٩) ، سنن النسائی/الطلاق ٥١ (٣٥٢٣، ٣٥٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢١ (٢٣٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨٢، ٢٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : خوشی کی وجہ یہ تھی کہ لوگ زید بن حارثہ (رض) اور ان کے بیٹے اسامہ (رض) کے سلسلہ میں ایسی باتیں کہتے تھے جنہیں سن کر رسول اللہ ﷺ کو بڑی تکلیف ہوتی تھی، زید گورے چٹے آدمی تھے اور اسامہ کا رنگ کالا تھا اس لئے لوگ شک کرتے تھے کہ اسامہ زید کے بیٹے ہیں یا کسی اور کے جب اس قیافہ شناس مجزز مدلجی نے اس بات کی تصدیق کردی کہ ان دونوں کے پیر ملتے جلتے ہیں تو آپ کو اس سے بےحد خوشی ہوئی۔

【94】

قیافہ شناسی کا بیان

اس سند سے بھی زہری نے اسی طریق سے اسی مفہوم کی روایت بیان کی ہے اس میں ہے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : آپ ﷺ میرے پاس خوش و خرم تشریف لائے آپ کے چہرے کی لکیریں چمک رہی تھیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : أسارير وجهه کے الفاظ کو ابن عیینہ یاد نہیں رکھ سکے، ابوداؤد کہتے ہیں : أسارير وجهه ابن عیینہ کی جانب سے تدلیس ہے انہوں نے اسے زہری سے نہیں سنا ہے انہوں نے أسارير وجهه کے بجائے لأسارير من غير کے الفاظ سنے ہیں اور أسارير کا ذکر لیث وغیرہ کی حدیث میں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد بن صالح کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسامہ (رض) تارکول کی طرح بہت زیادہ کالے تھے ١ ؎ اور زید (رض) روئی کی طرح سفید۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ ان کی والدہ جن کا نام برکۃ تھا اور کنیت ام ایمن تھی بہت کالی اور حبشی خاتون تھیں۔

【95】

جب ایک بچہ کے کئی مدعی ہوں تو قرعہ اندازی کی جائے

زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں یمن کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا : اہل یمن میں سے تین آدمی علی (رض) کے پاس ایک لڑکے کے لیے جھگڑتے ہوئے آئے، ان تینوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر (پاکی) میں جماع کیا تھا، تو علی (رض) نے ان میں سے دو سے کہا کہ تم دونوں خوشی سے یہ لڑکا اسے (تیسرے کو) دے دو ، یہ سن کر وہ دونوں بھڑک گئے، پھر دو سے یہی بات کہی، وہ بھی بھڑک اٹھے، پھر دو سے اسی طرح گفتگو کی لیکن وہ بھی بھڑک اٹھے، چناچہ علی (رض) نے کہا کہ : تم تو باہم ضد کرنے والے ساجھی دار ہو لہٰذا میں تمہارے درمیان قرعہ اندازی کرتا ہوں، جس کے نام کا قرعہ نکلے گا، لڑکا اسی کو ملے گا اور وہ اپنے ساتھیوں کو ایک ایک تہائی دیت ادا کرے گا ، آپ نے قرعہ ڈالا اور جس کا نام نکلا اس کو لڑکا دے دیا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں یا کچلیاں نظر آنے لگیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٥٠ (٣٥١٩) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٠ (٢٣٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٧٣) (صحیح )

【96】

جب ایک بچہ کے کئی مدعی ہوں تو قرعہ اندازی کی جائے

زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ علی (رض) کے پاس یمن میں تین آدمی (ایک لڑکے کے لیے جھگڑا لے کر) آئے جنہوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر میں صحبت کی تھی، تو آپ نے ان میں سے دو سے پوچھا : کیا تم دونوں یہ لڑکا اسے (تیسرے کو) دے سکتے ہو ؟ انہوں نے کہا : نہیں، اس طرح آپ نے سب سے دریافت کیا، اور سب نے نفی میں جواب دیا، چناچہ ان کے درمیان قرعہ اندازی کی، اور جس کا نام نکلا اسی کو لڑکا دے دیا، نیز اس کے ذمہ (دونوں ساتھیوں کے لیے) دو تہائی دیت مقرر فرمائی، رسول اللہ ﷺ کے سامنے جب اس کا تذکرہ آیا تو آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی کچلیاں ظاہر ہوگئیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٥٠ (٣٥١٨) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٠ (٢٣٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٧٣) (صحیح )

【97】

جب ایک بچہ کے کئی مدعی ہوں تو قرعہ اندازی کی جائے

خلیل یا ابن خلیل کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب (رض) کے پاس ایک عورت کا مقدمہ لایا گیا جس نے تین آدمیوں سے صحبت کے بعد ایک لڑکا جنا تھا، آگے اسی طرح کی روایت ہے اس میں نہ تو انہوں نے یمن کا ذکر کیا ہے، نہ ہی نبی اکرم ﷺ کا، اور نہ (علی (رض) کے) اس قول کا کہ خوشی سے تم دونوں لڑکے کو اسے (تیسرے کو) دے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٦٩) (ضعیف) (اس کے راوی الخلیل لین الحدیث ہیں ، ان کے نام میں بھی اختلاف ہے، لیکن اصل حدیث صحیح ہے، کما تقدم )

【98】

زمانہ جاہلت میں نکاح کے طریقوں کا بیان

محمد بن مسلم بن شہاب کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے انہیں بتایا کہ زمانہ جاہلیت میں چار قسم کے نکاح ہوتے تھے : ایک تو ایسے ہی جیسے اس زمانے میں ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی بہن یا بیٹی وغیرہ کے لیے نکاح کا پیغام دیتا ہے وہ مہر ادا کرتا ہے اور نکاح کرلیتا ہے۔ نکاح کی دوسری قسم یہ تھی کہ آدمی اپنی بیوی سے حیض سے پاک ہونے کے بعد کہہ دیتا کہ فلاں شخص کو بلوا لے، اور اس کا نطفہ حاصل کرلے پھر وہ شخص تب تک اپنی بیوی سے صحبت نہ کرتا جب تک کہ مطلوبہ شخص سے حمل نہ قرار پا جاتا، حمل ظاہر ہونے کے بعد ہی وہ چاہتا تو اس سے جماع کرتا، ایسا اس لیے کیا جاتا تھا تاکہ لڑکا نجیب (عمدہ نسب کا) ہو، اس نکاح کو نکاح استبضاع (نطفہ حاصل کرنے کا نکاح) کہا جاتا تھا۔ نکاح کی تیسری قسم یہ تھی کہ نو افراد تک کا ایک گروہ بن جاتا پھر وہ سب اس سے صحبت کرتے رہتے، جب وہ حاملہ ہوجاتی اور بچے کی ولادت ہوتی تو ولادت کے کچھ دن بعد وہ عورت ان سب لوگوں کو بلوا لیتی، کوئی آنے سے انکار نہ کرتا، جب سب جمع ہوجاتے تو کہتی : تمہیں اپنا حال معلوم ہی ہے، اور میں نے بچہ جنا ہے، پھر وہ جسے چاہتی اس کا نام لے کر کہتی کہ اے فلاں ! یہ تیرا بچہ ہے، اور اس بچے کو اس کے ساتھ ملا دیا جاتا۔ نکاح کی چوتھی قسم یہ تھی کہ بہت سے لوگ جمع ہوجاتے اور ایک عورت سے صحبت کرتے، وہ کسی بھی آنے والے کو منع نہ کرتی، یہ بدکار عورتیں ہوتیں، ان کے دروازوں پر بطور نشانی جھنڈے لگے ہوتے، جو شخص بھی چاہتا ان سے صحبت کرتا، جب وہ حاملہ ہوجاتی اور بچہ جن دیتی تو سب جمع ہوجاتے، اور قیافہ شناس کو بلاتے، وہ جس کا بھی نام لیتا اس کے ساتھ ملا دیا جاتا، وہ بچہ اس کا ہوجاتا اور وہ کچھ نہ کہہ پاتا، تو جب اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو نبی بنا کر بھیجا تو زمانہ جاہلیت کے سارے نکاحوں کو باطل قرار دے دیا سوائے اہل اسلام کے نکاح کے جو آج رائج ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٣٦ (٥١٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧١١) (صحیح )

【99】

بچہ صاحب فراش کا ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ (رض) دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کا جھگڑا لے آئے، سعد (رض) کہنے لگے : میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں تو اس کو لے لوں کیونکہ وہ انہیں کا بیٹا ہے، اور عبد بن زمعہ (رض) کہنے لگے : یہ میرا بھائی ہے کیونکہ میرے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے، اور میرے والد کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی ہے، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے عتبہ کے ساتھ کھلی مشابہت دیکھی (اس کے باوجود) آپ ﷺ نے فرمایا : بچہ بستر والے کا ہے، اور زانی کے لیے سنگساری ہے، اور سودہ ! تم اس سے پردہ کرو ۔ مسدد نے اپنی روایت میں یہ الفاظ زیادہ کئے ہیں کہ آپ نے فرمایا : عبد ! یہ تیرا بھائی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٣ (٢٠٥٣) ، ١٠٠ (٢٢١٨) ، الخصومات ٦ (٢٤٢١) ، العتق ٨ (٢٧٤٥) ، الوصایا ٤ (٢٧٤٥) ، المغازي ٥٣ (٤٣٠٣) ، الفرائض ١٨ (٤٧٤٩) ، ٢٨ (٦٧٦٥) ، الحدود ٢٣ (٦٨١٧) ، الأحکام ٢٩ (٧١٨٢) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٠ (١٤٥٧) ، سنن النسائی/الطلاق ٤٩ (٣٥١٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٩ (٢٠٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ٢١ (٢٠) ، مسند احمد (٦/١٢٩، ٢٧٣) ، سنن الدارمی/النکاح ٤١ (٢٢٨١) (صحیح )

【100】

بچہ صاحب فراش کا ہے

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! فلاں میرا بیٹا ہے میں نے زمانہ جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام میں اس طرح کا مطالبہ صحیح نہیں، زمانہ جاہلیت کی بات ختم ہوئی، بچہ صاحب بستر کا ہے اور زانی کے لیے سنگساری ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٦٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٨، ٢٠٧) (حسن صحیح )

【101】

بچہ صاحب فراش کا ہے

رباح کہتے ہیں کہ میرے گھر والوں نے اپنی ایک رومی لونڈی سے میرا نکاح کردیا، میں نے اس سے جماع کیا تو اس نے میری ہی طرح کالا لڑکا جنا جس کا نام میں نے عبداللہ رکھا، میں نے پھر جماع کیا تو اس نے میری ہی طرح ایک اور کالے لڑکے کو جنم دیا جس کا نام میں نے عبیداللہ رکھا، اس کے بعد میرے خاندان کے یوحنا نامی ایک رومی غلام نے اسے پھانس لیا اور اس نے اس سے اپنی زبان میں بات کی چناچہ گرگٹ جیسا (سرخ) رنگ کا بچہ اس سے پیدا ہوا، میں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ کہنے لگی : یہ یوحنا کا بچہ ہے تو ہم نے یہ معاملہ عثمان (رض) کی عدالت میں پیش کیا، تو انہوں نے ان سے بازپرس کی تو دونوں نے اعتراف کرلیا، پھر انہوں نے ان دونوں سے کہا : کیا تم دونوں اس بات پر رضامند ہو کہ میں تمہارا فیصلہ اس طرح کر دوں جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا تھا ؟ آپ نے فیصلہ فرمایا کہ بچہ بستر والے کا ہے ۔ راوی کا خیال ہے کہ پھر ان دونوں کو کوڑے لگائے، (سنگسار نہیں کیا) کیونکہ وہ دونوں لونڈی و غلام تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٨٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٥٩، ٦٥، ٦٩) (ضعیف) (اس کے راوی رباح کوفی مجہول ہیں )

【102】

ماں اور باپ میں سے بچہ کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے؟

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ میرا بیٹا ہے، میرا پیٹ اس کا گھر رہا، میری چھاتی اس کے پینے کا برتن بنی، میری گود اس کا ٹھکانہ بنی، اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے، اور اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب تک تو (دوسرا) نکاح نہیں کرلیتی اس کی تو ہی زیادہ حقدار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٧٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٢، ٢٠٣) (حسن )

【103】

ماں اور باپ میں سے بچہ کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے؟

ہلال بن اسامہ سے روایت ہے کہ ابومیمونہ سلمی جو اہل مدینہ کے مولی اور ایک سچے آدمی ہیں کا بیان ہے کہ میں ایک بار ابوہریرہ (رض) کے پاس بیٹھا تھا کہ اسی دوران ان کے پاس ایک فارسی عورت آئی جس کے ساتھ اس کا لڑکا بھی تھا، اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی تھی اور وہ دونوں ہی اس کے دعویدار تھے، عورت کہنے لگی : ابوہریرہ ! (پھر اس نے فارسی زبان میں گفتگو کی) میرا شوہر مجھ سے میرے بیٹے کو لے لینا چاہتا ہے۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا : تم دونوں اس کے لیے قرعہ اندازی کرو، ابوہریرہ (رض) نے بھی فارسی زبان ہی میں اس سے گفتگو کی، اتنے میں اس کا شوہر آیا اور کہنے لگا : میرے لڑکے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑا کرسکتا ہے ؟ ابوہریرہ (رض) نے کہا : یا اللہ ! میں نے تو یہ فیصلہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ میں نے ایک عورت کو کہتے سنا تھا وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، وہ کہنے لگی : اللہ کے رسول ! میرا شوہر میرے بیٹے کو مجھ سے لے لینا چاہتا ہے، حالانکہ وہ ابوعنبہ کے کنویں سے مجھے پانی لا کر پلاتا ہے اور وہ مجھے فائدہ پہنچاتا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم دونوں اس کے لیے قرعہ اندازی کرو ، اس کا شوہر بولا : میرے لڑکے کے متعلق مجھ سے کون جھگڑا کرسکتا ہے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ تیرا باپ ہے، اور یہ تیری ماں ہے، ان میں سے تو جس کا بھی چاہے ہاتھ تھام لے ، چناچہ اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا، اور وہ اسے لے کر چلی گئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٢١ (١٣٥٧) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٢ (٣٥٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٢ (٢٣٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٤٧) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٥ (٢٣٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : امام شافعی کی یہی دلیل ہے، ان کے نزدیک لڑکے کو اختیار ہوگا کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرلے، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک جب تک کم سن ہے ماں کے ساتھ رہے گا، اور جب خود کھانے، پینے، پہنے اور استنجا کرنے لگے تو باپ کے ساتھ ہوجائے گا، یہ قول زیادہ قوی ہے۔

【104】

ماں اور باپ میں سے بچہ کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے؟

علی (رض) کہتے ہیں کہ زید بن حارثہ (رض) مکہ گئے تو حمزہ (رض) کی صاحبزادی کو لے آئے، جعفر (رض) کہنے لگے : اسے میں لوں گا، میں اس کا زیادہ حقدار ہوں، یہ میری چچا زاد بہن ہے، نیز اس کی خالہ میرے پاس ہے، اور خالہ ماں کے درجے میں ہوتی ہے، اور علی (رض) کہنے لگے : اس کا زیادہ حقدار میں ہوں کیونکہ یہ میری چچا زاد بہن ہے، نیز رسول اللہ ﷺ کی بیٹی میرے نکاح میں ہے، وہ بھی اس کی زیادہ حقدار ہیں اور زید (رض) نے کہا : سب سے زیادہ اس کا حقدار میں ہوں کیونکہ میں اس کے پاس گیا، اور سفر کر کے اسے لے کر آیا ہوں، اتنے میں نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئے تو علی (رض) نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : لڑکی کا فیصلہ میں جعفر کے حق میں کرتا ہوں وہ اپنی خالہ کے پاس رہے گی اور خالہ ماں کے درجے میں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٢٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٨، ١١٥) (صحیح )

【105】

ماں اور باپ میں سے بچہ کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے؟

عبدالرحمٰن بن ابی لیلی سے یہی حدیث مروی ہے لیکن پوری نہیں ہے اس میں ہے کہ : آپ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ لڑکی جعفر (رض) کے پاس رہے گی، کیونکہ ان کے نکاح میں اس کی خالہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٨٩٧٣، ١٠٢٢٣) (صحیح) (یہ روایت خود تو مرسل ہے، اس لئے پچھلی روایت سے تقویت پاکر صحیح مانی گئی ہے )

【106】

ماں اور باپ میں سے بچہ کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے؟

علی (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم مکہ سے نکلے تو ہمارے پیچھے پیچھے حمزہ کی لڑکی چچا چچا پکارتی آگئی، علی (رض) ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے آئے اور (فاطمہ (رض) سے) کہا : اپنے چچا کی لڑکی کو لو، انہوں نے اسے اٹھا لیا، راوی نے پھر پورا قصہ بیان کیا اور کہا کہ : جعفر (رض) کہنے لگے : یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے چناچہ رسول اللہ ﷺ نے خالہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا : خالہ ماں کے درجے میں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٣٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٨، ١٠٨، ١١٥) (صحیح )

【107】

مطلقہ کی عدت کا بیان

اسماء بنت یزید بن سکن انصاریہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں انہیں طلاق دے دی گئی، اس وقت مطلقہ کی کوئی عدت نہیں تھی تو اللہ تعالیٰ نے طلاق کی عدت کا حکم نازل فرمایا چناچہ یہی پہلی خاتون ہیں جن کے متعلق مطلقہ عورتوں کی عدت کا حکم نازل ہوا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٧٨) (حسن )

【108】

مطلقہ عورتوں کی عدت میں استثناء کے احکامات

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء اور طلاق دی ہوئی عورتیں اپنے آپ کو تین طہر تک روکے رکھیں (سورۃ البقرہ : ٢٢٨) اور فرمایا : واللائي يئسن من المحيض من نسائكم إن ارتبتم فعدتهن ثلاثة أشهر اور تمہاری وہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہوگئی ہوں اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے (سورۃ الطلاق : ٤) تو یہ عورتیں پہلی آیت کے حکم سے نکال لی گئیں ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وإن طلقتموهن من قبل أن تمسوهن اگر تم انہیں چھونے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو انہیں کوئی عدت گزارنے کی ضرورت نہیں (سورۃ الاحزاب : ٤٩) اس آیت میں مذکور عورتوں کو بھی پہلی آیت کے حکم سے نکال دیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢١٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٥٣) (حسن )

【109】

طلاق سے رجوع کرنے کا بیان

عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ام المؤمنین حفصہ (رض) کو طلاق دی پھر آپ نے ان سے رجعت کرلی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٧٦ (٣٥٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١ (٢٠١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٩٣) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطلاق ٢ (٢٣١٠) (صحیح )

【110】

اس عورت کے نفقہ کا بیان جس کو طلاق بتہ دی گئی

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن فاطمہ بنت قیس (رض) کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ ابوعمرو بن حفص (رض) نے انہیں طلاق بتہ دے دی ١ ؎ ابوعمرو موجود نہیں تھے تو ان کے وکیل نے فاطمہ کے پاس کچھ جو بھیجے، اس پر وہ برہم ہوئیں، تو اس نے کہا : اللہ کی قسم ! تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں بنتا، تو وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ماجرا بیان کیا تو آپ ﷺ نے فاطمہ سے فرمایا : اس کے ذمہ تمہارا نفقہ نہیں ہے پھر آپ ﷺ نے انہیں ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : یہ ایک ایسی عورت ہے کہ اس کے پاس میرے صحابہ کا اکثر آنا جانا لگا رہتا ہے، لہٰذا تم ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو کیونکہ وہ نابینا ہیں، پردے کی دقت نہ ہوگی، تم اپنے کپڑے اتار سکو گی، اور جب عدت مکمل ہوجائے تو مجھے اطلاع دینا ۔ فاطمہ (رض) کا بیان ہے کہ جب عدت گزر گئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم (رض) کے پیغام کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : رہے ابوجہم تو وہ کندھے سے لاٹھی ہی نہیں اتارتے (یعنی بہت زدو کو ب کرنے والے شخص ہیں) اور جہاں تک معاویہ کا سوال ہے تو وہ کنگال ہیں، ان کے پاس مال نہیں ہے ٢ ؎، لہٰذا تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو ، فاطمہ (رض) کا بیان ہے کہ وہ مجھے پسند نہیں آئے، آپ ﷺ نے پھر فرمایا کہ اسامہ بن زید سے نکاح کرلو، چناچہ میں نے اسامہ سے نکاح کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں اس قدر بھلائی رکھی کہ لوگ مجھ پر رشک کرنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٠) ، سنن النسائی/النکاح ٨ (٣٢٢٤) ، الطلاق ٧٣ (٣٥٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٣٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/النکاح ٣٧ (١١٣٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٠ (١٨٦٩) الطلاق ٤ (٢٠٢٤) ، ٩ (٢٠٣٢) ، ١٠ (٢٠٣٥) ، موطا امام مالک/الطلاق ٢٣ (٦٧) ، مسند احمد (٦/ ٤١٢، ٤١٣، ٤١٤ ، ٤١٥) ، سنن الدارمی/النکاح ٧ (٢٢٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بعض روایتوں میں ہے ” انہیں تین طلاق دی “ اور بعض میں ہے ” انہیں تین طلاق میں سے آخری طلاق دی “ اور بعض میں ہے ” انہیں ایک طلاق بھیجی جو باقی رہ گئی تھی “ ان روایات میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ وہ انہیں اس سے پہلے دو طلاق دے چکے تھے اور اس بار تیسری طلاق دی، تو جس نے یہ روایت کیا ہے کہ انہوں نے تین طلاق میں سے آخری طلاق دی یا وہ طلاق دی جو باقی رہ گئی تھی تو وہ اصل صورت حال کے مطابق ہے اور جس نے روایت کی ہے کہ طلاق بتہ دی تو اس کی مراد یہ ہے کہ ایسی طلاق دی جس سے وہ مبتوتہ ہوگی اور جس نے روایت کی ہے کہ تین طلاق دی تو اس کی مراد یہ ہے کہ تین میں جو کمی رہ گئی تھی اسے پورا کردیا۔ ٢ ؎ : صلاح و مشورہ دینے میں کسی کا حقیقی اور واقعی عیب بیان کرنا درست ہے تاکہ مشورہ لینے والا دھوکہ نہ کھائے، یہ غیبت میں داخل نہیں۔

【111】

اس عورت کے نفقہ کا بیان جس کو طلاق بتہ دی گئی

یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے مجھ سے بیان کیا کہ فاطمہ بنت قیس (رض) نے ان سے بیان کیا کہ ابو حفص بن مغیرہ (رض) نے انہیں تینوں طلاقیں دے دیں، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے کہ خالد بن ولید (رض) اور بنی مخزوم کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! ابو حفص بن مغیرہ نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں دے دی ہیں، اور اسے معمولی نفقہ (خرچ) دیا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے لیے نفقہ نہیں ہے ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، یہ مالک کی روایت زیادہ کامل ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٨٠٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ تین طلاق دی ہوئی عورت کے لئے نہ نفقہ ہے، اور نہ سکنی (رہائش) ، نفقہ و سکنی رجعی طلاق میں ہے، اس امید میں کہ شاید شوہر کے دل کے اندر رجوع کی بات پیدا ہوجائے، اور رجوع کرلے۔

【112】

اس عورت کے نفقہ کا بیان جس کو طلاق بتہ دی گئی

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف الزہری کہتے ہیں کہ مجھ سے فاطمہ بنت قیس (رض) نے بیان کیا کہ ابوعمرو بن حفص مخزومی (رض) نے انہیں تینوں طلاقیں دے دیں، پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور خالد بن ولید (رض) والا قصہ بیان کیا کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : نہ تو اس کے لیے نفقہ ہے اور نہ رہائش ، نیز نبی اکرم ﷺ نے اسے یہ خبر بھیجی کہ تو اپنے بارے میں مجھ سے سبقت نہ کرنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٨٤، (تحفة الأشراف : ١٨٠٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مجھ سے پوچھے بغیر شادی نہ کرلینا۔

【113】

اس عورت کے نفقہ کا بیان جس کو طلاق بتہ دی گئی

فاطمہ بنت قیس (رض) کہتی ہیں کہ میں قبیلہ بنی مخروم کے ایک شخص کے نکاح میں تھی اس نے مجھے طلاق بتہ دے دی، پھر راوی نے مالک کی حدیث کے مثل حدیث بیان کی اس میں ولا تفوتيني بنفسک ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح اسے شعبی اور بہی نے اور عطاء نے بواسطہ عبدالرحمٰن بن عاصم اور ابوبکر بن جہم اور سبھوں نے فاطمہ بنت قیس (رض) سے روایت کیا ہے کہ انہیں ان کے شوہر نے تین طلاق دی (نہ کہ طلاق بتہ) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٢٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٣٨) (صحیح )

【114】

اس عورت کے نفقہ کا بیان جس کو طلاق بتہ دی گئی

فاطمہ بنت قیس (رض) سے روایت ہے کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاق دے دی تو رسول اللہ ﷺ نے نہ تو انہیں نفقہ دلایا، اور نہ ہی رہائش دلائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٦(١٤٨٠) ، سنن الترمذی/الطلاق ٥ (١١٨٠) ، سنن النسائی/الطلاق ٧٢ (٣٥٨١) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٠ (٢٠٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٢٥) ، وقد أخرجہ : دی/الطلاق ١٠ (٣٢٢٠) ویأتی ہذا الحدیث برقم (٢٢٩١) (صحیح )

【115】

اس عورت کے نفقہ کا بیان جس کو طلاق بتہ دی گئی

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف الزہری کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس (رض) نے انہیں خبر دی کہ وہ ابوحفص بن مغیرہ (رض) کے عقد میں تھیں، اور ابوحفص نے انہیں تین طلاق میں سے آخری طلاق بھی دے دی تو وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے گھر نکلنے کے متعلق آپ ﷺ سے فتویٰ پوچھا تو آپ نے انہیں نابینا ابن ام مکتوم (رض) کے گھر منتقل ہوجانے کا حکم دیا ١ ؎۔ مروان نے یہ حدیث سنی تو مطلقہ کے گھر سے نکلنے کے سلسلہ میں فاطمہ (رض) کی حدیث کی تصدیق کرنے سے انکار کیا، عروہ کہتے ہیں : ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بھی فاطمہ بنت قیس (رض) کی بات کا انکار کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٢٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلقہ کا عدت گزارنے کے لئے گھر سے نکل کر کسی اور جگہ رہنا درست نہیں ہے، الا یہ کہ کوئی سخت ضرورت لاحق ہوجائے مثلا کرائے کا مکان ہو، اور کرایہ دینے کی طاقت نہ ہو، یا مکان گرپڑے، یا مالک مکان جبرا نکال دے، یا علاج و معالجہ کی ضرورت ہو، یا کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہ ہو۔

【116】

اس عورت کے نفقہ کا بیان جس کو طلاق بتہ دی گئی

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں کہ مروان نے فاطمہ بنت قیس (رض) کو بلوایا، اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ابوحفص (رض) کے عقد میں تھیں، اور نبی اکرم ﷺ نے علی (رض) کو یمن کا یعنی یمن کے بعض علاقے کا امیر بنا کر بھیجا تو ان کے شوہر بھی علی (رض) کے ساتھ گئے اور وہیں سے انہیں بقیہ ایک طلاق بھیج دی، اور عیاش بن ابی ربیعہ اور حارث بن ہشام کو انہیں نفقہ دینے کے لیے کہہ دیا تو وہ دونوں کہنے لگے : اللہ کی قسم حاملہ ہونے کی صورت ہی میں وہ نفقہ کی حقدار ہوسکتی ہیں، چناچہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں (اور آپ سے دریافت کیا) آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے نفقہ صرف اس صورت میں ہے کہ تم حاملہ ہو ، پھر فاطمہ نے گھر سے منتقل ہونے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے اجازت دے دی، پھر فاطمہ نے کہا : اللہ کے رسول ! میں کہاں جاؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر رہو، وہ نابینا ہیں، سو وہ ان کے پاس کپڑے بھی اتارتی تھیں تو وہ اسے دیکھ نہیں پاتے تھے ، چناچہ وہ وہیں رہیں یہاں تک کہ ان کی عدت پوری ہوگئی پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کا نکاح اسامہ (رض) سے کردیا۔ تو قبیصہ ١ ؎ مروان کے پاس واپس آئے اور انہیں اس کی خبر دی تو مروان نے کہا : ہم نے یہ حدیث صرف ایک عورت کے منہ سے سنی ہے ہم تو اسی مضبوط اور صحیح بات کو اپنائیں گے جس پر ہم نے لوگوں کو پایا ہے، فاطمہ (رض) کو اس کا علم ہوا تو کہنے لگیں : میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب فیصلہ کرے گی، اللہ کا فرمان ہے فطلقوهن لعدتهن ، لا تدري لعل الله يحدث بعد ذلک أمرا ٢ ؎ تک یعنی خاوند کا دل مائل ہوجائے اور رجوع کرلے فاطمہ (رض) نے کہا : تین طلاق کے بعد کیا نئی بات ہوگی ؟ ٣ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسی طرح اسے یونس نے زہری سے روایت کیا ہے، رہے زبیدی تو انہوں نے دونوں حدیثوں کو ملا کر ایک ساتھ روایت کیا ہے یعنی عبیداللہ کی حدیث کو معمر کی حدیث کے ہم معنی اور ابوسلمہ کی حدیث کو عقیل کی حدیث کے ہم معنی روایت کیا ہے۔ اور اسے محمد بن اسحاق نے زہری سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ قبیصہ بن ذویب نے ان سے اس معنی کی حدیث بیان کی ہے جس میں عبیداللہ بن عبداللہ کی حدیث پر دلالت ہے جس وقت انہوں نے یہ کہا کہ قبیصہ مروان کے پاس لوٹے اور انہیں اس واقعہ کی خبر دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٠) ، سنن النسائی/النکاح ٨ (٣٢٢٤) ، الطلاق ٧٣ (٣٥٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جیسا کہ آگے اس کی تصریح آرہی ہے۔ ٢ ؎ : انہیں ان کی عدت میں یعنی طہر کے شروع میں طلاق دو ، اور مدت کا حساب رکھو، اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ خود نکلیں، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے، اس نے یقینا اپنے اوپر ظلم کیا، تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کر دے۔ ٣ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ گھر سے نہ نکلنا یا نہ نکالنا صرف پہلی اور دوسری طلاق کے بعد ہے۔

【117】

فاطمہ بنت قیس کی تردید

ابواسحاق کہتے ہیں کہ میں اسود کے ساتھ جامع مسجد میں تھا تو انہوں نے کہا : فاطمہ بنت قیس (رض) عمر بن خطاب (رض) کے پاس آئیں انہوں نے کہا کہ ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک عورت کے کہنے پر نہیں چھوڑ سکتے، پتا نہیں اسے یہ (اصل بات) یاد بھی ہے یا بھول گئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٢٨٨) (تحفة الأشراف : ١٠٤٠٥، ١٨٠٢٥) (صحیح موقوف ) وضاحت : ١ ؎ : کتاب اللہ سے مراد سورة طلاق کی آیت لعل الله يحدث بعد ذلک أمرا ، اور سنت سے مراد عمر (رض) والی روایت ہے جس میں ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے سنا کہ مطلقہ ثلاثہ کو نفقہ اور سکنی ملے گا، لیکن یہ روایت محفوظ نہیں ہے۔

【118】

فاطمہ بنت قیس کی تردید

عروہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) فاطمہ بنت قیس (رض) کی حدیث پر سخت نکیر کرتی تھیں اور کہتی تھیں : چونکہ فاطمہ ایک ویران مکان میں رہتی تھیں جس کی وجہ سے ان کے بارے میں خدشہ لاحق ہوا اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں (مکان بدلنے کی) رخصت دی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٤١ (٥٣٢٦) تعلیقاً ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٨ (٢٠٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠١٨) (حسن )

【119】

فاطمہ بنت قیس کی تردید

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) سے فاطمہ (فاطمہ بنت قیس) رضی اللہ عنہا کے بیان پر اظہار خیال کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا اس میں اس کے لیے کوئی فائدہ نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٨٠) (صحیح )

【120】

فاطمہ بنت قیس کی تردید

سلیمان بن یسار سے بھی فاطمہ (رض) کے گھر سے نکلنے کا قصہ مروی ہے وہ کہتے ہیں : یہ بد خلقی کی بنا پر ہوا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٠٢٣) (ضعیف) (یہ روایت مرسل ہے ، سلیمان بن یسار تابعی ہیں )

【121】

فاطمہ بنت قیس کی تردید

حدیث نمبر : 2295 ہ یحییٰ بن سعید بن عاص نے عبدالرحمٰن بن حکم کی بیٹی کو تین طلاق دے دی تو عبدالرحمٰن نے انہیں اس گھر سے منتقل کرلیا تو ام المؤمنین عائشہ (رض) نے اس وقت مدینہ کے امیر مروان بن حکم کو کہلا بھیجا کہ اللہ کا خوف کھاؤ اور عورت کو اس کے گھر واپس بھیج دو ، بروایت سلیمان : مروان نے کہا : عبدالرحمٰن مجھ پر غالب آگئے یعنی انہوں نے میری بات نہیں مانی، اور بروایت قاسم : کیا آپ کو فاطمہ بنت قیس (رض) کا قصہ معلوم نہیں ؟ تو ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : فاطمہ والی حدیث نہ بیان کرو تو تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے، تو مروان نے کہا : اگر آپ نزدیک وہاں برائی کا اندیشہ تھا تو سمجھ لو یہاں ان دونوں (عمرہ اور ان کے شوہر یحییٰ ) کے درمیان بھی اسی برائی کا اندیشہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق (٥٣٢١) ، صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٣٧، ١٧٥٦٠، ١٨٠٢٢، ١٨٠٣٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ٢٢ (٦٣) (صحیح )

【122】

فاطمہ بنت قیس کی تردید

میمون بن مہران کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو سعید بن مسیب کے پاس گیا اور میں نے کہا کہ فاطمہ بنت قیس (رض) کو طلاق دی گئی تو وہ اپنے گھر سے چلی گئی (ایسا کیوں ہوا ؟ ) تو سعید نے جواب دیا : اس عورت نے لوگوں کو فتنے میں مبتلا کردیا تھا کیونکہ وہ زبان دراز تھی لہٰذا اسے ابن ام مکتوم (رض) کے پاس رکھا گیا جو نابینا تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٠٢١) (صحیح) (لیکن ابن المسیب کا یہ بیان خلاف واقعہ ، یعنی ، فاطمہ کی منتقلی تین طلاق کے سبب تھی )

【123】

جس عورت کو تین طلاقیں ہوچکی ہوں وہ دوران عدت ضرورة گھر سے باہر جا سکتی ہے

جابر (رض) کہتے ہیں کہ میری خالہ کو تین طلاقیں دی گئیں، وہ اپنی کھجوریں توڑنے نکلیں، راستے میں ایک شخص ملا تو اس نے انہیں نکلنے سے منع کیا چناچہ وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اور اپنی کھجوریں توڑو، ہوسکتا ہے تم اس میں سے صدقہ کرو یا اور کوئی بھلائی کا کام کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٧ (١٤٨١) ، سنن النسائی/الطلاق ٧١ (٣٥٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٩ (٢٠٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢١) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٤ (٢٣٣٤) (صحیح )

【124】

جس عورت کا شوہر مر جائے اس کو ایک سال کا خرچ دینا میراث کی آیت سے منسوخ ہو گیا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کا فرمان والذين يتوفون منکم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ وصیت کر جائیں کہ ان کی بیویاں سال بھر تک فائدہ اٹھائیں انہیں کوئی نہ نکالے (سورۃ البقرہ : ٢٤٠) میراث کی آیت نازل ہوجانے کے بعد منسوخ ہوگیا کیونکہ اس میں ان کے لیے چوتھائی اور آٹھواں حصہ مقرر کردیا گیا ہے اسی طرح ایک سال تک نہ نکلنے کا حکم چار مہینے دس دن کی عدت کا حکم آجانے کے بعد منسوخ ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٦٩ (٣٥٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٥٠، ١٩١١٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التفسیر ٤١ (٤٥٣١) ، الطلاق ٥٠(٥٣٤٤) (حسن )

【125】

شوہر کی وفات پر عورت سوگ منائے

حمید بن نافع کہتے ہیں کہ زینب بنت ابی سلمہ (رض) نے انہیں ان تینوں حدیثوں کی خبر دی کہ جب ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) کے والد ابوسفیان (رض) کا انتقال ہوا تو میں ان کے پاس گئی، انہوں نے زرد رنگ کی خوشبو منگا کر ایک لڑکی کو لگائی پھر اپنے دونوں رخساروں پر بھی مل لی اس کے بعد کہنے لگیں : اللہ کی قسم ! مجھے خوشبو لگانے کی قطعاً حاجت نہ تھی، میں نے تو ایسا صرف اس بنا پر کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا : کسی عورت کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، ہاں خاوند پر چار مہینے دس دن تک سوگ منانا ہے ۔ زینب (رض) کہتی ہیں : میں ام المؤمنین زینب بنت جحش (رض) کے پاس گئی جس وقت کہ ان کے بھائی کا انتقال ہوگیا تھا، انہوں نے (بھی) خوشبو منگا کر لگائی اس کے بعد کہنے لگیں : اللہ کی قسم ! مجھے خوشبو لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، میں نے ایسا صرف اس بنا پر کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر فرماتے سنا : کسی بھی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے ہاں شوہر کی وفات پر سوگ چار مہینے دس دن ہے ۔ زینب (رض) کہتی ہیں : میں نے اپنی والدہ ام سلمہ (رض) کو کہتے ہوئے سنا : ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری بیٹی کے شوہر کی وفات ہوگئی ہے اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں، کیا ہم اسے سرمہ لگا دیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ، اس نے دو بار یا تین بار پوچھا، آپ ﷺ نے ہر بار فرمایا : نہیں ، پھر فرمایا : تم چار مہینے دس دن صبر نہیں کرسکتی، حالانکہ زمانہ جاہلیت میں جب تم میں سے کسی عورت کا شوہر مرجاتا تھا تو ایک سال پورے ہونے پر اسے مینگنی پھینکنی پڑتی تھی ۔ حمید راوی کہتے ہیں میں نے زینب (رض) سے پوچھا : مینگنی پھینکنے سے کیا مراد ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ جاہلیت کے زمانہ میں جب کسی عورت کا شوہر مرجاتا تو وہ ایک معمولی سی جھونپڑی میں رہائش اختیار کرتی، پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑے پہنتی، نہ خوشبو استعمال کرسکتی اور نہ ہی کوئی زینت و آرائش کرسکتی تھی، جب سال پورا ہوجاتا تو اسے گدھا یا کوئی پرندہ یا بکری دی جاتی جسے وہ اپنے بدن سے رگڑتی، وہ جانور کم ہی زندہ رہ پاتا، پھر اس کو مینگنی دی جاتی جسے وہ سر پر گھما کر اپنے پیچھے پھینک دیتی، اس کے بعد وہ عدت سے باہر آتی اور زیب و زینت کرتی اور خوشبو استعمال کرتی۔ ابوداؤد کہتے ہیں :حفش چھوٹے گھر (تنگ کوٹھری) کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٠ (١٢٨١) ، والطلاق ٤٦ (٥٣٣٦) ، ٤٧ (٥٣٣٨) ، ٥٠ (٥٣٤٥) ، صحیح مسلم/الطلاق ٩ (١٤٨٨) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٥ (٣٥٣٠) ، ٥٩ (٣٥٥٧) ، ٦٣ (٣٥٦٣) ، ٦٧ (٣٥٦٨) ، سنن الترمذی/الطلاق ١٨ (١١٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣٤ (٢٠٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٧٦، ١٨٢٥٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ٣٥ (١٠١) ، مسند احمد (٦/٣٢٥، ٣٢٦) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٢ (٢٣٣٠) (صحیح ) زینب (رض) کہتی ہیں : میں ام المؤمنین زینب بنت جحش (رض) کے پاس گئی جس وقت کہ ان کے بھائی کا انتقال ہوگیا تھا، انہوں نے (بھی) خوشبو منگا کر لگائی اس کے بعد کہنے لگیں : اللہ کی قسم ! مجھے خوشبو لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، میں نے ایسا صرف اس بنا پر کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر فرماتے سنا : کسی بھی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے ہاں شوہر کی وفات پر سوگ چار مہینے دس دن ہے ۔ زینب (رض) کہتی ہیں : میں نے اپنی والدہ ام سلمہ (رض) کو کہتے ہوئے سنا : ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری بیٹی کے شوہر کی وفات ہوگئی ہے اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں، کیا ہم اسے سرمہ لگا دیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ، اس نے دو بار یا تین بار پوچھا، آپ ﷺ نے ہر بار فرمایا : نہیں ، پھر فرمایا : تم چار مہینے دس دن صبر نہیں کرسکتی، حالانکہ زمانہ جاہلیت میں جب تم میں سے کسی عورت کا شوہر مرجاتا تھا تو ایک سال پورے ہونے پر اسے مینگنی پھینکنی پڑتی تھی ۔ حمید راوی کہتے ہیں میں نے زینب (رض) سے پوچھا : مینگنی پھینکنے سے کیا مراد ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ جاہلیت کے زمانہ میں جب کسی عورت کا شوہر مرجاتا تو وہ ایک معمولی سی جھونپڑی میں رہائش اختیار کرتی، پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑے پہنتی، نہ خوشبو استعمال کرسکتی اور نہ ہی کوئی زینت و آرائش کرسکتی تھی، جب سال پورا ہوجاتا تو اسے گدھا یا کوئی پرندہ یا بکری دی جاتی جسے وہ اپنے بدن سے رگڑتی، وہ جانور کم ہی زندہ رہ پاتا، پھر اس کو مینگنی دی جاتی جسے وہ سر پر گھما کر اپنے پیچھے پھینک دیتی، اس کے بعد وہ عدت سے باہر آتی اور زیب و زینت کرتی اور خوشبو استعمال کرتی۔ ابوداؤد کہتے ہیں :حفش چھوٹے گھر (تنگ کوٹھری) کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٠ (١٢٨١) ، والطلاق ٤٦ (٥٣٣٦) ، ٤٧ (٥٣٣٨) ، ٥٠ (٥٣٤٥) ، صحیح مسلم/الطلاق ٩ (١٤٨٨) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٥ (٣٥٣٠) ، ٥٩ (٣٥٥٧) ، ٦٣ (٣٥٦٣) ، ٦٧ (٣٥٦٨) ، سنن الترمذی/الطلاق ١٨ (١١٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣٤ (٢٠٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٧٦، ١٨٢٥٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ٣٥ (١٠١) ، مسند احمد (٦/٣٢٥، ٣٢٦) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٢ (٢٣٣٠) (صحیح )

【126】

شوہر کی وفات کے بعد عورت اس کے گھر میں عدت گزارے

زینب بنت کعب بن عجرۃ سے روایت ہے کہ فریعہ بنت مالک بن سنان (رض) (ابو سعید خدری (رض) کی بہن) نے انہیں خبر دی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئیں، وہ آپ سے پوچھ رہی تھیں کہ کیا وہ قبیلہ بنی خدرہ میں اپنے گھر والوں کے پاس جا کر رہ سکتی ہیں ؟ کیونکہ ان کے شوہر جب اپنے فرار ہوجانے والے غلاموں کا پیچھا کرتے ہوئے طرف القدوم نامی مقام پر پہنچے اور ان سے جا ملے تو ان غلاموں نے انہیں قتل کردیا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : کیا میں اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤں ؟ کیونکہ انہوں نے مجھے جس مکان میں چھوڑا تھا وہ ان کی ملکیت میں نہ تھا اور نہ ہی خرچ کے لیے کچھ تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں (وہاں چلی جاؤ) فریعہ (رض) کہتی ہیں : (یہ سن کر) میں نکل پڑی لیکن حجرے یا مسجد تک ہی پہنچ پائی تھی کہ آپ ﷺ نے مجھے بلا لیا، یا بلانے کے لیے آپ ﷺ نے کسی سے کہا، (میں آئی) تو پوچھا : تم نے کیسے کہا ؟ میں نے وہی قصہ دہرا دیا جو میں نے اپنے شوہر کے متعلق ذکر کیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے اسی گھر میں رہو یہاں تک کہ قرآن کی بتائی ہوئی مدت (عدت) پوری ہوجائے فریعہ (رض) کہتی ہیں : پھر میں نے عدت کے چار مہینے دس دن اسی گھر میں پورے کئے، جب عثمان بن عفان (رض) کا دور خلافت آیا تو انہوں نے مجھے بلوایا اور اس مسئلہ سے متعلق مجھ سے دریافت کیا، میں نے انہیں بتایا تو انہوں نے اسی کی پیروی کی اور اسی کے مطابق فیصلہ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطلاق ٢٣ (١٢٠٤) ، سنن النسائی/الطلاق ٦٠ (٣٥٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣١ (٢٠٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٤٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ٣١ (٨٧) ، مسند احمد (٦/٣٧٠، ٤٢٠) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٤ (٢٣٣٣) (صحیح )

【127】

ان کی رائے جن کے نزدیک مطلقہ کے لئے نقل مکانی درست ہے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں غير إخراج (سورة البقرہ : ٢٤٠) والی آیت جس میں عورت کو شوہر کے گھر والوں کے پاس عدت گزارنے کا حکم ہے منسوخ کردی گئی ہے، اب وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے، عطاء کہتے ہیں : اگر چاہے تو شوہر کے گھر والوں کے پاس عدت گزارے اور شوہر کی وصیت سے فائدہ اٹھا کر وہیں سکونت اختیار کرے، اور اگر چاہے تو اللہ کے فرمان فإن خرجن فلا جناح عليكم فيما فعلن اگر وہ خود نکل جائیں تو ان کے کئے ہوئے کا تم پر کوئی گناہ نہیں کے مطابق نکل جائے، عطاء کہتے ہیں کہ پھر جب میراث کا حکم آگیا، تو شوہر کے مکان میں رہائش کا حکم منسوخ ہوگیا اب وہ جہاں چاہے عدت گزارے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التفسیر ٤١ (٤٥٣١) ، الطلاق ٥٠ (٥٣٤٤) ، سنن النسائی/ الکبری/ الطلاق (٥٧٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٠٠) (صحیح )

【128】

عدت گزارنے والی عورت کو کن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے

ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عورت کسی پر بھی تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے سوائے شوہر کے، وہ اس پر چار مہینے دس دن سوگ منائے گی (اس عرصہ میں) وہ سفید سیاہ دھاری دار کپڑے کے علاوہ کوئی رنگین کپڑا نہ پہنے، نہ سرمہ لگائے، اور نہ خوشبو استعمال کرے، ہاں حیض سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑی سی قسط یا اظفار کی خوشبو (حیض کے مقام پر) استعمال کرے ۔ راوی یعقوب نے : سفید سیاہ دھاری دار کپڑے کے بجائے : دھلے ہوئے کپڑے کا ذکر کیا، انہوں نے یہ بھی اضافہ کیا کہ اور نہ خضاب لگائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ١٢ (٣١٣) ، الجنائز ٣٠ (١٢٧٨) ، الطلاق ٤٧ (٥٣٣٩) ، ٤٩ (٥٣٤٢) ، صحیح مسلم/الطلاق ٩ (٩٣٨) ، سنن النسائی/الطلاق ٦٤ (٣٥٦٤) ، ٦٥ (٣٥٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣٥ (٢٠٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٦٥) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٣ (٢٣٣٢) (صحیح )

【129】

عدت گزارنے والی عورت کو کن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے

ام عطیہ (رض) سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے، لیکن ان دونوں راویوں کی حدیثوں میں پوری مشابہت نہیں ہے، مسمعی کا بیان ہے کہ یزید کہتے ہیں میں تو صرف یہی جانتا ہوں کہ اس میں ہے کہ خضاب نہ لگائے اور ہارون نے اس میں اتنا اور اضافہ کیا ہے کہ : رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے سوائے سفید سیاہ دھاری دار کپڑے کے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٨١٣٤) (صحیح )

【130】

عدت گزارنے والی عورت کو کن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس عورت کا شوہر انتقال کر جائے وہ نہ زرد اور گیروے رنگ کا کپڑا پہنے نہ زیور پہنے، نہ خضاب (مہندی وغیرہ) لگائے، اور نہ سرمہ لگائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٦٤ (٣٥٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ تمام کام بناؤ سنگار کے ہیں، اس لئے عدت میں ان سے پرہیز ضروری ہے۔

【131】

عدت گزارنے والی عورت کو کن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے

حدیث نمبر : 2305 ام حکیم بنت اسید اپنی والدہ سے روایت کرتی ہیں کہ ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا، ان کی آنکھوں میں تکلیف رہتی تھی تو وہ جلاء (سرمہ) لگا لیتیں تو اپنی ایک لونڈی کو انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے پاس بھیجا تاکہ وہ جلاء کے سرمہ کے متعلق ان سے پوچھے، انہوں نے کہا : اس کا سرمہ نہ لگاؤ جب تک ایسی سخت ضرورت پیش نہ آجائے جس کے بغیر چارہ نہ ہو اس صورت میں تم اسے رات میں لگاؤ، اور دن میں پونچھ لیا کرو، پھر ام سلمہ (رض) نے اسی وقت یہ بھی بتایا کہ ابوسلمہ (رض) کا جب انتقال ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، اور میں نے اپنی آنکھ میں ایلوا لگا رکھا تھا، آپ ﷺ نے پوچھا : ام سلمہ یہ کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا : اللہ کے رسول ! یہ ایلوا ہے اور اس میں خوشبو نہیں ہے، فرمایا : یہ چہرے میں حسن پیدا کرتا ہے لہٰذا اسے رات ہی میں لگاؤ، اور دن میں ہٹا دو ، اور خوشبو لگا کر کنگھی نہ کرو، اور نہ مہندی لگا کر، کیونکہ وہ خضاب ہے میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! پھر کنگھی کس چیز سے کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : بیری کے پتوں کو اپنے سر پر لپیٹ کر ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٦٦ (٣٥٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٠٠) (ضعیف) (اس کے راوی مغیرہ بن الضحاک لین الحدیث ہیں ، اور ام حکیم اور ان کی ماں دونوں مجہول ہیں )

【132】

حاملہ عورت کی عدت کا بیان

ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ ان کے والد نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ وہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ (رض) کے پاس جا کر ان کی حدیث معلوم کریں، نیز معلوم کریں کہ جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے کیا ارشاد فرمایا ؟ چناچہ عمر بن عبداللہ نے عبداللہ بن عتبہ کو لکھا، وہ انہیں بتا رہے تھے کہ انہیں سبیعہ نے بتایا ہے کہ وہ سعد بن خولہ (رض) کے نکاح میں تھیں (وہ بنی عامر بن لوی کے ایک فرد، اور بدری صحابی ہیں) حجۃ الوداع کے موقعہ پر جب وہ حاملہ تھیں تو ان کا انتقال ہوگیا، انتقال کے بعد انہوں نے بچہ جنا، جب نفاس سے پاک ہوگئیں تو نکاح کا پیغام دینے والوں کے لیے بناؤ سنگار کیا تو بنی عبدالدار کا ایک شخص ابوسنابل بن بعکک (رض) ان کے پاس آئے اور کہنے لگے : میں تمہیں بنی سنوری ہوئی دیکھ رہا ہوں، شاید نکاح کرنا چاہتی ہو، اللہ کی قسم ! تم چار مہینے دس دن (کی عدت) گزارے بغیر نکاح نہیں کرسکتی۔ سبیعہ (رض) کا بیان ہے : جب انہوں نے مجھ سے اس طرح کی گفتگو کی تو میں شام کے وقت پہن اوڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، آپ ﷺ نے مجھے مسئلہ بتایا اور فرمایا کہ بچہ جننے کے بعد ہی میں حلال ہوگئی اور آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ اگر میں چاہوں تو شادی کرسکتی ہوں۔ ابن شہاب کہتے ہیں : میرے خیال میں بچہ جننے کے بعد عورت کے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں گرچہ وہ حالت نفاس ہی میں ہو البتہ پاک ہونے تک شوہر صحبت نہیں کرے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ١٠ (٣٩٩١ تعلیقًا) ، الطلاق ٣٩ (٥٣٢٠) ، صحیح مسلم/الطلاق ٨ (١٤٨٤) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٦ (٣٥١٨، ٣٥١٩) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٧ (٢٠٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پہلے یہ آیت اتری تھی : والذين يتوفون منکم ويذرون أزواجا يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر وعشرا یہ آیت سورة بقرہ (آیت : ٢٣٤) کی ہے، اس میں حاملہ اور غیر حاملہ دونوں داخل تھیں ، پھر سورة طلاق والی آیت نمبر (٤) وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن نازل ہوئی تو حاملہ کی عدت وضع حمل (بچہ کی پیدائش) قرار پائی اور غیر حاملہ کی چار مہینہ دس دن پہلی آیت کے موافق برقرار رہی اکثر علماء کا یہی مذہب ہے اور بعض علماء کے نزدیک چونکہ دونوں آیتیں متعارض ہیں اس لئے دونوں میں سے جو مدت لمبی أبعد الأجلين ہو اسے اختیار کرے۔

【133】

حاملہ عورت کی عدت کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جو بھی چاہے مجھ سے اس بات پر لعان ١ ؎ کرلے کہ چھوٹی سورة نساء (سورۃ الطلاق) چار مہینے دس دن والے حکم کے بعد نازل ہوئی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ تفسیر سورة الطلاق ٢ (٤٩٠٩) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٦ (٣٥٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٧ (٢٠٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد مباہلہ ہے۔ ٢ ؎ : جو کہ سورة البقرہ میں ہے ابن مسعود (رض) کا مطلب یہ کہ ” عام متوفی عنہا زوجہا کے چار ماہ دس دن عدت گزارنے کا حکم سورة بقرہ میں ہے “ ، اور ” حاملہ متوفی عنہا زوجہا کی عدت صرف وضع حمل تک ہے “ کا تذکرہ سورة طلاق کے اندر ہے جو کہ سورة بقرہ کے بعد اتری ہے اس لئے یہ حکم خاص اس حکم عام کو خاص کرنے والا ہے۔

【134】

ام ولد کی عدت کا بیان

عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ (ہمارے نبی کریم ﷺ کی) سنت کو ہم پر گڈمڈ نہ کرو، (سنت یہ ہے کہ) جس کا شوہر فوت ہوجائے اس کی یعنی ام ولد ١ ؎ کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣٣ (٢٠٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ام ولد : ایسی لونڈی جس نے اپنے مالک سے بچہ جنا ہو۔

【135】

جس عورت تین طلاقیں ہوجائیں وہ سابقہ عورت سے نکاح نہیں کرسکتی تاوقتیکہ دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اس شخص کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی، پھر اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کرلیا اور وہ شخص اس کے پاس گیا لیکن جماع سے پہلے ہی اس نے اسے طلاق دے دی تو کیا وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی ؟۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ عورت دوسرے شوہر کی مٹھاس نہ چکھ لے اور وہ شوہر اس عورت کی مٹھاس نہ چکھ لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٩ (٣٤٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٥٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الشہادات ٣ (٢٦٣٩) ، والطلاق ٤ (٥٢٦٠) ، والساعة ٣٧ (٥٧٩٢) ، واللباس ٦ (٥٨٢٥) ، والأدب ٦٨ (٦٠٨٤) ، صحیح مسلم/النکاح ١٧ (١٤٣٣) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٧ (١١١٨) ، سنن النسائی/النکاح ٤٣ (٣٢٨٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٢ (١٩٣٢) ، مسند احمد (٦/٣٤، ٣٧، ١٩٢، ٢٢٦، ٢٢٩) ، سنن الدارمی/الطلاق ٤ (٢٣١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہم بستری اور صحبت کے بعد طلاق واقع ہونے کی صورت میں نکاح جدید سے وہ پہلے شوہر کی بیوی بن سکتی ہے۔

【136】

زنا سخت ترین گناہ ہے

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : (سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ) تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے ، میں نے پوچھا اس کے بعد کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے بچے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا ، میں نے کہا پھر اس کے بعد ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو ، نیز کہا : نبی اکرم ﷺ کے قول کی تصدیق کے طور پر یہ آیت نازل ہوئی والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون الخ (سورۃ الفرقان : ٦٨) جو لوگ اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں پکارتے اور ناحق اس نفس کو قتل نہیں کرتے جس کے قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور نہ زنا کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ تفسیر سورة البقرة ٣ (٤٤٧٧) ، والأدب ٢٠ (٤٧٦١) ، والحدود ٢٠ (٦٨١١) ، والدیات ٢ (٦٨٦١) ، والتوحید ٤٠ (٧٥٢٠) ، ٤٦ (٧٥٣٢) ، صحیح مسلم/الایمان ٣٧ (٨٦) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة الفرقان (٣١٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٠، ٤٧١، ٤٢٤، ٤٣٤، ٤٦٢) (صحیح )

【137】

زنا سخت ترین گناہ ہے

ابوالزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ (رض) کو کہتے سنا کہ ایک انصاری شخص کی مسکینہ لونڈی آ کر کہنے لگی کہ میرا مالک مجھے بدکاری کے لیے مجبور کرتا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی ولا تكرهوا فتياتکم على البغاء (سورۃ النور : ٣٣) تمہاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے بدکاری پر مجبور نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٨٣٣) (صحیح )

【138】

زنا سخت ترین گناہ ہے

سیلمان تیمی سے روایت ہے کہ آیت کریمہ : ومن يكرههن فإن الله من بعد إكراههن غفور رحيم (النور : ٣٣) اور جو انہیں مجبور کرے تو اللہ تعالیٰ مجبور کرنے کی صورت میں بخشنے ولا رحم کرنے والا ہے کے متعلق سعید بن ابوالحسن نے کہا : اس کا مطلب یہ ہے کہ جنہیں زنا کے لیے مجبور کیا گیا، اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٦٨٩) (صحیح )