51. طلاق کا بیان

【1】

اللہ تعالیٰ کا قول اے نبی جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو اس وقت دو کہ اس کی عدت کا وقت شروع ہو اور عدت کو شمار کرو، احصینا کے معنی ہیں ہم نے یاد کیا اور شمار کیا اور سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ ایسے طہر میں اس کو طلاق دے کہ جس میں صحبت نہ کی ہو اور دو گواہ مقرر کرے

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ انہوں نے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں (حالت حیض میں) طلاق دے دی۔ عمر بن خطاب (رض) نے نبی کریم ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا : تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمر (رض) سے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلیں اور پھر اپنے نکاح میں باقی رکھیں۔ جب ماہواری (حیض) بند ہوجائے، پھر ماہواری آئے اور پھر بند ہو، تب اگر چاہیں تو اپنی بیوی کو اپنی نکاح میں باقی رکھیں اور اگر چاہیں تو طلاق دے دیں (لیکن طلاق اس طہر میں) ان کے ساتھ ہمبستری سے پہلے ہونا چاہیے۔ یہی (طہر کی) وہ مدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔

【2】

اگر حیض والی عورت کو طلاق دی جائے تو یہ طلاق شمار ہوگی

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے انس بن سیرین نے، کہا کہ میں نے ابن عمر (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ ابن عمر (رض) نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی۔ پھر عمر (رض) نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ چاہیے کہ رجوع کرلیں۔ (انس (رض) نے بیان کیا کہ) میں نے ابن عمر (رض) سے پوچھا کہ کیا یہ طلاق، طلاق سمجھی جائے گی ؟ انہوں نے کہا کہ چپ رہ۔ پھر کیا سمجھی جائے گی ؟ اور قتادہ نے بیان کیا، ان سے یونس بن جبیر نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا (کہ نبی کریم ﷺ نے ابن عمر (رض) سے) فرمایا کہ اسے حکم دو کہ رجوع کرلے (یونس بن جبیر نے بیان کیا کہ) میں نے پوچھا، کیا یہ طلاق طلاق سمجھی جائے گی ؟ ابن عمر (رض) نے کہا تو کیا سمجھتا ہے اگر کوئی کسی فرض کے ادا کرنے سے عاجز بن جائے یا احمق ہوجائے۔ تو وہ فرض اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا ؟ ہرگز نہیں۔ امام بخاری (رح) نے کہا اور ابومعمر عبداللہ بن عمرو منقری نے کہا (یا ہم سے بیان کیا) کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عمر (رض) سے، انہوں نے کہا یہ طلاق جو میں نے حیض میں دی تھی مجھ پر شمار کی گئی۔

【3】

اس شخص کا بیان جو طلاق دے اور کیا یہ ضروری ہے کہ مرد اپنی بیوی کی طرف طلاق دیتے وقت متوجہ نہ ہو

ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کی کن بیوی نے نبی کریم ﷺ سے پناہ مانگی تھی ؟ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ جون کی بیٹی (امیمہ یا اسماء) جب نبی کریم ﷺ کے یہاں (نکاح کے بعد) لائی گئیں اور نبی کریم ﷺ ان کے پاس گئے تو اس نے یہ کہہ دیا کہ میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ تم نے بہت بڑی چیز سے پناہ مانگی ہے، اپنے میکے چلی جاؤ۔ ابوعبداللہ امام بخاری (رح) نے اس حدیث کو حجاج بن یوسف بن ابی منیع سے، اس نے بھی اپنے دادا ابومنیع (عبیداللہ بن ابی زیاد) سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے۔

【4】

اس شخص کا بیان جو طلاق دے اور کیا یہ ضروری ہے کہ مرد اپنی بیوی کی طرف طلاق دیتے وقت متوجہ نہ ہو

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن غسیل نے بیان کیا، ان سے حمزہ بن ابی اسید نے اور ان سے ابواسید (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ باہر نکلے اور ایک باغ میں پہنچے جس کا نام شوط تھا۔ جب وہاں جا کر اور باغوں کے درمیان پہنچے تو بیٹھ گئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ یہیں بیٹھو، پھر باغ میں گئے، جو نیہ لائی جا چکی تھیں اور انہیں کھجور کے ایک گھر میں اتارا۔ اس کا نام امیمہ بنت نعمان بن شراحیل تھا۔ ان کے ساتھ ایک دایہ بھی ان کی دیکھ بھال کے لیے تھی۔ جب نبی کریم ﷺ ان کے پاس گئے تو فرمایا کہ اپنے آپ کو میرے حوالے کر دے۔ اس نے کہا کیا کوئی شہزادی کسی عام آدمی کے لیے اپنے آپ کو حوالہ کرسکتی ہے ؟ بیان کیا کہ اس پر نبی کریم ﷺ نے اپنا شفقت کا ہاتھ ان کی طرف بڑھا کر اس کے سر پر رکھا تو اس نے کہا کہ میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم نے اسی سے پناہ مانگی جس سے پناہ مانگی جاتی ہے۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ باہر ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ ابواسید ! اسے دو رازقیہ کپڑے پہنا کر اسے اس کے گھر پہنچا آؤ۔

【5】

اس شخص کا بیان جو طلاق دے اور کیا یہ ضروری ہے کہ مرد اپنی بیوی کی طرف طلاق دیتے وقت متوجہ نہ ہو

اس سند سے بھی یہ حدیث مذکور ہے

【6】

None

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیمہ بنت شراحیل سے نکاح کیا تھا، پھر جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں لائی گئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا جسے اس نے ناپسند کیا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابواسید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ان کا سامان کر دیں اور رازقیہ کے دو کپڑے انہیں پہننے کے لیے دے دیں۔

【7】

اس شخص کا بیان جو طلاق دے اور کیا یہ ضروری ہے کہ مرد اپنی بیوی کی طرف طلاق دیتے وقت متوجہ نہ ہو

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوغالب یونس بن جبیر نے کہ میں نے ابن عمر (رض) سے عرض کیا : ایک شخص نے اپنی بیوی کو اس وقت طلاق دی جب وہ حائضہ تھی (اس کا کیا حکم ؟ ) اس پر انہوں نے کہا تم ابن عمر (رض) کو جانتے ہو ؟ ابن عمر (رض) نے اپنی بیوی کو اس وقت طلاق دی تھی جب وہ حائضہ تھیں۔ پھر عمر (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس کے متعلق آپ سے پوچھا۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ (ابن عمر اس وقت اپنی بیوی سے) رجعت کرلیں، پھر جب وہ حیض سے پاک ہوجائیں تو اس وقت اگر ابن عمر چاہیں، انہیں طلاق دیں۔ میں نے عرض کیا : کیا اسے بھی نبی کریم ﷺ نے طلاق شمار کیا تھا ؟ ابن عمر (رض) نے کہا اگر کوئی عاجز ہے اور حماقت کا ثبوت دے تو اس کا علاج ہے۔

【8】

اس شخص کی دلیل جس نے تین طلاقوں کو جائز کہا ہے، اس لئے کہ اللہ نے فرمایا طلاق دو بار ہے، پھر قاعدے کے مطابق روک لینا یا اچھی طرح چھوڑ دینا اور اس مریض کے متعلق جس نے (بحالت مرض اپنی بیوی کو) طلاق دے دی، ابن زبیر نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ وہ عدت گذارنے والی عورت اس کی وارث ہوگی، شعبی نے کہا کہ وہ وارث ہوگی، ابن شبرمہ نے پوچھا کہ وہ عدت گذر جانے کے بعد نکاح کرسکتی ہے، انہوں نے کہا ہاں، پھر پوچھا بتائیے کہ اگر دوسرا شوہر مر جائے (تو کیا ہوگا) شعبی نے اپنے قول سے رجوع کرلیا

ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے اور انہیں سہل بن سعد ساعدی (رض) نے خبر دی کہ عویمر العجانی (رض) عاصم بن عدی انصاری (رض) کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ اے عاصم ! تمہارا کیا خیال ہے، اگر کوئی اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر کو دیکھے تو کیا اسے وہ قتل کرسکتا ہے ؟ لیکن پھر تم قصاص میں اسے (شوہر کو) بھی قتل کر دو گے یا پھر وہ کیا کرے گا ؟ عاصم میرے لیے یہ مسئلہ آپ رسول اللہ ﷺ سے پوچھ دیجئیے۔ عاصم (رض) نے جب نبی کریم ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھا تو نبی کریم ﷺ نے اس سوالات کو ناپسند فرمایا اور اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ کے کلمات عاصم (رض) پر گراں گزرے اور جب وہ واپس اپنے گھر آگئے تو عویمر (رض) نے آ کر ان سے پوچھا کہ بتائیے آپ سے نبی کریم ﷺ نے کیا فرمایا ؟ عاصم نے اس پر کہا تم نے مجھ کو آفت میں ڈالا۔ جو سوال تم نے پوچھا تھا وہ نبی کریم ﷺ کو ناگوار گزرا۔ عویمر نے کہا کہ اللہ کی قسم ! یہ مسئلہ نبی کریم ﷺ سے پوچھے بغیر میں باز نہیں آؤں گا۔ چناچہ وہ روانہ ہوئے اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ نبی کریم ﷺ لوگوں کے درمیان میں تشریف رکھتے تھے۔ عویمر (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر کو پا لیتا ہے تو آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا وہ اسے قتل کر دے ؟ لیکن اس صورت میں آپ اسے قتل کردیں گے یا پھر اسے کیا کرنا چاہیے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیوی کے بارے میں وحی نازل کی ہے، اس لیے تم جاؤ اور اپنی بیوی کو بھی ساتھ لاؤ۔ سہل نے بیان کیا کہ پھر دونوں (میاں بیوی) نے لعان کیا۔ لوگوں کے ساتھ میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس وقت موجود تھا۔ لعان سے جب دونوں فارغ ہوئے تو عویمر (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اگر اس کے بعد بھی میں اسے اپنے پاس رکھوں تو (اس کا مطلب یہ ہوگا کہ) میں جھوٹا ہوں۔ چناچہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے حکم سے پہلے ہی اپنی بیوی کو تین طلاق دی۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر لعان کرنے والے کے لیے یہی طریقہ جاری ہوگیا۔

【9】

اس شخص کی دلیل جس نے تین طلاقوں کو جائز کہا ہے، اس لئے کہ اللہ نے فرمایا طلاق دو بار ہے، پھر قاعدے کے مطابق روک لینا یا اچھی طرح چھوڑ دینا اور اس مریض کے متعلق جس نے (بحالت مرض اپنی بیوی کو) طلاق دے دی، ابن زبیر نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ وہ عدت گذارنے والی عورت اس کی وارث ہوگی، شعبی نے کہا کہ وہ وارث ہوگی، ابن شبرمہ نے پوچھا کہ وہ عدت گذر جانے کے بعد نکاح کرسکتی ہے، انہوں نے کہا ہاں، پھر پوچھا بتائیے کہ اگر دوسرا شوہر مر جائے (تو کیا ہوگا) شعبی نے اپنے قول سے رجوع کرلیا

ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں عائشہ (رض) نے خبر دی کہ رفاعہ قرظی (رض) کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! رفاعہ نے مجھے طلاق دے دی تھی اور طلاق بھی بائن، پھر میں نے اس کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر قرظی (رض) سے نکاح کرلیا لیکن ان کے پاس تو کپڑے کے پلو جیسا ہے (یعنی وہ نامرد ہیں) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ غالباً تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو لیکن ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک تم اپنے موجودہ شوہر کا مزا نہ چکھ لو اور وہ تمہارا مزہ نہ چکھ لے۔

【10】

اس شخص کی دلیل جس نے تین طلاقوں کو جائز کہا ہے، اس لئے کہ اللہ نے فرمایا طلاق دو بار ہے، پھر قاعدے کے مطابق روک لینا یا اچھی طرح چھوڑ دینا اور اس مریض کے متعلق جس نے (بحالت مرض اپنی بیوی کو) طلاق دے دی، ابن زبیر نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ وہ عدت گذارنے والی عورت اس کی وارث ہوگی، شعبی نے کہا کہ وہ وارث ہوگی، ابن شبرمہ نے پوچھا کہ وہ عدت گذر جانے کے بعد نکاح کرسکتی ہے، انہوں نے کہا ہاں، پھر پوچھا بتائیے کہ اگر دوسرا شوہر مر جائے (تو کیا ہوگا) شعبی نے اپنے قول سے رجوع کرلیا

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عمر عمری نے، کہا کہ مجھ سے قاسم بن محمد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ ایک صاحب نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھی۔ ان کی بیوی نے دوسری شادی کرلی، پھر دوسرے شوہر نے بھی (ہمبستری سے پہلے) انہیں طلاق دے دی۔ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کیا پہلا شوہر اب ان کے لیے حلال ہے (کہ ان سے دوبارہ شادی کرلیں) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں، یہاں تک کہ وہ یعنی شوہر ثانی اس کا مزہ چکھے جیسا کہ پہلے نے مزہ چکھا تھا۔

【11】

اپنی بیویوں کو اختیار دینے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں سامان دیکر اچھی طرح رخصت کردوں۔

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے مسلم بن صبیح نے بیان کیا، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اختیار دیا تھا اور ہم نے اللہ اور اس کے رسول کو ہی پسند کیا تھا لیکن اس کا ہمارے حق میں کوئی شمار (طلاق) میں نہیں ہوا تھا۔

【12】

اپنی بیویوں کو اختیار دینے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں سامان دیکر اچھی طرح رخصت کردوں۔

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، کہا ہم سے عامر نے بیان کیا، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ (رض) سے اختیار کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں اختیار دیا تھا تو کیا محض یہ اختیار طلاق بن جاتا۔ مسروق نے کہا کہ اختیار دینے کے بعد اگر تم مجھے پسند کرلیتی ہو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں، چاہے میں ایک مرتبہ اختیار دوں یا سو مرتبہ (طلاق نہیں ہوگی) ۔

【13】

اس شخص کا بیان جو اپنی بیوی سے کہے تو مجھ پر حرام ہے، حسن نے کہا مرد کی نیت کا اعتبار ہوگا اور اہل علم نے کہا کہ جب تین طلاق دے تو اس پر حرام ہے اور اس کو کہتے ہیں طلاق یا فراق کے باعث حرام ہے، لیکن یہ تحریم ایسی نہیں جیسے کوئی شخص کھانے کو حرام کہہ دے اس لئے کہ حلال کھانے کو حرام نہیں کہہ سکتے اور طلاق دی گئی عورت کو حرام کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تین طلاق دینے کے متعلق فرمایا کہ عورت اس کے لئے حلال نہیں جب تک کہ دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے اور لیث نے نافع سے نقل کیا کہ ابن عمر (رض) سے جب اس شخص کے متعلق پوچھا جاتا جس نے تین طلاق دی ہو تو کہتے کاش ایک یا دو طلاق دیتا اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے اس کا حکم دیا، اگر اس کو تین طلاق دیدی تو وہ حرام ہوگئی، جب تک کہ دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرلے۔

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک شخص رفاعی نے اپنی بیوی (تمیمہ بنت وہب) کو طلاق دے دی، پھر ایک دوسرے شخص سے ان کی بیوی نے نکاح کیا لیکن انہوں نے بھی ان کو طلاق دے دی۔ ان دوسرے شوہر کے پاس کپڑے کے پلو کی طرح تھا۔ عورت کو اس سے پورا مزہ جیسا وہ چاہتی تھی نہیں ملا۔ آخر عبدالرحمٰن نے تھوڑے ہی دنوں رکھ کر اس کو طلاق دے دی۔ اب وہ عورت نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تھی، پھر میں نے ایک دوسرے مرد سے نکاح کیا۔ وہ میرے پاس تنہائی میں آئے لیکن ان کے ساتھ تو کپڑے کے پلو کی طرح کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ کل ایک ہی بار اس نے مجھ سے صحبت کی وہ بھی بیکار (دخول ہی نہیں ہوا اوپر ہی اوپر چھو کر رہ گیا) کیا اب میں اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہوگئی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہوسکتی جب تک دوسرا خاوند تیری شیرینی نہ چکھے۔

【14】

لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَکَ کا شان نزول

مجھ سے حسن بن الصباح نے بیان کیا، انہوں نے ربیع بن نافع سے سنا کہ ہم سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے یعلیٰ بن حکیم نے، ان سے سعید بن جبیر نے، انہوں نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے ابن عباس (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کہا تو یہ کوئی چیز نہیں اور فرمایا کہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی پیروی عمدہ پیروی ہے۔

【15】

لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَکَ کا شان نزول

ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ شہد اور میٹھی چیزیں پسند کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ عصر کی نماز سے فارغ ہو کر جب واپس آتے تو اپنی ازواج کے پاس واپس تشریف لے جاتے اور بعض سے قریب بھی ہوتے تھے۔ ایک دن نبی کریم ﷺ حفصہ بنت عمر (رض) کے پاس تشریف لے گئے اور معمول سے زیادہ دیر ان کے گھر ٹھہرے۔ مجھے اس پر غیرت آئی اور میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ حفصہ (رض) کو ان کی قوم کی کسی خاتون نے انہیں شہد کا ایک ڈبہ دیا ہے اور انہوں نے اسی کا شربت نبی کریم ﷺ کے لیے پیش کیا ہے۔ میں نے اپنے جی میں کہا : اللہ کی قسم ! میں تو ایک حیلہ کروں گی، پھر میں نے سودہ بنت زمعہ (رض) سے کہا کہ نبی کریم ﷺ تمہارے پاس آئیں گے اور جب آئیں تو کہنا کہ معلوم ہوتا ہے آپ نے مغافیر کھا رکھا ہے ؟ ظاہر ہے کہ نبی کریم ﷺ اس کے جواب میں انکار کریں گے۔ اس وقت کہنا کہ پھر یہ بو کیسی ہے جو آپ کے منہ سے معلوم کر رہی ہوں ؟ اس پر نبی کریم ﷺ کہیں گے کہ حفصہ نے شہد کا شربت مجھے پلایا ہے۔ تم کہنا کہ غالباً اس شہد کی مکھی نے مغافیر کے درخت کا عرق چوسا ہوگا۔ میں بھی نبی کریم ﷺ سے یہی کہوں گی اور صفیہ تم بھی یہی کہنا۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ سودہ (رض) کہتی تھیں کہ اللہ کی قسم ! نبی کریم ﷺ جونہی دروازے پر آ کر کھڑے ہوئے تو تمہارے خوف سے میں نے ارادہ کیا کہ نبی کریم ﷺ سے وہ بات کہوں جو تم نے مجھ سے کہی تھی۔ چناچہ جب نبی کریم ﷺ سودہ (رض) کے قریب تشریف لے گئے تو انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ انہوں نے کہا، پھر یہ بو کیسی ہے جو آپ کے منہ سے محسوس کرتی ہوں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے۔ اس پر سودہ (رض) بولیں اس شہد کی مکھی نے مغافیر کے درخت کا عرق چوسا ہوگا۔ پھر جب نبی کریم ﷺ میرے یہاں تشریف لائے تو میں نے بھی یہی بات کہی اس کے بعد جب صفیہ (رض) کے یہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی اسی کو دہرایا۔ اس کے بعد جب پھر نبی کریم ﷺ حفصہ (رض) کے یہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! وہ شہد پھر نوش فرمائیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ اس پر سودہ بولیں، واللہ ! ہم نبی کریم ﷺ کو روکنے میں کامیاب ہوگئے، میں نے ان سے کہا کہ ابھی چپ رہو۔

【16】

زبردستی، نشہ اور جنون کی حالت میں طلاق دینے اور غلطی اور بھول کر طلاق دینے اور شرک وغیرہ کا بیان (اسکا حکم نیت پر ہے) اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی نیت کی ہو۔ شعبی نے یہ آیت تلاوت کی کہ اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہمارا مواخذہ نہ کر اور اس امر کا بیان کہ وہمی شخص کا اقرار جائز نہیں اور آنحضرت ﷺ نے اس آدمی کو جس نے (زناکا) اقرار کیا تھا فرمایا کہ کیا تو دیوانہ ہوگیا ہے اور علی (رض) نے بیان کیا کہ حمزہ (رض) نے میری اونٹنیوں کے پہلو چیردئیے، آنحضرت ﷺ حمزہ کو ملامت کرنے لگے دیکھا کہ حمزہ (رض) کی آنکھیں سرخ ہیں اور نشہ میں چور ہیں، پھر حمزہ نے کہا کیا تم میرے باپ کے غلام نہیں ہو، آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوا کہ وہ نشہ میں ہیں تو آپ وہاں سے روانہ ہوگئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ چل دئیے۔ عثمان (رض) نے کہا کہ مجنون اور مست کی طلاق نہیں ہوگی، ابن عباس نے کہا مست اور مجبور کی طلاق نہیں ہوتی اور عقبہ بن عامرنے کہا وہمی آدمی کی طلاق نہیں ہوتی، عطاء کا قول ہے اگر طلاق کے لفظ سے ابتدا کرے (اور اسکے بعد شرط بیان کرے) تو وقوع شرط کے بعد ہی طلاق ہوگی، نافع نے پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی، اس شرط پر کہ وہ گھر سے باہر نکلے (تواسکا کیا حکم ہے) ابن عمر (رض) نے جواب دیا کہ اگر وہ عورت گھر سے باہر نکل گئی تو اس کو طلاق بتہ ہوجائے گی اگر باہر نہ نکلی تو کچھ بھی نہیں اور زہری نے کہا اگر کوئی شخص کہے کہ اگر میں ایسا ایسا نہ کروں تو میری بیوی کو تین طلاق ہے (اس صورت میں) اس سے پوچھا جائے گا کہ اس قول سے قائل کی نیت کیا تھی، اگر وہ کوئی مدت بیان کردے کہ قسم کھاتے وقت دل میں اسکی نیت یہ تھی تو دینداری اور امانت کی وجہ سے اسکا اعتبار کیا جائے گا۔ ابراہیم نے کہا اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ مجھے تیری ضرورت نہیں تو اسکی نیت کا اعتبار ہوگا اور ہر قوم کی طلاق انکی زبان میں جائز ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ اگر تو حاملہ ہوجائے تو تجھ کو تین طلاق ہے، اس صورت میں قتادہ نے کہا اس کو ہر طہر میں ایک طلاق پڑے گی اور جب اسکا حمل ظاہر ہوجائے تو وہ اس سے جدا ہوجائے گی، اور اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ اپنے گھروالوں کے پاس چلی جاتوحسن نے اس صورت میں کہا کہ اس کی نیت کا اعتبار کیا جائے گا، اور ابن عباس (رض) نے کہا کہ طلاق بوقت ضرورت جائز ہے اور آزاد کرنا اسی صورت میں بہتر ہے جب کہ اللہ کی خوشنودی پیش نظر ہو۔ زہری کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے تو میری بیوی نہیں ہے تو اسکی نیت کا اعتبار ہوگا، اگر اس نے طلاق کی نیت کی ہے تو طلاق ہوگی ورنہ طلاق نہ ہوگی، حضرت علی (رض) نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ تین قسم کے آدمی مرفوع القلم ہیں، مجنون جب تک کہ وہ ہوش میں نہ آجائے، بچہ جب تک کہ بالغ نہ ہوجائے اور سونے والاجب تک کہ نیند سے بیدار نہ ہوجائے اور حضرت علی نے کہا کہ تمام طلاقیں سوا مجنون کی طلاق کے جائز ہیں

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے زرارہ بن اوفی نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کو خیالات فاسدہ کی حد تک معاف کیا ہے، جب تک کہ اس پر عمل نہ کرے یا اسے زبان سے ادا نہ کرے۔ قتادہ (رح) نے کہا کہ اگر کسی نے اپنے دل میں طلاق دے دی تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا جب تک زبان سے نہ کہے۔

【17】

زبردستی، نشہ اور جنون کی حالت میں طلاق دینے اور غلطی اور بھول کر طلاق دینے اور شرک وغیرہ کا بیان (اسکا حکم نیت پر ہے) اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی نیت کی ہو۔ شعبی نے یہ آیت تلاوت کی کہ اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہمارا مواخذہ نہ کر اور اس امر کا بیان کہ وہمی شخص کا اقرار جائز نہیں اور آنحضرت ﷺ نے اس آدمی کو جس نے (زناکا) اقرار کیا تھا فرمایا کہ کیا تو دیوانہ ہوگیا ہے اور علی (رض) نے بیان کیا کہ حمزہ (رض) نے میری اونٹنیوں کے پہلوچیردئیے، آنحضرت ﷺ حمزہ کو ملامت کرنے لگے دیکھا کہ حمزہ (رض) کی آنکھیں سرخ ہیں اور نشہ میں چور ہیں، پھر حمزہ نے کہا کیا تم میرے باپ کے غلام نہیں ہو، آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوا کہ وہ نشہ میں ہیں تو آپ وہاں سے روانہ ہوگئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ چل دئیے۔ عثمان (رض) نے کہا کہ مجنون اور مست کی () طلاق نہیں ہوگی، ابن عباس نے کہا مست اور مجبور کی طلاق نہیں ہوتی اور عقبہ بن عامرنے کہا وہمی آدمی کی طلاق نہیں ہوتی، عطاء کا قول ہے اگر طلاق کے لفظ سے ابتدا کرے (اور اسکے بعد شرط بیان کرے) تو وقوع شرط کے بعد ہی طلاق ہوگی، نافع نے پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی، اس شرط پر کہ وہ گھر سے باہر نکلے (تواسکا کیا حکم ہے) ابن عمر (رض) نے جواب دیا کہ اگر وہ عورت گھر سے باہر نکل گئی تو اس کو طلاق بتہ ہوجائے گی اگر باہر نہ نکلی تو کچھ بھی نہیں اور زہری نے کہا اگر کوئی شخص کہے کہ اگر میں ایسا ایسا نہ کروں تو میری بیوی کو تین طلاق ہے (اس صورت میں) اس سے پوچھا جائے گا کہ اس قول سے قائل کی نیت کیا تھی، اگر وہ کوئی مدت بیان کردے کہ قسم کھاتے وقت دل میں اسکی نیت یہ تھی تو دینداری اور امانت کی وجہ سے اسکا اعتبار کیا جائے گا۔ ابراہیم نے کہا اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ مجھے تیری ضرورت نہیں تو اسکی نیت کا اعتبار ہوگا اور ہر قوم کی طلاق انکی زبان میں جائز ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ اگر تو حاملہ ہوجائے تو تجھ کو تین طلاق ہے، اس صورت میں قتادہ نے کہا اس کو ہر طہر میں ایک طلاق پڑے گی اور جب اسکا حمل ظاہر ہوجائے تو وہ اس سے جدا ہوجائے گی، اور اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ اپنے گھروالوں کے پاس چلی جاتوحسن نے اس صورت میں کہا کہ اس کی نیت کا اعتبار کیا جائے گا، اور ابن عباس (رض) نے کہا کہ طلاق بوقت ضرورت جائز ہے اور آزاد کرنا اسی صورت میں بہتر ہے جب کہ اللہ کی خوشنودی پیش نظر ہو۔ زہری کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے تو میری بیوی نہیں ہے تو اسکی نیت کا اعتبار ہوگا، اگر اس نے طلاق کی نیت کی ہے تو طلاق ہوگی ورنہ طلاق نہ ہوگی، حضرت علی (رض) نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ تین قسم کے آدمی مرفوع القلم ہیں، مجنون جب تک کہ وہ ہوش میں نہ آجائے، بچہ جب تک کہ بالغ نہ ہوجائے اور سونے والا جب تک کہ نیند سے بیدار نہ ہوجائے اور حضرت علی نے کہا کہ تمام طلاقیں سوا مجنون کی طلاق کے جائز ہیں

ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن وہب نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں ابن شہاب نے، کہا کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور انہیں جابر (رض) نے کہ قبیلہ اسلم کے ایک صاحب ماعز نامی مسجد میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ انہوں نے زنا کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے منہ موڑ لیا لیکن پھر وہ نبی کریم ﷺ کے سامنے آگئے (اور زنا کا اقرار کیا) پھر انہوں نے اپنے اوپر چار مرتبہ شہادت دی تو نبی کریم ﷺ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم پاگل تو نہیں ہو، کیا واقعی تم نے زنا کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں، پھر آپ نے پوچھا کیا تو شادی شدہ ہے ؟ اس نے کہا کہ جی ہاں ہوچکی ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے انہیں عیدگاہ پر رجم کرنے کا حکم دیا۔ جب انہیں پتھر لگا تو وہ بھاگنے لگے لیکن انہیں حرہ کے پاس پکڑا گیا اور جان سے مار دیا گیا۔

【18】

زبردستی، نشہ اور جنون کی حالت میں طلاق دینے اور غلطی اور بھول کر طلاق دینے اور شرک وغیرہ کا بیان (اسکا حکم نیت پر ہے) اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی نیت کی ہو۔ شعبی نے یہ آیت تلاوت کی کہ اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہمارا مواخذہ نہ کر اور اس امر کا بیان کہ وہمی شخص کا اقرار جائز نہیں اور آنحضرت ﷺ نے اس آدمی کو جس نے (زناکا) اقرار کیا تھا فرمایا کہ کیا تو دیوانہ ہوگیا ہے اور علی (رض) نے بیان کیا کہ حمزہ (رض) نے میری اونٹنیوں کے پہلوچیردئیے، آنحضرت ﷺ حمزہ کو ملامت کرنے لگے دیکھا کہ حمزہ (رض) کی آنکھیں سرخ ہیں اور نشہ میں چور ہیں، پھر حمزہ نے کہا کیا تم میرے باپ کے غلام نہیں ہو، آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوا کہ وہ نشہ میں ہیں تو آپ وہاں سے روانہ ہوگئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ چل دئیے۔ عثمان (رض) نے کہا کہ مجنون اور مست کی () طلاق نہیں ہوگی، ابن عباس نے کہا مست اور مجبور کی طلاق نہیں ہوتی اور عقبہ بن عامرنے کہا وہمی آدمی کی طلاق نہیں ہوتی، عطاء کا قول ہے اگر طلاق کے لفظ سے ابتدا کرے ( اور اسکے بعد شرط بیان کرے) تو وقوع شرط کے بعد ہی طلاق ہوگی، نافع نے پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی، اس شرط پر کہ وہ گھر سے باہر نکلے (تواسکا کیا حکم ہے) ابن عمر (رض) نے جواب دیا کہ اگر وہ عورت گھر سے باہر نکل گئی تو اس کو طلاق بتہ ہوجائے گی اگر باہر نہ نکلی تو کچھ بھی نہیں اور زہری نے کہا اگر کوئی شخص کہے کہ اگر میں ایسا ایسا نہ کروں تو میری بیوی کو تین طلاق ہے (اس صورت میں) اس سے پوچھا جائے گا کہ اس قول سے قائل کی نیت کیا تھی، اگر وہ کوئی مدت بیان کردے کہ قسم کھاتے وقت دل میں اسکی نیت یہ تھی تو دینداری اور امانت کی وجہ سے اسکا اعتبار کیا جائے گا۔ ابراہیم نے کہا اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ مجھے تیری ضرورت نہیں تو اسکی نیت کا اعتبار ہوگا اور ہر قوم کی طلاق انکی زبان میں جائز ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ اگر تو حاملہ ہوجائے تو تجھ کو تین طلاق ہے، اس صورت میں قتادہ نے کہا اس کو ہر طہر میں ایک طلاق پڑے گی اور جب اسکا حمل ظاہر ہوجائے تو وہ اس سے جدا ہوجائے گی، اور اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ اپنے گھروالوں کے پاس چلی جاتوحسن نے اس صورت میں کہا کہ اس کی نیت کا اعتبار کیا جائے گا، اور ابن عباس (رض) نے کہا کہ طلاق بوقت ضرورت جائز ہے اور آزاد کرنا اسی صورت میں بہتر ہے جب کہ اللہ کی خوشنودی پیش نظر ہو۔ زہری کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے تو میری بیوی نہیں ہے تو اسکی نیت کا اعتبار ہوگا، اگر اس نے طلاق کی نیت کی ہے تو طلاق ہوگی ورنہ طلاق نہ ہوگی، حضرت علی (رض) نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ تین قسم کے آدمی مرفوع القلم ہیں، مجنون جب تک کہ وہ ہوش میں نہ آجائے، بچہ جب تک کہ بالغ نہ ہوجائے اور سونے والا جب تک کہ نیند سے بیدار نہ ہوجائے اور حضرت علی نے کہا کہ تمام طلاقیں سوا مجنون کی طلاق کے جائز ہیں

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور سعید بن مسیب نے خبر دی کہ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب کیا اور عرض کیا کہ انہوں نے زنا کرلیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے منہ موڑ لیا ہے لیکن وہ آدمی نبی کریم ﷺ کے سامنے اس رخ کی طرف مڑ گیا، جدھر آپ ﷺ نے چہرہ مبارک پھیرلیا تھا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! دوسرے (یعنی خود) نے زنا کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی منہ موڑ لیا لیکن وہ پھر نبی کریم ﷺ کے سامنے اس رخ کی طرف آگیا جدھر نبی کریم ﷺ نے منہ موڑ لیا تھا اور یہی عرض کیا۔ نبی کریم ﷺ نے پھر ان سے منہ موڑ لیا، پھر جب چوتھی مرتبہ وہ اسی طرح نبی کریم ﷺ کے سامنے آگیا اور اپنے اوپر اس نے چار مرتبہ (زنا کی) شہادت دی تو نبی کریم ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم پاگل تو نہیں ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر نبی کریم ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ انہیں لے جاؤ اور سنگسار کرو کیونکہ وہ شادی شدہ تھے۔ اور زہری سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی جنہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے سنا تھا کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہوں نے ان صحابی کو سنگسار کیا تھا۔ ہم نے مدینہ منورہ کی عیدگاہ پر سنگسار کیا تھا۔ جب ان پر پتھر پڑا تو وہ بھاگنے لگے لیکن ہم نے انہیں حرہ میں پھر پکڑ لیا اور انہیں سنگسار کیا یہاں تک کہ وہ مرگئے۔

【19】

None

مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی جنہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا تھا کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہوں نے ان صحابی کو سنگسار کیا تھا۔ ہم نے مدینہ منورہ کی عیدگاہ پر سنگسار کیا تھا۔ جب ان پر پتھر پڑا تو وہ بھاگنے لگے لیکن ہم نے انہیں حرہ میں پھر پکڑ لیا اور انہیں سنگسار کیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔

【20】

خلع اور اس امر کا بیان کہ خلع میں طلاق کس طرح ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو کچھ تم نے ان عورتوں کو دیا ہے، اس کالینا تمہارے حلال نہیں ہے، آخر آیت ظالمون تک، اور حضرت عمر (رض) نے خلع کو جائز کہا ہے، اگرچہ سلطان کے سامنے نہ ہو اور حضرت عثمان (رض) نے سرکے چٹلے سے کم قیمت کے عوض بھی خلع کو جائز کہا اور آیت الا ان یخافا الایقیما حدود اللہ کے متعلق طاؤس فرماتے ہیں کہ یہ ان حدود کے متعلق ہے جو اللہ نے ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے ایک دوسرے پر مقرر کی ہیں، یعنی صحبت اور ایک ساتھ رہنا اور طاؤس نے نادانوں کی سی بات نہیں کی کہ خلع جائز نہیں، جب تک وہ یہ نہ کہے کہ میں تجھ سے جنابت کا غسل نہیں کروں گا

ہم سے ازہر بن جمیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ ثابت بن قیس (رض) کی بیوی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے ان کے اخلاق اور دین کی وجہ سے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ البتہ میں اسلام میں کفر کو پسند نہیں کرتی۔ (کیونکہ ان کے ساتھ رہ کر ان کے حقوق زوجیت کو نہیں ادا کرسکتی) ۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کرسکتی ہو ؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے (ثابت (رض) سے) فرمایا کہ باغ قبول کرلو اور انہیں طلاق دے دو ۔

【21】

خلع اور اس امر کا بیان کہ خلع میں طلاق کس طرح ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو کچھ تم نے ان عورتوں کو دیا ہے، اس کالینا تمہارے حلال نہیں ہے، آخر آیت ظالمون تک، اور حضرت عمر (رض) نے خلع کو جائز کہا ہے، اگرچہ سلطان کے سامنے نہ ہو اور حضرت عثمان رضی اللہ نے سرکے چٹلے سے کم قیمت کے عوض بھی خلع کو جائز کہا اور آیت الا ان یخافا الایقیما حدود اللہ کے متعلق طاؤس فرماتے ہیں کہ یہ ان حدود کے متعلق ہے جو اللہ نے ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے ایک دوسرے پر مقرر کی ہیں، یعنی صحبت اور ایک ساتھ رہنا اور طاؤس نے نادانوں کی سی بات نہیں کی کہ خلع جائز نہیں، جب تک وہ یہ نہ کہے کہ میں تجھ سے جنابت کا غسل نہیں کروں گا

ہم سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد طحان نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے کہ عبداللہ بن ابی (منافق) کی بہن جمیلہ (رض) (جو ابی کی بیٹی تھی) نے یہ بیان کیا اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا تھا کہ کیا تم ان (ثابت رضی اللہ عنہ) کا باغ واپس کر دو گی ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں کر دوں گی۔ چناچہ انہوں نے باغ واپس کردیا اور انہوں نے ان کے شوہر کو حکم دیا کہ انہیں طلاق دے دیں۔ اور ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا کہ ان سے خالد نے، ان سے عکرمہ نے نبی کریم ﷺ سے اور (اس روایت میں بیان کیا کہ) ان کے شوہر (ثابت رضی اللہ عنہ) نے انہیں طلاق دے دی۔ اور ابن ابی تمیمہ سے روایت ہے، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس (رض) نے، انہوں نے بیان کیا کہ ثابت بن قیس (رض) کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے ثابت کے دین اور ان کے اخلاق کی وجہ سے کوئی شکایت نہیں ہے لیکن میں ان کے ساتھ گزارہ نہیں کرسکتی۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ پھر کیا تم ان کا باغ واپس کرسکتی ہو ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔

【22】

خلع اور اس امر کا بیان کہ خلع میں طلاق کس طرح ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو کچھ تم نے ان عورتوں کو دیا ہے، اس کالینا تمہارے حلال نہیں ہے، آخر آیت ظالمون تک، اور حضرت عمر (رض) نے خلع کو جائز کہا ہے، اگرچہ سلطان کے سامنے نہ ہو اور حضرت عثمان رضی اللہ نے سرکے چٹلے سے کم قیمت کے عوض بھی خلع کو جائز کہا اور آیت الا ان یخافا الایقیما حدود اللہ کے متعلق طاؤس فرماتے ہیں کہ یہ ان حدود کے متعلق ہے جو اللہ نے ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے ایک دوسرے پر مقرر کی ہیں، یعنی صحبت اور ایک ساتھ رہنا اور طاؤس نے نادانوں کی سی بات نہیں کی کہ خلع جائز نہیں، جب تک وہ یہ نہ کہے کہ میں تجھ سے جنابت کا غسل نہیں کروں گا

ہم سے محمد بن عبداللہ بن مبارک مخری نے کہا، کہا ہم سے قراد ابونوح نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ ثابت بن قیس بن شماس (رض) کی بیوی نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! ثابت کے دین اور ان کے اخلاق سے مجھے کوئی شکایت نہیں لیکن مجھے خطرہ ہے (کہ میں ثابت (رض) کی ناشکری میں نہ پھنس جاؤں) ۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کرسکتی ہو ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ چناچہ انہوں نے وہ باغ واپس کردیا اور نبی کریم ﷺ کے حکم سے ثابت (رض) نے انہیں اپنے سے جدا کردیا۔

【23】

خلع اور اس امر کا بیان کہ خلع میں طلاق کس طرح ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو کچھ تم نے ان عورتوں کو دیا ہے، اس کا لینا تمہارے حلال نہیں ہے، آخر آیت ظالمون تک، اور حضرت عمر (رض) نے خلع کو جائز کہا ہے، اگرچہ سلطان کے سامنے نہ ہو اور حضرت عثمان رضی اللہ نے سرکے چٹلے سے کم قیمت کے عوض بھی خلع کو جائز کہا اور آیت الا ان یخافا الایقیما حدود اللہ کے متعلق طاؤس فرماتے ہیں کہ یہ ان حدود کے متعلق ہے جو اللہ نے ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے ایک دوسرے پر مقرر کی ہیں، یعنی صحبت اور ایک ساتھ رہنا اور طاؤس نے نادانوں کی سی بات نہیں کی کہ خلع جائز نہیں، جب تک وہ یہ نہ کہے کہ میں تجھ سے جنابت کا غسل نہیں کروں گا

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے حماد بن یزید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے ان سے عکرمہ نے یہی قصہ (مرسلاً ) نقل کیا اور اس میں خاتون کا نام جمیلہ آیا ہے۔

【24】

اختلاف کا بیان اور کیا ضرورت کی بناء پر خلع کا اشارہ کیا جاسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اگر تمہیں ان کے درمیان اختلاف کا اندیشہ ہو تو اس کے گھر والوں میں سے ایک حکم (ثالث) مقرر کرلو، آخر آیت خبیرا تک

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے مسور بن مخرمہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ بنی مغیرہ نے اس کی اجازت مانگی ہے کہ علی (رض) سے وہ اپنی بیٹی کا نکاح کرلیں لیکن میں انہیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔

【25】

لونڈی کی بیع سے طلاق نہیں ہوتی

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے، ان سے ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ بریرہ (رض) سے دین کے تین مسئلے معلوم ہوگئے۔ اول یہ کہ انہیں آزاد کیا گیا اور پھر ان کے شوہر کے بارے میں اختیار دیا گیا (کہ چاہیں ان کے نکاح میں رہیں ورنہ الگ ہوجائیں) اور رسول اللہ ﷺ نے (انہیں کے بارے میں) فرمایا کہ ولاء اسی سے قائم ہوتی ہے جو آزاد کرے اور ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ گھر میں تشریف لائے تو ایک ہانڈی میں گوشت پکایا جا رہا تھا، پھر کھانے کے لیے نبی کریم ﷺ کے سامنے روٹی اور گھر کا سالن پیش کیا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تو دیکھا کہ ہانڈی میں گوشت بھی پک رہا ہے ؟ عرض کیا گیا کہ جی ہاں لیکن وہ گوشت بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے اور نبی کریم ﷺ صدقہ نہیں کھاتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ان کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے بریرہ کی طرف سے تحفہ ہے۔

【26】

لونڈی غلام کے نکاح میں ہو تو آزادی کے وقت اختیار کا بیان

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ اور ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ میں نے انہیں غلام دیکھا تھا۔ آپ کی مراد بریرہ (رض) کے شوہر (مغیث) سے تھی۔

【27】

لونڈی غلام کے نکاح میں ہو تو آزادی کے وقت اختیار کا بیان

ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ یہ مغیث بنی فلاں کے غلام تھے۔ آپ کا اشارہ بریرہ (رض) کے شوہر کی طرف تھا۔ گویا اس وقت بھی میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ مدینہ کی گلیوں میں وہ بریرہ (رض) کے پیچھے پیچھے روتے پھر رہے ہیں۔

【28】

لونڈی غلام کے نکاح میں ہو تو آزادی کے وقت اختیار کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ بریرہ (رض) کے شوہر ایک حبشی غلام تھے۔ ان کا مغیث نام تھا، وہ بنی فلاں کے غلام تھے۔ جیسے وہ منظر اب بھی میری آنکھوں میں ہے کہ وہ مدینہ کی گلیوں میں بریرہ (رض) کے پیچھے پیچھے پھر رہے ہیں۔

【29】

بریرہ کے شوہر کے متعلق آپ ﷺ کا سفارش کرنا

ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، کہا ہم سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ بریرہ (رض) کے شوہر غلام تھے اور ان کا نام مغیث تھا۔ گویا میں اس وقت اس کو دیکھ رہا ہوں جب وہ بریرہ (رض) کے پیچھے پیچھے روتے ہوئے پھر رہے تھے اور آنسوؤں سے ان کی ڈاڑھی تر ہو رہی تھی۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے عباس (رض) سے فرمایا : عباس ! کیا تمہیں مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی مغیث سے نفرت پر حیرت نہیں ہوئی ؟ آخر نبی کریم ﷺ نے بریرہ (رض) سے فرمایا کہ کاش ! تم اس کے بارے میں اپنا فیصلہ بدل دیتیں۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ مجھے اس کا حکم فرما رہے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں صرف سفارش کر رہا ہوں۔ انہوں نے اس پر کہا کہ مجھے مغیث کے پاس رہنے کی خواہش نہیں ہے۔

【30】

ان سے شعبہ نے بیان کیا اور اس روایت میں یہ اضافہ کیا کہ پھر (آزادی کے بعد) انہیں ان کے شوہر کے متعلق اختیار دیا گیا (کہ چاہیں ان کے پاس رہیں اور اگر چاہیں ان سے اپنا نکاح توڑ لیں) ۔

【31】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لائیں اور مومن لونڈی مشرک عورت سے بہتر ہے اگرچہ وہ تم کو اچھی معلوم ہو۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ ابن عمر (رض) سے اگر یہودی یا انصاری عورتوں سے نکاح کے متعلق سوال کیا جاتا تو وہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرک عورتوں سے نکاح مومنوں کے لیے حرام قرار دیا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ اس سے بڑھ کر اور کیا شرک ہوگا کہ ایک عورت یہ کہے کہ اس کے رب عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں حالانکہ وہ اللہ کے مقبول بندوں میں سے ایک مقبول بندے ہیں۔

【32】

مشرک عورت مسلمان ہوجائے تو اس کے نکاح اور عدت کا بیان

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے کہ عطاء راسانی نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ اور مومنین کے لیے مشرکین دو طرح کے تھے۔ ایک تو مشرکین لڑائی کرنے والوں سے کہ نبی کریم ﷺ ان سے جنگ کرتے تھے اور وہ نبی کریم ﷺ سے جنگ کرتے تھے۔ دوسرے عہد و پیمان کرنے والے مشرکین کہ نبی کریم ﷺ ان سے جنگ نہیں کرتے تھے اور نہ وہ نبی کریم ﷺ سے جنگ کرتے تھے اور جب اہل کتاب حرب کی کوئی عورت (اسلام قبول کرنے کے بعد) ہجرت کر کے (مدینہ منورہ) آتی تو انہیں اس وقت تک پیغام نکاح نہ دیا جاتا یہاں تک کہ انہیں حیض آتا اور پھر وہ اس سے پاک ہوتیں، پھر جب وہ پاک ہوجاتیں تو ان سے نکاح جائز ہوجاتا، پھر اگر ان کے شوہر بھی، ان کے کسی دوسرے شخص سے نکاح کرلینے سے پہلے ہجرت کر کے آجاتے تو یہ انہیں کو ملتیں اور اگر مشرکین میں سے کوئی غلام یا لونڈی مسلمان ہو کر ہجرت کرتی تو وہ آزاد سمجھے جاتے اور ان کے وہی حقوق ہوتے جو تمام مہاجرین کے تھے۔ پھر عطاء نے معاہد مشرکین کے سلسلے میں مجاہد کی حدیث کی طرح سے صورت حال بیان کی کہ اگر معاہد مشرکین کی کوئی غلام یا لونڈی ہجرت کر کے آجاتی تو انہیں ان کے مالک مشرکین کو واپس نہیں کیا جاتا تھا۔ البتہ جو ان کی قیمت ہوتی وہ واپس کردی جاتی تھی۔ اور عطاء نے ابن عباس (رض) سے بیان کیا کہ قریبہ بنت ابی امیہ عمر بن خطاب (رض) کے نکاح میں تھیں، پھر عمر (رض) نے (مشرکین سے نکاح کی مخالفت کی آیت کے بعد) انہیں طلاق دے دی تو معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے ان سے نکاح کرلیا اور ام الحکم بنت ابی سفیان عیاض بن غنم فہری کے نکاح میں تھیں، اس وقت اس نے انہیں طلاق دے دی (اور وہ مدینہ ہجرت کر کے آگئیں) اور عبداللہ بن عثمان ثقفی نے ان سے نکاح کیا۔

【33】

مشرک یا نصرانی عورت، ذمی یاحربی کے نکاح میں ہو اور وہ مسلمان ہوجائے، عبد الوارث نے بواسطہ خالد، عکرمہ، ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ جو عورت اپنے شوہر سے ایک گھنٹہ پہلے مسلمان ہوجائے تو وہ اس پر حرام ہے، اور داؤد نے ابراہیم صائغ سے نقل کیا ہے کہ عطاء سے معاہد کی بیوی کے متعلق دریافت کیا گیا جو مسلمان ہوجائے تو کیا وہ اس کی بیوی رہی یا نہیں، انہوں نے کہا کہ نہیں، مگر یہ کہ وہ عورت چاہے تو جدید نکاح اور مہر کے عوض (اس کے پاس رہ سکتی ہے) اور مجاہد نے کہا کہ اگر وہ بیوی کی عدت میں مسلمان ہوجائے تو اس سے نکاح کرلے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہ وہ عورتیں ان مردوں کے حلال ہیں اور نہ وہ مرد ان عورتوں کے لئے حلال ہیں، اور حسن وقتادہ نے مجوسیوں کے متعلق کہا کہ اگر وہ دونوں مسلمان ہوجائیں تو وہ دونوں اپنے نکاح پر قائم رہیں گے، اور اگر ان دونوں میں سے کوئی پہلے مسلمان ہوجائے اور دوسرے نے انکار کیا تو وہ عورت بائنہ ہوجائے گی، شوہر کو اس پر کوئی حق نہیں، اور ابن جریج کا بیان ہے کہ میں نے عطاء سے پوچھا کہ اگر مشرکین میں سے کوئی عورت مسلمانوں کے پاس آجائے تو کیا اس کے شوہر کو معاوضہ دلایاجائے گا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کو دے دو جو کچھ ان لوگوں نے خرچ کیا ہے، عطاء نے کہا نہیں یہ تو صرف نبی ﷺ اور معاہدین کے درمیان تھا، مجاہد کہتے ہیں کہ یہ ساری باتیں اس صلح میں تھیں جو آپ ﷺ اور قریش کے درمیان ہوئی تھی

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے اور ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ مومن عورتیں جب ہجرت کر کے نبی کریم ﷺ کے پاس آتی تھیں تو نبی کریم ﷺ انہیں آزماتے تھے بوجہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے يا أيها الذين آمنوا إذا جاء کم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن‏ کہ اے وہ لوگو ! جو ایمان لے آئے ہو، جب مومن عورتیں تمہارے پاس ہجرت کر کے آئیں تو انہیں آزماؤ ۔ آخر آیت تک۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر ان (ہجرت کرنے والی) مومن عورتوں میں سے جو اس شرط کا اقرار کرلیتی (جس کا ذکر اسی سورة الممتحنہ میں ہے کہ اللہ کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گی ) تو وہ آزمائش میں پوری سمجھی جاتی تھی۔ چناچہ جب وہ اس کا اپنی زبان سے اقرار کرلیتیں تو رسول اللہ ﷺ ان سے فرماتے کہ اب جاؤ میں نے تم سے عہد لے لیا ہے۔ ہرگز نہیں ! واللہ ! نبی کریم ﷺ کے ہاتھ نے (بیعت لیتے وقت) کسی عورت کا ہاتھ کبھی نہیں چھوا۔ نبی کریم ﷺ ان سے صرف زبان سے (بیعت لیتے تھے) ۔ واللہ ! نبی کریم ﷺ نے عورتوں سے صرف انہیں چیزوں کا عہد لیا جن کا اللہ نے آپ کو حکم دیا تھا۔ بیعت لینے کے بعد آپ ان سے فرماتے کہ میں نے تم سے عہد لے لیا ہے۔ یہ آپ صرف زبان سے کہتے کہ میں نے تم سے بیعت لے لی۔

【34】

None

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے ایلاء کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں موچ آ گئی تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بالا خانہ میں انتیس دن تک قیام فرمایا، پھر آپ وہاں سے اترے۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ نے ایک مہینہ کا ایلاء کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔

【35】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان لوگوں کے لئے جوا پنی بیویوں سے ایلاء کرتے ہیں، چار ماہ تک انتظار کرنا ہے، سمیع علم تک، فان فاء وا کا معنی ہے کہ اگر وہ رجوع کرلیں

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ ابن عمر (رض) اس ایلاء کے بارے میں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے، فرماتے تھے کہ مدت پوری ہونے کے بعد کسی کے لیے جائز نہیں، سوا اس کے کہ قاعدہ کے مطابق (اپنی بیوی کو) اپنے پاس ہی روک لے یا پھر طلاق دے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اور امام بخاری (رح) نے کہا کہ مجھ سے اسماعیل نے بیان کیا کہ ان سے امام مالک (رح) نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ چار مہینے گزر جائیں تو اسے قاضی کے سامنے پیش کیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ طلاق دیدے اور طلاق اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک طلاق دی نہ جائے اور عثمان، علی، ابودرداء اور عائشہ اور بارہ دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔

【36】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان لوگوں کے لئے جوا پنی بیویوں سے ایلاء کرتے ہیں، چار ماہ تک انتظار کرنا ہے، سمیع علم تک، فان فاء وا کا معنی ہے کہ اگر وہ رجوع کرلیں

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، ان سے ان کے بھائی عبدالحمید نے، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے حمید طویل نے کہ انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات سے ایلاء کیا تھا۔ نبی کریم ﷺ کے پاؤں میں موچ آگئی تھی۔ اس لیے آپ ﷺ نے اپنے بالا خانہ میں انتیس دن تک قیام فرمایا، پھر آپ وہاں سے اترے۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے ایک مہینہ کا ایلاء کیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔

【37】

باب

باب : ظہار کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا سورة المجادلہ میں فرمانا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے، اپنے شوہر کے بارے میں بحث کرتی تھی۔ آیت فمن لم يستطع فإطعام ستين مسكينا تک، اور مجھ سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا کہ انہوں نے ابن شہاب سے کسی نے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ اس کا ظہار بھی آزاد کے ظہار کی طرح ہوگا۔ امام مالک نے بیان کیا کہ غلام روزے دو مہینے کے رکھے گا۔ حسن بن حر نے کہا کہ آزاد مرد یا غلام کا ظہار آزاد عورت یا لونڈی سے یکساں ہے۔ عکرمہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنی لونڈی سے ظہار کرے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ظہار اپنی بیویوں سے ہوتا ہے اور عربی زبان میں لام فى کے معنوں میں آتا ہے تو يعودون لما قالوا کا یہ معنی ہوگا کہ پھر اس عورت کو رکھنا چاہیں اور ظہار کے کلمہ کو باطل کرنا اور یہ ترجمہ اس سے بہتر ہے کیونکہ ظہار کو اللہ نے بری بات اور جھوٹ فرمایا ہے اس کو دہرانے کے لیے کیسے کہے گا۔

【38】

طلاق اور دیگر امور میں اشارہ کرنے کا بیان اور ابن عمر (رض) نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو پر عذاب نہیں کرے گا، لیکن اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی وجہ سے عذاب کرے گا، اور کعب بن مالک نے کہا کہ نبی ﷺ نے میری طرف اشارہ سے فرمایا کہ نصف لے لو اور اسماء نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے کسوف میں نماز پڑھی، میں نے عائشہ سے نماز کی حالت میں پوچھا کہ کیا بات ہے (لوگ نماز پڑھ رہے ہیں) عائشہ نے سر سے آسمان کی طرف اشار کیا، میں نے پوچھا کہ کیا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہاں ! اور انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے حضرت ابوبکر کو اشارے سے آگے بڑھنے کا حکم دیا اور ابن عباس (رض) نے بیان کیا نبی نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ کوئی حرج نہیں اور ابوقتادہ نے کہا کہ نبی ﷺ نے پوچھا کہ محرم کے شکار پر ابھارا تھا یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا، لوگوں نے کہا کہ نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کھاؤ

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر عبدالملک بن عمرو نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے بیت اللہ کا طواف اپنے اونٹ پر سوار ہو کر کیا اور نبی کریم ﷺ جب بھی رکن کے پاس آتے تو اس کی طرف اشارہ کر کے تکبیر کہتے اور زینب بنت جحش (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یاجوج ماجوج کے دیوار میں اتنا سوراخ ہوگیا ہے اور آپ نے اپنی انگلیوں سے نوے کا عدد بنایا۔

【39】

طلاق اور دیگر امور میں اشارہ کرنے کا بیان اور ابن عمر (رض) نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو پر عذاب نہیں کرے گا، لیکن اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی وجہ سے عذاب کرے گا، اور کعب بن مالک نے کہا کہ نبی ﷺ نے میری طرف اشارہ سے فرمایا کہ نصف لے لو اور اسماء نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے کسوف میں نماز پڑھی، میں نے عائشہ سے نماز کی حالت میں پوچھا کہ کیا بات ہے (لوگ نماز پڑھ رہے ہیں) عائشہ نے سر سے آسمان کی طرف اشار کیا، میں نے پوچھا کہ کیا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہاں ! اور انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے حضرت ابوبکر کو اشارے سے آگے بڑھنے کا حکم دیا اور ابن عباس (رض) نے بیان کیا نبی نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ کوئی حرج نہیں اور ابوقتادہ نے کہا کہ نبی ﷺ نے پوچھا کہ محرم کے شکار پر ابھارا تھا یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا، لوگوں نے کہا کہ نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کھا ؤ

ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن علقمہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے جو مسلمان بھی اس وقت کھڑا نماز پڑھے اور اللہ سے کوئی خیر مانگے تو اللہ اسے ضرور دے گا۔ نبی کریم ﷺ نے (اس ساعت کی وضاحت کرتے ہوئے) اپنے دست مبارک سے اشارہ کیا اور اپنی انگلیوں کو درمیانی انگلی اور چھوٹی انگلی کے بیچ میں رکھا جس سے ہم نے سمجھا کہ آپ اس ساعت کو بہت مختصر ہونے کو بتا رہے ہیں۔ اور اویسی نے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے، ان سے ہشام بن یزید نے، ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک یہودی نے ایک لڑکی پر ظلم کیا، اس کے چاندی کے زیورات جو وہ پہنے ہوئے تھی چھین لیے اور اس کا سر کچل دیا۔ لڑکی کے گھر والے اسے نبی کریم ﷺ کے پاس لائے تو اس کی زندگی کی بس آخری گھڑی باقی تھی اور وہ بول نہیں سکتی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کس نے مارا ہے ؟ فلاں نے ؟ نبی کریم ﷺ نے اس واقعہ سے غیر متعلق آدمی کا نام لیا۔ اس لیے اس نے اپنے سر کے اشارہ سے کہا کہ نہیں۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے ایک دوسرے شخص کا نام لیا اور وہ بھی اس واقعہ سے غیر متعلق تھا تو لڑکی نے سر کے اشارہ سے کہا کہ نہیں، پھر نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ فلاں نے تمہیں مارا ہے ؟ تو اس لڑکی نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا۔

【40】

طلاق اور دیگر امور میں اشارہ کرنے کا بیان اور ابن عمر (رض) نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو پر عذاب نہیں کرے گا، لیکن اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی وجہ سے عذاب کرے گا، اور کعب بن مالک نے کہا کہ نبی ﷺ نے میری طرف اشارہ سے فرمایا کہ نصف لے لو اور اسماء نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے کسوف میں نماز پڑھی، میں نے عائشہ سے نماز کی حالت میں پوچھا کہ کیا بات ہے (لوگ نماز پڑھ رہے ہیں) عائشہ نے سر سے آسمان کی طرف اشار کیا، میں نے پوچھا کہ کیا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہاں ! اور انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے حضرت ابوبکر کو اشارے آگے بڑھنے کا حکم دیا اور ابن عباس (رض) نے بیان کیا نبی نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ کوئی حرج نہیں اور ابوقتادہ نے کہا کہ نبی ﷺ نے پوچھا کہ محرم کے شکار پر ابھارا تھا یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا، لوگوں نے کہا کہ نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کھاؤ

ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ فتنہ ادھر سے اٹھے گا اور آپ ﷺ نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔

【41】

طلاق اور دیگر امور میں اشارہ کرنے کا بیان اور ابن عمر (رض) نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو پر عذاب نہیں کرے گا، لیکن اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی وجہ سے عذاب کرے گا، اور کعب بن مالک نے کہا کہ نبی ﷺ نے میری طرف اشارہ سے فرمایا کہ نصف لے لو اور اسماء نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے کسوف میں نماز پڑھی، میں نے عائشہ سے نماز کی حالت میں پوچھا کہ کیا بات ہے (لوگ نماز پڑھ رہے ہیں) عائشہ نے سر سے آسمان کی طرف اشار کیا، میں نے پوچھا کہ کیا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہاں ! اور انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے حضرت ابوبکر کو اشارے آگے بڑھنے کا حکم دیا اور ابن عباس (رض) نے بیان کیا نبی نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ کوئی حرج نہیں اور ابوقتادہ نے کہا کہ نبی ﷺ نے پوچھا کہ محرم کے شکار پر ابھارا تھا یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا، لوگوں نے کہا کہ نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کھاؤ

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق شیبانی نے اور ان سے عبداللہ بن ابی اوفی نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ جب سورج ڈوب گیا تو نبی کریم ﷺ نے ایک صحابی (بلال رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول (کیونکہ آپ ﷺ روزہ سے تھے) انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اگر اندھیرا ہونے دیں تو بہتر ہے۔ نبی کریم ﷺ نے پھر فرمایا کہ اتر کر ستو گھول۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اگر آپ اور اندھیرا ہو لینے دیں تو بہتر ہے، ابھی دن باقی ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اترو اور ستو گھول لو۔ آخر تیسری مرتبہ کہنے پر انہوں نے اتر کر نبی کریم ﷺ کا ستو گھولا۔ نبی کریم ﷺ نے اسے پیا، پھر آپ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ رات ادھر سے آرہی ہے تو روزہ دار کو افطار کرلینا چاہیئے۔

【42】

طلاق اور دیگر امور میں اشارہ کرنے کا بیان اور ابن عمر (رض) نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو پر عذاب نہیں کرے گا، لیکن اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی وجہ سے عذاب کرے گا، اور کعب بن مالک نے کہا کہ نبی ﷺ نے میری طرف اشارہ سے فرمایا کہ نصف لے لو اور اسماء نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے کسوف میں نماز پڑھی، میں نے عائشہ سے نماز کی حالت میں پوچھا کہ کیا بات ہے (لوگ نماز پڑھ رہے ہیں) عائشہ نے سر سے آسمان کی طرف اشار کیا، میں نے پوچھا کہ کیا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہاں ! اور انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے حضرت ابوبکر کو اشارے آگے بڑھنے کا حکم دیا اور ابن عباس (رض) نے بیان کیا نبی نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ کوئی حرج نہیں اور ابوقتادہ نے کہا کہ نبی ﷺ نے پوچھا کہ محرم کے شکار پر ابھارا تھا یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا، لوگوں نے کہا کہ نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کھاؤ

ہم سے عبداللہ بن سلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے سلیمان تیمی نے، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کسی کو (سحری کھانے سے) بلال کی پکار نہ روکے یا آپ نے فرمایا کہ ان کی اذان کیونکہ وہ پکارتے ہیں، یا فرمایا، اذان دیتے ہیں تاکہ اس وقت نماز پڑھنے والا رک جائے۔ اس کا اعلان سے یہ مقصود نہیں ہوتا کہ صبح صادق ہوگئی۔ اس وقت یزید بن زریع نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے (صبح کاذب کی صورت بتانے کے لیے) پھر ایک ہاتھ کو دوسرے پر پھیلایا (صبح صادق کی صورت کے اظہار کے لیے) ۔ اور لیث نے بیان کیا کہ ان سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بخیل اور سخی کی مثال دو آدمیوں جیسی ہے جن پر لوہے کی دو زرہیں سینے سے گردن تک ہیں۔ سخی جب بھی کوئی چیز خرچ کرتا ہے تو زرہ اس کے چمڑے پر ڈھیلی ہوجاتی ہے اور اس کے پاؤں کی انگلیوں تک پہنچ جاتی ہے (اور پھیل کر اتنی بڑھ جاتی ہے کہ) اس کے نشان قدم کو مٹاتی چلتی ہے لیکن بخیل جب بھی خرچ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ کا ہر حلقہ اپنی اپنی جگہ چمٹ جاتا ہے، وہ اسے ڈھیلا کرنا چاہتا ہے لیکن وہ ڈھیلا نہیں ہوتا۔ اس وقت آپ نے اپنی انگلی سے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا۔

【43】

لعان کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول والذین یرمون ازواجھم ولم یکن لھم شھداء الا انفسھم آخر آیت الصادقین تک (کہ جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں، ان کے پاس ان کی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہ ہو تو الخ) اگر گونگا اپنی بیوی پر لکھ کر یا اشارے سے یا کسی خاص اشارے سے تہمت لگائے تو وہ گفتگو کرنے والے کی طرح ہے، اس لئے کہ نبی ﷺ نے فرائض میں اشارہ کو جائز کہا ہے اور بعض اہل حجاز اور اہل علم کا یہی مذھب ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت مریم علیہا السلام نے اس کی طرف اشارہ کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس بچے سے کیسے گفتگو کرسکتے ہیں، جو ابھی جھولے ہی میں ہو، اور ضحاک کہتے ہیں کہ الارمزا سے مراد اشارہ ہے، بعض لوگوں نے کہا کہ اس صورت میں نہ حد ہے نہ لعان ہے پھر کہا کہ لکھ کر یا کسی خاص اشارے سے طلاق دینا جائز ہے، حالانکہ طلاق اور قذف کے درمیان کوئی فرق نہیں، اگر کوئی شخص کہے کہ قذف تو صرف بولنے کے ساتھ ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح طلاق بھی بولنے کے ذریعہ واقع ہوتی ہے، ورنہ طلاق اور قذف باطل ہوجائے گا، اس طرح بہرے کا لعان کرنا جائز ہے، شعبی اور قتادہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ تجھے طلاق ہے اور اپنی انگلیوں سے اشارہ کرے تو عورت بائن ہوجائے گی اور حماد نے کہا کہ گونگا اور بہرا اپنے سر سے اشارہ کردے تو جائز ہے، یعنی طلاق وغیرہ ہر چیز ثابت ہوجائے گی

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے اور انہوں نے انس بن مالک انصاری (رض) سے سنا، بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں بتاؤں کہ قبیلہ انصار کا سب سے بہتر گھرانہ کون سا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ضرور بتائیے یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ بنو نجار کا۔ اس کے بعد ان کا مرتبہ ہے جو ان سے قریب ہیں یعنی بنو عبدالاشہل کا، ان کے بعد وہ ہیں جو ان سے قریب ہیں، بنی الحارث بن خزرج کا۔ اس کے بعد وہ ہیں جو ان سے قریب ہیں، بنو ساعدہ کا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور اپنی مٹھی بند کی، پھر اسے اس طرح کھولا جیسے کوئی اپنے ہاتھ کی چیز کو پھینکتا ہے پھر فرمایا کہ انصار کے ہر گھرانہ میں خیر ہے۔

【44】

لعان کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول والذین یرمون ازواجھم ولم یکن لھم شھداء الا انفسھم آخر آیت الصادقین تک (کہ جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں، ان کے پاس ان کی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہ ہو تو الخ) اگر گونگا اپنی بیوی پر لکھ کر یا اشارے سے یا کسی خاص اشارے سے تہمت لگائے تو وہ گفتگو کرنے والے کی طرح ہے، اس لئے کہ نبی ﷺ نے فرائض میں اشارہ کو جائز کہا ہے اور بعض اہل حجاز اور اہل علم کا یہی مذھب ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت مریم علیہا السلام نے اس کی طرف اشارہ کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس بچے سے کیسے گفتگو کرسکتے ہیں، جو ابھی جھولے ہی میں ہو، اور ضحاک کہتے ہیں کہ الارمزا سے مراد اشارہ ہے، بعض لوگوں نے کہا کہ اس صورت میں نہ حد ہے نہ لعان ہے پھر کہا کہ لکھ کر یا کسی خاص اشارے سے طلاق دینا جائز ہے، حالانکہ طلاق اور قذف کے درمیان کوئی فرق نہیں، اگر کوئی شخص کہے کہ قذف تو صرف بولنے کے ساتھ ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح طلاق بھی بولنے کے ذریعہ واقع ہوتی ہے، ورنہ طلاق اور قذف باطل ہوجائے گا، اس طرح بہرے کا لعان کرنا جائز ہے، شعبی اور قتادہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ تجھے طلاق ہے اور اپنی انگلیوں سے اشارہ کرے تو عورت بائن ہوجائے گی اور حماد نے کہا کہ گونگا اور بہرا اپنے سر سے اشارہ کردے تو جائز ہے، یعنی طلاق وغیرہ ہر چیز ثابت ہوجائے گی

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ ابوحازم نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابی سہل بن سعد ساعدی (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری بعثت قیامت سے اتنی قریب ہے جیسے اس کی اس سے (یعنی شہادت کی انگلی بیچ کی انگلی سے) یا نبی کریم ﷺ نے فرمایا (راوی کو شک تھا) کہ جیسے یہ دونوں انگلیاں ہیں اور آپ نے شہادت کی اور بیچ کی انگلیوں کو ملا کر بتایا۔

【45】

لعان کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول والذین یرمون ازواجھم ولم یکن لھم شھداء الا انفسھم آخر آیت الصادقین تک (کہ جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں، ان کے پاس ان کی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہ ہو تو الخ) اگر گونگا اپنی بیوی پر لکھ کر یا اشارے سے یا کسی خاص اشارے سے تہمت لگائے تو وہ گفتگو کرنے والے کی طرح ہے، اس لئے کہ نبی ﷺ نے فرائض میں اشارہ کو جائز کہا ہے اور بعض اہل حجاز اور اہل علم کا یہی مذھب ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت مریم علیہا السلام نے اس کی طرف اشارہ کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس بچے سے کیسے گفتگو کرسکتے ہیں، جو ابھی جھولے ہی میں ہو، اور ضحاک کہتے ہیں کہ الارمزا سے مراد اشارہ ہے، بعض لوگوں نے کہا کہ اس صورت میں نہ حد ہے نہ لعان ہے پھر کہا کہ لکھ کر یا کسی خاص اشارے سے طلاق دینا جائز ہے، حالانکہ طلاق اور قذف کے درمیان کوئی فرق نہیں، اگر کوئی شخص کہے کہ قذف تو صرف بولنے کے ساتھ ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح طلاق بھی بولنے کے ذریعہ واقع ہوتی ہے، ورنہ طلاق اور قذف باطل ہوجائے گا، اس طرح بہرے کا لعان کرنا جائز ہے، شعبی اور قتادہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ تجھے طلاق ہے اور اپنی انگلیوں سے اشارہ کرے تو عورت بائن ہوجائے گی اور حماد نے کہا کہ گونگا اور بہرا اپنے سر سے اشارہ کردے تو جائز ہے، یعنی طلاق وغیرہ ہر چیز ثابت ہوجائے گی

ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جبلہ بن سحیم نے بیان کیا، انہوں نے ابن عمر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مہینہ اتنے، اتنے اور اتنے دنوں کا ہوتا ہے۔ آپ کی مراد تیس دن سے تھی۔ پھر فرمایا اور اتنے، اتنے اور اتنے دنوں کا بھی ہوتا ہے۔ آپ کا اشارہ انتیس دنوں کی طرف تھا۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے تیس کی طرف اشارہ کیا اور دوسری مرتبہ انتیس کی طرف۔

【46】

لعان کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول والذین یرمون ازواجھم ولم یکن لھم شھداء الا انفسھم آخر آیت الصادقین تک (کہ جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں، ان کے پاس ان کی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہ ہو تو الخ) اگر گونگا اپنی بیوی پر لکھ کر یا اشارے سے یا کسی خاص اشارے سے تہمت لگائے تو وہ گفتگو کرنے والے کی طرح ہے، اس لئے کہ نبی ﷺ نے فرائض میں اشارہ کو جائز کہا ہے اور بعض اہل حجاز اور اہل علم کا یہی مذھب ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت مریم علیہا السلام نے اس کی طرف اشارہ کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس بچے سے کیسے گفتگو کرسکتے ہیں، جو ابھی جھولے ہی میں ہو، اور ضحاک کہتے ہیں کہ الارمزا سے مراد اشارہ ہے، بعض لوگوں نے کہا کہ اس صورت میں نہ حد ہے نہ لعان ہے پھر کہا کہ لکھ کر یا کسی خاص اشارے سے طلاق دینا جائز ہے، حالانکہ طلاق اور قذف کے درمیان کوئی فرق نہیں، اگر کوئی شخص کہے کہ قذف تو صرف بولنے کے ساتھ ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح طلاق بھی بولنے کے ذریعہ واقع ہوتی ہے، ورنہ طلاق اور قذف باطل ہوجائے گا، اس طرح بہرے کا لعان کرنا جائز ہے، شعبی اور قتادہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ تجھے طلاق ہے اور اپنی انگلیوں سے اشارہ کرے تو عورت بائن ہوجائے گی اور حماد نے کہا کہ گونگا اور بہرا اپنے سر سے اشارہ کردے تو جائز ہے، یعنی طلاق وغیرہ ہر چیز ثابت ہوجائے گی

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے اور ان سے ابومسعود (رض) نے بیان کیا کہ اور نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے یمن کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ برکتیں ادھر ہیں۔ دو مرتبہ (نبی کریم ﷺ نے یہ فرمایا) ہاں اور سختی اور قساوت قلب ان کی کرخت آواز والوں میں ہے جہاں سے شیطان کی دونوں سینگیں طلوع ہوتی ہیں یعنی ربیعہ اور مضر میں۔

【47】

لعان کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول والذین یرمون ازواجھم ولم یکن لھم شھداء الا انفسھم آخر آیت الصادقین تک (کہ جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں، ان کے پاس ان کی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہ ہو تو الخ) اگر گونگا اپنی بیوی پر لکھ کر یا اشارے سے یا کسی خاص اشارے سے تہمت لگائے تو وہ گفتگو کرنے والے کی طرح ہے، اس لئے کہ نبی ﷺ نے فرائض میں اشارہ کو جائز کہا ہے اور بعض اہل حجاز اور اہل علم کا یہی مذھب ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت مریم علیہا السلام نے اس کی طرف اشارہ کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس بچے سے کیسے گفتگو کرسکتے ہیں، جو ابھی جھولے ہی میں ہو، اور ضحاک کہتے ہیں کہ الارمزا سے مراد اشارہ ہے، بعض لوگوں نے کہا کہ اس صورت میں نہ حد ہے نہ لعان ہے پھر کہا کہ لکھ کر یا کسی خاص اشارے سے طلاق دینا جائز ہے، حالانکہ طلاق اور قذف کے درمیان کوئی فرق نہیں، اگر کوئی شخص کہے کہ قذف تو صرف بولنے کے ساتھ ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح طلاق بھی بولنے کے ذریعہ واقع ہوتی ہے، ورنہ طلاق اور قذف باطل ہوجائے گا، اس طرح بہرے کا لعان کرنا جائز ہے، شعبی اور قتادہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ تجھے طلاق ہے اور اپنی انگلیوں سے اشارہ کرے تو عورت بائن ہوجائے گی اور حماد نے کہا کہ گونگا اور بہرا اپنے سر سے اشارہ کردے تو جائز ہے، یعنی طلاق وغیرہ ہر چیز ثابت ہوجائے گی

ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدالعزیز بن ابی حازم نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے سہل (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپ نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور ان دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑی سی جگہ کھلی رکھی۔

【48】

کنایۃً اپنے بچے کی نفی کا بیان

ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ ایک صحابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے یہاں تو کالا کلوٹا بچہ پیدا ہوا ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ اونٹ بھی ہیں ؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ ان کے رنگ کیسے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ سرخ رنگ کے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ ان میں کوئی سیاہی مائل سفید اونٹ بھی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ پھر یہ کہاں سے آگیا ؟ انہوں نے کہا کہ اپنی نسل کے کسی بہت پہلے کے اونٹ پر یہ پڑا ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسی طرح تمہارا یہ لڑکا بھی اپنی نسل کے کسی دور کے رشتہ دار پر پڑا ہوگا۔

【49】

لعان کرنے والے کو قسم کھلانے کا بیان

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ نے کہ قبیلہ انصار کے ایک صحابی نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی تو نبی کریم ﷺ نے دونوں میاں بیوی سے قسم کھلوائی اور پھر دونوں میں جدائی کرا دی۔

【50】

لعان میں ابتداء مرد سے کرائی جائے۔

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے، کہا کہ ہم سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ ہلال بن امیہ نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی، پھر وہ آئے اور گواہی دی۔ نبی کریم ﷺ نے اس وقت فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کیا تم میں سے کوئی (جو واقعی گناہ کا مرتکب ہوا ہو) رجوع کرے گا ؟ اس کے بعد ان کی بیوی کھڑی ہوئیں اور انہوں نے گواہی دی اپنے بَری ہونے کی۔

【51】

لعان کا بیان اور جو شخص لعان کے بعد طلاق دے اس کا بیان

ہم سے اسماعیل بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور انہیں سہل بن سعد ساعدی نے خبر دی کہ عویمر عجلانی، عاصم بن عدی انصاری کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ عاصم آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک شخص اگر اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے تو کیا اسے قتل کر دے گا لیکن پھر آپ لوگ اسے بھی قتل کردیں گے۔ آخر اسے کیا کرنا چاہیئے ؟ عاصم ! میرے لیے یہ مسئلہ پوچھ دو ۔ چناچہ عاصم (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھا۔ نبی کریم نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور اظہار ناگواری کیا۔ عاصم (رض) نے اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ سے جو کچھ سنا اس کا بہت اثر لیا۔ پھر جب گھر واپس آئے تو عویمر ان کے پاس آئے اور پوچھا۔ عاصم ! آپ کو رسول اللہ ﷺ نے کیا جواب دیا۔ عاصم (رض) نے کہا، عویمر ! تم نے میرے ساتھ اچھا معاملہ نہیں کیا، جو مسئلہ تم نے پوچھا تھا، نبی کریم ﷺ نے اسے ناپسند فرمایا۔ عویمر (رض) نے کہا کہ اللہ کی قسم ! جب تک میں یہ مسئلہ نبی کریم ﷺ سے معلوم نہ کرلوں، باز نہیں آؤں گا۔ چناچہ عویمر (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی کریم ﷺ اس وقت صحابہ کے درمیان میں موجود تھے۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کا اس شخص کے متعلق کیا ارشاد ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے، کیا اسے قتل کر دے ؟ لیکن پھر آپ لوگ اسے (قصاص) میں قتل کردیں گے، تو پھر اسے کیا کرنا چاہیئے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں ابھی وحی نازل ہوئی ہے۔ جاؤ اور اپنی بیوی کو لے کر آؤ۔ سہل نے بیان کیا کہ پھر ان دونوں نے لعان کیا۔ میں بھی نبی کریم ﷺ کے پاس اس وقت موجود تھا۔ جب لعان سے فارغ ہوئے تو عویمر (رض) نے کہا کہ یا رسول اللہ ! اگر اب بھی میں اسے (اپنی بیوی کو) اپنے ساتھ رکھتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جھوٹا ہوں۔ چناچہ انہوں نے انہیں تین طلاقیں نبی کریم ﷺ کے حکم سے پہلے ہی دے دیں۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر لعان کرنے والوں کے لیے سنت طریقہ مقرر ہوگیا۔

【52】

مسجد میں لعان کرنے کا بیان

ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق بن ہمام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے ابن شہاب نے لعان کے بارے میں اور یہ کہ شریعت کی طرف سے اس کا سنت طریقہ کیا ہے، خبر دی بنی ساعدہ کے سہل بن سعد (رض) نے، انہوں نے بیان کیا کہ قبیلہ انصار کے ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! اس شخص کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے، کیا وہ اسے قتل کر دے یا اسے کیا کرنا چاہیئے ؟ انہیں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی وہ آیت نازل کی جس میں لعان کرنے والوں کے لیے تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیوی کے بارے میں فیصلہ کردیا ہے۔ بیان کیا کہ پھر دونوں نے مسجد میں لعان کیا، میں اس وقت وہاں موجود تھا۔ جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو انصاری صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اگر اب بھی میں اسے اپنے نکاح میں رکھوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی۔ چناچہ لعان سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے نبی کریم ﷺ کے حکم سے پہلے ہی انہیں تین طلاقیں دے دیں۔ نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں ہی انہیں جدا کردیا۔ (سہل نے یا ابن شہاب نے) کہا کہ ہر لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان یہی جدائی کا سنت طریقہ مقرر ہوا۔ ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ ان کے بعد شریعت کی طرف سے طریقہ یہ متعین ہوا کہ دو لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرا دی جایا کرے۔ اور وہ عورت حاملہ تھی۔ اور ان کا بیٹا اپنی ماں کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ بیان کیا کہ پھر ایسی عورت کے میراث کے بارے میں بھی یہ طریقہ شریعت کی طرف سے مقرر ہوگیا کہ بچہ اس کا وارث ہوگا اور وہ بچہ کی وارث ہوگی۔ اس کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے وراثت کے سلسلہ میں فرض کیا ہے۔ ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے، اسی حدیث میں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر (لعان کرنے والی خاتون) اس نے سرخ اور پستہ قد بچہ جنا جیسے وحرہ تو میں سمجھوں گا کہ عورت ہی سچی ہے اور اس کے شوہر نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے لیکن اگر کالا، بڑی آنکھوں والا اور بڑے سرینوں والا بچہ جنا تو میں سمجھوں گا کہ شوہر نے اس کے متعلق سچ کہا تھا۔ (عورت جھوٹی ہے) جب بچہ پیدا ہو تو وہ بری شکل کا تھا (یعنی اس مرد کی صورت پر جس سے وہ بدنام ہوئی تھی) ۔

【53】

رسول اللہ ﷺ کا فرمانا کہ اگر میں بغیر گواہ کے سنگسار کرتا

ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کی مجلس میں لعان کا ذکر ہوا اور عاصم (رض) نے اس سلسلہ میں کوئی بات کہی (کہ میں اگر اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھ لوں تو وہیں قتل کر دوں) اور چلے گئے، پھر ان کی قوم کے ایک صحابی (عویمر رضی اللہ عنہ) ان کے پاس آئے یہ شکایت لے کر کہ انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو پایا ہے۔ عاصم (رض) نے کہا کہ مجھے آج یہ ابتلاء میری اسی بات کی وجہ سے ہوا ہے (جو آپ نے نبی کریم ﷺ کے سامنے کہی تھی) پھر وہ انہیں لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نبی کریم ﷺ کو وہ واقعہ بتایا جس میں ملوث اس صحابی نے اپنی کو پایا تھا۔ یہ صاحب زرد رنگ، کم گوشت والے (پتلے دبلے) اور سیدھے بال والے تھے اور جس کے متعلق انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ (تنہائی میں) پایا، وہ گھٹے ہوئے جسم کا، گندمی اور بھرے گوشت والا تھا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اس معاملہ کو صاف کر دے۔ چناچہ اس عورت نے بچہ اسی مرد کی شکل کا جنا جس کے متعلق شوہر نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ پایا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے میاں بیوی کے درمیان لعان کرایا۔ ایک شاگرد نے مجلس میں ابن عباس (رض) سے پوچھا کیا یہی وہ عورت ہے جس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی کو بلا شہادت کے سنگسار کرسکتا تو اس عورت کو سنگسار کرتا۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ نہیں (یہ جملہ نبی کریم ﷺ نے) اس عورت کے متعلق فرمایا تھا جس کی بدکاری اسلام کے زمانہ میں کھل گئی تھی۔ ابوصالح اور عبداللہ بن یوسف نے اس حدیث میں بجائے خدلا‏.‏ کے کسرہ کے ساتھ دال خدلا‏.‏ روایت کیا ہے لیکن معنی وہی ہے۔

【54】

لعان کرنے والے کے مہر کا بیان

ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا ہم کو اسماعیل نے خبر دی، انہیں ایوب نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے ایسے شخص کا حکم پوچھا جس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی ہو تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے بنی عجلان کے میاں بیوی کے درمیان ایسی صورت میں جدائی کرا دی تھی اور فرمایا تھا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔ تو کیا تم میں سے ایک (جو واقعی گناہ میں مبتلا ہو) رجوع کرے گا لیکن ان دونوں نے انکار کیا تو نبی کریم ﷺ نے ان میں جدائی کردی۔ اور بیان کیا کہ مجھ سے عمرو بن دینار نے فرمایا کہ حدیث کے بعض اجزاء میرا خیال ہے کہ میں نے ابھی تم سے بیان نہیں کئے ہیں۔ فرمایا کہ ان صاحب نے ( جنہوں نے لعان کیا تھا) کہا کہ میرے مال کا کیا ہوگا (جو میں نے مہر میں دیا تھا) بیان کیا کہ اس پر ان سے کہا گیا کہ وہ مال (جو عورت کو مہر میں دیا تھا) اب تمہارا نہیں رہا۔ اگر تم سچے ہو (اس تہمت لگانے میں تب بھی کیونکہ) تم اس عورت کے پاس تنہائی میں جا چکے ہو اور اگر تم جھوٹے ہو تب تو تم کو اور بھی مہر نہ ملنا چاہیئے۔

【55】

امام کا دو لعان کرنے والوں سے کہنا کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے، اس لئے کون توبہ کرتا ہے

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ عمرو نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابن عمر (رض) سے لعان کرنے والوں کا حکم پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ ان کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ تمہارا حساب تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔ اب تمہیں تمہاری بیوی پر کوئی اختیار نہیں۔ ان صحابی نے عرض کیا کہ میرا مال واپس کرا دیجئیے (جو مہر میں دیا گیا تھا) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اب وہ تمہارا مال نہیں ہے۔ اگر تم اس کے معاملہ میں سچے ہو تو تمہارا یہ مال اس کے بدلہ میں ختم ہوچکا کہ تم نے اس کی شرمگاہ کو حلال کیا تھا اور اگر تم نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی پھر تو وہ تم سے بعید تر ہے۔ سفیان نے بیان کیا کہ یہ حدیث میں نے عمرو سے یاد کی اور ایوب نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، کہا کہ میں نے ابن عمر (رض) سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا جس نے اپنی بیوی سے لعان کیا ہو تو آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کیا۔ سفیان نے اس اشارہ کو اپنی دو شہادت اور بیچ کی انگلیوں کو جدا کر کے بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے قبیلہ بنی عجلان کے میاں بیوی کے درمیان جدائی کرائی تھی اور فرمایا تھا کہ اللہ جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کیا وہ رجوع کرلے گا ؟ آپ نے تین مرتبہ یہ فرمایا۔ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ سفیان بن عیینہ نے مجھ سے کہا، میں نے یہ حدیث جیسے عمرو بن دینار اور ایوب سے سن کر یاد رکھی تھی ویسی ہی تجھ سے بیان کردی۔

【56】

لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرنے کا بیان

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے اور ان سے نافع نے کہ ابن عمر (رض) نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم ﷺ نے اس مرد اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی کرا دی تھی جنہوں نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی تھی اور دونوں سے قسم لی تھی۔

【57】

لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرنے کا بیان

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، کہا مجھے نافع نے خبر دی اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ قبیلہ انصار کے ایک صاحب اور ان کی بیوی کے درمیان رسول اللہ ﷺ نے لعان کرایا تھا اور دونوں کے درمیان جدائی کرا دی تھی۔

【58】

بچہ لعان کرنے والی عورت کو دیا جائے

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہ ہم سے مالک نے، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک صاحب اور ان کی بیوی کے درمیان لعان کرایا تھا۔ پھر ان صاحب نے اپنی بیوی کے لڑکے کا انکار کیا تو نبی کریم ﷺ نے دونوں کے درمیان جدائی کرا دی اور لڑکا عورت کو دے دیا۔

【59】

امام کا یہ کہنا کہ اے اللہ اصل حقیقت ظاہر کردے

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، کہا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن قاسم نے خبر دی، انہیں قاسم بن محمد نے اور انہیں ابن عباس (رض) نے، انہوں نے بیان کیا کہ لعان کرنے والوں کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ہوا تو عاصم بن عدی (رض) نے اس پر ایک بات کہی (کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو پاؤں تو وہیں قتل کر ڈالوں) پھر واپس آئے تو ان کی قوم کے ایک صاحب ان کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو پایا ہے۔ عاصم (رض) نے کہا کہ اس معاملہ میں میرا یہ ابتلاء میری اس بات کی وجہ سے ہوا ہے (جس کے کہنے کی جرات میں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے کی تھی) پھر وہ ان صاحب کو ساتھ لے کر نبی کریم ﷺ کے پاس گئے اور نبی کریم ﷺ کو اس صورت سے مطلع کیا جس میں انہوں نے اپنی بیوی کو پایا تھا۔ یہ صاحب زرد رنگ، کم گوشت والے اور سیدھے بالوں والے تھے اور وہ جسے انہوں نے اپنی بیوی کے پاس پایا تھا گندمی رنگ، گھٹے جسم کا زرد، بھرے گوشت والا تھا اس کے بال بہت زیادہ گھونگھریالے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ ! معاملہ صاف کر دے چناچہ ان کی بیوی نے جو بچہ جنا وہ اسی شخص سے مشابہ تھا جس کے متعلق شوہر نے کہا تھا کہ انہوں نے اپنی بیوی کے پاس اسے پایا تھا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے دونوں کے درمیان لعان کرایا۔ ابن عباس (رض) سے ایک شاگرد نے مجلس میں پوچھا، کیا یہ وہی عورت ہے جس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی کو بلا شہادت سنگسار کرتا تو اسے کرتا ؟ ابن عباس (رض) نے کہا کہ نہیں۔ یہ دوسری عورت تھی جو اسلام کے زمانہ میں اعلانیہ بدکاری کیا کرتی تھی۔

【60】

جب عورت کو تین طلاقیں دے پھر وہ عدت گذارنے کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کرلے اور وہ بغیر صحبت کئے اسے طلاق دے دے

(دوسری سند اور امام بخاری (رح) نے کہا کہ) ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ رفاعہ قرظی (رض) نے ایک خاتون سے نکاح کیا، پھر انہیں طلاق دے دی، اس کے بعد ایک دوسرے صاحب نے ان خاتون سے نکاح کرلیا، پھر وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے دوسرے شوہر کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ تو ان کے پاس آتے ہی نہیں اور یہ کہ ان کے پاس کپڑے کے پلو جیسا ہے (انہوں نے پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کی خواہش ظاہر کی لیکن) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں، جب تک تم اس (دوسرے شوہر) کا مزا نہ چکھ لو اور یہ تمہارا مزا نہ چکھ لیں۔

【61】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل (یعنی بچہ جننے) تک ہے

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے، کہا کہ مجھے خبر دی ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے کہ زینب ام سلمہ (رض) نے اپنی والدہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ (رض) سے خبر دی کہ ایک خاتون جو اسلام لائی تھیں اور جن کا نام سبیعہ تھا، اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھیں، شوہر کا جب انتقال ہوا تو وہ حاملہ تھیں۔ ابوسنان بن بعکک (رض) نے ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا لیکن انہوں نے نکاح کرنے سے انکار کیا۔ ابوالسنابل نے کہا کہ اللہ کی قسم ! جب تک عدت کی دو مدتوں میں سے لمبی نہ گزار لوں گی، تمہارے لیے اس سے (جس سے نکاح وہ کرنا چاہتی تھیں) نکاح کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ پھر وہ (وضع حمل کے بعد) تقریباً دس دن تک رکی رہیں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اب نکاح کرلو۔

【62】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل (یعنی بچہ جننے) تک ہے

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث نے، ان سے یزید نے کہ ابن شہاب نے انہیں لکھا کہ عبیداللہ بن عبداللہ نے اپنے والد (عبداللہ بن عتبہ بن مسعود) سے انہیں خبر دی کہ انہوں نے ابن الارقم کو لکھا کہ سبیعہ اسلمیہ سے پوچھیں کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے متعلق کیا فتویٰ دیا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ جب میرے یہاں بچہ پیدا ہوگیا تو نبی کریم نے مجھے فتویٰ دیا کہ اب میں نکاح کرلوں۔

【63】

باب

باب : اللہ کا یہ فرمانا کہ مطلقہ عورتیں اپنے کو تین طہر یا تین حیض تک روکے رکھیں اور ابراہیم نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جس نے کسی عورت سے عدت ہی میں نکاح کرلیا اور پھر وہ اس کے پاس تین حیض کی مدت گزرنے تک رہی کہ اس کے بعد وہ پہلے ہی شوہر سے جدا ہوگی۔ (اور یہ صرف اس کی عدت سمجھی جائے گی) دوسرے نکاح کی عدت کا شمار اس میں نہیں ہوگا لیکن زہری نے کہا کہ اسی میں دوسرے نکاح کی عدت کا شمار بھی ہوگا، یہی یعنی زہری کا قول سفیان کو زیادہ پسند تھا۔ معمر نے کہا کہ أقرأت المرأة اس وقت بولتے ہیں جب عورت کا حیض قریب ہو۔ اسی طرح أقرأت اس وقت بھی بولتے ہیں جب عورت کا طہر قریب ہو، جب کسی عورت کے پیٹ میں کبھی کوئی حمل نہ ہوا ہو تو اس کے لیے عرب کہتے ہیں ما قرأت بسلى قط یعنی اس کو کبھی پیٹ نہیں رہا۔

【64】

فاطمہ بنت قیس کا واقعہ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ نکلیں مگر یہ کہ کھلم کھلا بے حیائی کا کام کریں اور یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں اور جو شخص اللہ کی حدود سے آگے بڑھے تو اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا، تو نہیں جانتا کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی نئی صورت نکالے تو انہیں رہنے کے لئے اپنی وسعت کے مطابق جگہ دو، جس طرح تم رہتے ہو اور انہیں تکلیف نہ پہنچاؤ تاکہ ان پر تنگی کرو اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان کو خرچہ دو، یہاں تک کہ وہ بچہ جنیں، آخر آیت بعد عسر یسراتک

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار نے، وہ دونوں بیان کرتے تھے کہ یحییٰ بن سعید بن العاص نے عبدالرحمٰن بن حکم کی صاحبزادی (عمرہ) کو طلاق دے دی تھی اور ان کے باپ عبدالرحمٰن انہیں ان کے (شوہر کے) گھر سے لے آئے (عدت کے ایام گزرنے سے پہلے) ۔ عائشہ (رض) کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے مروان بن حکم کے یہاں، جو اس وقت مدینہ کا امیر تھا، کہلوایا کہ اللہ سے ڈرو اور لڑکی کو اس کے گھر (جہاں اسے طلاق ہوئی ہے) پہنچا دو ۔ جیسا کہ سلیمان بن یسار کی حدیث میں ہے۔ مروان نے اس کو جواب یہ دیا کہ لڑکی کے والد عبدالرحمٰن بن حکم نے میری بات نہیں مانی اور قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ (مروان نے ام المؤمنین کو یہ جواب دیا کہ) کیا آپ کو فاطمہ بنت قیس (رض) کے معاملہ کا علم نہیں ہے ؟ (انہوں نے بھی اپنے شوہر کے گھر عدت نہیں گزاری تھی) ۔ عائشہ (رض) نے بتلایا کہ اگر تم فاطمہ کے واقعہ کا حوالہ نہ دیتے تب بھی تمہارا کچھ نہ بگڑتا (کیونکہ وہ تمہارے لیے دلیل نہیں بن سکتا) ۔ مروان بن حکم نے اس پر کہا کہ اگر آپ کے نزدیک (فاطمہ (رض) کا ان کے شوہر کے گھر سے منتقل کرنا) ان کے اور ان کے شوہر کے رشتہ داری کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے تھا تو یہاں بھی یہی وجہ کافی ہے کہ دونوں (میاں بیوی) کے درمیان کشیدگی تھی۔

【65】

فاطمہ بنت قیس کا واقعہ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ نکلیں مگر یہ کہ کھلم کھلا بے حیائی کا کام کریں اور یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں اور جو شخص اللہ کی حدود سے آگے بڑھے تو اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا، تو نہیں جانتا کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی نئی صورت نکالے تو انہیں رہنے کے لئے اپنی وسعت کے مطابق جگہ دو، جس طرح تم رہتے ہو اور انہیں تکلیف نہ پہنچاؤ تاکہ ان پر تنگی کرو اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان کو خرچہ دو، یہاں تک کہ وہ بچہ جنیں، آخر آیت بعد عسر یسراتک

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہا فاطمہ بنت قیس، اللہ سے ڈرتی نہیں ! ان کا اشارہ ان کے اس قول کی طرف تھا (کہ مطلقہ بائنہ کو) نفقة وسكنى دینا ضروری نہیں جو کہتی ہے کہ طلاق بائن جس عورت پر پڑے اسے مسکن اور خرچہ نہیں ملے گا۔

【66】

فاطمہ بنت قیس کا واقعہ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ نکلیں مگر یہ کہ کھلم کھلا بے حیائی کا کام کریں اور یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں اور جو شخص اللہ کی حدود سے آگے بڑھے تو اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا، تو نہیں جانتا کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی نئی صورت نکالے تو انہیں رہنے کے لئے اپنی وسعت کے مطابق جگہ دو، جس طرح تم رہتے ہو اور انہیں تکلیف نہ پہنچاؤ تاکہ ان پر تنگی کرو اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان کو خرچہ دو، یہاں تک کہ وہ بچہ جنیں، آخر آیت بعد عسر یسراتک

ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے ان کے والد نے کہ عروہ بن زبیر نے عائشہ (رض) سے کہا کہ آپ فلانہ (عمرہ بنت حکم) بنت حکم کا معاملہ نہیں دیکھتیں۔ ان کے شوہر نے انہیں طلاق بائنہ دے دی اور وہ وہاں سے نکل آئیں (عدت گزارے بغیر) ۔ عائشہ (رض) نے فرمایا کہ جو کچھ اس نے کیا بہت برا کیا۔ عروہ نے کہا آپ نے فاطمہ (رض) کے واقعہ کے متعلق نہیں سنا۔ بتلایا کہ اس کے لیے اس حدیث کو ذکر کرنے میں کوئی خیر نہیں ہے اور ابن ابی زناد نے ہشام سے یہ اضافہ کیا ہے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) نے (عمرہ بنت حکم کے معاملہ پر) اپنی شدید ناگواری کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ فاطمہ بنت قیس (رض) تو ایک اجاڑ جگہ میں تھیں اور اس کے چاروں طرف خوف اور وحشت برستی تھی، اس لیے نبی کریم ﷺ نے (وہاں سے منتقل ہونے کی) انہیں اجازت دے دی تھی۔

【67】

مطلقہ عورت کو اپنے گھر میں ڈر معلوم ہو کہ اس کے گھر میں کوئی داخل ہوجائے یا یہ خوف ہو کہ اس کے گھر والوں کو برا بھلا کہنا پڑے گا (تو وہ گھر سے نکل سکتی ہے)

مجھ سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ نے کہ عائشہ (رض) نے فاطمہ بنت قیس (رض) کی اس بات کا (کہ مطلقہ بائنہ کو نفقة وسكنى نہیں ملے گا) انکار کیا۔

【68】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان عورتوں کے لئے حلال نہیں کہ وہ اس چیز کو چھپائیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں پیدا کی ہے یعنی حیض اور حمل

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے، ان سے حکم بن عتبہ نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ نے (حجۃ الوداع میں) کوچ کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ صفیہ (رض) اپنے خیمہ کے دروازے پر غمگین کھڑی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ عقرى یا (فرمایا راوی کو شک تھا) حلقى معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمیں روک دو گی، کیا تم نے قربانی کے دن طواف کرلیا ہے ؟ انہوں نے عرض کی کہ جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر چلو۔

【69】

اور ان کا شوہر عدت میں ان کے لوٹانے کا زیادہ مستحق ہے اور کس طرح عورت سے رجوع کیا جائے جب کہ اس کو ایک یا دو طلاقیں دے دے

مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، ان سے یونس بن عبید نے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے بیان کیا کہ معقل بن یسار (رض) نے اپنی بہن جمیلہ کا نکاح کیا، پھر (ان کے شوہر نے) انہیں ایک طلاق دی۔

【70】

اور ان کا شوہر عدت میں ان کے لوٹانے کا زیادہ مستحق ہے اور کس طرح عورت سے رجوع کیا جائے جب کہ اس کو ایک یا دو طلاقیں دے دے

مجھ سے محمد بن مثنٰی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے، ان سے قتادہ نے، کہا ہم سے امام حسن بصری نے بیان کیا کہ معقل بن یسار (رض) کی بہن ایک آدمی کے نکاح میں تھیں، پھر انہوں نے انہیں طلاق دے دی، اس کے بعد انہوں نے تنہائی میں عدت گزاری۔ عدت کے دن جب ختم ہوگئے تو ان کے پہلے شوہر نے ہی پھر معقل (رض) کے پاس ان کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا۔ معقل کو اس پر بڑی غیرت آئی۔ انہوں نے کہا جب وہ عدت گزار رہی تھی تو اسے اس پر قدرت تھی (کہ دوران عدت میں رجعت کرلیں لیکن ایسا نہیں کیا) اور اب میرے پاس نکاح کا پیغام بھیجتا ہے۔ چناچہ وہ ان کے اور اپنی بہن کے درمیان میں حائل ہوگئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی وإذا طلقتم النساء فبلغن أجلهن فلا تعضلوهن‏ اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی مدت کو پہنچ چکیں تو تم انہیں مت روکو۔ آخر آیت تک پھر رسول اللہ ﷺ نے انہیں بلا کر یہ آیت سنائی تو انہوں نے ضد چھوڑ دی اور اللہ کے حکم کے سامنے جھک گئے۔

【71】

اور ان کا شوہر عدت میں ان کے لوٹانے کا زیادہ مستحق ہے اور کس طرح عورت سے رجوع کیا جائے جب کہ اس کو ایک یا دو طلاقیں دے دے

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر بن خطاب (رض) نے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تو اس وقت وہ حائضہ تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ رجعت کرلیں اور انہیں اس وقت تک اپنے ساتھ رکھیں جب تک وہ اس حیض سے پاک ہونے کے بعد پھر دوبارہ حائضہ نہ ہوں۔ اس وقت بھی ان سے کوئی تعرض نہ کریں اور جب وہ اس حیض سے بھی پاک ہوجائیں تو اگر اس وقت انہیں طلاق دینے کا ارادہ ہو تو طہر میں اس سے پہلے کہ ان سے ہمبستری کریں، طلاق دیں۔ پس یہی وہ وقت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس میں عورتوں کو طلاق دی جائے اور عبداللہ بن عمر (رض) سے اگر اس کے (مطلقہ ثلاثہ کے) بارے میں سوال کیا جاتا تو سوال کرنے والے سے وہ کہتے کہ اگر تم نے تین طلاقیں دے دی ہیں تو پھر تمہاری بیوی تم پر حرام ہے۔ یہاں تک کہ وہ تمہارے سوا دوسرے شوہر سے نکاح کرے۔ غير قتيبة (ابوالجہم) کے اس حدیث میں لیث سے یہ اضافہ کیا ہے کہ (انہوں نے بیان کیا کہ) مجھ سے نافع نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہا کہ اگر تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دے دی ہو۔ (تو تم اسے دوبارہ اپنے نکاح میں لاسکتے ہو) کیونکہ نبی کریم ﷺ نے مجھے اس کا حکم دیا تھا۔

【72】

جس عورت کا شوہر مرجائے وہ چار ماہ دس دن تک اس کا سوگ منائے گی اور زہری نے کہا کہ میں مناسب نہیں سمجھتا کہ کمسن لڑکی جس کا شوہر مرجائے وہ خوشبو لگائے، اس لئے کہ اس پر بھی عدت ہے

میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اس وقت وہ حائضہ تھیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابن عمر اپنی بیوی سے رجوع کر لیں۔ پھر جب طلاق کا صحیح وقت آئے تو طلاق دیں ( یونس بن جبیر نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) میں نے پوچھا کہ کیا اس طلاق کا بھی شمار ہوا تھا؟ انہوں نے بتلایا کہ اگر کوئی طلاق دینے والا شرع کے احکام بجا لانے سے عاجز ہو یا احمق بیوقوف ہو ( تو کیا طلاق نہیں پڑے گی؟ ) ۔

【73】

جس عورت کا شوہر مرجائے وہ چار ماہ دس دن تک اس کا سوگ منائے گی اور زہری نے کہا کہ میں مناسب نہیں سمجھتا کہ کمسن لڑکی جس کا شوہر مرجائے وہ خوشبو لگائے، اس لئے کہ اس پر بھی عدت ہے

زینب (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام حبیبہ (رض) کے پاس اس وقت گئی جب ان کے والد ابوسفیان بن حرب (رض) کا انتقال ہوا تھا۔ ام حبیبہ نے خوشبو منگوائی جس میں خلوق خوشبو کی زردی یا کسی اور چیز کی ملاوٹ تھی، پھر وہ خوشبو ایک لونڈی نے ان کو لگائی اور ام المؤمنین نے خود اپنے رخساروں پر اسے لگایا۔ اس کے بعد کہا کہ واللہ ! مجھے خوشبو کے استعمال کی کوئی خواہش نہیں تھی لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے سوا شوہر کے (کہ اس کا سوگ) چار مہینے دس دن کا ہے۔

【74】

جس عورت کا شوہر مرجائے وہ چار ماہ دس دن تک اس کا سوگ منائے گی اور زہری نے کہا کہ میں مناسب نہیں سمجھتا کہ کمسن لڑکی جس کا شوہر مرجائے وہ خوشبو لگائے، اس لئے کہ اس پر بھی عدت ہے

زینب (رض) نے بیان کیا کہ اس کے بعد میں ام المؤمنین زینب بنت جحش (رض) کے یہاں اس وقت گئی جب ان کے بھائی کا انتقال ہوا۔ انہوں نے بھی خوشبو منگوائی اور استعمال کیا کہا کہ واللہ ! مجھے خوشبو کے استعمال کی کوئی خواہش نہیں تھی لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو برسر منبر یہ فرماتے سنا ہے کہ کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، صرف شوہر کے لیے چار مہینے دس دن کا سوگ ہے۔

【75】

None

ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میری لڑکی کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کی آنکھوں میں تکلیف ہے تو کیا وہ سرمہ لگا سکتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ نہیں، دو تین مرتبہ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ) ہر مرتبہ یہ فرماتے تھے کہ نہیں! پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ( شرعی عدت ) چار مہینے اور دس دن ہی کی ہے۔ جاہلیت میں تو تمہیں سال بھر تک مینگنی پھینکنی پڑتی تھی ( جب کہیں عدت سے باہر ہوتی تھی ) ۔

【76】

None

اس کا کیا مطلب ہے کہ ”سال بھر تک مینگنی پھینکنی پڑتی تھی؟“ انہوں نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو وہ ایک نہایت تنگ و تاریک کوٹھڑی میں داخل ہو جاتی۔ سب سے برے کپڑے پہنتی اور خوشبو کا استعمال ترک کر دیتی۔ یہاں تک کہ اسی حالت میں ایک سال گزر جاتا پھر کسی چوپائے گدھے یا بکری یا پرندہ کو اس کے پاس لایا جاتا اور وہ عدت سے باہر آنے کے لیے اس پر ہاتھ پھیرتی۔ ایسا کم ہوتا تھا کہ وہ کسی جانور پر ہاتھ پھیر دے اور وہ مر نہ جائے۔ اس کے بعد وہ نکالی جاتی اور اسے مینگنی دی جاتی جسے وہ پھینکتی۔ اب وہ خوشبو وغیرہ کوئی بھی چیز استعمال کر سکتی تھی۔ امام مالک سے پوچھا گیا کہ «تفتض به» کا کیا مطلب ہے تو آپ نے فرمایا وہ اس کا جسم چھوتی تھی۔

【77】

سوگ والی عورت کے سرمہ لگانے کا بیان

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سے حمید بن نافع نے، ان سے زینب بنت ام سلمہ (رض) نے اپنی والدہ سے کہ ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا، اس کے بعد اس کی آنکھ میں تکلیف ہوئی تو اس کے گھر والے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے سرمہ لگانے کی اجازت مانگی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سرمہ (زمانہ عدت میں) نہ لگاؤ۔ (زمانہ جاہلیت میں) تمہیں بدترین کپڑے میں وقت گزارنا پڑتا تھا، یا (راوی کو شک تھا کہ یہ فرمایا کہ) بدترین گھر میں وقت (عدت) گزارنا پڑتا تھا۔ جب اس طرح ایک سال پورا ہوجاتا تو اس کے پاس سے کتا گزرتا اور وہ اس پر مینگنی پھینکتی (جب عدت سے باہر آتی) پس سرمہ نہ لگاؤ۔ یہاں تک کہ چار مہینے دس دن گزر جائیں۔

【78】

None

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مسلمان عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو۔ اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی ( کی وفات ) کا سوگ تین دن سے زیادہ منائے سوا شوہر کے کہ اس کے لیے چار مہینے دس دن ہیں۔

【79】

سوگ والی عورت کے سرمہ لگانے کا بیان

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر نے بیان کیا، کہا ہم سے سلمہ بنت علقمہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے کہ ام عطیہ (رض) نے بیان کیا کہ ہمیں منع کیا گیا ہے کہ شوہر کے سوا کسی کا سوگ تین دن سے زیادہ منائیں۔

【80】

حیض سے پاک ہونے کے وقت سوگ والی عورت کا قسط استعمال کرنا

مجھ سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے حفصہ نے اور ان سے ام عطیہ (رض) نے بیان کیا کہ ہمیں اس سے منع کیا گیا کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ منائیں سوا شوہر کے کہ اس کے لیے چار مہینے دس دن کی عدت تھی۔ اس عرصہ میں ہم نہ سرمہ لگاتے نہ خوشبو استعمال کرتے اور نہ رنگا کپڑا پہنتے تھے۔ البتہ وہ کپڑا اس سے الگ تھا جس کا (دھاگا) بننے سے پہلے ہی رنگ دیا گیا ہو۔ ہمیں اس کی اجازت تھی کہ اگر کوئی حیض کے بعد غسل کرے تو اس وقت اظفار کا تھوڑا سا عود استعمال کرلے اور ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے کی بھی ممانعت تھی۔

【81】

سوگ منانے والی عورت وہ کپڑے پہنے جو بننے سے پہلے رنگے گئے ہوں

ہم سے فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالسلام بن حرب نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے، ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے سوا شوہر کے وہ اس کے سوگ میں نہ سرمہ لگائے نہ رنگا ہوا کپڑا پہنے مگر یمن کا دھاری دار کپڑا (جو بننے سے پہلے ہی رنگا گیا ہو) ۔ امام بخاری (رح) کے شیخ انصاری نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ نے کہ نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا کہ (کسی میت پر) خاوند کے سوا تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے اور (فرمایا کہ) خوشبو کا استعمال نہ کرے، سوا طہر کے وقت جب حیض سے پاک ہو تو تھوڑا سا عود (قسط) اور (مقام) اظفار (کی خوشبو استعمال کرسکتی ہے) ، ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) کہتے ہیں کہ قسط اور الکست ایک ہی چیز ہیں، جیسے کافور اور قافور دونوں ایک ہیں۔

【82】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم میں سے جو وفات پاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں، بماتعملون خبیر تک

مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، کہا ہم سے شبل بن عباد نے، ان سے ابن ابی نجیح نے اور ان سے مجاہد نے آیت کریمہ والذين يتوفون منکم ويذرون أزواجا‏ الخ، یعنی اور جو لوگ تم میں سے وفات پاجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔ کے متعلق کہا کہ یہ عدت جو شوہر کے گھر والوں کے پاس گزاری جاتی تھی، پہلے واجب تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری والذين يتوفون منکم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج فإن خرجن فلا جناح عليكم فيما فعلن في أنفسهن من معروف‏ الخ، یعنی اور جو لوگ تم میں سے وفات پاجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں (ان پر لازم ہے کہ) اپنی بیویوں کے حق میں نفع اٹھانے کی وصیت کر جائیں کہ وہ ایک سال تک (گھر سے) نہ نکالی جائیں لیکن اگر وہ (خود) نکل جائیں تو کوئی گناہ تم پر نہیں۔ اس باب میں جسے وہ (بیویاں) اپنے بارے میں دستور کے مطابق کریں۔ مجاہد نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی بیوہ کے لیے سات مہینے بیس دن سال بھر میں سے وصیت قرار دی۔ اگر وہ چاہے تو شوہر کی وصیت کے مطابق وہیں ٹھہری رہے اور اگر چاہے (چار مہینے دس دن کی عدت) پوری کر کے وہاں سے چلی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد غير إخراج فإن خرجن فلا جناح عليكم‏ تک یعنی انہیں نکالا نہ جائے۔ البتہ اگر وہ خود چلی جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔ کا یہی منشا ہے۔ پس عدت تو جیسی کہ پہلے تھی، اب بھی اس پر واجب ہے۔ ابن ابی نجیح نے اسے مجاہد سے بیان کیا اور عطاء نے بیان کیا کہ ابن عباس (رض) نے کہا کہ اس پہلی آیت نے بیوہ کو خاوند کے گھر میں عدت گزارنے کے حکم کو منسوخ کردیا، اس لیے اب وہ جہاں چاہے عدت گزارے اور (اسی طرح اس آیت نے) اللہ تعالیٰ کے ارشاد غير إخراج‏ یعنی انہیں نکالا نہ جائے۔ (کو بھی منسوخ کردیا ہے) ۔ عطاء نے کہا کہ اگر وہ چاہے تو اپنے (شوہر کے) گھر والوں کے یہاں ہی عدت گزارے اور وصیت کے مطابق قیام کرے اور اگر چاہے وہاں سے چلی آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فلا جناح عليكم فيما فعلن‏ الخ، یعنی پس تم پر اس کا کوئی گناہ نہیں، جو وہ اپنی مرضی کے مطابق کریں۔ عطاء نے کہا کہ اس کے بعد میراث کا حکم نازل ہوا اور اس نے مکان کے حکم کو منسوخ کردیا۔ پس وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے اور اس کے لیے (شوہر کی طرف سے) مکان کا انتظام نہیں ہوگا۔

【83】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم میں سے جو وفات پاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں، بماتعملون خبیر تک

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حزم نے بیان کیا، ان سے حمید بن نافع نے بیان، ان سے زینب بنت ام سلمہ (رض) نے بیان کیا اور ان سے ام حبیبہ بنت ابی سفیان (رض) نے بیان کیا کہ جب ان کے والد کی وفات کی خبر پہنچی تو انہوں نے خوشبو منگوائی اور اپنے دونوں بازؤں پر لگائی پھر کہا کہ مجھے خوشبو کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو وہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے سوا شوہر کے کہ اس کے لیے چار مہینے دس دن ہیں۔

【84】

زانیہ کی کمائی اور نکاح فاسد کا بیان اور حسن نے کہا کہ اگر کسی ایسی عورت سے نادانستگی میں نکاح کیا، جس سے نکاح حرام تھا، تو ان دونوں کے درمیان تفریق کرادی جائے اور جو اس نے لے لیا وہ اسی کا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں پھر بعد میں ان کا ایک قول یہ ہے کہ وہ مہر مثل کی مستحق ہے

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابومسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے کتے کی قیمت، کاہن کی کمائی اور زانیہ عورت کے زنا کی کمائی کھانے سے منع فرمایا۔

【85】

زانیہ کی کمائی اور نکاح فاسد کا بیان اور حسن نے کہا کہ اگر کسی ایسی عورت سے نادانستگی میں نکاح کیا، جس سے نکاح تھا، تو ان دونوں کے درمیان تفریق کرادی جائے اور جو اس نے لے لیا وہ اسی کا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں پھر بعد میں ان کا ایک قول یہ ہے کہ وہ مہر مثل کی مستحق ہے

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، کہا ہم سے عون بن ابی جحیفہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم ﷺ نے گودنے والی اور گدوانے والی، سود کھانے والے اور کھلانے والے پر لعنت بھیجی اور آپ نے کتے کی قیمت اور زانیہ کی کمائی کھانے سے منع فرمایا اور تصویر بنانے والوں پر لعنت کی۔

【86】

زانیہ کی کمائی اور نکاح فاسد کا بیان اور حسن نے کہا کہ اگر کسی ایسی عورت سے نادانستگی میں نکاح کیا، جس سے نکاح تھا، تو ان دونوں کے درمیان تفریق کرادی جائے اور جو اس نے لے لیا وہ اسی کا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں پھر بعد میں ان کا ایک قول یہ ہے کہ وہ مہر مثل کی مستحق ہے

ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں محمد بن جحادہ نے، انہیں ابوحازم نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے لونڈیوں کے زنا کی کمائی سے منع فرمایا۔

【87】

اس عورت کے مہر کا بیان، جس سے صحبت کی جاچکی ہے اور دخول کب متحقق ہوتا ہے یا دخول یا مسیس سے پہلے اس کو طلاق دے تو کیا حکم ہے؟

ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی، انہیں ایوب سختیانی نے اور ان سے سعید بن کبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عمر (رض) سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی ہو تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے قبیلہ بنی عجلان کے میاں بیوی میں جدائی کرا دی تھی اور فرمایا تھا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کیا وہ رجوع کرے گا ؟ لیکن دونوں نے انکار کیا، آپ ﷺ نے دوبارہ فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے اسے جو تم میں سے ایک جھوٹا ہے وہ توبہ کرتا ہے یا نہیں ؟ لیکن دونوں نے پھر توبہ سے انکار کیا۔ پس نبی کریم ﷺ نے ان میں جدائی کرا دی۔ ایوب نے بیان کیا کہ مجھ سے عمرو بن دینار نے کہا کہ یہاں حدیث میں ایک چیز اور ہے میں نے تمہیں اسے بیان کرتے نہیں دیکھا۔ وہ یہ ہے کہ (تہمت لگانے والے) شوہر نے کہا تھا کہ میرا مال (مہر) دلوا دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ وہ تمہارا مال ہی نہیں رہا، اگر تم سچے بھی ہو تو تم اس سے خلوت کرچکے ہوا اور اگر جھوٹے ہو تب تو تم کو بطریق اولیٰ کچھ نہ ملنا چاہیئے۔

【88】

اس عورت کے متعہ کا بیان، جس کا مہر مقرر نہیں ہوا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم پر کوئی حرج نہیں، اگر تم عورتوں کو طلاق دے دو، اس حال میں کہ تم نے ان سے صحبت نہیں کی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ طلاق دی ہوئی عورتوں کے لئے قاعدہ کے مطابق فائدہ اٹھانا ہے متقیوں پر حق ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے شاید کہ تم سمجھو اور آپ ﷺ نے لعان میں متعہ کا ذکر نہیں کیا، جب کہ اس کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے لعان کرنے والے میاں بیوی سے فرمایا کہ تمہارا حساب اللہ کے یہاں ہوگا۔ تم میں سے ایک تو یقیناً جھوٹا ہے۔ تمہارے یعنی (شوہر کے) لیے اسے (بیوی کو) حاصل کرنے کا اب کوئی راستہ نہیں ہے۔ شوہر نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرا مال ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اب وہ تمہارا مال نہیں رہا۔ اگر تم نے اس کے متعلق سچ کہا تھا تو وہ اس کے بدلہ میں ہے کہ تم نے اس کی شرمگاہ اپنے لیے حلال کی تھی اور اگر تم نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی تب تو اور زیادہ تجھ کو کچھ نہ ملنا چاہیئے۔