2. کتاب الرقاق

【1】

اگر عالم غیب ہم پر منکشف ہو جائے تو ہمارا کیا حال ہو

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، سیدنا ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قسم اُس ذات ، پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، اگر (اللہ کے قہر و جلال اور قیامت و آخرت کے لرزہ خیز ہولناک احوال کے متعلق) تمہیں وہ سب معلوم ہو جائے ، جو مجھے معلوم ہے ، تو تہمارا ہنسنا بہت کم ہو جائے ، اور رونا بہت بڑھ جائے ۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شانِ بے نیازی ، اور اس کے قہر و جلال ، اور قیامت و آخرت کے ہولناک لرزہ خیز احوال کے متعلق جو کچھ مجھے معلوم ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مجھ پر منکشف کر دیا ہے ، اگر تم کو بھی اس کا پورا علم ہو جائے ، اور تمہاری آنکھوں کو بھی وہ سب نظر آنے لگے جو میں دیکھتا ہوں ، اور تمہارے کان بھی وہ سب کچھ سننے لگیں جو میں سنتا ہوں ، تو تمہارا چین و سکون ختم ہو جائے ، تم بہت کم ہنسو اور بہت زیادہ رؤں ۔ اس کی مزید تفصیل حضرت ابوذر غفاریؓ کی اگلی حدیث سے معلوم ہوگی ۔ حدیث کی کتابوں میں جس طرح کتاب الایمان ، کتاب الصلوٰۃ ، کتاب الزکوٰۃ ، کتاب النکاح ، کتاب البیوع وغیرہ عنوانات ہوتے ہیں ، جن کے تحت ان ابواب کی حدیثیں درج کی جاتی ہیں ، اسی طرح ایک عنوان “ کتاب الرقاق ” کا ہوتا ہے ، جس کے ذیل میں وہ حدیثیں درج کی جاتی ہیں جن سے دل میں رقّت اور گداز کی کیفیت پیدا ہو ، دنیا سے وابستگی کم ہو ، اور آخرت کی فکر بڑھے ، اور آدمی اللہ تعالیٰ کی رضا اور اخروی فلاح کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائے ، اس کے علاوہ اسی عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤثر خطبات و نصائح اور مواعظ بھی درج کئے جاتے ہیں ۔ یہ واقعہ ہے کہ حدیث کے ذخیرے میں سب سے زیادہ مؤثر اور زندگی کے رُخ کو بدلنے کی سب سے زیادہ طاقت رکھنے والا حصہ یہی ہوتا ہے ، جو کُتبِ حدیث میں “ کتاب الرقاق ” کے زیرِ عنوان درج ہوتا ہے ، اس لئے اس کی خاص اہمیت ہے ، اور کہا جا سکتا ہے کہ حقیقی اسلامی تصوف کی یہی اساس و بنیا ہے ۔ ہم اس سلسلہ کو اُن حدیثوں سے شروع کرتے ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کا خوف و خشیت اور آخرت کی فکر دلوں میں پیدا کرنے کی کوشش فرمائی ہے ، یا کسی عنوان سے اس کی فضیلت اور اہمیت بیان فرمائی ہے ۔ دعا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کے جو اثرات اُن خوش نصیب اہلِ ایمان کے قلوب پر پڑتے تھے جنہوں نے سب سے پہلے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ ارشادات سُنے تھے ، اللہ تعالیٰ ان کا کوئی ذرہ ہم کو بھی نصیب فرمائے ۔ خدا کا خوف اور فکر آخرت ایمان کے بعد انسان کی زندگی کو سنوارنے اور فلاح کے مقام تک اُس کو پہنچانے میں چونکہ سب سے بڑا دخل اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت اور آخرت کی فکر کو ہے ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انی امت میں ان دو چیزوں کے پیدا کرنے کی خاص کوشش فرمائی ، کبھی اِس خوف و فکر کے فوائد اور فضائل بیان فرماتے ، اور کبھی اللہ تعالیٰ کے قہر و جلال اور آخرت کے ان سخت احوال کو یاد دلاتے ، جن کی یاد سے دلوں میں یہ دونوں کیفیتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ آپ کے مشہور صحابی حضرت حنظلہ ابن الربیع کی حدیث جو چند صفحات کے بعد آپ پڑھیں گے ، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس کا خاص موضوع گویا یہی تھا ، اور صحابہ کرام جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ، اور آخرت اور دوزخ و جنت کے متعلق آپ کے ارشادات سنتے تھے ، تو اُن کا حال یہ ہو جاتا تھا کہ دوزخ و جنت گویا اُن کی آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ حدیث کے صرف موجودہ ذخیرے ہی سے اگر ایسی جمع کی جائیں ، جن کا مقصد خدا کا خوف اور آخرت کی فکر پیدا کرنا ہے ، تو بلا شبہ ایک پوری کتاب صرف ان ہی حدیثوں سے تیار ہو سکتی ہے ۔ یہاں صرف چند ہی حدیثیں اس سلسلہ کی درج کی جاتی ہیں ۔

【2】

اگر عالم غیب ہم پر منکشف ہو جائے تو ہمارا کیا حال ہو

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میں علمِ غیب کی وہ چیزیں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ آوازیں سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے ، آسمان چرچرا رہا ہے ، اور حق ہے کہ وہ چرچرائے ۔ قسم ہے اُس ربِّ ذوالجلال کی ، جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، آسمان میں چار انگل جگہ بھی نہیں ہے ، جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ اللہ کے حضور میں اپنا ماتھا رکھے سجدے میں نہ پڑا ہو ، اگر تم وہ باتیں جانتے ، جو میں جانتا ہوں ، تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے ، اور بستروں پر بیویوں سے بھی لطف اندوز نہ ہو سکتے ، اور اللہ سے نالہ و فریاد اور گریہ و زاری کرتے ہوئے بیابانوں اور جنگلوں کی طرف نکل جاتے ۔ (اس حدیث کو نقل کر کے) ابوذرؓ فرماتے ہیں کاش ! میں ایک درخت ہوتا ، جو کاٹ دیا جاتا ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح اس سلسلہ کی پہلی جلد (کتاب الایمان) میں جیسا کہ تفصیل سے بیان ہو چکا ہے خدا کے پیغمبر کا اصل کام اور مقام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو غیبی حقائق اُس پر منکشف فرمائے ، اور جن احکام کی اس کی طرف وضی کی جائے ، وہ اللہ کے دوسرے بندوں کو پہنچائے ، اور اس پر ایمان لانے والے اُس کے امتیوں کا مقام اور کام یہ ہے کہ اُس پیغمبر کے اعتماد و اعتبار پر اُن سب باتوں کو وہ حق جانیں ، مانیں اور ان ہی حقائق کو اپنی زندگی کی بنیاد بنائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے عام انسانوں کو علم کے جو ذروائع ، عقل و حواس وغیرہ عطا فرمائے ، ان کی دسترس صرف اسی عالمِ شہود تک محدود ہے ، عالمِ غیب تک اُن کی رسائی نہیں ہے ، اس لئے غیبی حقائق کی دریافت اور ان کے بارے میں علم و یقین حاصل کرنے کی راہ ہمارے لئے یہی ہے کہ اللہ کے پیغمبروں کے سماع و مشاہدہ اور اُن کی خبر پر ہم اعتماد کریں ، اور یقین لائیں اسی نام ایمان ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں عالمِ غیب کے اپنے اس ہیبت ناک انکشاف کا ذکر فرمایا ہے ، کہ اللہ کے جلال اور فرشتوں کی کثرت سے آسمان چرچرا رہا ہے ، اور چار انگل بھر جگہ بھی اُس میں ایسی نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ سر بسجود نہ ہو ۔ اللهُ اَكْبَرُ ! اَللهُ اَعْظَمُ !! اَللهُ اَجَلُّ !!! ۔ آگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اگر میری طرح تم بھی وہ سب کچھ جان لو ، جو میں جانتقا ہوں ، ا ور جو دیکھتا سنتا ہوں ، تو تم اس دنیا میں اس طرح ہنسی خوشی نہ رہ سکو ، بستروں پر بیویوں سے لطف اندوزی کا بھی تم کو ہوش نہ رہے ، اور گھروں سے نکل کر جنگلوں میں اللہ کے سامنے نالہ و فریاد اور گریہ و زاری کرتے پھرو ۔ حدیث کے راوی حضرت ابوذر غفاریؓ پر اس حدیث کا اتنا اثر پڑا تھا کہ بعض اوقات اس حدیث کے بیان کرنے کے ساتھ ان کے دل کی یہ آواز زبان سے نکل جاتی تھی ، کہ : اے کاش ! میں ایک درخت ہوتا ، جس کو جڑ سے کاٹ ڈالا جاتا ، اور پھر آخرت میں حساب کے لئے میری پیشہ نہ ہوتی ۔ ف ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ کو انسانوں سے چونکہ خلافتِ ارضی کا کام لینا ہے ، اور وہ جب ہی ممکن ہے کہ انسان اس دنیا میں اطمینان اور سکون کے ساتھ رہ سکے ، اس لئے وہ حقیقتیں اور وہ چیزیں عام انسانوں سے پردہ غیب میں رکھی گئی ہیں جن کے انکشاف کے بعد آدمی اس دنیا میں سکون سے نہیں رہ سکتا ، مثلاً قبر کا یا دوزخ کا عذاب ، اور اسی طرح قیامت کے لرزہ خیز مناظر اگر اس دنیا میں ہم جیسے انسانوں پر منکشف کر دئیے جائیں ، اور ہم لوگ ان کو برأی العین دیکھ سکیں ، تو پھر اس دنیا میں ہم کوئی کام نہیں کر سکتے ، بلکہ زیادہ دنوں تک زندہ بھی نہیں رہ سکتے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کو جو خاص کام لینا تھا ، اس کے لئے ضروری رتھا کہ آپ پر ان چیزوں کا انکشاف کر دیا جائے ، اور ایک درجہ پر ان حقائق کا مشاہدہ آپ کو کرا دیا جائے ، تا کہ آپ کے اندر وہ عین الیقین اور حق الیقین پیدا ہو جائے ، جس کی آپ کے منصبِ عالی اور کارِ عظیم کے لئے ضرورت تھی ، اس لئے اس قسم کے بہت سے غیبی حقائق آپ پر منکشف کئے گئے ، اور اسی کے ساتھ حکمتِ خداوندی نے آپ کے قلبِ مبارک کو وہ غیر معمولی طاقت بھی بخشی ، کہ اس انکشاف اور مشاہدہ کے باوجود آپ اپنے تمام فرائضِ منصبی کو بحسن و خوبی انجام دے سکیں ، اور دنیا میں ایسی جامع اور معتدل زندگی گزار سکیں ، جو قیامت تک پیدا ہونے والے ہر قسم اور ہر طبقے کے انسانوں کے لئے نمونہ بن سکے ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔

【3】

غفلت کو دور کرنے کے لئے موت کو زیادہ یاد کرو

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نماز کے لئے گھر سے مسجد تشریف لائے ، تو آپ نے لوگوں کو اس حال میں دیکھا کہ گویا (وہاں مسجد ہی میں) وہ کِھل کِھلا کر ہنس رہے ہیں ، (اور یہ حالت علامت تھی غفلت کی زیادتی کی) اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی اس حالت کی اصلاح کے لئے) ارشاد فرمایا : میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اگر تم لوگ لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو زیادہ یاد رکرو ، تو وہ تمہیں اس غفلت میں مبتلا نہ ہونے دے ، لذتوں کو توڑنے والی موت کو زیادہ یاد کرو ۔ (اس کے بعد فرمایا) حقیقت یہ ہے کہ قبر (یعنی زمین کا وہ حصہ جس کو مرنے کے بعد آدمی کا آخری ٹھکانا بننا ہے) ہر روز پکارتی ہے ۔ (ظاہر یہ ہے کہ زبانإ قال سے پکارتی ہے ، اور اس کی اس پکار کو وہی سُن سکتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ سنانا چاہے ، اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہر روز قبر زبانِ حال سے پکارتی ہے) کہ میں مسافرت اور تنہائی کا گھر ہوں ، میں مٹی اور کیڑوں کا گھر ہوں (اور قبر کی زبان حال کی اس پکار کو تو ہر بندہ ہر وقت سن سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے زبانِ حال کی باتیں سننے والے کان عطا فرمائے ہوں) ۔ (اس کے بعد آپ نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ مرنے کے بعد جب بندہ کا واسطہ اس زمین سے پڑتا ہے اور وہ اس کے سپرد ہوتا ہے ، تو ایمان و عمل کے فرق کے لحاظ سے زمین کا برتاؤ اس کے ساتھ کتنا مختلف ہوتا ہے ، چنانچہ آپ نے فرمایا) جب وہ بندہ زمینی کے سپرد کیا جاتا ہے جو حقیقی مؤمن و مسلم ہو ، تو زمین (کسی عزیز اور محترم مہمان کی طرح اس کا استقبال کرتی ہے ، اور) کہتی ہے مرحبا ! (میرا دل دیدہ و دل فرش ، راہ) خوب آئے ، اور اپنے ہی گھر آئے ، تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جتنے لوگ میرے اوپر چلتے تھے ان میں سب سے زیادہ محبوب اور چہیتے مجھے تم ہی تھے ، اور آج جب تم میرے سپرد کر دئیے گئے ہو ، اور میرے پاس آ گئے ہو ، تو تم دیکھو گے کہ (تمہاری خدمت اور راحت رسانی کے لئے) میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرتی ہوں ، پھر وہ زمین اُس بندہ مؤمن کے لئے حد نگاہ تک وسیع ہو جاتی ہے ، اور اُس کے واسطے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے ۔ اور جب کوئی سخت بدکار قسم کا آدمی ، یا (آپ نے فرمایا ، کہ) ایمان نہ لانے والا آدمی زمین کے سپرد کیا جاتا ہے ، تو زمین اُس سے کہتی ہے کہ جتنے آدمی میرے اوپر چلتے پھرتے تھے تو مجھے ان سب سے زیادہ مبغوض تھا ، اور آج جب تو میرے حوالہ کر دیا گیا ہے ، اور میرے قبضے میں آگیا ہے ، تو ابھی تو دیکھے گا کہ میں تیرے ساتھ کیا کرتی ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ پھر وہ زمین ہر طرف سے اُس کو بھینچتی اور دباتی ہے ، یہاں تک کہ اس دباؤ سے اس کی پسلیاں ادھر اُدھر ہو جاتی ہیں ۔ ابو سعید خدریؓ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں میں دوسرے ہاتھ کی انگلیاں ڈال کر ہم کو اس کا نقشہ دکھایا ۔ اس کے بعد فرمایا “ پھر اس پر ستر اژدھے مسلط کر دئیے جاتے ہیں ، جن میں سے ایک اگر زمین میں پھنکار مارے ، تو رہتی دنیا تک وہ زمین کوئی سبزہ نہ اگا سکے ، پھر یہ اژدھے اسے برابر کاٹتے نوچتے رہیں گے ، یہاں تک کہ قیامت اور حشر کے بعد وہ حساب کے مقام تک پہنچا دیا جائے ۔ ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ : اس کے سوا کچھ نہیں کہ قبر یا تو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے ، یا دوزخ کے خندقوں میں سے ایک خندق ۔ ” (جامع ترمذی) تشریح قبر کے عذاب و ثواب کے متعلق پوری تفصیل سے گفتگو پہلی جلد میں کی جا چکی ہے ، اور عقل کی خامی کسے جو سوالات اور شبہات اس بارہ میں پیدا ہو سکتے ہیں ، ان کا جواب بھی وہیں دیا جا چکا ہے ، یہ بھی وہیں بتایا جا چکا ہے کہ قبر سے مراد عالمِ برزخ کا ٹھکانا ہے ، خواہ وہ اصطلاحی قبر ہو یا کچھ اور ، نیز وہیں یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ ثواب یا عذاب کی تفصیلات میں جہاں جہاں حدیثوں میں ستر کا ، یا اسی طرح کا کوئی دوسرا بڑا عدد آتا ہے تو اس سے مراد صرف کثرت اور بہتات بھی ہو سکتی ہے ، الغرض ان سب پہلوؤں پر تفصیل سے گفتگو پہلی جلد میں کی جا چکی ہے ، یہاں تو حدیث کی اس روح کو سمجھنا چاہئے کہ بندے کو خدا سے ، اور آخرت کے اپنے انجام سے کسی وقت بھی غافل نہ ہونا چاہئے ، اور موت اور قبر کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کے ذریعہ غفلت کا علاج کرتے رہنا چاہئے ، اور بلا شبہ یہ تیر بہدف علاج ہے ۔ صحابہ میں جو تقویٰ ، جو خوفِ خدا اور آخرت کی جو فکر تھی ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی طریقِ علاج کا نتیجہ تھا ، اور آج بھی یہ اوصاف کچھ اُن ہی بندگانِ خدا میں نظر آتے ہیں ، جنہوں نے موت اور قبر کی یاد کو اپنا وظیفہ بنا رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے ، کہ موت اور قبر کی یاد کے ذریعہ اپنی غفلتوں کا علاج کریں ، اور خدا کے خوف اور خشیت اور آخرت کی فکر کو اپنی زندگی کی اساس بنائیں ۔

【4】

غفلت کو دور کرنے کے لئے موت کو زیادہ یاد کرو

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب دو تہائی رات گذر جاتی تو آپ اٹھتے ، اور فرماتے : اے لوگو ! اللہ کو یاد کرو ، اللہ کو یاد کرو ، قریب آ گیا ہے ہلا ڈالنے والا ، قیامت کا بھونچال (یعنی نفخہ اولیٰ) اور اس کے پیچھے آ رہا ہے دوسرا (نفخہ ثانیہ) موت اُن سب احوال کو ساتھ لے کر سر پر آ چکی ہے ، جو اس کے ساتھ آتے ہین ، موت اپنے متعلقات و مضمرات کے ساتھ سر پر آ چکی ہے ۔ (ترمذی) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے معمولات کے متعلق جو مختلف احادیث مروی ہیں ، ان سب کو پیشِ نظر رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا اکثری معمول اور عام عادتِ مبارکہ یہ تھی کہ شروع میں قریب تہائی رات تک آپ اپنے خاص مشاغل و مصروفیات اور نمازِ عشاء وغیرہ سے فارغ ہوتے تھے ، اس کے بعد کچھ آرام فرماتے تھے ، اور پھر تہجد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے تھے ، اور جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ، تو جیسا کہ حضرت اُبی بن کعبؓ کی اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ، آپ اپنے متعلقین اور عام اہلِ ایمان کو بھی ذکر و عبادت کے لئے بیدار کر دینا چاہتے تھے ، اور نیند کی پیدا کی ہوئی غفلت کو دور کرنے کے لئے اس وقت آپ ان کو قیامت کی لرزہ خیز ہولناکیاں اور موت کی بے پناہ سختیاں یاد دلاتے تھے ۔ بلا شبہ خوابِ غفلت کو دور کرنے کے لئے اور اللہ کے بندوں میں فکر اور چونک پیدا کر کے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کر دینے اور اُس کی عبادت اور ذکر میں مشغول کر دینے کے لئے ، یہ نسخہ بڑا اکسیر ہے ۔ آج بھی جس شخص کو آخری رات میں تہجد کے لئے بستر سے اٹھنا مشکل ہو ، وہ اگر اس وقت موت اور قبر اور قیامت کی سختیوں کو یاد کر لیا کرے ، تو تجربہ ہے کہ نیند کا نشہ کافور ہو جاتا ہے ۔

【5】

خوف اور فکر والے ہی کامیاب ہونے والے ہیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو شخص ڈرتا ہے ، وہ شروع رات میں چل دیتا ہے ، اور جو شروع رات میں چل دیتا ہے ، وہ عافیت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے یاد رکھو ، اللہ کا سودا سستا نہیں بہت مہنگا اور بہت قیمتی ہے ، یاد رکھو اللہ کا وہ سودا جنت ہے ۔ (ترمذی) تشریح عرب کا عام دستور تھا کہ مسافروں کے قافلے رات کے آخری حصہ میں چلتے تھے ، اور اس وجہ سے قزاقوں اور رہزنوں کے حملے بھی عموماً سحر ہی میں ہوتے تھے ، اس کا قدرتی نتیجہ یہ تھا کہ جس مسافر یا جس قافلے کو رہزنوں کے حملے کا خوف ہوتا ، وہ بجائے آخری رات کے شروع رات میں چل دیتا ، اور اس تدبیر سے بحفاظت و عافیت اپنی منزل پر پہنچ جاتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مثال سے سمجھایا ، کہ جس طرح رہزنوں کے حملہ سے ڈرنے والے مسافر ، اپنے آرام اور اپنی نیند کو قربان کر کے چل دیتے ہیں ، اسی طرح انجام کا فکر رکھنے والے اور دوزخ سے ڈرنے والے مسافرِ آخرت کو چاہئے کہ اپنی منزل (یعنی جنت) تک پہنچنے کے لئے اپنی راحتوں لذتوں اور خواہشوں کو قربان کرے ، اور منزلِ مقصود کی طرف تیز گامی سے چلے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ، کہ : بندہ اللہ تعالیٰ سے جو کچھ لینا چاہتا ہے ، وہ کوئی سستی اور کم قیمت چیز نہیں ہے کہ یوں ہی مفت دے دی جائے ، بلکہ وہ نہایت گرانقدر اور بیش قیمت چیز ہے ، جو جان و مال اور خواہشاتِ نفس کی قربانی سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے ، اور وہ چیز جنت ہے ۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ الاية ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان سے اُن کے جان و مال جنت کے عوض میں خرید لئے ہیں ، وہ اپنا جان و مال اللہ کی راہ میں قربان کر دیں تو جنت کے مستحق ہوں گے ، گویا جنت وہ سودا ہے جس کی قیمت بندوں کا جان و مال ہے ۔

【6】

موت اور آخرت کی تیاری کرنے والے ہی ہوشیار اور دور اندیش ہیں

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ : اے اللہ کے پیغمبر ! بتلائیے کہ آدمیوں میں کون زیادہ ہوشیار اور دور اندیش ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : وہ جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے ، اور موت کے لئے زیادہ سے زیادہ تیاری کرتا ہے جو لوگ ایسے ہیں وہی دانشمند اور ہوشیار ہیں ، انہوں نے دنیا کی عزت بھی حاصل کی ، اور آخرت کا اعزاز و اکرام بھی ۔ (معجم صغیر للطبرانی) تشریح جب یہ حقیقت ہے کہ اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے ، جس کے لیے کبھی فنا نہیں ، تو اس میں کیا شبہ کہ دانشمند اور دور اندیش اللہ کے وہی بندے ہیں جو ہمیشہ موت کو پیشِ نظر رکھ کر اس کی تیاری کرتے رہتے ہیں ، اور اس کے برعکس وہ لوگ بڑے ناعاقبت اندیش اور احمق ہیں جنہیں اپنے مرنے کا تو پورا یقین ہے لیکن وہ اس سے اور اس کی تیاریوں سے غافل رہ کر دنیا کی لذتوں میں مصروف اور منہمک رہتے ہیں ۔

【7】

موت اور آخرت کی تیاری کرنے والے ہی ہوشیار اور دور اندیش ہیں

شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہوشیار اور توانا وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے ، اور موت کے بعد کے لئے (یعنی آخرت کی نجات و کامیابی کے لئے) عمل کرے ، اور نادان و ناتواں وہ ہے جو انے کو اپنی خواہشاتِ نفس کا تابع کر دے (اور بجائے احکامِ خداوندی کے اپنے نفس کے تقاضوں پر چلے) اور اللہ سے امیدیں باندھے ۔ (ترمذی ، ابن ماجہ) تشریح دنیا میں كَيِّس (چالاک و ہوشیار اور کامیاب) وہ سمجھا جاتا ہے ، جو دنیا کمانے میں چست و چالاک ہو ، خوب دونوں ہاتھوں سے دنیا سمیٹتا ہو ، اور جو کرنا چاہے کر سکتا ہو ، اور بے وقوف و ناتواں وہ سمجھا جاتا ہے جو دنیا کمانے میں تیز اور چالاک نہ ہو ۔ اور اہلِ دنیا جو اس دنیوی زندگی ہی کو سب کچھ سجھتے ہیں ، اُن کو ایسا ہی سمجھنا بھی چاہئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بتلایا کہ چونکہ اصل زندگی یہ چند روزہ زندگی نہیں ہے بلکہ آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی ہی اصل زندگی ہے ، اور اُس زندگی میں کامیابی اُن ہی کے لئے ہے جو اس دنیا میں اللہ کی اطاعت اور بندگی والی زندگی گزار دیں ، اس لئے درحقیقت دانشمند اور کامیاب اللہ کے وہ بندے ہیں جو آخرت کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں ، اور جنہوں نے اپنے نفس پر قابو پا کر اس کو اللہ کا مطیع و فرمانبردار بنا رکھا ہے ۔ اور اس کے برعکس جن احمقوں کا حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کو نفس کا بندہ بنا لیا ہے ، اور وہ اس دینوی زندگی میں اللہ کے احکام و اوامر کی پابندی کے بجائے اپنے نفس کے تقاضوں پر چلتے ہیں ، اور اس کے باوجود اللہ سے اچھے انجام کی امیدیں باندھتے ہیں ، وہ یقیناً بڑے نادان اور ہمیشہ ناکام رہنے والے ہیں ، خواہ دنیا کمانے میں وہ کتنے ہی چست و چالاک اور پھرتیلے نظر آتے ہوں ، لیکن فی الحقیقت وہ بڑے ناعاقبت اندیش ، کم عقلے اور ناکامیاب و نامراد ہیں ، کہ جو حقیقی اور واقعی زندگی آنے والی ہے اس کی تیاری سے غافل ہیں ، اور نفس پرستی کی زندگی گزارنے کے باوجود اللہ سے خداپرستی والے انجام کی امید رکھتے ہیں ، نادان اتنی موٹی بات نہیں سمجھتے کہ : گندم از گندم بروید جو ز جو از مکافاتِ عمل غافل مشو اس حدیث میں ان لوگوں کو خاص آگاہی دی گئی ہے ، جو اپنی عملی زندگی میں اللہ کے احکام اور آخرت کے انجام سے بے پروا اور بے فکر ہو کر اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں ، اور اس کے باوجود اللہ کی رحمت اور اس کے کرم سے امیدیں رکھتے ہیں ، اور جب اللہ کا کوئی بندہ ٹوکتا ہے تو کہتے ہیں اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے ، اس حدیث نے بتلایا کہ ایسے لوگ دھوکے میں ہیں ، اور اُن کا انجام نامرادی ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ رجاء یعنی اللہ سے رحمت اور کرم کی امید وہی محمود ہے جو عمل کے ساتھ ہو ، اور جو امید بے عملی اور بد عملی اور آخرت کی طرف سے بے فکری کے ساتھ ہو ، وہ رجاءِ محمود نہیں ہے بلکہ نفس شیطان کا فریب ہے ۔

【8】

نیکی اور عبادت کر کے ڈرنے والے بندے

حضرت عاوشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن مجید کی آیت “ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ ” کے بارے میں دریافت کیا ، کہ : کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں ، اور دوری کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اے میرے صدیق کی بیٹی ! نہیں ، بلکہ وہ اللہ کے وہ خدا ترس بندے ہیں ، جو روزے رکھتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں ، اور صدقہ و خیرات کرتے ہیں ، اور اس کے باوجود وہ اس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں اُن کی یہ عباتیں قبول نہ کی جائیں ، یہی لوگ بھلائیوں کی طرف تیزی سے دوڑتے ہیں ۔ (ترمذی وابن ماجہ) تشریح سورہ مومنون کے چوتھے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اُن بندوں کے کچھ اوصاف بیان فرمائے ہیں ، جو بھلائی اور خوش انجامی کی طرف تیزی سے جانے والے اور سبقت کرنے والے ہیں ، اس سلسلہ میں اُن کا ایک وصف یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے ۔ “ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ ” (جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ “ وہ لوگ جو دیتے ہیں جو کچھ کہ دیتے ہیں ، اور اُن کے دل ترساں رہتے ہیں ”) ۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اسی آیت کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا ، کہ : کیا اس سے مُراد وہ لوگ ہیں جو شامتِ نفس سے گناہ تو کرتے ہیں ، مگر گناہوں کے بارے میں نڈر اور بے باک نہیں ہوتے بلکہ گناہگاری کے باوجود ان کے دلوں میں خدا کا خوف ہوتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا : کہ نہیں ! اس آیت سے مُراد ایسے لوگ نہیں ہیں ، بلکہ اللہ کے وہ عبادت گزار اور اطاعت شعار بندے مراد ہیں ، جن کا حال یہ ہے کہ وہ نماز ، روزہ اور صدقہ و خیرات جیسے اعمالِ صالحہ کرتے ہیں ، اور اس کے باوجود ان کے دلوں میں اس کا خوف اور اندیشہ رہتا ہے کہ معلوم نہیں ہمارے یہ اعمال بارگاہِ خداوندی میں قبول بھی ہوں گے ، یا نہیں ۔ قرآن مجید میں ان بندوں کا یہ وصف بیان کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے “ أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ ” (یہی بندے حقیقی بھلائیوں اور خوش حاملیوں کی طرف تیز گام ہیں ، اور حقیقی کامیابی کی اس راہ میں آگے نکل جانے والے ہیں) ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ کو جواب دیتے ہوئے اس سلسلہ کی اس آخری آیت کی طرف بھی اشارہ فرمایا ، اور بتلایا کہ دلوں کا یہی خوف اور فکر بھلائی اور خوش انجامی سے ہمکنار کرانے والا ہے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کی شانِ بے نیازی اور اس کا قہر و جلال اس قدر ڈرنے کے لائق ہے ، کہ بندہ بڑی سے بڑی نیکی اور عبادت کرنے کے باوجود ہرگز مطمئن نہ ہو ، اور برابر ڈرتا رہے ، کہ کہیں میرا یہ عمل کسی کھوٹ کی وجہ سے میرے مُنہ پر نہ مار دیا جائے ، کسی کے دل میں جس قدر خوف ہو گا ، اُسی قدر و خیر و فلاح کی راہ میں آگے بڑھتا رہے گا ۔

【9】

قیامت کے دن بڑے سے بڑا عبادت گزار بھی اپنی عبادت کو ہیچ سمجھے گا

عتبہ بن عبید سے روایت ہے ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا : اگر کوئی شخص اپنی پیدائش کے دن سے ، موت کے دن تک برابر اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے سجدہ میں پڑا رہے ، تو قیامت کے دن اپنے اس عمل کو بھی وہ حقیر سمجھے گا ۔ (مسند احمد) تشریح مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن جب انسان پر وہ حقیقتیں منکشف ہوں گی ، اور جزاو وسزا اور عذاب و ثواب کے وہ مناظر آنکھوں کے سامنے آ جائیں گے ، جو یہاں پردہ غیب میں ہیں ، تو اللہ کے وہ بندے بھی جنہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ سے زیادہ حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارا ہو گا یہی محسوس کریں گے کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا ، حتی کہ اگر کوئی بندہ ایسا ہو جو پیدائش کے دن سے موت کی گھڑی تک برابر سجدہ ہی میں پڑا رہا ہو ، اُس کا احساس بھی یہی ہو گا اور وہ اپنے اس عمل کو بھی ہیچ سمجھے گا ۔

【10】

قیامت کے دن معمولی سمجھے جانے والے گناہوں کی بھی باز پرس ہوگی

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : اے عائشہ ! انے کو اُن گناہوں سے بچانے کی خاص طور سے کوشش اور فکر کرو ، جن کو حقیر اور معمولی سمجھا جاتا ہے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی بھی باز پرس ہونے والی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی ، شعب الايمان للبیہقی) تشریح جن لوگوں کو آخرت اور حساب کتاب کی کچھ فکر ہوتی ہے ، اور جو اللہ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے ڈرتے ہیں ، وہ کبیرہ یعنی بڑے گناہوں سے بچنے کا تو عام طور سے اہتمام کرتے ہیں ، لیکن جو گناہ ہلکے اور صغیرہ سمجھے جاتے ہیں ، ان کو خفیف اور معمولی سمجھنے کی وجہ سے اللہ کے بہت سے خدا ترس بندے بھی ان سے بچنے کی فکر زیادہ نہیں کرتے ، حالانکہ اس حیثیت سے کہ وہ گناہ ہیں ، اور ان کے کرنے میں بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے ، اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی بھی باز پرس ہونی ہے ، ہمیں ان سے بچنے کی بھی پوری پوری فکر اور کوشش کرنی چاہئے ، اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو یہی نصیحت فرمائی ہے اگرچہ اس کی خاص مخاطب حضرت عائشہ صدیقہؓ ہیں لیکن درحقیقت یہ انتباہ اور یہ ہدایت و نصیحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنی امت کے سب مردوں اور عورتوں کے لیے ہے ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص گھر والوں کو بھی اس فکر اور احتیاط کی ضرورت ہے ، تو ہما شما کے لئے اس میں غفلت اور بے پروائی کی کیا گنجائش ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ صغیرہ گناہ اگرچہ کبیرہ کے مقابلہ میں صغیرہ ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہونے کی حیثیت سے اور اس حیثیت سے کہ آخرت میں اس کی بھی باز پرس ہونے والی ہے ہرگز صغیرہ اور ہلکا نہیں ہے ، دونوں میں بس اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ زیادہ زہریلے اور کم زہریلے سانپوں میں ہوتا ہے ، پس جس طرح کم زہر والے سانپ سے بھی ہم بچتے ہیں اور بھاگتے ہیں ، اسی طرح ہمیں صغیرہ گناہوں سے بھی اپنے کو بچانے اور محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے ، یہی اس حدیث کا منشا اور مقصد ہے ۔

【11】

قیامت کے دن معمولی سمجھے جانے والے گناہوں کی بھی باز پرس ہوگی

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : اے عائشہ ! انے کو اُن گناہوں سے بچانے کی خاص طور سے کوشش اور فکر کرو ، جن کو حقیر اور معمولی سمجھا جاتا ہے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی بھی باز پرس ہونے والی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی ، شعب الايمان للبیہقی) تشریح جن لوگوں کو آخرت اور حساب کتاب کی کچھ فکر ہوتی ہے ، اور جو اللہ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے ڈرتے ہیں ، وہ کبیرہ یعنی بڑے گناہوں سے بچنے کا تو عام طور سے اہتمام کرتے ہیں ، لیکن جو گناہ ہلکے اور صغیرہ سمجھے جاتے ہیں ، ان کو خفیف اور معمولی سمجھنے کی وجہ سے اللہ کے بہت سے خدا ترس بندے بھی ان سے بچنے کی فکر زیادہ نہیں کرتے ، حالانکہ اس حیثیت سے کہ وہ گناہ ہیں ، اور ان کے کرنے میں بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے ، اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی بھی باز پرس ہونی ہے ، ہمیں ان سے بچنے کی بھی پوری پوری فکر اور کوشش کرنی چاہئے ، اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو یہی نصیحت فرمائی ہے اگرچہ اس کی خاص مخاطب حضرت عائشہ صدیقہؓ ہیں لیکن درحقیقت یہ انتباہ اور یہ ہدایت و نصیحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنی امت کے سب مردوں اور عورتوں کے لیے ہے ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص گھر والوں کو بھی اس فکر اور احتیاط کی ضرورت ہے ، تو ہما شما کے لئے اس میں غفلت اور بے پروائی کی کیا گنجائش ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ صغیرہ گناہ اگرچہ کبیرہ کے مقابلہ میں صغیرہ ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہونے کی حیثیت سے اور اس حیثیت سے کہ آخرت میں اس کی بھی باز پرس ہونے والی ہے ہرگز صغیرہ اور ہلکا نہیں ہے ، دونوں میں بس اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ زیادہ زہریلے اور کم زہریلے سانپوں میں ہوتا ہے ، پس جس طرح کم زہر والے سانپ سے بھی ہم بچتے ہیں اور بھاگتے ہیں ، اسی طرح ہمیں صغیرہ گناہوں سے بھی اپنے کو بچانے اور محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے ، یہی اس حدیث کا منشا اور مقصد ہے ۔

【12】

گناہوں کے انجام کا خوف اور رحمتِ خداوندی سے اُمید

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جوان کے پاس اس کے آخری وقت میں جب کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا ، تشریف لے گئے ، اور آپ نے اُس سے دریافت فرمایا ، کہ اس وقت تم اپنے کو کس حال میں پاتے ہو ؟ اس نے عرض کیا کہ : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میرا حال یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید بھی رکھتا ہوں ، اور اسی کے ساتھ مجھے اپنے گناہوں کی سزا اور عذاب کا ڈر بھی ہے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا : یقین کرو جس دل میں امید اور خوف کی یہ دونوں کیفیتیں ایسے عالم میں (یعنی موت کے وقت میں) جمع ہوں ، تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ ضرور عطا فرما دیں گے ، جس کی اس کو اللہ کی رحمت سے امید ہے ، اور اس عذاب سے اُس کو ضرور محفوظ رکھیں گے جس کا اس کے دل میں خوف و ڈر ہے ۔ (جامع ترمذی) تشریح بے شک اللہ کا خوف اور اس کے عذاب اور اس کی پکڑ سے ڈرنا ہی نجات کی کُنجی ہے ۔

【13】

جس کے دل میں کسی موقع پر بھی اللہ کا خوف پیدا ہو ، وہ دوزخ سے نکلوا لیا جائے گا

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن (ان فرشتوں کو جو دوزخ پر مقرر ہوں گے) حکم دے گا ، کہ جس شخص نے کبھی مجھے یاد کیا ، یا کسی موقع پر جو بندہ مجھ سے ڈرا ، اُس کو دوزخ سے نکال لیا جائے ۔ (جامع ترمذی ، کتاب البعث والنشور للبیہقی) تشریح کتاب الایمان میں جیسا کہ تفصیل سے بتایا جا چکا ہے ، یہ بات کتاب و سنت کی تصریحات سے قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہو چکی ہے ، کہ جو شخص کفر یا شرک کی ھالت میں اس دنیا سے جائے گا ، وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ ہی میں رہے گا ، اور اُس کا کوئی عمل بھی اُس کو دوزخ سے نہ نکلوا سکے گا ، ، اس لئے حضرت انسؓ کی اس حدیث کا مطلب یہ ہوا ، کہ جو شخص دنیا سے اس حالت میں گیا ، کہ وہ کافر یا مشرک نہیں تھا ، بلکہ ایمان ان کو نصیب تھا لیکن گناہ اس کے بہت تھے اور اعمالِ صالحہ کا ذخیرہ اس کے ساتھ نہیں تھا ، بجاز اس کے کہ اس نے کبھی اللہ کو یاد کیا تھا ، یا کسی موقع پر اس کے دل میں خدا کے خوف کی کچھ کیفیت پیدا ہوئی تھی ، تو قیامت کے دن وہ اپنے قصوروں کی سزا بھگتنے کے لئے دوزخ میں ڈال تو دیا جائے گا ، لیکن پھر کسی دن کے اللہ کے ذکر اور خوف کی برکت سے اُس کو نجات مل ہی جائے گی ، اور وہ دوزخ سے نکال لیا جائے گا ۔ واللہ اعلم ۔

【14】

اللہ کے خوف سے نکلنے والے آنسوؤں کی برکت

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے خوف اور ہیبت سے جس بندہ مومن کی آنکھوں سے کچھ آنسو نکلیں ، اگرچہ وہ مقدار میں بہت کم ، مثلاً مکھی کے سر برابر (یعنی ایک قطرہ ہی کے بقدر) ہوں ، پھر وہ آنسو بہہ کر اس کے چہرہ پر پہنچ جائیں تو اللہ تعالیٰ اس چہرہ کو آتشِ دوزخ کے لئے حرام کر دے گا ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو چہرہ خوفِ خدا کے آنسوؤں سے کبھی تر ہوا ہو ، اس کو دوزخ کی آگ سے بالکل محفوظ رکھا جائے گا ، اور دوزخ کی آنچ کبھی اس کو نہ لگ سکے گی ۔ “ کتاب الایمان ” میں تفصیل سے بتایا جا چکا ہے ، کہ جن احادیث کسی خاص نیک عمل پر آتشِ دوزخ کے حرام ہو جانے کی خوشخبری دی جاتی ہے ، ان کا مطلب و مقصد عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ اس نیک عمل کا ذاتی تقاجہ اور خاصہ یہی ہے ، اور اللہ تعالیٰ اس عمل کرنے والے کو جہنم کی آگ سے بالکل محفوظ رکھے گا ، بشرطیکہ اس شخص سے کوئی ایسا بڑا گناہ سرزد نہ ہوا ہو جس سے تقاضا اس کے برعکس جہنم میں ڈالا جانا ہو ، یا اگر کبھی ایسا گناہ اس سے ہوا ہو تو وہ اس سے تائب ہو چکا ہو ، اور اللہ تعالیٰ سے اس کی معافی مانگ چکا ہو ۔ یہ نہ سمجھا جائے ، کہ یہ محض تاویل ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے عرف اور محاورات میں بھی اس قسم کے وعدوں اور بشارتوں میں یہ شرط ہمیشہ محفوظ ہوتی ہے ۔

【15】

اللہ کے خوف سے جسم کے رونگٹے کھڑے ہونے جانے کی سعادت

حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی ہیبت سے کسی بندہ کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ، تو اس وقت اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں ، جیسے کہ کسی پرانے سوکھے درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں ۔ تشریح خوف و خشیت اور ہیبت دراصل قلبی کیفیات ہیں ، لیکن انسان ایسا بنایا گیا ہے کہ اس کی قلبی کیفیات کا ظہور اس کے جسم پر بھی ہوتا ہے ، مثلاً جب دل میں خوشی کی کیفیت ہو تو چہرے پر بشاشت ظاہر ہوتی ہے ، اور بعض اوقات وہ اس کیفیت کے اثر سے ہنستا یا مسکراتا ہے ، اسی طرح جب دل میں حزن و غم ہو ، تو وہ بھی اس کے چہرے سے ظاہر ہوتا ہے ، اور کبھی کبھی وہ اس کے اثر سے روتا بھی ہے ، اور اس کی آنکھوں سے آنسوگرتے ہیں ، اسی طرح جب دل پر خشیت اور ہیبت کی کیفیت طاری ہو ، تو جسم پر اس کا اثر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سارے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، پس جس طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی اس سے پہلی حدیث میں اللہ کے خوف سے آنسو گرنے پر آتش دوزخ کے حرام ہو جانے کی خوشخبری اہلِ ایمان کو سنائی گئی ہے ، اسی طرح حضرت عباسؓ کیب اس حدیث میں بشارت سنائی گئی ہے کہ اللہ کی خشیت و ہیبت سے جب کسی بندہ کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ، تو اس وقت اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے خزاں کے موسم میں سوکھے درختوں کے پتے جھڑتے ہیں ۔

【16】

ایک گناہگار نے خوفِ خدا سے بہت بڑی جاہلانہ غلطی کی ، اور وہ بخشا گیا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک شخص نے اپنے نفس پر بڑی زیادتی کی (اور بڑا ظلم کیا ، یعنی غفلت سے اللہ کی نافرمانی والی زندگی گزارتا رہا) جب اس کی موت کا وقت آیا تو (اپنی پچھلی زندگی کو یاد کر کے اس پر اللہ کے خوف کا بہت زیادہ غلبہ ہوا ، اور آخرت کے بُرے انجام سے وہ بہت ڈرا ، یہاں تک کہ) اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی ، کہ جب میں مر جاؤں ، تو تم مجھے جلا کر راکھ کر دینا ، پھر تم میری اس راکھ مین سے آدھی تو کہیں خشکی میں بکھیر دینا ، اور آدھی کہیں دریا میں بہا دینا (تا کہ میرا کہیں پتہ نشان بھی نہ رہے ، اور میں جزا سزا کے لئے دوبارہ زندہ نہ کیا جاؤں ، اس نے کہا کہ میں ایسا گناہگار ہوں ، کہ) اللہ کی قسم ! اگر خدا نے مجھے پکڑ لیا ، تو وہ مجھے ایسا سخت عذاب دے گا ، جو دنیا جہان میں کسی کو بھی نہ دے گا ۔ اس کے بعد جب وہ مر گیا ، تو اس کے بیٹوں نے اس کی وصیت پر عمل کیا (جلا کر اُس کی راکھ کو کچھ ہوا میں اڑا دیا ، اور کچھ دریا میں بہا دیا) ۔ پھر اللہ کے حکم سے خشکی اور تری سے اس کے اجزاء جمع ہوئے (اور اس کو دوبارہ زندہ گیا گیا) پھر اس سے پوچھا گیا ، تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے عرض کیا : اے میرے مالک ! تو خوب جانتا ہے کہ تیرے ڈر سے ہی میں نے ایسا کیا تھا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ بیان فرما کر ارشاد فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ نے اس بندہ کی بخشش کا فیصلہ فرما دیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے زمانہ کے جس شخص کا یہ واقعہ ذکر فرمایا ہے ، یہ بیچارہ خدا کی شان اور اس کی صفات سے بھی ناواقف تھا ، اور اعمال بھی اچھے نہ تھے ، لیکن مرنے سے پہلے اس پر خدا کے خوف کی کیفیت اتنی غالب ہوئی کہ اس نے اپنے بیٹوں کو ایسی جاہلانہ وصیت کر دی ، اور بے چارہ سمجھا کہ میری راکھ کے اس طررح خشکی اور تَری میں منتشر ہو جانے کے بعد میرے پھر زندہ ہونے کا کوئی امکان نہیں رہے گا ۔ لیکن اس جاہلانہ غلطی کا منشا اور سبب چونکہ خدا کا خوف اور اس کے عذاب کا ڈر تھا ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا ۔ حدیث کے لفظ “ لَئِنْ قَدَرَ اللهُ عَلَيْهِ ” کے بارے میں شارحین نے بہت کچھ علمی موشگافیاں کی ہیں ، لیکن اس عاجز کے نزدیک سیدھی بات یہ ہے ، کہ خدا کے خوف سے ڈرے سہمے ہوئے بے چارے ایک جاہل کی یہ جاہلانہ تعبیر تھی ، اللہ تعالیٰ کے کرم نے اس کو بھی معاف کر دیا ، مطلب بے چارہ کا وہی تھا جو ترجمہ میں لکھا گیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔

【17】

خدا کا خوف اور تقویٰ ہی فضیلت اور قرب کا معیار ہے

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : تم کو اپنی ذات سے نہ کسی گورے کے مقابلہ میں بڑائی حاصل ہے نہ کسی کالے کے مقابلہ میں ۔ البتہ تقویٰ ، یعنی خوفِ خدا کی وجہ سے تم کسی کے مقابلے میں بڑے ہو سکتے ہو ۔ (مسند احمد) تشریح مطلب یہ ہے کہ مال و دولت ، شکل و صورت ، نسل و رنگ اور زبان و وطن جیسی کسی چیز کی وجہ سے کسی کو کسی دوسرے کے مقابلے میں کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوتی فضیلت کا معیار بس تقویٰ ہے (یعنی خوفِ خدا اور وہ زندگی جو خدا کے خوف سے بنتی ہے) پس اس تقویٰ میں جو جتنا بڑھا ہوا ہے ، وہ اللہ کے نزدیک اتنا ہی بڑا اور بلند ہے ۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے : إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ .

【18】

خدا کا خوف اور تقویٰ ہی فضیلت اور قرب کا معیار ہے

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو یمن کے لئے (قاضی یا عامل بنا کر) روانہ فرمایا (اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق وہاں کے لئے روانہ ہونے لگے) تو (ان کو رخصت کرنے کے لئے) حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُن کو کچھ نصیحتیں اور وصیتیں فرماتے ہوئے اُن کے ساتھ چلے ، اس وقت حضرت معاذؓ تو (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے) اپنی سواری پر سوار تھے ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی سواری کے نیچے پیدل چل رہے تھے ۔ جب آپ ضروری نصیحتوں اور وصیتوں سے فارغ ہو چکے ، تو آخری بات آپ نے یہ فرمائی ، کہ : اے معاذ ! شاید میری زندگی کے اس سال کے بعد میری تمہاری ملاقات اب نہ ہو ۔ (گویا آپ نے ان کو اشارہ فرمایا ، کہ میری زندگی کا یہی آخری سال ہے ، اور میں عنقریب ہی اس دنیا سے دوسرے عالم کی طرف منتقل کیا جانے والا ہوں ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا) اور شاید ایسا ہو کہ (اب جب کبھی تم یمن سے واپس آؤ ، تو بجائے مجھ سے ملنے کے اس مدینہ میں) تم میری اس مسجد اور میری قبر پہ گذرو ۔ یہ سن کر حضرت معاذؓ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تصور ، اور) آپ کے فراق کے صدمہ سے رونے لگے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے منہ پھیر کے ، اور مدینہ کی طرف رخ کر کے فرمایا : مجھ سے زیادہ قریب اور مجھ سے زیادہ تعلق رکھنے والے وہ سب بندے ہیں ، جو خدا سے ڈرتے ہیں (اور تقوے والی زندگی گزارتے ہیں) وہ جو بھی ہوں ، اور جہاں کہیں بھی ہوں ۔ (مسند احمد) تشریح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے اس آخری حصہ کا مطلب یہ ہے کہ اصل چیز روحانی تعلق اور قرب ہے ، اور میرے ساتھ اس تعلق کا دارو مدار تقوے پر ہے ، پس اگر اللہ کا کوئی بندہ جسمانی طور پر مجھ سے کتنا ہی دور یمن میں یا دنیا کے کسی بھی حصہ میں ہو ، لیکن اس کو خوفِ خدا اور تقویٰ نصیب ہو ، تو وہ مجھ سے قریب ہے ، اور گویا میرے ساتھ ہے ، اور اس کے برعکس کوئی شخص ظاہری اور جسمانی طور پر میرے ساتھ ہو ، لیکن اس کا دل تقوے کی دولت سے خالی ہو ، تو اس ظاہری قرب کے باوجود وہ مجھ سے دور ہے ، اور میں اس سے دور ہوں ۔ آپ نے اس ارشاد کے ذریعہ حضرت معاذؓ کو تسلی دی ، کہ اس ظاہری جدائی کا غم نہ کرو ، جب خوفِ خدا اور تقویٰ تمہارے دل ، اور تمہاری روح کو نصیب ہے ، تو پھر تم یمن میں رہتے ہوئے بھی مجھ سے دور نہ ہو گے ۔ اس کے علاوہ دنیا کی یہ زندگانی تو بس چند روزہ ہے ، ہمیشہ رہنے کی جگہ تو دارِ آخرت ہے ، اور وہاں اللہ کے سارے تقویٰ والے بندے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے ساتھ اور میرے قریب رہیں گے ، اور پھر اس قرب و وصال کے بعد کسی فراق کا اندیشہ نہ ہو گا ۔ اس آخری بات کے فرماتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رُخ غالباً اس لئے حضرت معاذؓ کی طرف سے پھیر کے مدینہ کی طرف کر لیا تھا ، کہ معاذ کے رونے سے غالباً آپ خود آبدیدہ ہو گئے تھے ، آپ نے چاہا کہ معاذؓ آپ کے بہتے ہوئے آنسو نہ دیکھ لیں ، نیز یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ اپنے ایک سچے محبت کا رونا دیکھ کر آپ کا دل دکھتا ہو ، اور اس لئے اس وقت آپ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا ہو ، محبت و عقیدت کی دنیا میں اس طرح کے تجربے ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ حضرت معاذؓ کو رخصت کرتے وقت ااپ نے اُن کو تو حکم دے کے سواری پر سوار کر دیا اور خود بات کرتے ہوئے پیدل نیچے چلتے رہے ۔ اس میں کتنا بڑا سبق ، ار کیسا نمونہ ہے ، ان سب لوگوں کے لیے جو دینی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب سمجھے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنا خوف اور تقویٰ ہمارے دلوں کو نصیب فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ روحانی قرب اور آخرت میں آپ کی وہ رفاقت نصیب فرمائے ، جس کی بشارت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں دی ہے ۔

【19】

خوف و خشیت اور فکرِ آخرت کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا حال

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : “ تم میں سے کسی کا عمل اس کو جنت میں نہ لے جا سکے گا ، اور نہ دوزخ سے بچا سکے گا ، اور میرا بھی یہی حال ہے ، مگر اللہ کی رحمت اور اس کے کرم سے ” ۔ (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ، کہ میں بھی اپنے عمل اور اپنی عبادت سے نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے جنت میں جا سکوں گا ، آپ کے دل کی خوف و خشیت کی کیفیت کا اندازہ کرنے کے لیے کافی ہے ۔

【20】

خوف و خشیت اور فکرِ آخرت کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا حال

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ جب ہوا زیادہ تیز چلتی تو آپ کی زبان پر یہ دیا جاری ہو جاتی “ اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الخ ” (اے میرے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس ہوا کی بھلائی کا اور اس میں جو کچھ ہے اس کی بھلائی کا اور جس مقصد کے لیے یہ بھیجی گئی ہے اس کی بھلائی کا اور میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے ، اور اس میں جو کچھ ہے اس کے شر سے ، اور جس مقصد کے لیے یہ بھیجی گئی ہے اس کے شر سے) اور جب آسمان پر ابر آتا تو آپ کا رنگ بدل جاتا اور (اضطراب کی یہ حالت ہوتی کہ) کبھی باہر آتے ، کبھی اندر جاتے ، کبھی آگے آتے کبھی پیچھے ہٹتے ، پھر جب بارش ہو جاتی (اور خیریت سے گذر جاتی) تو یہ کیفیت آپ سے دور ہوتی ۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے آپ کی اس حالت اور واردات کو سمجھ لیا اور آپ سے پوچھا (کہ تیز ہوا کو اور اَبر کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت کیوں ہو جاتی ہے ؟) آپ نے ارشاد فرمایا : عائشہ ! (میں ڈرتا ہوں کہ) شاید یہ ابر و باد اس طرح کا ہو جو (حضرت ہود پیغمبر کی قوم) عاد کی طرف بھیجا گیا تھا (جس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح کیا گیا ہے) کہ جب ان لوگوں نے اس بادل کو اپنی وادیوں کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا یہ ابر ہمارے لئے بارش لانے والا ہے ۔ (حالانکہ وہ بارش والا ابر نہ تھا ، بلکہ آندھی کا ہلاکت خیز طوفان تھا ، جو ان کو تباہ کرنے ہی کے لیے آیا تھا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت عائشہؓ کی اس حدیث کا حاصل اور مقصد صرف یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ مبارک پر اللہ کے خوف و خشیت کا ایسا غلبہ تھا کہ ذرا ہوا تیز چلتی تو آپ گھبرا کر اللہ تعالیٰ سے اس کے خیر کے حاصل ہونے کی اور اس کے شر سے محفوظ ہرنے کی دعا کرتے اور جب آسمان پر ابر نمودار ہوتا تو اللہ کے جلال کی دہشت و ہیبت سے آپ کا یہ حال ہو جاتا کہ کبھی اندر جاتے کبھی باہر آتے کبھی آگے بڑھتے کبھی پیچھے ہٹتے اور آپ کی یہ کیفیت اس خوف اور ڈر سے ہوتی کہ کہیں بادل کی شکل میں اللہ کا ویسا عذاب نہ ہو جیسا کہ حضرت ہودؑ کی سرکش قوم عاد پر ابر ہی کی شکل میں بھیجا گیا تھا ، جسے اپنے علاقہ کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر نادانی سے وہ خوش ہوئے تھے اور انہوں نے اس کو ابرِ رحمت سمجھا تھا ، حالانکہ وہ عذاب کی آندھی تھی ۔ حدیث میں آیت کے جو الفاظ نقل کئے گئے ہیں وہ ناتمام ہیں ۔ آخری حصہ یہ ہے “ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ ، رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ ”

【21】

خوف و خشیت اور فکرِ آخرت کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا حال

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو ابکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ پر بڑھاپا آ گیا ، آپ نے ارشاد فرمایا ، کہ : مجھے بوڑھا کر دیا سورہ ہود ، سورہ واقعہ ، سورہ مرسلات ، سورہ عم یتساءلون اور سورہ تکویر (إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ) نے ۔ (ترمذی) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی صحت فطری طور پر جس قدر بہتر تھی اور قویٰ جیسے اچھے اور طبیعت جیسی معتدل تھی ، اس کے لحاظ سے آپ پر بڑھاپے کے آثار بہت دیر سے ظاہر ہونے چاہئے تھے ، لیکن جب وہ آثار عام اندازہ کے لحاظ سے قبل از وقت ظاہر ہونے لگے ، تو حضرت ابو بکرؓ نے ایک روز عرض کیا ، کہ : حضرت ! آپ پر تو ابھی سے بڑھاپا آنے لگا ؟ آپ نے ارشاد فرمایا ، کہ : مجھے قرآن مجید کی ان سورتوں (سورہ ہود اور واقعہ وغیرہ) نے بوڑھا کر دیا ۔ ان سورتوں میں قیامت و آخرت اور مجرموں پر اللہ کے عذاب کا بڑا دہشت ناک بیان ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مضامین سے اس قدر متاثر ہوتے تھے اور ان کی تلاوت سے آپ پر خدا کے خوف اور آخرت کی فکر کا ایسا غلبہ ہوتا تھا کہ اس کا اثر آپ کی جسمانی قوت اور تندرستی پر پڑتا تھا ، اور بلا شبہ خوف و فکریہ دونوں چیزیں ایسی ہیں جو جوانوں کو جلد بوڑھا کر دیتی ہیں ، اسی لئے قیامت کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے “ يَوْمَ يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا ” کہ قیامت کے دن بچوں کو بوڑھا کر دے گا ۔ اس حدیث سے خاص طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خوفِ خدا اور فکر آخرت کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کا حال کیا تھا ۔

【22】

خوف و خشیت اور فکرِ آخرت کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا حال

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے اپنے زمانہ کے لوگوں سے فرمایا : تم لوگ بہت سے اعمال ایسے کرتے ہو کہ تمہاری نگاہ میں وہ بال سے بھی زیادہ باریک (یعنی بہت ہی خفیف اور ہلکے ہیں) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ان کو مہلکات میں شمار کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک زمانہ میں مسلمانوں پر یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام پر خوفِ خدا کا اتنا غلبہ تھا ، اور وہ آخرت کے حساب و انجام سے اس قدر لرزاں و ترساں رہتے تھے ، کہ بہت سے وہ اعمال جن کو تم لوگ بالکل معمولی سمجھتے ہو ، اور بے پروائی سے کرتے رہتے ہو ، اور ان سے بچنے کی کوئی فکر نہیں کرتے ، وہ ان کو مہلک سمجھتے تھے ، اور ان سے بچنے کا ایسا ہی اہتمام رکھتے تھے ، جیسے ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچنے کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔

【23】

خوف و خشیت اور فکرِ آخرت کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا حال

نضر تابعی بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک دفعہ کالی آندھی آئی ، تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور میں نے پوچھا ، کہ : اے ابو حمزہ ! کیا ایسی کالی اور اندھیری آندھیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی آپ لوگوں پر آتی تھیں ؟ انہوں نے فرمایا : اللہ کی پناہ ! وہاں تو یہ حال تھا کہ ذرا ہوا تیز ہو جاتی ، تو ہم قیامت کے خوف سے مسجد کی طرف دوڑ پڑتے تھے ۔ (ابو داؤد)

【24】

خوف و خشیت اور فکرِ آخرت کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا حال

حضرت حنظلہ بن الربیع سے روایت ہے کہ ایک دن مجھے ابو بکرؓ ملے اور انہوں نے پوچھا : حنظلہ ! کیا حال ہے ؟ میں نے اُن سے کہا کہ حنظلہ تو منافق ہوگیا ہے ، انہوں نے فرمایا : پاک ہے اللہ ! تم یہ کیا کہہ رہے ہو ؟ میں نے کہا ، بات یہ ہے ، کہ : ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں اور آپ دوزخ اور جنت کا بیان فرما کے ہم کو نصیحت فرما کے ہم کو نصیحت فرماتے ہیں ، تو ہمارا یہ حال ہو جاتا ہے کہ گویا ہم دوزخ اور جنت کو آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ، پھر جب ہم آپ کی مجلس سے نکل کر گھر آتے ہیں ، تو بیوی بچے ، زمین اور کھیتی بارٰ کے کام ہم کو اپنی طرف متوجہ اور مشغول کر لیتے ہیں ، اور پھر ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔ ابوبکرؓ نے یہ سن کر فرمایا : کہ اس طرح کی حالت تو ہم کو بھی پیش آتی ہے ۔ اس کے بعد میں نے اور ابو بکر دونوں چل دیئے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے (اپنا حال بیانن کرتے ہوئے) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! حنظلہ تو منافق ہوگیا ۔ آپ نے فرمایا : یہ کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا ، کہ : حالت یہ ہے کہ ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں ، اور آپ دوزخ اور جنت کا بیان فرما کر ہم کو نصیحت فرماتے ہیں ، تو ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا دوزخ اور جنت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ، پھر جب ہم آپ کی مجلس سے نکل کر گھر آتے ہیں ، تو بیوی بچے ، اور کھیتی باڑی کے دھندے ہم کو اپنے میں مشغول کر لیتے ہیں ، اور ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں ، یہ سُن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی ! جس کے قبضے میں میری جان ہے ، اگر تمہارا حال ہمیشہ وہ رہے جو میرے پاس ہوتا ہے ، اور تم دائماً ذکر میں مشغول رہو ، تو فرشتے تمہارے بستروں پر اور راستے میں تم سے مصافحہ کیا کریں ، لیکن اے حنظلہ (اللہ نے اس کا مکلف نہیں کیا ہے ، بلکہ) بس اتنا ہی کافی ہے ، کہ وقتاً فوقتاً یہ ہوتا رہے ، یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی ۔ (مسلم) تشریح حضرت حنظلہ کی اس روایت سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرامؓ میں آخرت اور دین کی فکر کس درجہ میں تھی ، کہ اپنی حالت میں معمولی تغیر اور ذرا سا انحطاط دیکھ کر وہ اپنے پر نفاق کا شبہ کرنے لگتے تھی ۔

【25】

خوف و خشیت اور فکرِ آخرت کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا حال

حضرت ابو موسیٰ اشعری کے صاحبزادہ ابو بردہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن عمر نے کہا ، کیا تمہیں معلوم ہے کہ میرے والد نے تمہارے والد سے کیا بات کہی تھی ؟ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں ، انہوں نے کہا کہ میرے والد نے تمہارے والد سے کہا تھا ، کہ اے ابو موسیٰ , کیا تم اس پر خوش اور راضی ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور آپ کے ہاتھ پر ہمارا اسلام لانا اور آپ کے ساتھ ہمارا ہجرت کرنا اور جہاد کرنا ، اور ہمارے وہ سارے اعمال جو ہم نے آپ کے ساتھ کئے ، وہ تو ہمارے لئے ثابت اور محفوظ رہیں (اور ان کا صلہ اور اجر ہم کو عطا فرمایا جائے) اور ہم نے جو اعمال آپ کے بعد کئے ، ان سے ہم برابر سرابر پر چھٹی پا جائیں (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے جو اچھے یا بُرے عمل کئے ہیں ، ان پر نہ ہم کو ثواب ملے اور نہ عذاب) ۔ (عبداللہ بن عمر ابو بردہ سے کہتے ہیں کہ میرے والد کی یہ بات سُن کر) تمہارے والد نے کہا ، کہ نہیں ! خدا کی قسم میں تو یہ نہیں چاہتا ۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جہاد کئے ہیں ، نمازیں پڑھی ہیں ، روزے رکھے ہیں ، اور (اللہ تعالیٰ کی توفیق سے) ان کے علاوہ بھی بہت سے اعمال خیر کئے ہیں ، اور ہماری کوششوں سے ، اور ہمارے ہاتھوں پر اللہ کے بے شمار بندے مسلمان ہوئے ہیں ، اور ہم اللہ سے اپنے اعمال کے اجر و صلہ کی پوری امید رکھتے ہیں (اس لئے میں تو آپ کے خیال سے متفق نہیں ہوں) ۔ اس پر میرے والد (حضرت عمرؓ) نے پھر فرمایا : کہ قسم اس ذاتِ پاک کی جس کے قبضہ میں عمرؓ کی جان ہے ، میں تو دل سے چاہتا ہوں ، کہ ہمارے وہ عمل (جو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئے ، وہ تو) ہمارے لئے ثابت رہیں ، اور ہم کو اُن کا صلہ عطا کیا جائے ، اور جو عمل ہم نے آپ کے بعد کئے اُن سے ہم برابر سرابر چھٹی پا جائیں ۔ (ابو بردہ کہتے ہیں ، کہ) میں نے عبداللہ بن عمرؓ سے کہا ، کہ : خدا کی قسم ! تمارے والد (حضرت عمرؓ) میرے والد (ابو موسیٰؓ) سے افضل تھے ۔ (بخاری) تشریح جس طرح اللہ کے کسی صالح اور مقبول بندہ کی اقتداء میں پڑھی ہوئی نماز کی مقبولیت کی امید کی جاتی ہے ، اسی طرح حضرت عمرؓ یقین کے ساتھ اُمید رکھتے تھے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو اعمالِ خیر نماز ، روزہ ، ہجرت ، جہاد وغیرہ ہم نے کئے ہیں ، وہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت کی نسبت اور برکت سے ضرور ہی ان شاء اللہ قبول ہونگے ، لیکن جو اعمال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کئے گئے ، چونکہ ان کو یہ نسبت حاصل نہ تھی ، بلکہ وہ اپنے ہی اعمال تھے ، اس لئے حضرت عمرؓ عام اہلِ معرفت کی طرح ان کے انجام سے ڈرتے تھے ، اور اپنی سلامتی و کامیابی اسی میں سمجھتے تھے کہ بعد والے سارے اعمال سے برابر سرابر پر چھٹی مل جائے ، نہ ان پر عذاب ہو نہ ثواب ۔ ؎ طاعت ناقص ما موجبِ غفراں نشودراضیم گر مدد علتِ عصیاں نشود حدیث کے آخر میں ابو بردہ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے جو یہ فرمایا کہ خدا کی قسم میرے والد سے تمہارے والد افضل تھے بظاہر اس سے ان کا مطلب تھا کہ چونکہ حضرت عمرؓ افضل تھے اپنے اعمال سے بے اطمینانی اور خدا کے خوف کا اثر ان پر اس قدر زیادہ تھا ۔ صحیح بخاری ہی میں حضرت عمرؓ کے واقعہ شہادت کی ایک روایت میں ان کا یہ ارشاد بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ “ وَاللَّهِ لَوْ أَنَّ لِي طِلاَعَ الأَرْضِ ذَهَبًا لاَفْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، قَبْلَ أَنْ أَرَاهُ ” (اللہ کی قسم ! اگر میرے پاس زمین بھر سونا ہو ، تو میں اللہ کے عذاب کو دیکھنے سے پہلے اس سب کو فدیہ میں دے ڈالوں ، اور اپنی جان چھڑا لوں) ۔ اللہ اکبر ! یہ ہے اس بندہ پر خوفِ خدا کا غلبہ جس نے بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے اپنے لئے جنت کی بشارتیں سنی ہیں ۔ سچ کہا ہے کہنے والے نے “ قریبا نرا بیش بود حیرانی ” اللہ تعالیٰ اس خوف و خشیت کا کوئی حصہ ہم کو بھی نصیب فرمائے ۔

【26】

آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی حقیقت

روایت ہے مستورد بن شداد سے ، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ، آپ فرماتے تھے کہ دنیا کی مثال آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنی ایک انگلی درمای میں ڈال کر نکال لے ، اور پھر دیکھے کہ پانی کی کتنی مقدار اس میں لگ کر آئی ہے ۔ (مسلم) تشریح رقاق کے سلسلہ کی حدیثیں آگے درج کی جا رہی ہیں ، ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی تحقیر اور مذمت کی ہے ، اور بتلایا ہے کہ اللہ کے نزدیک اور آخرت کے مقابلہ میں یہ دنیا کس قدر حقیر اور بے قیمت ہے ۔ چونکہ ہمارے اس زمانہ میں دنیا کے ساتھ لوگوں کا تعلق اور شغف و انہماک حد سے بڑھ گیا ہے ، اور خالص دنیوی اور مادی ترقی کے مسئلہ کو اتنی اہمیت دے دی گئی ہے ، کہ غالباً ! اس سے پہلے کبھی بھی اس کو اہمیت کا یہ مقام حاصل نہ ہوا ہو گا ، اس لئے اب حالت یہ ہے کہ دنیا کی تحقیر اور مذمت کی بات بہت سے مسلمانوں کے دلوں میں بھی آسانی سے نہیں اترتی ، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بعض وہ لوگ بھی جو مسلمانوں کے رہنما اور مصلح سمجھے جاتے ہیں ، اور دین کے لحاظ سے ان کا شمار عوام میں نہیں بلکہ خواص میں ہوتا ہے ، دنیا کی بے ثباتی اور بے وقعتی کے تذکرہ کو بے تکلف “ رہبانیت اور غلط تصوف کی تبلیغ ” کہہ دیتے ہیں ۔ اور جب ان کے سامنے اس موضوع کی حدیثیں ذکر کی جائیں ، تو منکرین حدیث کی طرح ان حدیثوں ہی کے بارہ میں وہ شکوک کا اظہار کرنے لگتے ہیں ۔ اس لئے اس سلسلہ کی حدیثیں درج کرنے سے پہلے ہم بطورِ تمہید ، ایمانی مسلّمات اور قرآن مجید کی روشنی میں اس مسئلہ پر کچھ اصولی گفتگو کرنا چاہتے ہیں ۔ والله ولى التوفيق دنیا اور آخرت ۱ ۔ یہ دنیا جس میں ہم اپنی یہ زندگی گذار رہے ہیں ، اور جس کو اپنی آنکھوں کانوں وغیرہ حواس سے محسوس کرتے ہیں ، جس طرح یہ ایک واقعی حقیقت ہے ، اسی طرح آخرت بھی جس کی اطلاع اللہ کے سب پیغمبروں نے دی ہے ، وہ بھی ایک قطعی اور یقینی حقیقت ہے ، اور اپنی زندگی کے اس دور میں ہمارا اس کو نہ دیکھنا اور نہ محسوس کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ماں کے پیٹ میں ہونے کے زمانہ میں ہم اس دنیا کو نہیں دیکھتے تھے اور نہیں محسوس کر سکتے تھے ، پھر جسطرح ہم نے یہاں آ کر اس دنیا کو دیکھ لیا اور زمین و آسمان کی وہ ہزاروں لاکھوں چیزیں یہاں ہمارے مشاہدے میں آ گئیں ، جن کو ہم ماں کے پیٹ میں تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ، اسی طرح مرنے کے بعد عالمِ آخرت میں پہنچ کر جنت و دوزخ کو اور اس عالم کی ان تمام چیزوں کو دیکھ لیں گے اور پالیں گے جن کی اطلاع اللہ کے پیغمبروں اور اللہ کی کتابوں نے دی ہے ۔ الغرض ہماری یہ دنیا جس طرح ایک حقیقی عالم ہے ۔ اسی طرح آخرت بھی مرنے کے بعد سامنے آ جانے والا ایک حقیقی اور بالکل واقعی عالم ہے ۔ ہمارا اس پر ایمان ہے اور نقل و عقل کی روشنی میں ہم کو اس کے بارے میں الحمدللہ پورا وثوق اور اطمینان ہے ۔ ۲ ۔ پھر دنیاکے بارے میں ہم کو یقین ہے کہ یہ اور اس کی ہر چیز فانی ہے ، بہ خلاف آخرت کے کہ وہ غیر فانی اور جاودانی ہے ، اور وہاں پہنچنے کے بعد انسان بھی غیر فانی بنا دیا جائے گا ، یعنی اس کو کبھی ختم نہ ہونے والی دوعامی زندگی عطا فرما دی جائے گی ، اسی طرح وہاں اللہ کے سعید اور خوش نصیب بندوں کو جو نعمتیں عطا ہوں گی ان کا سلسلہ بھی ہمیشہ ہمیشہ جاری رہے گا ، اور کبھی منقطع نہ ہو گا ، اسی کو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : “ عَطَاءً (۱) غَيْرَ مَجْذُوذٍ ” اور اسی طرح جن اشقیا کی بغاوت اور سرکشی اور کفر و استکبار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا غضب اُن پر ہو گا ۔ انکی تکلیفوں اور ان کے عذاب کا سلسلہ بھی کبھی ختم نہ ہو گا ، جیسا کہ جہنمیوں کے بارے میں جابجا فرمایا گیا ہے : “ خَالِدِينَ (۲) فِيهَا أَبَدًا ” اور “ (۳) وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ ” اور “ لا (۴) يُقْضى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذابِها ” اسی طرح اللہ کے پیغمبروں اور اللہ کی کتابوں کی بتلائی ہوئی اس حقیقت پر بھی ہمارا ایمان ہے کہ دنیا کی نعمتوں اور لذتوں کے مقابلے میں آخرت کی لذّتیں اور نعمتیں بے انتہا فائق ہیں ، بلکہ اصلی لذتیں اور نعمتیں آخرت ہی کی ہیں ، اور دنیا کی چیزوں کو اُن سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان سب باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کی فکر و سعی بس آخرت ہی کے لئے ہو ، اور دنیا سے اس کا تعلق صرف ناگزیر ضرورت کے بقدر ہو ۔ ۳ ۔ لیکن انسانوں کا عام حال یہ ہے کہ دنیا چونکہ ہر وقت ان کے سامنے ہے اور آخرت سراسر غیب اور آنکھوں سے اوجھل ہے ، اس لئے اکثر و بیشتر ان حقیقتوں کے ماننے والوں پر بھی دنیا ہی کی فکر و طلب غالب رہتی ہے ، گویا یہ انسانوں کی ایک قسم کی فطری کمزوری ہے ۔ ان کا حال اس معاملہ میں بالکل اُن چھوٹے بچوں کا سا ہے جن کو بچپن میں اپنے کھیل کھلونوں سے دلچسپی ہوتی ہے ، اور مستقبل کی زندگی کو خوشگوار اور شاندار بنانے والے تعلیمی تربیتی مشاغل ان کے لیے سب چیزوں سے زیادہ غیر دلچسپ بلکہ انتہائی شاق ہوتے ہیں ، جن کے شفیق ماں باپ ان کو سمجھا بجھا کر ان اچھے کاموں کی طرف راغب کرتے رہتے ہیں جن میں لگ کر وہ کامیاب انسان بن سکتے ہیں ، اور عزت و عافیت کی زندگی حاصل کر سکتے ہیں ۔ ۴ ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے پیغمبروں اور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں کے ذریعہ ہمیشہ انسانوں کی اس غلطی اور کمزوری کی اصلاح کی کوشش ہوتی رہی ، اور آخرت کے مقابلہ میں دنیا کا جو درجہ ہے ، اور دنیا کے مقابلہ میں آخرت کا جو مقام ہے وہ واضح کیا جاتا رہا ہے ، مگر انسانوں سے اس بارہ میں غالباً ہمیشہ بچوں والی غلطی ہوتی رہی ہے ۔ “ (۱) بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَياةَ الدُّنْيا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقى (17) إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولى (18) صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسى (19) ” ۵ ۔ قرآنِ پاک چونکہ اللہ کی طرف سے روئے زمین کے انسانوں کے لئے آخری ہدایت نامہ ہے ، اس لئے اس م یں اور بھی زیادہ زور اور اہمیت کے ساتھ جا بجا مختلف عنوانات سے دنیا کی بے وقعتی اور ناپائیداری کو اور آخرت کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے ۔ کہیں پر فرمایا گیا ہے : قُلْ مَتاعُ الدُّنْيا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقى (النساء 77 : 4) اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ان لوگوں کو بتلا دیجئے کہ دنیا کا سرمایہ تو بہت ہی قلیل ہے ، اور آخرت بہتر ہے پرہیزگاروں کے لئے ۔ کہیں ارشاد فرمایا گیا : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلاَّ لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلا تَعْقِلُونَ (الانعام 32 : 6) اور دنیا کی زندگانی کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ بس (چند دنوں کا) کھیل تماشا ہے ، اور آخرت کا گھر ہی بہتر ہے اُن لوگوں کے لیے جو پرہیزگاری کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں (افسوس تم پر !) کیا تم اس بات کو سمجھتے نہیں ؟ کہیں اور ارشاد ہے : إِنَّما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا مَتاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دارُ الْقَرارِ (المومن 39 : 4) یہ دنیوی زندگانی (اور یہاں کا سازو سامان) تو بس چند دنوں کے استعمال کے لیے ہے اور آخرت ہی اصل رہنے کی جگہ ہے ۔ کہیں فرمایا گیا : وَفِي الْآخِرَةِ عَذابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوانٌ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلاَّ مَتاعُ الْغُرُورِ (الحديد 20 : 57) اور آخرت میں (مجرموں اور باغیوں کے لیے) سخت ترین عذاب ہے ، اور (جو بندے رضا اور مغفرت کے لائق ہیں) اُن کے لئے اللہ کی طرف سے بخشش اور رضا ہے ۔ اور دنیوی زندگانی تو بس دھوکہ کا سرمایہ ہے ۔ ۶ ۔ الغرض اللہ کی طرف سے آنے والے پیغمبروں اور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اور آخرت کی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی میں ان کو کامل فلاح و بہبود کے یوم تک پہنچانے کے لیے جن چند خاص نکتوں پر بہت زیادہ زور دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان دنیا کو بالکل حقیر اور بے قیمت سمجھے ، اور اس سے زیادہ جہ نہ لگائے ، اور اس کو اپنا مقصد و مطلوب نہ بنائے ، بلکہ آخرت کو اپنی اصل منزل اور اپنا دوامی وطن یقین کرتے ہوئے اور دنیا کے مقابلہ میں اس کی جو قدر و قیمت اور جو اہمیت ہے اس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے وہاں کی کامیابی حاصل کرنے کی فکر کو اپنی تمام دنیوی فکروں پر غالب رکھے ، پس انسان کی سعادت اور آخرت میں اس کی کامیابی کے لئے گویا یہ شرط ہے کہ دنیا اس کی نظر میں حقیر اور بے قیمت ہو ، اور اس کے دل کا رُخ آخرت ہی کی طرف ہو ، اور "اللهُمَّ لَا (1) عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَهْ" اس کے دل اور اس کی روح کی صدا ہو ۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبات اور مجلسی ارشادات کے ذریعہ بھی اسی کی تعلیم دیتے تھے ، اور ایمان لانے والوں کے دلوں پر اپنے عمل اور حال سے بھی اسی کا نقش کرتے تھے ۔ الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث اس باب میں درج ہوں گی ، جن میں دنیا کی تحقیر اور مذمت کی گئی ہے ، جن کامطلب و مقصد اسی روشنی میں سمجھنا چاہئے ۔ ۷ ۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ قرآن و حدیث میں جس دنیا کی مذمت کی گئی ہے وہ آخرت کے مقابل والی دنیا ہے ، اس لئے دنیا کے کاموں کی جو مشغولیت اور دنیا سے جو تمتع فکرِ آخرت کے تحت ہو اور آخرت کا راستہ اس سے کھوٹا نہ ہوتا ہو وہ مذموم اور ممنوع نہیں ہے ، بلکہ وہ تو جنت تک پہنچنے کا زینہ ہے ۔ اس تمہیدی مضمون کو ذہن میں رکھ کر اب پڑھئے آگے درج ہونے والی اس سلسلہ کی حدیثیں ! تشریح ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا آخرت کے مقابلہ میں اتنی ہی بے حقیقت اور بے حیثیت ہے جتنا کہ دریا کے مقابلہ میں انگلی پر لگا ہوا پانی ۔ اور دراصل یہ مثال بھی صرف سمجھانے کے لیے دی گئی ہے ، ورنہ فی الحقیقت دنیا کو آخرت کے مقابلہ میں یہ نسبت بھی نہیں ہے ۔ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب محدود اور متناہی ہے ، اور آخرت لامحدود اور لامتناہی ہے ، اور ریاضی کا مسلم مسئلہ ہے کہ محدود و متناہی اور لامحدود و لا متناہی کے درمیان کوئی نسبت نہیں ہوتی ، جب حقیقت یہ ہے ، تو وہ شخص بڑا ہی محروم اور بہت ہی گھاٹے میں رہنے والا ہے جو دنیا کو حاصل کرنے کے لیے خوب جد و جہد کرتا ہے مگر آخرت کی تیاری کی طرف سے بے فکر اور بے پروا ہے ۔

【27】

آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی حقیقت

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گُذر بکری کے ایک بوچے (۱) مردہ بچے پر ہوا ، جو راستے میں مَرا پڑا تھا ، اُس وقت آپ کے ساتھ جو لوگ تھے اُن سے آپ نے فرمایا : تم میں سے کوئی اس مرے ہوئے چے کو صرف ایک درہم میں خریدنا پسند کرے گا ؟ انہوں نے عرض کیا ہم تو اس کو کسی قیمت پر بھی خریدنا پسند نہیں کریں گے ۔ آپ نے فرمایا : قسم ہے خدا کی کہ دنیا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ ذلیل اور بے قیمت ہے جتنا ذلیل اور بے قیمت تمہارے نزدیک یہ مردار بچہ ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ مبارک میں بندوں کی ہدایت اور تربیت کا جو بے پناہ جذبہ رکھ دیا تھا ، اس حدیث سے اس کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے ، آپ راستہ چل رہے ہیں ، بکری کے ایک مردار بچے پر آپ کی نظر پڑتی ہے ، گِھن سے منہ پھیر کر نکل جانے کے بجائے آپ صحابہ کو متوجہ کر کے اُس کی اس حالت سے ایک اہم سبق دیتے ہیں ، اور ان کو بتلاتے ہیں کہ یہ مردار بچہ تمہارے نزدیک جس قدر حقیر و ذلیل ہے اسی قدر اللہ کے نزدیک دنیا حقیر و ذلیل ہے ۔ اس لئے اپنی طلب و فکر کا مرکز اس کو نہ بناؤ ، بلکہ آخرت کے طالب بنو ۔

【28】

آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی حقیقت

سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی قدر و قیمت مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی ، تو کسی کافر منکر کو وہ ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح یعنی خدا اور رسول کے نہ ماننے والوں ، کافروں ، منکروں کو دنیا سے جو کچھ مل رہا ہے ، (اور جیسا کہ دیکھا جا رہا ہے خوب مل رہا ہے) اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ کے نزدیک دنیا نہایت ہی حقیر اور بے قیمت چیز ہے ، اگر اس کی کچھ بھی قدر و قیمت ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان باغیوں کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ دیتا ، چنانچہ آخرت جس کی اللہ کے نزدیک قدر و قیمت ہے ، وہاں کسی دشمنِ خدا کو ٹھنڈے اور خوشگوار پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیا جائے گا ۔

【29】

دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے ۔ (مسلم) تشریح قید خانہ کی زندگی کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ قیدی اپنی زندگی میں آزاد نہیں ہوتا ، بلکہ ہر چیز میں دوسروں کے حکم کی پابندی کرنے پر مجبور ہوتا ہے ، جب کھانے کو دیا گیا اور جو کچھ دیا گیا کھا لیا ، جو پینے کو دیا گیا پی لیا ، جہاں بیٹھنے کا حکم دیا گیا بیٹھ گیا ، جہاں کھڑے ہونے کو کہا گیا بے چارہ کھڑا ہوگیا ، الغرض قید خانہ مین اپنی مرضی بالکل نہیں چلتی ، بلکہ چار و ناچار ہر معاملے میں دوسروں کے حکم کی پابندی کرنی پڑتی ہے ۔ اسی طرح ایک دوسری خصوصیت قید خانہ کی یہ ہے کہ قیدی اس سے جی نہیں لگاتا ، اور اس کو اپنا گھر نہیں سمجھتا ، بلکہ ہر وقت اس سے نکلنے کا خواہش مند اور متمنی رہتا ہے ۔ اور اس کے برعکس جنت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں جنتیوں کے لیے کوئی قانونی پابندی نہیں رہے گی ، اور ہر جنتی اپنی مرضی کی زندگی گذارے گا ، اور اس کی ہر خواہش اور ہر آرزو پوری ہوگی ، نیز لاکھوں برس گذرنے پر بھی کسی جنتی کا دل جنت سے اور جنت کی نعمتوں سے نہیں اکتائے گا ، اور نہ کسی کے دل میں جنت سے نکلنے کی خواہش پیدا ہوگی ۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : وَفِيها مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ وَأَنْتُمْ فِيها خالِدُونَ (رخرف 71 : 43) جنت میں وہ سب کچھ ہے جس ک تمہارے دل چاہیں ، اور جس کے نظارہ سے تمہاری آنکھوں کو لذت و سرور حاصل ہو ، اور تم اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہو گے ۔ اور سورہ کہف میں فرمایا گیا : لا يَبْغُونَ عَنْها حِوَلاً جنتی جنت سے کہیں اور منتقل ہونا نہ چاہیں گے ۔ پس اس عاجز کے نزدیک اس حدیث میں ایمان والوں کو خاص سبق دیا گیا ہے کہ وہ دنیا میں حکم و قانون کی پابندی کی قید خانہ والی زندگی گذاریں ، اور دنیا سے جی نہ لگائیں ، اور حقیقت پیشِ نظر رکھیں اس دنیا کو اپنی جنت سمجھنا ، اور اس سے اپنا دل لگانا ، اور اس کے عیش کو اپنا اصل مقصود و مطلب بنانا کافرانہ طریقہ ہے ، پس یہ حدیث گویا ایک آئینہ بھی ہے ، جس میں ہر مومن اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے ۔ اگر اس کے دل کا تعلق اس دنیا کے ساتھ وہ ہے جو قید خانہ کے ساتھ قیدی کا ہوتا ہے تو وہ پورا مومن ہے ، اور اگر اس نے اس دنیا سے اپنا دل ایسا لگا لیا ہے کہ اس کو اپنا مقصود و مطلقب بنا لیا ہے ، تو یہ حدیث بتائی ہے کہ اس کا یہ حال کارفرانہ ہے ۔ دنیا فانی ہے اور آخرت غیر فانی ، اس لئے آخرت کے طالب بنو

【30】

دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت

حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص دنیا کو اپنا محبوب و مطلوب بنائے گا وہ اپنی آخرت کا ضرور نقصان کرے گا ، اور جو کوئی آخرت کو محبوب بنائے گا وہ اپنی دنیا کا ضرور نقصان کرے گا ، پس (جب دنیا و آخرت میں سے ایک محبوب بنانے سے دوسرے کا نقصان برداشت کرنا لازم اور ناگزیر ہے ، تو عقل و دانش کا تقاضہ یہی ہے کہ) فنا ہو جانے والی دنیا کے مقابلہ میں باقی رہنے والی آخرت اختیار کرو ۔ (مسند احمد ، شعب الایمان للبیہقی) تشریح ظاہر ہے کہ جو شخص دنیا کو اپنا محبوب و مطلوب بنائے گا تو اس کی اصل فکر و سعی دنیا ہی کے واسطے ہوگی اور آخرت کو یا تو وہ بالکل ہی پشِ پشت ڈال دے گا ، یا اس کے لیے بہت کم جدو جہد کرے گا ، جس کا نتیجہ بہر حال آخرت کا خسارہ ہو گا ۔ اسی طرح جو شخص آخرت کو محبوب و مطلوب بنائے گا ، اس کی اصلی سعی و کوشش آخرت کے لیے ہوگی اور وہ ایک دنیا پرست کی طرح دنیا کے لئے جدو جہد نہیں کر سکے گا ، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ دنیا زیادہ نہ سمیٹ سکے گا ، پس صاحبِ ایمان کو چاہیے کہ وہ قاپنی محبت اور چاہت کے لیے آخرت کو منتخب کرے ، جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے ، اور دنیا تو بس چند روز میں فنا ہو جانے والی ہے ۔

【31】

اللہ سے تعلق کے بغیر یہ دنیا لعنتی ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : خبردار ! دنیا اور جو کچھ دنیا میں ے ہ ، اس پر خدا کی لعنت کی پھٹکار ہے ، اور اس کے لیے رحمت سے محرومی ہے سوائے خدا کی یاد کے ، اور ان چیزوں کے ، جن کا خدا سے کوئی تعلق اور واسطہ ہے ، اور سوائے عالم اور متعلم کے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ خد اسے غافل کرنے والی یہ دنیا جس کی طلب اور چاہت میں بہت سے نادان انسان خدا کو اور آخرت کو بھول جاتے ہیں ، اپنی حقیقت اور اپنے انجام کے لحاظ سے ایسی ذلیل اور ایسی مردار ہے کہ اللہ کی وسیع رحمت میں بھی اس کے لیے کوئی حصہ نہیں ، البتہ اس دنیا میں اللہ کی یاد اور جن چیزوں کا اس سے تعلق ہے ، خاص کر علم دین کے حاملین اور متعلمین سو اُن پر اللہ کی رحمت ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ اس دنیا میں صرف وہی چیزیں اور وہی اعمال اللہ کی رحمت کے لائق ہیں ، جن کا اللہ تعالیٰ سے اور دین سے کوئی تعلق ہو ، خواہ بلا واسطہ یا بالواسطہ ، لیکن جو چیزیں اور جو اعمال و اشغال اللہ سے اور دین سے بالکل بے تعلق ہیں (اور دراصل دنیا ان ہی کا نام ہے) وہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور اور محروم اور قابل لعنت ہیں ۔ پس انسان کی زندگی اگر اللہ کی یاد اور اس کے تعلق سے ، اور دین کے علم اور اس کے تعلیم سے خالی ہے ، تو وہ رحمت کی مستحق نہیں ، بلکہ لعنت کے قابل ہے ۔

【32】

طالبِ دُنیا گناہوں سے نہیں بچ سکتا

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا : کیا کوئی ایسا ہے کہ پانی پر چلے ، اور اس کے پاؤں نہ بھیگیں ؟ عرض کیا گیا : حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ! ایسا تو نہیں ہو سکتا ۔ آپ نے فرمایا : اسی طرح دنیا دار گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح صاحب الدنیا (دنیا دار) سے مراد وہ ہی شخص ہے جو دنیا کو مقصود و مطلوب بنا کر اس میں لگے ، ایسا آدمی گناہوں سے کہاں محفوظ رہ سکتا ہے ، لیکن اگر بندہ کا حال یہ ہو کہ مقصود و مطلوب اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت ہو ، اور دنیا کی مشغولی کو بھی وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی فلاح کا ذریعہ بنائے ، تو وہ شخص دنیا دار نہ ہو گا ، اور دنیا میں بظاہر پوری مشغولی کے باوجود وہ گناہوں سے محفوظ بھی رہ سکے گا ۔ یہ مضمون بعض حدیثوں میں آگے صراحت سے آ جائے گا ۔

【33】

اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو دنیا سے بچاتا ہے

قتادہ بن نعمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے ، تو دنیا سے اس کو اس طرح پرہیز کراتا ہے جس طرح کہ تم میں سے کوئی اپنے مریض کو پانی سے پرہیز کراتا ہے ، (جبکہ اسکو پانی سے نقصان پہنچتا ہو) ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی) تشریح جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے دنیا در اصل وہی ہے جو اللہ سے غافل کرے ، اور جس میں مشغول ہونے سے آخرت کا راستہ کھوٹا ہو ، پس اللہ تعالیٰ جن بندوں سے محبت کرتا ہے ، اور اپنے خاص انعامات سے اُن کو نوازنا چاہتا ہے ، ان کو اس مردار دنیا سے اس طرح بچاتا ہے ، جس طرح کہ ہم لوگ اپنے مریضوں کو پانی سے پرہیز کراتے ہیں ۔

【34】

اپنے مسافر اور اس دنیا کو سرائے سمجھو

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے دونوں مونڈھے پکڑ کے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ : دنیا میں ایسے رہ جیسے کہ تو پردیسی ہے ، یا راستہ چلتا مسافر ۔ (صحیح بخاری) تشریح یعنی جس طرح کوئی مسافر پردیس کو اور رہ گذر کو اپنا اصلی وطن نہیں سمجھتا اور وہاں اپنے لئے لمبے چوڑے انتظامات نہیں کرتا ، اسی طرح مومن کو چاہئے کہ اس دنیا کو اپنا اصلی وطن نہ سمجھے ، اور یہاں کی ایسی فکر نہ کرے جیسے کہ یہاں ہی اس کو ہمیشہ رہنا ہے ، بلکہ اس کو ایک پردیس اور رَہ گُذر سمجھے ۔ واقعہ یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام انسانوں کو جیسا انسان بنانا چاہتے ہین ، اور اپنی تعلیم و تربیت سے ان کی جو سیرت بنانا چاہتے ہیں ، اس کی اساس و بنیاد یہی ہے کہ آدمی اس دنیوی زندگی کو بالکل عارضی اور چند روزہ زندگی سمجھے اور موت کے بعد والی زندگی کو اصلی اور مستقل زندگی یقین کرتے ہوئے اس کی فکر اور تیاری میں اس طرح لگا رہے ، کہ گویا وہ زندگی اس کی آنکھوں کے سامنے ہے ، اور گویا وہ اسی دنیا میں ہے ۔ جن لوگوں نے یہ بات جس درجے میں اپنے اندر پیدا کر لی ، ان کی زندگی اور ان کی سیرت اسی درجے میں انبیاء علیہم السلام کی تعلیم اور ان کی منشاء کے مطابق ہو گئی ، اور جو لوگ اپنے میں یہ بات پیدا نہیں کر سکے ، ان کی زندگی بھی وہ نہیں بن سکی ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبات اور مواعظ میں اس بنیاد پر بہت زیادہ زور دیتے تھے ۔

【35】

دنیا اور آخرت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ دیا ، اور اپنے اس خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ : سُن لو ، اور یاد رکھو کہ دنیا ایک عارضی اور وقتی سودا ہے ، جو فی الوقت حاضر اور نقد ہے (اور اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ، اسی لئے) اس میں ہر نیک و بد کا حصہ ہے ، اور سب اس سے کھاتے ہیں ، اور یقین کرو کہ آخرت مقرر وقت پر آنے والی ایک سچی اٹل حقیقت ہے ، اور سب کچھ قدرت رکھنے والا شہنشاہ اسی میں (لوگوں کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا) فیصلہ کرے گا ، یاد رکھو کہ ساری خیر اور خوشگواری اور اس کی تمام قسمیں جنت میں ہیں ، اور سارا شر اور دکھ اس کی تمام قسمیں دوزخ میں ہیں ۔ پس خبردار ، خبردار (جو کچھ کرو) اللہ سے ڈرتے ہوئے کرو (اور ہر عمل کے وقت آخرت کے انجام کو پیش نظر رکھو) اور یقین کرو کہ تم اپنے اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور میں پیش کئے جاؤ گے ، پس جس شخص نے ذرہ برابر کوئی نیکی کی ہوگی ، وہ اس کو بھی دیکھ لے گا ، اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی ، وہ اس کو بھی پا لے گا ۔ (مسند امام شافعی) تشریح انسان کی سب سے بڑی بدبختی اور سیکڑوں قسم کی بدکاریوں کی جڑ بنیاد یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکام اور آخرت کے انجام سے بے فکر اور بے پروا ہو کر زندگی گذارے ، اور اپنی نفسانی خواہشات اور اس دنیا کی فانی لذتوں کو اپنا مقصد اور مطمح نظر بنا لے اور یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ آنکھوں کے سامنے ہے ، اور خدا اور آخرت آنکھوں سے اوجھل ہیں ، اس لئے انسانوں کو اس بربادی سے بچانے کا راستہ یہی ہے کہ ان کے سامنے دنیا کی بے حقیقتی اور بے قیمتی کو اور آخرت کی اہمیت اور برتری کو قوت کے ساتھ پیش کیا جائے ، اور قیامت میں خدا کے سامنے پیشی اور اعمال کی جزا و سزا کا اور جنت و دوزخ کے ثواب و عذاب کا یقین اُن کے دلوں میں اتارنے کی کوشش کی جائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبہ کا حاصل اور موضوع یہی ہے ، اور جیسا کہ عرض کیا گیا ، آپ کے اکثر خطبات اور مواعظ میں یہی بنیادی مضمون ہوتا تھا ۔ تنبیہ ۔ ۔ ۔ یہ بات بڑی خطرناک اور بہت تشویشناک ہے کہ دینی دعوت اور دینی وعظ و نصیحت میں دنیا کی بے ثباتی اور بے حقیقتی اور آخرت کی اہمیت کا بیان اور جنت و دوزخ کا تذکرہ جس طرح اور جس ایمان و یقین اور جس قوت کے ساتھ ہونا چاہئے ہمارے اس زمانہ میں اس کا رواج بہت کم ہوگیا ہے ، گویا نہیں رہا ہے ، اور دین کی تبلیغ و دعوت میں بھی اسی طرح کی باتیں کرنے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے جس قسم کی باتیں مادی تحریکوں اور دنیوی نظاموں کی دعوت و تبلیغ میں کی جاتی ہیں ۔

【36】

دنیا سے نہ لپٹو ، آخرت کے طالب بنو

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں اپنی امت پر جن بلاؤں کے آنے سے ڈرتا ہوں ، ان میں سب سے زیادہ ڈر کی چیزیں هَوَى اور طُولُ الْأَمَلِ ہے ، (هَوَى سے مراد یہاں یہ ہے کہ دین و مذہب کے بارے میں اپنے نفس کے رجحانات اور خیالات کی پیروی کی جائے اور طُولُ الْأَمَلِ یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے بارہ میں لمبی لمبی آرزوئیں دل میں پرورش کی جائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو بیماریوں کو بہت زیادہ خوفناک بتلایا ، اور آگے اس کی وجہ یہ ارشاد فرمائی) کہ هَوَى تو آدمی کو قبولِ حق سے مانع ہوتی ہے (یعنی اپنے نفسانی رجحانات اور خیالات کی پیروی کرنے والا قبول حق اور اتباع ہدایت سے محروم رہتا ہے) اور طُولُ الْأَمَلِ (یعنی لمبی لمبی آرزؤں میں دل پھنس جانا) آخرت کو بُھلا دیتا ہے اور اس کی فکر اور اس کے لیے تیاری سے غافل کر دیتا ہے ، (اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ) یہ دنیا دمبدم چلی جارہی ہے ، گزر رہی ہے (کہیں اس کا ٹھہراؤ اور مقام نہیں) اور آخرت (اُدھر سے) چل پڑی ہے ، چلی آ رہی ہے اور ان دونوں کے بچے ہیں ، (یعنی انسانوں میں کچھ وہ ہیں جو دنیا سے ایسی وابستگی رکھتے ہیں جیسی وابستگی بچوں کو اپنی ماں سے ہوتی ہے ، اور کچھ وہ ہیں جن کی ایسی ہی وابستگی اور رغبت بجائے ددنیا کے آخرت سے ہے) پس اے لوگو ! اگر تم کر سکت تو ایسا کرو کہ دنیا سے چمٹنے والے اس کے بچے نہ ہو (بلکہ اس دنیا کو دارالعمل سمجھو) تم اس وقت دارالعمل میں ہو (یہاں تمہیں صرف محنت اور کمائی کرنی ہے) اور یہاں حساب اور جزا سزا نہیں ہے ، اور کل تم (یہاں سے کوچ کر کے) دار آخرت میں پہنچ جانے والے ہو ، اور وہاں کوئی عمل نہ ہو گا (بلکہ یہاں کے اعمال کا حساب ہو گا ، اور ہر شخص اپنے کئے کا بدلہ پائے گا) ۔ تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں امت کے بارے میں دو بڑی بیماریوں کا خوف اور خطرہ ظاہر فرمایا ہے ، اور امت کو ان سے ڈرایا اور خبردار کیا ہے ، ایک هَوَى اور دوسرے طُولُ الْأَمَلِ ۔ غور سے دیکھا جائے ، تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان ہی دو بیماریوں نے امت کے بہت بڑے حصے کو برباد کیا ہے ، جن لوگوں میں خیالات اور نظریات کی گمراہیاں ہیں ، وہ هَوَى کے مریض ہیں اور جن کے اعمال خراب ہیں وہ طولِ امل اور حبِ دنیا کے مرض میں گرفتار اور آخرت کی فکر اور تیاری سے غافل ہیں ، اور علاج یہی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کے آخر میں بیان فرمایا ۔ یعنی ان کے دلوں میں یہ یقین پیدا ہو کہ یہ دنیوی زندگی فانی اور صرف چند روزہ ہے ، اور آخرت ہی کی زندگی اصلی زندگی ہے ، اور وہی ہمارا اصل مقام ہے ۔ جب یہ یقین دلوں میں پیدا ہو جائے گا تو خیالات اور اعمال دونوں کی اصلاح آسان ہو جائے گی ۔

【37】

دولت کی افراط کا خطرہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آگاہی

عمر بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میں تم پر فقر و ناداری آنے سے نہیں ڈرتا ، لیکن مجھے تمہارے بارہ میں یہ ڈر ضرور ہے ، کہ دنیا تم پر زیادہ وسیع کر دی جائے ، جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر وسیع کی گئی تھی ، پھر تم اس کو بہت زیادہ چاہنے لگو ، جیسے کہ انہوں نے اس کو بہت زیادہ چاہا تھا (اور اسی کے دیوانے اور متوالے ہو گئے تھے) اور پھر وہ تم کو برباد کر دے ، جیسے کہ اس نے ان اگلوں کو برباد کیا (صحیح بخاری و مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بعض اگلی قوموں اور امتوں کا یہ تجربہ تھا ، کہ جب ان کے پاس دنیا کی دولت بہت زیادہ آئی ، تو ان میں دنیوی حرص اور دولت کی رغبت و چاہت اور زیادہ بڑھ گئی ، اور وہ دنیا ہی کے دیوانے اور متوالے ہو گئے ، اور اصل مقصد زندگی کو بھلا دیا ، پھر اس کی وجہ سے ان میں باہم حسد و بغض بھی پیدا ہوا ، اور بالآخر ان کی اس دنیا پرستی نے ان کو تباہ برباد کر دیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے بارے میں اسی کا زیادہ ڈر تھا ۔ اس حدیث میں آپ نے از راہِ شفقت امت کو اس خطرے سے آگاہ کیا ہے ، اور فرمایا ہے ، کہ تم پر فقر و ناداری کے حملے کا مجھے زیادہ ڈر نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس تم میں بہت زیادہ دولت مندی آ جانے سے دنیا پرستی میں مبتلا ہو کر تمہارے ہلاک و برباد ہو جانے کا مجھے زیادہ خوف اور ڈر ہے ۔ آپ کے اس ارشاد کا مقصد و مدعاو اس خوشنما فتنہ کی خطرناکی سے امت کو خبردار کرنا ہے ، تا کہ ایسا وقت آنے پر اس کے برے اثرات سے اپنا بچاؤ کرنے کی وہ فکر کرے ۔

【38】

اس اُمت کا خاص فتنہ دولت ہے

کعب بن عیاض سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ، آپ ارشاد فرماتے تھے ، کہ ہر امت کے لیے کوئی خاص آزمائش ہوتی ہے اور میری امت کی خاص آزمائش مال ہے ۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ میری پیغمبری کے دور میں (جو اَب سے لے کر قیامت تک کا زمانہ ہے) مال و دولت کو ایسی اہمیت حاصل ہوگی ، اور اس کی ہوس اتنی بڑھ جائے گی کہ وہی اس امت کے لیے سب سے بڑا فتنہ ہو گا ۔ (قرآن مجید میں بھی مال کو فتنہ کہا گیا ہے) اور واقعہ یہ ہے کہ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر ہمارے اس زمانے تک کی تاریخ پر جو شخص بھی نظر ڈالے گا ، اسے صاف محسوس ہو گا ، کہ مال کے مسئلہ کی اہمیت اور دولت کی ہوس برابر بڑھتی رہی ہے اور بڑھتی ہی جا رہی ہے ، اور بلا شبہ یہ ہی اس کا سب سے بڑا فتنہ ہے ، جس نے بے شمار بندوں کو خدا کی بغاوت و نافرمانی کے راستے پر ڈال کے اصل سعادت سے محروم کر دیا ہے ۔ بلکہ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ خدا بیزاری اور خدا دشمنی کے علمبردار بھی دولت و معاش ہی کے مسئلہ کی پیٹھ پر سوار ہو کر اپنے دجالی خیالات دنیا میں پھیلاتے ہیں ۔

【39】

حب مال اور حب جاہ دین کے لیے قاتل ہیں

کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : وہ دو بھوکے بھیڑیے جو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے گئے ہوں ، ان بکریوں کو اس سے زیادہ تباہ نہیں کر سکتے ، جتنا تباہ آدمی کے دین کو مال کی اور عزت و جاہ کی حرص کرتی ہے ۔ (جامع ترمذی ، مسند دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ حب مال اور حب جاہ آدمی کے دین کو اور اللہ کے ساتھ اس کے تعلق کو اس سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں ، جتنا کہ بکریوں کے کسی ریوڑ میں چھوڑے ہوئے بھوکے بھیڑیے ان بکریوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔

【40】

مال کی اور دنیا کی محبت بڑھاپے میں بھی جوان رہتی ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے (اور بڑھاپے کے اثر سے اس کی ساری قوتین مضمحل ہو کر کمزور پڑ جاتی ہیں) مگر اس کے نفس کی دو خصلتیں اور زیادہ جوان اور طاقت ور ہوتی رہتی ہیں ۔ ایک دولت کی حرص ، اور دوسری زیادتی عمر کی حرص ۔ (بخاری و مسلم) تشریح تجربہ اور مشاہدہ شاہد ہے ، کہ انسانوں کا عام حال یہی ہے ، اور اس کی وجہ بھی ظاہر ہے ، بات یہ ہے کہ انسان کے نفس میں بہت سی ایسی غلط خواہشیں پیدا ہوتی ہیں جو اسی وقت پوری ہوتی ہیں جب کہ اس کے ہاتھ میں دولت ہو ، اور زندگی اور توانائی بی ہو ، اور ان خواہشوں کی مضرتوں اور بربادیوں سے انسان کو بچانا “ پاسبانِ عقل ” کا کام ہے ، مگر بڑھاپے کے اثر سے جب بے چاری یہ عقل بھی مضمحل اور کمزور پڑ جاتی ہے ، تو ان خواہشات پر اپنا قابو اور کنٹرول رکھنے سے مجبور ہو جاتی ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آخر عمر میں بہت سی خواہشیں “ ہوس ” کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں ، اور اس کی وجہ سے عمر کی زیادتی کے ساتھ مال و دولت کی اور دنیا میں زیادہ سے زیادہ رہنے کی حرص اور چاہت اور زیادہ ترقی کرتی رہتی ہے ، کہنے والے نے صحیح کہا ہے : ؎ بنیحہائے خوئے بد محکم شدہقوت برکندنِ آں کم شدہ لیکن یہ حال عوام کا ہے ، اللہ کے جن بندوں نے اس دنیا اور اس کی خواہشوں کی حقیقت اور اس کے انجام کو سمجھ لیا ہے ، اور اپنے نفسوں کی تربیت کر لی ہے ، وہ اس سے مستثنیٰ ہیں ۔

【41】

مال کی اور دنیا کی محبت بڑھاپے میں بھی جوان رہتی ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بوڑھے آدمی کا دل دو چیزوں کے بارے میں ہمیشہ جوان رہتا ہے ، ایک تو دنیا کی محبت ، اور دوسری لمبی لمبی تمنائیں ۔ تشریح جیسا کہ پہلی حدیث کی تشریح میں ذکر کیا گیا ، عام انسانوں کا حال یہی ہے لیکن جن بندگانِ خدا کو خود شناسی اور خدا شناسی اور دنیا و آخرت کے بارے میں صحیح علم و یقین نصیب ہو ، اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ بجائے حبِ دنیا کے ، اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس فانی دنیا کی آرزوؤں کی جگہ رضاء الہٰی اور نعمائے اُخروی کا اشتیاق اور اس کی تمنا بڑھاپے میں بھی ان کے دل میں مسلسل بڑھتی اور ترقی کرتی رہتی ہے ، اور ان کی عمر کا ہر اگلا دن پہلے دن کے مقابلے میں اس پہلو سے بھی ترقی کا دن ہوتا ہے ۔

【42】

دولت میں اضافے کی حرص کسی حد پر ختم نہیں ہوتی

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر آدمی کے پاس مال کے بھرے ہوئے دو میدان اور دو جنگل ہوں ، تو وہ تیسرا اور چاہے گا ، اور آدمی کا پیٹ تو بس مٹی سے بھرے گا (یعنی مال و دولت کی اس نہ ختم ہونے والی ہوس اور بھوک کا خاتمہ بس قبر میں جا کر ہو گا) اور اللہ اس بندے پر عنایت اور مہربانی کرتا ہے جو اپنا رخ اور اپنی توجہ اس کی طرف کر لے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ مال و دولت کی زیادہ حرص عام انسانوں کی گویا فطرت ہے ، اگر دولت سے ان کا گھر بھی بھرا ہو ، اور جنگل کے جنگل اور میدان کے میدان بھی پڑے پڑے ہوں ، تب بھی ان کا دل قانع نہیں ہوتا ، اور وہ اس میں اور زیادتی اور اضافہ ہی چاہتے ہیں ، اور زندگی کی آخری سانس تک ان کی ہوس کا یہی حال رہتا ہے ، اور بس قبر ہی میں جا کر دولت کی اس بھوک اور ننانوے کے اس پھیر سے اُن کو چھٹکارا ملتا ہے ۔ البتہ جو بندے دنیا اور دنیا کی دولت کے بجائے اپنے دل کا رُخ اللہ کی طرف کر لیں ، اور اس سے تعلق جوڑ لیں ، ان پر اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہوتی ہے ، اور ان کو اللہ تعالیی اس دنیا ہی میں اطمینانِ قلب اور غنائے نفس نصیب فرما دیتا ہے ، اور پھر اس دنیا میں بھی ان کی زندگی بڑے مزے کی اور بڑے سکون سے گزرتی ہے ۔

【43】

طالب آخرت کا قلب مطمئن رہتا ہے ، اور طالبِ دنیا کا دل پراگندہ اور غیر مطمئن

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جس شخص کی نیت اور اس کا مقصد اصلی اپنی سعی و عمل آخرت کی طلب ہو ، تو اللہ تعالیٰ غنا (قلبی اطمینان ، اور مخلوق کی نامحتاجی کی کیفیت) اس کے دل کو نصیب فرمادیں گے ، اور اس کے پراگندہ حال کو درست فرما دیں گے ۔ اور دنیا اس کے پاس خود بخود ذلیل ہو کر آئے گی ۔ اور جس شخص کی نیت اور اپنی سعی و عمل سے جس کا خاص مقصد دنیا طلب کرنا ہو گا ، اللہ تعالیٰ محتاجی کے آثار اس کی بیچ پیشانی میں اس کے چہرے پر پیدا کر دیں گے ، اور اس کے حال کو پراگندہ کر دیں گے (جس کی وجہ سے اس کو خاطر جمعی کی راحت کبھی نصیب نہ ہوگی) اور (ساری تگ و دَو کے بعد بھی) یہ دنیا اس کو بس اسی قدر ملے گی جس قدر اس کے واسطے پہلے سے مقدر ہو چکی ہوگی ۔ (اس حدیث کو حضرت انسؓ سے امام ترمذی نے روایت کیا ہے ، اور امام احمد اور دارمی نے اس حدیث کو ابّان کی روایت سے حضرت زید بن ثابت انصاریؓ سے روایت کیا ہے) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو بندہ آخرت پر یقین رکھتے ہوئے آخرت کی فلاح ہی کو اپنا اصل مطلوب و مقصود بنا لیتا ہے تو اُس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا کے بارے میں اس کو قناعت نصیب فرما کر اس کے دل کو طمانیت اور جمعیت خاطر نصیب فرما دی جاتی ہے ، اور دنیا میں سے جو کچھ اس کے لیے مقدر ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی راستہ سے خود اس کے پاس آ جاتا ہے ۔ اور اس کے برعکس جو شخص دنیا کو اپنا اصل مقصود و مطلوب بنا لیتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ محتاجی اور پریشاں حالی اُس پر اس طرح مسلط کر دیتا ہے کہ دیکھنے والوں کو اس کے چہرے پر اور اس کی بیچ پیشانی میں اس کے آثار نظر آتے ہیں ، اور دنیا کی طلب میں خون پسینہ ایک کر دینے کے بعد بھی اس طالب دنیا کو بس وہی ملتا ہے ، جو پ ہلے ہی سے اس کے لیے مقدر ہے ۔ پس جب واقعہ اور حقیقت یہ ہے تو بندہ کو چاہئے کہ آخرت ہی کو اپنا مقصود و مطلوب بنائے ، اور دنیا کو بس ایک عارضی اور وقتی ضرورت سمجھ کر اس کی طرف اتنی ہی فکر کرے جتنی کہ کسی عاورضی وقتی چیز کی فکر ہونی چاہیے ۔

【44】

دولت میں بندے کا واقعی حصہ کیا ہے ؟

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : بندہ کہتا ہے میرا مال میرا مال ، حالانکہ اس کے مال میں سے جو واقعی اس کا ہے ، وہ بس تین مدیں ہیں ، ایک وہ جو اس نے کھا کے ختم کر دیا ، دوسرے وہ جو پہن کر پُرانا کر ڈالا ، اور تیسرے وہ جو اس نے راہِ خدا میں دیا ، اور اپنی آخرت کے واسطے ذخیرہ کر لیا ، اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ بندہ دوسرے لوگوں کے لیے اس کو چھوڑ جانے والا ہے ، اور خود یہاں سے ایک دن رخصت ہو جانے والا ہے ۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ آدمی کے کمائے ہوئے اور جوڑے ہوئے مال میں سے واقعۃً اور حقیقۃً اس کا بس وہی ہے جو اس نے کھانے پہننے کی ضروریات میں یہاں اپنے اوپر خرچ کر لیا ، یا راہِ خدا میں دے کے آخرت کے واسطے اللہ تعالیٰ کے یہاں جمع کر دیا ، اس کے سوا جو کچھ ہے وہ درحقیقت اس کا نہیں ہے ۔ بلکہ ان وارثوں کا ہے جن کے لیے وہ اس کو چھوڑ جانے ولا ہے ۔

【45】

دولت میں بندے کا واقعی حصہ کیا ہے ؟

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کون ایسا ہے جس کو اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال محبوب ہو ؟ (یعنی اپنے ہاتھ میں مال آنے سے زیادہ محبوب جس کو اپنے وارثوں کے ہاتھ میں مال آنا ہو ؟) لوگوں نے عرض کیا : ہم میں سے تو ہر ایک کا حال یہ ہے کہ اس کو اپنے وارثوں کے مال سے زیادہ محبوب اپنا ہی مال ہے (یعنی ہم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کی یہ چاہت ہو کہ مال اس کو نہ ملے ، بلکہ اس کے وارثوں کو ملے) آپ نے فرمایا : جب یہ بات ہے ، تو معلوم ہونا چاہئے کہ آدمی کا مال بس وہی ہے جس کو اس نے آگے چلتا کر دیا ، اور جس قدر اس نے بعد کے لیے رکھا وہ اس کا نہیں ہے ، بلکہ اس کے وارثوں کا ہے ۔ (لہٰذا دانش مند آدمی کو چاہئے کہ وارثوں کے لیے چھوڑنے سے زیادہ فکر ، اپنی آخرت کے لیے سرمایہ محفوظ کر دینے کی کرے ، جس کی صورت یہی ہے کہ سینت سینت کے گھر میں رکھنے کے بجائے خیر کے مصارف میں صرف بھی کرتا رہے) ۔ (صحیح بخاری)

【46】

دولت میں بندے کا واقعی حصہ کیا ہے ؟

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب مرنے والا مرتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں ، اور پوچھتے ہیں ، کہ اس نے اپنے واسطے آگے کیا بھیجا (یعنی کیا اعمالِ خیر کئے ، اور اپنی آخرت کے لئے اللہ کے خزانے میں کیا سرمایہ جمع کیا ہے) اور عام انسان آپس میں کہتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ، اس نے کتنا مال چھوڑا ؟ (شعب الایمان للبیہقی)

【47】

دولت کے بندے خدا کی رحمت سے محروم

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : بندہ دینار خدا کی رحمت سے محروم ہو اور بندہ درہم خدا کی رحمت سے دور رہے ۔ (ترمذی) تشریح جو لوگ مال و دولت اور دنانیر و دراہم کے پرستار ہیں ، اور انہوں نے دولت ہی کو اپنا معبود اور محبوب و مطلوب بنا لیا ہے اس حدیث میں ان سے بیزاری کا اعلان اور ان کے حق میں بد دعا ہے کہ وہ خدا کی رحمت سے محروم اور دور ہیں ۔ مال و دولت کی پرستش اور بندگی یہ ہے کہ اس کی چاہت اور طلب میں بندہ ایسا گرفتار ہو کہ اللہ کے احکام اور حلال و حرام کی حدود کا بھی پابند نہ رہے ۔

【48】

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ، کہ مجھے تجارت اور دولت اندوزی کا حکم نہیں دیا گیا ہے

جُبیر بن نُفیر تابعی سے روایت ہے وہ بطریق ارسال (۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں ، کہ آپ نے ارشاد فرمایا : مجھے اللہ کی طرف سے اس کی وحی نہیں کی گئی ، اور یہ حکم نہیں دیا گیا کہ میں مال و دولت جمع کروں ، اور تجارت و سودا گری کو اپنا پیشہ اور مشغلہ بناؤں ۔ بلکہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے ، اور میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ اپنے رب کی تسبیح و تحمید میں مشغول رہ ، اور ہو جا اللہ کے حضور میں جھکنے والوں اور گرنے والوں میں سے اور کئے جا بندگی اپنے پروردگار کی ، موت آنے تک ۔ (شرح السنہ) تشریح جن کو شریعت کے اصول و احکام کا کچھ علم ہے ، وہ جانتے ہیں کہ تجارت اور اس کے ذریعہ دولت کمانا ناجائز نہیں ہے ، اور شریعت کے احکام کا ایک بڑا حصہ تجارت وغیرہ مالی معاملات سے بھی متعلق ہے ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان تاجروں کی بڑی بڑی فضیلتیں بیان فرمائی ہیں ، جو امانت داری ، راستبازی اور دیانت داری کے ساتھ تجارت کرتے ہوں ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو خاص مقام تھا اور جو کام اللہ تعالیٰ کو آپ سے لینا تھا ، اس میں تجارت جیسے کسی جائز معاشی مشغلے میں بھی مشغول ہونے کی گنجائش نہ تھی ، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو قناعت اور توکل کا وافر سرمایہ دے کر اس فکر سے فارغ بھی فرما دیا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ مجھے تو ان ہی کاموں میں اپنے کو لگانا ہے جن کا مجھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امر اور حکم ہے ، میرا کام تجارت اور دولت اندوزی نہیں ہے ۔ آپ کے امتیوں میں بھی اللہ کے جو بندے خالص متوکلانہ طرزِ زندگی کو اپنے لیے پسند کریں ، اور اس راستے کے شدائد و مصائب پر صبر کی ہمت رکھتے ہوں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کی دولت ان کو میسر ہو ، تو ان کے لیے بھی بلا شبہ یہی افضل ہے ، لیکن کن کا یہ حال نہ ہو ، ان کو کسی جائز معاشی مشغلہ کا اختیار کرنا خاص کر ہمارے اس زمانہ میں ضروری ہے ۔

【49】

اللہ تعالیٰ کی طرف سے دولت و ثروت کی پیشکش اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فقر پسندی

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے یہ بات رکھی کہ میرے لیے وہ مکہ کی وادی کو (یا ص کے سنگریزوں کو) سونا بنا دے ، اور سونے سے بھر دے (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے سامنے یہ بات رکھی گئی ، کہ اگر تم دولت مند بننا چاہو ، تو تمہارے لئے مکہ کی وادی کو ہم سونے سے بھر سکتے ہیں) تو میں نے عرض کیا کہ میرے پروردگار ! میں اپنے لئے یہ نہیں مانگتا ، بلکہ میں (ایسی ناداری اور غریبی کی ھالت میں رہنا پسند کرتا ہوں کہ) ایک دن پیٹ بھر کھاؤں ، اور ایک دن بھوکا رہوں ، تو جب مجھے بھوک لگے تو آپ کو یاد کروں ، آپ کے سامنے عاجزی اور گریہ و زاری کروں ، اور جب آپ کی طرف سے مجھے کھانا ملے اور میرا پیٹ بھرے ، تو میں آپ کی حمد اور اور آپ کا شکر کروں ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی) تشریح معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر و فاقہ کی جس حالت میں زندگی گزاری ، وہ اپنے لئے خود آپ نے پسند کی تھی ، اور اپنے اللہ سے آپ نے اس کو خود مانگا تھا ۔ (آپ کی معیشت سے متعلق حدیثیں عنقریب ہی مستقل عنوان کے تحت درج کی جائیں گی) ۔

【50】

سب سے زیادہ قابلِ رشک بندہ

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میرے دوستوں میں بہت زیادہ قابل رشک میرے نزدیک وہ مومن ہے ، جو سبک بار (یعنی دنیا کے ساز و سامان اور مال و عیال کے لحاظ سے بہت ہلکا پھلکا) ہو ، نماز اس کا بڑا حصہ ہو ، اور اپنے رب کی عبادت خوبی کے ساتھ اور صفتِ احسان کے ساتھ کرتا ہو ، اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری اس کا شعار ہو ، اور یہ سب کچھ اخفا کے ساتھ اور خلوت میں کرتا ہو ، اور وہ چھپا ہوا اور گمنامی کی حالت میں ہو ، اور اس کی طرف انگلیوں سے اشارے نہ کئے جاتے ہوں ، اور اس کی روزی بھی بقدر کفاف ہو ، اور وہ اس پر صابر و قانع ہو ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کی چٹکی بجائی (جیسے کہ کسی چیز کے ہو جانے پر اظہارِ تعجب یا اظہار حیرت کے لیے چٹکی بجاتے ہیں) اور فرمایا جلدی آگئی اس کو موت ، اور اس پر رونے والیاں بھی کم ہیں ، اس کا ترکہ بھی بہت تھوڑا ہے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ میرے دوستوں اور اللہ کے مقبول بندوں کے الوان و احوال مختلف ہیں ، لیکن ان میں بہت زیادہ قابلِ رشک زندگی ان اہلِ ایمان کی ہے ، جن کا حال یہ ہے کہ دنیا کے ساز و سامان اور مال و عیال کے لحاظ وسے وہ بہت ہلکے ، مگر نماز اور عبادات میں ان کا خاص حصہ ، اور اس کے باوجود ایسے نامعروف اور گمنام کہ آتے جاتے کوئی ان کی طرف انگلی اٹھا کے نہیں کہتا کہ یہ فلاں بزرگ اور فلاں صاحب ہیں ، اور ان کی روزی بس بقدرِ کفاف ، لیکن وہ اس پر دل سے صابر و قانع ۔ جب موت کا وقت آیا ، تو ایک دم رخصت ، نہ پیچھے زیادہ مال و دولت اور نہ جائداد و مکانات اور باغات کی تقسیم کے جھگڑے ، اور نہ زیادہ ان پر رونے والیاں ۔ بلاشبہ بڑی قابل رشک ہے اللہ کے ایسے بندوں کی زندگی ، اور الحمدللہ کہ اس قسم کی زندگی والوں سے ہماری یہ دنیا اب بھی خالی نہیں ہے ۔

【51】

خوش حالی چاہنے والی بیوی کو ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کا جواب

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کی بیوی ام الدرداء سے روایت ہے کہ میں نے ابو الدرداء سے کہا ، کہ : کیا بات ہے ، تم مال و منصب کیوں نہیں طلب کرتے ، جس طرح کہ فلان اور فلاں طلب کرتے ہین ، انہوں نے فرمایا ، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، کہ تمہارے آگے ایک بڑی دشوار گذار گھاٹی ہے ، اس کو گراں بار اور زیادہ بوجھ والے آسانی سے پار نہ کر سکیں گے ۔ اس لئے میں یہی پسند کرتا ہوں کہ اس گھاٹی کو عبور کرنے کے لیے ہلکا پھلکا رہوں (اس وجہ سے میں اپنے لئے مال و منصب طلب نہیں کرتا) ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخیر دورِ حیات میں ، اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کے زمانہ میں ایسی صورتیں پیدا ہو گئی تھیں کہ مختلف راہوں سے اموال آتے تھے ، اور طالبین اور اہلِ حاجت کو تقسیم کئے جاتے تھے ، اسی طرح بہت سے لوگوں کو خاص خدمات اور مناصب پر مقرر کیا جاتا تھا ، اور ان کو اس خدمت اور کارکردگی پر وظیفہ ملتا تھا ، جس سے ان کا گذارہ آسان ہو جاتا تھا ۔ لیکن بعض صحابہ کرامؓ اس زمانہ میں بھی فقر و فاقہ کی زندگی ہی کو اپنے لیے پسند کرتے تھے ، ان ہی میں سے حضرت ابو الدرداءؓ بھی تھے ، وہ آخرت کے محاسبہ اور محاسبہ اور محشر کی تکلیفوں اور سختیوں سے امن اسی میں سمجھتے تھے کہ دنیا سے کم سے کم حصہ لیا جائے ، ا ور بس کسی طرح زندگی بسر ہو جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتلایا تھا کہ آخرت کی دشوار گذار گھاٹیوں کو وہ ہی لوگ آسانی سے عبور کر سکیں گے جو دنیا میں ہلکے پھلکے رہیں گے ، اور جو لوگ دنیا مین اپنے اوپر زیادہ بوجھ لاد لیں گے ، وہ آسانی سے ان گھاٹیوں کو پار نہ کر سکیں گے ۔

【52】

موت اور افلاس میں خیر کا پہلو

محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دو چیزیں ایسی ہیں جن کو آدمی ناپسند ہی کرتا ہے (حالانکہ ان میں اس کے لیے بڑی بہتری ہوتی ہے) ایک تو وہ موت کو پسند نہیں کرتا ، حالانکہ موت اس کے لیے فتنہ سے بہتر ہے ، اور دوسرے وہ مال کی کمی اور ناداری کو نہیں پسند کرتا ، حالانکہ مال کی کمی آخرت کے حساب کو بہت مختصر اور ہلکا کرنے والی ہے ۔ (مسند احمد) تشریح واقعہ یہی ہے کہ ہر آدمی موت سے اور ناداری و افلاس سے گھبراتا ہے اور ان سے بچنا چاہتا ہے حالانکہ موت اس لحاظ سے بڑی نعمت ہے ، کہ مرنے کے بعد آدمی دنیا کے دین سوز فتنوں سے مامون و محفوظ ہو جاتا ہے ، اور مال و دولت کی کمی اس لحاظ سے بڑی نعمت ہے کہ ناداروں اور مفلسوں کو آخرت مین بہت مختصر حساب دینا ہو گا ، اور وہ اس سخت مرحلہ سے بڑی جلدی اور آسانی سے فارغ ہو جائیں گے ۔ جب انسان افلاس و ناداری کی مصیبت میں گرفتار ہو ، یا کسی عزیز قریب کی موت کا صدمہ اس کو پہنچا ہو ، تو اس وقت وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرح کے ارشادات سے بڑی تسکین اور تسلی حاصل کر سکتا ہے ۔

【53】

موت اور افلاس میں خیر کا پہلو

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کو اپنا وہ مومن بندہ بہت پیارا اور محبوب ہے جو غریب و نادار اور عیال دار ہو ، اور اس کے باوجود باعفت ہو (یعنی ناجائز طریقے سے پیسہ حاصل کرنے سے اور کسی کے سامنے اپنی ضروریات ظاہر کرنے سے بھی پرہیز کرتا ہو) ۔ تشریح بلا شبہ جو شخص افلاس اور فقر و فقہ کی حالت میں بھی محرمات و مشتبہات سے اپنی حفاظت کرے ، اور اپنی تنگ حالی کا اظہار بھی نہ کرے ، وہ بڑا باہمت اور اللہ کا پیارا بندہ ہے ۔ جو بندگانِ خدا اس دنیا میں تنگ حالی و ناداری میں مبتلا کئے گئے ہیں اور غریبی اور فقر و فاقہ کی زندگی گذار رہے ہیں ، کاش ! وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان حدیثوں سے تسلی اور سبق حاصل کریں ، اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم والی ، جو فقیرانہ و غریبانہ زندگی نصیب فرمائی ہے ، اس کو اپنے حق میں نعمت سمجھ کر صابر و شاکر رہیں ، تو فقر و فاقہ کی تکلیفیں ہی ان کے لیے سامانِ راحت و لذت بن جائیں ۔

【54】

اپنی بھوک اور حاجتمندی کو لوگوں سے چھپانے والے کے لیے اللہ کا وعدہ

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص بھوکا ہو ، یا اس کو کوئی اور خاص حاجت ہو ، اور وہ اپنی اس بھوک اور حاجت کو لوگوں سے چھپائے (یعنی اُن کے سامنے ظاہر کر کے ان سے سوال نہ کرے) تو اللہ عز وجل کے ذمہ ہے ، کہ اس کو حلال طریقے سے ایک سال کا رزق عطا فرمائے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح اللہ کے ذمہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے اپنا یہ دستور مقرر فرما لیا ہے ، اور جو بندہ بھی اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ پر اور اس کی شانِ کریمی پر دل کے پورے یقین کے ساتھ اس کا تجربہ کرے گا ، ان شاء اللہ وہ اس کا ظہور اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا ۔

【55】

زہد اختیار کرو ، اللہ کے ، اور بندوں کے محبوب بن جاؤ گے

سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا ، اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے ایسا کوئی عمل بتلائیے کہ جب میں اس کو کروں ، تو اللہ بھی مجھ سے محبت کرے ، اور اللہ کے بندے بھی مجھ سے محبت کریں ، آپ نے فرمایا ، کہ : دنیا کی طرف سے اعراض اور بے رخی اختیار کر لو ، تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا ، اور جو (مال و جاہ) لوگوں کے پاس ہے اس سے اعراض اور بے رُخی اختیار کر لو ، تو لوگ تم سے محبت کرنے لگیں گے ۔ (ترمذی و ابن ماجہ) تشریح زُہد اور اُس کے ثمرات و برکات زُہد کے لغوی معنی کسی چیز سے بے رغبت ہو جانے کے ہیں ، اور دین کی خاص اصطلاح میں آخرت کے لیے دنیا کے لذائذ و مرغوبات کی طرف سے بے رغبت ہو جانے اور عیش و تنعم کی زندگی ترک کر دینے کو زہد کہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے بھی اور اپنے ارشادات میں بھی امت کو زہد کی بڑی ترغیب دی ہے ، اور اس کے بہت کچھ دینوی و اخروی ثمرات و برکات بیان فرمائے ہیں ۔ یہ واقعہ ہے کہ دنیا کی محبت اور چاہت ہی آدمی سے وہ سارے کام کراتی ہے ، جن کی وجہ سے وہ خدا کی محبت کے لائق نہیں رہتا ، اس لیے اللہ کی محبت حاصل کرنے کی راہ یہی ہے کہ دنیا کی چاہت اور رغبت دل میں نہ رہے ، جب دنیا کی محبت دل سے نکل جائے گی ، تو دل اللہ کی محبت کے لیے فارغ ہو جائے گا ، اور پھر اس کی اطاعت اور فرمانبرداری ایسی خالص ہونے لگے گی ، کہ وہ بندہ اللہ کو محبوب اور پیارا ہو جائے گا ۔ اس طرح جب کسی بندہ کے متعلق عام طور سے لوگ یہ جان لیں کہ یہ ہماری کسی چیز میں حصہ نہیں چاہتا ، نہ یہ مال کا طالب ہے ، نہ کسی عہدہ اور منصب کا ، تو پھر لوگوں کا اس سے محبت کرنا گویا انسانی فطرت کا لازمہ ہے ۔ فائدہ ۔ ۔ ۔ زہد کے بارے میں یہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ جس شخص کے لیے دنیا کی لذتیں اور راحتیں حاصل کرنے کے مواقع ہی نہ ہوں ، اور اس مجبوری کی وجہ سے وہ دنیا میں عیش نہ کرتا ہو ، وہ زاہد نہیں ہے ، زاہد وہ ہے جس کے لیے دنیا کے عیش و تنعم کے پورے مواقع میسر ہوں ، مگر اس کے باوجود وہ اس سے دل نہ لگائے اور متنعمین کی سی زندگی نہ گذارے ۔ کسی شخص نے حضرت عبداللہ بن مبارک کو زاہد کہہ کے پکارا ، انہوں نے فرمایا ، کہ : زاہد تو عمر بن عبدالعزیز تھے ، کہ خلیفہ وقت ہونے کی وجہ سے دنیا گویا ان کے قدموں میں تھی ، لیکن انہوں نے اس سے حصہ نہیں لیا ۔

【56】

زاہدوں کی صحبت میں رہا کرو

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابو خلادؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم کسی بندہ کو اس حال میں دیکھو کہ اس کو زُہد ، یعنی دنیا کی طرف سے بے رغبتی و بے رُخی اور کم سخنی (یعنی لغو اور فضول باتوں سے زبان کو محفوظ رکھنے کی صفت) اللہ نے نصیب فرمائی ہے تو اس کے پاس اور اس کی صحبت میں رہا کرو ، کیوں کہ جس بندے کا یہ حال ہوتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکمت کا القا ہوتا ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح حکمت کے القا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقتوں کو صحیح طور پر سمجھتا ہے اور اس کی زبان سے وہی باتیں نکلتی ہیں جو صحیح اور نافع ہوتی ہیں ، اس لئے اس کی صحبت کیمیا اثر ہوتی ہے ۔ قرآن مجید میں حکمت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ : وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا جس کو حکمت عطا کی جائے ، اس کو خیر کثیر عطا کیا گیا ۔

【57】

اللہ تعالیٰ کی طرف سے زاہد بندوں کو نقد صلہ

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو بندہ بھی زہد اختیار کرے (یعنی دنیا کی رغبت و چاہت اپنے دل سے نکال دے ، اور اس کی خوش عیشی و خوش باشی کی طرف سے بے رغبتی اور بے رخی اختیار کر لے) تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کے دل میں حکمت کو اگائے گا ، اور اس کی زبان پر بھی حکمت کو جاری کرے گا ، اور دنیا کے عیوب اور اس کی بیماریاں اور پھر اس کا علاج معالجہ بھی اس کو آنکھوں سے دکھا دے گا ، اور دنیا سے اس کو سلامتی کے ساتھ نکال کر جنت میں پہنچا دے گا ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح اوپر کی حدیث سے بھی معلوم ہوا تھا کہ دنیا میں جو شخص زہد اختیار کرے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو حکمت القا کی جاتی ہے ، حضرت ابوذر غفاریؓ کی اس حدیث سے اس کی اور زیادہ تفصیل اور تشریح معلوم ہوئی ، اس حدیث میں : أَثْبَتَ اللهُ الْحِكْمَةَ فِي قَلْبِهِ اللہ اس کے دل میں حکمت اگاتا ہے کے بعد جو کچھ فرمایا گیا ہے ، وہ گویا اسی حکمت کی تفصیل و تشریح ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ زہد اختیار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی دنیا میں پہلا نقد صلہ یہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے قلوب میں حکمت اور معرفت کا تخم ڈال دیتا ہے ، جو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت سے نشونما پاتا رہتا ہے ، اور ترقی کرتا رہتا ہے ، اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی زبانوں سے حکمت ہی کا چشمہ جاری رہتا ہے ، اور دنیا کے عیوب و امراض گویا ان کو آنکھوں سے دکھا دئیے جاتے ہیں ، اور ان کے علاج معالجہ میں بھی ان کو خاص بصیرت عطا ہوتی ہے ۔ اور دوسرا خاص انعام ان بندوں پر یہ ہوتا ہے کہ ان کو ایمان اور تقویٰ کی سلامتی کے ساتھ اللہ تعالیٰ اس دنیا سے اٹھاتا ہے اور وہ اس فانی دنیا سے نکال کر جاودانی عالم میں یعنی دارالسلام جنت میں پہنچا دئیے جاتے ہیں ۔

【58】

خاصانِ خدا عیش و تنعم کی زندگی نہیں گذارتے

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو یمن کی طرف روانہ کیا تو نصیحت فرمائی کہ معاذ آرام طلبی اور خوش عیشی سے بچتے رہنا اللہ کے خاص بندے آرام طلب اور خوش عیش نہیں ہوا کرتے ۔ (مسند احمد) تشریح دنیا میں آرام و راحت اور خوش عیشی کی زندگی گذارنا اگرچہ حرام اور ناجائز نہیں ہے لیکن اللہ کے خاص بندوں کا مقام یہی ہے کہ وہ دنیا میں تنعم کی زندگی اختیار نہ کریں : اللهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَهْ .

【59】

جب کسی بندہ کو شرح صدر کی دولت نصیب ہوتی ہے تو اس کی زندگی میں دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی فکر نمایاں ہو جاتی ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : “ فَمَنْ يُرِدِ اللهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ” (جس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے لیے اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ اس کو اپنی راہ پر لگائے اور اپنی رضا اور اپنا قرب نصیب فرمائے ، تو کشادہ کر دیتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے یعنی عبدیت اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری والی زندگی کے لیے اس کا دل کھول دیا جاتا ہے) یہ آیت تلاوت فرمانے کے بعد اس کی تفصیل اور تشریح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ : نور جب سینہ میں آتا ہے تو سینہ اس کی وجہ سے کھل جاتا ہے ۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! کیا اس حالت کی کوئی علامت بھی ہے جس سے اس کو پہچانا جائے ۔ آپ نے فرمایا کہ : ہاں ! دنیا جو دھوکے فریب کی جگہ ہے اس سے طبیعت کا ہٹ جانا اور اُچاٹ ہو جانا (یعنی توبہ و استغفار ، اور معاصی سے اجتناب ، اور عبادت کی کثرت کے ذریعہ موت کی تیاری کرنا) ۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندہ کو اپنی خاص عبدیت سے نوازنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک خاص نور اور جذبہ ربانی پیدا کر دیتا ہے ، جس سے اس کا سینہ عبدیت والی زندگی کے لیے کھل جاتا ہے ، اور پھر اس کے نتیجہ میں دنیا سے بے رغبتی و بے رخی اور آخرت کی فکر اور اللہ تعالیٰ کی لقا اور جنت کا شوق اور اس کی تیاری یہ ساری چیزیں اس کی زندگی میں ابھر جاتی ہیں ، اور ان کے ذریعہ اس بات کو جانا جا سکتا ہے کہ اس بندہ کو وہ خاص نور نصیب ہو گیا ، اور جذبہ ربانی اس کے دل میں ڈال دیا گیا ہے ۔

【60】

اس امت کے صلاح کی بنیاد یقین اور زہد ہے

روایت ہے عمرو بن شعیب سے ، وہ روایت کرتے ہیں اپنے والد شعیب سے اور وہ روایت کرتے ہیں اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : اس امت کی پہلی نیکی اور بہترین یقین اور زُہد ہے اور اس کی پہلی خرابی بخل اور دنیا میں زیادہ رہنے کی آرزو ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ اس امت کی صلاح و فلاح اور اس کے کمالات و ترقیات کی بنیاد اس کی دو صفتیں تھیں ، ایک یقین اور دوسری زہد ، اور جب امت میں بگاڑ شروع ہو گا تو سب سے پہلے یہی دو صفتیں اس میں سے جائیں گی ، اور ان کی ضد بخل اور دنیا میں زیادہ رہنے کی آرزو آئے گی ، اور اس کے بعد خرابیوں اور برائیوں کا نہ ختم ہونے ولا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور امت برابر گرتی ہی چلی جائے گی ۔ شارحین نے جیسا کہ لکھا ہے : اس حدیث میں یقین سے مراد خاص اس حقیقت کا یقین ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ کسی کو ملتا ہے اور جو اچھی یا بری حالت کسی پر آتی ہے وہ اللہ کی طرف سے اور اللہ کے فیصلہ سے آتی ہے (۱) اور زہد کا مطلب جیسا کہ پہلے بھی معلوم ہو چکا ہے یہ ہے کہ دنیا سے دل نہ لگایا جائے ، اور اس کی ناپائیدار لذتوں اور راحتوں کو مطلوب و مقصود نہ بنایا جائے ، اور اس یقین اور زہد کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے حاصل ہو جانے کے بعد آدمی اللہ کے راستے میں اور اعلیٰ مقاصد کے لئے جان و مال خرچ کرنے میں بخل نہیں کرتا ، یعنی صاحبِ یقین اور زاہد کے لیے کسی اچھے مقصد کے لیے اور اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ مال خرچ کر دینا اور خطرات مین کود پڑنا آسان ہو جاتا ہے ، اور یہی مومن کی ساری ترقیوں کی کنجی ہے ، اور جب مومن ان صفات سے خالی ہو جائے ، یعنی بجائے اللہ پر یقین کے اس کا یقین اپنے مال پر ہو جائے ، اور وہ سمجھنے لگے کہ اگر مال میرے پاس ہو گا تو زندگی اچھی گذرے گی ، اور مال نہ ہو گا تو میں تکلیفوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہو جاؤں گا ، تو اس مین ضرور بخل پیدا ہو جائے گا ، اور اسی طرح جب زہد کی صفت اس میں نہ رہے گی اور دنیا اس کی مطلوب و مقصود بن جائے گی تو اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ رہنے کی خواہش لازماً اس کے دل میں پیدا ہو جائے گی جس کو حدیث میں امل سے تعبیر کیا گیا ہے ، اور ظاہر ہے کہ بخل اور امل پیدا ہو جانے کے بعد مومن اپنے اصل مقام سے گرتا ہی چلا جائے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی خاص غرض و غایت اور اس میں امت کے لیے خاص ہدایت یہ ہے کہ امت کی صلاح و فلاح کے لیے ضروری ہے کہ اس میں یقین اور زہد کی صفات پیدا کرنے کی اور ان ایمانی صفات کی حفاظت کی پوری فکر اور جدو جہد کی جائے ، اور بخل اور امل (یعنی دنیا میں زیادہ رہنے کی آرزو) جیسی غیر ایمانی صفات سے اپنے قلوب کی حفاظت کی جائے ، امت کی صلاح و فلاح اسی سے وابستہ ہے ۔

【61】

زہد کیا ہے ، اور کیا نہیں

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : دنیا کے بارے میں زہد اور اس کی طرف سے بے رغبتی (جو خاص ایمانی صفت ہے) وہ حلال کو اپنے اوپر حرام کرنے اور اپنے مال کو برباد کرنے کا نام نہیں ہے ، بلکہ زہد کا اصل معیار اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس اور تمہارے ہاتھ میں ہو ، اس سے زیادہ اعتماد اور بھروسہ تم کو اس پر ہو جو اللہ کے پاس اور اللہ کے قبضہ میں ہے ، اور یہ کہ جب تم کو کوئی تکلیف اور ناخوش گواری پیش آئے تو اس کے اخروی ثواب کی چاہت اور رغبت تمہارے دل میں زیادہ ہو بہ نسبت اس خواہش کے کہ وہ تکلیف اور ناگواری کی بات تم کو پیش ہی نہ آتی ۔ (ترمذی و ابن ماجہ) تشریح بہت سے لوگ ناواقفی سے زہد کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ آدمی دنیا کی سارنی نعمتوں ، راحتوں اور لذتوں کو اپنے اوپر حرام کر لے ، نہ کبھی لذیذ کھانا کھائے ، نہ ٹھنڈا پانی پئیے ، نہ اچھا کپڑا پہنے ، نہ کبھی اچھے نرم بستر پر سوئے اور اگر کہیں سے کچھ آ جائے تو اس کو بھی اپنے پاس نہ رکھے ، خواہ جلدی سے کہیں پھینک ہی دے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اسی غلط خیالی کی اصلاح فرمائی ہے ، آپ کے ارشاد کا حاصل یہ ے کہ زہد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے اپنی جن نعمتوں کا استعمال بندوں کے لئے حلال کیا ہے ، آدمی ان کو اپنے اوپر حرام کر لے ، اور اگر روپیہ پیسہ ہاتھ میں آئے تو اسے برباد کر دے ، بلکہ زہد کا اصل معیار اور تقاضا یہ ہے کہ جو اس دنیا میں اپنے پاس اور اپنے ہاتھ میں ہو اس کو فانی اور ناپائیدار یقین کرتے ہوئے اس پر اعتماد اور بھروسہ نہ کرے ، اور اس کے مقابلہ میں اللہ کے غیر فانی غیبی خزانوں پر اور اس کے فضل پر زیادہ اعتماد اور بھروسہ کرے ، اور دوسرا معیار اور دوسری علامت زہد کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب کوئی تکلیف اور مصیبت بندہ کو پہنچ جائے تو اس کے اُخروی اجر و ثواب کی چاہت اور رغبت اس کے دل میں اس مصیبت اور تکلیف کے نہ پہنچنے کی آرزو سے زیادہ ہو یعنی بجائے اس کے کہ اس کا دل اس وقت یہ کہے کہ کاش یہ تکلیف مجھے نہ پہنچی ہوتی ، اس کے دل کا احساس یہ ہو کہ آخرت میں مجھے اس تکلیف کا جو اجر و ثواب ملے گا ، ان شاء اللہ وہ تکلیف نہ پہنچنے کے مقابلے میں میرے لیے ہزاروں درجہ بہتر ہو گا ۔ اور ظاہر ہے کہ آدمی کا یہ حال جب ہی ہو سکتا ہے جب کہ اس کو عیش دنیا کے مقابلہ میں عیش آخرت کی زیادہ فکر ہو ، اور یہی زہد کی اصل و اساس ہے ۔ اس حدیث سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ بندوں کو اس دنیا میں عافیت اور راحت کے بجائے تکلیف اور مصیبت کی تمنا اور اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کرنی چاہئے ! دوسری حدیثوں میں اس سے صریح ممانعت آئی ہے اور صحیح روایات میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کو ہمیشہ تاکید فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے عافیت اور خیریت ہی کی دعا اور استدعا کیا کرو (سلوا الله العافية) اور خود آپ کا معمول و دستور بھی یہی تھا ، پس حضرت ابوذرؓ کی مندرجہ بالا حدیث کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ بندہ اس دنیا میں مصائب اور تکالیف کی دعا یا تمنا کرے ، بلکہ اس کا مطلب و مدعا صرف یہ ہے کہ جب اللہ کے حکم سے کوئی مصیبت یا تکلیف بندہ کو پہنچ جائے تو پھر مومن کا مقام اور زہد کا تقاضا یہ ہے کہ اس مصیبت یا تکلیف کا جو اجر و ثواب آخرت میں ملنے ولا ہے وہ اس کو اس کے نہ پہنچنے سے زیادہ محبوب و مرغوب ہو ان دونوں باتوں کے فرق کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ۔

【62】

زہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : اپنے اور اپنے خاص متعلقین کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فقر پسندی

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں دنیا سے اٹھانا اور مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر فرما ۔ (جامع ترمذی و شعب الایمان للبیہقی اور ابن ماجہ نے اسی کو ابو سعید خدرؓ سے روایت کیا ہے) تشریح ابھی چند صفحے پہلے یہ حدیث گذر چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پیشکش کی گئی ، کہ اگر آپ چاہیں تو آپ کے لیے مکہ کی ودی کو سونے سے بھر دیا جائے تو آپ نے عرض کیا : نہیں میرے پروردگار ! میں تو ایسی فقیرانہ زندگی چاہتا ہوں کہ ایک دن کھانے کو ہو ، اور ایک دن کھانے کو نہ ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچ سمجھ کر اپنے لئے فقیرانہ زندگی کو پسند فرمایا تھا اور یہی آپ کی حقیقت شناس مبارک طبیعت کا بھی میلان تھا اور اس مین کوئی شبہ نہیں کہ آپ کا جو مقام و منصب تھا ، اور جو کارِ عظیم آپ سے متعلق تھا اُس کے لئے یہ فقر و مسکنت کی زندگی ہی زیادہ مناست و بہتر تھی ۔ اور اگر اللہ تعالیٰ قناعت و طمانیت اور رضا و تسلیم نصیب فرمائے تو بندوں کے لئے عام طور سے بھی دینی اور آخرتی نقطہ نظر سے بہ نسبت دولتمندی کے فقر و ناداری کی زندگی ہی افضل اور بہتر ہے ۔

【63】

زہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : اپنے اور اپنے خاص متعلقین کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فقر پسندی

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ، کہ : اے اللہ ! محمد کے متعلقین کی روزی بس بقدر کفاف ہو ۔ (بخاری و مسلم) تشریح اصل عربی زبان میں آل کا لفظ گھر والوں یعنی بیوی بچوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، اور متبعین کے لیے بھی ، لیکن اس دعا میں بظاہر آپ کی مراد آپ کے گھر والے ہی ہیں ، اسی لئے ہم نے اس کا ترجمہ متعلقین سے کیا ہے ، قوت اور کفاف دونوں کا مطلب قریب قریب یہی ہے کہ روزی بس اتنی ہو کہ زندگی کا نظام چلتا رہے ، نہ اتنی تنگی ہو کہ فاقہ زدگی اور پریشان حالی کی وجہ سے اپنے متعلقہ کام بھی نہ انجام دئیے جا سکیں اور دستِ سوال کسی کے سامنے پھیلانا پڑے ، اور نہ اتنی فراغت ہو کہ کل کے لیے بھی ذخیرہ رکھا جا سکے ۔ احادیث و سیر کی شہادت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اسی طرح گذری ہے ۔

【64】

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے گھر والوں نے کبھی دو دن جو کی روٹی سے پیٹ نہیں بھرا

حضرت عاوئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے جَو کی روٹی سے بھی دو دن متواتر پیٹ نہیں بھرا ، یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے اٹھا لئے گئے ۔ (بخاری و مسلم) تشریح مطلب یہ ے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں ایسا نہیں ہوا کہ آپ کے اہل و عیال نے دو دن متواتر جَو کی روٹی بھی پیٹ بھر کھائی ہو ، اگر ایک دن پیٹ بھر کھایا تو دوسرے دن بھوکے رہے ۔

【65】

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے گھر والوں نے کبھی دو دن جو کی روٹی سے پیٹ نہیں بھرا

سعید مقبری حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کا گذر کچھ لوگوں پر ہوا (جو کھانے پر بیٹھے تھے) اور ان کے سامنے بُھنی ہوئی بکری رکھی ہوئی تھی ، ان لوگوں نے حضرت ابو ہریرہؓ سے بھی کھانے میں شریک ہونے کی استدعا کی ، تو آپ نے انکار کر دیا ، اور بطور معذرت کہا کہ (میرے لئے اس کھانے میں کیا مزہ ہے جب کہ مجھے معلوم ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے اس حال میں تشریف لے گئے کہ جَو کی روٹی سے بھی آپ نے پیٹ نہیں بھرا ۔ (بخاری)

【66】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں جو تکلیفیں اٹھائیں وہ کسی نے بھی نہیں اٹھائیں

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے راستہ میں مجھے اتنا ڈرایا دھمکایا گیا کہ کسی اور کو اتنا نہیں ڈرایا گیا ، اور اللہ کے واستہ میں مجھے اتنا ستایا گیا کہ کسی اور کو اتنا نہیں ستایا گیا ، اور ایک دفعہ تیس (۳۰) دن رات مجھ پر اس حال میں گذرے کہ میرے اور بلال کے لئے کھانے کی کوئی ایسی چیز نہ تھی جس کو کوئی جاندار کھا سکے بجز اس کے جو بلال نے اپنی بغل میں دبا رکھا تھا ۔ (جامع ترمذی) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو سبق دینے کے لیے آپ بیتی سنائی کہ دین کی دعوت اور اللہ کا پیغام پہنچانے کے سلسلے میں مجھے ایسی ایسی مصیبتوں سے گذرنا پڑا ہے ، دشمنوں نے مجھے اتنا ڈرایا دھمکایا کہ میرے سوا کسی کو اتنا نہیں ڈرایا دھمکایا گیا ، اور جب میں نے ان کی دھمکیوں کا اثر نہیں لیا ، اور دین کی دعوت دیتا ہی رہا ، تو اُن ظالموں نے مجھے اتنا ستایا اور ایسی ایسی تکلیفیں دیں کہ میرے سوا کسی کو ایسی تکلیفوں سے گذرنا پڑا ، اور بھوک اور فاقہ کی تکلیف بھی اتنی اٹھائی کہ ایک دفعہ پورے مہینہ کے تیس دن رات اس حالت میں گزر گئے کہ کھانے کی کوئی چیز نہ تھی ، بجز اس کے کہ بلال نے اپنی بغل میں کچھ دبا رکھا تھا ، پورے مہینہ مجھے اور بلال کو اسی پر گذارہ کرنا پڑا ۔

【67】

دو دو مہینے تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چولہا ٹھنڈا رہتا تھا

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عروہؓ سے فرمایا : میرے بھانجے ! ہم (اہل بیت نبوت اس طرح گذارہ کرتے تھے کہ) کبھی کبھی لگاتار تین تین چاند دیکھ لیتے تھے (یعنی کامل دو مہینے گذر جاتے تھے) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں چولہا گرم نہ ہوتا تھا (عروہ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا کہ پھر آپ لوگوں کو کیا چیز زندہ رکھتی تھی ؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا بس کھجور کے دانے اور پانی (ان ہی پر ہم جیتے تھے) البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض انصاری پڑوسی تھے ، ان کے ہاں دودھ دینے والے جانور تھے ، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ بطور ہدیہ کے بھیجا کرتے تھے ، اور اس میں سے آپ ہم کو بھی دے دیتے تھے ۔ (بخاری و مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ تنگی اور ناداری اس قدر تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں پر دو دو مہینے ایسے گزر جاتے تھے کہ کسی قسم کا اناج ، بلکہ پکنے والی کوئی چیز بھی گھر میں نہیں آتی تھی ، جس کی وجہ سے چولہا جلانے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی ، بس کھجور اور پانی پر دن کاٹے جاتے تھے ، یا کبھی پڑوس کے کسی گھر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دودھ آتا ، تو وہ پیٹوں میں پہنچتا تھا ، باقی بس اللہ کا نام !

【68】

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کے گھر والوں کے مسلسل فاقے

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی راتیں پے بہ پے اس حالت میں گزرتی تھیں کہ آپ اور آپ کے گھر والے خالی پیٹ فاتے سے رہتے تھے ، کیوں کہ رات کا کھانا نہیں پاتے تھے (اور جب کھاتے) تو ان کا رات کا کھانا عام طور سے بس جَو کی روٹی ہوتی تھی ۔ (ترمذی)

【69】

جب آپ کی وفات ہوئی تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حال میں وفات پائی کہ آپ کی زرہ ۳۰ صاع جَو کے بدلے ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی ۔ (بخاری) تشریح ہمارے اکثر علماء کی تحقیق یہ ہے کہ ایک صاع قریباً ساڑھے تین سیر کا ہوتا تھا ، اس حساب سے ۳۰ صاع جو قریب ڈھائی من کے ہوئے ۔ حدیث کا مقصد اور منشا یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے بالکل آخری ایام میں بھی (جب کہ قریب قریب پورے عرب کے آپ فرمانروا بھی تھے) آپ کے گھر کے گذارہ خا حال یہ تھا کہ مدینہ کے ایک یہودی کے پاس اپنی قیمتی زرہ رہن رکھ کر آپ نے صرف ۳۰ صاع جَو وفات سے کچھ ہی پہلے قرض لئے تھے ۔ مسلمانوں کو چھوڑ کر کسی یہودی سے قرض لینے کی مصلحت مدینہ کے مسلمانوں میں بھی ایسے متعدد افراد ہونے کے باوجود جن سے ایسے چھوٹے چھوٹے قرضے غالباً ہر وقت لئے جا سکتے تھے ، کسی یہودی سے قرض لینے کی چند مصلحتیں ہو سکتی ہیں : ایک یہ کہ آپ نہیں چاہتے تھے کہ اپنے اہل محبت اور نیاز مندوں میں سے کسی کو اس حالت اور اس قسم کی ضرورت کا علم ہو ، کیوں کہ پھر وہ بجائے قرض کے ہدیہ وغیرہ کے ذریعے آپ کی خدمت کرنا چاہتے اور اس سے ان پر بار پڑتا ، نیز اس صورت میں ان سے قرض منگوانے میں ایک قسم کی طلب اور تحریک ہو جاتی ۔ اور غالباً دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ اس شبہ اور شائبہ سے بھی بچنا چاہتے تھے ، کہ آپکے ذریعہ اہل ایمان کو دین کی جو دولت ملی ، اس کے عوض آپ کوئی حقیر سے حقیر بھی دنیوی فائدہ ان سے اٹھائیں ، اسلئے مجبوری اور ضرورت کے موقع پر آپ قرض بھی غیر مسلموں سے لینا چاہتے تھے ۔ تیسری مصلحت اس سے غالباً یہ بھی تھی کہ لین دین کے یہ تعلقات غیر مسلموں سے رکھنے میں ان کی آمدورفت اور ملنے جلنے کے مواقع پیدا ہوتے تھے اور اس کا راستہ کھلتا تھا ، کہ وہ لوگ آپ کو اور آپ کی سیرت کو جانیں اور جانچیں اور ایمان اور رضائے الہی کی دولت سے وہ بھی بہرہ یاب ہوں ۔ چنانچہ یہ نتائج ظہور میں بھی آئے ، مشکوٰۃ ہی میں امام بیہقی کی “ دلائل النبوۃ ” کے حوالہ سے مدینہ کے ایک بڑے دولتمند یہودی کا یہ واقعہ مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ قرض لیا تھا ، وہ تقاضہ کو آیا ، تو آپ نے عذر کیا کہ اس وقت ہم خالی ہاتھ ہیں اس لئے تمہارا قرضہ ادا کرنے سے آج مجبور ہیں ، اس نے کہا کہ میں تو لئے بغیر نہیں جاؤں گا ۔ چنانچہ جم کے وہیں بیٹھ گیا ، یہاں تک کہ پورا دن گزر گیا اور رات بھی گزر گئی ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دوران میں اس یہودی کی موجودگی ہی میں ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء اور فجر کی نمازیں ادا فرمائیں ، اور وہ نہیں ٹلا ، بعض صحابہ کو اس کی یہ حرکت بہت ناگوار ہوئی اور انہوں نے چپکے چپکے اس کو ڈرایا دھمکایا ، تا کہ وہ کسی طرح چلا جائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کا پتہ چل گیا تو آپ نے فرمایا ، کہ مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ کسی معاہد پر کوئی ظلم و زیادتی نہ ہو ، یہ سُن کر ان صحابہ کو بھی خاموش ہو جانا پڑا ، پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد اس یہودی نے کہا ، کہ دراصل میں روپیہ کے تقاضے کے لئے نہیں آیا تھا ، بلکہ میں دیکھنا اور جانچنا چاہتا تھا کہ وہ اوصاف و علامات آپ میں موجود ہیں یا نہیں جو تورات میں آخری زمانے میں آنے والے پیغمبر کے بیان کئے گئے ہیں ، اب میں نے دیکھ لیا اور مجھے یقین ہوگیا کہ آپ ہی وہ نبی موعود ہیں ، اس کے بعد اس نے کلمہ شہادت پڑھا ا ور اپنی ساری دولت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر کے عرض کیا “ هذا مالى فاحكم فيه بما اراك الله ” یہ میرا سارا مال حاضر ہے ، اب آپ اللہ کی تعلیم و ہدایت کے مطابق اس کے بارے میں جو چاہیں فیصلہ فرمائیں ، اور جس مصرف میں چاہیں اس کو صرف فرمائیں ۔ (مشکوٰۃ باب فی اخلاقہ وشمائلہ صلی اللہ علیہ وسلم)

【70】

خوشحالی کے لیے دُعا کی درخواست پر حضرت عمرؓ کو آپ کا جواب

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو ااس حالت میں دیکھا کہ کھجور کے پٹھوں سے بُنی ہوئی چٹائی پر آپ لیٹے ہوئے ہیں ، اور اس کے اور آُ کے جسم مبارک کے درمیان کوئی بستر نہیں ہے ، اور چٹائی کی بناوٹ نے آپ کے پہلوئے مبارک پر گہرے نشانات ڈال دئیے ہیں اور سرہانے چمڑے کا تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال کوٹ کے بھری ہوئی ہے ، یہ حالت دیکھ کے میں نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ آپ کی امت کو فراخی اور خوش حالی عطا فرمائے ، روم اور فارس والوں کو بھی اللہ نے فراخی دی ہے ، حالانکہ وہ تو خدا پرست بھی نہیں ہیں ۔ آ پ نے فرمایا : اب ابن خطاب ! کیا تم بھی اس حال میں اور اس خیال میں ہو ؟ یہ سب تو وہ لوگ ہیں (جو اپنی خدا فراموشی اور کافرانہ زندگی کی وجہ سے آخرت کی نعمتوں سے محروم و بے نصیب کئے گئے ہیں ، اور اس لئے) ان کی وہ لذتیں (جو اللہ ان کو دینا چاہتا تھا) اسی دنیا میں ان کو دے دی گئی ہیں اور ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب اس طرح ذکر گیا گیا ہے ، کہ آپ نے فرمایا اے عمرؓ ! کیا تم اس پر راضی نہیں ، کہ ان کے لیے دنیا کا عیش ہو ، اور ہمارے لئے آخرت کا عیش ۔ (بخاری و مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فقرانہ زندگی اور اس کی تکلیفوں کو دیکھ کر حضرت عمرؓ کا دل دُکھا ، اور یہ آرزو پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اتنی وسعت اور خوش حالی عطا فرما دیتے کہ یہ تکلیفیں نہ دیکھی جاتیں اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جانتے تھے کہ آپ اپنے لئے دنیا کی وسعت اور دولت مندی کی دعا اللہ تعالیٰ سے نہیں کریں گے ، اس لئے عرض یہ کیا کہ حضور اپنی امت کے لئے وسعت اور فراخی کی دعا فرمائیں اور اسی کے ساتھ اپنا یہ خیال بھی ظاہر کر دیا کہ دنیا کی وسعت و دولت جب ایسی معمولی چیز ہے کہ اللہ نے روم و فارس جیسی کافر قوموں کو بھی دے رکھی ہے تو آپ کی دعا سے آپ کی امت کو کیوں نہ عطا فرمائی جائے گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس گذارش پر بطور تنبیہ کے حیرت و استعجاب کے ساتھ فرمایا کہ اے فرزند خطاب کیا تم بھی ابھی حقیقت ناشناسی کے اس مقام پر ہو کہ ایسی بات کرتے ہو ! روم و فارس وغیرہ کی یہ قومیں جو ایمان اور خدا پرستی سے محروم ہیں ، ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ آخرت کی اس زندگی میں جو اصلی اور حقیقی زندگی ہے ان بے چاروں کو کچھ نہیں ملنا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ جو کچھ عیش و راحت ان کو دینا چاہتا تھا ، وہ اسی دنیا میں دے دیا گیا ہے ایسی حالت میں ان کے عیش و آرام اور ان کی دولت مندی کو دیکھ کر اس پر للچانا اور اس کی حرص کرنا ، حقیقت شناسی سے بہت بعید بات ہے ، تم کو تو فکر و طلب بس آخرت کی ہونی چاہئے ، جہاں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے ، یہ دنیا تو بس چند روزہ قیام کی سرائے ہے ، کیا یہاں کی تکلیف اور کیا یہاں کا عیش و آرام ۔

【71】

میں اس دنیا میں اس مسافر کی طرح ہوں جو سایہ کے لیے کسی درخت کے نیچے بیٹھ گیا ہو

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک دن) کھجور کی چٹائی پر سوئے ، پھر جب سو کے آپ اُٹھے ، تو جسم مبارک میں اس چٹائی کی بناوٹ کے نشانات پڑے ہوئے تھے (اس حالت کو دیکھ کر اور اس سے متاثر ہو کر) اس خادم ابن مسعودؓ نے عرض کیا کہ اگر حضور فرمائیں تو ہم حضرت کے لیے بستر کا انتظام کریں اور کچھ بنائیں (یعنی آپ سے اس کی اجازت چاہی) ارشاد فرمایا : مجھے دنیا سے (یعنی دنیا کے ساز و سامان اور اس کی راحتوں اور لذتوں سے) کیا تعلق اور کیا لینا ! میرا تعلق دنیا کے ساتھ بس ایسا ہے جیسا کہ کوئی سوار مسافر کچھ دیر سایہ لینے کے لئے کسی درخت کے نیچے ٹھہرا اور پھر اس کو اپنی جگہ چھوڑ کر منزل کی طرف چل دیا ۔ تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح یہ مسافر درخت کے نیچے ٹھہرنے کے تھوڑے سے وقت کے لیے راحتوں کے انتظامات کرنا ضروری نہیں سمجھتا ، اور منزل مقصود پر پہنچنے کی فکر کے سوا اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی ، بس یہی میرا حال ہے ۔ اور حق یہ ہے کہ دنیا اور آخرت کی حقیقت جس پر پوری طرح منکشف ہو جائے تو اس کا حال اس کے سوا کچھ اور ہو بھی نہیں سکتا ۔ اس کو دنیا میں راحتں کے بڑے بڑے انتظامات کی فکر کرنا ، اور اس کے لیے اپنے وقت اور اپنی صلاحیتوں کا صرف کرنا ایسا ہی کارِ حماقت معلوم ہو گا جیسا کہ درخت کے سایہ میں تھوڑی دیر کے لیے ٹھہرنے والے مسافر کا اس ذرا سے وقت کے لیے بڑے بڑے انتظامات میں مشغول ہونا ۔

【72】

دولت اگر صلاح و تقوے کے ساتھ ہو ، تو وہ بھی اللہ کی نعمت ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سے روایت ہے کہ ہم چند آدمی ایک مجلس میں بیٹھے تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں ہمارے پاس تشریف لے آئے ، اور آپ کے سر مبارک پر اس وقت پانی کا اثر تھا (یعنی معلوم ہوتا تھا کہ آپ نے ابھی غسل فرمایا ہے) تو ہم میں سے کسی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم محسوس کرتے ہیں کہ اس وقت حضور کا مزاج بہت اچھا اور دل بہت خوش ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : ہاں (الحمدللہ ایسا ہی ہے) پھر اہل مجلس دولت مندی اور دنیوی خوشحالی کا کچھ تذکرہ کرنے لگے (کہ وہ اچھی چیز ہے یا بری اور دین اور آخرت کے لیے مضر ہے یا مفید) تو آپ نے اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا کہ : جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے (اور اس کے احکام کی پابندی کرے) اس کے لیے مالداری میں کوئی مضائقہ اور کوئی حرج نہیں ، اور صحت مندی صاحب تقویٰ کے لئے دولت مندی سے بھی بہتر ہے ، اور خوش دلی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہے (جس کا شکر واجب ہے) ۔ (مسند احمد) تشریح پچھلے صفحات میں جو حدیثیں دولت کی مذمت اور فقر و زُہد کی فضیلت میں گزر چکی ہیں ، اگرچہ ان کی تشریح میں جا بجا اشارہ کیا جا چکا ہے ، کہ دولت صرف وہی خطرناک ہے جو خدا سے غفلت اور آخرت کی طرف سے بے پروائی پیدا کرے ۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو بلکہ بندہ اللہ کی توفیق سے دولت کے ذریعہ بھی اللہ کی رضا اور جنت کمائے تو پھر ایسی دولت خدا کی بڑی نعمت ہے ۔ آگے درج ہونے والی حدیثوں میں یہی مضمون صراحت اور وضاحت سے بیان کیا گیا ہے ۔ تشریح ۔ ۔ ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دولت مندی اور مالداری اگر تقویٰ کے ساتھ ہو ، یعنی اللہ کا خوف ، آخرت کی فکر ، اور احکامِ شریعت کی پابندی نصیب ہو تو اس میں دین کے لیے کوئی خطرہ نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ اگر توفیق دے تو اس صورت میں یہی مال و دولت دین کی بڑی سے بڑی ترقیوں کا اور جنت کے اعلیٰ درجوں تک پہنچنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مناقب و امتیازات میں کافی حصہ ان کے اس مال و دولت ہی کا ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں بے دریغ اور بے حساب خرچ کیا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی موقعوں پر ان کے حق میں بڑی بڑی بشارتیں سنائی تھیں ۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ دولتمندی کے ساتھ تقویٰ ، یعنی خدا ترسی اور فکر آخرت اور اتباع شریعت کی توفیق کم ہی لوگوں کو ملتی ہے ، ورنہ دولت کے نشہ میں اکثر لوگ بہک ہی جاتے ہیں ۔ چوں بدولت برسی مست نگر دی مر دی

【73】

دولت اگر صلاح و تقوے کے ساتھ ہو ، تو وہ بھی اللہ کی نعمت ہے

حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اس متقی دولت مند بندہ سے جو (تقویٰ اور دولتمندی کے باوجود) نامعروف اور چھپا ہوا ہو ۔ (مسلم) تشریح “ چھپا ہوا ” ہونے کا مطلب بظاہر یہی ہے کہ لوگ اس کی اس خاص حالت کو عام طور سے جانتے بھی نہ ہوں کہ دولت مند اور صاحب ثروت ہونے کے ساتھ تقویٰ میں بھی اس بندہ خداس کو خاص مقام ہے ، جس بندہ میں یہ تینوں چیزیں جمع ہوں ، اس پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے ، اور اس کو اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کا مقام حاصل ہے ۔

【74】

نیک مقاصد کے لیے دنیا کی دولت حاصل کرنے کی فضیلت

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو شخص دنیا کی دولت بطریق حلال اس مقصد سے حاصل کرنا چاہے ، تا کہ اس کو دوسروں سے سوال کرنا نہ پڑے اور اپنے اہل و عیال کے لیے روزی اور آرام و آسائش کا سامان مہیا کر سکے ، اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بھی وہ احسان اور سلوک کر سکے ، تو قیامت کے دن وہ اللہ کے حضور میں اس شان کے ساتھ حاضر ہو گا ، کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن اور چمکتا ہو گا ۔ اور جو شخص دنیا کی دولت حلال ہی ذریعہ سے اس مقصد سے حاصل کرنا چاہئے کہ وہ بہت بڑا مالدار ہو جائے ، اور اس دولت مندی کی وجہ سے وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنی شان اونچی دکھا سکے ، اور لوگوں کی نظروں میں بڑا بننے کے لیے داد و دہش کر سکے ، تو قیامت کے دن وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس حال میں حاضر ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت غضبناک ہو گا ۔ (شعب الایمان للبیہقی ، و حلیہ ابی نعیم) تشریح معلوم ہوا کہ اچھی نیت سے اور نیک مقصد کے لیے دنیا کی دولت حلال ذریعہ سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا نہ صرف یہ کہ جائز اور مباح ہے ، بلکہ وہ اتنی بڑی نیکی ہے کہ قیامت کے دن ایسا شخص جب اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہو گا ، تو اس پر اللہ تعالیٰ کا خاص الخاص فضل و کرم ہو گا ، جس کے نتیجہ میں اس کا چہرہ چوھودیں رات کے چاند کی طرح روشن اور منور ہو گا ۔ لیکن اگر دولت کمانے سے غرض صرف بڑا دولت مند بننا ، اور دنیا کی بڑائی حاصل کرنا ، اور لوگوں کے دکھاوے کے لئے بڑے بڑے کام کرنا ہو ، تو یہ دولت کمانا اگرچہ حلال ہی طریقے سے ہو ، تب بھی یہ ایسا گناہ ہے کہ قیامت کے دن ایسے شخص پر اللہ تعالیٰ کا سخت غضب ہو گا ، اور اگر ناجائز اور حررام طریقوں سے ہو تب تو سخت ترین وبال ہے ۔

【75】

نیک مقاصد کے لیے دنیا کی دولت حاصل کرنے کی فضیلت

ابو کبشہ انماری سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تین باتیں ہیں جن پر میں قسم کھاتا ہوں اور ان کے علاوہ ایک اور بات ہے جس کو میں تم سے بیان کرنا چاہتا ہوں ، پس تم اس کو یاد کر لو ! جن تین باتوں پر میں قسم کھاتا ہوں ، ان میں ایک تو یہ ہے کہ کسی بندہ کا مال صدقہ کی وجہ سے کم نہیں ہوتا ، (یعنی کوئی شخص اپنا مال راہِ خدا میں دینے کے سبب سے کبھی مفلس و نادار نہیں ہو گا ، بلکہ اس کے مال میں برکت ہوگی ، اور جس خدا کی راہ میں وہ صدقہ کرے گا ، وہ اپنے خزانہ غیب سے اس کو دیتا رہے گا) اور (دوسری بات یہ ہے کہ) نہیں ظلم کیا جائے گا کسی بندہ پر ایسا ظلم جس پر وہ مظلوم بندہ صبر کرے ، مگر اللہ تعالیٰ اس کے عوض بڑھا دے گا اس کی عزت (یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ قانون مقرر فرمایا ہے کہ جب کسی بندہ پر ناحق کوئی ظلم کیا جائے ، اور اس کو ستایا جائے ، اور وہ بندہ صبر کرے ، تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض اس کی عزت و رفعت دنیا میں بھی بڑھائے گا) اور (تیسری بات یہ ہے کہ) نہیں کھولے گا کوئی بندہ سوال کا دروازہ مگر اللہ کھول دے گا اس پر فقر کا دروازہ (یعنی جو بندہ مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا پیشہ اختیار کرے گا ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہے کہ فقر و محتاجی اس پر مسلط ہوگی ، گویا یہ تینوں اللہ کے ایسے اٹل فیصلے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ، میں ان پر قسم کھا سکتا ہوں ۔ (اس کے بعد آپ نے فرمایا) اور جو بات میں ان کے علاوہ تم سے بیان کرنا چاہتا تھا ، جس کو تمہیں یاد کر لینا اور یاد رکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ دنیا چار قسم کے آدمیوں کے لئے ہے (یعنی اس دنیا میں چار طرح کے آدمی ہیں) ایک وہ بندے جن کو اللہ نے مال دیا ہے اور صحیح طریق زندگی کا علم بھی ان کو دیا ہے ، پس وہ اس مال کے صرف و استعمال میں اللہ سے ڈرتے ہیں ، اور اس کے ذریعہ صلہ رحمی (یعنی اپنے اعزہ و اقارب کے ساتھ سلوک اور ان کی ہمدردی) کرتے ہیں ، اور اس میں جو عمل اور تصرف کرنا چاہئے اللہ کی رضا کے لئے وہی کرتے ہیں ۔ پس ایسے بندے سب سے اعلیٰ و افضل مرتبہ پر فائز ہیں ۔ اور (دوسری قسم) وہ بندے ہیں جن کو اللہ نے صحیح علم (اور صحیح جذبہ) تو عطا فرمایا ہے ، لیکن ان کو مال نہیں دیا ، پس ان کی نیت صحیح اور سچی ہے ، اور وہ اپنے دل و زبان سے کہتے ہیں ، کہ ہمیں مال مل جائے تو ہم بھی فلاں (نیک بندے) کی طرح اس کو کام میں لائیں (اور اللہ کی ہدایت کے مطابق وہ جن اچھے مصارف میں صرف کرتا ہے ، ہم بھی ان ہی میں صرف کریں) پس ان دونوں کا اجر برابر ہے (یعنی دوسری قسم کے ان لوگوں کو حسنِ نیت کی وجہ سے پہلی قسم والوں کے برابر ہی ثواب ملے گا) ۔ اور (تیسری قسم) وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے مال دیا ، اور اس کے صرف و استعمال کا صحیح علم (اور صحیح جذبہ) نہیں دیا ، پس وہ نادانی کے ساتھ ، اور خدا سے بے خوف ہو کر اس مال کو اندھا دُھند غلط راہوں میں خرچ کرتے ہیں ، اس کے ذریعہ صلہ رحمی نہیں کرتے ، اور جس طرح اس کو صرف و استعمال کرنا چاہئے اس طرح نہیں کرتے ۔ پس یہ لوگ سب سے بُرے مقام پر ہیں ۔ اور (چوتھی قسم) وہ لوگ ہیں ، جن کو اللہ نے مال بھی نہیں دیا ، اور صحیح علم (اور صحیح جذبہ) بھی نہیں دیا ، پس ان کا حال یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں ، کہ اگر ہمیں مال مل جائے ، تو ہم بھی فلاں (عیاش اور فضول خرچ) شخص کی طرح ، اور اسی کے طریقے پر صرف کریں (یعنی اس شخص کی طرح ہم) بھی عیاش اور فضول خرچی کریں) پس یہی ان کی نیت ہے اور ان دونوں گروہوں کا گناہ برابر ہے (یعنی آخری قسم کے لوگوں کو ان کی بری نیت کی وجہ سے وہی گناہ ہو گا جو تیسری قسم کے لوگوں کو ان کے برے اعمال کا گناہ ہو گا ۔ (جامع ترمذی) تشریح حدیث کے نفس ، مطلب کی وضاحت ترجمہ کے ساتھ ساتھ کر دی گئی ہے ، البتہ یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ برے عمل کی جس نیت پر گرفت ہے ، اور جو گویا بُرے عمل ہی کی طرح گناہ ہے ، وہ عزم کا درجہ ہے ، یعنی بندہ کو اس گناہ کا شوق اور اپنی طرف سے اس کے کر گزرنے کا مصمم ارادہ ہو ، چاہے کسی مجبوری کی وجہ سے پھر کر نہ سکے ۔ پس جب کسی گناہ کی نیت اس درجہ کی ہوگی تو اس گناہ ہی کی طرح وہ بھی معصیت ہوگی ، اور بندہ اس پر سزا کا مستحق ہو گا ۔

【76】

معصیت کی زندگی کے ساتھ اگر دنیا میں نعمتیں مل رہی ہیں تو یہ استدراج ہے

عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو اس کی معصیت کوشی اور نافرمانی کے باوجود دنیا کی وہ نعمتیں (مال و دولت اور راحت و عزت وغیرہ) دے رہا ہے ، جن کا وہ بندہ خواہاں اور طالب ہے ، تو سمجھ لو کہ وہ اس کے حق میں استدراج ہے ۔ یہ فرمانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بطور استشہاد کے) قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی : “ فَلَمَّانَسُوامَاذُكِّرُوابِهِ الاية ” جس کا ترجمہ یہ ہے کہ : جب انہوں نے بھلا دیا ان باتوں کو جن کی ان کو نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے کھول دئیے ان پر دنیا کی سب نعمتوں کے دروازے ، یہاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں کے ملنے پر خوب مست ہوئے ، اور اترائے ، تو ہم نے ایک دم ان کو اپنی سخت پکڑ میں لے لیا ، پس وہ حیران و ششدر اور آئندہ کے لیے بالکل نااُمید ہو کر رہ گئے ۔ (مسند احمد) تشریح اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جو قوانین چل رہے ہیں جن کے مطابق افراد یا اقوام کے ساتھ وہ معاملہ فرماتا ہے ان میں سے ایک “ استدراج ” بھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ کا کوئی مجرم اور باغی بندہ یا گروہ معصیت کوشی اور سرکشی میں حد سے بڑھ جاتا ہے ، اور آخرت اور خدا کے احکام سے بالکل بے پروا اور بے فکر ہو کر زندگی گذارنے لگتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس سے سخت ناراض ہو کر کبھی کبھی ایسا بھی کرتا ہے کہ اس کی رسی اور دراز کر دی جاتی ہے ، اور کچھ مدت کے لیے نعمتوں کے دروازے اس پر کھول دیئے جاتے ہیں ، تا کہ وہ اور زیادہ اطمینان اور سرمستی کے ساتھ اس خداس فراموشی اور سر کشی میں آگے بڑھتا رہے ، اور پھر بڑی سے بڑی سزا پائے ۔ دین کی خاص زبان میں اللہ تعالیٰ کے اس معاملہ کو “ استدراج ” کہا جاتا ہے ۔ پس مندرجہ بالا حدیث کا مطلب یہ ہوا ، کہ جب کسی بندہ یا گروہ کو تم اس حال میں دیکھو کہ وہ خدا اور آخرت کو بالکل بُھلا کر مجرمانہ اور باغیانہ زندگی گذار رہے ہیں ، اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو انواع و اقسام کی نعمتیں مل رہی ہیں ۔ اور وہ دنیا کے مزے لوٹ رہے ہیں ، تو کسی کو یہ مغالطہ نہ ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو کر اپنی نعمتیں ان پر اُنڈیل رہا ہے ، بلکہ سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی رسی دراز کر رہا ہے ، اور ان کا آخری انجام بہت برا ہونے والا ہے ۔

【77】

کافروں ، فاجروں کی خوشحالی پر رشک نہ کرو

حضرت ابو رہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم کسی بدکار (کافر یا فاسق) پر کسی نعمت اور خوش حالی کی وجہ سے کبھی ہرگز رشک نہ کرنا ، تم کو معلوم نہیں ہے کہ مرنے کے بعد اس پر کیا کیا مصیبتیں پڑنے والی ہیں ، اللہ کے یہاں (یعنی آخرت میں) اُس کے لیے ایک ایسا قاتل ہے جس کو کبھی موت نہیں ۔ (اس حدیث کو حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کرنے والے راوی عبداللہ بن ابی مریم کہتے ہیں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب اس قاتل سے دوزخ کی آگ ہے ، (یعنی وہ بے چارا ہمیشہ ہمیشہ دوزخ کے عذاب میں رہنے والا ہے ، پس ایسے شخص پر رشک کرنا کتنی بڑی حماقت اور گمراہی ہے) ۔ (شرح السنۃ) تشریح بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اللہ کا ایک مومن اور نیکو کار بندہ جو اس چند روزہ امتحانی دنیا میں تنگی اور تکلیف کی زندگی بسر کر رہا ہے ، جب وہ کسی بدکار اور خدا سے تعلق نہ رکھنے والے آدمی کو دیکھتا ہے کہ وہ ٹھاٹھ کے ساتھ عیش و آرام کی زندگی گذار رہا ہے ، تو شیطان اس کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈٖالتا ہے ، اور کم سے کم یہ کہ دل میں اس کی حالت پر رشک ہی پیدا ہوتا ہے ، جو اللہ تعالیٰ کی بڑی ناشکری ہے ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ جو لوگ ایمان اور عمل صالح کی نعمت سے محروم ہیں ، اور خدا فراموشی اور بداعمالی کی وجہ سے آخرت کی دوامی زندگی میں عذاب نار میں گرفتار ہونے والے ہیں ، اس دنیا میں ان کی چند روزہ خوش حالی اور عیش و راحت کو یکھ کر ہرگز کسی صاحب ایمان کو ان پر رشک بھی نہ آنا چاہئے ، ان بے چاروں ، کم بختی کے ماروں کا جو آخری انجام ہونے والا ہے ، اور ان پر جو بپتا پڑنے والی ہے ، اگر وہ معلوم ہو جائے تو ان کی اس خوش حالی اور خوش عیشی کی نوعیت بالکل ایسی نظر آئے گی جیسے کہ پھانسی پانے والے مجرم کو دو چار دن پہلے سے خاص سہولتیں دی جاتی ہین ، اور کھانے پینے کے بارہ میں اس کی خواہش اور چاہت معلوم کر کے حتی الوسع اس کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے جن بندوں کو آخرت کے ان حقائق کا یقین نصیب فرمایا ہے جن کی اطلاع اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام نے دی ہے ، ان کی نظر میں خدا کے مجرموں اور باغیوں کی دنیوی خوشحالی اور خوش عیشی کی نوعیت بالکل یہی ہے اس لئے ان کے دلوں میں ان کو دیکھ کر رشک نہیں پیدا ہوتا ، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہم کو ایمان نصیب فرما کر ان بے چاروں کے بُرے حال اور بُرے انجام سے بچا لیا ہے ۔ اس عاجش نے اللہ کے بعض بندوں کا یہ حال دیکھا ہے کہ خدا فراموشوں اہلِ دنیا کو دیکھ کر بے اختیار ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کی حمد و شکر کی یہ دعا جاری ہو جاتی ہے ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مصیبت زدہ کو دیکھ کر پڑھا کرتے تھے : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهِ ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلًا ساری حمد و ستائش اس اللہ کے لیے ہے ، جس نے مجھے اس مصیبت سے محفوظ رکھا جس میں اے بندے تو مبتلا کیا گیا ہے ، اور اس نے مجھے اپنی بہت سی مخلوق پر برتری عطا فرمائی ۔

【78】

کسی کی ظاہری خستہ حالی اور غربت کی وجہ سے اس کو حقیر نہ سمجھو

سہل بن سعد سے روایت ہے کہ ایک شخص () جو غالباً دولت مند اور معززین میں سے تھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرا ، تو آپ نے ایک صاحب سے جو آپ کے پاس اس وقت بیٹھے ہوئے تھے ، پوچھا کہ : اس گزرنے والے شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے اور کیا اندازہ ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ : حضرت یہ بہت بڑے اور معزز آدمیوں میں سے ہے ، یہ ایسی شان والا ہے کہ جس گھرانے کی بیٹی کے لئے نکاح کا پیغام دے تو منظور کر لیا جائے ، اور نکاح کر دیا جائے ، اور اگر کسی معاملے میں سفارش کر دے تو اس کی سفارش ضرور مانی جائے ۔ سہل بن سعد کہتے ہیں ، کہ یہ جواب سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے ، اور آپ نے کچھ نہیں فرمایا ۔ پھر تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک اور اللہ کا بندہ گزرا ، آپ نے ان ہی صاحب سے پھر پوچھا ، کہ اس شخص کے بارہ میں تمہاری کیا رائے اور کیا اندازہ ہے ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہیہ بے چارہ نادار اور مسکین مسلمانوں میں سے ہے یہ ایسا ہے کہ اگر کہیں نکاح کا پیغام دے تو اس کے ساتھ نکاح نہ کیا جائے ، اور اگر کسی معاملہ میں سفارش کر ے تو اس کی سفارش نہ مانی جائے ۔ اور کوئی بات کہنا چاہے تو اس کی بات بھی نہ سنی جائے ۔ (اُن کا یہ جواب سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے والے اس آدمی کے مثل اگر زمین بھر ہوں تو یہ ایک اکیلا فقیر و مسکین ان سے بہتر ہے ۔ (بخاری و مسلم) تشریح انسانوں کی عام حالت یہ ہے کہ دنیا کی دولت اور دنیا کی بڑائی ہی کو وہ اصل بڑائی ، اور وزن اور قیمت کی چیز سمجھتے ہیں ، اور اسی سے متاثر ہوتے ہیں ، اور اللہ کے جو بندے اس سے خالی ہوں (اگرچہ ان کے پاس ایمان اور حسن عمل کی دولت کتنی ہی وافر ہو) عام طور سے اہل دنیا ان کو حقیر و ذلیل ہی سمجھتے ہیں ، یہ حدیث دراصل اسی قلبی اور ذہنی بیماری کے علاج کا ایک نسخہ ہے ، بہت ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو صاحب اس وقت بیٹھے ہوئے تھے (جن سے آپ اس گفتگو میں مخاطب رہے) ان میں بھی اس مرض کے کچھ جراثیم ہوں ، اور آپ نے ان کی اصلاح کے لیے ہی یہ گفتگو فرمائی ہو ۔ شارحین نے یہ بھی لکھا ہے ، اور حدیث کے ظاہر الفاظ سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ دونوں گزرنے والے مسلمان ہی تھے ، البتہ پہلے جو گزرے وہ دنیا کی دولت و وجاہت میں برتر تھے ، اور دین کے لحاظ سے کمتر ، اور بعد میں جو صاحب گزرنے ، وہ دنیا کے لحاظ سے تو کمتر تھے ، مگر دین اور تعلق باللہ میں برتر اور بلند تر ۔ اسی فرق کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے جیسے اگر اتنی کثیر تعداد میں ہوں کہ اللہ کی وسیع زمین ان سے بھر جائے تو بھی بعد میں گزرنے والا اللہ کا غریب و مسکین یہ ایک بندہ ان سب سے بہتر ہے ۔ اللہ اکبر ! دین اور تعلق باللہ کی عظمت و رفعت کا کیا ٹھکانا ! ۔

【79】

کسی کی ظاہری خستہ حالی اور غربت کی وجہ سے اس کو حقیر نہ سمجھو

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : بہت سے پراگندہ بالوں والے گرد و غبار میں اٹے ہوئے جن کو دروازوں پر دھکے دئیے جائیں (اللہ کے نزدیک ان کا مقام یہ ہوتا ہے کہ) اگر اللہ پر وہ قسم کھائیں تو ان کی قسم کو اللہ ضرور پورا کرے ۔ (مسلم) تشریح اس حدیث کا مطلب بھی یہی ہے کہ کسی کو میلا کچیلا ، خستہ حال ، اور پراگندہ بال دیکھ کر حقیر نہ سمجھنا چاہئے ، ایسوں میں اللہ کے بعض بندے وہ بھی ہوتے ہیں ، جو اللہ کے لیے اپنے کو مٹا کر اس کے یہاں ایسا تقرب اور محبوبیت و مقبولیت کا وہ مقام حاصل کر لیتے ہیں ، کہ اگر اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر وہ کسی معاملہ میں قسم کھا جائیں ، کہ اللہ ایسا ہی کرے گا ، یا ایسا نہیں کرے گا ، تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کی لاج رکھتا ہے ، اور ایسا ہی کر دیتا ہے ۔ واضح رہے کہ حدیث کا مقصد و منشا پراگندہ بالی اور گرد آلودگی ، اور میلا کچیلا رہنے کی ترغیب دینا نہیں ہے (جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے) حدیث و سیر کی متواتر شہادت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام طور سے صاف ستھرا رہنا پسند فرماتے تھے ، اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے ، بلکہ بعض لوگوں کو جب آپ نے اس حال میں دیکھا کہ اس بارہ میں وہ تفریط و غلو میں مبتلا ہو گئے ہیں ، اور انہوں نے اپنا حلیہ بگاڑ رکھا ہے تو آپ نے ان کو اپنی اس حالت کے درست کرنے کا حکم دیا ۔ پس یہ سمجھنا کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ اس حدیث کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ لوگ پرگندہ بال ، میلے کچیلے اور گرد و غبار میں اٹے ہوئے رہا کریں ۔ بلکہ جیسا کہ عرض کیا گیا ، حدیث کا مقصد و منشا اور اس کی روح یہی ہے ، کہ اللہ کے کسی بندہ کو خستہ حال اور گرد آلود دیکھ کر اس کو حقیر اور اپنے سے کمتر نہ سمجھا جائے ، کیونکہ بہت سے اس حال میں رہنے والے بھی خاصانِ خدا میں سے ہوتے ہیں ۔ پس اس حدیث میں دراصل ان لوگوں کے خیال اور حال کی اصلاح کی گئی ہے جو اللہ کے غریب و خستہ حال بندوں کو ناکارہ نکما سمجھتے ہیں ، اور ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ، اور اپنے ذہنی تکبر کی وجہ سے ان کے ساتھ ملنے جلنے اور انکے پاس بیٹھنے سے بچتے ہیں ، اور اسی میں اپنی بڑائی کی حفاظت سمجھتے ہیں ۔

【80】

بہت سے غریب اور خستہ حال ایسے ہیں کہ ان کی برکت اور دعا سے رزق ملتا ہے

مصعب بن سعد سے روایت ہے کہ میرے والد سعد کو (اللہ تعالیٰ نے جو خاص صلاحیتیں بخشی تھیں ، مثلاً شجاعت ، سخاوت ، فہم و فراست وغیرہ ان کی وجہ سے ان کا) کچھ خیال تھا کہ جو (غریب اور کمزور قسم کے مسلمان ان چیزوں میں) ان سے کمتر ہیں وہ ان کے مقابلہ میں فضیلت اور برتری رکھتے ہیں ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کے اس خیال اور حال کی اصلاح کے لیے) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم لوگوں کی جو مدد ہوتی ہے ، اور تم کو جو نعمتیں ملتی ہیں ، وہ (تمہاری صلاحیتوں اور قابلیتوں کی بنیاد پر نہیں ملتیں ، بلکہ) تم میں جو بے چارے کمزور اور خستہ حال ہیں ، ان کی برکت اور ان کی دعاؤں سے ملتی ہیں ۔ (بخاری) تشریح حضرت سعد کا جو خیال تھا ، چونکہ اس کی بنیاد ایک قسم کے کبر پر تھی ، اس لئے اس کی اصلاح اور اس کے علاج کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتلایا کہ تم جن مسکینوں کو اپنے سے کمتر اور اپنے کو ان سے برتر سمجھتے ہو ، اللہ تعالیٰ ان ہی کے طفیل میں اور ان ہی کی دعاؤں سے تم کو وہ سب کچھ دیتا ہے جس سے تم یہاں بڑے بنے ہوئے ہو ، آج بھی ہم جیسے لکھے پڑھے ، جن کو اللہ تعالیٰ نے کچھ صلاحیتیں دے رکھی ہیں ، اور دین کی کسی خدمت کی توفیق مل رہی ہے ، عموماً اسی قسم کے کبر میں مبتلا ہیں ۔ نَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا . ف ۔ ۔ ۔ اسی حدیث کی نسائی کی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں اس طرح ہیں : اِنَّمَا يَنْصُرُ اللهُ هَذِهِ الْاُمَّةَ بِضَعِيْفِهِمْ بِدَعْوَتِهِمْ وَصَلَوٰتِهِمْ وَإِخْلَاصِهِمْ . ظاہر ہے کہ اس روایت کے الفاظ اداء مطلب میں صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ سے زیادہ واضح ہیں ۔

【81】

اپنے سے کم درجہ والوں کو دیکھ کر صبر و شکر کا سبق لیا کرو

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی ایسے شخص کو دیکھے جو مال و دولت اور جسمانی بناوٹ یعنی شکل و صورت میں اس سے بڑھا ہوا ہو (اور اس کی وجہ سے اس کے دل میں حرص و طمع اور شکایت پیدا ہو) تو اس کو چاہئے کہ کسی ایسے بندہ کو دیکھے جو ان چیزوں مین اس سے بھی کمتر ہو (تا کہ بجائے حرص و طمع اور شکایت کے صبر و شکر پیدا ہو) ۔ (بخاری و مسلم) تشریح انسان کی ایک فطری کمزوری ہے کہ جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھتا ہے جو مال و دولت اور دنیوی وجاہت یا شکل و صورت میں اس سے بہتر حال میں ہو ، تو اس میں اس کی طمع اور حرص پیدا ہوتی ہے ، اور خیال ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ایسا نہیں بنایا ، اس حدیث میں اس کا علاج یہ بتلایا گیا ہے کہ وہ شخص اللہ کے ایسے بندوں کو دیکھے ، اور ان کے حال پر غور کرے ، جو مال و دولت ، شکل و صورت اور عزت و وجاہت کے لحاظ سے اس سے بھی کمتر اور پسماندہ ہوں ، ان شاء اللہ ایسا کرنے سے اس بیماری کا علاج ہو جائے گا ۔

【82】

اپنے سے کم درجہ والوں کو دیکھ کر صبر و شکر کا سبق لیا کرو

عمرو بن شعیب اپنے والد شعیب سے روایت کرتے ہیں اور وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص سے راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جس شخص میں دو خصلتیں ہوں گی ، اللہ تعالیٰ اس کو شاکرین اور صابرین میں لکھیں گے (ان دو خصلتوں کی تفصیل یہ ہے کہ) جس شخص کی یہ عادت ہو کہ وہ دین کے معاملے میں تو اللہ کے ان بندوں پر نظر رکھے جو دین میں اس سے فائق اور بالا تر ہوں ، اور ان کی پیروی اختیار کرے ، اور دنیا کے معاملے میں ان غریب و مسکین اور خستہ حال بندوں پر نظر رکھے جو دنیوی حیثیت سے اس سے بھی کمتر ہوں ، اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرے کہ اس نے محض اپنے فضل و کرم سے ان بندوں سے زیادہ دنیا کی نعمتیں اس کو دے رکھی ہیں ، تو اللہ تعالیٰ کے یہاں وہ صابر و شاکر لکھا جائے گا ۔ اور جس کا حال یہ ہو کہ وہ دین کے بارے میں ہمیشہ اپنے سے ادنیٰ درجہ کے لوگوں کو دیکھے اور دنیا کے بارے میں اپنے سے بالا تر لوگوں پر نظر کرے اور جو ددنیاوی نعمتیں اس کو نہیں ملی ہیں ، ان کے نہ ملنے پر افسوس اور رنج کرے ، تو اللہ تعالیٰ کے یہاں وہ شاکر و صابر نہیں لکھا جائے گا ۔ (ترمذی) تشریح شکر اور صبر ایمان اور تعلق باللہ کے دو ایسے رُخ ہیں کہ جس بندہ میں یہ دونوں جمع ہو جائیں تو اس کو گویا ایمان کا کمال نصیب ہوگیا ، اور دین کی دولت بھرپور مل گئی ۔ اور اس کی تدبیر اور اس کا معیار اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بندہ اپنے کو اس بات کا عادی بنا لے کہ دین کے معاملہ میں ہمیشہ اللہ کے ان اچھے بندوں پر نظر رہا کرے جن کا مقام دین میں (یعنی ایمان و اعمال اور اخلاص میں) اپنے سے بلند تر ہو اور ان کی پیروی کرتا رہے ، اور دنیا کے معاملہ میں ہمیشہ اللہ کے ان خستہ حال اور مبتلائے مصائب بندوں پر نظر رکھے جو دنیوی لحاظ سے اپنے سے کمتر اور پست تر ہوں ، اور ان کے مقابلے میں دنیوی راحت و عافیت کی جو فضیلت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو دی گئی ہے اس کو محض اللہ کا فضل سمجھ کر اپنے اس محسن مالک کا شکر ادا کرتا رہے ۔

【83】

اگر حُسنِ عمل کی توفیق ہو ، تو زندگی بڑی نعمت ہے

ابو بکرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! آدمیوں میں کون بہتر ہے ؟ (یعنی کس قسم کا آدمی آخرت میں زیادہ کامیاب اور فلاح یاب رہے گا) آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ جس کسی عمر لمبی ہوئی اور اس کے اعمال اچھے رہے ۔ پھر اسی سائل نے عرض کیا کہ آدمیوں میں زیادہ بُرا (اور آخرت میں زیادہ خسارہ میں رہنے والا) کون ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا ، جس کی عمر لمبی ہوئی اور اعمال اس کے برے رہے ۔ (مسند احمد) تشریح ظاہر ہے کہ جب کسی شخص کسی زندگی اعمالِ صالحہ والی زندگی ہوگی تو جتنی طویل عمر اس کو ملے گی اسی قدر اس کے دینی درجات مین ترقی ہوگی ، اور اس کے برعکس جس کے اعمال و اخلاق اللہ سے دور کرنے والے ہوں گے اس کی عمر جتنی زیادہ ہوگی ، اسی قدر وہ اللہ کی رحمت و رضا سے دور تر ہوتا چلا جائے گا ۔

【84】

اگر حُسنِ عمل کی توفیق ہو ، تو زندگی بڑی نعمت ہے

عبید بن خالد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شخصوں کے درمیان مواخات قائم فرمائی (یعنی اس وقت کے دستور کے مطابق ان کو باہم بھائی بھائی بنایا) پھر یہ ہوا کہ ان میں سے ایک صاحب (قریبی ہی زمانہ میں جہاد میں شہید ہو گئے) پھر ایک ہی ہفتہ بعد یا اس کے قریب دوسرے صاحب کا بھی انتقال ہوگیا (یعنی ان کا انتقال کسی بیماری سے گھر ہی پر ہوا) تو صحابہؓ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جنازہ پڑھنے والے ان اصحاب سے دریافت کیا کہ آپ لوگوں نے (نماز جنازہ میں) کیا کہا (یعنی مرنے والے بھائی کے حق میں تم نے اللہ سے کیا دُعا کی؟) انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے اس کے لئے یہ دعا کی ، کہ اللہ اس کی مغفرت فرمائے ، اس پر رحمت فرمائے اور (ان کے جو ساتھی شہید ہو کے اللہ کے قرب و رضا کا وہ مقام حاصل کر چکے ہیں ، جو شہیدوں کو حاصل ہوتا ہے ، اللہ ان کو بھی اپنے فضل و کرم سے اسی مقام پر پہنچا کے) اپنے اس بھائی اور ساتھی کے ساتھ کر دے ، (تا کہ جنت میں اسی طرح ساتھ رہیں ، جس طرح کہ یہاں رہتے تھے) یہ جواب سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس کی وہ نمازیں کہاں گئیں جو اس شہید ہونے والے بھائی کی نمازوں کے بعد (یعنی شہادت کی وجہ سے ان کی نمازوں کا سلسلہ ختم ہو جانے کے بعد) انہوں نے پڑھیں ، اور دوسرے وہ اعمال خیر کہاں گئے ، جو اس شہید کے اعمال کے بعد انہوں نے کئے ، یا آپ نے یوں فرمایا ، کہ اس کے وہ روزے کہاں گئے جو اس بھائی کے روزوں کے بعد انہوں نے رکھے ۔ (راوی کو شک ہے کہ نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام اعمال کا ذکر کیا تھا ، یا روزوں کا کر فرمایا تھا) ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان دونوں کے مقامات میں تو اس سے بھی زیادہ فاصلہ ہے جتنا کہ زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے ۔ (ابو داؤد ، نسائی) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ تم نے بعد میں مرنے والے اس بھائی کا درجہ پہلے شہید ہونے والے اس بھائی سے کمتر سمجھا ، اسی واسطے تم نے اللہ سے یہ دعا کی ، کہ اللہ اپنے فضل و کرم سے اس کو بھی اس شہید بھائی کے ساتھ کر دے ، حالانکہ بعد میں میں مرنے والے بھائی نے شہید ہونے والے بھائی کی شہادت کے بعد بھی جو نمازیں پڑھیں ، اور جو روزے رکھے ، اور جو دوسرے اعمالِ خیر کئے ، تمہیں معلوم نہیں کہ ان کی وجہ سے اس کا درجہ پہلے شہید ہونے والے اس بھائی سے بہت زیادہ بلند ہو چکا ہے ، یہاں تک کہ دونوں کے مقامات اور درجات میں زمین و آسمان سے بھی زیادہ فرق اور فاصلہ ہے ۔ راہِ خدا میں جان دینا بلاشبہ بہت اونچا عمل ہے ، اور اس کی بڑی فضیلتیں ہیں ، لیکن نماز ، روزہ وغیرہ اعمالِ خیر اگر اخلاص اور احسانی کیفیت کے ساتھ نصیب ہوں ، تو ان کے ذریعہ جو ترقی اور بلندی نصیب ہوتی ہے ، اس کی بھی کوئی حد نہیں ہے ۔ نیز چونکہ بعد میں مرنے والے یہ بھائی بھی راہِ خدا کے سپاہی اور جہاد کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہنے والوں میں سے تھے ، اس لئے بستر پر موت آنے کے باوجود وہ اپنی اس نیت اور شوقِ شہادت کی وجہ سے مقامِ شہادت پر بھی فائز ہوئے ، اور بعد کے نماز ، روزہ وغیرہ اعمالِ خیر نے ان کے درجہ کو اس قدر بلند کر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درجوں میں زمین اور آسمان سے زیادہ فاصلہ بتلا دیا ۔

【85】

اگر حُسنِ عمل کی توفیق ہو ، تو زندگی بڑی نعمت ہے

عبداللہ بن شداد سے روایت ہے کہ قبیلہ بنی عُذرہ میں سے تین آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام لائے (اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قیام کا ارادہ کیا) تو آپ نے (صحابہ کرامؓ سے) فرمایا کہ ان نو مسلم مسافروں کی خبر گیری میری طرف سے کون اپنے ذمہ لے سکتا ہے ؟ طلحہ نے عرض کیا کہ میں اپنے ذمہ لیتا ہوں ۔ چنانچہ یہ تینوں ان کے پاس رہنے لگے ، اسی اثنا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر کسی جگہ کے لئے روانہ فرمایا ، تو ان تینوں صاحبوں میں سے ایک اس لشکر میں چلے گئے ، اور وہاں شہید ہو گئے ، پھر آپ نے ایک اور لشکر روانہ فرمایا تو ایک دوسرے ساتھی اس میں چلے گئے ، اور وہ بھی جا کر شہید ہو گئے ، پھر (کچھ دنوں بعد) ان میں سے تیسرے جو باقی بچے تھے ان کا انتقال بستر ہی پر ہوگیا ۔ (حدیث کے راوی عبداللہ بن شداد) کہتے ہیں کہ طلحہ نے ذکر کیا کہ میں نے خواب میں ان تینوں ساتھیوں کو جنت میں دیکھا کہ جو صاحب سب سے آخر میں اپنے بستر پر طبعی موت مرے ، وہ سب سے آگے ہیں ، اور ان کے قریب ان کے وہ ساتھی ہیں جو دوسرے نمبر شہید ہوئے تھے ، اور ان کے قریب ان کے وہ ساتھی ہیں جو پہلے شہید ہوئے تھے ، اس خواب سے میرے دل میں شبہ اور خلجان پیدا ہوا (کیونکہ میرا خیال تھا کہ شہید ہونے والے ان دو ساتھیوں کا درجہ اس تیسرے ساتھی سے بلند ہو گا جس کا انتقال بستر پر طبعی موت سے ہوا) پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس خواب اور اپنے اس تاثر اور خلجان کا ذکر کیا ، آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس میں تم کو کیا بات اوپری اور غلط معلوم ہوتی ہے ، (تم نے ان کے درجات کی جو ترتیب دیکھی ہے وہی ہونا چاہئے اور جو تیسرا ساتھی اپنے دو ساتھیوں کی شہادت کے بعد بھی کچھ عرصہ زندہ رہا ، اور نمازیں پڑھتا رہا ، اور اللہ کا ذکر کرتا رہا ، اسی کو سب سے آگے اور بلند تر ہونا چاہئے کیوں کہ) اللہ کے نزدیک اس مومن سے کوئی افضل نہیں ، جس کو ایمان اور اسلام کے ساتھ عمر دراز ملے ، جس میں وہ اللہ کی تسبیح (سبحان اللہ کا ذکر) تکبیر (اللہ اکبر کا ذکر) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ کا ذخر) کرے ۔ (مسند احمد) تشریح اس سے پہلی حدیث کی تشریح میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے اسی سے اس حدیث کی بھی تشریح ہو جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اگر سمجھ دے تو ان دونوں حدیثوں میں ان جذباتی اور باتونی لوگوں کے لئے بڑا سبق ہے جو جہاد اور شہادت کی صرف باتوں اور جھوٹی تمناؤں میں اپنا وقت گذارتے ہیں ، حالانکہ جہاد و شہادت کا کوئی میدان ان کے سامنے نہیں ہوتا ، اور نماز ، روزہ ، ذکر و تلاوت وغیرہ اعمالِ خیر کے ذریعہ اعلیٰ سے اعلیٰ دینی ترقیوں کا جو موقعہ اللہ کی طرف سے ان کو ہر وقت ملا ہوا ہے وہ اس کی قدر نہیں کرتے ، اور ان چیزوں کو معمولی اور ادنیٰ درجہ کی چیزیں سمجھ کر ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ بعض اوقات تو ان اعمالِ خیر کو طنز کا نشانہ بنا کر اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں ۔ وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا .

【86】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں

حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : تم جہاں اور جس حال میں ہو (خلوت میں ہو یا جلوت میں ، آرام میں ہو ، یا تکلیف میں) خدا سے ڈرتے رہو (اور تقویٰ تمہارا شعار رہے) اور ہر برائی کے پیچھے نیکی کرو ، وہ اس کو مٹا دے گی ، اور اللہ کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، دارمی) تشریح تقوے کی اصل خدا کا خوف اور اس کے مواخذہ اور محاسبہ کی فکر ہے ، اور یہ ایک باطنی کیفیت ہے اور اس کا ظہور ظاہری زندگی میں اس طرح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر و احکام کی اطاعت کی جائے ، اور منہیات اور معاصی سے بچا جائے ۔ لیکن انسان کی سرشت اور اس دنیا میں اس کا ماحول ایسا ہے کہ اس خوف و فکر (یعنی تقویٰ) کے باوجود اس سے غلطیاں اور خطائیں سرزد ہو جاتی ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تدارک کے لئے ارشاد فرمایا کہ جب کوئ غلطی اور برائی ہو جائے تو اس کے بعد کوئی نیکی ضرور کرو ، نیکی کا نور اس برائی کی ظلمت کو ختم کر دے گا ، اور مٹا دے گا ۔ قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے : إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ (نیکیاں برائی کو ختم کر دیتی ہیں) ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری نصیحت اس حدیث میں حضرت ابو رؓ کو یہ فرمائی کہ لوگوں کے ساتھ تمہارا برتاؤ حسنِ اخلاق کا ہو ۔ معلوم ہوا کہ تقویٰ اور تکثیر حسنات کے ذریعہ گناہوں کی تطہیر کے بعد بھی کامیابی اور رضاء الہی حاصل ہونے کے لئے بندوں کے ساتھ حسن اخلاق کا برتاؤ بھی ضروری ہے ۔

【87】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں

حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے نصیحت فرمائیے اور مختصراً فرمائیے (تا کہ یاد رکھنا آسان ہو) آپ نے ارشاد فرمایا کہ (ایک بات تو یہ یاد رکھو کہ) جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اس شخص کی سی نماز پڑھو جو سب کو الوداع کہنے والا ، اور سب سے رخصت ہونے والا ہو (یعنی دنیا سے جانے والے آدمی کی نماز جیسی ہونی چاہئے تم ہر نماز ویسی نماز پڑھنے کی کوشش کرو ، اور دوسری بات یہ یاد رکھو کہ) ایسی کوئی بات زبان سے نہ نکالو جس کی کل تم کو معذرت اور جواب دہی کرنی پڑے (یعنی بات کرتے وقت ہمیشہ اس کا خیال رکھو کہ ایسی بات منہ سے نہ نکلے جس کی جواب دہی کسی کے سامنے اس دنیا میں یا قیامت کے دن خدا کے حضور میں کرنی پڑے اور تیسری بات یہ یاد رکھو کہ) آدمیوں کے پاس اور ان کے ہاتھ میں جو کچھ نظر آتا ہے اس سے اپنے کو قطعاً مایوس کر لو (یعنی تمہاری اُمیدوں اور توجہ کا مرکز صرف رب العالمین ہو ، اور مخلوق کی طررف سے اپنی امیدوں کو بالکل منقطع کر لو) ۔ (مسند احمد)

【88】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تین چیزیں ہیں جو نجات دلانے والی ہیں ، اور تین ہی چیزیں ہیں جو ہلاک کر دینے والی ہیں ، پس نجات دلانے والی تین چیزیں تو یہ ہیں ، ایک خدا کا خوف خلوت میں اور جلوت میں (یا ظاہر میں اور باطن میں) اور دوسرے حق بات کہنا ، خوشی میں اور غصہ میں اور تیسرے میانہ روی خوشحالی میں تنگدستی میں ۔ اور ہلاک کرنے والی تین چیزیں یہ ہیں : ۱ ۔ وہ خواہش نفس جس کی پیروی کی جائے ، اور ۲ ۔ وہ بخل جس کی اطاعت کی جائے (یعنی اس کے تقاضے پر چلا جائے) اور ۳ ۔ آدمی کی خود پسندی کی عادت ، اور یہ ان سب میں زیادہ سخت ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی تو حاضرین مجلس اور مخاطبین کے خاص حالات کے لحاظ سے اور کبھی کسی اور ایسے ہی سبب سے بعض اوقات اپنے ارشادات میں بعض خاص اعمالِ صالحہ اور اخلاق حسنہ کی اہمیت خصوصیت سے بیان فرماتے تھے اور اسی طرح بعض خاص خاص برے اعمال و اخلاق کی قباحت و شناعت پر خصوصیت سے زور دیتے تھے (اور معلم اور مربی کا طرز یہی ہونا بھی چاہئے) ۔ یہ حدیث بھی اسی نوعیت کی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا حاصل صرف یہ ہے کہ جس شخص کو اس کی فکر نہ ہو کہ وہ ہلاکت سے نچے اور نجات حاصل کرے ، اسے چاہئے کہ ان چند نصیحتوں کی خصوصیت سے پابندی کرے ، ظاہر و باطن اور خلوت و جلوت میں خدا کا خوف اور تقویٰ اس کا شعار ہے ، اور خواہ کسی سے رضامندی ہو یا ناراضی ، ہمیشہ حق و انصاف کی بات کہے اور وہ خوشحالی و تنگدستی دونوں حالتوں میں میانہ روی برتے ۔ اور اپنی نفسانی خواہش اور بخل کے تقاضوں پر نہ چلے ، اور خود پسندی کی نہایت مہلک بیماری سے اپنی حفاظت کرتا رہے ۔ آپ نے خود پسندی کو سب سے زیادہ شدید غالباً اس لئے فرمایا کہ اس مرض میں مبتلا ہونے والا آدمی اپنے کو کبھی بیمار نہیں سمجھتا ، بلکہ اگر کوئی اور نصیحت کرے اور سمجھائے تو وہ اسی کو غلطی پر سمجھتا ہے ۔ اور بلا شبہ وہ مرض بڑا سخت اور لاعلاج ہے ، جس کو مریض مرض ہی نہ سمجھے ۔

【89】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : چار باتیں اور خصلتیں ایسی ہیں کہ اگر وہ تم کو نصیب ہو جائیں تو پھر دنیا (اور اس کی نعمتوں) کے فوت ہو جانے اور ہاتھ نہ آنے میں کوئی مضائقہ اور کوئی گھاٹا نہیں امانت کی حفاظت ، باتوں میں سچائی ، حسن اخلاق اور کھانے میں احتیاط اور پرہیزگاری ۔ (مسند احمد ، شعب الایمان للبیہقی) تشریح آگے امانت کے بیان میں ان شاء اللہ تفصیل سے بیان کیا جائے گا کہ نبوت کی زبان اور دین کی اصطلاح میں امانت بہت وسیع معنی میں استعمال ہوتا ہے ، اللہ کے اور اسی طرح بندوں کے ہر حق کی ادائیگی اور ہر عہد کی پابندی امانت کے وسیع مفہوم میں داخل ہے ، پس ظاہر ہے کہ جس شخص میں امانت کی صفت ہو ، یعنی جس کا یہ حال ہو کہ وہ اللہ کے اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی پوری دیانت داری کے ساتھ کرتا ہو ، اور اسی کے ساتھ اس کی زبان صداقت اور سچائی کی پابند ہو ، اور حسن اخلاق کی دولت بھی اس کو حاصل ہو ، اور کھانے پینے کے معاملہ میں بھی وہ محتاط اور پرہیز گار ہو ، یعنی صرف حلال کھاتا ہو ، اور اتنا ہی کھاتا ہو جتنا اس کو کھانے چاہئے ، اور حرام اور مشتبہ سے پرہیز کرتا ہو ، الغرض جس شخص کو یہ چار خصلتیں نصیب ہوں ، ظاہر ہے کہ اس کو انسانیت کا کمال نصیب ہے جو اس دنیا کی سب سے بڑی بلندی ہے اور آخرت کی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی میں اس کو وہ بے حساب اور بے شمار نعمتیں ملیں گی جن میں سے ایک ایک کی قیمت اس دنیا سے اور اس کی ساری دولتوں اور نعمتوں سے زیادہ ہوگی پس ایسا شخص اگر دنیا سے خالی ہاتھ رہے تو اسے کوئی غم اور کوئی افسوس نہ ہونا چاہئے ، کیوں کہ جو کچھ اسے ملا ہوا ہے دنیا اور اس کی ساری دولتیں اور بہاریں اس کے سامنے ہیچ ہیں ۔

【90】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ شخص کامیاب اور بامراد ہوا جس کے دل کو اللہ نے ایمان کے لیے خالص کر دیا اور اس کے قلب کو صحیح و سالم بنا دیا (یعنی جس کے دل کو ایسا صاف ایمان و یقین نصیب فرمایا جس میں شک یا نفاق کی کوئی آمیزش اور کوئی گنجائش نہیں ، اور حسد و کینہ جیسے باطنی امراض سے بھی اس کے دل کو پاک کر کے سلیم بنایا) اور اس کی زبان کو سچائی اور اس کے نفس کو اطمینان عطا فرمایا (یعنی اس کے نفس کو ایسا کر دیا کہ اللہ کی یاد سے اور اس کی مرضیات سے اس کو چین و اطمینان ملتا ہے) اور اس کی طبیعت کو سیدھا اور درست کر دیا (کہ وہ برائی کی طرف نہیں چلتی) اور اس کے کان کو سننے والا اور آنکھ کو دیکھنے والا بنا دیا (کہ وہ حق باتوں کو اور اللہ کی نشانیوں کو سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں اور نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہیں) پس کان تو مثل قیف کے ہے (کہ باتیں اس کے راستے سے دل میں اس طرح جاتی ہیں جس طرح بوتل یا شیشی میں کوئی چیز قیف کے ذریعہ جاتی ہے) اور آنکھ پہنچانے والی اور ٹھہرانے والی ہے ان چیزوں کو جو وہ قلب کو سونپتی ہے ، اور بامراد اور کامیاب ہوا وہ شخص جس کے دل کو بنا دیا اللہ نے یاد رکھنے والا ۔ (مسند احمد ، شعب الایمان للبیہقی) تشریح حدیث کے آخری حصہ میں کان اور آنکھ کے متعلق جو بات فرمائی گئی ہے “ فَأَمَّا الْأُذُنُ فَقِمْعٌ الخ ” جس کے ترجمہ پر امتیاز کے لئے خط لگا دیا گیا ہے ، اس سے وجود انسانی میں کان اور آنکھ کی یہ امتیازی اہمیت ظاہر کرنا مقصود ہے کہ دل جو انسانی اعضاء میں گویا بادشاہ اور فرمانروا کی حیثیت رکھتا ہے ، اس میں جو چیزیں پہنچتی ہیں اور اس کو متاثر کرتی ہیں وہ عموماً کان اور آنکھ ہی کے ذریعہ پہنچتی ہیں ، اس لئے انسان کی فلاح و سعادت اس پر موقوف ہے کہ اللہ اس کے کان کو شنوا ، اور اس کی آنکھوں کو بینا بنا دے ۔ اور سب سے آخر میں فرمایا کہ “ فلاح یاب اور بامراد ہوا وہ انسان جس کے دل کو اللہ نے یاد رکھنے والا بنا دیا ” ۔ مطلب یہ ہے کہ فلاح و سعادت تک پہنچانے والی جو باتیں کان یا آنکھ کے ذریعہ دل میں پہنچیں ان سے بھی منزل سعادت تک جب ہی پہنچا جا سکتا ہے جب کہ دل ان کو محفوظ رکھے اور ان سے برابر کام لیتا رہے ، اس لئے انسان کی سعادت اور خوش بختی کی آخری اور سب سے اہم شرط یہ ہے کہ قلب اپنا فریضہ اور وظیفہ ٹھیک ٹھیک انجام دیتا رہے ۔ قرآن مجید میں بھی جا بجا انسان کی ان تینوں قوتوں (سمع ، بصر ، قلب) کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ گویا انسان کی ہدایت اور نجات کا دار و مدار انہی تینوں کی سلامتی اور راست روی پر ہے ۔

【91】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں

عمرو بن میمون اودی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا پانچ حالتوں کو دوسری پانچ حالتوں کے آنے سے پہلے غنیمت جانو ، اور ان سے جو فائدہ اٹھانا چاہئے وہ اٹھا لو ۔ غنیمت جانو جوانی کو بڑھاپے کے آنے سے پہلے ، اور غنیمت جانو تندرستی کو بیمار ہونے سے پہلے ، اور غنیمت جانو خوش حالی اور فراخ دستی کو ناداری اور تنگدستی سے پہلے ، اور غنیمت جانو فرصت اور فراغت کو مشغولیت سے پہلے ، اور غنیمت جانو زندگی کو موت آنے سے پہلے ۔ (جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ انسان کے حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے ، اس لئے اس کو چاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ اسے کچھ عمل کرنے کے قابل اچھی اور اطمینان کی حالت نصیب فرمائے تو اس کو غنیمت اور پروردگار کی طرف سے ملی ہوئی نعمت سمجھے ، اور اللہ کی رضا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے جو کچھ کر سکتا ہو اس وقت کر لے ، کیا خبر ہے کہ آئندہ کر سکنے کے قابل رہے گا یا نہیں ۔ اگر جوانی کی قوت ملی ہوئی ہے تو بڑھاپے کی کمزوریوں اور معذوریون کے آنے سے پہلے اس سے فائدہ اٹھا لے ، اگر تندرست و توانا ہے تو بیماری کی مجبوریوں سے پہلے اس سے کام لے لے ، اگر خوش حالی اور مالی وسعت اللہ نے نصیب فرمائی ہے تو افلاس اور محتاجی آنے سے پہلے اس سے فائدہ حاصل کر لے ، اور اگر کچھ فرصت ملی ہوئی ہے تو مشغولیت اور پریشان حالی کے دن آنے سے پہلے اس کی قدر کر لے اور کام لے لے اور زندگی کے بعد بہر حال موت ہے جو ہر قسم کے اعمال کا خاتمہ کر دینے والی ہے اور اس کے ساتھ توبہ و استغفار کا دروازہ بھی بند ہو جاتا ہے ، اس لئے زندگی کے ہر لمحہ کو غنیمت اور خداداد فرصت سمجھے ، اور اس سے فائدہ اٹھانے میں غفلت نہ کرے ۔

【92】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا : تم عمل کے لئے انتظار کتے ہو اس خوشحالی اور دولت مندی کا جو آدمی کو سرکش کر دیتی ہے ، یا انتظار کرتے ہو اس ناداری اور محتاجی کا جو سب کچھ بھلا دیتی ہے ، یا انتظار کرتے ہو حالت بگاڑ دینے والی بیماری کا ، یا عقل و حواس کھو دینے والے بڑھاپے کا ، یا اچانک آنے والی ا ور فنا کر دینے والی موت کا ، یا تم منتظر ہو دجال کے ۔ اور دجال بدترین غائب ہے جس کا انتظار ہے ، ی منتظر ہو قیامت کے ، اور قیامت بڑا سخت حادثہ اور بڑا کڑوا گھونٹ ہے ۔ (جومع ترمذی و سنن نسائی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو لوگ فرصت اور فراغ کو غنیمت نہیں سمجھتے اور اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور رضاء الٰہی اور فلاح اُخروی کے لئے عملی جدو جہد سے غافل رہ کر تن آسانی میں اپنا وقت گذار رہے ہیں ، گویا وہ اس کے منتظر ہیں کہ مذکورہ بالا بلاؤں اور آفتوں میں سے جب کوئی بلا اور آفت ان پر آئے گی ، جب وہ جاگیں گے ، اور اس وقت آخرت کی فکر اور تیاری کریں گے ۔

【93】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روای ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن (جب حساب کے لئے بارگاہِ خداوندی میں پیشی ہوگی ، تو) آدمی کے پاؤں سرک نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کا سوال نہ کر لیا جائے گا ۔ ایک اس کی پوری زندگی اور عمر کے بارے میں کہ کن کاموں میں اس کو ختم کیا ۔ اور دوسرا خصوصیت سے اس کی جوانی (اور جوانی کی قوتوں) کے بارے میں کہ کن مشاغل میں جوانی اور اس کی قوتوں کو بوسیدہ اور پرانا کیا ، اور تیسرا اور چوتھا مال و دولت کے بارے میں کہ کہاں سے اور کن طریقوں اور راستوں سے اس کو حاصل کیا تھا اور کن کاموں اور کن راہوں میں اس کو صرف کیا ۔ اور پانچواں سوال یہ ہو گا کہ جو کچھ معلوم تھا اس کے بارے میں کیا عمل کیا ؟ (جامع ترمذی) تشریح ہر شخص اپنی زندگی ، اپنی جوانی ، اپنی آمد و خرچ اور اپنے علم و فمل کا دنیا ہی میں محاسبہ کرے اور ذرا سوچے کہ دربارِ خداوندی میں کھڑا کر کے جب مجھ سے سر محشر یہ سوالات کئے جائیں گے تو میرا حال اور انجام کیا ہو گا ؟ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور اپنے کرم سے آسان فرمائے ورنہ امتحان اپنی نوعیت کے لحاظ سے یقیناً بڑا سخت ہے ، اور صرف وہی خوش نصیب بندے اس دن رسوائی سے بچ سکیں گے جو اس گھڑی کے آنے اور اس امتحان گاہ میں پہنچنے سے پہلے اسی دنیا میں تیاری کر لیں ، اور زندگی اس طرح گذاریں کہ اس محاسبہ اور اس امتحان میں کامیاب اور سرخرو ہو سکیں ۔

【94】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں

ابو جری جابر بن سلیم سے روایت ہے کہ میں مدینہ پہنچا (اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس وقت کچھ جانتا نہیں تھا) میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ لوگ اس کے پاس طالب بن کر حاضر ہوتے ہیں اور وہ ان کو جو کچھ بتا دیتا ہے اس کو قبول کر کے چلے جاتے ہیں ، جو کچھ بھی اس کی زبان سے نکلتا ہے لوگ اس کو دل و جان سے مانتے اور تسلیم کرتے ہیں ۔ میں نے پوچھا یہ لون ہیں ؟ لوگوں نے مجھے بتایا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں ، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور میں نے عرض کیا “ عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ” یہ میں نے دو دفعہ عرض کیا ، آپ نے فرمایا “ عَلَيْكَ السَّلَامُ ” نہ کہو ، یہ مُردوں کا سلام ہے ۔ (یعنی اہلِ جاہلیت اس طرح مُردوں کو سلام کیا کرتے تھے ، بجائے اس کے) “ السَّلَامُ عَلَيْكَ ” کہو ۔ میں نے عرض کیا: آپ اللہ کے رسول ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! میں رسول ہوں اس اللہ کا جس کی شان یہ ہے کہ اگر تمہیں کوئی دُکھ اور تکلیف ہو ، اور تم اس سے دُعاو کرو تو وہ تمہارے دکھ کو دور کر دے ، اور اگر تم پر قحط سالی کی مصیبت آ جائے اور تم اس سے دعا کرو تو تمہارے لئے وہ زمین سے پیداوار پیدا کر دے ، اور جب تم کسی جنگل بیابان میں اور لق و دق میدان میں ہو ، تمہاری سواری کا جانور گم ہو جائے ، اور تم اس سے دعا کرو ، تو وہ تمہاری سواری کے اس جانور کو تمہارے پاس پہنچا دے ۔ (حدیث کے راوی جابر بن سُلیم کہتے ہیں ، کہ) میں نے آپ سے عرض کیا کہ مجھے کچھ نصیحت ار وصیت فرمائیے ! آپ نے ارشاد فرمایا (تمہیں میری پہلی نصیحت یہ ہے کہ) تم کبھی کسی کو گالی نہ دینا ، جابر بن سلیم کہتے ہیں اس کے بعد سے میں نے کسی کو بھی گالی نہ دی ، اور نہ کسی آزاد کو نہ غلام کو ، نہ اونٹ بکری جیسے کسی جانور کو (اس کے بعد سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحتیں بھی فرمائیں) کسی احسان کو تم حقیر نہ سمجھو ، اور تم اپنے بھائی سے شگفتہ روئی کے ساتھ بات کیا کرو ، یہ بھی ایک طرح کا احسان اور حسن سلوک ہے ، اور اپنا تہبند آدھی پنڈلیوں تک اونچا رکھو ، اگر اتنا اونچا رکھنا منظور نہ ہو ، تو کم سے کم ٹخنوں تک اونچا رکھو ، اور تہبند کو زیادہ نیچے لٹکانے سے پرہیز کرو ، کیونکہ یہ تکبر کی بات ہے ، اور اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں ہے ، اور اگر کوئی تمہیں گالی دے اور تمہاری کسی ایسی بُری بات کاذکر کر کے تم کو عار دلائے جو تمہارے بارے میں جانتا ہو تو تم ایسا نہ کرو ، اس صورت میں اس کی اس ساری زبان درازی کا پورا وبال اسی پر ہو گا ۔ (سنن ابی داؤد)

【95】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن ہم لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا ، کون ہے جو مجھ سے سیکھ لے یہ چند خاص باتیں ، پھر وہ خود ان پر عمل کرے یا دوسرے عمل کرنے والوں کو بتائے ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں ۔ تو آپ نے (از راہ شفقت) میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے لیا ، اور گن کر یہ پانچ باتیں بتائیں ۔ فرمایا : جو چیزیں اللہ نے حرام قرار دی ہیں اُن سے بچو ، اور اُن سے پورا پورا پرہیز کرو ، اگر تم نے ایسا کیا ، تو تم بہت بڑے عبادت گزار ہو ، (اور یہ عبدت نفلی عبادت کی کثرت سے افضل ہے) ۔ دوسری بات آپ نے یہ فرمائی کہ : اللہ نے جو تمہاری قسمت میں لکھا ہے اس پر راضی اور مطمئن ہو جاؤ ، اگر ایسا کرو گے تو تم بڑے بے نیاز اور دولت مند ہو جاؤ گے ۔ اور تیسری بات یہ کہ : اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرو ، اگر ایسا کرو گے ، تو تم مؤمن کامل ہو جاؤ گے ۔ اور چوتھی بات یہ کہ جو تم اپنے لئے چاہتے اور پسند کرتے ہو ، وہی دوسرے لوگوں کے لئے بھی چاہو اور پسند کرو ، تم ایسا کرو گے تو حقیقی مسلم اور پورے مسلمان ہو جاؤ گے ۔ اور پانچویں بات یہ ہے کہ : زیادہ مت ہنسا کرو ، کیوں کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پانچ باتیں بتانا چاہتے تھے ، آپ نے مخاطبین میں خاص طلب پیدا کرنے کے لئے ، اور ان کے دلوں کو پوری طرح بیدار اور متوجہ کرنے کے لئے پہلے ارشاد فرمایا کہ : میں اس وقت کچھ خاص باتیں بتانا اور سکھانا چاہتا ہوں ، تم میں سے کون ان کو سیکھنا چاہتا ہے ، لیکن اس کو ان باتوں کایہ حق ادا کرنا ہو گا کہ وہ خود ان پر عمل کرے اور دوسروں کو بھی بتلائے ، تا کہ وہ بھی عمل کریں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو آدمی دین کی باتیں سیکھے اس پر دو حق ہیں ایک یہ کہ خود ان پر عمل کرے اور دوسرے یہ کہ اوروں کو پہنچائے اور بتلائے ، بلکہ اگر خود پورا عمل نہ کرے تب بھی دوسروں کو بتانے سے دریغ نہ کرے ۔ جو پانچ باتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر تعلیم فرمائیں وہ بڑی اہم حقیقتیں ہیں ۔ پہلی بات آپ نے یہ ارشاد فرمائی ، کہ : بڑا عبادت گذار بندہ وہ ہے جو محرمات اور ممنوعات سے پرہیز کرتا ہے ، اگرچہ زیادہ نفلی نمازیں نہ پڑھتا ہو ، نفلی روزے زیادہ نہ رکھتا ہو ، ذکر و تسبیح میں بہت زیادہ مشغول نہ رہتا ہو ۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ : اللہ کی طرف سے جو مقسوم اور مقدور ہے اس پر راضی ہو جانے سے آدمی کو برا اطمینان اور بڑی بے فکری نصیب ہو جاتی ہے ۔ تیسری بات یہ کہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کمالِ ایمان کی شرط ہے ۔ چوتھی بات یہ کہ ، کامل مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی دوسروں کا اتنا خیر خواہ اور بہی خوا ہو ، کہ جو اپنے لئے چاہے وہی دوسروں کے لئے چاہے ۔ اور پانچویں بات یہ کہ ، زیادہ نہ ہنسا جائے ، کیوں کہ یہ عادت دل کو مردہ اور بے حس کر دیتی ہے ۔ اگر اللہ کی توفیق سے اس کا کوئی بندہ آج بھی ان پانچ باتوں پر کار بند ہو جائے تو دنیا ہی میں وہ جنت کا مزا چکھک لے گا ، اس کی زندگی پاک صاف اور بڑے اطمینان والی ہوگی ، دور قریب کے لوگ اس سے محبت کریں گے ، اس کا دل اللہ کے ذکر سے زندہ اور شاداب ہو گا ، اور آخرت میں اللہ کی رضا اور جنت کی جو نعمتیں اس کوملیں گے ان کی قدر و قیمت اور حقیقی لذت تو بس وہیں جا کر معلوم ہوگی ۔

【96】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، انہوں نے فرمایا کہ مجھے میرے محبوب دوست (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سات باتوں کا خاص طور سے حکم فرمایا ہے ۔ مجھے آپ نے حکم فرمایا ہے ۔ مساکین اور غرباء سے محبت رکھنے کا اور ان سے قریب رہنے کا ۔ اور آپ نے حکم فرمایا ہے کہ دنیا میں ان لوگوں پر نظر رکھو جو مجھ سے نچلے درجے کے ہیں (یعنی جن کے پاس دنیوی زندگی کا سامان مجھ سے بھی کم ہے) اور ان پر نظر نہکروں جو مجھ سے اوپر کے درجہ کے ہیں (یعنی جن کو دنیوی زندگی کا سامان مجھ سے زیادہ دیا گیا ہے ، اور بعض دوسری احادیث میں ہے کہ ایسا کرنے سے بندہ میں صبر و شکر کی صفت پیدا ہوتی ہے ، اور یہ ظاہر بھی ہے) آگے حضرت ابوذر فرماتے ہیں ، کہ اور مجھے آپ نے حکم دیا ہے کہ میں اپنے اہل قرابت کے ساتھ صلہ رحمی کروں ، اور قریبتی رشتہ کو جوڑوں (یعنی ان کے ساتھ وہ معاملہ اور سلوک کرتا رہوں جو اپنے عزیزوں قریبوں کے ساتھ کرنا چاہئے) اگرچہ وہ میرے ساتھ ایسا نہ کریں ۔ اور آپ نے مجھے حکم دیا کہ کسی آدمی سے کوئی چیز نہ مانگوں (یعنی اپنی ہر حاجت کے لئے اللہ ہی کے سامنے ہاتھ پھیلاؤں ، اور اس کے سوا کسی کے در کا سائل نہ بنوں) ۔ اور آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں ہر موقع پر حق بات کہوں ، اگرچہ وہ لوگوں کے لئے کڑوی ہو (اور ان کی خواہشات اور اغراض کے خلاف ہونے کی وجہ سے انہیں بری لگے) ۔ اور آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں اللہ کے راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈروں (یعنی دنیا والے اگرچہ مجھے برا کہیں لیکن میں وہی کہوں اور وہی کروں جو اللہ کا حکم ہو ، اور جس سے اللہ راضی ہو ، اور کسی کے برا بھلا کہنے کی مطلق پرواہ نہ کروں) اور آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں کلمہ “ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ ” کثرت سے پڑھا کروں ، کیوں کہ یہ سب باتیں اس خزانے سے ہیں جو عرش کے نیچے ہے (یعنی یہ اس خزانے کے قیمتی جواہرات ہیں جو عرشِ الہی کے نیچے ہے ، اور جن کو اللہ ہی جن بندوں کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے ، کسی اور کی وہاں تک دسترس نہیں) ۔ (مسند احمد) تشریح حدیث کی ضروی تشریح ترجمہ ہی کے ضمن میں ہو چکی ہے ، یہاں صرف ایک بات یہ قابل ذکر ہے کہ کلمہ “ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ ” جس کی کثرت کی اس حدیث میں تاکید فرمائی گئی ہے ، اس کی تشریح خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث میں یہ مروی ہے کہ “ گناہوں سے بچاؤ ، اور نیکی کرنے کی قوت ، بس اللہ ہی کی توفیق سے بندہ کو ملتی ہے ” یعنی اللہ کا فضل اور اس کی توفیق اگر شامل نہ ہو ، تو بندہ نہ گناہوں سے بچ سکتا ہے ، اور نہ نیک اعمال کر سکتا ہے ، پس بندے کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ اللہ سے توفیق اور اس کا فضل مانگتا رہے ، اور معصیات سے بچنا ، اور نیک اعمال کا کرنا اگر نصیب ہو ، تو اس کو اپنا کمال نہ سمجھے ، بلکہ اللہ کا فضل و کرم جانے ۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ کلمہ جس کی حقیقت کو بیان کرتا ہے ، اگر اس کے دھیان اور استحضار کے ساتھ کثرت سے اس کا ورد کیا جائے ، تو بندہ کی اصلاح کے لئے اکسیر ہے ، اور اس کی بڑی تاثیر ہے ، مشائخ طریقت میں سے خصوصیت کے ساتھ حضرات شاذلیہ طالبین و سالکین کو اسی کلمہ کی کثرت کی زیادہ تلقین کرتے ہیں ۔

【97】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : مجھے میرے پروردگار نے ان نو (۹) باتوں کا خاص طور سے حکم فرمایا ہے ۔ ایک اللہ سے ڈرنا خلوت میں اور جلوت میں ۔ اور عدل و انصاف کی بات کہنا غصہ میں اور رضامندی میں (یعنی ایسا نہ ہو کہ جب کسی سے ناراضی اور اس پر غصہ ہو تو اس کی حق تلفی اور اس کے ساتھ بے انصافی کی جائے ، اور جب کسی سے دوستی اور رضامندی میں ہو تو اس کی بے جا حمایت اور طرفداری کی جائے ، بلکہ ہر حال میں عدل و انصاف اور اعتدال کی راہ پر چلا جائے) اور حکم فرمایا میانہ روی پر قائم رہنے کا ، غریبی و ناداری و فراخ دستی و دولت مندی کی دونوں حالتوں میں (یعنی جب اللہ تعالیٰ ناداری اور غریبی میں مبتلا کرے تو بے صبری اور پریشاں حالی کا اظہار نہ ہو) اور جب وہ فراخ دستی اور خوشحالی نصیب فرمائے ، تو بندہ اپنی حقیقت کو بھول کر غرور اور سرکشی میں مبتلا نہ ہو جائے ۔ الغرض ان دونوں امتحانی حالتوں میں افراط و تفریط سے بچا جائے ، اور اپنی روش درمیانی رکھی جائے ، یہی وہ میانہ روی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا ہے ۔ (آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں) اور مجھے حکم فرمایا کہ میں ان اہلِ قرابت کے ساتھ بھی رشتہ جوڑوں اور ان کے حقوق قرابت اچھی طرح ادا کروں جو مجھ سے رشتہ قرابت توڑیں اور میرے ساتھ بدسلوکی کریں ، اور یہ کہ میں ان لوگوں کو بھی دوں جنہوں نے مجھے محروم رکھا ہو ، اور میرا حق مجھے نہ دیا ہو ، اور یہ کہ میں ان لوگوں کو معاف کر دوں جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا ہو اور مجھے ستایا ہو ، اور مجھے حکم دیا ہے کہ میری خاموشی میں تفکر ہو (یعنی جس وقت میں خاموش ہوں تو اس وقت سوچنے کی چیزیں سوچوں ، اور جو چیزیں قابل تفکر ہیں ان میں غور و تفکر کروں ، مثلاً اللہ کی صفات اور اس کی آیات ، اور مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ معاملہ میرے ساتھ کیا ہے ، اور اس کا مجھے کیا حیم ہے ، اور میرا معاملہ اللہ کے ساتھ اور اس کے احکام کے ساتھ کیا ہے اور کیا ہونا چاہئے ، اور میرا انجام کیا ہونے والا ہے ، اور مثلاً یہ کہ اللہ کے غافل بندوں کو کس طرح اللہ سے جوڑا جائے ، الغرض خاموشی میں اس طرح کا تفکر ہو) ۔ اور مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میری گفتگو ذکر ہو (یعنی میں جب بھی بولوں اور جو بھی بولوں اس کا اللہ سے تعلق ہو ، خواہ اس طرح کہ وہ اللہ کی ثنا و صفت ہو ، یا اس کے احکام کی تعلیم و تبلیغ ہو ، یا اس طرح کہ اس میں اللہ کے احکام اور حدود کی رعایت اور نگہداشت ہو ، ان سب صورتوں میں جو گفتگو ہوگی وہ “ ذکر ” کے قبیل سے ہوگی) اور مجھے حکم دیا ہے کہ میری نظر عبرت والی ہو ، (یعنی میں جس چیز کو دیکھوں اس سے سبق اور عبرت حاصل کروں) اور لوگوں کو حکم کروں اچھی باتوں کا ۔ (رزین) تشریح ضروری تشریح ترجمہ کے ضمن میں ہو چکی ہے ۔ صرف ایک بات اور قابلِ ذکر ہے ، کہ حدیث کا آخری جز (وامر بالمعروف) ان نو باتوں کے علاوہ ہے ، گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے وہ خاص نو حکم بیان فرمانے کے بعد جو آپ اس موقع پر بیان فرمانا چاہتے تھے ، اللہ تعالیٰ کا ایک اور اہم حکم بھی بیان فرما دیا جس کے لئے آپ نبی و رسول ہونے کی حیثیت سے خاص طور سے مامور ہیں ، اور وہ آپ کا خاص الخاص فرضِ منصبی ہے ، یعنی “ امر بالمعروف ” جس میں نہی عن المنکر بھی داخل ہے ، کیوں کہ وہ دراصل امر بالمعروف ہی کی منفی صورت ہے ۔ یہ حدیث اور اس سے پہلی حدیث بھی بڑی اہم تعلیمات کی جامع ہیں ، اور حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر عمل نصیب فرما دیں ، تو اصلاح و تزکیہ کے لئے یہی دو حدیثیں کافی ہیں ۔

【98】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دفعہ) مجھے دس باتوں کی وصیت فرمائی ، فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، اگرچہ تم کو قتل کر دیا جائے اور جلا ڈالا جائے ۔ اور اپنے ماں باپ کی نافرمانی نہ کرو ، اگرچہ وہ تم کو حکم دیں کہ اپنے اہل و عیال اور مال و منال کو چھوڑ کے نکل جاؤ ۔ اور کبھی ایک فرض نماز بھی قصداً نہ چھوڑو ، کیوں کہ جس نے ایک فرض نماز بھی قصداً چھوڑی ، اس کے لئے اللہ کا عہد اور ذمہ نہیں رہا ۔ اور ہرگز کبھی شراب نہ پیو ، کیوں کہ شراب نوشی سارے فواحش کی جڑ بنیاد ہے ، (اسی لئے اس کو ام الخبائث کہا گیا ہے) ۔ اور ہر گناہ سے بچو کیوں کہ گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا غصہ نازل ہوتا ہے ۔ اور جہاد کے معرکہ سے پیٹھ پھیر کے نہ بھاگو ، اگرچہ کُشتوں کے پشتے لگ رہے ہوں ۔ اور جب تم کسی جگہ پر لوگوں کے ساتھ رہتے ہو ، اور وہاں (کسی وبائی مرض کی وجہ سے) موت کا بازار گرم ہو جائے تو تم وہیں جمے رہو ، (جان بچانے کے خیال سے وہاں سے مت بھاگو) اور اپنے اہل و عیال پر اپنی استطاعت اور حیثیت کے مطابق خرچ کرو (نہ بخل سے کام لو کہ پیسہ پاس ہوتے ہوئے اُن کو تکلیف ہو ، اور نہ خرچ کرنے میں اپنی حیثیت سے آگے بڑھو) ۔ اور ادب دینے کے لئے اُن پر (حسبِ ضرورت و موقع) سختی بھی کیا کرو ۔ اور اُن کو اللہ سے ڈرایا بھی کرو ۔ (مسند احمد) تشریح حدیث اپنے مطلب کے لحاظ سے بالکل واضح ہے ۔ تاہم چند باتیں قابل ذکر ہیں ، شریعت کا مشہور و معروف مسئلہ ہے اور قرآن مجید میں بھی اس کو صراحت سے بیان کیا گیا ہے ، کہ اگر کسی شخص کو شرک و کفر پر مجبور کیا جائے اور اندازہ یہ ہو کہ اگر میں انکار پر ہی قائم رہوں گا ، تو مار ڈالا جاؤں گا ، تو ایسے موقع پر اس کی اجازت ہے ، کہ صرف زبان سے شرک و کفر کا اظہار کر کے اُس وقت جان بچا لی جائے ۔ لیکن عزیمت اور افضل یہ ہے کہ زبان سے بھی شرک و کفر کا اظہار نہ کرے ، اگرچہ جان چلی جائے ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ چونکہ خواص میں سے تھے ، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نصیحت فرمائی کہ وہ ایسے موقع پر عزیمت ہی پر عمل کریں ، اور جان کی پروا نہ کریں ۔ اسی طرح والدین کی اطاعت کے بارے میں جو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ اہل و عیال اور اپنا کمایا ہوا سارا مال چھوڑ کے نکل جانے کو کہیں ، تب بھی ان کی نافرمانی نہ کرو ، یہ بھی اولیٰ اور افضل کا بیان ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ اولاد کو چاہئے کہ اُن کے سخت سے سخت حکم اور ناگوار سے ناگوار حکم کو بھی مانے ، ورنہ مسئلہ یہ ہے کہ ماں باپ کے ایسے اسخت اور ناواجب مطالبات کا پورا کرنا اولاد پر شرعاً واجب نہیں ہے ، ہاں اگر رضاکارانہ طور پر اولاد ایسا کرے ، (اور کسی دوسرے کی اس میں حق تلفی نہ ہو) تو افضل ہے اور بڑی بلند بات ہے ۔ نماز کے متعلق آپ نے جو یہ ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے ایک فرض نماز قصداً ترک کی ، اس کے لیے اللہ کا عہد و ذمہ نہیں رہا ۔ یہ اُن حدیثوں میں سے ہے جن کی بناء پر حضرت امام شافعیؒ اور بعض دوسرے ائمہ نے تارک صلوٰۃ کے قتل کا فتویٰ دیا ہے ۔ حضرت امام مالکؒ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ حاکم اسلام اس کو جو سزا دینا مناسب سمجھے دے اور قید کر دے ، اللہ کے عہد و ذمہ کی برأت کی یہ بھی ایک صورت ہو سکتی ہے ۔ بہر حال اس میں شبہ نہیں کہ عمداً فرض نماز چھوڑنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں اور یہ گناہ اگر عین کفر نہیں ہے تو قریب بہ کفر ضرور ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جامع وصیت کے آخری حصہ کا تعلق اولاد کی خبر گیری اور ان کی تادیب و ترہیب سے ہے ، اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ اہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بالکل آخری وصیت یہ ہے “ وَأَخِفْهُمْ فِي اللهِ ” یعنی تمہارے ذمہ یہ ہے کہ اپنے اہل و عیال کے دلوں میں خدا کا خوف پیدا کرتے رہو ، اس کے لئے جو تدبیریں بھی کرنی پڑیں وہ گویا ہمارے فرائض میں سے ہیں ، اور ہم اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ ہوں گے ۔

【99】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک دن مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آئے ، وہاں انہوں نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس بیٹھے رو رہے ہین ، حضرت عمرؓ نے ان سے دریافت کیا ، تمہارے اس رونے کا سبب کیا ہے ؟ انہیوں نے کہا ، کہ مجھے ایک بات رُلا رہی ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی میں نے آپ سے سنا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ، کہ تھوڑا سا ریا بھی شرک ہے ، اور جس شخص نے اللہ کے کسی دوست سے دشمنی کی تو اس نے خود اللہ کو جنگ کی دعوت دی اور بے شک اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے ان نیکو کار متقی بندوں سے جو ایسے چھپے ہوئے اور نامعروف ہوں کہ جب غائب ہوں تو کوئی ان کو تلاش نہ کرے ، اور حاضر ہوں تو کوئی ان کو دعوت دے کر اپنے پاس نہ بُلائے ، ان کے دل ہدایت کے روشن چراغ ، نکل جاتے ہیں کالی آندھیوں میں سے ۔ (سنن ابن ماجہ و شعب الایمان للبیہقی) تشریح حضرت معاذؓ کی یہ حدیث جس کو یاد کر کے وہ رو رہے تھے ، چنداجزاء پر مشتمل ہے ۔ پہلی بات یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کہ تھوڑاسا ریابھی شرک ہے ، درحقیقت تنہا یہی بات ان بندوں کو رلانے کے لیے کافی ہے جن کے دلوں میں خدا کا خوف ہو ، اور وہ شرک کی شناعت و قباحت کو بھی جانتے ہوں ۔ کیوں کہ خفی اور باریک قسم کے ریا سے بچنا اُن بندوں کے لیے بھی بہت مشکل ہے جو اُس سے بچنے کی فکر اورکوشش بھی کرتے ہیں ، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اللہ کا بندہ اپنے عمل کو ریا وغیرہ سے پاک رکھنے کی پوری کوشش کرتا ہے ، لیکن پھر اُس کو محسوس ہوتا ہے کہ ریا کی کچھ لگاوٹ آ ہی گئی ، عارفین کا یہعام حال ہے کہ وہ عمل کرتے ہیں اور بعد میں یہ محسوس کر کے روتے ہیں کہ جس اخلاص کے ساتھ عمل ہونا چاہئے وہ نصیب نہیں ہوا ۔ غالباً حضرت معاذ کے اس رونے میں بھی بھی اس احساس کو دخل تھا ۔ حضرت معاذ کا بیان ہے ، کہ ریا کے متعلق اس انتباہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری مرتبہ تنبیہ یہ فرمائی تھی کہ جن بندوں کا اللہ سے خاص تعلق ہو اُن کے بارے میں بہت محتاط رہنا چاہئے ، جو کوئی اُن خاصانِ خدا سے دشمنی کرتا ہے وہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کو جنگ کی دعوت دیتا ہے ، اور اُس کے غضب اور عذاب سے کھیلنا چاہتا ہے ۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ یاد رکھو وہ بندے محبوبانِ بارگاہ خداوندی ہیں جو نیکو کار اور تقویٰ شعار ہیں ، لیکن اسبابِ شہرت سے بچنے کی وجہ سے کوئی اُن کے اس امتیاز کو جانتا بھی نہیں ، وہ ایسے گمنام اور نامعروف ہیں کہ غائب ہوں تو کسی کو اُن کی فکر اور تلاش نہ ہو ، اور موجود ہوں تو کوئی اُن کو مدعو نہ کرے ، اُن کے دل روشن بلکہ دوسروں کو روشنی دینے والے چراغ ہیں ، اور وہ اپنے دل کی اس روشنی کی وجہ سے فتنوں کی سخت سے سخت اندھیریوں میں سے اپنے دین و ایمان کو محفوظ رکھے ہوئے نکل جاتے ہیں ۔ (۱) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے رونے میں غالباً ان کے اس احساس کو بھی دخل ہو اگ کہ افسوس ہم ایسے گمنام اور نامعروف نہیں رہے ، اور ہماری زندگی ایسی غربت اور کسمپرسی کی نہیں رہی ، اور ممکن ہے یہ بھی حساس ہو کہ اللہ کے کسی ایسے مستورالحال بندے کی مجھ سے کوئی حق تلفی نہ ہو گئی ہو ، اور اُس کو میر ی ذات سے کوئی ایذا کبھی نہ پہنچ گئی ہو ۔

【100】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہتے ہیں میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس کے بعد (یا تو خود حضرت ابوذر نے یا ان سے روایت کرنے والے نیچے کے راوی نے) ایک طویل حدیث بیان کی (جس کو یہاں بیان نہیں کیا گیا ہے) اسی سلسلہ کلام میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! مجھے وضیت فرمائیے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا ، میں تم کو وصیت کرتا ہوں اللہ کے تقوے کی ، کیوں کہ یہ تقوی بہت زیادہ آراستہ کر دینے والا اور سنوار دینے والا ہے ، تمہارے سارے کاموں کو ۔ ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے دعرض کیا کہ حضرت ! اور وصیت فرمائیے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا ، تم قرآن مجید کی تلاوت اور اللہ کے ذکر کو لازم پکڑ لو ، کیوں کہ یہ تلاوت ، اور ذکر ذریعہ ہو گا آسمان میں تمہارے ذکر کا ، اور اس زمین میں نور ہو گا تمہارے لئے ۔ ابوذرؓ کہتے ہیں میں نے پھر عرض کیا ، حضرت مجھے کچھ اور نصیحت فرمائیے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا : زیادہ خاموش رہنے اور کم بولنے کی عادت اختیار کرو ، کیوں کہ یہ عادت شیطان کو دفع کرنے والی اور دین کے معاملے میں تم کو مدد دینے والی ہے ۔ ابوذر کہتے ہیں میں نے عرض کیا ، مجھے اور نصیحت فرمائیے ۔ آپ نے فرمایا : زیادہ ہنسنا چھوڑ دو کیونکہ یہ عادت دل کو مردہ کر دیتی ہے ، اور آدمی کے چہرے کا نور اس کی وجہ سے جاتا رہتا ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت ! مجھے اور نصیحت فرمائیے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا : ہمیشہ حق اور سچی بات کہو ، اگرچہ (لوگوں کے لیے) ناخوشگوار اور کڑوی ہو ۔ میں نے عرض کیا ، مجھے اور نصیحت فرمائیے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا : اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرو ۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت ! مجھے اور نصیحت فرمائیے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا : تم جو کچھ اپنے نفس اور اپنی ذات کے بارے میں جانتے ہو ، چاہئے کہ وہ تم کو باز رکھے دوسروں کے عیبوں کے پیچھے پڑنے سے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اکثری عادتِ مبارکہ کے مطابق سب سے پہلی وصیت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو تقوے کی فرمائی ، اور ارشاد فرمایا کہ تقویٰ تمہارے سارے کاموں کو بہت مزین اور آراستہ کر دینے والا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر آدمی تقوے کو اپنا شعار بنا لے ، تو اس کی ساری زندگی اطاعت اور بندگی والی زندگی ہو جائے گی ، اور اس کا ظاہر و باطن سب ہی آراستہ ہو جائے گا ۔ پھر آپ نے تلاوت قرآن اور ذکر اللہ کی کثرت کی وصیت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس کے نتیجہ میں آسمانوں میں یعنی ملاء اعلیٰ میں تمہارا ذکر ہو گا ۔ چنانچہ ایک حدیث میں وارد ہے کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں یاد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کی مجلس میں کا ذکر فرماتے ہیں ۔ قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے “ فَاذْكُرُوْنِىْ اَذْكُرْكُمْ ” (تم مجھے یاد کرو ، میں تمہیں یاد کروں گا) تلاوت و ذکر کی دوسری برکت آپ نے یہ بیان فرمائی کہ اس سے اسی دنیا اور اسی زمین میں ایک نور تم کو حاصل ہو گا ، ذکر و تلاوت سے پیدا ہونے والا نور دراصل تو بندہ کے باطن میں پیدا ہوتا ہے ، لیکن اس کے آثار ظاہر میں بھی محسوس ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ خاموش رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہ ہتھیار ہے جس سے شیطان دفع ہو سکتا ہے ، اور دین کے بارے میں اس سے بڑی مدد مل سکتی ہے ۔ یہ واقعہ ہے کہ جس کو ہر شخص محسوس کر سکتا ہے کہ شیطان آدمی کے دین کو سب سے زیادہ نقصان زبان ہی کے راستے سے پہنچا سکتا ہے ، جھوٹ غیبت ، بہتان ، گالی گلوج ، چغل خوری وغیرہ ، یہی وہ گناہ ہیں جن میں آدمی سب سے زیادہ مبتلا ہوتے ہیں ۔ اسی لئے ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ “ آدمیوں کو جہنم میں منہ کے بل اُن کے زبانوں کے بیباکیاں ہی ڈلوائیں گی ” ۔ پس ظاہر ہے کہ جو شخص زیادہ خاموش رہنے اور کم بولنے کی عادت ڈال لے ، وہ اپنے کو اور اپنے دین کو شیطان کے حملوں سے زیادہ محفوظ رکھ سکے گا ۔ واضح رہے کہ زیادہ خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس بات کے کرنے کی ضرورت نہ ہو اورجس پر آخرت میں ثواب ملنے کی امید نہ ہو ، اُس سے زبان کو روکا جائے ، یہ مطلب نہیں ہے کہ اچھی باتیں بھی نہ کی جائیں ۔ کتاب الایمان میں یہ حدیث گزر چکی ہے کہ جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو ، اُسے چاہئے کہ یا تو اچھی بات کرے یا خاموش رہے ۔ اس کے بعد آپ نے زیادہ ہنسنے کی نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس سے دل مردہ ہو جاتا ہے ، اور چہرہ بے نور ہو جاتا ہے ۔ دل کے مر جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں غفلت اور بے حسی اور ایک طرح کی ظلمت آ جاتی ہے ، اور اس کا اثر ظاہر پر یہ پڑتا ہے کہ چہرہ پر وہ نور باقی نہیں رہتا جو زندہ اور بیداردل رکھنے واے اہل ایمان کے چہروں پر ہوتا ہے ۔ اس سلسلہ کلام میں آپ نے سب سے آخری نصیحت حضرت ابوذر کو ئی فرمائی کہ اپنے عیبوں اور گناہوں کے بارے میں جو کچھ تم جانتے ہو ، اُس کی فکر تم کو اتنی ہونی چاہئے کہ دوسرے بندوں کے عیوب و ذنوب کو دیکھئے اور ان کی باتیں کرنے کی تم کو فرصت ہی نہ ہو ، بلا شبہ جو بندہ بھی اپنے عیوب اور اپنے گناہوں پر نظر رکھے گا اور اپنے نفس کا ایک سچے مؤمن کی طرح احتساب کرتا رہے گا ، اُسے دوسروں کے معائب اور معاصی نظر ہی نہ آئیں گے ، اور وہ اپنے ہی کو سب سے زیادہ قصور وار اور گناہ گار سمجھے گا ، دوسروں کے عیوب اُن ہی کو زیادہ نظر آتے ہیں جو اپنی فکر سے خالی ہوتے ہیں ۔ ؎ غافل ان ایں خلق از خود بے خبرلا جرم گویند عیبے یک دگر

【101】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خط لکھا ، اور اس میں درخواست کی کہ آپ مجھے کچھ نصیحت اور وصیت فرمائیں ، لیکن بات مختصر اور جامع ہو ، بہت زیادہ نہ ہو ۔ تو حضرت ام المؤمنین نے اُن کو یہ مختصر خط لکھا : سلام ہو تم پر ۔ اما بعد ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ہے ، آپ فرماتے تھے جو کوئی اللہ کو راضی کرنا چاہے ، لوگوں کو اپنے سے خفا کر کے ، تو اللہ مستغنی کر دے گا اُس کو لوگوں کی فکر اور بار برداری سے ، اور خود اُس کے لیے کافی ہو جائے گا اور جو کوئی بندوں کو راضی کرنا چاہے گا اللہ کو ناراض کر کے ، تو اللہ اُس کو سپرد کر دے گا لوگوں گے ۔ والسلام (جامع ترمذی) تشریح اس دنیا میں رہنے والے انسانوں اور خاص کر وسیع تعلقات اور وسیع ذمہ داریاں رکھنے والے لوگوں کو بکثرت ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ اگر وہ ایسا رویہ اختیار کریں جس سے اللہ کی رضا کی اُمید ہو ، تو بہت سے لوگ خفا ہوتے ہیں ، جن سے تعلقات ہیں اور منفعت کی امیدیں ہیں ، اور جن سے برابر کام نکلتے رہتے ہیں اور اگر وہ ان لوگوں کی منشاء کے مطابق چلتے ہین ، تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے ایسے وقت کے لیے اس حدیث میں یہ رہنمائی کی گئی ہے کہ بندہ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا والا رویہ اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات و حاجات کاخود کفیل ہو جائے گا ، اور بندوں سے جن منافع کی وہ امید رکھتا ہے وہ سب اُس کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ھاصل ہوتے رہیں گے ۔ لیکن اگر اُس نے رضا الہی کی فکر و تلاش کو چھوڑ کر بندوں کو راضی رکھنا چاہا اور اُن کی منشا کے مطابق چلا ، تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی عنایت و نصرت سے محروم کر دیں گے ، اور اُن بندوں ہی کے حوالہ کر دیں گے جو اپنی ذات سے خود بھی اسی بندہ کی طرح محتاج اور بے بس ہیں ۔ حاصل یہ کہ اگر بندہ چاہے کہ اللہ تعالیٰ براہِ راست اُس کی حاجات و ضروریات کے کفیل ہو جائیں ، تو اُسے چاہئے کہ وہ ہر معاملہ میں اللہ کی اور صرف اللہ کی رضا جوئی کو اپنا نصب العین اور اصول حیات بنا لے ، اور اُس کے قلب مؤمن کی صدا یہ ہو ع با خدا داریم کار و با خلائق کار نیست یہ نصیحت اگرچہ لفظوں میں مختصر ہے ، لیکن غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ معنی و مقصد کے لحاظ سے ایک پورا دفتر ہے ۔