35. حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہنسنے کے بیان میں

【1】

حضور اقدس ﷺ کے ہنسنے کے بیان میں

حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کی پنڈلیاں کسی قدر باریک تھیں اور آپ ﷺ کا ہنسنا صرف تبسم ہوتا تھا۔ جب میں حضور اقدس ﷺ کی زیارت کرتا تو دل میں سوچتا کہ آپ ﷺ سرمہ لگائے ہوئے ہیں حالانکہ اس وقت سرمہ لگائے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔

【2】

حضور اقدس ﷺ کے ہنسنے کے بیان میں

عبداللہ بن حارث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس ﷺ سے زیادہ تبسم کرنے والا نہیں دیکھا۔

【3】

حضور اقدس ﷺ کے ہنسنے کے بیان میں

عبداللہ بن حارث (رض) ہی کی یہ بھی روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ کاہنسنا تبسم سے زیادہ نہیں ہوتا تھا۔

【4】

حضور اقدس ﷺ کے ہنسنے کے بیان میں

حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اس شخص کو خوب جانتا ہوں جو سب سے اول جنت میں داخل ہوگا اور اس سے بھی خوب واقف ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک آدمی دربار الٰہی میں حاضر کیا جائے گا اس کے لئے یہ حکم ہوگا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ اس پر پیش کئے جائیں کہ تو نے فلاں دن فلاں گناہ کئے ہیں تو وہ اقرار کرے گا۔ اس لئے کہ انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی اور اپنے دل میں نہایت ہی خوفزدہ ہوگا کہ ابھی صغائر ہی کا نمبر ہے۔ کبائر پر دیکھیں کیا گزرے ؟ کہ اس دوران میں یہ حکم ہوگا کہ اس شخص کے ہر گناہ کے بدلے ایک ایک نیکی دی جائے وہ شخص یہ حکم سنتے ہی خود بولے گا کہ میرے تو ابھی بہت سے گناہ باقی ہیں جو یہاں نظر نہیں آتے۔ ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ اس کا مقولہ نقل فرما کر ہنسے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے دندان مبارک ظاہر ہوئے۔ ہنسی اس بات پر تھی کہ جن گناہوں کے اظہار سے ڈر رہا تھا ان کے اظہار کا خود طالب بن گیا۔

【5】

حضور اقدس ﷺ کے ہنسنے کے بیان میں

جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے میرے مسلمان ہونے کے بعد سے کسی وقت مجھے حاضری سے نہیں روکا۔ اور جب مجھے دیکھتے تو ہنستے اور دوسری روایت میں ہے کہ تبسم فرماتے تھے۔

【6】

حضور اقدس ﷺ کے ہنسنے کے بیان میں

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے اخیر میں آگ سے نکلے گا وہ ایک ایسا آدمی ہوگا کہ زمین پر گھسٹتا ہوا دوزخ سے نکلے گا کہ ( جہنم کے عذاب کی سختی کی وجہ سے سیدھے چلن پر قادر نہ ہوگا) اس کو حکم ہوگا کہ جا جنت میں داخل ہوجا۔ وہ وہاں جا کر دیکھے گا کہ لوگوں نے تمام جگہوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ سب جگہیں پر ہوچکی ہیں لوٹ کر بارگاہ الٰہی میں اس کی اطلاع کریگا وہاں سے ارشاد ہوگا کہ کیا دنیوی منازل کی حالت بھی یاد ہے (کہ جب جگہ پر ہوجائے تو آنے والے کی گنجائش نہیں ہوتی اور پہلے جانے والے جس جگہ چاہیں قبضہ کرلیں اور بعد میں آنے والوں کے لئے جگہ نہ رہے اس عبارت کا ترجمہ اکابر علماء نے یہ ہی تحریر فرمایا ہے مگر بندہ ناچیز کے نزدیک اگر اس کا مطلب یہ کہا جائے تو زیادہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی وسعت اور فراخی بھی یاد ہے کہ تمام دنیا کتنی بڑی تھی۔ اور یہ اس لئے یاد دلایا تاکہ آئندہ تمام دنیا سے دس گنا زائد اس کو عطا فرمانے کا اعلان ہونے والا ہے تو ساری دنیا کا ایک مرتبہ تصور کرنے کے بعد اس عطیہ کی کثرت کا اندازہ ہو) وہ عرض کرے گا کہ رب العزت خوب یاد ہے اس پر ارشاد ہوگا کہ اچھا کچھ تمنائیں کرو جس نوع سے دل چاہتا ہے وہ اپنی تمنائیں بیان کرے گا وہاں سے ارشاد ہوگا کہ اچھا تم کو تمہاری تمنائیں اور خواہشات بھی دیں اور تمام دنیا سے دس گنا زائد عطا کیا وہ عرض کرے گا کہ یا اللہ آپ بادشاہوں کے بادشاہ ہو کر مجھ سے تمسخر فرماتے ہیں (کہ وہاں ذرا سی بھی جگہ نہیں ہے اور آپ تمام دنیا سے دس گنا زائد مجھے عطا فرما رہے ہیں) ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس ﷺ کو دیکھا کہ جب اس شخص کا یہ مقولہ نقل فرما رہے تھے تو آپ ﷺ کو ہنسی آگئی حتی کہ آپ ﷺ کے دندان مبارک بھی ظاہر ہوئے۔

【7】

حضور اقدس ﷺ کے ہنسنے کے بیان میں

ابن ربیعہ کہتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے پاس (ان کے زمانہ خلافت میں) ایک مرتبہ (گھوڑا وغیرہ) کوئی سواری لائی گئ آپ نے رکاب میں پاؤں رکھتے ہوئے بسم اللہ کہا اور جب سوار ہوچکے تو الحمد للہ کہا پھر یہ دعا پڑھی سبحن الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اس کو ہمارے لئے مسخر فرما دیا اور ہم کو اس کے مطیع بنانے کی طاقت نہ تھی اور واقعی ہم سب لوگ اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں علماء فرماتے ہیں کہ سواری چونکہ اسباب ہلاکت میں سے ہے اس لئے سواری کی تسخیر پر حق تعالیٰ جل شانہ کے شکریہ کے ساتھ اپنی موت کے ذکر کو بھی متصل فرمادیا کہ ہم آخر کار مرنے کے بعد لوٹ کر اسی کی طرف جانے والے ہیں ) ۔ پھر حضرت علی (رض) نے الحمد للہ تین مرتبہ کہا پھر اللہ اکبر تین مرتبہ کہا پھر سبحنک انی ظلمت نفسی فاغفرلی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت۔ تیری ذات ہر عیب سے پاک ہے اور میں نے تیری نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے میں اور اوامر کی اطاعت نہ کرنے میں اپنے ہی نفس پر ظلم کیا ہے۔ پس یا اللہ ! آپ میری مغفرت فرمائیں۔ کیونکہ مغفرت تو آپ کے سوا اور کوئی کر ہی نہیں سکتا اس دعا کے بعد حضرت علی (رض) ہنسے۔ ابن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو حضرت علی نے فرمایا کہ حضور اقدس ﷺ نے بھی اسی طرح دعائیں پڑھی تھیں۔ اور اس کے بعد حضور اقدس ﷺ سے تبسم کی وجہ پوچھی تھی جیسا کہ تم نے مجھ سے پوچھی تو حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ حق تعالیٰ جل شانہ بندہ کے اس کہنے پر کہ میرے گناہ تیرے سوا کوئی معاف نہیں کرسکتا۔ خوش ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا کوئی شخص گناہ معاف نہیں کرسکتا۔ اللھم رب اغفرلی ولوالدی وانہ لایغفر الذنوب الا انت اللھم لا احصی ثناء علیک لک الکبریاء والعظمہ۔

【8】

حضور اقدس ﷺ کے ہنسنے کے بیان میں

عامر بن سعید کہتے ہیں کہ میرے والد سعد نے فرمایا کہ حضور اقدس ﷺ غزوہ خندق کے دن ہنسے۔ حتی کہ آپ ﷺ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔ عامر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ کس بات پر ہنسے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ ایک کافر ڈھال لئے ہوئے تھا اور سعد بڑے تیر انداز لیکن وہ اپنی ڈھال ادھر ادھر کرلیتا تھا جس کی وجہ سے اپنی پیشانی کا بچاؤ کر رہا تھا۔ (گویا مقابلہ میں سعد کا تیر نہ لگنے دیتا تھا۔ حالانکہ یہ مشہور تیر انداز تھے) سعد نے ایک مرتبہ تیر نکالا (اور اس کی کمان میں کھینچ کر انتظار میں رہے) جس وقت اس نے ڈھال سے سر اٹھایا فورا ایسا لگایا کہ پیشانی سے چوکا نہیں اور فوراً گرگیا ۔ ٹانگ بھی اوپر اٹھ گئی۔ پس حضور اقدس ﷺ اس قصہ پر ہنسے میں نے پوچھا کہ اس میں کونسی ہنسنے کی بات ہے انہوں نے فرمایا کہ سعد کے اس فعل پر۔