836. وہ حدیثیں جو عتی بن ضمرہ سعدی نے ان سے نقل کی ہیں۔

【1】

وہ حدیثیں جو عتی بن ضمرہ سعدی نے ان سے نقل کی ہیں۔

عتی بن ضمرہ سعدی کے ایک آدمی نے کسی کی طرف اپنی جھوٹی نسبت کی تو حضرت ابی (رض) نے اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلائی لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ تو ایسی کھلی گفتگو نہیں کرتے ؟ انہوں نے فرمایا ہمیں اسی کا حکم دیا گیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جس آدمی کو جاہلیت کی نسبت کرتے ہوئے سنو تو اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلاؤ۔

【2】

وہ حدیثیں جو عتی بن ضمرہ سعدی نے ان سے نقل کی ہیں۔

عتی بن ضمرہ سعدی کے ایک آدمی نے کسی کی طرف اپنی جھوٹی نسبت کی تو حضرت ابی (رض) نے اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلائی لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ تو ایسی کھلی گفتگو نہیں کرتے ؟ انہوں نے فرمایا ہمیں اسی کا حکم دیا گیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جس آدمی کو جاہلیت کی نسبت کرتے ہوئے سنو تو اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلاؤ۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ عتی بن ضمرہ سعدی کے ایک آدمی نے کسی کی طرف اپنی جھوٹی نسبت کی۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا انہوں نے فرمایا ہمیں اسی کا حکم دیا گیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جس آدمی کو جاہلیت کی نسبت کرتے ہوئے سنو تو اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلاؤ۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

【3】

وہ حدیثیں جو عتی بن ضمرہ سعدی نے ان سے نقل کی ہیں۔

حضرت ابی بن کعب (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا وضو کا بھی شیطان ہوتا ہے جسے " ولہان " کہا جاتا ہے اس سے بچتے رہو۔

【4】

وہ حدیثیں جو عتی بن ضمرہ سعدی نے ان سے نقل کی ہیں۔

حضرت ابی بن کعب (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ابن آدم کا کھانا ہی دنیا کی مثال قرار دیا گیا ہے کہ اس میں جتنے مرضی نمک مصالحے ڈال لو یہ دیکھو کہ اس کا انجام کیا ہوگا ؟

【5】

وہ حدیثیں جو عتی بن ضمرہ سعدی نے ان سے نقل کی ہیں۔

عتی کہتے ہیں کہ میں نے مدینہ منورہ میں ایک بزرگ کو گفتگو کرتے ہوئے دیکھا تو لوگوں سے ان کے متعلق پوچھا (یہ کون ہیں) لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت ابی بن کعب (رض) ہیں انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت آدم (علیہ السلام) کے دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے فرمایا بچو ! میرا دل جنت کا پھل کھانے کی خواہش کر رہا ہے چناچہ ان کے بیٹے جنتی پھل کی تلاش میں نکل گئے سامنے سے فرشتے آتے ہوئے دکھائی دیئے ان کے ساتھ کفن اور حنوط تھی اور ان کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں، پھاوڑے اور کسیاں بھی تھیں فرشتوں نے ان سے پوچھا کہ اے اولاد آدم کہاں کا ارادہ ہے اور کس چیز کو تلاش کر رہے ہو ؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے والد بیمار ہیں اور ان کا دل جنتی پھل کھانے کو چاہ رہا ہے فرشتوں نے ان سے کہا کہ واپس چلے جاؤ کہ تمہارے والد کا وقت آخر قریب آگیا ہے۔ فرشتے جب حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو حضرت حواء (علیہا السلام) انہیں دیکھتے ہی پہچان گئیں اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ چمٹ گئیں حضرت آدم (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا پیچھے ہٹو تمہاری ہی وجہ سے میرے ساتھ یہ معاملات پیش آئے میرا اور میرے رب کے فرشتوں کا راستہ چھوڑ دو چناچہ فرشتوں نے ان کی روح قبض کرلی انہیں غسل دیا کفن پہنایا، حنوط لگائی گڑھا کھود کر قبر تیار کی ان کی نماز جنازہ پڑھی پھر قبر میں اتر کر انہیں قبر میں لٹایا اور اس پر کچی اینٹیں برابر کردیں پھر قبر سے باہر نکل کر ان پر مٹی ڈالنے لگے اور اس کے بعد کہنے لگے اے بنی آدم ! یہ ہے مردوں کو دفن کرنے کا طریقہ۔