7. حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

【1】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر (رض) سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ پھر قیامت کے دن تم اپنے رب کے پاس جھگڑا کرو گے، تو انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! اس جھگڑنے سے دنیا میں اپنے مد مقابل لوگوں سے جھگڑنا مراد ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا ہاں، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ قیامت کے دن تم سے نعمتوں کے بارے سوال ضرور ہوگا تو حضرت زبیر (رض) نے پوچھا یا رسول اللہ ! ہم سے کن نعمتوں کے بارے سوال ہوگا، جبکہ ہمارے پاس تو صرف کھجور اور پانی ہے، نبی ﷺ نے فرمایا خبردار ! یہ نعمتوں کا زمانہ بھی عنقریب آنے والا ہے۔

【2】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) نے حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت سعد (رض) سے فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔

【3】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر بن العوام (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا انسان کے لئے یہ زیادہ بہتر ہے کہ وہ اپنی رسی اٹھائے، اس سے لکڑیاں باندھے، بازار میں لا کر انہیں رکھے اور انہیں بیچ کر اس سے غناء بھی حاصل کرے اور اپنے اوپر خرچ بھی کرے، بہ نسبت اس کے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے خواہ لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔

【4】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیربن العوام (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن نبی ﷺ نے میرے لئے اپنے والدین کو جمع فرمایا (یعنی مجھ سے یوں فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں )

【5】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ خندق کے دن میں اور عمر بن ابی سلمہ " اطم حسان " نامی اس ٹیلے پر تھے جس میں نبی ﷺ کی ازواج مطہرات موجود تھیں، کبھی وہ مجھے اٹھا کر اونچا کرتے اور کبھی میں انہیں اٹھا کر اونچا کرتا، جب وہ مجھے اٹھا کر اونچا کرتے تو میں اپنے والد صاحب کو پہچان لیا کرتا جب وہ بنو قریظہ کے پاس سے گذرتے تھے، وہ نبی ﷺ کے ساتھ غزوہ خندق کے موقع پر جہاد میں شریک تھے اور نبی ﷺ فرما رہے تھے کہ بنو قریظہ کے پاس پہنچ کر ان سے کون قتال کرے گا ؟ واپسی پر میں نے اپنے والد صاحب سے عرض کیا کہ اباجان ! بخدا ! میں نے اس وقت آپ کو پہچان لیا تھا جب آپ بنو قریظہ کی طرف جا رہے تھے، انہوں نے فرمایا کہ بیٹے ! نبی ﷺ اس موقع پر میرے لئے اپنے والدین کو جمع کر کے یوں فرما رہے تھے کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔

【6】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیربن العوام (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے کسی آدمی کو فی سبیل اللہ ایک گھوڑے پر سوار کرایا یعنی اس کا مالک بنادیا جس کا نام غمرہ یا غمراء تھا، کچھ عرصے بعد وہی گھوڑا یا اس کا کوئی بچہ فروخت ہوتا ہوا ملا، چونکہ اس کی نسبت اسی گھوڑے کی طرف تھی جسے انہوں نے صدقہ کردیا تھا اس لئے اسے دوبارہ خریدنے سے انہیں منع کردیا گیا۔

【7】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے تھے اور واپس آکر ٹیلوں میں بیج بکھییر نے لگ جاتے تھے، اس موقع پر ہمیں سوائے اپنے قدموں کی جگہ کے کہیں سایہ نہ ملتا تھا۔

【8】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم سے پہلے جو امتیں گذر چکی ہیں ان کی بیماریاں یعنی حسد اور بغض تمہارے اندر بھی سرایت کرگئی ہیں اور بغض تو مونڈ دینے والی چیز ہے، بالوں کو نہیں بلکہ دین کو مونڈ دیتی ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے تم اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایک ایسا طریقہ نہ بتاؤں جسے اگر تم اختیار کرلو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو، آپس میں سلام کو رواج دو ۔

【9】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت زبیر (رض) سے پوچھا کہ جس طرح حضرت ابن مسعود (رض) اور دیگر حضرات کو میں حدیث بیان کرتا ہوا سنتا ہوں، آپ کو نہیں سنتا، اس کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا، نبی ﷺ سے کبھی جدا نہیں ہوا لیکن میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کرے، اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہئے۔ (اس لئے میں ڈرتا ہوں )

【10】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

مطرف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے حضرت زبیر (رض) سے کہا کہ اے ابو عبداللہ ! آپ لوگ کس مقصد کی خاطر آئے ہیں، آپ لوگوں نے ایک خلیفہ کو ضائع کردیا یہاں تک کہ وہ شہید ہوگئے، اب آپ ان کے قصاص کا مطالبہ کر رہے ہیں ؟ حضرت زبیر (رض) نے فرمایا کہ ہم نبی ﷺ ، حضرت صدیق اکبر، فاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی (رض) کے زمانے میں قرآن کریم کی یہ آیت پڑھتے تھے کہ اس آزمائش سے بچو جو خاص طور پر صرف ان لوگوں کی نہیں ہوگی جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہوگا (بلکہ عمومی ہوگی) لیکن ہم یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا اطلاق ہم پر ہی ہوگا، یہاں تک کہ ہم پر یہ آزمائش آگئی۔

【11】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم اپنے بالوں کی سفیدی کو تبدیل کرسکتے ہو لیکن یہودیوں کی مشابہت اس موقع پر بھی اختیار کرنے سے بچو۔

【12】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ کے ساتھ ہم لوگ " لیہ " نامی جگہ سے آرہے تھے، جب ہم لوگ بیری کے درخت کے قریب پہنچے تو نبی ﷺ قرن اسود نامی پہاڑ کی ایک جانب اس کے سامنے کھڑے ہوگئے اور وادی نخب کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور کچھ دیر کھڑے رہے، لوگ بھی سب کے سب وہیں رک گئے، اس کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا کہ وجہ جو کہ طائف کی ایک وادی کا نام ہے، کا شکار اور ہر کانٹے دار درخت حرم میں داخل ہے اور اسے شکار کرنا یا کاٹنا اللہ کے حکم کی تعمیل حرام ہے، یہ بات نبی ﷺ طائف پہنچنے اور بنو ثقیف کا محاصرہ کرنے سے پہلے فرمائی۔

【13】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر (رض) سے مروی ہے کہ میں نے اس دن جبکہ حضرت طلحہ (رض) نے نبی ﷺ کی وہ خدمت کی جو انہوں نے کی، یعنی نبی ﷺ کے سامنے جھک کر بیٹھ گئے اور نبی ﷺ ان کی کمر پر سوار ہوگئے، نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ طلحہ نے اپنے لئے جنت کو واجب کرلیا۔

【14】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر (رض) سے مروی ہے کہ غزوہ احد کے دن اختتام پر ایک عورت سامنے سے بڑی تیزی کے ساتھ آتی ہوئی دکھائی دی، قریب تھا کہ وہ شہداء کی لاشیں دیکھ لیتی، نبی ﷺ اس چیز کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ خاتون انہیں دیکھ سکے، اس لئے فرمایا کہ اس عورت کو روکو، اس عورت کو روکو، حضرت زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ میری والدہ حضرت صفیہ (رض) ہیں، چناچہ میں ان کی طرف دوڑتا ہوا گیا اور شہداء کی لاشوں تک ان کے پہنچنے سے قبل ہی میں نے انہیں جالیا۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر میرے سینے پر دو ہتڑ مار کر مجھے پیچھے کو دھکیل دیا، وہ ایک مضبوط خاتون تھیں اور کہنے لگیں کہ پرے ہٹو، میں تم سے نہیں بولتی، میں نے عرض کیا کہ نبی ﷺ نے آپ کو قسم دلائی ہے کہ ان لاشوں کو مت دیکھیں، یہ سنتے ہی وہ رک گئیں اور اپنے پاس موجود دو کپڑے نکال کر فرمایا یہ دو کپڑے ہیں جو میں اپنے بھائی حمزہ کے لئے لائی ہوں، کیونکہ مجھے ان کی شہادت کی خبر مل چکی ہے، تم انہیں ان کپڑوں میں کفن دے دینا۔ جب ہم حضرت حمزہ (رض) کو ان دو کپڑوں میں کفن دینے لگے تو دیکھا کہ ان کے پہلو میں ایک انصاری شہید ہوئے پڑے ہیں، ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا تھا جو حضرت حمزہ (رض) کے ساتھ کیا گیا تھا، ہمیں اس بات پر شرم محسوس ہوئی کہ حضرت حمزہ (رض) کو دو کپڑوں میں کفن دے دیں اور اس انصاری کو ایک کپڑا بھی میسر نہ ہو، اس لئے ہم نے یہ طے کیا کہ ایک کپڑے میں حضرت حمزہ (رض) کو اور دوسرے میں اس انصاری صحابی (رض) کو کفن دیں گے، اندازہ کرنے پر ہمیں معلوم ہوا کہ ان دونوں حضرات میں سے ایک زیادہ لمبے قد کا تھا، ہم نے قرعہ اندازی کی اور جس کے نام جو کپڑا نکل آیا اسے اسی کپڑے میں دفنا دیا۔

【15】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر (رض) بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ ان کا ایک انصاری صحابی (رض) سے جو غزوہ بدر کے شرکاء میں سے تھے نبی ﷺ کی موجودگی میں پانی کی اس نالی میں اختلاف رائے ہوگیا جس سے وہ دونوں اپنے کھیت کو سیراب کرتے تھے، نبی ﷺ نے بات کو ختم کرتے ہوئے فرمایا زبیر ! تم اپنے کھیت کو سیراب کر کے اپنے پڑوسی کے لئے پانی چھوڑ دو ، انصاری کو اس پر ناگواری ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! یہ آپ کے پھوپھی زاد ہیں ناں اس لئے آپ یہ فیصلہ فرما رہے ہیں ؟ اس پر نبی ﷺ کے روئے انور کا رنگ بدل گیا اور آپ ﷺ نے حضرت زبیر (رض) سے فرمایا کہ اب تم اپنے کھیت کو سیراب کرو اور جب تک پانی منڈیر تک نہ پہنچ جائے اس وقت تک پانی کو روکے رکھو، گویا اب نبی ﷺ نے حضرت زبیر (رض) کو ان کا پورا حق دلوا دیا، جبکہ اس سے پہلے نبی ﷺ نے حضرت زبیر (رض) کو ایسا مشورہ دیا تھا جس میں ان کے لئے اور انصاری کے لئے گنجائش اور وسعت کا پہلو تھا، لیکن جب انصاری نے نبی ﷺ کے سامنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو نبی ﷺ نے صریح حکم کے ساتھ حضرت زبیر (رض) کو ان کا پورا حق دلوایا۔ حضرت زبیر (رض) فرماتے ہیں بخدا ! میں یہ سمجھتا ہوں کہ مندرجہ ذیل آیت اسی واقعے سے متعلق نازل ہوئی ہے کہ آپ کے رب کی قسم ! یہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس کے اختلافات میں آپ کو ثالث مقرر نہ کرلیں، پھر اس فیصلے کے متعلق اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں اور اسے مکمل طور پر تسلیم نہ کریں۔

【16】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا شہر بھی اللہ کے ہیں اور بندے بھی اللہ کے ہیں، اس لئے جہاں تمہیں خیر دکھائی دے، وہیں پر قیام پذیر ہوجاؤ۔

【17】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو میدان عرفات میں اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور اہل علم بھی انصاف کو قائم رکھتے ہوئے اس بات پر گواہ ہیں، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ غالب حکمت والا ہے، نبی ﷺ فرما رہے تھے کہ پروردگار ! میں بھی اس بات پر گواہ ہوں۔

【18】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

ام عطاء وغیرہ کہتی ہیں کہ بخدا ! ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم اب بھی حضرت زبیر (رض) کو دیکھ رہے ہیں جبکہ وہ ہمارے پاس اپنے ایک سفید خچر پر سوار ہو کر آئے تھے اور فرمایا تھا کہ اے ام عطاء ! نبی ﷺ نے مسلمانوں کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ وہ اپنی قربانی کے گوشت کو تین دن سے زیادہ کھائیں، میں نے کہا کہ میرے باپ آپ پر قربان ہوں، اگر ہمیں ہدیہ کے طور پر کہیں سے قربانی کا گوشت آجائے تو اس کا کیا کریں ؟ انہوں نے فرمایا کہ ہدیہ کے طور پر جو چیز آجائے اس میں تمہیں اختیار ہے۔

【19】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ خندق کے دن میں اور عمر بن ابی سلمہ " اطم حسان " نامی اس ٹیلے پر تھے جس میں نبی ﷺ کی ازواج مطہرات موجود تھیں (کبھی وہ مجھے اٹھا کر اونچا کرتے اور کبھی میں انہیں اٹھا کر اونچا کرتا) جب وہ مجھے اٹھا کر اونچا کرتے تو میں اپنے والد صاحب کو پہچان لیا کرتا جب وہ بنو قریظہ کے پاس سے گذرتے تھے، واپسی پر میں نے اپنے والد صاحب سے عرض کیا کہ اباجان ! بخدا ! میں نے اس وقت آپ کو پہچان لیا تھا جب آپ گھوم رہے تھے، انہوں نے فرمایا کہ بیٹے ! انہوں نے کہا نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ بنو قریظہ کے پاس جا کر ان کی خبر میرے پاس کون لائے گا ؟ میں چلا گیا اور جب واپس آیا تو نبی ﷺ اس موقع پر میرے لئے اپنے والدین کو جمع کر کے یوں فرما رہے تھے کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔

【20】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

سفیان بن وہب خولانی (رح) کہتے ہیں کہ جب ہم نے ملک مصر کو بزور شمشیر فتح کرلیا تو حضرت زبیر (رض) نے حضرت عمرو بن العاص (رض) سے جو فاتح مصر اور لشکر اسلام کے سپہ سالار تھے، کہا کہ اے عمرو بن العاص ! اسے تقسیم کر دیجئے، انہوں نے کہا میں تو اسے ابھی تقسیم نہیں کروں گا، حضرت زبیر (رض) نے قسم کھا کر فرمایا کہ آپ کو یہ اسی طرح تقسیم کرنا پڑے گا جیسے نبی ﷺ نے خیبر کو تقسیم فرمایا تھا، انہوں نے کہا کہ امیرالمومنین سے خط و کتابت کرنے سے قبل میں اسے تقسیم نہیں کرسکتا، چناچہ انہوں نے حضرت عمر (رض) کی خدمت میں اس نوعیت کا ایک عریضہ لکھ بھیجا، وہاں سے جواب آیا کہ ابھی اسے برقرار رکھو (جوں کا توں رہنے دو ) یہاں تک کہ اگلی نسل جنگ میں شریک ہوجائے۔

【21】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ایک غزوہ سے فراغ کے بعد مال غنیمت میں سے انہیں ایک حصہ دیا تھا۔ ان کی والدہ کو بھی ایک حصہ دیا تھا اور گھوڑے کے دو حصے مقرر فرمائے تھے (یعنی ہر گھڑ سوار کو دو حصے اور ہر پیدل کو ایک حصہ دیا تھا )

【22】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

خواجہ حسن بصری (رح) کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت زبیر (رض) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ کیا میں علی کا کام تمام نہ کردوں ؟ فرمایا ہرگز نہیں ! اور ویسے بھی ان کے ساتھ اتنا بڑا لشکر ہے کہ تم انہیں قتل کر ہی نہیں سکتے ؟ اس نے کہا کہ پھر آپ ان کے پاس جا کر خلافت کے معاملے میں جھگڑا کریں ؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے ایمان نے جھگڑے کے پاؤں میں بیڑی ڈال دی ہے، اس لئے مومن جھگڑنے والا نہیں ہوتا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

【23】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت زبیر (رض) سے پوچھا کہ آپ نبی ﷺ کی احادیث کیوں نہیں بیان کرتے ؟ فرمایا کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا، نبی ﷺ سے کبھی جدا نہیں ہوا لیکن میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کرے، اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہئے۔ (اس لئے میں ڈرتا ہوں )

【24】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر بن العوام (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا انسان کے لئے یہ زیادہ بہتر ہے کہ وہ اپنی رسی اٹھائے، اس سے لکڑیاں باندھے، بازار میں لا کر انہیں رکھے اور انہیں بیچ کر اس سے غناء بھی حاصل کرے اور اپنے اوپر خرچ بھی کرے، بہ نسبت اس کے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے خواہ لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔

【25】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم سے پہلے جو امتیں گذر چکی ہیں ان کی بیماریاں یعنی حسد اور بغض تمہارے اندر بھی سرایت کرگئی ہیں اور بغض تو مونڈ دینے والی چیز ہے، بالوں کو نہیں بلکہ دین کو مونڈ دیتی ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک کامل مومن نہ ہوجاؤ اور تم اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایک ایسا طریقہ نہ بتاؤں جسے اگر تم اختیار کرلو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو، آپس میں سلام کو رواج دو ۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

【26】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

خواجہ حسن بصری (رح) کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت زبیر (رض) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ کیا میں علی کا کام تمام نہ کردوں ؟ فرمایا تم انہیں کس طرح قتل کرسکتے ہو ؟ اس نے کہا کہ پھر آپ ان کے پاس جا کر خلافت کے معاملے میں جھگڑا کریں ؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے ایمان نے جھگڑے کے پاؤں میں بیڑی ڈال دی ہے، اس لئے مومن جھگڑنے والا نہیں ہوتا۔

【27】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر (رض) سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ پھر قیامت کے دن تم اپنے رب کے پاس جھگڑا کرو گے، تو انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! ﷺ گناہوں کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنے مد مقابل لوگوں سے جھگڑنا مراد ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا ہاں، یہی جھگڑا دوبارہ ہوگا یہاں تک کہ حقدار کو اس کا حق مل جائے، اس پر حضرت زبیر (رض) نے کہا واللہ یہ تو بہت سخت بات ہے۔

【28】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر (رض) سے مروی ہے کہ جنات کے قرآن کریم سننے کا جو تذکرہ قرآن شریف میں آیا ہے وہ وادی نخلہ سے متعلق ہے جبکہ نبی ﷺ نماز عشاء پڑھ رہے تھے اور آیت قرآن " کادوا یکونون علیہ لبدا " کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے سفیان کہتے ہیں کہ ایک دوسرے پر چڑھے چلے آرہے تھے (یعنی نبی ﷺ کو عبادت میں مصروف دیکھ کر مشرکین بھیڑ لگا کر اس طرح اکٹھے ہوجاتے تھے کہ اب حملہ کیا اور اب حملہ کیا، ایسا محسوس ہوتا تھا)

【29】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے تھے (اور واپس آکر ٹیلوں میں بیج بکھییرنے لگ جاتے تھے) اس موقع پر ہمیں سوائے اپنے قدموں کی جگہ کے کہیں سایہ نہ ملتا تھا۔

【30】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت علی (رض) یا حضرت زبیر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ جب ہمیں نصیحت فرماتے تھے اور اللہ کے عذاب سے ڈراتے تھے تو اس کے اثرات آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر دکھائی دیتے تھے اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آپ اس قوم کو ڈرا رہے ہیں جن کا معاملہ صبح صبح ہی طے ہوجائے گا اور جب حضرت جبرئیل (علیہ السلام) سے عنقریب ملاقات ہوئی ہوتی تو نبی ﷺ اس وقت تک نہ ہنستے تھے جب تک وحی کی کیفیت کے اثرات ختم نہ ہوجاتے۔

【31】

حضرت زبیربن عوام (رض) کی مرویات

حضرت زبیر (رض) سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی ﷺ کے ساتھ ہم لوگوں کی اچھی خاصی تعداد تھی کہ اس آزمائش سے بچو جو خاص طور پر صرف ان لوگوں کی نہیں ہوگی جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہوگا (بلکہ عمومی ہوگی) تو ہم کہنے لگے کہ یہ کون سی آزمائش ہوگی ؟ لیکن ہم یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا اطلاق ہم پر ہی ہوگا، یہاں تک کہ ہم پر یہ آزمائش آگئی۔