247. حضرت عبداللہ بن انیس کی حدیثیں۔

【1】

حضرت عبداللہ بن انیس کی حدیثیں۔

حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ مجھے ایک حدیث نبی ﷺ کے حوالے سے معلوم ہوئی جو ایک صاحب نبی ﷺ سے خود سنی تھی میں نے ایک اونٹ خریدا اس پر کجاوہ کسا اور ایک مہینے کا سفر کا طے کرکے پہنچا وہاں مطلوبہ صحابی حضرت عبداللہ بن انیس سے ملاقات ہوئی میں نے چوکیدار سے کہا ان سے جا کر کہو دروازے پر جابر (رض) ہے انہوں نے پوچھا عبداللہ کے بیٹے ہیں میں نے اثبات میں سر ہلادیا تو وہ اپنے کپڑے گھسیٹتے ہوئے نکلے اور مجھ سے چمٹ گئے میں نے بھی ان سے معانقہ کیا اور ان سے کہا کہ قصاص کے متعلق مجھے ایک حدیث کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ آپ نے نبی ﷺ سے خود سنی ہے مجھے اندیشہ ہوا کہ اسے سننے سے پہلے آپ یا مجھ میں سے کوئی دنیا سے رخصت نہ ہوجائے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا قیامت کے دن لوگ برہنہ، غیر مختون اور بہم اٹھائے جائیں گے ہم نے ان سبہم کا معنی پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو پھر انہیں اپنے انتہائی قریب سے ایک منادی کی آواز سنائی دے گی کہ میں ہی حقیقی بادشاہ ہوں میں بدلہ لینے والا ہوں اہل جہنم میں سے اگر کسی کو کسی جنتی پر کوئی حق ہو تو اس کا بدلہ لینے سے پہلے وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا حتی کہ ایک طمانچے کا بدلہ بھی لوں گا ہم نے پوچھا کہ جب ہم اللہ کے سامنے غیرمختون اور خالی ہاتھ حاضر ہوں گے تو کیسالگے لگا انہوں نے جواب دیا کہ وہاں نیکیوں اور گناہوں کا حساب ہوگا۔

【2】

حضرت عبداللہ بن انیس کی حدیثیں۔

حضرت عبداللہ بن انیس سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کبیرہ گناہوں میں بھی سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی قسم کھانا اور اس میں مچھر کے پر کے برابر بھی جھوٹ شامل کردے اللہ اس کے دل پر قیامت تک کے لئے ایک نقطہ لگا دیتا ہے۔

【3】

حضرت عبداللہ بن انیس کی حدیثیں۔

حضرت عبداللہ بن انیس سے مروی ہے کہ صحابہ کرام نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ ماہ رمضان میں شب قدر کسے سمجھیں تو نبی ﷺ نے فرمایا ٢٣ ویں شب کو۔

【4】

حضرت عبداللہ بن انیس کی حدیثیں۔

حضرت عبداللہ بن انیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا میں نے ایک رات میں شب قدر کو دیکھا تھا لیکن پھر مجھے اس کی تعیین بھلادی گئی البتہ میں نے یہ دیکھا تھا کہ اس کی صبح کو میں نے پانی اور کیچر میں سجدہ کیا ہے چناچہ ٢٣ ویں شب کو بارش ہوئی نبی ﷺ جب صبح کی نماز ہمیں پڑھا کر واپس ہوئے تو آپ کی پیشانی پر مٹی اور پانی کے اثرات نظر آ رہے تھے۔

【5】

حضرت عبداللہ بن انیس کی حدیثیں۔

عبداللہ بن عبداللہ خبیب کہتے ہیں حضرت عمر فارق کے زمانے میں ایک آدمی نے ان سے تعاون کی درخواست کی انہوں نے اسے کچھ دیدیا اس آدمی کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ ہمارے ساتھ قبیلہ جہینہ کی ایک مجلس میں نبی ﷺ کے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن انیس بیٹھے ہوئے تھے یہ رمضان کا مہینہ تھا ہم نے ان سے عرض کیا کہ اے ابویحییٰ اس مبارک رات کے حوالے سے آپ نے نبی ﷺ سے کچھ سنا ہے انہوں نے فرمایا ہاں ایک مرتبہ ہم لوگ اس مہینے کے آخر میں نبی ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ہم نے نبی ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ ہم اس لیلہ مبارکہ کو کب تلاش کریں نبی ﷺ نے فرمایا آج ہی کی رات کو تلاش کرو وہ ٢٣ ویں شب تھی ایک آدمی اس پر کہنے لگا یا رسول اللہ اس طرح تو یہ آٹھ سے پہلی رات ہے نبی ﷺ نے فرمایا آٹھ میں سے پہلی نہیں بلکہ سات میں سے پہلی ہے مہینہ بعض اوقات پور انہیں بھی ہوتا۔

【6】

حضرت عبداللہ بن انیس کی حدیثیں۔

حضرت عبداللہ بن انیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ مجھ معلوم ہوا ہے کہ خالد بن سفیان بن نبی ﷺ ح مجھ سے جنگ کرنے کے لے لوگوں کو جمع کر رہا ہے اس وقت وہ بطحن عرنہ میں ہے اس کے پاس جا کر اسے قتل کر آؤ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اس کی کوئی علامت بتا دیجیے تاکہ میں اس کو پہچان سکوں نبی ﷺ نے فرمایا جب تم اسے دیکھو گے تو اس کے جسم کے بال کھڑے ہوئے محسوس ہوں گے چناچہ میں اپنی تلوار لے کر نکل کر کھڑا ہوا اور عصر کے وقت جبکہ وہ ابھی بطن عرنہ میں ہی اپنی عورتوں کے ساتھ جو ان کے لئے سفر کو آسان بناتی تھیں میں نے اسے جالیا۔ میں نے اسے دیکھا تو نبی ﷺ کا بیان کردہ وصف اس میں پا لیا میں اس کی طرف چل پڑا پھر میں نے سوچا کہ کہیں میرے اور اس کے درمیان بات چیت شروع نہ ہوجائے تو پھر نماز عصر فوت ہوجائے گی چناچہ میں چلتے چلتے اشارے سے رکوع سجدہ کرکے نماز پڑھ لی جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگا کہ کون صاحب ہیں میں نے کہا اہل عرب میں سے ایک آدمی جس نے آپ کے بارے میں اور اس شخص نبی ﷺ کے لئے لشکر جمع کرنے کے بارے سنا ہے تو آپ کے پاس آگیا اس نے کہا بہت اچھا میں اسی مقصد میں لگا ہوا ہوں میں اس کے ساتھ تھوڑی دور تک چلا جب اس پر قابو پالیا تو اس پر اپنی تلوار اٹھائی یہاں تک کہ اسے قتل کردیا۔ پھر میں وہاں سے نکلا اور میں نے اس کی عورتوں کو اس پر جھکا ہوا چھوڑ دیا جب نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور نبی ﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا یہ چہرہ کامیاب ہوگیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے سے قتل کردیا ہے نبی ﷺ نے فرمایا تم سچ کہتے ہو پھر نبی ﷺ میرے ساتھ اٹھے اور اپنے گھر میں داخل ہوئے وہاں سے ایک عصا لاکر مجھے دیا نبی ﷺ نے فرمایا عبداللہ بن انیس اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھو میں وہ لاٹھی لے کر نکلا تو لوگ مجھے روک کر پوچھنے لگے یہ لاٹھی کیسی ہے میں نے بتایا کہ یہ نبی ﷺ نے مجھ کو دی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں وہ لاٹھی سنبھال کر رکھو لوگوں نے کہا تم جا کر نبی ﷺ سے اس کے متعلق پوچھو تو سہی چناچہ میں واپس آکر نبی ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ آپ نے مجھے یہ لاٹھی کسی نیت سے دی ہے نبی ﷺ نے فرمایا یہ قیامت کے دن میرے اور تمہارے درمیان علامت ہوگی اس دن بہت کم لوگوں کے پاس لاٹھی ہوگی۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن انیس نے اپنی تلوار کے ساتھ لگالیا اور وہ ہمیشہ ان کے پاس رہی جب ان کے انتقال کا وقت ہوگیا تو ان کے حکم پر وہ ان کے ساتھ کفن میں شامل کردی اور ہم سب نے مل کر انہیں سپرد خاک کردیا۔ حضرت عبداللہ بن انیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ مجھ معلوم ہوا ہے کہ خالد بن سفیان بن نبی ﷺ مجھ سے جنگ کرنے کے لے لوگوں کو جمع کر رہا ہے اس وقت وہ بطحن عرنہ میں ہے اس کے پاس جا کر اسے قتل کر آؤ چناچہ میں اپنی تلوار لے کر نکل کر کھڑا ہوا اور عصر کے وقت جبکہ وہ ابھی بطن عرنہ میں تھا جالیا۔ پھر میں نے سوچا کہ کہیں میرے اور اس کے درمیان بات چیت شروع نہ ہوجائے تو پھر نماز عصر فوت ہوجائے گی چناچہ میں چلتے چلتے اشارے سے رکوع سجدہ کرکے نماز پڑھ لی جب میں اس کے پاس پہنچا تو۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔