2. حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

【1】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حارثہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ شام کے کچھ لوگ حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمیں کچھ مال و دولت، گھوڑے اور غلام ملے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ ہمارے لئے اس میں پاکیزگی اور تزکیہ نفس کا سامان پیدا ہوجائے، حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے میرے دو پیشرو جس طرح کرتے تھے میں بھی اسی طرح کروں گا، پھر انہوں نے صحابہ کرام (رض) سے مشورہ کیا، ان میں حضرت علی (رض) بھی موجود تھے، وہ فرمانے لگے کہ یہ مال حلال ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اسے ٹیکس نہ بنالیں کہ بعد میں بھی لوگوں سے وصول کرتے رہیں۔

【2】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد ایک دیہاتی قبیلہ بنو تغلب کے عیسائی تھے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا، انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟ لوگوں نے بتایا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا، چناچہ انہوں نے جہاد کا ارادہ کرلیا، اسی اثناء میں کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے حج کیا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں ! اس نے کہا آپ پہلے حج اور عمرہ کرلیں، پھر جہاد میں شرکت کریں۔ چناچہ وہ حج کی نیت سے روانہ ہوگئے اور میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی جب حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ کی سنت پر رہنمائی نصیب ہوگئی۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے ابو وائل سے پوچھا کہ یہ روایت آپ کو خود صبی نے سنائی ہے ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔

【3】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) نے ہمیں مزدلفہ میں فجر کی نماز پڑھائی، پھر وقوف کیا اور فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے، نبی ﷺ نے اس کا طریقہ اختیار نہیں کیا، اس کے بعد حضرت فاروق اعظم (رض) مزدلفہ سے منیٰ کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوگئے۔

【4】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ سیدنا فاروق اعظم (رض) کو جب بڑے صحابہ کرام (رض) کو بلاتے تو مجھے بھی ان کے ساتھ بلا لیتے اور مجھ سے فرماتے کہ جب تک یہ حضرات بات نہ کرلیں، تم کوئی بات نہ کرنا۔ اسی طرح ایک دن حضرت فاروق اعظم (رض) نے ہمیں بلایا اور فرمایا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے لیلۃ القدر کے متعلق جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، وہ آپ کے علم میں بھی ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو، یہ بتائیے کہ آپ کو آخری عشرے کی کس طاق رات میں شب قدر معلوم ہوتی ہے ؟ (ظاہر ہے کہ ہر صحابی کا جواب مختلف تھا، حضرت عمر فاروق (رض) کو میری رائے اچھی معلوم ہوئی)

【5】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ کچھ لوگ حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ ہم آپ سے تین سوال پوچھنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ (١) گھر میں نفلی نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ (٢) غسل جنابت کا کیا طریقہ ہے ؟ (٣) اگر عورت ایام میں ہوں تو مرد کے لئے کہاں تک اجازت ہے ؟ حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ آپ لوگ بڑے عقلمند محسوس ہوتے ہیں، میں نے ان چیزوں سے متعلق جب سے نبی ﷺ سے دریافت کیا تھا، اس وقت سے لے کر آج تک مجھ سے کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا جو آپ لوگوں نے پوچھا ہے اور فرمایا کہ انسان گھر میں جو نفلی نماز پڑھتا ہے تو وہ نور ہے اس لئے جو چاہے اپنے گھر کو منور کرلے، غسل جنابت کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا پہلے اپنی شرمگاہ کو دھوئے، پھر وضو کرے اور پھر اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈال کر حسب عادت غسل کرے اور ایام والی عورت کے متعلق فرمایا کہ ازار سے اوپر کا جتنا حصہ ہے، مرد اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

【6】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ میں نے عراق میں حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے تو مجھے اس پر بڑا تعجب اور اچنبھا ہوا، بعد میں جب ہم حضرت عمر فاروق (رض) کی ایک مجلس میں اکٹھے ہوئے تو حضرت سعد (رض) نے مجھے سے فرمایا کہ آپ کو مسح علی الخفین کے بارے مجھ پر جو تعجب ہو رہا تھا، اس کے متعلق اپنے والد صاحب سے پوچھ لیجئے، میں نے ان کے سامنے سارا واقعہ ذکر کردیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت سعد (رض) آپ کے سامنے کوئی حدیث بیان کریں تو آپ اس کی تردید مت کیا کریں، کیونکہ خود نبی ﷺ بھی مورزوں پر مسح فرماتے تھے۔

【7】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا ہے، بعد میں حضرت ابن عمر (رض) نے اپنے والد حضرت عمر (رض) سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ بات صحیح ہے، جب حضرت سعد (رض) آپ کے سامنے کوئی حدیث بیان کریں تو آپ اس کے متعلق کسی دوسرے سے نہ پوچھا کریں۔

【8】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے، اللہ کی حمدوثناء بیان کی نبی ﷺ کا تذکرہ کیا، حضرت صدیق اکبر (رض) کی یاد تازہ کی، پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آگیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ مرغ سرخ رنگ کا تھا، میں نے یہ خواب حضرت صدیق اکبر (رض) کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بنت بنت عمیس (رض) سے ذکر کیا تو انہوں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ آپ کو ایک عجمی شخص شہید کردے گا۔ پھر فرمایا کہ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقرر کردوں، اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ اپنے دین کو ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہوگیا تو میں مجلس شوریٰ ان چھ افراد کی مقرر کر رہاہوں جن سے نبی ﷺ بوقت رحلت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے، جب تم ان میں سے کسی ایک کی بیعت کرلو تو ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا ! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کرچکا ہوں، یہ لوگ دشمنان خدا، کافر اور گمراہ ہیں، اللہ کی قسم ! میں نے اپنے پیچھے کلالہ سے زیادہ اہم مسئلہ کوئی نہیں چھوڑا جس کا مجھ سے میرے رب نے وعدہ کیا ہو اور اللہ کی قسم ! نبی ﷺ کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسئلہ میں آپ ﷺ مجھ سے ناراض ہوئے ہوں، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ ﷺ انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لئے اس مسئلے میں سورت نساء کی وہ آخری آیت " جو گرمی میں نازل ہوئی تھی " کافی ہے۔ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلہ کا ایساحل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آجائے اور میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں جو امراء اور گورنر بھیجے ہیں وہ صرف اس لئے کہ لوگوں کو دین سکھائیں، نبی ﷺ کی سنتیں لوگوں کے سامنے بیان کریں اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔ لوگو ! تم دو ایسے درختوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں گندہ سمجھتاہوں ایک لہسن اور دوسرا پیاز (کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے) بخدا ! میں نے دیکھا ہے کہ اگر نبی ﷺ کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ ﷺ حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بو مار دے۔ راوی کہتے ہیں کہ جمعہ کو حضرت فاروق اعظم (رض) نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور بدھ کو آپ پر قاتلانہ حملہ ہوگیا۔

【9】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں، حضرت زبیر (رض) اور حضرت مقداد بن اسودرضی اللہ عنہ کے ساتھ خیبر میں اپنے اپنے مال کی دیکھ بھال کے سلسلے میں گیا ہوا تھا، جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو ہر ایک اپنی اپنی زمین کی طرف چلا گیا، میں رات کے وقت اپنے بستر پر سو رہا تھا کہ مجھ پر کسی نے حلمہ کردیا، میرے دونوں ہاتھ اپنی کہنیوں سے ہل گئے، جب صبح ہوئی میرے دونوں ساتھیوں کو اس حادثے کی خبردی گئی، وہ آئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ یہ کس نے کیا ہے ؟ میں نے کہا کہ مجھے کچھ خبر نہیں ہے۔ انہوں نے میرے ہاتھ کی ہڈی کو صحیح جگہ پر بٹھایا اور مجھے لے کر حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس آگئے، انہوں نے فرمایا یہ یہودیوں کی ہی کارستانی ہے، اس کے بعد وہ لوگوں کے سامنے خطاب کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا لوگو ! نبی ﷺ نے خیبر کے یہودیوں کے ساتھ معاملہ اس شرط پر کیا تھا کہ ہم جب انہیں چاہیں گے، نکال سکیں گے، اب انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) پر حملہ کیا ہے اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہوچکا ہے کہ انہوں نے اس کے ہاتھوں کے جوڑ ہلادئیے ہیں، جب کہ اس سے قبل وہ ایک انصاری کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کرچکے ہیں، ہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان ہی کے ساتھی ہیں، ہمارا ان کے علاوہ یہاں کوئی دشمن نہیں ہے، اس لئے خیبر میں جس شخص کا بھی کوئی مال موجود ہو، وہ وہاں چلاجائے کیونکہ اب میں یہودیوں کو وہاں سے نکالنے والا ہوں، چناچہ ایسا ہی ہوا اور حضرت عمر فاروق (رض) نے انہیں خیبر سے بےدخل کر کے نکال دیا۔

【10】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا کہ نماز کے لئے آنے میں اتنی تاخیر ؟ انہوں نے جواباً کہا کہ میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آگیا ہوں، حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا اچھا، کیا تم نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لئے جائے تو اسے غسل کرلینا چاہیے۔

【11】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابوعثمان کہتے ہیں کہ ہم آذربائیجان میں تھے کہ حضرت عمر فاروق (رض) کا ایک خط آگیا، جس میں لکھا تھا اے عتبہ بن فرقد ! عیش پرستی، ریشمی لباس اور مشرکین کے طریقوں کو اختیار کرنے سے اپنے آپ کو بچاتے رہنا اس لئے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ریشمی لباس پہننے سے منع فرمایا ہے سوائے اتنی مقدار کے اور نبی ﷺ نے انگلی بلند کر کے دکھائی۔

【12】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ ابوسنان دؤلی (رح) حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت مہاجرین اولین کی ایک جماعت ان کی خدمت میں موجود اور حاضر تھی، حضرت عمر فاروق (رض) نے ایک بکس منگوایا جوان کے پاس عراق سے لایا گیا تھا، جب اسے کھولا گیا تو اس میں سے ایک انگوٹھی نکلی، حضرت عمر (رض) کے کسی بیٹے پوتے نے وہ لے کر اپنے منہ میں ڈال لی، حضرت عمر (رض) نے اس سے وہ واپس لے لی اور رونے لگے۔ حاضرین نے پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں ؟ جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنی فتوحات عطاء فرمائیں، دشمن پر آپ کو غلبہ عطاء فرمایا اور آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا ؟ فرمایا میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص پر اللہ دنیا کا دروازہ کھول دیتا ہے، وہاں آپس میں قیامت تک کے لئے دشمنیاں اور نفرتیں ڈال دیتا ہے، مجھے اسی کا خطرہ ہے۔

【13】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے پوچھا اگر ہم میں سے کوئی شخص ناپاک ہوجائے اور وہ غسل کرنے سے پہلے سونا چاہے تو کیا کرے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا نماز والا وضو کر کے سوجائے۔

【14】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جب رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوگیا تو نبی ﷺ کو اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے بلایا گیا، نبی ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے، جب نبی ﷺ جنازے کے پاس جا کر نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو میں اپنی جگہ سے گھوم کر نبی ﷺ کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! اس دشمن اللہ عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جس نے فلاں دن یہ کہا تھا اور فلاں دن یہ، حضرت عمر (رض) نے اس کی بکواسات گنوانا شروع کردیں۔ نبی ﷺ مسکراتے رہے لیکن جب میں برابر اصرار کرتا ہی رہا تو نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا عمر ! پیچھے ہٹ جاؤ، مجھے اس بارے اختیار دیا گیا ہے اور میں نے ایک شق کو ترجیح دے لی ہے، مجھ سے کہا گیا ہے کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں دونوں صورتیں برابر ہیں، اگر آپ ستر مرتبہ بھی ان کے لئے بخشش کی درخواست کریں گے تب بھی اللہ ان کی بخشش نہیں فرمائے گا، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے پر اس کی مغفرت ہوجائے گی تو میں ستر سے زائد مرتبہ اس کے لئے استغفار کرتا۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی، جنازے کے ساتھ گئے اور اس کی قبر پر کھڑے رہے تاآنکہ وہاں سے فراغت ہوگئی، مجھے خود پر اور اپنی جرات پر تعجب ہو رہا تھا، حالانکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی زیادہ بہتر جانتے تھے، بخدا ! ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ مندرجہ ذیل دو آیتیں نازل ہوگئیں۔ " ان منافقین میں سے اگر کوئی مرجائے تو آپ کبھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائیں اس کی قبر پہ کھڑے نہ ہوں، بیشک یہ لوگ تو اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان ہیں اور فسق کی حالت میں مرے ہیں۔ اس آیت کے نزول کے بعد نبی ﷺ نے کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی اور اسی طرح منافقین کی قبروں پر بھی کبھی نہیں کھڑے ہوئے۔

【15】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے تھے اگر کسی آدمی کے پاس صرف ایک ہی کپڑا ہو، وہ اسی کو تہبند کے طور پر باندھ لے اور نماز پڑھ لے، کیونکہ میں نے حضرت عمر فاروق (رض) کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے اور وہ یہ بھی فرماتے تھے کہ اگر ایک ہی کپڑا ہو تو اسے لحاف کی طرح مت لپیٹے جیسے یہودی کرتے ہیں، نافع کہتے ہیں کہ اگر میں یہ کہوں کہ انہوں نے اس کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کی ہے تو امید ہے کہ میں جھوٹا نہیں ہوں گا۔

【16】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے آٹھ میں سے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجاؤ۔

【17】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

مجاہد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے تلوار کے وار کر کے اپنے بیٹے کو مار ڈالا، اسے پکڑ کر حضرت عمر (رض) کی خدمت میں پیش کیا گیا، انہوں نے فرمایا کہ میں نے اگر جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ والد سے اولاد کا قصاص نہیں لیا جائے گا تو میں تجھے بھی قتل کردیتا اور تو یہاں سے اٹھنے بھی نہ پاتا۔

【18】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی نظریں حجر اسود پر جما رکھی ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں بخدا ! اگر میں نے نبی ﷺ کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا، یہ کہہ کر آپ نے اسے بوسہ دیا۔

【19】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ عبداللہ بن سعد (رح) خلافت فاروقی کے زمانے میں حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت عمر (رض) نے انہیں دیکھ کر فرمایا کیا تم وہی ہو جس کے متعلق مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ تمہیں عوام الناس کی کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن جب تمہیں اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینے سے ناگواری کا اظہار کرتے ہو ؟ عبداللہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا جی ہاں ! ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا کہ اس سے تمہارا کیا مقصد ہے ؟ میں نے عرض کیا میرے پاس اللہ کے فضل سے گھوڑے اور غلام سب ہی کچھ ہے اور میں مالی اعتبار سے بھی صحیح ہوں اس لئے میری خواہش ہوتی ہے کہ میری تنخواہ مسلمانوں کے ہی کاموں میں استعمال ہوجائے۔ حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا ایسا مت کرو، کیونکہ ایک مرتبہ میں نے بھی یہی چاہا تھا، نبی ﷺ مجھے کچھ دینا چاہتے تو میں عرض کردیتا کہ یا رسول اللہ ! مجھ سے زیادہ جو محتاج لوگ ہیں، یہ انہیں دے دیجئے، اسی طرح ایک مرتبہ نبی ﷺ نے مجھے کچھ مال و دولت عطاء فرمایا : میں نے حسب سابق یہی عرض کیا کہ مجھ سے زیادہ کسی ضرورت مند کو دے دیجئے، نبی ﷺ نے فرمایا اسے لے لو اپنے مال میں اضافہ کرو، اس کے بعد صدقہ کردو اور یاد رکھو ! اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے لے لیا کرو، ورنہ اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔

【20】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ربیعہ بن دراج کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی مرتضیٰ (رض) نے دوران سفر مکہ مکرمہ کے راستے میں عصر کے بعد دو رکعت نماز بطور نفل کے پڑھ لی، حضرت عمر (رض) نے انہیں دیکھا تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ آپ کو معلوم بھی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔

【21】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ماجدہ نامی ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں نے ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں ایک لڑکے کی ہڈی سے گوشت چھیل ڈالا، اس نے میرا کان اپنے دانتوں میں چبا کر کاٹ ڈالا، جب سیدناصدیق اکبر (رض) حج کے ارادے سے ہمارے یہاں تشریف لائے تو یہ معاملہ ان کی خدمت میں پیش کیا گیا، انہوں نے فرمایا کہ ان دونوں کو حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس لے جاؤ، اگر زخم لگانے والا قصاص کے درجے تک پہنچتا ہو تو اس سے قصاص لینا چاہیے۔ جب ہمیں حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس لے جایا گیا اور انہوں نے ہمارے احوال سنے تو فرمایا ہاں ! یہ قصاص کے درجے تک پہنچتا ہے اور فرمایا کہ میرے پاس حجام کو بلا کر لاؤ، جب حجام کا ذ کر آیا تو وہ فرمانے لگے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنی خالہ کو ایک غلام دیا ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ان کے لئے باعث برکت بنائے گا اور میں نے انہیں اس بات سے منع کیا ہے کہ اسے حجام یا قصائی یا رنگ ریز بنائیں۔ گذشتہ روایت اس دوسری سند سے بھی منقول ہے جو عبارت میں ذکر ہوئی۔

【22】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابوسعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو جو رخصت دینی تھی سو دے دی اور وہ اس دارفانی سے کوچ کر گئے، اس لئے آپ لوگ حج اور عمرہ مکمل کیا کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم بھی دیا ہے اور ان عورتوں کی شرمگاہوں کی حفاطت کرو۔

【23】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروقرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ سے پوچھا گیا اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہوجائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا ہاں ! وضو کرلے اور سوجائے۔

【24】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ربیعہ بن دراج کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی المرتضیٰ (رض) نے دوران سفر مکہ مکرمہ کے راستے میں عصر کے بعد دو رکعت نماز بطور نفل کے پڑھ لی، حضرت عمر (رض) نے انہیں دیکھا تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ آپ کو معلوم بھی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔

【25】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں قبول اسلام سے پہلے نبی ﷺ کے ساتھ چھیڑ چھار کے ارادے سے نکلا لیکن پتہ چلا کہ وہ مجھ سے پہلے ہی مسجد میں جاچکے ہیں، میں جا کر ان کے پیچھے کھڑا ہوگیا، نبی ﷺ نے سورت حاقہ کی تلاوت شروع کردی، مجھے نظم قرآن اور اس کے اسلوب سے تعجب ہونے لگا، میں نے اپنے دل میں سوچا واللہ ! یہ شخص شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں، اتنی دیر میں نبی ﷺ اس آیت پر پہنچ گئے کہ " وہ تو ایک معزز قاصد کا قول ہے " کسی شاعر کی بات تھوڑی ہے لیکن تم ایمان بہت کم لاتے ہو "۔ یہ سن کر میں نے اپنے دل میں سوچا یہ تو کاہن ہے، ادھر نبی ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی " اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا کلام ہے " تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو، یہ تو رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اگر یہ پیغمبر ہماری طرف کسی بات کی جھوٹھی نسبت کرے تو ہم اسے اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیں اور اس کی گردن توڑ ڈالیں اور تم میں سے کوئی ان کی طرف سے رکاوٹ نہ بن سکے " یہ آیات سن کر اسلام نے میرے دل میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑنا شروع کردئیے۔

【26】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

شریح بن عبید اور راشد بن سعید وغیرہ کہتے ہیں کہ سفر شام میں جب حضرت عمر فاروق (رض) سرغ نامی مقام پر پہنچے تو آپ کو خبر ملی کہ شام میں طاعون کی بڑی سخت وباء پھیلی ہوئی ہے، یہ خبر سن کر انہوں نے فرمایا کہ مجھے شام میں طاعون کی وباء پھیلنے کی خبرملی ہے، میری رائے یہ ہے کہ اگر میرا آخری وقت آپہنچا اور ابوعبیدہ بن الجراح زندہ ہوئے تو میں انہیں اپنا خلیفہ نامزد کر دوں گا اور اگر اللہ نے مجھ سے اس کے متعلق باز پرس کی کہ تو نے امت مسلمہ پر انہیں اپنا خلیفہ کیوں مقرر کیا ؟ تو میں کہہ دوں گا کہ میں نے آپ ہی کے پیغمبر کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا ہر نبی کا ایک امین ہوتا ہے اور میرا امین ابوعبیدہ بن الجراح ہے۔ لوگوں کو یہ بات اچھی نہ لگی اور وہ کہنے لگے کہ اس صورت میں قریش کے بڑے لوگوں یعنی بنی فہر کا کیا بنے گا ؟ پھر حضرت عمر فاروق (رض) نے ارشاد فرمایا اگر میری موت سے پہلے ابو عبیدہ فوت ہوگئے تو میں معاذ بن جبل (رض) کو اپنا خلیفہ مقرر کردوں گا اور اگر اللہ نے مجھ سے پوچھا کہ تو نے اسے کیوں خلیفہ مقرر کیا ؟ تو میں کہہ دوں گا کہ میں نے آپ کے پیغمبر کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ وہ قیامت کے دن علماء کے درمیان ایک جماعت کی صورت میں اٹھائے جائیں گے۔

【27】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ام المؤمبین حضرت ام سلمہ (رض) کے بھائی کے یہاں لڑکا پیدا ہوا، انہوں نے بچے کا نام ولید رکھا، نبی ﷺ نے فرمایا تم نے اس بچے کا نام اپنے فرعونوں کے نام پر رکھا ہے (کیونکہ ولید بن مغیرہ مشرکین مکہ کا سردار اور مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے میں بہت سرگرم تھا) میری امت میں ایک آدمی ہوگا جس کا نام ولید ہوگا جو اس امت کے حق میں فرعونوں سے بھی بدتر ہوگا۔

【28】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے " جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں حضرت عمر (رض) بھی شامل ہیں جو میری نظروں میں ان میں سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں " کہ نبی ﷺ فرماتے تھے عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے اور فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔

【29】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حارث بن معاویہ کندی (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں تین سوال پوچھنے کے لئے سواری پر سفر کر کے حضرت عمر فاروق (رض) کی طرف روانہ ہوا، جب میں مدینہ منورہ پہنچا تو حضرت عمر فاروق (رض) نے آنے کی وجہ پوچھی، میں نے عرض کیا کہ تین باتوں کے متعلق پوچھنے کے لئے حاضر ہوا ہوں، فرمایا وہ تین باتیں کیا ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ بعض اوقات میں اور میری بیوی ایک تنگ کمرے میں ہوتے ہیں، نماز کا وقت آجاتا ہے، اگر ہم دونوں وہاں نماز پڑھتے ہوں تو وہ میرے بالکل ساتھ ہوتی ہے اور اگر وہ میرے پیچھے کھڑی ہوتی ہے تو کمرے سے باہر چلی جاتی ہے اب کیا کیا جائے ؟ حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ اپنے اور اپنی بیوی کے درمیان ایک کپڑا لٹکا لیا کرو، پھر اگر تم چاہو تو وہ تمہارے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتی ہے۔ پھر میں نے عصر کے بعد دو نفل پڑھنے کے حوالے سے پوچھا تو فرمایا کہ نبی ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے، پھر میں نے ان سے وعظ گوئی کے حوالے سے پوچھا کہ لوگ مجھ سے وعظ کہنے کا مطالبہ کرتے ہیں ؟ فرمایا کہ آپ کی مرضی ہے، حضرت عمر (رض) کے جواب سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ براہ راست منع کرنے کو اچھا نہیں سمجھ رہے، میں نے عرض کیا کہ میں آپ کی بات کو حرف آخر سمجھوں گا، فرمایا مجھے یہ اندیشہ ہے کہ اگر تم نے قصہ گوئی یا وعظ شروع کردیا تو تم اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں اونچا سمجھنے لگو گے، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم وعظ کہتے وقت اپنے آپ کو ثریا پر پہنچا ہوا سمجھنے لگو گے، جس کے نتیجے میں قیامت کے دن اللہ تمہیں اسی قدر ان کے قدموں کے نیچے ڈال دے گا۔

【30】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں کھانے سے روکتا ہے، حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے نبی ﷺ کی زبانی اس کی ممانعت کا حکم سنا ہے، میں نے اس طرح کی کوئی قسم نہیں اٹھائی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی بات برسبیل تذکرہ یا کسی سے نقل کر کے کہی ہے۔

【31】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) اور حضرت حذیفہ بن الیمان (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے گھوڑے اور غلام پر زکوٰۃ وصول نہیں فرمائی۔

【32】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت فاروق اعظم (رض) نے ایک مرتبہ دوران سفر جابیہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ اسی طرح خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے جیسے میں کھڑا ہوا ہوں اور فرمایا کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، یہی حکم ان کے بعد والوں اور ان کے بعد والوں کا بھی ہے، اس کے بعد جھوٹ اتنا عام ہوجائے گا کہ گواہی کی درخواست سے قبل ہی آدمی گواہی دینے کے لئے تیار ہوجائے گا، سو تم میں سے جو شخص جنت کا ٹھکانہ چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ " جماعت " کو لازم پکڑے، کیونکہ اکیلے آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور دو سے دور ہوتا ہے، یاد رکھو ! تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھے کیونکہ ان دو کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے اور جس شخص کو اپنی نیکی سے خوشی اور برائی سے گم ہو، وہ مومن ہے۔

【33】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے تھے کہ جو شخص نبی ﷺ کی سیرت کو دیکھنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ عمرو بن اسود کی سیرت کو دیکھ لے۔

【34】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ کسی سفر میں تھے، ایک آدمی نے قسم کھاتے ہوئے کہا " لاوابی " تو دوسرے آدمی نے اس سے کہا کہ اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی ﷺ تھے۔

【35】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ جب نبی ﷺ دنیا سے پردہ فرما گئے اور ان کے بعد حضرت صدیق اکبر (رض) خلیفہ منتخب ہوگئے اور اہل عرب میں سے جو کافر ہوسکتے تھے، سو ہوگئے تو حضرت عمر فاروق (رض) نے سیدنا صدیق اکبر (رض) سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کرسکتے ہیں جبکہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ لیں، جو شخص لا الہ الا اللہ کہہ لے، اس نے جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کرلیا، ہاں ! اگر اسلام کا کوئی حق ہو تو الگ بات ہے اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہوگا ؟ حضرت صدیق اکبر (رض) نے یہ سن کر فرمایا اللہ کی قسم ! میں ان لوگوں سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، بخدا ! اگر انہوں نے ایک بکری کا بچہ " جو رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے " بھی روکا تو میں ان سے قتال کروں گا، حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق اکبر (رض) کو اس معاملے میں شرح صدر کی دولت عطاء فرمادی ہے اور میں سمجھ گیا کہ ان کی رائے ہی برحق ہے۔

【36】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ فرماتے تھے فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔

【37】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے یہ فیصلہ فرمادیا ہے کہ سواری کی اگلی سیٹ پر بیٹھنے کا حقدار سواری کا مالک ہے۔

【38】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حمرہ بن عبد کلال کہتے ہیں کہ پہلے سفر شام کے بعد کے بعد ایک مرتبہ پھر حضرت عمر فاروق (رض) شام کی طرف روانہ ہوئے، جب اس کے قریب پہنچے تو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو یہ خبر ملی کی شام میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے، ساتھیوں نے حضرت فاروق اعظم (رض) سے کہا کہ یہیں سے واپس لوٹ چلیے، آگے مت بڑھیے، اگر آپ وہاں چلے گئے اور واقعی یہ وباء وہاں پھیلی ہوئی ہو تو ہمیں آپ کو وہاں سے منتقل کرنے کی کوئی صورت پیش نہیں آئے گی۔ چناچہ مشورہ کے مطابق حضرت فاروق اعظم (رض) مدینہ منورہ واپس آگئے، اس رات جب آپ نے آخری پہر میں پڑاؤ ڈالا تو میں آپ کے سب سے زیادہ قریب تھا، جب وہ اٹھے تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے اٹھ گیا، میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں شام کے قریب پہنچ گیا تھا لیکن یہ لوگ مجھے وہاں سے اس بناء پر واپس لے آئے کہ وہاں طاعون کی وباء پھیلی ہوئی ہے، حالانکہ وہاں سے واپس آجانے کی بناء پر میری موت کے وقت میں تو تاخیر ہو نہیں سکتی اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ میری موت کا پیغام جلد آجائے اس لئے اب میرا ارادہ یہ ہے کہ اگر میں مدینہ منورہ پہنچ کر ان تمام ضروری کاموں سے فارغ ہوگیا جن میں میری موجودگی ضروری ہے تو میں شام کی طرف دوبارہ ضرور روانہ ہوں گا اور شہر " حمص " میں پڑاؤ کروں گا، کیونکہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے ستر ہزار ایسے بندوں کو اٹھائے گا جن کا حساب ہوگا اور نہ ہی عذاب اور ان کے اٹھائے جانے کی جگہ زیتون کے درخت اور سرخ ونرم زمین میں اس کے باغ کے درمیان ہوگی۔

【39】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے مروی ہے کہ وہ غزوہ تبوک میں نبی ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے، ایک دن نبی ﷺ اپنے صحابہ کرام (رض) کے ساتھ حدیث بیان کرنے کے لئے بیٹھے اور فرمایا جو شخص استقلال شمس کے وقت کھڑا ہو کر خوب اچھی طرح وضو کرے اور دو رکعت نماز پرھ لے، اس کے سارے گناہ اس طرح معاف کردئیے جائیں گے گویا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو حضرت عقبہ بن عامر (رض) فرماتے ہیں کہ اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے نبی ﷺ کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سننے کی توفیق عطا فرمائی۔ حضرت عمر فاروق (رض) اس مجلس میں حضرت عقبہ بن عامر (رض) کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، وہ فرمانے لگے کہ کیا آپ کو اس پر تعجب ہو رہا ہے ؟ حضرت عمر فاروق (رض) اس مجلس میں حضرت عقبہ بن عامر (رض) کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، وہ فرمانے لگے کہ کیا آپ کو اس پر تعجب ہو رہا ہے ؟ آپ کے آنے سے پہلے نبی نے اس سے بھی زیادہ عجیب بات فرمائی تھی، میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فداء ہوں، وہ کیا بات تھی ؟ فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا تھا جو شخص خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے اور یہ کہے اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے کہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔

【40】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

اشعث بن قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق (رض) کی دعوت کی ان کی زوجہ محترمہ نے انہیں دعوت میں جانے سے روکا انہیں یہ بات ناگوار گذری اور انہوں نے اپنی بیوی کو مارا، پھر مجھ سے فرمانے لگے اشعث ! تین باتیں یاد رکھو جو میں نبی ﷺ سے سن کر یاد کی ہیں۔ (١) کسی شخص سے یہ سوال مت کرو کہ اس نے اپنی بیوی کو کیوں مارا ہے ؟ (٢) وتر پڑھے بغیر مت سویا کرو۔ (٣) تیسری بات میں بھول گیا۔

【41】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص دنیا میں ریشم پہنے گا، وہ آخرت میں اسے نہیں پہنایا جائے گا۔

【42】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب ایک سوار مدینہ منورہ کے اطراف و جوانب میں چکر لگاتا ہوگا اور کہتا ہوگا کہ کبھی یہاں بہت سے مومن آباد ہوا کرتے تھے۔

【43】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) نے ایک مرتبہ خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اے لوگو ! میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ کسی ایسے دستر خوان پر مت بیٹھے جہاں شراب پیش کی جاتی ہو جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ بغیر تہبند کے حمام میں داخل نہ ہو اور جو عورت اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو وہ حمام میں مت جائے۔

【44】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص کسی مجاہد کے سر پر سایہ کرے، اللہ قیامت کے دن اس پر سایہ کرے گا، جو شخص مجاہد کے لئے سامان جہاد مہیا کرے یہاں تک کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے، اس کے لئے اس مجاہد کے برابر اجر لکھا جاتا رہے گا جب تک وہ فوت نہ ہوجائے اور جو شخص اللہ کی رضا کے لئے مسجد تعمیر کرے جس میں اللہ کا ذکر کیا جائے، اللہ جنت میں اس کا گھر تعمیر کردے گا۔

【45】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ ﷺ نے کچھ چیزیں تقسیم فرمائیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ان کے زیادہ حقدار تو ان لوگوں کو چھوڑ کر اہل صفہ تھے، نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا تم مجھ سے غیر مناسب طریقے سے سوال کرنے یا مجھے بخیل قرار دینے میں خود مختار ہو، حالانکہ میں بخیل نہیں ہوں۔ فائدہ : مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے اہل صفہ کو کچھ نہیں دیا تو اپنے پاس کچھ بچا کر نہیں رکھا اور اگر دوسروں کو دیا ہے تو ان کی ضروریات کو سامنے رکھ دیا۔

【46】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ نے حدث لاحق ہونے کے بعد وضو کیا اور موزوں پر مسح فرما لیا۔

【47】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابورافع کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ایام میں ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) حضرت ابن عباس (رض) کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت حضرت ابن عمر اور سعید بن زید بھی موجود تھے، آپ نے فرمایا کہ یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہیے کہ میں نے کلالہ کے حوالے سے کوئی قول اختیار نہیں کیا اور نہ ہی اپنے بعد کسی کو بطور خلیفہ کے نامزد کیا ہے اور یہ کہ میری وفات کے بعد عرب کے جتنے قیدی ہیں، سب اللہ کے راستہ میں آزاد ہوں گے۔ حضرت سعید بن زید (رض) کہنے لگے کہ اگر آپ کسی مسلمان کے متعلق خلیفہ ہونے کا مشورہ ہی دے دیں تو لوگ آپ پر اعتماد کریں گے جیسا کہ اس سے قبل حضرت صدیق اکبر (رض) نے کیا تھا اور لوگوں نے ان پر بھی اعتماد کیا تھا، حضرت عمر (رض) نے یہ سن کر فرمایا دراصل مجھے اپنے ساتھیوں میں ایک بری لالچ دکھائی دے رہی ہے، اس لئے میں ایسا تو نہیں کرتا، البتہ ان چھ آدمیوں پر اس بوجھ کو ڈال دیتاہوں جن سے نبی ﷺ بوقت وفات دنیا سے راضی ہو کر گئے تھے، ان میں سے جسے چاہو، خلیفہ منتخب کرلو۔ پھر حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ اگر دو میں سے کوئی ایک آدمی بھی موجود ہوتا اور میں خلافت اس کے حوالے کردیتا تو مجھے اطمینان رہتا، ایک سالم جو کہ ابوحذیفہ کے غلام تھے اور دوسرے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) عنہ۔

【48】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے ان میں حضرت عمر (رض) بھی شامل ہیں جو میری نطروں میں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں کہ نبی ﷺ فرماتے تھے فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔

【49】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے اس پر جھکے تو فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، اگر میں نے اپنے حبیب ﷺ کو تیری تقبیل یا استلام کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا اور کبھی تیرا استلام نہ کرتا، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ تمہارے لئے پیغمبر اللہ ﷺ کی زندگی کے ایک ایک لمحے میں بہترین رہنمائی موجود ہے۔

【50】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت فاروق اعظم (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی، آپ ﷺ نے فرمایا اسے اتار دو ، چناچہ اس نے اتاردی اور اس کی جگہ لوہے کی انگوٹھی پہن لی، نبی ﷺ نے فرمایا : یہ تو اس سے بھی بری ہے، پھر اس نے چاندی کی انگوٹھی پہن لی اور نبی ﷺ نے اس پر سکوت فرمالیا۔

【51】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ جب نبی ﷺ کا وصال مبارک ہوگیا تو انصار کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا، حضرت عمر (رض) ان کے پاس آئے اور فرمایا اے گروہ انصار ! کیا آپ کے علم میں بات نہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں حضرت صدیق اکبر (رض) کو لوگوں کی امامت کا حکم خود دیا تھا ؟ آپ میں سے کون شخص اپنے دل کی بشاشت کے ساتھ ابوبکر صدیق (رض) سے آگے بڑھ سکتا ہے ؟ اس پر انصار کہنے لگے اللہ کی پناہ ! کہ ہم حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے آگے بڑھیں۔

【52】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو نماز کے لئے وضو کر رہا تھا، اس نے وضو کرتے ہوئے پاؤں کی پشت پر ایک ناخن کے بقدر جگہ چھوڑ دی یعنی وہ اسے دھو نہ سکا یا وہاں تک پانی نہیں پہنچا، نبی ﷺ نے بھی اسے دیکھ لیا اور فرمایا کہ جا کر اچھی طرح وضو کرو، چناچہ اس نے جا کر دوبارہ وضو کیا اور نماز پڑھی۔

【53】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

فروخ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر فاروق (رض) اپنے دور خلافت میں مسجد جانے کے لئے گھر سے نکلے، راستے میں انہیں جگہ جگہ غلہ نظر آیا، انہوں نے پوچھا یہ غلہ کیسا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ درآمد کیا گیا ہے، فرمایا اللہ اس میں برکت دے اور اس شخص کو بھی جس نے اسے درآمد کیا ہے، لوگوں نے کہا اے امیر المؤمنین ! یہ تو ذخیرہ اندوزی کا مال ہے، پوچھا کس نے ذخیرہ کر کے رکھا ہوا تھا ؟ لوگوں نے بتایا کہ حضرت عثمان غنی (رض) کے غلام فروخ اور آپ کے فلاں غلام نے۔ حضرت فاروق اعظم (رض) نے ان دونوں کو بلاوا بھیجا اور فرمایا کہ تم نے مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کیوں کی ؟ انہوں نے عرض کیا کہ امیر المؤمنین ! ہم اپنے پیسوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں (اس لئے ہمیں اپنی چیز پر اختیار ہے، جب مرضی بیچیں) فرمایا میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے تنگدستی اور کوڑھ کے مرض میں مبتلا کردیتا ہے۔ فروخ نے تو یہ سن کر اسی وقت کہا امیرالمومنین ! میں اللہ سے اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا، لیکن حضرت عمر (رض) کا غلام اپنی اسی بات پر اڑا رہا کہ ہم اپنے پیسوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں (اس لئے ہمیں اختیار ہونا چاہیے) ابو یحییٰ کہتے ہیں کہ بعد میں جب میں نے اسے دیکھا تو وہ کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہوچکا تھا۔

【54】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی ﷺ مجھے کچھ دینا چاہتے تو میں عرض کردیتا کہ یارسول اللہ ﷺ ! مجھ سے زیادہ جو محتاج لوگ ہیں، یہ انہیوں دے دیجئے، اسی طرح ایک مرتبہ نبی ﷺ نے مجھے کچھ مال و دولت عطاء فرمایا : میں نے حسب سابق یہی عرض کیا کہ مجھ سے زیادہ کسی ضرورت مند کو دے دیجئے، نبی ﷺ نے فرمایا اسے لے لو اپنے مال میں اضافہ کرو، اس کے بعد صدقہ کردو اور یاد رکھو ! اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے لے لیا کرو، ورنہ اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

【55】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن میں بہت خوش تھا، خوشی سے سرشار ہو کر میں نے روزہ کی حالت میں ہی اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا، اس کے بعد احساس ہوا تو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یار سول اللہ ! آج مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے، میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کو بوسہ دے دیا ؟ نبی ﷺ نے فرمایا یہ بتاؤ ! اگر آپ روزے کی حالت میں کلی کرلو تو کیا ہوگا ؟ میں نے عرض کیا اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے، فرمایا پھر اس میں کہاں سے ہوگا ؟

【56】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابو الاسود کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ وہاں کوئی بیماری پھیلی ہوئی ہے جس سے لوگ بکثرت مر رہے ہیں میں حضرت عمر فاروق (رض) کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے ایک جنازہ کا گذر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، حضرت عمر (رض) نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر دوسرا جنازہ گذرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، حضرت عمر (رض) نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، تیسراجنازہ گذرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی، حضرت عمر (رض) فرمایا واجب ہوگئی، میں نے بالآخر پوچھ ہی لیا کہ امیرالمومنین ! کیا چیز واجب ہوگئی ؟ فرمایا میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لئے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں اس کے لئے جنت واجب ہوگئی، ہم نے عرض کیا اگر تین آدمی ہوں ؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا دوہوں تب بھی یہی حکم ہے، پھر ہم نے خود ہی ایک کے متعلق سوال نہیں کیا۔

【57】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ہم ایک مرتبہ نبی ﷺ کے ساتھ رمضان میں بھی جہاد کے لئے نکلے تھے اور فتح مکہ کا واقعہ تو خیر رمضان ہی میں پیش آیا تھا، ان دونوں موقعوں پر ہم نے دوران سفر روزے نہیں رکھے تھے۔ (بلکہ بعد میں قضاء کی تھی)

【58】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

غضبان بن حنظلہ کہتے ہیں کہ ان کے والد حنظلہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں ایک وفد لے کر حاضر ہوئے، حضرت عمر (رض) اس وفد کے جس آدمی کے پاس سے بھی گذرتے اس کے متعلق یہ ضرور پوچھتے کہ اس کا تعلق کہاں سے ہے ؟ چناچہ جب میرے والد کے پاس پہنچے تو ان سے بھی یہی پوچھا کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے ؟ انہوں نے بتایا قبیلہ عنزہ سے، تو فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس قبیلے کے لوگ مظفر ومنصور ہوتے ہیں۔

【59】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

معمر جو کہ ایک مشہور محدث ہیں نے ایک مرتبہ حضرت سعید بن مسیب (رح) سے دوران سفر روزہ رکھنے کا حکم دریافت کیا تو انہوں نے حضرت عمر فاروق (رض) کے حوالے سے یہ حدیث انہیں سنائی کہ ہم نے ماہ رمضان میں دو مرتبہ نبی ﷺ کے ساتھ جہاد میں شرکت کی ہے، ایک غزوہ بدر کے موقع پر اور ایک فتح مکہ کے موقع پر اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے نہیں رکھے۔

【60】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے اپنی امت کے متعلق سب سے زیادہ خطرہ اس منافق سے ہے جو زبان دان ہو۔

【61】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت سالم (رح) کہتے ہیں کہ وہ مسلمہ بن عبدالملک کے ساتھ ارض روم میں تھے کہ ایک آدمی کے سامان سے چوری کا مال غنیمت نکل آیا، لوگوں نے حضرت سالم (رح) سے اس مسئلے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے اپنے والد حضرت ابن عمر (رض) کے واسطے سے حضرت عمر فاروق (رض) کی یہ حدیث نقل کی کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے جس شخص کے سامان میں سے تمہیں چوری کا مال غنیمت مل جائے، اس سامان کو آگ لگادو اور شاید یہ بھی فرمایا کہ اس شخص کی پٹائی کرو۔ چناچہ لوگوں نے اس کا سامان نکال کر بازار میں لا کر رکھا، اس میں سے ایک قرآن شریف بھی نکلا، لوگوں نے سالم سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اسے بیچ کر اس کی قیمت صدقہ کردو۔

【62】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ پانچ چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے، بخل سے، بزدلی سے، دل کے فتنہ سے، عذاب قبر سے اور بری عمر سے۔

【63】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت فاروق اعظم (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے شہداء تین طرح کے ہوتے ہیں۔ (١) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان مضبوط ہو، دشمن سے اس کا آمنا سامنا ہوا اور اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا یہاں تک کہ شہید ہوگیا، یہ تو وہ آدمی ہے جس کی طرف قیامت کے دن لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے اور خود نبی ﷺ نے اپنا سر بلند کر کے دکھایا یہاں تک کہ آپ ﷺ کی ٹوپی گرگئی۔ (٢) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان مضبوط ہو، دشمن سے آمنا سامنا ہوا اور ایسا محسوس ہو کہ اس کے جسم پر کسی نے کانٹے چبھادئیے ہوں اچانک کہیں سے ایک تیر آیا اور وہ شہید ہوگیا، یہ دوسرے درجے میں ہوگا۔ (٣) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان تو مضبوط ہو لیکن اس نے کچھ اچھے اور کچھ برے دونوں طرح کے عمل کئے ہوں، دشمن سے جب اس کا آمنا سامنا ہوا تو اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا، یہاں تک کہ شہید ہوگیا، یہ تیسرے درجے میں ہوگا۔

【64】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا باپ سے اس کی اولاد کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔

【65】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

اور جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مال کا وارث وہی ہوگا جو ولاء کا وارث ہوگا۔

【66】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ باپ سے اس کی اولاد کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔

【67】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ ﷺ نے اپنے اعضاء وضو کو ایک ایک مرتبہ بھی دھویا تھا۔

【68】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت فاروق اعظم (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے شہداء چار طرح کے ہوتے ہیں۔ (١) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان مضبوط ہو، دشمن سے اس کا آمنا سامنا ہوا اور اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا یہاں تک کہ شہید ہوگیا، یہ تو وہ آدمی ہے جس کی طرف قیامت کے دن لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے اور خود نبی ﷺ نے اپنا سر بلند کر کے دکھایا یہاں تک کہ آپ ﷺ کی ٹوپی مبارک گرگئی۔ (٢) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان مضبوط ہو، دشمن سے آمنا سامنا ہوا اور ایسا محسوس ہوا کہ اس کے جسم پر کسی نے کانٹے چبھادئیے ہوں، اچانک کہیں سے ایک تیر آیا اور وہ شہید ہوگیا، یہ دوسرے درجے میں ہوگا۔ (٣) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان تو مضبوط ہو لیکن اس نے کچھ اچھے اور کچھ برے دونوں طرح کے عمل کئے ہوں، دشمن سے جب اس کا آمنا سامنا ہوا تو اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا، یہاں تک کہ شہید ہوگیا، یہ تیسرے درجے میں ہوگا۔ (٤) وہ مسلمان آدمی جس نے اپنی جان پر بےحد ظلم کیا، اس کا دشمن سے آمنا سامنا ہوا، تو اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا اور شہید ہوگیا، یہ چوتھے درجے میں ہوگا۔

【69】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت فاروق اعظم (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک کے سال اپنے اعضاء وضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا تھا۔

【70】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عنقریب اہل مکہ اپنے شہر سے نکلیں گے لیکن دوبارہ اسے بہت کم آباد کرسکیں گے، پھر شہر مکہ بھر جائے گا اور وہاں بڑی عمارتیں بن جائیں گے، اس وقت جب اہل مکہ وہاں سے نکل گئے تو دوبارہ واپس کبھی نہیں آسکیں گے۔

【71】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو نماز ظہر کے لئے وضو کر رہا تھا، اس نے وضو کرتے ہوئے پاؤں کی پشت پر ایک ناخن کے بقدر جگہ چھوڑ دی یعنی وہ اسے دھونہ سکا یا وہاں تک پانی نہیں پہنچا تھا، نبی ﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ جا کر اچھی طرح وضو کرو، چناچہ اس نے جا کر دوبارہ وضو کیا اور نماز پڑھی۔

【72】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عیسائیوں نے جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حد سے زیادہ آگے بڑھایا مجھے اس طرح مت بڑھاؤ، میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا پیغمبر ہوں۔

【73】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آیت قرآنی ولا تجھر بصلاتک ولاتخافت بہا جس وقت نازل ہوئی ہے، اس وقت آپ ﷺ مکہ میں روپوش تھے، وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تھے تو قرآن کریم کی تلاوت بلند آواز سے کرتے تھے، جب مشرکین کے کانوں تک وہ آواز پہنچتی تو وہ خود قرآن کو، قرآن نازل کرنے والے کو اور قرآن لانے والے کو برا بھلا کہنا شروع کردیتے، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ بلند آواز سے قرأت نہ کیا کریں کہ مشرکین کے کانوں تک وہ آواز پہنچے اور وہ قرآن ہی کو برا بھلا کہنا شروع کردیں اور اتنی پست آواز سے بھی تلاوت نہ کریں کہ آپ کے ساتھی اسے سن ہی نہ سکیں، بلکہ درمیانہ راستہ اختیار کریں۔

【74】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے، حمدوثناء کے بعد آپ (رض) نے رجم کا تذکرہ شروع کیا اور فرمایا کہ رجم کے حوالے سے کسی دھوکے کا شکار مت رہنا، یہ اللہ کی مقرر کردہ سزاؤں میں سے ایک سزا ہے، یاد رکھو ! نبی ﷺ نے بھی رجم کی سزا جاری فرمائی ہے اور ہم بھی نبی ﷺ کے بعد یہ سزاجاری کرتے رہے ہیں، اگر کہنے والے یہ نہ کہتے کہ عمر (رض) نے قرآن میں اضافہ کردیا اور ایسی چیز اس میں شامل کردی جو کتاب اللہ میں سے نہیں ہے تو میں اس آیت کو قرآن کریم کے حاشیے پر لکھ دیتا۔ یاد رکھو ! عمربن خطاب (رض) اس بات کا گواہ ہے کہ نبی ﷺ نے رجم کی سزا جاری فرمائی ہے اور نبی ﷺ کے بعد ہم نے بھی یہ سزاجاری کی ہے، یاد رکھو ! تمہارے بعد کچھ لوگ آئیں گے جو رجم کی تکذیب کرتے ہوں گے، دجال، شفاعت اور عذاب قبر سے انکار کرتے ہوں گے اور اس قوم کے ہونے کو جھٹلائیں گے جنہیں جہنم میں جل کر کوئلہ ہوجانے کے بعد نکال لیا جائے گا۔

【75】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت فاروق اعظم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی ہے۔ (١) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کاش ! ہم مقام ابراہیم کو مصلی بنالیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوگئی کہ مقام ابراہیم کو مصلی بنالو۔ (٢) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کی ازواج مطہرات کے پاس نیک اور بدہر طرح کے لوگ آتے ہیں، اگر آپ انہیں پردے کا حکم دے دیں تو بہتر ہے ؟ اس پر آیت حجاب نازل ہوگئی۔ (٣) ایک مرتبہ نبی ﷺ کی تمام ازواج مطہرات نے کسی بات پر ایکا کرلیا، میں نے ان سے کہا کہ اگر نبی ﷺ نے تمہیں طلاق دے دی ہو تو ہوسکتا ہے ان کا رب انہیں تم سے بہتر عطاء کردے، ان ہی الفاظ کے ساتھ قرآن کریم کی آیت نازل ہوگئی۔

【76】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت فاروق اعظم (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ہشام بن حکیم بن حزام (رض) کو سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے اس میں ایسے حروف کی تلاوت کی جو نبی ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا، میرا دل چاہا کہ میں ان سے نماز ہی میں پوچھ لوں، بہرحال ! فراغت کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ تمہیں سورت فرقان اس طرح کس نے پڑھائی ہے ؟ انہوں نے کہا نبی ﷺ نے، میں نے کہا آپ جھوٹ بولتے ہیں، بخدا ! نبی ﷺ نے آپ کو اس طرح یہ سورت نہیں پڑھائی ہوگی۔ یہ کہہ کر میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کھینچتا ہوا نبی ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوگیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ نے مجھے سورت فرقان خود پڑھائی ہے، میں نے اسے سورت فرقان کو ایسے حروف میں پڑھتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے ؟ نبی ﷺ نے ہشام سے اس کی تلاوت کرنے کے لئے فرمایا : انہوں نے اسی طرح پڑھا جیسے وہ پہلے پڑھ رہے تھے، نبی ﷺ نے فرمایا یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر مجھ سے کہا کہ عمر ! تم بھی پڑھ کر سناؤ، چناچہ میں نے بھی پڑھ کر سنادیا، نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ سورت اس طرح بھی نازل ہوئی ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا بیشک اس قرآن کا نزول سات قرأتوں پر ہوا ہے۔

【77】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت فاروق اعظم (رض) سے مروی ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے جناب رسول اللہ ﷺ کو بھوک کی وجہ سے کروٹیں بدلتے ہوئے دیکھا ہے کہ آپ ﷺ کو ردی کھجور بھی نہ ملتی تھی جس سے آپ ﷺ اپنا پیٹ بھر لیتے۔

【78】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت فاروق اعظم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی ہے (١) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! کاش ! ہم مقام ابراہیم کو مصلی بنالیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوگئی کہ مقام ابراہیم کو مصلی بنالو۔ (٢) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کی ازواج مطہرات کے پاس نیک اور بد ہر طرح کے لوگ آتے ہیں اگر آپ انہیں پردے کا حکم دے دیں تو بہتر ہے ؟ اس پر آیت حجاب نازل ہوگئی۔ (٣) ایک مرتبہ نبی ﷺ کی تمام ازواج مطہرات نے کسی بات پر ایکا کرلیا، میں نے ان سے کہا کہ تم باز آجاؤ، ورنہ ہوسکتا ہے ان کا رب انہیں تم سے بہتر بیویاں عطاء کردے، میں اسی سلسلے میں امہات المومنین میں سے کسی کے پاس گیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ اے عمر ! کیا نبی ﷺ اپنی بیویوں کو نصیحت نہیں کرسکتے کہ تم انہیں نصیحت کرنے نکلے ہو ؟ اس پر میں رک گیا، لیکن ان ہی الفاظ کے ساتھ قرآن کریم کی آیت نازل ہوگئی۔

【79】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ میں نے وادی عقیق میں نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آج رات ایک آنے والا میرے رب کے پاس سے آیا اور کہنے لگا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھیے اور حج کے ساتھ عمرہ کی بھی نیت کر کے احرام باندھ لیں، مراد ذوالحلیفہ کی جگہ ہے۔

【80】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا سونا چاندی کے بدلے بیچنا اور خریدنا سود ہے الاّ یہ کہ نقد ہو، گندم کی گندم کے بدلے خریدو فروخت سود ہے الاّ یہ کہ نقد ہو، جو کی خریدو فروخت جو کے بدلے سود ہے الاّ یہ کہ نقد ہو،

【81】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عبید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عید کے موقع پر حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی، پھر فرمایا کہ نبی ﷺ نے ان دونوں کے روزے سے منع فرمایا : عیدالفطر کے دن تو اس لئے کہ اس دن تمہارے روزے ختم ہوتے ہیں اور عیدالاضحی کے دن اس لئے کہ تم اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھا سکو۔

【82】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق اعظم (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عیسائیوں نے جس طرح حضرت عیس (علیہ السلام) کو حد سے زیادہ آگے بڑھایا مجھے اس طرح مت بڑھاؤ، میں تو اللہ کا بندہ ہوں، لہٰذا تم مجھے اس کا بندہ اور پیغمبر ہی کہا کرو۔

【83】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہوجائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا چاہے تو وضو کر کے سوجائے ( اور چاہے تو یوں ہی سوجائے)

【84】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے فی سبیل اللہ کسی شخص کو سواری کے لئے گھوڑا دے دیا، بعد میں دیکھا کہ وہ گھوڑا خود یا اس کا کوئی بچہ بازار میں بک رہا ہے، انہوں نے سوچا کہ اسے خرید لیتاہوں، چناچہ انہوں نے نبی ﷺ سے مشورہ کیا، نبی ﷺ نے انہیں اس سے منع کردیا اور فرمایا کہ اسے مت خریدو اور اپنے صدقے سے رجوع مت کرو۔

【85】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا حج وعمرہ تسلسل کے ساتھ کیا کرو، کیونکہ ان کے تسلسل سے فقروفاقہ اور گناہ ایسے دور ہوجاتے ہیں جیسے بھٹی میں لوہے کا میل کچیل دور ہوجاتا ہے۔

【86】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اعمال کا دارومدار تو نیت پر ہے اور ہر انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو، سو جس شخص کی ہجرت اللہ کی طرف ہو، تو وہ اس کی طرف ہی ہوگی جس کی طرف اس نے ہجرت کی اور جس کی ہجرت حصول دنیا کے لئے ہو یا کسی عورت سے نکاح کی خاطر ہو تو اس کی ہجرت اس چیز کی طرف ہوگی جس کی طرف اس نے کی۔

【87】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابو وائل (رح) سے مروی ہے کہ صبی بن معبد کہتے ہیں کہ میں ایک عیسائی تھا، پھر میں نے اسلام قبول کرلیا، میں نے میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، ان دونوں کی یہ بات مجھ پر پہاڑ سے بھی زیادہ بوجھ ثابت ہوئی، چناچہ میں جب حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، حضرت عمر فاروق (رض) نے ان دونوں کی طرف متوجہ ہو کر انہیں ملامت کی اور میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت کی رہنمائی نصیب ہوگئی۔

【88】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) کے سامنے یہ بات ذکر کی گئی کہ سمرہ نے شراب فروخت کی ہے، انہوں نے فرمایا اللہ اسے ہلاک کرے، نبی ﷺ نے تو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت فرمائے کہ ان پر چربی کو حرام قرار دیا گیا لیکن انہوں نے اسے پگھلا کر اس کا تیل بنالیا اور اسے فروخت کرنا شروع کردیا۔

【89】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ بنو نضیر سے حاصل ہونے والے اموال کا تعلق مال فئی سے تھا جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو عطاء فرمائے اور مسلمانوں کو اس پر گھوڑے یا کوئی اور سواری دوڑانے کی ضرورت نہیں پیش آئی، اس لئے یہ مال خاص نبی ﷺ کا تھا، نبی ﷺ اس میں سے اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر کا نفقہ ایک ہی مرتبہ دے دیا کرتے تھے اور جو باقی بچتا اس سے گھوڑے اور دیگر اسلحہ جو جہاد میں کام آسکے فراہم کرلیتے تھے۔

【90】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت فاروق اعطم (رض) نے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) عنہ، حضرت طلحہ (رض) عنہ، حضرت زبیر (رض) اور حضرت سعد (رض) سے فرمایا میں تمی ہیں اس اللہ کی قسم اور واسطہ دیتاہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔

【91】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے اشاد فرمایا بچہ بستر والے کا ہوتا ہے۔

【92】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق (رض) سے پوچھا کہ قرآن کریم میں قصر کا جو حکم خوف کی حالت میں آیا ہے، اب تو ہر طرف امن وامان ہوگیا ہے تو کیا یہ حکم ختم ہوگیا ؟ (اگر ایسا ہے تو پھر قرآن میں اب تک یہ آیت کیوں موجود ہے ؟ ) تو حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ مجھے بھی اسی طرح تعجب ہوا تھا جس طرح تمہیں ہوا ہے اور میں نے بھی نبی ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا تھا یہ اللہ کی طرف سے صدقہ ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے، لہٰذا اس صدقے اور مہربانی کو قبول کرو۔

【93】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

قیس بن روان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ امیرالمومنین ! میں کوفہ سے آپ کے پاس آرہا ہوں، وہاں میں ایک ایسے آدمی کو چھوڑ کر آیا ہوں جو اپنی یاد سے قرآن کریم املاء کروا رہا ہے، یہ سن کر حضرت عمر (رض) غضب ناک ہوگئے اور ان کی رگیں اس طرح پھول گئیں کہ کجاوے کے دونوں کنارے ان سے بھرگئے اور مجھ سے پوچھا افسوس ! وہ کون ہے ؟ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا نام لیا۔ میں نے دیکھا کہ ان کا نام سنتے ہی حضرت عمر (رض) کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا اور ان کی وہ کیفیت ختم ہونا شروع ہوگئی، یہاں تک کہ وہ نارمل ہوگئے اور مجھ سے فرمایا کمبخت ! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے علم کے مطابق لوگوں میں ان سے زیادہ اس کا کوئی حق دار نہیں ہے اور میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں۔ نبی ﷺ کا یہ معمول مبارک تھا کہ رات کے وقت حضرت صدیق اکبر (رض) کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات میں مشورہ کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ اسی طرح رات کے وقت آپ ﷺ ان کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے، میں بھی وہاں موجود تھا، فراغت کے بعد جب نبی ﷺ وہاں سے نکلے تو ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ نکل آئے، دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے، نبی ﷺ اس کی قرأت سننے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ ابھی ہم اس آدمی کی آواز پہچاننے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قرأت پر اسے پڑھے، پھر وہ آدمی بیٹھ کر دعاء کرنے لگا، نبی ﷺ اس سے فرمانے لگے مانگو، تمہیں عطاء کیا جائے گا۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ صبح ہوتے ہی میں انہیں یہ خوشخبری ضرور سناؤں گا، چناچہ جب میں صبح انہیں یہ خوشخبری سنانے کے لئے پہنچا تو وہاں حضرت صدیق اکبر (رض) کو بھی پایا، وہ مجھ پر اس معاملے میں بھی سبقت لے گئے۔

【94】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں میں جانتاہوں کہ تو ایک پتھر ہے لیکن میں تجھے پھر بھی بوسہ دے رہا ہوں اگر میں نے نبی ﷺ کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔

【95】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت فاروق اعظم (رض) نے ایک مرتبہ دوران سفرجابیہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ اسی طرح خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے جیسے میں کھڑا ہوں اور فرمایا کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، یہی حکم ان کے بعد والوں اور ان کے بعد والوں کا بھی ہے، اس کے بعد ایک قوم ایسی آئے گی جو قسم کی درخواست سے پہلے ہی قسم کھانے کے لئے تیار ہوگی اور گواہی کی درخواست سے قبل ہی آدمی گواہی دینے کے لئے تیار ہوجائے گا، سو تم میں سے جو شخص جنت کا ٹھکانہ چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ جماعت کو لازم پکڑے، کیونکہ اکیلے آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور دو سے دور ہوتا ہے، یاد رکھو ! تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھے کیونکہ ان دو کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے اور جس شخص کو اپنی نیکی سے خوشی اور برائی سے غم ہو، وہ مومن ہے۔

【96】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کا یہ معمول مبارک تھا کہ روزانہ رات کو حضرت صدیق اکبر (رض) کے پاس مسلمانوں کے معاملات میں مشورے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ میں بھی اس موقع پر موجود تھا۔

【97】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ میں نے کلالہ سے متعلق نبی ﷺ سے جتنی مرتبہ سوال کیا، اس سے زیادہ کسی چیز کے متعلق سوال نہیں کیا، یہاں تک کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے میرے سینے پر اپنی انگلی رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لئے سورت نساء کی آخری آیت جو موسم گرما میں نازل ہوئی تھی کافی ہے۔

【98】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میت کو اس کی قبر میں اس پر ہونے والے نوحے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔

【99】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عبداللہ جو حضرت اسماء (رض) کے غلام تھے کہتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ حضرت اسماء (رض) نے حضرت ابن عمر (رض) کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ تین چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔ (١) کپڑوں میں ریشمی نقش ونگار کو (٢) سرخ رنگ کے کپڑوں کو (٣) مکمل ماہ رجب کے روزوں کو انہوں نے جوابا کہلوا بھیجا کہ آپ نے رجب کے روزوں کو حرام قرار دینے کی جو بات ذکر کی ہے، جو شخص خود ساراسال روزے رکھتا ہو، وہ یہ بات کیسے کہہ سکتا ہے ؟ (یعنی یہ بات میں نے نہیں کہی) اور جہاں تک کپڑوں میں نقش ونگار کی بات ہے تو میں نے حضرت عمر فاروق (رض) سے سنا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے وہ آخرت میں اسے نہیں پہن سکے گا۔

【100】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت فاروق اعظم (رض) کے ساتھ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان تھے کہ ہمیں پہلی کا چاند دکھائی دیا، میری بصارت تیز تھی اس لئے میں نے حضرت عمر فاروق (رض) سے عرض کیا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ؟ فرمایا میں ابھی دیکھتا ہوں، میں اس وقت فرش پر چت لیٹا ہوا تھا، پھر حضرت عمر فاروق (رض) اہل بدر کے حوالے سے حدیث بیان کرنے لگے کہ نبی ﷺ نے ہمیں ایک دن پہلے ہی وہ تمام جگہیں دکھادیں جہاں کفار کی لاشیں گرنی تھیں، نبی ﷺ دکھاتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ یہاں فلاں کی لاش گرے گی اور انشاء اللہ کل یہاں فلاں شخص قتل ہوگا، چناچہ ایسا ہی ہوا اور وہ انہی جگہوں پر گرنے لگے جہاں نبی ﷺ نے فرمایا تھا۔ میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کیا اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے یہ تو اس جگہ سے جس کی نشاندہی آپ نے فرمائی تھی ذرا بھی ادھر ادھر نہیں ہوئے، اس کے بعد نبی ﷺ کے حکم پر ان کی لاشیں گھسیٹ کر ایک کنویں میں پھینک دی گئیں، پھر نبی ﷺ اس کنوئیں کے پاس جا کر کھڑے ہوئے اور ایک ایک کا نام لے کر فرمایا کہ کیا تم نے اپنے پروردگار کے وعدے کو سچا پایا یا نہیں ؟ میں نے تو اپنے پروردگار کے وعدے کو سچا پایا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ ان لوگوں سے گفتگو فرما رہے ہیں جو مردار ہوچکے، فرمایا میں ان سے جو کچھ کہہ رہا تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ جواب نہیں دے سکتے ( اور تم جواب دے سکتے ہو)

【101】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بنو معمربن حبیب اپنی بہن کی ولاء کا جھگڑالے کر حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان اسی طرح فیصلہ کروں گا جیسے میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اولاد یا والد نے جو کچھ بھی جمع کیا ہے وہ سب اس کے عصبہ کا ہوگا خواہ وہ کوئی بھی ہو، چناچہ انہوں نے اسی کے مطابق فیصلہ فرمایا۔

【102】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمان حمیری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہماری ملاقات حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے ہوئی، ہم نے ان کے سامنے مسئلہ تقدیر کو چھیڑا اور لوگوں کے اعتراضات کا بھی ذکر کیا، ہماری بات سن کر انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ تو ان سے کہہ دینا کہ ابن عمر (رض) تم سے بری ہے اور تم اس سے بری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، خوبصورت رنگ، خوبصورت بال اور سفید کپڑوں میں ملبوس اس آدمی کو دیکھ کر لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اشاروں میں کہنے لگے کہ ہم تو اسے نہیں پہچانتے اور یہ مسافر بھی نہیں لگتا۔ اس آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں قریب آسکتا ہوں ؟ نبی ﷺ نے اسے اجازت دے دی، چناچہ وہ نبی ﷺ کے گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر اور نبی ﷺ کی رانوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اسلام کیا ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہو ہی نہیں سکتا اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں، نیز یہ کہ آپ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، رمضان کے روزے رکھیں اور حج بیت اللہ کریں۔ اس نے اگلا سوال یہ پوچھا کہ ایمان کیا ہے ؟ فرمایا تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، جنت وجہنم، قیامت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور تقدیر پر یقین رکھو، اس نے پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے ؟ فرمایا تم اللہ کی رضاحاصل کرنے کے لئے کوئی عمل اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم یہ تصور نہیں کرسکتے تو کم ازکم یہی تصور کرلو کہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔ اس نے پھر پوچھا کہ قیامت کب آئے گی ؟ فرمایا جس سے سوال پوچھا جارہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا یعنی ہم دونوں ہی اس معاملے میں بیخبر ہیں، اس نے کہا کہ پھر اس کی کچھ علامات ہی بتا دیجئے ؟ فرمایا جب تم یہ دیکھو کہ جن کے جسم پر چیتھڑا اور پاؤں میں لیترا نہیں ہوتا تھا، غریب اور چرواہے تھے، آج وہ بڑی بڑی بلڈنگیں اور عمارتیں بنا کر ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں، لونڈیاں اپنی مالکن کو جنم دینے لگیں تو قیامت قریب آگئی۔ جب وہ آدمی چلا گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا ذرا اس آدمی کو بلا کر لانا، صحابہ کرام (رض) اس کی تلاش میں نکلے تو انہیں کچھ نظر نہ آیا، دو تین دن بعد نبی ﷺ نے حضرت عمر فاروق (رض) سے فرمایا اے ابن خطاب ! کیا تمہیں علم ہے کہ وہ سائل کون تھا ؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ سے قبیلہ جہینہ یا مزینہ کے ایک آدمی نے بھی یہ سوال پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ ! ہم جو عمل کرتے ہیں کیا ان کا فیصلہ پہلے سے ہوچکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے ؟ فرمایا ان کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے، اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر عمل کا کیا فائدہ ؟ فرمایا اہل جنت کے لئے اہل جنت کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کے لئے اہل جہنم کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں۔

【103】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابوالحکم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق سوال کیا تو فرمایا کہ نبی ﷺ نے مٹکے کی نبیذ اور کدو کی نبیذ سے تو منع فرمایا ہے، اس لئے جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ نبیذ کو حرام سمجھے۔ ابوالحکم کہتے ہیں کہ پھر میں نے یہی سوال حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے کیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ نبی ﷺ نے مٹکے اور کدو کی تو نبیذ سے منع فرمایا ہے، پھر میں نے یہی سوال حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کیا تو انہوں نے حضرت عمر (رض) کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ ﷺ نے کدو کی تو نبیذ اور سبز مٹکے سے منع فرمایا ہے اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ نبی ﷺ نے مٹکے، کدو کی تونبیذ اور لکڑی کو کھوکھلا کر کے بطور برتن استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے اور کچی اور پکی کھجور کی شراب سے بھی منع فرمایا ہے۔

【104】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے، نبی ﷺ کا تذکرہ کیا، حضرت صدیق اکبر (رض) کی یاد تازہ کی پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آگیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے۔ کچھ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقر کردوں، اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ اپنے دین کو ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہوگیا تو میں مجلس شوری ان چھ افراد کی مقرر کررہاہوں جن سے نبی ﷺ بوقت رحلت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے۔ میں جانتاہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا ! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کرچکا ہوں، اگر یہ لوگ ایسا کریں تو یہ لوگ دشمنان خدا، کافر اور گمراہ ہیں، میں نے اپنے پیچھے کلالہ سے زیادہ اہم مسئلہ کوئی نہیں چھوڑا، نبی ﷺ کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسئلہ میں آپ مجھ سے ناراض ہوئے ہوں، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ ﷺ انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے اور میں نے نبی ﷺ سے کسی چیز میں اتنا تکرار نہیں کیا جتناکلالہ کے مسئلے میں کیا تھا، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کیا تمہارے لئے اس مسئلے میں سورت نساء کی وہ آخری آیت جو گرمی میں نازل ہوئی تھی کافی نہیں ہے ؟ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلے کا ایسا حل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آجائے، پھر فرمایا میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتاہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں جو امراء اور گورنر بھیجے ہیں وہ صرف اس لئے کہ وہ لوگوں کو دین سکھائیں، نبی ﷺ کی سنتیں لوگوں کے سامنے بیان کریں، ان میں مال غنیمت تقسیم کریں، ان میں انصاف کریں اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔ لوگو ! تم دو درختوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں گندہ سمجھتاہوں (ایک لہسن اور دوسرا پیاز، جنہیں کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے) میں نے دیکھا ہے کہ اگر نبی ﷺ کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ ﷺ حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے تھے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بدبوماردے۔

【105】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق (رض) کو حضرت طلحہ (رض) سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کیا بات ہے، نبی ﷺ کے وصال مبارک کے بعد سے آپ پراگندہ حال اور غبار آلود رہنے لگے ہیں ؟ کیا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی کی یعنی میری خلافت اچھی نہیں لگی ؟ انہوں نے فرمایا اللہ کی پناہ ! مجھے تو کسی صورت ایسا نہیں کرنا چاہیے، اصل بات یہ ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتاہوں کہ اگر کوئی شخص نزع کی حالت میں وہ کلمہ کہہ لے تو اس کے لئے روح نکلنے میں سہولت پیدا ہوجائے اور قیامت کے دن وہ اس کے لئے باعث نور ہو، مجھے افسوس ہے کہ میں نبی ﷺ سے اس کلمے کے بارے میں پوچھ نہیں سکا اور خود نبی ﷺ نے بھی نہیں بتایا، میں اس وجہ سے پریشان ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میں وہ کلمہ جانتاہوں، حضرت ابو طلحہ (رض) نے الحمدللہ کہہ کر پوچھا کہ وہ کیا کلمہ ہے ؟ فرمایا وہی کلمہ جو نبی ﷺ نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا یعنی لا الہ الا اللہ، حضرت طلحہ (رض) فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا۔

【106】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک یہودی حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا امیرالمومنین ! آپ لوگ اپنی کتاب میں ایک آیت ایسی پڑھتے ہیں جو ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنالیتے جس دن وہ نازل ہوئی، حضرت عمر فاروق (رض) نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے ؟ اس نے آیت تکمیل دین کا حوالہ دیا، اس پر حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ بخدا ! مجھے علم ہے کہ یہ آیت کس دن اور کس وقت نازل ہوئی تھی، یہ آیت نبی ﷺ پر جمعہ کے دن عرفہ کی شام نازل ہوئی تھی۔

【107】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابوامامہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے کو تیر مارا جس سے وہ جاں بحق ہوگیا، اس کا صرف ایک ہی وارث تھا اور وہ تھا اس کا ماموں، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح نے اس سلسلے میں حضرت فاروق اعظم (رض) کی خدمت میں خط لکھا، انہوں نے جوابا لکھ بھیجا کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے جس کا کوئی مولیٰ نہ ہو، اللہ اور اس کا رسول اس کے مولیٰ ہیں اور جس کا کوئی وارث نہ ہو، ماموں ہی اس کا وارث ہوگا۔

【108】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا عمر ! تم طاقتور آدمی ہو، حجر اسود کو بوسہ دینے میں مزاحمت نہ کرنا، کہیں کمزور آدمی کو تکلیف نہ پہنچے، اگر خالی جگہ مل جائے تو استلام کرلینا، ورنہ محض استقبال کر کے تہلیل وتکبیر پر ہی اکتفاء کرلینا۔

【109】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے ایک مرتبہ نبی ﷺ سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے ؟ فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں، پیغمبروں، یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر یقین رکھو، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا آپ نے سچ کہا، ہمیں تعجب ہوا کہ سوال بھی کر رہے ہیں اور تصدیق بھی کر رہے ہیں، بعد میں نبی ﷺ بتایا کہ یہ جبرئیل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔

【110】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب رات یہاں سے آجائے اور دن وہاں سے چلاجائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کرلینا چاہیے، مشرق اور مغرب مراد ہے۔

【111】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت فاروق اعطم (رض) کے ساتھ تھا، ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں نے شوال کا چاند دیکھ لیا ہے، حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا لوگو ! روزہ افطار کرلو، پھر خود کھڑے ہو کر ایک برتن سے جس میں پانی تھا وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، وہ آدمی کہنے لگا بخدا ! امیرالمومنین ! میں آپ کے پاس یہی پوچھنے کے لئے آیا تھا کہ آپ نے کسی اور کو بھی موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ فرمایا ہاں ! اس ذات کو جو مجھ سے بہتر تھی، میں نے نبی ﷺ کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے، اس وقت نبی ﷺ نے ایک شامی جبہ پہن رکھا تھا جس کی آستینیں تنگ تھیں اور نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ جبے کے نیچے سے داخل کئے تھے، یہ کہہ کر حضرت عمر فاروق (رض) مغرب کی نماز پڑھانے کے لئے چلے گئے۔

【112】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے اگرچہ گوہ کو حرام تو قرار نہیں دیا البتہ اسے ناپسند ضرور کیا ہے۔

【113】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) نے ایک مرتبہ نبی ﷺ سے عمرہ پر جانے کے لئے اجازت مانگی، نبی ﷺ نے انہیں اجازت دیتے ہوئے فرمایا بھائی ! ہمیں اپنی دعاؤں میں بھول نہ جانا، یا یہ فرمایا کہ بھائی ! ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا، حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر اس ایک لفظ یا اخی کے بدلے مجھے وہ سب کچھ دے دیا جائے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے یعنی پوری دنیا تو میں اس ایک لفظ کے بدلے پوری دنیا کو پسند نہیں کروں گا۔

【114】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ ہم جو عمل کرتے ہیں، کیا وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ؟ فرمایا نہیں ! بلکہ وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے، حضرت عمر فاروق (رض) نے عرض کیا کہ کیا ہم اسی پر بھروسہ نہ کرلیں ؟ فرمایا ابن خطاب ! عمل کرتے رہو کیونکہ جو شخص جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اسے اس کے اسباب مہیا کر دئیے جاتے ہیں اور وہ عمل اس کے لئے آسان کردیا جاتا ہے، پھر جو سعادت مند ہوتا ہے وہ نیکی کے کام کرتا ہے اور جو اشقیاء میں سے ہوتا ہے وہ بدبختی کے کام کرتا ہے۔

【115】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یاد رکھو ! بعض لوگ کہتے ہیں کہ رجم کا کیا مطلب ؟ قرآن کریم میں تو صرف کوڑے مارنے کا ذکر آتا ہے، حالانکہ رجم کی سزا خود نبی ﷺ نے دی ہے اور ہم نے بھی دی ہے، اگر کہنے والے یہ نہ کہتے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کردیا تو میں اسے قرآن میں لکھ دیتا۔

【116】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابن سمط کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سر زمین " دومین " جو حمص سے اٹھارہ میل کے فاصلے پر ہے، پر میرا آنا ہوا، وہاں حضرت جبیر بن نفیر نے دو رکعتیں پڑھیں، میں نے ان سے پوچھا کہ یہ رکعتیں کیسی ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے بھی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) کو ذوالحلیفہ میں دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھ کر یہی سوال کیا تھا، انہوں نے مجھے جواب دیا تھا کہ میں نے نبی ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

【117】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سا وقت ہے آنے کا ؟ انہوں نے جوابا کہا کہ امیرالمومنین ! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آگیا ہوں، حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا اوپر سے وضو بھی ؟ جبکہ آپ جانتے ہیں کہ نبی ﷺ جمعہ کے لئے غسل کرنے کا حکم دیتے تھے۔

【118】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت فاروق اعظم (رض) نے فرمایا کہ مشرکین مزدلفہ سے طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے، نبی ﷺ نے ان کا طریقہ اختیار نہیں کیا اور مزدلفہ سے منیٰ کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوگئے۔

【119】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں جزیرہ عرب سے یہودونصاری کو نکال کر رہوں گا، یہاں تک کہ جزیرہ عرب میں مسلمانوں کے علاوہ کوئی نہ رہے گا۔

【120】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا کہ یہ کون ساوقت ہے آنے کا ؟ انہوں نے جوابا کہا کہ امیرالمومنین ! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آگیا ہوں، حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا اوپر سے وضو بھی ؟ جبکہ آپ جانتے ہیں کہ نبی ﷺ جمعہ کے لئے غسل کرنے کا حکم دیتے تھے۔

【121】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے دن نبی ﷺ کے کچھ صحابہ سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے جو یہ کہہ رہے تھے کہ فلاں بھی شہید ہے، فلاں بھی شہید ہے، یہاں تک کہ ان کا گذر ایک آدمی پر ہوا، اس کے بارے بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ بھی شہید ہے، نبی ﷺ نے فرمایا ہرگز نہیں ! میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے مال غنیمت میں سے ایک چادر چوری کی تھی، اس کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا اے ابن خطاب ! جا کر لوگوں میں منادی کردو کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے، چناچہ میں نکل کر یہ منادی کرنے لگا کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے۔

【122】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابوالاسود (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ وہاں کوئی بیماری پھیلی ہوئی ہے جس سے لوگ بکثرت مر رہے ہیں، میں حضرت عمر فاروق (رض) کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے ایک جنازہ کا گذر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، حضرت عمر (رض) نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر دوسرا جنازہ گذرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، حضرت عمر (رض) نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، تیسرا جنازہ گذرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی، حضرت عمر (رض) نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، میں نے بالآخر پوچھ ہی لیا کہ امیرالمومنین ! کیا چیز واجب ہوگئی ؟ انہوں نے فرمایا میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لئے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں تو اس کے لئے جنت واجب ہوگئی، ہم نے عرض کیا اگر تین آدمی ہوں ؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے، پھر ہم نے خود ہی ایک کے متعلق سوال نہیں کیا۔

【123】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر تم اللہ پر اس طرح ہی توکل کرلیتے جیسے اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق عطاء کیا جاتا جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے جو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔

【124】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا منکرین تقدیر کے ساتھ مت بیٹھا کرو اور گفتگو شروع کرنے میں ان سے پہل نہ کیا کرو۔

【125】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابن سمط کہتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) کے ساتھ ذوالحلیفہ کی طرف روانہ ہوئے، حضرت عمر (رض) نے وہاں دو رکعتیں پڑھیں، میں نے ان سے اس کے متعلق سوال کیا، انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

【126】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کا جائزہ لیا تو وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے اور مشرکین کا جائزہ لیا وہ ایک ہزار سے زیادہ معلوم ہوئے، یہ دیکھ کر نبی ﷺ نے قبلہ رخ ہو کر دعاء کے لئے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے، نبی ﷺ نے اس وقت چادر اوڑھ رکھی تھی، دعاء کرتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا الٰہی ! تیرا وعدہ کہاں گیا ؟ الٰہی اپنا وعدہ پورا فرما، الٰہی اگر آج یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہوگئے تو زمین میں پھر کبھی بھی آپ کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ اس طرح آپ ﷺ مستقل اپنے رب سے فریاد کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی رداء مبارک گرگئی، یہ دیکھ کر حضرت صدیق اکبر (رض) آگے بڑھے، نبی ﷺ کی چادر کو اٹھا کر نبی ﷺ پر ڈال دیا اور پیچھے سے نبی ﷺ کو چمٹ گئے اور کہنے لگے اے اللہ کے نبی ! آپ نے اپنے رب سے بہت دعاء کرلی، وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اور اس نے تمہاری فریاد کو قبول کرلیا تھا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں سے کروں گا جو لگاتار آئیں گے۔ جب غزوہ بدر کا معرکہ بپا ہوا اور دونوں لشکر ایک دوسرے سے ملے تو اللہ کے فضل سے مشرکین کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، چناچہ ان میں سے ستر قتل ہوگئے اور ستر ہی گرفتار کر کے قید کر لئے گئے، ان قیدیوں کے متعلق نبی ﷺ نے حضرت صدیق اکبر (رض) عنہ، حضرت علی (رض) اور حضرت عمر (رض) سے مشورہ کیا، حضرت صدیق اکبر (رض) نے مشورہ دیا اے اللہ کے نبی ! یہ لوگ ہمارے ہی بھائی بند اور رشتہ دار ہیں، میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، وہ مال کافروں کے خلاف ہماری طاقت میں اضافہ کرے گا اور عین ممکن ہے کہ اللہ انہیں بھی ہدایت دے دے تو یہ بھی ہمارے دست وبازو بن جائیں گے۔ نبی ﷺ نے پوچھا ابن خطاب ! تمہاری رائے کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میری رائے وہ نہیں ہے جو حضرت صدیق اکبر (رض) کی ہے، میری رائے یہ ہے کہ آپ فلاں آدمی کو جو حضرت عمر (رض) کا قریبی رشتہ دار تھا میرے حوالے کردیں اور میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑادوں، آپ عقیل کو حضرت علی (رض) کے حوالے کردیں اور وہ ان کی گردن اڑادیں، حمزہ کو فلاں پر غلبہ عطاء فرمائیں اور وہ اپنے ہاتھ سے اسے قتل کریں، تاکہ اللہ جان لے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لئے کوئی نرمی کا پہلو نہیں ہے، یہ لوگ مشرکین کے سردار، ان کے قائد اور ان کے سرغنہ ہیں، جب یہ قتل ہوجائیں گے تو کفر و شرک اپنی موت آپ مرجائے گا۔ نبی ﷺ نے حضرت صدیق اکبر (رض) کی رائے کو ترجیح دی اور میری رائے کو چھوڑ دیا اور ان سے فدیہ لے لیا، اگلے دن میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! خیر تو ہے آپ اور آپ کے دوست (حضرت صدیق اکبر (رض) رو رہے ہیں ؟ مجھے بھی بتائیے تاکہ اگر میری آنکھوں میں بھی آنسو آجائیں تو آپ کا ساتھ دوں ورنہ کم از کم رونے کی کوشش ہی کرلوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے ساتھیوں نے مجھے فدیہ کا جو مشورہ دیا تھا اس کی وجہ سے تم سب پر آنے والا عذاب مجھے اتنا قریب دکھائی دیا جتنا یہ درخت نظر آرہا ہے اور اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اگر ان کے پاس قیدی آئیں۔۔۔ آخر آیت تک، بعد میں ان کے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دے دیا گیا۔ آئندہ سال جب غزوہ احد ہوا تو غزوہ بدر میں فدیہ لینے کے عوض مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہوگئے اور صحابہ کرام (رض) نبی ﷺ کو چھوڑ کر منتشر ہوگئے، نبی ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوگئے، خود کی کڑی نبی ﷺ کے سر مبارک میں گھس گئی، نبی ﷺ کا روئے انور خون سے بھر گیا اور یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ جب تم پر وہ مصیبت نازل ہوئی جو اس سے قبل تم مشرکین کو خود بھی پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ یہ کیسے ہوگیا ؟ آپ فرما دیجئے کہ یہ تمہاری طرف سے ہی ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ شکست فدیہ لینے کی وجہ سے ہوئی۔

【127】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ہم ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے، میں نے نبی ﷺ سے کسی چیز کے متعلق تین مرتبہ سوال کیا، لیکن نبی ﷺ نے ایک مرتبہ بھی جواب نہ دیا، میں نے اپنے دل میں کہا ابن خطاب ! تیری ماں تجھے روئے، تو نے نبی ﷺ سے تین مرتبہ ایک چیز کے متعلق دریافت کیا لیکن انہوں نے تجھے کوئی جواب نہ دیا، یہ سوچ کر میں اپنی سواری پر سوار ہو کر وہاں سے نکل آیا کہ کہیں میرے بارے قرآن کی کوئی آیت نازل نہ ہوجائے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک منادی میرا نام لے کر پکارتا ہوا آیا کہ عمر کہاں ہے ؟ میں یہ سوچتا ہوا واپس لوٹ آیا کہ شاید میرے بارے میں قرآن کی کوئی آیت نازل ہوئی ہے، وہاں پہنچا تو نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا آج رات مجھ پر ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو میرے نزدیک دنیا ومافیہا سے زیادہ پسندیدہ ہے، پھر نبی ﷺ نے سورت الفتح کی پہلی آیت تلاوت فرمائی۔

【128】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا، انہوں نے ایک آدمی کو شرکت کی دعوت دی، اس نے کہا کہ میں روزے سے ہوں، فرمایا تم کون سے روزے رکھ رہے ہو ؟ اگر کمی بیشی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں تمہارے سامنے نبی ﷺ کی وہ حدیث بیان کرتا جب ایک دیہاتی نبی ﷺ کی خدمت میں ایک خرگوش لے کر حاضر ہوا، تم ایسا کرو کہ حضرت عمار (رض) کو بلا کر لاؤ۔ جب حضرت عمار (رض) تشریف لائے تو حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اس دن نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے جب ایک دیہاتی ایک خرگوش لے کر آیا تھا ؟ فرمایا جی ہاں ! میں نے اس پر خون لگا ہوا دیکھا تھا، نبی ﷺ نے فرمایا اسے کھاؤ، وہ کہنے لگا کہ میرا روزہ ہے، نبی ﷺ نے فرمایا کیسا روزہ ؟ اس نے کہا کہ میں ہر ماہ کی ابتداء اور اختتام پر روزہ رکھتا ہوں، فرمایا اگر تم روزہ رکھنا ہی چاہتے ہو تو نفلی روزے کے لئے مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا انتخاب کیا کرو۔

【129】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

مسروق بن اجدع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری ملاقات حضرت فاروق اعظم (رض) سے ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ میں مسروق بن اجدع ہوں، فرمایا میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اجدع شیطان کا نام ہے، اس لئے تمہارا نام مسروق بن عبدالرحمن ہے، عامر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ان کے رجسٹر میں ان کا نام مسروق بن عبدالرحمن لکھا ہوا دیکھا تو ان سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے میرا یہ نام رکھا تھا۔

【130】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ہمیں آزاد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل کرنے سے منع فرمایا ہے۔

【131】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

اسلم جو کہ حضرت عمر فاروق (رض) کے آزاد کردہ غلام تھے کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو جو بستی اور شہر بھی مفتوح ہوگا، میں اسے فاتحین کے درمیان تقسیم کردیا کروں گا جیسا کہ نبی ﷺ نے خیبر کو تقسیم فرما دیا تھا۔

【132】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی ﷺ کے ساتھ کسی غزوے میں تھا، ایک موقع پر میں نے قسم کھاتے ہوئے کہا " لا وابی " تو پیچھے سے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی ﷺ تھے۔

【133】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) نے ارشاد فرمایا اگر میں زندہ رہا تو انشاء اللہ جزیرہ عرب سے یہودونصاری کو نکال کر رہوں گا۔

【134】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا۔

【135】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

سیاربن معرور کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق (رض) کو دوران خطبہ یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اس مسجد کی تعمیر نبی ﷺ نے مہاجرین و انصار کے ساتھ مل کر فرمائی ہے، اگر رش زیادہ ہوجائے تو (مسجد کی کمی کو مورد التزام ٹھہرانے کی بجائے) اپنے بھائی کی پشت پر سجدہ کرلیا کرو، اسی طرح ایک مرتبہ حضرت فاروق اعطم (رض) نے کچھ لوگوں کو راستے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ مسجد میں نماز پڑھا کرو۔

【136】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ انہیں حضرت فاروق اعظم (رض) کے ساتھ حج کا شرف حاصل ہوا، شام کے کچھ معززین ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے امیرالمومنین ! ہمیں کچھ غلام اور جانور ملے ہیں، آپ ہمارے مال سے زکوٰۃ وصول کرلیجئے تاکہ ہمارا مال پاک ہوجائے اور وہ ہمارے لئے پاکیزگی کا سبب بن جائے، فرمایا یہ کام تو مجھ سے پہلے میرے دو پیشرو حضرات نے نہیں کیا، میں کیسے کرسکتا ہوں البتہ ٹھہرو ! میں مسلمانوں سے مشورہ کرلیتا ہوں۔

【137】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر میں زندہ رہا توجزیرہ عرب سے یہودونصاری کو نکال کر رہوں گا، یہاں تک کہ جزیرہ عرب میں مسلمان کے علاوہ کوئی نہ رہے گا۔

【138】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص سے اس کا رات والی دعاؤں کا معمول کسی وجہ سے چھوٹ جائے اور وہ اسے اگلے دن فجر اور ظہر کے درمیان کسی بھی وقت پڑھ لے تو گویا اس نے اپنا معمول رات ہی کو پورا کیا۔

【139】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کا جائزہ لیا تو وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے اور مشرکین کا جائزہ لیا وہ ایک ہزار سے زیادہ معلوم ہوئے، یہ دیکھ کر نبی ﷺ نے قبلہ رخ ہو کر دعاء کے لئے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے، نبی ﷺ نے اس وقت چادر اوڑھ رکھی تھی، دعاء کرتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا الٰہی ! تیرا وعدہ کہاں گیا ؟ الٰہی اپنا وعدہ پورا فرما، الٰہی اگر آج یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہوگئے تو زمین میں پھر کبھی بھی آپ کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ اس طرح آپ ﷺ مستقل اپنے رب سے فریاد کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی رداء مبارک گرگئی، یہ دیکھ کر حضرت صدیق اکبر (رض) آگے بڑھے، نبی ﷺ کی چادر کو اٹھا کر نبی ﷺ پر ڈال دیا اور پیچھے سے نبی ﷺ کو چمٹ گئے اور کہنے لگے اے اللہ کے نبی ! آپ نے اپنے رب سے بہت دعاء کرلی، وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اور اس نے تمہاری فریاد کو قبول کرلیا تھا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں سے کروں گا جو لگاتار آئیں گے۔ جب غزوہ بدر کا معرکہ بپا ہوا اور دونوں لشکر ایک دوسرے سے ملے تو اللہ کے فضل سے مشرکین کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، چناچہ ان میں سے ستر قتل ہوگئے اور ستر ہی گرفتار کر کے قید کر لئے گئے، ان قیدیوں کے متعلق نبی ﷺ نے حضرت صدیق اکبر (رض) عنہ، حضرت علی (رض) اور حضرت عمر (رض) سے مشورہ کیا، حضرت صدیق اکبر (رض) نے مشورہ دیا اے اللہ کے نبی ! یہ لوگ ہمارے ہی بھائی بند اور رشتہ دار ہیں، میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، وہ مال کافروں کے خلاف ہماری طاقت میں اضافہ کرے گا اور عین ممکن ہے کہ اللہ انہیں بھی ہدایت دے دے تو یہ بھی ہمارے دست وبازو بن جائیں گے۔ نبی ﷺ نے پوچھا ابن خطاب ! تمہاری رائے کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میری رائے وہ نہیں ہے جو حضرت صدیق اکبر (رض) کی ہے، میری رائے یہ ہے کہ آپ فلاں آدمی کو جو حضرت عمر (رض) کا قریبی رشتہ دار تھا میرے حوالے کردیں اور میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑادوں، آپ عقیل کو حضرت علی (رض) کے حوالے کردیں اور وہ ان کی گردن اڑادیں، حمزہ کو فلاں پر غلبہ عطاء فرمائیں اور وہ اپنے ہاتھ سے اسے قتل کریں، تاکہ اللہ جان لے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لئے کوئی نرمی کا پہلو نہیں ہے، یہ لوگ مشرکین کے سردار، ان کے قائد اور ان کے سرغنہ ہیں، جب یہ قتل ہوجائیں گے تو کفروشرک اپنی موت آپ مرجائے گا۔ نبی ﷺ نے حضرت صدیق اکبر (رض) کی رائے کو ترجیح دی اور میری رائے کو چھوڑ دیا اور ان سے فدیہ لے لیا، اگلے دن میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! خیر تو ہے آپ اور آپ کے دوست (حضرت صدیق اکبر (رض) رو رہے ہیں ؟ مجھے بھی بتائیے تاکہ اگر میری آنکھوں میں بھی آنسو آجائیں تو آپ کا ساتھ دوں، ورنہ کم از کم رونے کی کوشش ہی کرلوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے ساتھیوں نے مجھے فدیہ کا جو مشورہ دیا تھا اس کی وجہ سے تم سب پر آنے والا عذاب مجھے اتنا قریب دکھائی دیا جتنا یہ درخت نظر آرہا ہے اور اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اگر ان کے پاس قیدی آئیں۔۔۔ آخر آیت تک، بعد میں ان کے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دے دیا گیا۔ آئندہ سال جب غزوہ احد ہوا تو غزوہ بدر میں فدیہ لینے کے عوض مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہوگئے اور صحابہ کرام (رض) نبی ﷺ کو چھوڑ کر منتشر ہوگئے، نبی ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوگئے، خود کی کڑی نبی ﷺ کے سر مبارک میں گھس گئی، نبی ﷺ کا روئے انورخون سے بھر گیا اور یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ جب تم پر وہ مصیبت نازل ہوئی جو اس سے قبل تم مشرکین کو خود بھی پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ یہ کیسے ہوگیا ؟ آپ فرما دیجئے کہ یہ تمہاری طرف سے ہی ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ شکست فدیہ لینے کی وجہ سے ہوئی۔

【140】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کی بڑی آرزو تھی کہ حضرت عمر فاروق (رض) سے نبی ﷺ کی ان دو ازواج مطہرات کے بارے سوال کروں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ " اگر تم دونوں توبہ کرلو تو اچھا ہے کیونکہ تمہارے دل ٹیڑھے ہوچکے ہیں " لیکن ہمت نہیں ہوتی تھی، حتیٰ کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) حج کے لئے تشریف لے گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا، راستے میں حضرت عمر فاروق (رض) لوگوں سے ہٹ کر چلنے لگے، میں بھی پانی کا برتن لے کر ان کے پیچھے چلا گیا، انہوں نے اپنی طبعی ضرورت پوری کی اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور حضرت فاروق اعظم (رض) وضو کرنے لگے۔ اس دوران مجھے موقع مناسب معلوم ہوا، اس لئے میں نے پوچھ ہی لیا کہ امیرالمومنین ! نبی ﷺ کی ازواج مطہرات سے وہ دو عورتیں کون تھیں جن کے بارے اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر تم توبہ کرلو تو اچھا ہے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا ابن عباس ! حیرانگی کی بات ہے کہ تمہیں یہ بات معلوم نہیں، وہ دونوں عائشہ اور حفصہ تھیں اور فرمایا کہ ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے، لیکن جب ہم مدینہ منورہ میں آئے تو یہاں کی عورتیں، مردوں پر غالب نظر آئیں، ان کی دیکھا دیکھی ہماری عورتوں نے بھی ان سے یہ طور طریقے سیکھنا شروع کر دئیے۔ میرا گھر اس وقت عوالی میں بنو امیہ بن زید کے پاس تھا، ایک دن میں نے اپنی پر غصہ کا اظہار کسی وجہ سے کیا تو وہ الٹا مجھے جواب دینے لگی، مجھے بڑا تعجب ہوا، وہ کہنے لگی کہ میرے جواب دینے پر تو آپ کو تعجب ہو رہا ہے بخدا ! نبی ﷺ کی ازواج مطہرات بھی انہیں جواب دیتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو ان میں سے کوئی سارا دن تک نبی ﷺ سے بات ہی نہیں کرتی۔ یہ سنتے ہی میں اپنی بیٹی حفصہ کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ کیا تم نبی ﷺ کے ساتھ تکرار کرتی ہو ؟ انہوں نے اقرار کیا، پھر میں نے پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی سارا دن تک نبی ﷺ سے بات ہی نہیں کرتی ؟ انہوں نے اس پر اقرار کیا، میں نے کہا کہ تم میں سے جو یہ کرتا ہے وہ بڑے نقصان اور خسارے میں ہے، کیا تم لوگ اس بات پر مطمئن ہو کہ اپنے پیغمبر کو ناراض دیکھ کر تم میں سے کسی پر اللہ کا غضب نازل ہو اور وہ ہلاک ہوجائے۔ میرا ایک انصاری پڑوسی تھا، ہم دونوں نے باری مقرر کر رکھی تھی، ایک دن وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ایک دن میں، وہ اپنے دن کی خبریں اور وحی مجھے سنا دیتا اور میں اپنی باری کی خبریں اور وحی اسے سنا دیتا ، اس زمانے میں ہم لوگ آپس میں یہ گفتگو ہی کرتے رہتے تھے کہ بنو غسان کے لوگ ہم سے مقابلے کے لئے اپنے گھوڑوں کے نعل ٹھونک رہے ہیں، اس تناظر میں میرا پڑوسی ایک دن عشاء کے وقت میرے گھر آیا اور زور زور سے دروازہ بجایا، پھر مجھے آوازیں دینے لگا، میں جب باہر نکل کر آیا تو وہ کہنے لگا کہ آج تو ایک بڑا اہم واقعہ پیش آیا ہے، میں نے پوچھا کہ کیا بنوغسان نے حملہ کردیا ؟ اس نے کہا نہیں ! اس سے بھی زیادہ اہم واقعہ پیش آیا ہے، نبی ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے، میں نے یہ سنتے ہی کہا کہ حفصہ خسارے میں رہ گئی، مجھے پتہ تھا کہ یہ ہو کر رہے گا۔ خیر ! فجر کی نماز پڑھ کر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور سیدھاحفصہ کے پاس پہنچا، وہ رو رہی تھیں، میں نے ان سے پوچھا کہ نبی ﷺ نے تمہیں طلاق دے دی ہے ؟ انہوں نے کہا مجھے کچھ خبر نہیں، وہ اس بالاخانے میں اکیلے رہ رہے ہیں، میں وہاں پہنچا تو نبی ﷺ کا ایک سیاہ فام غلام ملا، میں نے کہا کہ میرے لئے اندر داخل ہونے کی اجازت لے کر آؤ، وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد آکر کہنے لگا کہ میں نے نبی ﷺ سے آپ کا ذکر کردیا تھا لیکن نبی ﷺ خاموش رہے۔ میں وہاں سے آکر منبر کے قریب پہنچا تو وہاں بھی بہت سے لوگوں کو بیٹھے روتا ہوا پایا، میں بھی تھوڑی دیر کے لئے وہاں بیٹھ گیا، لیکن پھر بےچینی مجھ پر غالب آگئی اور میں نے دوبارہ اس غلام سے جا کر کہا کہ میرے لئے اجازت لے کر آؤ، وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد ہی آکر کہنے لگا کہ میں نے نبی ﷺ سے آپ کا ذکر کیا لیکن نبی ﷺ خاموش رہے، تین مرتبہ اس طرح ہونے کے بعد جب میں واپس جانے لگا تو غلام نے مجھے آواز دی کہ آئیے، آپ کو اجازت مل گئی ہے۔ میں نے اندر داخل ہو کر نبی ﷺ کو سلام کیا، دیکھا کہ نبی ﷺ ایک چٹائی سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں جس کے نشانات آپ ﷺ کے پہلوئے مبارک پر نظر آرہے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ؟ نبی ﷺ نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا نہیں ! میں نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ذرا دیکھئے تو سہی، ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں پر غالب رہتے تھے، جب مدینہ منورہ پہنچے تو یہاں ایسے لوگوں سے پالا پڑا جن پر ان کی عورتیں غالب رہتی ہیں، ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ان کے طور طریقے سیکھنا شروع کر دئیے، چناچہ ایک دن میں اپنی سے کسی بات پر ناراض ہوا تو وہ الٹا مجھے جواب دینے لگی، مجھے تعجب ہوا تو وہ کہنے لگی کہ آپ کو میرے جواب پر تعجب ہو رہا ہے، بخدا ! نبی ﷺ کی ازواج بھی انہیں جواب دیتی ہیں اور سارا سارا دن تک ان سے بات نہیں کرتیں۔ میں نے کہا کہ جو ایسا کرتی ہے وہ نقصان اور خسارے میں ہے، کیا وہ اس بات سے مطمئن رہتی ہیں کہ اگر اپنے پیغمبر کی ناراضگی پر اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا تو وہ ہلاک نہیں ہوں گی ؟ یہ سن کر نبی ﷺ مسکرائے، میں نے مزید عرض کیا یا رسول اللہ ! اس کے بعد میں حفصہ کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ تو اس بات سے دھوکہ میں نہ رہ کہ تیری سہیلی نبی ﷺ کی زیادہ چہیتی اور لاڈلی ہے، یہ سن کر نبی ﷺ دوبارہ مسکرائے۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں بےتکلف ہوسکتا ہوں ؟ نبی ﷺ نے اجازت دے دی، چناچہ میں نے سر اٹھا کر نبی ﷺ کے کاشانہ اقدس کا جائزہ لینا شروع کردیا، اللہ کی قسم ! مجھے وہاں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس کی طرف باربار نظریں اٹھیں، سوائے تین کچی کھالوں کے، میں نے یہ دیکھ کر عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ سے دعاء کیجئے کہ آپ کی امت پر وسعت اور کشادگی فرمائے، فارس اور روم جو اللہ کی عبادت نہیں کرتے، ان پر تو بڑی فراخی کی گئی ہے، نبی ﷺ یہ سن کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا ابن خطاب ! کیا تم اب تک شک میں مبتلا ہو ؟ ان لوگوں کو دنیا میں یہ ساری چیزیں دے دی گئی ہیں، میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے لئے بخشش کی دعاء فرما دیجئے، نبی ﷺ نے اصل میں یہ قسم کھالی تھی کہ ایک مہینے تک اپنی ازواج مطہرات کے پاس نہیں جائیں گے کیونکہ نبی ﷺ کو ان پر سخت غصہ اور غم تھا، تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ پر اس سلسلے میں وحی نازل فرمادی۔

【141】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ پر جب نزول وحی ہوتا تو آپ کے روئے انور کے قریب سے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی سی آواز سنائی دیتی تھی، ایک مرتبہ ایسا ہوا تو ہم کچھ دیر کے لئے رک گئے، نبی ﷺ نے قبلہ رخ ہو کر اپنے ہاتھ پھیلائے اور یہ دعاء فرمائی کہ اے اللہ ! ہمیں زیادہ عطاء فرما، کمی نہ فرما، ہمیں معزز فرما، ذلیل نہ فرما، ہمیں عطاء فرما، محروم نہ فرما، ہمیں ترجیح دے، دوسروں کو ہم پر ترجیح نہ دے، ہم سے راضی ہوجا اور ہمیں راضی کر دے، اس کے بعد فرمایا کہ مجھ پر ابھی ابھی دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر ان کی پابندی کوئی شخص کرلے، وہ جنت میں داخل ہوگا، پھر نبی ﷺ نے سورت المومنون کی ابتدائی دس آیات کی تلاوت فرمائی۔

【142】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابوعبید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عید کے موقع پر حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے خطبہ سے پہلے بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا لوگو ! نبی ﷺ نے ان دو دنوں کے روزے سے منع فرمایا ہے، عیدالفطر کے دن تو اس لئے کہ اس دن تمہارے روزے ختم ہوتے ہیں اور عیدالاضحی کے دن اس لئے کہ تم اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھا سکو۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی نقل کی گئی ہے۔

【143】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے اگر میں نے نبی ﷺ کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔

【144】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد ایک عیسائی آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا، انہوں نے جہاد کا ارادہ کرلیا، اسی اثناء میں کسی نے کہا آپ پہلے حج کرلیں، پھر جہاد میں شرکت کریں۔ چناچہ وہ اشعری کے پاس آئے، انہوں نے صبی کو حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھ لینے کا حکم دیا، انہوں نے ایسا ہی کیا، وہ یہ تلبیہ پڑھتے ہوئے، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے پاس سے گذرے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی نے یہ بات سن لی اور ان پر بہت بوجھ بنی، جب وہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، حضرت عمر فاروق (رض) نے ان سے فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت پر رہنمائی نصیب ہوگئی۔

【145】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کا یہ معمول مبارک تھا کہ روزانہ رات کو حضرت صدیق اکبر (رض) کے پاس مسلمانوں کے معاملات میں مشورے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ میں بھی اس موقع پر موجود تھا۔

【146】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں، میں جانتاہوں کہ تو ایک پتھر ہے، کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، لیکن میں تجھے پھر بھی بوسہ دے رہا ہوں، اگر میں نے نبی ﷺ کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔

【147】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہوجائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا ہاں ! وضو کرلے اور سو جائے۔

【148】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب رات آجائے اور دن چلاجائے اور سورج غروب ہوجائے تو تمہیں روزہ افطار کرلینا چاہیے، (مشرق اور مغرب مراد ہے )

【149】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عامربن واثلہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ عسفان نامی جگہ میں نافع بن عبدالحارث کی حضرت عمر فاروق (رض) سے ملاقات ہوئی، حضرت فاروق اعظم (رض) نے انہیں مکہ مکرمہ کا گورنر بنا رکھا تھا، حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا کہ تم نے اپنے پیچھے اپنا نائب کسے بنایا ؟ انہوں نے کہا عبدالرحمن بن ابزی کو، حضرت عمر (رض) نے پوچھا ابن ابزی کون ہے ؟ عرض کیا ہمارے موالی میں سے ہے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ کہ تم ایک غلام کو اپنانائب بنا آئے ؟ عرض کیا کہ وہ قرآن کریم کا قاری ہے، علم فرائض و وراثت کو جانتا ہے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ تمہارے پیغمبر ﷺ اس کے متعلق فرما گئے ہیں کہ بیشک اللہ اس کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو عزتیں عطاء فرمائے گا اور بہت سے لوگوں نیچے کر دے گا۔

【150】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابوالبختری کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے ایک مرتبہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) سے فرمایا اپنا ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں، کیونکہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ اس امت کے امین ہیں، انہوں نے فرمایا میں اس شخص سے آگے نہیں بڑھ سکتا جسے نبی ﷺ نے ہماری امامت کا حکم دیا ہو اور وہ نبی ﷺ کے وصال تک ہماری امامت کرتے رہے ہوں۔

【151】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ ﷺ نے کچھ چیزیں تقسیم فرمائیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس کے زیادہ حقدار تو ان لوگوں کو چھوڑ کر دوسرے لوگ تھے، نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا انہوں نے مجھ سے غیر مناسب طریقے سے سوال کرنے یا مجھے بخیل قرار دینے میں مجھے اختیار دے دیا ہے، حالانکہ میں بخیل نہیں ہوں۔ فائدہ : مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے اہل صفہ کو کچھ نہیں دیا تو اپنے پاس کچھ بچا کر نہیں رکھا اور اگر دوسروں کو دیا ہے تو ان کی ضروریات کو سامنے رکھ کردیا۔

【152】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے پوچھا اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہوجائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا ہاں ! نماز والا وضو کرلے اور سو جائے۔ گذشتہ روایت ایک دوسری سند سے بھی مذکور ہے جو عبارت میں گذر چکی۔

【153】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے حضرت سعد بن مالک (رض) کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ آپ یہ بھی کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں ! پھر وہ دونوں حضرت عمر (رض) کے پاس اکٹھے ہوئے تو حضرت سعد (رض) نے کہا امیرالمومنین ! ذرا ہمارے بھتیجے کو موزوں پر مسح کا مسئلہ بتادیجئے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ہم ماضی میں نبی ﷺ کے ساتھ اور اب بھی موزوں پر مسح کرتے ہیں، حضرت ابن عمر (رض) نے پوچھا کہ اگرچہ کوئی شخص پاخانہ یا پیشاب ہی کر کے آیا ہو ؟ فرمایا ہاں ! اگرچہ وہ پاخانہ یا پیشاب ہی کر کے آیا ہو، نافع کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابن عمر (رض) بھی موزوں پر مسح کرنے لگے اور اس وقت تک مسح کرتے رہے جب تک موزے اتار نہ لیتے اور اس کے لئے کسی وقت کی تعیین نہیں فرماتے تھے۔

【154】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت مالک بن اوس بن الحدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت طلحہ (رض) سے سونے کے بدلے چاندی کا معاملہ طے کیا، حضرت طلحہ (رض) کہنے لگے کہ ذرا رکیے، ہمارا خازن غابہ سے آتا ہی ہوگا، یہ سن کر حضرت فاروق اعظم (رض) نے فرمایا نہیں ! تم اس وقت تک ان سے جدا نہ ہوناجب تک کہ ان سے اپنی چیز وصول نہ کرلو، کیونکہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سونے کی چاندی کے بدلے خریدوفروخت سود ہے الاّ یہ کہ معاملہ نقد ہے۔

【155】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عبیداللہ بن عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ جب حضرت صدیق اکبر (رض) کے زمانے میں اہل عرب میں سے جو مرتد ہوسکتے تھے، سو ہوگئے تو حضرت عمر فاروق (رض) نے سیدنا صدیق اکبر (رض) سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کرسکتے ہیں جبکہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لاالہ الا اللہ نہ کہہ لیں، جو شخص لاالہ الا اللہ کہہ لے، اس نے اپنی جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کرلیا، ہاں اگر اسلام کا کوئی حق ہو تو الگ بات ہے اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہوگا ؟ حضرت صدیق اکبر (رض) نے یہ سن کر فرمایا اللہ کی قسم ! میں اس شخص سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، بخدا ! اگر انہوں نے ایک بکری کا بچہ جو یہ رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے بھی روکا تو میں ان سے قتال کروں گا، حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق اکبر (رض) کو اس معاملے میں شرح صدر کی دولت عطاء فرمادی ہے اور میں سمجھ گیا کہ ان کی رائے ہی برحق ہے۔

【156】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی ﷺ کے ساتھ کسی غزوے میں تھا، ایک موقع پر میں نے قسم کھاتے ہوئے کہا " لا وابی " تو پیچھے سے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ اپنے آباؤاجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی ﷺ تھے۔

【157】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے مجھے اپنے باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے آباؤاجداد کے نام کی قسمیں کھانے سے منع فرمایا ہے چناچہ اس کے بعد میں نے جان بوجھ کر یا نقل کے طور پر بھی ایسی قسم نہیں کھائی۔

【158】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے مردوں کے لئے دو انگلیوں کے برابر ریشم کی اجازت دی ہے۔

【159】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابوعثمان کہتے ہیں کہ ہم حضرت عتبہ بن فرقد (رض) کے ساتھ تھے کہ حضرت عمر فاروق (رض) کا ایک خط آگیا، جس میں لکھا تھا، جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا میں ریشمی لباس پہنتا ہے سوائے اتنی مقدار کے اور نبی ﷺ نے انگلی بلند کر کے دکھائی، اس کا آخرت میں ریشم کے حوالے سے کوئی حصہ نہیں۔

【160】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق (رض) سے پوچھا کہ قرآن کریم میں قصر کا جو حکم خوف کی حالت میں آیا ہے، اب تو ہر طرف امن وامان ہوگیا ہے تو کیا یہ حکم ختم ہوگیا ؟ (اگر ایسا ہے تو پھر قرآن میں اب تک یہ آیت کیوں موجود ہے ؟ ) تو حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ مجھے بھی اسی طرح تعجب ہوا تھا جس طرح تمہیں ہوا ہے اور میں نے بھی نبی ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا تھا یہ اللہ کی طرف سے صدقہ ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے، لہٰذا اس کے صدقے اور مہربانی کو قبول کرو۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مذکور ہے۔

【161】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں سب سے آخری آیت سود سے متعلق نازل ہوئی ہے، اس لئے نبی ﷺ کو اپنے وصال مبارک سے قبل اس کی مکمل وضاحت کا موقع نہیں مل سکا، اس لئے سود کو بھی چھوڑ دو اور جس چیز میں ذرا بھی شک ہو اسے بھی چھوڑ دو ۔

【162】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میت کو اس کی قبر میں اس پر ہونے والے نوحے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔

【163】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میت کو اس کی قبر میں اس پر اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔

【164】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت سعید بن مسیب (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا فاروق اعظم (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آیت رجم کے حوالے سے اپنے آپ کو ہلاکت میں پڑنے سے بچانا، کہیں کوئی شخص یہ نہ کہنے لگے کہ کتاب اللہ میں تو ہمیں دوسزاؤں کا تذکرہ نہیں ملتا، میں نے نبی ﷺ کو بھی رجم کی سزاء جاری کرتے ہوئے دیکھا ہے اور خود ہم نے بھی یہ سزاجاری کی ہے۔

【165】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت فاروق اعظم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی ہے۔ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! کاش ! ہم مقام ابراہیم کو مصلی بنا لیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوگئی کہ مقام ابراہیم کو مصلی بنالو۔ (٢) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کے پاس نیک اور بد ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، اگر آپ امہات المومنین کو پردے کا حکم دے دیں تو بہتر ہے ؟ اس پر اللہ نے آیت حجاب نازل فرمادی۔ (٣) ایک مرتبہ نبی ﷺ کی بعض ازواج مطہرات سے ناراضگی کا مجھے پتہ چلا، میں ان میں سے ہر ایک کے پاس فردا فردا گیا اور ان سے کہا کہ تم لوگ باز آجاؤ ورنہ ہوسکتا ہے ان کا رب انہیں تم سے بہتر بیویاں عطاء کردے، حتیٰ کہ میں نبی ﷺ کی ایک زوجہ محترمہ کے پاس گیا تو وہ کہنے لگیں عمر ! کیا نبی ﷺ نصیحت کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں جو تم ان کی بیویوں کو نصیحت کرنے آگئے ہو ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان ہی الفاظ کے ساتھ قرآن کریم کی آیت نازل فرما دی۔

【166】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) فرماتے تھے کہ اپنی عورتوں کو بھی ریشمی کپڑے مت پہنایا کرو کیونکہ میں نے حضرت عمر (رض) کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے، وہ آخرت میں اسے نہیں پہن سکے گا، اس کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے اپنے اجتہاد سے فرمایا کہ جو آخرت میں بھی ریشم نہ پہن سکے وہ جنت میں ہی داخل نہ ہوگا، کیونکہ قرآن میں آتا ہے کہ اہل جنت کالباس ریشم کا ہوگا۔ فائدہ : یہ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کا اپنا اجتہاد تھا، جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ ریشمی کپڑے کی ممانعت مرد کے لئے ہے، عورت کے لئے نہیں۔

【167】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

امام شعبی (رح) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) حضرت طلحہ (رض) کے پاس سے گذرے تو انہیں پریشان حال دیکھا، وہ کہنے لگے کہ شاید آپ کو اپنے چچازاد بھائی کی یعنی میری خلافت اچھی نہیں لگی ؟ انہوں نے فرمایا اللہ کی پناہ ! مجھے تو کسی صورت ایسا نہیں کرنا چاہیے، اصل بات یہ ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی شخص نزع کی حالت میں وہ کلمہ کہہ لے تو اسکے لئے روح نکلنے میں سہولت پیدا ہوجائے اور قیامت کے دن وہ اس کے لئے باعث نور ہو، (مجھے افسوس ہے کہ میں نبی ﷺ سے اس کلمے کے بارے میں پوچھ نہیں سکا اور خود نبی ﷺ نے بھی نہیں بتایا، میں اس وجہ سے پریشان ہوں ) ۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میں وہ کلمہ جانتاہوں، (حضرت ابوطلحہ (رض) نے الحمدللہ کہہ کر پوچھا کہ وہ کیا کلمہ ہے ؟ ) فرمایا وہی کلمہ جو نبی ﷺ نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا یعنی لاالہ الا اللہ حضرت طلحہ (رض) فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا : آپ نے میرے اوپر سے پردہ ہٹا دیا، اگر نبی ﷺ اس سے افضل بھی کوئی کلمہ جانتے ہوتے تو اپنے چچا کو اس کا حکم دیتے۔

【168】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت یعلی بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق (رض) کے ساتھ طواف کیا، جب میں رکن یمانی پر پہنچا تو میں نے حضرت عمر (رض) کا ہاتھ پکڑ لیا تاکہ وہ استلام کرلیں، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کیا آپ نے نبی ﷺ کے ساتھ کبھی طواف نہیں کیا ؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں ! فرمایا تو کیا آپ نے نبی ﷺ کو اس کا استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ میں نے کہا نہیں ! فرمایا پھر اسے چھوڑ دو ، کیونکہ جناب رسول اللہ ﷺ کی ذات میں تمہارے لئے اسوہ حسنہ موجود ہے۔

【169】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد قبیلہ بنو تغلب کے آدمی تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسلام قبول کرلیا اور محنت کرنے میں کوئی کمی نہ کی۔ پھر میں نے میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے پاس سے مقام عذیب میں میرا گذر ہوا تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی کہتے ہیں کہ اس جملے سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرا اونٹ میری گردن پر ہے، میں جب حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں، آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت پر رہنمائی نصیب ہوگئی۔

【170】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے بارگاہ رسالت میں ذکر کیا یا رسول اللہ ! میں نے زمانہ جاہلیت میں یہ منت مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا، اب کیا کروں ؟ فرمایا اپنی منت پوری کرو۔ صبی بن معبد کہتے ہیں کہ میں نے نیانیا عیسائیت کو خیرباد کہا تھا، میں نے ارادہ کیا کہ جہاد یا حج پر روانہ ہوجاؤں، چناچہ میں نے اپنے ایک ہم قوم سے جس کا نام ہدیم تھا مشورہ کیا تو اس نے مجھے حج کرنے کو کہا، میں نے حج اور عمرہ دونوں کی نیت کرلی، اس کے بعد انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔

【171】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ سفر کی نماز میں دو رکعتیں ہیں، عیدین میں سے ہر ایک کی دو دو رکعتیں اور جمعہ کی بھی دو رکعتیں ہیں اور یہ ساری نمازیں مکمل ہیں، ان میں سے قصر کوئی بھی نہٰیں ہے جیسا کہ لسان نبوت سے ادا ہوچکا۔

【172】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

اسلم (رح) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے فی سبیل اللہ کسی شخص کو سواری کے لئے گھوڑا دے دیا، بعد میں دیکھا کہ وہی گھوڑا بازار میں بک رہا ہے، انہوں نے سوچا کہ اسے خرید لیتا ہوں، چناچہ انہوں نے نبی ﷺ سے مشورہ کیا، نبی ﷺ نے انہیں اس سے منع کردیا اور فرمایا کہ اسے مت خریدو اور اپنے صدقے سے رجوع مت کرو،

【173】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

قیس کہتے ہیں کہ میں نے عمر فاروق (رض) کو ایک مرتبہ اس حال میں دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی اور وہ لوگوں کو بٹھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ خلیفہ رسول اللہ ﷺ کی بات توجہ سے سنو، اتنی دیر میں حضرت صدیق اکبر (رض) کا آزاد کردہ غلام جس کا نام شدید تھا ایک کاغذ لے کر آگیا اور اس نے لوگوں کو وہ پڑھ کر سنایا کہ حضرت صدیق اکبر (رض) فرماتے ہیں اس کاغذ میں جس شخص کا نام درج ہے (وہ میرے بعد خلیفہ ہوگا اس لئے) تم اس کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا، بخدا ! میں نے اس سلسلے میں مکمل احتیاط اور کوشش کرلی ہے، قیس کہتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر (رض) کے انتقال کے بعد میں نے حضرت عمر فاروق (رض) کو منبر پر جلوہ افروز دیکھا (جس کا مطلب یہ تھا کہ حضرت صدیق اکبر (رض) نے اس کاغذ میں ان ہی کا نام لکھوایا تھا )

【174】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عمران اسلمی (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے مٹکے کی نبیذ اور کدو کی سے ہی تو منع فرمایا ہے۔ پھر میں نے یہی سوال حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کیا تو انہوں نے حضرت عمر (رض) کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ ﷺ نے کدو کی نبیذ اور سبز مٹکے سے منع فرمایا ہے، پھر میں نے یہی سوال حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے کیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ نبی ﷺ مٹکے اور کدو کی نبیذ سے منع فرمایا ہے۔

【175】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

فتح بیت المقدس کے واقعے میں مختلف رواۃ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے کعب احبار سے پوچھا کہ آپ کی رائے میں مجھے کہاں نماز پڑھنی چاہیے ؟ انہوں نے کہا کہ اگر آپ میری رائے پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو صخرہ کے پیچھے نماز پڑھیں، اس طرح پورا بیت المقدس آپ کے سامنے ہوگا، فرمایا تم نے بھی یہودیوں جیسی بات کہی، ایسا نہیں ہوسکتا، میں اس مقام پر نماز پڑھوں گا جہاں نبی ﷺ نے شب معراج نماز پڑھی تھی، چناچہ انہوں نے قبلہ کی طرف بڑھ کر نماز پڑھی، پھر نماز کے بعد اپنی چادر بچھائی اور اپنی چادر میں وہاں کا سارا کوڑا کر کٹ اکٹھا کیا، لوگوں نے بھی ان کی پیروی کی۔

【176】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے کلالہ کے متعلق سوال کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا تمہارے لئے موسم گرما میں نازل ہونے والی آیت کلالہ کافی ہے، مجھے اس مسئلے کے متعلق نبی ﷺ سے دریافت کرنا سرخ اونٹوں کے ملنے سے زیادہ پسندیدہ تھا۔

【177】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے پوچھا اگر میں ناپاک ہوجاؤں تو کیا کروں ؟ نبی ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ شرمگاہ کو دھوکر نماز والا وضو کر کے سوجاؤ۔

【178】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

قزعہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ میت کو اہل محلہ کے رونے دھونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کریں گے ؟ فرمایا کہ یہ بات مجھ سے حضرت عمر (رض) نے نبی ﷺ کے حوالے سے بیان کی ہے، میں نے حضرت عمر (رض) کی طرف اس کی جھوٹی نسبت کی ہے اور نہ حضرت عمر (رض) نے نبی ﷺ کی طرف۔

【179】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے ایک مرتبہ نبی ﷺ اور حضرت صدیق اکبر (رض) کا گذر حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس سے ہوا، میں بھی نبی ﷺ کے ہمراہ تھا، ابن مسعود (رض) اس وقت قرآن پڑھ رہے تھے، نبی ﷺ ان کی قرأت سننے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ پھر عبداللہ بن مسعود (رض) نے رکوع سجدہ کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا مانگو تمہیں دیا جائے گا، پھر واپس جاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قرأت پر اسے پڑھے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ رات ہی کو میں انہیں یہ خوشخبری ضرور سناؤں گا، چناچہ جب میں نے ان کا دروازہ بجایا تو انہوں نے فرمایا کہ رات کے اس وقت میں خیر تو ہے ؟ میں نے کہا کہ میں آپ کو نبی ﷺ کی طرف سے خوشخبری سنانے کے لئے آیا ہوں، انہوں نے فرمایا کہ ابوبکر (رض) آپ پر سبقت لے گئے ہیں، میں نے کہا اگر انہوں نے ایسا کیا ہے تو وہ نیکیوں میں بہت زیادہ آگے بڑھنے والے ہیں، میں نے جس معاملے میں بھی ان سے مسابقت کی کوشش کی، وہ ہر اس معاملے میں مجھ سے سبقت لے گئے۔

【180】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

اسیر بن جابر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل یمن کا وفد آیا، حضرت عمر (رض) اپنی اونٹنی کی رسی تلاش کرتے جاتے تھے اور پوچھتے جاتے تھے کہ کیا تم میں سے کوئی قرن سے بھی آیا ہے، یہاں تک کہ وہ پوچھتے پوچھتے قرن کے لوگوں کے پاس آپہنچے اور ان سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو ؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارا تعلق قرن سے ہے، اتنے میں حضرت عمر فاروق (رض) کی یا حضرت اویس قرنی (رح) کے ہاتھ سے جانوروں کی لگام چھوٹ کر گر پڑی، ان میں سے ایک نے دوسرے کو اٹھا کر وہ لگام دی تو ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ حضرت عمر فاروق (رض) نے ان سے پوچھا کہ آپ کا اسم گرامی کیا ہے ؟ عرض کیا اویس ! فرمایا کیا آپ کی کوئی والدہ بھی تھیں ؟ عرض کیا جی ہاں ! فرمایا کیا آپ کے جسم پر چیچک کا بھی کوئی نشان ہے ؟ عرض کیا جی ہاں ! لیکن میں نے اللہ سے دعاء کی تو اللہ نے اسے ختم کردیا، اب وہ نشان میری ناف کے پاس صرف ایک درہم کے برابر رہ گیا ہے تاکہ اسے دیکھ کر مجھے اپنے رب کی یاد آتی رہے۔ حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ آپ اللہ سے میرے لئے بخشش کی دعاء کیجئے، انہوں نے عرض کیا کہ آپ صحابی رسول ہیں، آپ میرے حق میں بخشش کی دعاء کیجئے، اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خیرالتابعین اویس نامی ایک آدمی ہوگا، جس کی والدہ بھی ہوگی اور اس کے جسم پر چیچک کے نشانات ہوں گے، پھر جب وہ اللہ سے دعاء کرے گا تو ناف کے پاس ایک درہم کے برابر جگہ کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اس بیماری کو اس سے دور فرما دیں گے، حضرت اویس قرنی (رح) نے سیدنا فاروق اعظم (رض) کے لئے بخشش کی دعاء کی اور لوگوں کے ہجوم میں گھس کر غائب ہوگئے، کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ وہ کہاں چلے گئے۔ بعد میں وہ کوفہ آگئے تھے، راوی کہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ایک حلقہ بنا کر ذکر کیا کرتے تھے، یہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے، جب یہ ذکر کرتے تھے تو ان کی بات ہمارے دلوں پر اتنا اثر کرتی تھی کہ کسی دوسرے کی بات اتنااثر نہیں کرتی تھی۔ گذشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی روایت کی گئی ہے جو عبارت میں موجود ہے۔

【181】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ جب فاروق اعظم (رض) کا آخری وقت قریب آیا تو حضرت حفصہ (رض) رونے اور چیخنے لگیں، حضرت عمر (رض) نے فرمایا حفصہ ! کیا تم نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ جس پر چیخ کر رویا جاتا ہے، اسے عذاب ہوتا ہے ؟ اس کے بعد حضرت صہیب (رض) پر بھی ایسی ہی کیفیت طاری ہوئی تو ان سے بھی یہی فرمایا۔

【182】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص دنیا میں ریشم پہنے گا، آخرت میں اسے نہیں پہنایا جائے گا۔

【183】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں حضرت عمر (رض) بھی شامل ہیں جو میری نطروں میں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں کہ نبی ﷺ فرماتے تھے دو نمازوں کے بعد کوئی نماز نہیں ہے، فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔ یہی روایت حضرت ابن عباس (رض) سے ایک دوسری سند سے بھی نقل کی گئی ہے۔

【184】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک یہودی حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا امیرالمومنین ! آپ لوگ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں جو اگر ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے جس دن وہ نازل ہوئی، (حضرت عمر فاروق (رض) نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے ؟ اس نے آیت تکمیل دین کا حوالہ دیا، ) اس پر حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ بخدا ! مجھے علم ہے کہ یہ آیت کس دن اور کس وقت نازل ہوئی تھی، یہ آیت نبی ﷺ پر جمعہ کے دن عرفہ کی شام نازل ہوئی تھی۔

【185】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابوموسی اشعری (رض) سے مروی ہے کہ میں جب یمن سے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ ﷺ بطحاء میں تھے، نبی ﷺ نے مجھے احرام کی حالت میں دیکھ کر پوچھا کہ کس نیت سے احرام باندھا ؟ میں نے عرض کیا یہ نیت کر کے کہ جس نیت سے نبی ﷺ نے احرام باندھا ہو، میرا بھی وہی احرام ہے، پھر پوچھا کہ قربانی کا جانور ساتھ لائے ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں ! فرمایا کہ پھر خانہ کعبہ کا طواف کرکے صفا مروہ کے درمیان سعی کرو اور حلال ہوجاؤ۔ چناچہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا، صفا مروہ کے درمیان سعی کی، پھر اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے سر کے بالوں میں کنگھی کی اور میرا سرپانی سے دھویا، بعد میں لوگوں کو بھی حضرات شیخین (رض) کے دور خلافت میں یہی مسئلہ بتاتا رہا، ایک دن ایام حج میں، میں کسی جگہ کھڑا ہوا تھا کہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ نہیں جانتے، امیرالمومنین نے حج کے معاملات میں کیا نئے احکام جاری کئے ہیں ؟ اس پر میں نے کہا لوگو ! ہم نے جسے بھی کوئی فتویٰ دیا ہو، وہ سن لے، یہ امیرالمومنین موجود ہیں، ان ہی کی اقتداء کرو، جب حضرت عمر (رض) تشریف لائے تو میں نے ان سے پوچھا کہ مناسک حج میں آپ نے یہ کیا نیا حکم جاری کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر ہم قرآن کریم کو لیتے ہیں تو وہ ہمیں اتمام حج وعمرہ کا حکم دیتا ہے اور اگر ہم نبی ﷺ کی سنت کو لیتے ہیں تو نبی ﷺ قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے حلال نہیں ہوئے۔ فائدہ : دراصل حضرت عمر (رض) نے ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں کو جمع کرنے کی ممانعت کی تھی، یہاں اسی کا ذکر ہے۔

【186】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

سوید بن غفلہ (رح) کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے جو کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن میں نے ابوالقاسم ﷺ کو تجھ پر مہربان دیکھا ہے۔

【187】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) نے فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے مزدلفہ سے واپس نہیں جاتے تھے، نبی ﷺ نے ان کا طریقہ اختیار نہیں کیا اور مزدلفہ سے منیٰ کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوگئے۔

【188】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے ایک مرتبہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو مبعوث فرمایا : ان پر کتاب نازل فرمائی، اس میں رجم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے پڑھا اور یاد کیا تھا، مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ ہمیں تو رجم سے متعلق کوئی آیت نہیں ملتی اور یوں ایک فریضہ جو اللہ نے نازل کیا ہے چھوٹ جائے، یاد رکھو ! کتاب اللہ سے رجم کا ثبوت برحق ہے اس شخص کے لئے جو شادی شدہ ہو خواہ مرد ہو یا عورت جبکہ گواہ موجود ہوں، یا عورت حاملہ ہوگئی ہو یا وہ اعتراف جرم کرلے۔

【189】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ہشام بن حکیم کو نماز میں سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے اس میں ایسے حروف کی تلاوت کی جو نبی ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کھینچتا ہوا نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ نے مجھے سورت فرقان خود پڑھائی ہے، میں نے اسے سورت فرقان کو ایسے حروف میں پڑھتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے ؟ نبی ﷺ نے ہشام سے اس کی تلاوت کرنے کے لئے فرمایا : انہوں نے اسی طرح پڑھا جیسے میں نے انہیں سنا تھا، نبی ﷺ نے فرمایا یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر مجھ سے کہا کہ عمر ! تم بھی پڑھ کر سناؤ، چناچہ میں نے بھی پڑھ کر سنادیا، نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ اس طرح بھی نازل ہوئی ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا بیشک اس قرآن کا نزول سات قرأتوں پر ہوا ہے، لہٰذا تمہارے لئے جو آسان ہو اس کے مطابق تلاوت کرلیا کرو۔ یہی روایت حضرت عمر (رض) سے اس دوسری سند سے بھی نقل کی گئی ہے

【190】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ عبداللہ بن سعدی (رح) خلافت فاروقی کے زمانے میں حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت عمر (رض) نے انہیں دیکھ کر فرمایا کیا تم وہی ہو جس کے متعلق مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ تمہیں عوام الناس کی کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن جب تہیں اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینے سے ناگواری کا اظہار کرتے ہو ؟ عبداللہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا جی ہاں ! ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا کہ اس سے تمہارا کیا مقصد ہے ؟ میں نے عرض کیا میرے پاس اللہ کے فضل سے گھوڑے اور غلام سب ہی کچھ ہے اور میں مالی اعتبار سے بھی صحیح ہوں، اس لئے میری خواہش ہوتی ہے کہ میری تنخواہ مسلمانوں کے ہی کاموں میں استعمال ہوجائے۔ حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا ایسا مت کرو، کیونکہ ایک مرتبہ میں نے بھی یہی چاہا تھا، نبی ﷺ مجھے کچھ دینا چاہتے تو میں عرض کردیتا کہ یا رسول اللہ ! مجھ سے زیادہ جو محتاج لوگ ہیں، یہ انہیں دے دیجئے، اسی طرح ایک مرتبہ نبی ﷺ مجھے کچھ دینا چاہتے تو میں عرض کردیتا کہ یا رسول اللہ ! مجھ سے زیادہ محتاج لوگ ہیں، یہ انہیں دے دیجئے، اسی طرح ایک مرتبہ نبی ﷺ نے مجھے کچھ مال و دولت عطاء فرمایا : میں نے حسب سابق یہی عرض کیا کہ مجھ سے زیادہ کسی ضرورت مند کو دے دیجئے، نبی ﷺ نے فرمایا اسے لے لو اپنے مال میں اضافہ کرو، اس کے بعد صدقہ کردو اور یاد رکھو ! اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے لے لیا کرو، ورنہ اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔ یہی حدیث ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے جو عبارت میں گذری ہے۔

【191】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے فی سبیل اللہ کسی شخص کو سواری کے لئے گھوڑا دے دیا، اس نے اسے ضائع کردیا، میں نے سوچا کہ اسے خرید لیتا ہوں، کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ اسے سستا فروخت کردے گا، لیکن میں نے نبی ﷺ سے مشورہ کیا، تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ اسے مت خریدو اگرچہ وہ تمہیں پیسوں کے بدلے دے کیونکہ صدقہ دے کر رجوع کرنے والے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کتا قئی کر کے اسے دوبارہ چاٹ لے۔

【192】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابوعبید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عید کے موقع پر حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے آکر پہلے نماز پڑھائی، پھر لوگوں کی طرف منہ پھیر کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ان دنوں کے روزے سے منع فرمایا ہے، عیدالفطر کے دن تو اس لئے کہ اس دن تمہارے روزے ختم ہوتے ہیں اور عیدالاضحی کے دن اس لئے کہ تم اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھا سکو۔

【193】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت سالم (رح) کہتے ہیں کہ سیدنا فاروق اعظم (رض) بڑے غیور طبع آدمی تھے، جب وہ نماز کے لئے نکلتے تو ان کے پیچھے پیچھے عاتکہ بنت زید بھی چلی جاتیں، انہیں ان کا نکلنا بھی پسند نہ تھا اور روکنا بھی پسند نہ تھا اور وہ نبی ﷺ کے حوالے سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ جب تمہاری عورتیں تم سے نماز کے لئے مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو انہیں مت روکو۔

【194】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے تھے کہ اگر بعد میں آنے والے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو جو بستی اور شہر بھی مفتوح ہوتا، میں اسے فاتحین کے درمیان تقسیم کردیتا جیسا کہ نبی ﷺ نے خیبر کو تقسیم فرما دیا تھا۔

【195】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابوالعجفاء سلمی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق (رض) کو تکرار کے ساتھ یہ بات فرماتے ہوئے سنا کہ لوگو ! اپنی بیویوں کے مہر زیادہ مت باندھا کرو، کیونکہ اگر یہ چیز دنیا میں باعث عزت ہوتی یا اللہ کے نزدیک تقویٰ میں شمار ہوتی تو اس کے سب سے زیادہ حق دار نبی ﷺ تھے، جبکہ نبی ﷺ کی کسی بیوی یا بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں تھا اور انسان اپنی بیوی کے حق مہر سے ہی آزمائش میں مبتلا ہوتا ہے، جو بعد میں اس کے لئے خود اپنی ذات سے دشمنی ثابت ہوتی ہے اور انسان یہاں تک کہہ جاتا ہے کہ میں تو تمہارے پاس مشکیزہ کا منہ باندھنے والی رسی تک لانے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ ابوالعجفاء جو کہ راوی ہیں کہتے ہیں کہ میں چونکہ عرب کے ان غلاموں میں سے تھا جنہیں مولدین کہا جاتا ہے اس لئے مجھے اس وقت تک علق القربۃ (جس کا ترجمہ مشکیزہ کا منہ باندھنے والی رسی کیا گیا ہے) کا معنہ معلوم نہیں تھا۔ پھر حضرت فاروق اعظم (رض) نے فرمایا کہ دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص دوران جہاد مقتول ہوجائے یا طبعی طور پر فوت ہوجائے تو آپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی شہید ہوگیا، فلاں آدمی شہید ہو کر دنیا سے رخصت ہوا، حالانکہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنی سواری کے پچھلے حصے میں یا کجاوے کے نیچے سونا چاندی چھپا رکھا جس سے وہ تجارت کا ارادہ رکھتا ہو، اس لئے تم کسی کے متعلق یقین کے ساتھ یہ مت کہو کہ وہ شہید ہے، البتہ یہ کہہ سکتے ہو کہ جو شخص اللہ کے راستہ میں مقتول یا فوت ہوجائے (وہ شہید ہے) اور جنت میں داخل ہوگا جیسا کہ نبی ﷺ فرماتے تھے۔

【196】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابو فراس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا لوگو ! جب تک نبی ﷺ ہم میں موجود رہے، وحی نازل ہوتی رہی اور اللہ ہمیں تمہارے حالات سے مطلع کرتا رہا اس وقت تک تو ہم تمہیں پہچانتے تھے، اب چونکہ نبی ﷺ تشریف لے گئے ہیں اور وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے اب ہم تمہیں ان چیزوں سے پہچانیں گے جو ہم تمہیں کہیں گے۔ تم میں سے جو شخص خیر ظاہر کرے گا ہم اس کے متعلق اچھا گمان رکھیں گے اور اس سے محبت کریں گے اور جو شر ظاہر کرے گا ہم اس کے متعلق اچھا گمان نہیں رکھیں گے اور اس بناء پر اس سے نفرت کریں گے، تمہارے پوشیدہ راز تمہارے رب اور تمہارے درمیان ہوں گے۔ یاد رکھو ! مجھ پر ایک وقت ایسا بھی آیا ہے کہ جس میں، میں سمجھتا ہوں جو شخص قرآن کریم کو اللہ اور اس کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہے وہ میرے سامنے آخرت کا تخیل پیش کرتا ہے، یاد رکھو ! بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو قرآن کریم کی تلاوت سے لوگوں کے مال و دولت کا حصول چاہتے ہیں، تم اپنی قرأت سے اللہ کو حاصل کرو اپنے اعمال کے ذریعے اللہ کو حاصل کرو اور یاد رکھو ! میں نے تمہارے پاس اپنے مقرر کردہ گورنروں کو اس لئے نہیں بھیجا کہ وہ تمہاری چمڑی ادھیڑ دیں اور تمہارے مال و دولت پر قبضہ کرلیں، میں نے تو انہیں تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ وہ تمہیں تمہارا دین اور نبی ﷺ کی سنتیں سکھائیں۔ جس شخص کے ساتھ اس کے علاوہ کوئی اور معاملہ ہوا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اسے میرے سامنے پیش کرے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میں اسے بدلہ ضرور لے کردوں گا، یہ سن کر حضرت عمرو بن العاص (رض) کود کر سامنے آئے اور کہنے لگے امیرالمومنین ! اگر کسی آدمی کو رعایا پر ذمہ دار بنایا جائے اور وہ رعایا کو ادب سکھانے کے لئے کوئی سزا دے دے تو کیا آپ اس سے بھی قصاص لیں گے ؟ فرمایا ہاں ! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے میں اس سے بھی قصاص لوں گا، میں نے خود نبی ﷺ کو اپنی طرف سے قصاص دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ یاد رکھو ! مسلمانوں کو مار پیٹ کر ذلیل مت کرو، انہیں انگاروں پر مت رکھو کہ انہیں آزمائش میں مبتلا کردو، ان سے ان کے حقوق مت روکو کہ انہیں کفر اختیار کرنے پر مجبور کردو اور انہیں غصہ مت دلاؤ کہ انہیں ضائع کردو۔ مہر زیادہ مقرر نہ کرنے والی روایت جو عنقریب گذری ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

【197】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن ہم حضرت عثمان غنی (رض) کی صاحبزادی ام ابان کے جنازے کے انتظار میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، وہاں عمرو بن عثمان بھی تھے، اتنی دیر میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کو ان کا رہنما لے آیا، شاید اسی نے انہیں حضرت ابن عمر (رض) کی نشست کا بتایا، چناچہ وہ میرے پہلو میں آکر بیٹھ گئے اور میں ان دونوں کے درمیان ہوگیا، اچانک گھر سے رونے کی آوازیں آنے لگیں، حضرت ابن عمر (رض) فرمانے لگے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے دھونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے اور اہل خانہ کو یہ حدیث کہلوا بھیجی۔ حضرت ابن عباس (رض) فرمانے لگے کہ ایک مرتبہ ہم امیرالمومنین حضرت عمر فاروق (رض) کے ساتھ مقام بیداء میں پہنچے تو ان کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو کسی درخت کے سائے میں کھڑا تھا، انہوں نے مجھ سے فرمایا جا کر خبر لاؤ کہ یہ آدمی کون ہے ؟ میں گیا تو وہ حضرت صہیب (رض) تھے، میں نے واپس آکر عرض کیا کہ آپ نے مجھے فلاں آدمی کے بارے معلوم کرنے کا حکم دیا تھا، وہ صہیب (رض) ہیں، فرمایا انہیں ہمارے پاس آنے کے لئے کہو، میں نے عرض کیا ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ بھی ہیں، فرمایا اگرچہ اہل خانہ ہوں تب بھی انہیں بلا کر لاؤ۔ خیر ! مدینہ منورہ پہنچنے کے چند دن بعد ہی امیرالمومنین پر قاتلانہ حملہ ہوا، حضرت صہیب (رض) کو پتہ چلا تو وہ آئے اور حضرت عمر (رض) کو دیکھتے ہی کہنے لگے ہائے ! میرے بھائی، ہائے میرے دوست، اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میت کو اس کے رشتہ داروں کے رونے دھونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔ عبداللہ بن ابی ملیکہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان سے حضرت عمر (رض) کا یہ قول بھی ذکر کیا، انہوں نے فرمایا بخدا ! نبی ﷺ نے یہ بات نہیں فرمائی تھی کہ میت کو کسی کے رونے دھونے سے عذاب ہوتا ہے، نبی ﷺ نے تو یہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کافر کے اہل خانہ کے رونے دھونے کی وجہ سے اس کے عذاب میں اضافہ کردیتا ہے، اصل ہنسانے اور رلانے والا تو اللہ ہے اور یہ بھی اصول ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ابن ابی ملیکہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ (رض) کے بھانجے حضرت قاسم (رح) نے بتایا کہ جب حضرت عائشہ (رض) کو حضرت عمر (رض) اور ان کے صاحبزادے کا یہ قول معلوم ہوا تو فرمایا کہ تم لوگ جن سے حدیث روایت کر رہے ہو، نہ تو وہ جھوٹے تھے اور نہ ان کی تکذیب کی جاسکتی ہے، البتہ بعض اوقات انسان سے سننے میں غلطی ہوجاتی ہے۔ ایک دوسری سند سے بھی یہ روایت مروی ہے البتہ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے عمرو بن عثمان سے جو ان کے سامنے ہی تھے فرمایا کہ آپ ان رونے والیوں کو رونے سے روکتے کیوں نہیں ؟ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میت پر اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔ عبداللہ بن ابی ملیکہ (رض) کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں حضرت عثمان غنی (رض) کی ایک بیٹی فوت ہوگئی، اس کے جنازے میں حضرت ابن عمر (رض) اور ابن عباس (رض) دونوں شریک ہوئے، جبکہ میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا، حضرت ابن عمر (رض) نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے عمرو بن عثمان سے کہا کہ تم ان لوگوں کو رونے سے کیوں نہیں روکتے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میت پر اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔

【198】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی ﷺ کے ساتھ کسی غزوے میں تھا، ایک موقع پر میں نے قسم کھاتے ہوئے کہا " لا وابی " تو پیچھے سے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی ﷺ تھے۔

【199】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

مالک بن اوس کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) تین باتوں پر قسم کھایا کرتے تھے، وہ فرماتے تھے کہ اللہ کی قسم ! اس مال کا ایک کی نسبت دوسرا کوئی شخص زیادہ حقدار نہیں (بلکہ سب برابر مستحق ہیں) اور میں بھی کسی دوسرے کی نسبت زیادہ مستحق نہیں ہوں، اللہ کی قسم ! ہر مسلمان کا اس مال میں حق ہے سوائے اس غلام کے جو اپنے آقا کا اب تک مملوک ہے، البتہ ہم کتاب اللہ کے مطابق درجہ بندی کریں گے اور نبی ﷺ سے اس کا طریقہ کار حاصل کریں گے۔ چناچہ ایک آدمی وہ ہے جس نے اسلام کی خاطر بڑی آزمائشیں برداشت کیں، ایک آدمی وہ ہے جو قدیم الاسلام ہو، ایک آدمی وہ ہے جو اسلام میں غنی رہا اور ایک آدمی وہ ہے جو ضرورت مند رہا، اللہ کی قسم ! اگر میں زندہ رہا تو ایسا ہو کر رہے گا کہ جبل صنعاء سے ایک چرواہا آئے گا اور اس مال سے اپناحصہ وصول کرے گا اور اپنی جگہ جانور بھی چراتا رہے گا۔

【200】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) نے عمیر بن سعید کو حمص کا گورنر مقرر فرما رکھا تھا، ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) نے ان سے فرمایا میں تم سے ایک سوال پوچھتا ہوں، مجھ سے کچھ نہ چھپانا، انہوں نے عرض کیا کہ مجھے جس چیز کا علم ہوگا، اسے نہیں چھپاؤں گا، فرمایا امت مسلمہ کے حوالے سے تمہیں سب سے زیادہ خطرناک بات کیا معلوم ہوتی ہے ؟ عرض کیا گمراہ کن ائمہ، حضرت عمر (رض) نے فرمایا آپ نے سچ کہا، مجھے یہ بات نبی ﷺ نے بتائی تھی۔

【201】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے قاتلانہ حملہ میں زخمی ہونے کے بعد فرمایا میرے پاس طبیب کو بلا کر لاؤ جو میرے زخموں کی دیکھ بھال کرے، چناچہ عرب کا ایک نامی گرامی طبیب بلایا گیا، اس نے حضرت عمر (رض) کو نبیذ پلائی، لیکن وہ ناف کے نیچے لگے ہوئے زخم سے نکل آئی اور اس کا رنگ خون کی طرح سرخ ہوچکا تھا۔ حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اس کے بعد انصار کے بنو معاویہ میں سے ایک طبیب کو بلایا، اس نے آکر انہیں دودھ پلایا، وہ بھی ان کے زخم سے چکناسفید نکل آیا، طبیب نے یہ دیکھ کر کہا کہ امیرالمومنین ! اب وصیت کر دیجئے، (یعنی اب بچنا مشکل ہے) حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہا، اگر تم کوئی دوسری بات کہتے تو میں تمہاری بات نہ مانتا۔ یہ سن کر لوگ رونے لگے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا مجھ پر مت روؤ، جو رونا چاہتا ہے وہ باہر چلاجائے کیا تم لوگوں نے نبی ﷺ کا یہ فرمان نہیں سنا کہ میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہے، اسی وجہ سے حضرت ابن عمر (رض) اپنے بیٹوں یا کسی اور کے انتقال پر رونے والوں کو اپنے پاس نہیں بٹھاتے تھے۔

【202】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے حضرت فاروق اعطم (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے اور کہتے تھے کہ کوہ ثبیر روشن ہو تاکہ ہم حملہ کریں، جبکہ نبی ﷺ مزدلفہ سے منیٰ کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوگئے۔

【203】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دور نبوت میں ہشام بن حکیم کے پاس سے گزرتے ہوئے انہیں سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے اس میں ایسے حروف کی تلاوت کی جو نبی ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ میرا دل چاہا کہ میں ان سے نماز ہی میں پوچھ لوں، بہرحال فراغت کے بعد میں نے انہیں چادر سے گھسیٹ کر پوچھا کہ تمہیں سورت فرقان اس طرح کس نے پڑھائی ہے ؟ انہوں نے کہا نبی ﷺ نے، میں نے کہا آپ جھوٹ بولتے ہیں، بخدا ! نبی ﷺ نے مجھے بھی یہ سورت پڑھائی ہے۔ یہ کہہ کر میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کھینچتا ہوا نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ نے مجھے سورت فرقان خود پڑھائی ہے، میں نے اسے سورت فرقان کو ایسے حروف میں پڑھتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا عمر ! اسے چھوڑ دو ، پھر ہشام سے اس کی تلاوت کرنے کے لئے فرمایا : انہوں نے اسی طرح پڑھا جیسے وہ پہلے پڑھ رہے تھے، نبی ﷺ نے فرمایا یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر مجھ سے کہا کہ عمر ! تم بھی پڑھ کر سناؤ، چناچہ میں نے بھی پڑھ کر سنادیا، نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ اس طرح بھی نازل ہوئی ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا بیشک اس قرآن کا نزول سات قرائتوں پر ہوا ہے، لہٰذا تمہارے لئے جو آسان ہو اس کے مطابق تلاوت کرلیا کرو۔ حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دور نبوت میں ہشام بن حکیم کے پاس سے گذرتے ہوئے انہیں سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے اس میں ایسے حروف کی تلاوت کی جو نبی ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ میرا دل چاہا کہ میں ان سے نماز ہی میں پوچھ لوں، پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔

【204】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔

【205】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) سے کہا گیا کہ آپ اپنا خلیفہ کسی کو مقرر کر دیجئے ؟ فرمایا اگر میں خلیفہ مقرر نہ کروں تو مجھ سے بہتر ذات نے بھی مقرر نہیں کیا تھا یعنی نبی ﷺ نے اور اگر مقرر کردوں تو مجھ سے بہتر ذات نے بھی مقرر کیا تھا یعنی حضرت صدیق اکبر (رض) نے۔

【206】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اعمال کا دارومدار تو نیت پر ہے اور ہر انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو، سو جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو، تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہوگی اور جس کی ہجرت حصول دنیا کے لئے ہو یا کسی عورت سے نکاح کی خاطر ہو تو اس کی ہجرت اس چیز کی طرف ہوگی جس کی طرف اس نے کی۔

【207】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) فرمایا کرتے تھے کہ تہبند بھی باندھا کرو اور جسم کے اوپر والے حصے پر چادر بھی ڈالا کرو، جوتے پہنا کرو، موزے اور شلوار چھوڑ دو ، سواری کو گھٹنوں کے بل بٹھا کر اس پر سوار ہونے کی بجائے کود کر سوار ہوا کرو تاکہ تمہاری بہادری اور ہمت میں اضافہ ہو، قبیلہ معد کی سواریوں کو اپنے اوپر لازم کرلو، ہدف پر نشانہ لگانا سیکھو، ناز و نعمت، عیش پرستی اور عجم کے طور طریقے چھوڑ دو اور ریشم سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ نبی ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ ریشم مت پہنو، سوائے اتنی مقدار کے اور نبی ﷺ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا۔

【208】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

سیدنا فاروق اعظم (رض) نے فرمایا کہ آیت رجم کے حوالے سے اپنے آپ کو ہلاکت میں پڑنے سے بچانا، کہیں کوئی شخص یہ نہ کہنے لگے کہ کتاب اللہ میں تو ہمیں دو سزاؤں کا تذکرہ نہیں ملتا، میں نے نبی ﷺ کو بھی رجم کی سزا جاری کرتے ہوئے دیکھا ہے اور خود ہم نے بھی یہ سزاجاری کی ہے۔

【209】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی رات ایسی نہیں گذرتی جس میں سمندر تین مرتبہ زمین پر جھانک کر نہ دیکھتا ہو، وہ ہر مرتبہ اللہ سے یہی اجازت مانگتا ہے کہ زمین والوں کو ڈبو دے، لیکن اللہ اسے ایسا کرنے سے روک دیتا ہے۔

【210】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

انس بن سیرین کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے عرض کیا کہ اپنی زوجہ کو طلاق دینے کا واقعہ تو سنائیے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایام کی حالت میں طلاق دے دے اور یہ بات حضرت عمر فاروق (رض) کو بھی بتادی، انہوں نے نبی ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا اس سے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے، جب وہ پاک ہوجائے تو ایام طہارت میں اسے طلاق دے دے، میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے وہ طلاق شمار کی تھی جو ایام کی حالت میں دی تھی ؟ انہوں نے کہا کہ اسے شمار نہ کرنے کی کیا وجہ تھی ؟ انہوں نے کہا اگر میں ایسا کرتا تو لوگ مجھے بیوقوف سمجھتے۔

【211】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابوالعلاء شامی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوامامہ (رض) نے نیا لباس زیب تن کیا، جب وہ ان کی ہنسلی کی ہڈی تک پہنچا تو انہوں نے یہ دعاء پڑھی کہ اس اللہ کا شکر جس نے مجھے لباس پہنایا جس کے ذریعے میں اپنا ستر چھپاتا ہوں اور اپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کرتا ہوں، پھر فرمایا کہ میں نے حضرت عمر فاروق (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص نیا کپڑا پہنے اور جب وہ اس کی ہنسلی کی ہڈی تک پہنچے تو یہ دعاء پڑھے (جس کا ترجمہ ابھی گذرا) اور پرانا کپڑاصدقہ کردے، وہ زندگی میں بھی اور زندگی کے بعد بھی اللہ کی حفاظت میں، اللہ کے پڑوس میں اور اللہ کی نگہبانی میں رہے گا۔

【212】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے پوچھا اگر ہم میں سے کوئی شخص ناپاک ہوجائے اور وہ غسل کرنے سے پہلے سونا چاہے تو کیا کرے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا نماز والا وضو کرکے سوجائے۔

【213】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عبدالرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت براء بن عازب (رض) کے ساتھ تھا، اس وقت حضرت عمر فاروق (رض) جنت البقیع میں چاند دیکھ رہے تھے کہ ایک سوار آدمی آیا حضرت عمر (رض) کا اس سے آمنا سامنا ہوگیا، انہوں نے اس سے پوچھا کہ تم کسی طرف سے آرہے ہو ؟ اس نے بتایا مغرب کی جانب سے، انہوں نے پوچھا کیا تم نے چاند دیکھا ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں ! میں نے شوال کا چاند دیکھ لیا ہے، حضرت عمر فاروق (رض) نے اللہ اکبر کہہ کر فرمایا مسلمانوں کے لئے ایک آدمی کی گواہی بھی کافی ہے، پھر خود کھڑے ہو کر ایک برتن سے جس میں پانی تھا، وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا اور مغرب کی نماز پڑھائی اور فرمایا میں نے نبی ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے، اس وقت نبی ﷺ نے ایک شامی جبہ پہن رکھا تھا جس کی آستینیں تنگ تھیں اور نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ جبے کے نیچے سے نکال کر مسح کیا تھا۔

【214】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابولبید کہتے ہیں کہ ایک آدمی جس کا نام بیرح بن اسد تھا طاحیہ نامی جگہ سے ہجرت کے ارادے سے روانہ ہوا جب وہ مدینہ منورہ پہنچا تو نبی ﷺ کی وفات ہوئے کئی دن گذر چکے تھے، حضرت عمر (رض) نے انہیں دیکھا تو وہ انہیں اجنبی محسوس ہوا، حضرت عمر (رض) نے اس سے پوچھا آپ کون ہو ؟ اس نے کہا کہ میرا تعلق عمان سے ہے، حضرت عمر (رض) نے اچھا کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے سیدنا صدیق اکبر (رض) کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا کہ ان کا تعلق اس سر زمین سے ہے جس کے متعلق میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسے شہر کو جانتا ہوں جس کا نام عمان ہے اس کے ایک کنارے سمندر بہتا ہے، وہاں عرب کا ایک قبیلہ بھی آباد ہے، اگر میرا قاصد ان کے پاس گیا ہے تو انہوں نے اسے کوئی تیر یا پتھر نہیں مارا۔

【215】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے یہ حدیث قدسی مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو شخص میرے لئے اتنا سا جھکتا ہے، راوی نے زمین کے قریب اپنے ہاتھ کو لے جا کر کہا، تو میں اسے اتنا بلند کردیتا ہوں، راوی نے آسمان کی طرف اپنا ہاتھ اٹھا کر دکھایا۔ فائدہ : یعنی تواضع اختیار کرنے والے کو اللہ کی طرف سے رفعتیں اور عظمتیں عطاء ہوتی ہیں۔

【216】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابو عثمان نہدی (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عمر فاروق (رض) کے منبر کے نیچے بیٹھا ہوا تھا اور وہ لوگوں کے سامنے خطبہ دے رہے تھے، انہوں نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے اپنی امت کے متعلق سب سے زیادہ خطرہ اس منافق سے ہے جو زبان دان ہو۔

【217】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

مسلم بن یسار الجہنی کہتے ہیں کہ کسی نے حضت عمر فاروق (رض) سے اس آیت کا مطلب پوچھا واذ اخذ ربک من بنی آدم من ظہورہم ذریتہم تو حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ سے بھی اس نوعیت کا سوال کسی کو پوچھتے ہوئے سنا تھا، اس موقع پر نبی ﷺ نے اس کا جواب یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی جب تخلیق فرمائی تو کچھ عرصے بعد ان کی پشت پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرا اور ان کی اولاد کو نکالا اور فرمایا کہ میں نے ان لوگوں کو جنت کے لئے اور اہل جنت کے اعمال کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ ہاتھ پھیر کر ان کی کچھ اور اولاد کو نکالا اور فرمایا میں نے ان لوگوں کو جہنم کے لئے اور اہل جہنم کے اعمال کرنے کے لئے پیدا کیا ہے، ایک آدمی نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر عمل کا کیا فائدہ ؟ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے جب کسی بندے کو جنت کے لئے پیدا کیا ہے تو اسے اہل جنت کے کاموں میں لگائے رکھے گا یہاں تک کہ وہ جنتیوں والے اعمال کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوجائے اور اس کی برکت سے جنت میں داخل ہوجائے اور اگر کسی بندے کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے تو وہ اسے اہل جہنم کے کاموں میں لگائے رکھے گا، یہاں تک کہ جہنمیوں کے اعمال کرتا ہوا وہ دنیا سے رخصت ہوجائے گا اور ان کی نحوست سے جہنم میں داخل ہوجائے گا۔

【218】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سا وقت ہے آنے کا ؟ انہوں نے جوابا کہا کہ امیرالمومنین ! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آگیا ہوں، حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا اوپر سے وضو بھی ؟ جبکہ آپ جانتے ہیں کہ نبی ﷺ جمعہ کے لئے غسل کرنے کا حکم دیتے تھے۔

【219】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت یعلی بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق (رض) کے ساتھ طواف کیا، انہوں نے حجر اسود کا استلام کیا، جب میں رکن یمانی پر پہنچا تو میں نے حضرت عمر (رض) کا ہاتھ پکڑ لیا تاکہ وہ استلام کرلیں، حضرت عمر (رض) نے فرمایا تمہیں کیا ہوا ؟ میں نے کہا کیا آپ استلام نہیں کریں گے ؟ انہوں نے فرمایا کیا آپ نے نبی ﷺ کے ساتھ کبھی طواف نہیں کیا ؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں ! فرمایا تو کیا آپ نے نبی ﷺ کو اس کا استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ میں نے کہا نہیں ! انہوں نے فرمایا کیا جناب رسول اللہ ﷺ کی ذات میں تمہارے لئے اسوہ حسنہ موجود نہیں ہے ؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں، انہوں نے فرمایا پھر اسے چھوڑ دو ۔

【220】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت مالک بن اوس بن الحدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سونے کے بدلے چاندی حاصل کرنے کے لئے اپنے کچھ دینار لے کر آیا، راستے میں حضرت طلحۃ (رض) سے ملاقات ہوگئی، انہوں نے مجھ سے سونے کے بدلے چاندی کا معاملہ طے کرلیا اور میرے دینار پکڑ لئے اور کہنے لگے کہ ذرا رکیے ہمارا خازن غابہ سے آتا ہی ہوگا، میں نے حضرت فاروق اعظم (رض) سے اس کا حکم پوچھا تو انہوں نے فرمایا میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سونے کی چاندی کے بدلے خریدوفروخت سود ہے الاّ یہ کہ معاملہ نقد ہو، اسی طرح کھجور کے بدلے کھجور کی بیع سود ہے الاّ یہ کہ معاملہ نقد ہو۔

【221】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میت پر اس کے اہل خانہ کے رونے دھونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔

【222】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس آیا، انہوں نے بنو طئی کے ایک آدمی کو دوہزار دئیے لیکن مجھ سے اعراض کیا، میں ان کے سامنے آیا تب بھی انہوں نے اعراض کیا، میں ان کے چہرے کے رخ کی جانب سے آیا لیکن انہوں نے پھر بھی اعراض کیا، یہ دیکھ کر میں نے کہا امیرالمومنین ! آپ مجھے پہچانتے ہیں ؟ حضرت عمر (رض) ہنسنے لگے، پھر چت لیٹ گئے اور فرمایا ہاں ! اللہ کی قسم ! میں آپ کو جانتاہوں، جب یہ کافر تھے آپ نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا، جب انہوں نے پیٹھ پھیر رکھی تھی آپ متوجہ ہوگئے تھے، جب انہوں نے عہد شکنی کی تھی تب آپ نے وعدہ وفا کیا تھا اور سب سے پہلا وہ مال صدقہ جسے دیکھ کر نبی ﷺ اور صحابہ کرام (رض) کے چہرے کھل اٹھے تھے بنو طئی کی طرف سے آنے والا وہ مال تھا جو آپ ہی لے کر آئے تھے۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروق (رض) ان سے معذرت کرتے ہوئے فرمانے لگے میں نے ان لوگوں کو مال دیا ہے جنہیں فقروفاقہ اور تنگدستی نے کمزور کر رکھا ہے اور یہ لوگ اپنے اپنے قبیلے کے سردار ہیں، کیونکہ ان پر حقوق کی نیاب کی ذمہ داری ہے۔

【223】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اب طواف کے دوران جبکہ اللہ نے اسلام کو شان و شوکت عطاء فرمادی اور کفرواہل کفر کو ذلیل کرکے نکال دیا رمل اور کندھے خالی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی لیکن اس کے باوجود ہم اسے ترک نہیں کریں گے کیونکہ ہم اسے نبی ﷺ کے زمانے سے کرتے چلے آرہے ہیں۔

【224】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابوالاسود (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ وہاں کوئی بیماری پھیلی ہوئی ہے جس سے لوگ بکثرت مر رہے ہیں، میں حضرت عمر فاروق (رض) کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے ایک جنازہ کا گذر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، حضرت عمر (رض) نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر دوسرا جنازہ گذرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، حضرت عمر (رض) نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، تیسرا جنازہ گذرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی، حضرت عمر (رض) نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، میں نے بالآخر پوچھ ہی لیا کہ امیرالمومنین ! کیا چیز واجب ہوگئی ؟ انہوں نے فرمایا میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لئے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں تو اس کے لئے جنت واجب ہوگئی، ہم نے عرض کیا اگر تین آدمی ہوں ؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے، پھر ہم نے خود ہی ایک کے متعلق سوال نہیں کیا۔

【225】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آکر بیٹھ گئے، حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا نماز سے کیوں رکے رہے انہوں نے جوابا کہا کہ امیرالمومنین ! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آگیا ہوں، حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا اچھا کیا تم نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لئے جائے تو اسے غسل کرلینا چاہیے۔ گذشتہ روایت اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

【226】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عمران بن حطان نے حضرت ابن عباس (رض) سے ریشمی لباس کی بابت سوال کیا، انہوں نے کہا کہ اس کا جواب حضرت عائشہ (رض) سے پوچھو، عمران نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھو، انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھا تو حضرت ابن عمر (رض) نے اپنے والد محترم کے حوالے سے نبی ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا کہ جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے، اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

【227】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ بصرہ میں ہمیں حضرت ابن عباس (رض) نے یہ حدیث سنائی کہ جب حضرت عمر (رض) قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے تو سب سے پہلے ان کے پاس پہنچنے والا میں ہی تھا، انہوں نے فرمایا کہ میری تین باتیں یاد رکھو، کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ لوگ جب تک آئیں گے اس وقت تک میں نہیں بچوں گا اور لوگ مجھے نہ پاسکیں گے، کلالہ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرتا، لوگوں پر اپنا نائب اور خلیفہ کسی کو نامزد نہیں کرتا اور میرا ہر غلام آزاد ہے۔ لوگوں نے ان سے عرض کیا کہ امیرالمومنین ! کسی کو اپنا خلفیہ نامزد کر دیجئے، انہوں نے فرمایا کہ میں جس پہلو کو بھی اختیار کروں، اسے مجھ سے بہتر ذات نے اختیار کیا ہے، چناچہ اگر میں لوگوں کا معاملہ ان ہی کے حوالے کردوں تو نبی ﷺ نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور اگر کسی کو اپنا خلیفہ مقرر کردوں تو مجھ سے بہتر ذات نے بھی اپنا خلیفہ مقرر کیا تھا یعنی حضرت صدیق اکبر (رض) نے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کو جنت کی بشارت ہو، آپ کو نبی ﷺ کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہوا اور طویل موقع ملا، اس کے بعد آپ کو امیرالمومنین بنایا گیا تو آپ نے اپنے مضبوط ہونے کا ثبوت پیش کیا اور امانت کو ادا کیا، حضرت عمر (رض) فرمانے لگے کہ تم نے مجھے جنت کی جو بشارت دی ہے، اللہ کی قسم ! اگر میرے پاس دنیا ومافیہا کی نعمتیں اور خزانے ہوتے تو اصل صورت حال واضح ہونے سے پہلے اپنے سامنے پیش آنے والے ہولناک واقعات و مناظر کے فدئیے میں دے دیتا اور مسلمانوں پر خلافت کا جو تم نے ذکر کیا ہے تو بخدا ! میری تمنا ہے کہ برابر سرابر چھوٹ جاؤں، نہ میرا کوئی فائدہ ہو اور نہ مجھ پر کوئی وبال ہو، البتہ نبی ﷺ کی ہم نشینی کا جو تم نے ذکر کیا ہے، وہ صحیح ہے۔

【228】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابوامامہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) سے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کے نام ایک خط میں لکھا کہ اپنے لڑکوں کو تیرنا اور اپنے جنگجوؤں کو تیر اندازی کرنا سکھاؤ، چناچہ مختلف چیزوں کو نشانہ بنا کر تیر اندازی سیکھنے لگے، اسی تناظر میں ایک بچے کو نامعلوم تیر لگا، جس سے وہ جاں بحق ہوگیا، اس کا صرف ایک ہی وارث تھا اور وہ تھا اس کا ماموں، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) نے اس سلسلے میں حضرت فاروق اعطم (رض) کی خدمت میں خط لکھا، انہوں نے جوابا لکھ بھیجا کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس کا کوئی مولیٰ نہ ہو، اللہ و رسول اس کے مولیٰ ہیں اور جس کا کوئی وارث نہ ہو، ماموں ہی اس کا وارث ہوگا۔

【229】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مال کی وراثت اسی کو ملے گی جسے ولاء ملے گی خواہ وہ باپ ہو یا بیٹا۔

【230】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کے قریب آئے اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا بخدا ! میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے جو کسی کو نفع و نقصان نہیں دے سکتا، اگر میں نے نبی ﷺ کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا، یہ کہہ کر آپ نے اسے قریب ہو کر بوسہ دیا۔

【231】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

دجین جن کی کنیت ابوالغصن تھی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ آیا، وہاں حضرت عمر فاروق (رض) کے آزاد کردہ غلام اسلم سے ملاقات ہوئی، میں نے ان سے حضرت عمر (رض) کی کوئی حدیث سنانے کی فرمائش کی، انہوں نے معذرت کی اور فرمایا کہ مجھے کمی بیشی کا اندیشہ ہے، ہم بھی جب حضرت عمر فاروق (رض) سے کہتے تھے کہ نبی ﷺ کے حوالے سے کوئی حدیث سنائیے تو وہ یہی جواب دیتے تھے کہ مجھے اندیشہ کہ کہیں کچھ کمی بیشی نہ ہوجائے اور نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص میری طرف کسی جھوٹی بات کو منسوب کرتا ہے وہ جہنم میں ہوگا۔

【232】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص بازار میں یہ کلمات کہہ لے " جن کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہی بھی اسی کی ہے اور تمام تعریفات بھی اسی کی ہیں ہر طرح کی خیر اسی کے دست قدرت میں ہے، وہی زندگی اور موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے " تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس نیکیاں لکھ دے گا، دس لاکھ گناہ مٹادے گا اور جنت میں اس کے لئے محل بنائے گا۔

【233】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے دن نبی ﷺ کے کچھ صحابہ سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے جو یہ کہہ رہے تھے کہ فلاں بھی شہید ہے، فلاں بھی شہید ہے، یہاں تک کہ ان کا گذر ایک آدمی پر ہوا، اس کے بارے بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ بھی شہید ہے، نبی ﷺ نے فرمایا ہرگز نہیں ! میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے مال غنیمت میں سے ایک چادر چوری کی تھی، اس کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا اے ابن خطاب ! جا کر لوگوں میں منادی کردو کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے، چناچہ میں نکل کر یہ منادی کرنے لگا کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے۔۔

【234】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے کسی موقع پر اپنے باپ کی قسم کھائی، نبی ﷺ نے انہیں روکتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم کھاتا ہے، وہ شرک کرتا ہے۔

【235】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

نافع کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے مسجد نبوی میں اسطوانہ یعنی ستون سے لے کر مقصورہ شریف تک کا اضافہ کروایا، بعد میں حضرت عثمان (رض) نے بھی اپنی توسیع میں اس کی عمارت بڑھائی اور حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ اگر میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ ہم اپنی اس مسجد کی عمارت میں مزید اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو میں کبھی اس میں اضافہ نہ کرتا۔

【236】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے ایک مرتبہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا : ان پر کتاب نازل فرمائی، اس میں رجم کی آیت بھی تھی جس کے مطابق نبی ﷺ نے بھی رجم کیا تھا اور ہم نے بھی رجم کیا تھا، پھر فرمایا کہ ہم لوگ یہ حکم بھی پڑھتے تھے کہ اپنے آباؤ اجداد سے بےرغبتی ظاہر نہ کرو کیونکہ یہ تمہاری جانب سے کفر ہے، پھر نبی ﷺ نے فرمایا مجھے اس طرح حد سے آگے مت بڑاؤ جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، میں تو ایک بندہ ہوں، اس لئے یوں کہا کرو کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

【237】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عمر فاروق (رض) سے عرض کیا میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے ہوئے سنا ہے، میں اسے آپ تک پہنچانے میں کوتاہی نہیں کروں گا، لوگوں کا خیال یہ ہے کہ آپ کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں کر رہے ؟ انہوں نے ایک لمحے کے لئے اپنا سرجھکا کر اٹھایا اور فرمایا کہ اللہ اپنے دین کی حفاظت خود کرے گا، میں کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں کروں گا کیونکہ نبی ﷺ نے بھی کسی کو اپنا خلیفہ مقرر نہیں فرمایا تھا اور اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر کردیتا ہوں تو حضرت صدیق اکبر (رض) نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔

【238】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

مالک بن اوس کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے ایک مرتبہ مجھے بلوایا، پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی، جس میں حضرت عمر (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔

【239】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

سعید بن مسیب (رح) سے مروی ہے کہ جب حضرت صدیق اکبر (رض) کا انتقال ہوا تو لوگ رونے لگے، اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میت پر اس کے اہل محلہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔

【240】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ جب نبی ﷺ دنیا سے پردہ فرماگئے اور ان کے بعد حضرت صدیق اکبر (رض) خلیفہ منتخب ہوگئے اور اہل عرب میں سے جو کافر ہوسکتے تھے، سو ہوگئے تو حضرت عمر فاروق (رض) نے سیدناصدیق اکبر (رض) سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کرسکتے ہیں جبکہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لاالہ الا اللہ نہ کہہ لیں، جو شخص لاالہ الا اللہ کہہ لے، اس نے اپنی جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کرلیا، ہاں ! اگر اسلام کا کوئی حق ہو تو الگ بات ہے اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہوگا ؟ حضرت صدیق اکبر (رض) نے یہ سن کر فرمایا اللہ کی قسم ! میں اس شخص سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، بخدا ! اگر انہوں نے ایک بکری کا بچہ جو یہ رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے بھی روکا تو میں ان سے قتال کروں گا، حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق اکبر (رض) کو اس معاملے میں شرح صدر کی دولت عطاء فرما دی ہے اور میں سمجھ گیا کہ ان کی رائے ہی برحق ہے۔

【241】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔

【242】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ بنونضیر سے حاصل ہونے والے اموال کا تعلق مال فئی سے جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو عطاء فرمائے اور مسلمانوں کو اس پر گھوڑے یا کوئی اور سواری دوڑانے کی ضرورت نہیں پیش آئی، اس لئے یہ مال خاص نبی ﷺ کا تھا، نبی ﷺ اس میں سے اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر کا نفقہ ایک ہی مرتبہ دے دیا کرتے تھے اور جو باقی بچتا تھا اس سے گھوڑے اور دیگر اسلحہ جو جہاد میں کام آسکے، فراہم کرلیتے تھے۔

【243】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب رات یہاں سے آجائے اور دن وہاں سے چلا جائے اور سورج غروب ہوجائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کرلینا چاہیے، مشرق اور مغرب مراد ہے۔

【244】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کی بڑی آرزو تھی کہ حضرت عمر فاروق (رض) سے (نبی ﷺ کی دو ازواج مطہرات کے بارے) سوال کروں (جن کے متعلق اللہ نے یہ فرمایا تھا کہ اگر تم دونوں توبہ کرلو تو اچھا ہے کیونکہ تمہارے دل ٹیڑھے ہوچکے ہیں) لیکن ہمت نہیں ہوتی تھی اور دو سال گذر گئے، حتی کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) حج کے لئے تشریف لے گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا، راستے میں حضرت عمر فاروق (رض) لوگوں سے ہٹ کر چلنے لگے، میں بھی پانی کا برتن لے کر ان کے پیچھے چلا گیا، انہوں نے اپنی طبعی ضرورت پوری کی اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور عرض کیا اے امیرالمومنین ! وہ دو عورتیں کون ہیں جو نبی ﷺ پر غالب آنا چاہتی تھیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ عائشہ اور حفصہ (رضی اللہ عنہما)

【245】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابوالعجفاء سلمی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگو ! اپنی بیویوں کے مہر زیادہ مت باندھا کرو، کیونکہ اگر یہ چیز دنیا میں باعث عزت ہوتی یا اللہ کے نزدیک تقویٰ میں شمار ہوتی تو اس کے سب زیادہ حق دار نبی ﷺ تھے، جبکہ نبی ﷺ کی کسی بیوی یا بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں تھا، پھر حضرت فاروق اعظم (رض) نے فرمایا کہ دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص دوران جہاد مقتول ہوجائے یا طبعی طور پر فوت ہوجائے تو آپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی شہید ہوگیا، فلاں آدمی شہید ہو کر دنیا سے رخصت ہوا، حالانکہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنی سواری کے پچھلے حصے میں یا کجاوے کے نیچے سونا چاندی چھپا رکھا جس سے وہ تجارت کا ارادہ رکھتا ہو، اس لئے تم کسی کے متعلق یقین کے ساتھ یہ مت کہو کہ وہ شہید ہے، البتہ یہ کہہ سکتے ہو کہ جو شخص اللہ کے راستہ میں مقتول یا فوت ہوجائے (وہ شہید ہے) اور جنت میں داخل ہوگا جیسا کہ نبی ﷺ فرماتے تھے۔

【246】

حضرت عمر فاروق عنہ کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے، اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء بیان کی، نبی ﷺ کا تذکرہ کیا، حضرت صدیق اکبر (رض) کی یاد تازہ کی، پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آگیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے۔ پھر فرمایا کہ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقرر کردوں، اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ اپنے دین کو ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہوگیا تو میں مجلس شوری ان چھ افراد کی مقرر کر رہا ہوں جن سے نبی ﷺ بوقت رحلت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے، جب تم ان میں سے کسی ایک کی بیعت کرلو تو ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا ! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کرچکا ہوں، یہ لوگ دشمنان خدا، کافر اور گمراہ ہیں، اللہ کی قسم ! نبی ﷺ کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسئلہ میں آپ مجھ سے ناراض ہوئے ہوں، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لئے اس مسئلے میں سورت نساء کی آخری آیت جو گرمی میں نازل ہوئی تھی کافی ہے۔ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلے کا ایساحل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آجائے اور میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں امراء اور گورنر بھیجے ہیں وہ صرف اس لئے کہ وہ لوگوں کو دین سکھائیں، نبی ﷺ کی سنتیں لوگوں کے سامنے بیان کریں، ان میں مال غنیمت تقسیم کریں، ان میں انصاف کریں اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔ پھر فرمایا لوگو ! تم دو درختوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں گندہ سمجھتا ہوں (ایک لہسن اور دوسرا پیاز، جنہیں کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے) میں نے دیکھا ہے کہ اگر نبی ﷺ کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ ﷺ حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے تھے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بدبو مار دے۔ راوی کہتے ہیں کہ جمعہ کو حضرت فاروق اعظم (رض) نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور ٢٦ ذی الحجہ بروز بدھ کو آپ پر قاتلانہ حملہ ہوگیا۔

【247】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابوموسی اشعری (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا اگرچہ حج تمتع نبی ﷺ کی سنت ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ پیلو کے درخرت کے نیچے رات گذاریں اور صبح کو اٹھ کر حج کی نیت کرلیں۔ فائدہ : دراصل حج تمتع میں آدمی عمرہ کر کے احرام کھول لیتا ہے اور اس کے لئے اپنی بیوی کے قریب جاناحلال ہوجاتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آٹھ ذی الحجہ کو جب حج کا احرام کھول لیتا ہے اور اس کے لئے اپنی بیوی کے قریب جاناحلال ہوجاتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آٹھ ذی الحجہ کو جب حج کا احرام باندھنا ہو، اسی رات وہ اپنی بیوی کے پاس رہا ہو اور صبح اس کے سر سے پانی کے ٹپکتے ہوئے قطرات لوگوں کو کچھ اشارات دے رہے ہوں، اس وجہ سے حضرت عمر (رض) اسے اچھا نہیں سمجھتے تھے، ورنہ اس کے نفس جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔

【248】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو حدث کے بعد وضو کرتے ہوئے دیکھا جس میں نبی ﷺ نے موزوں پر مسح کیا اور نماز پڑھی۔

【249】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عیاض اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میں غزوہ یرموک میں موجود تھا، ہم پر پانچ امراء مقرر تھے (١) حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) (٢) حضرت یزید بن ابی سفیان (رض) (٣) حضرت ابن حسنہ (رض) (٤) حضرت خالد بن ولید (رض) (٥) حضرت عیاض بن غنم (رض) (یاد رہے کہ اس سے مراد خود راوی حدیث نہیں ہیں ) حضرت عمر فاروق (رض) نے فرما رکھا تھا کہ جب جنگ شروع ہو تو تمہارے سردار حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) ہوں گے، راوی کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت فاروق اعظم (رض) کی طرف ایک مراسلہ میں لکھ کر بھیجا کہ موت ہماری طرف اچھل اچھل کر آرہی ہے، ہمارے لئے کمک روانہ کیجئے، انہوں نے جواب میں لکھ کر بھیجا کہ میرے پاس تمہارا خط پہنچا جس میں تم نے مجھ سے امداد کی درخواست کی ہے، میں تمہیں ایسی ہستی کا پتہ بتاتا ہوں جس کی نصرت سب سے زیادہ مضبوط اور جس کے لشکر سب سے زیادہ حاضر باش ہوتے ہیں، وہ ہستی اللہ تبارک وتعالی ہیں ان ہی سے مدد مانگو، کیونکہ جناب رسول اللہ ﷺ کی نصرت غزوہ بدر کے موقع پر بھی کی گئی تھی جبکہ وہ تعداد میں تم سے بہت تھوڑے تھے، اس لئے جب تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو ان سے قتال شروع کردو اور مجھ سے باربار امداد کے لئے مت کہو۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر ہم نے قتال شروع کیا تو مشرکین کو شرمناک ہزیمت سے دوچار کیا اور چار فرسخ تک انہیں قتل کرتے چلے گئے اور ہمیں مال غنیمت بھی حاصل ہوا، اس کے بعد مجاہدین نے باہم مشورہ کیا، حضرت عیاض (رض) نے مشورہ دیا کہ ہر مجاہد کو فی کس دس درہم دیئے جائیں، حضرت ابوعبیدہ (رض) نے پوچھا میرے ساتھ اس کی دیکھ بھال کون کرے گا ؟ ایک نوجوان بولا اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں کروں گا، یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا، میں نے حضرت ابوعبیدہ (رض) کے بالوں کی چوٹیوں کو دیکھا کہ وہ ہوا میں لہرا رہی تھیں اور وہ نوجوان ان کے پیچھے ایک عربی گھوڑے پر بیٹھا ہوا تھا۔

【250】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

علی بن زید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ آیا، اس وقت میں نے ریشمی جبہ زیب تن کر رکھا تھا، حضرت سالم (رح) نے مجھ سے فرمایا کہ تم ان کپڑوں کا کیا کروگے ؟ میں نے اپنے والد کو حضرت عمر فاروق (رح) کے حوالے سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ریشم وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔

【251】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنے بیٹے کو جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر مار ڈالا، حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں یہ معاملہ پیش ہوا تو انہوں نے اس پر سو اونٹ دیت واجب قرار دی، تیس حقے، تیس جذعے اور چالیس ثنیے یعنی جو دوسرے سال میں لگے ہوں اور فرمایا قاتل وارث نہیں ہوتا اور اگر میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ باپ کو بیٹے کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا تو میں تجھے قتل کردیتا۔ فائدہ : حقہ اور جذعہ کی تعریف پیچھے گذر چکی ہے۔

【252】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ایک دوسری سند سے اسی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ پھر حضرت عمر فاروق (رض) نے مقتول کے بھائی کو بلایا اور دیت کے وہ اونٹ اس کے حوالے کر دئیے۔ مجاہد (رض) سے گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اس پر سو اونٹ دیت واجب قرار دی، تیس حقے، تیس جذعے اور چالیس ثنیے یعنی جو دوسرے سال میں لگے ہوں اور سب کے سب حاملہ ہوں، پھر حضرت عمر فاروق (رض) نے مقتول کے بھائی کو بلایا اور دیت کے وہ اونٹ اس کے حوالے کر دئیے اور فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قاتل کو کچھ نہیں ملے گا۔

【253】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

مالک بن اوس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی (رض) اور حضرت عباس (رض) اپنا جھگڑا لے کر حضرت عمر (رض) کے پاس فیصلہ کرنے آئے، حضرت عباس (رض) نے فرمایا کہ میرے اور ان کے درمیان فلاں فلاں چیز کا فیصلہ کر دیجئے، لوگوں نے بھی کہا کہ ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میں ان دونوں کے درمیان کوئی فیصلہ نہیں کروں گا کیونکہ یہ دونوں جانتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے۔

【254】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں سب سے آخری آیت سود سے متعلق نازل ہوئی ہے، اس لئے نبی ﷺ کو اپنے وصال مبارک سے قبل اس کی مکمل وضاحت کا موقع نہیں مل سکا، اس لئے سود کو بھی چھوڑ دو اور جس چیز میں ذرا بھی شک ہو اسے بھی چھوڑ دو ۔

【255】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابوموسی اشعری (رض) حج تمتع کے جواز کا فتوی دیتے تھے، ایک دن ایک شخص آکر ان سے کہنے لگا کہ آپ اپنے کچھ فتوے روک کر رکھیں، آپ کو معلوم نہیں ہے کہ آپ کے پیچھے امیرالمومنین نے مناسک حج کے حوالے سے کیا نئے احکام جاری کئے ہیں، جب ان دونوں حضرات کی ملاقات ہوئی تو حضرت ابو موسیٰ (رض) نے ان سے اس کی بابت دریافت کیا، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ حج تمتع نبی ﷺ اور ان کے صحابہ نے بھی کیا ہے لیکن مجھے یہ چیز اچھی معلوم نہیں ہوتی کہ لوگ پیلو کے درخت کے نیچے اپنی بیویوں کے پاس رات گذاریں اور صبح کو حج کے لئے اس حال میں روانہ ہوں کہ ان کے سروں سے پانی کے قطرات ٹپک رہے ہوں۔

【256】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) حج کے لئے تشریف لے گئے، وہاں انہوں نے مخصوص حالات کے تناظر میں کوئی خطبہ دینا چاہا لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے ان سے کہا کہ اس وقت تو لوگوں کا کمزور طبقہ بہت بڑی مقدار میں موجود ہے، آپ اپنے اس خطبہ کو مدینہ منورہ واپسی تک مؤخر کردیں (کیونکہ وہاں کے لوگ سمجھدار ہیں، وہ آپ کی بات سمجھ لیں گے، یہ لوگ بات کو صحیح طرح سمجھ نہ سکیں گے اور شورش بپا کردیں گے) چناچہ جب حضرت عمر فاروق (رض) مدینہ منورہ واپس آگئے تو ایک دن میں منبر کے قریب گیا، میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ بعض لوگ کہتے ہیں رجم کی کیا حیثیت ہے ؟ کتاب اللہ میں تو صرف کوڑوں کی سزا ذکر کی گئی ہے ؟ حالانکہ نبی ﷺ نے بھی رجم کی سزا جاری فرمائی ہے اور ان کے بعد ہم نے بھی اور اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے کتاب اللہ میں اس چیز کا اضافہ کردیا جو اس میں نہیں ہے تو میں اس حکم والی آیت کو قرآن کریم (کے حاشیے) پر لکھ دیتا۔

【257】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت فاروق اعظم (رض) سے مروی ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے جناب رسول اللہ ﷺ کو بھوک کی وجہ سے کروٹیں بدلتے ہوئے دیکھا ہے کہ آپ ﷺ کو ردی کھجور بھی نہ ملتی تھی جس سے آپ ﷺ اپنا پیٹ بھر لیتے تھے۔

【258】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میت کو اس کی قبر میں اس پر ہونے والے نوحے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔

【259】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں حضرت عمر (رض) بھی شامل ہیں جو میری نظروں میں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں، کہ نبی ﷺ نے دو وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، ایک تو یہ کہ عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے اور دوسرے یہ کہ فجر کی نماز کے بعدطلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔

【260】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابو عثمان کہتے ہیں کہ ہم حضرت عتبہ بن فرقد (رض) کے ساتھ شام یا آذربائیجان میں تھے کہ حضرت عمر فاروق (رض) کا ایک خط آگیا، جس میں لکھا تھا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ریشمی لباس پہننے سے منع فرمایا ہے سوائے اتنی مقدار یعنی دو انگلیوں کے۔ گذشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

【261】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عمروبن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) نے ہمیں مزدلفہ میں فجر کی نماز پڑھائی اور فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے اور کہتے تھے کہ کوہ ثبیر روشن ہو نبی ﷺ نے ان کا طریقہ اختیار نہیں کیا اور مزدلفہ سے منیٰ کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوگئے۔

【262】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے ایک مرتبہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے پوچھا اگر میں رات کو ناپاک ہوجاؤں تو کیا کروں ؟ نبی ﷺ نے فرمایا اپنی شرمگاہ کو دھو کر نماز والا وضو کر کے سو جاؤ۔

【263】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابوالحکم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے حضرت عمر (رض) کے عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے مٹکے، کدو کی نبیذ، سبزرنگ کی روغنی ہنڈیا یا برتن سے منع فرمایا ہے۔

【264】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں، میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، لیکن میں نے نبی ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔

【265】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

جویریہ بن قدامہ کہتے ہیں کہ جس سال حضرت عمر فاروق (رض) شہید ہوئے، مجھے اس سال حج کی سعادت نصیب ہوئی، میں مدینہ منورہ بھی حاضر ہوا، وہاں حضرت عمر (رض) نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک سرخ رنگ کا مرغا مجھے ایک یا دو مرتبہ ٹھونگ مارتا ہے اور ایسا ہی ہوا تھا کہ قاتلانہ حملے میں ان پر نیزے کے زخم آئے تھے۔ بہرحال ! لوگوں کو ان کے پاس آنے کی اجازت دی گئی تو سب سے پہلے ان کے پاس صحابہ کرام (رض) تشریف لائے، پھر عام اہل مدینہ، پھر اہل شام اور پھر اہل عراق، اہل عراق کے ساتھ داخل ہونے والوں میں میں بھی شامل تھا، جب بھی لوگوں کی کوئی جماعت ان کے پاس جاتی تو ان کی تعریف کرتی اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے۔ جب ہم ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ان کے پیٹ کو سفید عمانے سے باندھ دیا گیا ہے لیکن اس میں سے خون کا سیل رواں جاری ہے، ہم نے ان سے وصیت کی درخواست کی جو کہ اس سے قبل ہمارے علاوہ کسی اور نے نہ کی تھی۔ حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کتاب اللہ کو لازم پکڑو، کیونکہ جب تک تم اس کی اتباع کرتے رہوگے، ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ہم نے مزید وصیت کی درخواست کی تو فرمایا میں تمہیں مہاجرین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ لوگ تو کم اور زیادہ ہوتے ہی رہتے ہیں، انصار کے ساتھ بھی حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ اسلام کا قلعہ ہیں جہاں اہل اسلام نے آکر پناہ لی تھی، نیز دیہاتیوں سے کیونکہ وہ تمہاری اصل اور تمہارا مادہ ہیں، نیز ذمیوں سے بھی حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ وہ تمہارے نبی کی ذمہ داری میں ہیں (ان سے معاہدہ کر رکھا ہے) اور تمہارے اہل و عیال کا رزق ہیں۔ اب جاؤ، اس سے زائد بات انہوں نے کوئی ارشاد نہیں فرمائی، البتہ راوی نے ایک دوسرے موقع پر دیہاتیوں سے متعلق جملے میں اس بات کا بھی اضافہ کیا کہ وہ تمہارے بھائی اور تمہارے دشمن کے دشمن ہیں۔ جویریہ بن قدامہ کہتے ہیں کہ جس سال حضرت عمر فاروق (رض) شہید ہوئے، مجھے اس سال حج کی سعادت نصیب ہوئی، میں مدینہ منورہ بھی حاضر ہوا، وہاں حضرت عمر (رض) نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک سرخ رنگ کا مرغا مجھے ایک یا دو مرتبہ ٹھونگ مارتا ہے، چناچہ ابھی ایک جمعہ ہی گذرا تھا کہ ان پر حملہ ہوگیا، پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی اور یہ کہ میں تمہیں ذمیوں سے بھی حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ وہ تمہارے نبی کی ذمہ داری میں ہیں (ان سے معاہدہ کر رکھا ہے) اور دیہاتیوں کے حوالے سے فرمایا کہ میں تمہیں دیہاتیوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارے بھائی اور تمہارے دشمنوں کے دشمن ہیں۔

【266】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں حضرت عمر (رض) بھی شامل ہیں جو میری نظروں میں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں، کہ نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔

【267】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے جابیہ میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے ریشم پہننے سے (مرد کو) منع فرمایا ہے، سوائے دو تین یا چار انگلیوں کی مقدار کے اور یہ کہہ کر حضرت عمر (رض) نے اپنی ہتھیلی سے بھی اشارہ کیا۔

【268】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میت کو اس کی قبر میں اس پر ہونے والے نوحے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔

【269】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، وہ مضبوط، سفید کپڑوں میں ملبوس اور انتہائی سیاہ بالوں والا تھا اس پر سفر کے آثار نظر آرہے تھے اور نہ ہی ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا۔ وہ آدمی نبی ﷺ کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ اور اس نے نبی ﷺ کے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملا کر نبی ﷺ کی رانوں پر ہاتھ رکھ لئے اور کہنے لگا کہ اے محمد ﷺ مجھے اسلام کے بارے بتائیے کہ اسلام کیا ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہو ہی نہیں سکتا اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں نیز یہ کہ آپ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، رمضان کے روزے رکھیں اور حج بیت اللہ کریں۔ اس نے اگلا سوال یہ پوچھا کہ ایمان کیا ہے ؟ فرمایا تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں، یوم آخرت اور ہر اچھی بری تقدیر پر یقین رکھو، ، اس نے کہا آپ نے سچ فرمایا پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے ؟ فرمایا تم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کوئی عمل اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم یہ تصور نہیں کرسکتے تو پھر یہی تصور کرلو کہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے (اس لئے یہی تصور کرلیا کرو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے) ۔ اس نے پھر پوچھا کہ قیامت کب آئے گی ؟ فرمایا جس سے سوال پوچھا جارہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا یعنی ہم دونوں ہی اس معاملے میں بیخبر ہیں، اس نے کہا کہ پھر اس کی کچھ علامات ہی بتا دیجئے ؟ فرمایا جب تم یہ دیکھو کہ جن کے جسم پر چیتھڑا اور پاؤں میں لیترا نہیں ہوتا تھا، غریب اور چرواہے تھے، آج وہ بڑی بڑی بلڈنگیں اور عمارتیں بنا کر ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں، لونڈیاں اپنی مالکن کو جنم دینے لگیں تو قیامت قریب آگئی۔ پھر وہ آدمی چلا گیا تو کچھ دیر بعد نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا اے عمر ! کیا تمہیں علم ہے کہ وہ سائل کون تھا ؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، فرمایا وہ جبرئیل (علیہ السلام) تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی روایت کی گئی ہے۔

【270】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ابو نضرہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر (رض) سے پوچھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) حج تمتع سے منع کرتے ہیں جبکہ حضرت ابن عباس (رض) اس کی اجازت دیتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ انہوں نے مجھ سے حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم کو خلافت ملی تو انہوں نے خطبہ دیتے ہوئے لوگوں سے فرمایا کہ قرآن، قرآن ہے اور پیغمبر، پیغمبر ہے، حالانکہ نبی ﷺ کے دور باسعادت میں دو طرح کا متعہ ہوتا تھا، ایک متعۃ الحج جسے حج تمتع کہتے ہیں اور ایک متعۃ النساء جو عورتوں کو طلاق دے کر رخصت کرتے وقت کپڑوں کی صورت میں دینا مستحب ہے۔

【271】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم اللہ پر اس طرح ہی توکل کرلیتے جیسے اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق عطاء کیا جاتا جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے جو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔

【272】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عبداللہ بن ساعدی (رح) کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مجھے کسی جگہ زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا، جب میں فارغ ہو کر حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ مال ان کے حوالے کردیا تو انہوں نے مجھے تنخواہ دینے کا حکم دیا میں نے عرض کیا کہ میں نے یہ کام اللہ کی رضا کے لئے کیا ہے اور وہی مجھے اس کا اجر دے گا۔ حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا تمہیں جو دیا جائے وہ لے لیا کرو، کیونکہ نبی ﷺ کے دور میں ایک مرتبہ میں نے بھی یہی خدمت سرانجام دی تھی، نبی ﷺ نے مجھے کچھ مال و دولت عطاء فرمایا : میں نے تمہاری والی بات کہہ دی، نبی ﷺ نے فرمایا اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے کھالیا کرو، ورنہ اسے صدقہ کردیا کرو۔

【273】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن میں بہت خوش تھا، خوشی سے سرشار ہو کر میں نے روزہ کی حالت میں ہی اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا، اس کے بعد احساس ہوا تو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یار سول اللہ ! آج مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے، میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کو بوسہ دے دیا ؟ نبی ﷺ نے فرمایا یہ بتاؤ ! اگر آپ روزے کی حالت میں کلی کرلو تو کیا ہوگا ؟ میں نے عرض کیا اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے، فرمایا پھر اس میں کہاں سے ہوگا ؟

【274】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم اللہ پر اس طرح ہی توکل کرلیتے جیسے اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق عطاء کیا جاتا جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے جو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔

【275】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے ذکر کیا کہ ہم لوگ دنیا میں مختلف جگہوں کے سفر پر آتے جاتے رہتے ہیں، ہماری ملاقات بعض ان لوگوں سے بھی ہوتی ہے جو تقدیر کے منکر ہوتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ تو ان سے کہہ دینا کہ ابن عمر (رض) تم سے بری ہے اور تم اس سے بری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، پھر انہوں نے اس کا حلیہ بیان کیا، نبی ﷺ نے دو مرتبہ اسے قریب ہونے کے لئے کہا چناچہ وہ اتنا قریب ہوا کہ اس کے گھٹنے نبی صلی اللہ علیہ کے گھٹنوں سے چھونے لگے، اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ یہ بتائیے کہ ایمان کیا ہے ؟ فرمایا تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، جنت و جہنم، قیامت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور تقدیر پر یقین رکھو، اس نے پھر پوچھا کہ اسلام کیا ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا یہ کہ آپ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں رمضان کے روزے رکھیں اور حج بیت اللہ کریں اور غسل جنابت کریں۔ اس نے پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے ؟ فرمایا تم اللہ کی رضاحاصل کرنے کے لئے اس کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم یہ تصور نہیں کرسکتے تو وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے (اس لئے یہ تصور ہی کرلیا کرو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے) اس کے ہر سوال پر ہم یہی کہتے تھے کہ اس سے زیادہ نبی ﷺ کی عزت و توقیر کرنے والا ہم نے کوئی نہیں دیکھا اور وہ باربار کہتا جارہا تھا کہ آپ ﷺ نے سچ فرمایا۔ اس نے پھر پوچھا کہ قیامت کب آئے گی ؟ فرمایا جس سے سوال پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا یعنی ہم دونوں ہی اس معاملے میں بیخبر ہیں، جب وہ آدمی چلا گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا ذرا اس آدمی کو بلا کر لانا، صحابہ کرام (رض) اس کی تلاش میں نکلے تو انہیں وہ نہ ملا نبی ﷺ نے فرمایا وہ جبرئیل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اہم باتیں سکھانے آئے تھے، اس سے پہلے وہ جس صورت میں بھی آتے تھے میں انہیں پہچان لیتا تھا لیکن اس مرتبہ نہیں پہچان سکا۔ یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے ذکر کیا کہ ہم لوگ دنیا میں مختلف جگہوں کے سفر پر آتے جاتے رہتے ہیں، ہماری ملاقات بعض ان لوگوں سے بھی ہوتی ہے جو تقدیر کے منکر ہوتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ تو ان سے کہہ دینا کہ ابن عمر (رض) تم سے بری ہے اور تم اس سے بری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، پھر انہوں نے اس کا حلیہ بیان کیا، نبی ﷺ نے دو مرتبہ اسے قریب ہونے کے لئے کہا چناچہ وہ اتنا قریب ہوا کہ اس کے گھٹنے نبی صلی اللہ علیہ کے گھٹنوں سے چھونے لگے، اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ یہ بتائیے کہ ایمان کیا ہے ؟ پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔

【276】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص کسی مجاہد کے سر پر سایہ کرے، اللہ قیامت کے دن اس پر سایہ کرے گا، جو شخص مجاہد کو سامان جہاد مہیا کرے یہاں تک کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے، اس کے لئے اس مجاہد کے برابر اجر لکھا جاتا رہے گا اور جو شخص اللہ کی رضا کے لئے مسجد تعمیر کرے جس میں اللہ کا ذکر کیا جائے، اللہ جنت میں اس کا گھر تعمیر کرے گا۔

【277】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص سے اس کا رات والی دعاؤں کا معمول کسی وجہ سے چھوٹ جائے اور وہ اسے اگلے دن فجر اور ظہر کے درمیان کسی بھی وقت پڑھ لے تو گویا اس نے اپنا معمول رات ہی کو پورا کیا۔

【278】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جب حرمت شراب کا حکم نازل ہونا شروع ہوا تو انہوں نے دعاء کی کہ اے اللہ ! شراب کے بارے میں کوئی شافی بیان نازل فرمائیے، چناچہ سورت بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی۔ یسألونک عن الخمر والمیسر قل فیہمااثم کبیر اے نبی ﷺ یہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے پوچھتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ ان کا گناہ بہت بڑا ہے۔ اور حضرت عمر (رض) کو بلا کر یہ آیت سنائی گئی، انہوں نے پھر وہی دعاء کی کہ اے اللہ ! شراب کے بارے کوئی شافی بیان نازل فرمائیے، اس پر سورت نساء کی یہ آیت نازل ہوئی۔ یا ایہا الذین آمنوا لاتقربوا الصلاۃ وانتم سکاری اے ایمان والو ! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ اس آیت کے نزول کے بعد نبی ﷺ کا مؤذن جب اقامت کہتا تو یہ نداء بھی لگاتا کہ نشے میں مدہوش کوئی شخص نماز کے قریب نہ آئے اور حضرت عمر (رض) کو بلا کر یہ آیت بھی سنائی گئی، لیکن انہوں نے پھر وہی دعاء کی کہ اے اللہ ! شراب کے بارے کوئی شافی بیان نازل فرمائیے، اس پر سورت مائدہ کی آیت نازل ہوئی اور حضرت عمر (رض) کو بلا کر اس کی تلاوت بھی سنائی گئی، جب نبی ﷺ فہل انتم منتہون پر پہنچے تو حضرت عمر (رض) کہنے لگے کہ ہم باز آگئے، ہم باز آگئے۔

【279】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد ایک دیہاتی قبیلہ بنو تغلب کے عیسائی آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا، انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟ لوگوں نے بتایا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا، چناچہ انہوں نے جہاد کا ارادہ کرلیا، اسی اثناء میں کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے حج کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ! اس نے کہا آپ پہلے حج اور عمرہ کرلیں، پھر جہاد میں شرکت کریں۔ چناچہ وہ حج کی نیت سے روانہ ہوگئے اور میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی نے یہ بات سن لی جب حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، حضرت عمر فاروق (رض) نے ان سے فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت پر رہنمائی نصیب ہوگئی۔

【280】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے حجر اسود سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تو محض ایک پتھر ہے اگر میں نے نبی ﷺ کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا،

【281】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عروہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) حجر اسود کے پاس آئے اور اس سے فرمایا میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، اگر میں نے نبی ﷺ کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا، یہ کہہ کر انہوں نے اسے بوسہ دیا۔

【282】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

سوید بن غفلہ (رح) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے حجر اسود کو چمٹ کر اسے بوسہ دیا اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں نے ابوالقاسم ﷺ کو تجھ پر مہربان دیکھا ہے۔

【283】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب رات یہاں سے آجائے اور دن وہاں سے چلا جائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کرلینا چاہیے، مشرق اور مغرب مراد ہے۔

【284】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا صدقہ دے کر دوبارہ اس کی طرف رجوع کرنے والا اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو اپنے منہ سے قئی کر کے اس کو چاٹ لے۔

【285】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت فاروق اعظم (رض) نے فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے اور کہتے تھے کہ کوہ ثبیر روشن ہو نبی ﷺ نے ان کا طریقہ اختیار نہیں کیا اور مزدلفہ سے منیٰ کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوگئے جبکہ نماز فجر اسفار کر کے پڑھنے والوں کی مقدار کے تناسب سے پڑھی جاسکتی تھی۔

【286】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میت کو اس پر اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔

【287】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دوران سفر جناب رسول اللہ ﷺ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

【288】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ (پانچ چیزوں سے) اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے، بخل سے، بزدلی سے، دل کے فتنہ سے، عذاب قبر سے اور بری عمر سے۔

【289】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عبداللہ بن بریدہ (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) اس جگہ بیٹھے ہوئے تھے جہاں نبی ﷺ بھی بیٹھتے تھے اور وہاں سے جنازے گذرتے تھے، وہاں سے ایک جنازہ کا گذر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، حضرت عمر (رض) نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر دوسرا جنازہ گذرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، حضرت عمر (رض) نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، تیسرے جنازہ پر بھی ایسا ہی ہوا، جب چوتھا جنازہ گذرا تو لوگوں نے کہا یہ سب سے بڑا جھوٹا تھا، حضرت عمر (رض) نے فرمایا لوگوں میں سب سے بڑا جھوٹا وہ ہوتا ہے جو اللہ پر سب سے زیادہ جھوٹ باندھتا ہے، اس کے بعد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے جسم میں موجود روح پر جھوٹ باندھتے ہیں، لوگوں نے کہا یہ بتائیے کہ اگر کسی مسلمان کے لئے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انہوں نے فرمایا اس کے لئے جنت واجب ہوگئی، لوگوں نے عرض کیا اگر تین آدمی ہوں ؟ تو فرمایا تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا، فرمایا دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے، اگر میں ایک کے متعلق پوچھ لیتا تو یہ میرے نزدیک سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پسندیدہ تھا، کسی شخص نے حضرت عمر (رض) سے پوچھا کہ یہ بات آپ اپنی رائے سے کہہ رہے ہیں یا آپ نے نبی ﷺ سے سنی ہے ؟ انہوں نے فرمایا نہیں، بلکہ میں نے نبی ﷺ سے سنی ہے۔

【290】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

عبایہ بن رفاعہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروق (رض) کو یہ خبر معلوم ہوئی کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے اپنے لئے ایک محل تعمیر کروایا ہے جہاں فریادیوں کی آوازیں پہنچنا بند ہوگئی ہیں، تو انہوں نے فورا حضرت محمد بن مسلمہ (رض) کو روانہ فرمایا : انہوں نے وہاں پہنچ کر چقماق نکال کر اس سے آگ سلگائی، ایک درہم کی لکڑیاں خریدیں اور انہیں آگ لگادی۔ کسی نے جا کر حضرت سعد (رض) سے کہا کہ ایک آدمی ایسا ایسا کر رہا ہے، انہوں نے فرمایا کہ وہ محمد بن مسلمہ ہیں، یہ کہہ کر وہ ان کے پاس آئے اور ان سے قسم کھا کر کہا کہ انہوں نے کوئی بات نہیں کہی ہے محمد بن مسلمہ کہنے لگے کہ ہمیں تو جو حکم ملا ہے، ہم وہی کریں گے، اگر آپ نے کوئی پیغام دینا ہو تو وہ بھی پہنچا دیں گے، یہ کہہ کر انہوں نے اس محل کے دروازے کو آگ لگادی۔ پھر حضرت سعد (رض) نے انہیں زاد راہ کی پیشکشی کی لیکن انہوں نے اسے بھی قبول نہ کیا اور واپس روانہ ہوگئے، حضرت عمر (رض) کے پاس جس وقت وہ پہنچے وہ دوپہر کا وقت تھا اور اس آنے جانے میں ان کے کل انیس دن صرف ہوئے تھے، حضرت عمر (رض) نے انہیں دیکھ کر فرمایا اگر آپ کے ساتھ حسن ظن نہ ہوتا تو ہم یہ سمجھتے کہ شاید آپ نے ہمارا پیغام ان تک نہیں پہنچایا۔ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں ! اس کے جواب میں انہوں نے آپ کو سلام کہلوایا ہے اور معذرت کی ہے اور اللہ کی قسم کھا کر کہا ہے کہ انہوں نے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی ہے، حضرت عمر (رض) نے پوچھا کہ کیا انہوں نے آپ کو زادراہ دیا ؟ عرض کیا میں نے خود ہی نہیں لیا، فرمایا پھر اپنے ساتھ کیوں نہیں لے گئے ؟ عرض کیا کہ مجھے یہ چیز اچھی نہ لگی کہ میں انہیں آپ کا کوئی حکم دوں، وہ آپ کے لئے تو ٹھنڈے رہیں اور میرے لئے گرم ہوجائیں، پھر میرے اردگرد اہل مدینہ آباد ہیں جنہیں بھوک نے مار رکھا ہے اور میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی شخص اپنے پڑوسی کو چھوڑ کر خود سیراب نہ ہوتا پھرے۔ حدیث السقیفہ

【291】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے اپنی زندگی میں جو آخری حج کیا، یہ اس زمانے کی بات ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اپنی سواری کے پاس واپس آئے، میں انہیں پڑھایا کرتا تھا، انہوں نے مجھے اپنا انتظار کرتے ہوئے پایا، اس وقت ہم لوگ منیٰ میں تھے، حضرت عبدالرحمن بن عوف آتے ہی کہنے لگے کہ حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ فلاں شخص یہ کہتا ہے کہ اگر حضرت عمر (رض) فوت ہوگئے تو میں فلاں شخص سے بیعت کرلوں گا۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ آج رات کو میں کھڑا ہو کر لوگوں کو اس گروہ سے بچنے اور احتیاط کرنے کی تاکید کروں گا جو خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہیں، لیکن میں نے ان سے عرض کیا امیرالمومنین ! آپ ایسا نہ کیجئے، کیونکہ حج میں ہر طرح سے لوگ شامل ہوتے ہیں، شرپسند بھی ہوتے ہیں اور گھٹیا سوچ رکھنے والے بھی، جب آپ لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر کچھ کہنا چاہیں گے تو یہ آپ پر غالب آجائیں گے، مجھے اندیشہ ہے کہ آپ اگر کوئی بات کہیں گے تو یہ لوگ اسے اڑا لے جائیں گے، صحیح طرح اسے یاد نہ رکھ سکیں گے اور صحیح محل پر اسے محمول نہ کرسکیں گے، البتہ جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے جائیں، جو کہ دارالہجرۃ اور دارالسنۃ ہے اور خالصۃ علماء اور معززین کا گہوارہ ہے، تب آپ جو کہنا چاہتے ہیں کہہ دیں اور خوب اعتماد سے کہیں، وہ لوگ آپ کی بات کو سمجھیں گے بھی اور اسے صحیح محل پر بھی محمول کریں گے، حضرت عمر (رض) نے یہ سن کر فرمایا اگر میں مدینہ منورہ صحیح سالم پہنچ گیا تو سب سے پہلے لوگوں کے سامنے یہی بات رکھوں گا۔ ذی الحجہ کے آخر میں جب ہم مدینہ منورہ پہنچے توجمعہ کے دن میں اندھوں سے ٹکراتا ہوا صبح ہی مسجد میں پہنچ گیا، راوی نے اندھوں سے ٹکرانے کا مطلب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ حضرت عمر فاروق (رض) کسی خاص وقت کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی گرمی سردی وغیرہ کو خاطر میں لاتے تھے (جب دل چاہتا آکر منبر پر رونق افروز ہوجاتے) بہرحال ! میں نے منبر کی دائیں جانب حضرت سعید بن زید (رض) کو بیٹھے ہوئے پایا جو مجھ سے سبقت لے گئے تھے، میں بھی ان کے برابر جا کر بیٹھ گیا اور میرے گھٹنے ان کے گھٹنے سے رگڑ کھا رہے تھے۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ حضرت عمر فاروق (رض) تشریف لاتے ہوئے نظر آئے، میں نے انہیں دیکھتے ہی کہا کہ آج یہ اس منبر سے ایسی بات کہیں گے جو اس سے پہلے انہوں نے کبھی نہ کہی ہوگی، حضرت سعید بن زید (رض) نے اس پر تعجب کا اظہار کیا اور کہنے لگے کہ مجھے تو نہیں لگتا کہ یہ کوئی ایسی بات کہیں جو اب سے پہلے نہ کہی ہو، اسی اثناء میں حضرت عمر فاروق (رض) آکر منبر پر تشریف فرما ہوگئے۔ جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو سب سے پہلے کھڑے ہو کر انہوں نے اللہ کی حمدوثناء کی، پھر امابعد کہہ کر فرمایا لوگو ! میں آج ایک بات کہنا چاہتا ہوں جسے کہنا میرے لئے ضروری ہوگیا ہے، کچھ خبر نہیں کہ شاید یہ میری موت کا پیش خیمہ ہو، اس لئے جو شخص اسے یاد رکھ سکے اور اچھی طرح سمجھ سکے، اسے چاہیے کہ یہ بات وہاں تک لوگوں کو پہنچا دے جہاں تک اس کی سواری جاسکتی ہو اور جو شخص اسے یاد نہ رکھ سکے، اس کے لئے مجھ پر جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حق کے ساتھ بھیجا، ان پر اپنی کتاب نازل فرمائی اور ان پر نازل ہونے والے احکام میں رجم کی آیت بھی شامل تھی، جسے ہم نے پڑھا اور یاد کیا، نیز نبی ﷺ نے بھی رجم کی سزا جاری فرمائی اور ان کے بعد ہم نے بھی یہ سزا جاری کی، مجھے خطرہ ہے کہ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہمیں تو کتاب اللہ میں رجم کی آیت نہیں ملتی اور وہ اللہ کے نازل کردہ ایک فریضے کو ترک کر کے گمراہ ہوجائیں۔ یاد رکھو ! اگر کوئی مرد یا عورت شادی شدہ ہو کر بدکاری کا ارتکاب کرے اور اس پر گواہ بھی موجود ہوں، یا عورت حاملہ ہو، یا وہ اعتراف جرم کرلے تو کتاب اللہ میں اس کے لئے رجم کا ہونا ایک حقیقت ہے، یاد رکھو ! ہم یہ بھی پڑھتے تھے کہ اپنے آباؤ اجداد سے اعراض کر کے کسی دوسرے کی طرف نسبت نہ کرو کیونکہ ایسا کرنا کفر ہے۔ یاد رکھو ! جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، مجھے اس طرح مت بڑھانا، میں تو محض اللہ کا بندہ ہوں، اس لئے تم بھی مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا پیغمبر ہی کہو۔ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ لوگوں میں سے بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جب عمر مرجائے گا تو ہم فلاں شخص کی بیعت کرلیں گے، کوئی شخص اس بات سے دھوکہ میں نہ رہے کہ حضرت صدیق اکبر (رض) کی بیعت اچانک اور جلدی میں ہوئی تھی، ہاں ! ایسا ہی ہوا تھا، لیکن اللہ نے اس کے شر سے ہماری حفاظت فرمائی، لیکن اب تم میں حضرت صدیق اکبر (رض) جیسا کوئی شخص موجود نہیں ہے جس کی طرف گردنیں اٹھ سکیں۔ ہمارا یہ واقعہ بھی سن لو کہ جب نبی ﷺ کا وصال مبارک ہوگیا تو حضرت علی، حضرت زبیر (رض) ، حضرت فاطمہ (رض) کے گھر میں رہے، جبکہ انصار سب سے کٹ کر مکمل طور پر سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے اور مہاجرین حضرت صدیق اکبر (رض) کے پاس آکر اکٹھے ہونے لگے، میں نے حضرت صدیق اکبر (رض) سے عرض کیا کہ ہمارے ساتھ انصاری بھائیوں کی طرف چلیے۔ چناچہ ہم ان کے پیچھے روانہ ہوئے، راستے میں ہمیں دو نیک آدمی ملے، انہوں نے ہمیں بتایا کہ لوگوں نے کیا کیا ہے ! اور ہم سے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ میں نے کہا کہ ہم اپنے انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ آپ ان کے پاس نہ جائیں تو بہتر ہے، آپ اپنا معاملہ خود طے کرلیجئے، میں نے کہا کہ نہیں ! ہم ضروران کے پاس جائیں گے۔ چناچہ ہم سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچ گئے، وہاں تمام انصار اکٹھے تھے اور ان کے درمیان میں ایک آدمی چادر اوڑھے ہوئے بیٹھا ہوا تھا، میں نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) ہیں، میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہوا ؟ لوگوں نے بتایا کہ بیمار ہیں۔ بہرحال ! جب ہم بیٹھ گئے تو ان کا ایک مقرر کھڑا ہوا اور اللہ کی حمدوثنا کرنے کے بعد کہنے لگا کہ ہم اللہ کے انصار و مددگار ہیں اور اسلام کا لشکر ہیں اور اے گروہ مہاجرین ! تم ہمارا ایک گروہ ہو، لیکن اب تم ہی میں سے کچھ ہماری جڑیں کاٹنے لگے ہیں، وہ ہماری اصل سے سے جدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ہمیں خلافت سے الگ رکھنا چاہتے ہیں۔ جب وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوا تو میں نے بات کرنا چاہی کیونکہ میں اپنے دل میں ایک بڑی عمدہ تقریر سوچ کر آیا تھا، میرا ارادہ یہ تھا کہ حضرت صدیق اکبر (رض) کے کچھ کہنے سے پہلے میں اپنی بات کہہ لوں، میں نے اس میں بعض سخت باتیں بھی شامل کر رکھی تھیں لیکن حضرت صدیق اکبر (رض) مجھ سے زیادہ حلیم اور باوقار تھے، انہوں نے مجھے روک دیا، میں نے انہیں ناراض کرنا مناسب نہ سمجھا، کیونکہ وہ مجھ سے بڑے عالم اور زیادہ پروقار تھے۔ بخدا ! میں نے میں نے اپنے ذہن میں جو تقریر سوچ رکھی تھی، حضرت صدیق اکبر (رض) نے اس کا ایک کلمہ بھی نہ چھوڑا اور فی البدیہ وہ سب کچھ بلکہ اس سے بہتر کہہ دیا جو میں کہنا چاہتا تھا، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی تقریر ختم کرلی، اس تقریر کے دوران انہوں نے فرمایا کہ آپ لوگوں نے اپنی جو نیکیاں ذکر کی ہیں، آپ ان کے اہل اور حقدار ہیں، لیکن خلافت کو پورا عرب قریش کے اسی قبیلے کا حق سمجھتا ہے کیونکہ پورے عرب میں حسب نسب اور جگہ کے اعتبار سے یہ لوگ مرکز شمار ہوتے ہیں، میں آپ کے لئے ان دو میں کسی ایک کو منتخب کرنے کی تجویز پیش کرتا ہوں، آپ جس کو مرضی منتخب کرلیں، یہ کہہ کر انہوں نے میرا اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کا ہاتھ پکڑ لیا۔ مجھے حضرت ابوبکر (رض) کی پوری تقریر میں یہ بات اچھی نہ لگی، بخدا ! میں یہ سمجھتا تھا کہ اگر مجھے آگے بڑھایا جائے تو میری گردن اڑا دی جائے، مجھے یہ بہت بڑا گناہ محسوس ہوتا تھا کہ میں ایک ایسی قوم کا حکمران بنوں جس میں حضرت صدیق اکبر (رض) جیسا شخص موجود ہو، البتہ اب موت کے وقت آکر میرا مزاج بدل گیا ہے (یہ کسر نفسی کے طور پر فرمایا گیا ہے) انصار کے ایک آدمی نے کہا کہ مجھے ان معاملات کا خوب تجربہ ہے اور میں اس کے بہت سے پھلوں کا بوجھ لادے رہاہوں، اے گروہ قریش ! ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا، اس پر شور و شغب بڑھ گیا، آوازیں بلند ہونے لگیں اور مجھے خطرہ پیدا ہوگیا کہ کہیں جھگڑا نہ ہوجائے، یہ سوچ کر میں نے فورا کہا ابوبکر ! اپنا ہاتھ بڑھائیے، انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے ان کی بیعت کرلی، یہ دیکھ کر مہاجرین نے بھی بیعت کرلی اور انصار نے بھی بیعت کرلی اور ہم وہاں سے کود کر آگئے اور حضرت سعد بن عبادہ (رض) وہیں رہ گئے۔ کسی نے کہا کہ تم نے سعد بن عبادہ (رض) کو مار ڈالا، میں نے کہا اللہ نے ایسا کیا ہوگا (ہم کیا کرسکتے ہیں ؟ ) اس کے بعد حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا بخدا ! آج ہمیں حضرت صدیق اکبر (رض) کی بیعت کے واقعے سے زیادہ مضبوط حالات کا سامنا نہیں ہے، ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر لوگ جدا ہوگئے اور اس وقت کوئی خلیفہ نہ ہوا تو وہ کسی سے بیعت کرلیں گے، اب یا تو ہم کچھ ناپسندیدہ فیصلوں پر انہیں اپنے اتباع پر قائم کریں، یا پھر ہم ان کی مخالفت میں احکام جاری کریں، ظاہر ہے کہ اس صورت میں فساد ہوگا۔ اس لئے یاد رکھو ! جو شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی شخص کی بیعت کرے گا اس کی بیعت کا کوئی اعتبار نہیں اور نہ ہی وہ اس شخص کے ہاتھ پر صحیح ہوگی جس سے بیعت لی گئی ہے، اس اندیشے سے کہ کہیں وہ دونوں قتل نہ ہوجائیں۔

【292】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کیا میں تمہیں انصار کے بہترین گھروں کا پتہ نہ بتاؤں ؟ بنونجار، پھر بنو عبد الاشہل، پھر حارث بن خزرج، پھر بنو ساعدہ اور فرمایا کہ انصار کے ہر گھر میں خیر ہی خیر ہے۔

【293】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بائع (بچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا اور بیچنے والا) جب تک جدا نہ ہوجائیں، انہیں اختیار ہے یا یہ فرمایا کہ وہ بیع ہی خیار پر قائم ہوگی۔

【294】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے حاملہ جانور کے حمل سے پیدا ہونے والے بچے کی جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہی ہے، پیٹ میں ہی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔

【295】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کے دور باسعادت میں ہم لوگ خریدوفروخت کرتے تھے، بعض اوقات نبی ﷺ ہمارے پاس یہ پیغام بھیجتے تھے کہ کسی چیز کو بیچنے سے پہلے ہم ایک چیز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرسکتے ہیں۔

【296】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص غلہ خریدے، اسے اس وقت تک آگے نہ بیچے جب تک اس پر قبضہ نہ کرلے۔

【297】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی غلام کو اپنے حصے کے بقدر آزاد کردیتا ہے تو وہ غلام کی قیمت کے اعتبار سے ہوگا چناچہ اب اس غلام کی قیمت لگائی جائے گی، باقی شرکاء کو ان کے حصے کی قیمت دے دی جائے گی اور غلام آزاد ہوجائے گا، ورنہ جتنا اس نے آزاد کیا ہے اتنا ہی رہے گا۔

【298】

حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات

سعید بن مسیب (رح) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے لعان کرنے والے کے متعلق مسئلہ پوچھا، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ایسے میاں بیوی کے درمیان تفریق کرادی تھی۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے حجر اسود سے مخاطب ہو کر فرمایا میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے جو کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا، اگر میں نے نبی ﷺ کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔