1096. حضرت کعب بن مالک کی مرویات

【1】

حضرت کعب بن مالک کی مرویات

حضرت کعب سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا شہداء کی روح سبز پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہے۔ حضرت کعب سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہے، تآ ن کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اس کے جسم میں واپس لوٹا دیں گے۔

【2】

حضرت کعب بن مالک کی مرویات

حضرت کعب سے مروی ہے کہ نبی ﷺ تین انگلیوں سے کھانا تناول فرماتے اور بعد میں اپنی انگلیاں چاٹ لیتے تھے۔

【3】

حضرت کعب بن مالک کی مرویات

حضرت کعب سے مروی ہے کہ ان کی ایک سیاہ فام باندی تھی جس نے ایک بکری کو ایک دھاری دار پتھر سے ذبح کرلیا، حضرت کعب نے نبی ﷺ سے اس بکری کا حکم پوچھا تو نبی ﷺ نے انہیں اس کے کھانے کی اجازت دیدی۔

【4】

حضرت کعب بن مالک کی مرویات

حضرت کعب سے مروی ہے کہ نبی ﷺ تین انگلیوں سے کھانا تناول فرماتے اور بعد میں اپنی انگلیاں چاٹ لیتے تھے۔

【5】

حضرت کعب بن مالک کی مرویات

حضرت کعب سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب بھی چاشت کے وقت سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے مسجد میں جا کردو رکعتیں پڑھتے تھے اور کچھ دیر وہاں بیٹھتے تھے۔

【6】

حضرت کعب بن مالک کی مرویات

حضرت کعب سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا مؤمن کی مثال کھیتی کے ان دانوں کی سی ہے جنہیں ہوا اڑاتی رہتی ہے، کبھی برابر کرتی ہے اور کبھی دوسری جگہ لے جا کر پٹخ دیتی ہے، یہاں تک کہ اس کا وقت مقررہ آجائے اور کافر کی مثال ان چاولوں کی سی ہے جو اپنی جڑ پر کھڑے رہتے ہیں، انہیں کوئی چیز نہیں ہلاسکتی یہاں تک کہ ایک ہی مرتبہ انہیں اتارلیا جاتا ہے۔

【7】

حضرت کعب بن مالک کی مرویات

حضرت کعب سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب کسی سفر سے چاشت کے وقت واپس آتے تو سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے وہاں جا کردو رکعتیں پڑھتے اور سلام پھیر کر اپنی جائے نماز پر ہی بیٹھ جاتے تھے۔

【8】

حضرت کعب بن مالک کی مرویات

حضرت کعب سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن ابی حدرد پر ان کا کچھ قرض تھا ایک مرتبہ راستے میں ملاقات ہوگئی حضرت کعب نے انہیں پکڑ لیا، باہمی تکرار میں آوازیں بلند ہوگئیں، اسی اثناء میں نبی ﷺ وہاں سے گزرے، نبی ﷺ نے اشارہ کرکے مجھ سے فرمایا کہ اس کا نصف قرض معاف کردو چناچہ انہوں نے نصف چھوڑ کر نصف مال لے لیا۔

【9】

حضرت کعب بن مالک کی مرویات

حضرت کعب سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اشعار سے مشرکین کی مذمت بیان کیا کرو، مسلمان اپنی جان اور مال دونوں سے جہاد کرتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے، تم جو اشعار مشرکین کے متعلق کہتے ہو ایسا لگتا ہے کہ تم ان پر تیروں کی بوچھاڑ برسا رہے ہو۔

【10】

حضرت کعب بن مالک کی مرویات

حضرت کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں سوائے غزوہ تبوک کے اور کسی جہاد میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے نہیں رہا، ہاں غزوہ بدر سے رہ گیا تھا اور بدر میں شریک نہ ہونیوالوں پر کوئی عتاب بھی نہیں کیا گیا تھا کیونکہ رسول اللہ ﷺ صرف قریش کے قافلہ کو روکنے کے ارادے سے تشریف لے گئے تھے (لڑائی کا ارادہ نہ تھا) بغیر لڑائی کے ارادہ کے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی دشمنوں سے مڈ بھیڑ کرادی تھی میں بیعت عقبہ کی رات کو بھی حضور ﷺ کے ساتھ موجود تھا جہاں ہم سب نے مل کر اسلام کے عہد کو مضبوط کیا تھا اور میں یہ چاہتا بھی نہیں ہوں کہ اس بیعت کے عوض میں جنگ بدر میں حاضر ہوتا، اگرچہ بدر کی جنگ لوگوں میں اس سے زیادہ مشہور ہے۔ میرا قصہ یہ ہے کہ جس قدر میں اس جہاد کے وقت مالدار اور فراخ دست تھا اتنا کبھی نہیں ہوا اللہ کی قسم اس جنگ کے لئے میرے پاس دو اونٹنیاں تھیں اس سے پہلے کسی جنگ میں میرے پاس دو سواریاں نہیں ہوئیں، رسول اللہ ﷺ کا دستور تھا کہ اگر کسی جنگ کا ارادہ کرتے تھے تو دوسری لڑائی کا (احتمالی اور ذومعنی لفظ) کہہ کر اصل لڑائی کو چھپاتے تھے لیکن جب جنگ تبوک کا زمانہ آیا تو چونکہ سخت گرمی کا زمانہ تھا ایک لمبا بےآب وگیاہ بیابان طے کرنا تھا اور کثیر دشمنوں کا مقابلہ تھا اس لئے آپ ﷺ نے مسلمانوں کے سامنے کھول کر بیان کردیا تاکہ جنگ کے لئے تیاری کرلیں اور حضور ﷺ کا جو ارادہ تھا وہ لوگوں سے کہدیا۔ مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور کوئی رجسٹر ایسا تھا نہیں جس میں سب کے ناموں کا اندراج ہوسکتا، جو شخص جنگ میں شریک نہ ہونا چاہتا وہ سمجھ لیتا تھا کہ جب تک میرے متعلق وحی نازل نہ ہوگی میری حالت چھپی رہے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس جہاد کا ارادہ اس زمانہ میں کیا تھا جب میوہ جات پختہ ہوگئے تھے اور درختوں کے سائے کافی ہوچکے تھے، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اور سب مسلمانوں نے جنگ کی تیاری کی، میں بھی روزانہ صبح کو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی تیاری کرنے کے ارادہ سے جاتا تھا لیکن شام کو بغیر کچھ کام سرانجام دیئے واپس آجاتا تھا، میں اپنے دل میں خیال کرتا تھا کہ (وقت کافی ہے) میں یہ کام پھر کرسکتا ہوں، اسی لیت ولعل میں مدت گزرگئی اور مسلمانوں نے سخت کوشش کرکے سامان درست کرلیا اور ایک روزصبح کو رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو ہمرہ لے کر چل دیئے اور میں اس وقت تک کچھ بھی تیاری نہ کرسکا لیکن دل میں خیال کرلیا کہ ایک دو روز میں سامان درست کر کے مسلمانوں سے جاملوں گا۔ جب دوسرے روز مسلمان (مدینہ سے) دور نکل گئے تو سامان درست کرنے کے ارادہ سے چلا لیکن بغیر کچھ کام کیئے واپس آگیا میری برابر یہی سستی رہی اور مسلمان جلدی جلدی بہت آگے بڑھ گئے میں نے جاپہنچنے کا ارادہ کیا لیکن اللہ کا حکم نہ تھا کاش میں مسلمانوں سے جاکر مل گیا ہوتا، رسول اللہ ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد اب جو میں کہیں باہر نکل کر لوگوں سے ملتا تھا اور ادھرادھر گھومتا تھا تو یہ دیکھ مجھے غم ہوتا تھا کہ سوائے منافقوں کے اور ان کمزور لوگوں کے جن کو رسول اللہ ﷺ نے معذور سمجھ کر چھوڑ دیا تھا اور کوئی نظر نہ آتا تھا راستہ میں رسول اللہ ﷺ کو کہیں میری یاد نہ آئی جب تبوک میں حضور ﷺ پہنچ گئے تو لوگوں کے سامنے بیٹھ کر فرمایا یہ کعب نے کیا حرکت کی ؟ ایک شخص نے جواب یا رسول اللہ ﷺ وہ اپنی دونوں چادروں کو دیکھتا رہا اور اسی وجہ سے نہ آیا، معاذ بن جبل بولے اللہ کی قسم تو نے بری بات کہی یا رسول اللہ ﷺ ہم کو اس پر نیکی کا احتمال ہے، حضور ﷺ خاموش ہوگئے، کعب بن مالک کہتے ہیں جب مجھے اطلاع ملی کہ حضور ﷺ واپس آرہے ہیں تو مجھے فکرپیدا ہوئی اور جھوٹ بولنے کا ارادہ کیا اور دل میں سوچا کہ کس ترکیب سے حضور ﷺ کی ناراضگی سے محفوظ رہ سکتا ہوں، گھر میں تمام اہل الرائے سے مشورہ بھی کیا، اتنے میں معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ قریب ہی تشریف لے آئے تو میں نے تمام جھوٹ بولنے کے خیال دل سے نکال دیئے اور میں سمجھ گیا کہ جھوٹ کی آمیزش کرکے حضور ﷺ کی ناراضگی سے نہیں بچ سکتا لہذا سچ بولنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ صبح کو حضور ﷺ بھی تشریف لائے اور آپ ﷺ کا دستور تھا کہ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تھے تو شروع میں مسجد جا کردو رکعت نماز پڑھتے تھے اور پھر وہیں لوگوں سے گفتگو کرنے بیٹھ جاتے تھے۔ چناچہ حضور ﷺ نے ایسا ہی کیا اور جنگ سے رہ جانیوالے لوگ آ کر قسمیں کھا کھا کر عذر بیان کرنے لگے۔ ان سب کی تعداد کچھ اوپر اسی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے سب کے ظاہر عذر کو قبول کرلیا اور بیعت کرلی ان کے لئے دعائے مغفرت کی اور ان کی اندورنی حالت کو اللہ کے سپرد کردیا۔ سب کے بعد میں نے حاضر ہو کر سلام کیا، حضور ﷺ نے غصے کی حالت والا تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا قریب آجاؤ ! میں قریب ہوگیا یہاں تک کہ حضور ﷺ کے سامنے جا کر بیٹھ گیا، پھر فرمایا تم کیوں رہ گئے تھے ؟ کیا تم نے سواری نہیں خریدی تھی ؟ میں نے عرض کیا خریدی تو ضرور تھی، اللہ کی قسم میں اگر آپ کے علاوہ کسی دنیا دار کے پاس بیٹھا ہوتا تو اس کے غضب سے عذر پیش کرکے چھوٹ جاتا کیونکہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے خوش بیانی عطا فرمائی ہے، لیکن واللہ میں جانتا ہوں کہ اگر میں نے آپ کے سامنے جھوٹی باتیں بنادیں اور آپ مجھ سے راضی بھی ہوگئے تو عنقریب اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ پر غضب ناک کردے گا اور اگر آپ سے سچی بات بیان کردوں گا اور آپ مجھ سے ناراض ہوجائیں گے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ (آئندہ) مجھے معاف فرمادے گا۔ خدا کی قسم مجھے کوئی عذر نہ تھا اور جس وقت میں حضور ﷺ سے پیچھے رہا تھا اسو قت سے زائد کبھی نہ میں مال دار تھا نہ فراخ دست، حضور ﷺ نے فرمایا اس شخص نے سچ کہا اب تو اٹھ جا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے متعلق کوئی فیصلہ کرے میں فورا اٹھ گیا اور میرے پیچھے پیچھے قیلہ بنی سلمہ کے لوگ بھی اٹھ کر آئے اور کہنے لگے اللہ کی قسم ہم جانتے ہیں کہ تو نے اس سے قبل کوئی قصور نہیں کیا ہے (یہ تیرا پہلا قصور ہے) اور جس طرح اور جنگ سے رہ جانیوالوں نے معذرت پیش کی تو کوئی عذرپیش نہ کرسکا۔ تیرے قصور کی معافی کے لئے تو رسول اللہ ﷺ کا دعا مغفرت کرنا ہی کافی تھا۔ حضرت کعب کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم وہ مجھے برابر تنبیہہ کررہے تھے کہ میں نے دوبارہ حضور ﷺ کی خدمت میں جا کر اپنے پہلے قول کی تکذیب کرنے کا ارادہ کرلیا لیکن میں نے ان سے پوچھا کہ اس جرم میں میری طرح کوئی اور بھی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں تیری طرح دو آدمی اور بھی ہیں اور جو تو نے کہا وہی انہوں نے کہا ہے اور ان کو وہی جواب ملا جو تجھے ملا ہے، میں نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا مرارہ بن ربیع عامری اور ہلال بن امیہ واقفی یہ دونوں شخص جنگ بدر میں شریک ہوچکے تھے اور ان کی سیرت بہت بہترین تھی۔ جب انہوں نے ان دونوں آدمیوں کا تذکرہ کیا تو میں اپنے قول پر قائم رہا، رسول اللہ ﷺ نے صرف ہم تینوں سے کلام کرنے سے منع فرمادیا تھا اور دیگر جنگ سے غیر حاضر لوگوں سے بات چیت کرنے کی ممانعت نہ تھی۔ حسب الحکم لوگ ہم سے بچنے لگے اور بالکل بدل گئے یہاں تک کہ تمام زمین مجھ کو اجنبی معلوم ہونے لگی اور سمجھ میں نہ آتا تھا کہ میں کیا کروں ؟ میرے دونوں ساتھی تو کمزور تھے گھر میں بیٹھ کر روتے رہے اور میں جوان اور طاقتور تھا بازاروں میں گھومتا تھا باہر نکلتا تھا اور مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوتا تھا لیکن کوئی مجھ سے کلام نہ کرتا تھا، میں رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں بھی نماز کے بعد حاضر ہوتا تھا اور حضور ﷺ کو سلام کرکے دل میں کہتا تھا دیکھوں حضور ﷺ نے سلام کے جواب کے لئے لب مبارک ہلائے یا نہیں ؟ پھر میں حضور ﷺ کے برابر کھڑا ہو کر نماز بھی پڑھتا تھا اور کن انکھیوں سے دیکھتا تھا کہ حضور ﷺ میری طرف متوجہ ہیں یا نہیں، چناچہ جب میں متوجہ ہوتا تھا تو حضور ﷺ میری طرف سے منہ پھیر لیتے تھے اور جب میں منہ پھیرلیتا تھا تو آپ ﷺ میری طرف دیکھتے۔ جب لوگوں کی بےرخی بہت زیادہ ہوگئی تو ایک روز میں ابوقتادہ کے باغ کی دیوار پر چڑھ گیا کیونکہ ابوقتادہ میرا چچا زاد بھائی تھا اور مجھے پیارا تھا، میں نے اس کو سلام کیا لیکن اللہ کی قسم اس نے سلام کا جواب نہ دیا، میں نے کہا ابوقتادہ میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم کو معلوم ہے کہ مجھے اللہ و رسول سے محبت ہے یا نہیں ابوقتادہ خاموش رہے، میں نے دوبارہ قسم دی لیکن وہ ویسے ہی خاموش رہا، تیسری بار قسم دینے پر اس نے کہا کہ اللہ و رسول ہی خوب واقف ہیں، میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور پشت موڑ کر دیوار سے پار ہو کر چلا آیا۔ مدینہ کے بازار میں ایک دن جارہا تھا کہ ایک شامی کاشتکار ان لوگوں میں سے تھا جو مدینہ میں غلہ لا کر فروخت کرتے تھے اور بازار میں یہ کہتا جارہا تھا کہ کعب بن مالک کا کوئی پتہ بتادے، لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، اس نے آ کر شاہ غسان کا ایک خط مجھے دیا جس میں یہ مضمون تحریر تھا، مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ساتھی (رسول اللہ ﷺ نے تم پر ظلم کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم کو ذلت کی جگہ اور حق تلفی کے مقام میں رہنے کے لئے نہیں بنایا ہے تم ہمارے پاس چلے آؤ ہم تمہاری دلجوئی کریں گے، خط پڑھ کر میں نے کہا یہ بھی میرا ایک امتحان ہے، میں نے خط لے کر چولہے میں جلا دیا۔ اسی طرح جب چالیس روز گزرگئے تو ایک روز رسول اللہ ﷺ کا قاصد میرے پاس آیا اور کہنے لگا رسول اللہ ﷺ تم کو حکم دیتے ہیں کہ اپنی بیوی سے علیحدہ رہو، میں نے کہا کہ طلاق دیدوں یا کیا کروں ؟ قاصد نے کہا بیوی سے علیحدہ رہو اس کے پاس نہ جاؤ ! اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے میرے دونوں ساتھیوں کو بھی کہلا بھیجا تھا، میں نے حسب الحکم اپنی بیوی سے کہا کہ اپنے میکے چلی جاؤ وہیں رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس معاملے کے متعلق کوئی فیصلہ فرمائے۔ حضرت کعب کہتے ہیں کہ بلال بن امیہ کی بیوی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہلال بن امیہ بہت بوڑھا ہے اور اس کے پاس کوئی خادم بھی نہیں ہے، اگر حضور ﷺ نامناسب نہ سمجھیں تو میں اس کا کام کردیا کروں ؟ فرمایا مناسب ہے کہ لیکن وہ تیرے قریب نہ جائے، عورت نے کہا کہ اللہ کی قسم اس کو تو کسی چیز کی حس ہی نہیں ہے جب سے یہ واقعہ ہوا ہے آج تک برابر روتا رہتا ہے۔ حضرت کعب کہتے ہیں کہ میرے گھروالوں نے بھی مجھ سے کہا کہ اگر تم بھی اپنی بیوی کے لئے اجازت لے لو جس طرح بلال کی بیوی نے لے لی تو تمہاری بیوی تمہاری خدمت کردیا کرے گی، میں نے جواب دیا کہ میں حضور ﷺ سے اس کی اجازت نہیں مانگوں گا، معلوم نہیں آپ کیا فرمائیں کیونکہ میں جوان آدمی ہوں، اسی طرح دس روز گزر گئے اور پورے پچاس دن ہوگئے پچاس دن کے بعد فجر کی نماز اپنی چھت پر پڑھ کر میں بیٹھا تھا اور یہ حالت تھی کہ تمام روئے زمین مجھ پر تنگ ہو رہی تھی اور میری جان مجھ پر وبال تھی اتنے میں ایک چیخنے والے نے نہایت بلند آواز سے کوہ سلع پر چڑھ کر کہا اے کعب بن مالک تجھے خوشخبری ہو میں یہ سن کر فورا سجدہ میں گرپڑا اور سمجھ گیا کہ کشائش کا وقت آگیا، رسول اللہ ﷺ نے فجر کی نماز پڑھ کر ہماری توبہ قبول ہونے کا اعلان کیا تھا، لوگ مجھے خوشخبری دینے آئے اور میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی کچھ خوشخبری دینے والے گئے ایک شخص گھوڑا دوڑا کر میرے پاس آیا اور بنی اسلم کے ایک آدمی نے سلع پہاڑ پر چڑھ کر آواز دی اس کی آواز گھوڑے کے پہنچنے سے قبل مجھے پہنچ گئی۔ جس شخص کی آواز میں نے سنی تھی جب وہ میرے پاس آیا تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کو دیدئیے حالانکہ اللہ کی قسم اس روز میرے پاس ان دونوں کپڑوں کے علاوہ کوئی کپڑا نہ تھا اور مانگ کر میں نے دو کپڑے پہن لئے اور حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے چل دیا، راستہ میں توبہ قبول ہونے کی مبارک باد دینے کے لئے جوق درجوق مجھے ملتے تھے اور کہتے تھے کہ کعب تجھے مبارک ہو تیری توبہ اللہ نے قبول کرلی۔ حضرت کعب کہتے ہیں کہ میں مسجد میں پہنچا تو رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے اور صحابہ آس پاس موجود تھے، حضرت طلحہ مجھے دیکھ کر فورا اٹھ کردوڑتے ہوئے آئے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی اور اللہ کی قسم طلحہ کے علاوہ مہاجرین میں سے اور کوئی نہیں اٹھا، طلحہ کی یہ بات میں نہیں بھولوں گا، میں نے پہنچ کر رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا اس وقت چہرہ مبارک خوشی سے چمک رہا تھا کیونکہ خوشی کے وقت رسول اللہ ﷺ کا چہرہ ایسا چمکنے لگتا تھا جیسے چاند کا ٹکڑا اور یہی دیکھ کر ہم حضور ﷺ کی خوشی کا اندازہ کرلیا کرتے تھے۔ فرمایا کعب جب سے تو پیدا ہوا ہے سب دنوں سے آج کا دن تیرے لئے بہتر ہے تجھے اس کی خوشخبری ہو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ خوشخبری حضور ﷺ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے ؟ فرمایا میری طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ہے، میں نے حضور ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں اپنی توبہ قبول ہونے کے شکریہ میں اپنے تمام مال سے علیحدہ ہو کر بطور صدقہ کے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں، فرمایا کچھ مال روک رکھ یہ تیرے لئے بہتر ہے، میں نے عرض کیا اچھا میں اپنا خیبر والا حصہ روکے لیتا ہوں، اس کے بعد میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ سچ بولنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے نجات بخشی ہے لہذا میری توبہ کا ایک جزو یہ بھی ہے کہ جب تک زندہ رہوں سوائے سچائی کے کوئی بات نہ کہوں گا اور اللہ کی قسم جب سے میں نے حضور ﷺ کے سامنے سچ بولا ہے اس روز سے آج تک میں نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مسلمان کو سچ بولنے کا اس سے بہتر انعام دیا ہو جیسا مجھے دیا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو باقی زندگی میں بھی جھوٹ بولنے سے بچائے گا، اللہ تعالیٰ نے قبول توبہ کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی تھی لقد تاب اللہ علی النبی والمہاجرین الی قولہ وکونوامع الصادقین حضرت کعب کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ہدایت اسلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس سچ کہنے سے بڑی کوئی نعمت مجھے عطاء نہیں فرمائی کیونکہ اگر میں جھوٹ بولتا تو جس طرح جھوٹ بولنے والے ہلاک ہوگئے میں بھی ہلاک ہوجاتا، ان جھوٹ بولنے والوں کے حق میں اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی سیحلفون باللہ لکم اذا انقلبتم الی قولہ فان اللہ لا یرضی عن القوم الفسقین۔ حضرت کعب کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے قسمیں کھا کر اپنی معذرت پیش کی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی معذرت قبول کرلی تھی ان سے بیعت لے لی تھی اور ان کے لئے دعائے مغفرت کی تھی ان کے بعد ہم تینوں کا (قبول توبہ کا) واقعہ ہوا اور رسول اللہ ﷺ نے ہمارے معاملہ میں ڈھیل چھوڑ دی تھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس کا فیصلہ کیا۔ آیت وعلی الثلاثۃ الذین۔ میں تینوں کے پیچھے رہنے سے جنگ سے رہ جانا مقصود ہے۔

【11】

حضرت کعب بن مالک کی مرویات

حضرت کعب بن مالک سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب مسرور ہوتے تو آپ ﷺ کا روئے انور اس طرح چمکنے لگتا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو اور ہم نبی ﷺ کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر اسے پہچان لیتے تھے۔

【12】

حضرت کعب بن مالک کی مرویات

حضرت کعب سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن ابی حدرد پر ان کا کچھ قرض تھا ایک مرتبہ راستے میں ملاقات ہوگئی، حضرت کعب نے انہیں پکڑ لیا، باہمی تکرار میں آوازیں بلند ہوگئیں، اسی اثناء میں نبی ﷺ وہاں سے گزرے، نبی ﷺ نے اشارہ کرکے مجھ سے فرمایا کہ اس کا نصف قرض معاف کردو چناچہ انہوں نے نصف چھوڑ کر نصف مال لے لیا۔

【13】

حضرت کعب بن مالک کی مرویات

حضرت کعب سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب سفر پر جانا چاہتے تو جمعرات کے دن روانہ ہوتے تھے۔

【14】

حضرت کعب بن مالک کی مرویات

حضرت کعب سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کو جسم کے کسی بھی حصے میں درد ہو تو اسے چاہئے کہ درد کی جگہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر سات مرتبہ یوں کہے اعوذ بعزۃ اللہ وقدرتہ علی کل چیز من شرما اجد۔