8. کتاب صلوة اللیل

【1】

تہجد کا بیان

عائشہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو نماز پڑھے ہمیشہ رات کو پھر غالب آجائے اس پر نیند مگر یہ کہ اللہ جل جلالہ لکھے گا اس کے لئے ثواب نماز کا اور سونا اس کو صدقہ ہوگا۔

【2】

تہجد کا بیان

عائشہ سے روایت ہے کہ میں سوتی تھی سامنے رسول اللہ ﷺ کے اور پاؤں میرے آپ ﷺ کے سامنے تھے پس جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تھے آپ دبا دتیے تھے مجھ کو سو سمیٹ لیتی تھی میں پاؤں اپنے کہا حضرت عائشہ نے اور گھروں میں ان دنوں چراغ نہ تھے۔

【3】

تہجد کا بیان

حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جب اونگھنے لگے کوئی تم میں سے نماز میں تو سو رہے یہاں تک کہ نیند بھر جائے کیونکہ اگر نماز پڑھے گا اونگھتے ہوئے تو شاید وہ استغفار کرنا چاہے اور اپنے تئیں برا بولنے لگے۔

【4】

تہجد کا بیان

اسمعیل بن ابی حکیم کو پہنچا رسول اللہ ﷺ سے کہ آپ نے سنا ذکر ایک عورت کا جو نماز پڑھا کرتی تھی رات بھر تو پوچھا کہ کون ہے یہ عورت کہا لوگوں نے یہ حولاء ہے بیٹی تویت کی نہیں سوتی ہے رات کو تو برا معلوم ہوا رسول اللہ ﷺ کو یہ امر یہاں تک کہ معلوم ہوئی ناراضگی آپ کے چہرے سے پھر فرمایا آپ ﷺ نے خداوند کریم نہیں بیزار ہوتا تمہاری بیزرای تک اتنا عمل کر جسکی طاقت رکھو۔

【5】

تہجد کا بیان

اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رات کو نماز پڑھتے جتنا اللہ کو منظور ہوتا پھر جب اخیر رات ہوتی تو اپنے گھر والوں کو جگاتے نماز کے لئے اور کہتے ان سے نماز نماز، پھر پڑھتے اس آیت کو اور حکم کر اپنے گھر والوں کو نماز کا اور صبر کر اس کے لئے ہم نہیں مانگتے تجھ سے روٹی بلکہ ہم کھلاتے ہیں تجھ کو اور عاقبت کی بہتری پرہیزگاری سے ہے۔ سعید بن مسیب کہتے تھے مکروہ ہے سونا عشاء کی نماز سے پہلے اور باتیں کرنا بعد عشاء کے۔ امام مالک کو پہنچا حضرت عمر بن خطاب سے فرماتے تھے نفل نماز رات اور دن کی دو دو رکعتیں ہیں سلام پھیرے ہر دو رکعتوں کے بعد۔

【6】

وتر کا بیان

حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو گیارہ رکعتیں پڑھتے ایک رکعت ان میں سے وتر کی ہوتی جب فارغ ہوتے آپ ﷺ لیٹ جاتے داہنی کروٹ پر۔

【7】

وتر کا بیان

ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت کہ انہوں نے پوچھا حضرت عائشہ (رض) کیونکہ تھی نماز رسول اللہ ﷺ کی رمضان میں تو کہا حضرت عائشہ نے نہیں زیادہ کرتے تھے آپ ﷺ رمضان میں اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت پڑھتے تھے چار رکعتیں تو مت پوچھ ان کی خوبی اور طول کا حال پھر پڑھتے تھے چار رکعتیں تو مت پوچھ ان کی خوبی اور طول کا حال پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے پوچھا حضرت عائشہ نے یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ سو جاتے ہیں وتر پڑھنے سے پہلے فرمایا اے عائشہ میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا۔

【8】

وتر کا بیان

عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پڑھتے تھے رات کو تیرہ رکعتیں پھر جب اذان سنتے صبح کی تو پڑھ لیتے دو رکعتیں ہلکی پھلکی۔

【9】

وتر کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ وہ ایک رات رہے اپنی خالہ میمونہ کے پاس جو بی بی تھیں رسول اللہ ﷺ کی کہا ابن عباس نے لیٹا میں بستر کے عرض کی طرف اور آپ ﷺ کی بی بی لیٹیں بستر کے طرل میں پس سو گئے رسول اللہ ﷺ یہاں تک کہ جب آدھی رات ہوئی یا کچھ پہلے یا کچھ بعد اس کے جاگے رسول اللہ ﷺ تو بیٹھے آپ ﷺ اور ملنے لگے آنکھیں اپنے ہاتھ سے پھر پڑھیں دس آیتیں اخیر کی سورت آل عمران سے یعنی (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ ) 3 ۔ ال عمران : 190) سے اخیر سورت تک پھرگئے آپ ایک مشک کی پاس جو لٹک رہی تھی اور وضو کیا اس سے اچھی طرح پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے ابن عباس نے کہا میں بھی اٹھ کھڑا ہوا اور جیسا آپ ﷺ نے کیا ویسا ہی میں نے بھی کیا تو جب میں آپ ﷺ کے پاس گیا آپ ﷺ نے داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا داہنا کان پکڑ کر ملنے لگے پھر پڑھیں آپ ﷺ نے دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر وتر پڑھے پھر لیٹے رہے جب مؤذن آیا تو دو رکعتیں ہلکی پڑھیں پھر باہر نکلے اور نماز پڑھی صبح کی۔

【10】

وتر کا بیان

زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں ضرور دیکھوں گا نماز رسول اللہ ﷺ کی رات کو کہا زید نے کہ تکیہ لگایا میں نے آپ ﷺ کے مکان کی چوکھٹ پر یا گھر جو بالوں سے ڈھپا ہوا تھا پھر کھڑے ہوئے رسول اللہ ﷺ سو پڑھیں دو رکعتیں بہت لمبی بہت لمبی بہت لمبی پھر پڑھیں دو رکعتیں ان سے کچھ کم پھر پڑھیں دو رکعتیں ان سے کچھ کم پھر پڑھیں دو رکعتیں ان سے کچھ کم پھر پڑھیں دو رکعتیں ان سے کچھ کم پھر پڑھیں دو رکعتیں ان سے کچھ کم پھر ایک رکعت وتر کی پڑھی سب تیرہ رکعتیں پڑھیں۔

【11】

وتر کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا رسول اللہ ﷺ سے رات کی نماز کا تو فرمایا آپ ﷺ نے رات کی نماز دو رکعتیں ہیں اور جب ڈر ہو صبح ہونے کا پڑھ لے ایک رکعت جو طاق کر دے اس کی نماز کو۔

【12】

وتر کا بیان

عبداللہ بن محیریز سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بنی کنانہ سے جس کو مخدجی کہتے تھے سنا ایک شخص سے شام میں جن کی کنیت ابومحمد ہے کہتے تھے وتر واجب ہے مخدجی نے کہا کہ میں عبادہ بن صامت کے پاس گیا اور ابومحمد کے قول کو نقل کیا عبادہ نے کہا کہ جھوٹ کہا ابومحمد نے سنا میں نے رسول اللہ ﷺ سے فرماتے تھے پانچ نمازیں ہیں جو فرض کیں اللہ نے اپنے بندوں پر جو شخص ان کو پڑھے گا اور ہلکا جان کر ان کو نہ چھوڑے گا تو اللہ جل جلالہ نے اس کے لئے عہد کر رکھا ہے کہ جنت میں اس کو لے جائے گا اور جو شخص ان کو چھوڑ دے گا اللہ کے پاس اس کا کچھ عہد نہیں ہے چاہے اس کو عذاب کردیں چاہے جنت میں پہنچا دے۔

【13】

وتر کا بیان

سعید بن یسار سے روایت ہے کہ رات کو سفر میں ساتھ عبداللہ بن عمر کے راہ میں مکہ کی کہا سعید نے جب مجھے ڈر ہوا صبح کا تو میں اونٹ پر سے اترا وتر پڑھے پھر ان کو آگے بڑھ کر پالیا تو عبداللہ بن عمر نے مجھ سے پوچھا کہ تو کہاں تھا میں نے کہا مجھے صبح ہونے کا اندیشہ ہوا اس لئے میں نے اتر کر وتر پڑھے تو عبداللہ نے کہا کیا تو رسول اللہ ﷺ کی پیروی نہیں کرتا میں نے کہا واہ کیوں نہیں کہا عبداللہ نے پس رسول اللہ ﷺ تو وتر پڑھتے تھے اونٹ پر۔

【14】

وتر کا بیان

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ابوبکر جب سونے کو آتے اپنے بستر پر وتر پڑھ لیتے اور عمر بن خطاب آخر رات میں وتر پڑھتے تھے بعد تہجد کے اور سعید بن مسیب نے کہا کہ میں جب اپنے بچھونے پر سونے کو آتا ہوں تو وتر پڑھ لیتا ہوں۔ امام مالک کو پہنچا کہ ایک شخص نے پوچھا عبداللہ بن عمر سے کیا وتر واجب ہے تو کہا عبداللہ بن عمر نے وتر ادا کیا رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں نے۔ امام مالک کو پہنچا کہ بی بی عائشہ فرماتی تھیں جس شخص کو خوف ہو کہ اس کی آنکھ نہ کھلے گی صبح تک تو وہ وتر پڑھ لے سونے سے پیشتر اور جو امید رکھے جاگنے کی آخر شب میں تو وہ دیر کرے وتر میں۔

【15】

وتر کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ تھا میں عبداللہ بن عمر کے ساتھ مکہ کے راستہ میں اور آسمان پر ابر چھایا ہوا تھا تو ڈرے عبداللہ بن عمر صبح ہوجانے سے پس پڑھی ایک رکعت وتر کی پھر کھل گیا ابر تو دیکھا ابھی رات باقی ہے پس دوگانہ کیا اس رکعت کو ایک رکعت اور پڑھ کر پھر اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں پھر جب خوف ہوا صبح کا تو ایک رکعت وتر پڑھی۔

【16】

وتر کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سلام پھیر تے تھے دو رکعت وتر کی پڑھ کر اور کچھ کام ہوتا تو اس کو کہہ دیتے پھر ایک رکعت پڑھتے تھے۔

【17】

وتر کا بیان

ابن شہاب سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص وتر پڑھتے تھے بعد عشاء کے ایک رکعت۔

【18】

وتر پڑھنا بعد فجر ہوجانے کے

سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس سو رہے پھر جاگے تو کہا آپ نے خادم سے دیکھو لوگ کیا کر رہے ہیں اور ان دنوں میں عبداللہ بن عباس کی بصارت جاتی رہی تھی سو گیا خادم پھر آیا اور کہا کہ لوگ پڑھ چکے صبح کی نماز تو کھڑے ہوئے عبداللہ بن عباس اور وتر پڑھے پھر نماز پڑھی صبح کی۔

【19】

وتر پڑھنا بعد فجر ہوجانے کے

عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ مجھے کچھ ڈر نہیں ہے اگر میں وتر پڑھتا ہوں اور تکبیر ہوجائے صبح کی نماز کی۔

【20】

وتر پڑھنا بعد فجر ہوجانے کے

یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت امامت کرتے تھے ایک قوم کی تو نکلے ایک روز صبح کی نماز کے لئے اور مؤذن نے تکبیر کہی پس خاموش کیا عبادہ نے مؤذن کو یہاں تک کہ وتر پڑھا پھر نماز پڑھائی صبح کی۔

【21】

وتر پڑھنا بعد فجر ہوجانے کے

عبدالرحمن بن قاسم سے روایت ہے کہ سنا انہوں نے عبداللہ بن عامر سے وہ کہتے تھے میں وتر پڑھتا ہوں اور سنا کرتا ہوں تکبیر صبح کی یا وتر پڑھتا ہوں بعد فجر کے شک ہے عبدالرحمن کو کس طرح کہا انہوں نے۔

【22】

وتر پڑھنا بعد فجر ہوجانے کے

عبدالرحمن بن قاسم نے سنا اپنے باپ سے وہ کہتے تھے میں وتر پڑھتا ہوں بعد فجر ہوجانے کے۔

【23】

صبح کی سنتوں کا بیان

حضرت ام المومنین حفصہ سے روایت ہے کہ جب اذان ہو چکتی صبح کی تو پڑھتے تھے رسول اللہ ﷺ دو رکعتیں ہلکی، جماعت کھڑی ہونے سے پیشتر۔

【24】

صبح کی سنتوں کا بیان

حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جلد پڑھتے فجر کی سنتوں کو یہاں تک کہ میں کہتی تھی سورت فاتحہ بھی پڑھی آپ ﷺ نے یا نہیں۔

【25】

صبح کی سنتوں کا بیان

ابو سلمہ بن عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ لوگوں نے تکبیر سنی تو کھڑے ہو کر پڑھنے لگے سنتوں کو تب نکلے رسول اللہ ﷺ اور فرمایا کیا دو دو نمازیں ایک ساتھ کیا دو دو نمازیں ایک ساتھ اور فرمایا آپ ﷺ نے یہ صبح کی نماز میں ان دو رکعتوں میں جو پڑھی جاتی قبل نماز صبح کے۔

【26】

صبح کی سنتوں کا بیان

امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عمر کی فوت ہوگئیں سنتیں فجر کی تو پڑھ لیں انہوں نے بعد آفتاب نکلنے کے۔ قاسم بن محمد سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔