3. تیمم کا بیان

【1】

تمیم کا بیان۔

عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کا ہار ٹوٹ کر گرگیا ، وہ اس کی تلاش میں پیچھے رہ گئیں، ابوبکر (رض) عائشہ (رض) کے پاس گئے، اور ان پہ ناراض ہوئے، کیونکہ ان کی وجہ سے لوگوں کو رکنا پڑا، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے تیمم کی اجازت والی آیت نازل فرمائی، عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے اس وقت مونڈھوں تک مسح کیا، اور ابوبکر (رض) عائشہ (رض) کے پاس آئے، اور کہنے لگے : مجھے معلوم نہ تھا کہ تم اتنی بابرکت ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٢٣ (٣١٨، ٣١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٦٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الطہارة ١٩٦ (٣١٣) ، مسند احمد (٤/٢٦٣، ٢٦٤، ٣٢٠، ٣٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے ام المؤمنین عائشہ (رض) کی فضیلت ثابت ہوئی، اسی طرح اس حدیث سے اور اس کی بعد کی احادیث سے مونڈھوں تک کا مسح ثابت ہوتا ہے، لیکن یہ منسوخ ہے، اب حکم صرف منہ اور پہنچوں تک مسح کرنے کا ہے، جیسا کہ آگے آنے والی احادیث سے ثابت ہے۔

【2】

تمیم کا بیان۔

عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مونڈھوں تک تیمم کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ١٩٨ (٣١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٥٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٢٣ (٣١٨) (صحیح )

【3】

تمیم کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زمین میرے لیے نماز کی جگہ اور پاک کرنے والی بنائی گئی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١ (٥٢٣) ، سنن الترمذی/السیر ٥ (١٥٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٣٧، ١٣٩٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ساری زمین پر نماز کی ادائیگی صحیح ہے، اور پاک کرنے والی کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک قسم کی زمین پر تیمم صحیح ہے، اور نبی اکرم ﷺ سے دیوار پر تیمم کرنا ثابت ہے، لیکن شافعی اور احمد اور ابوداؤد کے یہاں زمین سے مٹی مراد ہے، اور مالک، ابوحنیفہ، عطاء، اوزاعی اور ثوری کا قول ہے کہ تیمم زمین پر اور زمین کی ہر چیز پر درست ہے، مگر امام مسلم کی ایک روایت میں تربت کا لفظ ہے، اور ابن خزیمہ کی روایت میں تراب کا، اور امام احمد اور بیہقی نے باسناد حسن علی (رض) سے روایت کی ہے : و جعل التراب لي طهوراً یعنی مٹی میرے لئے پاک کرنے والی کی گئی، اس سے ان لوگوں کی تائید ہوئی ہے، جو تیمم کو مٹی سے خاص کرتے ہیں، اور زمین کے باقی اجزاء سے تیمم کو جائز نہیں کہتے، اور قرآن میں جو صعید کا لفظ ہے اس سے بھی بعضوں نے مٹی مراد لی ہے، اور لغت والوں کا اس میں اختلاف ہے، بعضوں نے کہا : صعید روئے زمین کو کہتے ہیں، پس وہ زمین کے سارے اجزاء کو عام ہوگا، ایسی حالت میں احتیاط یہ ہے کہ تیمم پاک مٹی ہی سے کیا جائے، تاکہ سب لوگوں کے نزدیک درست ہو، واللہ اعلم۔

【4】

تمیم کا بیان۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ انہوں نے اسماء (رض) سے ایک ہار عاریۃً لیا، اور وہ کھو گیا، نبی اکرم ﷺ نے اسے ڈھونڈنے کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا، اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا، لوگوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی، جب لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس واپس آئے تو آپ سے اس کی شکایت کی، تو اس وقت تیمم کی آیت نازل ہوئی، اسید بن حضیر (رض) نے عائشہ (رض) سے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے، اللہ کی قسم ! جب بھی آپ کو کوئی مشکل پیش آئی، اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اس سے نجات کا راستہ پیدا فرما دیا، اور مسلمانوں کے لیے اس میں برکت رکھ دی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التیمم ٢ (٣٣٦) ، فضائل الصحابة ٣٠ (٣٧٧٣) ، النکاح ٦٦ (٥١٦٤) ، صحیح مسلم/التیمم ٢٨ (٣٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٠٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہا رة ١٢٣ (٣١٧) ، سنن النسائی/الطہارة ١٩٧ (٣١٥) ، موطا امام مالک/الطہارة ٢٣ (٨٩) ، مسند احمد (٦ /٥٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ٦٥ (٧٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جیسے ام المؤمنین عائشہ (رض) پر الزام تراشی اور بہتان کا نازیبا واقعہ پیش آیا تھا تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی عفت و پاکدامنی ظاہر کردی، اور مومنات کے لئے احکام معلوم ہوئے، اسید (رض) کا مقصد کلام یہ تھا کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) پر اللہ تعالیٰ کی عنایت ہمیشہ ہی رہی ہے، اور ہر تکلیف و آزمائش میں ایک برکت پیدا ہوتی ہے۔

【5】

تمیم میں ایک مرتبہ ہاتھ مارنا

عبدالرحمٰن بن ابزی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی عمر بن خطاب (رض) کے پاس آیا، اور کہا کہ میں جنبی ہوگیا اور پانی نہیں پایا، تو عمر (رض) نے کہا : نماز نہ پڑھو، اس پر عمار بن یاسر (رض) نے کہا : امیر المؤمنین ! کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ ایک لشکر میں تھے، ہم جنبی ہوگئے، اور ہمیں پانی نہ مل سکا تو آپ نے نماز نہیں پڑھی، اور میں مٹی میں لوٹا، اور نماز پڑھ لی، جب میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا : تمہارے لیے بس اتنا کافی تھا ، اور نبی اکرم ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، پھر ان دونوں میں پھونک ماری، اور اپنے چہرے اور دونوں پہنچوں پر اسے مل لیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التیمم ٤ (٣٣٨) ، ٥ (٣٣٩) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٨ (٣٦٨) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٢٣ (٣٢٢، ٣٢٣) ، سنن الترمذی/الطہارة ١١٠ (١٤٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١٩٦ (٣١٣) ، ١٩٩ (٣١٧) ، ٢٠٠ (٣١٨) ، ٢٠١ (٣١٩) ، ٢٠٢ (٣٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٦٣، ٢٦٥، ٣١٩، ٣٢٠، سنن الدارمی/الطہارة ٦٦ (٧٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تیمم یہی ہے کہ زمین پر ایک بار ہاتھ مار کر منہ اور دونوں پہنچوں پر مسح کرے، اور جنابت سے پاکی کا طریقہ حدث کے تیمم کی طرح ہے، اور عمر (رض) کو باوصف اتنے علم کے اس مسئلہ کی خبر نہ تھی، اسی طرح عبد اللہ بن مسعود (رض) کو، یہ دونوں جلیل القدر صحابہ جنبی کے لئے تیمم جائز نہیں سمجھتے تھے، اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ کبھی بڑے عالم دین پر معمولی مسائل پوشیدہ رہ جاتے ہیں، ان دونوں کے تبحر علمی اور جلالت شان میں کسی کو کلام نہیں ہے، لیکن حدیث اور قرآن کے خلاف ان کا قول بھی ناقابل قبول ہے، پھر کتاب و سنت کے دلائل کے سامنے دوسرے علماء کے اقوال کی کیا حیثیت ہے، اس قصہ سے معلوم ہوا کہ ہمیں صرف رسول اکرم ﷺ کے اسوہ سے مطلب ہے۔

【6】

تمیم میں ایک مرتبہ ہاتھ مارنا

حکم اور سلمہ بن کہیل نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے تیمم کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا نبی اکرم ﷺ نے عمار (رض) کو اس طرح کرنے کا حکم دیا، پھر عبداللہ بن ابی اوفی (رض) نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے، اور انہیں جھاڑ کر اپنے چہرے پر مل لیا۔ حکم کی روایت میں يديه اور سلمہ کی روایت میں مرفقيه کا لفظ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٦٠، ومصباح الزجاجة : ٢٣٠) (صحیح) (سند میں محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف الحفظ ہیں، اصل حدیث شواہد و طرق سے ثابت ہے لیکن مرفقیہ کا لفظ منکر ہے ) وضاحت : ١ ؎: يديه یعنی دونوں ہاتھوں پر مل لیا، اور سلمہ بن کہیل کی روایت میں مرفقيه یعنی کہنیوں تک مل لیا کا لفظ ہے، جو منکر اور ضعیف ہے، جیسا کہ تخریج سے پتہ چلا مرفقيه کا لفظ منکر ہے، لہذا اس سے استدلال درست نہیں، اور یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ کہنیوں تک مسح کرنے میں احتیاط ہے بلکہ احتیاط اسی میں ہے جو صحیح حدیث میں آیا ہے۔

【7】

تمیم میں دو مرتبہ ہاتھ مارنا

عمار بن یاسر (رض) سے روایت ہے کہ جب لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تیمم کیا، تو آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا، تو انہوں نے اپنی ہتھیلیاں مٹی پر ماریں اور ہاتھ میں کچھ بھی مٹی نہ لی، پھر اپنے چہروں پر ایک بار مل لیا، پھر دوبارہ اپنی ہتھیلیوں کو مٹی پر مارا، اور اپنے ہاتھوں پر مل لیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٢٣ (٣١٨، ٣١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٦٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الطہارة ١٩٦ (٣١٣) ، مسند احمد (٤/٣٢٠، ٣٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعض علماء نے اس حدیث سے دلیل لی ہے، اور تیمم میں دو بار ہتھیلی کو مٹی پر مار کر چہرے اور ہاتھوں پر ملنے کی بات کہی ہے، لیکن صحیحین میں اس کے خلاف مروی ہے، اور ایک ہی بار منقول ہے، اور امام احمد نے باسناد صحیح عمار (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : تیمم ایک بار ہے چہرہ کے لئے اور دونوں ہتھیلیوں کے لئے ۔ اور شاید صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پہلی بار میں ہاتھ میں مٹی نہ لگنے کی وجہ سے دوبارہ مٹی پر ہاتھ مارا، ورنہ عمار بن یاسر کی ایک ضربہ والی واضح حدیث کی بنا پر جمہور علماء اور عام اہل حدیث کا مذہب ایک ضربہ ہی ہے، جیسا کہ اوپر کی حدیث میں گزرا۔ (نیز ملاحظہ ہو : نیل الأوطار ١ /٣٣٢ )

【8】

زخمی جنبی ہوجائے اور نہانے میں جان کا اند یشہ ہو۔

عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سنا وہ بتا رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص کے سر میں زخم ہوگیا، پھر اسے احتلام ہوا، تو لوگوں نے اسے غسل کا حکم دیا، اس نے غسل کرلیا جس سے اسے ٹھنڈ کی بیماری ہوگئی، اور وہ مرگیا، یہ خبر نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا : ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ انہیں ہلاک کرے، کیا عاجزی (لاعلمی کا علاج مسئلہ) پوچھ لینا نہ تھا ۔ عطاء نے کہا کہ ہمیں یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کاش وہ اپنا جسم دھو لیتا اور اپنے سر کا زخم والا حصہ چھوڑ دیتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٩٠٤، ومصباح الزجاجة : ٢٣١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٢٧ (٣٣٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ٧٠ (٧٧٩) (حسن) (عطاء کا قول : وبلغنا أن النبي صلى الله عليه وسلم ضعیف ہے کیونکہ انہوں نے واسطہ نہیں ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٣٦٤ ) وضاحت : ١ ؎: مصباح الزجاجۃ (ط۔ مصریہ) میں آخر متن میں لأجزه ہے۔

【9】

غسل جنابت

ام المؤمنین میمونہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا، آپ نے غسل جنابت کیا اور برتن کو اپنے بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ پر انڈیلا، اور دونوں ہتھیلی کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنی شرمگاہ پہ پانی بہایا، پھر اپنا ہاتھ زمین پر رگڑا، پھر کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، اور اپنا چہرہ اور بازو تین تین بار دھویا، پھر پورے جسم پر پانی بہایا، پھر غسل کی جگہ سے ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ١ (٢٤٩) ، ٥ (٢٥٧) ، ٧ (٢٥٩) ، ٨ (٢٦٠) ، ١٠ (٢٦٥) ، ١١ (٢٦٦) ، ١٦ (٢٧٤) ، ١٨ (٢٧٦) ، ٢١ (٢٨١) ، صحیح مسلم/الحیض ٩ (٣١٧) ، سنن ابی داود/الطہارة ٩٨ (٢٤٥) ، سنن الترمذی/الطہارة ٧٦ (١٠٣) ، سنن النسائی/الطہارة ١٦١ (٢٥٤) ، الغسل ١٤ (٤٠٨) ، ١٥ (٤١٨، ٤١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٣٠، ٣٣٥، ٣٣٦) ، سنن الدارمی/الطہارة ٤٠ (٧٣٩) ، ٦٧ (٧٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ غسل کا مسنون طریقہ ہے، اور اس کی روشنی میں ضروری ہے کہ سارے بدن پر پانی پہنچائے، یا پانی میں ڈوب جائے، کلی کرنی اور ناک میں پانی ڈالنا بھی ضروری ہے، اور جس قدر ممکن ہو بدن کا ملنا بھی ضروری ہے، باقی امور آداب اور سنن سے متعلق ہیں۔

【10】

غسل جنابت

جمیع بن عمیر تیمی کہتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی اور خالہ کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس گیا، ہم نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ غسل جنابت کیسے کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ پر تین مرتبہ پانی ڈالتے، پھر انہیں برتن میں داخل کرتے، پھر اپنا سر تین مرتبہ دھوتے، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہاتے، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوتے، لیکن ہم عورتیں تو اپنے سر کو چوٹیوں کی وجہ سے پانچ بار دھوتی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٩٨ (٢٤١) ، (تحفةالأشراف : ١٦٠٥٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ١٧ (٦٧) ، مسند احمد (٦/٢٧٣) ، سنن الدارمی/الطہارة ٦٧ (٧٧٥) (ضعیف جدا) (سند میں جمیع بن عمیر رافضی اور واضع حدیث ہے، نیز صدقہ بن سعید کے یہاں عجائب وغرائب ہیں )

【11】

غسل جنابت کا بیان

جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کے پاس غسل جنابت کے بارے میں بحث و مباحثہ کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں تو اپنے سر پہ تین چلو پانی ڈالتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٤ (٢٥٤) ، صحیح مسلم/الحیض ١١ (٣٢٧) ، سنن ابی داود/الطہارة ٩٨ (٢٣٩) ، سنن النسائی/الطہارة ٢٥١ (٢٥٠) ، الغسل ٢٠ (٤٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٦) (صحیح )

【12】

غسل جنابت کا بیان

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے غسل جنابت کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا : تین بار (سارے جسم پر پانی بہائیں) تو وہ کہنے لگا : میرے بال زیادہ ہیں، اس پر انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ تم سے زیادہ بال والے تھے، اور تم سے زیادہ پاک و صاف رہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : (تفرد بہ ابن ماجہ) (صحیح) (اس سند میں عطیہ ضعیف راوی ہیں، لیکن ابوہریرہ کی اگلی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، یہ حدیث تحفة الاشراف میں فضيل بن مرزوق عن عطية عن أبي سعيد کے زیر عنوان موجود نہیں ہے، اور نہ ہی ابن حجر نے النکت الظراف میں اس پر کوئی استدراک کیا ہے، اور نہ ہی یہ مصباح الزجاجة میں موجود ہے لیکن غاية المقصد في زوائد المسند (ق 37) میں موجود ہے، ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ابن ماجہ کے قدیم نسخوں میں یہ حدیث موجود نہیں ہے )

【13】

غسل جنابت کا بیان

جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں سرد علاقہ میں رہتا ہوں، غسل جنابت کیسے کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں تو اپنے سر پر تین چلو پانی ڈالتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١١ (٣٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٠٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ٣ (٢٥٢) ، مسند احمد (٣/ ٣١٩، ٣٤٨، ٣٧٩) (صحیح )

【14】

غسل جنابت کا بیان

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ کسی شخص نے ان سے پوچھا : جب میں غسل جنابت کروں تو اپنے سر پر کتنا پانی ڈالوں ؟ کہا : رسول اللہ ﷺ اپنے سر پر تین پانی چلو ڈالتے تھے، اس پر اس شخص نے کہا : میرے بال لمبے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ رسول ﷺ تم سے زیادہ بال والے، اور زیادہ پاک و صاف رہنے والے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥١) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں واضح طور پر یہ بات موجود ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو سر پر ڈالنے کے لیے تین لپ پانی کافی ہوتا تھا، حقیقت یہ ہے کہ تین لپ میں سارا سر بخوبی تر ہوجاتا ہے، اور وہ غسل میں کافی ہے۔

【15】

غسل کے بعد وضو۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غسل جنابت کے بعد وضو نہیں کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٧٩ (١٠٧) ، سنن النسائی/الطہارة ١٦٠ (٢٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠١٩، ١٦٠٢٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٩٩ (٢٥٠) ، مسند احمد (٦/٦٨، ١١٩، ١٥٤، ١٩٢، ٢٥٣، ٢٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ غسل جنابت سے پہلے وضو کرلیتے تھے، پھر غسل کے بعد آپ نیا وضو نہ فرماتے۔

【16】

جنبی غسل کر کے اپنی بیوی سے گرمی حاصل کرسکتا ہے اسکے غسل کرنے سے قبل

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غسل جنابت فرماتے، پھر میرے غسل کرنے سے پہلے مجھ سے گرمی حاصل کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٩١ (١٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٢٠) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں راوی حریث ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ جنابت حکمی نجاست ہے، اور اگر اس پر اور کوئی نجاست نہ لگی ہو تو جنبی کا بدن پاک ہے۔

【17】

جنبی اس حالت میں سو سکتا ہے پانی کو ہاتھ لگائے بغیر

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جنبی ہوتے، اور پانی چھوے بغیر سو جاتے، پھر اس کے بعد اٹھتے اور غسل فرماتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٨٧ (١١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٢٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٩٠ (٢٢٨) ، مسند احمد (٦/٤٣) (صحیح) (اس سند میں ابو اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے )

【18】

جنبی اس حالت میں سو سکتا ہے پانی کو ہاتھ لگائے بغیر

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو اگر اپنی بیوی سے کوئی حاجت ہوتی تو اسے پوری فرماتے، پھر پانی چھوئے بغیر اسی حالت میں سو جاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جنبی اگر بغیر غسل کے سونے کا ارادہ کرے تو مستحب یہ ہے کہ وہ وضو کرلے، اور اگر نہ کرے تو بھی جائز ہے جیسا کہ اس حدیث اور اس سے پہلے کی حدیث میں مذکور ہے۔

【19】

جنبی اس حالت میں سو سکتا ہے پانی کو ہاتھ لگائے بغیر

ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جنبی ہوتے، پھر پانی چھوئے بغیر اسی حالت میں سو جاتے۔ سفیان ثوری کہتے ہیں کہ میں نے ایک روز یہ حدیث بیان کی تو مجھ سے اسماعیل نے کہا : اے نوجوان ! اس حدیث کو کسی دوسری حدیث سے تقویت دی جانی چاہیئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٩٠ (٢٢٨) ، سنن الترمذی/الطہارة ٨٧ (١١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ١٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیوں کہ اس کے راوی ابواسحاق ہیں، اگرچہ وہ ثقہ ہیں، لیکن اخیر عمر میں ان کا حافظہ بگڑ گیا تھا، پس حدیث میں غلطی کا شبہ ہوتا ہے، خصوصاً جب اس کے خلاف دوسری صحیح روایتیں وارد ہوں جو آگے مذکور ہوں گی۔

【20】

اس بیان میں کہ جنبی نماز کی طرح وضو کئے بغیر نہ سوئے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سونے کا ارادہ کرتے، اور جنبی ہوتے تو نماز جیسا وضو کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٥) ، سنن ابی داود/الطہارة ٨٩ (٢٢٢، ٢٢٣) ، سنن النسائی/الطہارة ١٦٤ (٢٥٧) ، ١٦٥ (٢٥٨) ، ١٦٦ (٢٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٦٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ٢٥ (٢٨٦) ، مسند احمد (٦/٨٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ٧٣ (٧٨٤) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٥٩١، ٥٩٣) (صحیح )

【21】

اس بیان میں کہ جنبی نماز کی طرح وضو کئے بغیر نہ سوئے۔

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : کیا کوئی شخص حالت جنابت میں سو سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، جب وضو کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٠١٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ٢٧ (٢٨٨) ، صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٦) ، سنن ابی داود/الطہارة ٨٨ (٢٢٢) ، سنن الترمذی/الطہارة ٨٨ (١٢٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١٦٦ (٢٦٠) ، موطا امام مالک/الطہارة ١٩ (٧٦) ، مسند احمد (٢/١٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ٧٣ (٧٨٣) (صحیح )

【22】

اس بیان میں کہ جنبی نماز کی طرح وضو کئے بغیر نہ سوئے۔

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ انہیں رات میں جنابت لاحق ہوتی اور سونا چاہتے تو رسول اللہ ﷺ انہیں حکم دیتے کہ وہ وضو کر کے سوئیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٠١، ومصباح الزجاجة : ٢٣٢) ، مسند احمد (٢/٧٥، ٣/٥٥) (صحیح )

【23】

جنبی دوبارہ جماع کرنا چاہے تو وضو کر لے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص اپنی بیوی سے جماع کرے پھر دوبارہ ہمبستری کرنا چاہے، تو وضو کرلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٨) ، سنن ابی داود/الطہارة ٨٦ (٢٢٠) ، سنن الترمذی/الطہارة ١٠٧ (١٤١) ، سنن النسائی/الطہارة ١٦٩ (٢٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٧، ٢١، ٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس میں نفاست، نظافت، صفائی اور لذت سب کچھ ہے، علماء نے کہا ہے کہ جنبی جب کھانے یا پینے یا جماع یا سونے کا ارادہ کرے، تو اپنا عضو تناسل دھو ڈالے، اور نماز کا سا وضو کرلے، اور بعضوں نے کہا کہ جنبی جب کھانے یا پینے کا ارادہ کرے تو صرف ہاتھ دھو لینا کافی ہے، اور وضو سے یہی مراد ہے، اور جمہور کا یہی قول ہے واللہ اعلم۔

【24】

سب بیویوں سے صحبت کر کے ایک ہی غسل کرنا

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنی ساری بیویوں کے پاس ہو آنے کے بعد آخر میں ایک غسل کرلیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ١٠٦ (١٤٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١٧٠ (٢٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ١٢ (٢٦٨) ، ١٧ (٢٧٥) ، النکاح ٤ (٥٠٦٨) ، ١٠٢ (٥٢١٥) ، صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٩) ، سنن ابی داود/الطہارة ٨٥ (٢١٨) ، مسند احمد (٣/ ١٦١، ١٨٥، ٢٢٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ٧١ (٧٨٠) (صحیح )

【25】

سب بیویوں سے صحبت کر کے ایک ہی غسل کرنا

انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا تو آپ نے رات میں اپنی ساری بیویوں سے صحبت کے بعد (ایک ہی) غسل کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٤) (صحیح) (اگلی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں صالح بن أبی الأخضر ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یہ باری کے خلاف نہیں ہے کیونکہ باری میں ایک عورت کے پاس رات کو صرف رہنا کافی ہے صحبت کرنا ضروری نہیں، دوسرے یہ کہ جب عورتوں سے صحبت کی تو یہ بھی باری کی طرح ہوگیا، اور بعضوں نے کہا کہ آپ ﷺ پر باری واجب نہ تھی۔

【26】

جو ہر بیوی کے پاس الگ غسل کرے

ابورافع (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک رات میں اپنی تمام بیویوں کے پاس ہو آئے ١ ؎، اور ہر ایک کے پاس غسل کرتے رہے، آپ سے پوچھا گیا : اللہ کے رسول ! آپ آخر میں ایک ہی غسل کیوں نہیں کرلیتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : یہ طریقہ زیادہ پاکیزہ، عمدہ اور بہترین ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٨٦ (٢١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨، ١٠، ٣٩١) (حسن) (سند میں سلمی غیر معروف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے) ۔ وضاحت : ١ ؎: سبحان اللہ ہمارے نبی ﷺ نہایت نفیس مزاج اور صفائی پسند تھے، اور اسی وجہ سے آپ کو خوشبو بہت پسند تھی، اور بدبو سے بڑی نفرت تھی، آپ کو اپنے لباس، گھر، بدن اور ہر چیز کی طہارت اور پاکیزگی کا بڑا خیال رہتا تھا جیسے دوسری حدیثوں سے ثابت ہے، یہاں تک کہ آپ ﷺ ان چیزوں کے کھانے سے بھی پرہیز کرتے تھے جن کی بو ناگوار ہوتی، جیسے : کچے پیاز یا لہسن وغیرہ۔ ٢ ؎: ممکن ہے ایسا نبی اکرم ﷺ نے سفر سے آنے پر یا ایک باری پوری ہوجانے، اور دوسری باری کے شروع کرنے سے پہلے کیا ہو، یا تمام بیویوں کی رضا مندی سے ایسا کیا ہو۔

【27】

جنبی کھاپی سکتا ہے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کھانے کا ارادہ کرتے اور جنبی ہوتے، تو وضو کرلیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٥) ، سنن ابی داود/الطہارة ٨٩ (٢٢٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١٦٣ (٢٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٢٦، ١٣٤، ١٩١، ١٩٢، ٢٣٥، ٢٦٠، ٢٧٣) ، سنن الدارمی/الطہارة ٧٣ (٧٨٤) (صحیح )

【28】

جنبی کھاپی سکتا ہے۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے جنبی کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ (بحالت جنابت) سو سکتا ہے، یا کھا پی سکتا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، جب وہ نماز جیسا وضو کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٨٠) (صحیح) (سند میں شرحبیل ہیں، جن کو آخری عمر میں اختلاط ہوگیا تھا، لیکن سابقہ حدیث ام المومنین عائشہ (رض) سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【29】

جنبی کے لئے ہاتھ دھو نا کافی ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب کھانے کا ارادہ کرتے اور آپ جنبی ہوتے، تو اپنے ہاتھ دھو لیتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٥٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث اس سے پہلے والے باب کی حدیث سے بظاہر متعارض ہے، مگر تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ کبھی بیان جواز کے لئے صرف دونوں ہاتھ دھونے پر اکتفا کرتے، اور کبھی مکمل وضو کرتے۔

【30】

ناپا کی کی حالت میں قرآن پڑھنا

عبداللہ بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب (رض) کے پاس گیا، تو انہوں نے کہا : نبی اکرم ﷺ بیت الخلاء جاتے اور اپنی حاجت پوری فرماتے، پھر واپس آ کر ہمارے ساتھ روٹی اور گوشت کھاتے، قرآن پڑھتے، آپ کو قرآن پڑھنے سے جنابت کے سوا کوئی چیز نہ روکتی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٩١ (٢٢٩) ، سنن الترمذی/الطہارة ١١١ (١٤٦) ، سنن النسائی/الطہارة ١٧١ (٢٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٤، ١٢٤) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن سلمہ ضعیف ہیں، امام بخاری نے ان کے بارے میں کہا : لا يتابع على حديثه ان حدیث کی متابعت نہیں ہوگی ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ صرف جنابت کی حالت میں قرآن نہیں پڑھتے تھے۔

【31】

ناپا کی کی حالت میں قرآن پڑھنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنبی اور حائضہ قرآن نہ پڑھیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٩٨ (١٣١) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٧٤) (منکر) (سند میں اسماعیل بن عیاش کی روایت اہل حجاز سے ضعیف ہے، اور موسیٰ بن عقبہ حجازی ہیں، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٩٢ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نہ کم نہ زیادہ، امام شافعی کا یہی قول ہے، لیکن ذکر و دعا کے مقصد سے بسم اللہ یا الحمد للہ کہنا درست اور جائز ہے، تلاوت کے مقصد سے نہیں اور امام مالک نے حائضہ عورت کے لئے قرآن کی تلاوت کو جائز کہا ہے۔

【32】

ناپا کی کی حالت میں قرآن پڑھنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنبی اور حائضہ کچھ بھی قرآن نہ پڑھیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (منکر) (سابقہ حدیث ملاحظہ ہو )

【33】

ہر بال کے نیچے جنابت ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر بال کے نیچے جنابت ہے، لہٰذا تم بالوں کو دھویا کرو، اور بدن کی جلد کو صاف کیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٩٨ (٢٤٨) ، سنن الترمذی/الطہا رة ٧٨ (١٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٠٢) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں حارث بن وجیہ ضعیف ہیں )

【34】

ہر بال کے نیچے جنابت ہے

ابوایوب انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : روزانہ پانچوں نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک، اور امانت کی ادائیگی ان کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہیں ، میں نے پوچھا : امانت کی ادائیگی سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : غسل جنابت، کیونکہ ہر بال کے نیچے جنابت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٤٦١، ومصباح الزجاجة : ٢٣٣) (ضعیف) (طلحہ بن نافع کا سماع ابو ایوب (رض) سے ثابت نہیں ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٨٠١ ، و ضعیف ابی داود : ٣٧ ) وضاحت : ١ ؎: (فواد عبدالباقی کے نسخہ میں بينها ہے )

【35】

ہر بال کے نیچے جنابت ہے

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے غسل جنابت کے وقت اپنے جسم سے ایک بال کی مقدار بھی چھوڑ دیا اور اسے نہ دھویا، تو اس کے ساتھ آگ سے ایسا اور ایسا کیا جائے گا ۔ علی (رض) کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے میں نے اپنے بالوں سے دشمنی کرلی، وہ اپنے بال خوب کاٹ ڈالتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٩٨ (٢٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٤، ١٠١، ١٣٣) ، سنن الدارمی/الطہارة ٦٩ (٧٧٨) (ضعیف) (سند میں عطاء بن سائب ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ جب بال بڑے ہوں تو اکثر احتمال رہ جاتا ہے کہ شاید سارا سر نہ بھیگا ہو، کوئی مقام سوکھا رہ گیا ہو، علی (رض) بالوں کو کترتے تھے، بال کاٹنا سارے سر کے منڈانے سے افضل ہے، مگر حج میں پورے بال منڈانا افضل ہے۔

【36】

عورت خواب میں وہ دیکھے جو مرد دیکھتا ہے

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ ام سلیم (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں، اور آپ سے پوچھا کہ اگر عورت خواب میں ویسا ہی دیکھے جیسا مرد دیکھتا ہے تو کیا کرے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، جب پانی (منی) دیکھے تو غسل کرے ، میں نے ام سلیم (رض) سے کہا : تم نے تو عورتوں کو رسوا کیا یعنی ان کی جگ ہ نسائی کا سامان مہیا کرا دیا، کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہارا بھلا ہو، اگر ایسا نہیں ہوتا تو کس وجہ سے بچہ اس کے مشابہ ہوتا ہے ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٥٠ (١٣٠) ، الغسل ٢٢ (٢٨٢) ، الأنبیاء ١ (٣٣٢٨) ، الأدب ٦٨ (٦٠٩١) ، ٧٩ (٦١٢١) ، صحیح مسلم/الحیض ٧ (٣١٣) ، سنن الترمذی/الطہارة ٩٠ (١٢٢) ، سنن النسائی/الطہارة ١٣١ (١٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٦٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٢١ (٨٥) ، مسند احمد (٦/ ٢٩٢، ٣٠٢، ٣٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تو معلوم ہوا کہ بچہ کی پیدائش میں مرد اور عورت دونوں کا نطفہ شریک ہوتا ہے، اور جب عورت کی منی بھی ثابت ہوئی تو خواب میں اس کی منی کا نکلنا کیا بعید ہے، جیسے مرد کی منی نکلتی ہے۔

【37】

عورت خواب میں وہ دیکھے جو مرد دیکھتا ہے

انس (رض) سے روایت ہے کہ ام سلیم (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کہ عورت اپنے خواب میں وہی چیز دیکھے جو مرد دیکھتا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب وہ ایسا دیکھے اور اسے انزال ہو، تو اس پر غسل ہے ، ام سلمہ (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا ایسا بھی ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، مرد کا پانی سفید اور گاڑھا ہوتا ہے، اور عورت کا پانی زرد اور پتلا ہوتا ہے، ان دونوں میں سے جس کا پانی پہلے ماں کے رحم (بچہ دانی) میں پہنچ جائے یا غالب رہے، بچہ اسی کے ہم شکل ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٧ (٣١١) ، سنن النسائی/الطہارة ١٣١ (١٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٢١، ١٩٩، ٢٨٢) ، سنن الدارمی/الطہارة ٧٦ (٧٩١) (صحیح )

【38】

عورت خواب میں وہ دیکھے جو مرد دیکھتا ہے

خولہ بنت حکیم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عورت کے اپنے خواب میں اس چیز کے دیکھنے سے متعلق سوال کیا جو مرد دیکھتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب تک انزال نہ ہو اس پر غسل نہیں، جیسے مرد پر بغیر انزال کے غسل نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢٧، ومصباح الزجاجة : ٢٣٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الطہارة ١٣١ (١٩٨) ، مسند احمد (٦/٤٠٩) ، سنن الدارمی/الطہارة ٧٦ (٧٨٩) (حسن) (سند میں علی بن زید ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢١٨٧ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مرد کو اگر صرف خواب دکھائی دے لیکن منی نہ نکلے تو غسل لازم نہیں ہے، اسی طرح عورت اگر خواب دیکھے اور منی نہ نکلے تو غسل لازم نہیں، اور تری یا پانی سے دوسری حدیث میں منی ہی مراد ہے، اگر منی کے سوا کسی اور چیز کی تری ہے تب غسل لازم نہ ہوگا، اکثر علماء کا یہی قول ہے۔

【39】

عورتوں کا غسل جنابت

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں چوٹی کو مضبوطی سے باندھنے والی عورت ہوں، کیا اسے غسل جنابت کے لیے کھولوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں یہی کافی ہے کہ تین چلو پانی لے کر اپنے سر پر بہا لو پھر پورے بدن پر پانی ڈالو، پاک ہوجاؤ گی ، یا آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اس وقت تم پاک ہوگئیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٢ (٣٣٠) ، سنن ابی داود/الطہارة ٩٩ (٢٥١) ، سنن الترمذی/الطہارة ٧٧ (١٠٥) ، سنن النسائی/الطہارة ١٥٠ (٢٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ٢٨٩، ٣١٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ١١٥ (١١٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جب ایسا کیا تو پاک ہوگئی کیونکہ مقصود سارے سر کا بھیگ جانا ہے، اور تین لپوں میں یہ سارا کام پورا ہوجاتا ہے، اگر پورا نہ ہو تو اس سے زیادہ بھی ڈال سکتی ہے، مگر بندھی ہوئی چوٹی کا کھولنا ضروری نہیں، اکثر علماء کے نزدیک رفع تکلیف کا یہ حکم عورتوں کے لئے خاص ہے۔

【40】

عورتوں کا غسل جنابت

عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کو یہ خبر پہنچی کہ عبداللہ بن عمرو (رض) اپنی بیویوں کو غسل کے وقت چوٹی کھولنے کا حکم دیتے ہیں، تو فرمایا : عبداللہ بن عمرو پر تعجب ہے، وہ عورتوں کو سر منڈانے کا حکم کیوں نہیں دے دیتے، بیشک میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے، میں اپنے سر پر تین چلو سے زیادہ پانی نہیں ڈالتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٢ (٣٣١) ، سنن النسائی/الغسل ١٢ (٤١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤) ، سنن الدارمی/الطہارة ٦٨ (٧٧٦) (صحیح )

【41】

جنبی ٹھہرے ہوئے پانی میں غو طہ لگائے تو اس کے لئے یہ کافی ہے ؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل جنابت نہ کرے ، پھر کسی نے کہا : ابوہریرہ ! تب وہ کیا کرے ؟ کہا : اس میں سے پانی لے لے کر غسل کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٩ (٢٨٣) ، سنن النسائی/الطہارة ١٣٩ (٢٢١) ، المیاہ ٣ (٣٣٢) ، الغسل ١ (٣٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ٹھہرے ہوئے پانی میں غوطہ لگانا منع ہے کیونکہ اس سے دوسرے لوگوں کو کراہت ہوگی، اس کا یہ مطلب نہیں کہ پانی ناپاک ہوجائے گا، اس لئے منع ہے کیونکہ پانی اگر دو قلہ سے زیادہ ہو تو وہ اس طرح کی نجاست سے ناپاک نہیں ہوتا۔

【42】

جنبی ٹھہرے ہوئے پانی میں غو طہ لگائے تو اس کے لئے یہ کافی ہے ؟

ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر قبیلہ انصار کے ایک شخص کے پاس ہوا، آپ نے اسے بلوایا، وہ آیا تو اس کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : شاید ہم نے تم کو جلد بازی میں ڈال دیا ، اس نے کہا : جی ہاں، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم جلد بازی میں ڈال دئیے جاؤ، یا جماع انزال ہونے سے قبل موقوف کرنا پڑے تو تم پر غسل واجب نہیں بلکہ وضو کافی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٤ (١٨٠) ، صحیح مسلم/الحیض ٢١ (٣٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢١، ٢٦، ٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آگے آنے والی احادیث سے یہ حدیث منسوخ ہے۔

【43】

جنبی ٹھہرے ہوئے پانی میں غو طہ لگائے تو اس کے لئے یہ کافی ہے ؟

ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانی (غسل) پانی (منی نکلنے) سے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ١٣٢ (١٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤١٦، ٤٢١) ، سنن الدارمی/الطہارة ٧٤ (٧٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں : ایک یہ کہ انزال کے بغیر غسل واجب نہیں اس صورت میں إذا التقى الختانان والی روایت سے یہ روایت منسوخ ہوگی، دوسرے یہ کہ حدیث خواب کے متعلق ہے، بیدار ہونے کے بعد جب تک تری نہ دیکھے تو صرف خواب میں کچھ دیکھنے سے غسل واجب نہیں ہوتا۔

【44】

جب دو جتنے مل جائیں تو غسل واجب ہے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب مرد اور عورت کی شرمگاہیں مل جائیں تو غسل واجب ہے، ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے اور رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا، تو ہم نے غسل کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٨٠ (١٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٩٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ١٨ (٧٢) ، مسند احمد (٦/ ١٦١، ١٦١، ٢٣٩) (صحیح )

【45】

جب دو جتنے مل جائیں تو غسل واجب ہے۔

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ یہ اجازت ابتداء اسلام میں تھی، پھر ہمیں بعد میں غسل کا حکم دیا گیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٨٤ (٢١٤، ٢١٥) ، سنن الترمذی/الطہارة ٨١ (١١١) ، (تحفة الأشراف : ٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/ ١١٥، ١١٦) ، سنن الدارمی/الطہارة ٧٤ (٧٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ کہ اب چاہے انزال ہو یا نہ ہو غسل واجب ہے۔

【46】

جب دو جتنے مل جائیں تو غسل واجب ہے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : جب مرد عورت کے چار زانوؤں کے درمیان بیٹھے، پھر مجامعت کرے، تو غسل واجب ہوگیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٢٨ (٢٩١) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٢ (٣٤٨) ، سنن ابی داود/الطہارة ٨٤ (٢١٦) ، سنن النسائی/الطہارة ١٢٩ (١٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٤، ٣٤٧، ٣٩٣، ٤٧١، ٥٢٠) ، سنن الدارمی/الطہارة ٧٥ (٧٨٨) (صحیح )

【47】

خواب دیکھے اور تری نہ دیکھے۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب مرد اور عورت کی شرمگاہیں مل جائیں اور حشفہ (سپاری) چھپ جائے، تو غسل واجب ہوگیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٦٧٦، ومصباح الزجاجة : 235) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٨) (صحیح) (سند میں حجاج بن أرطاة ضعیف ہیں، لیکن حدیث صحیح مسلم وغیرہ میں متعدد طرق سے وارد ہے، اس لئے یہ حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی ٣ /٢٦٠ ) وضاحت : ١ ؎: ابتداء اسلام میں انزال کے بغیر غسل واجب نہ تھا، اس کے بعد محض التقى الختانان یعنی شرمگاہوں کے ملنے سے غسل واجب کردیا گیا۔

【48】

خواب دیکھے اور تری نہ دیکھے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص نیند سے بیدار ہو، اور تری دیکھے، لیکن احتلام یاد نہ ہو تو غسل کرلے، اور اگر احتلام یاد ہو لیکن تری نہ دیکھے تو اس پر غسل نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٩٥ (٢٣٦) ، سنن الترمذی/الطہارة ٨٢ (١١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٥٦) ، سنن الدارمی/الطہارة ٧٧ (٧٩٢) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ٥١٦ ) وضاحت : ١ ؎: لیکن تری سے مراد منی ہے، اگر تری محسوس نہ ہو تو اکثر اہل علم کے نزدیک غسل واجب نہ ہوگا، اگر گرمی یا دیری کے سبب منی خشک ہوجائے، تو غسل ضروری ہوگا۔

【49】

نہاتے وقت پردہ کرنا

ابوالسمح (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا، جب آپ غسل کا ارادہ کرتے تو فرماتے : میری طرف پیٹھ کرلو تو میں پیٹھ آپ کی طرف کرلیتا، اور کپڑا پھیلا کر پردہ کردیتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٣٧ (٣٧٦) ، سنن النسائی/الطہارة ١٤٣ (٢٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥١) (صحیح )

【50】

نہاتے وقت پردہ کرنا

عبداللہ بن عبداللہ بن نوفل کہتے ہیں : میں نے پوچھا رسول اللہ ﷺ نے سفر میں نفل نماز پڑھی ہے ؟ تو مجھے کوئی بتانے والا نہیں ملا، یہاں تک کہ مجھے ام ہانی بنت ابی طالب (رض) نے بتایا کہ نبی اکرم ﷺ فتح مکہ کے سال آئے، پھر آپ نے ایک پردہ لگانے کا حکم دیا، پردہ کردیا گیا، تو آپ نے غسل کیا، پھر نفل کی آٹھ رکعتیں پڑھیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٦ (٣٣٦) ، المسافرین ١٣ (٣٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٠٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ٢١ (٢٨٠) ، الصلاة ٤ (٣٥٧) ، الأدب ٩٤ (٦١٥٨) ، سنن الترمذی/الاستئذان ٣٤ (٢٧٣٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١٤٣ (٢٢٥) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ٨ (٢٨) ، مسند احمد (٦/٣٤٢، ٤٢٥) سنن الدارمی/الصلاة ١٥١ (١٤٩٤) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ١٣٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس باب کی احادیث سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ غسل کرتے وقت پردہ کرلینا چاہیے، لیکن اگر کوئی کپڑے پہنے ہوئے ہے، تو بلا پردہ غسل کرنے کی اجازت ہے، نیز اس حدیث سے تو سفر میں نفل پڑھنا ثابت ہوا بعضوں نے کہا یہ نماز الضحیٰ نہیں تھی بلکہ یہ مکہ فتح ہونے پر نماز شکر تھی، اور سعید بن ابی وقاص نے جب کسریٰ کا خزانہ فتح کیا تو ایسا ہی کیا۔

【51】

نہاتے وقت پردہ کرنا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کھلے میدان میں یا چھت پر بغیر پردہ کے کوئی شخص ہرگز غسل نہ کرے، اگر وہ کسی کو نہ دیکھتا ہو تو اسے تو کوئی دیکھ سکتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٦٣٢، ومصباح الزجاجة : ٢٣٦) (ضعیف جدًا) (حسن بن عمارة متروک الحدیث ہے، بلکہ حدیث گھڑا کرتا تھا، اور عبد الحمید ضعیف الحدیث ہیں، نیز أبو عبیدہ کا سماع ابن مسعود سے (رض) سے نہیں ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٨١٨ ) وضاحت : ١ ؎: اگر ایسے مقام میں غسل کی ضرورت پڑے تو کسی چیز کی آڑ کرلے تاکہ ستر پر لوگوں کی نگاہیں نہ پڑیں ہے۔

【52】

پیشاب پاخانہ روک کر نماز پڑھنا منع ہے۔

عبداللہ بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص قضائے حاجت کا ارادہ کرے، اور نماز کے لیے اقامت کہی جائے، تو پہلے قضائے حاجت سے فارغ ہو لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤٣ (٨٨) ، سنن الترمذی/الطہا رة ١٠٨ (١٤٢) ، سنن النسائی/ الإ مامة ٥١ (٨٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٥١٤١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصرالصلاة ١٧ (٤٩) ، مسند احمد (٤/٣٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٧ (١٤٦٧) (صحیح )

【53】

پیشاب پاخانہ روک کر نماز پڑھنا منع ہے۔

ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ آدمی نماز پڑھے اور وہ پیشاب یا پاخانہ روکے ہوئے ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٣٢، ومصباح الزجاجة : ٢٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٥٠، ٢٦٠، ٢٦١) (صحیح) (سند میں بشر بن آدم، سفر بن نسیر ضعیف ہیں، لیکن حدیث دوسرے طرق سے صحیح ہے، دیکھئے اوپر کی حدیث ( ٦١٦ ) نیز ملاحظہ ہو : ضعیف أبی داود : ١١ ، ١٢ )

【54】

پیشاب پاخانہ روک کر نماز پڑھنا منع ہے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی پیشاب یا پاخانہ کی اذیت و تکلیف کی حالت میں نماز کے لیے نہ کھڑا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٥٠، ومصباح الزجاجة : ٢٣٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤٣ (٨٩) ، مسند احمد (٢/٤٤٢، ٤٧١) (صحیح )

【55】

پیشاب پاخانہ روک کر نماز پڑھنا منع ہے۔

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی مسلمان پیشاب یا پاخانہ روکے ہوئے نماز کے لیے نہ کھڑا ہو جب تک کہ وہ قضائے حاجت کر کے ہلکا نہ ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤٣ (٩٠) ، سنن الترمذی/الصلا ة ١٤٨ (٣٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٨٠) (صحیح) (اس سند میں بقیہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز اور بھی کلام ہے لیکن دوسرے طرق سے یہ ثابت ہے) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٩٢٣ )

【56】

اس مستحاضہ کا حکم جس کی مدت بیماری سے قبل متعین تھی

فاطمہ بنت ابی حبیش (رض) کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، اور آپ سے (کثرت) خون کی شکایت کی، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ رگ کا خون ہے، تم دیکھتی رہو جب مدت حیض آئے تو نماز نہ پڑھو، اور جب حیض گزر جائے تو غسل کرو، پھر دوسرے حیض کے آنے تک نماز پڑھتی رہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٠٨ (٢٨٠) ، ١١٠ (٢٨٦) ، سنن النسائی/الطہارة ١٣٤ (٢٠١) ، الحیض ٢ (٣٥٠) ، ٤ (٣٥٨) ، ٦ (٣٦٢) ، الطلاق ٧٤ (٣٥٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠١٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٢٩ (١٠٤) ، مسند احمد (٦/٤٢٠، ٤٦٣) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨٤ (٨٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: استحاضہ ایک بیماری ہے جس میں عورت کا خون ہمیشہ جاری رہتا ہے، جس عورت کو یہ بیماری ہو اس کو مستحاضہ کہتے ہیں، اس کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ مستحاضہ : جس کے حیض کی مدت اس بیماری کے شروع ہونے سے پہلے متعین اور معلوم ہو، دوسرے وہ جس کو شروع ہی سے یہ بیماری ہوجائے، اور حیض کی مدت متعین نہ ہوئی ہو۔

【57】

اس مستحاضہ کا حکم جس کی مدت بیماری سے قبل متعین تھی

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے مسلسل خون آتا رہتا ہے اور میں پاک نہیں ہو پاتی ہوں، تو کیا میں نماز چھوڑ دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، یہ رگ کا خون ہے، حیض نہیں ہے جب حیض آئے تو نماز ترک کر دو ، اور جب وہ ختم ہوجائے تو خون دھو کر (یعنی غسل کر کے) نماز پڑھو ۔ یہ وکیع کی حدیث ہے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث عبد اللہ بن الجراح قد أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٤ (٣٣٣) ، سنن النسائی/الطہارة ١٣٨ (٢١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٥٨) ، وحدیث أبوبکر بن أبي شیبة أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٤ (٣٣٣) ، سنن الترمذی/الطہارة ٩٣ (١٢٥) ، سنن النسائی/الطہارة ١٣٥ (٢١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٥٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٤ (٢٢٨) ، الحیض ٩ (٣٠٦) ، ٢ (٣٢٠) ، ٢٥ (٣٢٥) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٠٩ (٢٨٢) (صحیح )

【58】

اس مستحاضہ کا حکم جس کی مدت بیماری سے قبل متعین تھی

ام حبیبہ بنت جحش (رض) کہتی ہیں کہ مجھے بہت لمبا استحاضہ کا خون آیا کرتا تھا، میں نبی اکرم ﷺ کے پاس اس سے متعلق بتانے اور فتوی پوچھنے کے لیے آئی، میں نے آپ کو اپنی بہن زینب (رض) کے پاس پایا، میں نے عرض کیا : اے رسول اللہ ! مجھے آپ سے ایک کام ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اے خاتون ! تجھے کیا کام ہے ؟ میں نے کہا : مجھے ایک لمبے عرصہ تک خون آتا رہتا ہے جو نماز اور روزہ میں رکاوٹ کا سبب ہے، آپ اس سلسلے میں مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہارے لیے روئی تجویز کرتا ہوں (اس کو شرمگاہ پہ رکھ لیا کرو) کیونکہ یہ خون جذب کرلے گی ، میں نے عرض کیا : خون اس سے بھی زیادہ ہے، پھر راوی نے شریک کے ہم معنی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١١٠ (٢٨٧) ، سنن الترمذی/الطہارة ٩٥ (١٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٨٢، ٤٣٩، ٤٤٠) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨٤ (٨٠٩) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٦٢٧) (حسن) (سند میں عبد اللہ بن محمد بن عقیل کی وجہ سے بعض کلام ہے کیونکہ ان کو مقارب الحدیث بلکہ منکر الحدیث کہا گیا ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے )

【59】

اس مستحاضہ کا حکم جس کی مدت بیماری سے قبل متعین تھی

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے، پاک نہیں رہتی ہوں، تو کیا میں نماز چھوڑ دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، بلکہ جن دنوں میں تمہیں حیض آتا ہے اتنے دن نماز چھوڑ دو ، ابوبکر بن ابی شیبہ نے اپنی حدیث میں کہا : ہر مہینہ سے بقدر ایام حیض نماز چھوڑ دو ، پھر غسل کرو، اور کپڑے کا لنگوٹ باندھ کر نماز ادا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٠٨ (٢٧٤، ٢٧٥) ، سنن النسائی/الطہارة ١٣٤ (٢٠٩) ، الحیض ٣ (٣٥٤، ٣٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٢٩ (١٠٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨٤ (٨٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگرچہ خون آیا کرے، کیونکہ وہ حیض کا خون نہیں ہے، اس حدیث سے اور حدث والوں کا بھی حکم نکلا جیسے کسی کو پیشاب کی بیماری ہوجائے یا ریاح (ہوا خارج ہونے) کی، وہ بھی نماز ترک نہ کرے بلکہ ہر نماز کے لئے وضو کرے، اور جب تک وقت باقی رہے ایک ہی وضو سے فرض اور نفل ادا کرے، گو حدث ہوتا رہے۔

【60】

اس مستحاضہ کا حکم جس کی مدت بیماری سے قبل متعین تھی

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور کہا : اللہ کے رسول ! مجھے استحاضہ کا خون آتا رہتا ہے جس سے میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں، تو کیا میں نماز چھوڑ دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، یہ رگ کا خون ہے حیض نہیں ہے، اپنے حیض کے دنوں میں نماز نہ پڑھو، پھر غسل کرو اور ہر نماز کے لیے الگ وضو کرو، (اور نماز پڑھو) خواہ خون چٹائی ہی پر کیوں نہ ٹپکے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١١٣ (٢٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٧٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٤ (٢٢٨) ، سنن النسائی/الطہارة ١٣٨ (٢١٩) ، موطا امام مالک/الطہارة ٢٩ (١٠٤) ، مسند احمد (٦/٤٢، ٢٠٤، ٢٦٢) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨٤ (٨٠١) (صحیح) (آخری ٹکڑا : وإن قطر الدم على الحصير کے علاوہ بقیہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: ہر نماز کے لئے وضو کرنا زیادہ صحیح طریقہ ہے، اور اگر مستحاضہ دوسری نمازوں کو ملا کر پڑھنا چاہے، تو اس طرح کرے کہ ایک نماز میں دیر کرے، اس کو اخیر وقت پر ادا کرے، اور دوسری میں جلدی کرے، اس کو اول وقت پر ادا کرے، اور دونوں نمازوں کے لئے ایک ہی وضو کرلے، اور کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ ہر نماز کے لئے غسل کرنا واجب ہے یا ہر دو نماز کے لئے یا ہر روز ایک بار بلکہ غسل اسی وقت کافی ہے جب عادت کے موافق حیض سے پاک ہونے کا وقت آئے یا خون کی رنگت کے لحاظ سے معلوم ہوجائے کہ اب حیض کا خون جا چکا ہے۔

【61】

اس مستحاضہ کا حکم جس کی مدت بیماری سے قبل متعین تھی

عدی بن ثابت کے دادا دینار (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مستحاضہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے، پھر غسل کرے، اور ہر نماز کے لیے وضو کرے، اور روزے رکھے اور نماز پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١١٣ (٢٩٧) ، سنن الترمذی/الطہارة ٩٤ (١٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٢) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطہارة ٨٤ (٨٢٠) (صحیح )

【62】

مستحاضہ کا خون حیض جب مشتبہ ہوجائے اور اسے حیض کے دن معلوم نہ ہوں۔

عروہ بن زبیر اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کی بیوی ام حبیبہ بنت جحش (رض) تھی، جو سات برس تک استحاضہ میں مبتلا رہیں، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ حیض نہیں ہے، بلکہ ایک رگ کا خون ہے، جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دو ، اور جب ختم ہوجائے تو غسل کرو، اور نماز پڑھو ۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتیں پھر نماز پڑھتی تھیں، اور ام حبیبہ (رض) اپنی بہن زینب بنت جحش (رض) کے ایک ٹب میں بیٹھا کرتی تھیں یہاں تک کہ خون کی سرخی پانی کے اوپر آجاتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٧ (٣٢٧) ، صحیح مسلم/الحیض ١٤ (٣٣٤) ، سنن ابی داود/الطہارة ١١٠ (٢٨٥) ، ١١١ (٢٨٨) ، سنن النسائی/الطہارة ١٣٤ (٢٠٣) ، الحیض ٤ (٣٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥١٦، ١٧٩٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨٣، ١٤١، ١٨٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨٤ (٨٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ہر نماز کے لئے وضو کرنا ہی صحیح ترین طریقہ ہے، اور اگر کسی میں طاقت ہے، اور اس کے لئے سہولت ہے تو ہر نماز کے لئے غسل بھی کرسکتی ہے، ام حبیبہ (رض) اپنے طور پر ہر نماز کے لئے غسل کرتی تھیں۔

【63】

کنواری جب مستحاضہ ہونے کی حالب میں بالغ ہو یا اس کے حیض کے دن متعین ہوں لیکن اسے یاد نہ رہیں۔

حمنہ بنت جحش (رض) سے روایت ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ کے عہد میں استحاضہ ہوگیا تو وہ آپ ﷺ کے پاس آئیں، اور عرض کیا : مجھے بری طرح سے سخت استحاضہ ہوگیا ہے، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : شرمگاہ کے اندر تھوڑی روئی رکھ لو ، وہ بولیں : وہ اس سے زیادہ سخت ہے، بہت تیز بہہ رہا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ایک لنگوٹ کی طرح کس لو، اور اللہ کے علم کے موافق ہر مہینہ میں چھ یا سات روز حیض کے شمار کرلو، پھر غسل کر کے تیئس یا چوبیس دن تک نماز پڑھو اور روزہ رکھو، (آسانی کے لیے) ظہر میں دیر اور عصر میں جلدی کر کے دونوں نمازوں کے لیے ایک غسل کرلو، اسی طرح مغرب میں دیر اور عشاء میں جلدی کر کے دونوں کے لیے ایک غسل کرلو، ١ ؎ اور مجھے ان دونوں طریقوں میں سے یہ زیادہ پسند ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١١٠ (٢٨٧) ، سنن الترمذی/الطہارة ٩٥ (١٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٨٢، ٤٤٠) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨٤ (٨٠٩) (حسن) (سند میں ضعف ہے اس لئے کہ اس میں شریک اور عبد اللہ بن محمد بن عقیل دونوں ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، (ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٨٨ ) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٦٢٢ ) وضاحت : ١ ؎: اور فجر کی نماز کے لئے ایک غسل کرلو۔ ٢ ؎: دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہر نماز کے لئے غسل کرے، تو دن رات میں پانچ بار غسل کرنا ہوگا، اور اس صورت میں صرف تین بار غسل کرنا پڑے گا، اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جنہوں نے مستحاضہ کو ہر نماز کے لئے غسل کرنے کا حکم دیا ہے، مگر یہ حکم نہایت سخت ہے، اور ضعیف اور کمزور عورتوں سے یہ بار اٹھانا مشکل ہے، خصوصاً سرد ملکوں میں، پس عمدہ طریقہ وہی ہے جو دوسری حدیثوں سے ثابت ہے کہ حیض کے ختم ہوجانے پر صرف ایک بار غسل کرلے، پھر ہر نماز کے لئے وضو کرتی رہے۔

【64】

حیض کا خون کپڑے پر لگ جائے

ام قیس بنت محصن (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کپڑوں میں لگ جانے والے حیض کے خون کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے پانی اور بیر کی پتی سے دھو ڈالو، اور اسے کھرچ ڈالو، اگرچہ لکڑی ہی سے سہی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٣٢ (٣٦٣) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٥ (٢٩٣) ، الحیض ٢٦ (٣٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٥٥، ٣٥٦) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٠٥ (١٠٥٩) (حسن صحیح )

【65】

حیض کا خون کپڑے پر لگ جائے

اسماء بنت ابی بکر الصدیق (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے کپڑے میں حیض کا خون لگ جانے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے انگلیوں سے رگڑو اور پانی سے دھو ڈالو، پھر اس میں نماز پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الو ضوء ٦٣ (٢٢٧) ، الحیض ٩ (٣٠٧) ، صحیح مسلم/الطہارة ٣٣ (٢٩١) ، سنن الترمذی/الطہارة ١٠٤ (١٣٨) ، سنن ابی داود/ الطہارة ١٣٢ (٣٦١) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٥ (٢٩٤) ، الحیض ٢٦ (٣٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٢٨ (١٠٣) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨٣ (٧٩٩) (صحیح )

【66】

حیض کا خون کپڑے پر لگ جائے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم میں سے جب کسی کو حیض آتا تو حیض سے پاک ہونے کے وقت وہ اپنے کپڑے میں لگے ہوئے حیض کے خون کو کھرچ کر دھو لیتی اور باقی حصہ پر پانی چھڑک دیتی، پھر اسے پہن کر نماز پڑھتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٩ (٣٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٠٨) (صحیح )

【67】

حائضہ نمازوں کی قضانہ کرے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک عورت نے ان سے پوچھا : کیا حائضہ نماز کی قضاء کرے گی ؟ انہوں نے کہا : کیا تو حروریہ (خارجیہ) ہے ؟ ١ ؎ ہمیں تو نبی اکرم ﷺ کے پاس حیض آتا تھا، پھر ہم پاک ہوجاتے تھے، آپ ہمیں نماز کی قضاء کا حکم نہیں دیتے تھے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٠ (٢٣١) ، صحیح مسلم/الحیض ١٥ (٣٣٥) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٠٥ (٢٦٢، ٢٦٣) ، سنن الترمذی/الطہارة ٩٧ (١٣٠) ، سنن النسائی/الحیض ١٧ (٣٨٢) ، الصوم ٣٦ (٢٣٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٢، ٩٧، ١٢٠، ١٨٥، ٢٣١) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨٤ (٨٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حروریہ : حروراء کی طرف منسوب ہے جو کوفہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے، یہ خوارج کے ایک گروہ کا نام ہے، یہ لوگ حیض کے مسئلہ میں متشدد تھے ان کا کہنا تھا کہ حائضہ روزے کی طرح نماز کی بھی قضا کرے گی، اسی وجہ سے ام المؤمنین عائشہ (رض) نے اس عورت سے کہا أحرورية أنت کیا تو حروریہ ہے یعنی تو بھی وہی عقیدہ رکھتی ہے جو حروری (خارجی) رکھتے ہیں۔ ٢ ؎: حائضہ پر نماز کی قضا نہیں ہے، لیکن روزہ کی قضا ہے، ابن منذر اور نووی نے اس پر امت کا اجماع نقل کیا ہے، نیز صحیحین میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کی ایک حدیث میں ہے کہ ہم کو روزے کی قضا کرنے کا حکم ہوتا، اور نماز کے قضا کرنے کا حکم نہیں ہوتا۔

【68】

حائضہ ( ہاتھ بڑ ھا کر) مسجد سے کوئی چیز لے سکتی ہے )۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : مجھے مسجد سے چٹائی اٹھا کر دے دو ، میں نے کہا : میں حائضہ ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے حیض کی گندگی تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٩٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٢ (٢٩٨) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٠٤ (٢٦١) ، سنن الترمذی/الطہارة ١٠١ (١٣٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١٧٣ (٢٧٢) ، الحیض ١٨ (٣٨٤) ، مسند احمد (٦/٤٥، ١٠١، ١١٢، ١١٤، ١٧٣، ٢١٤، ٢٢٩، ٢٤٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨٢ (٧٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کہ وہ ہاتھ کو مسجد میں داخل کرنے سے مانع ہو، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حائضہ ہاتھ بڑھا کر مسجد سے کوئی چیز لے سکتی ہے یا مسجد میں کوئی چیز رکھ سکتی ہے۔

【69】

حائضہ ( ہاتھ بڑ ھا کر) مسجد سے کوئی چیز لے سکتی ہے )۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں حیض کی حالت میں ہوتی اور نبی اکرم ﷺ مسجد میں معتکف ہوتے، تو آپ اپنا سر مبارک میری طرف بڑھا دیتے، میں آپ کا سر دھو کر کنگھا کردیتی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٨٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٦ (٣٠١) ، الاعتکاف ٤ (٢٠٢١) ، اللباس ٧٦ (٥٩٢٥) ، صحیح مسلم/الحیض ٣ (٢٩٧) سنن النسائی/الطہارة ١٧٦ (٢٧٨) ، الحیض ٢١ (٣٨٧) ، موطا امام مالک/الطہارة ٢٨ (١٠٢) ، مسند احمد (٦/٣٢، ٥٥، ٨٦، ١٧٠، ٢٠٤) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٠٨ (١٠٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حجرہ کا دروازہ مسجد ہی میں تھا تو رسول اللہ ﷺ حجرے کے اندر اپنا سر مبارک کردیتے، ام المؤمنین عائشہ (رض) کنگھی کر دیتیں، بال دھو دیتیں، آپ ہمیشہ بال رکھتے تھے، آپ نے صرف حج میں بال منڈائے ہیں۔

【70】

حائضہ ( ہاتھ بڑ ھا کر) مسجد سے کوئی چیز لے سکتی ہے )۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں حیض کی حالت میں ہوتی تھی، اور رسول اللہ ﷺ میری گود میں اپنا سر مبارک رکھتے، اور قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٣ (٢٩٧) ، التوحید ٥٢ (٧٥٤٩) ، صحیح مسلم/الحیض ٣ (٢٩٧) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٠٣ (٢٦٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١٧٥ (٢٧٥) ، الحیض ١٦ (٣٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٥٨) ، مسند احمد (٦/١١٧، ١٣٥، ١٩٠، ٢٠٤، ٢٥٨) (صحیح )

【71】

بیوی اگر حائضہ ہو تو مرد کے لئے کہاں تک گنجائش ہے ؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم (ازواج مطہرات) میں سے جب کوئی حیض سے ہوتی تو نبی اکرم ﷺ اسے حیض کی تیزی کے دنوں میں تہبند باندھنے کا حکم دیتے، پھر اس کے ساتھ لیٹتے، اور تم میں سے کس کو اپنی خواہش نفس پر ایسا اختیار ہے جیسا کہ رسول ﷺ کو تھا ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٥ (٣٠٢) ، صحیح مسلم/الحیض ١ (٢٩٣) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٠٧ (٢٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٠٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطہارة ٩٩ (١٣٢) ، الصوم ٣٢ (٧٢٩) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٠ (٢٨٧) ، الحیض ١٢ (٣٧٣) ، موطا امام مالک/الطہارة ٢٦ (٩٤) ، مسند احمد (٦/٤٠، ٤٢، ٩٨) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٠٧ (١٠٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خلاصہ یہ کہ جو آدمی اپنے نفس پر قابو نہ رکھ پاتا ہو، اس کا حائضہ سے بوس و کنار اور چمٹنا مناسب نہیں کیونکہ خطرہ ہے کہ وہ اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکے، اور جماع کر بیٹھے، جب کہ حائضہ سے جماع کی ممانعت تو قرآن کریم میں آئی ہے، ارشاد باری ہے : فاعتزلوا النساء في المحيض حالت حیض میں عورتوں سے دور رہو (البقرة : 222) ، اور بعضوں نے کہا : جماع کے علاوہ ہر چیز درست ہے، کیونکہ دوسری حدیث میں ہے : سب باتیں کرو سوائے جماع کے، نیز یہاں مباشرت کا لفظ لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے، اصطلاحی معنی میں نہیں ہے، یعنی جسم کا جسم سے لگ جانا اور یہ جائز ہے۔

【72】

بیوی اگر حائضہ ہو تو مرد کے لئے کہاں تک گنجائش ہے ؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم میں سے جب کوئی حیض سے ہوتی تو نبی اکرم ﷺ اسے تہبند باندھنے کا حکم دیتے پھر آپ اس کے ساتھ لیٹتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطہارة، ٤٧ (٢٩٩) ، صحیح مسلم/الیض ٣ (٢٩٣) ، سنن ابی داود/الطہارة ١١٠ (٢٦٨) ، سنن الترمذی/الطہارة ٩٩ (١٣٢) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٠ (٢٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٨٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٢٦ (٩٥) ، حم ٧/ (٥٥، ١٣٤، ١٧٤، ١٨٩) ، دي الطہارة ١٠٧ (١٠٧٧) (صحیح )

【73】

بیوی اگر حائضہ ہو تو مرد کے لئے کہاں تک گنجائش ہے ؟

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ کے لحاف میں تھی، تو مجھے حیض کا احساس ہوا جو عورتیں محسوس کرتی ہیں، تو میں لحاف سے کھسک گئی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم کو حیض آگیا ہے ؟ میں نے کہا : مجھے وہی حیض محسوس ہوا جو عورتیں محسوس کیا کرتی ہیں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : یہ چیز تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر لکھ دی ہے ، تو میں لحاف سے کھسک کر نکل گئی اور اپنی حالت ٹھیک کر کے واپس آگئی، تو رسول ﷺ نے فرمایا : آؤ میرے ساتھ لحاف میں داخل ہو جاؤ تو میں آپ کے ساتھ لحاف میں داخل ہوگئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٤١، ومصباح الزجاجة : ٢٣٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٥ (٢٩٨) ، ٢١ (٣٢٢٥) ، ٢٢ (٣٢٣) ، صحیح مسلم/الحیض ٢ (٢٩٦) ، سنن النسائی/الطہارة ١٧٩ (٢٨٤) الحیض ١٠ (٣١٧) ، مسند احمد (٦/ ٢٩٤، ٣٠٠) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٠٧ (١٠٨٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: مساس، معانقہ، بوسہ وغیرہ سب درست ہے، ابوداؤد نے معاذ بن جبل (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے اپنی عورت سے جب وہ حائضہ ہو کیا کرنا درست ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تہبند کے اوپر فائدہ اٹھانا، اور اس سے بھی بچنا افضل ہے ۔

【74】

بیوی اگر حائضہ ہو تو مرد کے لئے کہاں تک گنجائش ہے ؟

معاویہ بن ابی سفیان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) سے سوال کیا : آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حالت حیض میں کیسے کرتی تھیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم میں سے جسے حیض آتا وہ اپنے حیض کے شروع میں جس وقت وہ پورے جوش پر ہوتا ہے، اپنی ران کے نصف تک تہ بند باندھ لیتی، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لیٹتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٦٩، ومصباح الزجاجة : ٢٤٠) (حسن) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، صحیح ابی داود : ٢٥٩ ) وضاحت : ١ ؎: مصباح الزجاجہ کے دونوں نسخوں میں، اور ابن ماجہ کے مشہور حسن کے نسخہ میں الحيض ہے، اور فوائد عبد الباقی کے یہاں الحيضة ہے۔

【75】

حائضہ سے صحبت منع ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص حائضہ کے پاس آئے (یعنی اس سے جماع کرے) یا عورت کے پچھلے حصے میں جماع کرے، یا کاہن کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کرے، تو اس نے ان چیزوں کا انکار کیا جو محمد ﷺ پر اتاری گئی ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطب ٢١ (٣٩٠٤) ، سنن الترمذی/الطہارة ١٠٢ (١٣٥) ، الرضاع ١٢ (١١٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٦، ٦/٣٠٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ١١٤ (١١٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ظاہر میں یہاں ایک اشکال ہے، وہ یہ کہ حیض کی حالت میں جماع کرنا حرام ہوگا، پھر اس سے کفر کیوں لازم آئے گا ؟ بعضوں نے یہ جواب دیا ہے کہ مراد وہ شخص ہے جو حیض کی حالت میں جماع کو حلال سمجھ کر جماع کرے، اسی طرح دبر میں جماع کرنے کو حلال سمجھ کر ایسا کرے، ایسا شخص تو ضرور کافر ہوگا، اسی طرح وہ شخص جو کاہن اور نجومی کی تصدیق کرے وہ بھی کافر ہوگا، کیونکہ اس نے غیب کا علم اللہ کے علاوہ دوسرے کے لئے ثابت کیا، اور یہ قرآن کے خلاف ہے، نجومی کا جھوٹا ہونا قرآن سے ثابت ہے : قل لا يعلم من في السماوات والأرض الغيب إلا الله کہہ دیجئے کہ آسمان اور زمین میں سے اللہ کے علاوہ کوئی بھی غیب کا علم نہیں رکھتا (النمل :65) وما تدري نفس ماذا تکسب غدا اور کسی بھی نفس کو یہ نہیں معلوم ہے کہ وہ کل کیا کمائے گا (لقمان :34) ہوسکتا ہے کہ اس حدیث میں کفر سے لغوی کفر مراد ہو نہ کہ شرعی، جس نے ایسی حرکتیں کیں اس نے گویا شریعت محمدی کا انکار کیا، یا بطور تشدید اور تغلیظ کے فرمایا تاکہ لوگ ان چیزوں کے کرنے سے باز رہیں۔

【76】

جو حائضہ سے صحبت کر بیٹھے اسکا کفارہ

ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں مجامعت کرے، وہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٠٦ (٢٦٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٢ (٢٩٠) ، الحیض ٩ (٣٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٩٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطہارة ١٠٣ (١٣٦) ، مسند احمد (١/٢٢٣٧، ٢٧٢، ٢٨٦، ٣١٢، ٣٢٥، ٣٦٣، ٣٦٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ١١٢ (١١٤٥) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٦٥٠) (صحیح )

【77】

حائضہ کیسے غسل کرے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب وہ حالت حیض میں تھیں تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : اپنے بال کھول لو، اور غسل کرو ١ ؎، علی بن محمد نے اپنی حدیث میں کہا : اپنا سر کھول لو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٨٥، ومصباح الزجاجة : ٢٤١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ١٦ (٣١٦) ، ١٧ (٣١٧) ، الحج ٣١ (١٥٥٦) ، المغازي ٧٧ (٤٣٩٥) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن ابی داود/الحج ٢٣ (١٧٨١) ، سنن النسائی/الطہارة ١٥١ (٢٤٣) ، المناسک ٥٨ (٢٧٦٥) ، مسند احمد (٦/١٦٤، ١٧٧، ١٩١، ٢٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غسل حیض میں سر کا کھولنا ضروری ہے، اس میں بہ نسبت غسل جنابت کے زیادہ صفائی کی ضرورت ہوتی ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ جنابت کے غسل میں سر کا کھولنا ضروری نہ رکھا، کیونکہ وہ اکثر ہوا کرتا ہے، اور بار بار کھولنے سے عورتوں کو تکلیف ہوتی ہے، اور حیض کا غسل مہینے میں ایک بار ہوتا ہے، اس میں سر کھولنے سے کسی طرح کا حرج نہیں بلکہ ہر ایک عورت مہینے میں ایک دو بار اپنا سر کھولتی، اور بالوں کو دھوتی ہے۔

【78】

حائضہ کیسے غسل کرے

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ اسماء بنت شکل انصاریہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے غسل حیض کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی عورت بیر کی پتی ملا ہوا پانی لے، پھر وہ طہارت حاصل کرے (یعنی شرمگاہ دھوئے) اور خوب اچھی طرح طہارت کرے یا طہارت میں مبالغہ کرے، پھر اپنے سر پر پانی ڈالے اور اسے خوب اچھی طرح ملے، یہاں تک کہ سر کے سارے بالوں کی جڑوں میں پانی پہنچ جائے، پھر اس پر پانی ڈالے، پھر خوشبو کو (کپڑے یا روئی کے) ایک ٹکڑے میں بھگو کر اس سے (شرمگاہ کی) صفائی کرے ، اسماء (رض) نے کہا : میں اس سے کیسے صفائی کروں ؟ آپ ﷺ نے کہا : سبحان اللہ ! اس سے صفائی کرو ، عائشہ (رض) نے ان سے چپکے سے کہا : اس کو خون کے نشان (یعنی شرمگاہ) پر پھیرو۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اسماء (رض) نے غسل جنابت کے بارے میں بھی آپ سے پوچھا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی عورت پانی لے اور طہارت کرے اور اچھی طرح کرے یا پاکی میں مبالغہ کرے، پھر سر پر پانی ڈالے اور اسے خوب ملے یہاں تک کہ سر کی جڑوں تک پانی پہنچ جائے، پھر اپنے پورے جسم پہ پانی بہائے ۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں، انہیں دین کی سمجھ حاصل کرنے سے شرم و حیاء نہیں روکتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث الغسل من الجنابة : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٤٨) ، وحدیث الغسل من المحیض أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٣١ (٢٣٣) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٢٢ (٣١٤، ٣١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٤٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ١٤ (٣١٤ تعلیقاً ) ، سنن النسائی/الطہارة ١٥٩ (٢٥٢) ، مسند احمد (٦/١٤٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨٤ (٨٠٠) (حسن) (ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٣٣١، ٣٣٣ ) وضاحت : ١ ؎: حق بات کہنا اور دین کی بات پوچھنا یہ شرم کے خلاف نہیں ہے، اور جو کوئی اس کو شرم کے خلاف سمجھے وہ خود بیوقوف ہے، شرم برے کام میں کرنا چاہیے، معصیت سے پاک عورتیں ناپاک باتوں سے پرہیز کرتی ہیں، آج کل کی عورتیں گناہ میں شرم نہیں کرتیں، اور دین کی بات دریافت کرنے میں شرم کرتی ہیں، ان کی شرم پر خاک پڑے۔

【79】

حائضہ کے ساتھ کھانا اور اس کے نچے ہوئے کا حکم۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں حالت حیض میں ہڈی چوستی تھی، پھر رسول اللہ ﷺ اسے لیتے اور اپنا منہ وہیں رکھتے جہاں میں نے رکھا تھا، اور میں برتن سے پانی پیتی تھی، آپ ﷺ اسے لیتے اور اپنا منہ وہیں رکھتے جہاں میں نے رکھا تھا، حالانکہ میں حیض کی حالت میں ہوتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٣ (٣٠٠) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٠٣ (٢٥٩) ، سنن النسائی/الطہارة ٥٦ (٧٠) ، ١٧٧ (٢٨٠) ، ١٧٨ (٢٨١) ، المیاہ ٩ (٣٤٢) ، الحیض ١٤ (٣٧٧) ، ١٥ (٣٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٢، ٦٤، ١٢٧، ١٩٢، ٢١٠، ٢١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ حائضہ کا بدن، منہ اور لعاب ناپاک نہیں ہے، اس لئے کہ حیض کی نجاست حکمی ہے۔

【80】

حائضہ کے ساتھ کھانا اور اس کے نچے ہوئے کا حکم۔

انس (رض) سے روایت ہے کہ یہود حائضہ عورتوں کے ساتھ نہ تو گھر میں بیٹھتے، نہ ان کے ساتھ کھاتے پیتے تھے، تو نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ويسألونک عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض لوگ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے : وہ ایک گندگی ہے لہٰذا تم عورتوں سے حیض کی حالت میں الگ رہو (سورة البقرہ : ٢٢٢ ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جماع کے سوا عورتوں سے حیض کی حالت میں سب کچھ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٣ (٣٠٢) ، سنن ابی داود/الطہا رة ١٠٣ (٢٥٨) ، النکاح ٤٧ (٢١٦٥) ، سنن الترمذی/تفسیر البقرة ٣ (٢٩٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الطہارة ١٨١ (٢٨٩) ، الحیض ٨ (٣٦٩) ، مسند احمد (٣/٢٤٦) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٠٧ (١٠٩٣) (صحیح )

【81】

حائضہ مسجد میں نہ جائے

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس مسجد کے صحن میں داخل ہوئے اور بآواز بلند اعلان کیا : مسجد کسی حائضہ اور جنبی کے لیے حلال نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٥١، ومصباح الزجاجة : ٢٤٢) (ضعیف) (اس سند میں ابوالخطاب الہجری، اور محدوج الذہلی دونوں مجہول الحال ہیں )

【82】

حائضہ پاک ہونے کے بعد زرد اور خاکی رنگ دیکھے تو

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کے بارے میں جو پاکی کے بعد ایسی چیز دیکھے جو اسے شبہ میں مبتلا کرے، فرمایا : وہ تو رگوں سے خارج ہونے والا مادہ ہے (نہ کہ حیض) ۔ محمد بن یحییٰ کہتے ہیں : پاکی کے بعد سے مراد غسل کے بعد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ١٧٩٧٦، ومصباح الزجاجة : ٢٤٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ١١١ (٢٩٣) ، مسند احمد (٦/٧١، ١٦٠، ٢١٥، ٢٧٩) (صحیح) (سند میں ام بکر مجہول ہیں، لیکن متابعت و شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٣٠٣ - ٣٠٤ )

【83】

حائضہ پاک ہونے کے بعد زرد اور خاکی رنگ دیکھے تو

ام عطیہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم حیض سے (پاکی کے بعد) زرد یا گدلے مادہ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٥ (٣٢٦) ، سنن ابی داود/الطہارة ١١٩ (٣٠٨) ، سنن النسائی/الحیض ٧ (٣٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٩٦، ١٨١٢٣) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطہارة ٩٤ (٨٩٥) (صحیح ) اس سند سے بھی ام عطیہ (رض) کہتی ہیں : (پاکی کے بعد) ہم پیلی اور مٹیالی رطوبت کا کوئی اعتبار نہیں کرتے تھے ١ ؎۔ محمد بن یحییٰ کہتے ہیں : وہیب اس سلسلے میں ہمارے نزدیک ان دونوں میں اولیٰ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ١٨١٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٥ (٣٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ جب عورت کے حیض کی مدت ختم ہوجائے اور وہ غسل کر ڈالے، تو اس کے بعد زردی یا خاکی یا سفیدی نکلتی دیکھے تو شک میں نہ پڑے، وہ حیض نہیں ہے، البتہ حیض کی مدت کے اندر جب اول اور آخر حیض آئے، اور بیچ میں اس قسم کے رنگ دیکھے تو وہ حیض ہی میں شمار ہوگا، اہل حدیث کا یہی قول ہے اور یہی صحیح ہے۔

【84】

جفاس والی عورت کتنے دن بیٹھے۔

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نفاس والی عورتیں رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں چالیس دن نماز اور روزے سے رکی رہتی تھیں، اور ہم اپنے چہرے پہ جھائیں کی وجہ سے ورس ملا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٢١ (٣١١) ، سنن الترمذی/الطہارة ١٠٥ (١٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٠٠، ٣٠٣، ٣٠٤، ٣١٠) ، سنن الدارمی/الطہارة ٩٩ (٩٩٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ورس: یہ گھاس چہرے پر جھائیں کے علاج کے لئے مفید ہے، نفاس کی اکثر مدت چالیس دن ہے، اور کم کی کوئی حد نہیں ہے، جب خون بند ہوجائے تو عورت پاک ہوگئی، اب وہ غسل کر کے نماز روزہ شروع کر دے، لیکن اگر چالیس دن کے بعد بھی نفاس کا خون جاری رہے تو اس کا حکم استحاضہ کا سا ہے، اور نفاس کا حکم جماع کی حرمت میں اور نماز روزہ نہ ادا کرنے میں حیض کے جیسا ہے، پھر جب نفاس سے پاک ہو تو نماز کی قضا نہ کرے، اور روزے کی قضا کرے، ام سلمہ (رض) سے ابوداؤد کی ایک روایت میں یوں ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کوئی عورت نفاس میں چالیس راتوں تک بیٹھتی تو آپ ﷺ اس کو قضائے نماز کا حکم نہ دیتے، اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔

【85】

جفاس والی عورت کتنے دن بیٹھے۔

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نفاس والی عورتوں کے لیے مدت نفاس کی چالیس دن مقرر کی مگر یہ کہ وہ اس سے پہلے پاکی دیکھ لیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٩٠، ومصباح الزجاجة : ٢٤٤) (ضعیف جدًا) (سند میں سلام بن سلیم (یا سلم) أبوسلیمان الطویل المدائنی متروک الحدیث ہے، أبو الاحوص ثقہ متقن ہیں، جو صحاح ستہ کے روای ہیں، مدائنی سے صرف ابن ماجہ نے روایت کی ہے، اور سند میں یہی مدائنی ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٥٦٥٣ )

【86】

جو بحالت حیض بیوی سے صحبت کر بیٹھا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص حیض کی حالت میں بیوی سے جماع کرلیتا تو نبی اکرم ﷺ اسے آدھا دینار صدقہ کرنے کا حکم دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہا رة ١٠٣ (١٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٩١) (ضعیف) (سند میں مقسم ضعیف ہیں، ثابت شدہ حدیث : ٦٤٠ ، نمبر میں گذری )

【87】

حائضہ کے ساتھ کھانا

عبداللہ بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے حائضہ کے ساتھ کھانے کے متعلق پوچھا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے ساتھ کھاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٨٣ (٢١٢) ، سنن الترمذی/الطہارة ١٠٠ (١٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٩٣) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٠٨ (١١١٣) (صحیح )

【88】

حائضہ کے کپڑے میں نماز۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز ادا کرتے تھے، اور میں حیض کی حالت میں آپ کے پہلو میں ہوتی تھی، اور میرے اوپر ایک چادر ہوتی جس کا کچھ حصہ آپ پر ہوتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥١ (٥١٤) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٣٥ (٣٧٠) ، سنن النسائی/القبلة ١٧ (٧٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کا ایک حصہ آپ ﷺ کے مبارک جسم پر ہوتا، اس سے بھی معلوم ہوا کہ حائضہ کا بدن اور کپڑا پاک ہے، ورنہ ایک نجس کپڑا آپ ﷺ اپنے بدن پر نماز کی حالت میں کیوں کر رکھ سکتے تھے۔

【89】

حائضہ کے کپڑے میں نماز۔

ام المؤمنین میمونہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک چادر اوڑھ کر نماز پڑھی، اس چادر کا کچھ حصہ آپ پر تھا، اور کچھ مجھ پر تھا اور میں حیض کی حالت میں تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٢٥ (٣٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٣١ (٣٣٣) ، صحیح مسلم/الصلا ة ٥٢ (٥١٣) ، مسند احمد (٦/٣٣٠) (صحیح )

【90】

لڑکی جب بالغ ہوجائے تو دو پٹہ کے بغیر نماز نہ پڑھے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو ان کی لونڈی چھپ گئی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا یہ بالغ ہوگئی ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں، آپ ﷺ نے اپنے عمامہ سے ٹکڑا پھاڑ کردیا اور فرمایا : اس کو اوڑھنی بنا لو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٤١٧، ومصباح الزجاجة : ٢٤٥) (ضعیف) (سند میں عبد الکریم بن ابی المخارق ضعیف راوی ہے، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے )

【91】

لڑکی جب بالغ ہوجائے تو دو پٹہ کے بغیر نماز نہ پڑھے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کسی بالغ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں فرماتا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٨٥ (٦٤١) ، سنن الترمذی/الصلا ة ١٦٠ (٣٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٥٠، ٢١٨، ٢٥٩) (صحیح )

【92】

حائضہ مہندی لگاسکتی ہے

معاذہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : کیا حائضہ مہندی لگا سکتی ہے ؟ انہوں نے کہا : ہم نبی اکرم ﷺ کے سامنے مہندی لگاتے تھے، لیکن آپ ہمیں منع نہ فرماتے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٧٢، ومصباح الزجاجة : ٢٤٦) (صحیح )

【93】

پٹی پر مسح

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ میری ایک کلائی ٹوٹ گئی، میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا ؟ ، تو آپ نے مجھے پٹیوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٧٧، ومصباح الزجاجة : ٢٤٧) (ضعیف جدا) (سند میں عمرو بن خالد کذاب ہے ) اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

【94】

لعاب کپرے کو لگ جائے تو

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ حسین بن علی (رض) کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے، اور ان کا لعاب آپ کے اوپر بہہ رہا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٦٦، ومصباح الزجاجة : ٢٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں کا لعاب پاک ہے، اسی طرح بڑے آدمی کا بھی لعاب پاک ہے۔

【95】

برتن میں کلی کرنا

وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ کی خدمت میں (پانی کا) ڈول حاضر کیا گیا، آپ نے اس میں سے پانی لے کر کلی کی، پھر ڈول میں کلی کی جو کستوری کی طرح یا کستوری سے پاکیزہ تر تھی اور آپ نے ڈول سے باہر ناک صاف کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٦٧، ومصباح الزجاجة : ٢٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ٣١٦، ٣١٨) (ضعیف) (یہ سند ضعیف ہے اس لئے کہ عبد الجبار بن وائل اور ان کے والد کے مابین انقطاع ہے، انہوں نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا ہے )

【96】

برتن میں کلی کرنا

محمود بن ربیع (رض) سے روایت ہے کہ ان کو وہ کلی یاد ہے جو رسول اللہ ﷺ نے ڈول میں کی تھی جس کا پانی ان کے کنوئیں سے بھرا گیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ١٩ (٧٧) ، الوضوء ٤١ (١٨٩) ، الدعوات ٣١ (٦٣٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٥٠، ١١٢٣٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٧ (١٤٩٤) ، مسند احمد (٥/٤٢٧، ٤٢٩) (صحیح) (تفصیل کے لئے حدیث نمبر ٧٥٤ ، ملاحظہ کریں )

【97】

اپنے بھائی کا ستر دیکھنے سے ممانعت۔

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت عورت کے اور مرد مرد کے ستر کو نہ دیکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٧ (٣٣٨) ، سنن الترمذی/الأدب ٣٨ (٢٧٩٣) ، سنن ابی داود/الحمام ٣ (٤٠١٨) ، (تحفةالأشراف : ٤١١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ٦٣) (صحیح )

【98】

اپنے بھائی کا ستر دیکھنے سے ممانعت۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی شرمگاہ کبھی نہیں دیکھی۔ ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں : ابونعیم عن مولاة لعائشة کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨١٦، ومصباح الزجاجة : ٢٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٣، ١٩٠) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں مولیٰ عائشہ مجہول الحال ہیں، اس لئے یہ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٨١٢ ، یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ١٩٢٢ )

【99】

جس نے غسل جنابت کرلیا پھر جس میں کوئی جگہ رہ گئی جہاں پانی نہ لگا وہ کیا کرے

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے غسل جنابت کیا تو معمولی سی جگہ خشکی دیکھی، تو اپنے بالوں سے اس مقام کو تر کردیا۔ اسحاق بن منصور نے اپنی حدیث میں کہا کہ آپ ﷺ نے اس پر اپنے بالوں کو نچوڑ کر تر کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٠٢٨، ومصباح الزجاجة : ٢٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٣) (ضعیف) (سند میں ابو علی الرحبی حسین بن قیس ہیں جن کی حدیثیں بہت زیادہ منکر ہیں )

【100】

جس نے غسل جنابت کرلیا پھر جس میں کوئی جگہ رہ گئی جہاں پانی نہ لگا وہ کیا کرے

علی (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا کہ میں نے غسل جنابت کیا، اور فجر کی نماز پڑھی پھر جب صبح ہوئی تو میں نے دیکھا کہ بدن کے ایک حصہ میں ناخن کے برابر پانی نہیں پہنچا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم اس پر اپنا گیلا ہاتھ پھیر دیتے تو کافی ہوتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠١٠٥، ومصباح الزجاجة : ٢٥٢) (ضعیف جدًا) (سند میں سوید بن سعید صدوق ہیں، اندھے ہونے کے بعد دوسروں سے احادیث کی بہت زیادہ تلقین قبول کرنے لگے، حتی کہ ابن معین نے ان کو حلال الدم قرار دیا، نیز محمد بن عبید اللہ العرزمی ضعیف اور متروک ہیں )

【101】

جس نے وضو کیا اور کچھ جگہ چھوڑ دی پانی نہ پہنچا یا۔

انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی وضو کر کے نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے ناخن کی مقدار خشک جگہ چھوڑ دی تھی، جہاں پانی نہیں پہنچا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا : جاؤ دوبارہ اچھی طرح وضو کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٦٧ (١٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٤٣، ١٤٦) (صحیح )

【102】

جس نے وضو کیا اور کچھ جگہ چھوڑ دی پانی نہ پہنچا یا۔

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا، جس نے وضو کیا اور اپنے پاؤں پر ناخن برابر جگہ خشک چھوڑ دی، تو آپ نے اسے وضو اور نماز دونوں کو دوہرانے کا حکم دیا، عمر (رض) کہتے ہیں : اس نے دوبارہ وضو کیا، اور نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٠ (٢٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٢١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٦٧ (١٧٣) مسند احمد (١/٢١، ٢٣) (صحیح )