10. زکوۃ کا بیان

【1】

زکوة کی فرضیت

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے معاذ (رض) کو یمن کی جانب بھیجا، اور فرمایا : تم اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) کے پاس پہنچو گے، تم انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اس کا رسول ہوں، اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رات و دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اسے مان لیں تو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں ان پر زکاۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور انہیں کے محتاجوں میں بانٹ دی جائیگی، اگر وہ اس کو مان لیں تو پھر ان کے عمدہ اور نفیس مال وصول کرنے سے بچے رہنا ١ ؎ (بلکہ زکاۃ میں اوسط مال لینا) ، اور مظلوم کی بد دعا سے بھی بچنا، اس لیے کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١ (١٣٩٥) ، ١ ٤ (١٤٥٨) ، ٦٣ (١٤٩٦) ، المظالم ١٠ (٢٤٤٨) ، المغازي ٦٠ (٤٣٤٧) التوحید ١ (٧٣٧١، ٧٣٧٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧ (١٩) ، سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٨٤) ، سنن الترمذی/الزکاة ٦ (٦٢٥) ، البر ٦٨ (٢٠١٤) ، سنن النسائی/ الزکاة ١ (٢٤٣٧) ، ٤٦ (٢٥٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٥١١) ، مسند احمد (١/٢٣٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ١ (١٦٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: زکاۃ میں صاحب زکاۃ سے عمدہ مال لینا منع ہے، البتہ اگر وہ اپنی خوشی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے عمدہ جانور چن کر دے تو لے لیا جائے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دی جائے، تو سب سے پہلے اس کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی دعوت دی جائے یعنی سب سے پہلے وہ لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دے، جب وہ توحید و رسالت پر ایمان لا کر لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ کو اپنی زبان سے دہرائے تو یہ اس بات کا اعلان ہوگا کہ اس نے دین اسلام قبول کرلیا، ایمان نام ہے دل سے توحید و رسالت اور اس کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کے اقرار اور زبان سے اس کے اعتراف اور عملی طور پر اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کا اس لیے توحید و رسالت کے بعد سب سے اہم اور بنیادی رکن اور اسلامی فریضہ یعنی نماز پڑھنے کی دعوت دی جائے، اس کے بعد زکاۃ ادا کرنے کی جیسا کہ اس حدیث میں آیا ہے، چونکہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں رمضان کے روزوں اور بیت اللہ کا حج ہے، اس لیے ان کی طرف دعوت دینے کا کام دوسرے احکام و مسائل سے پہلے ہوگا، ویسے اسلام لانے کے بعد ہر طرح کے چھوٹے بڑے دینی مسائل کا سیکھنا اور اس پر عمل کرنا اسلام کے مطابق زندگی گزارنا ہے، اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (سورة البقرة :208) ایمان والو ! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ٢ ؎: یعنی وہ فوراً مقبول ہوتی ہے رد نہیں ہوتی۔

【2】

زکوة نہ دینے کی سزا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی اپنے مال کی زکاۃ ادا نہیں کرتا اس کا مال قیامت کے دن ایک گنجا سانپ بن کر آئے گا، اور اس کے گلے کا طوق بن جائے گا، پھر آپ ﷺ نے اس کے ثبوت کے لیے قرآن کی یہ آیت پڑھی : ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله یعنی اور جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے (کچھ) مال دیا ہے، اور وہ اس میں بخیلی کرتے ہیں، (فرض زکاۃ ادا نہیں کرتے) تو اس بخیلی کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں بلکہ بری ہے، ان کے لیے جس (مال) میں انہوں نے بخیلی کی ہے، وہی قیامت کے دن ان (کے گلے) کا طوق ہوا چاہتا ہے، اور آسمانوں اور زمین کا وارث (آخر) اللہ تعالیٰ ہی ہوگا، اور جو تم کرتے ہو (سخاوت یا بخیلی) اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے (سورۃ آل عمران : ١٨٠) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن (سورة آل عمران) (٣٠١٢) ، سنن النسائی/الزکاة ٢ (٢٤٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٧) (صحیح )

【3】

زکوة نہ دینے کی سزا

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی اونٹ، بکری اور گائے والا اپنے مال کی زکاۃ ادا نہیں کرتا، تو اس کے جانور قیامت کے دن اس سے بہت بڑے اور موٹے بن کر آئیں گے جتنے وہ تھے، وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گے اور کھروں سے روندیں گے، جب اخیر تک سب جا نور ایسا کر چکیں گے تو پھر باربار تمام جانور ایسا ہی کرتے رہیں گے یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤٣ (١٤٦٠) ، الأیمان والنذور ٣ (٦٦٣٨) ، صحیح مسلم/الزکاة ٩ (٩٩٠) ، سنن الترمذی/الزکاة ١ (٦١٧) ، سنن النسائی/الزکاة ٢ (٢٤٤٢) ، ١١ (٢٤٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥٢، ١٥٨) (صحیح )

【4】

زکوة نہ دینے کی سزا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جن اونٹوں کی زکاۃ نہیں دی گئی وہ آئیں گے اور اپنے مالک کو اپنے پاؤں سے روندیں گے، اور گائیں اور بکریاں آئیں گی وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندیں گی اور اسے سینگوں سے ماریں گی، اور اس کا خزانہ ایک گنجا سانپ بن کر آئے گا، اور اپنے مالک سے قیامت کے دن ملے گا، اس کا مالک اس سے دور بھاگے گا، پھر وہ اس کے سامنے آئے گا تو وہ بھاگے گا، اور کہے گا : آخر تو میرے پیچھے کیوں پڑا ہے ؟ وہ کہے گا : میں تیرا خزانہ ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، آخر مالک اپنے ہاتھ کے ذریعہ اس سے اپنا بچاؤ کرے گا لیکن وہ اس کا ہاتھ ڈس لے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٤١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٣ (١٤٠٢) ، الجہاد ١٨٩ (٣٠٧٣) ، تفسیر براء ة ٦ (٤٦٥٩) ، الحیل ٣ (٩٦٥٨) ، سنن النسائی/الزکاہ ٦ (٢٤٥٠) ، موطا امام مالک/الزکاة ١٠ (٢٢) ، مسند احمد (٢/٣١٦، ٣٧٩، ٤٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ ہاتھ ہی سے زکاۃ نہیں دی گئی تو پہلے اسی عضو کو سزا دی جائے گی، خزانہ (کنز) سے مراد یہاں وہی مال ہے جس کی زکاۃ ادا نہیں کی گئی جیسے آگے آتا ہے۔

【5】

زکوة ادا شدہ مال خزانہ نہیں

عمر بن خطاب (رض) کے غلام خالد بن اسلم کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر (رض) کے ساتھ جا رہا تھا کہ ان سے ایک اعرابی (دیہاتی) ملا، اور آیت کریمہ : والذين يکنزون الذهب والفضة ولا ينفقونها في سبيل الله (سورة التوبة : 34) جو لوگ سونے اور چاندی کو خزانہ بنا کر رکھتے ہیں، اور اسے اللہ کی راہ میں صرف نہیں کرتے کے متعلق ان سے پوچھنے لگا کہ اس سے کون لوگ مراد ہیں ؟ تو ابن عمر (رض) نے کہا : جس نے اسے خزانہ بنا کر رکھا، اور اس کی زکاۃ ادا نہیں کی، تو اس کے لیے ہلاکت ہے، یہ آیت زکاۃ کا حکم اترنے سے پہلے کی ہے، پھر جب زکاۃ کا حکم اترا تو اللہ تعالیٰ نے اسے مالوں کی پاکی کا ذریعہ بنادیا، پھر وہ دوسری طرف متوجہ ہوئے اور بولے : اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو جس کی تعداد مجھے معلوم ہو، اور اس کی زکاۃ ادا کرتا رہوں، اور اللہ کے حکم کے مطابق اس کو استعمال کرتا رہوں، تو مجھے کوئی پروا نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٧١١، ومصباح الزجاجة : ٦٣٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤ (١٤٠٤ تعلیقاً ) ، التفسیر (٤٦٦١ تعلیقاً ) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عبداللہ بن عمر (رض) بہت مالدار آدمی تھے، اس اعرابی (دیہاتی) نے ان سے کچھ مانگا ہوگا، انہوں نے نہ دیا ہوگا تو یہ آیت ان کو شرمندہ کرنے کے لئے پڑھی، عبداللہ بن عمر (رض) نے اس کی تفسیر بیان کی کہ یہ آیت اس وقت کی ہے جب زکاۃ کا حکم نہیں اترا تھا، اور مطلق مال کا حاصل کرنا اور اس سے محفوظ رکھنا منع تھا، اس کے بعد زکاۃ کا حکم اترا، اب جس مال حلال میں سے زکاۃ دی جائے وہ کنز (خزانہ) نہیں ہے، اگرچہ لاکھوں کروڑوں روپیہ ہو، بلکہ مال حلال اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ اور انسان جو عبادتیں مالداری کی حالت میں کرسکتا ہے جیسے صدقہ و خیرات، اسلامی لشکر کی تیاری، اور تعلیم دین وغیرہ میں مدد مفلسی اور غریبی میں ہونا ناممکن ہے، لیکن اللہ تعالیٰ جب مال حلال عنایت فرمائے تو اس کا شکریہ یہ ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق اس کو خرچ کرے، آپ کھائے دوسروں کو کھلائے، صلہ رحمی کرے، مدرسے اور یتیم خانے، مسجدیں اور کنویں بنوا دے، مسافروں اور محتاجوں کی مدد کرے، اور جو مالدار اس طرح حلال مال کو اللہ کی رضا مندی میں صرف کرتا ہے اس کا درجہ بہت بڑا ہے۔ ابن حجر (رح) نے کہا : عبداللہ بن عمر (رض) نے ہزار غلام آزاد کئے اور ہزار گھوڑے اللہ کی راہ میں مجاہدین کو دیئے اور اس کے ساتھ وہ دنیا کی حکومت اور عہدے سے نفرت کرتے تھے۔

【6】

زکوة ادا شدہ مال خزانہ نہیں

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کردی، تو تم نے وہ حق ادا کردیا جو تم پر تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٢ (٦١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٩١) (ضعیف) ( ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٢١٨ )

【7】

زکوة ادا شدہ مال خزانہ نہیں

فاطمہ بنت قیس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : مال میں زکاۃ کے علاوہ کوئی حق نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٢٧ (٦٥٩، ٦٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٢٦) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الزکاة ١٣ (١٦٧٧) (ضعیف منکر) ( سند میں درج ابو حمزہ میمون ا الٔاعور ضعیف راوی ہے، اور شریک القاضی بھی ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٣٨٣ ) وضاحت : ١ ؎: امام ترمذی نے فاطمہ بنت قیس سے اس کے خلاف روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : بیشک مال میں اور حق بھی ہیں، سوائے زکاۃ کے، تو یہ حدیث مضطرب ہوئی۔

【8】

زکوة ادا شدہ مال خزانہ نہیں

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے گھوڑوں اور غلاموں کی زکاۃ معاف کردی ہے، لیکن نقد پیسوں میں سے چالیسواں حصہ دو ، ہر چالیس درہم میں ایک درہم کے حساب سے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٣٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزکاة ٣ (٦٢٠) ، سنن النسائی/الزکاة ١٨ (٢٤٧٩) ، مسند احمد (١/١٢١، ١٣٢، ١٤٦) ، سنن الدارمی/الزکاة ٧ (١٦٦٩) (صحیح) (شواہد کی بناء پر صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٥/٢٩٥ )

【9】

زکوة ادا شدہ مال خزانہ نہیں

عبداللہ بن عمر اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ہر بیس دینار یا اس سے زیادہ میں آدھا دینار لیتے تھے، اور چالیس دینار میں ایک دینار کے حساب سے لیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٢٩١، ١٦٢٨٩، ومصباح الزجاجة : ٦٤) (صحیح) ( ابراہیم بن اسماعیل ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٨١٣ )

【10】

جس کو مال حاصل ہو

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : کسی بھی مال پر اس وقت تک زکاۃ نہیں ہے جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٨٩، ومصباح الزجاجة : ٦٤١) (صحیح) (حارثہ بن محمد بن أبی الرجال ضعیف ہے، لیکن دوسرے طریق سے صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٨١٣، الإرواء : ٧٨٧ ) وضاحت : ١ ؎: اگر کسی کے پاس شروع سال میں دس دینار تھے، لیکن بیچ سال میں دس دینار اور ملے تو اس پر زکاۃ واجب نہ ہوگی جب تک بیس دینار پر پورا سال نہ گزرے، شافعی کا یہی قول ہے، اور ابوحنیفہ نے کہا کہ بیچ سال میں جو مال حاصل ہو وہ پہلے مال سے مل جائے گا اور سال پورا ہونے پر اس میں زکاۃ واجب ہوگی، یہ اختلاف اس صورت میں ہے، جب دوسرا مال الگ سے ہوا ہو، اور پہلے مال کا نفع ہو تو بالاتفاق اس سے مل جائے گا۔

【11】

جن اموال پر زکوة واجب ہوتی ہے

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : پانچ وسق سے کم کھجور میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤ (١٤٠٥) ، ٣٢ (١٤٤٧) ، ٤٢ (١٤٤٧) ، ٥٦ (١٤٨٤) ، صحیح مسلم/الزکاة ١ (٩٧٩) ، سنن ابی داود/الزکاة ١ (١٥٥٨) ، سنن الترمذی/الزکاة ٧ (٦٢٦، ٦٢٧) ، سنن النسائی/الزکاة ٥ (٢٤٧٥) ، ١٨ (٢٤٧٨) ، ٢١ (٢٤٨٥) ، ٢٤ (٢٤٨٦، ٢٤٨٩) ، موطا امام مالک/الزکاة ١ (٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٦، ٣٠، ٤٥، ٥٩، ٦٠، ٤٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ١١ (١٦٧٣، ١٦٧٤) (صحیح )

【12】

جن اموال پر زکوة واجب ہوتی ہے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ وسق سے کم اناج یا میوہ میں زکاۃ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٥٦٦، ومصباح الزجاجة : ٦٤٢) ، مسند احمد (٣/٢٩٦) (صحیح )

【13】

قبل از وقت زکوة کی ادائیگی

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ عباس (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اپنی زکاۃ پیشگی ادا کرنے کے متعلق پوچھا تو آپ نے انہیں اس کی رخصت دی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢١ (١٦٢٤) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٧ (٦٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٠٤) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٢ (١٦٨٧) (حسن )

【14】

جب کوئی زکوة نکالے تو وصول کرنے والا یہ دعا دے

عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی اپنے مال کی زکاۃ لاتا تو آپ اس کے لیے دعا فرماتے، میں بھی آپ کے پاس اپنے مال کی زکاۃ لے کر آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللهم صل على آل أبي أوفى اے اللہ ! ابواوفی کی اولاد پر اپنی رحمت نازل فرما ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦٤ (١٤٩٧) ، المغازي ٣٥ (٤١٦٦) ، الدعوات ١٩ (٦٣٣٢) ، ٣٣ (٦٣٥٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٥٤ (١٠٧٨) ، سنن ابی داود/الزکاة ٦ (١٥٩٠) ، سنن النسائی/الزکاة ١٣ (٢٤٦١) ، (تحفة الأشراف : ٥١٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٣، ٣٥٤، ٣٥٥، ٣٨١، ٣٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنی زکاۃ خود لے کر آئے تو عامل ( زکاۃ وصول کرنے والا ) اس کو دعائیں دے۔

【15】

جب کوئی زکوة نکالے تو وصول کرنے والا یہ دعا دے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم زکاۃ دو اس کا ثواب نہ بھول جاؤ، بلکہ یوں کہو : اللهم اجعلها مغنما ولا تجعلها مغرما اے اللہ ! تو اسے ہمارے لیے مال غنیمت بنا دے، اسے تاوان نہ بنا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤١٢٩، ومصباح الزجاجة : ٦٤٣) (موضوع) (بختری بن عبید ضعیف، متروک راوی ہے، اور ولید بن مسلم مدلس، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٨٥٢ ، سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٠٩٦ )

【16】

اونٹوں کی زکوٰة

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم نے ایک تحریر پڑھوائی، جو رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کے بیان میں اپنی وفات سے پہلے لکھوائی تھی، اس تحریر میں میں نے یہ لکھا پایا : پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے، اور دس اونٹ میں دو بکریاں ہیں، اور پندرہ اونٹ میں تین بکریاں ہیں، اور بیس اونٹ میں چار بکریاں ہیں، اور پچیس سے پینتیس اونٹوں تک میں ایک بنت مخاض ١ ؎ ہے، اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون ٢ ؎ ہے، اور اگر پینتیس سے ایک بھی زیادہ ہوجائے تو ٤٥ تک بنت لبون ٣ ؎ ہے، اور اگر ٤٥ سے بھی زیادہ ہوجائے تو ساٹھ تک ایک حقہ ٤ ؎ ہے، اور اگر ساٹھ سے ایک بھی زیادہ ہوجائے، تو ٧٥ تک ایک جذعہ ٥ ؎، اور اگر ٧٥ سے ایک بھی زیادہ ہوجائے تو نوے تک دو بنت لبون ہیں، اور اگر نوے سے ایک بھی زیادہ ہوجائے تو ١٢٠ تک دو حقے ہیں، اور اگر ١٢٠ سے زیادہ ہوں تو ہر پچاس میں ایک حقہ، اور ہر چالیس میں ایک بنت لبون ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٨٣٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٦٨) ، سنن الترمذی/الزکاة ٤ (٦٢١) ، موطا امام مالک/الزکاة ١١ (٢٣) ، مسند احمد (٢/١٤، ١٥) ، سنن الدارمی/الزکاة ٦ (١٦٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بنت مخاض : اونٹ کا وہ مادہ بچہ جو اپنی عمر کا ایک سال پورا کرچکا ہو۔ ٢ ؎: ابن لبون : اونٹ کا وہ نر بچہ جو اپنی عمر کے دو سال پورے کرچکا ہو۔ ٣ ؎: بنت لبون : اونٹ کا وہ مادہ بچہ جو اپنی عمر کے دو سال پورے کرچکا ہو۔ ٤ ؎: حقہ : اونٹ کا وہ مادہ بچہ جو اپنی عمر کے تین سال پورے کرچکا ہو۔ ٥ ؎ : جذعہ : اونٹ کا وہ مادہ بچہ جو عمر کے چار سال پورے کرچکا ہو۔

【17】

اونٹوں کی زکوٰة

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور چار میں کچھ نہیں ہے، جب پانچ اونٹ ہوجائیں تو نو تک ایک بکری ہے، جب دس ہوجائیں تو چودہ تک دو بکریاں ہیں، اور جب پندرہ ہوجائیں تو ١٩ تک تین بکریاں ہیں، اور جب بیس ہوجائیں تو ٢٤ تک چار بکریاں ہیں، اور جب پچیس ہوجائیں تو ٣٥ تک بنت مخاض (ایک سال کی اونٹنی) ہے، اور اگر ایک سال کی اونٹنی نہ ہو تو ایک ابن لبون (دو سال کا ایک اونٹ) ہے، اور اگر ٣٥ سے ایک اونٹ بھی زیادہ ہوجائے تو ٤٥ تک بنت لبون (دو سال کی ایک اونٹنی) ہے، اور اگر ٤٥ سے ایک اونٹ بھی زیادہ ہوجائے تو ساٹھ تک حقہ (تین سال کی ایک اونٹنی) ہے، اور اگر ٦٠ سے ایک اونٹ بھی زیادہ ہوجائے تو ٧٥ تک جذعہ (چار سال کی ایک اونٹنی) ہے، اور اگر ٧٥ سے ایک اونٹ بھی زیادہ ہوجائے تو ٩٠ تک دو بنت لبون (دو سال کی دو اونٹنیاں) ہیں، اور اگر ٩٠ سے ایک اونٹ بھی زیادہ ہوجائے تو ١٢٠ تک دو حقہ (تین سال کی دو اونٹنیاں) ہیں، پھر ہر پچاس میں ایک حقہ (تین سال کی ایک اونٹنی) ، اور ہر چالیس میں بنت لبون (دو سال کی ایک اونٹنی) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٤٠٩، ومصباح الزجاجة : ٦٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٦، ٣٠، ٧٣) (حسن) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢١٩٢ )

【18】

زکوة میں واجب سے کم یا زیادہ عمر کا جانور لینا

انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر صدیق (رض) نے انہیں لکھا : بسم الله الرحمن الرحيم یہ فریضہ زکاۃ کا نصاب ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس کا حکم دیا، زکاۃ کے اونٹوں کی مقررہ عمروں میں کمی بیشی کی تلافی اس طرح ہوگی کہ جس کو زکاۃ میں جذعہ ( ٤ چار سال کی اونٹنی) ادا کرنی ہو جو اس کے پاس نہ ہو بلکہ حقہ (تین سالہ اونٹنی) ہو تو وہی لے لی جائے گی، اور کمی کے بدلے دو بکریاں لی جائیں گی، اگر اس کے پاس ہوں، ورنہ بیس درہم لیا جائے گا، اور جس شخص کو حقہ بطور زکاۃ ادا کرنا ہو اور اس کے پاس وہ نہ ہو بلکہ بنت لبون ہو تو اس سے بنت لبون قبول کرلی جائے گی، اور وہ اس کے ساتھ دو بکریاں یا بیس درہم دے گا، اور جس کو زکاۃ میں بنت لبون ادا کرنی ہو اور اس کے پاس بنت لبون نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو اس سے حقہ لیا جائے گا، اور زکاۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں دے گا، اور جسے زکاۃ میں بنت لبون ادا کرنی ہو، اس کے پاس بنت لبون نہ ہو بلکہ بنت مخاض ہو تو اس سے بنت مخاض لی جائے گی، اور ساتھ میں زکاۃ دینے والا بیس درہم یا دو بکریاں دے گا، اور جس کو زکاۃ میں بنت مخاض ادا کرنی ہو اور اس کے پاس وہ نہ ہو بلکہ بنت لبون ہو تو اس سے بنت لبون لے لی جائے گی، اور زکاۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس دے گا، اور جس کے پاس بنت مخاض نہ ہو بلکہ ابن لبون ہو تو اس سے وہی لے لیا جائے گا، اور اس کو اس کے ساتھ کچھ اور نہ دینا ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٣٣ (١٤٤٨) ، ٣٩ (١٤٥٥) ، الشرکة ٢ (٢٤٨٧) ، فرض الخمس ٥ (٣١٠٦) الحیل ٣ (٦٩٥٥) ، سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٦٧) ، سنن النسائی/الزکاة ٥ (٢٤٤٩) ، ١٠ (٢٤٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١١، ١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ اگر پورے سن کی اونٹنی نہ ہو تو اس سے ایک سال زیادہ کا نر اونٹ اسی کے برابر سمجھا جائے گا، نہ صرف مال والے کو کچھ دینا ہوگا، نہ زکاۃ لینے والے کو کچھ پھیرنا پڑے گا۔

【19】

زکوة وصول کرنے والا کس قسم کا اونٹ لے

سوید بن غفلہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم ﷺ کا عامل صدقہ (زکاۃ وصول کرنے والا) آیا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑا، اور اس کے میثاق (عہد نامہ) میں پڑھا کہ الگ الگ مالوں کو یکجا نہ کیا جائے، اور نہ مشترک مال کو زکاۃ کے ڈر سے الگ الگ کیا جائے، ایک شخص ان کے پاس ایک بھاری اور موٹی سی اونٹنی لے کر آیا، عامل زکاۃ نے اس کو لینے سے انکار کردیا، آخر وہ دوسری اونٹنی اس سے کم درجہ کی لایا، تو عامل نے اس کو لے لیا، اور کہا کہ کون سی زمین مجھے جگہ دے گی، اور کون سا آسمان مجھ پر سایہ کرے گا ؟ جب میں رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک مسلمان کا بہترین مال لے کے جاؤں گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٧٩) ، سنن النسائی/الزکاة ١٢ (٢٤٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٥) ، سنن الدارمی/الزکاة ٨ (١٦٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی زکاۃ زیادہ یا کم دینے کے ڈر سے زیادہ کا اندیشہ مالک کو ہوگا، اور کم کا خوف زکاۃ وصول کرنے والے کو ہوگا، یہ حکم زکاۃ دینے والے اور زکاۃ وصول کرنے والے دونوں کے لیے ہے۔ الگ الگ کو یکجا کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً تین آدمی ہیں ہر ایک کی چالیس چالیس بکریاں ہیں، الگ الگ کی صورت میں ہر ایک کو ایک ایک بکری دینی پڑے گی اس طرح مجموعی طور پر تین بکریاں دینی پڑتی ہیں مگر جب زکاۃ وصول کرنے والا ان کے پاس پہنچتا ہے تو وہ سب بکریاں جمع کرلیتے ہیں اور تعداد ایک سو بیس بن جاتی ہے، اس طرح ان کو صرف ایک بکری دینی پڑتی ہے۔ اور اکٹھا بکریوں کو الگ الگ کرنے کی صورت یہ ہے کہ دو آدمی اکٹھے ہیں اور دو سو ایک بکریاں ان کی ملکیت میں ہیں اس طرح تین بکریاں زکاۃ میں دینا لازم آتا ہے مگر جب زکاۃ وصول کرنے والا ان کے پاس پہنچتا ہے تو دونوں اپنی اپنی بکریاں الگ کرلیتے ہیں اس طرح ان میں سے ہر ایک کے ذمہ ایک ایک ہی بکری لازم آتی ہے، خلاصہ یہ کہ اس طرح کی حیلہ سازی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ زکاۃ وصول کرنے والے کو منع کرنے کی صورت یہ ہے کہ دو آدمی ہیں جو نہ تو باہم شریک (ساجھی دار) ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ اپنا مال ملائے ہوئے ہیں ان دونوں میں سے ہر ایک کے پاس ایک سو بیس یا اس سے کم و زیادہ بکریاں ہیں تو اس صورت میں ہر ایک کو ایک بکری زکاۃ میں دینی پڑتی ہے، مگر زکاۃ وصول کرنے والا ان دونوں کی بکریاں از خود جمع کردیتا ہے، اور ان کی مجموعی تعداد دو سو سے زائد ہوجاتی ہے، اس طرح وہ تین بکریاں وصول کرلیتا ہے اور جمع شدہ کو الگ الگ کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً ایک سو بیس بکریاں تین آدمیوں کی ملکیت میں ہیں اس صورت میں صرف ایک ہی بکری زکاۃ میں دینی پڑتی ہے، مگر زکاۃ وصول کرنے والا اسے تین الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتا ہے اور اس طرح تین بکریاں وصول کرلیتا ہے۔

【20】

زکوة وصول کرنے والا کس قسم کا اونٹ لے

جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عامل زکاۃ لوگوں کو خوش رکھ کر ہی واپس جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٥٥ (٩٨٩) ، سنن الترمذی/الزکاة ٢٠ (٦٤٧، ٦٤٨) ، سنن النسائی/الزکاة ١٤ (٢٤٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٢١٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الزکاة ٥ (١٥٨٩) ، مسند احمد (٤/٣٦٢) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣٢ (١٧١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سبحان اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایمان داری اور خوف الہی کو دیکھئے کہ ایک شخص نے خوشی سے اپنا عمدہ مال زکاۃ میں دیا تب بھی انہوں نے قبول نہ کیا، دو وجہ سے، ایک تو یہ کہ نبی کریم ﷺ نے عمدہ مال زکاۃ میں لینے سے منع کردیا تھا، دوسرے اس وجہ سے کہ شاید دینے والے کے دل کو ناگوار ہو، گو وہ ظاہر میں خوشی سے دیتا ہے، اس ذرا سی حق تلفی اور ناراضی کو بھی اتنا بڑا گناہ سمجھا کہ یوں کہا : زمین مجھے کیسے اٹھائے گی اور آسمان میرے اوپر گرپڑے گا اگر میں ایسا کام کروں، جب اسلام میں ایسے متقی اور ایمان دار اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے تھے تو اسلام کو اس قدر جلد ایسی ترقی ہوئی کہ اس کا پیغام دنیا کے چپہ چپہ میں پہنچ گیا۔

【21】

گائے بیل کی زکوة

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن بھیجا، اور حکم دیا کہ ہر چالیس گائے میں ایک مسنة لوں، اور ٣٠ تیس گائے میں ایک تبیع یا تبیعہ لوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٧٧) ، سنن الترمذی/الزکاة ٥ (٦٢٣) ، سنن النسائی/الزکاة ٨ (٢٤٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٦٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ١٢ (٢٤) ، مسند احمد (٥/٢٣٠، ٢٣٣، ٢٤٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ٥ (١٦٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مسنة ایسی گائے جو دو سال پورے کر کے تیسرے میں داخل ہوگئی ہو۔ اور اس کے سامنے والے دانت گر کر دوبارہ نکل آئے ہوں۔ ٢ ؎:تبیع گائے کا وہ بچھڑا جو ایک سال پورا کرکے دوسرے میں داخل ہوگیا ہو۔ ٣ ؎: تبیعہ گائے کی وہ بچھڑی جو ایک سال پورے کر کے دوسرے میں داخل ہوگئی ہو۔

【22】

گائے بیل کی زکوة

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تیس گائے میں ایک تبیع یا ایک تبیعہ اور چالیس میں ایک مسنة ہے تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٥ (٦٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤١١) (صحیح )

【23】

بکر یوں کی زکوة

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم نے ایک تحریر پڑھائی جو رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کے سلسلے میں اپنی وفات سے پہلے لکھوائی تھی، اس تحریر میں میں نے لکھا پایا : چالیس سے ایک سو بیس بکریوں تک ایک بکری زکاۃ ہے، اگر ١٢٠ سے ایک بھی زیادہ ہوجائے تو اس میں دو سو تک دو بکریاں ہیں، اور اگر ٢٠٠ سے ایک بھی زیادہ ہوجائے تو اس میں ٣٠٠ تک تین بکریاں ہیں، اور اگر اس سے بھی زیادہ ہو تو ہر سو میں ایک بکری زکاۃ ہے، اور میں نے اس میں یہ بھی پایا : متفرق مال اکٹھا نہ کیا جائے، اور اکٹھا مال متفرق نہ کیا جائے ، اور اس میں یہ بھی پایا : زکاۃ میں جفتی کے لیے مخصوص بکرا، بوڑھا اور عیب دار جانور نہ لیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٦٨) ، سنن الترمذی/الزکاة ٤ (٦٢١) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٣٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ١١ (٢٣) ، مسند احمد (٢/١٤، ١٥) ، سنن الدارمی/الزکاة ٤ (١٦٦٦) (صحیح )

【24】

بکر یوں کی زکوة

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کی زکاۃ ان کے پانی پلانے کی جگہوں میں لی جائے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٧٣٤، ومصباح الزجاجة : ٦٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٤) (حسن صحیح) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٧٧٩ ) وضاحت : ١ ؎: ہر ایک اپنے جانوروں کو اپنی بستی میں پانی پلاتا ہے تو مطلب یہ ہے کہ زکاۃ وصول کرنے والا ان کی بستیوں میں جا کر زکاۃ وصول کرے گا یہ نہ ہوگا کہ وہ اپنی بستیوں کے باہر زکاۃ دینے کے لئے بلائے جائیں، یہ بھی رعایا پر ایک شفقت ہے، پانی کے گھاٹ پر جانوروں کے زکاۃ وصول کرنے کا محصل کو فائدہ یہ بھی ہوگا کہ وہاں تمام ریوڑ اور ہر ریوڑ کے تمام جانور پانی پینے کے لیے جمع ہوتے ہیں، گنتی میں آسانی رہتی ہے، جب کہ چراگاہوں میں جانور بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، اور وہاں ان کا شمار کرنا مشکل ہوتا ہے۔

【25】

بکر یوں کی زکوة

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چالیس سے لے کر ایک سو بیس بکریوں تک ایک بکری زکاۃ ہے، اگر ایک سو بیس سے ایک بھی زیادہ ہوجائے تو دو سو تک دو بکریاں ہیں، اور اگر دو سو سے ایک بھی زیادہ ہوجائے تو تین سو تک تین بکریاں ہیں، اور اگر تین سو سے زیادہ ہوں تو ہر سو میں ایک بکری ہے، اور جو جانور اکٹھے ہوں انہیں زکاۃ کے ڈر سے الگ الگ نہ کیا جائے، اور نہ ہی جو الگ الگ ہوں انہیں اکٹھا کیا جائے، اور اگر مال میں دو شخص شریک ہوں تو دونوں اپنے اپنے حصہ کے موافق زکاۃ پوری کریں ١ ؎، اور زکاۃ میں عامل زکاۃ کو بوڑھا، عیب دار اور جفتی کا مخصوص بکرا نہ دیا جائے، الا یہ کہ عامل زکاۃ خود ہی لینا چاہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٥٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مثلاً دو شریک ہیں ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں، اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں ہیں، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں، زکاۃ وصول کرنے والا آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں، فرض کیجیے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے، اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں، اور دو سو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالی سے بنتے ہیں جن میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہوگی اور ٢٥ چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر ہوگی، اب اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپئے واپس کرے گا، اور اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے دس بکریاں لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ ادا کرے گا۔ ٢ ؎: یعنی جب کسی مصلحت کی وجہ سے محصل (زکاۃ وصول کرنے والا) کسی عیب دار یا بوڑھے یا نر جانور کو لینا چاہے تو صاحب مال پر کوئی زور نہیں کہ وہ دے ہی دے اور محصل کی مرضی کے بغیر اس قسم کے جانور کو زکاۃ میں دینا منع ہے، مصلحت یہ ہے کہ مثلاً عیب دار جانور قوی اور موٹا ہو، دودھ کی زیادہ توقع ہو، یا زکاۃ کے جانور سب مادہ ہوں، ان میں نر کی ضرورت ہو تو نر قبول کرے یا بوڑھا جانور ہو لیکن عمدہ نسل کا ہو تو اس کو قبول کرے۔ واللہ اعلم۔

【26】

زکوة وصول کرنے والوں کے احکا م

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زکاۃ لینے میں زیادتی کرنے والا زکاۃ نہ دینے والے کی طرح ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٨٥) ، سنن الترمذی/الزکاة ١٩ (٦٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٧) (حسن) (ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ١٤١٣ )

【27】

زکوة وصول کرنے والوں کے احکا م

رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : حق و انصاف کے ساتھ زکاۃ وصول کرنے والا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے، جب تک کہ لوٹ کر اپنے گھر واپس نہ آجائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخراج والإمارة ٧ (٢٩٣٦) ، سنن الترمذی/الزکاة ١٨ (٦٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٤٣، ٤٦٥، ٤/١٤٣) (حسن صحیح) (ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٢٦٠٤ ) وضاحت : ١ ؎: حق و انصاف سے کام لے یعنی شرع کے موافق رحم، شفقت اور رضامندی کے ساتھ زکاۃ کی وصولی کرے۔

【28】

زکوة وصول کرنے والوں کے احکا م

عبداللہ بن انیس (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اور عمر بن خطاب (رض) نے ایک دن زکاۃ کے بارے میں آپس میں بات کی تو عمر (رض) نے کہا : کیا تم نے رسول اللہ ﷺ سے جس وقت آپ زکاۃ میں خیانت کا ذکر کر رہے تھے یہ نہیں سنا : جس نے زکاۃ کے مال سے ایک اونٹ یا ایک بکری چرا لی تو وہ قیامت کے دن اسے اٹھائے ہوئے لے کر آئے گا ؟ عبداللہ بن انیس (رض) نے کہا : کیوں نہیں (ہاں، میں نے سنا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٨١، ومصباح الزجاجة : ٦٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٣/٤٩٨) (صحیح) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٣٥٤ )

【29】

زکوة وصول کرنے والوں کے احکا م

عمران (رض) کے غلام عطا بیان کرتے ہیں کہ عمران بن حصین (رض) زکاۃ پہ عامل بنائے گئے، جب لوٹ کر آئے تو ان سے پوچھا گیا : مال کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا : آپ نے مجھے مال لانے کے لیے بھیجا تھا ؟ ہم نے زکاۃ ان لوگوں سے لی جن سے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں لیا کرتے تھے، اور پھر اس کو ان مقامات میں خرچ ڈالا جہاں ہم خرچ کیا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٢ (١٦٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ زکاۃ وصول کر کے آپ کے پاس لانا ضروری نہ تھا، بلکہ زکاۃ جن لوگوں سے لی جائے انہی کے فقراء و مساکین میں بانٹ دینا بہتر ہے، البتہ اگر دوسرے لوگ ان سے زیادہ ضرورت مند اور محتاج ہوں تو ان کو دینا چاہیے، پس میں نے سنت کے موافق جن لوگوں سے زکاۃ لینی چاہی تھی، ان سے لی اور وہیں فقیروں اور محتاجوں کو بانٹ دی، آپ کے پاس کیا لاتا ؟ کیا آپ نے مجھ کو مال کے یہاں اپنے پاس لانے پر مقرر کیا تھا ؟۔

【30】

گھوڑوں اور لونڈیوں کی زکوة کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان پر اس کے گھوڑے اور غلام میں زکاۃ نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤٥ (١٤٦٣) ، ٤٦ (١٤٦٤) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢ (٩٨٢) ، سنن ابی داود/الزکاة ١١ (١٥٩٤، ١٥٩٥) ، سنن الترمذی/الزکاة ٨ (٦٢٨) ، سنن النسائی/الزکاة ١٦ (٢٣٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٥٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ٢٣ (٣٧) ، مسند احمد (٢/٢٤٢، ٢٤٩، ٢٥٤، ٢٧٩، ٤١٠، ٤٢٠، ٤٣٢، ٤٥٤، ٤٦٩، ٤٧٠) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٠ (١٦٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو غلام، لونڈی اور گھوڑوں میں زکاۃ کو واجب نہیں کہتے، اور بعضوں نے کہا : اس حدیث میں گھوڑوں سے مراد غازی اور مجاہد کا گھوڑا ہے، جیسے زید بن ثابت (رض) سے منقول ہے، اور بعض نے کہا : اگر گھوڑے جنگل میں چرتے ہوں اور ان میں نر اور مادہ دونوں ہوں تو ان کے مالک کو اختیار ہے خواہ ہر گھوڑے کے بدلے ایک دینار زکاۃ دے یا جملہ گھوڑوں کی قیمت لگا کر اس کا چالیسواں حصہ دے، ایسا ہی عمر (رض) سے منقول ہے، امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے، لیکن صاحبین اور جمہور علماء اور ائمہ اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ گھوڑے، غلام اور لونڈی میں مطلقاً زکاۃ نہیں ہے اور یہی صحیح ہے۔

【31】

گھوڑوں اور لونڈیوں کی زکوة کا بیان

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں نے تم سے گھوڑوں، غلام اور لونڈیوں کی زکاۃ معاف کردی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٥٥) (صحیح )

【32】

اموال زکوة

معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں یمن بھیجا اور فرمایا : (زکاۃ میں) غلہ میں سے غلہ، بکریوں میں سے بکری، اونٹوں میں سے اونٹ، اور گایوں میں سے گائے لو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ١١ (١٥٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٤٨) (ضعیف) (عطاء بن یسار اور معاذ (رض) کے درمیان انقطاع ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٥٤٤ )

【33】

اموال زکوة

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ان پانچ چیزوں میں زکاۃ مقرر کی ہے : گیہوں، جو، کھجور، انگور اور مکئی میں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٩٥، ومصباح الزجاجة : ٦٤٧) (ضعیف جدا) (محمد بن عبید اللہ متروک ہے، لیکن لفظ الأربعة کے ساتھ یہ صحیح ہے، ہاں الذُّرَةِ کا ذکر منکر ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٨٠١ )

【34】

کھیتی اور پھلوں کی زکوة

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو غلہ بارش یا چشمہ کے پانی سے پیدا ہوتا ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ کا ہے، اور جو غلہ پانی سینچ کر پیدا ہو اس میں بیسواں حصہ زکاۃ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ١٤ (٦٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٠٨، ١٣٤٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اوپر کی حدیث میں آیا ہے کہ زکاۃ پانچ چیزوں میں ہے : گیہوں، جو، کھجور، انگور اور مکئی، اس میں مزید آسانی یہ ہے کہ یہ (عشر اور نصف عشر) دسواں اور بیسواں حصہ بھی صرف انہیں پانچ چیزوں سے لیا جائے گا جن کا ذکر اوپر ہوا، باقی تمام غلے اور میوہ جات، پھل پھول اور سبزیاں و ترکاریاں وغیرہ وغیرہ میں زکاۃ معاف ہے، اور ایک شرط یہ بھی ہے یہ پانچ چیزیں بھی پانچ وسق یعنی ( ٧٥٠ ) کلو گرام اور بقول شیخ عبداللہ البسام ( ٩٠٠ کلو گرام) سے کم نہ ہوں، ورنہ ان میں بھی زکاۃ معاف ہوگی، لیکن امام ابوحنیفہ اس حدیث سے یہ دلیل لیتے ہیں کہ جملہ پیداوار میں دسواں اور بیسواں حصہ ہے کیونکہ ماسقت السماء کا لفظ عام ہے، علامہ ابن القیم فرماتے ہیں : احادیث میں تطبیق دینا ضروری ہے اور جب غور سے دیکھو تو کوئی تعارض نہیں ہے، اس حدیث میں مقصود یہ ہے کہ بارش سے ہونے والی زراعت (کھیتی) میں دسواں حصہ ہے، کنویں اور نہر سے سینچی جانے والی زراعت میں بیسواں حصہ، (اس لیے کہ اس میں آدمی کو پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے اور محنت بھی) لیکن اس میں اموال زکاۃ اور مقدار نصاب کی تصریح نہیں ہے، یہ تصریح دوسری احادیث میں وارد ہے کہ زکاۃ صرف پانچ چیزوں میں ہے اور پانچ وسق سے کم میں زکاۃ نہیں ہے تو یہ عام اسی خاص پر محمول ہوگا۔

【35】

کھیتی اور پھلوں کی زکوة

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو غلہ اور پھل بارش، نہر، چشمہ یا زمین کی تری (سیرابی) سے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے، اور جسے جانوروں کے ذریعہ سینچا گیا ہو اس میں بیسواں حصہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٥ (١٤٨٣) ، سنن ابی داود/الزکا ة ١١ (١٥٩٦) ، سنن الترمذی/الزکاة ١٤ (٦٤٠) ، سنن النسائی/الزکاة ٢٥ (٢٤٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٧٧) (صحیح )

【36】

کھیتی اور پھلوں کی زکوة

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن بھیجا، اور حکم دیا کہ جو پیداوار بارش کے پانی سے ہو اور جو زمین کی تری سے ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ لوں، اور جو چرخی کے پانی سے ہو اس میں بیسواں حصہ لوں۔ یحییٰ بن آدم کہتے ہیں : بعل، عثری اور عذی وہ زراعت (کھیتی) ہے جو بارش کے پانی سے سیراب کی جائے، اور عثری اس زراعت کو کہتے ہیں : جو خاص بارش کے پانی سے ہی بوئی جائے اور دوسرا پانی اسے نہ پہنچے، اور بعل وہ انگور ہے جس کی جڑیں زمین کے اندر پانی تک چلی گئی ہوں اور اوپر سے پانچ چھ سال تک پانی دینے کی حاجت نہ ہو، بغیر سینچائی کے کام چل جائے، اور سیل کہتے ہیں وادی کے بہتے پانی کو، اور غیل کہتے ہیں چھوٹے سیل کو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٦٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الزکاة ٢٥ (٢٤٩٢) ، مسند احمد (٥/٢٣٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٩ (١٧٠٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سیل اور غیل دونوں کو اسی لئے بیان کیا کہ بعض روایتوں میں غیل کی جگہ سیل ہے، مطلب یہ ہے کہ جو زراعت سیل (سیلاب) کے پانی سے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ لازم ہوگا کیونکہ وہ بارش والے پانی کی زراعت کے مثل ہے۔

【37】

کھجور اور انگور کا تخمینہ

عتاب بن اسید (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ لوگوں کے پاس ایک شخص کو بھیجتے جو ان کے انگوروں اور پھلوں کا اندازہ لگاتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ١٣ (١٦٠٣، ١٦٠٤) ، سنن الترمذی/الزکاة ١٧ (٦٤٤) ، سنن النسائی/الزکاة ١٠٠ (٢٦١٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٤٨) (ضعیف) (سعید بن مسیب اور عتاب (رض) کے درمیان سند میں انقطاع ہے ) وضاحت : ١ ؎: خرص کا مطلب تخمینہ اور اندازہ لگانے کے ہیں یعنی کھجور وغیرہ کے درخت پر پھلوں کا اندازہ کرنا کہ اس درخت میں اتنا پھل نکلے گا، اور اندازے کے بعد رعایا کو اجازت دے دی جاتی ہے کہ وہ پھل توڑ لیں، پھر اندازہ کے موافق ان سے دسواں یا بیسواں حصہ لے لیا جاتا ہے۔

【38】

کھجور اور انگور کا تخمینہ

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جب خیبر فتح کیا، تو آپ نے ان سے شرط لے لی کہ زمین آپ کی ہوگی، اور ہر صفراء اور بیضاء یعنی سونا و چاندی بھی آپ ہی کا ہوگا، اور آپ سے خیبر والوں نے کہا : ہم یہاں کی زمین کے بارے میں زیادہ بہتر جانتے ہیں، لہٰذا آپ ہمیں یہ دے دیجئیے، ہم اس میں کھیتی کریں گے، اور جو پھل پیدا ہوگا وہ آدھا آدھا کرلیں گے، اسی شرط پر آپ ﷺ نے خیبر کی زمین ان کے حوالے کردی، جب کھجور توڑنے کا وقت آیا، تو آپ ﷺ نے عبداللہ بن رواحہ (رض) کو ان کے پاس بھیجا، انہوں نے کھجور کا تخمینہ لگایا، جس کو اہل مدینہ خرص کہتے ہیں، تو انہوں نے کہا : اس میں اتنا اور اتنا پھل ہے، یہودی یہ سن کر بولے : اے ابن رواحہ ! آپ نے تو بہت بڑھا کر بتایا، ابن رواحہ (رض) نے کہا : ٹھیک ہے میں کھجوریں اتروا کر انہیں جمع کرلیتا ہوں اور جو اندازہ میں نے کیا ہے اس کا آدھا تم کو دے دیتا ہوں، یہودی کہنے لگے : یہی حق ہے، اور اسی کی وجہ سے آسمان و زمین قائم ہیں، ہم آپ کے اندازے کے مطابق حصہ لینے پر راضی ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٥ (٣٤١٠، ٣٤١١) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٩٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: دوسری روایت میں ہے کہ یہودیوں نے عبداللہ بن رواحہ (رض) کو رشوت دینا اور اپنے سے ملانا چاہا کہ کھجور کا تخمینہ کمی کے ساتھ لگا دیں، لیکن وہ نہ مانے اور ٹھیک ٹھیک تخمینہ لگایا، اس وقت یہودیوں نے کہا : ایسے ہی لوگوں سے آسمان اور زمین قائم ہے، سبحان اللہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ حال تھا کہ غربت و افلاس اور پریشانی و مصیبت کی حالت میں بھی سچائی اور ایمان داری کو نہیں چھوڑتے تھے، جب ہی تو اسلام کو یہ ترقی حاصل ہوئی، اور آج اسلامی عقائد و اقدار اور تعلیمات کو چھوڑ کر مسلمان دنیا میں ذلیل و خوار ہیں۔

【39】

زکوة میں برا مال نکالنے کی ممانعت

عوف بن مالک اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلے، اور ایک شخص نے کھجور کے کچھ خوشے مسجد میں لٹکا دئیے تھے، آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی، آپ ﷺ اس خوشہ میں اس چھڑی سے کھٹ کھٹ مارتے جاتے، اور فرماتے : اگر یہ زکاۃ دینے والا چاہتا تو اس سے بہتر زکاۃ دیتا، یہ زکاۃ والا قیامت کے دن خراب ہی کھجور کھائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ١٦ (١٦٠٨) ، سنن النسائی/الزکاة ٢٧ (٢٤٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٣، ٢٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جیسا دیا ویسا پائے گا، اللہ تعالیٰ غنی و بےپرواہ ہے، اس کے نام پر تو بہت عمدہ مال دینا چاہیے، وہ نیت کو دیکھتا ہے۔

【40】

زکوة میں برا مال نکالنے کی ممانعت

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں آیت کریمہ : ومما أخرجنا لکم من الأرض ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون (سورة التوبة : 267) انصار کے بارے میں نازل ہوئی، جب باغات سے کھجور توڑنے کا وقت آتا تو وہ اپنے باغات سے کھجور کے چند خوشے (صدقے کے طور پر) نکالتے، اور مسجد نبوی میں دونوں ستونوں کے درمیان رسی باندھ کر لٹکا دیتے، پھر فقراء مہاجرین اس میں سے کھاتے، انصار میں سے کوئی یہ کرتا کہ ان خوشوں میں خراب کھجور کا خوشہ شامل کردیتا، اور یہ سمجھتا کہ بہت سارے خوشوں میں ایک خراب خوشہ رکھ دینا جائز ہے، تو انہیں لوگوں کے سلسلہ میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون قصد نہ کرو خراب کا اس میں سے کہ اسے خرچ کرو اور تم اسے خود ہرگز لینے والے نہیں ہو، الا یہ کہ چشم پوشی سے کام لو، اگر تمہیں کوئی ایسے خراب مال سے تحفہ بھیجے تو تم کبھی بھی اس کو قبول نہ کرو گے مگر شرم کی وجہ سے، اور دل میں غصہ ہو کر کہ اس نے تمہارے پاس ایسی چیز بھیجی ہے جو تمہارے کام کی نہیں ہے، اور تم جان لو کہ اللہ تمہارے صدقات سے بےنیاز ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٨، ومصباح الزجاجة : ٦٤٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٣ (٢٩٨٧) (صحیح )

【41】

شہد کی زکوة

ابوسیارہ متقی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے پاس شہد کی مکھیاں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا دسواں حصہ بطور زکاۃ ادا کرو ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ جگہ میرے لیے خاص کر دیجئیے، چناچہ آپ نے وہ جگہ میرے لیے خاص کردی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٥، ومصباح الزجاجة : ٦٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٣٦) (حسن) (سند میں سلیمان بن موسیٰ ضعیف ہے، سلیمان کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہے، موت سے کچھ پہلے مختلط ہوگئے تھے، لیکن عبد اللہ بن عمرو (رض) کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حسن ہے، کماسیأتی ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بطور حفاظت و نگرانی اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے جاگیر میں دے دی۔

【42】

شہد کی زکوة

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے شہد سے دسواں حصہ زکاۃ لی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ١٢ (١٦٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٥٧) ، سنن النسائی/الزکاة ٢٩ (٢٥٠١) (حسن صحیح )

【43】

صدقہ فطر

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھجور اور جو سے ایک ایک صاع صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : پھر لوگوں نے دو مد گیہوں کو ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو کے برابر کرلیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٠ (١٥٠٣) ، ٧١ (١٥٠٤) ، ٧٤ (١٥٠٧) ، ٧٧ (١٥١١) ، ٧٨ (١٥١٢) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤ (٩٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٧٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الزکاة ١٩ (١٦١٥) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٥ (٦٧٦) ، ٣٦ (٦٧٧) ، سنن النسائی/الزکاة ٣٠ (٢٥٠٢) ، موطا امام مالک/الزکاة ٢٨ (٥٢) ، مسند احمد (٢/٥، ٥٥، ٦٣، ٦٦، ١٠٢، ١١٤، ١٣٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٧ (١٧٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صدقہ فطر وہ صدقہ ہے جو عیدالفطر کے دن نماز عید سے پہلے دیا جاتا ہے، اہل حدیث کے نزدیک ہر قسم میں سے کھجور یا غلہ سے ایک صاع، حجازی صاع سے دینا چاہیے جو پانچ رطل اور ایک تہائی رطل کا ہوتا ہے، اور موجودہ وزن کے حساب سے تقریباً ڈھائی کلو ہوتا ہے۔

【44】

صدقہ فطر

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مسلمانوں میں سے ہر ایک پر فرض کیا، خواہ وہ آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧١ (١٥٠٦) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤ (٩٨٤) ، سنن ابی داود/الزکاة ١٩ (١٦١١) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٥ (٦٧٦) ، سنن النسائی/الزکاة ٣٢ (٢٥٠٤) ، ٣٣ (٢٥٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ٢٨ (٥٢) ، مسند احمد (٢/٥، ٥٥، ٦٣، ٦٦، ١٠٢، ١١٤، ١٣٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٧ (١٧٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فَرَضَ معنی میں وَجَبَ کے ہے، صدقہ فطر کے وجوب کی یہ حدیث واضح دلیل ہے، امام اسحاق بن راہویہ نے اس کے وجوب پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے، ایک قول یہ بھی ہے کہ فَرَضَ قدر کے معنی میں ہے لیکن یہ ظاہر کے خلاف ہے، من المسلمین سے معلوم ہوا کہ کافر غلام کا صدقہ فطر نہیں نکالا جائے گا۔

【45】

صدقہ فطر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر روزہ دار کو فحش اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے، اور مسکینوں کی خوراک کے لیے فرض قرار دیا، لہٰذا جس نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کردیا، تو یہ مقبول زکاۃ ہے اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ١٧ (١٦٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٦١٣٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: لیکن صدقہ فطر نہ ہوا، صحیحین میں عبداللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عید کی نماز کے لئے نکلنے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا، سنت یہی ہے کہ صدقہ فطر نماز کے لئے جانے سے پہلے دے دے، اور اگر رمضان کے اندر ہی عید سے پہلے دے دے تو بھی جائز ہے، لیکن عید کی صبح سے زیادہ اس میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔

【46】

صدقہ فطر

قیس بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے ہمیں صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا، لیکن جب زکاۃ کا حکم نازل ہوگیا تو نہ تو ہمیں صدقہ فطر دینے کا حکم دیا، اور نہ ہی منع کیا، اور ہم اسے دیتے رہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٣٥ (٢٥٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٤٢، ٦/٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ ﷺ نے نیا حکم نہیں دیا، پہلا حکم ہی کافی تھا، زکاۃ کا حکم اترنے سے صدقہ فطر موقوف نہیں ہوا، بلکہ اس کی فرضیت اپنے حال پر باقی رہی۔

【47】

صدقہ فطر

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم میں رسول اللہ ﷺ موجود تھے ہم تو صدقہ فطر میں ایک صاع گیہوں، ایک صاع کھجور، ایک صاع جو، ایک صاع پنیر، اور ایک صاع کشمش نکالتے تھے، ہم ایسے ہی برابر نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ (رض) ہمارے پاس مدینہ آئے، تو انہوں نے جو باتیں لوگوں سے کیں ان میں یہ بھی تھی کہ میں شام کے گیہوں کا دو مد تمہارے غلوں کی ایک صاع کے برابر پاتا ہوں، تو لوگوں نے اسی پر عمل شروع کردیا۔ ابو سعید خدری (رض) نے کہا : میں جب تک زندہ رہوں گا اسی طرح ایک صاع نکالتا رہوں گا جس طرح رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں نکالا کرتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٢ (١٥٠٥) ، ٧٣ (١٥٠٦) ، ٧٥ (١٥٠٨) ، ٧٦ (١٥١٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤ (٩٨٥) ، سنن ابی داود/الزکاة ١٩ (١٦١٦، ١٦١٧) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٥ (٦٧٣) ، سنن النسائی/الزکاة ٣٧ (٢٥١٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٦٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ٢٨ (٥٣) ، مسند احمد (٣/٢٣، ٧٣، ٩٨) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٧ (١٧٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صاعاً من طعام میں طعام سے گیہوں مراد ہے طعام کا لفظ بعد میں ذکر کی گئی اشیاء کے ساتھ بولا گیا ہے تاکہ طعام اور دوسری اجناس کے درمیان فرق و تغایر واضح ہوجائے، طعام بول کر اہل عرب عموماً گیہوں ہی مراد لیتے ہیں، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ طعام میں اجمال ہے اور مابعد اس کی تفصیل ہے، ایک صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے، جدید حساب کے مطابق ایک صاع کا وزن ڈھائی کلو گرام کے قریب ہوتا ہے، لیکن شیخ عبد اللہ البسام نے توضیح الأحکام میں صاع کا وزن تین کلو گرام بیان کیا ہے۔

【48】

صدقہ فطر

مؤذن رسول سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صاع کھجور، ایک صاع جو اور ایک صاع سلت (بےچھلکے کا جو) صدقہ فطر میں دینے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٤٥، ومصباح الزجاجة : ٦٥٠) (صحیح) (اس سند میں عمار بن سعد تابعی ہیں، اس لئے یہ روایت مرسل ہے، نیز عبد الرحمن بن سعد ضعیف ہیں، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے )

【49】

عشر وخراج

علاء بن حضرمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے بحرین ہجر بھیجا، میں ایک باغ میں جاتا جو کئی بھائیوں میں مشترک ہوتا، اور ان میں سے ایک مسلمان ہوچکا ہوتا، تو میں مسلمان سے عشر (دسواں) حصہ لیتا، اور کافر سے خراج (محصول) لیتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠١٠، ومصباح الزجاجة : ٦٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٥٢) (ضعیف) (مغیرہ الأزدی اور محمد بن زید مجہول ہیں، اور حیان کی علاء سے روایت مرسل ہے ) وضاحت : ١ ؎: بحرین یا ہجر سے مراد سعودی عرب کے مشرقی زون کا علاقہ احساء ہے۔ عشر کا معنی دسواں حصہ ہے، یہ مسلمانوں سے لیا جاتا ہے، اور خراج وہ محصول ہے جو کفار سے لیا جاتا ہے، اس میں اسلامی حکمراں کو اختیار ہے کہ جس قدر مناسب سمجھے ان کی زراعت سے محصول لے لے لیکن نصف سے زیادہ لینا کسی طرح درست نہیں، واضح رہے کہ یہ کافروں کے مسلمان ہونے کے لئے نہایت عمدہ حکمت عملی تھی کہ دنیا میں مال سب کو عزیز ہے خصوصاً دنیا داروں کو تو جب کافر دیکھیں گے کہ ان کو جزیہ دینا پڑتا ہے، اور زراعت میں سے صرف دسواں یا بیسواں حصہ لیا جائے گا، تو بہت سے کافر مسلمان ہوجائیں گے، گو دنیاوی طمع و لالچ ہی سے سہی، لیکن ان کی اولاد پھر سچی مسلمان ہوگی، اور کیا عجب ہے کہ ان کو بھی مسلمانوں کی صحبت سے سچا ایمان نصیب ہو۔

【50】

وسق سا ٹھ صاع ہیں

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ١ (١٥٥٩) ، بلفظ مختوما بدل صاعا سنن النسائی/الزکاة ٢٤ (٢٤٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥٩، ٨٣، ٩٧) (ضعیف) (سند میں محمد بن عبید اللہ متروک الحدیث ہے )

【51】

وسق سا ٹھ صاع ہیں

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٤٨٤، ٢٩٤٢، ومصباح الزجاجة : ٦٥٢) (ضعیف جدا) (سند میں محمد بن عبید اللہ متروک الحدیث ہے )

【52】

رشتہ دار کو صدقہ دینا

عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ اگر میں اپنے شوہر اور زیر کفالت یتیم بچوں پر خرچ کروں تو کیا زکاۃ ہوجائے گی ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کو دہرا اجر ملے گا، ایک صدقے کا اجر، دوسرے رشتہ جوڑنے کا اجر ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤٨ (١٤٦٦) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٤ (١٠٠٠) ، سنن الترمذی/الزکاة ١٢ (٦٣٥، ٦٣٦) ، سنن النسائی/الزکاة ٨٢ (٢٥٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥٠٢، ٣٦٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٣ (١٦٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ اگر زکاۃ اپنے غریب و مفلس فاقے والے رشتہ دار کو دے یا بیوی شوہر کو دے تو اور زیادہ ثواب ہے، اور زکاۃ بھی ادا ہوجائے گی۔ اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب (رض) سے اسی جیسی روایت مرفوعاً آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ

【53】

رشتہ دار کو صدقہ دینا

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کا حکم دیا، تو عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب (رض) نے کہا : کیا میری زکاۃ ادا ہوجائے گی اگر میں اپنے شوہر پہ جو محتاج ہیں، اور اپنے بھتیجوں پہ جو یتیم ہیں صدقہ کروں، اور میں ہر حال میں ان پر ایسے اور ایسے خرچ کرتی ہوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ دست کاری کرتی تھیں (اور پیسے کماتی تھیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٦٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤٨ (١٤٦٧) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤ (١٠٠١) (صحیح) (ام سلمہ (رض) کی یہ حدیث دوسرے طریق سے صحیح ہے، جس میں یہ صراحت ہے کہ یہی سائلہ تھیں )

【54】

سوال کرنا اور مانگنا نا پسند یدہ عمل ہے۔

زبیر بن عوام (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم میں سے کوئی اپنی رسی لے اور پہاڑ پر جا کر ایک گٹھا لکڑیوں کا اپنی پیٹھ پر لادے، اور اس کو بیچ کر اس کی قیمت پر قناعت کرے، تو یہ اس کے لیے لوگوں کے سامنے مانگنے سے بہتر ہے کہ لوگ دیں یا نہ دیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٠ (١٤٧١) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر مانگنے پر دیں تو مانگنے کی ایک ذلت ہوئی، اور نہ دیں تو دوہری ذلت مانگنے کی، اور مانگنے پر نہ ملنے کی، برخلاف اس کے اپنی محنت سے کمانے میں کوئی ذلت نہیں اگرچہ مٹی ڈھو کر یا لکڑیاں چن کر اپنی روزی حاصل کرے، یہ جو مسلمان خیال کرتے ہیں کہ پیشہ یا محنت کرنے میں ذلت اور ننگ و عار ہے، یہ سب شیطانی وسوسہ ہے، اس سے زیادہ ننگ و عار اور ذلت و رسوائی سوال کرنے اور ہاتھ پھیلانے میں ہے، بلکہ پیشے اور محنت میں گو وہ کتنا ہی حقیر ہو بشرطیکہ شرع کی رو سے منع نہ ہو کوئی ذلت نہیں ہے۔

【55】

سوال کرنا اور مانگنا نا پسند یدہ عمل ہے۔

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کون میری ایک بات قبول کرتا ہے ؟ اور میں اس کے لیے جنت کا ذمہ لیتا ہوں ، میں نے عرض کیا : میں قبول کرتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں سے کوئی چیز مت مانگو ، چناچہ ثوبان (رض) جب سواری پر ہوتے اور ان کا کوڑا نیچے گر جاتا تو کسی سے یوں نہ کہتے کہ میرا کوڑا اٹھا دو ، بلکہ خود اتر کر اٹھاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٨٦ (٢٥٩١) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٩٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٧ (١٦٤٣) ، مسند احمد (٥/٢٧٥، ٢٧٦، ٢٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ ایمان و توکل علی اللہ کا بڑا اعلیٰ درجہ ہے حالانکہ اس قسم کا سوال مباح اور جائز ہے، مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان بڑی تھی انہوں نے مخلوق سے مطلقاً سوال ہی چھوڑ دیا، صرف خالق سے سوال کرنے ہی کو بہتر سمجھا۔

【56】

محتاج نہ ہونے کے باوجودمانگنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے لوگوں سے مال بڑھانے کے لیے مانگا، تو وہ جہنم کے انگارے مانگتا ہے، چاہے اب وہ زیادہ مانگے یا کم مانگے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣٥ (١٠٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٣١) (صحیح )

【57】

محتاج نہ ہونے کے باوجودمانگنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صدقہ و خیرات کسی مالدار یا ہٹے کٹے صحت مند آدمی کے لیے حلال نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٩٠ (٢٥٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٧٧، ٣٨٩) (صحیح )

【58】

محتاج نہ ہونے کے باوجودمانگنا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص سوال کرے اور اس کے پاس اتنا مال ہو جو اسے بےنیاز کرتا ہو، تو یہ سوال قیامت کے دن اس کے چہرے پہ زخم کا نشان بن کر آئے گا ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کتنا مال آدمی کو بےنیاز کرتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پچاس درہم یا اس کی مالیت کا سونا ١ ؎۔ ایک شخص نے سفیان ثوری سے کہا : شعبہ تو حکیم بن جبیر سے روایت نہیں کرتے ؟ سفیان ثوری نے کہا کہ یہ حدیث ہم سے زبید نے بھی محمد بن عبدالرحمٰن کے واسطے سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٣ (١٦٢٦) ، سنن الترمذی/الزکاة ٢٢ (٦٥٠) ، سنن النسائی/الزکاة ٨٧ (٢٥٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٨، ٤٤١) ، سنن الدارمی/الزکاة ٥ ١ (١٦٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابوداود کی روایت میں ہے : غنا کی حد یہ ہے کہ آدمی کے پاس صبح و شام کا کھانا ہو، اور ایک روایت میں ہے کہ ایک اوقیہ کا مالک ہو، اور اس روایت میں پچاس درہم مذکور ہے، شافعی نے دوسرے قول کو لیا ہے اور احمد اور اسحاق اور ابن مبارک نے پہلے قول کو، بعض لوگوں نے تیسرے قول کو اور ابوحنیفہ نے کہا جو دو سو درہم کا مالک ہے یا اس قدر مالیت کا اسباب اس کے پاس ہے اس کے لیے سوال صحیح نہیں۔

【59】

جن لوگوں کے لئے صدقہ حلال ہے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مالدار کے لیے زکاۃ حلال نہیں ہے مگر پانچ آدمیوں کے لیے : زکاۃ وصول کرنے والے کے لیے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے لیے، یا ایسے مالدار کے لیے جس نے اپنے پیسے سے اسے خرید لیا ہو، یا کوئی فقیر ہو جس پر صدقہ کیا گیا ہو، پھر وہ کسی مالدار کو اسے ہدیہ کر دے، (تو اس مالدار کے لیے وہ زکاۃ حلال ہے) یا وہ جو مقروض ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٤ (١٦٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٤١٧٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ١٧ (٢٩) ، مسند احمد (٣/٤، ٣١، ٤٠، ٥٦، ٩٧) (صحیح )

【60】

صدقہ کی فضیلت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جو شخص حلال مال سے صدقہ دے، اور اللہ تعالیٰ تو حلال ہی قبول کرتا ہے، اس کے صدقہ کو دائیں ہاتھ میں لیتا ہے، گرچہ وہ ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو، پھر وہ صدقہ رحمن کی ہتھیلی میں بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ پہاڑ سے بھی بڑا ہوجاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کو ایسے ہی پالتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے یا اونٹ کے بچے کو پالتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٨ (٤١١٠ تعلیقاَ ) ، التوحید ٢٣ (٧٤٣٠ تعلیقاً ) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٩ (١٠١٤) ، سنن الترمذی/الزکاة ٢٨ (٦٦١) ، سنن النسائی/الزکاة ٤٨ (٢٥٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٧٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصدقة ١ (١) مسند احمد (٢/٢٦٨، ٣٣١، ٣٨١، ٤١٨، ٤١٩، ٢٣١، ٤٧١، ٥٣٨، ٥٤١) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣٥ (١٧١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لئے یمین (داہنا ہاتھ) اور کف (یعنی مٹھی) ثابت کیا گیا ہے، دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ یمین (داہنے) ہیں، ایسی حدیثوں سے جہمیہ اور معتزلہ اور اہل کلام کی جان نکلتی ہے، جب کہ اہل حدیث ان کو اپنی آنکھوں پر رکھتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اللہ کا پہنچاننے والا اس کے رسول سے زیادہ کوئی نہ تھا، پس جو صفات اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لئے ثابت کیں یا اس کے رسول نے بیان کیں، ہم ان سب کو مانتے ہیں، لیکن ان کو مخلوقات کی صفات سے مشابہ نہیں کرتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات مشابہت سے پاک ہے، لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْئٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ (سورة الشورى: 11) یہی نجات کا راستہ ہے، محققین علمائے سلف اور ائمہ اسلام نے اسی کو اختیار کیا ہے، اہل تاویل کہتے ہیں کہ یہ مجازی ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ صدقہ قبول ہوجاتا ہے، اور بڑھنے کا معنی یہ ہے کہ اس کا ثواب عظیم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم

【61】

صدقہ کی فضیلت

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تم میں سے ہر شخص سے قیامت کے دن کلام کرے گا، اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا، وہ اپنے سامنے دیکھے گا تو آگ ہوگی، دائیں جانب دیکھے گا تو اپنے اعمال کے سوا کچھ نہ پائے گا، اور بائیں دیکھے گا تو اپنے اعمال کے سوا ادھر بھی کچھ نہ دیکھے گا، لہٰذا تم میں سے جو جہنم سے بچ سکے تو اپنے بچاؤ کا سامان کرے، اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کر کے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٩ (١٤١٣) ، ١٠ (١٤١٧) ، المناقب ٢٥ (٣٥٩٥) ، الأدب ٣٤ (٦٠٢٣) ، الرقاق ٤٩ (٦٥٣٩) ، ٥١ (٦٥٦٣) ، التوحید ٣٦ (٧٥١٢) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٠ (١٠١٦) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ١ (٢٤١٥) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٣ (٢٥٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٦، ٢٥٨، ٢٥٩، ٣٧٧) (صحیح )

【62】

صدقہ کی فضیلت

سلمان بن عامر ضبی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسکین و فقیر کو صدقہ دینا (صرف) صدقہ ہے، اور رشتہ دار کو صدقہ دینا دو چیز ہے، ایک صدقہ اور دوسری صلہ رحمی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٢٦ (٦٥٨) ، سنن النسائی/الزکاة ٨٢ (٢٥٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨، ٢١٤) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣٨ (١٧٢٢، ١٧٢٣) (صحیح) (نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٨٨٣ )