7. زکوۃ کا بیان

【1】

زکوة نہ دینے پر رسول اللہ ﷺ سے منقول وعید

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے آپ نے مجھے آتا دیکھا تو فرمایا : رب کعبہ کی قسم ! قیامت کے دن یہی لوگ خسارے میں ہوں گے ٢ ؎ میں نے اپنے جی میں کہا : شاید کوئی چیز میرے بارے میں نازل کی گئی ہو۔ میں نے عرض کیا : کون لوگ ؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہی لوگ جو بہت مال والے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایسا ایسا کرے، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ سے لپ بھر کر اپنے سامنے اور اپنے دائیں اور اپنے بائیں طرف اشارہ کیا، پھر فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو بھی آدمی اونٹ اور گائے چھوڑ کر مرا اور اس نے اس کی زکاۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے دن وہ اس سے زیادہ بھاری اور موٹے ہو کر آئیں گے جتنا وہ تھے ٣ ؎ اور اسے اپنی کھروں سے روندیں گے، اور اپنی سینگوں سے ماریں گے، جب ان کا آخری جانور بھی گزر چکے گا تو پھر پہلا لوٹا دیا جائے گا ٤ ؎ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوذر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی اسی کے مثل روایت ہے، ٣- علی (رض) سے مروی ہے کہ زکاۃ روک لینے والے پر لعنت کی گئی ہے ٥ ؎، ٤- ( یہ حدیث) قبیصہ بن ہلب نے اپنے والد ہلب سے روایت کی ہے، نیز جابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن مسعود (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔

【2】

None

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے آپ نے مجھے آتا دیکھا تو فرمایا: ”رب کعبہ کی قسم! قیامت کے دن یہی لوگ خسارے میں ہوں گے“ ۲؎ میں نے اپنے جی میں کہا: شاید کوئی چیز میرے بارے میں نازل کی گئی ہو۔ میں نے عرض کیا: کون لوگ؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی لوگ جو بہت مال والے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایسا ایسا کرے، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ سے لپ بھر کر اپنے سامنے اور اپنے دائیں اور اپنے بائیں طرف اشارہ کیا، پھر فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو بھی آدمی اونٹ اور گائے چھوڑ کر مرا اور اس نے اس کی زکاۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے دن وہ اس سے زیادہ بھاری اور موٹے ہو کر آئیں گے جتنا وہ تھے ۳؎ اور اسے اپنی کھروں سے روندیں گے، اور اپنی سینگوں سے ماریں گے، جب ان کا آخری جانور بھی گزر چکے گا تو پھر پہلا لوٹا دیا جائے گا ۴؎ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی اسی کے مثل روایت ہے، ۳- علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ زکاۃ روک لینے والے پر لعنت کی گئی ہے ۵؎، ۴- ( یہ حدیث ) قبیصہ بن ہلب نے اپنے والد ہلب سے روایت کی ہے، نیز جابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۵- ضحاک بن مزاحم کہتے ہیں کہ «الأكثرون» سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس دس ہزار ( درہم یا دینار ) ہوں۔

【3】

زکوة کی ادائیگی سے کا فرض ادا ہونا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کردی تو جو تمہارے ذمہ فریضہ تھا اسے تم نے ادا کردیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- نبی اکرم ﷺ سے دوسری اور سندوں سے بھی مروی ہے کہ آپ نے زکاۃ کا ذکر کیا، تو ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میرے اوپر اس کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں سوائے اس کے کہ تم بطور نفل کچھ دو (یہ حدیث آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ٣ (١٧٨٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٥٩١) (حسن) (دیکھئے ” تراجع الالبانی “ حدیث رقم : ٩٩) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مال کے حق میں سے تمہارے اوپر مزید کوئی اور ضروری حق نہیں کہ اس کے نکالنے کا تم سے مطالبہ کیا جائے ، رہے صدقہ فطر اور دوسرے ضروری نفقات تو یہ مال کے حقوق میں سے نہیں ہیں ، ان کے وجوب کا سبب نفس مال نہیں بلکہ دوسری وقتی چیزیں ہیں مثلاً قرابت اور زوجیت وغیرہ بعض نے کہا کہ ان واجبات کا وجوب زکاۃ کے بعد ہوا ہے اس لیے ان سے اس پر اعتراض درست نہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1788) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (396) ، ضعيف الجامع الصغير (312) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 618

【4】

زکوة کی ادائیگی سے فرض ادا ہونا

انس (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی عقلمند اعرابی (دیہاتی) آئے اور نبی اکرم ﷺ سے مسئلہ پوچھے اور ہم آپ کے پاس ہوں ١ ؎ ہم آپ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ کے پاس ایک اعرابی آیا ٢ ؎ اور آپ ﷺ کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ اور پوچھا : اے محمد ! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے (کیا یہ صحیح ہے ؟ ) ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہاں، یہ صحیح ہے ، اس نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان بلند کیا، زمین اور پہاڑ نصب کئے۔ کیا اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہاں ، اس نے کہا : آپ کا قاصد ہم سے کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں : ہم پر دن اور رات میں پانچ صلاۃ فرض ہیں (کیا ایسا ہے ؟ ) ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہاں ، اس نے کہا : قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بنایا ہے ! کیا آپ کو اللہ نے اس کا حکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ، اس نے کہا : آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں : ہم پر سال میں ایک ماہ کے صیام فرض ہیں (کیا یہ صحیح ہے ؟ ) ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہاں وہ (سچ کہہ رہا ہے) اعرابی نے مزید کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہاں (دیا ہے) ، اس نے کہا : آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں : ہم پر ہمارے مالوں میں زکاۃ واجب ہے (کیا یہ صحیح ہے ؟ ) ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہاں (اس نے سچ کہا) ۔ اس نے کہا : قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہاں، (دیا ہے) اس نے کہا : آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں : ہم میں سے ہر اس شخص پر بیت اللہ کا حج فرض ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو (کیا یہ سچ ہے ؟ ) ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہاں، (حج فرض ہے) اس نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہاں (دیا ہے) تو اس نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا : میں ان میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑوں گا اور نہ میں اس میں کسی چیز کا اضافہ کروں گا ٣ ؎، پھر یہ کہہ کر وہ واپس چل دیا تب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر اعرابی نے سچ کہا ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، اور اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی یہ حدیث انس (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو سنا : وہ کہہ رہے تھے کہ بعض اہل علم فرماتے ہیں : اس حدیث سے یہ بات نکلتی ہے کہ شاگرد کا استاذ کو پڑھ کر سنانا استاذ سے سننے ہی کی طرح ہے ٤ ؎ انہوں نے استدلال اس طرح سے کیا ہے کہ اعرابی نے نبی اکرم ﷺ کو معلومات پیش کیں تو نبی اکرم ﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٦ (تعلیقا عقب حدیث رقم : ٦٣) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣ (١٢) ، سنن النسائی/الزکاة ١ (٢٠٩٣) ، ( تحفة الأشراف : ٤٠٤) ، مسند احمد (٣/١٤٣، ١٩٣) ، سنن الدارمی/الطہارة ١ (٦٥٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ ہمیں سورة المائدہ میں نبی اکرم ﷺ سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تھا ، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا چالاک اعرابی آئے جسے اس ممانعت کا علم نہ ہو اور وہ آ کر آپ سے سوال کرے۔ ٢ ؎ : اس اعرابی کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔ ٣ ؎ : اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ فرض ہے ، مسلم کی روایت میں «والذي بالحق لا أزيد عليهن ولا أنقص» کے الفاظ آئے ہیں۔ ٤ ؎ : یعنی «سماع من لفظ الشیخ» کی طرح «القراءۃ علی الشیخ» ( استاذ کے پاس شاگرد کا پڑھنا ) بھی جائز ہے ، مولف نے اس کے ذریعہ اہل عراق کے ان متشددین کی تردید کی ہے جو یہ کہتے تھے کہ «قراءۃ علی الشیخ» جائز نہیں ، صحیح یہ ہے کہ دونوں جائز ہیں البتہ اخذ حدیث کے طریقوں میں سب سے اعلیٰ طریقہ «سماع من لفظ الشیخ» (استاذ کی زبان سے سننے ) کا ہے ، اس طریقے میں استاذ اپنی مرویات اپنے حافظہ سے یا اپنی کتاب سے خود روایت کرتا ہے اور طلبہ سنتے ہیں اور شاگرد اسے روایت کرتے وقت «سمعت ، سمعنا ، حدثنا ، حدثني ، أخبرنا ، أخبرني ، أنبأنا ، أنبأني» کے صیغے استعمال کرتا ہے ، اس کے برخلاف «قراءۃ علی الشیخ» (استاذ پر پڑھنے ) کے طریقے میں شاگرد شیخ کو اپنے حافظہ سے یا کتاب سے پڑھ کر سناتا ہے اس کا دوسرا نام عرض بھی ہے اس صورت میں شاگرد «قرأت علی فلان» يا «قري علی فلان وأنا أسمع» ، يا «حدثنا فلان قرائة عليه» کہہ کر روایت کرتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج إيمان ابن أبي شيبة (4 / 5) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 619

【5】

سونے اور چاندی پر زکوة

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے گھوڑوں اور غلاموں کی زکاۃ معاف کردی ہے ١ ؎ تو اب تم چاندی کی زکاۃ ادا کرو ٢ ؎، ہر چالیس درہم پر ایک درہم، ایک سو نوے درہم میں کچھ نہیں ہے، جب دو سو درہم ہوجائیں تو ان میں پانچ درہم ہیں ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اعمش اور ابو عوانہ، وغیرہم نے بھی یہ حدیث بطریق : «أبي إسحاق عن عاصم بن ضمرة عن علي» روایت کی ہے، اور سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ اور دیگر کئی لوگوں نے بھی بطریق : «أبي إسحاق عن الحارث عن علي» روایت کی ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : ابواسحاق سبیعی سے مروی یہ دونوں حدیثیں میرے نزدیک صحیح ہیں، احتمال ہے کہ یہ حارث اور عاصم دونوں سے ایک ساتھ روایت کی گئی ہو (تو ابواسحاق نے اسے دونوں سے روایت کیا ہو) ٣- اس باب میں ابوبکر صدیق اور عمرو بن حزم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٥ (١٥٧١، ١٥٧٤) ، سنن النسائی/الزکاة ١٨ (٢٤٧٩، ٢٤٨٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٠١٣٦) ، مسند احمد (١١٣١، ١٤٨) ، سنن الدارمی/الزکاة ٧ (١٦٦٩) (صحیح) وأخرجہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ٤ (١٧٩٠) ، مسند احمد (١/١٢١، ١٣٢) ، ١٤٦ من طریق الحارث عنہ ( تحفة الأشراف : ١٠٠٣٩) وضاحت : ١ ؎ : جب وہ تجارت کے لیے نہ ہوں۔ ٢ ؎ : «رقہ» خالص چاندی کو کہتے ہیں خواہ وہ ڈھلی ہو یا غیر ڈھلی۔ ٣ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ چاندی کا نصاب دو سو درہم ہے اس سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1790) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 620

【6】

اونٹ اور بکریوں کی زکوة

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کی دستاویز تحریر کرائی، ابھی اسے عمال کے پاس روانہ بھی نہیں کرسکے تھے کہ آپ کی وفات ہوگئی، اور اسے آپ نے اپنی تلوار کے پاس رکھ دیا ١ ؎، آپ وفات فرما گئے تو ابوبکر (رض) اس پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہوگئے، ان کے بعد عمر (رض) بھی اسی پر عمل پیرا رہے، یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہوگئے، اس کتاب میں تحریر تھا : پانچ اونٹوں میں، ایک بکری زکاۃ ہے۔ دس میں دو بکریاں، پندرہ میں تین بکریاں اور بیس میں چار بکریاں ہیں۔ پچیس سے لے کر پینتیس تک میں ایک سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے، جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو پینتالیس تک میں دو سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ساٹھ تک میں تین سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو پچہتر تک میں چار سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو نوے تک میں دو سال کی دو اونٹوں کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ان میں ایک سو بیس تک تین سال کی دو اونٹوں کی زکاۃ ہے۔ جب ایک سو بیس سے زائد ہوجائیں تو ہر پچاس میں تین سال کی ایک اونٹنی اور ہر چالیس میں دو سال کی ایک اونٹنی زکاۃ میں دینی ہوگی۔ اور بکریوں کے سلسلہ میں اس طرح تھا : چالیس بکریوں میں ایک بکری کی زکاۃ ہے، ایک سو بیس تک، اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو دو سو تک میں دو بکریوں کی زکاۃ ہے، اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو تین سو تک میں تین بکریوں کی زکاۃ ہے۔ اور جب تین سو سے زیادہ ہوجائیں تو پھر ہر سو پر ایک بکری کی زکاۃ ہے۔ پھر اس میں کچھ نہیں یہاں تک کہ وہ چار سو کو پہنچ جائیں، اور (زکاۃ والے) متفرق (مال) کو جمع نہیں کیا جائے گا ٢ ؎ اور جو مال جمع ہو اسے صدقے کے خوف سے متفرق نہیں کیا جائے گا ٣ ؎ اور جن میں دو ساجھی دار ہوں ٤ ؎ تو وہ اپنے اپنے حصہ کی شراکت کے حساب سے دیں گے۔ صدقے میں کوئی بوڑھا اور عیب دار جانور نہیں لیا جائے گا ۔ زہری کہتے ہیں : جب صدقہ وصول کرنے والا آئے تو وہ بکریوں کو تین حصوں میں تقسیم کرے، پہلی تہائی بہتر قسم کی ہوگی، دوسری تہائی اوسط درجے کی اور تیسری تہائی خراب قسم کی ہوگی، پھر صدقہ وصول کرنے والا اوسط درجے والی بکریوں میں سے لے۔ زہری نے گائے کا ذکر نہیں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر کی حدیث حسن ہے، ٢- یونس بن یزید اور دیگر کئی لوگوں نے بھی یہ حدیث زہری سے، اور زہری نے سالم سے روایت کی ہے، اور ان لوگوں نے اسے مرفوع بیان نہیں کیا۔ صرف سفیان بن حسین ہی نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے، ٣- اور اسی پر عام فقہاء کا عمل ہے، ٤- اس باب میں ابوبکر صدیق بہز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ معاویۃ بن حیدۃ قشیری ہے ابوذر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٣٤ تعلیقا عقب الحدیث (رقم : ١٤٥٠) ، سنن ابی داود/ الزکاة ٤ (١٥٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٩ (١٧٩٨) ، ( تحفة الأشراف : ٦٨١٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ٦ (١٦٦٦) (صحیح) (سند میں سفیان بن حسین ثقہ راوی ہیں، لیکن ابن شہاب زہری سے روایت میں کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی قرآن کی طرح کتابت حدیث کا عمل شروع ہوگیا تھا ، بیسیوں صحیح روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ( قرآن کے علاوہ ) اپنے ارشادات وفرامین اور احکام خود بھی تحریر کرائے اور بیس صحابہ کرام (رض) اجمعین کو احادیث مبارکہ لکھنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی۔ ( تفصیل کے لیے کتاب العلم عن رسول ﷺ کے باب «ما جاء فی رخصۃ کتابۃ العلم» میں دیکھ لیں۔ ٢ ؎ : یہ حکم جانوروں کے مالکوں اور محصّلین زکاۃ دونوں کے لیے ہے ، متفرق کو جمع کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً تین آدمیوں کی چالیس بکریاں الگ الگ رہنے کی صورت میں ہر ایک پر ایک ایک بکری کی زکاۃ واجب ہو ، جب زکاۃ لینے والا آئے تو تینوں نے زکاۃ کے ڈر سے اپنی اپنی بکریوں کو یکجا کردیا تاکہ ایک ہی بکری دینی پڑے۔ ٣ ؎ : اس کی تفسیر یہ ہے کہ مثلاً دو ساجھی دار ہیں ہر ایک کی ایک سو ایک بکریاں ہیں کل ملا کر دو سو دو بکریاں ہوئیں ، ان میں تین بکریوں کی زکاۃ ہے ، جب زکاۃ لینے والا آیا تو ان دونوں نے اپنی اپنی بکریاں الگ الگ کرلیں تاکہ ایک ایک واجب ہو ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ٤ ؎ : مثلاً دو شریک ہیں ، ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں ، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں زکاۃ وصول کرنے والا آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں ، فرض کیجئیے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے ، اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں اور دو سو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں ، کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالی سے بنتے ہیں جس میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہوگی اور ٢٥ چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر ہوگی اب اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپئے واپس کرے گا اور اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ واپس کرے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1798) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 621

【7】

گائے بیل کی زکوة

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تیس گائے میں ایک سال کا بچھوا، یا ایک سال کی بچھیا کی زکاۃ ہے اور چالیس گایوں میں دو سال کی بچھیا کی زکاۃ ہے (دانتی یعنی دو دانت والی) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبدالسلام بن حرب نے اسی طرح یہ حدیث خصیف سے روایت کی ہے، اور عبدالسلام ثقہ ہیں حافظ ہیں، ٢- شریک نے بھی یہ حدیث بطریق : «خصيف عن أبي عبيدة عن أمه عن عبد الله» روایت کی ہے، ٣- اور ابوعبیدہ بن عبداللہ کا سماع اپنے والد عبداللہ سے نہیں ہے۔ ٤- اس باب میں معاذ بن جبل (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٢ (١٨٠٤) ، ( تحفة الأشراف : ٩٦٠٦) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ خصیف حافظہ کے ضعیف ہیں، اور ابو عبیدة کا اپنے باپ ابن مسعود (رض) سے سماع نں یو ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1804) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 622

【8】

گائے بیل کی زکوة

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے مجھے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ میں ہر تیس گائے پر ایک سال کا بچھوا یا بچھیا زکاۃ میں لوں اور ہر چالیس پر دو سال کی بچھیا زکاۃ میں لوں، اور ہر (ذمّی) بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر معافری ١ ؎ کپڑے بطور جزیہ لوں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق : «سفيان، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن مسروق» مرسلاً روایت کی ہے ٣ ؎ کہ نبی اکرم ﷺ نے معاذ کو یمن بھیجا اور اس میں «فأمرني أن آخذ» کے بجائے «فأمره أن يأخذ» ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے ٤ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٤ (١٥٧٧، ١٥٧٨) ، سنن النسائی/الزکاة ٨ (٢٤٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٢ (١٨٠٣) ، ( تحفة الأشراف : ١١٣٦٣) ، مسند احمد (٥/٢٣٠) ، سنن الدارمی/الزکاة ٥ (١٦٦٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : معافر : ہمدان کے ایک قبیلے کا نام ہے اسی کی طرف منسوب ہے۔ ٢ ؎ : اس حدیث میں گائے کے تفصیلی نصاب کا ذکر ہے ، ساتھ ہی غیر مسلم سے جزیہ وصول کرنے کا بھی حکم ہے۔ ٣ ؎ : اس میں معافر کا ذکر نہیں ہے ، اس کی تخریج ابن ابی شیبہ نے کی ہے۔ ٤ ؎ : یعنی یہ مرسل روایت اوپر والی مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ مسروق کی ملاقات معاذ بن جبل (رض) سے نہیں ہے ، ترمذی نے اسے اس کے شواہد کی وجہ سے حسن کہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1803) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 623

【9】

گائے بیل کی زکوة

عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوعبیدہ بن عبداللہ سے پوچھا : کیا وہ (اپنے والد) عبداللہ بن مسعود (رض) سے کوئی چیز یاد رکھتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩٥٨٩) (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد عن أبي عبيدة، وهو ابن عبد اللہ بن مسعود صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 624

【10】

زکوة میں عمدہ مال لینا مکروہ ہے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ (رض) کو یمن (کی طرف اپنا عامل بنا کر) بھیجا اور ان سے فرمایا : تم اہل کتاب کی ایک جماعت کے پاس جا رہے ہو، تم انہیں دعوت دینا کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اگر وہ اس کو مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر رات اور دن میں پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے، اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان کے مال میں زکاۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء و مساکین کو لوٹا دی جائے گی ١ ؎، اگر وہ اسے مان لیں تو تم ان کے عمدہ مال لینے سے اپنے آپ کو بچانا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا، اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں صنابحی (رض) ٢ ؎ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١ (١٣٩٥) ، و ٤١ (١٤٥٨) ، والمظالم ١٠ (٢٤٤٨) ، والمغازی ٦٠ (٤٣٤٧) ، والتوحید ١ (٧٣٧٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧ (١٩) ، سنن ابی داود/ الزکاة ٤ (١٥٨٤) ، سنن النسائی/الزکاة ١ (٢٤٣٧) ، و ٤٦ (٢٥٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١ (١٧٨٣) ، ( تحفة الأشراف : (٦٥١١) ، مسند احمد (١/٢٣٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ١ (١٦٥٥) ، ویأتي آخرہ عند المؤلف في البر والصلة ٦٨ (٢٠١٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ زکاۃ جس جگہ سے وصول کی جائے وہیں کے محتاجوں اور ضرورت مندوں میں زکاۃ تقسیم کی جائے ، مقامی فقراء سے اگر زکاۃ بچ جائے تب وہ دوسرے علاقوں میں منتقل کی جائے ، بظاہر اس حدیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے ، لیکن امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے «أخذ الصدقة من الأغنياء وترد في الفقراء حيث کانوا» اور اس کے تحت یہی حدیث ذکر کی ہے اور «فقراؤهم» میں «هم» کی ضمیر کو مسلمین کی طرف لوٹایا ہے یعنی مسلمانوں میں سے جو بھی محتاج ہو اسے زکاۃ دی جائے ، خواہ وہ کہیں کا ہو۔ ٢ ؎ : صنابحی سے مراد صنابح بن اعسرا حمصی ہیں جو صحابی رسول ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1783) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 625

【11】

کھیتی پھلوں اور غلے کی زکوة

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پانچ اونٹوں ١ ؎ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ ٢ ؎ چاندنی سے کم میں زکاۃ نہیں ہے اور پانچ وسق ٣ ؎ غلے سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابوہریرہ، ابن عمر، جابر اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤ (١٤٠٥) ، و ٣٢ (١٤٤٧) ، و ٤٢ (١٤٥٩) ، و ٥٦ (١٤٨٤) ، صحیح مسلم/الزکاة ١ (٩٧٩) ، سنن ابی داود/ الزکاة ١ (١٥٥٨) ، سنن النسائی/الزکاة ٥ (٢٤٤٧) ، و ١٨ (٢٤٧٥) ، و ٢١ (٢٤٨٥) ، و ٢٤ (٢٤٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٦ (١٧٩٣) ، ( تحفة الأشراف : ٤٤٠٢) ، موطا امام مالک/الزکاة ١ (١) ، مسند احمد (٣/٦، ٤٥، ٦٠، ٧٣، ٧٤، ٧٩) ، سنن الدارمی/الزکاة ١١ (١٦٧٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ اونٹوں کا نصاب ہے اس سے کم میں زکاۃ نہیں۔ ٢ ؎ : اوقیہ چالیس درہم ہوتا ہے ، اس حساب سے ٥ اوقیہ دو سو درہم کے ہوئے ، موجودہ وزن کے حساب سے دو سو درہم ٥٩٥ گرام کے برابر ہے۔ ٣ ؎ : ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے پانچ وسق کے تین سو صاع ہوئے موجودہ وزن کے حساب سے تین سو صاع کا وزن تقریباً ( ٧٥٠) کلوگرام یعنی ساڑھے سات کو ئنٹل بنتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1793) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 626

【12】

کھیتی پھلوں اور غلے کی زکوة

اس سند سے بھی ابو سعید خدری (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے جیسے عبدالعزیز بن محمد کی حدیث ہے جسے انہوں نے عمرو بن یحییٰ سے روایت کی ہے (جو اوپر گزر چکی ہے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابو سعید خدری (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ان سے یہ روایت اور بھی کئی طرق سے مروی ہے، ٣- اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے۔ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ اور پانچ وسق میں تین سو صاع ہوتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کا صاع ساڑھے پانچ رطل کا تھا اور اہل کوفہ کا صاع آٹھ رطل کا، پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ اور پانچ اوقیہ کے دو سو درہم ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔ جب پچیس اونٹ ہوجائیں تو ان میں ایک سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے اور پچیس اونٹ سے کم میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری زکاۃ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 627

【13】

گھوڑے اور غلام پر زکوٰۃ نہیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان پر نہ اس کے گھوڑوں میں زکاۃ ہے اور نہ ہی اس کے غلاموں میں زکاۃ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ پالتو گھوڑوں میں جنہیں دانہ چارہ باندھ کر کھلاتے ہیں زکاۃ نہیں اور نہ ہی غلاموں میں ہے، جب کہ وہ خدمت کے لیے ہوں الاّ یہ کہ وہ تجارت کے لیے ہوں۔ اور جب وہ تجارت کے لیے ہوں تو ان کی قیمت میں زکاۃ ہوگی جب ان پر سال گزر جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤٥ (١٤٦٣) ، و ٤٦ (١٤٦٤) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢ (٩٨٢) ، سنن ابی داود/ الزکاة ١٠ (١٥٩٤) ، سنن النسائی/الزکاة ١٦ (٢٤٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٥ (١٨١٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٤١٥٣) ، مسند احمد (٢/٢٤٢، ٢٥٤، ٢٧٩، ٤١٠، ٤٣٢، ٤٦٩، ٤٧٠، ٤٧٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٠ (١٦٧٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کے عموم سے ظاہر یہ نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ گھوڑے اور غلام میں مطلقاً زکاۃ واجب نہیں گو وہ تجارت ہی کے لیے کیوں نہ ہوں ، لیکن یہ صحیح نہیں ہے ، گھوڑے اور غلام اگر تجارت کے لیے ہوں تو ان میں زکاۃ بالاجماع واجب ہے جیسا کہ ابن منذر وغیرہ نے اسے نقل کیا ہے ، لہٰذا اجماع اس کے عموم کے لیے مخص ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1812) ، الضعيفة (4014) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 628

【14】

شہد کی زکوہ

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شہد میں ہر دس مشک پر ایک مشک زکاۃ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابوہریرہ، ابوسیارہ متعی اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ٢- ابن عمر (رض) کی حدیث کی سند میں کلام ہے ١ ؎ نبی اکرم ﷺ سے اس باب میں کچھ زیادہ صحیح چیزیں مروی نہیں اور اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں، ٣- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ شہد میں کوئی زکاۃ نہیں ٢ ؎، ٤- صدقہ بن عبداللہ حافظ نہیں ہیں۔ نافع سے اس حدیث کو روایت کرنے میں صدقہ بن عبداللہ کی مخالفت کی گئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٥٠٩) (صحیح) (سند میں صدقہ بن عبداللہ ضعیف راوی ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ اس کی روایت میں صدقہ بن عبداللہ منفرد ہیں اور وہ ضعیف ہیں۔ ٢ ؎ : امام بخاری اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں کہ شہد کی زکاۃ کے بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1824) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 629

【15】

شہد کی زکوہ

نافع کہتے ہیں کہ مجھ سے عمر بن عبدالعزیز نے شہد کی زکاۃ کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ ہمارے پاس شہد نہیں کہ ہم اس کی زکاۃ دیں، لیکن ہمیں مغیرہ بن حکیم نے خبر دی ہے کہ شہد میں زکاۃ نہیں ہے۔ تو عمر بن عبدالعزیز نے کہا : یہ مبنی برعدل اور پسندیدہ بات ہے۔ چناچہ انہوں نے لوگوں کو لکھا کہ ان سے شہد کی زکاۃ معاف کردی جائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩٤٤٨) (صحیح الإسناد) (سند صحیح ہے لیکن سابقہ حدیث کے مخالف ہے، دیکھئے : الإرواء رقم : ٨١٠) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 630

【16】

مال مستفاد میں زکوة نہیں جب تک اس پر سال نہ گزر جائے۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے کوئی مال حاصل ہو تو اس پر کوئی زکاۃ نہیں جب تک کہ اس پر اس کے مالک کے یہاں ایک سال نہ گزر جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں سراء بنت نبھان غنویہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٧٣١) (صحیح) (سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف راوی ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھئے اگلی حدیث اور مولف کا کلام، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء ٧٨٧، وتراجع الألبانی ٥٠٣) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1792) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 631

【17】

مال مستفاد میں زکوة نہیں جب تک اس پر سال نہ گزر جائے۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : جسے کوئی مال حاصل ہو تو اس پر زکاۃ نہیں جب تک کہ اس کے ہاں اس مال پر ایک سال نہ گزر جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ (موقوف) حدیث عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کی (مرفوع) حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ ٢- ایوب، عبیداللہ بن عمر اور دیگر کئی لوگوں نے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر سے موقوفاً (ہی) روایت کی ہے۔ ٣- عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم حدیث میں ضعیف ہیں، احمد بن حنبل، علی بن مدینی اور ان کے علاوہ دیگر محدثین نے ان کی تضعیف کی ہے وہ کثرت سے غلطیاں کرتے ہیں، ٤- صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے مروی ہے کہ حاصل شدہ مال میں زکاۃ نہیں ہے، جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے، مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ٥- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب آدمی کے پاس پہلے سے اتنا مال ہو جس میں زکاۃ واجب ہو تو حاصل شدہ مال میں بھی زکاۃ واجب ہوگی اور اگر اس کے پاس حاصل شدہ مال کے علاوہ کوئی اور مال نہ ہو جس میں زکاۃ واجب ہوئی ہو تو کمائے ہوئے مال میں بھی کوئی زکاۃ واجب نہیں ہوگی جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے، اور اگر اسے (پہلے سے نصاب کو پہنچے ہوئے) مال پر سال گزرنے سے پہلے کوئی کمایا ہوا مال ملا تو وہ اس مال کے ساتھ جس میں زکاۃ واجب ہوگئی ہے، مال مستفاد کی بھی زکاۃ نکالے گا سفیان ثوری اور اہل کوفہ اسی کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٥٩٥) (صحیح الإسناد) (یہ اثر عبد اللہ بن عمر کا قول ہے، یعنی موقوف ہے، جو مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔ ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد موقوف، وهو فی حکم المرفوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 632

【18】

مسلمانوں پر جزیہ نہیں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک سر زمین پر دو قبلے ہونا درست نہیں ١ ؎ اور نہ ہی مسلمانوں پر جزیہ درست ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الخراج ٢٨ (٣٠٣٢) ، ( تحفة الأشراف : ٥٣٩٩) ، مسند احمد (١/٢٨٥) (ضعیف) (سند میں قابوس ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : ایک سر زمین پر دو قبلے کا ہونا درست نہیں کا مطلب یہ ہے کہ ایک سر زمین پر دو دین والے بطور برابری کے نہیں رہ سکتے کوئی حاکم ہوگا کوئی محکوم۔ ٢ ؎ : نہ ہی مسلمانوں پر جزیہ درست ہے کا مطلب یہ ہے کہ ذمیوں میں سے کوئی ذمی اگر جزیہ کی ادائیگی سے پہلے مسلمان ہوگیا ہو تو اس سے جزیہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (1244) // 1257 //، الضعيفة (4379) // ضعيف الجامع الصغير (6239) ، ضعيف أبي داود (655 / 3032) نحوه // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 633

【19】

مسلمانوں پر جزیہ نہیں

اس سند سے بھی قابوس سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس کی حدیث قابوس بن ابی ظبیان سے مروی ہے جسے انہوں نے اپنے والد سے اور ان کے والد نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے، ٢- اس باب میں سعید بن زید اور حرب بن عبیداللہ ثقفی کے دادا سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ نصرانی جب اسلام قبول کرلے تو اس کی اپنی گردن کا جزیہ معاف کردیا جائے گا، اور نبی اکرم ﷺ کے فرمان «ليس علی المسلمين عشور» مسلمانوں پر عشر نہیں ہے کا مطلب بھی گردن کا جزیہ ہے، اور حدیث میں بھی اس کی وضاحت کردی گئی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا : عشر صرف یہود و نصاریٰ پر ہے، مسلمانوں پر کوئی عشر نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) وضاحت : ا ؎ : یہ حدیث سنن ابی داود میں ہے اس حدیث کا تشریح المرقاۃ شرح المشکاۃ اور عون المعبود میں دیکھ لیں ، کچھ وضاحت اس مقام پر تحفۃ الأحوذی میں بھی آ گئی ہے ، اور عشر سے مراد ٹیکس ہے۔ قال الشيخ الألباني : // ضعيف الجامع الصغير (2050) ، المشکاة (4039) ، ضعيف أبي داود برقم (660 / 2046) ، يرويه الجميع عن حرب بن عبيد الله، عن جده أبي أمه، عن أبيه // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 634

【20】

زیور کی زکوة

عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے خطاب کیا اور فرمایا : اے گروہ عورتوں کی جماعت ! زکاۃ دو ١ ؎ گو اپنے زیورات ہی سے کیوں نہ دو ۔ کیونکہ قیامت کے دن جہنم والوں میں تم ہی سب سے زیادہ ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (بہذا السیاق وبہذا المناسبة ( تحفة الأشراف : ١٥٨٨٧) وانظر : مسند احمد (٦/٣٦٣) (صحیح) (اگلی حدیث (٦٣٦) سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : مولف نے اس سے فرض صدقہ یعنی زکاۃ مراد لی ہے کیونکہ «تصدقن» امر کا صیغہ ہے اور امر میں اصل وجوب ہے یہی معنی باب کے مناسب ہے ، لیکن دوسرے علماء نے اسے استحباب پر محمول کیا ہے اور اس سے مراد نفل صدقات لیے ہیں اس لیے کہ خطاب ان عورتوں کو ہے جو وہاں موجود تھیں اور ان میں ساری ایسی نہیں تھیں کہ جن پر زکاۃ فرض ہوتی ، یہ معنی لینے کی صورت میں حدیث باب کے مناسب نہیں ہوگی اور اس سے زیور کی زکاۃ کے وجوب پر استدلال صحیح نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بما بعده (636) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 635

【21】

زیور کی زکوة

اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب (رض) کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ ابومعاویہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ انہیں اپنی حدیث میں وہم ہوا ہے ١ ؎ انہوں نے کہا ہے عمرو بن الحارث سے روایت ہے وہ عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب کے بھتیجے سے روایت کر رہے ہیں اور صحیح یوں ہے زینب کے بھتیجے عمرو بن حارث سے روایت ہے ، ٢- نیز عمرو بن شعیب سے بطریق : «عن أبيه، عن جده، عبدالله بن عمرو بن العاص عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت ہے کہ آپ نے زیورات میں زکاۃ واجب قرار دی ہے ٢ ؎ اس حدیث کی سند میں کلام ہے، ٣- اہل علم کا اس سلسلے میں اختلاف ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین میں سے بعض اہل علم سونے چاندی کے زیورات میں زکاۃ کے قائل ہیں۔ سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک بھی یہی کہتے ہیں۔ اور بعض صحابہ کرام جن میں ابن عمر، عائشہ، جابر بن عبداللہ اور انس بن مالک (رض) شامل ہیں، کہتے ہیں کہ زیورات میں زکاۃ نہیں ہے۔ بعض تابعین فقہاء سے بھی اسی طرح مروی ہے، اور یہی مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤٨ (١٤٦٦) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٤ (١٠٠٠) ، سنن النسائی/الزکاة ٨٢ (٢٥٨٤) ، ( تحفة الأشراف : أیضا : ١٥٨٨٧) ، مسند احمد (٣/٥٠٢) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٣ (١٦٩٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ انہوں نے عمرو بن حارث اور عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب کے بھتیجے کو دو الگ الگ آدمی جانا ہے اور پہلا دوسرے سے روایت کر رہا ہے جب کہ معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ دونوں ایک ہی آدمی ہیں ابن اخی زینب عمرو بن حارث کی صفت ہے عمرو بن حارث اور ابن اخی زینب کے درمیان «عن» کی زیادتی ابومعاویہ کا وہم ہے صحیح بغیر «عن» کے ہے جیسا کہ شعبہ کی روایت میں ہے۔ ٢ ؎ : اس سلسلہ میں بہتر اور مناسب بات یہ ہے کہ استعمال کے لیے بنائے گئے زیورات اگر فخر ومباہات ، اور اسراف وتبذیر کے لیے اور زکاۃ سے بچنے کے لیے ہوں تو ان میں زکاۃ ہے بصورت دیگر ان میں زکاۃ واجب نہیں ہے۔ سونے کے زیورات کی زکاۃ کا نصاب ساڑھے سات تولے یعنی ٨٠ گرام اصلی سونا ہے کہ کم از کم اتنے وزن اصلی سونے پر ایک سال گزر جائے تو مالک ٥٠۔ ٢% کے حساب سے زکاۃ ادا کرے ، یاد رکھیے اصلی خالص سونا ہال قیراط ہوتا ہے ، تفصیل کے لیے فقہ الزکاۃ میں دیکھی جاسکتی ہے ( ابو یحییٰ ) ۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 636

【22】

زیور کی زکوة

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ دو عورتیں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں ان کے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن تھے، تو آپ نے ان سے فرمایا : کیا تم دونوں اس کی زکاۃ ادا کرتی ہو ؟ انہوں نے عرض کیا : نہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : کیا تم پسند کرو گی کہ اللہ تم دونوں کو آگ کے دو کنگن پہنائے ؟ انہوں نے عرض کیا : نہیں، آپ نے فرمایا : تو تم دونوں ان کی زکاۃ ادا کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث کو مثنیٰ بن صباح نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی طرح روایت کیا ہے اور مثنیٰ بن صباح اور ابن لہیعہ دونوں حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں، نبی اکرم ﷺ سے اس باب میں کوئی چیز صحیح نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٧٣٠) (حسن) (یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے، سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، مگر دوسری سند اور دوسرے سیاق سے یہ حدیث حسن ہے، الإرواء ٣/٢٩٦، صحیح ابی داود ١٣٩٦) قال الشيخ الألباني : حسن بغير هذا اللفظ، الإرواء (3 / 296) // 817 //، المشکاة (1809) ، صحيح أبي داود (1396) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 637

【23】

سبزیوں کی زکوة

معاذ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو لکھا، وہ آپ سے سبزیوں کی زکاۃ کے بارے میں پوچھ رہے تھے تو آپ نے فرمایا : ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث کی سند صحیح نہیں ہے، ٢- اور اس باب میں نبی اکرم ﷺ سے کوئی چیز صحیح نہیں ہے، اور اسے صرف موسیٰ بن طلحہ سے روایت کیا جاتا ہے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے، ٣- اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ سبزیوں میں زکاۃ نہیں ہے، ٤- حسن، عمارہ کے بیٹے ہیں، اور یہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔ شعبہ وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے، اور ابن مبارک نے انہیں متروک قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٣٥٤) (صحیح) (سند میں حسن بن عمارہ ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھئے : إرواء الغلیل رقم : ٨٠١) وضاحت : ١ ؎ : یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے لیکن چونکہ متعدد طرق سے مروی ہے جس سے تقویت پا کر یہ اس قابل ہوجاتی ہے کہ اس سے استدلال کیا جاسکے ، اسی لیے اہل علم نے زکاۃ کے سلسلہ میں وارد نصوص کے عموم کی اس حدیث سے تخصیص کی ہے اور کہا ہے کہ سبزیوں میں زکاۃ نہیں ہے۔ اس حدیث سے بھی ثابت ہوا اور دیگر بیسیوں روایات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کے درمیان ، صحابہ کرام کا آپس میں ایک دوسرے کے درمیان اور غیر مسلم بادشاہوں ، سرداروں اور امراء اور نبی اکرم ﷺ کے مابین تحریری خط وکتابت کا سلسلہ عہد نبوی و عہد صحابہ میں جاری تھا ، قارئین کرام منکرین حدیث کی دروغ گوئی اور کذب بیانی سے خبردار رہیں ، اصل دین کے دشمن یہی لوگ ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (3 / 279) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 638

【24】

نہری زمین کی کھیتی پر زکوة

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس فصل کی سینچائی بارش یا نہر کے پانی سے کی گئی ہو، اس میں زکاۃ دسواں حصہ ہے، اور جس کی سینچائی ڈول سے کھینچ کر کی گئی ہو تو اس میں زکاۃ دسویں حصے کا آدھا یعنی بیسواں حصہ ١ ؎ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں انس بن مالک، ابن عمر اور جابر سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- یہ حدیث بکیر بن عبداللہ بن اشج، سلیمان بن یسار اور بسر بن سعید سے بھی روایت کی گئی ہے، اور ان سب نے اسے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے، گویا یہ زیادہ صحیح ہے، ٣- اور اس باب میں ابن عمر کی حدیث بھی صحیح ہے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے ٢ ؎، ٤- اور اسی پر بیشتر فقہاء کا عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٧ (١٨١٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٢٠٨ و ١٣٤٨٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس میں بالاتفاق «حولان حول» سال کا پورا ہونا شرط نہیں ، البتہ نصاب شرط ہے یا نہیں جمہور ائمہ عشر یا نصف عشر کے لیے نصاب کو شرط مانتے ہیں ، جب تک پانچ وسق نہ ہو عشر یا نصف عشر واجب نہیں ہوگا ، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک نصاب شرط نہیں ، وہ کہتے ہیں : «يا أيها الذين آمنوا أنفقوا من طيبات ما کسبتم ومما أخرجنا لکم من الأرض ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون ولستم بآخذيه إلا أن تغمضوا فيه واعلموا أن اللہ غني حميد» (البقرة : 267) اے ایمان والو ! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو ، ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا ، جسے تم خود لینے والے نہیں ہو ، ہاں اگر آنکھیں بند کرلو تو ، اور جان لو اللہ تعالیٰ بےپرواہ اور خوبیوں والا ہے ۔ «مما أخرجنا» میں «ما» کلمہ عموم ہے اس طرح «فيما سقت السماء وفيما سقی بالنضح» میں بھی «ما» کلمہ عموم ہے۔ ٢ ؎ : اور جو آگے آرہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بما بعده (640) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 639

【25】

نہری زمین کی کھیتی پر زکوة

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ طریقہ جاری فرمایا کہ جسے بارش یا چشمے کے پانی نے سیراب کیا ہو، یا عثری یعنی رطوبت والی زمین ہو جسے پانی دینے کی ضرورت نہ پڑتی ہو تو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے، اور جسے ڈول سے سیراب کیا جاتا ہو اس میں دسویں کا آدھا یعنی بیسواں حصہ زکاۃ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٥ (١٤٨٣) ، سنن ابی داود/ الزکاة ١١ (١٥٩٦) ، سنن النسائی/الزکاة ٢٥ (٢٤٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٧ (١٨١٢) ، ( تحفة الأشراف : ٦٩٧٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1817) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 640

【26】

یتیم کے مال کی زکوة

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا تو فرمایا : جو کسی ایسے یتیم کا ولی (سرپرست) ہو جس کے پاس کچھ مال ہو تو وہ اسے تجارت میں لگا دے، اسے یونہی نہ چھوڑ دے کہ اسے زکاۃ کھالے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث صرف اسی سند سے مروی ہے اور اس کی سند میں کلام ہے اس لیے کہ مثنیٰ بن صباح حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں، ٢- بعض لوگوں نے یہ حدیث عمرو بن شعیب سے روایت کی ہے کہ عمر بن خطاب نے کہا : … اور آگے یہی حدیث ذکر کی، ٣- عمرو : شعیب کے بیٹے ہیں، اور شعیب محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص کے بیٹے ہیں۔ اور شعیب نے اپنے دادا عبداللہ بن عمرو سے سماعت کی ہے، یحییٰ بن سعید نے عمرو بن شعیب کی حدیث میں کلام کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : یہ ہمارے نزدیک ضعیف ہیں، اور جس نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے صرف اس وجہ سے ضعیف کہا ہے کہ انہوں نے اپنے دادا عبداللہ بن عمرو کے صحیفے سے حدیث بیان کی ہے۔ لیکن اکثر اہل حدیث علماء عمرو بن شعیب کی حدیث سے دلیل لیتے ہیں اور اسے ثابت مانتے ہیں جن میں احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہما بھی شامل ہیں، ٤- اس باب میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں کی رائے ہے کہ یتیم کے مال میں زکاۃ ہے، انہیں میں عمر، علی، عائشہ، اور ابن عمر ہیں۔ اور یہی مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ٥- اور اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ یتیم کے مال میں زکاۃ نہیں ہے۔ سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٧٧٧) (ضعیف) (سند میں مثنی بن الصباح ضعیف ہیں، اخیر عمر میں مختلط بھی ہوگئے تھے) وضاحت : ١ ؎ : یعنی زکاۃ دیتے دیتے کل مال ختم ہوجائے ٢ ؎ : یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ «رفع القلم عن ثلاث : صبي ، ومجنون ، ونائم» کے خلاف ہے اور حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ «تأكله الصدقة» میں صدقہ سے مراد نفقہ ہے۔ مدفون مال میں سے خمس ( پانچواں حصہ ) نکالا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (788) // ضعيف الجامع الصغير (2179) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 641

【27】

حیوان کے زخمی کرنے پر کوئی دیت نہیں اور دفن شدہ خزانے پر پانچواں حصہ ہے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جانور کا زخم رائیگاں ہے ١ ؎ یعنی معاف ہے، کان رائیگاں ہے اور کنواں رائیگاں ہے ٢ ؎ اور رکاز (دفینے) میں سے پانچواں حصہ دیا جائے گا ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس بن مالک، عبداللہ بن عمرو، عبادہ بن صامت، عمرو بن عوف مزنی اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدیات ٢٨ (٦٩١٢) ، صحیح مسلم/الحدود ١١ (١٧١٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٢٢٧) ، و ١٥٢٣٨) (صحیح) وأخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦٦ (١٤٩٩) ، والمساقاة ٣ (٢٣٥٥) ، والدیات ٢٩ (٦٩١٣) ، سنن ابی داود/ الخراج ٤٠ (٣٠٨٥) ، والدیات ٣٠ (٤٥٩٣) ، سنن النسائی/الزکاة ٢٨ (٢٤٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٤ (٢٦٧٣) ، موطا امام مالک/الزکاة ٤ (٩) ، العقول ١٨ (١٢) ، مسند احمد (٢/٢٢٨، ٢٥٤، ٢٧٤، ٢٨٥، ٣١٩، ٣٨٢، ٣٨٦، ٤٠٦، ٤١١، ٤٥٤، ٤٥٦، ٤٦٧، ٤٧٥، ٤٨٢، ٤٩٥، ٥٠١، ٥٠٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣٠ (١٧١٠) ، والمؤلف في الأحکام ٣٧ (١٣٧٧) من غیر ذلک الطریق وضاحت : ١ ؎ : یعنی جانور کسی کو زخمی کر دے تو جانور کے مالک پر اس زخم کی دیت نہ ہوگی۔ ٢ ؎ : یعنی کان یا کنویں میں گر کر کوئی ہلاک ہوجائے تو ان کے مالکوں پر اس کی دیت نہ ہوگی۔ ٣ ؎ : یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رکاز ( دفینہ ) میں زکاۃ نہیں بلکہ خمس ہے ، اس کی حیثیت مال غنیمت کی سی ہے ، اس میں خمس واجب ہے جو بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور باقی کا مالک وہ ہوگا جسے یہ دفینہ ملا ہے ، رہا «معدن» کان تو وہ رکاز نہیں ہے اس لیے اس میں خمس نہیں ہوگا بلکہ اگر وہ نصاب کو پہنچ رہا ہے تو اس میں زکاۃ واجب ہوگی ، جمہور کی یہی رائے ہے ، حنفیہ کہتے ہیں رکاز معدن اور کنز دونوں کو عام ہے اس لیے وہ معدن میں بھی خمس کے قائل ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2673) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 642

【28】

غلہ وغیرہ کا اندازہ کرنا

عبدالرحمٰن بن مسعود بن نیار کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ (رض) ہماری مجلس میں آئے تو بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : جب تم تخمینہ لگاؤ تو تخمینہ کے مطابق لو اور ایک تہائی چھوڑ دیا کرو، اگر ایک تہائی نہ چھوڑ سکو تو چوتھائی چھوڑ دیا کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عائشہ، عتاب بن اسید اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ٢- تخمینہ لگانے کے سلسلے میں اکثر اہل علم کا عمل سہل بن ابی حثمہ (رض) کی حدیث پر ہے اور سہل بن ابی حثمہ (رض) کی حدیث ہی کے مطابق احمد اور شافعی بھی کہتے ہیں، تخمینہ لگانا یہ ہے کہ جب کھجور یا انگور کے پھل جن کی زکاۃ دی جاتی ہے پک جائیں تو سلطان (انتظامیہ) ایک تخمینہ لگانے والے کو بھیجے جو اندازہ لگا کر بتائے کہ اس میں کتنا غلہ یا پھل ہوگا اور تخمینہ لگانا یہ ہے کہ کوئی تجربہ کار آدمی دیکھ کر یہ بتائے کہ اس درخت سے اتنا اتنا انگور نکلے گا، اور اس سے اتنی اتنی کھجور نکلے گی۔ پھر وہ اسے جوڑ کر دیکھے کہ کتنا عشر کی مقدار کو پہنچا، تو ان پر وہی عشر مقرر کر دے۔ اور پھل کے پکنے تک ان کو مہلت دے، پھل توڑنے کے وقت اپنا عشر دیتے رہیں۔ پھر مالکوں کو اختیار ہوگا کہ بقیہ سے جو چاہیں کریں۔ بعض اہل علم نے تخمینہ لگانے کی تشریح اسی طرح کی ہے، اور یہی مالک شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ١٤ (١٦٠٥) ، سنن النسائی/الزکاة ١٤ (١٦٠٥) ، سنن النسائی/الزکاة ٢٦ (٢٤٩٣) ، ( تحفة الأشراف : ٤٦٤٧) ، مسند احمد (٤/٣) (ضعیف) (سند میں عبدالرحمن بن مسعود لین الحدیث ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یہ خطاب زکاۃ وصول کرنے والے عمال اور ان لوگوں کو ہے جو زکاۃ کی وصولی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں ، تہائی یا چوتھائی حصہ چھوڑ دینے کا حکم اس لیے ہے تاکہ مالک پھل توڑتے وقت اپنے اعزہ و اقرباء اور اپنے ہمسایوں مسافروں وغیرہ پر خرچ کرسکے اور اس کی وجہ سے وہ کسی حرج اور تنگی میں مبتلا نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (281) ، الضعيفة (2556) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 643

【29】

غلہ وغیرہ کا اندازہ کرنا

عتاب بن اسید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ لوگوں کے پاس ایک آدمی بھیجتے تھے جو ان کے انگوروں اور دوسرے پھلوں کا تخمینہ لگاتا تھا۔ اسی سند سے ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انگور کی زکاۃ کے بارے میں فرمایا : اس کا بھی تخمینہ لگایا جائے گا، جیسے کھجور کا لگایا جاتا ہے، پھر کشمش ہوجانے کے بعد اس کی زکاۃ نکالی جائے گی جیسے کھجور کی زکاۃ تمر ہوجانے کے بعد نکالی جاتی ہے۔ (یعنی جب خشک ہوجائیں) امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- ابن جریج نے یہ حدیث بطریق : «ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة» روایت کی ہے، ٣- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا : تو انہوں نے کہا : ابن جریج کی حدیث محفوظ نہیں ہے اور ابن مسیب کی حدیث جسے انہوں نے عتاب بن اسید سے روایت کی ہے زیادہ ثابت اور زیادہ صحیح ہے (بس صرف سنداً ، ورنہ ضعیف یہ بھی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ١٣ (١٦٠٣) ، سنن النسائی/الزکاة ١٠٠ (٢٦١٩) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٨ (١٨٩١) ، ( تحفة الأشراف : ٩٧٤٨) (ضعیف) (سعید بن المسیب اور عتاب (رض) کے درمیان سند میں انقطاع ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (807) ، ضعيف أبي داود (280) // عندنا برقم (347 / 1603) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 644

【30】

انصاف کے ساتھ زکوة لینے والا عامل

رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : صحیح ڈھنگ سے صدقہ وصول کرنے والا، اللہ کی راہ میں لڑنے والے غازی کی طرح ہے، جب تک کہ وہ اپنے گھر لوٹ نہ آئے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- رافع بن خدیج کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور یزید بن عیاض محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، ٣- محمد بن اسحاق کی یہ حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الخراج ٧ (٢٩٣٦) سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٤ (١٨٠٩) (تحفة الأشراف : ٣٥٨٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (1809) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 645

【31】

زکوہ لینے میں زیادتی کرنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زکاۃ وصول کرنے میں ظلم و زیادتی کرنے والا زکاۃ نہ دینے والے کی طرح ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابن عمر، ام سلمہ اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- انس کی حدیث اس سند سے غریب ہے، ٣- احمد بن حنبل نے سعد بن سنان کے سلسلہ میں کلام کیا ہے۔ اسی طرح لیث بن سعد بھی کہتے ہیں۔ وہ بھی «عن يزيد بن حبيب، عن سعد بن سنان، عن أنس بن مالک» کہتے ہیں، اور عمرو بن حارث اور ابن لہیعہ «عن يزيد بن حبيب، عن سنان بن سعد، عن أنس بن مالک» کہتے ہیں ١ ؎، ٤- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ صحیح سنان بن سعد ہے، ٥- اور زکاۃ وصول کرنے میں زیادتی کرنے والا زکاۃ نہ دینے والے کی طرح ہے کا مطلب یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے پر وہی گناہ ہے جو نہ دینے والے پر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٤ (١٥٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٤ (١٨٠٨) ، ( تحفة الأشراف : ٨٤٧) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یزید بن ابی حبیب اور انس کے درمیان جو راوی ہیں ان کے نام کے بارے میں اختلاف ہے ، لیث بن سعد نے سعد بن سنان کہا ہے اور عمرو بن حارث اور لہیعہ نے سنان بن سعد کہا ہے ، امام بخاری نے عمرو بن حارث اور ابن لہیعہ کے قول کو صحیح کہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1808) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 646

【32】

زکوة لینے والے کو راضی کرنا

جریر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب زکاۃ وصول کرنے والا تمہارے پاس آئے تو وہ تم سے راضی اور خوش ہو کر ہی جدا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٥٥ (٩٨٩) ، سنن النسائی/الزکاة ١٤ (٢٤٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١١ (١٨٠٢) ، ( تحفة الأشراف : ٣٢١٥) ، مسند احمد (٤/٣٦٠، ٣٦١، ٣٦٤، ٣٦٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1802) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 647

【33】

None

جریر رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: داود کی شعبی سے روایت کی ہوئی حدیث مجالد کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، مجالد کو بعض اہل علم نے ضعیف گردانا ہے وہ کثیر الغلط ہیں یعنی ان سے بکثرت غلطیاں ہوتی ہیں۔

【34】

زکوة مال داروں سے لے کر فقرا میں دی جائے

ابوجحیفہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کا مصدق (زکاۃ وصول کرنے والا) آیا اور اس نے زکاۃ ہمارے مالداروں سے لی اور اسے ہمارے فقراء کو دے دیا۔ میں اس وقت ایک یتیم لڑکا تھا، تو اس نے مجھے بھی اس میں سے ایک اونٹنی دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوجحیفہ کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٨٠٤) (ضعیف الإسناد) (سند میں اشعث بن سوار ضعیف ہیں، لیکن مسئلہ یہی ہے جو دیگر دلائل سے ثابت ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 649

【35】

کس کو زکوة لینا جائز ہے

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو لوگوں سے سوال کرے اور اس کے پاس اتنا مال ہو کہ اسے سوال کرنے سے بےنیاز کر دے تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا سوال کرنا اس کے چہرے پر خراش ہوگی ١ ؎، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کتنے مال سے وہ سوال کرنے سے بےنیاز ہوجاتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : پچاس درہم یا اس کی قیمت کے بقدر سونے سے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن مسعود کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے، ٣- شعبہ نے اسی حدیث کی وجہ سے حکیم بن جبیر پر کلام کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٢٣ (١٦٢٦) ، سنن النسائی/الزکاة ٨٧ (٢٥٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢٦ (١٨٤٠) ، ( تحفة الأشراف : ٩٣٨٧) (صحیح) (سند میں حکیم بن جبیر اور شریک القاضی دونوں ضعیف راوی ہیں، لیکن اگلی روایت میں زبید کی متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : راوی کو شک ہے کہ آپ نے «خموش» کہا یا «خدوش» یا «کدوح» سب کے معنی تقریباً خراش کے ہیں ، بعض حضرات «خدوش» ،«خموش» اور «کدوح» کو مترادف قرار دے کر شک راوی پر محمول کرتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ یہ زخم کے مراتب ہیں کم درجے کا زخم «کدوح» پھر «خدوش» اور پھر «خموش» ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 650

【36】

کس کو زکوة لینا جائز ہے

سفیان نے بھی حکیم بن جبیر سے یہ حدیث اسی سند سے روایت کی ہے۔ جب سفیان نے یہ حدیث روایت کی تو ان سے شعبہ کے شاگرد عبداللہ بن عثمان نے کہا : کاش حکیم کے علاوہ کسی اور نے اس حدیث کو بیان کیا ہوتا، تو سفیان نے ان سے پوچھا ـ: کیا بات ہے کہشعبہحکیم سے حدیثروایت نہیں کرتے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، وہ نہیں کرتے۔ تو سفیان نے کہا : میں نے اسے زبید کو محمد بن عبدالرحمٰن بن یزید سے روایت کرتے سنا ہے، اور اسی پر ہمارے بعض اصحاب کا عمل ہے اور یہی سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب آدمی کے پاس پچاس درہم ہوں تو اس کے لیے زکاۃ جائز نہیں۔ اور بعض اہل علم حکیم بن جبیر کی حدیث کی طرف نہیں گئے ہیں بلکہ انہوں نے اس میں مزید گنجائش رکھی ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب کسی کے پاس پچاس درہم یا اس سے زیادہ ہوں اور وہ ضرورت مند ہو تو اس کو زکاۃ لینے کا حق ہے، اہل فقہ و اہل حدیث میں سے شافعی وغیرہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 651

【37】

کس کے لئے زکوة لینا جائز نہیں

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی مالدار کے لیے مانگنا جائز نہیں اور نہ کسی طاقتور اور صحیح سالم شخص کے لیے مانگنا جائز ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن عمرو کی حدیث حسن ہے، ٢- اور شعبہ نے بھی یہ حدیث اسی سند سے سعد بن ابراہیم سے روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، ٣- اس باب میں ابوہریرہ، حبشی بن جنادہ اور قبیصہ بن مخارق (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- اور اس حدیث کے علاوہ میں نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ کسی مالدار کے لیے مانگنا جائز نہیں اور نہ کسی ہٹے کٹے کے لیے مانگنا جائز ہے اور جب آدمی طاقتور و توانا ہو لیکن محتاج ہو اور اس کے پاس کچھ نہ ہو اور اسے صدقہ دیا جائے تو اہل علم کے نزدیک اس دینے والے کی زکاۃ ادا ہوجائے گی۔ بعض اہل علم نے اس حدیث کی توجیہ یہ کی ہے کہ « لا تحل له الصدقة» کا مطلب ہے کہ اس کے لیے مانگنا درست نہیں ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٢٣ (١٦٣٤) ، ( تحفة الأشراف : ٨٦٢٦) ، مسند احمد (٢/١٦٤) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٥ (١٦٧٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : «ذی مرّۃ» کے معنی «ذی قوّۃ» کے ہیں اور «سویّ» کے معنی جسمانی طور پر صحیح و سالم کے ہیں۔ ٢ ؎ : یعنی «لا تحل له الصدقة» میں صدقہ مسئلہ ( مانگنے ) کے معنی میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (1444) ، الإرواء (877) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 652

【38】

کس کے لئے زکوة لینا جائز نہیں

حبشی بن جنادہ سلولی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع میں فرماتے سنا آپ عرفہ میں کھڑے تھے، آپ کے پاس ایک اعرابی آیا اور آپ کی چادر کا کنارا پکڑ کر آپ سے مانگا، آپ نے اسے دیا اور وہ چلا گیا، اس وقت مانگنا حرام ہوا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مالدار کے لیے مانگنا جائز نہیں نہ کسی ہٹے کٹے صحیح سالم آدمی کے لیے سوائے جان لیوا فقر والے کے اور کسی بھاری تاوان میں دبے شخص کے۔ اور جو لوگوں سے اس لیے مانگے کہ اس کے ذریعہ سے اپنا مال بڑھائے تو یہ مال قیامت کے دن اس کے چہرے پر خراش ہوگا۔ اور وہ جہنم کا ایک گرم پتھر ہوگا جسے وہ کھا رہا ہوگا، تو جو چاہے اسے کم کرلے اور جو چاہے زیادہ کرلے ا ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٢٩١) (صحیح) (سند میں مجالد ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر حدیث صحیح لغیرہ ہے، صحیح الترغیب ٨٠٢، وتراجع الألبانی ٥٥٧) وضاحت : ا ؎ : مانگنے کی عادت اختیار کرنے والوں کو اس وعید پر غور وفکر کرنا چاہیئے ، بالخصوص دین حق کی اشاعت و دعوت کا کام کرنے والے داعیان و مبلغین کو۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (3 / 384) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (877) ، ضعيف الجامع الصغير (1781) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 653 اس سند سے بھی عبدالرحیم بن سلیمان سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس سند سے یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (اس میں بھی مجالد ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر صحیح لغیرہ ہے) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 654

【39】

None

عبدالرحیم بن سلیمان سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث غریب ہے۔

【40】

مقروض وغیرہ کا زکوٰۃ لینا جائز ہے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص ١ ؎ کے پھلوں میں جو اس نے خریدے تھے، کسی آفت کی وجہ سے جو اسے لاحق ہوئی نقصان ہوگیا اور اس پر قرض زیادہ ہوگیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے صدقہ دو چناچہ لوگوں نے اسے صدقہ دیا، مگر وہ اس کے قرض کی مقدار کو نہ پہنچا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا : جتنا مل رہا ہے لے لو، اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوسعید کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، جویریہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة (١٥٥٦) ، سنن ابی داود/ البیوع ٦٠ (٣٤٦٩) ، سنن النسائی/البیوع ٣٠ (٤٥٣٤) ، و ٩٤ (٤٦٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٥ (٢٣٥٦) ، ( تحفة الأشراف : ٤٢٧٠) ، مسند احمد (٣/٣٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد معاذ بن جبل (رض) ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2356) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 655

【41】

رسول اللہ ﷺ اہل بیت اور آپ ﷺ کے غلامون کے لئے زکوة لینا جائز نہیں

معاویہ بن حیدہ قشیری (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کے پاس جب کوئی چیز لائی جاتی تو آپ پوچھتے : صدقہ ہے یا ہدیہ ؟ اگر لوگ کہتے کہ صدقہ ہے تو آپ نہیں کھاتے اور اگر کہتے کہ ہدیہ ہے تو کھالیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- بہز بن حکیم کی یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں سلمان، ابوہریرہ، انس، حسن بن علی، ابوعمیرہ (معرف بن واصل کے دادا ہیں ان کا نام رشید بن مالک ہے) ، میمون (یا مہران) ، ابن عباس، عبداللہ بن عمرو، ابورافع اور عبدالرحمٰن بن علقمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- نیز یہ حدیث عبدالرحمٰن بن علقمة، سے بھی مروی ہے انہوں نے اسے عبدالرحمٰن بن أبي عقيل سے اور عبدالرحمٰن نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٩٨ (٢٦١٤) ، ( تحفة الأشراف : ١١٣٨٦) ، مسند احمد (٥/٥) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صدقہ اور ہدیہ میں فرق یہ ہے کہ صدقہ سے آخرت کا ثواب مقصود ہوتا ہے اور اس کا دینے والا باعزت اور لینے والا ذلیل و حاجت مند سمجھا جاتا ہے جب کہ ہدیہ سے ہدیہ کئے جانے والے کا تقرب مقصود ہوتا ہے اور ہدیہ کرنے والی کی نظر میں اس کے باعزت اور مکرم ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 656

【42】

رسول اللہ ﷺ اہل بیت اور آپ ﷺ کے غلامون کے لئے زکوة لینا جائز نہیں

ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بنی مخزوم کے ایک شخص کو صدقہ کی وصولی پر بھیجا تو اس نے ابورافع سے کہا : تم میرے ساتھ چلو تاکہ تم بھی اس میں سے حصہ پاس کو، مگر انہوں نے کہا : نہیں، یہاں تک کہ میں جا کر رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لوں، چناچہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس جا کر پوچھا تو آپ نے فرمایا : ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں، اور قوم کے موالی بھی قوم ہی میں سے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابورافع نبی اکرم ﷺ کے مولیٰ ہیں، ان کا نام اسلم ہے اور ابن ابی رافع کا نام عبیداللہ بن ابی رافع ہے، وہ علی بن ابی طالب (رض) کے منشی تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٢٩ (١٦٥٠) ، سنن النسائی/الزکاة ٩٧ (٢٦١٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٠١٨) ، مسند احمد (٦/١٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس اصول کے تحت ابورافع کے لیے صدقہ لینا جائز نہیں ہوا کیونکہ ابورافع رسول اللہ ﷺ کے مولیٰ تھے ، لہٰذا وہ بھی بنی ہاشم میں سے ہوئے اور بنی ہاشم کے لیے صدقہ لینا جائز نہیں ہے۔ بنی ہاشم ، بنی فاطمہ اور آل نبی کی طرف منسوب کرنے والے آج کتنے ہزار لوگ ہیں جو لوگوں سے زکاۃ و صدقات کا مال مانگ مانگ کر کھاتے ہیں ، اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم شاہ جی ہوتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (1829) ، الإرواء (3 / 365 و 880) ، الصحيحة (1612) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 657

【43】

عزیز وقا رب کو زکوة دینا

سلمان بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور سے افطار کرے، کیونکہ اس میں برکت ہے، اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے افطار کرے وہ نہایت پاکیزہ چیز ہے ، نیز فرمایا : مسکین پر صدقہ، صرف صدقہ ہے اور رشتے دار پر صدقہ میں دو بھلائیاں ہیں، یہ صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سلمان بن عامر کی حدیث حسن ہے، ٢- سفیان ثوری نے بھی عاصم سے بطریق : «حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر، عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے، ٣- نیز شعبہ نے بطریق : «عاصم، عن حفصة، عن سلمان بن عامر» روایت کی ہے اور اس میں انہوں نے رباب کا ذکر نہیں کیا ہے، ٤- سفیان ثوری اور ابن عیینہ کی حدیث ١ ؎ زیادہ صحیح ہے، ٥- اسی طرح ابن عون اور ہشام بن حسان نے بھی بطریق : «حفصة، عن الرباب، عن سلمان بن عامر» روایت کی ہے، ٦- اس باب میں عبداللہ بن مسعود (رض) کی اہلیہ زینب، جابر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصوم ٢١ (٢٣٥٥) ، (بالشطر الأول فحسب) ، سنن النسائی/الزکاة ٨٢ (٢٥٨٣) ، (بالشطر الثانی فحسب) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٥ (١٦٩٩) ، (بالشطر الأول) ، والزکاة ٢٨ (١٨٤٤) ، (بالشطر الثانی) ، ( تحفة الأشراف : ٤٤٨٦) ، مسند احمد (٤/١٨، ٢١٤) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣٨ (١٧٢٣) ، (بالشطر الثانی) نیز دیکھئے رقم : ٦٩٥ پہلا فقرہ صیام سے متعلق (ضعیف) ہے، سند میں رباب، أم الرائح لین الحدیث ہیں، اور صدقہ سے متعلق دوسرا فقرہ صحیح ہے، تراجع الالبانی ١٣٢، والسراج المنیر ١٨٧٣، ١٨٧٤) وضاحت : ١ ؎ : جس میں رباب کے واسطے کا ذکر ہے۔ قال الشيخ الألباني : (جملة إذا أفطر ... ) ضعيف، والصحيح من فعله صلی اللہ عليه وسلم، (جملة الصدقة علی .... ) صحيح (جملة إذا أفطر ... ) ، ابن ماجة (1699) ، (جملة الصدقة علی ... ) ، ابن ماجة (1844) // عندنا برقم (1494) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 658

【44】

مال میں زکوة کے علاوہ بھی حق ہے

فاطمہ بنت قیس (رض) کہتی ہیں کہ میں نے زکاۃ کے بارے میں پوچھا، یا نبی اکرم ﷺ سے زکاۃ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی کچھ حق ہے ١ ؎ پھر آپ نے سورة البقرہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی : «ليس البر أن تولوا وجوهكم» نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے پھیر لو ٢ ؎ الآیۃ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ٣ (١٧٨٩) ، (لکن لفظہ ” لیس فی المال حق سوی الزکاة “ ) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٣ (١٦٧٧) (ضعیف) (سند میں شریک القاضی حافظہ کے ضعیف راوی ہے، ابو حمزہ میمون بھی ضعیف ہیں، اور ابن ماجہ کے یہاں اسود بن عامر کی جگہ یحییٰ بن آدم ہیں لیکن ان کی روایت شریک کے دیگر تلامذہ کے برخلاف ہے، دونوں سیاق سے یہ ضعیف ہے) وضاحت : ١ ؎ : بظاہر یہ حدیث «ليس في المال حق سوی الزکاة» کے معارض ہے ، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ زکاۃ اللہ کا حق ہے اور مال میں زکاۃ کے علاوہ جو دوسرے حقوق واجبہ ہیں ان کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے۔ ٢ ؎ : پوری آیت اس طرح ہے : «ليس البر أن تولوا وجوهكم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من آمن بالله واليوم الآخر والملآئكة والکتاب والنبيين وآتی المال علی حبه ذوي القربی واليتامی والمساکين وابن السبيل والسآئلين وفي الرقاب وأقام الصلاة وآتی الزکاة والموفون بعهدهم إذا عاهدوا والصابرين في البأساء والضراء وحين البأس أولئك الذين صدقوا وأولئك هم المتقون» (البقرة : 177) ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقۃً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر ، قیامت کے دن پر ، فرشتوں پر ، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو ، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے غلاموں کو آزاد کرنے نماز کی پابندی اور زکاۃ کی ادائیگی کرے ، جب وعدہ کرے تو اسے پورا کرے تنگدستی دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں آیت سے استدلال اس طرح سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکورہ وجوہ میں مال دینے کا ذکر فرمایا ہے پھر اس کے بعد نماز قائم کرنے اور زکاۃ دینے کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1789) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 659

【45】

مال میں زکوة کے علاوہ بھی حق ہے

فاطمہ بنت قیس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی حقوق ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث کی سند کوئی خاص نہیں ہے ١ ؎، ٢- ابوحمزہ میمون الاعور کو ضعیف گردانا جاتا ہے، ٣- بیان اور اسماعیل بن سالم نے یہ حدیث شعبی سے روایت کی ہے اور اسے شعبی ہی کا قول قرار دیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) وضاحت : ١ ؎ : «إسناده ليس بذلک» الفاظ جرح میں سے ہے ، اس کا تعلق مراتب جرح کے پہلے مرتبہ سے ہے ، جو سب سے ہلکا مرتبہ ہے ، ایسے راوی کی حدیث قابل اعتبار ہوتی ہے یعنی تقویت کے قابل اور اس کے لیے مزید روایات تلاش کی جاسکتی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف أيضا //، المشکاة (1 / 597) ، ضعيف سنن ابن ماجة (397) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 660

【46】

زکوة ادا کرنے کی فضلیت

ابوہریرہ (رض) کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بھی کسی پاکیزہ چیز کا صدقہ کیا اور اللہ پاکیزہ چیز ہی قبول کرتا ہے ١ ؎ تو رحمن اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتا ہے ٢ ؎ اگرچہ وہ ایک کھجور ہی ہو، یہ مال صدقہ رحمن کی ہتھیلی میں بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ پہاڑ سے بڑا ہوجاتا ہے، جیسے کہ تم میں سے ایک اپنے گھوڑے کے بچے یا گائے کے بچے کو پالتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ، عدی بن حاتم، انس، عبداللہ بن ابی اوفی، حارثہ بن وہب، عبدالرحمٰن بن عوف اور بریدہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٨ (تعلیقا عقب حدیث رقم : ١٤١٠) ، والتوحید ٢٣ (تعلیقا عقب حدیث رقم : ٧٤٣٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٩ (١٠١٤) ، سنن النسائی/الزکاة ٤٨ (٢٥٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢٨ (١٨٤٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٣٧٩) ، مسند احمد (٢/٣٣١، ٤١٨، ٥٣٨) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣٥ (١٧١٧) (صحیح) وأخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٨ (١٤١٠) ، والتوحید ٢٣ (٧٤٣٠) ، وصحیح مسلم/الزکاة (المصدر المذکور) ، و مسند احمد (٢/٣٨١، ٤١٩، ٤٣١، ٤٧١، ٥٤١) من غیر ہذا الطریق وضاحت : ١ ؎ : اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حرام صدقہ اللہ قبول نہیں کرتا ہے کیونکہ صدقہ دینے والا حرام کا مالک ہی نہیں ہوتا اس لیے اسے اس میں تصرف کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ ٢ ؎ : «یمین» کا ذکر تعظیم کے لیے ہے ورنہ رحمن کے دونوں ہاتھ «یمین» ہی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ظلال الجنة (623) ، التعليق الرغيب، الإرواء (886) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 661

【47】

زکوة ادا کرنے کی فضلیت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ صدقہ قبول کرتا ہے اور اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتا ہے اور اسے پالتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچھڑے کو پالتا ہے یہاں تک کہ لقمہ احد پہاڑ کے مثل ہوجاتا ہے۔ اس کی تصدیق اللہ کی کتاب (قرآن) سے ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ألم يعلموا أن اللہ هو يقبل التوبة عن عباده ويأخذ الصدقات» کیا انہیں نہیں معلوم کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات لیتا ہے اور «‏ (يمحق اللہ الربا ويربي الصدقات‏» اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- نیز عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، ٣- اہل علم میں سے بہت سے لوگوں نے اس حدیث کے بارے میں اور اس جیسی صفات کی دوسری روایات کے بارے میں اور باری تعالیٰ کے ہر رات آسمان دنیا پر اترنے کے بارے میں کہا ہے کہ اس سلسلے کی روایات ثابت ہیں، ان پر ایمان لایا جائے، ان میں کسی قسم کا وہم نہ کیا جائے گا، اور نہ اس کی کیفیت پوچھی جائے۔ اور اسی طرح مالک، سفیان بن عیینہ اور عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے، ان لوگوں نے ان احادیث کے بارے میں کہا ہے کہ ان حدیثوں کو بلا کیفیت جاری کرو ١ ؎ اسی طرح کا قول اہل سنت و الجماعت کے اہل علم کا ہے، البتہ جہمیہ نے ان روایات کا انکار کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ان سے تشبیہ لازم آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے کئی مقامات پر ہاتھ، کان، آنکھ کا ذکر کیا ہے۔ جہمیہ نے ان آیات کی تاویل کی ہے اور ان کی ایسی تشریح کی ہے جو اہل علم کی تفسیر کے خلاف ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا، دراصل ہاتھ کے معنی یہاں قوت کے ہیں۔ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں : تشبیہ تو تب ہوگی جب کوئی کہے : «يد كيد أو مثل يد» یا «سمع کسمع أو مثل سمع» یعنی اللہ کا ہاتھ ہمارے ہاتھ کی طرح ہے، یا ہمارے ہاتھ کے مانند ہے، اس کا کان ہمارے کان کی طرح ہے یا ہمارے کان کے مانند ہے تو یہ تشیبہ ہوئی۔ (نہ کہ صرف یہ کہنا کہ اللہ کا ہاتھ ہے، اس سے تشبیہ لازم نہیں آتی) اور جب کوئی کہے جیسے اللہ نے کہا ہے کہ اس کے ہاتھ کان اور آنکھ ہے اور یہ نہ کہے کہ وہ کیسے ہیں اور نہ یہ کہے کہ فلاں کے کان کی مانند یا فلاں کے کان کی طرح ہے تو یہ تشبیہ نہیں ہوئی، یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا : «ليس کمثله شيئ وهو السميع البصير» اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سمیع ہے بصیر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٢٨٧) ، وانظر : مسند احمد (٢/٢٦٨، ٤٠٤) (منکر) (” و تصدیق ذلک “ کے لفظ سے منکر ہے، عباد بن منصور اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے اور دوسرے کی روایتوں میں اس اضافہ کا تذکرہ نہیں ہے، یعنی اس اضافہ کے بغیر حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان پر ایمان لاؤ اور ان کی کیفیت کے بارے میں گفتگو نہ کرو۔ یہاں آج کل کے صوفیاء و مبتدعین کے عقائد کا بھی رد ہوا ، یہ لوگ سلف صالحین کے برعکس اللہ کی صفات کی تاویل اور کیفیت بیان کرتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : منکر بزيادة : صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 662

【48】

زکوة ادا کرنے کی فضلیت

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا : رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : شعبان کے روزے جو رمضان کی تعظیم کے لیے ہوں ، پوچھا گیا : کون سا صدقہ افضل ہے ؟ فرمایا : رمضان میں صدقہ کرنا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- صدقہ بن موسیٰ محدثین کے نزدیک زیادہ قوی راوی نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٤٩) (ضعیف) (سند میں صدقہ بن موسیٰ حافظہ کے ضعیف راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (889) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 663

【49】

زکوة ادا کرنے کی فضلیت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صدقہ رب کے غصے کو بجھا دیتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٢٩) (صحیح) (حدیث کا پہلا ٹکڑا صحیح ہے) (سند میں حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، اور عبداللہ بن عیسیٰ الخزار ضعیف ہیں لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں دیکھئے الصحیحة رقم : ١٩٠٨) قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (2 / 22) ، الإرواء (885) // ضعيف الجامع الصغير (1489) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 664

【50】

سائل کا حق

عبدالرحمٰن بن بجید کی دادی ام بجید حواء (رض) (جو رسول اللہ ﷺ سے بیعت کرنے والیوں میں سے ہیں) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مسکین میرے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے اور اسے دینے کے لیے میرے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی۔ (تو میں کیا کروں ؟ ) رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : اگر اسے دینے کے لیے تمہیں کوئی جلی ہوئی کھر ہی ملے تو وہی اس کے ہاتھ میں دے دو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ام بجید (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، حسین بن علی، ابوہریرہ اور ابوامامہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٣٣ (١٦٦٧) ، سنن النسائی/الزکاة ٧٠ (٢٥٦٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٣٥) ، مسند احمد (٦/٣٨٢- ٣٨٣) ، وأخرجہ موطا امام مالک/صفة النبی ﷺ ٥ (٨) ، و مسند احمد (٧٠٤) ، و (٦/٤٣٥) ، من غیر ہذا الطریق والسیاق (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس میں مبالغہ ہے ، مطلب یہ ہے کہ سائل کو یوں ہی مت لوٹاؤ جو بھی میسر ہو اسے دے دو ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 29) ، صحيح أبي داود (1467) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 665

【51】

تالیف قلب کے لئے زکوة دینا

صفوان بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کے روز مجھے دیا، آپ مجھے (فتح مکہ سے قبل) تمام مخلوق میں سب سے زیادہ مبغوض تھے، اور برابر آپ مجھے دیتے رہے یہاں تک کہ آپ مجھے مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہوگئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- حسن بن علی نے مجھ سے اس حدیث یا اس جیسی چیز کو مذاکرہ میں بیان کیا، ٢- اس باب میں ابوسعید (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- صفوان کی حدیث معمر وغیرہ نے زہری سے اور زہری نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے جس میں «عن صفوان بن أمية» کے بجائے «أن صفوان بن أمية قال أعطاني رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم» ہے گویا یہ حدیث یونس بن یزید کی حدیث سے زیادہ صحیح اور اشبہ ہے، یہ «عن سعید بن المسیب عن صفوان» کے بجائے «عن سعيد بن مسيب أن صفوان» ہی ہے ١ ؎، ٤- جن کا دل رجھانا اور جن کو قریب لانا مقصود ہو انہیں دینے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ انہیں نہ دیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نبی اکرم ﷺ کے زمانے کے چند لوگ تھے جن کی آپ تالیف قلب فرما رہے تھے یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئے لیکن اب اس طرح ہر کسی کو زکاۃ کا مال دینا جائز نہیں ہے، سفیان ثوری، اہل کوفہ وغیرہ اسی کے قائل ہیں، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ اگر کوئی آج بھی ان لوگوں جیسی حالت میں ہو اور امام اسلام کے لیے اس کی تالیف قلب ضروری سمجھے اور اسے کچھ دے تو یہ جائز ہے، یہ شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ١٤ (٢٣١٣) ، (بلفظ ” عن ابن المسیب أن صفوان قال : … “ ) ، ( تحفة الأشراف : ٤٩٤٤) ، مسند احمد (٣/٤٠١) و (٦/٤٦٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ سعید بن مسیب نے صفوان بن امیہ سے کچھ بھی نہیں سنا ہے اور راوی فلان عن فلان اسی وقت کہتا ہے جب اس نے اس سے کچھ سنا ہو گو ایک ہی حدیث ہی کیوں نہ ہو۔ ( صحیح مسلم میں «أن صفوان قال» ہی ہے ) امام شافعی کا قول قابل قبول اور قابل عمل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 666

【52】

جسے زکوة میں دیا ہوا مال وراثت میں ملے

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک عورت نے آپ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! میں نے اپنی ماں کو ایک لونڈی صدقے میں دی تھی، اب وہ مرگئیں (تو اس لونڈی کا کیا ہوگا ؟ ) آپ نے فرمایا : تمہیں ثواب بھی مل گیا اور میراث نے اسے تمہیں لوٹا بھی دیا ۔ اس نے پوچھا : اللہ کے رسول ! میری ماں پر ایک ماہ کے روزے فرض تھے، کیا میں ان کی طرف سے روزے رکھ لوں ؟ آپ نے فرمایا : تو ان کی طرف سے روزہ رکھ لے ، اس نے پوچھا : اللہ کے رسول ! انہوں نے کبھی حج نہیں کیا، کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، ان کی طرف سے حج کرلے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بریدہ (رض) کی یہ حدیث صرف اسی طریق سے جانی جاتی ہے۔ ٣- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ آدمی جب کوئی صدقہ کرے پھر وہ اس کا وارث ہوجائے تو اس کے لیے وہ جائز ہے، ٤- اور بعض کہتے ہیں : صدقہ تو اس نے اللہ کی خاطر کیا تھا لہٰذا جب اس کا وارث ہوجائے تو لازم ہے کہ پھر اسے اسی کے راستے میں صرف کر دے (یہ زیادہ افضل ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٢٧ (١١٤٩) ، سنن ابی داود/ الزکاة ٣١ (١٦٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ٣ (٢٣٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٩٨٠) ، مسند احمد (٥/٣٥١، ٣٦١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1759 و 2394) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 667

【53】

صدقی کرنے کے بعد واپس لوٹانا مکروہ ہے

عمر (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں دیا، پھر دیکھا کہ وہ گھوڑا بیچا جا رہا ہے تو اسے خریدنا چاہا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنا صدقہ واپس نہ لو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ١٠٠ (٢٦١٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٥٢٦) ، وأخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٩ (١٤٩٠) ، والہبة ٣٠ (٢٦٢٣) ، و ٣٧ (٢٦٣٦) ، والوصایا ٣١ (٢٧٧٥) ، والجہاد ١١٩ (٢٩٧٠) ، و ١٣٧ (٣٠٠٣) ، صحیح مسلم/الہبات ١ (١٦٢٠) ، سنن النسائی/الزکاة ١٠٠ (٢٦١٦) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ١ (٢٣٩٠) ، موطا امام مالک/الزکاة ٢٦ (٤٩) ، مسند احمد (١/٤٠، ٥٤) ، من غیر ہذا الطریق کما أخرجہ صحیح البخاری/الزکاة ٥٩ (١٤٨٩) ، وسنن النسائی/الزکاة ١٠٠ (٢٦١٨) ، من مسند عبداللہ بن عمر (رض) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ صدقہ دے کر واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے ، ظاہر حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے اپنے دیئے ہوئے صدقے کے خریدنے کو حرام کہا ہے ، لیکن جمہور نے اسے کراہت تنزیہی پر محمول کیا ہے کیونکہ فی نفسہ اس میں کوئی قباحت نہیں ، قباحت دوسرے کی وجہ سے ہے کیونکہ بسا اوقات صدقہ دینے والا لینے والے سے جب اپنا صدقہ خریدتا ہے تو اس کے اس احسان کی وجہ سے جو صدقہ دے کر اس نے اس پر کیا تھا وہ قیمت میں رعایت سے کام لیتا ہے ، نیز بظاہر یہ حدیث ابو سعید خدری (رض) کی حدیث «لا تحل الصدقة إلا لخمسة لعامل عليها اور جل اشتراها بما … الحديث» کے معارض ہے ، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ عمر (رض) والی حدیث کراہت تنزیہی پر محمول کی جائے گی اور ابوسعید (رض) والی روایت بیان جواز پر ، یا عمر (رض) کی روایت نفل صدقے کے سلسلہ میں ہے اور ابو سعید خدری (رض) کی روایت فرض صدقے کے بارے میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2390) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 668

【54】

میت کی طرف سے صدقہ دینا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری والدہ فوت ہوچکی ہیں، اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ ان کے لیے مفید ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ، اس نے عرض کیا : میرا ایک باغ ہے، آپ گواہ رہئیے کہ میں نے اسے والدہ کی طرف سے صدقہ میں دے دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق «عن عمرو بن دينار عن عکرمة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مرسلاً روایت کی ہے، ٣- اور یہی اہل علم بھی کہتے ہیں کہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو میت کو پہنچتی ہو سوائے صدقہ اور دعا کے ١ ؎، ٤- «إن لي مخرفا» میں «مخرفاً» سے مراد باغ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٢٠ (٢٧٦٢) ، سنن ابی داود/ الوصایا ١٥ (٢٨٨٢) ، سنن النسائی/الوصایا ٨ (٣٦٨٥) ، ( تحفة الأشراف : ٦١٦٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ان دونوں کے سلسلہ میں اہل سنت والجماعت میں کوئی اختلاف نہیں ، اختلاف صرف بدنی عبادتوں کے سلسلہ میں ہے جیسے صوم و صلاۃ اور قرأت قرآن وغیرہ عبادتیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (6566) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 669

【55】

بیوی کا خاوند کے گھر سے خرچ کرنا

ابوامامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ ﷺ کو اپنے خطبہ میں فرماتے سنا : عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ نہ کرے ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! اور کھانا بھی نہیں ؟۔ آپ نے فرمایا : یہ ہمارے مالوں میں سب سے افضل مال ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوامامہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں سعد بن ابی وقاص، اسماء بنت ابی بکر، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٥ (٢٢٩٥) ، ( تحفة الأشراف : ٤٨٨٣) ، مسند احمد (٥/٢٦٧) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : پہلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر شوہر کی اجازت کے بیوی خرچ نہیں کرسکتی اور اگلی روایت میں اجازت کی قید نہیں ، دونوں میں تطبیق اس طرح دی جائے گی کہ اجازت کی دو قسمیں ہیں اجازت قولی اور اجازت حالی ، بعض دفعہ شوہر بغیر اجازت کے بیوی کے کچھ دے دینے پر راضی ہوتا ہے جیسے دیہات وغیرہ میں فقیروں کو عورتیں کچھ غلہ اور آٹا وغیرہ دے دیا کرتی ہیں اور شوہر اس پر ان کی کوئی گرفت نہیں کرتا۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2295) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 670

【56】

بیوی کا خاوند کے گھر سے خرچ کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے صدقہ کرے تو اسے اس کا اجر ملتا ہے اور اتنا ہی اجر اس کے شوہر کو بھی، اور خزانچی کو بھی، اور ان میں کسی کا اجر دوسرے کے اجر کی وجہ سے کم نہیں کیا جاتا۔ شوہر کو اس کے کمانے کا اجر ملتا ہے اور عورت کو اس کے خرچ کرنے کا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ١٦١٥٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2294) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 671

【57】

بیوی کا خاوند کے گھر سے خرچ کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے خوش دلی کے ساتھ بغیر فساد کی نیت کے کوئی چیز دے تو اسے مرد کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا۔ اسے اپنی نیک نیتی کا ثواب ملے گا اور خازن کو بھی اسی طرح ثواب ملے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ عمرو بن مرہ کی حدیث سے جسے انہوں نے ابو وائل سے روایت کی ہے، زیادہ صحیح ہے، عمرو بن مرہ اپنی روایت میں مسروق کے واسطے کا ذکر نہیں کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١٧ (١٤٢٥) ، و ٢٥ (١٤٣٧) ، و ٢٦ (١٤٣٩) ، والبیوع ١٢ (٢٠٦٥) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٥ (١٠٢٤) ، سنن ابی داود/ الزکاة ٤٤ (١٦٨٥) ، سنن النسائی/الزکاة ٥٧ (٢٥٤٠) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٥ (٢٢٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٦٠٨) ، مسند احمد (٦/٤٤، ٩٩، ٣٧٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (671) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 672

【58】

صدقہ فطر کے بارے میں

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں ہم لوگ جب رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان موجود تھے - صدقہ فطر ١ ؎ میں ایک صاع گیہوں ٢ ؎ یا ایک صاع جو، یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش یا ایک صاع پنیر نکالتے تھے۔ تو ہم اسی طرح برابر صدقہ فطر نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ (رض) مدینہ آئے، تو انہوں نے لوگوں سے خطاب کیا، اس خطاب میں یہ بات بھی تھی کہ میں شام کے دو مد گیہوں کو ایک صاع کھجور کے برابر سمجھتا ہوں۔ تو لوگوں نے اسی کو اختیار کرلیا یعنی لوگ دو مد آدھا صاع گیہوں دینے لگے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے ان کا خیال ہے کہ ہر چیز میں ایک صاع ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ہر چیز میں ایک صاع ہے سوائے گیہوں کے، اس میں آدھا صاع کافی ہے، ٤- یہی سفیان ثوری اور ابن مبارک کا بھی قول ہے۔ اور اہل کوفہ کی بھی رائے ہے کہ گیہوں میں نصف صاع ہی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٢ (١٥٠٥) ، و ٧٣ (١٥٠٦) ، و ٧٥ (١٥٠٨) ، و ٧٦ (١٥١٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤ (٩٨٥) ، سنن ابی داود/ الزکاة ١٩ (١٦١٦) ، سنن النسائی/الزکاة ٣٨ (٢٥١٥) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢١ (١٨٢٩) ، ( تحفة الأشراف : ٤٢٦٩) ، مسند احمد (٣/٢٣، ٧٣، ٩٨) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٧ (١٧٠٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صدقہ فطر کی فرضیت رمضان کے آغاز کے بعد عید سے صرف دو روز پہلے ٢ ھ میں ہوئی ، اس کی ادائیگی کا حکم بھی نماز عید سے پہلے پہلے ہے تاکہ معاشرے کے ضرورت مند حضرات اس روز مانگنے سے بےنیاز ہو کر عام مسلمانوں کے ساتھ عید کی خوشی میں شریک ہو سکیں ، اس کی مقدار ایک صاع ہے خواہ کوئی بھی جنس ہو ، صدقہ فطر کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں۔ اور صاع ڈھائی کلوگرام کے برابر ہوتا ہے۔ ٢ ؎ : «صاعاً من طعام» میں «طعام» سے مراد «حنطۃ» گیہوں ہے کیونکہ «طعام» کا لفظ مطلقاً گیہوں کے معنی میں بولا جاتا تھا جب کہا جاتا ہے : «إذهب إلى سوق الطعام» تو اس سے «سوق الحنطۃ» گیہوں کا بازار ہی سمجھا جاتا تھا ، اور بعض لوگوں نے کہا «من طعام مجمل» ہے اور آگے اس کی تفسیر ہے ، یہ «عطف الخاص علی العام» ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1829) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 673

【59】

صدقہ فطر کے بارے میں

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو مکہ کی گلیوں میں منادی کرنے کے لیے بھیجا کہ سنو ! صدقہ فطر ہر مسلمان مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، چھوٹا ہو یا بڑا، گیہوں سے دو مد اور گیہوں کے علاوہ دوسرے غلوں سے ایک صاع واجب ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- عمر بن ہارون نے یہ حدیث ابن جریج سے روایت کی، اور کہا : «العباس بن ميناء عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» پھر آگے اس حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٧٤٨) (ضعیف الإسناد) (سند میں سالم بن نوح حافظے کے ضعیف ہیں، مگر اس حدیث کی اصل ثابت ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 674

【60】

صدقہ فطر کے بارے میں

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر مرد، عورت، آزاد اور غلام پر، ایک صاع کھجور، یا ایک صاع جو فرض کیا، راوی کہتے ہیں : پھر لوگوں نے آدھا صاع گیہوں کو اس کے برابر کرلیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوسعید، ابن عباس، حارث بن عبدالرحمٰن بن ابی ذباب کے دادا (یعنی ابوذباب) ، ثعلبہ بن ابی صعیر اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٧ (١٥١١) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤ (٩٨٤) ، سنن النسائی/الزکاة ٣٠ (٢٥٠٢) ، و ٣١ (٢٥٠٣) ، ( تحفة الأشراف : ٧٥١٠) ، مسند احمد ( ٢/٥) (صحیح) وأخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٠ (١٥٠٣) ، و ٧١ (١٥٠٤) ، و ٧٤ (١٥٠٧) ، و ٧٤ (١٥٠٧) ، و ٧٨ (١٥١٢) ، وصحیح مسلم/الزکاة (المصدر السابق) ، و سنن ابی داود/ الزکاة ١٩ (١٦١١) ، وسنن النسائی/الزکاة ٣٢ (٢٥٠٤) ، و ٣٣ (٢٥٠٥) ، وسنن ابن ماجہ/الزکاة ٢١ (١٨٢٥، و ١٨٢٦) ، (٥٢) ، و مسند احمد (٢/٥٥، ٦٣، ٦٦، ١٠٢، ١١٤، ١٣٧) ، و سنن الدارمی/الزکاة ٢٧ (١٦٦٨) ، من غیر ہذا الطریق عنہ، وانظر الحدیث الآتی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1825) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 675

【61】

صدقہ فطر کے بارے میں

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کا صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مسلمانوں میں سے ہر آزاد اور غلام، مرد اور عورت پر فرض کیا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- مالک نے بھی بطریق : «نافع عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» ایوب کی حدیث کی طرح روایت کی ہے البتہ اس میں «من المسلمين» کا اضافہ ہے۔ ٣- اور دیگر کئی لوگوں نے نافع سے روایت کی ہے، اس میں «من المسلمين» کا ذکر نہیں ہے، ٤- اہل علم کا اس سلسلے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ جب آدمی کے پاس غیر مسلم غلام ہوں تو وہ ان کا صدقہ فطر ادا نہیں کرے گا۔ یہی مالک، شافعی اور احمد کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ وہ غلاموں کا صدقہ فطر ادا کرے گا خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں، یہ ثوری، ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ٨٣٢١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس روایت میں لفظ «فَرضَ» استعمال ہوا ہے جس کے معنی فرض اور لازم ہونے کے ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر فرض ہے بعض لوگوں نے «فَرضَ» کو «قَدَّرَ» کے معنی میں لیا ہے لیکن یہ ظاہر کے سراسر خلاف ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ روایت میں «من المسلمين» کی قید اتفاقی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1826) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 676

【62】

صدقہ فطر نماز عید سے پہلے دینے کے بارے میں

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر کے دن نماز کے لیے جانے سے پہلے صدقہ فطر نکالنے کا حکم دیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- اور اہل علم اسی کو مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی صدقہ فطر نماز کے لیے جانے سے پہلے نکال دے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٦ (١٥٠٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٥ (٩٨٦) ، سنن ابی داود/ الزکاة ١٨ (١٦١٠) ، سنن النسائی/الزکاة ٤٥ (٢٥٢٢) ، ( تحفة الأشراف : ٨٤٥٢) ، مسند احمد (٢/١٥١، ١٥٥) (صحیح) وأخرجہ : سنن النسائی/الزکاة ٣٣ (٢٥٠٦) من غیر ہذا الطریق قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، صحيح أبي داود (1428) ، الإرواء (832) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 677

【63】

وقت سے پہلے زکوة ادا کرنے کے بارے میں

علی (رض) کہتے ہیں کہ عباس (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی زکاۃ وقت سے پہلے دینے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے انہیں اس کی اجازت دی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٢١ (١٦٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٧ (١٧٩٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٠٦٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٢ (١٦٧٦) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1795) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 678

【64】

وقت سے پہلے زکوة ادا کرنے کے بارے میں

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عمر (رض) سے فرمایا : ہم عباس سے اس سال کی زکاۃ گزشتہ سال ہی لے چکے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے، ٢- اسرائیل کی پہلے زکاۃ نکالنے والی حدیث کو جسے انہوں نے حجاج بن دینار سے روایت کی ہے ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ٣- اسماعیل بن زکریا کی حدیث جسے انہوں نے حجاج سے روایت کی ہے میرے نزدیک اسرائیل کی حدیث سے جسے انہوں نے حجاج بن دینار سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے، ٤- نیز یہ حدیث حکم بن عتیبہ سے بھی مروی ہے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے، ٥- اہل علم کا وقت سے پہلے پیشگی زکاۃ دینے میں اختلاف ہے، اہل علم میں سے ایک جماعت کی رائے ہے کہ اسے پیشگی ادا نہ کرے، سفیان ثوری اسی کے قائل ہیں، وہ کہتے ہیں : کہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ یہی ہے کہ اسے پیشگی ادا نہ کرے، اور اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر وقت سے پہلے پیشگی ادا کر دے تو جائز ہے۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن) وضاحت : ١ ؎ : اور یہی قول راجح ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 679

【65】

سوال کرنے کی ممانعت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : تم میں سے کوئی شخص صبح سویرے جائے اور لکڑیوں کا گٹھر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے اور اس میں سے (یعنی اس کی قیمت میں سے) صدقہ کرے اور اس طرح لوگوں سے بےنیاز رہے (یعنی ان سے نہ مانگے) اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے مانگے، وہ اسے دے یا نہ دے ١ ؎ کیونکہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے ٢ ؎، اور پہلے اسے دو جس کی تم خود کفالت کرتے ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- وہ بیان کی حدیث سے جسے انہوں نے قیس سے روایت کی ہے غریب جانی جاتی ہے، ٣- اس باب میں حکیم بن حزام، ابو سعید خدری، زبیر بن عوام، عطیہ سعدی، عبداللہ بن مسعود، مسعود بن عمرو، ابن عباس، ثوبان، زیاد بن حارث صدائی، انس، حبشی بن جنادہ، قبیصہ بن مخارق، سمرہ اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣٥ (١٠٤٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٢٩٣) (صحیح) أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٠ (٤٧٠) ، و ٥٣ (١٤٨٠) ، والبیوع ١٥ (٢٠٧٤) ، والمساقاة ١٣ (٢٣٧٤) ، وسنن النسائی/الزکاة ٨٣ (٢٥٨٥) ، و ٨٥ (٢٥٩٠) ، وسنن ابن ماجہ/الزکاة ٢٥ (١٨٣٦) ، وط/الصدقة ٢ (١٠) ، و مسند احمد (٢/٢٤٣، ٢٥٧، ٣٠٠، ٤١٨، ٤٧٥، ٤٩٦) من غیر ہذا الطریق عنہ وضاحت : ١ ؎ : عزیمت کی راہ یہی ہے کہ آدمی ضرورت وحاجت ہونے پر بھی کسی سے سوال نہ کرے اگرچہ ضرورت و حاجت کے وقت سوال کرنا جائز ہے۔ ٢ ؎ : اوپر والے ہاتھ سے مراد دینے والا ہاتھ ہے اور نیچے والے ہاتھ سے مراد لینے والا ہاتھ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (834) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 680

【66】

سوال کرنے کی ممانعت

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مانگنا ایک زخم ہے جس سے آدمی اپنا چہرہ زخمی کرلیتا ہے، سوائے اس کے کہ آدمی حاکم سے مانگے ١ ؎ یا کسی ایسے کام کے لیے مانگے جو ضروری اور ناگزیر ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٢٦ (١٦٣٩) ، سنن النسائی/الزکاة ٩٢ (٢٦٠٠) ، ( تحفة الأشراف : ٤٦١٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : حاکم سے مانگنے کا مطلب بیت المال کی طرف رجوع کرنا ہے جو اس مقصد کے لیے ہوتا ہے کہ اس سے ضرورت مند کی آبرو مندانہ کفالت کی جائے اگر وہاں تک نہ پہنچ سکے تو ناگزیر حالات و معاملات میں دوسروں سے سوال کرنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 2) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 681