6. سفرکا بیان

【1】

سفر میں قصر نماز پڑھنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) کے ساتھ سفر کیا، یہ لوگ ظہر اور عصر دو دو رکعت پڑھتے تھے۔ نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھتے اور نہ اس کے بعد۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : اگر میں اس سے پہلے یا اس کے بعد (سنت) نماز پڑھتا تو میں انہی (فرائض) کو پوری پڑھتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اس طرح یحییٰ بن سلیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : یہ حدیث بطریق : «عن عبيد اللہ بن عمر عن رجل من آل سراقة عن عبد اللہ بن عمر» بھی مروی ہے، ٣- اور عطیہ عوفی ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سفر میں نماز سے پہلے اور اس کے بعد نفل پڑھتے تھے ١ ؎، ٤- اس باب میں عمر، علی، ابن عباس، انس، عمران بن حصین اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٥- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ اور ابوبکر و عمر (رض) سفر میں قصر کرتے تھے اور عثمان (رض) بھی اپنی خلافت کے شروع میں قصر کرتے تھے، ٦- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، ٧- اور عائشہ سے مروی ہے کہ وہ سفر میں نماز پوری پڑھتی تھیں ٢ ؎، ٨- اور عمل اسی پر ہے جو نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام سے مروی ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، البتہ شافعی کہتے ہیں کہ سفر میں قصر کرنا رخصت ہے، اگر کوئی پوری نماز پڑھ لے تو جائز ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٢٢٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث ٥٥١ پر مولف کے یہاں آرہی ہے ، اور ضعیف و منکر ہے۔ ٢ ؎ : یہ صحیح بخاری کی روایت ہے ، اور بیہقی کی روایت ہے کہ انہوں نے سبب یہ بیان کیا کہ پوری پڑھنی میرے لیے شاق نہیں ہے ، گویا سفر میں قصر رخصت ہے اور اتمام جائز ہے ، اور یہی راجح قول ہے۔ رخصت کے اختیار میں سنت پر عمل اور اللہ کی رضا حاصل ہوتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1071) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 544

【2】

سفر میں قصر نماز پڑھنا

ابونضرہ سے روایت ہے کہ عمران بن حصین (رض) سے مسافر کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا تو آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں، اور میں نے ابوبکر (رض) کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں، اور عمر (رض) کے ساتھ کیا تو انہوں نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں، اور عثمان (رض) کے ساتھ ان کی خلافت کے ابتدائی چھ یا آٹھ سالوں میں کیا تو انہوں نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف بہذا السیاق، وأخرج أبوداود (الصلاة ٢٧٩/رقم ١٢٢٩) بہذا السند أیضا لکنہ بسیاق آخر ( تحفة الأشراف : ١٠٨٦٢) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 545

【3】

سفر میں قصر نماز پڑھنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں ١ ؎ اور ذی الحلیفہ ٢ ؎ میں دو رکعتیں پڑھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ٥ (١٠٨٩) ، والحج ٢٤ (١٥٥٦) ، و ٢٥ (١٥٤٨) ، و ١١٩ (١٧١٤) ، والجہاد ١٠٤ (٢٩٥١) ، صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٩٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٧١ (١٢٠٢) ، والحج ٢١ (١٧٧٣) ، سنن النسائی/الصلاة ١١ (٤٧٠) ، و ١٧ (٤٧٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٧٣١٦٦) ، مسند احمد (٣/١١٠، ١١١، ١٧٧، ١٨٦، ٢٣٧، ٢٦٨، ٣٧٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٩ (١٥٤٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جب حج کے لیے مدینہ سے نکلے تو مسجد نبوی میں چار پڑھی ، جب مدینہ سے نکل کر ذوالحلیفہ میقات پر پہنچے تو وہاں دو قصر کر کے پڑھی۔ ٢ ؎ : ذوالحلیفہ : مدینہ سے جنوب میں مکہ کے راستہ میں لگ بھگ دس کیلو میٹر پر واقع ہے ، یہ اہل مدینہ کی میقات ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1085) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 546

【4】

سفر میں قصر نماز پڑھنا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے، آپ کو سوائے اللہ رب العالمین کے کسی کا خوف نہ تھا۔ (اس کے باوجود) آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/تقصیر الصلاة ١ (١٤٣٦) ، ( تحفة الأشراف : ٦٤٣٦) ، مسند احمد (١/٢١٥، ٢٣٦، ٢٤٥، ٢٦٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : عبداللہ بن عباس (رض) اس سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سفر میں قصر خوف کی وجہ سے نہیں ہے ، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں ، سفر خواہ کیسا بھی پرامن ہو اس میں قصر رخصت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (3 / 6) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 547

【5】

کہ کتنی مدت تک نماز میں قصر کی جائے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، یحییٰ بن ابی اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے انس (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ مکہ میں کتنے دن رہے، انہوں نے کہا دس دن ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور ابن عباس (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ اپنے سفر میں انیس دن ٹھہرے اور دو رکعتیں ادا کرتے رہے۔ ابن عباس کہتے ہیں، چناچہ جب ہم انیس دن یا اس سے کم ٹھہرتے تو دو رکعتیں پڑھتے۔ اور اگر اس سے زیادہ ٹھہرتے تو پوری پڑھتے، ٤- علی (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : جو دس دن ٹھہرے وہ پوری نماز پڑھے، ٥- ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : جو پندرہ دن قیام کرے وہ پوری نماز پڑھے۔ اور ان سے بارہ دن کا قول بھی مروی ہے، ٦- سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : جب چار دن قیام کرے تو چار رکعت پڑھے۔ ان سے اسے قتادہ اور عطا خراسانی نے روایت کیا ہے، اور داود بن ابی ہند نے ان سے اس کے خلاف روایت کیا ہے، ٧- اس کے بعد اس مسئلہ میں اہل علم میں اختلاف ہوگیا۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ پندرہ دن کی تحدید کی طرف گئے اور ان لوگوں نے کہا کہ جب وہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرلے تو پوری نماز پڑھے، ٨- اوزاعی کہتے ہیں : جب وہ بارہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو نماز پوری پڑھے، ٩- مالک بن انس، شافعی، اور احمد کہتے ہیں : جب چار دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو نماز پوری پڑھے، ١٠- اور اسحاق بن راہویہ کی رائے ہے کہ سب سے قوی مذہب ابن عباس کی حدیث ہے، اس لیے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، پھر یہ کہ نبی اکرم ﷺ کے بعد وہ اس پر عمل پیرا رہے جب وہ انیس دن ٹھہرتے تو نماز پوری پڑھتے۔ پھر اہل علم کا اجماع اس بات پر ہوگیا کہ مسافر جب تک قیام کی نیت نہ کرے وہ قصر کرتا رہے، اگرچہ اس پر کئی سال گزر جائیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١ (١٠٨١) ، والمغازي ٥٢ (٤٢٩٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٩٣) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٧٩ (١٢٣٣) ، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ١ (١٤٣٩) ، و ٤ (١٤٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٦ (١٠٧٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٥٢) ، مسند احمد (٣/١٨١، ١٩٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٠، ١٥٥٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حجۃ الوداع کے موقع کی بات ہے ، آپ اس موقع سے ٤ ذی الحجہ کی صبح مکہ میں داخل ہوئے ، ٨ کو منی کو نکل گئے ، پھر ١٤ کو طواف وداع کے بعد مدینہ روانہ ہوئے یہ کل دس دن ہوئے ، مگر ان دس دنوں میں مستقل طور پر آپ صرف ٤ دن مکہ میں رہے ، باقی دنوں میں ادھر ادھر منتقل ہی ہوتے رہے ، اس لیے امام شافعی وغیرہ نے یہ استدلال کیا ہے جب ٤ دنوں کی اقامت کی نیت کرلے تب پوری نماز پڑھے۔ ٢ ؎ : حجۃ الوداع ، فتح مکہ ، یا جنگ پر موک میں یہی ہوا تھا ، اس لیے آپ نے ١٧ ، ١٨ دنوں یا دس دنوں تک قصر کیا ، اس لیے امام شافعی وغیرہ کا خیال ہی راجح ہے کہ ٤ دنوں سے زیادہ اقامت کی اگر نیت بن جائے تو قصر نہ کرے ، مہاجرین کو عمرہ میں تین دنوں سے زیادہ نہ ٹھہرنے کے حکم میں بھی یہی حکمت پوشیدہ تھی کہ وہ چوتھے دن مقیم ہوجاتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1077) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 548

【6】

کہ کتنی مدت تک نماز میں قصر کی جائے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر کیا، تو آپ نے انیس دن تک دو دو رکعتیں پڑھیں ١ ؎، ابن عباس کہتے ہیں : تو ہم لوگ بھی انیس یا اس سے کم دنوں (کے سفر) میں دو دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ اور جب ہم اس سے زیادہ قیام کرتے تو چار رکعت پڑھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١ (١٠٨٠) ، والمغازی ٥٢ (٤٢٩٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٧٩ (١٢٣٠) ، (بلفظ ” سبعة عشر “ وشاذ) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٦ (١٠٧٥) ، ( تحفة الأشراف : ٦١٣٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ فتح مکہ کا واقعہ ہے ، اس موقع پر نبی اکرم ﷺ نے مکہ میں کتنے دن قیام کیا اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں ، بخاری کی روایت میں انیس دن کا ذکر ہے اور ابوداؤد کی ایک روایت میں اٹھارہ اور دوسری میں سترہ دن کا ذکر ہے ، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جس نے دخول اور خروج کے دنوں کو شمار نہیں کیا اس نے سترہ کی روایت کی ہے ، جس نے دخول کا شمار کیا خروج کا نہیں یا خروج کا شمار کیا اور دخول کا نہیں اس نے اٹھارہ کی روایت کی ہے ، رہی پندرہ دن والی روایت تو یہ شاذ ہے اور اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ راوی نے سمجھا کہ اصل ١٧ دن پھر اس میں سے دخول اور خروج کو خارج کر کے ١٥ دن کی روایت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1075) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 549

【7】

کہ کتنی مدت تک نماز میں قصر کی جائے

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اٹھارہ مہینے رہا۔ لیکن میں نے سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے کی دونوں رکعتیں کبھی بھی آپ کو چھوڑتے نہیں دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- براء (رض) کی حدیث غریب ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس کے بارے میں پوچھا تو وہ اسے صرف لیث بن سعد ہی کی روایت سے جان سکے اور وہ ابوبسرہ غفاری کا نام نہیں جان سکے اور انہوں نے اسے حسن جانا ١ ؎، ٣- اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے، ٤- ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ سفر میں نہ نماز سے پہلے نفل پڑھتے تھے اور نہ اس کے بعد ٢ ؎، ٥- اور ابن عمر (رض) ہی سے مروی ہے وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ سفر میں نفل پڑھتے تھے ٣ ؎، ٦- پھر نبی اکرم ﷺ کے بعد اہل علم میں اختلاف ہوگیا، بعض صحابہ کرام کی رائے ہوئی کہ آدمی نفل پڑھے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ٧- اہل علم کے ایک گروہ کی رائے نہ نماز سے پہلے کوئی نفل پڑھنے کی ہے اور نہ نماز کے بعد۔ سفر میں جو لوگ نفل نہیں پڑھتے ہیں ان کا مقصود رخصت کو قبول کرنا ہے اور جو نفل پڑھے تو اس کی بڑی فضیلت ہے۔ یہی اکثر اہل علم کا قول ہے وہ سفر میں نفل پڑھنے کو پسند کرتے ہیں ٤ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٧٦ (١٢٢٢) (تحفة الأشراف : ١٩٢٤) (ضعیف) (اس کے راوی ” ابوبُسرہ الغفاری “ لین الحدیث ہیں) وضاحت : ١ ؎ : دیگر سارے لوگوں نے ان کو مجہول قرار دیا ہے ، اور مجہول کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ ٢ ؎ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔ ٣ ؎ : اس بابت سب سے صحیح اور واضح حدیث ابن عمر کی ہے ، جو رقم ٥٤٤ پر گزری ، ابن عمر (رض) کی دلیل نقلی بھی ہے اور عقلی بھی کہ ایک تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر و عمر (رض) سنت راتبہ نہیں پڑھتے تھے ، دوسرے اگر سنت راتبہ پڑھنی ہوتی تو اصل فرض میں کمی کرنے کا جو مقصد ہے وہ فوت ہوجاتا ، اگر سنت راتبہ پڑھنی ہو تو فرائض میں کمی کا کیا معنی ؟ رہی آپ ﷺ کے بعض اسفار میں چاشت وغیرہ پڑھنے کی بات ، تو بوقت فرصت عام نوافل کے سب قائل ہیں۔ ٤ ؎ : عام نوافل پڑھنے کے تو سب قائل ہیں مگر سنن راتبہ والی احادیث سنداً کمزور ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (222) // عندنا برقم (263 / 1222) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 550

【8】

کہ کتنی مدت تک نماز میں قصر کی جائے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سفر میں ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو رکعں یی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- ابن ابی لیلیٰ نے یہ حدیث عطیہ اور نافع سے روایت کی ہے اور ان دونوں نے ابن عمر (رض) سے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٣٣٦) (ضعیف الإسناد، منکر المتن، لمخالفة حدیث رقم : ٥٤٤) (اس کے راوی ” عطیہ عوفی “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد - منکر المتن لمخالفته لحديثه المتقدم (542) وغيره // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 551

【9】

کہ کتنی مدت تک نماز میں قصر کی جائے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضر اور سفر دونوں میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، میں نے آپ کے ساتھ حضر میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں، اور اس کے بعد دو رکعتیں، اور سفر میں آپ کے ساتھ ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں، اور اس کے بعد کوئی چیز نہیں پڑھی۔ اور مغرب کی سفر و حضر دونوں ہی میں تین رکعتیں پڑھیں۔ نہ حضر میں کوئی کمی کی نہ سفر میں، یہ دن کی وتر ہے اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابن ابی لیلیٰ نے کوئی ایسی حدیث روایت نہیں کی جو میرے نزدیک اس سے زیادہ تعجب خیز ہو، میں ان کی کوئی روایت نہیں لیتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٣٣٧ و ٨٤٢٨) (ضعیف الإسناد، منکر المتن) (اس کے راوی ” محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ “ ضعیف ہیں، اور یہ حدیث صحیح احادیث کے خلاف ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد، منکر المتن انظر ما قبله (551) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 552

【10】

دو نمازوں کو جمع کرنا

معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ غزوہ تبوک میں جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عصر کے ساتھ ملا دیتے اور دونوں کو ایک ساتھ پڑھتے، اور جب سورج ڈھلنے کے بعد کوچ کرتے تو عصر کو پہلے کر کے ظہر سے ملا دیتے اور ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھتے پھر روانہ ہوتے۔ اور جب مغرب سے پہلے کوچ فرماتے تو مغرب کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے، اور جب مغرب کے بعد کوچ فرماتے تو عشاء کو پہلے کر کے مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اور صحیح یہ ہے کہ اسامہ سے مروی ہے، ٢- نیز یہ حدیث علی بن مدینی نے احمد بن حنبل سے اور احمد بن حنبل نے قتیبہ سے روایت کی ہے ١ ؎، ٣- اس باب میں علی، ابن عمر، انس، عبداللہ بن عمرو، عائشہ، ابن عباس، اسامہ بن زید اور جابر بن عبداللہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٦ (٧٠٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٧٤ (١٢٠٦، ١٢٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٤ (١٠٧٠) ، ( تحفة الأشراف : ١١٣٢٠) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ١ (٢) ، مسند احمد (٥/٢٢٩، ٢٣٠، ٢٣٣، ٢٣٦، ٢٣٧، ٢٤١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٢ (١٥٥٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جو آگے آرہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1106) ، الإرواء (578) ، التعليقات الجياد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 553 اس سند سے بھی قتیبہ سے یہ حدیث یعنی معاذ (رض) کی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- معاذ (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- قتیبہ اسے روایت کرنے میں منفرد ہیں ہم ان کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے لیث سے روایت کیا ہو، ٣- لیث کی حدیث جسے انہوں نے یزید بن ابی حبیب سے، اور یزید نے ابوالطفیل سے اور ابوالطفیل نے معاذ سے روایت کی ہے غریب ہے، ٤- اہل علم کے نزدیک معروف معاذ کی (وہ) حدیث ہے جسے ابو الزبیر نے ابوالطفیل سے اور ابوالطفیل نے معاذ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے غزوہ تبوک میں ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کیا ١ ؎، ٥- اسے قرہ بن خالد، سفیان ثوری، مالک اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ابوالزبیر مکی سے روایت کیا ہے، ٦- اور اسی حدیث کے مطابق شافعی کا بھی قول ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ سفر میں دو صلاۃ کو کسی ایک کے وقت میں ملا کر ایک ساتھ پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مؤلف اور ابوداؤد کی ایک روایت ( ١٢٢٠) کے سوا سب نے اسی طریق سے اور اسی مختصر متن کے ساتھ روایت کی ہے۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 554

【11】

None

قتیبہ سے یہ حدیث یعنی معاذ رضی الله عنہ کی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- معاذ رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- قتیبہ اسے روایت کرنے میں منفرد ہیں ہم ان کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے لیث سے روایت کیا ہو، ۳- لیث کی حدیث جسے انہوں نے یزید بن ابی حبیب سے، اور یزید نے ابوالطفیل سے اور ابوالطفیل نے معاذ سے روایت کی ہے غریب ہے، ۴- اہل علم کے نزدیک معروف معاذ کی ( وہ ) حدیث ہے جسے ابو الزبیر نے ابوالطفیل سے اور ابوالطفیل نے معاذ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک میں ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کیا ۱؎، ۵- اسے قرہ بن خالد، سفیان ثوری، مالک اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ابوالزبیر مکی سے روایت کیا ہے، ۶- اور اسی حدیث کے مطابق شافعی کا بھی قول ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ سفر میں دو صلاۃ کو کسی ایک کے وقت میں ملا کر ایک ساتھ پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔

【12】

None

انہیں ان کی ایک بیوی ۱؎ کے حالت نزع میں ہونے کی خبر دی گئی تو انہیں چلنے کی جلدی ہوئی چنانچہ انہوں نے مغرب کو مؤخر کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہو گئی، وہ سواری سے اتر کر مغرب اور عشاء دونوں کو ایک ساتھ جمع کیا، پھر لوگوں کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چلنے کی جلدی ہوتی تو آپ ایسا ہی کرتے تھے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ لیث کی حدیث ( رقم ۵۵۴ ) جسے انہوں نے یزید بن ابی حبیب سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے۔

【13】

نماز استسقائ

عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بارش طلب کرنے کے لیے لوگوں کو ساتھ لے کر باہر نکلے، آپ نے انہیں دو رکعت نماز پڑھائی، جس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی، اپنی چادر پلٹی، اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور قبلہ رخ ہو کر بارش کے لیے دعا کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن زید (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس، ابوہریرہ، انس اور آبی اللحم (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور اسی کے شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستسقاء ١ (١٠٠٥) ، و ٤ (١٠١٢) ، والدعوات ٢٥ (٦٣٤٣) ، صحیح مسلم/الاستسقاء ١ (٨٩٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٥٨ (١١٦١-١١٦٤) ، و ٢٥٩ (١١٦٦، ١١٦٧) ، سنن النسائی/الاستسقاء ٢ (١٥٠٦) ، و ٣ (١٥٠٨) ، و ٥ (١٥١٠) ، و ٦ (١٥١١) ، و ٧ (٥١٢) ، و ٨ (١٥١٣) ، و ١٢ (١٥٢١) ، و ١٤ (١٥٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٣ (١٢٦٧) ، ( تحفة الأشراف : ٥٢٩٧) ، موطا امام مالک/الاستسقاء (١٧) ، مسند احمد (٤/٣٩، ٤٠، ٤١، ٤٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٨ (١٥٤١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1267) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 556

【14】

نماز استسقائ

آبی اللحم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو احجارزیت ١ ؎ کے پاس اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرتے ہوئے دیکھا۔ آپ اپنی دونوں ہتھیلیاں اٹھائے دعا فرما رہے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- قتیبہ نے اس حدیث کی سند میں اسی طرح «عن آبی اللحم» کہا ہے اور ہم اس حدیث کے علاوہ ان کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہو ٢- عمیر، آبی اللحم (رض) کے مولیٰ ہیں، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے کئی احادیث روایت کی ہیں۔ اور انہیں خود بھی شرف صحابیت حاصل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الاستسقاء ٩ (١٥١٥) ، (وہو عند أبي داود في الصلاة ٢٦٠ (١١٦٨) ، واحمد (٥/٢٢٣) من حدیث عمیر نفسہ/التحفة : ١٠٩٠٠) (تحفة الأشراف : ٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مدینے میں ایک جگہ کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1063) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 557

【15】

نماز استسقائ

اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ مجھے ولید بن عقبہ نے ابن عباس (رض) کے پاس بھیجا (ولید مدینے کے امیر تھے) تاکہ میں ان سے رسول اللہ ﷺ کے استسقاء کے بارے میں پوچھوں، تو میں ان کے پاس آیا (اور میں نے ان سے پوچھا) تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ پھٹے پرانے لباس میں عاجزی کرتے ہوئے نکلے، یہاں تک کہ عید گاہ آئے، اور آپ نے تمہارے اس خطبہ کی طرح خطبہ نہیں دیا بلکہ آپ برابر دعا کرنے، گڑگڑانے اور اللہ کی بڑائی بیان کرنے میں لگے رہے، اور آپ نے دو رکعتیں پڑھیں جیسا کہ آپ عید میں پڑھتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٥٨ (١١٦٥) ، سنن النسائی/الاستسقاء ٣ (١٥٠٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٣ (١١٦٦) ، ( تحفة الأشراف : ٥٣٥٩) ، مسند احمد (١/٢٣٠، ٢٦٩، ٣٥٥) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : اسی سے امام شافعی وغیرہ نے دلیل پکڑی ہے کہ استسقاء میں بھی بارہ تکبیرات زوائد سے دو رکعتں پڑھی جائیں گی ، جبکہ جمہور نماز جمعہ کی طرح پڑھنے کے قائل ہیں اور اس حدیث میں «كما يصلي في العيد» سے مراد یہ بیان کیا ہے کہ جیسے : آبادی سے باہر جہری قراءت سے خطبہ سے پہلے دو رکعت عید کی نماز پڑھی جاتی ہے ، اور دیگر احادیث وآثار سے یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے ، صاحب تحفہ نے اسی کی تائید کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1266) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 558

【16】

نماز استسقائ

اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ سے روایت ہے، آگے انہوں نے اسی طرح ذکر کیا البتہ اس میں انہوں نے لفظ «منخشعاً» کا اضافہ کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور یہی شافعی کا قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ نماز استسقاء عیدین کی نماز کی طرح پڑھی جائے گی۔ پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ، اور انہوں نے ابن عباس کی حدیث سے استدلال کیا ہے، ٣- مالک بن انس سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ استسقاء میں عیدین کی نماز کی تکبیروں کی طرح تکبیریں نہیں کہے گا، ٤- ابوحنیفہ نعمان کہتے ہیں کہ استسقاء کی کوئی نماز نہیں پڑھی جائے گی اور نہ میں انہیں چادر پلٹنے ہی کا حکم دیتا ہوں، بلکہ سارے لوگ ایک ساتھ دعا کریں گے اور لوٹ آئیں گے، ٥- ان کا یہ قول سنت کے مخالف ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 559

【17】

سورج گرہن کی نماز

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سورج گرہن کی نماز پڑھی تو آپ نے قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی پھر رکوع کیا، تین بار قرأت کی اور تین بار رکوع کیا، پھر دو سجدے کئے، اور دوسری رکعت بھی اسی طرح تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، عائشہ، عبداللہ بن عمرو، نعمان بن بشیر، مغیرہ بن شعبہ، ابومسعود، ابوبکرہ، سمرہ، ابوموسیٰ اشعری، ابن مسعود، اسماء بنت ابی بکر صدیق، ابن عمر، قبیصہ ہلالی، جابر بن عبداللہ، عبدالرحمٰن بن سمرہ، اور ابی بن کعب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- ابن عباس (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے یوں بھی روایت کی ہے کہ آپ نے سورج گرہن کی نماز میں چار سجدوں میں چار رکوع کیے، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ٤- سورج گرہن کی نماز میں اہل علم کا اختلاف ہے : بعض اہل علم کی رائے ہے کہ دن میں قرأت سری کرے گا۔ بعض کی رائے ہے کہ عیدین اور جمعہ کی طرح اس میں بھی جہری قرأت کرے گا۔ یہی مالک، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں جہری قرأت کرے۔ اور شافعی کہتے ہیں کہ جہر نہیں کرے گا۔ اور نبی اکرم ﷺ سے دونوں ہی قسم کی احادیث آئی ثابت ہیں۔ آپ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے چار سجدوں میں چار رکوع کیے۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے چار سجدوں میں چھ رکوع کیے۔ اور یہ اہل علم کے نزدیک گرہن کی مقدار کے مطابق ہے اگر گرہن لمبا ہوجائے تو چار سجدوں میں چھ رکوع کرے، یہ بھی جائز ہے، اور اگر چار سجدوں میں چار ہی رکوع کرے اور قرأت لمبی کر دے تو بھی جائز ہے، ہمارے اصحاب الحدیث کا خیال ہے کہ گرہن کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے خواہ گرہن سورج کا ہو یا چاند کا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الکسوف ٤ (٩٠٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٦٢ (١١٨٣) ، سنن النسائی/الکسوف ٨ (١٤٦٨، ١٤٦٩) ، ( تحفة الأشراف : ٥٦٩٧) ، مسند احمد (١/٢١٦، ٢٩٨، ٣٤٦، ٣٥٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٧ (١٥٣٤) (شاذ) (تین طرق سے ابن عباس کی روایت میں ایک رکعت میں دو رکوع اور دو سجدے کا تذکرہ ہے، اس لیے علماء کے قول کے مطابق اس روایت میں حبیب بن ابی ثابت نے ثقات کی مخالفت کی ہے، اور یہ مدلس ہیں، ان کی یہ روایت عنعنہ سے ہے اس لیے تین رکعت کا ذکر شاذ ہے/ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود رقم : ٢١٥ وصحیح سنن ابی داود ١٠٧٢) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1072) ، جزء صلاة الکسوف صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 560

【18】

سورج گرہن کی نماز

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو آپ ﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، اور لمبی قرأت فرمائی، پھر آپ نے رکوع کیا تو رکوع بھی لمبا کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور لمبی قرأت فرمائی، یہ پہلی قرأت سے کم تھی، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا اور یہ پہلے رکوع سے ہلکا تھا، پھر اپنا سر اٹھایا اور سجدہ کیا پھر اسی طرح دوسری رکعت میں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی حدیث کی بناء پر کہتے ہیں کہ گرہن کی نماز میں چار سجدوں میں چار رکوع ہے۔ شافعی کہتے ہیں : پہلی رکعت میں سورة فاتحہ پڑھے اور سورة البقرہ کے بقدر، اگر دن ہو تو سری قرأت کرے، پھر قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر سر اٹھائے۔ اور کھڑا رہے جیسے پہلے کھڑا تھا اور سورة فاتحہ پڑھے اور آل عمران کے بقدر قرأت کرے پھر اپنی قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے، پھر سر اٹھائے۔ پھر «سمع اللہ لمن حمده‏» کہے۔ پھر اچھی طرح دو سجدے کرے۔ اور ہر سجدے میں اسی قدر ٹھہرے جتنا رکوع میں ٹھہرا تھا۔ پھر کھڑا ہو اور سورة فاتحہ پڑھے اور سورة نساء کے بقدر قرأت کرے پھر اپنی قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے پھر اللہ اکبر کہہ کر اپنا سر اٹھائے اور سیدھا کھڑا ہو، پھر سورة المائدہ کے برابر قرأت کرے۔ پھر اپنی قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے، پھر سر اٹھائے اور «سمع اللہ لمن حمده‏» کہے، پھر دو سجدے کرے پھر تشہد پڑھے اور سلام پھیر دے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ٤ (١٠٤٦) ، و ٥ (١٠٤٧) ، و ١٣ (١٠٥٨) ، والعمل فی الصلاة ١١ (١٢١٢) ، وبدء الخلق ٤ (٣٢٠٣) ، صحیح مسلم/الکسوف ١ (٩٠١) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٦٢ (١١٨٠) ، سنن النسائی/الکسوف ١١ (١٤٧٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٢ (١٢٦٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٦٣٩) ، مسند احمد (٦/٧٦، ٧٨، ١٦٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٧ (١٥٣٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1071) ، جزء صلاة الکسوف صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 561

【19】

نماز کسوف میں قرأت کیسے کی جائے

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں گرہن کی نماز پڑھائی تو ہم آپ کی آواز نہیں سن پا رہے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سمرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ اور یہی شافعی کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٦٢ (١١٨٤) ، (فی سیاق طویل) ، سنن النسائی/الکسوف ١٥ (١٤٨٥) ، و ١٩ (١٤٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٢ (١٢٦٤) ، ( تحفة الأشراف : ٤٥٧٣) (ضعیف) (سند میں ” ثعلبہ “ لین الحدیث ہیں) وضاحت : ١ ؎ : ایک تو یہ حدیث ضعیف ہے ، دوسرے آواز نہیں سننا اس لیے بھی ہوسکتا ہے کہ سمرہ (رض) آپ ﷺ سے دور کھڑے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1264) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (260) ، المشکاة (1490) ، ضعيف أبي داود (253 / 1184) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 562

【20】

نماز کسوف میں قرأت کیسے کی جائے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے گرہن کی نماز پڑھی اور اس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابواسحاق فزاری نے بھی اسے سفیان بن حسین سے اسی طرح روایت کیا ہے، ٣- اور اسی حدیث کے مطابق مالک بن انس، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، ( تحفة الأشراف : ١٦٤٢٨) ، وأخرجہ البخاري (في الکسوف ١٩، تعلیقا) ، و سنن ابی داود/ الصلاة ٢٦٣ (١١٨٨) نحوہ من طریق الأوزاعي عن الزھري (صحیح) (متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی سفیان بن حسین امام زہری سے روایت میں ضعیف ہیں۔ دیکھیے صحیح أبی داود : ١٠٧٤) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1074) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 563

【21】

خوف کے وقت نماز پڑھنا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دو گروہوں میں سے ایک گروہ کو صلاۃ خوف ایک رکعت پڑھائی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا رہا، پھر یہ لوگ پلٹے، اور ان لوگوں کی جگہ پر جو دشمن کے مقابل میں تھے جا کر کھڑے ہوگئے اور جو لوگ دشمن کے مقابل میں تھے وہ آئے تو آپ ﷺ نے انہیں دوسری رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی ایک رکعت پوری کی۔ اور (جو ایک رکعت پڑھ کر دشمن کے سامنے چلے گئے تھے) وہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی اپنی ایک رکعت پوری کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث صحیح ہے، ٢- اور موسیٰ بن عقبہ نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے، ٣- اس باب میں جابر، حذیفہ، زید بن ثابت، ابن عباس، ابوہریرہ، ابن مسعود، سہل بن ابی حثمہ، ابوعیاش زرقی (ان کا نام زید بن صامت ہے) اور ابوبکرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- مالک بن انس صلاۃ خوف کے بارے میں سہل بن ابی حثمہ کی حدیث کی طرف گئے ہیں ١ ؎ اور یہی شافعی کا بھی قول ہے، ٥- احمد کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے صلاۃ خوف کئی طریقوں سے مروی ہے، اور میں اس باب میں صرف ایک ہی صحیح حدیث جانتا ہوں، مجھے سہل بن ابی حثمہ کی حدیث پسند ہے، ٦- اسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بھی کہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صلاۃ خوف کے بارے میں نبی اکرم ﷺ سے روایات ثابت ہیں، ان کا خیال ہے کہ صلاۃ خوف کے بارے میں جو کچھ بھی نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے، وہ سب جائز ہے، اور یہ ساری صورتیں خوف کی مقدار پر مبنی ہیں۔ اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ ہم سہل بن ابی حثمہ کی حدیث کو دوسری حدیثوں پر فوقیت نہیں دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخوف ١ (٩٤٢) ، والمغازي ٣١ (٤١٣٣) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٧ (٨٣٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٨٥ (١٢٤٣) ، سنن النسائی/الخوف (١٥٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥١ (١٢٥٨) ، ( تحفة الأشراف : ٦٩٣١) ، مسند احمد (٢/١٤٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جو آگے آرہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1132) ، الإرواء (3 / 50) ، التعليقات الجياد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 564

【22】

خوف کے وقت نماز پڑھنا

سہل بن ابی حثمہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے صلاۃ خوف کے بارے میں کہا کہ امام قبلہ رخ کھڑا ہوگا، اور لوگوں کی ایک جماعت اس کے ساتھ کھڑی ہوگی اور ایک جماعت دشمن کے سامنے رہے گی اور اس کا رخ دشمن کی طرف ہوگا، امام انہیں ایک رکعت پڑھائے گا، اور دوسری ایک رکعت وہ خود اپنی جگہ پر پڑھیں گے اور خود ہی سجدے کریں گے، پھر یہ ان لوگوں کی جگہ پر چلے جائیں گے اور وہ ان کی جگہ آ جائیں گے، اب امام ایک رکعت انہیں پڑھائے گا اور ان کے ساتھ دو سجدے کرے گا، اس طرح امام کی دو رکعتیں ہوجائیں گی اور ان کی ایک ہی رکعت ہوگی، پھر یہ ایک رکعت اور پڑھیں گے اور دو سجدے کریں گے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازی ٣٢ (٤١٣١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٧ (٨٤١) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٨٢ (١٢٣٧) ، سنن النسائی/ صلاة الخوف ١ (٢) ، ( تحفة الأشراف : ٤٦٤٥) ، مسند احمد (٣/٤٤٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٥ (١٥٦٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1259) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 565 سہل بن ابی حثمہ نبی اکرم ﷺ سے یحییٰ بن سعید انصاری کی روایت کی طرح روایت کرتے ہیں، اور مجھ سے یحییٰ (القطان) نے کہا : اس حدیث کو اس کے بازو میں لکھ دو مجھے یہ حدیث یاد نہیں، لیکن یہ یحییٰ بن سعید انصاری کی حدیث کی طرح تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسے یحییٰ بن سعید انصاری نے قاسم بن محمد کے واسطے سے مرفوع نہیں کیا ہے، قاسم بن محمد کے واسطے سے یحییٰ بن سعید انصاری کے تلامذہ نے اسے اسی طرح موقوفاً روایت کیا ہے، البتہ شعبہ نے اسے عبدالرحمٰن بن قاسم بن محمد کے واسطے سے مرفوع کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 566 صالح بن خوات ایک ایسے شخص سے روایت کرتے ہیں جس نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ صلاۃ خوف ادا کی، پھر انہوں نے اسی طرح ذکر کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ ٣- نیز کئی لوگوں سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دونوں جماعتوں کو ایک ایک رکعت پڑھائی، تو آپ ﷺ کی دو رکعتیں ہوئیں اور لوگوں کی (امام کے ساتھ) ایک ایک رکعت۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 567

【23】

None

اور مجھ سے یحییٰ ( القطان ) نے کہا: اس حدیث کو اس کے بازو میں لکھ دو مجھے یہ حدیث یاد نہیں، لیکن یہ یحییٰ بن سعید انصاری کی حدیث کی طرح تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے یحییٰ بن سعید انصاری نے قاسم بن محمد کے واسطے سے مرفوع نہیں کیا ہے، قاسم بن محمد کے واسطے سے یحییٰ بن سعید انصاری کے تلامذہ نے اِسے اسی طرح موقوفاً روایت کیا ہے، البتہ شعبہ نے اسے عبدالرحمٰن بن قاسم بن محمد کے واسطے سے مرفوع کیا ہے۔

【24】

None

جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صلاۃ خوف ادا کی، پھر انہوں نے اسی طرح ذکر کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ ۳- نیز کئی لوگوں سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں جماعتوں کو ایک ایک رکعت پڑھائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعتیں ہوئیں اور لوگوں کی ( امام کے ساتھ ) ایک ایک رکعت۔

【25】

قرآن کے سجدے

ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گیارہ سجدے کئے۔ ان میں سے ایک وہ تھا جو سورة نجم میں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧١ (١٠٥٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٩٩٣) ، مسند احمد (٥/١٩٤) (ضعیف) (سند میں عمر بن حیان دمشقی مجہول راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1055) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (216) ، ضعيف أبي داود (302 / 1401 / 1) نحوه // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 568

【26】

قرآن کے سجدے

اس سند سے بھی ابو الدرداء (رض) سے روایت ہے وہ نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح انہیں الفاظ کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ سفیان بن وکیع کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے انہوں نے عبداللہ بن وہب سے روایت کی ہے ١ ؎، ٢- اس باب میں علی، ابن عباس، ابوہریرہ، ابن مسعود، زید بن ثابت اور عمرو بن العاص (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- ابو الدرداء کی حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف سعید بن ابی ہلال کی روایت سے جانتے ہیں، اور سعید نے عمر دمشقی سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) (سند میں عمر مجہول اور عمر کے شیخ مبہم راوی ہے) وضاحت : ١ ؎ : یعنی عبداللہ بن عبدالرحمٰن کی حدیث سفیان بن وکیع کی حدیث کے مقابلے میں زیادہ راجح ہے کیونکہ اس کا ضعف سفیان کی حدیث کے ضعف سے ہلکا ہے سفیان بن وکیع متکلم فیہ ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1055) // ضعيف ابن ماجة (217) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 569

【27】

عورتوں کا مسجدوں میں جانا

مجاہد کہتے ہیں : ہم لوگ ابن عمر (رض) کے پاس تھے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : عورتوں کو رات میں مسجد جانے کی اجازت دو ، ان کے بیٹے بلال نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے۔ وہ اسے فساد کا ذریعہ بنالیں گی، تو ابن عمر (رض) نے کہا : اللہ تجھے ایسا ایسا کرے، میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اور تو کہتا ہے کہ ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب اور زید بن خالد (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦٦ (٨٦٥) ، (متابعةً ) صحیح مسلم/الصلاة ٣٠ (٤٤٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٥٣ (٥٦٨) ، سنن النسائی/المساجد ١٥ (٧٠٧) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٦) ، ( تحفة الأشراف : ٧٣٨٥) ، مسند احمد (٢/٧، ٩، ١٦، ٣٦، ٣٩، ٤٣، ٩٠، ١٢٧، ١٤٠، ١٤٣، ١٥١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : احمد کی روایت میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں تجھ سے بات نہیں کروں گا۔ اللہ اکبر ! صحابہ کرام (رض) اجمعین کے نزدیک یہ قدر تھی نبی اکرم ﷺ کے احکام اور آپ کی سنت کی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (577) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 570

【28】

مسجد میں تھوکنے کی کراہت

طارق بن عبداللہ محاربی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز میں ہو تو اپنے دائیں طرف نہ تھوکو، اپنے پیچھے یا اپنے بائیں طرف یا پھر بائیں پاؤں کے نیچے (تھوکو) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- طارق (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوسعید، ابن عمر، انس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٢ (٤٧٨) ، سنن النسائی/المساجد ٣٣ (٧٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦١ (١٠٢١) ، ( تحفة الأشراف : ٤٩٨٧) ، مسند احمد (٦/٣٩٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1021) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 571

【29】

مسجد میں تھوکنے کی کراہت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسجد میں تھوکنا گناہ ہے۔ اور اس کا کفارہ اسے دفن کردینا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٧ (٤١٥) ، صحیح مسلم/المساجد ١٣ (٥٥٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٢ (٤٧٤) ، سنن النسائی/المساجد ٣٠ (٧٢٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٢٨) ، مسند احمد (٣/١٧٣، ٢٣٢، ٢٧٤، ٢٧٧) سنن الدارمی/الصلاة ١١٦ (١٤٣٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مٹی وغیرہ ڈال کر چھپا دینا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (48) ، صحيح أبي داود (494) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 572

【30】

سورت انشقاق اور سورت العلق کے سجدے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ «‏اقرأ باسم ربک الذي خلق» اور «‏إذا السماء انشقت» میں سجدہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٠ (٥٧٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٣١ (١٤٠٧) ، سنن النسائی/الافتتاح ٥٢ (٩٦٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٢٠٦) ، مسند احمد (٢/٢٤٩، ٤٦١) ، وانظر أیضا : صحیح البخاری/الأذان ١٠٠ (٧٦٦) ، و ١٠١ (٧٦٨) ، وسجود القرآن ٧ (١٠٧٤) ، و ١٠ (١٠٧٨) ، سنن النسائی/الافتتاح ٥١ (٩٦٢-٩٦٥) ، و ٥٢ (٩٦٧) ، وسنن ابن ماجہ/الإقامة (٨٧١، ١٠٥، ١٥٩) ، وط/القرآن ٥ (١٢) ، و مسند احمد (٢٤٧، ٢٨١، ٤١٣، ٤٤٩-٤٥١، ٤٥٤، ٤٦٦، ٤٨٧، ٥٢٩) ، وسنن الدارمی/الصلاة ١٦٢ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1058) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 573

【31】

سورت انشقاق اور سورت العلق کے سجدے

اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی کے مثل مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کی سند میں چار تابعین ١ ؎ ہیں، جو ایک دوسرے سے روایت کر رہے ہیں، ٢- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ «‏إذا السماء انشقت» اور «‏اقرأ باسم ربک الذي خلق» میں سجدہ کرنے کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٤٨٦٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : وہ یہ ہیں : ابوبکر بن محمد بن حزم ، عمر بن عبدالعزیز ، ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ہشام۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1059) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 574

【32】

سورت انشقاق اور سورت العلق کے سجدے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس میں یعنی سورة النجم میں سجدہ کیا اور مسلمانوں، مشرکوں، جنوں اور انسانوں نے بھی سجدہ کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن مسعود اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کی رائے میں سورة النجم میں سجدہ ہے، ٤- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مفصل کی سورتوں میں سجدہ نہیں ہے۔ اور یہی مالک بن انس کا بھی قول ہے، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/سجود القرآن ٥ (١٠٧١) ، وتفسیر النجم ٤ (٤٨٦٢) ، ( تحفة الأشراف : ٥٩٩٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہاں تفسیر اور شروحات حدیث کی کتابوں میں نبی اکرم ﷺ کے مکی دور میں پیش آنے والا غرانیق سے متعلق ایک عجیب وغریب قصہ مذکور ہوا ہے ، جس کی تردید ائمہ کرام اور علماء عظام نے نہایت مدلل انداز میں کی ہے۔ ( تفصیل کے لیے دیکھئیے : تحفۃ الأحوذی ، فتح الباری ، مقدمۃ الحدیث ، جلد اول ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح نصب المجانيق لنسف قصة الغرانيق (18 و 25 و 31) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 575

【33】

سورت نجم میں سجدہ نہ کرے

زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے سورة النجم پڑھی مگر آپ نے سجدہ نہیں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- زید بن ثابت (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بعض اہل علم نے اس حدیث کی تاویل کی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سجدہ اس لیے نہیں کیا کہ زید بن ثابت (رض) نے جس وقت یہ سورة پڑھی تو خود انہوں نے بھی سجدہ نہیں کیا، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے بھی سجدہ نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں : یہ سجدہ ہر اس شخص پر واجب ہے جو اسے سنے، ان لوگوں نے اسے چھوڑنے کی اجازت نہیں دی ہے، وہ کہتے ہیں کہ آدمی اگر اسے سنے اور وہ بلا وضو ہو تو جب وضو کرلے سجدہ کرے۔ اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے، اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ اور بعض اہل علم کہتے ہیں : یہ سجدہ صرف اس پر ہے جو سجدہ کرنے کا ارادہ کرے، اور اس کی خیر و برکت کا طلب گار ہو، انہوں نے اسے ترک کرنے کی اجازت دی ہے، اگر وہ ترک کرنا چاہے، ٣- اور انہوں نے حدیث مرفوع یعنی زید بن ثابت (رض) کی حدیث سے جس میں ہے میں نے نبی اکرم ﷺ کے سامنے سورة النجم پڑھی، لیکن آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔ استدلال کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ سجدہ واجب ہوتا تو نبی اکرم ﷺ زید کو سجدہ کرائے بغیر نہ چھوڑتے اور خود نبی اکرم ﷺ بھی سجدہ کرتے۔ اور ان لوگوں نے عمر (رض) کی حدیث سے بھی استدلال ہے کہ انہوں نے منبر پر سجدہ کی آیت پڑھی اور پھر اتر کر سجدہ کیا، اسے دوسرے جمعہ میں پھر پڑھا، لوگ سجدے کے لیے تیار ہوئے تو انہوں نے کہا : یہ ہم پر فرض نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم چاہیں تو چناچہ نہ تو انہوں نے سجدہ کیا اور نہ لوگوں نے کیا، بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں اور یہی شافعی اور احمد کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/سجود القرآن ٦ (١٠٧٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٠ (٥٧٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٢٩ (١٤٠٤) ، سنن النسائی/الافتتاح ٥٠ (٩٦١) ، ( تحفة الأشراف : ٣٧٣٣) ، مسند احمد (٥/١٨٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٤ (١٥١٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1266) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 576

【34】

سورت ص میں کا سجدہ

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سورة ص میں سجدہ کرتے دیکھا۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : یہ واجب سجدوں میں سے نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اہل علم کا اس میں اختلاف ہے، صحابہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم کی رائے ہے کہ اس میں سجدہ کرے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ ایک نبی کی توبہ ہے، اس میں سجدہ ضروری نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/سجود القرآن ٣ (١٠٦٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٣٢ (١٤٠٩) ، سنن النسائی/الافتتاح ٤٨ (٩٥٨) ، ( تحفة الأشراف : ٥٩٨٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦١ (١٥٠٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ نبی داود (علیہ السلام) تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1270) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 577

【35】

سورت حج کا سجدہ

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! سورة الحج کو یہ شرف بخشا گیا ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں۔ آپ نے فرمایا : ہاں، جو یہ دونوں سجدے نہ کرے وہ اسے نہ پڑھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث کی سند کوئی خاص قوی نہیں ہے، ٢- اس سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، عمر بن خطاب اور ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ سورة الحج کو یہ شرف بخشا گیا ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں۔ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، ٣- اور بعض کی رائے ہے کہ اس میں ایک سجدہ ہے۔ یہ سفیان ثوری، مالک اور اہل کوفہ کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٢٨ (١٤٠٢) ، ( تحفة الأشراف : ٩٩٦٥) (حسن) (” مشرح بن ہاعان “ میں قدرے کلام ہے، مگر خالد بن حمد ان کی روایت سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے /دیکھئے ابی داود رقم : ١٢٦٥/م) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (250) // هو في ضعيف سنن أبي داود برقم (303 / 1402) ، المشکاة (1030) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 578

【36】

قرآن کے سجدوں میں کیا پڑھے ؟

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے آج رات اپنے کو دیکھا اور میں سو رہا تھا (یعنی خواب میں دیکھا) کہ میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں، میں نے سجدہ کیا تو میرے سجدے کے ساتھ اس درخت نے بھی سجدہ کیا، پھر میں نے اسے سنا، وہ کہہ رہا تھا : «اللهم اکتب لي بها عندک أجرا وضع عني بها وزرا واجعلها لي عندک ذخرا وتقبلها مني كما تقبلتها من عبدک داود» اے اللہ ! اس کے بدلے تو میرے لیے اجر لکھ دے، اور اس کے بدلے میرا بوجھ مجھ سے ہٹا دے، اور اسے میرے لیے اپنے پاس ذخیرہ بنا لے، اور اسے مجھ سے تو اسی طرح قبول فرما جیسے تو نے اپنے بندے داود سے قبول کیا تھا ۔ حسن بن محمد بن عبیداللہ بن ابی یزید کہتے ہیں : مجھ سے ابن جریج نے کہا کہ مجھ سے تمہارے دادا نے کہا کہ ابن عباس (رض) نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت سجدے کی تلاوت کی اور سجدہ کیا، ابن عباس کہتے ہیں : تو میں نے آپ کو ویسے ہی کہتے سنا جیسے اس شخص نے اس درخت کے الفاظ بیان کئے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث ابن عباس (رض) کی روایت سے حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٠ (١٠٥٣) ، ( تحفة الأشراف : ٥٨٦٧) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1053) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 579

【37】

قرآن کے سجدوں میں کیا پڑھے ؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت قرآن کے سجدوں کہتے : «سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته» میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا ہے جس نے اسے بنایا، اور اپنی طاقت و قوت سے اس کے کان اور اس کی آنکھیں پھاڑیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٣٤ (١٤١٤) ، سنن النسائی/التطبیق ٧٠ (١١٣٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٠٨٣) ، مسند احمد (٦/٣٠، ٢١٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1273) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 580

【38】

جس کا رات کو وظیفہ رہ جائے تو وہ اسے دن میں پڑھ لے

عبدالرحمٰن بن عبد قاری کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنا وظیفہ یا اس کا کچھ حصہ پڑھے بغیر سو جائے، پھر وہ اسے نماز فجر سے لے کر ظہر کے درمیان تک کسی وقت پڑھ لے تو یہ اس کے لیے ایسے ہی لکھا جائے گا، گویا اس نے اسے رات ہی میں پڑھا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٨ (٧٤٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٠٩ (١٣١٣) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٦٥ (١٧٩١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٧ (١٣٤٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٥٩٢) ، مسند احمد (١/٣٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٧ (١٥١٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1343) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 581

【39】

جو شخص رکوع اور سجدے میں امام سے پہلے سر اٹھائے اس کے متعلق وعید

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا جو شخص امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ اس کے سر کو گدھے کا سر بنا دے ؟ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٥٣ (٦٩١) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٥ (٤٢٧) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٨ (٨٢٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٤١ (٩٦١) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٣٦٢) ، (وکذا : ١٤٣٨) ، مسند احمد (٢/٢٦٠، ٢٧١، ٤٢٥، ٤٥٦، ٤٦٩، ٤٧٢، ٥٠٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٢ (١٣٥٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (961) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 582

【40】

فرض نماز پڑھنے کے بعد لوگوں کی امامت

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مغرب پڑھتے تھے، پھر اپنی قوم کے لوگوں میں لوٹ کر آتے اور ان کی امامت کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ہمارے اصحاب یعنی شافعی احمد اور اسحاق کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب آدمی فرض نماز میں اپنی قوم کی امامت کرے اور وہ اس سے پہلے یہ نماز پڑھ چکا ہو تو جن لوگوں نے اس کی اقتداء کی ہے ان کی نماز درست ہے۔ ان لوگوں نے معاذ (رض) کے قصے سے جو جابر (رض) کی حدیث میں ہے اس سے دلیل پکڑی ہے، ٣- ابوالدرداء (رض) سے مروی ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو مسجد میں داخل ہوا اور لوگ نماز عصر میں مشغول تھے اور وہ سمجھ رہا تھا کہ ظہر ہے تو اس نے ان کی اقتداء کرلی، تو ابو الدرداء نے کہا : اس کی نماز جائز ہے، ٤- اہل کوفہ کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ جب کچھ لوگ کسی امام کی اقتداء کریں اور وہ عصر پڑھ رہا ہو اور لوگ سمجھ رہے ہوں کہ وہ ظہر پڑھ رہا ہے اور وہ انہیں نماز پڑھا دے اور لوگ اس کی اقتداء میں نماز پڑھ لیں تو مقتدی کی نماز فاسد ہے کیونکہ کہ امام کی نیت اور مقتدی کی نیت مختلف ہوگئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٦ (٧١١) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٦ (٤٦٥) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٦٨ (٥٩٩، ٦٠٠) ، و ١٢٧ (٧٩٠) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٩ (٣٢) ، و ٤١ (٨٣٤) ، والافتتاح ٦٣ (٩٨٥) ، و ٧٠ (٩٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٤٨ (٩٨٦) ، ( تحفة الأشراف : ٢٥١٧) ، مسند احمد (٣/٢٩٩، ٣٠٨، ٣٦٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٥ (١٣٣٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : لیکن ان کی رائے صحیح نہیں ہے ، اقتداء صرف ظاہری اعمال میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (756) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 583

【41】

گرمی یا سردی کی وجہ سے کپڑے پر سجدہ کی اجازت کے متعلق

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم جب دوپہر میں نبی اکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑوں پر سجدہ کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر بن عبداللہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٣ (٣٨٥) ، والمواقیت ١١ (٥٤٢) ، والعمل فی الصلاة ٩ (١٢٠٨) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٣ (٣٢٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٩٣ (٦٦٠) ، سنن النسائی/التطبیق ٥٩ (١١١٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٤ (١٠٣٣) ، ( تحفة الأشراف : ٢٥٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٢ (١٣٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1033) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 584

【42】

فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک مسجد میں بیٹھنا مستحب ہے

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب فجر پڑھتے تو اپنے مصلے پر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ سورج نکل آتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٢ (٢٨٦) ، والفضائل ١٧ (٢٣٢٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٠١ (١٢٩٤) ، سنن النسائی/السہو ٩٩ (١٣٥٨) ، ( تحفة الأشراف : ٢١٦٨) ، مسند احمد (٥/٩١، ٩٧، ١٠٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1171) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 585

【43】

فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک مسجد میں بیٹھنا مستحب ہے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز فجر جماعت سے پڑھی پھر بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا رہا یہاں تک کہ سورج نکل گیا، پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں، تو اسے ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ملے گا ۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پورا، پورا، پورا، یعنی حج و عمرے کا پورا ثواب ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے (سند میں موجود راوی) ابوظلال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : وہ مقارب الحدیث ہیں، محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ ان کا نام ہلال ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٤٤) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : آج امت محمدیہ «علی صاحبها الصلاة والسلام» کے تمام ائمہ اور اس کے سب مقتدی اس اجر عظیم اور اول النہار کی برکتوں سے کس قدر محروم ہیں ، ذرا اس حدیث سے اندازہ لگائیے۔ «إلاما شاء اللہ اللهم اجعلنا منهم» قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (1 / 164 و 165) ، المشکاة (971) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 586

【44】

نماز میں ادھر ادھر توجہ کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں (گردن موڑے بغیر) ترچھی نظر سے دائیں اور بائیں دیکھتے تھے اور اپنی گردن اپنی پیٹھ کے پیچھے نہیں پھیرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- وکیع نے اپنی روایت میں فضل بن موسیٰ کی مخالفت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السہو ١٠ (١٢٠٢) ، ( تحفة الأشراف : ٦٠١٤) ، مسند احمد (١/٢٧٥، ٣٠٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ مخالفت آگے آرہی ہے ، اور مخالفت یہ ہے کہ وکیع نے اپنی سند میں «عن بعض أصحاب عکرمة» کہا ہے ، یعنی سند میں دو راوی ساقط ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (998) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 587

【45】

None

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ترچھی نظر سے دیکھتے تھے۔ آگے انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں انس اور ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

【46】

نماز میں ادھر ادھر توجہ کرنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے میرے بیٹے ! نماز میں ادھر ادھر (گردن موڑ کر) دیکھنے سے بچو، نماز میں گردن موڑ کر ادھر ادھر دیکھنا ہلاکت ہے، اگر دیکھنا ضروری ہی ٹھہرے تو نفل نماز میں دیکھو، نہ کہ فرض میں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٦٥) (ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف التعليقات الجياد، التعليق الرغيب (1 / 191) ، المشکاة (997) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 589

【47】

نماز میں ادھر ادھر توجہ کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز میں ادھر ادھر (گردن موڑ کر) دیکھنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا : یہ تو اچک لینا ہے، شیطان آدمی کی نماز اچک لیتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٣ (٧٥١) ، وبدء الخلق ١١ (٣٢٩١) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٦٥ (٩١٠) ، سنن النسائی/السہو ١٠ (١١٩٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٦٦١) ، مسند احمد (٦/٠٧، ١٠٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (370) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 590

【48】

اگر کوئی شخص امام کو سجدے میں پائے تو کیا کرے

علی اور معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے آئے اور امام جس حالت میں ہو تو وہ وہی کرے جو امام کر رہا ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مسند کیا ہو سوائے اس کے جو اس طریق سے مروی ہے، ٢- اسی پر اہل علم کا عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب آدمی آئے اور امام سجدے میں ہو تو وہ بھی سجدہ کرے، لیکن جب امام کے ساتھ اس کا رکوع چھوٹ گیا ہو تو اس کی رکعت کافی نہ ہوگی۔ عبداللہ بن مبارک نے بھی اسی کو پسند کیا ہے کہ امام کے ساتھ سجدہ کرے، اور بعض لوگوں سے نقل کیا کہ شاید وہ اس سجدے سے اپنا سر اٹھاتا نہیں کہ بخش دیا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٣٠٦، ١١٣٤٥) (صحیح) (سند میں حجاج بن ارطاة کثیر الخطأ راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (522) ، الصحيحة (1188) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 591

【49】

نماز کے وقت لوگوں کا کھڑے ہو کر امام کا اتنظار کرنا مکروہ ہے

ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو تم اس وقت تک نہ کھڑے ہو جب تک کہ مجھے نکل کر آتے نہ دیکھ لو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوقتادہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس (رض) سے بھی روایت ہے، لیکن ان کی حدیث غیر محفوظ ہے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے لوگوں کے کھڑے ہو کر امام کا انتظار کرنے کو مکروہ کہا ہے، ٤- بعض کہتے ہیں کہ جب امام مسجد میں ہو اور نماز کھڑی کردی جائے تو وہ لوگ اس وقت کھڑے ہوں جب مؤذن «قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة» کہے، ابن مبارک کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٢٢ (٦٣٧) ، و ٢٣ (٦٣٨) ، والجمعة ١٨ (٩٠٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٩ (٦٠٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٤٦ (٥٣٩) ، سنن النسائی/الأذان ٤٢ (٦٨٨) ، والإمامة ١٢ (٧٩١) ، ( تحفة الأشراف : ١٢١٠٦) ، مسند احمد (٥/٣٠٤، ٣٠٧، ٣٠٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٧ (١٢٩٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (550) ، الروض النضير (183) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 592

【50】

دعا سے پہلے اللہ کی حمد وثناء اور نبی ﷺ پر درود بھیجنا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا، اور نبی اکرم ﷺ موجود تھے، ابوبکر اور عمر (رض) (بھی) آپ کے ساتھ تھے، جب میں (قعدہ اخیرہ میں) بیٹھا تو پہلے میں نے اللہ کی تعریف کی پھر نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجا، پھر اپنے لیے دعا کی، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مانگو، تمہیں دیا جائے گا، مانگ تمہیں دیا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں فضالہ بن عبید (رض) سے روایت ہے، ٣- یہ حدیث احمد بن حنبل نے یحییٰ بن آدم سے مختصراً روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، ( تحفة الأشراف : ٩٢٠٩) ، وانظر : مسند احمد (١/٤٤٥، ٤٥٤) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صفة الصلاة، تخريج المختارة (255) ، المشکاة (931) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 593

【51】

مسجدوں میں خوشبو کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے محلوں میں مسجد بنانے، انہیں صاف رکھنے اور خوشبو سے بسانے کا حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٣ (٤٥٥) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ٩ (٧٥٨، ٧٥٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٩٦٢) ، مسند احمد (٦/١٢، ٢٧١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (759) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 594

【52】

مسجدوں میں خوشبو کرنا

اس سند سے بھی ہشام بن عروہ اپنے والد عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا، پھر آگے اسی طرح کی حدیث انہوں نے ذکر کی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : مرسل ہونا زیادہ صحیح ہے۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 595

【53】

مسجدوں میں خوشبو کرنا

اس سند سے بھی ہشام بن عروہ نے اپنے باپ عروہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا، آگے اسی طرح کی حدیث انہوں نے ذکر کی۔ سفیان کہتے ہیں : دور یا محلوں میں مسجدیں بنانے سے مراد قبائل میں مسجدیں بنانا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 596

【54】

نماز رات اور دن کی دو دو رکعت ہے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث میں شعبہ کے تلامذہ میں اختلاف ہے، بعض نے اسے مرفوعاً بیان کیا ہے اور بعض نے موقوفاً ، ٢- عبداللہ عمری بطریق : «نافع عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ صحیح وہی ہے جو ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رات کی نماز دو دو رکعت ہے ، ٣- ثقات نے عبداللہ بن عمر (رض) کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، اس میں ان لوگوں نے دن کی نماز کا ذکر نہیں کیا ہے ١ ؎، ٤- عبیداللہ سے مروی ہے، انہوں نے نافع سے، اور نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ رات کو دو دو رکعت پڑھتے تھے اور دن کو چار چار رکعت، ٥- اس مسئلہ میں اہل علم میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں رات اور دن دونوں کی نماز دو دو رکعت ہے، یہی شافعی اور احمد کا قول ہے، اور بعض کہتے ہیں : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، ان کی رائے میں دن کی نفل نماز چار رکعت ہے مثلاً ظہر وغیرہ سے پہلے کی چار نفل رکعتیں، سفیان ثوری، ابن مبارک، اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٠٢ (١٢٩٥) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٦ (١٦٧٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٢ (١٣٢٢) ، ( تحفة الأشراف : ٧٣٤٩) ، مسند احمد (٢/٢٦، ٥١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥٥ (١٥٠٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : علامہ البانی نے ابن عمر (رض) کی اس حدیث کی تصحیح بڑے بڑے ائمہ سے نقل کی ہے ( دیکھئیے صحیح ابی داود رقم ١١٧٢) آپ کے عمل سے دونوں طرح ثابت ہے ، کبھی دو دو کر کے پڑھتے اور کبھی چار ایک سلام سے ، لیکن اس قولی صحیح حدیث کی بنا پر دن کی بھی نماز دو دو رکعت کر کے پڑھنا افضل ہے ، ظاہر بات ہے کہ دو سلام میں اوراد و اذکار زیادہ ہیں ، تو افضل کیوں نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1322) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 597

【55】

نبی ﷺ دن میں کس طرح نوافل پڑھتے تھے

عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ہم نے علی (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے دن کی نماز کے بارے میں پوچھا ؟ تو انہوں نے کہا : تم اس کی طاقت نہیں رکھتے، اس پر ہم نے کہا : ہم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ جب سورج اس طرف (یعنی مشرق کی طرف) اس طرح ہوجاتا جیسے کہ عصر کے وقت اس طرف (یعنی مغرب کی طرف) ہوتا ہے تو دو رکعتیں پڑھتے، اور جب سورج اس طرف (مشرق میں) اس طرح ہوجاتا جیسے کہ اس طرف (مغرب میں) ظہر کے وقت ہوتا ہے تو چار رکعت پڑھتے، اور چار رکعت ظہر سے پہلے پڑھتے اور دو رکعت اس کے بعد اور عصر سے پہلے چار رکعت پڑھنے، ہر دو رکعت کے درمیان مقرب فرشتوں اور انبیاء و رسل پر اور مومنوں اور مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے ان پر سلام پھیر کر فصل کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإمامة ٦٥ (٨٧٤، ٨٧٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٠١٣٧) ، مسند احمد (١/٨٥، ١٤٢، ١٦٠) ، وانظر أیضا ما تقدم برقم ٤٢٤، و ٤٢٩) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1161) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 598

【56】

نبی ﷺ دن میں کس طرح نوافل پڑھتے تھے

اس سند سے بھی علی (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے دن کی نفل نماز کے سلسلے میں مروی چیزوں میں سب سے بہتر یہی روایت ہے، ٣- عبداللہ بن مبارک اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے تھے۔ اور ہمارے خیال میں انہوں نے اسے صرف اس لیے ضعیف قرار دیا ہے کہ اس جیسی حدیث نبی اکرم ﷺ سے صرف اسی سند سے۔ (یعنی : عاصم بن ضمرہ کے واسطے سے علی (رض) سے) مروی ہے، ٤- سفیان ثوری کہتے ہیں : ہم عاصم بن ضمرہ کی حدیث کو حارث (اعور) کی حدیث سے افضل جانتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 599

【57】

عورتوں کی چادر میں نماز پڑھنے کی کراہت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں کی چادروں میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- نبی اکرم ﷺ سے اس کی اجازت بھی مروی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ١٣٤ (٢٦٧) ، والصلاة ٨٨ (٦٤٥) ، سنن النسائی/الزینة ١١٥ (٥٣٦٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٢٢١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ایسے کپڑوں میں نماز نہ پڑھنا صرف احتیاط کی وجہ سے تھا ، عدم جواز کی وجہ سے نہیں ، یہی وجہ ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ کو جس کپڑے کے متعلق پختہ یقین ہوتا کہ وہ نجس نہیں ہے ، اس میں نماز پڑھتے تھے جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں مروی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (391) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 600

【58】

نفل نماز میں چلنا جائز ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں گھر آئی، رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور دروازہ بند تھا، تو آپ چل کر آئے اور میرے لیے دروازہ کھولا۔ پھر اپنی جگہ لوٹ گئے، اور انہوں نے بیان کیا کہ دروازہ قبلے کی طرف تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٦٩ (٩٢٢) ، سنن النسائی/السہو ١٤ (١٢٠٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٤١٧) ، مسند احمد (٦/١٨٣، ٢٣٤٠) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : سنت و نفل کے اندر اس طرح سے چلنا کہ قبلہ سے انحراف واقع نہ ہو جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، صحيح أبي داود (855) ، المشکاة (1005) ، الإرواء (386) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 601

【59】

ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھنا

ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں : ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے لفظ «غَيْرِ آسِنٍ» یا «يَاسِنٍ» کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : کیا تم نے اس کے علاوہ پورا قرآن پڑھ لیا ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں، انہوں نے کہا : ایک قوم اسے ایسے پڑھتی ہے جیسے کوئی خراب کھجور جھاڑ رہا ہو، یہ ان کے گلے سے آگے نہیں بڑھتا، میں ان متشابہ سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں رسول اللہ ﷺ ملا کر پڑھتے تھے۔ ابو وائل کہتے ہیں : ہم نے علقمہ سے پوچھنے کے لیے کہا تو انہوں نے ابن مسعود (رض) سے پوچھا : انہوں نے بتایا کہ یہ مفصل کی بیس سورتیں ہیں ١ ؎ نبی اکرم ﷺ ہر رکعت میں دو دو سورتیں ملا کر پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : يَاسِنٍ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٦ (٧٧٥) ، وفضائل القرآن ٦ (٤٩٩٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤٩ (٨٢٢) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧٥ (١٠٠٥، ١٠٠٦، ١٠٠٧) (تحفة الأشراف : ٩٢٤٨) ، مسند احمد (١/٣٨٠، ٤٢١، ٤٢٧، ٤٣٦، ٤٦٢، ٤٥٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1262) ، صفة الصلاة صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 602

【60】

مسجد کی طرف چلنے کی فضلیت اور قدموں کا ثواب

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب آدمی وضو کرے اور اچھی طرح کرے، پھر نماز کے لیے نکلے، اور اسے صرف نماز ہی نے نکالا، یا کہا اٹھایا ہو، تو جو بھی قدم وہ چلے گا، اللہ اس کے بدلے اس کا درجہ بڑھائے گا، یا اس کے بدلے اس کا ایک گناہ کم کرے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المساجد ١٤ (٧٧٤) (تحفة الأشراف : ١٢٤٠٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (774) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 603

【61】

مغرب کے بعد گھر میں (نوافل) نماز پڑھنا افضل ہے

کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بنی عبدالاشہل کی مسجد میں مغرب پڑھی، کچھ لوگ نفل پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ اس نماز کو گھروں میں پڑھنے کو لازم پکڑو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث کعب بن عجرہ کی روایت سے غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- اور صحیح وہ ہے جو ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ مغرب کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تھے، ٣- حذیفہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مغرب پڑھی تو آپ برابر مسجد میں نماز ہی پڑھتے رہے جب تک کہ آپ نے عشاء نہیں پڑھ لی۔ اس حدیث میں اس بات کی دلالت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مغرب کے بعد دو رکعت مسجد میں پڑھی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٠٤ (١٣٠٠) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١ (١٦٠١) ، ( تحفة الأشراف : ١١١٠٧) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1165) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 604

【62】

جب کوئی شخص مسلمان ہو تو غسل کرے

قیس بن عاصم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں پانی اور بیری سے غسل کرنے کا حکم دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے۔ ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ آدمی جب اسلام قبول کرے تو غسل کرے اور اپنے کپڑے دھوئے، ٣- اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٩ (٢٩٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٣١٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج المشکاة (543) ، صحيح أبي داود (381) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 605

【63】

بیت الخلاء جاتے وقت بسم اللہ پڑھے

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنوں کی آنکھوں اور انسان کی شرمگاہوں کے درمیان کا پردہ یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی پاخانہ جائے تو وہ بسم اللہ کہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ اور اس کی سند قوی نہیں ہے، ٢- اس سلسلہ کی بہت سی چیزیں انس (رض) کے واسطے سے بھی نبی اکرم ﷺ سے مروی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ١٣١ (٣٥٥) ، سنن النسائی/الطہارة ١٢٦ (١٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٩ (٢٩٧) ، ( تحفة الأشراف : ١١١٠٠) ، مسند احمد (٥/٦١) (صحیح) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے تین راوی : ابواسحاق، حکم بن عبداللہ، اور محمد بن حمید رازی میں کلام ہے، دیکھیے الإروائ : ٥٠) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (297) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 606

【64】

قیامت کے دن اس امت کی نشانی وضو اور سجدوں کی وجہ سے ہو گی

عبداللہ بن بسر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن میری امت کی پیشانی سجدے سے اور ہاتھ پاؤں وضو سے چمک رہے ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : عبداللہ بن بسر (رض) کی روایت سے یہ حدیث اس طریق سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٢٠٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الضعيفة تحت الحديث (1030) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 607

【65】

وضو دائیں طرف سے شروع کرنا مستحب ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب وضو کرتے تو اپنی وضو میں اور جب کنگھی کرتے تو کنگھی کرنے میں اور جب جوتا پہنتے تو جوتا پہنے میں داہنے (سے شروع کرنے) کو پسند فرماتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣١ (١٦٨) ، والصلاة ٤٧ (٤٢٦) ، والأطعمة ٥ (٥٣٨٠) ، واللباس ٣٨ (٥٨٥٤) ، و ٧٧ (٥٩٢٦) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٩ (٢٦٨) ، واللباس ٤٤ (٢٠٩٧) ، سنن ابی داود/ اللباس ٤٤ (٤١٤٠) ، سنن النسائی/الطہارة ٨٩ (١١٢) ، والغسل ١٧ (٤١٩) ، والزینة ٦٢ (٥٠٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٢ (٤٠١) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٦٥٧) ، مسند احمد (٦/٩٤، ١٣٠، ١٤٧، ١٨٨، ٢٠٢، ٢١٠) ، والمؤلف فی الشمائل ١٠ (٨٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (401) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 608

【66】

وضو کے لئے کتنا پانی کافی ہے

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وضو میں دو رطل پانی کافی ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ غریب ہے، ہم یہ حدیث صرف شریک ہی کی سند سے جانتے ہیں، ٢- شعبہ نے عبداللہ بن عبداللہ بن جبر سے اور انہوں نے انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک مکوک ٣ ؎ سے وضو، اور پانچ مکوک سے غسل کرتے تھے ٤ ؎، ٣- سفیان ثوری نے بسند «عبداللہ بن عیسیٰ عن عبداللہ بن جبر عن انس» روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک مد ٥ ؎ سے وضو اور ایک صاع ٦ ؎ سے غسل کرتے تھے، ٤- یہ شریک کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہذا اللفظ ( تحفة الأشراف : ٩٦٣) (ضعیف) (سند میں شریک القاضی حافظہ کے ضعیف ہیں، اور ان کی یہ روایت ثقات کی روایت کے خلاف بھی ہے شیخین کی سند میں ” شریک “ نہیں ہیں، لیکن اصل حدیث صحیح ہے، جس کی تخریج حسب ذیل ہے : ابن جبر کے طریق سے مروی ہے : ” کان رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یتوضأ بمکوک ویغتسل بخمسة مکا کی “ ، أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٧ (٢٠١) ، صحیح مسلم/الحیض ١٠ (٣٢٥) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٤٤ (٩٥) ، سنن النسائی/الطہارة ٥٩ (٧٣) ، و ١٤٤ (٢٣٠) ، والمیاہ ١٤ (٣٤٦) ، مسند احمد (٣/٢٥٩، ٢٨٢، ٢٩٠) ، سنن الدارمی/الطہارة ٢٢ (٦٩٥) ۔ وضاحت : ١ ؎ : رطل بارہ اوقیہ کا ہوتا ہے اور ایک اوقیہ چالیس درہم کا۔ ٢ ؎ : کافی ہوگا سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دو رطل سے کم پانی وضو کے لیے کافی نہیں ہوگا ، ام عمارہ بنت کعب کی حدیث اس کے معارض ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کا ارادہ کیا تو ایک برتن میں پانی لایا گیا جس میں دو تہائی مد کے بقدر پانی تھا۔ ٣ ؎ : تنّور کے وزن پر ہے ، اس سے مراد مُد ہے اور ایک قول ہے کہ صاع مراد ہے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ ٤ ؎ : غسل کے پانی اور وضو کے پانی کے بارے میں وارد احادیث مختلف ہیں ان سب کو اختلاف احوال پر محمول کرنا چاہیئے۔ ٥ ؎ : ایک پیمانہ ہے جس میں ایک رطل اور ثلث رطل پانی آتا ہے۔ ٦ ؎ : صاع بھی ایک پیمانہ ہے جس میں چار مد پانی آتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (270) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 609

【67】

دودھ پیتے بچے کے پیشاب پر پانی بہانا کافی ہے

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دودھ پیتے بچے کے پیشاب کے بارے میں فرمایا : بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں گے اور بچی کا پیشاب دھویا جائے گا ۔ قتادہ کہتے ہیں : یہ اس وقت تک ہے جب تک دونوں کھانا نہ کھائیں، جب وہ کھانے لگیں تو دونوں کا پیشاب دھویا جائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہشام دستوائی نے یہ حدیث قتادہ سے روایت کی ہے اور سعید بن ابی عروبہ نے اسے قتادہ سے موقوفاً روایت کیا ہے، انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ١٣٧ (٣٧٧) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٧ (٥٢٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٠١٣١) ، مسند احمد ١/٩٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (525) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 610

【68】

None

میں نے جریر بن عبداللہ رضی الله عنہما کو دیکھا، انہوں نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔ چنانچہ میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ میں نے ان سے پوچھا: یہ سورۃ المائدہ کے نزدول سے پہلے کی بات ہے یا مائدہ کے بعد کی؟ تو انہوں نے کہا: میں نے مائدہ کے بعد ہی اسلام قبول کیا تھا ۱؎۔

【69】

None

خالد بن زیاد سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے ہم اسے اس طرح مقاتل بن حیان کی سند سے جانتے ہیں انہوں نے اسے شہر بن حوشب سے روایت کیا ہے ۱؎۔

【70】

جنبی اگر وضو کرلے تو اس کے لئے کھانے کی اجازت ہے

عمار (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جنبی کو جب وہ کھانا، پینا اور سونا چاہے اس بات کی رخصت دی کہ وہ اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کرلے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٨٩ (٢٢٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٣٧١) (ضعیف) (اس میں دو علتیں ہیں : سند میں یحییٰ اور عمار کے درمیان انقطاع ہے اور ” عطاء خراسانی “ ضعیف ہیں لیکن سونے کے لیے وضوء رسول اکرم ﷺ سے ثابت ہے) وضاحت : ١ ؎ : یعنی متابعات و شواہد کی بنا پر۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (28) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 613

【71】

نماز کی فضلیت

کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے کعب بن عجرہ ! میں تمہیں اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں ایسے امراء و حکام سے جو میرے بعد ہوں گے، جو ان کے دروازے پر گیا اور ان کے جھوٹ کی تصدیق کی، اور ان کے ظلم پر ان کا تعاون کیا، تو وہ نہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں اور نہ وہ حوض پر میرے پاس آئے گا۔ اور جو کوئی ان کے دروازے پر گیا یا نہیں گیا لیکن نہ جھوٹ میں ان کی تصدیق کی، اور نہ ہی ان کے ظلم پر ان کی مدد کی، تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ وہ عنقریب حوض کوثر پر میرے پاس آئے گا۔ اے کعب بن عجرہ ! صلاۃ دلیل ہے، صوم مضبوط ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو بجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، اے کعب بن عجرہ ! جو گوشت بھی حرام سے پروان چڑھے گا، آگ ہی اس کے لیے زیادہ مناسب ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے، ہم اسے عبیداللہ بن موسیٰ ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- ایوب بن عائذ طائی ضعیف گردانے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ مرجئہ جیسے خیالات رکھتے تھے۔ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو وہ اسے صرف عبیداللہ بن موسیٰ ہی کی سند سے جانتے تھے اور انہوں نے اسے بہت غریب حدیث جانا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١١٠٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : دیگر ائمہ کے نزدیک مذکورہ دونوں رواۃ قابل احتجاج ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (3 / 15 و 150) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 614 محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : ہم سے اسے ابن نمیر نے بیان کیا انہوں نے اسے عبیداللہ بن موسیٰ سے روایت کی ہے اور عبیداللہ نے غالب سے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 615

【72】

اسی سے متعلق

سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ میں نے ابوامامہ (رض) کو کہتے سنا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے سنا، آپ نے فرمایا : تم اپنے رب اللہ سے ڈرو، پانچ وقت کی نماز پڑھو، ماہ رمضان کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکاۃ ادا کرو، اور امیر کی اطاعت کرو، اس سے تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ میں نے ابوامامہ (رض) سے پوچھا : آپ نے کتنے برس کی عمر میں یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : میں نے آپ سے یہ حدیث اس وقت سنی جب میں تیس برس کا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٨٦٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (867) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 616