43. قرآن کی تفسیر کا بیان

【1】

جو شخص اپنے رائے سے قرآن کی تفسیر کرے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بغیر علم کے (بغیر سمجھے بوجھے) قرآن کی تفسیر کی، تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ٥٥٤٣) (ضعیف) (سند میں عبدالاعلی بن عامر ثعلبی روایت میں وہم کا شکار ہوجایا کرتے تھے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (234) ، نقد التاج، // ضعيف الجامع الصغير (5737) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2950

【2】

جو شخص اپنے رائے سے قرآن کی تفسیر کرے

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری طرف سے کوئی بات اس وقت تک نہ بیان کرو جب تک کہ تم (اچھی طرح) جان نہ لو کیونکہ جس نے جان بوجھ کر جھوٹی بات میری طرف منسوب کی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے اور جس نے قرآن میں اپنی عقل و رائے سے کچھ کہا وہ بھی اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف) (تراجع الالبانی ١٥٨ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (235) ، نقد التاج، الضعيفة (1783) ، صفة الصلاة // ضعيف الجامع الصغير وزيادته (114) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2951

【3】

جو شخص اپنے رائے سے قرآن کی تفسیر کرے

جندب بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے (اور اپنی صواب دید) سے کی، اور بات صحیح و درست نکل بھی گئی تو بھی اس نے غلطی کی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - بعض محدثین نے سہیل بن ابی حزم کے بارے کلام کیا ہے، ٣ - اسی طرح بعض اہل علم صحابہ اور دوسروں سے مروی ہے کہ انہوں نے سختی سے اس بات سے منع کیا ہے کہ قرآن کی تفسیر بغیر علم کے کی جائے، لیکن مجاہد، قتادہ اور ان دونوں کے علاوہ بعض اہل علم کے بارے میں جو یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے قرآن کی تفسیر (بغیر علم کے) کی ہے تو یہ کہنا درست نہیں، ایسے (ستودہ صفات) لوگوں کے بارے میں یہ بدگمانی نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے قرآن کے بارے میں جو کچھ کہا ہے یا انہوں نے قرآن کی جو تفسیر کی ہے یہ بغیر علم کے یا اپنے جی سے کی ہے، ٤ - ان ائمہ سے ایسی باتیں مروی ہیں جو ہمارے اس قول کو تقویت دیتی ہیں کہ انہوں نے کوئی بات بغیر علم کے اپنی جانب سے نہیں کہی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ العلم ٥ (٣٦٥٢) (تحفة الأشراف : ٣٢٦٢) (ضعیف) (سند میں سہیل ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (235) ، نقد التاج //، ضعيف أبي داود (789 / 3652) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2952 قتادہ کہتے ہیں کہ قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کی تفسیر میں میں نے کوئی بات (یعنی کوئی روایت) نہ سنی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٩٢٦٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (235) ، نقد التاج //، ضعيف أبي داود (789 / 3652) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2952 مجاہد کہتے ہیں کہ اگر میں نے ابن مسعود کی قرأت پڑھی ہوتی تو مجھے قرآن سے متعلق ابن عباس (رض) سے وہ بہت سی باتیں پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئی ہوتی جو میں نے ان سے پوچھیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٩٢٦٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (235) ، نقد التاج //، ضعيف أبي داود (789 / 3652) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2952

【4】

سورت فاتحہ کی تفسیر کے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورة فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے، وہ نماز ناقص ہے، نامکمل ہے ١ ؎ عبدالرحمٰن کہتے ہیں : میں نے کہا : ابوہریرہ ! میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں ؟ انہوں نے کہا : فارسی لڑکے ! اسے اپنے جی میں (دل ہی دل میں) پڑھ لیا کرو ٢ ؎ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے نماز ٣ ؎ اپنے اور بندے کے درمیان دو حصوں میں بانٹ دی ہے۔ آدھی نماز میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو مانگے۔ میرا بندہ پڑھتا ہے : «الحمد لله رب العالمين» تو اللہ کہتا ہے : میرے بندے نے میری حمد یعنی تعریف کی۔ بندہ کہتا ہے : «الرحمن الرحيم» تو اللہ کہتا ہے : میرے بندے نے میری ثنا کی، بندہ «مالک يوم الدين» کہتا ہے تو اللہ کہتا ہے : میرے بندے نے میری عظمت اور بزرگی بیان کی اور عظمت اور بزرگی صرف میرے لیے ہے، اور میرے اور میرے بندے کے درمیان «إياک نعبد وإياک نستعين» سے لے کر سورة کی آخری آیات تک ہیں، اور بندے کے لیے وہ سب کچھ ہے جو وہ مانگے۔ بندہ کہتا ہے «اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين» ہمیں سیدھی اور سچی راہ دکھا، ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - شعبہ، اسماعیل بن جعفر اور کئی دوسرے رواۃ نے ایسی ہی حدیث علاء بن عبدالرحمٰن سے، علاء نے اپنے باپ سے اور ان کے باپ نے ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١ (٣٩٥) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٣٦ (٨٢١) ، سنن النسائی/الإفتتاح ٢٣ (٩١٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١ (٨٣٨) (تحفة الأشراف : ١٤٠٨٠) ، وط/الصلاة ٩ (٣٩) ، و مسند احمد (٢/٢٤١، ٢٥٠، ٢٨٥، ٤٥٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ سورة فاتحہ ہر نماز اور نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جائے گی ، کیونکہ اس کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔ ٢ ؎ : نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد حدیث کے سب سے بڑے راوی اور جانکار صحابی ابوہریرہ (رض) کا یہ قول اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ ہر رکعت میں سورة فاتحہ خواہ امام کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو پڑھنی فرض ہے اور یہ کہ یہ مسئلہ منسوخ نہیں ہوا ہے۔ ٣ ؎ : فرمایا تو تھا میں نے نماز کو اپنے اور بندے کے درمیان آدھا آدھا بانٹ دیا ہے ، اور جب اس تقسیم کی تفصیل بیان کی تو سورة فاتحہ کا نام لیا اور اس کی تقسیم بتائی ، پتا چلا کہ صلاۃ فاتحہ ہے ، اور فاتحہ صلاۃ ہے ، یعنی فاتحہ نماز کا ایسا رنگ ہے جو نماز کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، اس کا آدھا حصہ اللہ کی حمد و ثنا اور اس کی رحمت و ربوبیت اور عدل و بادشاہت کے بیان میں ہے اور آدھا حصہ دعا و مناجات پر مشتمل ہے جسے بندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (838) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2953 ابن جریج اور مالک بن انس علاء بن عبدالرحمٰن سے علاء نے ہشام بن زہر کے آزاد کردہ غلام ابوسائب سے اور ابوسائب نے ابوہریرہ (رض) سے نبی ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے - تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (838) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2953 ابن ابی اویس نے اپنے باپ ابواویس سے اور ابواویس نے علاء بن عبدالرحمٰن سے روایت کی ہے، انہوں نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی

【5】

سورت فاتحہ کی تفسیر کے متعلق

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے، لوگوں نے کہا : یہ عدی بن حاتم ہیں، میں آپ کے پاس بغیر کسی امان اور بغیر کسی تحریر کے آیا تھا، جب مجھے آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ آپ اس سے پہلے فرما چکے تھے کہ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گا ١ ؎۔ عدی کہتے ہیں : آپ مجھے لے کر کھڑے ہوئے، اسی اثناء میں ایک عورت ایک بچے کے ساتھ آپ سے ملنے آ گئی، ان دونوں نے عرض کیا : ہمیں آپ سے ایک ضرورت ہے۔ آپ ان دونوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور ان کی ضرورت پوری فرما دی۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے لیے اپنے گھر آ گئے۔ ایک بچی نے آپ کے لیے ایک گدا بچھا دیا، جس پر آپ بیٹھ گئے اور میں بھی آپ کے سامنے بیٹھ گیا، آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا : (بتاؤ) تمہیں «لا إلہ إلا اللہ» کہنے سے کیا چیز روک رہی ہے ؟ کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو معبود سمجھتے ہو ؟ میں نے کہا : نہیں، آپ نے کچھ دیر باتیں کیں، پھر فرمایا : اللہ اکبر کہنے سے بھاگ رہے ہو ؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ سے بھی بڑی کوئی چیز ہے ؟ میں نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : یہود پر اللہ کا غضب نازل ہوچکا ہے اور نصاریٰ گمراہ ہیں ، اس پر وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : میں تو مسلمان ہونے کا ارادہ کر کے آیا ہوں۔ وہ کہتے ہیں : میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا، پھر آپ نے میرے لیے حکم فرمایا : تو میں ایک انصاری صحابی کے یہاں (بطور مہمان) ٹھہرا دیا گیا، پھر میں دن کے دونوں کناروں پر یعنی صبح و شام آپ کے پاس حاضر ہونے لگا۔ ایک شام میں آپ کے پاس بیٹھا ہی ہوا تھا کہ لوگ چیتے کی سی دھاری دار گرم کپڑے پہنے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوئے (ان کے آنے کے بعد) آپ نے نماز پڑھی، پھر آپ نے کھڑے ہو کر تقریر فرمائی اور لوگوں کو ان پر خرچ کرنے کے لیے ابھارا۔ آپ نے فرمایا : (صدقہ) دو اگرچہ ایک صاع ہو، اگرچہ آدھا صاع ہو، اگرچہ ایک مٹھی ہو، اگرچہ ایک مٹھی سے بھی کم ہو جس کے ذریعہ سے تم میں کا کوئی بھی اپنے آپ کو جہنم کی گرمی یا جہنم سے بچا سکتا ہے۔ (تم صدقہ دو ) چاہے ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو ؟ چاہے آدھی کھجور ہی کیوں نہ ہو ؟ کیونکہ تم میں سے ہر کوئی اللہ کے پاس پہنچنے والا ہے، اللہ اس سے وہی بات کہنے والا ہے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں، (وہ پوچھے گا) کیا ہم نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں نہیں بنائیں ؟ وہ کہے گا : ہاں، کیوں نہیں ! اللہ پھر کہے گا : کیا میں نے تمہیں مال اور اولاد نہ دی ؟ ، وہ کہے گا : کیوں نہیں تو نے ہمیں مال و اولاد سے نوازا۔ وہ پھر کہے گا وہ سب کچھ کہاں ہے جو تم نے اپنی ذات کی حفاظت کے لیے آگے بھیجا ہے ؟ (یہ سن کر) وہ اپنے آگے، اپنے پیچھے، اپنے دائیں بائیں (چاروں طرف) دیکھے گا، لیکن ایسی کوئی چیز نہ پائے گا جس کے ذریعہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی گرمی سے بچا سکے۔ اس لیے تم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ کو جہنم کی گرمی سے بچانے کی کوشش و تدبیر کرنی چاہیئے ایک کھجور ہی صدقہ کر کے کیوں نہ کرے۔ اور اگر یہ بھی نہ میسر ہو تو اچھی و بھلی بات کہہ کر ہی اپنے کو جہنم کی گرمی سے بچائے۔ مجھے اس کا خوف نہیں ہے کہ تم فقر و فاقہ کا شکار ہوجاؤ گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہے، اور تمہیں دینے والا ہے (اتنا دینے والا ہے) کہ ایک ہودج سوار عورت (تنہا) یثرب (مدینہ) سے حیرہ تک یا اس سے بھی لمبا سفر کرے گی اور اسے اپنی سواری کے چوری ہوجانے تک کا ڈر نہ ہوگا ٢ ؎ عدی (رض) کہتے ہیں : (اس وقت) میں سوچنے لگا کہ قبیلہ بنی طی کے چور کہاں چلے جائیں گے ٣ ؎؟ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف سماک بن حرب کی روایت ہی سے جانتے ہیں، ٣ - شعبہ نے سماک بن حرب سے، سماک نے، عباد بن حبیش سے، اور عباد بن حبیش نے عدی بن حاتم (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے پوری حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن) (الصحیحة ٣٢٦٣ ) وضاحت : ١ ؎ : وہ مجھ پر ایمان لے آئیں گے اور میری اطاعت قبول کرلیں گے۔ ٢ ؎ : یعنی اس وقت اتنی مالداری آ جائے گی اور اسلامی شریعت کے نفاذ کی برکت سے چاروں طرف امن و امان ہوگا کہ کسی کو چوری کرنے کی نہ ضرورت ہوگی اور نہ ہی ہمت۔ ٣ ؎ : عدی بن حاتم (رض) قبیلہ بنی طے کے چوروں کا خیال انہیں اس لیے آیا کہ وہ خود بھی اسی قبیلہ کے تھے ، اور اسی تعلق کی بنا پر انہیں اپنے قبیلہ کے چوروں کا خیال آیا ، اس قبیلہ کے لوگ عراق اور حجاز کے درمیان آباد تھے ، ان کے قریب سے جو بھی گزرتا تھا وہ ان پر حملہ کر کے اس کا سارا سامان لوٹ لیا کرتے تھے ، اسی لیے عدی (رض) کو تعجب ہوا کہ میرے قبیلے والوں کی موجودگی میں ایک عورت تن تنہا امن و امان کے ساتھ کیسے سفر کرے گی ؟ قال الشيخ الألباني : (قول عدي بن حاتم : أتيت ... الحديث) حسن، (قول عدي بن حاتم عن النبي صلی اللہ عليه وسلم قال : اليهود مغضوب عليهم والنصاری ضلال فذکر الحديث بطوله) صحيح (قول عدي بن حاتم عن النبي صلی اللہ عليه وسلم قال : اليهود مغضوب عليهم والنصاری ضلال فذکر الحديث بطوله) تخريج الطحاوية (811) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2954

【6】

سورت بقرہ کے متعلق

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ساری زمین کے ہر حصے سے ایک مٹھی مٹی لے کر اس سے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا، چناچہ ان کی اولاد میں مٹی کی مناسبت سے کوئی لال، کوئی سفید، کالا اور ان کے درمیان مختلف رنگوں کے اور نرم مزاج و گرم مزاج، بد باطن و پاک طینت لوگ پیدا ہوئے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ١٧ (٤٦٩٣) (تحفة الأشراف : ٩٠٢٥) ، و مسند احمد (٤/٤٠٠، ٤٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث سورة البقرہ کی آیت : «إني جاعل في الأرض خليفة» (البقرة : 30) کی تفسیر میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (100) ، الصحيحة (1630) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2955

【7】

سورت بقرہ کے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت کریمہ : «ادخلوا الباب سجدا» اور جھکے جھکے دروازہ میں داخل ہونا (البقرہ : ٥٨ ) کے بارے میں فرمایا : بنی اسرائیل چوتڑ کے بل کھسکتے ہوئے داخل ہوئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٢٨ (٣٤٠٣) ، وتفسیر البقرة ٥ (٤٤٧٩) ، وسورة الأعراف ٤ (٤٦٤١) ، صحیح مسلم/التفسیر ح ١ (٣٠١٥) (تحفة الأشراف : ١٤٦٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2956

【8】

سورت بقرہ کے متعلق

عامر بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک انتہائی اندھیری رات میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، کوئی نہ جان سکا کہ قبلہ کدھر ہے۔ چناچہ جو جس رخ پر تھا اس نے اسی رخ پر نماز پڑھ لی، جب صبح ہوئی تو ہم نے نبی اکرم ﷺ سے اس بات کا ذکر کیا تو (اس وقت) یہ آیت «فأينما تولوا فثم وجه الله» تم جدھر بھی منہ کروا ادھر اللہ کا منہ ہے (البقرہ : ١١٥ ) نازل ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٠ (١٠٢٠) (تحفة الأشراف : ٥٠٣٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : لیکن بہرحال یہ اضطراری حالت کے لیے ہے ، عام حالات اور معلوم ہوجانے کی صورت میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنا نماز کی شرط ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1020) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2957

【9】

سورت بقرہ کے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مکہ سے مدینہ آتے ہوئے نفل نماز اپنی اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ اونٹنی جدھر بھی چاہتی منہ پھیرتی ١ ؎، ابن عمر نے پھر یہ آیت «ولله المشرق والمغرب» اللہ ہی کے لیے مغرب و مشرق ہیں (البقرہ : ١١٥ ) پڑھی۔ ابن عمر کہتے ہیں : یہ آیت اسی تعلق سے نازل ہوئی ہے ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - قتادہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں : آیت : «ولله المشرق والمغرب فأينما تولوا فثم وجه الله» (البقرة : ١١٥ ) منسوخ ہے، اور اسے منسوخ کرنے والی آیت «فول وجهك شطر المسجد الحرام» آپ اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں (البقرہ : ١٤٤ ) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤ (٧٠٠) ، سنن النسائی/الصلاة ٢٣ (٤٩٢) ، تحفة الأشراف : ٧٠٥٧) ، و مسند احمد (٢/٢٠، ٤١) ، وراجع أیضا : صحیح البخاری/الوتر ٦ (١٠٠٠) وتقصیر الصلاة ٩ (١٠٩٨) ، ١٢ (١١٠٥) ، و سنن ابی داود/ الصلاہ ٢٧٧ (١٢٢٤) ، وسنن النسائی/الصلاة ٢٣ (٤٩١) ، والقبلة ١ (٧٤٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ مسافر اپنی سواری پر نفلی نماز پڑھ سکتا ہے ، اس سواری کا رخ کسی بھی سمت ہو ، شرط یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت قبلہ رخ ہونا ضروری ہے اس کے بعد جہت قبلہ سے ہٹ جانے میں کوئی حرج نہیں۔ ٢ ؎ : عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک آیت کے سبب نزول کے سلسلے میں کئی واقعات منقول ہوتے ہیں ، دراصل ان سب پر وہ آیت صادق آتی ہے ، یا متعدد واقعات پر وہ آیت دوبارہ نازل ہوتی ہے ، وغیرہ وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2958 بیان کیا اسے مجھ سے محمد بن عبدالملک بن ابی الشوارب نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا یزید بن زریع نے اور یزید بن زریع نے سعید کے واسطہ سے قتادہ سے روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٩٢٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2958 مجاہد سے اس آیت : «فأينما تولوا فثم وجه الله» سے متعلق مروی ہے، وہ کہتے ہیں : جدھر منہ کرو ادھر قبلہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2958

【10】

سورت بقرہ کے متعلق

انس (رض) سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! کاش ہم مقام (مقام ابراہیم) کے پیچھے نماز پڑھتے، تو آیت : «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلی» تم مقام ابراہیم کو جائے صلاۃ مقرر کرلو (البقرہ : ١٢٥ ) نازل ہوئی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٢ (٤٠٢) ، وتفسیر البقرة ٩ (٤٤٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٥٦ (١٠٠٩) (تحفة الأشراف : ١٠٤٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اور یہ حکم طواف کے بعد کی دو رکعتوں کے سلسلے میں ہے ، لیکن طواف میں اگر بھیڑ بہت زیادہ ہو تو حرم میں جہاں بھی جگہ ملے یہ دو رکعتیں پڑھی جاسکتی ہیں ، کوئی حرج نہیں ہے۔ ٢ ؎ : مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر ابراہیم (علیہ السلام) نے کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2959

【11】

سورت بقرہ کے متعلق

انس (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اگر آپ مقام ابراہیم کو مصلی (نماز پڑھنے کی جگہ) بنا لیتے (تو کیا ہی اچھی بات ہوتی) تو آیت «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلی» نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2960

【12】

سورت بقرہ کے متعلق

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت : «وكذلک جعلناکم أمة وسطا» ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے (البقرہ : ١٤٣ ) کے سلسلے میں فرمایا : «وسط» سے مراد عدل ہے (یعنی انصاف پسند) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٣ (٣٣٣٩) ، وتفسیر سورة البقرة ١٣ (٤٤٨٧) ، والاعتصام ١٩ (٧٣٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٤ (٤٢٨٤) (تحفة الأشراف : ٤٠٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2961

【13】

سورت بقرہ کے متعلق

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ سے مدینہ تشریف لے آئے تو سولہ یا سترہ مہینے تک آپ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، حالانکہ آپ کی خواہش یہی تھی کہ قبلہ کعبہ کی طرف کردیا جائے، تو اللہ نے آپ کی اس خواہش کے مطابق «قد نری تقلب وجهك في السماء فلنولينک قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام» ہم آپ کے چہرے کو باربار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب پھیر دیں گے جس سے آپ خوش ہوجائیں، آپ اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں (البقرہ : ١٤٤ ) ، پھر آپ کعبہ کی طرف پھیر دئیے گئے، اور آپ یہی چاہتے ہی تھے۔ ایک آدمی نے آپ کے ساتھ نماز عصر پڑھی، پھر وہ کچھ انصاری لوگوں کے پاس سے گزرا وہ لوگ بیت المقدس کی طرف رخ کئے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ اور رکوع کی حالت میں تھے، اس شخص نے (اعلان کرتے ہوئے) کہا کہ وہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ہے اور آپ کو کعبہ کی طرف منہ پھیر کر نماز پڑھنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ یہ سن کر لوگ حالت رکوع ہی میں (کعبہ کی طرف) پھرگئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسے سفیان ثوری نے بھی ابواسحاق سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٤٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح أصل صفة الصلاة صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2962

【14】

سورت بقرہ کے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ لوگ فجر کی نماز ١ ؎ میں حالت رکوع میں تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمرو بن عوف مزنی، ابن عمر، عمارہ بن اوس اور انس بن مالک (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٤١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ مسجد قباء کا واقعہ ہے صحیح بخاری میں اس کی صراحت آئی ہے ، وہاں تحویل قبلہ کی خبر فجر میں ملی تھی ، اور پچھلی حدیث میں جو واقعہ ہے وہ بنو حارثہ کی مسجد کا واقعہ ہے۔ جسے مسجد قبلتین کہا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح أصل صفة الصلاة، الإرواء (290) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2963

【15】

سورت بقرہ کے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو جب کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تو لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہمارے ان بھائیوں کا کیا بنے گا جو بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، اور وہ گزر گئے تو (اسی موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : «وما کان اللہ ليضيع إيمانکم» اللہ تعالیٰ تمہارا ایمان ضائع نہ کرے گا (البقرہ : ١٤٣ ) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ١٦ (٤٦٨٠) (تحفة الأشراف : ٦١٠٨) (صحیح) (سند میں سماک کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے، لیکن صحیح بخاری کی براء (رض) کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی نمازوں کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ اس وقت یہی حکم الٰہی تھا ، اس آیت میں «ایمان» سے مراد «صلا ۃ » ہے نہ کہ بعض بزعم خود مفسر قرآن بننے والے نام نہاد مفسرین کا یہ کہنا کہ یہاں «ایمان» ہی مراد ہے ، یہ صحیح حدیث کا صریح انکار ہے ، «عفا اللہ عنہ»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2964

【16】

سورت بقرہ کے متعلق

عروہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے کہا : میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرے، اور میں خود اپنے لیے ان کے درمیان طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں پاتا۔ تو عائشہ نے کہا : اے میرے بھانجے ! تم نے بری بات کہہ دی۔ رسول اللہ ﷺ نے طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی کیا ہے۔ ہاں ایسا زمانہ جاہلیت میں تھا کہ جو لوگ مناۃ (بت) کے نام پر جو مشلل ١ ؎ میں تھا احرام باندھتے تھے وہ صفا و مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے، تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت : «فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما» ٢ ؎ نازل فرمائی۔ اگر بات اس طرح ہوتی جس طرح تم کہہ رہے ہو تو آیت اس طرح ہوتی «فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما» (یعنی اس پر صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے) ۔ زہری کہتے ہیں : میں نے اس بات کا ذکر ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام سے کیا تو انہیں یہ بات بڑی پسند آئی۔ کہا : یہ ہے علم و دانائی کی بات۔ اور (بھئی) میں نے تو کئی اہل علم کو کہتے سنا ہے کہ جو عرب صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرتے تھے وہ کہتے تھے کہ ہمارا طواف ان دونوں پتھروں کے درمیان جاہلیت کے کاموں میں سے ہے۔ اور کچھ دوسرے انصاری لوگوں نے کہا : ہمیں تو خانہ کعبہ کے طواف کا حکم ملا ہے نہ کہ صفا و مروہ کے درمیان طواف کا۔ (اسی موقع پر) اللہ تعالیٰ نے آیت : «إن الصفا والمروة من شعائر الله» نازل فرمائی ٣ ؎۔ ابوبکر بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں : میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت انہیں لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٧٩ (١٦٤٣) ، والعمرة ١٠ (١٧٩٠) ، وتفسیر البقرة ٢١ (٤٤٩٥) ، وتفسیر النجم ٣ (٤٨٦١) ، صحیح مسلم/الحج ٤٣ (١٢٧٧) ، سنن ابی داود/ الحج ٥٦ (١٩٠١) ، سنن النسائی/الحج ٤٣ (٢٩٨٦) (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٨) ، وط/الحج ٤٢ (١٢٩) ، و مسند احمد (٦/١٤٤، ١٦٢، ٢٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مشلل مدینہ سے کچھ دوری پر ایک مقام کا نام ہے جو قدید کے پاس ہے۔ ٢ ؎ : (صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں) اس لیے بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کرلینے میں بھی کوئی گناہ نہیں (البقرہ : ١٥٨ ) ۔ ٣ ؎ : خلاصہ یہ ہے کہ آیت کے سیاق کا یہ انداز انصار کی ایک غلط فہمی کا ازالہ ہے جو اسلام لانے کے بعد حج و عمرہ میں صفا و مروہ کے درمیان سعی کو معیوب سمجھتے تھے کیونکہ صفا پر ایک بت اِساف نام کا تھا ، اور مروہ پر نائلہ نام کا ، اس پر اللہ نے فرمایا : ارے اب اسلام میں ان دونوں کو توڑ دیا گیا ہے ، اب ان کے درمیان سعی کرنے میں شرک کا شائبہ نہیں رہ گیا ، بلکہ اب تو یہ سعی فرض ہے ، ارشاد نبوی ہے «اسعوا فإن اللہ کتب علیکم السعی» (احمد والحاکم بسند حسن) (یعنی : سعی کرو ، کیونکہ اللہ نے اس کو تم پر فرض کردیا ہے) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2986) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2965

【17】

سورت بقرہ کے متعلق

عاصم الأحول کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے صفا اور مروہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : یہ دونوں جاہلیت کے شعائر میں سے تھے ١ ؎، پھر جب اسلام آیا تو ہم ان دونوں کے درمیان طواف کرنے سے رک گئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «إن الصفا والمروة من شعائر الله» (صفا و مروہ شعائر الٰہی میں سے ہیں) نازل فرمائی۔ تو جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے اس کے لیے ان دونوں کے درمیان طواف (سعی) کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان کے درمیان طواف (سعی) نفل ہے اور جو کوئی بھلائی کام ثواب کی خاطر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کا قدردان اور علم رکھنے والا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٨٠ (١٦٤٨) ، وتفسیر البقرة ٢١ (٤٤٩٦) ، صحیح مسلم/الحج ٤٣ (١٢٧٨) (تحفة الأشراف : ٩٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان علامات اور نشانیوں میں سے ہیں جن کی زمانہ جاہلیت میں پرستش و پوجا ہوتی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2966

【18】

سورت بقرہ کے متعلق

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ تشریف لائے اور آپ بیت اللہ کا سات طواف کیا تو میں نے آپ کو یہ آیت پڑھتے سنا :«واتخذوا من مقام إبراهيم مصلی» مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو ۔ آپ نے مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھی، پھر حجر اسود کے پاس آ کر اسے چوما، پھر فرمایا : ہم (سعی) وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے اللہ نے (اس کا ذکر) شروع کیا ہے۔ اور آپ نے پڑھا «إن الصفا والمروة من شعائر الله»۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٨٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2960) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2967

【19】

سورت بقرہ کے متعلق

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ شروع میں کے صحابہ کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی آدمی روزہ رکھتا اور افطار کا وقت ہوتا اور افطار کرنے سے پہلے سو جاتا، تو پھر وہ ساری رات اور سارا دن نہ کھاتا یہاں تک کہ شام ہوجاتی۔ قیس بن صرمہ انصاری کا واقعہ ہے کہ وہ روزے سے تھے جب افطار کا وقت آیا تو وہ اپنی اہلیہ کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے ؟ انہوں نے کہا : ہے تو نہیں، لیکن میں جاتی ہوں اور آپ کے لیے کہیں سے ڈھونڈھ لاتی ہوں، وہ دن بھر محنت مزدوری کرتے تھے اس لیے ان کی آنکھ لگ گئی۔ وہ لوٹ کر آئیں تو انہیں سوتا ہوا پایا، کہا : ہائے رے تمہاری محرومی و بدقسمتی۔ پھر جب دوپہر ہوگئی تو قیس پر غشی طاری ہوگئی، نبی اکرم ﷺ سے یہ بات ذکر کی گئی تو اس وقت یہ آیت : «أحل لکم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم» روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا (البقرہ : ١٨٧ ) ، نازل ہوئی، لوگ اس آیت سے بہت خوش ہوئے۔ (اس کے بعد یہ حکم نازل ہوگیا) «وکلوا واشربوا حتی يتبين لکم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر» تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ظاہر ہوجائے (البقرہ : ١٨٧ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١٥ (١٩١٥) ، سنن ابی داود/ الصوم ١ (٢٣١٤) ، سنن النسائی/الصوم ٢٩ (٢١٧٠) (تحفة الأشراف : ١٨٠١) ، و مسند احمد (٤/٢٩٥) ، وسنن الدارمی/الصیام ٧ (١٧٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2004) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2968

【20】

سورت بقرہ کے متعلق

نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت : «وقال ربکم ادعوني أستجب لكم» اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے اعراض کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے (المؤمن : ٦٠ ) ، کی تفسیر میں فرمایا کہ دعا ہی عبادت ہے۔ پھر آپ نے سورة مومن کی آیت «وقال ربکم ادعوني أستجب لكم» سے «داخرين» ١ ؎ تک پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسے منصور نے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٨ (١٤٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١ (٣٨٢٨) (تحفة الأشراف : ١١٦٤٣) ، و مسند احمد (٤/٢٧١، ٢٧٦) ، ویأتي برقم ٣٢٤٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3828) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2969

【21】

سورت بقرہ کے متعلق

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت : «حتی يتبين لکم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر» نازل ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا : اس سے مراد رات کی تاریکی سے دن کی سفیدی (روشنی) کا نمودار ہوجانا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١٦ (١٩١٦) ، وتفسیر البقرة ٢٨ (٤٥٠٩) ، صحیح مسلم/الصوم ٨ (١٠٩٠) ، سنن ابی داود/ الصوم ١٧ (٢٣٤٩) (تحفة الأشراف : ٩٨٥٦) ، و مسند احمد (٤/٣٧٧) ، وسنن الدارمی/الصوم ٧ (١٧٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2034) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2970

【22】

سورت بقرہ کے متعلق

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے روزے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : «حتی يتبين لکم الخيط الأبيض من الخيط الأسود» یہاں تک کہ سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے نمایاں ہوجائے تو میں نے دو ڈوریاں لیں۔ ایک سفید تھی دوسری کالی، میں انہیں کو دیکھ کر (سحری کے وقت ہونے یا نہ ہونے کا) فیصلہ کرنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے کچھ باتیں کہیں (ابن ابی عمر کہتے ہیں : میرے استاد) سفیان انہیں یاد نہ رکھ سکے، آپ ﷺ نے فرمایا : اس سے مراد رات اور دن ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ٩٨٦٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2034) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2971

【23】

سورت بقرہ کے متعلق

اسلم ابوعمران تجیبی کہتے ہیں کہ ہم روم شہر میں تھے، رومیوں کی ایک بڑی جماعت ہم پر حملہ آور ہونے کے لیے نکلی تو مسلمان بھی انہی جیسی بلکہ ان سے بھی زیادہ تعداد میں ان کے مقابلے میں نکلے، عقبہ بن عامر (رض) اہل مصر کے گورنر تھے اور فضالہ بن عبید (رض) فوج کے سپہ سالار تھے۔ ایک مسلمان رومی صف پر حملہ آور ہوگیا اور اتنا زبردست حملہ کیا کہ ان کے اندر گھس گیا۔ لوگ چیخ پڑے، کہنے لگے : سبحان اللہ ! اللہ پاک و برتر ہے اس نے تو خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں جھونک دیا ہے۔ (یہ سن کر) ابوایوب انصاری (رض) کھڑے ہوئے اور کہا : لوگو ! تم اس آیت کی یہ تاویل کرتے ہو، یہ آیت تو ہم انصار کے بارے میں اتری ہے، جب اللہ نے اسلام کو طاقت بخشی اور اس کے مددگار بڑھ گئے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے چھپا کر رازداری سے آپس میں کہا کہ ہمارے مال برباد ہوگئے ہیں (یعنی ہماری کھیتی باڑیاں تباہ ہوگئی ہیں) اللہ نے اسلام کو قوت و طاقت بخش دی۔ اس کے (حمایتی) و مددگار بڑھ گئے، اب اگر ہم اپنے کاروبار اور کھیتی باڑی کی طرف متوجہ ہوجاتے تو جو نقصان ہوگیا ہے اس کمی کو پورا کرلیتے، چناچہ ہم میں سے جن لوگوں نے یہ بات کہی تھی اس کے رد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت نازل فرمائی۔ اللہ نے فرمایا : «وأنفقوا في سبيل اللہ ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة» اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو (البقرہ : ١٩٥ ) ، تو ہلاکت یہ تھی کہ مالی حالت کو سدھار نے کی جدوجہد میں لگا جائے، اور جہاد کو چھوڑ دیا جائے (یہی وجہ تھی کہ) ابوایوب انصاری (رض) ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کی ایک علامت و ہدف کی حیثیت اختیار کر گئے تھے یہاں تک کہ سر زمین روم میں مدفون ہوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجھاد ٢٣ (٢٥١٢) (تحفة الأشراف : ٣٤٥٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (13) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2972

【24】

سورت بقرہ کے متعلق

مجاہد کہتے ہیں کہ کعب بن عجرہ (رض) نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یہ آیت : «فمن کان منکم مريضا أو به أذى من رأسه ففدية من صيام أو صدقة أو نسك» البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے) تو اس پر فدیہ ہے، خواہ روزے رکھ لے، خواہ صدقہ دے، خواہ قربانی کرے (البقرہ : ١٩٦ ) ، میرے بارے میں اتری ہم حدیبیہ میں تھے، احرام باندھے ہوئے تھے، مشرکوں نے ہمیں روک رکھا تھا، میرے بال کانوں کے لو کے برابر تھے، سر کے جوئیں چہرے پر گرنے لگیں، نبی اکرم ﷺ کا گزر ہمارے پاس سے ہوا (ہمیں دیکھ کر) آپ نے فرمایا : لگتا ہے تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں ؟ میں نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : سر لو مونڈ ڈالو ، پھر یہ آیت (مذکورہ) اتری۔ مجاہد کہتے ہیں : روزے تین دن ہیں، کھانا چھ مسکینوں ١ ؎ کو کھلانا ہے۔ اور قربانی (کم از کم) ایک بکری، اور اس سے زیادہ بھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٩٦٣ (تحفة الأشراف : ١١١١٤، و ١١١١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک دوسری حدیث میں صراحت آ گئی ہے کہ تین صاع چھ مسکین کو کھلائے یعنی فی مسکین آدھا صاع (جو بھی کھانا وہاں کھایا جاتا ہو) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2973

【25】

سورت بقرہ کے متعلق

کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے۔ اس وقت میں ایک ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور جوئیں میری پیشانی یا بھوؤں پر بکھر رہی تھیں، آپ نے فرمایا : کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں ؟ میں نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : اپنا سر مونڈ ڈالو اور بدلہ میں قربانی کر دو ، یا تین دن روزہ رکھ لو، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو ۔ ایوب (راوی) کہتے ہیں : مجھے یاد نہیں رہا کہ (میرے استاذ نے) کون سی چیز پہلے بتائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2973) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2974

【26】

سورت بقرہ کے متعلق

عبدالرحمٰن بن یعمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حج عرفات کی حاضری ہے، حج عرفات کی حاضری ہے۔ حج عرفات کی حاضری ہے، منیٰ (میں قیام) کے دن تین ہیں۔ مگر جو جلدی کر کے دو دنوں ہی میں واپس ہوجائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور جو تین دن پورے کر کے گیا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ٢ ؎ اور جو طلوع فجر سے پہلے عرفہ پہنچ گیا، اس نے حج کو پا لیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابن ابی عمر کہتے ہیں : سفیان بن عیینہ نے کہا : یہ ثوری کی سب سے عمدہ حدیث ہے، جسے انہوں نے روایت کی ہے، ٣ - اسے شعبہ نے بھی بکیر بن عطاء سے روایت کیا ہے، ٤ - اس حدیث کو ہم صرف بکیر بن عطاء کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٨٨٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس میں ارشاد باری تعالیٰ : «واذکروا اللہ في أيام معدودات فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه» کی طرف اشارہ ہے (البقرہ : ٢٠٣ ) ۔ ٢ ؎ : یعنی : بارہ ذی الحجہ ہی کو رمی جمار کر کے واپس ہوجائے یا تین دن مکمل قیام کر کے تیرہ ذی الحجہ کو جمرات کی رمی (کنکری مار) کر کے واپس ہوجائے حاجی کو اختیار ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی برقم (896) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2975

【27】

سورت بقرہ کے متعلق

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ جھگڑالو ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ١٥ (٢٤٥٧) ، وتفسیر سورة البقرة ٣٧ (٤٥٢٣) ، والأحکام ٣٤ (٧١٨٨) ، صحیح مسلم/العلم ٢ (٢٦٦٨) ، سنن النسائی/القضاة ٣٤ (٥٤٢٥) (تحفة الأشراف : ١٢٦٤٨) ، و مسند احمد (٦/٥٥، ٦٣، ٢٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ اشارہ ہے ارشاد باری : «ومن الناس من يعجبک قوله في الحياة الدنيا ويشهد اللہ علی ما في قلبه وهو ألد الخصام» (البقرہ : ٢٠٤ ) کی طرف ، یعنی لوگوں میں سے بعض آدمی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دنیاوی زندگی میں ان کی بات آپ کو اچھی لگے گی جب کہ اللہ تعالیٰ کو وہ جو اس کے دل میں ہے گواہ بنا رہا ہوتا ہے ، حقیقت میں وہ سخت جھگڑالو ہوتا ہے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2976

【28】

سورت بقرہ کے متعلق

انس (رض) کہتے ہیں کہ یہودیوں کے یہاں جب ان کی کوئی عورت حائضہ ہوتی تھی تو وہ اسے اپنے ساتھ نہ کھلاتے تھے نہ پلاتے تھے۔ اور نہ ہی اسے اپنے ساتھ گھر میں رہنے دیتے تھے، جب نبی اکرم ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت : «ويسألونک عن المحيض قل هو أذى» ١ ؎ نازل فرمائی، پھر آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ انہیں اپنے ساتھ کھلائیں پلائیں اور ان کے ساتھ گھروں میں رہیں۔ اور ان کے ساتھ جماع کے سوا (بوس و کنار وغیرہ) سب کچھ کریں، یہودیوں نے کہا : یہ شخص ہمارا کوئی کام نہیں چھوڑتا جس میں ہماری مخالفت نہ کرتا ہو، عباد بن بشیر اور اسید بن حضیر نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ کو یہودیوں کی یہ بات بتائی اور کہا : اللہ کے رسول ! کیا ہم ان سے حالت حیض میں جماع (بھی) نہ کریں ؟ یہ سن کر آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا یہاں تک کہ ہم نے سمجھ لیا کہ آپ ان دونوں سے سخت ناراض ہوگئے ہیں۔ وہ اٹھ کر (اپنے گھر چلے) ان کے نکلتے ہی آپ ﷺ کے پاس دودھ کا ہدیہ آگیا، تو آپ ﷺ نے (انہیں بلانے کے لیے) ان کے پیچھے آدمی بھیجا (وہ آ گئے) تو آپ نے ان دونوں کو دودھ پلایا، جس سے انہوں نے جانا کہ آپ ان دونوں سے غصہ نہیں ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٣ (٣٠٢) ، سنن ابی داود/ الطھارة ١٠٣ (٢٥٨) ، والنکاح ٤٧ (٢١٦٥) ، سنن النسائی/الطھارة ١٨١ (٢٨٩) ، والحیض ٨ (٣٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٢٥ (٦٤٤) (تحفة الأشراف : ٣٠٨) ، و مسند احمد (٣/٢٤٦) ، وسنن الدارمی/الطھارة ١٠٦ (١٠٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : لوگ پوچھے ہیں تم سے کہ حیض کیا ہے ؟ کہہ دو کہ وہ ایک تکلیف ہے (البقرہ : ٢٢٢ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح آداب الزفاف (44) ، صحيح أبي داود (250) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2977

【29】

سورت بقرہ کے متعلق

جابر (رض) کہتے ہیں کہ یہود کہتے تھے کہ جو اپنی بیوی سے پیچھے کی طرف سے آگے کی شرمگاہ میں (جماع کرے) تو بھینگا لڑکا پیدا ہوگا، اس پر آیت :«نساؤكم حرث لکم فأتوا حرثکم أنى شئتم» ١ ؎ نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر البقرة ٣٩ (٤٥٢٨) ، صحیح مسلم/النکاح ١٩ (١٤٣٥) ، سنن ابی داود/ النکاح ٤٦ (٢١٦٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٩ (١٩٢٥) (تحفة الأشراف : ٣٠٢٢) ، وسنن الدارمی/الطھارة ١١٣ (١١٧٢) ، والنکاح ٢٦٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں ، اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو آؤ (البقرہ : ٢٢٣ ) ، یعنی : چاہے آگے کی طرف سے آگے میں دخول یا پیچھے کی طرف سے آگے میں دخول کرو تمہارے لیے سب طریقے ہیں ، بس احتیاط یہ رہے کہ پیچھے میں دخول نہ کرو ، ورنہ یہ چیز لعنت الٰہی کا سبب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1925) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2978

【30】

سورت بقرہ کے متعلق

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت کریمہ : «نساؤكم حرث لکم فأتوا حرثکم أنى شئتم» کی تفسیر میں فرمایا : اس سے مراد ایک سوراخ (یعنی قبل اگلی شرمگاہ) میں دخول ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٨٢٥٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح آداب الزفاف (27 - 28 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2979

【31】

سورت بقرہ کے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں تو ہلاک ہوگیا، آپ نے فرمایا : کس چیز نے تمہیں ہلاک کردیا ؟ کہا : رات میں نے سواری تبدیل کردی (یعنی میں نے بیوی سے آگے کے بجائے پیچھے کی طرف سے صحبت کرلی) ابن عباس (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر) انہیں کوئی جواب نہ دیا، تو آپ پر یہ آیت : «نساؤكم حرث لکم فأتوا حرثکم أنى شئتم» نازل ہوئی، بیوی سے آگے سے صحبت کرو چاہے پیچھے کی طرف سے کرو، مگر دبر سے اور حیض سے بچو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ٥٤٦٩) ، وانظر مسند احمد (١/٢٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن الآداب (28 - 29) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2980

【32】

سورت بقرہ کے متعلق

معقل بن یسار (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم کے زمانے میں اپنی بہن کی شادی ایک مسلمان شخص سے کردی۔ وہ اس کے یہاں کچھ عرصے تک رہیں، پھر اس نے انہیں ایسی طلاق دی کہ اس کے بعد ان سے رجوع نہ کیا یہاں تک کہ عدت کی مدت ختم ہوگئی۔ پھر دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی خواہش و چاہت پیدا ہوئی اور (دوسرے) پیغام نکاح دینے والوں کے ساتھ اس نے بھی پیغام نکاح دیا۔ معقل (رض) نے اس سے کہا : بیوقوف ! میں نے تمہاری شادی اس سے کر کے تیری عزت افزائی کی تھی پھر بھی تو اسے طلاق دے بیٹھا، قسم اللہ کی ! اب وہ تمہاری طرف زندگی بھر کبھی بھی لوٹ نہیں سکتی، اور اللہ معلوم تھا کہ اس شخص کو اس عورت کی حاجت و خواہش ہے اور اس عورت کو اس شخص کی حاجت و چاہت ہے۔ تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت : «وإذا طلقتم النساء فبلغن أجلهن» سے «وأنتم لا تعلمون» ١ ؎ تک نازل فرمائی۔ جب معقل (رض) نے یہ آیت سنی تو کہا : اب اپنے رب کی بات سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں (یہ کہہ کر) بلایا اور کہا : میں تمہاری شادی (دوبارہ) کیے دیتا ہوں اور تجھے عزت بخشتا ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ کئی سندوں سے حسن بصری سے مروی ہے۔ حسن بصری کے واسطہ سے یہ غریب ہے، ٣ - اس حدیث میں اس بات کا ثبوت ہے کہ بغیر ولی کے نکاح جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ معقل بن یسار کی بہن ثیبہ تھیں۔ اگر ولی کی بجائے معاملہ ان کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ اپنی شادی آپ کرسکتی تھیں اور وہ اپنے ولی معقل بن یسار کی محتاج نہ ہوتیں۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء کو خطاب کیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں اپنے (سابق) شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔ تو اس آیت میں اس بات کا ثبوت ہے کہ نکاح کا معاملہ عورتوں کی رضا مندی کے ساتھ اولیاء کے ہاتھ میں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة البقرة ٤٠ (٤٥٧٩) ، والنکاح ٦٠ (٥١٥٩) ، والطلاق ٤٤ (٥٣٣١) ، سنن ابی داود/ النکاح ٢١ (٢٠٨٧) (تحفة الأشراف : ١١٤٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں ان کے سابقہ شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضامند ہوں ، یہ نصیحت انہیں کی جاتی ہے جنہیں تم میں سے اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر یقین و ایمان ہو ، یہ حکم تمہارے لیے بہت پاکیزہ اور ستھرا ہے ، اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (البقرہ : ٢٣٢ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1843) ، صحيح أبي داود (1820) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2981

【33】

سورت بقرہ کے متعلق

ام المؤمنین عائشہ (رض) کے غلام ابو یونس کہتے ہیں کہ مجھے عائشہ (رض) نے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھ کر تیار کر دوں۔ اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تم آیت : «حافظوا علی الصلوات والصلاة الوسطی» ١ ؎ پر پہنچو تو مجھے خبر دو ، چناچہ جب میں اس آیت پر پہنچا اور میں نے انہیں خبر دی، تو انہوں نے مجھے بول کر لکھایا «حافظوا علی الصلوات والصلاة الوسطی وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» ١ ؎ نمازوں پر مداومت کرو اور درمیانی نماز کا خاص خیال کرو، اور نماز عصر کا بھی خاص دھیان رکھو اور اللہ کے آگے خضوع و خشوع سے کھڑے ہوا کرو ۔ اور انہوں نے کہا کہ میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے ایسا ہی سنا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں حفصہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٦ (٦٢٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٥ (٤١٠) ، سنن النسائی/الصلاة ١٤ (٤٧٣) (تحفة الأشراف : ١٧٨٠٩) ، و مسند احمد (٦/٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نمازوں کی حفاظت کرو ، بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو (البقرہ : ٢٣٨ ) ٢ ؎ : یہ قراءت شاذ ہے اس لیے اس کا اعتبار نہیں ہوگا ، یا یہاں واو عطفِ مغایرت کے لیے نہیں ہے بلکہ عطفِ تفسیری ہے تب اگلی حدیث کے مطابق ہوجائے گا کہ «الصلاة الوسطی» سے مراد عصر کی نماز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (437) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2982

【34】

سورت بقرہ کے متعلق

سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : «صلاة الوسطی» (بیچ کی نماز) نماز عصر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (634) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2983

【35】

سورت بقرہ کے متعلق

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جنگ احزاب کے دن فرمایا : اے اللہ ! ان کفار و مشرکین کی قبریں اور ان کے گھر آگ سے بھر دے جیسے کہ انہوں نے ہمیں درمیانی نماز (نماز عصر) پڑھنے سے روکے رکھا، یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث علی (رض) سے متعدد سندوں سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٩٨ (٢٩٣١) ، والمغازي ٢٩ (٤١١١) ، وتفسیر البقرة (٤٥٣٣) ، والدعوات ٥٨ (٦٣٩٦) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٥ (٦٢٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٥ (٤٠٩) ، سنن النسائی/الصلاة ١٤ (٤٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٦ (٦٨٤) (تحفة الأشراف : ١٠٢٣٢) ، و مسند احمد (١/٨١، ٨٢، ١١٣، ١٢٢، ١٢٦، ١٣٥، ١٣٧، ١٤٤، ١٤٦، ١٥٠، ١٥٢، ١٥٣، ١٥٤) ، وسنن الدارمی/الصلاة ٢٨ (١٢٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (436) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2984

【36】

سورت بقرہ کے متعلق

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «صلاة الوسطی» سے مراد عصر کی نماز ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں زید بن ثابت، ابوہاشم بن عتبہ اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٨١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (634) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2985

【37】

سورت بقرہ کے متعلق

زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں نماز کے اندر باتیں کیا کرتے تھے، تو جب آیت «وقوموا لله قانتين» (البقرہ : ٢٣٨ ) ، نازل ہوئی تو ہمیں چپ رہنے کا حکم ملا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٤٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (875) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2986

【38】

سورت بقرہ کے متعلق

براء (رض) کہتے ہیں کہ آیت «ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون» ١ ؎ ہم گروہ انصار کے بارے میں اتری ہے۔ ہم کھجور والے لوگ تھے، ہم میں سے کوئی آدمی اپنی کھجوروں کی کم و بیش پیداوار و مقدار کے اعتبار سے زیادہ یا تھوڑا لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آتا۔ بعض لوگ کھجور کے ایک دو گچھے لے کر آتے، اور انہیں مسجد میں لٹکا دیتے، اہل صفہ کے کھانے کا کوئی بندوبست نہیں تھا تو ان میں سے جب کسی کو بھوک لگتی تو وہ گچھے کے پاس آتا اور اسے چھڑی سے جھاڑتا کچی اور پکی کھجوریں گرتیں پھر وہ انہیں کھا لیتا۔ کچھ لوگ ایسے تھے جنہیں خیر سے رغبت و دلچسپی نہ تھی، وہ ایسے گچھے لاتے جس میں خراب، ردی اور گلی سڑی کھجوریں ہوتیں اور بعض گچھے ٹوٹے بھی ہوتے، وہ انہیں لٹکا دیتے۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیت «يا أيها الذين آمنوا أنفقوا من طيبات ما کسبتم ومما أخرجنا لکم من الأرض ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون ولستم بآخذيه إلا أن تغمضوا فيه» ٢ ؎ نازل فرمائی۔ لوگوں نے کہا کہ اگر تم میں سے کسی کو ویسا ہی ہدیہ دیا جائے جیسا دین سے بیزار لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیا تو وہ اسے نہیں لے گا اور لے گا بھی تو منہ موڑ کر، اس کے بعد ہم میں سے ہر شخص اپنے پاس موجود عمدہ چیز میں سے لانے لگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢ - سفیان ثوری نے سدی سے اس روایت میں سے کچھ روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٩١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا (البقرہ : ٢٦٧ ) ۔ ٢ ؎ : اے ایمان والو اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو ، ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصدہ نہ کرنا جسے تم خود لینے والے نہیں ہو ، الاّ یہ کہ اگر آنکھیں بند کرلو تو (البقرہ : ٢٦٧ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1822) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2987

【39】

سورت بقرہ کے متعلق

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی پر شیطان کا اثر (وسوسہ) ہوتا ہے اور فرشتے کا بھی اثر (الہام) ہوتا ہے۔ شیطان کا اثر یہ ہے کہ انسان سے برائی کا وعدہ کرتا ہے، اور حق کو جھٹلاتا ہے۔ اور فرشتے کا اثر یہ ہے کہ وہ خیر کا وعدہ کرتا ہے، اور حق کی تصدیق کرتا ہے۔ تو جو شخص یہ پائے ١ ؎ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے۔ اور جو دوسرا اثر پائے یعنی شیطان کا تو شیطان سے اللہ کی پناہ حاصل کرے۔ پھر آپ نے آیت «الشيطان يعدکم الفقر ويأمرکم بالفحشاء» ٢ ؎ پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوالاحوص کی یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف ابوالاحوص کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ٩٥٥٠) (صحیح) (صحیح موارد الظمآن ٣٨، و ٤٠ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کے دل میں نیکی بھلائی کے جذبات جاگیں تو سمجھے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہیں۔ ٢ ؎ : شیطان تمہیں فقیری سے ڈراتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے (البقرہ : ٢٦٨ ) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (74) // ضعيف الجامع الصغير (1963) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2988

【40】

سورت بقرہ کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : لوگو ! اللہ پاک ہے اور حلال و پاک چیز کو ہی پسند کرتا ہے اور اللہ نے مومنین کو انہیں چیزوں کا حکم دیا ہے جن چیزوں کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے۔ اللہ نے فرمایا : «يا أيها الرسل کلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم» ١ ؎ اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے «يا أيها الذين آمنوا کلوا من طيبات ما رزقناکم» ٢ ؎ (پھر) آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، پریشان حال اور غبار آلود ہے۔ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگتا ہے (میرے رب ! اے میرے رب ! ) اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس پینا حرام ہے، اس کا پہننا حرام کا ہے اور اس کی پرورش ہی حرام سے ہوئی ہے۔ پھر اس کی دعا کیوں کر قبول ہوگی ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف فضیل بن مرزوق کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٢٠ (١٠١٥) (تحفة الأشراف : ١٣٤١٣) ، و مسند احمد (٢/٣٢٨) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٩ (٢٧٥٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اے رسولو ! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو ، تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں (المومنون : ٥١ ) ۔ ٢ ؎ : اے ایمان والو ! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ ، پیو (البقرہ : ١٧٢ ) ۔ ٣ ؎ : معلوم ہوا کہ دعا کی قبولیت کے لیے جہاں بہت ساری شرطیں ہیں ، انہی میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ انسان کا ذریعہ معاش حلال ہو ، کھانے ، پینے ، پہننے اور اوڑھنے سے متعلق جو بھی چیزیں ہیں وہ سب حلال طریقے سے حاصل کی جاری ہوں جبھی دعا کے قبول ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن غاية المرام (17) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2989

【41】

سورت بقرہ کے متعلق

علی (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت «إن تبدوا ما في أنفسکم أو تخفوه يحاسبکم به اللہ فيغفر لمن يشاء ويعذب من يشاء» ١ ؎ نازل ہوئی۔ تو اس نے ہم سب کو فکرو غم میں مبتلا کردیا۔ ہم نے کہا : ہم میں سے کوئی اپنے دل میں باتیں کرے پھر اس کا حساب لیا جائے۔ ہمیں معلوم نہیں اس میں سے کیا بخشا جائے گا اور کیا نہیں بخشا جائے ؟ ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی «لا يكلف اللہ نفسا إلا وسعها لها ما کسبت وعليها ما اکتسبت» ٢ ؎ اور اس آیت نے اس سے پہلی والی آیت کو منسوخ کردیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٣٣٦) (ضعیف الإسناد) (سدی اور علی (رض) کے درمیان کا راوی مبہم ہے ) وضاحت : ١ ؎ : تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ ، اللہ تعالیٰ اس کا حساب تم سے لے گا ، پھر جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے سزا دے (البقرہ : ٢٨٤ ) ۔ ٢ ؎ : اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ، جو نیکی کرے وہ اس کے لیے اور جو برائی کرے وہ بھی اس پر ہے (البقرہ : ٢٨٦ ) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2990

【42】

سورت بقرہ کے متعلق

امیہ کہتی ہیں کہ انہوں نے عائشہ (رض) سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے قول «إن تبدوا ما في أنفسکم أو تخفوه يحاسبکم به الله» ١ ؎ اور (دوسرے) قول «من يعمل سوءا يجز به» ٢ ؎ کا مطلب پوچھا، تو انہوں نے کہا : جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے ان کا مطلب پوچھا ہے تب سے (تمہارے سوا) کسی نے مجھ سے ان کا مطلب نہیں پوچھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : یہ اللہ کی جانب سے بخار اور مصیبت (وغیرہ) میں مبتلا کر کے بندے کی سرزنش ہے۔ یہاں تک کہ وہ سامان جو وہ اپنی قمیص کی آستین میں رکھ لیتا ہے پھر گم کردیتا ہے پھر وہ گھبراتا اور اس کے لیے پریشان ہوتا ہے، یہاں تک کہ بندہ اپنے گناہوں سے ویسے ہی پاک و صاف ہوجاتا ہے جیسا کہ سرخ سونا بھٹی سے (صاف ستھرا) نکلتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٧٨٢٣) (ضعیف الإسناد) (” علی بن زید بن جدعان “ ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : البقرہ : ٢٨٦ ۔ ٢ ؎ : جو برائی کرے گا اس کی سزا پائے گا (النساء : ١٢٣ ) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (6086) ، المشکاة (1557) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2991

【43】

سورت بقرہ کے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت «إن تبدوا ما في أنفسکم أو تخفوه يحاسبکم به الله» نازل ہوئی تو لوگوں کے دلوں میں ایسا خوف و خطر پیدا ہوا جو اور کسی چیز سے پیدا نہ ہوا تھا۔ لوگوں نے یہ بات نبی اکرم ﷺ سے کہی تو آپ نے فرمایا : (پہلے تو) تم «سمعنا وأطعنا» کہو یعنی ہم نے سنا اور ہم نے بےچون و چرا بات مان لی، (چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کہا) تو اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان ڈال دیا۔ اور اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں «آمن الرسول بما أنزل إليه من ربه والمؤمنون» سے لے کر آخری آیت «لا يكلف اللہ نفسا إلا وسعها لها ما کسبت وعليها ما اکتسبت ربنا لا تؤاخذنا إن نسينا أو أخطأنا» ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے ایسا کردیا (تمہاری دعا قبول کرلی) «ربنا ولا تحمل علينا إصرا کما حملته علی الذين من قبلنا» ہمارے رب ! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا ، اللہ نے فرمایا : میں نے تمہارا کہا کردیا ، «ربنا ولا تحملنا ما لا طاقة لنا به واعف عنا واغفر لنا وارحمنا» اے اللہ ! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جس کی طاقت ہم میں نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما، اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما ، اللہ نے فرمایا : میں نے ایسا کردیا (یعنی تمہاری دعا قبول کرلی) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث ابن عباس (رض) سے دوسری سند سے بھی مروی ہے، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٥٧ (١٢٥) (تحفة الأشراف : ٥٤٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2992

【44】

سورت آل عمران کے متعلق

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت «فأما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة وابتغاء تأويله» ٢ ؎ کی تفسیر پوچھی۔ تو آپ نے فرمایا : جب تم انہیں دیکھو تو انہیں پہچان لو (کہ یہی لوگ اصحاب زیغ ہیں) ۔ یزید کی روایت میں ہے جب تم لوگ انہیں دیکھو تو انہیں پہچان لو یہ بات عائشہ (رض) نے دو یا تین بار کہی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٦٢٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قرآن میں دو قسم کی آیات ہیں ١ - محکم ، ٢ - اور متشابہ ، محکم وہ آیات ہیں جن کے معانی اور مطالب بالکل واضح ہیں جیسے نماز پڑھو ، زکاۃ ادا کرو وغیرہ ، اور متشابہ وہ آیات ہیں جن کے معانی واضح نہیں ہوتے ، ان کے صحیح معانی یا تو اللہ جانتا ہے ، یا اللہ کے رسول جانتے تھے ، ان کے معانی معلوم کرنے کے پیچھے پڑنے سے منع کیا گیا ہے ، ان پر ایمان بالغیب کا مطالبہ ہے لیکن زیع و ضلال کے متلاشی لوگ ان کے غلط معانی بیان کرنے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں ، انہی سے بچنے کا مشورہ اس حدیث میں دیا گیا ہے۔ ٢ ؎ : پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی غلط مراد کی جستجو کی خاطر (آل عمران : ٧ ) ۔ قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2993

【45】

سورت آل عمران کے متعلق

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے آیت «هو الذي أنزل عليك الکتاب منه آيات محکمات» کی تفسیر پوچھی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو آیات متشابہات کے پیچھے پڑے ہوئے دیکھو تو سمجھ لو کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کا اللہ نے نام لیا ہے اور ایسے لوگوں سے بچو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث ایوب سے بھی مروی ہے، اور ایوب نے ابن ابی ملیکہ کے واسطہ سے عائشہ سے روایت کی ہے، ٣ - ایسے ہی یہ حدیث متعدد لوگوں نے ابن ابی ملیکہ سے عائشہ سے روایت کی ہے۔ لیکن ان لوگوں نے اپنی اپنی روایات میں قاسم بن محمد کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ان کا ذکر صرف یزید بن ابراہیم تستری نے اس حدیث میں «عن القاسم» کہہ کر کیا ہے، ٤ - ابن ابی ملیکہ عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ ہیں، انہوں نے بھی عائشہ سے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر آل عمران ١ (٤٥٤٧) ، صحیح مسلم/العلم ١ (٢٦٦٥) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٧ (٤٧) (تحفة الأشراف : ١٧٤٦٠) ، و مسند احمد (٦/٤٨) ، وسنن الدارمی/المقدمة ١٩ (١٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی غلط مراد کی جستجو کی خاطر ، حالانکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا (آل عمرآن : ٧ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2994

【46】

سورت آل عمران کے متعلق

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر نبی کا نبیوں میں سے کوئی نہ کوئی دوست ہوتا ہے، اور میرے دوست میرے باپ اور میرے رب کے گہرے دوست ابراہیم ہیں۔ پھر آپ نے آیت «إن أولی الناس بإبراهيم للذين اتبعوه وهذا النبي والذين آمنوا والله ولي المؤمنين» ١ ؎ پڑھی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٥٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سب لوگوں سے زیادہ ابراہیم سے نزدیک تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کا کہا مانا اور یہ نبی اور جو لوگ ایمان لائے ، مومنوں کا ولی اور سہارا اللہ ہی ہے (آل عمرآن : ٦٨ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5769 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2995

【47】

سورت آل عمران کے متعلق

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی امر پر قسم کھائی اور وہ جھوٹا ہو اور قسم اس لیے کھائی تاکہ وہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال ناحق لے لے تو جب وہ (قیامت میں) اللہ سے ملے گا، اس وقت اللہ اس سخت غضبناک ہوگا ۔ اشعث بن قیس (رض) کہتے ہیں : قسم اللہ کی ! یہ حدیث میرے بارے میں ہے۔ میرے اور ایک یہودی شخص کے درمیان ایک (مشترک) زمین تھی، اس نے اس میں میری حصہ داری کا انکار کردیا، تو میں اسے لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچا، آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : کیا تمہارے پاس کوئی دلیل و ثبوت ہے ؟ میں نے کہا : نہیں، پھر آپ نے یہودی سے فرمایا : تم قسم کھاؤ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! تب تو یہ قسم کھا کر میرا مال لے جائے گا، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت : «إن الذين يشترون بعهد اللہ وأيمانهم ثمنا قليلا» ١ ؎ نازل فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن ابی اوفی (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٢٦٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں ، ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں (آل عمرآن : ٧٧ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2323) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2996

【48】

سورت آل عمران کے متعلق

انس (رض) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت : «لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون» ١ ؎ یا «من ذا الذي يقرض اللہ قرضا حسنا» ٢ ؎ نازل ہوئی۔ اس وقت ابوطلحہ (رض) کے پاس ایک باغ تھا، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرا باغ اللہ کی رضا کے لیے صدقہ ہے، اگر میں اسے چھپا سکتا (تو چھپاتا) اعلان نہ کرتا ٣ ؎ آپ ﷺ نے فرمایا : اسے اپنے رشتہ داروں کے لیے وقف کر دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس حدیث کو مالک بن انس نے اسحاق بن عبداللہ بن ابوطلحہ کے واسطہ سے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر : صحیح البخاری/الزکاة ٤٤ (١٤٦١) ، والوکالة ١٥ (٢٣١٨) ، والوصایا ١٧ (٢٧٥٨) ، وتفسیر آل عمران ٥ (٤٥٥٤) ، والأشربة ١٣ (٥٦١١) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٤ (٩٩٨) (تحفة الأشراف : ٧٠٤، و ٢٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے (آل عمران : ٩٢ ) ۔ ٢ ؎ : ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے (البقرہ : ٢٤٥ ) ۔ ٣ ؎ : کیونکہ چھپا کر صدقہ و خیرات کرنا اللہ کو زیادہ پسند ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1482) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2997

【49】

سورت آل عمران کے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس کھڑے ہو کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! (واقعی) حاجی کون ہے ؟۔ آپ نے فرمایا : وہ حاجی جس کا سر گردوغبار سے اٹ گیا ہو جس نے زیب و زینت اور خوشبو چھوڑ دی ہو، جس کے بدن سے بو آنے لگی ہو پھر ایک دوسرے شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا : کون سا حج سب سے بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ حج جس میں لبیک بآواز بلند پکارا جائے، اور ہدی اور قربانی کے جانوروں کا (خوب خوب) خون بہایا جائے ۔ ایک اور شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! («من استطاع سبیلاً» میں) «سبیل» سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا : زاد راہ (توشہ) اور سواری ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابن عمر (رض) کی اس حدیث کو ہم نہیں جانتے سوائے ابراہیم بن یزید خوزی مکی کی روایت سے، اور بعض محدثین نے ابراہیم بن یزید کے بارے میں ان کے حافظہ کے تعلق سے کلام کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٨١٣ (ضعیف جدا) (سند میں ابراہیم بن یزید خوزی سخت ضعیف ہے، لیکن العج والثج کا جملہ ابن ماجہ کی ایک حدیث سے ثابت ہے سنن ابن ماجہ : ٢٨٩٦ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، لکن جملة العج والثج ثبتت في حديث آخر، ابن ماجة (2896) ، صحيح ابن ماجة برقم (2341) ، ضعيف ابن ماجة (631) ، الإرواء (988) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2998

【50】

سورت آل عمران کے متعلق

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت «تعالوا ندع أبناءنا وأبناء کم ونساءنا ونساء کم» ١ ؎ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ اور حسن و حسین (رض) کو بلایا پھر فرمایا : یا اللہ ! یہ لوگ میرے اہل ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٨٧٥) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : آؤ ہم تم اپنے اپنے لڑکوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کو اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بلا لیں (آل عمرآن : ٦١ ) ۔ یہ آیت نجران کے عیسائیوں کے ساتھ آپ ﷺ کے معاملہ کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی ، معاملے میں دونوں فریقوں کو اپنے اپنے خاص اہل خانہ کو ساتھ لے کر قسم کھانی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹے کا جھوٹ سچے کی زندگی میں ظاہر کر دے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2999

【51】

سورت آل عمران کے متعلق

ابوغالب کہتے ہیں کہ ابوامامہ (رض) نے دمشق کی مسجد کی سیڑھیوں پر (حروراء کے مقتول خوارج کے) سر لٹکتے ہوئے دیکھے، تو کہا : یہ جہنم کے کتے ہیں، آسمان کے سایہ تلے بدترین مقتول ہیں جب کہ بہترین مقتول وہ ہیں جنہیں انہوں نے قتل کیا ہے، پھر انہوں نے یہ آیت «يوم تبيض وجوه وتسود وجوه» ١ ؎ پڑھی میں نے ابوامامہ (رض) سے کہا : کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ کہا : میں نے اسے اگر ایک بار یا دو بار یا تین بار یا چار بار یہاں تک انہوں نے سات بار گنا، نہ سنا ہوتا تو تم لوگوں سے میں اسے نہ بیان کرتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - ابوغالب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا نام حزور ہے۔ ٣ - اور ابوامامہ باہلی (رض) کا نام صدی بن عجلان ہے، وہ قبیلہ باہلہ کے سردار تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٢ (١٧٦) (تحفة الأشراف : ٤٩٣٥) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (176) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3000

【52】

سورت آل عمران کے متعلق

معاویہ بن حیدہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے قول «کنتم خير أمة أخرجت للناس» ١ ؎ کی تفسیر کرتے ہوئے سنا : تم ستر امتوں کا تتمہ (و تکملہ) ہو، تم اللہ کے نزدیک ان سب سے بہتر اور سب سے زیادہ باعزت ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - متعدد لوگوں نے بہز بن حکیم سے یہ حدیث اسی طرح روایت کی ہے، لیکن ان راویوں نے اس میں آیت «کنتم خير أمة أخرجت للناس» کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٤ (٤٢٨٧) (تحفة الأشراف : ١١٣٨٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے (آل عمران : ١١٠ ) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4287 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3001

【53】

سورت آل عمران کے متعلق

انس (رض) کہتے ہیں کہ جنگ احد میں نبی اکرم ﷺ کے سامنے کے چاروں دانت (رباعیہ) توڑ دیئے گئے، اور پیشانی زخمی کردی گئی، یہاں تک کہ خون آپ کے مبارک چہرے پر بہ پڑا۔ آپ نے فرمایا : بھلا وہ قوم کیوں کر کامیاب ہوگی جو اپنے نبی کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرے، جب کہ حال یہ ہو کہ وہ نبی انہیں اللہ کی طرف بلا رہا ہو۔ تو یہ آیت «ليس لک من الأمر شيء أو يتوب عليهم أو يعذبهم» ١ ؎ نازل ہوئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٢١ (تعلیقا في الترجمة) صحیح مسلم/الجھاد ٣٨ (١٧٩١) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٣ (٤٠٢٧) (تحفة الأشراف : ٧٨٧) ، و مسند احمد (٣/٩٩، ١٧٨، ٢٠١، ٢٠٦، ٢٥٢، ٢٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اے نبی ! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں ، اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرلے یا عذاب دے ، کیونکہ وہ ظالم ہیں (آل عمران : ١٢٨ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3002

【54】

سورت آل عمران کے متعلق

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے چہرے سے خون بہایا گیا، آپ کے دانت توڑ دیئے گئے، آپ کے کندھے پر پتھر مارا گیا، جس سے آپ کے چہرے پر خون بہنے لگا، آپ اسے پونچھتے جا رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے : وہ امت کیسے فلاح یاب ہوگی جس کا نبی انہیں اللہ کی طرف بلا رہا ہو اور وہ اس کے ساتھ ایسا (برا) سلوک کر رہے ہوں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت : «ليس لک من الأمر شيء أو يتوب عليهم أو يعذبهم فإنهم ظالمون» نازل فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - میں نے عبد بن حمید کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ یزید بن ہارون اس معاملے میں غلطی کر گئے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی انہوں نے اس حدیث کی روایت کرنے میں «ورمی رمية علی كتفه» کی بابت غلطی کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (3002) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3003

【55】

سورت آل عمران کے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احد کے دن فرمایا : اے اللہ ! لعنت نازل فرما ابوسفیان پر، اے اللہ ! لعنت نازل فرما حارث بن ہشام پر، اے اللہ ! لعنت نازل فرما صفوان بن امیہ پر ، تو آپ پر یہ آیت «ليس لک من الأمر شيء أو يتوب عليهم أو يعذبهم» نازل ہوئی۔ تو اللہ نے انہیں توبہ کی توفیق دی، انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور ان کا اسلام بہترین اسلام ثابت ہوا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - یہ روایت «عمر بن حمزة عن سالم عن أبيه» کے طریق سے غریب ہے، ٣ - زہری نے بھی اسے سالم سے اور انہوں نے بھی اپنے باپ سے روایت کیا ہے، ٤ - محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو عمر بن حمزہ کی روایت سے نہیں جانا بلکہ زہری کی روایت سے جانا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وراجع : صحیح البخاری/المغازي ٢١ (٤٠٦٩) (تحفة الأشراف : ٦٧٨٠) (صحیح) (سند میں عمر بن حمزہ بن عبد اللہ بن عمر ضعیف راوی ہیں، لیکن بخاری کی مذکورہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3004

【56】

سورت آل عمران کے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ چار افراد کے لیے بدعا فرماتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے آیت : «ليس لک من الأمر شيء أو يتوب عليهم أو يعذبهم فإنهم ظالمون» نازل فرمائی۔ پھر اللہ نے انہیں اسلام قبول کرنے کی ہدایت و توفیق بخش دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ یعنی : اس سند سے بطریق «نافع عن ابن عمر» ٢ - اس حدیث کو یحییٰ بن ایوب نے بھی ابن عجلان سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وراجع : صحیح البخاری/المغازي ٢١ (٤٠٦٩، ٤٠٧٠) (تحفة الأشراف : ٨٤٣٦) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3005

【57】

سورت آل عمران کے متعلق

اسماء بن حکم فزاری کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو کہتے ہوئے سنا : جب میں نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث سنی تو اللہ نے مجھے جتنا فائدہ پہنچانا چاہا پہنچایا، اور جب مجھ سے آپ کا کوئی صحابی حدیث بیان کرتا تو میں اسے قسم کھلاتا پھر جب وہ میرے کہنے سے قسم کھا لیتا تو میں اس کی تصدیق کرتا۔ اور بیشک مجھ سے ابوبکر (رض) نے حدیث بیان کی اور بالکل سچ بیان کی، کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا جو کوئی بھی شخص کوئی گناہ کرتا ہے پھر وہ کھڑا ہوتا ہے پھر پاکی حاصل کرتا ہے پھر نماز پڑھتا ہے، اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ اسے بخش دیتا ہے ، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : «والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذکروا الله» ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کو شعبہ اور دیگر کئی لوگوں نے عثمان بن مغیرہ سے روایت کیا ہے اور ان لوگوں نے اسے مرفوع روایت کیا ہے جب کہ مسعر اور سفیان نے عثمان بن مغیرہ سے روایت کیا ہے لیکن ان دونوں نے اسے مرفوع روایت نہیں کیا۔ اور بعض لوگوں نے اسے مسعر سے موقوفاً روایت کیا ہے۔ اور بعض لوگوں نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ اور سفیان ثوری نے عثمان بن مغیرہ سے موقوفاً روایت کیا ہے، ٢ - اسماء بن حکم سے اس روایت کے سوا کوئی دوسری روایت ہم نہیں جانتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٤٠٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہوجائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں (آل عمران : ١٣٥ ) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1359) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3006

【58】

سورت آل عمران کے متعلق

ابوطلحہ (رض) کہتے ہیں کہ احد کی لڑائی کے دن میں اپنا سر بلند کر کے (ادھر ادھر) دیکھنے لگا، اس دن کوئی ایسا نہ تھا جس کا سر نیند سے (بوجھل) اپنے سینے کے نیچے جھکا نہ جا رہا ہو، اللہ تعالیٰ کے قول «ثم أنزل عليكم من بعد الغم أمنة نعاسا» ١ ؎ کا مفہوم و مراد یہی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٢١ (٤٠٦٨) ، وتفسیر آل عمران ١١ (٤٥٦٢) (تحفة الأشراف : ٣٧٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پھر اس نے اس غم کے بعد تم پر امن نازل فرمایا اور تم میں ایک جماعت کو چین کی نیند آنے لگی (آل عمران : ١٥٤ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3007

【59】

سورت آل عمران کے متعلق

انس (رض) کہتے ہیں کہ ابوطلحہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم جنگ احد میں اپنی صف (پوزیشن) میں تھے اور ہم پر غنودگی طاری ہوگئی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اس دن غنودگی (نیند) نے آ گھیرا تھا، حالت یہ ہوگئی تھی کہ تلوار میرے ہاتھ سے چھوٹی جا رہی تھی، میں اسے پکڑ رہا تھا اور میرے ہاتھ سے گری جا رہی تھی، میں اسے سنبھال رہا تھا۔ دوسرا گروہ منافقوں کا تھا جنہیں صرف اپنی جانوں کی حفاظت کی فکر تھی، وہ لوگوں میں سب سے زیادہ بزدل، سب سے زیادہ مرعوب ہوجانے والے (ڈرپوک) اور حق کا سب سے زیادہ ساتھ چھوڑنے والے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٠٠٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3008

【60】

سورت آل عمران کے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) ارشاد باری «ما کان لنبي أن يغل» کے بارے میں کہتے ہیں : جنگ بدر کے دن (مال غنیمت میں آئی ہوئی) ایک سرخ رنگ کی چادر کھو گئی، بعض لوگوں نے کہا : شاید رسول اللہ ﷺ نے لے لی ہو تو آیت : «ما کان لنبي أن يغل» ١ ؎ نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - عبدالسلام بن حرب نے خصیف سے اسی جیسی روایت کی ہے، ٣ - اور بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق :«خصيف عن مقسم» روایت کی ہے، لیکن ان لوگوں نے اس روایت میں ابن عباس (رض) کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحروف ٣ (٣٩٧١) (تحفة الأشراف : ٦٤٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ناممکن ہے کہ نبی سے خیانت ہوجائے ، ہر خیانت کرنے والا خیانت کو لیے ہوئے قیامت کے دن حاضر ہوگا ، پھر ہر شخص کو اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ، اور وہ ظلم نہ کئے جائیں گے (آل عمران : ١٦١ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2788) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3009

【61】

سورت آل عمران کے متعلق

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مجھ سے ملے اور فرمایا : جابر ! کیا بات ہے میں تجھے شکستہ دل دیکھ رہا ہوں ؟ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے والد شہید کردیئے گئے، جنگ احد میں ان کے قتل کا سانحہ پیش آیا، اور وہ بال بچے اور قرض چھوڑ گئے ہیں، آپ نے فرمایا : کیا میں تمہیں اس چیز کی بشارت نہ دوں جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے ملاقات کے وقت کہا ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی سے بغیر پردہ کے کلام نہیں کیا (لیکن) اس نے تمہارے باپ کو زندہ کیا، پھر ان سے (بغیر پردہ کے) آمنے سامنے بات کی، کہا : اے میرے بندے ! مجھ سے کسی چیز کے حاصل کرنے کی تمنا و آرزو کر، میں تجھے دوں گا، انہوں نے کہا : رب ! مجھے دوبارہ زندہ فرما، تاکہ میں تیری راہ میں دوبارہ شہید کیا جاؤں، رب عزوجل نے فرمایا : میری طرف سے یہ فیصلہ پہلے ہوچکا ہے «أنهم إليها لا يرجعون» کہ لوگ دنیا میں دوبارہ نہ بھیجے جائیں گے ، راوی کہتے ہیں : آیت «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل اللہ أمواتا» ١ ؎ اسی سلسلہ میں نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - عبداللہ بن محمد بن عقیل نے اس حدیث کا کچھ حصہ جابر سے روایت کیا ہے، ٣ - اور اس حدیث کو ہم صرف موسیٰ بن ابراہیم کی روایت سے جانتے ہیں، ٤ - اسے علی بن عبداللہ بن مدینی اور کئی بڑے محدثین نے موسیٰ بن ابراہیم کے واسطہ سے ایسے ہی روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٩٠) ، والجھاد ١٦ (٢٨٠٠) (تحفة الأشراف : ٢٢٨٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے تم ان کو مردہ نہ سمجھو ، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس ، روزی پاتے ہیں۔ (آل عمران : ١٦٩ ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (190 - 2800) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3010

【62】

سورت آل عمران کے متعلق

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ان سے آیت «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل اللہ أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون» کی تفسیر پوچھی گئی تو انہوں نے کہا : لوگو ! سن لو، ہم نے (رسول اللہ ﷺ سے) اس کی تفسیر پوچھی تھی تو ہمیں بتایا گیا کہ شہداء کی روحیں سبز چڑیوں کی شکل میں ہیں، جنت میں جہاں چاہتی گھومتی پھرتی ہیں اور شام میں عرش سے لٹکی ہوئی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں۔ ایک بار تمہارے رب نے انہیں جھانک کر ایک نظر دیکھا اور پوچھا : تمہیں کوئی چیز مزید چاہیئے تو میں عطا کروں ؟ انہوں نے کہا : رب ! ہمیں مزید کچھ نہیں چاہیئے۔ ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں گھومتی ہیں۔ پھر (ایک دن) دوبارہ اللہ نے ان کی طرف جھانکا اور فرمایا : کیا تمہیں مزید کچھ چاہیئے تو میں عطا کر دوں ؟ جب انہوں نے دیکھا کہ (اللہ دینے پر ہی تلا ہوا ہے، بغیر مانگے اور لیے) چھٹکارا نہیں ہے تو انہوں نے کہا : ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں دوبارہ لوٹا دے، تاکہ ہم دنیا میں واپس چلے جائیں۔ پھر تیری راہ میں دوبارہ قتل کئے جائیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة (١٨٨٧) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٦ (٢٨٠١) (تحفة الأشراف : ٩٥٧٠) ، وسنن الدارمی/الجھاد ١٩ (٢٤٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : (حديث مسروق عن عبد اللہ بن مسعود) صحيح، (حديث أبي عبيدة عن عبد اللہ بن مسعود الذي فيه زيادة) ضعيف الإسناد، ابن ماجة (2801) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3011

【63】

سورت آل عمران کے متعلق

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کوئی اپنے مال کی زکاۃ ادا نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی گردن میں ایک سانپ ڈال دے گا ، پھر آپ نے اس کے ثبوت کے لیے قرآن کی یہ آیت «ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم اللہ من فضله» ١ ؎ پڑھی راوی نے ایک مرتبہ یہ کہا کہ آپ نے اس کی مناسبت سے یہ آیت «سيطوقون ما بخلوا به يوم القيامة» ٢ ؎ تلاوت فرمائی، اور فرمایا : جو شخص اپنے مسلمان بھائی کا مال جھوٹی قسم کھا کرلے لے وہ اللہ سے ایسی حالت میں ملے گا کہ اللہ اس سے برہم (اور سخت غصے میں) ہوگا ، پھر آپ نے اس کی مصداق آیت :«إن الذين يشترون بعهد الله» پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٢ (٢٤٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢ (١٧٨٤) (تحفة الأشراف : ٩٢٣٧، ٩٢٨٤) ، و مسند احمد (١/٣٧٧) ، وللشطر الثاني انظر حدیث رقم ١٢٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لیے نہایت بدتر ہے (آل عمران : ١٨٠ ) ۔ ٢ ؎ : عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے (آل عمران : ١٨٠ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مشكلة الفقر (60) ، التعليق الرغيب (1 / 68) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3012

【64】

سورت آل عمران کے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایک کوڑے برابر جگہ دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے، اس کو سمجھنے کے لیے چاہو تو یہ آیت پڑھ لو «فمن زحزح عن النار وأدخل الجنة فقد فاز وما الحياة الدنيا إلا متاع الغرور» ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥٠٢٨، و ١٥١١٦) ، وانظر : مسند احمد (٢/٣١٥، ٤٣٨، ٤٨٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا بیشک وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے (آل عمران : ١٨٥ ) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (1978) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3013

【65】

سورت آل عمران کے متعلق

ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے انہیں بتایا کہ مروان بن حکم نے اپنے دربان ابورافع سے کہا : ابن عباس (رض) کے پاس جاؤ اور ان سے کہو، اگر اپنے کیے پر خوش ہونے والا اور بن کیے پر تعریف چاہنے والا ہر شخص سزا کا مستحق ہوجائے، تب تو ہم سب ہی مستحق سزا بن جائیں گے، ابن عباس (رض) نے کہا : تمہیں اس آیت سے کیا مطلب ؟ یہ تو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، پھر ابن عباس (رض) نے یہ آیت «وإذ أخذ اللہ ميثاق الذين أوتوا الکتاب لتبيننه للناس ولا تکتمونه» ١ ؎ پڑھی اور «لا تحسبن الذين يفرحون بما أتوا ويحبون أن يحمدوا بما لم يفعلوا» ٢ ؎ کی تلاوت کی۔ اور کہا : نبی اکرم ﷺ نے ان (یہود) سے کسی چیز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے وہ چیز چھپالی، اور اس سے ہٹ کر کوئی اور چیز بتادی اور چلے گئے، پھر آپ پر یہ ظاہر کیا کہ آپ نے ان سے جو کچھ پوچھا تھا اس کے متعلق انہوں نے بتادیا ہے، اور آپ سے اس کی تعریف سننی چاہی، اور انہوں نے اپنی کتاب سے چھپا کر آپ کو جو جواب دیا اور آپ نے انہیں جو مخاطب کرلیا اس پر خوش ہوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر آل عمران ١٦ (٤٥٦٨) ، صحیح مسلم/المنافقین ٨ (٢٧٧٨) (تحفة الأشراف : ٥٤١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اور اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے جب عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں (آل عمران : ١٨٧ ) ۔ ٢ ؎: وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا ، اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں (آل عمران : ١٨٨ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3014

【66】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) کو کہتے ہوئے سنا : میں بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ میری عیادت کو تشریف لائے اس وقت مجھ پر بےہوشی طاری تھی، پھر جب مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا : میں اپنے مال میں کس طرح تقسیم کروں ؟ آپ یہ سن کر خاموش رہے، مجھے کوئی جواب نہیں دیا، پھر یہ آیات «يوصيكم اللہ في أولادکم للذکر مثل حظ الأنثيين» نازل ہوئیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسے کئی اور لوگوں نے بھی محمد بن منکدر سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٠٩٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے (النساء : ١١ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2728) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3015

【67】

None

اوطاس کے موقع پر غنیمت میں ہمیں کچھ ایسی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے مشرک شوہر موجود تھے کچھ مسلمانوں نے عورتوں سے صحبت کرنے کو مکروہ جانا ۱؎ تو اللہ تعالیٰ نے آیت «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم» ۱؎ نازل فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

【68】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ جنگ اوطاس کے موقع پر غنیمت میں ہمیں کچھ ایسی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے مشرک شوہر موجود تھے کچھ مسلمانوں نے عورتوں سے صحبت کرنے کو مکروہ جانا ١ ؎ تو اللہ تعالیٰ نے آیت «والمحصنات من النساء إلا ما ملکت أيمانکم» ١ ؎ نازل فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١١٣٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جبکہ غزوہ میں بطور مال غنیمت ہاتھ آئی شوہر دار عورتیں بھی اپنے مالکوں کے لیے حلال ہیں ، صرف ایک ماہواری استبراء رحم کے لیے انتظار کرنا ہے۔ ٢ ؎ : اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں (النساء : ٢٤ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1871) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3016 ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ جنگ اوطاس میں ہمیں کچھ ایسی قیدی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے شوہر ان کی قوم میں موجود تھے، تو لوگوں نے اس بات کا رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا، اس پر آیت «والمحصنات من النساء إلا ما ملکت أيمانکم» نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - ثوری نے عثمان بتی سے اور عثمان بتی نے ابوالخلیل سے اور ابوالخلیل نے ابو سعید خدری (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی، ٣ - امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث میں علقمہ سے روایت کا ذکر نہیں ہے۔ (جب کہ پچھلی سند میں ہے) اور میں نہیں جانتا کہ کسی نے اس حدیث میں ابوعلقمہ کا ذکر کیا ہو سوائے ہمام کے، ٤ - ابوالخلیل کا نام صالح بن ابی مریم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (3016) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3017

【69】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کبیرہ گناہ : اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، (ناحق) کسی کو قتل کرنا، جھوٹ کہنا یا جھوٹ بولنا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢ - اس کو روح بن عبادہ نے بھی شعبہ یہ روایت کیا ہے، لیکن (عبیداللہ کی جگہ عبداللہ بن ابی بکر کہا ہے، (عبیداللہ ہی صحیح ہے) لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٢٠٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث مولف ارشاد باری : «إن تجتنبوا کبآئر ما تنهون عنه» (النساء : 31) کی تفسیر میں لائے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (277) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3018

【70】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں بڑے سے بڑا گناہ نہ بتاؤں ؟ صحابہ نے عرض کیا : جی ہاں، اللہ کے رسول ! ضرور بتائیے۔ آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، آپ ﷺ پہلے ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر اٹھ بیٹھے اور فرمایا : جھوٹی گواہی دینا، یا جھوٹی بات کہنا ، آپ یہ بات باربار دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم اپنے جی میں کہنے لگے کاش آپ خاموش ہوجاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٩٠١، و ٢٣٠١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (277) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3019

【71】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

عبداللہ بن انیس جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بڑے گناہوں میں سب سے بڑے گناہ یہ ہیں : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ہے، جھوٹی قسم کھانا۔ تو جس کسی نے بھی ایسی قسم کھائی جس پر وہ مجبور کردیا گیا اور (اسی پر فیصلہ کا انحصار ہے) پھر اس نے اس میں مچھر کے پر کے برابر جھوٹ شامل کردیا تو اس کے دل میں ایک (کالا) نکتہ ڈال دیا جائے گا جو قیامت تک قائم اور باقی رہے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ابوامامہ انصاری ثعلبہ کے بیٹے ہیں اور ان کا نام ہمیں نہیں معلوم ہے، انہوں نے نبی ﷺ سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥١٤٧) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (3777 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3020

【72】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کبائر یہ ہیں : اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، یا کہا : جھوٹی قسم کھانا ۔ اس میں شعبہ کو شک ہوگیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان والنذور ١٦ (٦٦٧٥) ، والدیات ٢ (٦٨٧٠) ، والمرتدین ١ (٦٩٢٠) (تحفة الأشراف : ٨٨٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3021

【73】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ مرد جنگ کرتے ہیں، عورتیں جنگ نہیں کرتیں، ہم عورتوں کو آدھی میراث ملتی ہے (یعنی مرد کے حصے کا آدھا) تو اللہ تعالیٰ نے آیت «ولا تتمنوا ما فضل اللہ به بعضکم علی بعض» ١ ؎ نازل فرمائی۔ مجاہد کہتے ہیں : انہیں کے بارے میں آیت «إن المسلمين والمسلمات» ٢ ؎ بھی نازل ہوئی ہے، ام سلمہ پہلی مسافرہ ہیں جو ہجرت کر کے مدینہ آئیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ مرسل حدیث ہے، ٢ - اس حدیث کو بعض راویوں نے ابن ابی نجیح کے واسطہ سے مجاہد سے مرسلاً روایت کیا ہے، کہ ام سلمہ نے اس اس طرح کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٨٢١٠) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : اور اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض کے اوپر جو برتری دی ہے اس کی تمنا نہ کرو (النساء : ٣٢ ) ، اور اس ممانعت سے مراد ایسی تمنا ہے کہ یہ چیز اس کو کیوں ملی ہے ہم کو کیوں نہیں ملی ؟ یہ اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر پر اعتراض ہے ، ہاں یہ تمنا جائز ہے کہ اللہ ہمیں بھی ایسی ہی نعمت سے بہرہ ور فرما دے ، شرط یہ ہے کہ یہ چیز بھی اس کے لحاظ سے ممکنات میں سے ہو اپنے لیے کسی غیر ممکن اور محال چیز کی تمنا جائز نہیں ، جیسے یہ کہ اللہ مجھے بھی کسی دن امریکا کا صدر بنا دے۔ ٢ ؎ : بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں … (الاحزاب : ٣٥ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3022

【74】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول ! میں عورتوں کی ہجرت کا ذکر کلام پاک میں نہیں سنتی، تو اللہ تعالیٰ نے آیت «أني لا أضيع عمل عامل منکم من ذکر أو أنثی بعضکم من بعض» ١ ؎ نازل فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٨٢٤٩) (صحیح) (سند میں ” رجل من ولد أم سلمہ “ مبہم ہے، سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : تم میں سے کسی عمل صالح کرنے والے کے عمل کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت میں ہرگز ضائع نہیں کروں گا ، تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو (آل عمران : ١٩٥ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (3022) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3023

【75】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے، آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں، چناچہ میں نے آپ کے سامنے سورة نساء میں سے تلاوت کی، جب میں آیت «فكيف إذا جئنا من کل أمة بشهيد وجئنا بک علی هؤلاء شهيدا» ١ ؎ پر پہنچا تو رسول اللہ نے مجھے ہاتھ سے اشارہ کیا (کہ بس کرو، آگے نہ پڑھو) میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابولأحوص نے اعمش سے، اعمش نے ابراہیم سے اور ابراہیم نے علقمہ کے واسطہ سے، عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے، اور حقیقت میں وہ سند یوں ہے «إبراهيم عن عبيدة عن عبد الله» («عن علقمة» نہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ١٩ (٤١٩٤) ، وانظر مابعدہ (تحفة الأشراف : ٩٤٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پس کیا حال ہوگا اس وقت کہ جب ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے (النسا : ٤١ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3024

【76】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں آپ کے سامنے قرآن پڑھوں قرآن تو آپ ہی پر نازل ہوا ہے ؟ ، آپ نے فرمایا : اپنے سے ہٹ کر دوسرے سے سننا چاہتا ہوں ، تو میں نے سورة نساء پڑھی، جب میں آیت :«وجئنا بک علی هؤلاء شهيدا» پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ آپ کی دونوں آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث ابوالا ٔحوص کی روایت سے صحیح تر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر النساء ٩ (٤٥٨٢) ، وفضائل القرآن ٣٢ (٥٠٤٩) ، و ٣٣ (٥٠٥٠) ، و ٣٥ (٥٠٥٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤٠ (٨٠٠) ، وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ٩٤٠٢) ، و مسند احمد (١/٣٨٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3025 اس سند سے ابن مبارک نے اور ابن مبارک نے سفیان کے واسطہ سے اعمش سے معاویہ بن ہشام کی حدیث جیسی حدیث روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3025

【77】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے ہمارے لیے کھانا تیار کیا، پھر ہمیں بلا کر کھلایا اور شراب پلائی۔ شراب نے ہماری عقلیں ماؤف کردیں، اور اسی دوران نماز کا وقت آگیا، تو لوگوں نے مجھے (امامت کے لیے) آگے بڑھا دیا، میں نے پڑھا «قل يا أيها الکافرون لا أعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون» اے نبی ! کہہ دیجئیے : کافرو ! جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا، اور ہم اسی کو پوجتے ہیں جنہیں تم پوجتے ہو ، تو اللہ تعالیٰ نے آیت «يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سکاری حتی تعلموا ما تقولون» اے ایمان والو ! جب تم نشے میں مست ہو، تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو (النساء : ٤٣ ) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأشربة ١ (٣٦٧١) (تحفة الأشراف : ١٠١٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پھر بعد میں یہ حکم بھی منسوخ ہوگیا ، یعنی شراب بالکل حرام کردی گئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3026

【78】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے (ان کے والد) زبیر بن العوام (رض) سے، حرہ ١ ؎ کی نالی کے معاملہ میں، جس سے لوگ کھجور کے باغات کی سینچائی کرتے تھے، جھگڑا کیا، انصاری نے زبیر (رض) سے کہا کہ پانی کو بہنے دو تاکہ میرے کھیت میں چلا جائے ٢ ؎، زبیر نے انکار کیا، پھر وہ لوگ اس جھگڑے کو لے کر آپ ﷺ کے پاس پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے زبیر سے کہا : زبیر ! تم (اپنا کھیت) سینچ کر پانی پڑوسی کے کھیت میں جانے دو ، (یہ سن کر) انصاری غصہ ہوگیا، اس نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ وہ (زبیر) آپ کے پھوپھی کے بیٹے ہیں ؟ (یہ سن کر) آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا آپ نے کہا : زبیر ! اپنا کھیت سینچ لو، اور پانی اتنا بھر لو کہ منڈیروں تک پہنچ جائے ۔ زبیر کہتے ہیں : قسم اللہ کی میں گمان کرتا ہوں کہ آیت : «فلا وربک لا يؤمنون حتی يحكموک فيما شجر بينهم» سو قسم ہے تیرے رب کی ! یہ مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں (النساء : ٦٥ ) ۔ اسی مقدمہ کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ابن وہب نے بطریق : «الليث بن سعد ويونس عن الزهري عن عروة عن عبد اللہ بن الزبير» اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے، ٢ - اور شعیب بن ابی حمزہ نے بطریق : «الزهري عن عروة عن الزبير» روایت کی ہے اور انہوں نے اپنی روایت میں عبداللہ بن زبیر کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٣٦٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مدینہ میں ایک معروف جگہ ہے ٢ ؎ : زبیر (رض) کا کھیت انصاری کے کھیت سے پہلے اونچائی پر پڑتا تھا ، پہلے تو آپ ﷺ نے زبیر کو حکم دیا کہ ضرورت کے مطابق پانی لے کر پانی چھوڑ دو ، مگر جب انصاری نے الزام تراشی کردی تو آپ نے زبیر (رض) سے فرمایا کہ تم خوب خوب اپنا کھیت سیراب کر کے ہی پانی چھوڑ و جو تمہارا شرعی اور قانونی حق ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3027

【79】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

عبداللہ بن یزید (رض) سے روایت ہے کہ زید بن ثابت (رض) آیت : «فما لکم في المنافقين فئتين» کی تفسیر کے سلسلے میں کہتے ہیں احد کی لڑائی کے دن رسول اللہ ﷺ کے کچھ (ساتھی یعنی منافق میدان جنگ سے) لوٹ آئے ١ ؎ تو لوگ ان کے سلسلے میں دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ نے کہا : انہیں قتل کر دو ، اور دوسرے فریق نے کہا : نہیں، قتل نہ کرو تو یہ آیت «فما لکم في المنافقين فئتين» ١ ؎ نازل ہوئی، اور آپ نے فرمایا : مدینہ پاکیزہ شہر ہے، یہ ناپاکی و گندگی کو (إن شاء اللہ) ایسے دور کر دے گا جیسے آگ لوہے کی ناپاکی (میل و زنگ) کو دور کردیتی ہے۔ (یہ منافق یہاں رہ نہ سکیں گے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - عبداللہ بن یزید انصاری خطمی ہیں اور انہیں نبی اکرم ﷺ کی صحبت حاصل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل المدینة ١٠ (١٨٨٤) ، والمغازي ١٧ (٤٠٥٠) ، وتفسیر النساء ١٥ (٤٥٨٩) ، صحیح مسلم/المناسک ٨٨ (١٣٨٤) ، والمنافقین ٦ (٢٧٧٦) (تحفة الأشراف : ٣٧٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جہاد میں شریک نہ ہوئے۔ ٢ ؎ : تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو (النساء : ٨٨ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3028

【80】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن مقتول قاتل کو ساتھ لے کر آ جائے گا، اس کی پیشانی اور سر مقتول کے ہاتھ میں ہوں گے، مقتول کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، کہے گا : اے میرے رب ! اس نے مجھے قتل کیا تھا، (یہ کہتا ہوا) اسے لیے ہوئے عرش کے قریب جا پہنچے گا۔ راوی کہتے ہیں : لوگوں نے ابن عباس (رض) سے توبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم» ١ ؎ تلاوت کی، اور کہا کہ یہ آیت نہ منسوخ ہوئی ہے اور نہ ہی تبدیل، تو پھر اس کی توبہ کیوں کر قبول ہوگی ؟ ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس حدیث کو بعض راویوں نے عمر بن دینار کے واسطہ سے ابن عباس سے اسی طرح روایت کی ہے اس کو مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المحاربة (تعظیم الدم) ٢ (٤٠١٠) (تحفة الأشراف : ٦٣٠٣) (وانظر أیضا : سنن النسائی/المحاربة ٢ (٤٠٠ ¤ ٤- ٤٠٠٩) ، و ٤٨ (٤٨٧٠) ، وسنن ابن ماجہ/الدیات ٢ (٢٦٢١) ، و مسند احمد (١/٢٤٠، ٢٩٤، ٣٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے ، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا (النساء : ٩٣ ) ۔ ٢ ؎ : کسی مومن کو عمداً اور ناحق قتل کرنے والے کی توبہ قبول ہوگی یا نہیں ؟ اس بابت صحابہ میں اختلاف ہے ، ابن عباس (رض) کی رائے ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی ، ان کی دلیل یہی آیت ہے جوان کے بقول بالکل آخری آیت ہے ، جس کو منسوخ کرنے والی کوئی آیت نہیں اتری ، مگر جمہور صحابہ و سلف کی رائے ہے کہ قرآن کی دیگر آیات کا مفاد ہے کہ تمام گناہوں سے توبہ ہے ، جب مشرک سے توبہ کرنے والی کی توبہ قبول ہوگی تو قاتل عمد کی توبہ کیوں قبول نہیں ہوگی۔ البتہ یہ ہے کہ اللہ مقتول کو راضی کردیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3465 / التحقيق الثاني) ، التعليق الرغيب (3 / 203) ، الصحيحة (2697) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3029

【81】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ بنو سلیم کا ایک آدمی صحابہ کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا، اس کے ساتھ اس کی بکریاں بھی تھیں، اس نے ان لوگوں کو سلام کیا، ان لوگوں نے کہا : اس نے تم لوگوں کی پناہ لینے کے لیے تمہیں سلام کیا ہے، پھر ان لوگوں نے بڑھ کر اسے قتل کردیا، اس کی بکریاں اپنے قبضہ میں لے لیں۔ اور انہیں لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «يا أيها الذين آمنوا إذا ضربتم في سبيل اللہ فتبينوا ولا تقولوا لمن ألقی إليكم السلام لست مؤمنا» اے ایمان والو ! جب تم اللہ کی راہ میں جا رہے ہو تو تحقیق کرلیا کرو اور جو تم سے سلام کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں (النساء : ٩٤ ) نازل فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں اسامہ بن زید سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦١١٩) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3030

【82】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بیٹھے رہ جانے والے مومن برابر نہیں (النساء : ٩٥ ) نازل ہوئی تو عمرو بن ام مکتوم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، وہ نابینا تھے، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں، میں تو اندھا ہوں ؟ تو اللہ تعالیٰ نے آیت : «غير أولي الضرر» نازل فرمائی، یعنی مریض اور معذور لوگوں کو چھوڑ کر، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے پاس شانہ کی ہڈی اور دوات لے آؤ (یا یہ کہا) تختی اور دوات لے آؤ کہ میں لکھا کر دے دوں کہ تم معذور لوگوں میں سے ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس روایت میں عمرو بن ام مکتوم (رض) کہا گیا ہے، انہیں عبداللہ بن ام مکتوم بھی کہا جاتا ہے، وہ عبداللہ بن زائدہ ہیں، اور ام مکتوم ان کی ماں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٣١ (٢٨٣١) ، وتفسیر النساء ١٨ (٤٥٩٣، ٤٥٩٤) ، وفضائل القرآن ٤ (٤٩٩٠) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٠ (١٨٩٨) (تحفة الأشراف : ١٨٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بیٹھے رہ جانے والے مومن برابر نہیں (النساء : ٩٥ ) ، اس کے بعد والے ٹکڑے نے بیٹھے رہ جانے والوں میں سے معذروں کو مستثنیٰ کردیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3031

【83】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

عبداللہ بن عباس (رض) آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين غير أولي الضرر» کی تفسیر میں کہتے ہیں : جب جنگ بدر کا موقع آیا تو اس موقع پر یہ آیت جنگ بدر میں شریک ہونے والے اور نہ شریک ہونے والے مسلمانوں کے متعلق نازل ہوئی۔ تو عبداللہ بن جحش اور ابن ام مکتوم (رض) دونوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم دونوں اندھے ہیں کیا ہمارے لیے رخصت ہے کہ ہم جہاد میں نہ جائیں ؟ تو آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين غير أولي الضرر» نازل ہوئی، اور اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو بیٹھے رہنے والوں پر ایک درجہ فضیلت دی ہے۔ ان بیٹھ رہنے والوں سے مراد اس آیت میں غیر معذور لوگ ہیں، باقی رہے معذور لوگ تو وہ مجاہدین کے برابر ہیں۔ اللہ نے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر اجر عظیم کے ذریعہ فضیلت دی ہے۔ اور بیٹھ رہنے والے مومنین پر اپنی جانب سے ان کے درجے بڑھا کر فضیلت دی ہے۔ اور یہ بیٹھ رہنے والے مومنین وہ ہیں جو بیمار و معذور نہیں ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے ابن عباس (رض) کی روایت سے حسن غریب ہے، ٢ - مقسم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عبداللہ بن حارث کے آزاد کردہ غلام ہیں، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ابن عباس کے آزاد کردہ غلام ہیں اور مقسم کی کنیت ابوالقاسم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٥ (٣٩٥٤) ، وتفسیر النساء ١٩ (٤٥٩٥) (تحفة الأشراف : ٦٤٩٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3032

【84】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے مروان بن حکم کو مسجد میں بیٹھا ہوا دیکھا تو میں بھی آگے بڑھ کر ان کے پہلو میں جا بیٹھا انہوں نے ہمیں بتایا کہ زید بن ثابت (رض) نے انہیں خبر دی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں املا کرایا «‏‏‏‏ (لا يستوي القاعدون من المؤمنين» «والمجاهدون في سبيل الله» گھروں میں بیٹھ رہنے والے مسلمان، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے دونوں برابر نہیں ہوسکتے اسی دوران ابن ام مکتوم آپ ﷺ کے پاس آ پہنچے اور آپ اس آیت کا ہمیں املا کرا رہے تھے، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! قسم اللہ کی، اگر میں جہاد کی طاقت رکھتا تو ضرور جہاد کرتا، وہ نابینا شخص تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر آیت «غير أولي الضرر» نازل فرمائی اور جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت آپ کی ران (قریب بیٹھے ہونے کی وجہ سے) میری ران پر تھی، وہ (نزول وحی کے دباؤ سے) بوجھل ہوگئی، لگتا تھا کہ میری ران پس جائے گی۔ پھر (جب نزول وحی کی کیفیت ختم ہوگئی) تو آپ کی پریشانی دور ہوگئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسی طرح کئی راویوں نے زہری سے اور زہری نے سہل بن سعد (رض) سے روایت کی ہے، ٣ - معمر نے زہری سے یہ حدیث قبیصہ بن ذویب کے واسطہ سے، قبیصہ نے زید بن ثابت سے روایت کی ہے، اور اس حدیث میں ایک روایت رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی کی ایک تابعی سے ہے، روایت کیا ہے سہل بن سعد انصاری (صحابی) نے مروان بن حکم (تابعی) سے۔ اور مروان نے رسول اللہ ﷺ سے نہیں سنا ہے، وہ تابعی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٣١ (٢٨٣٢) ، وتفسیر النساء ١٩ (٤٥٩٢) (تحفة الأشراف : ٣٧٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3033

【85】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

یعلیٰ بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عمر (رض) سے کہا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : «أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنکم» تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں پریشان کریں گے (النساء : ١٠١ ) ، اور اب تو لوگ امن و امان میں ہیں (پھر قصر کیوں کر جائز ہوگی ؟ ) عمر (رض) نے کہا : جو بات تمہیں کھٹکی وہ مجھے بھی کھٹک چکی ہے، چناچہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا : یہ اللہ کی جانب سے تمہارے لیے ایک صدقہ ہے جو اللہ نے تمہیں عنایت فرمایا ہے، پس تم اس کے صدقے کو قبول کرلو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٨٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٧٠ (١١٩٩) ، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ١ (١٤٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٣ (١٠٦٥) (تحفة الأشراف : ١٠٦٥٩) ، و مسند احمد (١/٢٥، ٣٦) ، وسنن الدارمی/الصلاة ١٧٩ (١٥٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1065) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3034

【86】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ضجنان اور عسفان (نامی مقامات) کے درمیان قیام فرما ہوئے، مشرکین نے کہا : ان کے یہاں ایک نماز ہوتی ہے جو انہیں اپنے باپ بیٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے، اور وہ نماز عصر ہے، تو تم پوری طرح تیاری کرلو پھر ان پر یک بارگی ٹوٹ پڑو۔ (اس پر) جبرائیل (علیہ السلام) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو حکم دیا کہ اپنے صحابہ کو دو حصوں میں تقسیم کردیں (ان میں سے) ایک گروہ کے ساتھ آپ نماز پڑھیں اور دوسرا گروہ ان کے پیچھے اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار لے کر کھڑا رہے۔ پھر دوسرے گروہ کے لوگ آئیں اور آپ کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں پھر یہ (پہلے گروہ والے لوگ) اپنی ڈھالیں اور ہتھیار لے کر ان کے پیچھے کھڑے رہیں ١ ؎ اس طرح ان سب کی ایک ایک رکعت ہوگی اور رسول اللہ ﷺ کی دو رکعتیں ہوں گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس سند سے عبداللہ بن شقیق کی روایت سے جسے وہ ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن مسعود، زید بن ثابت، ابن عباس، جابر، ابوعیاش زرقی، ابن عمر، حذیفہ، ابوبکرہ اور سہل بن ابوحشمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اور ابوعیاش کا نام زید بن صامت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ١٣٥٦٦) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : یہ اشارہ ہے اس آیت کی طرف «وإذا کنت فيهم فأقمت لهم الصلاة فلتقم طآئفة منهم معک وليأخذوا أسلحتهم» (النساء : ١٠٢ ) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3035

【87】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

قتادہ بن نعمان (رض) کہتے ہیں کہ (انصار) میں سے ایک خاندان ایسا تھا، جنہیں بنو ابیرق کہا جاتا تھا۔ اور وہ تین بھائی تھے، بشر، بشیر اور مبشر، بشیر منافق تھا، شعر کہتا تھا اور صحابہ کی ہجو کرتا تھا، پھر ان کو بعض عرب کی طرف منسوب کر کے کہتا تھا : فلان نے ایسا ایسا کہا، اور فلاں نے ایسا ایسا کہا ہے۔ صحابہ نے یہ شعر سنا تو کہا : اللہ کی قسم ! یہ کسی اور کے نہیں بلکہ اسی خبیث کے کہے ہوئے ہیں - یا جیسا کہ راوی نے «خبیث» کی جگہ «الرجل» کہا - انہوں (یعنی صحابہ) نے کہا : یہ اشعار ابن ابیرق کے کہے ہوئے ہیں، وہ لوگ زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں ہی میں محتاج اور فاقہ زدہ لوگ تھے، مدینہ میں لوگوں کا کھانا کھجور اور جو ہی تھا، جب کسی شخص کے یہاں مالداری و کشادگی ہوجاتی اور کوئی غلوں کا تاجر شام سے سفید آٹا (میدہ) لے کر آتا تو وہ مالدار شخص اس میں سے کچھ خرید لیتا اور اسے اپنے کھانے کے لیے مخصوص کرلیتا، اور بال بچے کھجور اور جو ہی کھاتے رہتے۔ (ایک بار ایسا ہوا) ایک مال بردار شتربان شام سے آیا تو میرے چچا رفاعہ بن زید نے میدے کی ایک بوری خرید لی اور اسے اپنے اسٹاک روم میں رکھ دی، اور اس اسٹور روم میں ہتھیار، زرہ اور تلوار بھی رکھی ہوئی تھی۔ ان پر ظلم و زیادتی یہ ہوئی کہ گھر کے نیچے سے اس اسٹاک روم میں نقب لگائی گئی اور راشن اور ہتھیار سب کا سب چرا لیا گیا، صبح کے وقت میرے چچا رفاعہ میرے پاس آئے اور کہا : میرے بھتیجے آج کی رات تو مجھ پر بڑی زیادتی کی گئی۔ میرے اسٹور روم میں نقب لگائی گئی ہے اور ہمارا راشن اور ہمارا ہتھیار سب کچھ چرا لیا گیا ہے۔ ہم نے محلے میں پتہ لگانے کی کوشش کی اور لوگوں سے پوچھ تاچھ کی تو ہم سے کہا گیا کہ ہم نے بنی ابیرق کو آج رات دیکھا ہے، انہوں نے آگ جلا رکھی تھی، اور ہمارا خیال ہے کہ تمہارے ہی کھانے پر (جشن) منا رہے ہوں گے۔ (یعنی چوری کا مال پکا رہے ہوں گے) جب ہم محلے میں پوچھ تاچھ کر رہے تھے تو ابوابیرق نے کہا : قسم اللہ کی ! ہمیں تو تمہارا چور لبید بن سہل ہی لگتا ہے، لبید ہم میں ایک صالح مرد اور مسلمان شخص تھے، جب لبید نے سنا کہ بنو ابیرق اس پر چوری کا الزام لگا رہے ہیں تو انہوں نے اپنی تلوار سونت لی، اور کہا میں چور ہوں ؟ قسم اللہ کی ! میری یہ تلوار تمہارے بیچ رہے گی یا پھر تم اس چوری کا پتہ لگا کر دو ۔ لوگوں نے کہا : جناب ! آپ اپنی تلوار ہم سے دور ہی رکھیں، آپ چور نہیں ہوسکتے، ہم نے محلے میں مزید پوچھ تاچھ کی، تو ہمیں اس میں شک نہیں رہ گیا کہ بنو ابیرق ہی چور ہیں۔ میرے چچا نے کہا : بھتیجے ! اگر تم رسول اللہ ﷺ کے پاس جاتے اور آپ سے اس (حادثے) کا ذکر کرتے (تو ہوسکتا ہے میرا مال مجھے مل جاتا) قتادہ بن نعمان (رض) کہتے ہیں : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا، اور عرض کیا : ہمارے ہی لوگوں میں سے ایک گھر والے نے ظلم و زیادتی کی ہے۔ انہوں نے ہمارے چچا رفاعہ بن زید (کے گھر) کا رخ کیا ہے اور ان کے اسٹور روم میں نقب لگا کر ان کا ہتھیار اور ان کا راشن (کھانا) چرا لے گئے ہیں، تو ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ہتھیار ہمیں واپس دے دیں۔ راشن (غلے) کی واپسی کا ہم مطالبہ نہیں کرتے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں اس بارے میں مشورہ (اور پوچھ تاچھ) کے بعد ہی کوئی فیصلہ دوں گا ۔ جب یہ بات بنو ابیرق نے سنی تو وہ اپنی قوم کے ایک شخص کے پاس آئے، اس شخص کو اسیر بن عروہ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے اس سے اس معاملے میں بات چیت کی اور محلے کے کچھ لوگ بھی اس معاملے میں ان کے ساتھ ایک رائے ہوگئے۔ اور ان سب نے (رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کر) کہا : اللہ کے رسول ! قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا دونوں ہم ہی لوگوں میں سے ایک گھر والوں پر جو مسلمان ہیں اور بھلے لوگ ہیں بغیر کسی گواہ اور بغیر کسی ثبوت کے چوری کا الزام لگاتے ہیں۔ آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : «ومن يكسب إثما فإنما يكسبه علی نفسه» إلی قولہ «إثما مبينا» ٣ ؎ اس سے اشارہ نبی ابیرق کی اس بات کی طرف ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ چوری لبید بن سہل نے کی ہے۔ اور آگے اللہ نے فرمایا : «ولولا فضل اللہ عليك ورحمته» سے «فسوف نؤتيه أجرا عظيما» ٤ ؎ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو وہ (بنی ابیرق) ہتھیار رسول اللہ کے پاس لے آئے۔ اور آپ نے رفاعہ کو لوٹا دیئے، قتادہ کہتے ہیں : میرے چچا بوڑھے تھے اور اسلام لانے سے پہلے زمانہ جاہلیت ہی میں ان کی نگاہیں کمزور ہوچکی تھیں، اور میں سمجھتا تھا کہ ان کے ایمان میں کچھ خلل ہے لیکن جب میں ہتھیار لے کر اپنے چچا کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا : اے میرے بھتیجے ! اسے میں اللہ کی راہ میں صدقہ میں دیتا ہوں، اس وقت میں نے جان لیا (اور یقین کرلیا) کہ چچا کا اسلام پختہ اور درست تھا (اور ہے) جب قرآن کی آیتیں نازل ہوئی تو بشیر مشرکوں میں جا شامل ہوا۔ اور سلافہ بنت سعد بن سمیہ کے پاس جا ٹھہرا، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت «ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولی ونصله جهنم وساءت مصيرا إن اللہ لا يغفر أن يشرک به ويغفر ما دون ذلک لمن يشاء ومن يشرک بالله فقد ضل ضلالا بعيدا» نازل فرمائی ٥ ؎ جب وہ سلافہ کے پاس جا کر ٹھہرا تو حسان بن ثابت (رض) نے اپنے چند اشعار کے ذریعہ اس کی ہجو کی، (یہ سن کر) اس نے سدافہ بنت سعد کا سامان اپنے سر پر رکھ کر گھر سے نکلی اور میدان میں پھینک آئی۔ پھر (اس سے) کہا : تم نے ہمیں حسان کے شعر کا تحفہ دیا ہے ؟ تم سے مجھے کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، اور ہم محمد بن سلمہ حرانی کے سوا کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مرفوع کیا ہو، ٢ - یونس بن بکیر اور کئی لوگوں نے اس حدیث کو محمد بن اسحاق سے اور محمد بن اسحاق نے عاصم بن عمر بن قتادہ سے مرسلاً روایت کیا ہے، اور انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ عاصم نے اپنے باپ سے اور انہوں نے ان کے دادا سے روایت کی ہے، ٣ - قتادہ بن نعمان، ابو سعید خدری (رض) کے اخیافی بھائی ہیں، ٤ - ابو سعید خدری سعد بن مالک بن سنان ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٠٧٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یقیناً ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ آپ لوگوں میں اس بصیرت کے مطابق فیصلہ کریں جس سے اللہ نے آپ کو نوازا ہے ، اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو (النساء : ١٠٥ ) ۔ ٢ ؎ : اور ان کی طرف سے جھگڑا نہ کرو جو خود اپنی ہی خیانت کرتے ہیں ، یقیناً دغا باز ، گنہگار اللہ تعالیٰ کو اچھا نہیں لگتا ، وہ لوگوں سے تو چھپ جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپ سکتے ، وہ راتوں کے وقت جب کہ اللہ کے ناپسندیدہ باتوں کے خفیہ مشورے کرتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کے پاس ہوتا ہے ، ان کے تمام اعمال کو وہ گھیرے ہوئے ہے ، ہاں ، تو یہ تم لوگ ہو کہ جنہوں نے ان لوگوں کی طرف سے دنیا کی زندگی میں جھگڑا کرلیا (ان کی حمایت کردی) لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن ان کی حمایت کون کرے گا ؟ اور وہ کون ہے جو ان کے وکیل بن کر کھڑا ہو سکے گا ، جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وہ اللہ کو بخشنے والا اور مہربانی کر والا پائے گا (النساء : ١٠٧ تا ١١٠ ) ۔ ٣ ؎ : اور جو گناہ کرتا ہے اس کا بوجھ اسی پر ہے اور اللہ بخوبی جاننے والا اور پوری حکمت والا ہے ، اور جو شخص کوئی گناہ یا خطا کر کے کسی بےگناہ کے ذمہ تھوپ دے ، اس نے بہت بڑا بہتان اٹھایا اور کھلا گناہ کیا (النساء : ١١١ -١١٢) ۔ ٤ ؎ : اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و رحم تجھ پر نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے تو تجھے بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھا ، دراصل یہ اپنے آپ کو ہی گمراہ کرتے ہیں ، یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب و حکمت اتاری ہے اور تجھے وہ سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا تھا ، اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے ، ان کے اکثر مصلحتیٰ مشورے خیر سے عاری ہیں ، ہاں ، بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے ارادے سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑا ثواب دیں گے۔ ٥ ؎ : ہدایت کے واضح ہونے کے بعد جو شخص رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرے گا اور مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلے گا تو جدھر کا وہ رخ کرے گا ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے ، اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے۔ اور جہنم بری جگہ ہے ، اللہ اسے معاف نہیں کرسکتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے ، اور شرک کے سوا جو چیز بھی اللہ جس کے لیے چاہے گا معاف کر دے گا۔ اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا وہ بہت بڑی گمراہی میں جا پڑے گا (النساء : ١١٥ ، ١١٦ ) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3036

【88】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ قرآن میں کوئی آیت مجھے اس آیت : «إن اللہ لا يغفر أن يشرک به ويغفر ما دون ذلک لمن يشاء» اللہ اس بات کو معاف نہیں کرسکتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، ہاں اس کے سوا جس کسی بھی چیز کو چاہے گا معاف کر دے گا (النساء : ١١٦ ) ، سے زیادہ محبوب و پسندیدہ نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ابوفاختہ کا نام سعید بن علاقہ ہے، ٣ - ثویر کی کنیت ابوجہم ہے اور وہ کوفہ کے رہنے والے ہیں تابعی ہیں اور ابن عمر اور ابن زبیر سے ان کا سماع ہے، ابن مہدی ان پر کچھ طعن کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠١١١) (ضعیف الإسناد) (سند میں ثویر شیعی اور ضعیف راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3037

【89】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت «من يعمل سوءا يجز به» جو کوئی برائی کرے گا ضرور اس کا بدلہ پائے گا (النساء : ١٢٣ ) ، نازل ہوئی تو یہ بات مسلمانوں پر بڑی گراں گزری، اس کی شکایت انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے کی، تو آپ نے فرمایا : حق کے قریب ہوجاؤ، اور سیدھے رہو، مومن کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے اس میں اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ آدمی کو کوئی کانٹا چبھ جائے یا اسے کوئی مصیبت پہنچ جائے (تو اس کے سبب سے بھی اس کے گناہ جھڑ جاتے ہیں) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ١٤ (٢٥٧٤) (تحفة الأشراف : ١٤٥٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج الطحاوية (390) ، الضعيفة تحت الحديث (2924) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3038

【90】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا اس وقت آپ پر یہ آیت : «من يعمل سوءا يجز به ولا يجد له من دون اللہ وليا ولا نصيرا» نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : ابوبکر ! کیا میں تمہیں ایک آیت جو (ابھی) مجھ پر اتری ہے نہ پڑھا دوں ؟ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیوں نہیں ؟ ابوبکر (رض) کہتے ہیں : تو آپ نے مجھے (مذکورہ آیت) پڑھائی۔ میں نہیں جانتا کیا بات تھی، مگر میں نے اتنا پایا کہ کمر ٹوٹ رہی ہے تو میں نے اس کی وجہ سے انگڑائی لی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوبکر کیا حال ہے ! میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، بھلا ہم میں کون ہے ایسا جس سے کوئی برائی سرزد نہ ہوتی ہو ؟ اور حال یہ ہے کہ ہم سے جو بھی عمل صادر ہوگا ہمیں اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (گھبراؤ نہیں) ابوبکر تم اور سارے مومن لوگ یہ (چھوٹی موٹی) سزائیں تمہیں اسی دنیا ہی میں دے دی جائیں گی، یہاں تک کہ جب تم اللہ سے ملو گے تو تمہارے ذمہ کوئی گناہ نہ ہوگا، البتہ دوسروں کا حال یہ ہوگا کہ ان کی برائیاں جمع اور اکٹھی ہوتی رہیں گی جن کا بدلہ انہیں قیامت کے دن دیا جائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، اور اس کی سند میں کلام ہے، ٢ - موسیٰ بن عبیدہ حدیث میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں، انہیں یحییٰ بن سعید اور احمد بن حنبل نے ضعیف کہا ہے۔ اور مولی بن سباع مجہول ہیں، ٣ - اور یہ حدیث اس سند کے علاوہ سند سے ابوبکر سے مروی ہے، لیکن اس کی کوئی سند بھی صحیح نہیں ہے، ٤ - اس باب میں ام المؤمنین عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٦٠٤) (ضعیف الإسناد) (سند میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہے، اور مولی بن سباع مجہول ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (1237) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3039

【91】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ام المؤمنین سودہ (رض) کو ڈر ہوا کہ نبی اکرم ﷺ انہیں طلاق دے دیں گے، تو انہوں نے عرض کیا : آپ ہمیں طلاق نہ دیں، اور مجھے اپنی بیویوں میں شامل رہنے دیں اور میری باری کا دن عائشہ (رض) کو دے دیں، تو آپ نے ایسا ہی کیا، اس پر آیت «فلا جناح عليهما أن يصلحا بينهما صلحا والصلح خير» کوئی حرج نہیں کہ دونوں (میاں بیوی) صلح کرلیں اور صلح بہتر ہے (النساء : ١٢٨ ) ، تو جس بات پر بھی انہوں نے صلح کرلی، وہ جائز ہے۔ لگتا ہے کہ یہ ابن عباس (رض) کا قول ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦١٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2020) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3040

【92】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ آخری آیت جو نازل ہوئی یا آخری چیز جو نازل کی گئی ہے وہ یہ آیت ہے «يستفتونک قل اللہ يفتيكم في الکلالة» ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٦٦ (٤٣٦٤) ، وتفسیر النساء ٢٧ (٤٦٠٥) ، والفرائض ١٤ (٦٧٤٤) ، صحیح مسلم/الفرائض ٣ (١٦١٨) ، سنن ابی داود/ الفرائض ٣ (٢٨٨٨) (تحفة الأشراف : ١٧٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آپ سے فتوی پوچھتے ہیں ، آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتوی دیتا ہے اس آدمی کے بارے میں جس کی کوئی اولاد نہ ہو ، نہ ہی ماں باپ ، اللہ حکم دیتا ہے کہ ایسے آدمی کی اگر ایک بہن ہو تو اس کو جائیداد کا آدھا حصہ مل جائے گا ، اگر دو بہن ہوں تو ان دونوں کو دو تہائی حصہ ملے گا اور اگر بھائی بہن مل کر ہوں تو ایک بھائی دو بہن کے برابر حصے ملے گا۔ (النساء : ١٧٦ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2570) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3041

【93】

سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! «يستفتونک قل اللہ يفتيكم في الکلالة» کی تفسیر کیا ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس کے سلسلہ میں تو تمہارے لیے آیت صیف ١ ؎ کافی ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ١٩٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آیت «صیف» گرمی کے موسم میں حجۃ الواداع کے راستہ میں نازل ہوئی۔ اور «آیت صیف» کے نام سے مشہور ہوئی۔ پوری آیت یوں ہے : «يستفتونک قل اللہ يفتيكم في الکلالة إن امرأ هلک ليس له ولد ــ إلى ــ فللذکر مثل حظ الأنثيين» تک (لوگ تجھ سے فتویٰ پوچھتے ہیں کہہ دو اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں بتاتا ہے) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2571) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3042

【94】

تفسیر سورت مائدہ

طارق بن شہاب (رض) سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے عمر بن خطاب (رض) سے کہا : امیر المؤمنین ! اگر یہ آیت «اليوم أکملت لکم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لکم الإسلام دينا» آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا (المائدہ : ٣ ) ، ہمارے اوپر (ہماری توریت میں) نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے جس دن وہ نازل ہوئی تھی، عمر بن خطاب (رض) نے اس سے کہا : مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی۔ یہ آیت یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کو جمعہ کے دن نازل ہوئی تھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٣ (٤٥) ، والمغازي ٧٧ (٤٤٠٧) ، وتفسیر المائدة ٢ (٤٦٠٦) ، والإعتصام ١ (٧٢٦٨) ، صحیح مسلم/التفسیر (٣٠١٧) ، سنن النسائی/الحج ١٩٤ (٣٠٠٦) ، والإیمان ١٨ (٥٠١٥) (تحفة الأشراف : ١٠٤٦٨) ، و مسند احمد (١/٢٨، ٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے اچھا اور خوشی کا دن اور کون سا ہوگا ، یہ دونوں دن تو ہمارے لیے عید اور خوشی کے دن ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3043

【95】

تفسیر سورت مائدہ

عمار بن ابی عمار کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے آیت «اليوم أکملت لکم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لکم الإسلام دينا» پڑھی، ان کے پاس ایک یہودی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا : اگر یہ آیت ہم (یہودیوں) پر نازل ہوئی ہوتی تو جس دن یہ آیت نازل ہوئی ہے اس دن کو ہم عید (تہوار) کا دن بنا لیتے یہ سن کر ابن عباس (رض) نے کہا : یہ آیت عید ہی کے دن نازل ہوئی ہے۔ اس دن جمعہ اور عرفہ کا دن تھا۔ (اور یہ دونوں دن مسلمانوں کی عید کے دن ہیں) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث ابن عباس کی روایت سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٢٩٦) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3044

【96】

تفسیر سورت مائدہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوتا ہے، (کبھی خالی نہیں ہوتا) بخشش و عطا کرتا رہتا ہے، رات و دن لٹانے اور اس کے دیتے رہنے سے بھی کمی نہیں ہوتی، آپ نے فرمایا : کیا تم لوگوں نے دیکھا (سوچا ؟ ) جب سے اللہ نے آسمان پیدا کیے ہیں کتنا خرچ کرچکا ہے ؟ اتنا کچھ خرچ کر چکنے کے باوجود اللہ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کچھ بھی کمی نہیں ہوئی۔ اس کا عرش پانی پر ہے، اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے وہ اسے بلند کرتا اور جھکاتا ہے (جسے چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کم) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ یہ حدیث اس آیت «وقالت اليهود يد اللہ مغلولة غلت أيديهم ولعنوا بما قالوا بل يداه مبسوطتان ينفق كيف يشاء» ١ ؎ کی تفسیر ہے، اس حدیث کے بارے میں ائمہ دین کی روایت یہ ہے کہ ان پر ویسے ہی ایمان لائیں گے جیسے کہ ان کا ذکر آیا ہے، ان کی نہ کوئی تفسیر کی جائے گی اور نہ ہی کسی طرح کا وہم و قیاس لڑایا جائے گا۔ ایسا ہی بہت سے ائمہ کرام : سفیان ثوری، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ، ابن مبارک وغیرہم نے کہا ہے۔ یہ چیزیں ایسی ہی بیان کی جائیں گی جیسی بیان کی گئی ہیں اور ان پر ایمان رکھا جائے گا لیکن ان کی کیفیت کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر ھود ٢ (٤٦٨٤) ، والتوحید ١٩ (٧٤١١) ، و ٢٢ (٧٤١٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ١١ (٩٩٣) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٩٧) (تحفة الأشراف : ١٣٨٦٣) ، و مسند احمد (٢/٣١٣، ٥٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، انہی کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں اور ان کے اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں ، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے (المائدہ : ٦٤ ) ۔ ٢ ؎ : یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے جن چیزوں کا ذکر کیا ہے اس کی نہ تو تاویل کی جائے گی اور نہ ہی کوئی تفسیر ، یعنی یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کا ہاتھ ایسا ایسا ہے بلکہ جیسی اس کی ذات ہے ایسے ہی اس کا ہاتھ بھی ہے ، اس کی کیفیت بیان کئے بغیر اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (197) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3045

【97】

تفسیر سورت مائدہ

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی حفاظت و نگرانی کی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب آیت «والله يعصمک من الناس» اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچائے گا (المائدہ : ٦٧ ) ، نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا سر خیمہ سے باہر نکالا اور پہرہ داروں سے کہا : تم (اپنے گھروں کو) لوٹ جاؤ کیونکہ میری حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لے لی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٦٢١٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اللہ کا یہ وعدہ نبی ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ خاص تھا ، مسلمانوں کے دوسرے ذمہ دار اپنی حفاظت کے لیے پہرہ داری کا نظام اپنا سکتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3046 اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ بعض نے یہ حدیث جریری کے واسطہ سے، عبداللہ بن شقیق سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کی حفاظت و نگہبانی کی جاتی تھی، اور انہوں نے اس روایت میں عائشہ (رض) کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3046

【98】

تفسیر سورت مائدہ

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوگئے تو انہیں ان کے علماء نے روکا مگر وہ لوگ باز نہ آئے، اس کے باوجود وہ (علماء) ان کی مجلسوں میں ان کے ساتھ بیٹھے، ان کے ساتھ مل کر مل کر کھائے پئے تو اللہ نے بعض کے دل بعض سے ملا دیئے ١ ؎ اور ان پر داود اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت بھیجی، اور ایسا اس وجہ سے ہوا کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور مقررہ حدود سے آگے بڑھ جاتے تھے ، پھر رسول اللہ ﷺ سنبھل کر بیٹھ گئے۔ حالانکہ آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا : نہیں، قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ! تم اس وقت تک نجات نہ پاؤ گے جب تک کہ تم ان بدکاروں کو برائی سے روک نہ دو ۔ ان کو بھلائی کی طرف موڑ نہ دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کہتے ہیں : یزید نے کہا کہ سفیان ثوری اس روایت میں عبداللہ بن مسعود کا نام نہیں لیتے ہیں، ٣ - یہ حدیث محمد بن مسلم بن ابی الوضاح سے بھی روایت کی گئی ہے، وہ علی بن بذیمہ سے، علی بن بذیمہ ابوعبیدہ سے اور ابوعبیدہ عبداللہ بن مسعود (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کرتے ہیں، ٤ - بعض راوی اسے ابوعبیدہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسل روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الملاحم ١٧ (٤٣٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٠ (٤٠٠٦) (تحفة الأشراف : ٩٦١٤) (ضعیف) (سند میں ابو عبیدہ کا اپنے باپ عبد اللہ بن مسعود (رض) سے سماع نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان میں کوئی اچھا اور کوئی برا نہ رہا ، سب ایک جیسے مستحق عذاب ہوگئے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (4006) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3047

【99】

تفسیر سورت مائدہ

ابوعبیدہ (بن عبداللہ بن مسعود) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بنی اسرائیل میں جب کوتاہیاں و برائیاں پیدا ہوئیں تو اس وقت حال یہ تھا کہ آدمی اپنے بھائی کو گناہ میں مبتلا دیکھتا تو اسے اس گناہ کے کرنے سے روکتا، لیکن جب دوسرا دن آتا تو جو کچھ اس نے اسے کرتے دیکھا تھا وہ چیز اسے اس کا ہم نوالہ و ہم پیالہ اور ہم مجلس ہونے سے نہ روکتی، نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے ان کے دل ایک دوسرے سے ملا دیئے اور انہی لوگوں کے متعلق قرآن نازل ہوا، آپ نے «لعن الذين کفروا من بني إسرائيل علی لسان داود وعيسى ابن مريم ذلک بما عصوا وکانوا يعتدون» سے لے کر «ولو کانوا يؤمنون بالله والنبي وما أنزل إليه ما اتخذوهم أولياء ولکن كثيرا منهم فاسقون» ١ ؎ تک پڑھا۔ یہ باتیں کرتے وقت نبی اکرم ﷺ ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے، لیکن جب گفتگو اس مقام پر پہنچی تو آپ سنبھل کر بیٹھ گئے اور فرمایا : نہیں، تم نجات نہ پاؤ گے، تم عذاب الٰہی سے بچ نہ سکو گے جب تک کہ تم ظالم کا ہاتھ پکڑ نہ لو، اور اسے پوری طرح حق کی طرف موڑ نہ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ١٩٥٩٠) (ضعیف) (یہ مرسل ہے، ابو عبیدہ تابعی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تھا ، ان پر داود اور مسیح ابن مریم (علیہم السلام) کی زبانی لعنت بھیجی گئی تھی۔ کیونکہ وہ نافرمانی کرتے اور حد سے آگے بڑھ جاتے۔ جو بھی منکر ، قوم کرتی ، اور سے وہ لوگوں کو روکتے نہ تھے۔ وہ بہت ہی برا کرتے تھے۔ تم ان میں سے بہتوں کو دیکھ رہے ہو کافروں سے دوستی کرتے ہیں ، انہوں نے اپنے حق میں بہت ہی برا وطیرہ اختیار کیا ہے جس کے نتیجہ میں اللہ ان سے سخت ناراض ہے ، وہ آخرت میں ہمیشہ ہمیش عذاب میں رہنے والے ہیں۔ اور اگر یہ لوگ اللہ پر اور اس نبی پر اور جو چیز اس نبی پر اتری ہے اس پر ایمان لاتے تو کافروں کو دوست نہ بناتے ، لیکن ان میں سے زیادہ تر لوگ فاسق و بدکار ہیں (المائدہ : ٧٨ ) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف انظر ما قبله (3047) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3048 اس سند سے محمد بن مسلم نے علی بن بذیمہ سے علی بن بذیمہ نے ابوعبیدہ سے، اور ابوعبیدہ نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٠٤٧ (ضعیف ) وضاحت : ٢ ؎ : جو بھی ہو بہرحال یہ سند ضعیف ہے ، اگر سند میں عبداللہ بن مسعود کا ذکر ہے تو ان سے ان کے بیٹے ابوعبیدہ کا سماع نہیں ہے ، اور اگر ان کا ذکر نہیں ہے تب تو یہ سند معضل ہوگئی (یعنی دو راوی سند سے ساقط ہوگئے) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف انظر ما قبله (3047 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3048

【100】

تفسیر سورت مائدہ

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے دعا کی اے اللہ شراب کے بارے میں ہمارے لیے تسلی بخش صاف صاف حکم بیان فرما، تو سورة البقرہ کی پوری آیت «يسألونک عن الخمر والميسر» ١ ؎ نازل ہوئی۔ (جب یہ آیت نازل ہوچکی) تو عمر (رض) بلائے گئے اور انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی۔ (یہ آیت سن کر) عمر (رض) نے پھر کہا : اے اللہ ! ہمارے لیے شراب کا واضح حکم بیان فرمایا : تو سورة نساء کی آیت «يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سکاری» ٢ ؎ نازل ہوئی، عمر (رض) پھر بلائے گئے اور انہیں یہ آیت بھی پڑھ کر سنائی گئی، انہوں نے پھر کہا : اے اللہ ! ہمارے لیے شراب کا حکم صاف صاف بیان فرما دے۔ تو سورة المائدہ کی آیت «إنما يريد الشيطان أن يوقع بينكم العداوة والبغضاء في الخمر والميسر» سے «فهل أنتم منتهون» ٣ ؎ تک نازل ہوئی، عمر (رض) پھر بلائے گئے اور آیت پڑھ کر انہیں سنائی گئی، تو انہوں نے کہا : ہم باز رہے ہم باز رہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اسرائیل سے مرسل طریقہ سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأشربة ١ (٣٦٧٠) ، سنن النسائی/الأشربة ١ (٥٥٤٢) (تحفة الأشراف : ١٠٦١٤) ، و مسند احمد (١/٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تم سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں تو کہہ دیجئیے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے۔ اور لوگوں کے لیے نفع بھی ہیں ، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا (اور زیادہ) ہے (البقرہ : ٢١٩ ) ۔ ٢ ؎ : اے ایمان والو ! نشہ و مستی کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ (النساء : ٤٣ ) ۔ ٣ ؎ : شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب خوری اور قمار بازی کی وجہ سے تم میں عداوت اور بغض ڈال دے ، اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے ، تو کیا تم باز نہ آؤ گے ؟ (المائدہ : ٩١ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3049

【101】

تفسیر سورت مائدہ

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ شراب کے حرام ہونے سے پہلے نبی اکرم ﷺ کے کچھ صحابہ انتقال فرما گئے۔ پھر جب شراب حرام ہوگئی تو کچھ لوگوں نے کہا : ہمارے ان ساتھیوں کا کیا ہوگا جو شراب پیتے تھے اور انتقال کر گئے، تو آیت نازل ہوئی «ليس علی الذين آمنوا وعملوا الصالحات جناح فيما طعموا إذا ما اتقوا وآمنوا وعملوا الصالحات» جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے (قبل حرمت) وہ جو کچھ کھا پی چکے ہیں ان پر کوئی گناہ نہیں ہے جب کہ وہ (قبل حرمت کھاتے وقت) متقی رہے، ایمان پر رہے اور نیک عمل کرتے رہے (المائدہ : ٩٣ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - شعبہ نے بھی ابواسحاق کے واسطہ سے براء سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٨٢١) (صحیح) (آنے والی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما بعده (3051) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3050

【102】

تفسیر سورت مائدہ

اس سند سے ابواسحاق نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ کے کچھ صحابہ انتقال کر گئے، وہ لوگ شراب پیتے تھے، پھر شراب کی حرمت آ گئی تو نبی اکرم ﷺ کے کچھ صحابہ نے کہا : ہمارے ان ساتھیوں کا کیا حال ہوگا ؟ جو شراب پیتے تھے اور وہ مرچکے ہیں ؟ تو (اس وقت) آیت «ليس علی الذين آمنوا وعملوا الصالحات جناح فيما طعموا» نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ١٨٨٣) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3051

【103】

تفسیر سورت مائدہ

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جو لوگ شراب پیتے تھے اور مرگئے ان کا کیا ہوگا ؟ اس وقت آیت «ليس علی الذين آمنوا وعملوا الصالحات جناح فيما طعموا إذا ما اتقوا وآمنوا وعملوا الصالحات» ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جو انہوں نے (حرمت سے پہلے) کھائے پئے جب کہ انہوں نے پرہیزگاری اختیار کرلی، ایمان لائے اور اچھے عمل کیے (المائدہ : ٩٣ ) ، نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦١١٨) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (3051) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3052

【104】

تفسیر سورت مائدہ

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت «ليس علی الذين آمنوا وعملوا الصالحات جناح فيما طعموا إذا ما اتقوا وآمنوا وعملوا الصالحات» نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : تم انہی میں سے ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢٢ (٢٤٥٩) (تحفة الأشراف : ٩٤٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ ابن مسعود (رض) بھی ان لوگوں میں ہیں جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیے ، یہ مطلب نہیں ہے کہ شراب کی حرمت سے پہلے انتقال کر جانے والوں میں ابن مسعود بھی ہیں ، کیونکہ وہ تو زندہ تھے اور انہی سے آپ ﷺ فرما رہے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3053

【105】

تفسیر سورت مائدہ

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! جب میں گوشت کھا لیتا ہوں تو عورت کے لیے بےچین ہوجاتا ہوں، مجھ پر شہوت چھا جاتی ہے۔ چناچہ میں نے اپنے آپ پر گوشت کھانا حرام کرلیا ہے۔ (اس پر) اللہ نے آیت «يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل اللہ لکم ولا تعتدوا إن اللہ لا يحب المعتدين وکلوا مما رزقکم اللہ حلالا طيبا» مسلمانو ! اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام مت کرو اور حد سے نہ بڑھو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور جو کچھ اللہ عزوجل نے تمہیں عطا کر رکھا ہے اس میں پاکیزہ حلال کھاؤ (المائدہ : ٨٧ ) ، نازل فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - بعض محدثین نے اسے عثمان بن سعد سے مرسلاً روایت کیا ہے، اس میں ابن عباس سے روایت کا ذکر نہیں ہے، ٣ - خالد حذاء نے بھی اس حدیث کو عکرمہ سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦١٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3054

【106】

تفسیر سورت مائدہ

علی (رض) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی «ولله علی الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا» جو لوگ خانہ کعبہ تک پہنچ سکتے ہوں ان پر اللہ کے حکم سے حج کرنا فرض ہے (آل عمران : ٩٧ ) ، تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہر سال ؟ آپ خاموش رہے، لوگوں نے پھر کہا : اللہ کے رسول ! کیا ہر سال فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال کے لیے فرض ہوجاتا ، پھر اللہ نے یہ آیت اتاری : «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لکم تسؤكم» اے ایمان والو ! بہت سی ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھا کرو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار معلوم ہو (المائدہ : ١٠١ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث علی (رض) کی روایت سے حسن غریب ہے، ٢ - اور اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٨١٤ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف مضی برقم (811) // (134 - 818) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3055

【107】

تفسیر سورت مائدہ

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! میرا باپ کون ہے ١ ؎ آپ نے فرمایا : تمہارا باپ فلاں ہے، راوی کہتے ہیں : پھر یہ آیت نازل ہوئی : «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لکم تسؤكم» اے ایمان والو ! ایسی چیزیں مت پوچھا کرو کہ اگر وہ بیان کردی جائیں تو تم کو برا لگے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر المائدة ١٢ (٤٦٢١) ، والاعتصام ٣ (٧٢٩٥) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣٧ (٢٣٥٩) (تحفة الأشراف : ١٦٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ عبداللہ بن حذافہ سہمی ہیں ، سوال اس لیے کرنا پڑا کہ لوگ انہیں غیر باپ کی طرف منسوب کر رہے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3056

【108】

تفسیر سورت مائدہ

ابوبکر صدیق (رض) سے روایت ہے، انہوں نے کہا : اے لوگو ! تم یہ آیت پڑھتے ہو «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسکم لا يضرکم من ضل إذا اهتديتم» ١ ؎ اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا بھی ہے کہ جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتے ہوئے) دیکھیں پھر بھی اس کے ہاتھ پکڑ نہ لیں (اسے ظلم کرنے سے روک نہ دیں) تو قریب ہے کہ ان پر اللہ کی طرف سے عمومی عذاب آ جائے (اور وہ ان سب کو اپنی گرفت میں لے لے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - کئی ایک نے یہ حدیث اسماعیل بن خالد سے مرفوعاً اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے، ٣ - بعض لوگوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے بلکہ ابوبکر (رض) کے قول کے طور پر اسماعیل سے، اسماعیل نے قیس سے اور قیس نے ابوبکر سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢١٦٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مسلمانو ! تمہارے ذمہ ہے اپنے آپ کو بچانا اور سنبھالنا ، جب تم سیدھی راہ پر رہو گے تو تمہیں گمراہ شخص نقصان نہ پہنچا سکے گا (المائدہ : ١٠٥ ) ۔ ٢ ؎: یعنی اپنے آپ کو بچانے اور سنبھالنے کے لیے ضروری ہے کہ ظالم کو ظلم سے روک دیا جائے ایسا نہ کرنے سے اللہ کی طرف سے عمومی عذاب آنے کا خطرہ ہے پھر وہ سب کو اپنی گرفت میں لے لے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مضی برقم (2257) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3057

【109】

تفسیر سورت مائدہ

ابوامیہ شعبانی کہتے ہیں کہ میں نے ابوثعلبہ خشنی (رض) کے پاس آ کر پوچھا : اس آیت کے سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ انہوں نے کہا : کون سی آیت ؟ میں نے کہا : آیت یہ ہے : «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسکم لا يضرکم من ضل إذا اهتديتم» انہوں نے کہا : آگاہ رہو ! قسم اللہ کی تم نے اس کے متعلق ایک واقف کار سے پوچھا ہے، میں نے خود اس آیت کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا، آپ نے فرمایا : بلکہ تم اچھی باتوں کا حکم کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو، یہاں تک کہ جب تم دیکھو کہ لوگ بخالت کے راستے پر چل پڑے ہیں، خواہشات نفس کے پیرو ہوگئے ہیں، دنیا کو آخرت پر حاصل دی جا رہی ہے اور ہر عقل و رائے والا بس اپنی ہی عقل و رائے پر مست اور مگن ہے تو تم خود اپنی فکر میں لگ جاؤ، اپنے آپ کو سنبھالو، بچاؤ اور عوام کو چھوڑ دو ، کیونکہ تمہارے پیچھے ایسے دن آنے والے ہیں کہ اس وقت صبر کرنا (کسی بات پر جمے رہنا) ایسا مشکل کام ہوگا جتنا کہ انگارے کو مٹھی میں پکڑے رہنا، اس زمانہ میں کتاب و سنت پر عمل کرنے والے کو تم جیسے پچاس کام کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا۔ (اس حدیث کے راوی) عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں : عتبہ کے سوا اور کئی راویوں نے مجھ سے اور زیادہ بیان کیا ہے۔ کہا گیا : اللہ کے رسول ! (ابھی آپ نے جو بتایا ہے کہ پچاس عمل صالح کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا تو) یہ پچاس عمل صالح کرنے والے ہم میں سے مراد ہیں یا اس زمانہ کے لوگوں میں سے مراد ہیں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، بلکہ اس زمانہ کے، تم میں سے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الملاحم ١٧ (٤٣٤١) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢١ (٤٠١٤) (تحفة الأشراف : ١١٨٨١) (ضعیف) (سند میں عمرو بن جاریہ اور ابو امیہ شعبانی لین الحدیث راوی ہیں، مگر اس کے بعض ٹکڑے صحیح ہیں، دیکھیے سابقہ حدیث ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، لکن بعضه صحيح فانظر الحديث المتقدم (2361) نقد الکتاني (27 / 27) ، المشکاة (5144) ، //، صحيح أبي داود - باختصار السند (1844 - 2375) //، الصحيحة (594) // ضعيف الجامع الصغير (2344) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3058

【110】

تفسیر سورت مائدہ

تمیم داری (رض) سے روایت ہے، وہ اس آیت «يا أيها الذين آمنوا شهادة بينكم إذا حضر أحدکم الموت» ١ ؎ کے سلسلے میں کہتے ہیں : میرے اور عدی بن بداء کے سواء سبھی لوگ اس آیت کی زد میں آنے سے محفوظ ہیں، ہم دونوں نصرانی تھے، اسلام سے پہلے شام آتے جاتے تھے تو ہم دونوں اپنی تجارت کی غرض سے شام گئے، ہمارے پاس بنی ہاشم کا ایک غلام بھی پہنچا، اسے بدیل بن ابی مریم کہا جاتا تھا، وہ بھی تجارت کی غرض سے آیا تھا، اس کے پاس چاندی کا ایک پیالہ تھا جسے وہ بادشاہ کے ہاتھ بیچ کر اچھے پیسے حاصل کرنا چاہتا تھا، یہی اس کی تجارت کے سامان میں سب سے بڑی چیز تھی۔ (اتفاق ایسا ہوا کہ) وہ بیمار پڑگیا، تو اس نے ہم دونوں کو وصیت کی اور ہم سے عرض کیا کہ وہ جو کچھ چھوڑ کر مرے وہ اسے اس کے گھر والوں کو پہنچا دیں۔ جب وہ مرگیا تو ہم نے یہ پیالہ لے لیا اور ہزار درہم میں اسے بیچ دیا، پھر ہم نے اور عدی بن بداء نے اسے آپس میں تقسیم کرلیا، پھر ہم اس کے بیوی بچوں کے پاس آئے اور جو کچھ ہمارے پاس تھا وہ ہم نے انہیں واپس دے دیا، جب انہیں چاندی کا جام نہ ملا تو انہوں نے ہم سے اس کے متعلق پوچھا، ہم نے کہا کہ جو ہم نے آپ کو لا کردیا اس کے سوا اس نے ہمارے پاس کچھ نہ چھوڑا تھا، پھر جب رسول اللہ ﷺ کے مدینہ جانے کے بعد میں نے اسلام قبول کرلیا، تو میں اس گناہ سے ڈر گیا، چناچہ میں اس کے گھر والوں کے پاس آیا اور پیالہ کی صحیح خبر انہیں دے دی، اور اپنے حصہ کے پانچ سو درہم انہیں ادا کر دئیے، اور انہیں یہ بھی بتایا کہ میری طرح (عدی بن بداء) کے پاس بھی پیالہ کی قیمت کے پانچ سو درہم ہیں پھر وہ لوگ اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس پکڑ کر لائے، آپ نے ان سے ثبوت مانگا تو وہ لوگ کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے۔ پھر آپ نے ان لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس سے اس چیز کی قسم لیں جسے اس کے اہل دین اہم اور عظیم تر سمجھتے ہوں تو اس نے قسم کھالی۔ اس پر آیت «يا أيها الذين آمنوا شهادة بينكم إذا حضر أحدکم الموت» سے لے کر «أو يخافوا أن ترد أيمان بعد أيمانهم» ٢ ؎ تک نازل ہوئی۔ تو عمرو بن العاص (رض) اور (بدیل کے وارثوں میں سے) ایک اور شخص کھڑے ہوئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ عدی جھوٹا ہے، پھر اس سے پانچ سو درہم چھین لیے گئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، اور اس کی سند صحیح نہیں ہے، ٢ - ابوالنضر جن سے محمد بن اسحاق نے یہ حدیث روایت کی ہے، وہ میرے نزدیک محمد بن سائب کلبی ہیں، ابوالنضر ان کی کنیت ہے، محدثین نے ان سے روایت کرنی چھوڑ دی ہے، وہ صاحب تفسیر ہیں (یعنی مفسرین میں جو کلبی مشہور ہیں وہ یہی شخص ہیں) میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا : محمد بن سائب کلبی کی کنیت ابوالنضر ہے، ٣ - اور ہم سالم ابوالنضر مدینی کی کوئی روایت ام ہانی کے آزاد کردہ غلام صالح سے نہیں جانتے۔ اس حدیث کا کچھ حصہ مختصراً کسی اور سند سے ابن عباس (رض) سے مروی ہے (جو آگے آ رہا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : لم یذکرہ في مظانہ) (ضعیف الإسناد جداً ) (سند میں باذان مولی ام ہانی سخت ضعیف راوی ہے ) وضاحت : ١ ؎ : مسلمانو ! جب تم میں سے کسی کے مرنے کا وقت آن پہنچے تو وصیت کرنے کے وقت تم مسلمانوں میں سے دو عادل گواہ موجود ہونے چاہیں۔ (مائدہ : ١٠٧ ) ٢ ؎ : اے ایمان والو ! تمہارے آپس میں کے (مسلمانوں یا عزیزوں میں سے) معتبر شخصوں کا گواہ ہونا مناسب ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو وہ دو شخص ایسے ہوں کہ دیندار ہوں خواہ تم میں سے ہوں یا اور مذہب کے لوگوں میں سے دو شخص ہوں ، اگر تم کہیں سفر میں گئے ہو اور موت آ جائے اگر تم کو شبہ ہو تو ان دونوں کو بعد نماز (عصر) کے بعد کھڑا کرلو پھر دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم اس قسم کے عوض کوئی نفع نہیں لینا چاہیئے اگرچہ کوئی رشتہ دار بھی ہو اور نہ ہی ہم اللہ تعالیٰ کی گواہی کو ہم پوشیدہ رکھیں گے ، اگر ہم ایسا کریں ، تو ہم اس حالت میں سخت گنہگار ہوں گے ، (یوں قسم کھا کر وہ گواہی دیں) پھر اگر اس کی اطلاع ہو کہ وہ دونوں گواہ کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان لوگوں میں سے کہ جن کے مقابلے میں گناہ کا ارتکاب ہوا تھا اور دو شخص جو سب میں قریب تر ہیں جہاں وہ دونوں کھڑے ہوئے تھے یہ دونوں کھڑے ہوں پھر دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ بالیقین ہماری قسم ان دونوں کی اس قسم سے زیادہ راست ہے اور ہم نے ذرا تجاوز نہیں کیا اگر ہم بھی ایسا کریں تو ہم اس حالت میں سخت ظالم ہوں گے ، یہ قریب ذریعہ ہے اس امر کا کہ وہ لوگ واقعہ کو ٹھیک طور پر ظاہر کریں یا اس بات سے ڈر جائیں کہ ان سے قسمیں لینے کے بعد قسمیں الٹی پڑجائیں گی ، اور اللہ سے ، ڈرتے رہو اور اس کا حکم کان لگا کر سنو ! اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو (یعنی فاسقوں اور مجرموں کو) ہدایت کے راستے میں نہیں لگایا کرتا (المائدہ : ، ١٠٦ ١٠٨) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد جدا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3059

【111】

تفسیر سورت مائدہ

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ بنی سہم کا ایک شخص، تمیم داری اور عدی بن بداء کے ساتھ (سفر پر) نکلا اور یہ سہمی (جو تمیم داری اور عدی کا ہم سفر تھا) ایک ایسی سر زمین میں انتقال کر گیا جہاں کوئی مسلمان نہ تھا، جب اس کے دونوں ساتھی اس کا ترکہ لے کر آئے تو اس کے گھر والے (ورثاء) کو اس کے متروکہ سامان میں چاندی کا وہ پیالہ نہ ملا جس پر سونے کا جڑاؤ تھا، چناچہ (جب مقدمہ پیش ہوا) رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں سے قسم کھلائی۔ (اور انہوں نے قسم کھالی کہ ہمیں پیالہ نہیں ملا تھا) لیکن وہ پیالہ سہمی کے گھر والوں کو مکہ میں کسی اور کے پاس مل گیا، انہوں نے بتایا کہ ہم نے تمیم اور عدی سے اسے خریدا ہے۔ تب سہمی کے وارثین میں سے دو شخص کھڑے ہوئے۔ اور انہوں نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ ہماری شہادت ان دونوں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے۔ اور پیالہ ہمارے ہی آدمی کا ہے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : انہیں لوگوں کے بارے میں «يا أيها الذين آمنوا شهادة بينكم» والی آیت نازل ہوئی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، یہ ابن ابی زائدہ کی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٣٥ (٢٧٨٠) ، سنن ابی داود/ الأقضیة ١٩ (٣٦٠٦) (تحفة الأشراف : ٥٥٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3060

【112】

تفسیر سورت مائدہ

عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (عیسیٰ (علیہ السلام) کی قوم پر) آسمان سے روٹی اور گوشت کا دستر خوان اتارا گیا اور حکم دیا گیا کہ خیانت نہ کریں نہ اگلے دن کے لیے ذخیرہ کریں، مگر انہوں نے خیانت بھی کی اور جمع بھی کیا اور اگلے دن کے لیے اٹھا بھی رکھا تو ان کے چہرے مسخ کر کے بندر اور سور جیسے بنا دئیے گئے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کو ابوعاصم اور کئی دوسرے لوگوں بطریق : «سعيد بن أبي عروبة عن قتادة عن خلاس عن عمار ابن ياسر» موقوفاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٣٤٨) (ضعیف الإسناد) (قتادہ مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے ) قال الشيخ الألباني : (حديث عمار) ضعيف الإسناد، (حديث ابن أبي عروبة) ضعيف أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3061

【113】

تفسیر سورت مائدہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اپنا جواب القاء کیے جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کو اپنا جواب اپنے اس قول کے جواب میں القاء کرے گا «وإذ قال اللہ يا عيسى ابن مريم أأنت قلت للناس اتخذوني وأمي إلهين من دون الله» جب اللہ تعالیٰ (قیامت میں) کہے گا اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو اللہ کو چھوڑ کر ؟ (المائدہ : ١١٦ ) ، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پھر اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس کا جواب یہ القاء کرے گا «سبحانک ما يكون لي أن أقول ما ليس لي بحق» پاک ہے تیری ذات : میں بھلا وہ بات کیسے کہہ سکتا ہوں جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں ہے (المائدہ : ١١٦ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ١٣٥٣١) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3062

【114】

تفسیر سورت مائدہ

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت سورة المائدہ (اور سورة الفتح) ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اور ابن عباس (رض) سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں : آخری سورة جو نازل ہوئی ہے وہ «إذا جاء نصر اللہ والفتح» ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٨٦٢) (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : اور صحیح بخاری میں براء (رض) سے روایت ہے کہ آخری آیت جو نازل ہوئی وہ ہے «يستفتونک قل اللہ يفتيكم في الکلالة» (النساء : ١٧٦ ) ان سب اقوال کے درمیان اس طرح تطبیق دی جاتی ہے کہ ہر ایک نے اپنی معلومات کے مطابق خبر دی ہے ، اس بابت کوئی مرفوع روایت تو ہے نہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3063

【115】

تفسیر سورت انعام

علی (رض) سے روایت ہے کہ ابوجہل نے نبی اکرم ﷺ سے کہا : ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے ہیں، بلکہ آپ جو (دین قرآن) لے کر آئے ہیں اسے جھٹلاتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے آیت «فإنهم لا يکذبونک ولکن الظالمين بآيات اللہ يجحدون» وہ لوگ تجھ کو نہیں جھٹلاتے ہیں بلکہ ظالم لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں (الانعام : ٣٣ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٢٨٨) (ضعیف الإسناد) (محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز معاویہ بن ہشام سے اوہام صادر ہوئے ہیں ) قال الشيخ الألباني : (حديث علي) ضعيف الإسناد، (حديث ناجية) ضعيف أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3064

【116】

تفسیر سورت انعام

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ جب آیت «قل هو القادر علی أن يبعث عليكم عذابا من فوقکم أو من تحت أرجلکم» کہہ دیجئیے، وہ (اللہ) قادر ہے اس بات پر کہ وہ تم پر کوئی عذاب بھیج دے اوپر سے یا نیچے سے (الانعام : ٦٥ ) ، نازل ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں تیری ذات کی پناہ لیتا ہوں پھر جب آگے «أو يلبسکم شيعا ويذيق بعضکم بأس بعض» یا تم کو مختلف فریق بنا کر ایک کو دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھا دے (الانعام : ٦٥ ) کا ٹکڑا نازل ہوا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ دونوں ہی باتیں (اللہ کے لیے) آسان ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الأنعام ٢ (٤٦٢٨) ، والإعتصام ١١ (٧٣١٣) ، والتوحید ١٦ (٧٤٠٦) (تحفة الأشراف : ٢٥٣٦) ، و مسند احمد (٣/٣٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3065

【117】

تفسیر سورت انعام

سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت «قل هو القادر علی أن يبعث عليكم عذابا من فوقکم أو من تحت أرجلکم» کہہ دو (اے محمد ! ) وہ (اللہ) قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب بھیج دے یا تمہارے پیروں کے نیچے سے (الانعام : ٦٥ ) ، کے متعلق فرمایا : آگاہ رہو یہ تو ہو کر رہنے والی بات ہے اور ابھی تک اس کا وقوع و ظہور نہیں ہوا ہے (یعنی یہ عذاب نہیں آیا ہے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٨٥١) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابوبکر بن أبی مریم ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3066

【118】

تفسیر سورت انعام

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم» جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی (الأنعام ٨٢ ) ، نازل ہوئی تو مسلمانوں پر یہ بات گراں گزری، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم میں کون ایسا ہے جس سے اپنی ذات کے حق میں ظلم و زیادتی نہ ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا : (تم غلط سمجھے) ایسی بات نہیں ہے، اس ظلم سے مراد صرف شرک ہے، کیا تم لوگوں نے سنا نہیں کہ لقمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو کیا نصیحت کی تھی ؟ انہوں نے کہا تھا : «يا بني لا تشرک بالله إن الشرک لظلم عظيم» اے میرے بیٹے ! شرک نہ کر، شرک بہت بڑا گناہ ہے (لقمان : ١٣ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٣ (٣٢) ، وأحادیث الأنبیاء ٨ (٣٣٦٠) ، و ٤١ (٣٤٢٨، ٣٤٢٩) ، تفسیر الإنعام ولقمان ١ (٤٧٧٦) ، والمرتدین ١ (٦٩١٨) ، و ٩ (٦٩٣٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٥٦ (١٢٤) (تحفة الأشراف : ٩٤٢٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3067

【119】

تفسیر سورت انعام

مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا : اے ابوعائشہ ! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا : ( ١ ) جس نے خیال کیا کہ محمد ﷺ نے (معراج کی رات میں) اللہ کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ کی ذات کے بارے میں بڑی بہتان لگائی۔ کیونکہ اللہ اپنی ذات کے بارے میں کہتا ہے «لا تدرکه الأبصار وهو يدرک الأبصار وهو اللطيف الخبير» کہ اسے انسانی نگاہیں نہیں پاسکتی ہیں، اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے (یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سبھی کو دیکھ لیتا ہے) اور اس کی ذات لطیف و خبیر ہے ، «وما کان لبشر أن يكلمه اللہ إلا وحيا أو من وراء حجاب» کسی انسان کو بھی یہ مقام و درجہ حاصل نہیں ہے کہ اللہ اس سے بغیر وحی کے یا بغیر پردے کے براہ راست اس سے بات چیت کرے ، (وہ کہتے ہیں) میں ٹیک لگائے ہوئے تھا اور اٹھ بیٹھا، میں نے کہا : ام المؤمنین ! مجھے بولنے کا موقع دیجئیے اور میرے بارے میں حکم لگانے میں جلدی نہ کیجئے گا، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : «ولقد رآه نزلة أخری» بیشک محمد نے اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (النجم : ١٣ ) «ولقد رآه بالأفق المبين» بیشک انہوں نے اسے آسمان کے روشن کنارے پر دیکھا (التکویر : ٢٣ ) تب عائشہ (رض) نے کہا : قسم اللہ کی ! میں وہ پہلی ذات ہوں جس نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا : وہ تو جبرائیل (علیہ السلام) تھے (ان آیتوں میں میرے دیکھنے سے مراد جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھنا تھا، اللہ کو نہیں) ان دو مواقع کے سوا اور کوئی موقع ایسا نہیں ہے جس میں جبرائیل (علیہ السلام) کو میں نے ان کی اپنی اصل صورت میں دیکھا ہو۔ جس پر ان کی تخلیق ہوئی ہے، میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا ہے، ان کی بناوٹ کی بڑائی یعنی بھاری بھر کم جسامت نے آسمان و زمین کے درمیان جگہ کو گھیر رکھا تھا ، ( ٢ ) : اور دوسرا وہ شخص کہ جو اللہ پر جھوٹا الزام لگانے کا بڑا مجرم ہے جس نے یہ خیال کیا کہ اللہ نے محمد ﷺ پر جو چیزیں اتاری ہیں ان میں سے کچھ چیزیں محمد ﷺ نے چھپالی ہیں۔ جب کہ اللہ کہتا ہے «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» جو چیز اللہ کی جانب سے تم پر اتاری گئی ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو (النساء : ٦٧ ) ، ( ٣ ) : وہ شخص بھی اللہ پر جھوٹا الزام لگانے والا ہے جو یہ سمجھے کہ کل کیا ہونے والا ہے، محمد اسے جانتے ہیں، جب کہ اللہ خود کہتا ہے «قل لا يعلم من في السموات والأرض الغيب إلا الله» کہ آسمان و زمین میں غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة النجم ١ (٤٨٥٥) ، والتوحید ٤ (٧٣٨٠) ، و ٤٦ (٧٥٣١) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧٧ (١٧٧) (تحفة الأشراف : ١٧٦١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3068

【120】

تفسیر سورت انعام

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم وہ جانور کھائیں جنہیں ہم قتل (یعنی ذبح) کرتے ہیں، اور ان جانوروں کو نہ کھائیں جنہیں اللہ قتل کرتا (یعنی مار دیتا) ہے، تو اللہ نے «فکلوا مما ذکر اسم اللہ عليه إن کنتم بآياته مؤمنين» سے «وإن أطعتموهم إنكم لمشرکون» ١ ؎ تک نازل فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اور یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ابن عباس (رض) سے مروی ہے، ٣ - بعض نے اسے عطا بن سائب سے اور عطاء نے سعید بن جبیر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الضحایا ١٣ (٢٨١٩) (تحفة الأشراف : ٥٥٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جو جانور اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا اس میں سے کھاؤ اگر تم اس کی آیات (حکموں) پر ایمان رکھتے ہو ، کیا بات ہے (کیا وجہ ہے) کہ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے اس میں سے نہیں کھاتے ہو۔ جب کہ وہ انہیں واضح طور پر بتاچکا ہے جو چیزیں اس نے تم پر حرام کردی ہیں ، ہاں اضطراری حالت ہو تو (بقدر ضرورت) اس (حرام) میں سے کھا سکتے ہو۔ بہت سے لوگ بغیر تحقیق کیے اپنی خواہشات و خیالات کو بنیاد بنا کر بہکاتے پھرتے ہیں ، تیرا رب خوب جانتا ہے کہ حد سے بڑھنے والے کون لوگ ہیں ، چھوڑ دو کھلے ہوئے گناہ کو اور چھپے ہوئے گناہ کو ، جو لوگ گناہ کرتے ہیں ، وہ اپنے کیے کی عنقریب سزا پائیں گے۔ اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو ، یہ کھانا گناہ ہے ، اور شیاطین اپنے اولیاء (اپنے دوستوں و عقیدت مندوں) کے دلوں میں (اس طرح کی لغو و لایعنی باتیں) ڈالتے ہیں تاکہ وہ (ان کے ذریعہ) تم سے جھگڑا کریں۔ اور (یہ جان لو) اگر تم نے ان کا کہا مانا تو تم مشرک ہوجاؤ گے (الانعام : ١١٨ -١٢١) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2058 - 2059) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3069

【121】

تفسیر سورت انعام

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جسے اس بات سے خوشی ہو کہ وہ صحیفہ دیکھے جس پر محمد ﷺ کی مہر ہے تو اسے یہ آیات «قل تعالوا أتل ما حرم ربکم عليكم» سے «لعلکم تتقون» ١ ؎ تک پڑھنی چاہیئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٤٦٧) (ضعیف الإسناد) (سند میں داود اودی ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : تم کہہ دو (میرے پاس) آؤ ، میں تمہیں سنا دیتا ہوں کہ تمہارے رب نے کیا چیزیں تم پر حرام کردی ہیں (ایک تو یہ کہ) اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو یعنی (دوم ماں باپ کی (معروف میں) نافرمانی نہ کرو ، (سوم) اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے مار نہ ڈالو ، ہم ہی روزی دیتے ہیں تمہیں بھی اور انہیں بھی ، اور بےحیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ۔ بےحیائی کھلی ہوئی دکھائی پڑ رہی ہو یا چھپی ہوئی (بظاہر نظر نہ آرہی ہو ، لیکن پس پردہ اس کا انجام برائی و بدکاری ہی ہو) اور جس جان کو اللہ نے محترم قرار دے کر حرام ٹھہرایا ہے اسے ناحق قتل نہ کرو ، (مگر جب وہ خود کو اس کا سزاوار بنا دے مثلاً قصاص وغیرہ میں تو اسے قتل کیا جاسکتا ہے) یہ ہے اللہ کی تمہارے لیے وصیت تاکہ تم عقل و سمجھ سے کام لو ، اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ ، مگر اس طریقے سے جو احسن طریقہ ہے (اس کے مال میں بےجا تصرف نہیں کیا جاسکتا صرف ولی بہتر و مشروع طریقہ پر احتیاط کے ساتھ تصرف کا مجاز ہے اور وہ بھی اس وقت تک جب تک کہ یتیم بالغ نہ ہوجائے۔ (جب وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے تو اس کا مال اسے سپرد کردیا جائے گا) اور ناپ و تول کو انصاف کے ساتھ پورا کرو ، ہم کسی کو اس کی وسعت و طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتے۔ اور جب بات کہو تو حق کی کہو ، اگرچہ وہ اپنا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ اور اللہ سے کیا ہوا اپنا عہد (نذر و قسم بشرطیکہ غیر مشروع بات کی نہ ہو) پورا کرو ، تم کو یہ باتیں بتادی ہیں تاکہ تم نصیحت پکڑو ، یہ ہے میری سیدھی راہ ، تو اس سیدھی راہ پر چلو ، اور دیگر (ٹیڑھے میڑھے) راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اللہ کی سیدھی راہ سے بھٹکا دیں ، یہ ہے جس کی تمہیں اللہ نے وصیت کردی ہے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو (الانعام : ١٥١ -١٥٣) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3070

【122】

تفسیر سورت انعام

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت : «أو يأتي بعض آيات ربك» یا تیرے رب کی بعض نشانیاں آ جائیں (الانعام : ١٥٨ ) ، کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد سورج کا پچھم سے نکلنا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - بعض دوسرے لوگوں نے بھی اس حدیث کو روایت کیا، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٢٣٦) (صحیح) (سند میں محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلی اور عطیہ عوفی دونوں ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3071

【123】

تفسیر سورت انعام

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں کہ جب وہ ظاہر ہوں گی، تو جو شخص پہلے سے ایمان نہ لایا ہوگا اسے اس کا (بروقت) ایمان لانا فائدہ نہ پہنچا سکے گا، ( ١ ) دجال کا ظاہر ہونا ( ٢ ) چوپائے کا نکلنا ( ٣ ) سورج کا پچھم سے نکلنا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے ٢ - ابوحازم سے حازم اشجعی کوفی مراد ہیں۔ ان کا نام سلمان ہے اور وہ عزہ اشجعیہ کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٧٢ (١٥٨) (تحفة الأشراف : ١٣٤٢١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3072

【124】

تفسیر سورت انعام

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور اس کا فرمان برحق (و درست) ہے : جب میرا بندہ کسی نیکی کا قصد و ارادہ کرے، تو (میرے فرشتو ! ) اس کے لیے نیکی لکھ لو، اور اگر وہ اس بھلے کام کو کر گزرے تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھ لو، اور جب وہ کسی برے کام کا ارادہ کرے تو کچھ نہ لکھو، اور اگر وہ برے کام کو کر ڈالے تو صرف ایک گناہ لکھو، پھر اگر وہ اسے چھوڑ دے (کبھی راوی نے یہ کہا) اور کبھی یہ کہا (دوبارہ) اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے) تو اس کے لیے اس پر بھی ایک نیکی لکھ لو، پھر آپ نے آیت «من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها» پڑھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ فائدہ ١ ؎: جس نے نیک کام کیا ہوگا اس کو دس گنا ثواب ملے گا، اور جس نے برائی کی ہوگی اس کو اسی قدر سزا ملے گی اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا (الانعام : ١٦٠ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٥٩ (١٢٨) (وما بعدہ) (تحفة الأشراف : ١٣٦٧٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (2 / 247) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3073

【125】

تفسیر سورت اعراف

انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی : «فلما تجلی ربه للجبل جعله دكا» جب موسیٰ کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو تجلی نے اس کے پرخچ اڑا دیے (الأعراف : ١٤٣ ) ، حماد (راوی) نے کہا : اس طرح، پھر سلیمان (راوی) نے اپنی داہنی انگلی کے پور پر اپنے انگوٹھے کا کنارا رکھا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (بس اتنی سی دیر میں) پہاڑ زمین میں دھنس گیا، «وخر موسیٰ صعقا» اور موسیٰ (علیہ السلام) چیخ مار کر گرپڑے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ہم اسے صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح ظلال الجنة (480) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3074

【126】

تفسیر سورت اعراف

مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) سے آیت «وإذ أخذ ربک من بني آدم من ظهورهم ذريتهم وأشهدهم علی أنفسهم ألست بربکم قالوا بلی شهدنا أن تقولوا يوم القيامة إنا کنا عن هذا غافلين» ١ ؎ کا مطلب پوچھا گیا، تو عمر بن خطاب (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ سے اسی آیت کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو آپ نے فرمایا : اللہ نے آدم کو پیدا کیا پھر اپنا داہنا ہاتھ ان کی پیٹھ پر پھیرا اور ان کی ایک ذریت (نسل) کو نکالا، اور کہا : میں نے انہیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ لوگ جنت ہی کا کام کریں گے، پھر (دوبارہ) ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور وہاں سے ایک ذریت (ایک نسل) نکالی اور کہا کہ میں نے انہیں جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور جہنمیوں کا کام کریں گے ۔ ایک شخص نے کہا : پھر عمل کی کیا ضرورت ہے ؟ اللہ کے رسول ! ٢ ؎ راوی کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ جنتی شخص کو پیدا کرتا ہے تو اسے جنتیوں کے کام میں لگا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ جنتیوں کا کام کرتا ہوا مرجاتا ہے تو اللہ اسے جنت میں داخل فرما دیتا ہے۔ اور جب اللہ جہنمی شخص کو پیدا کرتا ہے تو اسے جہنمیوں کے کام میں لگا دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ جہنمیوں کا کام کرتا ہوا مرتا ہے تو اللہ اسے جہنم میں داخل کردیتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - مسلم بن یسار نے عمر (رض) سے سنا نہیں ہے، ٣ - بعض راویوں نے اس اسناد میں مسلم بن یسار اور عمر (رض) کے درمیان کسی غیر معروف راوی کا ذکر کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ١٧ (٤٧٠٣، و ٤٧٠٤) (تحفة الأشراف : ١٠٦٥٤) ، و مسند احمد (١/٤ ¤ ٤- ٤٥) (ضعیف) (سند میں مسلم بن یسار اور عمر (رض) کے درمیان انقطاع ہے، اور ابوداود وغیرہ کی دوسری سند میں ان دونوں کے درمیان جو نعیم بن ربیعہ راوی ہے وہ مجہول ہے ) وضاحت : ١ ؎ : جب تمہارے رب نے بنی آدم کی ذریت کو ان کی صلب سے نکلا اور انہیں کو ان پر (اس بات کا) گواہ بنایا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں ، (آپ ہمارے رب ہیں) ہم اس کے گواہ ہیں۔ (یہ گواہی اس لیے لی ہے کہ) کہیں تم قیامت کے دن یہ کہنے نہ لگو کہ ہمیں تو اس کی کچھ خبر نہیں نہ تھی (الاعراف : ١٧٢ ) ۔ ٢ ؎ : یعنی جب جہنمی اور جنتی کا فیصلہ پہلے ہی کردیا گیا ہے تو اس کو لامحالہ ، چار و ناچار وہیں پہنچنا ہے جہاں بھیجنے کے لیے اللہ نے اسے پیدا فرمایا ہے۔ تو پھر عمل کی کیا ضرورت ہے ؟ قال الشيخ الألباني : ضعيف الظلال (196) ، الضعيفة (3071) // ضعيف الجامع الصغير (1602) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3075

【127】

تفسیر سورت اعراف

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ نے آدم کو پیدا کیا اور ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے ان کی اولاد کی وہ ساری روحیں باہر آ گئیں جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے والا ہے۔ پھر ان میں سے ہر انسان کی آنکھوں کی بیچ میں نور کی ایک ایک چمک رکھ دی، پھر انہیں آدم کے سامنے پیش کیا، تو آدم نے کہا : میرے رب ! کون ہیں یہ لوگ ؟ اللہ نے کہا : یہ تمہاری ذریت (اولاد) ہیں، پھر انہوں نے ان میں ایک ایسا شخص دیکھا جس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کی چمک انہیں بہت اچھی لگی، انہوں نے کہا : اے میرے رب ! یہ کون ہے ؟ اللہ نے فرمایا : تمہاری اولاد کی آخری امتوں میں سے ایک فرد ہے۔ اسے داود کہتے ہیں : انہوں نے کہا : میرے رب ! اس کی عمر کتنی رکھی ہے ؟ اللہ نے کہا : ساٹھ سال، انہوں نے کہا : میرے رب ! میری عمر میں سے چالیس سال لے کر اس کی عمر میں اضافہ فرما دے، پھر جب آدم کی عمر پوری ہوگئی، ملک الموت ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا : کیا میری عمر کے چالیس سال ابھی باقی نہیں ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : کیا تو نے اپنے بیٹے داود کو دے نہیں دیئے تھے ؟ آپ نے فرمایا : تو آدم نے انکار کیا، چناچہ ان کی اولاد بھی انکاری بن گئی۔ آدم بھول گئے تو ان کی اولاد بھی بھول گئی۔ آدم نے غلطی کی تو ان کی اولاد بھی خطاکار بن گئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے اور نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٣٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : الظلال (206) ، تخريج الطحاوية (220 و 221) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3076

【128】

تفسیر سورت اعراف

سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب حواء حاملہ ہوئیں تو ان کے پاس شیطان آیا، ان کے بچے جیتے نہ تھے، تو اس نے کہا : (اب جب تیرا بچہ پیدا ہو) تو اس کا نام عبدالحارث رکھ، چناچہ حواء نے اس کا نام عبدالحارث ہی رکھا تو وہ جیتا رہا۔ ایسا انہوں نے شیطانی وسوسے اور اس کے مشورے سے کیا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے مرفوع صرف عمر بن ابراہیم کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں، ٢ - بعض راویوں نے یہ حدیث عبدالصمد سے روایت کی ہے، لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے، ٣ - عمر بن ابراہیم بصریٰ شیخ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٦٠٤) (ضعیف) (حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، اور حسن کا سمرہ (رض) سے سماع میں سخت اختلاف ہے، اور عمر بن ابراہیم کی قتادہ سے روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے، ملاحظہ ہو : الضعیفة رقم ٣٤٢ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (342) // ضعيف الجامع الصغير (4769 ) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3077

【129】

None

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدم پیدا کئے گئے …“ ( آگے ) پوری حدیث بیان کی۔

【130】

تفیسر سورت انفال

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن میں ایک تلوار لے کر (رسول اللہ ﷺ کے پاس) پہنچا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اللہ نے میرا سینہ مشرکین سے ٹھنڈا کردیا (یعنی انہیں خوب مارا) یہ کہا یا ایسا ہی کوئی اور جملہ کہا (راوی کو شک ہوگیا) آپ یہ تلوار مجھے عنایت فرما دیں، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ نہ میری ہے اور نہ تیری ١ ؎، میں نے (جی میں) کہا ہوسکتا ہے یہ ایسے شخص کو مل جائے جس نے میرے جیسا کارنامہ جنگ میں نہ انجام دیا ہو، (میں حسرت و یاس میں ڈوبا ہوا آپ کے پاس سے اٹھ کر چلا آیا) تو (میرے پیچھے) رسول اللہ ﷺ کا قاصد آیا اور اس نے (آپ کی طرف سے) کہا : تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی، تب وہ میری نہ تھی اور اب وہ (بحکم الٰہی) میرے اختیار میں آ گئی ہے ٢ ؎، تو اب وہ تمہاری ہے (میں اسے تمہیں دیتا ہوں) راوی کہتے ہیں، اسی موقع پر «يسألونک عن الأنفال» ٣ ؎ والی آیت نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس حدیث کو سماک بن حرب نے بھی مصعب سے روایت کیا ہے، ٣ - اس باب میں عبادہ بن صامت سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ١٢ (١٧٤٨) ، سنن ابی داود/ الجھاد ١٥٦ (٢٧٤٠) (تحفة الأشراف : ٣٩٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ یہ ابھی ایسے مال غنیمت میں سے ہے جس کی تقسیم ابھی نہیں ہوئی ہے ، تو کیسے تم کو دے دوں۔ ٢ ؎ : کیونکہ اب تقسیم میں (بطور خمس کے) وہ میرے حصے میں آ گئی ہے۔ ٣ ؎ : یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کا حکم پوچھتے ہیں (الأنفال : ١ ) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، صحيح أبي داود (2747) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3079

【131】

تفیسر سورت انفال

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ جنگ بدر سے نمٹ چکے تو آپ سے کہا گیا (شام سے آتا ہوا) قافلہ آپ کی زد اور نشانے پر ہے، اس پر غالب آنے میں کوئی چیز مانع اور رکاوٹ نہیں ہے۔ تو عباس نے آپ کو پکارا، اس وقت وہ (قیدی تھے) زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے، اور کہا : آپ کا یہ اقدام (اگر آپ نے ایسا کیا) تو درست نہ ہوگا، اور درست اس لیے نہ ہوگا کہ اللہ نے آپ سے دونوں گروہوں (قافلہ یا لشکر) میں سے کسی ایک پر فتح و غلبہ کا وعدہ کیا تھا ١ ؎ اور اللہ نے آپ سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کردیا ہے، آپ نے فرمایا : تم سچ کہتے ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ١ ؎: یہ اللہ تعالیٰ کا قول : «وإذ يعدکم اللہ إحدی الطائفتين أنها لكم» (الانفال : ٧ ) کی طرف اشارہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦١٢) (ضعیف الإسناد) (سماک کی عکرمہ سے روایت میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3080

【132】

تفیسر سورت انفال

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ (جنگ بدر کے موقع پر) رسول اللہ ﷺ نے (مشرکین مکہ پر) ایک نظر ڈالی، وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے صحابہ تین سو دس اور کچھ (کل ٣١٣ ) تھے۔ پھر آپ قبلہ رخ ہوگئے اور اپنے دونوں ہاتھ اللہ کے حضور پھیلا دیئے اور اپنے رب کو پکارنے لگے : اے میرے رب ! مجھ سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا فرما دے، جو کچھ تو نے مجھے دینے کا وعدہ فرمایا ہے، اسے عطا فرما دے، اے میرے رب ! اگر اہل اسلام کی اس مختصر جماعت کو تو نے ہلاک کردیا تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ کی جاسکے گی ۔ آپ قبلہ کی طرف منہ کیے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے اپنے رب کے سامنے گڑگڑاتے رہے یہاں تک کہ آپ کی چادر آپ کے دونوں کندھوں پر سے گر پڑی۔ پھر ابوبکر (رض) نے آ کر آپ کی چادر اٹھائی اور آپ کے کندھوں پر ڈال کر پیچھے ہی سے آپ سے لپٹ کر کہنے لگے۔ اللہ کے نبی ! بس، کافی ہے آپ کی اپنے رب سے اتنی ہی دعا۔ اللہ نے آپ سے جو وعدہ کر کھا ہے وہ اسے پورا کرے گا (ان شاء اللہ) پھر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی «إذ تستغيثون ربکم فاستجاب لکم أني ممدکم بألف من الملائكة مردفين» ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - عمر (رض) کی اس حدیث کو صرف عکرمہ بن عمار کی روایت سے جانتے ہیں۔ جسے وہ ابوزمیل سے روایت کرتے ہیں۔ ابوزمیل کا نام سماک حنفی ہے۔ ایسا بدر کے دن ہوا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ١٨ (١٧٦٣) (تحفة الأشراف : ١٠٤٩٦) ، و مسند احمد (١/٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یاد کرو اس وقت کو جب تم اپنے رب سے فریاد رسی چاہتے تھے تو اللہ نے تمہاری درخواست قبول کرلی ، اور فرمایا : میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا وہ پیہم یکے بعد دیگرے آتے رہیں گے ، تو اللہ نے ان کی فرشتوں سے مدد کی۔ (الأنفال : ٩ ) ٢ ؎ : یعنی فرشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کا واقعہ بدر کے دن پیش آیا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3081

【133】

تفیسر سورت انفال

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے لیے اللہ نے مجھ پر دو امان نازل فرمائے ہیں (ایک) «وما کان اللہ ليعذبهم وأنت فيهم» تمہارے موجود رہتے ہوئے اللہ انہیں عذاب سے دوچار نہ کرے گا (الأنفال : ٣٣ ) ، (دوسرا) «وما کان اللہ معذبهم وهم يستغفرون» دوسرے جب وہ توبہ و استغفار کرتے رہیں گے تو بھی ان پر اللہ عذاب نازل نہ کرے گا (الأنفال : ٣٣ ) ، اور جب میں (اس دنیا سے) چلا جاؤں گا تو ان کے لیے دوسرا امان استغفار قیامت تک چھوڑ جاؤں گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے۔ ٢ - اسماعیل بن مہاجر حدیث میں ضعیف مانے جاتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩١٠٩) (ضعیف الإسناد) (سند میں اسماعیل بن ابراہیم بن مہاجر ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (1341) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3082

【134】

تفیسر سورت انفال

عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر آیت : «وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة» تم کافروں کے مقابلے کے لیے جتنی قوت فراہم کرسکتے ہو کرو (الانفال : ٦٠ ) پڑھی، اور فرمایا : «قوة» سے مراد تیر اندازی ہے۔ آپ نے یہ بات تین بار کہی، سنو عنقریب اللہ تمہیں زمین پر فتح دیدے گا۔ اور تمہیں مستغنی اور بےنیاز کر دے گا۔ تو ایسا ہرگز نہ ہو کہ تم میں سے کوئی بھی (نیزہ بازی اور) تیر اندازی سے عاجز و غافل ہوجائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - بعض نے یہ حدیث اسامہ بن زید سے روایت کی ہے اور اسامہ نے صالح بن کیسان سے روایت کی ہے، ٢ - ابواسامہ نے اور کئی لوگوں نے اسے عقبہ بن عامر سے روایت کیا ہے، ٣ - وکیع کی حدیث زیادہ صحیح ہے، ٤ - صالح بن کیسان کی ملاقات عقبہ بن عامر سے نہیں ہے، ہاں ان کی ملاقات ابن عمر سے ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٥٢ (١٩١٧) ، سنن ابی داود/ الجھاد ٢٤ (٢٥١٤) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٩ (٢٨١٣) (تحفة الأشراف : ٩٩٧٥) ، و مسند احمد (٤/١٥٧) ، وسنن الدارمی/الجھاد ١٤ (٢٤٤٨) (صحیح) (سند میں ایک راوی مبہم ہے جو دوسروں کی سند میں نہیں ہے، لیکن متابعات کی بنا پر مؤلف کی یہ روایت صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (2813) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3083

【135】

تفیسر سورت انفال

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب بدر کی لڑائی ہوئی اور قیدی پکڑ کر لائے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیدیوں کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو ؟ پھر راوی نے حدیث میں اصحاب رسول ﷺ کے مشوروں کا طویل قصہ بیان کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بغیر فدیہ کے کسی کو نہ چھوڑا جائے، یا اس کی گردن اڑا دی جائے ۔ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں : میں نے کہا : اللہ کے رسول ! سہیل بن بیضاء کو چھوڑ کر، اس لیے کہ میں نے انہیں اسلام کی باتیں کرتے ہوئے سنا ہے، (مجھے توقع ہے کہ وہ ایمان لے آئیں گے) یہ سن کر رسول اللہ ﷺ خاموش رہے، تو میں نے اس دن اتنا خوف محسوس کیا کہ کہیں مجھ پر پتھر نہ برس پڑیں، اس سے زیادہ کسی دن بھی میں نے اپنے کو خوف زدہ نہ پایا ١ ؎، بالآخر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سہیل بن بیضاء کو چھوڑ کر ، اور عمر (رض) کی تائید میں «ما کان لنبي أن يكون له أسری حتی يثخن في الأرض» کسی نبی کے لیے یہ مناسب اور سزاوار نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ پورے طور پر خوں ریزی نہ کرلے (الأنفال : ٦٧ ) ، والی آیت آخر تک نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - ابوعبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن مسعود سے سنا نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٧١٤ (ضعیف) (سند میں ابو عبیدہ کا اپنے باپ سے سماع نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : آپ کی خاموشی میرے لیے پریشانی کا باعث تھی کہ کہیں میری بات آپ کو ناگوار نہ لگی ہو۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف مضی (1767) // (288 / 1783) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3084

【136】

تفیسر سورت انفال

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم مسلمانوں سے پہلے کسی کالے بالوں والے (مراد ہے انسان) کے لیے اموال غنیمت حلال نہ تھے، آسمان سے ایک آگ آتی اور غنائم کو کھا جاتی (بھسم کردیتی) سلیمان اعمش کہتے ہیں : اسے ابوہریرہ کے سوا اور کون کہہ سکتا ہے اس وقت ؟ بدر کی لڑائی کے وقت مسلمانوں کا حال یہ ہوا کہ قبل اس کے کہ اموال غنیمت تقسیم کر کے ہر ایک کو دے کر ان کے لیے حلال کردی جاتیں وہ لوگ اموال غنیمت پر ٹوٹ پڑے۔ اس وقت اللہ نے یہ آیت «لولا کتاب من اللہ سبق لمسکم فيما أخذتم عذاب عظيم» اگر پہلے سے تمہارے حق میں اللہ کی جانب سے لکھا نہ جا چکا ہو تاکہ تمہیں غنائم ملیں گے تو تمہیں تمہارے اس کے لینے کے سبب سے بڑا عذاب پہنچتا (الأنفال : ٦٨ ) نازل فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اعمش کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٣٧٨) ، وانظر صحیح مسلم/الجھاد ١١ (١٧٤٧) ، و مسند احمد (٢/٢٥٢، ٣١٧، ٣١٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2155) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3085

【137】

تفسیر سورت التوبہ

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان (رض) سے کہا کہ کس چیز نے آپ کو آمادہ کیا کہ سورة الانفال کو جو «مثانی» میں سے ہے اور سورة برأۃ کو جو «مئین» میں سے ہے دونوں کو ایک ساتھ ملا دیا، اور ان دونوں سورتوں کے بیچ میں «بسم اللہ الرحمن الرحيم» کی سطر بھی نہ لکھی۔ اور ان دونوں کو «سبع طوال» (سات لمبی سورتوں) میں شامل کردیا۔ کس سبب سے آپ نے ایسا کیا ؟ عثمان (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ پر زمانہ آتا جا رہا تھا اور آپ پر متعدد سورتیں نازل ہو رہی تھیں، تو جب آپ پر کوئی آیت نازل ہوتی تو وحی لکھنے والوں میں سے آپ کسی کو بلاتے اور کہتے کہ ان آیات کو اس سورة میں شامل کر دو جس میں ایسا ایسا مذکور ہے۔ اور پھر جب آپ پر کوئی آیت اترتی تو آپ فرماتے اس آیت کو اس سورة میں رکھ دو جس میں اس اس طرح کا ذکر ہے۔ سورة الانفال ان سورتوں میں سے ہے جو مدینہ میں آنے کے بعد شروع شروع میں نازل ہوئی ہیں۔ اور سورة برأت قرآن کے آخر میں نازل ہوئی ہے۔ اور دونوں کے قصوں میں ایک دوسرے سے مشابہت تھی تو ہمیں خیال ہوا کہ یہ اس کا ایک حصہ (و تکملہ) ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ بتائے بغیر کہ یہ سورة اسی سورة کا جزو حصہ ہے اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔ اس سبب سے ہم نے ان دونوں سورتوں کو ایک ساتھ ملا دیا اور ان دونوں سورتوں کے درمیان ہم نے «بسم اللہ الرحمن الرحيم» نہیں لکھا اور ہم نے اسے «سبع طوال» میں رکھ دیا (شامل کردیا) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسے ہم صرف عوف کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ یزید فارسی کے واسطہ سے ابن عباس سے روایت کرتے ہیں، اور یزید فارسی تابعین میں سے ہیں، انہوں نے ابن عباس سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ وہ یزید بن ہرمز ہیں۔ اور یزید رقاشی یہ یزید بن ابان رقاشی ہیں، یہ تابعین میں سے ہیں اور ان کی ملاقات ابن عباس سے نہیں ہے۔ انہوں نے صرف انس بن مالک سے روایت کی ہے، اور یہ دونوں ہی بصرہ والوں میں سے ہیں۔ اور یزید فارسی، یزید رقاشی سے متقدم ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٢٥ (٧٨٦) (تحفة الأشراف : ٩٨١٩) ، و مسند احمد (١/٥٧، ٦٩) (ضعیف) (سند میں یزید الفارسی البصری مقبول راوی ہیں یعنی متابعت کے وقت اور متابعت موجود نہیں ہے اس لیے لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (140) // عندنا برقم (168 / 786) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3086

【138】

تفسیر سورت التوبہ

سلیمان بن عمرو بن احوص کہتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھے بتایا کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھے، تو آپ ﷺ نے اللہ کی تعریف اور ثنا کی، اور وعظ و نصیحت فرمائی۔ پھر فرمایا : کون سا دن سب سے زیادہ حرمت و تقدس والا ہے ؟ کون سا دن سب سے زیادہ حرمت و تقدس ہے ؟ کون سا دن سب سے زیادہ حرمت و تقدس والا ہے ؟ لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! حج اکبر کا دن ہے۔ آپ نے فرمایا : تمہارا خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں سب تم پر حرام ہیں جیسے کہ تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے، تمہارے اس شہر میں تمہارے اس مہینے میں، سن لو ! کوئی انسان کوئی جرم نہیں کرے گا مگر اس کا وبال اسی پر آئے گا، کوئی باپ قصور نہیں کرے گا کہ جس کی سزا اس کے بیٹے کو ملے۔ اور نہ ہی کوئی بیٹا کوئی قصور کرے گا کہ اس کی سزا اس کے باپ کو ملے۔ آگاہ رہو ! مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ کسی مسلمان کے لیے اپنے بھائی کی کوئی چیز حلال نہیں ہے سوائے اس چیز کے جو اسے اس کا بھائی خود سے دیدے۔ سن لو ! جاہلیت کا ہر سود باطل ہے تم صرف اپنا اصل مال (اصل پونجی) لے سکتے ہو، نہ تم کسی پر ظلم و زیادتی کرو گے اور نہ تمہارے ساتھ ظلم و زیادتی کی جائے گی۔ سوائے عباس بن عبدالمطلب کے سود کے کہ اس کا سارا کا سارا معاف ہے۔ خبردار ! جاہلیت کا ہر خون ختم کردیا گیا ہے ١ ؎ اور جاہلیت میں ہوئے خونوں میں سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں وہ حارث بن عبدالمطلب کا خون ہے، وہ قبیلہ بنی لیث میں دودھ پیتے تھے، تو انہیں قبیلہ ہذیل نے قتل کردیا تھا، سنو ! عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک (و برتاؤ) کرو۔ کیونکہ وہ تمہارے پاس بےکس و لاچار بن کر ہیں اور تم اس کے سوا ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو، مگر یہ کہ وہ کوئی کھلی ہوئی بدکاری کر بیٹھیں، اگر وہ کوئی قبیح گناہ کر بیٹھیں تو ان کے بستر الگ کر دو اور انہیں مارو مگر ایسی مار نہ لگاؤ کہ ان کی ہڈی پسلی توڑ بیٹھو، پھر اگر وہ تمہارے کہے میں آ جائیں تو ان پر ظلم و زیادتی کے راستے نہ ڈھونڈو، خبردار ہوجاؤ! تمہارے لیے تمہاری بیویوں پر حقوق ہیں، اور تمہاری بیویوں کے تم پر حقوق ہیں، تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ جنہیں تم ناپسند کرتے ہو انہیں وہ تمہارے بستروں پر نہ آنے دیں، اور نہ ہی ان لوگوں کو گھروں میں آنے کی اجازت دیں جنہیں تم برا جانتے ہو، اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور انہیں اچھا پہناؤ اور اچھا کھلاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسے ابوالا ٔحوص نے شبیب بن غرقدہ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢١٥٩ (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی معاف کردیا گیا ہے ، اب جاہلیت کے کسی خون کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1851) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3087 علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : حج اکبر کا دن کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : نحر (قربانی) کا دن ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٩٥٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس لیے کہ اکثر امور حج طواف ، زیارت ، رمی اور ذبح و حلق وغیرہ اسی دن انجام پاتے ہیں۔ اور یہ حدیث اس آیت کی تفسیر میں لائیں ہیں «يوم الحج الأكبر» (التوبہ : ٣ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی (970) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3088

【139】

None

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: حج اکبر کا دن کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نحر ( قربانی ) کا دن ہے“ ۱؎۔

【140】

تفسیر سورت التوبہ

علی (رض) کہتے ہیں کہ حج اکبر کا دن یوم النحر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ روایت محمد بن اسحاق کی روایت سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ حدیث کئی سندوں سے ابواسحاق سے مروی ہے، اور ابواسحاق حارث کے واسطہ سے علی (رض) سے موقوفاً روایت کرتے ہیں۔ اور ہم کسی کو محمد بن اسحاق کے سوا نہیں جانتے کہ انہوں نے اسے مرفوع کیا ہو، ٢ - شعبہ نے اس حدیث کو ابواسحاق سے، ابواسحاق نے عبداللہ بن مرہ سے، اور عبداللہ نے حارث کے واسطہ سے علی (رض) سے موقوفا ہی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، انظر حدیث رقم ٩٥٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3089

【141】

تفسیر سورت التوبہ

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے سورة برأۃ ابوبکر (رض) کے ساتھ بھیجی ١ ؎ پھر آپ نے انہیں بلا لیا، فرمایا : میرے خاندان کے کسی فرد کے سوا کسی اور کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ جا کر یہ پیغام وہاں پہنچائے (اس لیے تم اسے لے کر نہ جاؤ) پھر آپ نے علی (رض) کو بلایا اور انہیں سورة برأۃ دے کر (مکہ) بھیجا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث انس بن مالک کی روایت سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٩٦) (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : تاکہ مکہ میں جا کر اسے لوگوں کو سنا دیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3090

【142】

تفسیر سورت التوبہ

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ابوبکر (رض) کو (مکہ) بھیجا کہ وہاں پہنچ کر لوگوں میں ان کلمات (سورۃ التوبہ کی ابتدائی آیات) کی منادی کردیں۔ پھر (ان کے بھیجنے کے فوراً بعد ہی) ان کے پیچھے آپ نے علی (رض) کو بھیجا۔ ابوبکر (رض) بھی کسی جگہ راستہ ہی میں تھے کہ انہوں نے اچانک رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی قصویٰ کی بلبلاہٹ سنی، گھبرا کر (خیمہ) سے باہر آئے، انہیں خیال ہوا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لا رہے ہیں، لیکن وہ آپ کے بجائے علی (رض) تھے۔ علی (رض) نے آپ ( ﷺ ) کا خط انہیں پکڑا دیا، اور (آپ نے) علی (رض) کو حکم دیا کہ وہ ان کلمات کا (بزبان خود) اعلان کردیں۔ پھر یہ دونوں حضرات ساتھ چلے، (دونوں نے حج کیا، اور علی (رض) نے ایام تشریق میں کھڑے ہو کر اعلان کیا : اللہ اور اس کے رسول ہر مشرک و کافر سے بری الذمہ ہیں، صرف چار مہینے (سر زمین مکہ میں) گھوم پھر لو، اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے، کوئی شخص بیت اللہ کا ننگا ہو کر طواف نہ کرے، جنت میں صرف مومن ہی جائے گا، علی (رض) اعلان کرتے رہے جب وہ تھک جاتے تو انہیں کلمات کا ابوبکر (رض) اعلان کرنے لگتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے ابن عباس کی روایت سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٤٧٦) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3091

【143】

تفسیر سورت التوبہ

زید بن یثیع کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) سے پوچھا : آپ حج میں کیا پیغام لے کر بھیجے گئے تھے ؟ کہا : میں چار چیزوں کا اعلان کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا (ایک یہ کہ) کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف (آئندہ) نہیں کرے گا۔ (دوسرے) یہ کہ جس کافر اور نبی اکرم ﷺ کے درمیان کوئی معاہدہ ہے وہ معاہدہ مدت ختم ہونے تک قائم رہے گا اور جن کا کوئی معاہدہ نہیں ان کے لیے چار ماہ کی مدت ہوگی ١ ؎ (تیسرے) یہ کہ جنت میں صرف ایمان والا (مسلمان) ہی داخل ہو سکے گا۔ (چوتھے یہ کہ) اس سال کے بعد مسلم و مشرک دونوں حج نہ کرسکیں گے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث سفیان بن عیینہ کی روایت سے جسے وہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں حسن صحیح ہے، ٢ - اسے سفیان ثوری نے ابواسحاق کے بعض اصحاب سے روایت کی ہے اور انہوں نے علی (رض) سے روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٨٧١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مسلمان ہوجائیں یا وطن چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں ، یا پھر مرنے کے لیے تیار ہوجائیں ، حرم ان کے ناپاک وجود سے پاک کیا جائے گا۔ ٢ ؎ : حج صرف مسلمان کریں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح وقد مضی (878 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3092 سفیان بن عیینہ نے بسند «أبي إسحق عن زيد بن أثيع عن علي» اسی طرح روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح وقد مضی (878) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3092 اس سند سے بھی ابواسحاق نے زید بن اثیع کے واسطہ سے علی سے اسی طرح روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابن عیینہ سے یہ دونوں روایتیں آئی ہیں، ٢ - کہا جاتا ہے کہ سفیان نے «عن ابن اثیع» اور «عن ابن یثیع» («الف» اور «ی» کے فرق کے ساتھ دونوں) روایت کیا ہے۔ اور صحیح زید بن یثیع ہے، ٣ - شعبہ نے ابواسحاق کے واسطہ سے زید سے اس حدیث کے علاوہ بھی روایت کی ہے جس میں انہیں وہم ہوگیا ہے۔ زید بن اثیل کہا، اور ایسا کہنے میں ان کا کوئی متابع (موید) نہیں ہے، ٤ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح وقد مضی (878) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3092

【144】

تفسیر سورت التوبہ

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ مسجد کا عادی ہے (یعنی برابر مسجد میں نمازیں پڑھنے جاتا ہے) تو اس کے مومن ہونے کی گواہی دو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : «إنما يعمر مساجد اللہ من آمن بالله واليوم الآخر» اللہ کی مسجدیں وہی لوگ آباد رکھتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں (التوبہ : ١٨ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٦١٧ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : (حديث : إذا رأيتم الرجل ... ) ضعيف، (حديث : يتعاهد المسجد ) ضعيف (حديث : إذا رأيتم الرجل ... ) مضی (2750) // (490 / 2763) ، ضعيف الجامع الصغير (509) ، المشکاة (723) //، (حديث : يتعاهد المسجد ) انظر ما قبله (3092) // وتقدم برقم (490 / 2763) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3093

【145】

تفسیر سورت التوبہ

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت «والذين يکنزون الذهب والفضة» اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں، اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو آپ انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئیے (التوبہ : ٣٤ ) ، نازل ہوئی، اس وقت ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ کے بعض صحابہ نے کہا : سونے اور چاندی کے بارے میں جو اترا سو اترا (یعنی اس کی مذمت آئی) اگر ہم جانتے کہ کون سا مال بہتر ہے تو اسی کو اپناتے۔ آپ نے فرمایا : بہترین مال یہ ہے کہ آدمی کے پاس اللہ کو یاد کرنے والی زبان ہو، شکر گزار دل ہو، اور اس کی بیوی ایسی مومنہ عورت ہو جو اس کے ایمان کو پختہ تر بنانے میں مددگار ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا کہ کیا سالم بن ابی الجعد نے ثوبان سے سنا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : نہیں، میں نے ان سے کہا : پھر انہوں نے کسی صحابی سے سنا ہے ؟ کہا : انہوں نے جابر بن عبداللہ اور انس بن مالک (رض) سے سنا ہے اور انہوں نے ان کے علاوہ کئی اور صحابہ کا ذکر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٥ (١٨٥٦) (تحفة الأشراف : ٢٠٨٤) ، و مسند احمد (٥/٢٧٨، ٢٨٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1856) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3094

【146】

تفسیر سورت التوبہ

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، میری گردن میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی، آپ نے فرمایا : عدی ! اس بت کو نکال کر پھینک دو ، میں نے آپ کو سورة برأۃ کی آیت : «اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله» انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور راہبوں کو معبود بنا لیا ہے (التوبہ : ٢٥ ) ، پڑھتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا : وہ لوگ ان کی عبادت نہ کرتے تھے، لیکن جب وہ لوگ کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تھے تو وہ لوگ اسے حلال جان لیتے تھے، اور جب وہ لوگ ان کے لیے کسی چیز کو حرام ٹھہرا دیتے تو وہ لوگ اسے حرام جان لیتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف عبدالسلام بن حرب کی روایت ہی سے جانتے ہیں، ٣ - غطیف بن اعین حدیث میں معروف نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٨٧٧) (حسن) (سند میں غطیف ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس طرح وہ احبار و رہبان حلال و حرام ٹھہرا کر اللہ کے اختیار میں شریک بن گئے ، اور اس حلال و حرام کو ماننے والے لوگ مشرک اور ان احبار و رہبان کے عبادت گزار قرار دئیے گئے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3095

【147】

تفسیر سورت التوبہ

ابوبکر (رض) کہتے ہیں کہ میں اور نبی اکرم ﷺ دونوں جب غار میں تھے تو میں نے آپ ﷺ سے کہا کہ اگر ان (کافروں) میں سے کوئی اپنے قدموں کی طرف نظر ڈالے تو ہمیں اپنے قدموں کے نیچے (غار میں) دیکھ لے گا۔ آپ نے فرمایا : ابوبکر ! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال و گمان ہے جن کا تیسرا ساتھی اللہ ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - ہمام کی حدیث مشہور ہے اور ہمام اس روایت میں منفرد ہیں، ٣ - اس حدیث کو حبان بن ہلال اور کئی لوگوں نے اسی کے مانند ہمام سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الصحابة ٢ (٣٦٥٣) ، ومناقب الأنصار ٤٥ (٣٩٢٢) ، وتفسیر التوبة ٩ (٤٦٦٣) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١ (٢٣٨١) (تحفة الأشراف : ٦٥٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اللہ تعالیٰ کے قول «إن اللہ معنا» (التوبہ : ٤٠ ) کی طرف اشارہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج فقه السيرة (173) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3096

【148】

تفسیر سورت التوبہ

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ جب عبداللہ بن ابی (منافقوں کا سردار) مرا تو رسول اللہ ﷺ اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے بلائے گئے، آپ کھڑے ہو کر اس کی طرف بڑھے اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر نماز پڑھانے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ میں لپک کر آپ کے سینے کے سامنے جا کھڑا ہوا، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا آپ اللہ کے دشمن عبداللہ بن ابی کی نماز پڑھنے جا رہے ہیں جس نے فلاں فلاں دن ایسا اور ایسا کہا تھا ؟ وہ اس کے بےادبی و بدتمیزی کے دن گن گن کر بیان کرنے لگے، رسول اللہ ﷺ مسکراتے رہے یہاں تک کہ جب میں بہت کچھ کہہ گیا (حد سے تجاوز کر گیا) تو آپ نے فرمایا : (بس بس) مجھ سے ذرا پرے جاؤ عمر ! مجھے اختیار دیا گیا ہے تو میں نے اس کے لیے مغفرت طلبی کو ترجیح دی ہے۔ کیونکہ مجھ سے کہا گیا ہے : «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر اللہ لهم» ان (منافقوں) کے لیے مغفرت طلب کرو یا نہ کرو اگر تم ان کے لیے ستر بار بھی مغفرت طلب کرو گے تو بھی وہ انہیں معاف نہ کرے گا (التوبہ : ٨٠ ) ، اگر میں جانتا کہ ستر بار سے زیادہ مغفرت طلب کرنے سے وہ معاف کردیا جائے گا تو ستر بار سے بھی زیادہ میں اس کے لیے مغفرت مانگتا۔ پھر آپ نے عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھی اور جنازہ کے ساتھ چلے اور اس کی قبر پر کھڑے رہے، یہاں تک کہ اس کے کفن دفن سے فارغ ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ کی شان میں اپنی جرات و جسارت پر مجھے حیرت ہوئی۔ اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں ١ ؎، قسم اللہ کی ! بس تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں۔ «ولا تصل علی أحد منهم مات أبدا ولا تقم علی قبره» ان میں سے کسی (منافق) کی جو مرجائے نماز جنازہ کبھی بھی نہ پڑھو، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہو (التوبہ : ٨٤ ) ، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے مرنے تک کبھی بھی کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٤ (١٣٦٦) ، وتفسیر التوبة ١٢ (٤٦٧١) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٩ (١٩٦٨) (تحفة الأشراف : ١٠٥٠٩) ، و مسند احمد (١/١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کہ میری یہ جرأت حق کے خاطر تھی بےادبی کے لیے نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح أحكام الجنائز (93 - 95) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3097

【149】

تفسیر سورت التوبہ

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عبداللہ بن ابی کے باپ کا جب انتقال ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور کہا کہ آپ اپنی قمیص ہمیں عنایت فرما دیں، میں انہیں (عبداللہ بن ابی) اس میں کفن دوں گا۔ اور ان کی نماز جنازہ پڑھ دیجئیے اور ان کے لیے استغفار فرما دیجئیے۔ تو آپ نے عبداللہ کو اپنی قمیص دے دی۔ اور فرمایا : جب تم (غسل و غیرہ سے) فارغ ہوجاؤ تو مجھے خبر دو ۔ پھر جب آپ نے نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو عمر (رض) نے آپ کو کھینچ لیا، اور کہا : کیا اللہ نے آپ کو منافقین کی نماز پڑھنے سے منع نہیں فرمایا ؟ آپ نے فرمایا : مجھے دو چیزوں «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم» ان کے لیے استغفار کرو یا نہ کرو میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا گیا۔ چناچہ آپ نے اس کی نماز پڑھی۔ جس پر اللہ نے آیت «ولا تصل علی أحد منهم مات أبدا ولا تقم علی قبره» نازل فرمائی۔ تو آپ نے ان (منافقوں) پر نماز جنازہ پڑھنی چھوڑ دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢٢ (١٢٦٩) ، وتفسیر التوبة ١٢ (٤٦٧٠) ، و ١٣ (٤٦٧٢) ، واللباس ٨ (٥٧٩٦) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢ (٢٤٠٠) ، والمنافقین (٢٧٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣١ (١٥٢٣) (تحفة الأشراف : ٨١٣٩) ، و مسند احمد (٢/١٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1523) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3098

【150】

تفسیر سورت التوبہ

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ دو آدمی اس مسجد کے بارے میں اختلاف کر بیٹھے جس کی تاسیس و تعمیر پہلے دن سے تقویٰ پر ہوئی ہے ١ ؎ (کہ وہ کون سی ہے ؟ ) ایک شخص نے کہا : وہ مسجد قباء ہے اور دوسرے نے کہا : وہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد ہے۔ تب آپ نے فرمایا : وہ میری یہی مسجد (مسجد نبوی) ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عمران بن ابی انس کی روایت سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - یہ حدیث ابو سعید خدری سے اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی مروی ہے، ٣ - اسے انیس بن ابی یحییٰ نے اپنے والد سے اور ان کے والد ابو سعید خدری (رض) سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المناسک ٩٦ (١٣٩٨) (تحفة الأشراف : ٤١١٨) (تحفة الأشراف : ١٢٣٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ارشاد باری «لمسجد أسس علی التقوی من أول يوم» (التوبہ : ١٠٨ ) کی طرف اشارہ ہے۔ ٢ ؎ : اس مسجد کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ مسجد نبوی ہے یا مسجد قباء اس حدیث میں ہے کہ وہ مسجد نبوی ہے ، جبکہ دوسری حدیث میں ہے کہ وہ مسجد قباء ہے ، اور آیت کے سیاق و سباق سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ وہ مسجد قباء ہے ، تو اس حدیث میں فرمان رسول ﷺ وہ یہی مسجد نبوی ہے کا کیا جواب ہے ؟ جواب یہ ہے کہ آپ کے جواب کا مطلب صرف اتنا ہے کہ میری اس مسجد کی بھی پہلے دن سے تقویٰ پر بنیاد پڑی ہے ، علماء کی توجیہات کا یہی خلاصہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3099

【151】

تفسیر سورت التوبہ

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آیت «فيه رجال يحبون أن يتطهروا والله يحب المطهرين» اس میں (قباء میں) وہ لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک رہیں اور اللہ پاک رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہے (التوبہ : ١٠٨ ) ، اہل قباء کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان کی عادت تھی کہ وہ استنجاء پانی سے کرتے تھے، تو ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوایوب، انس بن مالک اور محمد بن عبداللہ بن سلام سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطھارة ٢٣ (٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٢٨ (٣٥٧) (تحفة الأشراف : ١٢٣٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (357) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3100

【152】

تفسیر سورت التوبہ

علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو اپنے مشرک ماں باپ کے لیے مغفرت طلب کرتے ہوئے سنا تو میں نے اس سے کہا : کیا اپنے مشرک ماں باپ کے لیے مغفرت طلب کرتے ہو ؟ اس نے کہا : کیا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت طلب نہیں کی تھی ؟ پھر میں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا تو آپ پر یہ آیت نازل ہوئی «ما کان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشرکين» نبی اور مومنین کے لیے زیبا نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت طلب کریں (التوبہ : ١١٣ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں سعید بن مسیب سے بھی روایت ہے اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ١٠٢ (٢٠٣٨) (تحفة الأشراف : ١٠١٨١) ، و مسند احمد (١/١٣٠، ١٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن أحكام الجنائز (96) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3101

【153】

تفسیر سورت التوبہ

کعب بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جتنے بھی غزوے کیے ان میں سے غزوہ تبوک کو چھوڑ کر کوئی بھی غزوہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں آپ کے ساتھ میں نہ رہا ہوں۔ رہا بدر کا معاملہ سو بدر میں جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے ان میں سے کسی کی بھی آپ نے سرزنش نہیں کی تھی۔ کیونکہ آپ کا ارادہ (شام سے آ رہے) قافلے کو گھیرنے کا تھا، اور قریش اپنے قافلے کو بچانے کے لیے نکلے تھے، پھر دونوں قافلے بغیر پہلے سے طے کئے ہوئے جگہ میں جا ٹکرائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت : «إذ أنتم بالعدوة الدنيا وهم بالعدوة القصوی والرکب أسفل منکم ولو تواعدتم لاختلفتم في الميعاد ولکن ليقضي اللہ أمرا کان مفعولا» (الأنفال : ٤٢ ) ١ ؎ میں فرمایا ہے اور قسم اللہ کی، رسول اللہ ﷺ کے غزوات میں سب سے بڑھ کر غزوہ بدر ہے۔ اور میں اس میں شرکت کو عقبہ کی رات میں اپنی بیعت کے مقابل میں قابل ترجیح نہیں سمجھتا۔ جب ہم نے اسلام پر عہد و میثاق لیا تھا۔ اس کے بعد نبی اکرم ﷺ کو چھوڑ کر میں کبھی پیچھے نہیں ہوا یہاں تک کہ غزوہ تبوک کا واقعہ پیش آگیا۔ اور یہ آخری غزوہ تھا جس میں آپ ﷺ تشریف لے گئے تھے، نبی اکرم ﷺ نے لوگوں میں کوچ کا اعلان کردیا۔ پھر انہوں نے لمبی حدیث بیان کی، کہا (رسول اللہ ﷺ کے غزوہ تبوک سے لوٹنے کے بعد) میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور مسلمان آپ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے۔ اور چاند کی روشنی بکھرنے کی طرح آپ نور بکھیر رہے تھے۔ آپ جب کسی معاملے میں خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ انور دمکنے لگتا تھا، میں پہنچ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا : کعب بن مالک ! اس بہترین دن کی بدولت خوش ہوجاؤ جو تمہیں جب سے تمہاری ماں نے جنا ہے اس دن سے آج تک میں اب حاصل ہوا ہے ۔ میں نے کہا : اللہ کے نبی ! یہ دن مجھے اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے یا آپ کی طرف سے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے ۔ پھر آپ نے یہ آیات پڑھیں «لقد تاب اللہ علی النبي والمهاجرين والأنصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة» یہاں تک کہ آپ تلاوت کرتے ہوئے «إن اللہ هو التواب الرحيم» ١ ؎ تک پہنچے۔ آیت «اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقين» بھی ہمارے ہی متعلق نازل ہوئی ہے۔ میں نے کہا : اللہ کے نبی ! میری توبہ کی قبولیت کا تقاضہ ہے کہ میں جب بھی بولوں سچی بات ہی بولوں، اور میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کر کے خود خالی ہاتھ ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا : اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے ۔ میں نے کہا : تو پھر میں اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے، اسلام قبول کرنے کے بعد اللہ نے میری نظر میں اس سے بڑھ کر کوئی اور نعمت مجھے نہیں عطا کی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سچ بولا اور جھوٹ نہ بولے کہ ہم ہلاک ہوجاتے جیسا کہ (جھوٹ بول کر) دوسرے ہلاک و برباد ہوگئے۔ اور میرا گمان غالب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سچائی کے معاملے میں جتنا مجھے آزمایا ہے کسی اور کو نہ آزمایا ہوگا، اس کے بعد تو میں نے کبھی جھوٹ بولنے کا قصد و ارادہ ہی نہیں کیا۔ اور میں اللہ کی ذات سے امید رکھتا ہوں کہ وہ باقی ماندہ زندگی میں بھی مجھے جھوٹ بولنے سے محفوظ رکھے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث زہری سے اس اسناد سے مختلف دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، ٢ - یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حدیث روایت کی گئی ہے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے اور وہ روایت کرتے ہیں اپنے چچا عبیداللہ سے اور وہ کعب سے، اور اس کے سوا اور بھی کچھ کہا گیا ہے، ٣ - یونس بن یزید نے یہ حدیث زہری سے روایت کی ہے، اور زہری نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے کہ ان کے باپ نے کعب بن مالک سے سن کر بیان کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف بھذا السیاق الطویل، وأخرجہ مختصرا ومتفرقا کل من : صحیح البخاری/الجھاد ١٠١ (٢٩٤٧، ٢٩٤٨) ، والمغازي ٧٩ (٤٤١٨) ، و سنن ابی داود/ الجھاد ١٠١ (٢٦٣٧) (تحفة الأشراف : ١١١٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اللہ تعالیٰ نے توجہ فرمائی اپنے نبی پر اور ان مہاجرین و انصار کی طرف جنہوں نے اس کی مدد کی کٹھن گھڑی میں جب کہ ان میں سے ایک فریق کے دلوں کے پلٹ جانے اور کج روی اختیار کرلینے کا ڈر موجود تھا ، پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ بیشک وہ ان پر نرمی والا اور مہر بان ہے (التوبہ : ١١٧ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1912) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3102

【154】

تفسیر سورت التوبہ

زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے موقع پر ابوبکر صدیق (رض) نے انہیں بلا بھیجا، اتفاق کی بات کہ عمر بن خطاب (رض) بھی وہاں موجود تھے، ابوبکر (رض) نے کہا : عمر بن خطاب میرے پاس آئے ہیں کہتے ہیں کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے بہت سے قراء (حافظوں) کی ہلاکت ہوئی ہے، اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر ان تمام جگہوں میں جہاں جنگیں چل رہی ہیں قراء قرآن کا قتل بڑھتا رہا تو بہت سارا قرآن ضائع ہوسکتا ہے، اس لیے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ مکمل قرآن اکٹھا کرنے کا حکم فرمائیں۔ ابوبکر (رض) نے عمر (رض) سے کہا : میں کوئی ایسی چیز کیسے کروں جسے رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا ہے۔ عمر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! یہ بہتر کام ہے۔ وہ مجھ سے یہ بات باربار کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے مجھے بھی اس کام کے لیے شرح صدر عطا کردیا جس کام کے لیے اللہ نے عمر کو شرح صدر عطا فرمایا تھا۔ اور میں نے بھی اس سلسلہ میں وہی بات مناسب سمجھی جو انہوں نے سمجھی۔ زید کہتے ہیں : ابوبکر (رض) نے (مجھ سے) کہا : تم جوان ہو، عقلمند ہو، ہم تمہیں (کسی معاملے میں بھی) متہم نہیں کرتے۔ اور تم رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے والی وحی لکھتے بھی تھے، تو ایسا کرو کہ پورا قرآن تلاش کر کے لکھ ڈالو، (یکجا کر دو ) زید کہتے ہیں : قسم اللہ کی ! اگر مجھ سے پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے کہتے تو یہ کام مجھے اس کام سے زیادہ بھاری نہ لگتا، میں نے کہا : آپ لوگ کوئی ایسا کام جسے رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا ہے کیسے (کرنے کی جرات) کرتے ہیں ؟ ابوبکر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! تمہارے لیے بہتر ہے۔ اور ابوبکر و عمر (رض) دونوں مجھ سے باربار یہی دہراتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرے سینے کو بھی اس حق کے لیے کھول دیا جس کے لیے ابوبکر و عمر (رض) کے سینے کو اس نے کھولا تھا، تو میں نے پورے قرآن کی تلاش و جستجو شروع کردی، میں پرزوں، کھجور کے پتوں، نرم پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے لے کر نقل کر کر کے یکجا کرنے لگا، تو سورة برأۃ کی آخری آیات «لقد جاء کم رسول من أنفسکم عزيز عليه ما عنتم حريص عليكم بالمؤمنين رءوف رحيم فإن تولوا فقل حسبي اللہ لا إله إلا هو عليه توکلت وهو رب العرش العظيم» تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے، اس پر تمہاری تکلیف شاق گزرتی ہے، وہ تمہاری بھلائی کا حریص ہے اور ایمان داروں کے حال پر نہایت درجہ شفیق اور مہربان ہے۔ پھر بھی اگر وہ منہ پھیر لیں تو اللہ مجھ کو کافی ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے (التوبہ : ١٢٨ ) ۔ مجھے خزیمہ بن ثابت (رض) کے پاس ملیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر التوبة ٢٠ (٤٦٧٩) ، وفضائل القرآن ٣ (٤٩٨٦) (تحفة الأشراف : ٣٧٢٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3103

【155】

تفسیر سورت التوبہ

انس (رض) کہتے ہیں کہ حذیفہ بن الیمان عثمان (رض) کے پاس آئے، ان دنوں آپ شام والوں کے ساتھ آرمینیہ کی فتح میں اور عراق والوں کے ساتھ آذر بائیجان کی فتح میں مشغول تھے، حذیفہ (رض) نے قرآن کی قرأت میں لوگوں کا اختلاف دیکھ کر عثمان بن عفان (رض) سے کہا : امیر المؤمنین ! اس امت کو سنبھالئے اس سے پہلے کہ یہ کتاب (قرآن مجید) کے معاملے میں اختلاف کا شکار ہوجائے (اور آپس میں لڑنے لگے) جیسا کہ یہود و نصاریٰ اپنی کتابوں (تورات و انجیل اور زبور) کے بارے میں مختلف ہوگئے۔ تو عثمان (رض) نے حفصہ (رض) کے پاس پیغام بھیجا کہ (ابوبکر و عمر (رض) کے تیار کرائے ہوئے) صحیفے ہمارے پاس بھیج دیں ہم انہیں مصاحف میں لکھا کر آپ کے پاس واپس بھیج دیں گے، چناچہ ام المؤمنین حفصہ (رض) نے عثمان بن عفان (رض) کے پاس یہ صحیفے بھیج دیے۔ پھر عثمان نے زید بن ثابت اور سعید بن العاص اور عبدالرحمٰن بن الحارث بن ہشام اور عبداللہ بن زبیر (رض) کے پاس ان صحیفوں کو اس حکم کے ساتھ بھیجا کہ یہ لوگ ان کو مصاحف میں نقل کردیں۔ اور تینوں قریشی صحابہ سے کہا کہ جب تم میں اور زید بن ثابت (رض) میں اختلاف ہوجائے تو قریش کی زبان (و لہجہ) میں لکھو کیونکہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے، یہاں تک کہ جب انہوں نے صحیفے مصحف میں نقل کرلیے تو عثمان نے ان تیار مصاحف کو (مملکت اسلامیہ کے حدود اربعہ میں) ہر جانب ایک ایک مصحف بھیج دیا۔ زہری کہتے ہیں مجھ سے خارجہ بن زید نے بیان کیا کہ زید بن ثابت نے کہا کہ میں سورة الاحزاب کی ایک آیت جسے میں رسول اللہ ﷺ کو پڑھتے ہوئے سنتا تھا اور مجھے یاد نہیں رہ گئی تھی اور وہ آیت یہ ہے «من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا اللہ عليه فمنهم من قضی نحبه ومنهم من ينتظر» ١ ؎ تو میں نے اسے ڈھونڈا، بہت تلاش کے بعد میں اسے خزیمہ بن ثابت کے پاس پایا ٢ ؎ خزیمہ بن ثابت (رض) کہا یا ابوخزیمہ کہا۔ (راوی کو شک ہوگیا) تو میں نے اسے اس کی سورة میں شامل کردیا۔ زہری کہتے ہیں : لوگ اس وقت (لفظ) «تابوهاور» تابوت میں مختلف ہوگئے، قریشیوں نے کہا «التابوت» اور زید نے «التابوه» کہا۔ ان کا اختلاف عثمان (رض) کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا : «التابوت» لکھو کیونکہ یہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ زہری کہتے ہیں : مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بتایا ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے زید بن ثابت (رض) کے مصاحف لکھنے کو ناپسند کیا اور کہا : اے گروہ مسلمانان ! میں مصاحف کے لکھنے سے روک دیا گیا، اور اس کام کا والی و کارگزار وہ شخص ہوگیا جو قسم اللہ کی جس وقت میں ایمان لایا وہ شخص ایک کافر شخص کی پیٹھ میں تھا (یعنی پیدا نہ ہوا تھا) یہ کہہ کر انہوں نے زید بن ثابت کو مراد لیا ٣ ؎ اور اسی وجہ سے عبداللہ بن مسعود نے کہا : عراق والو ! جو مصاحف تمہارے پاس ہیں انہیں چھپالو، اور سنبھال کر رکھو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جو کوئی چیز چھپا رکھے گا قیامت کے دن اسے لے کر حاضر ہوگا تو تم قیامت میں اپنے مصاحف ساتھ میں لے کر اللہ سے ملاقات کرنا ٤ ؎ زہری کہتے ہیں : مجھے یہ اطلاع و خبر بھی ملی کہ کبار صحابہ نے ابن مسعود (رض) کی یہ بات ناپسند فرمائی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور یہ زہری کی حدیث ہے، اور ہم اسے صرف انہیں کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/لمناقب ٣ (٣٥٠٦) ، وفضائل القرآن ٢ (٤٩٨٤) ، و ٣ (٤٩٨٧) (تحفة الأشراف : ٩٧٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مومنوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا ، بعض نے تو اپنا عہد پورا کردیا اور بعض (موقع کے) منتظر ہیں (الأحزاب : ٢٣ ) ۔ ٢ ؎ : صرف اسی مناسبت سے مؤلف نے اس روایت کو اس باب میں ذکر کیا ہے ، ورنہ یہ آیت سورة التوبہ کی نہیں ہے جس کی تفسیر کا باب ہے۔ ٣ ؎ : عثمان (رض) نے اس کام پر جو زید بن ثابت (رض) کو لگایا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ابوبکر (رض) کے وقت میں زید بن ثابت ہی نے قرآن کو ایک جگہ جمع کرنے کا کام انجام دیا تھا ، نیز اس وقت ابن مسعود (رض) مدینہ سے دور کوفہ میں تھے ، اور معاملہ جلدی کا تھا ، عفی اللہ عنہ وعنہم۔ ٤ ؎ : ایسا ہوا تھا کہ جب عثمان (رض) کا لکھوایا ہوا نسخہ کوفہ پہنچا تو ابن مسعود (رض) کے تلامذہ نے ان سے کہا کہ اب آپ اپنا نسخہ ضائع کر دیجئیے ، اس پر انہوں نے کہا کہ تمہارے پاس میرا جو نسخہ ہے اسے چھپا کر رکھ دو ، اس کو قیامت کے دن لا کر ظاہر کرنا ، یہ بڑی شرف کی بات ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3104

【156】

تفسیر سورت یونس

صہیب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت : «للذين أحسنوا الحسنی وزيادة» جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے اچھائی (جنت) ہے اور مزید برآں بھی (یعنی دیدار الٰہی) (یونس : ٢٦ ) ، کی تفسیر اس طرح فرمائی : جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے تو ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا : اللہ کے پاس تمہارے لیے اس کی طرف سے کیا ہوا ایک وعدہ ہے اور وہ چاہتا ہے کہ تم سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کر دے۔ تو وہ جنتی کہیں گے : کیا اللہ نے ہمارے چہرے روشن نہیں کردیئے ہیں اور ہمیں آگ سے نجات نہیں دی ہے اور ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا ہے ؟ (اب کون سی نعمت باقی رہ گئی ہے ؟ ) ، آپ نے فرمایا : پھر پردہ اٹھا دیا جائے گا ، آپ نے فرمایا : قسم اللہ کی ! اللہ نے انہیں کوئی ایسی چیز دی ہی نہیں جو انہیں اس کے دیدار سے زیادہ لذیذ اور محبوب ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - حماد بن سلمہ کی حدیث ایسی ہی ہے، ٢ - کئی ایک نے اسے حماد بن سلمہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ سلیمان بن مغیرہ نے یہ حدیث ثابت سے اور ثابت نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے ان کے قول کی حیثیت سے روایت کی ہے اور انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ یہ روایت صہیب سے ہے اور صہیب (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨٠ (١٨١) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٨٧) (تحفة الأشراف : ٤٩٦٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (187) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3105

【157】

تفسیر سورت یونس

عطاء بن یسار ایک مصری شیخ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابو الدرداء (رض) سے اس آیت «لهم البشری في الحياة الدنيا» ان کے لیے بشارت ہے دنیا کی زندگی میں (یونس : ٦٤ ) ، کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے کہا : جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی مجھ سے کسی نے اس آیت کے متعلق نہیں پوچھا (اور میں نے جب رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب سے یہ آیت نازل ہوئی ہے مجھ سے تمہارے سوا کسی نے اس کے متعلق نہیں پوچھا۔ یہ بشارت اچھے خواب ہیں جنہیں مسلمان دیکھتا ہے یا اس کے لیے (کسی اور کو) دکھایا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٢٧٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی (2389) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3106 ابوالدرداء (رض) سے اسی جیسی روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی (2389) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3106 ابوالدرداء (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی۔ اور اس سند میں عطاء بن یسار سے روایت کا ذکر نہیں ہے ١ ؎، ٣ - اس باب میں عبادہ بن صامت سے بھی روایت ہے۔ فائدہ ١ ؎: اور ابوصالح سمان کا سماع ابو الدرداء (رض) سے ثابت ہے، اس لیے یہ سند بھی متصل ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی (2389) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3106

【158】

تفسیر سورت یونس

عبداللہ بن عباس (رض) روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب اللہ نے فرعون کو ڈبویا تو اس نے (اس موقع پر) کہا «آمنت أنه لا إله إلا الذي آمنت به بنو إسرائيل» کہ میں اس بات پر ایمان لایا کہ اس معبود کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں (یونس : ٩٠ ) ، پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا : اے محمد ! کاش اس وقت میری حالت دیکھی ہوتی۔ میں اس ڈر سے کہ کہیں اس (مردود) کو اللہ کی رحمت حاصل نہ ہوجائے، میں سمندر سے کیچڑ نکال نکال کر اس کے منہ میں ٹھونسنے لگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر مایأتي (تحفة الأشراف : ٦٥٦٠) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، نیچے آنے والی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما بعده (3106) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3107

【159】

تفسیر سورت یونس

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ذکر کیا کہ (جب فرعون ڈوبنے لگا) جبرائیل (علیہ السلام) فرعون کے منہ میں مٹی ٹھونسنے لگے، اس ڈر سے کہ وہ کہیں «لا إلٰہ إلا اللہ» نہ کہہ دے تو اللہ کو اس پر رحم آ جائے۔ راوی کو شک ہوگیا ہے کہ آپ نے «خشية أن يقول لا إله إلا الله» کہا یا «خشية أن يرحمه الله» کہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ٥٥٦١، ٥٥٧٢) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3108

【160】

تفسیر سورت ہود

ابورزین (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اللہ اپنی مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے کہاں تھا ؟ آپ نے فرمایا : «عماء» میں تھا، نہ تو اس کے نیچے ہوا تھی نہ ہی اس کے اوپر۔ اس نے اپنا عرش پانی پر بنایا ١ ؎، احمد بن منیع کہتے ہیں : (ہمارے استاد) یزید نے بتایا : «عماء» کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ کوئی چیز نہ تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اسی طرح حماد بن سلمہ نے اپنی روایت میں وكيع بن حدس کہا ہے اور شعبہ، ابو عوانہ اور ہشیم نے وكيع بن عدس کہا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے، ٣ - ابورزین کا نام لقیط بن عامر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٨١) (تحفة الأشراف : ١١١٧٦) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : «عماء» : اگر بالمد ہو تو اس کے معنی «سحاب» ، «رقیق» (بدلی) کے ہیں ، اور اگر بالقصر ہو تو اس کے معنی «لاشیٔ» کے ہوتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (281) // { كذا } وهو في ضعيف سنن ابن ماجة برقم (32 - 182) ، مختصر العلو (193 و 250) ، السنة (612) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3109

【161】

تفسیر سورت ہود

ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے مگر جب اسے گرفت میں لے لیتا ہے پھر تو اسے چھوڑتا بھی نہیں ، پھر آپ نے آیت «وكذلك أخذ ربک إذا أخذ القری وهي ظالمة» ایسی ہی ہے تیرے رب کی پکڑ جب وہ کسی ظالم بستی والے کو پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ بڑی سخت، درد ناک ہوتی ہے (ہود : ١٠٢ ) ، تلاوت فرمائی۔ (راوی ابومعاویہ نے کبھی «یملی» کہا اور کبھی «یمہل» دونوں کا معنی ایک ہے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - ابواسامہ نے بھی اسے برید سے اسی طرح روایت کیا ہے، اور «یُملی» کا لفظ استعمال کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر ھود ٤ (٤٦٨٦) ، صحیح مسلم/البر والصلة ١٥ (٢٥٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٢ (٤٠١٨) (تحفة الأشراف : ٩٠٣٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3110 ابوموسیٰ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی اور اس میں «یُملی» کا لفظ کسی شک کے بغیر کہا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3110

【162】

تفسیر سورت ہود

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت «فمنهم شقي وسعيد» سو ان میں کوئی بدبخت ہوگا اور کوئی نیک بخت (ہود : ١٠٥ ) ، نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اللہ کے نبی ! پھر ہم کس چیز کے موافق عمل کریں ؟ کیا اس چیز کے موافق عمل کریں جس سے فراغت ہوچکی ہے (یعنی جس کا فیصلہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے) ؟ یا ہم ایسی چیز پر عمل کریں جس سے ابھی فراغت نہیں ہوئی ہے۔ (یعنی اس کا فیصلہ ہمارا عمل دیکھ کر کیا جائے گا) آپ نے فرمایا : عمر ! ہم اسی چیز کے موافق عمل کرتے ہیں جس سے فراغت ہوچکی ہے۔ (اور ہمارے عمل سے پہلے) وہ چیز ضبط تحریر میں آچکی ہے ٢ ؎، لیکن بات صرف اتنی ہے کہ ہر شخص کے لیے وہی آسان ہے جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف عبدالملک بن عمرو کی حدیث سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٥٤٠) (صحیح ) وضاحت : ٢ ؎ : ہمارے وجود میں آنے سے پہلے ہی سب کچھ لکھا جا چکا ہے کہ ہم پیدا ہو کر کیا کچھ کریں گے اور کس انجام کو پہنچیں گے۔ ٣ ؎ : نیک کو نیک عمل کی اور برے کو برے عمل کی توفیق دی جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الظلال (161 - 166) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3111

【163】

تفسیر سورت ہود

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : شہر کے بیرونی علاقے میں ایک عورت سے میں ملا اور سوائے جماع کے اس کے ساتھ میں نے سب کچھ کیا، اور اب بذات خود میں یہاں موجود ہوں، تو آپ اب میرے بارے میں جو فیصلہ چاہیں صادر فرمائیں (میں وہ سزا جھیلنے کے لیے تیار ہوں) عمر (رض) نے اس سے کہا : اللہ نے تیری پردہ پوشی کی ہے کاش تو نے بھی اپنے نفس کی پردہ پوشی کی ہوتی۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا، اور وہ آدمی چلا گیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کے پیچھے ایک آدمی بھیج کر اسے بلایا اور اسے آیت «وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلک ذكرى للذاکرين» نماز قائم کرو دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے حصوں میں، بیشک نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے یاد رکھنے والوں کے لیے (ہود : ١١٤ ) ، تک پڑھ کر سنائی۔ ایک صحابی نے کہا : کیا یہ (بشارت) اس شخص کے لیے خاص ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، بلکہ سب کے لیے ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسی طرح اسی جیسی روایت کی ہے اسرائیل نے سماک سے، سماک نے ابراہیم سے، ابراہیم نے علقمہ اور اسود سے، اور ان دونوں نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے، ٣ - اور اسی سفیان ثوری نے سماک سے، سماک نے ابراہیم سے، ابراہیم نے عبدالرحمٰن بن یزید سے اور عبدالرحمٰن نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اور ان لوگوں کی روایت سفیان ثوری کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ٣ ؎، ٤ - شعبہ نے سماک بن حرب سے، سماک نے ابراہیم سے، ابراہیم نے اسود سے اور اسود نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مواقیت الصلاة ٤ (٥٢٦) ، وتفسیر ھود ٤ (٤٦٨٧) ، صحیح مسلم/التوبة ٧ (٢٧٦٣) ، سنن ابی داود/ الحدود ٣٢ (٤٤٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩٣ (١٣٩٨) ، ویأتي بعد حدیث (تحفة الأشراف : ٩١٦٢) (صحیح) وضاحت : ٢ ؎ : یہ گناہ صغیرہ کے بارے میں ہے کیونکہ گناہ کبیرہ سے بغیر توبہ کے معافی نہیں ہے ، اور اس آدمی سے گناہ صغیرہ ہی سرزد ہوا تھا۔ ٣ ؎ : یعنی اسرائیل ، ابوالاحوص اور شعبہ کی روایات ثوری کی روایت سے (سنداً ) زیادہ صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (1398) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3112 اس سند سے، سفیان نے اعمش سے، (اور اعمش) اور سماک نے ابراہیم سے، ابراہیم نے عبدالرحمٰن بن یزید سے اور عبدالرحمٰن نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے ہم معنی حدیث روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (1398) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3112 سفیان سے، سفیان نے سماک سے، سماک نے ابراہیم سے، ابراہیم نے عبدالرحمٰن بن یزید سے اور عبدالرحمٰن نے عبداللہ بن مسعود کے واسطہ سے، نبی اکرم ﷺ سے اسی کی ہم معنی حدیث روایت کی۔ اور اس سند میں اعمش کا ذکر نہیں کیا، اور سلیمان تیمی نے یہ حدیث ابوعثمان نہدی سے روایت کی، اور ابوعثمان نے ابن مسعود کے واسطہ سے، نبی اکرم ﷺ سے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (1398) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3112

【164】

تفسیر سورت ہود

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! ایک ایسے شخص کے بارے میں مجھے بتائیے جو ایک ایسی عورت سے ملا جن دونوں کا آپس میں جان پہچان، رشتہ و ناطہٰ (نکاح) نہیں ہے اور اس نے اس عورت کے ساتھ سوائے جماع کے وہ سب کچھ (بوس و کنار چوما چاٹی وغیرہ) کیا جو ایک مرد اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہے ؟ ، (اس پر) اللہ تعالیٰ نے آیت : «وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلک ذكرى للذاکرين» ناز فرمائی، آپ ﷺ نے اسے وضو کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا، میں نے عرض کیا اللہ کے رسول ! کیا یہ حکم اس شخص کے لیے خاص ہے یا سبھی مومنین کے لیے عام ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، بلکہ سبھی مسلمانوں کے لیے عام ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، (اس لیے کہ) عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے معاذ سے نہیں سنا ہے، اور معاذ بن جبل (رض) کا انتقال عمر (رض) کے دور خلافت میں ہوا تھا، اور عمر (رض) جب شہید کیے گئے تو اس وقت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ چھ برس کے چھوٹے بچے تھے۔ حالانکہ انہوں نے عمر سے (مرسلاً ) روایت کی ہے (جبکہ صرف) انہیں دیکھا ہے، ٢ - شعبہ نے یہ حدیث عبدالملک بن عمیر سے اور عبدالملک نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کے واسطہ سے، نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ١١٣٤٣) (ضعیف الإسناد) (مؤلف نے سبب بیان کردیا ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3113

【165】

تفسیر سورت ہود

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک (غیر محرم) عورت کا ناجائز بوسہ لے لیا پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر پوچھا کہ اس کا کفارہ کیا ہے ؟ اس پر آیت «وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات» نازل ہوئی، اس شخص نے پوچھا کیا یہ (کفارہ) صرف میرے لیے ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ تمہارے لیے ہے اور میری امت کے ہر اس شخص کے لیے جو یہ غلطی کر بیٹھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣١١٢ (تحفة الأشراف : ٩٣٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1398) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3114

【166】

تفسیر سورت ہود

ابوالیسر (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت میرے پاس کھجور خریدنے آئی، میں نے اس سے کہا : (یہ کھجور جو یہاں موجود ہے جسے تم دیکھ رہی ہو) اس سے اچھی اور عمدہ کھجور گھر میں رکھی ہے۔ چناچہ وہ بھی میرے ساتھ ساتھ گھر میں آ گئی، میں اس کی طرف مائل ہوگیا اور اس کو چوم لیا، تب ابوبکر (رض) کے پاس آ کر ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا، انہوں نے کہا : اپنے نفس (کی اس غلطی) پر پردہ ڈال دو ، توبہ کرو دوسرے کسی اور سے اس واقعہ کا ذکر نہ کرو، لیکن مجھ سے صبر نہ ہوسکا چناچہ میں عمر (رض) کے پاس آیا اور ان سے بھی اس (واقعہ) کا ذکر کیا، انہوں نے بھی کہا : اپنے نفس کی پردہ پوشی کرو، توبہ کرو اور کسی دوسرے کو یہ واقعہ نہ بتاؤ۔ (مگر میرا جی نہ مانا) میں اس بات پر قائم نہ رہا، اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ کو بھی یہ بات بتادی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم نے ایک غازی کی بیوی کے ساتھ جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلا ہے اس کی غیر موجودگی میں ایسی حرکت کی ہے ؟ آپ کی اتنی بات کہنے سے مجھے اتنی غیرت آئی کہ میں نے تمنا کی کہ کاش میں اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہوتا بلکہ اب لاتا اسے خیال ہوا کہ وہ تو جہنم والوں میں سے ہوگیا ہے رسول اللہ ﷺ (سوچ میں) کافی دیر تک سر جھکائے رہے یہاں تک کہ آپ پر بذریعہ وحی آیت «وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل» سے «ذكرى للذاکرين» تک نازل ہوئی۔ ابوالیسر (رض) کہتے ہیں : (جب) میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے مجھے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ صحابہ نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا یہ (بشارت) ان کے لیے خاص ہے یا سبھی لوگوں کے لیے عام ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، بلکہ سبھی لوگوں کے لیے عام ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - قیس بن ربیع کو وکیع وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اور ابوالیسر کعب بن عمرو (رض) ہیں، ٣ - شریک نے عثمان بن عبداللہ سے یہ حدیث قیس بن ربیع کی روایت کی طرح روایت کی ہے، ٤ - اس باب میں ابوامامہ اور واثلہ بن اسقع اور انس بن مالک (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ١١١٢٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : پچھلی روایات میں مبہم آدمی یہی ابوالیسر (رض) ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3115

【167】

تفسیر سورت یوسف

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شریف بیٹے شریف (باپ) کے وہ بھی شریف بیٹے شریف (باپ) کے وہ بھی شریف بیٹے شریف باپ کے (یعنی) یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہم السلام) ١ ؎ کی عظمت اور نجابت و شرافت کا یہ حال تھا کہ جتنے دنوں یوسف (علیہ السلام) جیل خانے میں رہے ٢ ؎ اگر میں قید خانے میں رہتا، پھر (بادشاہ کا) قاصد مجھے بلانے آتا تو میں اس کی پکار پر فوراً جا حاضر ہوتا، یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ کی طلبی کو قبول نہ کیا بلکہ کہا جاؤ پہلے بادشاہ سے پوچھو ! ان محترمات کا اب کیا معاملہ ہے، جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ لیے تھے۔ پھر آپ نے آیت : «فلما جاء ه الرسول قال ارجع إلى ربک فاسأله ما بال النسوة اللاتي قطعن أيديهن» ٣ ؎ کی تلاوت فرمائی۔ آپ نے فرمایا : اللہ رحم فرمائے لوط (علیہ السلام) پر جب کہ انہوں نے مجبور ہو کر تمنا کی تھی : اے کاش میرے پاس طاقت ہوتی، یا کوئی مضبوط سہارا مل جاتا۔ جب کہ انہوں نے کہا : «لو أن لي بکم قوة أو آوي إلى رکن شديد» ٤ ؎۔ آپ نے فرمایا : لوط (علیہ السلام) کے بعد تو اللہ نے جتنے بھی نبی بھیجے انہیں ان کی قوم کے اعلیٰ نسب چیدہ لوگوں اور بلند مقام والوں ہی میں سے بھیجے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) وانظر مسند احمد (٢/٣٣٢، ٣٨٤) (تحفة الأشراف : ١٥٠٨١) (حسن) (” ذروة “ کے بجائے ” ثروة “ کے لفظ سے یہ حسن ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جن کی چار پشت میں نبوت و شرافت مسلسل چلی آئی۔ ٢ ؎ : بقول عکرمہ سات سال اور بقول کلبی پانچ برس۔ ٣ ؎ : جب قاصد یوسف کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا : اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے ؟ (یوسف : ٥٠ ) ۔ ٤ ؎ : کاش میرے پاس قوت ہوتی (کہ میں طاقت کے ذریعہ تمہیں ناروا فعل سے روک دیتا) یا یہ کہ مجھے (قبیلہ یا خاندان کا) مضبوط سہارا حاصل ہوتا (ہود : ٨٠ ) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن - باللفظ الآتی : ثروة -، الصحيحة (1617 و 1867) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3116

【168】

تفسیر سورت الرعد

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ یہود نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے کہا : اے ابوالقاسم ! ہمیں «رعد» کے بارے میں بتائیے وہ کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے۔ بادلوں کو گردش دینے (ہانکنے) پر مقرر ہے، اس کے پاس آگ کے کوڑے ہیں۔ اس کے ذریعہ اللہ جہاں چاہتا ہے وہ وہاں بادلوں کو ہانک کرلے جاتا ہے ۔ پھر انہوں نے کہا : یہ آواز کیسی ہے جسے ہم سنتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : یہ تو بادل کو اس کی ڈانٹ ہے، جب تک کہ جہاں پہنچنے کا حکم دیا گیا ہے نہ پہنچے ڈانٹ پڑتی ہی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا : آپ نے درست فرمایا : اچھا اب ہمیں یہ بتائیے اسرائیل (یعنی یعقوب علیہ السلام) نے اپنے آپ پر کیا چیز حرام کرلی تھی ؟ آپ نے فرمایا : اسرائیل کو عرق النسا کی تکلیف ہوگئی تھی تو انہوں نے اونٹوں کے گوشت اور ان کا دودھ (بطور نذر) ١ ؎ کھانا پینا حرام کرلیا تھا ۔ انہوں نے کہا : آپ صحیح فرما رہے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ـ یہحدیثحسنغریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ٥٤٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مسند احمد کی روایت کے مطابق : انہوں نے نذر مانی تھی کہ اگر میں صحت یاب ہوگیا تو سب سے محبوب کھانے کو اپنے اوپر حرام کروں گا اس لیے انہوں نے اونٹوں کے گوشت اور دودھ کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1872) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3117

【169】

تفسیر سورت الرعد

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول «ونفضل بعضها علی بعض في الأكل» ہم بعض پھلوں کو بعض پر (لذت اور خوش ذائقگی میں) فضیلت دیتے ہیں (الرعد : ٤ ) ، بارے میں فرمایا : اس سے مراد ردی اور سوکھی کھجوریں ہیں، فارسی کھجوریں ہیں، میٹھی اور کڑوی کسیلی کھجوریں ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - زید بن ابی انیسہ نے اعمش سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ٣ - اور سیف بن محمد (جو اس روایت کے راویوں میں سے ہیں) وہ عمار بن محمد کے بھائی ہیں اور عمار ان سے زیادہ ثقہ ہیں اور یہ سفیان ثوری کے بھانجے ہیں۔ فائدہ ١ ؎: ان کو سیراب کرنے والا پانی ایک ہے، نشو و نما کرنے والی دھوپ، گرمی اور ہوا ایک ہے، مگر رنگ، شکلیں اور ذائقے الگ الگ ہیں، یہ اللہ کا کمال قدرت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٣٩١) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3118

【170】

سورہ ابراہیم کی تفسیر

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ٹوکری لائی گئی جس میں تروتازہ پکی ہوئی کھجوریں تھیں، آپ نے فرمایا : «كلمة طيبة کشجرة طيبة أصلها ثابت وفرعها في السماء تؤتي أكلها كل حين بإذن ربها» ١ ؎ آپ نے فرمایا : یہ کھجور کا درخت ہے، اور آیت «ومثل کلمة خبيثة کشجرة خبيثة اجتثت من فوق الأرض ما لها من قرار» ٢ ؎ میں برے درخت سے مراد اندرائن ہے۔ شعیب بن حبحاب (راوی حدیث) کہتے ہیں : میں نے اس حدیث کا ذکر ابوالعالیہ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے سچ اور صحیح کہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (ضعیف) (مرفوعا صحیح نہیں ہے، یہ انس (رض) کا قول ہے، جیسا کہ اگلی روایت میں ہے) وضاحت : ١ ؎ : کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ (کھجور کے درخت) کی ہے جس کی جڑ ثابت و (مضبوط) ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں وہ (درخت) اپنے رب کے حکم سے برابر (لگاتار) پھل دیتا رہتا ہے (ابراہیم : ٢٤ ) ۔ ٢ ؎ : برے کلمے (بری بات) کی مثال برے درخت جیسی ہے جو زمین کی اوپری سطح سے اکھیڑ دیا جاسکتا ہے جسے کوئی جماؤ (ثبات و مضبوطی) حاصل نہیں ہوتی (ابراہیم : ٢٦ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح موقوفا، ضعيف مرفوعا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3119 امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں : ہم سے ابوبکر بن شعیب بن حبحاب نے بیان کیا، اور ابوبکر نے اپنے باپ شعیب سے اور شعیب نے انس بن مالک سے اسی طرح اسی حدیث کی ہم معنی حدیث روایت کی، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا، نہ ہی انہوں نے ابوالعالیہ کا قول نقل کیا ہے، یہ حدیث حماد بن سلمہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ٢ - کئی ایک نے ایسی ہی حدیث موقوفاً روایت کی ہے، اور ہم حماد بن سلمہ کے سوا کسی کو بھی نہیں جانتے جنہوں نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہو، اس حدیث کو معمر اور حماد بن زید اور کئی اور لوگوں نے بھی روایت کیا ہے، لیکن ان لوگوں نے اسے مرفوع روایت نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوفا، ضعيف مرفوعا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3119 ہم سے احمد بن عبدۃ ضبی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا اور حماد نے شعیب بن حبحاب کے واسطہ سے انس سے قتیبہ کی حدیث کی طرح روایت کی ہے، لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوفا، ضعيف مرفوعا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3119

【171】

سورہ ابراہیم کی تفسیر

براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت «يثبت اللہ الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة» اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں، قول ثابت (محکم بات) کے ذریعہ دنیا و آخرت دونوں میں ثابت قدم رکھتا ہے (ابراہیم : ٢٧ ) ، کی تفسیر میں فرمایا : ثابت رکھنے سے مراد قبر میں اس وقت ثابت رکھنا ہے جب قبر میں پوچھا جائے گا : «من ربك ؟» ‏‏‏‏ تمہارا رب، معبود کون ہے ؟ «وما دينك ؟» ‏‏‏‏ تمہارا دین کیا ہے ؟ «ومن نبيك ؟» ‏‏‏‏ تمہارا نبی کون ہے ؟ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٦ (١٣٦٩) ، وتفسیر سورة ابراہیم ٢ (٤٦٩٩) ، صحیح مسلم/الجنة ١٧ (٢٨٧١) ، سنن ابی داود/ السنة ٢٧ (٤٧٥٠) ، سنن النسائی/الجنائز ١١٤ (٢٠٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٢ (٤٢٦٩) (تحفة الأشراف : ١٧٦٢) (وانظر أیضا ماعند د برقم ٣٢١٢، و ٤٨٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ مومن بندہ کہے گا : میرا رب (معبود) اللہ ہے ، میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد ﷺ ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3120

【172】

سورہ ابراہیم کی تفسیر

مسروق کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے آیت «يوم تبدل الأرض غير الأرض» جس دن زمین و آسمان بدل کر دوسری طرح کے کردیئے جائیں گے (ابراہیم : ٤٨ ) ، پڑھ کر سوال کیا : اللہ کے رسول ! اس وقت لوگ کہاں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : «علی الصراط» پل صراط پر ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ام المؤمنین عائشہ (رض) سے یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المنافقین ٢ (٢٩٧١) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٣ (٤٢٧٩) (تحفة الأشراف : ١٧٦١٧) ، و مسند احمد (٦/٣٥، ١٠١، ١٣٤، ٢١٨) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٨٨ (٢٨٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4279) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3121

【173】

تفسیر سورت حجر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک خوبصورت عورت رسول اللہ ﷺ کے پیچھے (عورتوں کی صفوں میں) نماز پڑھا کرتی تھی تو بعض لوگ آگے بڑھ کر پہلی صف میں ہوجاتے تھے تاکہ وہ اسے نہ دیکھ سکیں اور بعض آگے سے پیچھے آ کر آخری صف میں ہوجاتے تھے (عورتوں کی صف سے ملی ہوئی صف میں) پھر جب وہ رکوع میں جاتے تو اپنی بغلوں کے نیچے سے اسے دیکھتے، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت «ولقد علمنا المستقدمين منکم ولقد علمنا المستأخرين» ہم خوب جانتے ہیں ان لوگوں کو جو آگے بڑھ جانے والے ہیں اور ان لوگوں کو بھی جو پیچھے ہٹ جانے والے ہیں (الحجر : ٢٤ ) ، نازل فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : جعفر بن سلیمان نے یہ حدیث عمرو بن مالک سے اور عمروبن مالک نے ابوالجوزاء سے اسی طرح روایت کی ہے، اور اس میں «عن ابن عباس» کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور اس میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ یہ نوح کی حدیث سے زیادہ صحیح و درست ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإمامة ٦٢ (٨٧١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٨ (١٠٤٦) (تحفة الأشراف : ٥٣٦٤) ، و مسند احمد (١/٣٠٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2472) ، الثمر المستطاب / الصلاة صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3122

【174】

تفسیر سورت حجر

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جہنم کے سات دروازے ہیں، ان میں سے ایک دروازہ ان لوگوں کے لیے ہے جو میری امت یا امت محمدیہ پر تلوار اٹھائیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف مالک بن مغول کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٦٧٨) (ضعیف) (سند میں جنید مجہول الحال راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مولف نے یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ «لها سبعة أبواب» (الحجر : ٤٤ ) کی تفسیر میں لائے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (3530 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (4661) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3123

【175】

تفسیر سورت حجر

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سورة الحمدللہ (فاتحہ) ، ام القرآن ہے، ام الکتاب (قرآن کی اصل اساس ہے) اور «السبع المثانی» ہے (باربار دہرائی جانے والی آیتیں) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الحجر ٣ (٤٧٠٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥١ (…) (تحفة الأشراف : ١٣٠١٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کو مؤلف نے ارشاد باری تعالیٰ : «ولقد آتيناک سبعا من المثاني والقرآن العظيم» (الحجر : ٨٧) کی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (131) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3124

【176】

تفسیر سورت حجر

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ابی بن کعب کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تو رات میں اور نہ ہی انجیل میں ام القرآن (فاتحہ) جیسی کوئی سورة نازل فرمائی ہے، اور یہ سات آیتیں ہیں جو (ہر رکعت میں پڑھی جانے کی وجہ سے) باربار دہرائی جانے والی ہیں، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان تقسیم ہیں اور میرے بندے کے لیے وہ سب کچھ ہے جو وہ مانگے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٨٧٥ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 216) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3125

【177】

تفسیر سورت حجر

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے قول «لنسألنهم أجمعين عما کانوا يعملون» ہم ان سے پوچھیں گے اس کے بارے میں جو وہ کرتے تھے (الحجر : ٩٢) ، کے متعلق فرمایا : یہ پوچھنا «لا إله إلا الله» کے متعلق ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے لیث بن ابی سلیم کی روایت ہی سے جانتے ہیں، ٣- عبداللہ بن ادریس نے لیث بن ابی سلیم سے، اور لیث نے بشر کے واسطہ سے انس سے ایسے ہی روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٤٧) (ضعیف الإسناد) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف، اور بشر مجہول راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3126

【178】

تفسیر سورت حجر

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ، پھر آپ نے آیت «إن في ذلک لآيات للمتوسمين» بیشک اس میں نشانیاں ہیں سمجھ داروں کے لیے ہے (الحجر : ٧٥) ، تلاوت فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، بعض اہل علم نے اس آیت «إن في ذلک لآيات للمتوسمين» کی تفسیر یہ کی ہے کہ اس میں نشانیاں ہیں اصحاب فراست کے لیے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٢١٧) (ضعیف) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، ملاحظہ ہو : الضعیفة رقم : ١٨٢١) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1821) // ضعيف الجامع الصغير (127) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3127

【179】

تفسیر سورت النحل

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زوال یعنی سورج ڈھلنے کے بعد ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں سحر (تہجد) کی چار رکعتوں کے ثواب کے برابر کا درجہ رکھتی ہیں ، آپ نے فرمایا : کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو اس گھڑی (یعنی زوال کے وقت) اللہ کی تسبیح نہ بیان کرتی ہو ۔ پھر آپ نے آیت «يتفيأ ظلاله عن اليمين والشمائل سجدا لله وهم داخرون» کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو نہیں دیکھتے ان کے سائے دائیں اور بائیں اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے جھکتے ہیں (النحل : ٤٨) ، پڑھی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف علی بن عاصم کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٥٧٣) (ضعیف) (سند میں یحییٰ البکاء ضعیف اور علی بن عاصم غلطیاں کر جاتے تھے، لیکن تعدد طرق کی بناء پر یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الصحيحة تحت الحديث (1431) // ضعيف الجامع الصغير (754) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3128

【180】

تفسیر سورت النحل

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ جب احد کی جنگ ہوئی تو انصار کے چونسٹھ ( ٦٤) اور مہاجرین کے چھ کام آئے۔ ان میں حمزہ (رض) بھی تھے۔ کفار نے ان کا مثلہ کردیا تھا، انصار نے کہا : اگر کسی دن ہمیں ان پر غلبہ حاصل ہوا تو ہم ان کے مقتولین کا مثلہ اس سے کہیں زیادہ کردیں گے۔ پھر جب مکہ کے فتح کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے آیت «وإن عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به ولئن صبرتم لهو خير للصابرين» ١ ؎ نازل فرما دی۔ ایک صحابی نے کہا : «لا قريش بعد اليوم» (آج کے بعد کوئی قریشی وریشی نہ دیکھا جائے گا) ٢ ؎ آپ نے فرمایا : (نہیں) چار اشخاص کے سوا کسی کو قتل نہ کرو ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث ابی بن کعب کی روایت سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ١٣) (حسن صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : اگر تم ان سے بدلہ لو ( انہیں سزا دو ) تو انہیں اتنی ہی سزا دو جتنی انہوں نے تمہیں سزا ( اور تکلیف ) دی ہے اور اگر تم صبر کرلو ( انہیں سزا نہ دو ) تو یہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہتر ہے ( النحل : ١٢٦) ۔ ٢ ؎ : یعنی مسلم قریشی کسی کافر قریشی کا خیال نہ کرے گا کیونکہ قتل عام ہوگا۔ ٣ ؎ : ان چاروں کے نام دوسری حدیث میں آئے ہیں اور وہ یہ ہیں : ( ١) عکرمہ بن ابی جہل ( ٢) عبداللہ بن خطل ( ٣) مقیس بن صبابہ ( ٤) عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ، ان کے بارے میں ایک حدیث میں آیا ہے کہ یہ خانہ کعبہ کے پردوں سے چمٹے ہوئے ملیں تب بھی انہیں قتل کر دو ۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3129

【181】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (معراج کی رات) جب مجھے آسمان پر لے جایا گیا تو میری ملاقات موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوئی، آپ نے ان کا حلیہ بتایا اور میرا گمان یہ ہے کہ آپ نے فرمایا : موسیٰ لمبے قد والے تھے : ہلکے پھلکے روغن آمیز سر کے بال تھے، شنوءۃ قوم کے لوگوں میں سے لگتے تھے ، آپ نے فرمایا : میری ملاقات عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی ہوئی ، آپ نے ان کا بھی وصف بیان کیا، فرمایا : عیسیٰ درمیانے قد کے سرخ (سفید) رنگ کے تھے، ایسا لگتا تھا گویا ابھی دیم اس (غسل خانہ) سے نہا دھو کر نکل کر آ رہے ہوں، میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی دیکھا، میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان سے مشابہہ ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس دو برتن لائے گئے، ایک دودھ کا پیالہ تھا اور دوسرے میں شراب تھی، مجھ سے کہا گیا : جسے چاہو لے لو، تو میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا اور دودھ پی گیا، مجھ سے کہا گیا : آپ کو فطرت کی طرف رہنمائی مل گئی، یا آپ نے فطرت سے ہم آہنگ اور درست قدم اٹھایا، اگر آپ نے شراب کا برتن لے لیا ہوتا تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٢٤ (٣٣٩٤) ، و ٤٩ (٣٤١٣) ، وتفسیر الإسراء ٣ (٤٧٠٩) ، والأشربة ١ (٥٥٧٦) ، و ١٢ (٥٦٠٣) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧٤ (١٦٨) ، سنن النسائی/الأشربة ٤١ (٥٦٦٠) (تحفة الأشراف : ١٣٢٧٠) ، و مسند احمد (٢/٥١٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی تباہی و بربادی کا شکار ہوتی اس لیے کہ شراب کا خاصہ ہی یہی ہے۔ ( مولف نے ان احادیث کو اسراء اور معراج کی مناسبت کی وجہ سے ذکر کیا جن کا بیان اس باب کے شروع میں ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3130

【182】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

انس (رض) کہتے ہیں کہ جس رات آپ ﷺ کو معراج حاصل ہوئی آپ کی سواری کے لیے براق لایا گیا۔ براق لگام لگایا ہوا تھا اور اس پر کاٹھی کسی ہوئی تھی، آپ نے اس پر سوار ہوتے وقت دقت محسوس کی تو جبرائیل (علیہ السلام) نے اسے یہ کہہ کر جھڑکا : تو محمد ﷺ کے ساتھ ایسا کر رہا ہے، تجھ پر اب تک ان سے زیادہ اللہ کے نزدیک کوئی معزز شخص سوار نہیں ہوا ہے، یہ سن کر براق پسینے پسینے ہوگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عبدالرزاق کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٤١) (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3131

【183】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (معراج کی رات) جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنی انگلی کے اشارے سے پتھر میں شگاف کردیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩٧٥) (صحیح) (تراجع الالبانی ٣٥، السراج المنیر ٤١٢٠) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3132

【184】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب قریش نے مجھے (معراج کے سفر کے بارے میں) جھٹلا دیا کہ میں حجر (حطیم) میں کھڑا ہوا اور اللہ نے بیت المقدس کو میرے سامنے ظاہر کردیا اور میں اسے دیکھ دیکھ کر انہیں اس کی نشانیاں (پہچان) بتانے لگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں مالک بن صعصعہ ابوسعید، ابن عباس، ابوذر اور ابن مسعود (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٤١ (٣٨٨٦) ، وتفسیر الإسراء ٢ (٤٧١٠) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧٥ (١٧٠) (تحفة الأشراف : ٣١٥١) ، و مسند احمد (٣/٣٧٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج فقه السيرة (145) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3133

【185】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

عبداللہ بن عباس (رض) آیت کریمہ : «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس» اور نہیں کیا ہم نے وہ مشاہدہ کہ جسے ہم نے تمہیں کروایا ہے (یعنی إسراء و معراج کے موقع پر جو کچھ دکھلایا ہے) مگر لوگوں کی آزمائش کے لیے (بنی اسرائیل : ٦٠) ، کے بارے میں کہتے ہیں : اس سے مراد (کھلی) آنکھوں سے دیکھنا تھا، جس دن آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تھی ١ ؎ انہوں نے یہ بھی کہا «والشجرة الملعونة في القرآن» میں شجرہ «ملعونہ» سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٤٢ (٣٨٨٨) ، وتفسیر الإسراء (٤٧١٦) ، و القدر ١٠ (٦٦١٣) (تحفة الأشراف : ٦١٦٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی خواب میں سیر نہیں ، بلکہ حقیقی و جسمانی معراج تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3134

【186】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت «وقرآن الفجر إن قرآن الفجر کان مشهودا» صبح کو قرآن پڑھا کرو کیونکہ صبح قرآن پڑھنے کا وقت فرشتوں کے حاضر ہونے کا ہوتا ہے (بنی اسرائیل : ٧٨) ، کے متعلق فرمایا : اس وقت رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے سب حاضر (و موجود) ہوتے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصلاة ٢ (٦٧٠) (تحفة الأشراف : ١٢٣٣٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3135 اس سند سے اعمش نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوہریرہ اور ابو سعید خدری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے ایسی ہی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ١٢٤٤٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3135

【187】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول «يوم ندعو کل أن اس بإمامهم» جس دن ہم ہر انسان کو اس کے امام (اگوا و پیشوا) کے ساتھ بلائیں گے (بنی اسرائیل : ٧١) ، کے بارے میں فرمایا : ان میں سے جو کوئی (جنتی شخص) بلایا جائے گا اور اس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور اس کا جسم بڑھا کر ساٹھ گز کا کردیا جائے گا، اس کا چہرہ چمکتا ہوا ہوگا اس کے سر پر موتیوں کا جھلملاتا ہوا تاج رکھا جائے گا، پھر وہ اپنے ساتھیوں کے پاس جائے گا، اسے لوگ دور سے دیکھ کر کہیں گے : اے اللہ ! ایسی ہی نعمتوں سے ہمیں بھی نواز، اور ہمیں بھی ان میں برکت عطا کر، وہ ان کے پاس پہنچ کر کہے گا : تم سب خوش ہوجاؤ۔ ہر شخص کو ایسا ہی ملے گا، لیکن کافر کا معاملہ کیا ہوگا ؟ کافر کا چہرہ کالا کردیا جائے گا، اور اس کا جسم ساٹھ گز کا کردیا جائے گا جیسا کہ آدم (علیہ السلام) کا تھا، اسے تاج پہنایا جائے گا۔ اس کے ساتھی اسے دیکھیں گے تو کہیں گے اس کے شر سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ اے اللہ ! ہمیں ایسا تاج نہ دے، کہتے ہیں : پھر وہ ان لوگوں کے پاس آئے گا وہ لوگ کہیں گے : اے اللہ ! اسے ذلیل کر، وہ کہے گا : اللہ تمہیں ہم سے دور ہی رکھے، کیونکہ تم میں سے ہر ایک کے لیے ایسا ہی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- سدی کا نام اسماعیل بن عبدالرحمٰن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٦١٦) (ضعیف الإسناد) (سند میں عبد الرحمن ابن ابی کریمہ والد سدی مجہول الحال راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (6424) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3136

【188】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت : «عسی أن يبعثک ربک مقاما محمودا» عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا (بنی اسرائیل : ٧٩) ، کے بارے میں پوچھے جانے پر فرمایا : اس سے مراد شفاعت ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اور داود زغافری : داود اود بن یزید بن عبداللہ اودی ہیں، اور یہ عبداللہ بن ادریس کے چچا ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٨٤٨) ، و مسند احمد (٢/٤٤١، ٤٤٤، ٥٢٨) (صحیح) (سند میں داود ضعیف اور ان کے باپ یزید عبد الرحمن الأودی الزعافری لین الحدیث راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة رقم : ٢٣٦٩، ٢٣٧٠) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2639 و 2370) ، الظلال (784) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3137

【189】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جس سال مکہ فتح ہوا رسول اللہ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے، آپ اپنے ہاتھ میں لی ہوئی چھڑی سے انہیں کچوکے لگانے لگے (عبداللہ نے کبھی ایسا کہا) اور کبھی کہا کہ آپ اپنے ہاتھ میں ایک لکڑی لیے ہوئے تھے، اور انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے کہتے جاتے تھے «جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل کان زهوقا» حق آگیا باطل مٹ گیا باطل کو مٹنا اور ختم ہونا ہی تھا (بنی اسرائیل : ٨١) ، «جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد» حق غالب آگیا ہے، اب باطل نہ ابھر سکے گا اور نہ ہی لوٹ کر آئے گا (سبا : ٤٩) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٣٢ (٢٤٧٨) ، والمغازي ٤٩ (٤٢٨٧) ، وتفسیر الإسراء ١١ (٤٧٢٠) ، صحیح مسلم/الجھاد ٣٢ (١٧٨١) (تحفة الأشراف : ٩٣٣٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3138

【190】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں تھے، پھر آپ کو ہجرت کا حکم ملا، اسی موقع پر آیت : «وقل رب أدخلني مدخل صدق وأخرجني مخرج صدق واجعل لي من لدنک سلطانا نصيرا» دعا کر، اے میرے رب ! مجھے اچھی جگہ پہنچا اور مجھے اچھی طرح نکال، اور اپنی طرف سے مجھے قوی مددگار مہیا فرما (بنی اسرائیل : ٨٠) ، نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٤٠٥) (ضعیف الإسناد) (سند میں قابوس لین الحدیث ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3139

【191】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ قریش نے یہود سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سوال دو جسے ہم اس شخص (یعنی محمد ﷺ ) سے پوچھیں، انہوں نے کہا : اس شخص سے روح کے بارے میں سوال کرو، تو انہوں نے آپ سے روح کے بارے میں پوچھا (روح کی حقیقت کیا ہے ؟ ) اس پر اللہ نے آیت «ويسألونک عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا» تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو ! روح امر الٰہی ہے، تمہیں بہت ہی تھوڑا علم دیا گیا ہے (بنی اسرائیل : ٨٥) ، انہوں نے کہا : ہمیں تو بہت زیادہ علم حاصل ہے، ہمیں توراۃ ملی ہے، اور جسے توراۃ دی گئی ہو اسے بہت بڑی خیر مل گئی، اس پر آیت «قل لو کان البحر مدادا لکلمات ربي لنفد البحر» کہہ دیجئیے : اگر میرے رب کی باتیں، کلمے، معلومات و مقدرات لکھنے کے لیے سمندر سیاہی (روشنائی) بن جائیں تو سمندر ختم ہوجائے (مگر میرے رب کی حمد و ثناء ختم نہ ہو) (الکہف : ١٠٩) ، نازل ہوئی ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٦٠٨٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3140

【192】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں چل رہا تھا۔ آپ (کبھی کبھی) کھجور کی ایک ٹہنی کا سہارا لے لیا کرتے تھے، پھر آپ کچھ یہودیوں کے پاس سے گزرے تو ان میں سے بعض نے (چہ میگوئی کی) کہا : کاش ان سے کچھ پوچھتے، بعض نے کہا : ان سے کچھ نہ پوچھو، کیونکہ وہ تمہیں ایسا جواب دیں گے جو تمہیں پسند نہ آئے گا (مگر وہ نہ مانے) کہا : ابوالقاسم ! ہمیں روح کے بارے میں بتائیے، (یہ سوال سن کر) آپ کچھ دیر (خاموش) کھڑے رہے، پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ پر وحی آنے والی ہے، چناچہ وحی آ ہی گئی، پھر آپ نے فرمایا : «الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا» روح میرے رب کے حکم سے ہے، تمہیں بہت تھوڑا علم حاصل ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤٧ (١٢٥) ، وتفسیر الإسراء ١٢ (٤٧٢١) ، والإعتصام ٤ (٧٢٩٧) ، والتوحید ٢٨ (٧٤٥٦) ، و ٢٩ (٧٤٦٢) ، صحیح مسلم/المنافقین ٤ (٢٧٩٤) (تحفة الأشراف : ٩٤١٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3141

【193】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن لوگ تین طرح سے جمع کئے جائیں گے، ایک گروہ چل کر آئے گا، اور ایک گروہ سوار ہو کر آئے گا اور ایک گروہ اپنے منہ کے بل آئے گا ۔ پوچھا گیا : اللہ کے رسول ! وہ لوگ اپنے منہ کے بل کیسے چلیں گے ؟ آپ نے فرمایا : جس نے انہیں قدموں سے چلایا ہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ وہ انہیں ان کے منہ کے بل چلا دے، سنو (یہی نہیں ہوگا کہ وہ چلیں گے بلکہ) وہ منہ ہی سے ہر بلندی (نشیب و فراز) اور کانٹے سے بچ کر چلیں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- وہیب نے ابن طاؤس سے اور انہوں نے اپنے باپ طاؤس سے اور طاؤس نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اس حدیث کا کچھ حصہ روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٢٠٣) (ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : مؤلف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ « ونحشرهم يوم القيامة علی وجوههم» (الإسراء : ٩٧) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5546 / التحقيق الثاني) ، التعليق الرغيب (4 / 194) // ضعيف الجامع الصغير (6417) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3142

【194】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

معاویہ بن حیدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم (قیامت میں) جمع کئے جاؤ گے : کچھ لوگ پیدل ہوں گے، کچھ لوگ سواری پر، اور کچھ لوگ اپنے منہ کے بل گھسیٹ کر اکٹھا کئے جائیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٤٢٤ (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3143

【195】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

صفوان بن عسال (رض) سے روایت ہے کہ یہود میں سے ایک یہودی نے دوسرے یہودی سے کہا : اس نبی کے پاس مجھے لے چلو، ہم چل کر ان سے (کچھ) پوچھتے ہیں، دوسرے نے کہا : انہیں نبی نہ کہو، اگر انہوں نے سن لیا کہ تم انہیں نبی کہتے ہو تو (مارے خوشی کے) ان کی چار آنکھیں ہوجائیں گی۔ پھر وہ دونوں نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے اور آپ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول «ولقد آتينا موسیٰ تسع آيات بينات» ہم نے موسیٰ کو نو نشانیاں دیں (اسرائیل : ١٠١) ، کے بارے میں پوچھا کہ وہ نو نشانیاں کیا تھیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، زنا نہ کرو، ناحق کسی شخص کا قتل نہ کرو، چوری نہ کرو، جادو نہ کرو، کسی بری (بےگناہ) شخص کو (مجرم بنا کر) بادشاہ کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کر دے، سود نہ کھاؤ، کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت نہ لگاؤ، دشمن کی طرف بڑھتے ہوئے بڑے لشکر سے نکل کر نہ بھاگو ۔ شعبہ کو شک ہوگیا ہے (کہ آپ نے نویں چیز یہ فرمائی ہے) اور تم خاص یہودیوں کے لیے یہ بات ہے کہ ہفتے کے دن میں زیادتی (الٹ پھیر) نہ کرو، (یہ جواب سن کر) ان دونوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اور کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا : پھر تمہیں اسلام قبول کرلینے سے کیا چیز روک رہی ہے ؟ دونوں نے جواب دیا داود (علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی نبی ہوگا (اور آپ ان کی ذریت میں سے نہیں ہیں) اب ہمیں ڈر ہے کہ ہم اگر آپ پر ایمان لے آتے ہیں تو ہمیں یہود قتل نہ کردیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٧٣٣، سنن ابن ماجہ/الأدب ١٦ (٣٧٠٥) ، والنسائی فی الکبری فی السیر (٨٦٥٦) وفی المحاربة (٣٥٤١) (تحفة الأشراف : ٤٩٥١) وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٣٩) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن سلمہ صدوق ہیں، لیکن حافظہ میں تبدیلی آ گئی تھی) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3705) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (808) ، وتقدم برقم (517 - 2889) ، ضعيف سنن النسائي (275 / 4078) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3144

【196】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

عبداللہ بن عباس (رض) آیت کریمہ : «ولا تجهر بصلاتک» اپنی صلاۃ بلند آواز سے نہ پڑھو (بنی اسرائیل : ١١٠) ، کے بارے میں کہتے ہیں : یہ مکہ میں نازل ہوئی تھی، رسول اللہ ﷺ جب بلند آواز کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے تو مشرکین اسے اور جس نے قرآن نازل کیا ہے اور جو قرآن لے کر آیا ہے سب کو گالیاں دیتے تھے، تو اللہ نے «ولا تجهر بصلاتک» نازل کر کے نماز میں قرآن بلند آواز سے پڑھنے سے منع فرما دیا تاکہ وہ قرآن، اللہ تعالیٰ اور جبرائیل (علیہ السلام) کو گالیاں نہ دیں اور آگے «ولا تخافت بها» نازل فرمایا، یعنی اتنے دھیرے بھی نہ پڑھو کہ آپ کے ساتھی سن نہ سکیں بلکہ یہ ہے کہ وہ آپ سے قرآن سیکھیں (بلکہ ان دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کرو) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الإسراء ١٤ (٤٧٢٢) ، والتوحید ١٣٤ (٧٤٩٠) ، و ٤٤ (٧٥٢٥) ، و ٥٢ (٧٥٤٧) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣١ (٤٤٦) ، سنن النسائی/الإفتتاح ٨٠ (١٠١٢) (تحفة الأشراف : ٥٤٥١) ، و مسند احمد (١/٢٣، ٢١٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3145

【197】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

عبداللہ بن عباس (رض) آیت کریمہ : «ولا تجهر بصلاتک ولا تخافت بها وابتغ بين ذلک سبيلا» صلاۃ میں آواز بہت بلند نہ کیجئے اور نہ ہی بہت پست بلکہ دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کیجئے (الاسراء : ١١٠) ، کے بارے میں کہتے ہیں : یہ آیت مکہ میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ میں چھپے چھپے رہتے تھے، جب آپ اپنے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے تو قرآن بلند آواز سے پڑھتے تھے، مشرکین جب سن لیتے تو قرآن، قرآن نازل کرنے والے اور قرآن لانے والے سب کو گالیاں دیتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے کہا : «ولا تجهر بصلاتک» بلند آواز سے نماز نہ پڑھو (یعنی بلند آواز سے قرأت نہ کرو) کہ جسے سن کر مشرکین قرآن کو گالیاں دینے لگیں اور نہ دھیمی آواز سے پڑھو (کہ تمہارے صحابہ سن نہ سکیں) بلکہ درمیان کا راستہ اختیار کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3146

【198】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ بن یمان (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ نے بیت المقدس میں نماز پڑھی تھی ؟ تو انہوں نے کہا : نہیں، میں نے کہا : بیشک پڑھی تھی، انہوں نے کہا : اے گنجے سر والے، تم ایسا کہتے ہو ؟ کس بنا پر تم ایسا کہتے ہو ؟ میں نے کہا : میں قرآن کی دلیل سے کہتا ہوں، میرے اور آپ کے درمیان قرآن فیصل ہے۔ حذیفہ (رض) نے کہا : جس نے قرآن سے دلیل قائم کی وہ کامیاب رہا، جس نے قرآن سے دلیل پکڑی وہ حجت میں غالب رہا، زر بن حبیش نے کہا : میں نے «سبحان الذي أسری بعبده ليلا من المسجدالحرام إلى المسجد الأقصی» ١ ؎ آیت پیش کی، حذیفہ (رض) نے کہا : کیا تم اس آیت میں کہیں یہ دیکھتے ہو کہ آپ نے نماز پڑھی ہے ؟ میں نے کہا : نہیں، انہوں نے کہا : اگر آپ ( ﷺ ) نے وہاں نماز پڑھ لی ہوتی تو تم پر وہاں نماز پڑھنی ویسے ہی فرض ہوجاتی جیسا کہ مسجد الحرام میں پڑھنی فرض کردی گئی ہے ٢ ؎، حذیفہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے پاس لمبی چوڑی پیٹھ والا جانور (براق) لایا گیا، اس کا قدم وہاں پڑتا جہاں اس کی نظر پہنچتی اور وہ دونوں اس وقت تک براق پر سوار رہے جب تک کہ جنت جہنم اور آخرت کے وعدہ کی ساری چیزیں دیکھ نہ لیں، پھر وہ دونوں لوٹے، اور ان کا لوٹنا ان کے شروع کرنے کے انداز سے تھا ٣ ؎ لوگ بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے اسے (یعنی براق کو بیت المقدس میں) باندھ دیا تھا، کیوں باندھ دیا تھا ؟ کیا اس لیے کہ کہیں بھاگ نہ جائے ؟ (غلط بات ہے) جس جانور کو عالم الغیب والشھادۃ غائب و موجود ہر چیز کے جاننے والے نے آپ کے لیے مسخر کردیا ہو وہ کہیں بھاگ سکتا ہے ؟ نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : أخرجہ النسائي في الکبری فی التفسیر (١١٢٨٠) (تحفة الأشراف : ٣٣٢٤) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک۔ ٢ ؎ : حذیفہ (رض) کا یہ بیان ان کے اپنے علم کے مطابق ہے ، ورنہ احادیث میں واضح طور سے آیا ہے کہ آپ ﷺ نے وہاں انبیاء کی امامت کی تھی ، اور براق کو وہاں باندھا بھی تھا جہاں دیگر انبیاء اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے ( التحفۃ مع الفتح ) ۔ ٣ ؎ : یعنی جس برق رفتاری سے وہ گئے تھے اسی برق رفتاری سے واپس بھی آئے۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3147

【199】

تفسیر سورت بنی اسرائیل

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن میں سارے انسانوں کا سردار ہوں گا، اور اس پر مجھے کوئی گھمنڈ نہیں ہے، میرے ہاتھ میں حمد (و شکر) کا پرچم ہوگا اور مجھے (اس اعزاز پر) کوئی گھمنڈ نہیں ہے۔ اس دن آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی ہیں سب کے سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے، میں پہلا شخص ہوں گا جس کے لیے زمین پھٹے گی (اور میں برآمد ہوں گا) اور مجھے اس پر بھی کوئی گھمنڈ نہیں ہے ، آپ نے فرمایا : (قیامت میں) لوگوں پر تین مرتبہ سخت گھبراہٹ طاری ہوگی، لوگ آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے : آپ ہمارے باپ ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری شفاعت (سفارش) کر دیجئیے، وہ کہیں گے : مجھ سے ایک گناہ سرزد ہوچکا ہے جس کی وجہ سے میں زمین پر بھیج دیا گیا تھا، تم لوگ نوح کے پاس جاؤ، وہ لوگ نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے، مگر نوح (علیہ السلام) کہیں گے : میں زمین والوں کے خلاف بد دعا کرچکا ہوں جس کے نتیجہ میں وہ ہلاک کیے جا چکے ہیں، لیکن ایسا کرو، تم لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ، وہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے، ابراہیم (علیہ السلام) کہیں گے : میں تین جھوٹ بول چکا ہوں ، آپ نے فرمایا : ان میں سے کوئی جھوٹ جھوٹ نہیں تھا، بلکہ اس سے اللہ کے دین کی حمایت و تائید مقصود تھی، البتہ تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ، تو وہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے، موسیٰ (علیہ السلام) کہیں گے : میں ایک قتل کرچکا ہوں، لیکن تم عیسیی (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ۔ تو وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے، وہ کہیں گے : اللہ کے سوا مجھے معبود بنا لیا گیا تھا، تم لوگ محمد ﷺ کے پاس جاؤ، آپ نے فرمایا : لوگ میرے پاس (سفارش کرانے کی غرض سے) آئیں گے، میں ان کے ساتھ (دربار الٰہی کی طرف) جاؤں گا ، ابن جدعان (راوی حدیث) کہتے ہیں : انس نے کہا : مجھے ایسا لگ رہا ہے تو ان میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں، آپ نے فرمایا : میں جنت کے دروازے کا حلقہ (زنجیر) پکڑ کر اسے ہلاؤں گا، پوچھا جائے گا : کون ہے ؟ کہا جائے گا : محمد ہیں، وہ لوگ میرے لیے دروازہ کھول دیں گے، اور مجھے خوش آمدید کہیں گے، میں (اندر پہنچ کر اللہ کے حضور) سجدے میں گر جاؤں گا اور حمد و ثنا کے جو الفاظ اور کلمے اللہ میرے دل میں ڈالے گا وہ میں سجدے میں ادا کروں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا : اپنا سر اٹھائیے، مانگیے (جو کچھ مانگنا ہو) آپ کو دیا جائے گا۔ (کسی کی سفارش کرنی ہو تو) سفارش کیجئے آپ کی شفاعت (سفارش) قبول کی جائے گی، کہئے آپ کی بات سنی جائے گی۔ اور وہ جگہ (جہاں یہ باتیں ہوں گی) مقام محمود ہوگا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «عسی أن يبعثک ربک مقاما محمودا» توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود میں بھیجے (بنی اسرائیل : ٧٩) ۔ سفیان ثوری کہتے ہیں : انس کی روایت میں اس کلمے «فآخذ بحلقة باب الجنة فأقعقعها» کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- بعض محدثین نے یہ پوری حدیث ابونضرہ کے واسطہ سے ابن عباس سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٧ (٤٣٠٨) (تحفة الأشراف : ٤٣٦٧) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4308) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3148

【200】

تفسیر سورت کہف

سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ بنی اسرائیل والے موسیٰ خضر والے موسیٰ (علیہما السلام) نہیں ہیں، ابن عباس (رض) نے کہا : اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا، میں نے ابی بن کعب کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل میں ایک دن تقریر کی، ان سے پوچھا گیا (اس وقت) لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے ؟ کہا : میں سب سے زیادہ علم والا ہوں، یہ بات اللہ کو ناگوار ہوئی کہ انہوں نے «اللہ اعلم» (اللہ بہتر جانتا ہے) نہیں کہا، اللہ نے ان کی سرزنش کی اور ان کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ «مجمع البحرین» (دو سمندروں کے سنگم) کے مقام پر ہے، وہ تم سے بڑا عالم ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا : اے میرے رب ! میری ان سے ملاقات کی صورت کیا ہوسکتی ہے ؟ اللہ نے کہا : «زنبیل» (تھیلے) میں ایک مچھلی رکھ لو پھر جہاں مچھلی غائب ہوجائے وہیں میرا وہ بندہ تمہیں ملے گا، موسیٰ چل پڑے ان کے ساتھ ان کے خادم یوشع بن نون بھی تھے، موسیٰ نے ایک مچھلی ٹوکری میں رکھ لی، دونوں چلتے چلتے صخرہ (چٹان) کے پاس پہنچے، اور وہاں سو گئے، (سونے کے دوران) مچھلی تڑپی، تھیلے سے نکل کر سمندر میں جا گری، ابن عباس (رض) کہتے ہیں : مچھلی کے گرتے ہی اللہ تعالیٰ نے پانی کے بہاؤ کو روک دیا، یہاں تک کہ ایک محراب کی صورت بن گئی اور مچھلی کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کا راستہ بن گیا، موسیٰ اور ان کے خادم کے لیے یہ حیرت انگیز چیز تھی، وہ نیند سے بیدار ہو کر باقی دن و رات چلتے رہے، موسیٰ کا رفیق سفر انہیں یہ بتانا بھول گیا کہ فلاں مقام پر مچھلی تھیلے سے نکل کر سمندر میں جا چکی ہے، صبح ہوئی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے کہا : بھئی ہمارا ناشتہ لاؤ، ہم تو اس سفر میں بہت تھک چکے ہیں، ابن عباس (رض) کہتے ہیں : موسیٰ (علیہ السلام) کو تھکان اس جگہ سے آگے بڑھ جانے کے بعد ہی لاحق ہوئی جس جگہ اللہ نے انہیں پہنچنے کا حکم دیا تھا، غلام نے کہا : بھلا دیکھئیے تو سہی (کیسی عجیب بات ہوئی) جب ہم چٹان پر فروکش ہوئے تھے (کچھ دیر آرام کے لیے) تو میں آپ سے مچھلی کا ذکر کرنا بھول ہی گیا، اور شیطان کے سوا مجھے کسی نے بھی اس کے یاد دلانے سے غافل نہیں کیا ہے، وہ تو حیرت انگیز طریقے سے سمندر میں چلی گئی، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : یہی تو وہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم نکلے تھے، پھر وہ اپنے نشان قدم دیکھتے ہوئے پلٹے، وہ اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر چل رہے تھے (تاکہ صحیح جگہ پر پہنچ جائیں) (سفیان (راوی) کہتے ہیں : کچھ لوگ سمجھتے ہیں اس چٹان کے قریب چشمہ حیات ہے، جس کسی مردے کو اس کا پانی چھو جائے وہ زندہ ہوجاتا ہے) ، مچھلی کچھ کھائی جا چکی تھی۔ مگر جب پانی کے قطرے اس پر پڑے تو وہ زندہ ہوگئی، دونوں اپنے نشانات قدم دیکھ کر چلے یہاں تک کہ چٹان کے پاس پہنچ گئے وہاں سر ڈھانپے ہوئے ایک شخص کو دیکھا، موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سلام عرض کیا، انہوں نے کہا : تمہارے اس ملک میں سلام کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا : میں موسیٰ ہوں، (اور میری شریعت میں سلام ہے) انہوں نے پوچھا : بنی اسرائیل والے موسیٰ ؟ کہا : ہاں، انہوں نے کہا : اے موسیٰ اللہ کے (بےشمار اور بےانتہائی) علوم میں سے تمہارے پاس ایک علم ہے، اللہ نے تمہیں سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا، اور مجھے بھی اللہ کے علوم میں سے ایک علم حاصل ہے، اللہ نے مجھے وہ علم سکھایا ہے، جسے تم نہیں جانتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : میں آپ کے ساتھ ساتھ رہوں تو کیا آپ مجھے اللہ نے آپ کو رشد و ہدایت کی جو باتیں سکھائیں ہیں انہیں سکھا دیں گے ؟ انہوں نے کہا : آپ میرے پاس ٹک نہیں سکتے، اور جس بات کا آپ کو علم نہیں آپ (اسے بظاہر خلاف شرع دیکھ کر) کیسے خاموش رہ سکتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : نہیں، میں ان شاء اللہ جموں (اور ٹکوں) گا اور کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی (اور مخالفت) نہیں کروں گا۔ ان سے خضر (علیہ السلام) نے کہا : اگر آپ میرے ساتھ رہنا ہی چاہتے ہیں تو (دھیان رہے) کسی چیز کے بارے میں بھی مجھ سے مت پوچھیں اور حجت بازی نہ کریں جب تک کہ میں خود ہی آپ کو اس کے بارے میں بتا نہ دوں، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : ہاں ہاں، (بالکل ایسا ہی ہوگا) پھر خضر و موسیٰ چلے، دونوں سمندر کے ساحل سے لگ کر چلے جا رہے تھے کہ ان کے قریب سے ایک کشتی گزری، ان دونوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ ہمیں بھی کشتی پر سوار کرلو، (باتوں ہی باتوں میں) انہوں نے خضر کو پہچان لیا، ان دونوں کو کشتی پر چڑھا لیا، اور ان سے کرایہ نہ لیا، مگر خضر (علیہ السلام) کشتی کے تختوں میں سے ایک تختے کی طرف بڑھے اور اسے اکھاڑ دیا، (یہ دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) سے صبر نہ ہوا) بول پڑے، ایک تو یہ (کشتی والے شریف) لوگ ہیں کہ انہوں نے بغیر کرایہ بھاڑا لیے ہمیں کشتی پر چڑھا لیا اور ایک آپ ہیں کہ آپ نے ان کی کشتی کی طرف بڑھ کر اسے توڑ دیا تاکہ انہیں ڈبو دیں، یہ تو آپ نے بڑا برا کام کیا، انہوں نے کہا : کیا میں آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ چکا ہوں کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکتے ؟ (خاموش نہیں رہ سکتے) موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : آپ اس پر میری گرفت نہ کریں میں بھول گیا تھا (کہ میں نے آپ سے خاموش رہنے کا وعدہ کر رکھا ہے) اور آپ میرے کام و معاملے میں دشواریاں کھڑی نہ کریں، پھر وہ دونوں کشتی سے اتر کر ساحل کے کنارے کنارے چلے جا رہے تھے کہ اچانک ایک لڑکا انہیں اور لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہوا ملا، خضر نے اس کا سر پکڑا اور اپنے ہاتھ سے اس کی کھوپڑی سر سے اتار کر اسے مار ڈالا، (موسیٰ سے پھر رہا نہ گیا) موسیٰ نے کہا : آپ نے بغیر کسی قصاص کے ایک اچھی بھلی جان لے لی، یہ تو آپ نے بڑی گھناونی حرکت کی ہے۔ انہوں نے کہا : میں تو آپ سے پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکیں گے۔ (کچھ نہ کچھ ضرور بول بیٹھیں گے راوی) کہتے ہیں اور یہ تو پہلے سے بھی زیادہ سخت معاملہ تھا، (اس میں وہ کیسے خاموش رہتے) موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : (یہ بھول بھی ہو ہی گئی) اب اگر میں اس کے بعد کسی چیز کے بارے میں کچھ پوچھ بیٹھوں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئیے، میرے سلسلے میں آپ عذر کو پہنچے ہوئے ہوں گے، پھر وہ دونوں آگے بڑھے، ایک گاؤں میں پہنچ کر گاؤں والوں سے کہا : آپ لوگ ہماری ضیافت کریں مگر گاؤں والوں نے انہیں اپنا مہمان بنانے سے انکار کردیا، وہاں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو گری پڑتی تھی، راوی کہتے ہیں : جھکی ہوئی تھی تو خضر (علیہ السلام) نے ہاتھ (بڑھا کر) دیوار سیدھی کھڑی کردی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا : یہ تو (ایسی گئی گزری) قوم ہے کہ ہم ان کے پاس آئے، مگر انہوں نے ہماری ضیافت تک نہ کی، ہمیں کھلایا پلایا تک نہیں، آپ چاہتے تو ان سے دیوار سیدھی کھڑی کردینے کی اجرت لے لیتے۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا : اب آ گئی ہے ہماری تمہاری جدائی کی گھڑی، جن باتوں پر تم صبر نہ سکے میں تمہیں ان کی حقیقت بتائے دیتا ہوں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ موسیٰ پر رحم فرمائے، ہمارے لیے تو یہ پسند ہوتا کہ وہ صبر کرتے تو ہم ان دونوں کی (عجیب و غریب) خبریں سنتے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پہلی بار تو موسیٰ (علیہ السلام) سے بھول ہوئی تھی ، آپ نے فرمایا : (اسی موقع پر) ایک گوریا آئی اور کشتی کے ایک کنارے بیٹھ گئی پھر سمندر سے اپنی چونچ مار کر پانی نکالا، خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو متوجہ کر کے کہا : اس چڑیا کے سمندر میں چونچ مارنے سے جو کمی ہوئی ہے وہی حیثیت اللہ کے علم کے آگے ہمارے اور تمہارے علم کی ہے، (اس لیے متکبرانہ جملہ کہنے کے بجائے «اللہ اعلم» کہنا زیادہ بہتر ہوتا) ۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں : ابن عباس «وكان أمامهم ملك يأخذ کل سفينة صالحة غصبا وکان يقرأ وأما الغلام فکان کافرا» ٢ ؎ پڑھا کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس حدیث کو زہری نے عبیداللہ بن عتبہ سے عبیداللہ نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے ابی بن کعب (رض) کے واسطہ سے، نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ اور اس حدیث کو ابواسحاق ہمدانی نے بھی سعید بن جبیر سے، سعید نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے ابی بن کعب (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، ٣- میں نے ابومزاحم سمرقندی کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے علی ابن مدینی کو سنا وہ کہتے تھے : میں نے حج کیا، اور میرا حج سے مقصد صرف یہ تھا کہ میں سفیان سے خود سن لوں کہ وہ اس حدیث میں خبر یعنی لفظ «اخبرنا» استعمال کرتے ہیں (یا نہیں) چناچہ میں نے سنا، انہوں نے «حدثنا عمرو بن دینار …» کا لفظ استعمال کیا۔ اور میں اس سے پہلے بھی سفیان سے یہ سن چکا تھا اور اس میں خبر (یعنی «اخبرنا» ) کا ذکر نہیں تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ١٦ (٧٤) ، ١٩ (٧٨) ، ٤٤ (١٢٢) ، والإجارة ٧ (٢٢٦٧) ، والشروط ١٢ (٢٧٢٨) ، وبدء الخلق ١١ (٣٢٧٨) ، والأنبیاء (٣٤٠٠) ، وتفسیر الکھف ٤ (٤٧٢٥) ، والتوحید ٣١ (٧٤٧٨) ، صحیح مسلم/الفضائل ٤٦ (٢٣٨٠) (تحفة الأشراف : ٣٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک ( صحیح سالم ) کشتی کو جبرا ضبط کرلیتا تھا ( الکہف : ٧٩) ، ( موجودہ مصاحف میں «صالحۃ» کا لفظ نہیں ہے۔ ٢ ؎ : اور وہ لڑکا کافر تھا جیسا کہ قرآن میں ہے : «وأما الغلام فکان أبواه مؤمنين فخشينا أن يرهقهما طغيانا وکفرا» (الكهف : 80 ) اور جہاں تک اس لڑکے کا تعلق ہے تو اس کے ماں باپ ایمان والے تھے ، چناچہ ہم ڈر گئے کہ ایسا نہ ہو یہ لڑکا بڑا ہو کر اپنے ماں باپ کو بھی شرارت و سرکشی اور کفر میں ڈھانپ دے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3149

【201】

None

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لڑکا جسے خضر علیہ السلام نے مار ڈالا تھا پیدائشی کافر تھا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

【202】

تفسیر سورت کہف

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خضر نام اس لیے پڑا کہ وہ سوکھی ہوئی گھاس پر بیٹھے، تو وہ ہری گھاس میں تبدیل ہوگئی (یہ اللہ کی طرف سے معجزہ تھا) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٧٩٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3151

【203】

تفسیر سورت کہف

ابو الدرداء (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے قول «وكان تحته كنز لهما» ان دونوں یتیم بچوں کا خزانہ ان کی اس دیوار کے نیچے دفن تھا (الکہف : ٨٢) ، کے بارے میں فرمایا : کنز سے مراد سونا چاندی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٩٩٦) (ضعیف) (سند میں یزید بن یوسف الصنعانی ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : (الحديث الذي في سنده : يزيد بن يوسف عن مکحول) ضعيف جدا، (الحديث الذي في سنده يزيد بن يزيد بن جابر عن مکحول) ضعيف جدا، الروض النضير (940) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3152 اس سند سے یزید بن یزید بن جابر کے واسطہ سے مکحول سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : * تخريج (م) : انظر ماقبلہ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : (الحديث الذي في سنده : يزيد بن يوسف عن مکحول) ضعيف جدا، (الحديث الذي في سنده يزيد بن يزيد بن جابر عن مکحول) ضعيف جدا، الروض النضير (940) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3152

【204】

تفسیر سورت کہف

ابورافع، ابوہریرہ (رض) کی رسول اللہ ﷺ سے مروی حدیث میں سے «سد» (سکندری) سے متعلق حصہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : (یاجوج و ماجوج اور ان کی ذریت) اسے ہر دن کھودتے ہیں، جب وہ اس میں شگاف ڈال دینے کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو ان کا نگراں (جو ان سے کام کرا رہا ہوتا ہے) ان سے کہتا ہے : واپس چلو کل ہم اس میں سوراخ کردیں گے، ادھر اللہ اسے پہلے زیادہ مضبوط و ٹھوس بنا دیتا ہے، پھر جب ان کی مدت پوری ہوجائے گی اور اللہ ان کو لوگوں تک لے جانے کا ارادہ کرے گا، اس وقت دیوار کھودنے والوں کا نگراں کہے گا : لوٹ جاؤ کل ہم اسے ان شاء اللہ توڑ دیں گے ، آپ نے فرمایا : پھر جب وہ (اگلے روز) لوٹ کر آئیں گے تو وہ اسے اسی حالت میں پائیں گے جس حالت میں وہ اسے چھوڑ کر گئے تھے ١ ؎، پھر وہ اسے توڑ دیں گے، اور لوگوں پر نکل پڑیں گے (ٹوٹ پڑیں گے) سارا پانی پی جائیں گے، لوگ ان سے بچنے کے لیے بھاگیں گے، وہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھیکیں گے، تیر خون میں ڈوبے ہوئے واپس آئیں گے، وہ کہیں گے کہ ہم زمین والوں پر غالب آ گئے اور آسمان والے سے بھی ہم قوت و بلندی میں بڑھ گئے (یعنی اللہ تعالیٰ سے) پھر اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کر دے گا جس سے وہ مرجائیں گے ، آپ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، زمین کے جانور ان کا گوشت کھا کھا کر موٹے ہوجائیں گے اور اینٹھتے پھریں گے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے ایسے ہی جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٣ (٤٠٨٠) (تحفة الأشراف : ١٤٦٧٠) ، و مسند احمد (٢/٥١٠-٥١١) (صحیح) (سند میں انقطاع ہے اس لیے کہ قتادہ کا سماع ابو رافع سے نہیں ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو الصحیحة رقم : ١٧٣٥) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ اس نے اس بار «إن شاء اللہ» کہا ہوگا ، پہلے وہ ایسا کہنا بھول جایا کرے گا کیونکہ اللہ کی یہی مصلحت ہوگی۔ ٢ ؎ : مؤلف یہ حدیث ارشاد باری : «إن يأجوج ومأجوج مفسدون في الأرض » (الکہف : ٩٤) کی تفسیر میں لائے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4080) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3153

【205】

تفسیر سورت کہف

ابوسعید بن ابی فضالہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن جس کے آنے میں ذرا بھی شک نہیں ہے جمع کرے گا تو پکارنے والا پکار کر کہے گا : جس نے اللہ کے واسطے کوئی کام کیا ہو اور اس کام میں کسی کو شریک کرلیا ہو، وہ جس غیر کو اس نے شریک کیا تھا اسی سے اپنے عمل کا ثواب مانگ لے، کیونکہ اللہ شرک سے کلی طور پر بیزار و بےنیاز ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف محمد بن بکر کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢١ (٤٢٠٣) (تحفة الأشراف : ١٢٠٤٤) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : مؤلف یہ حدیث ارشاد باری «فمن کان يرجو لقاء ربه فليعمل عملا صالحا ولا يشرک بعبادة ربه أحدا» (الكهف : 110 ) کی تفسیر میں لائے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4203) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3154

【206】

تفسیر سورت مریم

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے نجران بھیجا (وہاں نصاریٰ آباد تھے) انہوں نے مجھ سے کہا : کیا آپ لوگ «يا أخت هارون» ١ ؎ نہیں پڑھتے ؟ جب کہ موسیٰ و عیسیٰ کے درمیان (فاصلہ) تھا جو تھا ٢ ؎ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں انہیں کیا جواب دوں ؟ میں لوٹ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو بتایا، تو آپ نے فرمایا : تم نے انہیں کیوں نہیں بتادیا کہ لوگ اپنے سے پہلے کے انبیاء و صالحین کے ناموں پر نام رکھا کرتے تھے ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح غریب ہے، اور ہم اسے صرف ابن ادریس ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الآداب ١ (٢١٣٥) (تحفة الأشراف : ١١٥١٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اے ہارون کی بہن تیرا باپ غلط آدمی نہیں تھا ، اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔ ٢ ؎ : پھر تو یہ بات غلط ہے کیونکہ یہاں خطاب مریم سے ہے مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے ، ہارون موسیٰ کے بھائی تھے ، اور موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) کے زمانوں میں ایک لمبا فاصلہ ہے ، پھر مریم کو ہارون کی بہن کہنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے ؟۔ ٣ ؎ : یعنی آیت میں جس ہارون کا ذکر ہے وہ مریم کے بھائی ہیں ، اور وہ ہارون جو موسیٰ کے بھائی ہیں وہ اور ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن مختصر تحفة الودود صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3155

【207】

تفسیر سورت مریم

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت «وأنذرهم يوم الحسرة» اے نبی ! ان کو حسرت و افسوس کے دن سے ڈراؤ (مریم : ٣٩) ، پڑھی (پھر) فرمایا : موت چتکبری بھیڑ کی صورت میں لائی جائے گی اور جنت و جہنم کے درمیان دیوار پر کھڑی کردی جائے گی، پھر کہا جائے گا : اے جنتیو ! جنتی گردن اٹھا کر دیکھیں گے، پھر کہا جائے گا : اے جہنمیو ! جہنمی گردن اٹھا کر دیکھنے لگیں گے، پوچھا جائے گا : کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ وہ سب کہیں گے : ہاں، یہ موت ہے، پھر اسے پہلو کے بل پچھاڑ کر ذبح کردیا جائے گا، اگر اہل جنت کے لیے زندگی و بقاء کا فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا تو وہ خوشی سے مرجاتے، اور اگر اہل جہنم کے لیے جہنم کی زندگی اور جہنم میں ہمیشگی کا فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا تو وہ غم سے مرجاتے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر مریم ١ (٤٧٣٠) ، صحیح مسلم/الجنة ١٣ (٢٨٤٩) (تحفة الأشراف : ٤٠٠٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله : فلولا أن اللہ قضی ... انظر الحديث (2696، 2683) // (465 - 2696) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3156

【208】

تفسیر سورت مریم

قتادہ آیت «ورفعناه مکانا عليا» ١ ؎ کے تعلق سے کہتے ہیں کہ ہم سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں نے ادریس (علیہ السلام) کو چوتھے آسمان پر دیکھا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور سعید بن ابی عروہ، ہمام اور کئی دیگر راویوں نے قتادہ سے، قتادہ نے انس سے اور انس نے مالک بن صعصعہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے حدیث معراج پوری کی پوری روایت کی، اور یہ ہمارے نزدیک اس سے مختصر ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری خدری (رض) بھی نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٠٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3157

【209】

تفسیر سورت مریم

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا : جتنا آپ ہمارے پاس آتے ہیں، اس سے زیادہ آنے سے آپ کو کیا چیز روک رہی ہے ؟ اس پر آیت «وما نتنزل إلا بأمر ربك» تمہارے رب کے حکم ہی سے اترتے ہیں اسی کے پاس ان تمام باتوں کا علم ہے جو ہمارے آگے ہیں، جو ہمارے پیچھے ہیں، اور ان کے درمیان ہیں (مریم : ٦٤) ، نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- ہم سے حسین بن حریث نے بیان کیا کہ ہم سے وکیع نے بیان کیا اور وکیع نے عمر بن ذر سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٦ (٣٢١٨) ، وتفسیر سورة مریم ٥ (٤٧٣١) ، والتوحید ٢٨ (٧٤٥٥) (تحفة الأشراف : ٥٥٠٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3158

【210】

تفسیر سورت مریم

سدی کہتے ہیں کہ میں نے مرہ ہمدانی سے آیت «وإن منکم إلا واردها» یہ امر یقینی ہے کہ تم میں سے ہر ایک اس پر عبور کرے گا (مریم : ٧١) ، کا مطلب پوچھا تو انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے ان لوگوں سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ جہنم میں جائیں گے، پھر اس سے اپنے اعمال کے سہارے نکلیں گے، پہلا گروہ (جن کے اعمال بہت اچھے ہوں گے) بجلی چمکنے کی سی تیزی سے نکل آئے گا۔ پھر ہوا کی رفتار سے، پھر گھوڑے کے تیز دوڑنے کی رفتار سے، پھر سواری لیے ہوئے اونٹ کی رفتار سے، پھر دوڑتے شخص کی، پھر پیدل چلنے کی رفتار سے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اس حدیث کو شعبہ نے سدی سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٥٥٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (311) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3159

【211】

تفسیر سورت مریم

عبداللہ بن مسعود (رض) نے «وإن منکم إلا واردها» کے تعلق سے فرمایا : لوگ جہنم میں جائیں گے پھر اپنے اعمال (صالحہ) کے ذریعہ نکل آئیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف وهو في حکم المرفوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3160 سدی نے مرہ سے اور مرہ نے عبداللہ بن مسعود کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی۔ شعبہ کہتے ہیں : میں نے اسے سدی سے مرفوعاً ہی سنا ہے، لیکن میں جان بوجھ کر چھوڑ دیتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف وهو في حکم المرفوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3160

【212】

تفسیر سورت مریم

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ کسی بندے کو پسند کرتا ہے تو جبرائیل کو بلا کر کہتا ہے : میں نے فلاں کو اپنا حبیب بنا لیا ہے تم بھی اس سے محبت کرو، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر جبرائیل آسمان میں اعلان کردیتے ہیں، اور پھر زمین والوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوجاتی ہے، یہی ہے اللہ تعالیٰ کے قول : «إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات سيجعل لهم الرحمن ودا» اس میں شک نہیں کہ جو لوگ ایمان لاتے ہیں، اور نیک عمل کرتے ہیں اللہ ان کے لیے (لوگوں کے دلوں میں) محبت پیدا کر دے گا (مریم : ٩٦) ، کا مطلب و مفہوم۔ اور اللہ جب کسی بندے کو نہیں چاہتا (اس سے بغض و نفرت رکھتا ہے) تو جبرائیل کو بلا کر کہتا ہے، میں فلاں کو پسند نہیں کرتا پھر وہ آسمان میں پکار کر سب کو اس سے باخبر کردیتے ہیں۔ تو زمین میں اس کے لیے (لوگوں کے دلوں میں) نفرت و بغض پیدا ہوجاتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسی جیسی حدیث عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے اپنے باپ سے اور ان کے باپ نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوہریرہ کے واسطہ سے، نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٤٨ (٢٦٣٧) (تحفة الأشراف : ١٢٧٠٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الضعيفة تحت الحديث (2207) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3161

【213】

تفسیر سورت مریم

مسروق کہتے ہیں کہ میں نے خباب بن ارت (رض) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں عاص بن وائل سہمی (کافر) کے پاس اس سے اپنا ایک حق لینے کے لیے گیا، اس نے کہا : جب تک تم محمد ( ﷺ کی رسالت) کا انکار نہیں کردیتے میں تمہیں دے نہیں سکتا۔ میں نے کہا : نہیں، میں رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت کا انکار نہیں کرسکتا۔ چاہے تم یہ کہتے کہتے مرجاؤ۔ پھر زندہ ہو پھر یہی کہو۔ اس نے پوچھا کیا : میں مروں گا ؟ پھر زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا ؟ میں نے کہا : ہاں، اس نے کہا : وہاں بھی میرے پاس مال ہوگا، اولاد ہوگی، اس وقت میں تمہارا حق تمہیں لوٹا دوں گا۔ اس موقع پر آیت «أفرأيت الذي کفر بآياتنا وقال لأوتين مالا وولدا» کیا آپ نے دیکھا اس شخص کو جس نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہا میں مال و اولاد سے بھی نوازا جاؤں گا (مریم : ٧٧) ، نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٢٩ (٢٠٩١) ، والإجارة ١٥ (٢٢٧٥) ، والخصومات ١٠ (٢٤٢٥) ، وتفسیر مریم ٤ (٤٧٣٣) ، و ٥ (٤٧٣٤) ، و ٦ (٤٧٣٥) ، صحیح مسلم/المنافقین ٤ (٢٧٩٥) (تحفة الأشراف : ٣٥٢٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3162 اس سند سے بھی ابومعاویہ نے اسی طرح اعمش سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3162

【214】

تفسیر سورت طہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ خیبر سے لوٹے، رات کا سفر اختیار کیا، چلتے چلتے آپ کو نیند آنے لگی (مجبور ہو کر) اونٹ بٹھایا اور قیام کیا، بلال (رض) سے فرمایا : بلال ! آج رات تم ہماری حفاظت و پہرہ داری کرو ، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : بلال نے (جاگنے کی صورت یہ کی کہ) نماز پڑھی، صبح ہونے کو تھی، طلوع فجر ہونے کا انتظار کرتے ہوئے انہوں نے اپنے کجاوے کی (ذرا سی) ٹیک لے لی، تو ان کی آنکھ لگ گئی، اور وہ سو گئے، پھر تو کوئی اٹھ نہ سکا، ان سب میں سب سے پہلے نبی اکرم ﷺ بیدار ہوئے، آپ نے فرمایا : بلال ! (یہ کیا ہوا ؟ ) بلال نے عرض کیا : میرے باپ آپ پر قربان، مجھے بھی اسی چیز نے اپنی گرفت میں لے لیا جس نے آپ کو لیا، آپ نے فرمایا : یہاں سے اونٹوں کو آگے کھینچ کرلے چلو، پھر آپ ( ﷺ ) نے اونٹ بٹھائے، وضو کیا، نماز کھڑی کی اور ویسی ہی نماز پڑھی جیسی آپ اطمینان سے اپنے وقت پر پڑھی جانے والی نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ پھر آپ نے آیت «أقم الصلاة لذكري» مجھے یاد کرنے کے لیے نماز پڑھو (طہٰ : ١٤) ، پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غیر محفوظ ہے، اسے کئی حافظان حدیث نے زہری سے، زہری نے سعید بن مسیب سے اور سعید بن مسیب نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ان لوگوں نے اپنی روایتوں میں ابوہریرہ کا ذکر نہیں کیا ہے، ٢- صالح بن ابی الاخضر حدیث میں ضعیف قرار دیئے جاتے ہیں۔ انہیں یحییٰ بن سعید قطان وغیرہ نے حفظ کے تعلق سے ضعیف کہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣١٧٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (461 - 463) ، الإرواء (263) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3163

【215】

سورت انبیاء کی تفسیر

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : «ويل» جہنم کی ایک وادی ہے (اور اتنی گہری ہے کہ) جب کافر اس میں گرے گا تو اس کو تہہ تک پہنچنے سے پہلے گرنے میں چالیس سال لگ جائیں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم ابن لہیعہ کے سوا کسی اور کو نہیں جانتے کہ وہ اسے مرفوعاً روایت کرتا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٠٦٢) (ضعیف) (سند میں ابن لھیعہ اور دراج دونوں ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث مولف ارشاد باری «ولکم الويل مما تصفون» (الأنبیاء : ١٨) کی تفسیر میں لائے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (4 / 229) // ضعيف الجامع الصغير (6148) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3164

【216】

سورت انبیاء کی تفسیر

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے سامنے آ کر بیٹھا، اس نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے دو غلام ہیں، جو مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں، میرے مال میں خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں، میں انہیں گالیاں دیتا ہوں مارتا ہوں، میرا ان کا نپٹارا کیسے ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : انہوں نے، تمہارے ساتھ خیانت کی ہے، اور تمہاری نافرمانی کی ہے تم سے جو جھوٹ بولے ہیں ان سب کا شمار و حساب ہوگا تم نے انہیں جو سزائیں دی ہیں ان کا بھی شمار و حساب ہوگا، اب اگر تمہاری سزائیں ان کے گناہوں کے بقدر ہوئیں تو تم اور وہ برابر سرابر چھوٹ جاؤ گے، نہ تمہارا حق ان پر رہے گا اور نہ ان کا حق تم پر، اور اگر تمہاری سزا ان کے قصور سے کم ہوئی تو تمہارا فضل و احسان ہوگا، اور اگر تمہاری سزا ان کے گناہوں سے زیادہ ہوئی تو تجھ سے ان کے ساتھ زیادتی کا بدلہ لیا جائے گا، (یہ سن کر) وہ شخص روتا پیٹتا ہوا واپس ہوا، آپ نے فرمایا : کیا تم کتاب اللہ نہیں پڑھتے (اللہ نے فرمایا ہے) «ونضع الموازين القسط ليوم القيامة فلا تظلم نفس شيئا وإن کان مثقال» الآية اور ہم قیامت کے دن انصاف کا ترازو لگائیں گے پھر کسی نفس پر کسی طرح سے ظلم نہ ہوگا، اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا ہم اسے لا حاضر کریں گے اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے (الانبیاء : ٤٧) ، اس شخص نے کہا : قسم اللہ کی ! میں اپنے اور ان کے لیے اس سے بہتر اور کوئی بات نہیں پاتا کہ ہم ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں، میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ وہ سب آزاد ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن غزوان کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- احمد بن حنبل نے بھی یہ حدیث عبدالرحمٰن بن غزوان سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٦٠٨) (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3165

【217】

سورت انبیاء کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابراہیم (علیہ السلام) نے تین معاملات کے سوا کسی بھی معاملے میں کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا، ایک تو یہ ہے کہ آپ نے کہا : میں بیمار ہوں، حالانکہ آپ بیمار نہیں تھے، (دوسرا) آپ نے سارہ کو اپنی بہن کہا : (جب کہ وہ آپ کی بیوی تھیں) (تیسرا، آپ نے بت توڑا) اور پوچھنے والوں سے آپ نے کہا : بڑے (بت) ان کے اس بڑے نے توڑے ہیں، (ان سے پوچھ لیں) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے، اور ابوالزناد کے واسطہ سے ابن اسحاق کی روایت غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٨ (٣٣٥٧) ، والنکاح ١٢ (٥٠١٢) ، صحیح مسلم/الفضائل ٤١ (٢٣٧١) (تحفة الأشراف : ١٣٨٦٥) ، و مسند احمد (٢/٤٠٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مولف یہ حدیث ارشاد باری : «قال بل فعله كبيرهم هذا» (الانبیاء : ٦٤) کی تفسیر میں لائے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1916) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3166

【218】

سورت انبیاء کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : تم لوگ قیامت کے دن اللہ کے پاس ننگے اور غیر مختون جمع کئے جاؤ گے، پھر آپ نے آیت پڑھی «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا» ہم نے جیسے پہلے آدمی کو پیدا کیا ہے ویسا ہی دوبارہ لوٹا دیں گے (پیدا فرما دیں گے) (الانبیاء : ١٠٤) ، آپ نے فرمایا : قیامت کے دن جنہیں سب سے پہلے کپڑا پہنایا جائے گا وہ ابراہیم (علیہ السلام) ہوں گے، (قیامت کے دن) میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے جنہیں چھانٹ کر بائیں جانب (جہنم کی رخ) کردیا جائے گا، میں کہوں گا پروردگار ! یہ تو میرے اصحاب (امتی) ہیں، کہا جائے گا : آپ کو نہیں معلوم ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی باتیں (خرافات) دین میں پیدا (داخل) کردیں۔ (یہ سن کر) میں بھی وہی بات کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے (عیسیٰ علیہ السلام) نے کہی ہے «وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم فلما توفيتني كنت أنت الرقيب عليهم وأنت علی كل شيء شهيد إن تعذبهم فإنهم عبادک وإن تغفر لهم» میں جب تک ان کے درمیان تھا ان کی دیکھ بھال کرتا رہا تھا، پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا آپ ان کے محافظ و نگہبان بن گئے، آپ ہر چیز سے واقف ہیں۔ اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے و غلام ہیں۔ (آپ انہیں سزا دے سکتے ہیں) اور اگر آپ انہیں معاف کردیں تو آپ زبردست حکمت والے ہیں (المائدہ : ١١٨) ، کہا جائے گا : یہ وہ لوگ ہیں کہ آپ نے جب سے ان کا ساتھ چھوڑا ہے یہ اپنی پہلی حالت سے پھرگئے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٤٢٣ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وهو مکرر الحديث (2552) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3167 عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ جب آیت «يا أيها الناس اتقوا ربکم إن زلزلة الساعة شيء عظيم» سے قول «ولکن عذاب اللہ شديد» ١ ؎ تک نازل ہوئی تو نبی اکرم ﷺ اس وقت سفر میں تھے، آپ نے لوگوں سے فرمایا : کیا تم جانتے ہو وہ کون سا دن ہے ؟ لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا : یہ وہ دن ہے جس دن اللہ آدم (علیہ السلام) سے کہے گا «ابعث بعث النار» جہنم میں جانے والی جماعت کو چھانٹ کر بھیجو آدم (علیہ السلام) کہیں گے : اے میرے رب «بعث النار» کیا ہے (یعنی کتنے) ؟ اللہ فرمائے گا : نو سو ننانوے ( ٩٩٩) افراد جہنم میں اور (ان کے مقابل میں) ایک شخص جنت میں جائے گا، یہ سن کر مسلمان (صحابہ) رونے لگے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی نزدیکی حاصل کرو اور ہر کام صحیح اور درست ڈھنگ سے کرتے رہو، (اہل جنت میں سے ہوجاؤ گے) ، کیونکہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نبوت کا سلسلہ چلا ہو اور اس سے پہلے جاہلیت (کی تاریکی پھیلی ہوئی) نہ ہو ، آپ نے فرمایا : یہ ( ٩٩٩ کی تعداد) عدد انہیں (ادوار) جاہلیت کے افراد سے پوری کی جائے گی۔ یہ تعداد اگر جاہلیت سے پوری نہ ہوئی تو ان کے ساتھ منافقین کو ملا کر پوری کی جائے گی، اور تمہاری اور (پچھلی) امتوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ داغ، نشان، تل جانور کے اگلے پیر میں، یا سیاہ نشان اونٹ کے پہلو (پسلی) میں ہو ٢ ؎ پھر آپ نے فرمایا : مگر مجھے امید ہے کہ جنت میں جانے والوں میں ایک چوتھائی تعداد تم لوگوں کی ہوگی ، یہ سن کر (لوگوں نے خوش ہو کر) نعرہ تکبیر بلند کیا، پھر آپ نے فرمایا : مجھے توقع ہے جنتیوں کی ایک تہائی تعداد تم ہو گے ، لوگوں نے پھر تکبیر بلند کی، آپ نے پھر فرمایا : مجھے امید ہے کہ جنت میں آدھا آدھا تم لوگ ہو گے ، لوگوں نے پھر صدائے تکبیر بلند کی (اس سے آگے) مجھے معلوم نہیں ہے کہ آپ نے دو تہائی بھی فرمایا یا نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث کئی راویوں سے عمران بن حصین کے واسطہ سے رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٧٩٩) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں اور حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز ان کے عمران بن حصین (رض) سے سماع میں سخت اختلاف ہے، لیکن شاہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، نیز یہ حدیث ابو سعید خدری کی روایت سے متفق علیہ ہے) وضاحت : ١ ؎ : لوگو ! اپنے رب سے ڈرو ! بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے ، جس دن تم اسے دیکھو لو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی ، اور تمام حمل والیوں کے حمل گرجائیں گے اور تو دیکھے گا کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے حالانکہ درحقیقت وہ متوالے نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہے ( الحج : ٢) ٢ ؎ : یعنی اگلی امتوں کی تعداد کے مقابل میں تم جنتیوں کی تعداد بہت مختصر یعنی جانور کی اگلی دست میں ایک تل یا اونٹ کے پیٹ میں ایک معمولی نشان کی سی ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد، التعليق الرغيب (4 / 229) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3168

【219】

None

جب آیت «يا أيها الناس اتقوا ربكم إن زلزلة الساعة شيء عظيم» سے قول «ولكن عذاب الله شديد» ۱؎ تک نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سفر میں تھے، آپ نے لوگوں سے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو وہ کون سا دن ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ وہ دن ہے جس دن اللہ آدم ( علیہ السلام ) سے کہے گا «ابعث بعث النار» ”جہنم میں جانے والی جماعت کو چھانٹ کر بھیجو“ آدم علیہ السلام کہیں گے: اے میرے رب «بعث النار» ”کیا ہے ( یعنی کتنے ) ؟“ اللہ فرمائے گا: نو سو ننانوے ( ۹۹۹ ) افراد جہنم میں اور ( ان کے مقابل میں ) ایک شخص جنت میں جائے گا، یہ سن کر مسلمان ( صحابہ ) رونے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی نزدیکی حاصل کرو اور ہر کام صحیح اور درست ڈھنگ سے کرتے رہو، ( اہل جنت میں سے ہو جاؤ گے ) ، کیونکہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نبوت کا سلسلہ چلا ہو اور اس سے پہلے جاہلیت ( کی تاریکی پھیلی ہوئی ) نہ ہو“، آپ نے فرمایا: ”یہ ( ۹۹۹ کی تعداد ) عدد انہیں ( ادوار ) جاہلیت کے افراد سے پوری کی جائے گی۔ یہ تعداد اگر جاہلیت سے پوری نہ ہوئی تو ان کے ساتھ منافقین کو ملا کر پوری کی جائے گی، اور تمہاری اور ( پچھلی ) امتوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ داغ، نشان، تل جانور کے اگلے پیر میں، یا سیاہ نشان اونٹ کے پہلو ( پسلی ) میں ہو“ ۲؎ پھر آپ نے فرمایا: ”مگر مجھے امید ہے کہ جنت میں جانے والوں میں ایک چوتھائی تعداد تم لوگوں کی ہو گی“، یہ سن کر ( لوگوں نے خوش ہو کر ) نعرہ تکبیر بلند کیا، پھر آپ نے فرمایا: ”مجھے توقع ہے جنتیوں کی ایک تہائی تعداد تم ہو گے“، لوگوں نے پھر تکبیر بلند کی، آپ نے پھر فرمایا: ”مجھے امید ہے کہ جنت میں آدھا آدھا تم لوگ ہو گے“، لوگوں نے پھر صدائے تکبیر بلند کی ( اس سے آگے ) مجھے معلوم نہیں ہے کہ آپ نے دو تہائی بھی فرمایا یا نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث کئی راویوں سے عمران بن حصین کے واسطہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔

【220】

سورت حج کی تفسیر

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، اور چلنے میں ایک دوسرے سے آگے پیچھے ہوگئے تھے، آپ نے بآواز بلند یہ دونوں آیتیں : «يا أيها الناس اتقوا ربکم إن زلزلة الساعة شيء عظيم» سے لے کر «عذاب اللہ شديد» تک تلاوت فرمائی، جب صحابہ نے یہ سنا تو اپنی سواریوں کو ابھار کر ان کی رفتار بڑھا دی، اور یہ جان لیا کہ کوئی بات ہے جسے آپ فرمانے والے ہیں، آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو یہ کون سا دن ہے ؟ ، صحابہ نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا : یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) کو پکاریں گے اور وہ اپنے رب کو جواب دیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا : «ابعث بعث النار» بھیجو جہنم میں جانے والی جماعت کو ، آدم (علیہ السلام) کہیں گے : اے ہمارے رب !«بعث النار» کیا ہے (یعنی کتنے) ؟ اللہ کہے گا : ایک ہزار افراد میں سے نو سو ننانوے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا، یہ سن کر لوگ مایوس ہوگئے، ایسا لگا کہ اب یہ زندگی بھر کبھی ہنسیں گے نہیں، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کی یہ (مایوسانہ) کیفیت و گھبراہٹ دیکھی تو فرمایا : اچھے بھلے کام کرو اور خوش ہوجاؤ (اچھے اعمال کے صلے میں جنت پاؤ گے) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! تم ایسی دو مخلوق کے ساتھ ہو کہ وہ جس کے بھی ساتھ ہوجائیں اس کی تعداد بڑھا دیں، ایک یاجوج و ماجوج اور دوسرے وہ جو اولاد آدم اور اولاد ابلیس میں سے (حالت کفر میں) مرچکے ہیں، آپ کی اس بات سے لوگوں کے رنج و فکر کی اس کیفیت میں کچھ کمی آئی جسے لوگ شدت سے محسوس کر رہے تھے اور اپنے دلوں میں موجود پا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا : نیکی کا عمل جاری رکھو، اور ایک دوسرے کو خوشخبری دو ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے ! تم تو لوگوں میں بس ایسے ہو جیسے اونٹ (جیسے بڑے جانور) کے پہلو (پسلی) میں کوئی داغ یا نشان ہو، یا چوپائے کی اگلی دست میں کوئی تل ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی بہت زیادہ گھبرانے کی بات اور ضرورت نہیں ہے ، جب اکثریت انہیں کفار و مشرکین کی ہے تو جہنم میں بھی وہی زیادہ ہوں گے ، ایک آدھ نام نہاد مسلم جائے گا بھی تو اسے اپنی بدعملی کی وجہ سے جانے سے کون روک سکتا ہے ، اور جو نہ جانا چاہے وہ اپنے ایمان و عقیدے کو درست رکھے شرک و بدعات سے دور رہے گا اور نیک و صالح اعمال کرتا رہے ، ایسا شخص ان شاء اللہ ضرور جنت میں جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3169

【221】

سورت حج کی تفسیر

عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خانہ کعبہ کا نام «بيت العتيق» ١ ؎ (آزاد گھر) اس لیے رکھا گیا کہ اس پر کسی جابر و ظالم کا غلبہ و قبضہ نہیں ہوسکا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث زہری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسل طریقہ سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٢٨٤) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن صالح حافظہ کے ضعیف ہیں، اور ان کے مخالف ان سے ثقہ رواة نے اس کو عبد اللہ بن زبیر کا اپنا قول بتایا ہے، دیکھیے اگلی سند) وضاحت : ١ ؎ : مولف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ «وليطوفوا بالبيت العتيق» (الحج : ٢٩) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (3222) // ضعيف الجامع الصغير (2059) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3170 اس سند سے زہری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (3222) // ضعيف الجامع الصغير (2059) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3170

【222】

سورت حج کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ مکہ سے نکالے گئے تو ابوبکر (رض) نے کہا کہ ان لوگوں نے اپنے نبی کو (اپنے وطن سے) نکال دیا ہے، یہ لوگ ضرور ہلاک ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ نے آیت «أذن للذين يقاتلون بأنهم ظلموا وإن اللہ علی نصرهم لقدير» ان لوگوں کو بھی لڑنے کی اجازت دے دی گئی جن سے مظلوم (و کمزور) سمجھ کر جنگ چھیڑ رکھی گئی ہے، اللہ ان (مظلومین) کی مدد پر قادر ہے (الحج : ٣٩) ، نازل فرمائی ابوبکر (رض) نے کہا : (جب یہ آیت نازل ہوئی تو) میں نے یہ سمجھ لیا کہ اب (مسلمانوں اور کافروں میں) لڑائی ہوگی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٥٦١٨) (ضعیف الإسناد) (سند میں سفیان بن وکیع صدوق لیکن ساقط الحدیث راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3171 اس کو عبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہ نے سفیان سے، سفیان نے اعمش سے، اعمش نے مسلم بطین سے مسلم نے سعید بن جبیر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، اس روایت میں ابن عباس (رض) سے روایت کا ذکر نہیں ہے، اسی طرح اور کئی راویوں نے سفیان سے، سفیان نے اعمش سے، اور اعمش نے مسلم بطین کے واسطہ سے، سعید بن جبیر سے مرسلاً روایت کی ہے، اس میں ابن عباس سے روایت کا ذکر نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف) (ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3171

【223】

سورت حج کی تفسیر

سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ جب نبی ﷺ مکہ سے نکالے گئے، ایک آدمی نے کہا : ان لوگوں نے اپنے نبی کو نکال دیا تو اس پر آیت «أذن للذين يقاتلون بأنهم ظلموا وإن اللہ علی نصرهم لقدير الذين أخرجوا من ديارهم بغير حق» ان لوگوں کو بھی لڑنے کی اجازت دے دی گئی جن سے مظلوم (و کمزور) سمجھ کر جنگ چھیڑ رکھی گئی ہے، اللہ ان (مظلومین) کی مدد پر قادر ہے (الحج : ٣٩) ، نازل ہوئی، یعنی نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو ناحق نکال دیا گیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف) (ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3172

【224】

سورہ مومنون کی تفسیر

عبدالرحمٰن بن عبدالقاری کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو کہتے ہوئے سنا۔ نبی اکرم ﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کے منہ کے قریب شہد کی مکھی کے اڑنے کی طرح آواز (بھنبھناہٹ) سنائی پڑتی تھی۔ (ایک دن کا واقعہ ہے) آپ پر وحی نازل ہوئی ہم کچھ دیر (خاموش) ٹھہرے رہے، جب آپ سے نزول وحی کے وقت کی کیفیت (تکلیف) دور ہوئی تو آپ قبلہ رخ ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا فرمائی : «اللهم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تهنا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علينا وارضنا وارض عنا» اے اللہ ! ہم کو زیادہ دے، ہمیں دینے میں کمی نہ کر، ہم کو عزت دے، ہمیں ذلیل و رسوا نہ کر، ہمیں اپنی نعمتوں سے نواز، اپنی نوازشات سے ہمیں محروم نہ رکھ، ہمیں (اوروں) پر فضیلت دے، اور دوسروں کو ہم پر فضیلت و تفوّق نہ دے، اور ہمیں راضی کر دے (اپنی عبادت و بندگی کرنے کے لیے) اور ہم سے راضی و خوش ہوجا پھر آپ نے فرمایا : مجھ پر دس آیتیں نازل ہوئی ہیں جو ان پر عمل کرتا رہے گا، وہ جنت میں جائے گا، پھر آپ نے «قد أفلح المؤمنون» (سورۃ المومنون : ١- ١٠) سے شروع کر کے دس آیتیں مکمل تلاوت فرمائیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ١٠٥٩٣) (ضعیف) (سند میں اضطراب ہے جسے مؤلف نے بیان کردیا ہے) قال الشيخ الألباني : (الحديث الذي في سنده عن يونس بن سليم عن الزهري) ضعيف، (الحديث الذي في سنده عن يونس بن يزيد عن الزهري) ضعيف أيضا (الحديث الذي في سنده عن يونس بن سليم عن الزهري) ، المشکاة (2494 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (1208 و 1343) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3173

【225】

سورہ مومنون کی تفسیر

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ربیع بنت نضر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں، ان کے بیٹے حارث بن سراقہ جنگ بدر میں شہید ہوگئے تھے، انہیں ایک انجانا تیر لگا تھا جس کے بارے میں پتا نہ لگ سکا تھا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : آپ مجھے (میرے بیٹے) حارثہ کے بارے میں بتائیے، اگر وہ خیر پاس کا ہے تو میں ثواب کی امید رکھتی اور صبر کرتی ہوں، اور اگر وہ خیر (بھلائی) کو نہیں پاس کا تو میں (اس کے لیے) اور زیادہ دعائیں کروں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حارثہ کی ماں ! جنت میں بہت ساری جنتیں ہیں، تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں پہنچ چکا ہے اور فردوس جنت کا ایک ٹیلہ ہے، جنت کے بیچ میں ہے اور جنت کی سب سے اچھی جگہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث انس کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٤ (١٨٠٩) ، والمغازي ٩ (٣٩٨٢) ، والرقاق ٥١ (٦٥٥٠، ٦٥٦٧) (تحفة الأشراف : ١٢١٧) ، و مسند احمد (٣/١٢٤، ٢١٠، ٢١٥، ٢٦٤، ٣٧٢، ٣٨٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ارشاد باری تعالیٰ «الذين يرثون الفردوس» (المومنون : ١١) کی تفسیر میں مؤلف نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1811 و 2003) ، مختصر العلو (76) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3174

【226】

سورہ مومنون کی تفسیر

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت «والذين يؤتون ما آتوا وقلوبهم وجلة» جو لوگ اللہ کے لیے دیتے ہیں، جو دیتے ہیں اور ان کے دل خوف کھا رہے ہوتے ہیں (کہ قبول ہوگا یا نہیں) (المؤمنون : ٦٠) ، کا مطلب پوچھا : کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں، اور چوری کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، صدیق کی صاحبزادی ! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، صدقے دیتے ہیں، اس کے باوجود ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ان کی یہ نیکیاں قبول نہ ہوں، یہی ہیں وہ لوگ جو خیرات (بھلے کاموں) میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہی لوگ بھلائیوں میں سبقت لے جانے والے لوگ ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : عبدالرحمٰن بن سعید نے بھی اس حدیث کو ابوحازم سے، ابوحازم نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٠ (٤١٩٨) (تحفة الأشراف : ١٦٣٠١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4198) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3175

【227】

سورہ مومنون کی تفسیر

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت : «وهم فيها کالحون» اور وہ اس میں ڈراونی شکل والے ہوں گے (المومنون : ١٠٤) ، کے سلسلے سے فرمایا : جہنم ان کے منہ کو جھلسا دے گی، جس سے اوپر کا ہونٹ سکڑ کر آدھے سر تک پہنچ جائے گا اور نچلا ہونٹ لٹک کر ناف سے ٹکرانے لگے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٠٦١) (ضعیف) (سند میں ابوالسمح دراج ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف وهو مکرر الحديث (2713) // (483 - 2726) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3176

【228】

سورہ نور کی تفسیر

عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ مرثد بن مرثد نامی صحابی وہ ایسے (جی دار و بہادر) شخص تھے جو (مسلمان) قیدیوں کو مکہ سے نکال کر مدینہ لے آیا کرتے تھے، اور مکہ میں عناق نامی ایک زانیہ، بدکار عورت تھی، وہ عورت اس صحابی کی (ان کے اسلام لانے سے پہلے کی) دوست تھی، انہوں نے مکہ کے قیدیوں میں سے ایک قیدی شخص سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ اسے قید سے نکال کرلے جائیں گے، کہتے ہیں کہ میں (اسے قید سے نکال کر مدینہ لے جانے کے لیے) آگیا، میں ایک چاندنی رات میں مکہ کی دیواروں میں سے ایک دیوار کے سایہ میں جا کر کھڑا ہوا ہی تھا کہ عناق آ گئی۔ دیوار کے اوٹ میں میری سیاہ پرچھائیں اس نے دیکھ لی، جب میرے قریب پہنچی تو مجھے پہچان کر پوچھا : مرثد ہونا ؟ میں نے کہا : ہاں، مرثد ہوں، اس نے خوش آمدید کہا، (اور کہا :) آؤ، رات ہمارے پاس گزارو، میں نے کہا : عناق ! اللہ نے زنا کو حرام قرار دیا ہے، اس نے شور مچا دیا، اے خیمہ والو (دوڑو) یہ شخص تمہارے قیدیوں کو اٹھائے لیے جا رہا ہے، پھر میرے پیچھے آٹھ آدمی دوڑ پڑے، میں خندمہ (نامی پہاڑ) کی طرف بھاگا اور ایک غار یا کھوہ کے پاس پہنچ کر اس میں گھس کر چھپ گیا، وہ لوگ بھی اوپر چڑھ آئے اور میرے سر کے قریب ہی کھڑے ہو کر۔ انہوں نے پیشاب کیا تو ان کے پیشاب کی بوندیں ہمارے سر پر ٹپکیں، لیکن اللہ نے انہیں اندھا بنادیا، وہ ہمیں نہ دیکھ سکے، وہ لوٹے تو میں بھی لوٹ کر اپنے ساتھی کے پاس (جسے اٹھا کر مجھے لے جانا تھا) آگیا، وہ بھاری بھر کم آدمی تھے، میں نے انہیں اٹھا کر (پیٹھ پر) لاد لیا، اذخر (کی جھاڑیوں میں) پہنچ کر میں نے ان کی بیڑیاں توڑ ڈالیں اور پھر اٹھا کر چل پڑا، کبھی کبھی اس نے بھی میری مدد کی (وہ بھی بیڑیاں لے کر چلتا) اس طرح میں مدینہ آگیا۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کر میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں عناق سے شادی کرلوں ؟ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ خاموش رہے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، پھر یہ آیت «الزاني لا ينكح إلا زانية أو مشرکة والزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرک وحرم ذلک علی المؤمنين» زانی زانیہ یا مشرکہ ہی سے نکاح کرے اور زانیہ سے زانی یا مشرک ہی نکاح کرے، مسلمانوں پر یہ نکاح حرام ہے (النور : ٣) ، نازل ہوئی آپ نے (اس آیت کے نزول کے بعد مرثد بن ابی مرثد سے) فرمایا : اس سے نکاح نہ کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٥ (٢٠٥١) ، سنن النسائی/النکاح ١٢ (٣٢٢٨) (تحفة الأشراف : ٨٧٥٣) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3177

【229】

سورہ نور کی تفسیر

سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ مصعب بن زبیر (رض) کی امارت کے زمانے میں مجھ سے پوچھا گیا : کیا لعان کرنے والے مرد اور عورت کے درمیان جدائی کردی جائے گی ؟ میری سمجھ میں نہ آیا کہ میں کیا جواب دوں میں اپنی جگہ سے اٹھ کر عبداللہ بن عمر (رض) کے گھر آگیا، ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی، مجھ سے کہا گیا کہ وہ قیلولہ فرما رہے ہیں، مگر انہوں نے میری بات چیت سن لی۔ اور مجھے (پکار کر) کہا : ابن جبیر ! اندر آ جاؤ، تم کسی (دینی) ضرورت ہی سے آئے ہو گے، میں اندر داخل ہوا، دیکھتا ہوں کہ وہ اپنے کجاوے کے نیچے ڈالنے والا کمبل بچھائے ہوئے ہیں، میں نے کہا : ابوعبدالرحمٰن ! کیا دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی ؟ انہوں نے کہا : سبحان اللہ ! پاک اور برتر ذات ہے اللہ کی، ہاں، (سنو) سب سے پہلا شخص جس نے اس بارے میں مسئلہ پوچھا وہ فلاں بن فلاں تھے، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، کہا : اللہ کے رسول ! بتائیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری میں مبتلا یعنی زناکاری کرتے ہوئے دیکھے تو کیا کرے ؟ اگر بولتا ہے تو بڑی بات کہتا ہے اور اگر چپ رہتا ہے تو بڑی بات پر چپ رہتا ہے، آپ یہ سن کر چپ رہے اور انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر جب اس کے بعد ایسا واقعہ پیش ہی آگیا تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا : میں نے آپ سے جو بات پوچھی تھی، اس سے میں خود دوچار ہوگیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورة النور کی آیات «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» ١ ؎ سے ختم آیات تک «والخامسة أن غضب اللہ عليها إن کان من الصادقين» نازل فرمائیں، ابن عمر (رض) کہتے ہیں : پھر آپ ﷺ نے اس شخص کو بلایا اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں اور اسے نصیحت کیا، اسے سمجھایا بجھایا، اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے، اس نے کہا : نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ! میں نے اس عورت پر جھوٹا الزام نہیں لگایا ہے، پھر آپ عورت کی طرف متوجہ ہوئے، اسے بھی وعظ و نصیحت کی، سمجھایا بجھایا، اسے بھی بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابل میں ہلکا اور آسان ہے ٢ ؎، اس نے کہا : نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ! اس نے سچ نہیں کہا ہے، پھر آپ نے لعان کی شروعات مرد سے کی، مرد نے چار بار گواہیاں دی کہ اللہ گواہ ہے کہ وہ سچا ہے، پانچویں بار میں کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو، پھر آپ عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور اس نے بھی اللہ کی چار گواہیاں دیں، اللہ گواہ ہے کہ اس کا شوہر جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار کہا : اللہ کا غضب ہو اس پر اگر اس کا شوہر سچوں میں سے ہو، اس کے بعد آپ نے ان دونوں کے درمیان تفریق کردی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سہل بن سعد (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٢٠٢ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کا کوئی گواہ بجز خود ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں اور پانچویں مرتبہ کہیں کہ اس پر اللہ کی تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو ، اور اس عورت سے سزا اس طرح دور ہوسکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یقیناً اس کا مرد جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے اور پانچویں دفعہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہو اگر اس کا خاوند سچوں میں سے ہو ( النور : ٦-٩) ۔ ٢ ؎ : اگر گناہ سرزد ہوا ہے تو اسے قبول کرلو اور متعینہ سزا جھیل جاؤ ورنہ آخرت کا عذاب تو بہت بھاری اور سخت ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3178

【230】

سورہ نور کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تو آپ ﷺ نے فرمایا : گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہوگی، ہلال نے کہا : جب ہم میں سے کوئی کسی شخص کو اپنی بیوی سے ہمبستری کرتا ہوا دیکھے گا تو کیا وہ گواہ ڈھونڈتا پھرے گا ؟ رسول اللہ ﷺ کہتے رہے کہ تم گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہوگی۔ ہلال نے کہا : قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں سچا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس معاملے میں کوئی ایسی چیز ضرور نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو حد سے بچا دے گی، پھر (اسی موقع پر) آیت «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» سے «والخامسة أن غضب اللہ عليها إن کان من الصادقين» تک نازل ہوئی آپ نے اس کی تلاوت فرمائی، جب آپ پڑھ کر فارغ ہوئے تو ان دونوں کو بلا بھیجا، وہ دونوں آئے، پھر ہلال بن امیہ کھڑے ہوئے اور گواہیاں دیں، نبی اکرم ﷺ انہیں سمجھانے لگے : اللہ کو معلوم ہے کہ تم دونوں میں سے کوئی ایک جھوٹا ہے تو کیا تم میں سے کوئی ہے جو توبہ کرلے ؟ پھر عورت کھڑی ہوئی، اور اس نے بھی گواہی دی، پھر جب پانچویں گواہی اللہ کی اس پر لعنت ہو اگر وہ سچا ہو دینے کی باری آئی، تو لوگوں نے اس سے کہا : یہ گواہی اللہ کے غضب کو واجب کر دے گی ابن عباس (رض) کہتے ہیں : (لوگوں کی بات سن کر) وہ ٹھٹ کی اور ذلت و شرمندگی سے سر جھکا لیا، ہم سب نے گمان کیا کہ شاید وہ (اپنی پانچویں گواہی) سے پھر جائے گی، مگر اس نے کہا : میں اپنی قوم کو ہمیشہ کے لیے ذلیل و رسوا نہ کروں گی، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس عورت کو دیکھتے رہو اگر وہ کالی آنکھوں والا موٹے چوتڑ والا اور بھری رانوں والا بچہ جنے تو سمجھ لو کہ دہ شریک بن سحماء کا ہے، تو اس نے ایسا ہی بچہ جنا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر کتاب اللہ (قرآن) سے اس کا فیصلہ (لعان کا) نہ آچکا ہوتا تو ہماری اور اس کی ایک عجیب ہی شان ہوتی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے ہشام بن حسان کی روایت سے حسن غریب ہے، ٢- اس حدیث کو عباد بن منصور نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے ابن عباس (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، ٣- ایوب نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کی ہے اور اس روایت میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة النور ٢ (٤٧٤٦) ، والطلاق ٢٩ (٥٣٠٨) ، سنن ابی داود/ الطلاق ٢٧ (٢٢٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٧ (٢٠٦٧) (تحفة الأشراف : ٦٢٢٥) ، و مسند احمد (١/٢٧٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی میں اس پر حد جاری کر کے ہی رہتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2067) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3179

【231】

سورہ نور کی تفسیر

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب میرے بارے میں افواہیں پھیلائی جانے لگیں جو پھیلائی گئیں، میں ان سے بیخبر تھی، رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور میرے تعلق سے ایک خطبہ دیا، آپ نے شہادتین پڑھیں، اللہ کے شایان شان تعریف و ثنا کی، اور حمد و صلاۃ کے بعد فرمایا : لوگو ! ہمیں ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری گھر والی پر تہمت لگائی ہے، قسم اللہ کی ! میں نے اپنی بیوی میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی، انہوں نے میری بیوی کو اس شخص کے ساتھ متہم کیا ہے جس کے بارے میں اللہ کی قسم ! میں نے کبھی کوئی برائی نہیں جانی، وہ میرے گھر میں کبھی بھی میری غیر موجودگی میں داخل نہیں ہوا، وہ جب بھی میرے گھر میں آیا ہے میں موجود رہا ہوں، اور جب بھی میں گھر سے غائب ہوا، سفر میں رہا وہ بھی میرے ساتھ گھر سے دور سفر میں رہا ہے ، (یہ سن کر) سعد بن معاذ (رض) نے کھڑے ہو کر، عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجئیے میں ان کی گردنیں اڑا دوں، (یہ سن کر) خزرج قبیلے کا ایک اور شخص جس کے قبیلے سے حسان بن ثابت کی ماں تھیں کھڑا ہوا اس نے (سعد بن معاذ سے مخاطب ہو کر) کہا : آپ جھوٹ اور غلط بات کہہ رہے ہیں، سنئیے، اللہ کی قسم ! اگر یہ (تہمت لگانے والے آپ کے قبیلے) اوس کے ہوتے تو یہ پسند نہ کرتے کہ آپ ان کی گردنیں اڑا دیں، یہ بحث و تکرار اتنی بڑھی کہ اوس و خزرج کے درمیان مسجد ہی میں فساد عظیم برپا ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا، (عائشہ (رض) کہتی ہیں) مجھے اس کی بھی خبر نہ ہوئی، جب اس دن کی شام ہوئی تو میں اپنی (قضائے حاجت کی) ضرورت سے گھر سے باہر نکلی، میرے ساتھ مسطح کی ماں بھی تھیں، وہ (راستہ میں) ٹھوکر کھائی تو کہہ اٹھیں : مسطح تباہ برباد ہو ! میں نے ان سے کہا : آپ کیسی ماں ہیں بیٹے کو گالی دیتی ہیں ؟ تو وہ چپ رہیں، پھر دوبارہ ٹھوکر کھائی تو پھر وہی لفظ دہرایا، مسطح ہلاک ہو، میں نے پھر (ٹوکا) میں نے کہا : آپ کیسی ماں ہیں ؟ اپنے بیٹے کو گالی (بد دعا) دیتی ہیں ؟ وہ پھر خاموش رہیں، پھر جب تیسری بار ٹھوکر کھائی تو پھر یہی لفظ دہرایا تو میں نے ڈانٹا (اور جھڑک دیا) کیسی (خراب) ماں ہیں آپ ؟ اپنے ہی بیٹے کو برا بھلا کہہ رہی ہیں، وہ بولیں : (بیٹی) قسم اللہ کی میں اسے صرف تیرے معاملے میں برا بھلا کہہ رہی ہوں، میں نے پوچھا : میرے کس معاملے میں ؟ تب انہوں نے مجھے ساری باتیں کھول کھول کر بتائیں، میں نے ان سے پوچھا : کیا ایسا ہوا ؟ (یہ ساری باتیں پھیل گئیں ؟ ) انہوں نے کہا : ہاں، قسم اللہ کی ! یہ سن کر میں گھر لوٹ آئی، تو ان میں جس کام کے لیے نکلی تھی، نکلی ہی نہیں، مجھے اس قضائے حاجت کی تھوڑی یا زیادہ کچھ بھی ضرورت محسوس نہ ہوئی، (بلکہ) مجھے تیز بخار چڑھ آیا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : مجھے میرے ابا کے گھر بھیج دیجئیے، رسول اللہ ﷺ نے میرے ساتھ ایک لڑکا کردیا، (اور میں اپنے ابا کے گھر آ گئی) میں گھر میں داخل ہوئی تو (اپنی ماں) ام رومان کو نیچے پایا اور (اپنے ابا) ابوبکر کو گھر کے اوپر پڑھتے ہوئے پایا، میری ماں نے کہا : بیٹی ! کیسے آئیں ؟ عائشہ (رض) کہتی ہیں : میں نے انہیں بتادیا اور انہیں ساری باتیں (اور سارا قصہ) سنا دیا، مگر انہیں یہ باتیں سن کر وہ اذیت نہ پہنچی جو مجھے پہنچی، انہوں نے کہا : بیٹی ! اپنے آپ کو سنبھالو، کیونکہ اللہ کی قسم ! بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی مرد کی کوئی حسین و جمیل عورت ہو جس سے وہ مرد (بےانتہا) محبت کرتا ہو، اس سے اس کی سوکنیں حسد نہ کرتی (اور جلن نہ رکھتی) ہوں اور اس کے بارے میں لگائی بجھائی نہ کرتی ہوں، غرضیکہ انہیں اتنا صدمہ نہ پہنچا جتنا مجھے پہنچا، میں نے پوچھا : کیا میرے ابو جان کو بھی یہ بات معلوم ہوچکی ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، میں نے (پھر) پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ بھی ان باتوں سے واقف ہوچکے ہیں ؟ انہوں نے کہا : ہاں، (یہ سن کر) میں غم سے نڈھال ہوگئی اور رو پڑی، ابوبکر (رض) چھت پر قرآن پڑھ رہے تھے، میرے رونے کی آواز سن کر نیچے اتر آئے، میری ماں سے پوچھا، اسے کیا ہوا ؟ (یہ کیوں رو رہی ہے ؟ ) انہوں نے کہا : اس کے متعلق جو باتیں کہی گئیں (اور افواہیں پھیلائی گئی ہیں) وہ اسے بھی معلوم ہوگئی ہیں، (یہ سن کر) ان کی بھی آنکھیں بہہ پڑیں، (مگر) انہوں نے کہا : اے میری (لاڈلی) بیٹی ! میں تمہیں قسم دلا کر کہتا ہوں تو اپنے گھر لوٹ جا، میں اپنے گھر واپس ہوگئی، رسول اللہ ﷺ میرے گھر تشریف لائے اور میری لونڈی (بریرہ) سے میرے متعلق پوچھ تاچھ کی، اس نے کہا : نہیں، قسم اللہ کی ! میں ان میں کوئی عیب نہیں جانتی، ہاں، بس یہ بات ہے کہ (کام کرتے کرتے تھک کر) سو جاتی ہیں اور بکری آ کر گندھا ہوا آٹا کھا جاتی ہے، بعض صحابہ نے اسے ڈانٹا، (باتیں نہ بنا) رسول اللہ ﷺ کو سچ سچ بتا (اس سے اس پوچھ تاچھ میں) وہ (اپنے مقام و مرتبہ سے) نیچے اتر آئے، اس نے کہا : سبحان اللہ ! پاک و برتر ہے اللہ کی ذات، قسم اللہ کی ! میں انہیں بس ایسی ہی جانتی ہوں جیسے سنار سرخ سونے کے ڈلے کو جانتا پہچانتا ہے، پھر اس معاملے کی خبر اس شخص کو بھی ہوگئی جس پر تہمت لگائی گئی تھی۔ اس نے کہا : سبحان اللہ ! قسم اللہ کی، میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کا سینہ اور پہلو نہیں کھولا ہے ١ ؎، عائشہ (رض) کہتی ہیں : وہ اللہ کی راہ میں شہید ہو کر مرے، میرے ماں باپ صبح ہی میرے پاس آ گئے اور ہمارے ہی پاس رہے۔ عصر پڑھ کر رسول اللہ ﷺ ہمارے یہاں تشریف لے آئے، اور ہمارے پاس پہنچے، میرے ماں باپ ہمارے دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے شہادتین پڑھی، اللہ کی شایان شان حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا : حمد و صلاۃ کے بعد : عائشہ ! اگر تو برائی کی مرتکب ہوگئی یا اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھی ہے تو اللہ سے توبہ کر، اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے ، اسی دوران انصار کی ایک عورت آ کر دروازے میں بیٹھ گئی تھی، میں نے عرض کیا : اس عورت کے سامنے (اس طرح کی) کوئی بات کرتے ہوئے کیا آپ کو شرم محسوس نہیں ہوئی ؟ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نصیحت فرمائی، میں اپنے باپ کی طرف متوجہ ہوئی، ان سے کہا : آپ رسول اللہ ﷺ کی بات کا جواب دیں، انہوں نے کہا : میں کیا جواب دوں ؟ میں اپنی ماں کی طرف پلٹی، میں نے ان سے کہا : رسول اللہ ﷺ نے جو بات کہی ہے اس بارے میں (میری طرف سے) صفائی دیجئیے، انہوں نے کہا : کیا کہوں میں ؟ جب میرے ماں باپ نے کچھ جواب نہ دیا، تو میں نے کلمہ شہادت ادا کیا، اللہ کے شایان شان اس کی حمد و ثنا بیان کی، پھر میں نے کہا : سنئیے، قسم اللہ کی ! اگر میں آپ لوگوں سے کہتی ہوں کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اللہ گواہ ہے کہ میں سچی (بےگناہ) ہوں تب بھی مجھے آپ کے سامنے اس سے فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ ہی یہ بات کہنے والے ہیں اور آپ کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے اور اگر میں یہ کہہ دوں کہ میں نے ایسا کیا ہے اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں نے نہیں کیا، تو آپ ضرور کہیں گے کہ اس نے تو اعتراف جرم کرلیا ہے، اور میں قسم اللہ کی ! اپنے اور آپ کے لیے اس سے زیادہ مناسب حال کوئی مثال نہیں پاتی (میں نے مثال دینے کے لیے) یعقوب (علیہ السلام) کا نام ڈھونڈا اور یاد کیا، مگر میں اس پر قادر نہ ہوسکی، (مجھے ان کا نام یاد نہ آسکا تو میں نے ابویوسف کہہ دیا) مگر یوسف (علیہ السلام) کے باپ کی مثال جب کہ انہوں نے «فصبر جميل والله المستعان علی ما تصفون» کہا ٢ ؎۔ اسی وقت رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہونے لگی تو ہم سب خاموش ہوگئے، پھر آپ پر سے وحی کے آثار ختم ہوئے تو میں نے آپ کے چہرے سے خوشی پھوٹتی ہوئی دیکھی، آپ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے فرمانے لگے : اے عائشہ ! خوش ہوجاؤ اللہ نے تمہاری براۃ میں آیت نازل فرما دی ہے ، مجھے اس وقت سخت غصہ آیا جب میرے ماں باپ نے مجھ سے کہا : کھڑی ہو کر آپ کا شکریہ ادا کر، میں نے کہا : نہیں، قسم اللہ کی ! میں آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کھڑی نہ ہوں گی، نہ میں ان کی تعریف کروں گی اور نہ آپ دونوں کی، نہ میں ان کی احسان مند ہوں گی اور نہ آپ دونوں کا بلکہ میں اس اللہ کا احسان مند اور شکر گزار ہوں گی جس نے میری براۃ میں آیت نازل فرمائی، آپ لوگوں نے تو میری غیبت و تہمت سنی، لیکن اس پر تردید و انکار نہ کیا، اور نہ اسے روک دینے اور بدل دینے کی کوشش کی، عائشہ (رض) کہا کرتی تھیں : رہی زینب بن حجش تو اللہ نے انہیں ان کی نیکی و دینداری کی وجہ سے بچا لیا، انہوں نے اس قضیہ میں جب بھی کہا، اچھی و بھلی بات ہی کہی، البتہ ان کی بہن حمنہ (شریک بہتان ہو کر) ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوگئی، اور جو لوگ اس بہتان بازی اور پروپیگنڈے میں لگے ہوئے تھے وہ مسطح، حسان بن ثابت اور منافق عبداللہ بن ابی بن سلول تھے، اور یہی منافق (فتنہ پردازوں کا سردار و سرغنہ) ہی اس معاملہ میں اپنی سیاست چلاتا اور اپنے ہم خیال لوگوں کو یکجا رکھتا تھا، یہی وہ شخص تھا اور اس کے ساتھ حمنہ بھی تھی، جو اس فتنہ انگیزی میں پیش پیش تھی، ابوبکر (رض) نے قسم کھالی کہ اب وہ (اس احسان فراموش و بدگو) مسطح کو کبھی کوئی فائدہ نہ پہنچائیں گے، اس پر آیت «ولا يأتل أولوا الفضل منکم والسعة» ٣ ؎ نازل ہوئی، اس سے یہاں مراد ابوبکر ہیں، «أن يؤتوا أولي القربی والمساکين والمهاجرين في سبيل الله» ٤ ؎ اس سے اشارہ مسطح کی طرف ہے۔ «ألا تحبون أن يغفر اللہ لکم والله غفور رحيم» ٥ ؎ (یہ آیت سن کر) ابوبکر (رض) نے کہا : کیوں نہیں، قسم اللہ کی ! ہمارے رب ! ہم پسند کرتے ہیں کہ تو ہمیں بخش دے، پھر مسطح کو دینے لگے جو پہلے دیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث ہشام بن عروہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- اس حدیث کو یونس بن یزید، معمر اور کئی دوسرے لوگوں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص لیثی اور عبیداللہ بن عبداللہ سے اور ان سبھوں نے عائشہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث ہشام بن عروہ کی حدیث سے لمبی بھی ہے اور مکمل بھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة النور ٦ (٤٧٥٠) و ١١ (٤٧٥٧) (تعلیقا) ، والإعتصام ٢٩ (تعلیقا) صحیح مسلم/التوبة ١٠ (٢٧٧٠/٥٨) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٥٦ (٥٢١٩) (تحفة الأشراف : ١٦٧٩٨) ، و مسند احمد (٦/٥٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : میں نے کبھی کسی عورت کا آنچل تک نہیں سرکایا ہے چہ جائے گی میں ایسی گستاخی اور جسارت کروں۔ ٢ ؎ : صبر ہی بہتر ہے اور جو تم کہتے ، بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی معاون و مددگار ہے ۔ ٣ ؎ : اصحاب فضل اور فراخی والے قسم نہ کھائیں ( النور : ٢٢) ۔ ٤ ؎ : رشتہ والوں ، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیں گے ( النور : ٢٢) ۔ ٥ ؎ : کیا تمہیں پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہیں بخش دے ، اللہ بخشنے والا مہربان ہے ( النور : ٢٢) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3180

【232】

سورہ نور کی تفسیر

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب میری صفائی و پاکدامنی کی آیت نازل ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور اس کا ذکر کیا، قرآن کی تلاوت کی، اور منبر سے اترنے کے بعد دو مردوں اور ایک عورت پر حد (قذف) جاری کرنے کا حکم فرمایا۔ چناچہ ان سب پر حد جاری کردی گئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے محمد بن اسحاق کی روایت کے سوا اور کسی طریقے سے نہیں جانتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحدود ٣٥ (٤٤٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١٥ (٢٥٦٧) (تحفة الأشراف : ١٧٨٩٨) ، و مسند احمد (٦/٣٥) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2567) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3181

【233】

سورہ فرقان کی تفسیر

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم اللہ کا کسی کو شریک ٹھہراؤ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ صرف اسی ایک ذات نے تمہیں پیدا کیا ہے (اس کا کوئی شریک نہیں ہے) ۔ میں نے کہا : پھر کون سا گناہ بہت بڑا ہے ؟ فرمایا : یہ ہے کہ تم اپنے بیٹے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھائے گا ، میں نے کہا : پھر کون سا گناہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر البقرة ٣ (٤٤٧٧) ، والأدب ٢٠ (٤٧٦١) ، والحدود ٢٠ (٦٨١١) ، والدیات ٢ (٦٨٦١) ، والتوحید ٤٠ (٧٥٢٠) ، و ٤٦ (٧٥٣٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٧ (٨٦) (الطلاق ٥٠ (٢٣١٠) (تحفة الأشراف : ٩٤٨٠) ، و مسند احمد (١/٣٨٠، ٤٧١، ٤٢٤، ٤٦٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مؤلف نے اس حدیث کو ارشاد باری تعالیٰ : «والذين لا يدعون مع اللہ إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم اللہ إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلک يلق أثاما» (الفرقان : ٦٨) کی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2337) ، صحيح أبي داود (2000) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3182

【234】

سورہ فرقان کی تفسیر

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : کون سا گناہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا : بڑا گناہ یہ ہے کہ تم کسی کو اللہ کا شریک ٹھہراؤ، جب کہ اسی نے تم کو پیدا کیا ہے، اور تم اپنے بیٹے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ رہے گا تو تمہارے ساتھ کھائے پیئے گا، یا تمہارے کھانے میں سے کھائے گا، اور تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرو، اور آپ نے یہ آیت پڑھی «والذين لا يدعون مع اللہ إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم اللہ إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلک يلق أثاما يضاعف له العذاب يوم القيامة ويخلد فيه مهانا» اللہ کے بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود جان کر نہیں پکارتے، اور کسی جان کو جس کا قتل اللہ نے حرام کردیا ہے، ناحق (یعنی بغیر قصاص وغیرہ) قتل نہیں کرتے، اور زنا نہیں کرتے، اور جو ایسا کچھ کرے گا وہ اپنے گناہوں کی سزا سے دوچار ہوگا، قیامت کے دن عذاب دوچند ہوجائے گا اور اس میں ہمیشہ ذلیل و رسوا ہو کر رہے گا (الفرقان : ٦ ٨- ٦٩) ،۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سفیان کی وہ روایت جسے انہوں نے منصور اور اعمش سے روایت کی ہے، واصل کی روایت کے مقابلہ میں زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ انہوں نے اس حدیث کی سند میں ایک راوی (عمرو بن شرحبیل) کا اضافہ کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ٩٣١١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ سفیان کی صرف واصل سے روایت ( رقم : ٣١٨٢) میں بھی سند میں عمرو بن شرحبیل کا اضافہ ہے ، دراصل سفیان کی دونوں روایتوں میں یہ اضافہ موجود ہے ، شعبہ کی دونوں روایتوں میں یہ اضافہ نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2337) ، صحيح أبي داود (2000) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3183 اس سند سے شعبہ نے واصل سے، واصل نے ابو وائل سے اور ابو وائل عبداللہ بن مسعود کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، ٣- اسی طرح شعبہ نے واصل سے واصل نے ابو وائل سے اور ابو وائل نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے اور انہوں نے اس میں عمرو بن شرحبیل کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2337) ، صحيح أبي داود (2000) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3183

【235】

تفسیر سورت شعرائ

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب یہ آیت «وأنذر عشيرتک الأقربين» اے نبی ! اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ (الشعراء : ٢١٤) ، نازل ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے صفیہ بنت عبدالمطلب، اے فاطمہ بنت محمد، اے بنی عبدالمطلب : سن لو میں اللہ سے متعلق معاملات میں تمہاری کچھ بھی حمایت، مدد و سفارش نہیں کرسکتا، ہاں (اس دنیا میں) میرے مال میں سے جو چاہو مانگ سکتے ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسی طرح روایت کی ہے وکیع اور کئی راویوں نے ہشام بن عروہ سے، ہشام نے اپنے باپ سے اور عروہ نے عائشہ سے محمد بن عبدالرحمٰن طفاوی کی حدیث کی مانند، ٣- اور بعض راویوں نے ہشام بن عروہ سے، ہشام نے اپنے باپ عروہ سے اور عروہ نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے اور اس سند میں عائشہ (رض) کا ذکر نہیں کیا، ٤- اس باب میں علی اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٣١٠ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وهو مکرر الحديث (2412) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3184

【236】

تفسیر سورت شعرائ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت «وأنذر عشيرتک الأقربين» اے نبی ! اپنے قرابت داروں کو ڈرایئے نازل ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے خاص و عام سبھی قریش کو اکٹھا کیا ١ ؎، آپ نے انہیں مخاطب کر کے کہا : اے قریش کے لوگو ! اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو، اس لیے کہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کوئی نقصان یا کوئی نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے بنی عبد مناف کے لوگو ! اپنے آپ کو جہنم سے بچا لو، کیونکہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کسی طرح کا نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، اے بنی قصی کے لوگو ! اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو۔ کیونکہ میں تمہیں کوئی نقصان یا فائدہ پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے بنی عبدالمطلب کے لوگو ! اپنے آپ کو آگ سے بچا لو، کیونکہ میں تمہیں کسی طرح کا ضرر یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، اے فاطمہ بنت محمد ! اپنی جان کو جہنم کی آگ سے بچا لے، کیونکہ میں تجھے کوئی نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، تم سے میرا رحم (خون) کا رشتہ ہے سو میں احساس کو تازہ رکھوں گا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : موسیٰ بن طلحہ کی روایت سے یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١١ (٢٧٥٣) والمناق ١٣ (٣٥٢٧) ، وتفسیر سورة الشعراء ٢ (٤٧٧١) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨٩ (٢٠٤) ، سنن النسائی/الوصایا ٦ (٣٦٧ ¤ ٤- ٣٦٧٧) (تحفة الأشراف : ١٤٦٢٣) ، و مسند احمد (٢/٣٣٣، ٣٦٠، ٥١٩) ، سنن الدارمی/الرقاق ٢٣ (٢٧٧٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ دوسری عام مجلس ہوگی ، اور پہلی مجلس خاص اہل خاندان کے ساتھ ہوئی ہوگی ؟۔ ٢ ؎ : یعنی اس کا حق ( اس دنیا میں ) ادا کروں گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3185 اس سند سے موسیٰ بن طلحہ سے اور موسیٰ بن طلحہ نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی کی ہم معنی حدیث روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3185

【237】

تفسیر سورت شعرائ

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت : «وأنذر عشيرتک الأقربين» نازل ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے اپنی انگلیاں کانوں میں (اذان کی طرح) ڈال کر بلند آواز سے پکار کہا : یا بنی عبد مناف ! یا صباحاہ ! اے عبد مناف کے لوگو ! جمع ہوجاؤ (اور سنو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرو) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢- بعض نے اس حدیث کو عوف سے، اور عوف نے قسامہ بن زہیر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے اور انہوں نے اس میں ابوموسیٰ (اشعری) سے روایت کا ذکر نہیں کیا اور یہی زیادہ صحیح ہے، ٣- میں نے اس کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے مذاکرہ کیا تو انہوں نے ابوموسیٰ اشعری کے واسطہ سے اس حدیث کی معرفت سے اپنی لاعلمی ظاہر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٠٢٦) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3186

【238】

تفسیر سورت نمل

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (قیامت کے قریب زمین سے) ایک جانور نکلے گا جس کے پاس سلیمان (علیہ السلام) کی انگوٹھی (مہر) اور موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا ہوگا، وہ اس عصا سے (لکیر کھینچ کر) مومن کے چہرے کو روشن و نمایاں کر دے گا، اور انگوٹھی کے ذریعہ کافر کی ناک پر مہر لگا دے گا یہاں تک کہ دستر خوان والے جب دستر خوان پر اکٹھے ہوں گے تو یہ کہے گا : اے مومن اور وہ کہے گا : اے کافر ! ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- «دابة الأرض» کے سلسلے میں اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی یہ حدیث ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے جسے وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں، ٣- اس باب میں ابوامامہ اور حذیفہ بن اسید سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٣١ (٤٠٦٦) (تحفة الأشراف : ١٢٢٠٢) ، و مسند احمد (٢/٢٩٥، ٤٩١) (ضعیف) (سند میں ” علی بن زید بن جدعان “ ضعیف، اور ” اوس بن خالد “ مجہول ہے) وضاحت : ١ ؎ : مولف اس حدیث کو ارشاد باری «وألق عصاک» (النمل : ١٠) کی تفسیر ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1108) // ضعيف الجامع الصغير (2413) ، ضعيف ابن ماجة (881 / 4066) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3187

【239】

تفسیر سورت القصص

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا (ابوطالب) سے کہا : آپ «لا إله إلا الله» کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اللہ کے کہہ دیجئیے میں آپ کے ایمان کی قیامت کے روز گواہی دوں گا، انہوں نے کہا : اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ قریش مجھے طعنہ دیں گے کہ موت کی گھبراہٹ سے اس نے ایمان قبول کرلیا ہے تو میں تمہارے سامنے ہی اس کلمے کا اقرار کرلیتا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت یہ نازل فرمائی : «إنک لا تهدي من أحببت ولکن اللہ يهدي من يشاء» آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے (القصص : ٥٦) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف یزید بن کیسان کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٩ (٢٥) (تحفة الأشراف : ١٣٤٤٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3188

【240】

تفسیر سورت عنکبوت

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ میرے تعلق سے چار آیتیں نازل ہوئی ہیں، پھر انہوں نے ایک واقعہ وقصہ بیان کیا، ام سعد (رض) نے کہا : کیا اللہ نے احسان کا حکم نہیں دیا ہے ؟ ١ ؎ قسم اللہ کی ! نہ میں کھانا کھاؤں گی نہ کچھ پیوں گی یہاں تک کہ مرجاؤں یا پھر تم (اپنے ایمان سے) پھر جاؤ۔ (سعد) کہتے ہیں : جب لوگ اسے کھلانے کا ارادہ کرتے تو لکڑی ڈال کر اس کا منہ کھولتے، اسی موقع پر آیت «ووصينا الإنسان بوالديه حسنا وإن جاهداک لتشرک بي» ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ احسان (و حسن سلوک) کا حکم دیا لیکن اگر وہ چاہیں کہ تم میرے ساتھ شرک کرو جس کا تمہیں علم نہیں تو تم ان کا کہنا نہ مانو (العنکبوت : ٨) ، نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٠٧٩ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی سعد (رض) کی مشرک و کافر ماں ان کو اللہ نے اپنے ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے کے حکم سے حوالے سے کفر و شرک پر ابھار رہی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3189

【241】

تفسیر سورت عنکبوت

ام ہانی (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت «وتأتون في ناديكم المنکر» کے بارے میں ١ ؎ فرمایا : وہ (اپنی محفلوں میں) لوگوں پر کنکریاں پھینکتے تھے (بدتمیزی کرتے) اور ان کا مذاق اڑاتے تھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے، اور ہم اسے صرف حاتم بن ابی صغیرہ کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ سماک سے روایت کرتے ہیں۔ اس سند سے سلیم بن اخضر نے حاتم بن ابی صغیرہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٩٩٨) (ضعیف) (سند میں ابو صالح باذام مولی ام ہانی ضعیف اور مدلس راوی ہے) وضاحت : ١ ؎ : تم اپنی محفلوں میں منکر ( گناہ اور ناپسندیدہ ) فعل انجام دیتے ہو ( العنکبوت : ٢٩) ، قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد جدا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3190

【242】

سورہ روم کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر (رض) سے ان کے (قریش سے) شرط لگانے پر کہا : اے ابوبکر تم نے شرط لگانے میں «الم غلبت الروم» کی احتیاط کیوں نہ برتی، کیونکہ لفظ («بضع» ) تین سے نو تک کے لیے بولا جاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے جسے زہری عبیداللہ کے واسطہ سے ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٨٥٦) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن عبد الرحمن جمحی مجہول الحال ہیں، لیکن اس بابت اس قول کے سوا دیگر تفاصیل صحیح ہیں، دیکھیے حدیث رقم ٣١٩٣، و ٣١٩٤) وضاحت : ١ ؎ : مراد ہے اللہ تعالیٰ کا یہ قول : «سيغلبون في بضع سنين» (الروم : ٤) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف المصدر نفسه // الضعيفة تحت الحديث (3354) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3191

【243】

سورہ روم کی تفسیر

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ بدر کی لڑائی کے موقع پر جب رومی اہل فارس پر غالب آ گئے تو مومنوں کو اس سے خوشی حاصل ہوئی ١ ؎ اس پر یہ آیت : «الم غلبت الروم» سے لے کر «يفرح المؤمنون بنصر الله» ٢ ؎ تک نازل ہوئی، وہ کہتے ہیں : روم کے فارس پر غلبہ سے مسلمان بےحد خوش ہوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ایسے ہی نصر بن علی نے «غَلَبَتِ الرُّومُ» («غ» اور «ل» کے زبر کے ساتھ) پڑھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٩٣٥ (صحیح) (بعد کی حدیث سے یہ صحیح لغیرہ ہے) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ رومی اہل کتاب تھے اور مسلمان بھی اہل کتاب اس لیے ان کی کامیابی میں انہیں اپنی کامیابی دکھائی دی۔ ٢ ؎ : رومی مغلوب ہوگئے ہیں ، نزدیک کی زمین پر اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آ جائیں گے ، چند سال میں ہی ، اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی اختیار اللہ تعالیٰ کا ہی ہے ، اس روز مسلمان شادمان ہوں گے ( الروم : ١-٤) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بما بعده (3193) ومضی برقم (3116) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3192

【244】

سورہ روم کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) آیت «الم غلبت الروم في أدنی الأرض» کے بارے میں کہتے ہیں : «غَلَبَتْ» اور «غُلِبَتْ» دونوں پڑھا گیا ہے، کفار و مشرکین پسند کرتے تھے کہ اہل فارس روم پر غالب آ جائیں، اس لیے کہ کفار و مشرکین اور وہ سب بت پرست تھے جب کہ مسلمان چاہتے تھے کہ رومی اہل فارس پر غالب آ جائیں، اس لیے کہ رومی اہل کتاب تھے، انہوں نے اس کا ذکر ابوبکر (رض) سے کیا اور ابوبکر (رض) نے رسول اللہ سے، آپ نے فرمایا : وہ (رومی) (مغلوب ہوجانے کے بعد پھر) غالب آ جائیں گے، ابوبکر (رض) نے جا کر انہیں یہ بات بتائی، انہوں نے کہا : (ایسی بات ہے تو) ہمارے اور اپنے درمیان کوئی مدت متعین کرلو، اگر ہم غالب آ گئے تو ہمیں تم اتنا اتنا دینا، اور اگر تم غالب آ گئے (جیت گئے) تو ہم تمہیں اتنا اتنا دیں گے۔ تو انہوں نے پانچ سال کی مدت رکھ دی، لیکن وہ (رومی) اس مدت میں غالب نہ آسکے، ابوبکر (رض) نے یہ بات بھی رسول اللہ ﷺ کو بتائی۔ آپ نے فرمایا : تم نے اس کی مدت اس سے کچھ آگے کیوں نہ بڑھا دی ؟ راوی کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ آپ کی مراد اس سے دس (سال) تھی، ابوسعید نے کہا کہ «بضع» دس سے کم کو کہتے ہیں، اس کے بعد رومی غالب آ گئے۔ (ابن عباس (رض)) کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے قول «الم غلبت الروم» سے «ويومئذ يفرح المؤمنون بنصر اللہ ينصر من يشاء» تک کا یہی مفہوم ہے، سفیان ثوری کہتے ہیں : میں نے سنا ہے کہ وہ (رومی) لوگ ان پر اس دن غالب آئے جس دن بدر کی جنگ لڑی گئی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف سفیان ثوری کی اس روایت سے جسے وہ حبیب بن ابو عمرہ کے واسطے سے بیان کرتے ہیں، جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٤٨٩) ، و مسند احمد (١/٢٧٦، ٣٠٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الضعيفة تحت الحديث (3354) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3193

【245】

سورہ روم کی تفسیر

نیار بن مکرم اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت «الم غلبت الروم في أدنی الأرض وهم من بعد غلبهم سيغلبون في بضع سنين» نازل ہوئی، اس وقت اہل فارس روم پر غالب و قابض تھے، اور مسلمان چاہتے تھے کہ رومی ان پر غالب آ جائیں، کیونکہ رومی اور مسلمان دونوں ہی اہل کتاب تھے، اور اسی سلسلے میں یہ آیت : «ويومئذ يفرح المؤمنون بنصر اللہ ينصر من يشاء وهو العزيز الرحيم» اس دن مومن اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے، وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے، وہ زبردست ہے مہربان بھی ہے (الروم : ٤- ٥) ، بھی اتری ہے، قریش چاہتے تھے کہ اہل فارس غالب ہوں کیونکہ وہ اور اہل فارس دونوں ہی نہ تو اہل کتاب تھے، اور نہ دونوں ہی قیامت پر ایمان رکھتے تھے، جب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی تو ابوبکر صدیق (رض) مکہ کے اطراف میں اعلان کرنے نکل کھڑے ہوئے، انہوں نے چیخ چیخ کر (بآواز بلند) اعلان کیا، «الم غلبت الروم في أدنی الأرض وهم من بعد غلبهم سيغلبون في بضع سنين» رومی مغلوب ہوگئے زمین میں، وہ مغلوب ہوجانے کے بعد چند سالوں میں پھر غالب آ جائیں گے تو قریش کے کچھ لوگوں نے ابوبکر (رض) سے کہا : آؤ ہمارے اور تمہارے درمیان اس بات پر شرط ہوجائے، تمہارے ساتھی (نبی) کا خیال ہے کہ رومی فارسیوں پر چند سالوں کے اندر اندر غالب آ جائیں گے، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم سے اس بات پر شرط لگا لیں، انہوں نے کہا : کیوں نہیں ؟ ہم تیار ہیں، ابوبکر (رض) اور مشرکین دونوں نے شرط لگا لی، اور شرط کا مال کہیں رکھوا دیا، مشرکین نے ابوبکر (رض) سے کہا : تم «بضع» کو تین سے نو سال کے اندر کتنے سال پر متعین و مشروط کرتے ہو ؟ ہمارے اور اپنے درمیان بیچ کی ایک مدت متعین کرلو، جس پر فیصلہ ہوجائے، راوی کہتے ہیں : انہوں نے چھ سال کی مدت متعین اور مقرر کردی۔ راوی کہتے ہیں کہ روم کے مشرکین پر غالب آنے سے پہلے چھ سال گزر گئے تو مشرکین نے ابوبکر (رض) کے بطور شرط جمع کرائے ہوئے مال کو لے لیا، مگر جب ساتواں سال شروع ہوا اور رومی فارسیوں پر غالب آ گئے، تو مسلمانوں نے ابوبکر (رض) پر نکتہ چینی کی کہ یہ ان کی غلطی تھی کہ چھ سال کی مدت متعین کی جب کہ اللہ تعالیٰ نے «بضع سنین» کہا تھا، (اور «بضع» تین سال سے نو سال تک کے لیے مستعمل ہوتا ہے) ۔ راوی کہتے ہیں : اس پیشین گوئی کے برحق ثابت ہونے پر بہت سارے لوگ ایمان لے آئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث نیار بن مکرم کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن ابوالزناد کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٧١٩) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن الضعيفة تحت الحديث (3354) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3194

【246】

تفسیر سورت لقمان

ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گانے والی لونڈیاں نہ بیچو، نہ انہیں خریدو اور نہ انہیں گانا بجانا سکھاؤ، ان کی تجارت میں کوئی بہتری نہیں ہے، ان کی قیمت حرام ہے ، ایسے ہی مواقع کے لیے آپ پر آیت «ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله » بعض لوگ ایسے ہیں جو لہو و لعب کی چیزیں خریدتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں (لقمان : ٦) ، آخر تک نازل ہوئی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- یہ حدیث قاسم سے ابوامامہ کے واسطہ سے مروی ہے، قاسم ثقہ ہیں اور علی بن یزید میں ضعیف سمجھے جاتے ہیں، یہ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٢٨٢ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : حسن ومضی برقم (1305) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3195

【247】

تفسیر سورت السجدہ

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ یہ آیت «تتجافی جنوبهم عن المضاجع» ان کے پہلو خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں (السجدۃ : ١٦) ، اس نماز کا انتظار کرنے والوں کے حق میں اتری ہے جسے رات کی پہلی تہائی کی نماز کہتے ہیں، یعنی نماز عشاء ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٦٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث صحیح ہے ، تو اسی کے مطابق اس سے مراد عشاء کی نماز لینی چاہیئے ، ( بعض لوگوں نے اس سے مراد تہجد کی نماز کو لیا ہے ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (1 / 160) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3196

【248】

تفسیر سورت السجدہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : میں نے اپنے نیک صالح بندوں کے لیے ایسی چیز تیار کی ہے جسے کسی آنکھ نے نہ دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے نہ کسی کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے، اس کی تصدیق کتاب اللہ (قرآن) کی اس آیت «فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما کانوا يعملون» کوئی شخص نہیں جانتا جو ہم نے ان کے (صالح) اعمال کے بدلے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک (کے لیے) پوشیدہ رکھ رکھی ہے (السجدۃ : ١٦) ، سے ہوتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٨ (٣٢٤٤) ، وتفسیرسورة السجدة ١ (٤٧٧٩، ٤٧٨٠) ، والتوحید ٣٥ (٧٤٩٨) ، صحیح مسلم/الجنسة ١ (٢٨٢٤) (تحفة الأشراف : ١٣٦٧٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (1106) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3197

【249】

تفسیرالسجدہ

شعبی کہتے ہیں : میں نے مغیرہ بن شعبہ (رض) کو منبر پر کھڑے ہو کر نبی اکرم ﷺ کی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا : موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے پوچھتے ہوئے کہا : اے میرے رب ! کون سا جنتی سب سے کمتر درجے کا ہوگا ؟ اللہ فرمائے گا : جنتیوں کے جنت میں داخل ہوجانے کے بعد ایک شخص آئے گا، اس سے کہا جائے گا : تو بھی جنت میں داخل ہوجا، وہ کہے گا : میں کیسے داخل ہوجاؤں جب کہ لوگ (پہلے پہنچ کر) اپنے اپنے گھروں میں آباد ہوچکے ہیں اور اپنی اپنی چیزیں لے لی ہیں ، آپ نے فرمایا : اس سے کہا جائے گا : دنیا کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کے پاس جتنا کچھ ہوتا ہے اتنا تمہیں دے دیا جائے، تو کیا تم اس سے راضی و خوش ہو گے ؟ وہ کہے گا : ہاں، اے میرے رب ! میں راضی ہوں، اس سے کہا جائے گا : تو جا تیرے لیے یہ ہے اور اتنا اور اتنا اور اتنا اور، وہ کہے گا : میرے رب ! میں راضی ہوں، اس سے پھر کہا جائے گا جاؤ تمہارے لیے یہ سب کچھ اور اس سے دس گنا اور بھی وہ کہے گا، میرے رب ! بس میں راضی ہوگیا، تو اس سے کہا جائے گا : اس (ساری بخشش و عطایا) کے باوجود تمہارا جی اور نفس جو کچھ چاہے اور جس چیز سے بھی تمہیں لذت ملے وہ سب تمہارے لیے ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ان میں سے بعض (محدثین) نے اس حدیث کو شعبی سے اور انہوں نے مغیرہ سے روایت کیا ہے۔ اور انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) مرفوع روایت زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨٤ (١٨٩) (تحفة الأشراف : ١١٥٠٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مولف نے یہ حدیث مذکورہ آیت ہی کی تفسیر ذکر کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3198

【250】

سورہ احزاب کی تفسیر

ابوظبیان کہتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس (رض) سے کہا : ذرا بتائیں اللہ تعالیٰ کے اس قول «ما جعل اللہ لرجل من قلبين في جوفه» اللہ تعالیٰ نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ہیں (الاحزاب : ٤) ، کا کیا معنی و مطلب ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : نبی اکرم ﷺ ایک دن نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ سے کچھ سہو ہوگیا، آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والے منافقین نے کہا : کیا تم دیکھتے نہیں ان کے دو دل ہیں ایک تم لوگوں کے ساتھ اور ایک اوروں کے ساتھ ہے۔ اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت «ما جعل اللہ لرجل من قلبين في جوفه» نازل فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٤٠٦) (ضعیف) (سند میں قابوس لین الحدیث راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : (الحديث الذي في سنده : حدثنا عبد اللہ بن عبد الرحمن، أخبرنا صاعد الحراني أخبرنا زهير) ضعيف الإسناد، (الحديث الذي في سنده : حدثنا عبد بن حميد حدثني أحمد بن يونس أخبرنا زهير) ضعيف أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3199 اس سند بھی اسی طرح روایت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : (الحديث الذي في سنده : حدثنا عبد اللہ بن عبد الرحمن، أخبرنا صاعد الحراني أخبرنا زهير) ضعيف الإسناد، (الحديث الذي في سنده : حدثنا عبد بن حميد حدثني أحمد بن يونس أخبرنا زهير) ضعيف أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3199

【251】

سورہ احزاب کی تفسیر

انس (رض) کہتے ہیں کہ میرے چچا انس بن نضر (رض) جن کے نام پر میرا نام رکھا گیا تھا جنگ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک نہیں ہوئے تھے، یہ بات انہیں بڑی شاق اور گراں گزر رہی تھی، کہتے تھے : جہاں رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس حاضر و موجود تھے میں اس سے غیر حاضر رہا، (اس کا مجھے بےحد افسوس ہے) مگر سنو ! قسم اللہ کی ! اب اگر مجھے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک ہونے کا موقع ملا تو یقیناً اللہ دیکھے گا کہ میں کیا کچھ کرتا ہوں، راوی کہتے ہیں : وہ اس کے سوا اور کچھ کہنے سے ڈرتے (اور بچتے) رہے، پھر اگلے سال وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ احد میں شریک ہوئے، سعد بن معاذ (رض) کا ان سے سامنا ہوا تو انہوں نے کہا : ابوعمرو ! کہاں کا ارادہ ہے انہوں نے کہا : اے واہ ! میں تو احد پہاڑ کے پرے جنت کی خوشبو پا رہا ہوں پھر وہ لڑے اور اس شان سے لڑے کہ شہید کردیئے گئے، ان کے جسم میں اسی ( ٨٠) سے کچھ زائد چوٹ تیر و نیزہ کے زخم پائے گئے۔ میری پھوپھی ربیع بنت نضر (رض) نے کہا : میں اپنے بھائی کی نعش صرف ان کی انگلیوں کے پوروں سے پہچان پائی، اسی موقع پر آیت «رجال صدقوا ما عاهدوا اللہ عليه فمنهم من قضی نحبه ومنهم من ينتظر وما بدلوا تبديلا» ایمان والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اللہ کے ساتھ جو انہوں نے وعدے کیے تھے ان میں وہ پورے اترے، ان میں سے کچھ تو انتقال کر گئے اور کچھ لوگ مرنے کے انتظار میں ہیں۔ انہوں نے اس میں یعنی (اللہ سے کیے ہوئے اپنے معاہدہ میں کسی قسم) کی تبدیلی نہیں کی (الاحزاب : ٢٣) ، نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٤١ (١٩٠١) (تحفة الأشراف : ٤٠٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3200

【252】

سورہ احزاب کی تفسیر

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ان کے چچا (انس بن نضر) بدر کی لڑائی میں غیر حاضر تھے، انہوں نے (افسوس کرتے ہوئے) کہا : اس پہلی لڑائی میں جو رسول اللہ ﷺ نے مشرکین سے لڑائی میں غیر موجود رہا، اب اگر اللہ نے مشرکین سے مجھے کسی جنگ میں لڑنے کا موقع دیا تو اللہ ضرور دیکھے گا کہ میں (بےجگری و بہادری سے کس طرح لڑتا اور) کیا کرتا ہوں۔ پھر جب جنگ احد کی لڑائی کا موقع آیا، اور مسلمان (میدان سے) چھٹ گئے تو انہوں نے کہا : اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس شر سے جسے یہ لوگ یعنی مشرکین لے کر آئے ہیں اور ان سے یعنی آپ کے صحابہ سے جو غلطی سرزد ہوئی ہے، اس کے لیے تجھ سے معذرت خواہ ہوں، پھر وہ آگے بڑھے، ان سے سعد بن معاذ (رض) کی ملاقات ہوئی، سعد نے ان سے کہا : میرے بھائی ! آپ جو بھی کریں میں آپ کے ساتھ ساتھ ہوں، (سعد کہتے ہیں) لیکن انہوں نے جو کچھ کیا وہ میں نہ کرسکا، ان کی لاش پر تلوار کی مار کے، نیزے گھوپنے کے اور تیر لگنے کے اسّی ( ٨٠) سے کچھ زیادہ ہی زخم تھے، ہم کہتے تھے کہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں آیت «فمنهم من قضی نحبه ومنهم من ينتظر» اتری ہے۔ یزید (راوی) کہتے ہیں : اس سے مراد یہ (پوری) آیت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- انس بن مالک کے چچا کا نام انس بن نضر (رض) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ٨٠٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3201

【253】

سورہ احزاب کی تفسیر

موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں معاویہ (رض) کے پاس گیا تو انہوں نے کہا : کیا میں تمہیں ایک خوشخبری نہ سنا دوں ؟ میں نے کہا : ضرور، سنائیے، کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طلحہ (رض) ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے «ممن قضی نحبه» فرمایا ہے ، یعنی جو اپنا کام پورا کرچکے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے معاویہ (رض) کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- جبکہ یہ حدیث موسیٰ بن طلحہ صرف طلحہ کی حدیث سے روایت کی جاتی ہے، (جو آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٢٦) (تحفة الأشراف : ١١٤٤٥) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (126) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3202

【254】

سورہ احزاب کی تفسیر

طلحہ (رض) سے روایت ہے کہ صحابہ نے ایک جاہل دیہاتی سے کہا کہ وہ نبی اکرم ﷺ سے «ممن قضی نحبه» سے متعلق پوچھے کہ اس سے مراد کیا ہے ؟ وہ لوگ خود آپ سے یہ سوال پوچھنے کی ہمت نہیں کر رہے تھے، وہ آپ کا ادب و احترام کرتے تھے اور آپ سے ڈرتے بھی تھے، اعرابی نے آپ سے پوچھا، مگر آپ نے اعراض کیا، اس نے پھر پوچھا، آپ نے پھر اس کی طرف توجہ نہ دی، اس نے پھر پوچھا : آپ نے پھر بےرخی برتی، پھر میں مسجد کے دروازے سے نمودار ہوا اور (اندر آیا) میں (نمایاں) سبز کپڑے پہنے ہوئے تھا، جب آپ نے مجھے دیکھا تو آپ نے فرمایا : «ممن قضی نحبه» سے متعلق پوچھنے والا شخص کہاں ہے ؟ اعرابی، (گنوار دیہاتی) نے کہا : اللہ کے رسول ! میں حاضر ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ شخص (طلحہ) انہی لوگوں میں سے ہے، جنہوں نے اپنے کام اور ذمہ داریاں پوری کردی ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف یونس بن بکیر کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٠٠٥) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الصحيحة (1 / 36) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3203

【255】

سورہ احزاب کی تفسیر

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دے دیں ١ ؎ تو آپ نے اپنی اس کاروائی کی ابتداء مجھ سے کی : آپ نے کہا : عائشہ ! میں تمہارے سامنے ایک معاملہ رکھتا ہوں، تم اپنے ماں باپ سے مشورہ لیے بغیر جواب دہی میں جلد بازی نہ کرنا، عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ آپ خوب سمجھتے تھے کہ میرے والدین مجھے آپ سے جدائی و علیحدگی اختیار کرلینے کا حکم نہیں دے سکتے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «يا أيها النبي قل لأزواجک إن کنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين» سے لے کر یہاں تک «للمحسنات منکن أجرا عظيما» ٢ ؎ میں نے کہا : کیا میں اس بارے میں ماں باپ سے مشورہ لوں ؟ (نہیں مجھے کسی مشورہ کی ضرورت نہیں) میں اللہ اور اس کے رسول کو چاہتی ہوں اور آخرت کے گھر کو پسند کرتی ہوں، آپ کی دیگر بیویوں نے بھی ویسا ہی کچھ کہا جیسا میں نے کہا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث زہری سے بھی مروی ہے، زہری نے عروہ سے اور عروہ نے عائشہ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الأحزاب ٤ (٤٧٨٥) ، صحیح مسلم/الطلاق ٤ (١٤٧٥) ، سنن النسائی/النکاح ٢ (٣٢٠٣) ، والطلاق ٢٦ (٣٤٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٠ (٢٠٥٣) (تحفة الأشراف : ١٧٧٦٧) ، و مسند احمد (٦/٧٨، ١٠٣، ١٨٥، ٢٤٨، ٢٦٤) ، وسنن الدارمی/الطلاق ٥ (٢٢٧٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی وہ چاہیں تو آپ کے ساتھ رہیں اور تنگی کی زندگی گزاریں ، اور اگر دنیا اور دنیا کی زینت چاہتی ہیں تو نبی اکرم ﷺ کا ساتھ چھوڑ دیں۔ ٢ ؎ : اے نبی ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئیے کہ تمہیں اگر دنیا اور دنیا کی زینت چاہیئے تو آؤ میں کچھ دے کر چھوڑ چھاڑ دوں ، ( طلاق کے ساتھ کچھ مال دے کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں ) اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کو چاہتی ہو اور آخرت کا گھر تمہیں مطلوب ہے تو اللہ نے تم نیکو کاروں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے ( الاحزاب : ٢٨-٢٩) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3204

【256】

سورہ احزاب کی تفسیر

نبی اکرم ﷺ کے زیر پرورش عمر بن ابی سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت «إنما يريد اللہ ليذهب عنکم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا» اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والو ! تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے (الاحزاب : ٣٣) ، ام سلمہ (رض) کے گھر میں رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی تو آپ نے فاطمہ و حسن حسین (رضی اللہ عنہم) کو بلایا اور انہیں ایک چادر کے نیچے ڈھانپ دیا، علی (رض) آپ کی پیٹھ کے پیچھے تھے آپ نے انہیں بھی چادر کے نیچے کرلیا، پھر فرمایا : اے اللہ یہ ہیں میرے اہل بیت، میرے گھر والے، ان سے ناپاکی دور کر دے اور انہیں ہر طرح کی آلائشوں سے پوری طرح پاک و صاف کر دے ، ام سلمہ (رض) کہتی ہیں : اور میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں، اے اللہ کے رسول ؟ آپ نے فرمایا : تم اپنی جگہ ہی ٹھیک ہو، تمہیں خیر ہی کا مقام و درجہ حاصل ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے جسے عطاء عمر بن ابی سلمہ سے روایت کرتے ہیں غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف و أعادہ في المناقب ٣٢ (برقم ٣٧٨٧) (تحفة الأشراف : ١٠٦٨٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس آیت میں وارد «اہل البیت» سے مراد بتصریح نبوی علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین ہیں ، ازواج مطہرات کو اگرچہ دیگر فضیلتیں حاصل ہیں مگر وہ اس آیت کے اس لفظ کے مفہوم میں داخل نہیں ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (976 و 1190) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3205

【257】

سورہ احزاب کی تفسیر

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فاطمہ (رض) کے دروازے کے سامنے سے چھ مہینے تک گزرتے رہے، جب فجر کے لیے نکلتے تو آپ کا معمول تھا کہ آپ آواز دیتے «الصلاة يا أهل البيت» اے میرے گھر والو ! نماز فجر کے لیے اٹھو «إنما يريد اللہ ليذهب عنکم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا» اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری نجاست تم سے دور کر دے اور تمہیں پورے طور پر پاک کر دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ہم اسے صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے ہی جانتے ہیں، ٢- اس باب میں ابوالحمراء، معقل بن یسار اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٩٩) (ضعیف) (سند میں ” علی بن زید بن جدعان “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف المصدر نفسه //، الروض النضير (976 و 1190) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3206

【258】

سورہ احزاب کی تفسیر

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ وحی کی کوئی چیز چھپا لینے والے ہوتے تو یہ آیت «وإذ تقول للذي أنعم اللہ عليه» جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اسلام کے ذریعہ انعام کیے تھے اور آپ نے بھی (اسے آزاد کر کے) اس پر انعام و احسان کیے تھے کہہ رہے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دو (طلاق نہ دو ) اور اللہ سے ڈرو، اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا تم لوگوں کے (لعن طعن) سے ڈرتے تھے اور اللہ اس کا زیادہ سزاوار ہے کہ تم اس سے ڈرو ، سے لے کر «وكان أمر اللہ مفعولا» تک چھپالیتے، رسول اللہ ﷺ نے جب ان سے (زینب سے) شادی کرلی تو لوگوں نے کہا : آپ نے اپنے (لے پالک) بیٹے کی بیوی سے شادی کرلی، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «ما کان محمد أبا أحد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبيين» محمد ( ﷺ ) تم لوگوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین (آخری نبی) ہیں ، نازل فرمائی، زید چھوٹے تھے تبھی رسول اللہ ﷺ نے انہیں منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا، وہ برابر آپ کے پاس رہے یہاں تک کہ جوان ہوگئے، اور ان کو زید بن محمد کہا جانے لگا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : «ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند اللہ فإن لم تعلموا آباء هم فإخوانکم في الدين ومواليكم» انہیں ان کے (اصلی باپ کی طرف) منسوب کر کے پکارو (جن کے نطفے سے وہ پیدا ہوئے ہیں) یہ اللہ کے نزدیک زیادہ مبنی بر انصاف بات ہے، لیکن اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو (کہ وہ کون ہیں) تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں ، فلاں فلاں کا دوست ہے اور فلاں فلاں کا دینی بھائی ہے ٤ ؎، «هو أقسط عند الله» یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف پر مبنی کا مفہوم یہ ہے کہ پورا انصاف ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ اس سند سے مسروق نے عائشہ سے روایت کی ہے، وہ کہتی ہیں : اگر نبی اکرم ﷺ وحی میں سے کچھ چھپانے والے ہوتے تو آپ یہ آیت «وإذ تقول للذي أنعم اللہ عليه وأنعمت عليه» چھپاتے، (اس روایت میں) یہ حدیث کی پوری روایت نہیں کی گئی ہے ٥ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦١٦٩) (ضعیف الإسناد جداً ) وضاحت : ٤ ؎ : اگر وہ آزاد ہوں تو ترجمہ ہوگا فلاں فلاں کے دوست ، حلیف اور اگر آزاد کردہ غلام ہوں تو ترجمہ ہوگا فلاں فلاں کا آزاد کردہ غلام یہی بات «موالیکم» کے ترجمہ میں بھی ملحوظ رہے۔ ٥ ؎ : یعنی : اس حدیث کی دو سندوں میں شعبی کے بعد مسروق کا اضافہ ہے ، اور یہی سندیں متصل ہیں ( یہ آگے آرہی ہیں ) پہلی سند میں انقطاع ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد جدا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3207

【259】

None

اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی میں سے کوئی چیز چھپا لینے والے ہوتے تو آیت «وإذ تقول للذي أنعم الله عليه وأنعمت عليه» کو چھپاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

【260】

سورہ احزاب کی تفسیر

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمد کہہ کر ہی پکارتے تھے یہاں تک کہ قرآن میں یہ آیت نازل ہوئی : «ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله» ایسے لوگوں کو ان کے اصلی باپوں کے ناموں کے ساتھ پکارو یہی اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے (الاحزاب : ٥) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الأحزاب ٢ (٤٧٨٢) ، و ٥ (٤٧٨٦) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٠ (٢٤٢٥) ، ویأتي عند المؤلف في المناقب (٣٨١٤) (تحفة الأشراف : ٧٠٢١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3209

【261】

سورہ احزاب کی تفسیر

عامر شعبی اللہ کے اس قول «ما کان محمد أبا أحد من رجالکم» (لوگو ! ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد ( ﷺ ) نہیں (الاحزاب : ٤٠) ، کے بارے میں کہتے ہیں : اس سے مراد زندہ نہ رہنے والی نرینہ اولاد ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (ضعیف الإسناد) (سند میں ” مسلمہ بن علقمہ “ صدوق ہیں، لیکن ان سے احادیث میں اوہام پائے جاتے ہیں) وضاحت : ١ ؎ : ورنہ نرینہ اولاد تو آپ کے یہاں بھی پیدا ہوئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف مقطوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3210

【262】

سورہ احزاب کی تفسیر

ام عمارہ انصاریہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا : کیا بات ہے میں ہر چیز مردوں ہی کے لیے دیکھتی ہوں اور عورتوں کا (قرآن میں) کہیں ذکر نہیں ملتا ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «إن المسلمين والمسلمات والمؤمنين والمؤمنات» آخر آیت تک۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، اور یہ حدیث صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٨٣٣٧) (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3211

【263】

سورہ احزاب کی تفسیر

انس (رض) کہتے ہیں کہ آیت «وتخفي في نفسک ما اللہ مبديه وتخشی الناس» تم اس چیز کو اپنے جی میں چھپا کر رکھ رہے ہو جس کو اللہ ظاہر کرنے والا ہے، اور تم ( اللہ سے ڈرنے کی بجائے) لوگوں سے ڈر رہے ہو (الاحزاب : ٣٧) ، زینب بنت جحش (رض) کی شان میں نازل ہوئی ہے (ان کے شوہر) زید شکایت لے کر (رسول اللہ ﷺ کے پاس) آئے اور انہوں نے زینب کو طلاق دینے کا ارادہ کرلیا، اس پر انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مشورہ لیا تو آپ نے فرمایا : «أمسک عليك زوجک واتق الله» اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو (طلاق نہ دو ) اور اللہ سے ڈرو (الاحزاب : ٣٧) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الأحزاب ٦ (٤٧٨٧) ، والتوحید ٢٢ (٧٤٢٠) (تحفة الأشراف : ٢٩٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہاں ایک جھوٹی روایت لوگوں نے گھڑ رکھی ہے کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے اپنے دل میں ان کی بات چھپا رکھی تھی وہ یہ کہ وہ زینب سے محبت کرتے تھے اور خود ان سے شادی چاہتے تھے اس لیے چاہتے تھے کہ زید جلد طلاق دے دیں معاذاللہ ، حالانکہ جس بات کے چھپانے کی طرف اللہ آپ ﷺ کو اشارہ کر رہا ہے ، وہ یہ تھی کہ : اچھا ہوتا کہ زید زینب کو نہیں چھوڑتے ، ورنہ بحکم الٰہی زینب سے مجھے ہی شادی کرنی ہوگی ، تب لوگ کہیں گے : لو محمد نے اپنے لے پالک بیٹے کی مطلقہ سے شادی کرلی ( یہ چیز ان کے یہاں معیوب سمجھی جاتی تھی ) اسی کو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ایک دن اللہ اس کو ظاہر کر دے گا ، اس شادی میں سماج سے ایک غلط روایت کو دور کرنا ہے ، اور لوگوں کو صحیح بات بتانی ہے کہ لے پالک بیٹا صلبی بیٹا نہیں ہوتا کہ اس کی مطلقہ یا بیوہ حرام ہوجائے ، اسی طرح لے پالک سے ، دیگر خونی معاملات میں حرمت و حلت کی بات صحیح نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3212

【264】

سورہ احزاب کی تفسیر

انس (رض) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت «فلما قضی زيد منها وطرا زوجناکها» زید نے جب ان سے اپنی حاجت پوری کرلی (انہیں طلاق دے دی) تو ہم نے تمہاری شادی اس سے کردی (الاحزاب : ٣٧) ، زینب بنت جحش (رض) کے بارے میں اتری ہے۔ انس کہتے ہیں : چناچہ اسی بناء پر وہ نبی اکرم ﷺ کی دوسری بیویوں پر یہ کہہ کر فخر کرتی تھیں کہ تمہاری شادیاں رسول اللہ ﷺ سے تمہارے گھر والوں (رشتہ داروں) نے کی ہیں، اور میری شادی تو اللہ نے آپ سے ساتویں آسمان پر کردی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التوحید ٢٢ (٧٤٢١) ، سنن النسائی/النکاح ٢٦ (٣٢٥٤) (تحفة الأشراف : ٣٠٧، و مسند احمد (٣/٢٢٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر العلو (84 / 6) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3213

【265】

سورہ احزاب کی تفسیر

ام ہانی بنت ابی طالب (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے شادی کا پیغام دیا، تو میں نے آپ سے معذرت کرلی ١ ؎ تو آپ نے میری معذرت قبول کرلی، پھر اللہ نے یہ آیت «إنا أحللنا لك أزواجک اللاتي آتيت أجورهن وما ملکت يمينک مما أفاء اللہ عليك وبنات عمک وبنات عماتک وبنات خالک وبنات خالاتک اللاتي هاجرن معک وامرأة مؤمنة إن وهبت نفسها للنبي» اے نبی ہم نے تیرے لیے تیری وہ بیویاں حلال کردی ہیں جنہیں تو ان کے مہر دے چکا ہے اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ نے غنیمت میں تجھے دی ہیں اور تیرے چچا کی لڑکیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموؤں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ باایمان عورت جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کر دے (الاحزاب : ٥٠) ، نازل فرمائی ام ہانی کہتی ہیں کہ اس آیت کی رو سے میں آپ کے لیے حلال نہیں ہوئی کیونکہ میں نے ہجرت نہیں کی تھی میں (فتح مکہ کے موقع پر) «الطلقاء» آزاد کردہ لوگوں میں سے تھی، (اور اسی موقع پر ایمان لائی تھی) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ہم اس کو سُدّی کی روایت صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٩٩٩) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابو صالح باذام مولی ام ہانی ضعیف مدلس راوی ہے) وضاحت : ١ ؎ : یہ معذرت اس وجہ سے تھی کہ ان کے پاس چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور وہ اس بات سے ڈریں کہ ان کے رونے پیٹنے سے کہیں آپ کو تکلیف نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد جدا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3214

【266】

سورہ احزاب کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو مومن اور مہاجر عورتوں کے سوا دوسری عورتوں سے شادی کرنے سے روک دیا گیا، (جیسا کہ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : «لا يحل لک النساء من بعد ولا أن تبدل بهن من أزواج ولو أعجبک حسنهن إلا ما ملکت يمينك» آپ کے لیے آج کے بعد کوئی عورت حلال نہیں، اور آپ کے لیے یہ بھی حلال نہیں کہ موجودہ بیویوں میں سے کسی بیوی کو ہٹا کر من بھائی عورت سے شادی کرلیں، سوائے ان لونڈیوں کے جن کے آپ مالک بن جائیں (الاحزاب : ٥٢) ، اللہ نے (نبی کے لیے) تمہاری جوان مومن مسلمان عورتیں حلال کردی ہیں۔ «وامرأة مؤمنة إن وهبت نفسها للنبي» اور وہ ایمان والی عورت بھی اللہ نے حلال کردی ہیں جو اپنے آپ کو نبی کو پیش کر دے ، اور اسلام کے سوا ہر دین والی عورت کو حرام کردیا ہے۔ پھر اللہ نے فرمایا : «ومن يكفر بالإيمان فقد حبط عمله وهو في الآخرة من الخاسرين» جو ایمان کا منکر ہوا اس کا عمل ضائع گیا، اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوگا (المائدہ : ٥) ، اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے «يا أيها النبي إنا أحللنا لك أزواجک اللاتي آتيت أجورهن وما ملکت يمينک مما أفاء اللہ عليك» سے لے کر «خالصة لک من دون المؤمن» اے نبی ! ہم نے تیرے لیے تیری وہ بیویاں حلال کردی ہیں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں اور وہ باندیاں تمہارے لیے حلال کردی ہیں جو اللہ نے تمہیں بطور مال فیٔ (غنیمت) میں عطا فرمائی ہیں (الاحزاب : ٥٠) ، تک، یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے ١ ؎ اور دوسرے مومنین کے لیے نہیں (ان کا نکاح بغیر مہر کے نہیں ہوسکتا) ان کے علاوہ عورتوں کی اور قسمیں حرام کردی گئی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے۔ ہم اسے عبدالحمید بن بہرام کی روایت ہی سے جانتے ہیں، ٢- احمد بن حنبل کہتے ہیں : عبدالحمید بن بہرام کی شہر بن حوشب سے روایات کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٦٨٣) (ضعیف الإسناد) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : اس خاص حکم سے مراد یہ ہے کہ نبی کے سوا کسی اور مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ بغیر مہر اور بغیر ولی کے عورت سے شادی کرلے ، اپنے آپ کو بغیر مہر کے ہبہ کرنا صرف نبی اکرم ﷺ کے ساتھ خاص ہے ، اس کا تعلق چچا زاد ، پھوپھی زاد خالہ زاد اور ماموں زاد بہنوں سے شادی سے نہیں ہے ، جبکہ اس دور کے بعض متجددین نے یہ شوشہ چھوڑا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3215

【267】

سورہ احزاب کی تفسیر

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات سے پہلے آپ کے لیے سب عورتیں حلال ہوچکی تھیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/النکاح ٢ (٣٢٠٦، ٣٢٠٧) (تحفة الأشراف : ٧٣٧٩) ، وسنن الدارمی/النکاح ٤٤ (٢٢٨٧) (صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : یعنی پچھلی حدیث میں مذکور حرام کردہ عورتیں بعد میں نبی اکرم ﷺ کے لیے حلال کردی گئیں تھیں ، یہ استنباط عائشہ (رض) یا دیگر نے اس ارشاد باری سے کیا ہے ، «ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء» (اے ہمارے حبیب و خلیل نبی ! ) تمہیں یہ بھی اختیار ہے کہ تم ان عورتوں میں سے جس کو چاہو پیچھے رہنے دو ( اس سے شادی نہ کرو یا موجود بیویوں میں سے جس کی چاہو باری ٹال دو ) اور جس کو چاہو اپنے پاس جگہ دو ، ( گو اس کو باری نہ بھی ہو ) ( الأحزاب : 51 ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3216

【268】

سورہ احزاب کی تفسیر

انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا۔ آپ اپنی ایک بیوی کے کمرے کے دروازہ پر تشریف لائے جن کے ساتھ آپ کو رات گزارنی تھی، وہاں کچھ لوگوں کو موجود پایا تو آپ وہاں سے چلے گئے، اور اپنا کچھ کام کاج کیا اور کچھ دیر رکے رہے، پھر آپ دوبارہ لوٹ کر آئے تو لوگ وہاں سے جا چکے تھے، انس (رض) کہتے ہیں : پھر آپ اندر چلے گئے اور ہمارے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا (لٹکا دیا) میں نے اس بات کا ذکر ابوطلحہ سے کیا : تو انہوں نے کہا اگر بات ایسی ہی ہے جیسا تم کہتے ہو تو اس بارے میں کوئی نہ کوئی حکم ضرور نازل ہوگا، پھر آیت حجاب نازل ہوئی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وراجع : صحیح البخاری/النکاح ٦٧ (٥١٦٦) ، والأطعمة ٥٩ (٥٤٦٦) ، والاستئذان ١٠ (٦٢٣٨) ، وصحیح مسلم/النکاح ١٥ (١٤٢٨) (تحفة الأشراف : ١١٠٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : آیت حجاب سے مراد یہ آیت ہے «يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم» سے «إن ذلکم کان عند اللہ عظيما» تک یعنی اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو ، الا یہ کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے ، لیکن تم پہلے ہی اس کے پکنے کا انتظار نہ کرو ، بلکہ جب بلایا جائے تو داخل ہوجاؤ اور جب کھا چکو تو فوراً منتشر ہوجاؤ ، …اور جب تم امہات المؤمنین سے کوئی سامان مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو … ( الأحزاب : 53 ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3217

【269】

سورہ احزاب کی تفسیر

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح کیا اور اپنی بیوی (زینب بنت جحش (رض) ) کے پاس تشریف لے گئے، اس موقع پر میری ماں ام سلیم (رض) نے حیس ١ ؎ تیار کیا، اسے ایک چھوٹے برتن میں رکھا، پھر (مجھ سے) کہا : (بیٹے) انس ! اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ اور آپ سے کہو : اسے میری امی جان نے آپ کے پاس بھیجا ہے اور انہوں نے آپ کو سلام عرض کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تھوڑا سا ہدیہ میری طرف سے آپ کی خدمت میں پیش ہے، اللہ کے رسول ! میں اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا، میں نے عرض کیا : میری امی جان آپ کو سلام کہتی ہیں اور کہتی ہیں : یہ میری طرف سے آپ کے لیے تھوڑا سا ہدیہ ہے۔ آپ نے فرمایا : اسے رکھ دو ، پھر فرمایا : جاؤ فلاں فلاں، اور فلاں کچھ لوگوں کے نام لیے اور جو بھی تمہیں ملے سب کو میرے پاس بلا کرلے آؤ، انس کہتے ہیں : جن کے نام آپ نے لیے تھے انہیں اور جو بھی مجھے آتے جاتے ملا اسے بلا لیا، راوی جعد بن عثمان کہتے ہیں : میں نے انس (رض) سے پوچھا : کتنے لوگ رہے ہوں گے ؟ انہوں نے کہا : تقریباً تین سو، انس (رض) کہتے ہیں : پھر مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انس «تَور» پیالہ لے آؤ۔ انس کہتے ہیں : لوگ اندر آئے یہاں تک کہ صفہ (چبوترہ) اور کمرہ سب بھر گیا، آپ نے فرمایا : دس دس افراد کی ٹولی بنا لو اور ہر شخص اپنے قریب سے کھائے ، لوگوں نے پیٹ بھر کر کھایا، ایک ٹولی (کھا کر) باہر جاتی اور دوسری ٹولی (کھانے کے لیے) اندر آ جاتی اس طرح سبھی نے کھالیا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے کہا : انس : اب (برتن) اٹھا لو ۔ میں نے (پیالہ) اٹھا لیا، مگر (صحیح صحیح) بتا نہ پاؤں گا کہ جب میں نے پیالہ لا کر رکھا تھا تب اس میں حیس زیادہ تھا یا جب اٹھایا تھا تب ؟ کچھ لوگ کھانے سے فارغ ہو کر آپ کے گھر میں بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگ گئے۔ (انہوں نے کچھ بھی خیال نہ کیا کہ) رسول اللہ ﷺ تشریف فرما ہیں اور آپ کی اہلیہ محترمہ دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہیں، وہ لوگ رسول اللہ ﷺ پر بوجھ بن گئے، آپ وہاں سے اٹھ کر اپنی دوسری بیویوں کی طرف چلے گئے اور انہیں سلام کیا (مزاج پرسی کی) اور پھر لوٹ آئے، جب لوگوں نے دیکھا کہ آپ لوٹ آئے ہیں تو انہیں احساس و گمان ہوا کہ وہ لوگ آپ کے لیے باعث اذیت بن گئے ہیں، تو وہ لوگ تیزی سے دروازہ کی طرف بڑھے اور سب کے سب باہر نکل گئے۔ رسول اللہ ﷺ آئے دروازہ کا پردہ گرا دیا اور خود اندر چلے گئے، میں کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور آپ پر یہ آیتیں اتریں پھر آپ نے باہر آ کر لوگوں کو یہ آیتیں «يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لکم إلى طعام غير ناظرين إناه ولکن إذا دعيتم فادخلوا فإذا طعمتم فانتشروا ولا مستأنسين لحديث إن ذلکم کان يؤذي النبي» اے ایمان والو ! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لیے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو، بلکہ جب بلایا جائے تب جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہوجایا کرو، نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے (الاحزاب : ٥٣) ، آخر تک پڑھ کر سنائیں۔ میں ان آیات سے سب سے پہلا واقف ہونے والا ہوں، اور اسی وقت سے رسول اللہ ﷺ کی بیویاں پردہ کرنے لگیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- جعد : عثمان کے بیٹے ہیں، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دینار کے بیٹے ہیں اور ان کی کنیت ابوعثمان بصریٰ ہے، اور یہ محدثین کے نزدیک ثقہ (قوی) ہیں، ان سے یونس بن عبید، شعبہ اور حماد بن زید نے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٦٥ (تعلیقا) صحیح مسلم/النکاح ١٥ (١٤٢١/٩٤) ، وانظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ٥١٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : حیس ایک قسم کا کھانا ہے جو کھجور ، گھی اور ستو سے تیار کیا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3218

【270】

سورہ احزاب کی تفسیر

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کے ساتھ شادی والی رات گزاری، پھر آپ نے مجھے کچھ لوگوں کو کھانے پر بلانے کے لیے بھیجا۔ جب لوگ کھا پی کر چلے گئے، تو آپ اٹھے، عائشہ (رض) کے گھر کا رخ کیا پھر آپ کی نظر دو بیٹھے ہوئے آدمیوں پر پڑی۔ تو آپ (فوراً ) پلٹ پڑے (انہیں اس کا احساس ہوگیا) وہ دونوں اٹھے اور وہاں سے نکل گئے۔ اسی موقع پر اللہ عزوجل نے آیت «يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لکم إلى طعام غير ناظرين إناه» نازل فرمائی، اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- بیان کی روایت سے یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- ثابت نے انس کے واسطہ سے یہ حدیث پوری کی پوری بیان کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٦٩ (٥١٧٠) ، وانظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ٢٥٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ قصہ پچھلی حدیث میں گزرا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3219

【271】

سورہ احزاب کی تفسیر

ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ ہم سعد بن عبادہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، آپ سے بشیر بن سعد نے کہا : اللہ نے ہمیں آپ پر صلاۃ (درود) بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ تو ہم کیسے آپ پر صلاۃ (درود) بھیجیں، راوی کہتے ہیں : آپ (یہ سن کر) خاموش رہے۔ یہاں تک کہ ہم سوچنے لگے کہ انہوں نے نہ پوچھا ہوتا تو ہی ٹھیک تھا، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہو : «اللهم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صليت علی إبراهيم وعلی آل إبراهيم وبارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی إبراهيم وعلی آل إبراهيم في العالمين إنک حميد مجيد» اور سلام تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تم (التحیات میں) جانتے ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، ابوحمید، کعب بن عجرہ اور طلحہ بن عبیداللہ اور ابو سعید خدری اور زید بن خارجہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور زید کو ابن جاریہ اور ابن بریدہ بھی کہا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٧ (٤٠٥) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٨٣ (٩٨٠) ، سنن النسائی/السھو ٤٩ (١٢٨٦) (تحفة الأشراف : ١٠٠٠٧) ، موطا امام مالک/ صلاة السفر ٢٢ (٦٧) ، و مسند احمد (٥/٢٧٤) ، وسنن الدارمی/الصلاة ٨٥ (١٣٨٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مولف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ «إن اللہ وملائكته يصلون علی النبي يا أيها الذين آمنوا صلوا عليه وسلم وا تسليما» ( الأحزاب : ٥٦) کے تفسیر میں ذکر کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة، صحيح أبي داود (901) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3220

【272】

سورہ احزاب کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) سے روایت کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : موسیٰ (علیہ السلام) باحیاء، پردہ پوش انسان تھے، ان کے بدن کا کوئی حصہ ان کے شرما جانے کے ڈر سے دیکھا نہ جاسکتا تھا، مگر انہیں تکلیف پہنچائی جس کسی بھی اسرائیلی نے تکلیف پہنچائی، ان لوگوں نے کہا : یہ شخص (اتنی زبردست) ستر پوشی محض اس وجہ سے کر رہا ہے کہ اسے کوئی جلدی بیماری ہے : یا تو اسے برص ہے، یا اس کے خصیے بڑھ گئے ہیں، یا اسے کوئی اور بیماری لاحق ہے۔ اللہ نے چاہا کہ ان پر جو تہمت اور جو الزامات لگائے جا رہے ہیں ان سے انہیں بری کر دے۔ (تو ہوا یوں کہ) موسیٰ (علیہ السلام) ایک دن تنہا تھے، کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ کر نہانے لگے، جب نہا چکے اور اپنے کپڑے لینے کے لیے آگے بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی اٹھائی، پتھر کو بلانے اور کہنے لگے «ثوبي حجر ثوبي حجر» پتھر : میرا کپڑا دے، پتھر ! میرا کپڑا دے اور یہ کہتے ہوئے پیچھے پیچھے دوڑتے رہے یہاں تک کہ وہ پتھر بنی اسرائیل کی ایک جماعت (ایک گروہ) کے پاس جا پہنچا، دوسروں نے انہیں (مادر زاد) ننگا اپنی خلقت و بناوٹ میں لوگوں سے اچھا دیکھا۔ اللہ نے انہیں ان تمام عیبوں اور خرابیوں سے پاک و صاف دکھا دیا جو عیب وہ ان میں بتا رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا : پھر وہ پتھر رک گیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے کپڑے لے کر پہن لیے، پھر اپنی لاٹھی سے پتھر کو پیٹنے لگے۔ تو قسم اللہ کی پتھر پر لاٹھی کی مار سے تین، چار یا پانچ چوٹ کے نشان تھے۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی اس آیت «يا أيها الذين آمنوا لا تکونوا کالذين آذوا موسیٰ فبرأه اللہ مما قالوا وکان عند اللہ وجيها» اے ایمان لانے والو ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے جھوٹے الزامات سے تکلیف پہنچائی، تو اللہ نے انہیں اس تہمت سے بری قرار دیا، وہ اللہ کے نزدیک بڑی عزت و مرتبت والا تھا (الاحزاب : ٦٩) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے، اور اس میں ایک حدیث انس کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٢٨ (٣٤٠٤) ، وتفسیر سورة الأحزاب ١١ (٤٧٩٩) (تحفة الأشراف : ١٢٢٤٢، و ١٢٣٠٢، و ١٤٤٨٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3221

【273】

تفسیر سورت سبا

فروہ بن مسیک مرادی (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں اپنی قوم کے ان لوگوں کے ساتھ مل کر جو ایمان لے آئے ہیں ان لوگوں سے نہ لڑوں جو ایمان نہیں لائے ہیں، تو آپ نے مجھے ان سے لڑنے کی اجازت دے دی، اور مجھے میری قوم کا امیر بنادیا، جب میں آپ کے پاس سے اٹھ کر چلا گیا تو آپ نے میرے متعلق پوچھا کہ غطیفی نے کیا کیا ؟ آپ کو بتایا گیا کہ میں تو جا چکا ہوں، مجھے لوٹا لانے کے لیے میرے پیچھے آپ نے آدمی دوڑائے، تو میں آپ کے پاس آگیا، آپ اس وقت اپنے کچھ صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے، آپ نے فرمایا : لوگوں کو تم دعوت دو ، تو ان میں سے جو اسلام لے آئے اس کے اسلام و ایمان کو قبول کرلو، اور جو اسلام نہ لائے تو اس کے معاملے میں جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ میں تمہیں نیا (و تازہ) حکم نہ بھیجوں ۔ راوی کہتے ہیں : سبا کے متعلق (کلام پاک میں) جو نازل ہوا سو ہوا (اسی مجلس کے) ایک شخص نے پوچھا : اللہ کے رسول ! سبا کیا ہے، سبا کوئی سر زمین ہے، یا کسی عورت کا نام ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ نہ کوئی ملک ہے اور نہ ہی وہ کسی عورت کا نام بلکہ سبا نام کا ایک عربی شخص تھا جس کے دس بچے تھے، جن میں سے چھ کو اس نے باعث خیر و برکت جانا اور چار سے بدشگونی لی (انہیں منحوس جانا) تو جنہیں اس نے منحوس سمجھا وہ : لخم، جذام، غسان اور عاملہ ہیں، اور جنہیں مبارک سمجھا وہ ازد، اشعری، حمیر، مذحج، انمار اور کندہ ہیں ، ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! انمار کون سا قبیلہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : اسی قبیلہ کی شاخیں خشعم اور بجیلہ ہیں ۔ یہ حدیث ابن عباس سے مروی ہے، وہ اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحروف ٢٠ (٣٩٨٨) (تحفة الأشراف : ١١٠٢٣) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3222

【274】

تفسیر سورت سبا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب اللہ آسمان پر کسی معاملے کا حکم و فیصلہ صادر فرماتا ہے تو فرشتے عجز و انکساری کے ساتھ (حکم برداری کے جذبہ سے) اپنے پر ہلاتے ہیں۔ ان کے پر ہلانے سے پھڑپھڑانے کی ایسی آواز پیدا ہوتی ہے تو ان زنجیر پتھر پر گھسٹ رہی ہے، پھر جب ان کے دلوں کی گھبراہٹ جاتی رہتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں : تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے ؟ وہ جواب دیتے ہیں : حق بات کہی ہے۔ وہی بلند و بالا ہے ، آپ نے فرمایا : شیاطین (زمین سے آسمان تک) یکے بعد دیگرے (اللہ کے احکام اور فیصلوں کو اچک کر اپنے چیلوں تک پہنچانے کے لیے تاک و انتظار میں) لگے رہتے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الحجر ١ (٤٧٠١) ، والتوحید ٣٢ (٧٤٨١) ، سنن ابی داود/ الحروف ٢١ (٣٩٨٩) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٩٤) (تحفة الأشراف : ١٤٢٤٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ ارشاد باری تعالیٰ «ولا تنفع الشفاعة عنده إلا لمن أذن له حتی إذا فزع عن قلوبهم قالوا ماذا قال ربکم قالوا الحق وهو العلي الكبير» (سبأ : 23 ) کی طرف اشارہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (194) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3223

【275】

تفسیر سورت سبا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے کہ یکایک ایک تارہ ٹوٹا جس سے روشنی پھیل گئی، رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے پوچھا : زمانہ جاہلیت میں جب تم لوگ ایسی کوئی چیز دیکھتے تو کیا کہتے تھے ؟ انہوں نے کہا : ہم کہتے تھے کوئی بڑا آدمی مرے گا یا کوئی بڑی شخصیت جنم لے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ کسی کے مرنے کی وجہ سے نہیں ٹوٹتا، بلکہ اللہ بزرگ و برتر جب کسی امر کا فیصلہ کرتا ہے تو عرش کو اٹھانے والے فرشتے تسبیح و تہلیل کرتے ہیں، پھر ان سے قریبی آسمان کے فرشتے تسبیح کرتے ہیں، پھر ان سے قریبی، اس طرح تسبیح کا یہ غلغلہ ہمارے اس آسمان تک آ پہنچتا ہے، چھٹے آسمان والے فرشتے ساتویں آسمان والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں : تمہارے رب نے کیا کہا ہے ؟ (کیا حکم صادر فرمایا ہے ؟ ) تو وہ انہیں بتاتے ہیں، پھر اسی طرح ہر نیچے آسمان والے اوپر کے آسمان والوں سے پوچھتے ہیں، اس طرح بات دنیا سے قریبی آسمان والوں تک آ پہنچتی ہے۔ اور کی جانے والی بات چیت کو شیاطین اچک لیتے ہیں۔ (جب وہ اچکنے کی کوشش کرتے ہیں تو سننے سے باز رکھنے کے لیے تارہ پھینک کر) انہیں مارا جاتا ہے اور وہ اسے (اچکی ہوئی بات کو) اپنے یاروں (کاہنوں) کی طرف پھینک دیتے ہیں تو وہ جیسی ہے اگر ویسی ہی اسے پہنچاتے ہیں تو وہ حق ہوتی ہے، مگر لوگ اسے بدل دیتے اور گھٹا بڑھا دیتے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٢٨٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مولف نے یہ حدیث سابقہ آیت ہی کی تفسیر میں ذکر کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3224 یہ حدیث زہری سے بطریق : «علي بن الحسين عن ابن عباس عن رجال من الأنصار» مروی ہے کہتے ہیں : ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس تھے، آگے انہوں نے اسی کی ہم معنی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3224

【276】

تفسیر سورت فاطر

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس آیت «ثم أورثنا الکتاب الذين اصطفينا من عبادنا فمنهم ظالم لنفسه ومنهم مقتصد ومنهم سابق بالخيرات» پھر ہم نے اللہ کے حکم سے کتاب کا وارث ان لوگوں کو بنادیا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کیا تھا، تو ان میں سے بعض تو خود اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں، اور بعض میانہ روی اختیار کرنے والے ہیں اور ان میں سے بعض نیکی و بھلائی کے کاموں میں سبقت لے جانے والے لوگ ہیں (فاطر : ٣٢) ، کے سلسلے میں فرمایا : یہ سب ایک ہی درجے میں ہوں گے اور یہ سب کے سب جنت میں جانے والے لوگ ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٤٤٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3225

【277】

تفسیر سورت فاطر

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ بنو سلمہ (قبیلہ کے لوگ) مدینہ کے کسی نواحی علاقہ میں رہتے تھے۔ انہوں نے وہاں سے منتقل ہو کر مسجد (نبوی) کے قریب آ کر آباد ہونے کا ارادہ کیا تو یہ آیت «إنا نحن نحي الموتی ونکتب ما قدموا وآثارهم» ہم مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور وہ جو آگے بھیجتے ہیں اسے ہم لکھ لیتے ہیں اور (مسجد کی طرف آنے و جانے والے) آثار قدم بھی ہم (گن کر) لکھ لیتے ہیں (یس : ١٢) نازل ہوئی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے قدم لکھے جاتے ہیں، اس لیے تم اپنے گھر نہ بدلو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ثوری سے مروی یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٣٥٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (785) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3226

【278】

تفسیر سورت فاطر

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں مسجد میں سورج ڈوبنے کے وقت داخل ہوا، آپ وہاں تشریف فرما تھے۔ آپ نے فرمایا : ابوذر ! کیا تم جانتے ہو یہ (سورج) کہاں جاتا ہے ؟ ، ابوذر کہتے ہیں : میں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول ہی کو معلوم، آپ نے فرمایا : وہ جا کر سجدہ کی اجازت مانگتا ہے تو اسے اجازت دے دی جاتی ہے تو ان اس سے کہا جاتا ہے وہیں سے نکلو جہاں سے آئے ہو۔ پھر وہ (قیامت کے قریب) اپنے ڈوبنے کی جگہ سے نکلے گا ۔ ابوذر کہتے ہیں : پھر آپ نے «وذلک مستقر لها» یہی اس کے ٹھہرنے کی جگہ ہے پڑھا۔ راوی کہتے ہیں : یہی عبداللہ بن مسعود کی قرأت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢١٨٦ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مشہور قراءت ہے «والشمس تجري لمستقر لها ذلک تقدير العزيز العليم» (یس : ٣٨) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح وهو مکرر (2295) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3227

【279】

تفسیر سورت صافات

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کسی نے بھی کسی چیز کی طرف دعوت دی قیامت کے دن وہ اسی کے ساتھ چمٹا اور ٹھہرا رہے گا، وہ اسے چھوڑ کر آگے نہیں جاسکتا اگرچہ ایک آدمی نے ایک آدمی ہی کو بلایا ہو پھر آپ نے آیت «وقفوهم إنهم مسئولون ما لکم لا تناصرون» انہیں روک لو، ان سے پوچھا جائے گا : کیا بات ہے ؟ تم لوگ ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے ؟ ( الصافات : ٢ ٤- ٢٥) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٤٨) (ضعیف) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 50) ، ظلال الجنة (112) // ضعيف الجامع الصغير (5170) ، ضعيف ابن ماجة (36 - 208) يرويه عن أبي هريرة // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3228

【280】

تفسیر سورت صافات

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے آیت کریمہ : «وأرسلناه إلى مائة ألف أو يزيدون» ہم نے انہیں (یعنی یونس کو) ایک لاکھ بلکہ اس سے کچھ زیادہ کی طرف بھیجا (الصافات : ٧٧) ، کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : ایک لاکھ بیس ہزار تھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥) (ضعیف الإسناد) (اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3229

【281】

تفسیر سورت صافات

سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے قول «وجعلنا ذريته هم الباقين» ہم نے نوح ہی کی اولاد کو باقی رکھا (الصافات : ٧٧) ، کی تفسیر میں فرمایا : (نوح کے تین بیٹے) حام، سام اور یافث تھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف سعید بن بشیر کی روایت سے ہی جانتے ہیں، ٢- یافت «ت» سے اور یافث «ث» سے دونوں طرح سے کہا جاتا ہے «یفث» بھی کہا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٦٠٥) (ضعیف الإسناد) (حسن بصری کے سمرہ (رض) سے سماع میں سخت اختلاف ہے، نیز حسن مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کیے ہوئے ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3230

【282】

تفسیر سورت صافات

سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : «سام» «ابوالعرب» (عربوں کے باپ) ہیں اور «حام» «ابوالحبش» (اہل حبشہ کے باپ) ہیں اور «یافث» «ابوالروم» (رومیوں کے باپ) ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٦٠٦) (ضعیف) (دیکھیے پچھلی حدیث کا بیان) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (3683) // ضعيف الجامع الصغير (3214) ، وسيأتي برقم (826 / 4207) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3231

【283】

تفسیر سورت ص

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ابوطالب بیمار پڑے، تو قریش ان کے پاس آئے، اور نبی اکرم ﷺ بھی آئے، ابوطالب کے پاس صرف ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ تھی، ابوجہل اٹھا کہ وہ آپ کو وہاں بیٹھنے سے روک دے، اور ان سب نے ابوطالب سے آپ کی شکایت کی، ابوطالب نے آپ سے کہا : بھتیجے ! تم اپنی قوم سے کیا چاہتے ہو ؟ آپ نے فرمایا : میں ان سے صرف ایک ایسا کلمہ تسلیم کرانا چاہتا ہوں جسے یہ قبول کرلیں تو اس کلمہ کے ذریعہ پورا عرب مطیع و فرماں بردار ہوجائے گا اور عجم کے لوگ انہیں جزیہ ادا کریں گے، انہوں نے کہا : ایک ہی کلمہ ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، ایک ہی کلمہ ، آپ نے فرمایا : چچا جان ! آپ لوگ «لا إلہ الا اللہ» کہہ دیجئیے، انہوں نے کہا : ایک معبود کو تسلیم کرلیں ؟ یہ بات تو ہم نے اگلے لوگوں میں نہیں سنی ہے، یہ تو صرف بناوٹی اور (تمہاری) گھڑی ہوئی بات ہے، (ہم یہ بات تسلیم نہیں کرسکتے) ابن عباس کہتے ہیں : اسی پر ان ہی لوگوں سے متعلق سورة ص کی آیات «ص والقرآن ذي الذکر بل الذين کفروا في عزة وشقاق) إلى قوله (ما سمعنا بهذا في الملة الآخرة إن هذا إلا اختلاق» صٓ، اس نصیحت والے قرآن کی قسم، بلکہ کفار غرور و مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں، ہم نے ان سے پہلے بھی بہت سی امتوں کو تباہ کر ڈالا، انہوں نے ہرچند چیخ و پکار کی لیکن وہ چھٹکارے کا نہ تھا اور کافروں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ انہیں میں سے ایک انہیں ڈرانے والا آگیا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے، کیا اس نے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کردیا، واقعی یہ تو بہت ہی عجیب بات ہے، ان کے سردار یہ کہتے ہوئے چلے کہ چلو جی اور اپنے معبودوں پر جمے رہو یقیناً اس بات میں تو کوئی غرض ہے، ہم نے تو یہ بات پچھلے دین میں بھی نہیں سنی، کچھ نہیں یہ تو صرف گھڑنت ہے (ص : ١- ٧) ، تک نازل ہوئیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- یحییٰ بن سعید نے بھی سفیان سے، سفیان نے اعمش سے اسی حدیث کے مثل حدیث بیان کی، اور یحییٰ بن سعید نے یحییٰ بن عباد کے بجائے یحییٰ بن عمارہ کہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٥٦٤٥، و ٥٦٤٧) (ضعیف الإسناد) (سند میں یحییٰ بن عباد یا یحییٰ بن عمارہ لین الحدیث راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3232 اس سند سے سفیان ثوری نے اعمش سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف الإسناد) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3232

【284】

تفسیر سورت ص

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا بزرگ و برتر رب بہترین صورت میں میرے پاس آیا ، مجھے خیال پڑتا ہے کہ آپ نے فرمایا : - خواب میں - رب کریم نے کہا : اے محمد ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ «ملا ٔ اعلی» (اونچے مرتبے والے فرشتے) کس بات پر آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں ، آپ نے فرمایا : میں نے کہا کہ میں نہیں جانتا تو اللہ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے بیچ میں رکھ دیا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان محسوس کی، یا اپنے سینے میں یا «نحری» کہا، (ہاتھ کندھے پر رکھنے کے بعد) آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، وہ میں جان گیا، رب کریم نے فرمایا : اے محمد ! کیا تم جانتے ہو «ملا ٔ اعلی» میں کس بات پر جھگڑا ہو رہا ہے، (بحث و تکرار ہو رہی ہے) ؟ میں نے کہا : ہاں، کفارات گناہوں کو مٹا دینے والی چیزوں کے بارے میں (کہ وہ کون کون سی چیزیں ہیں ؟ ) (فرمایا) کفارات یہ ہیں : ( ١) نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ کر دوسری نماز کا انتظار کرنا، ( ٢) پیروں سے چل کر نماز باجماعت کے لیے مسجد میں جانا، ( ٣) ناگواری کے باوجود باقاعدگی سے وضو کرنا، جو ایسا کرے گا بھلائی کی زندگی گزارے گا، اور بھلائی کے ساتھ مرے گا اور اپنے گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہوجائے گا جس طرح وہ اس دن پاک و صاف تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا، رب کریم کہے گا : اے محمد ! جب تم نماز پڑھ چکو تو کہو :«اللهم إني أسألک فعل الخيرات وترک المنکرات وحب المساکين وإذا أردت بعبادک فتنة فاقبضني إليك غير مفتون» اے اللہ میں تجھ سے بھلے کام کرنے کی توفیق طلب کرتا ہوں، اور ناپسندیدہ و منکر کاموں سے بچنا چاہتا ہوں اور مسکینوں سے محبت کرنا چاہتا ہوں، اور جب تو اپنے بندوں کو کسی آزمائش میں ڈالنا چاہیئے تو فتنے میں ڈالے جانے سے پہلے مجھے اپنے پاس بلا لے ، آپ نے فرمایا : درجات بلند کرنے والی چیزیں ( ١) سلام کو پھیلانا عام کرنا ہے، ( ٢) ( محتاج و مسکین) کو کھانا کھلانا ہے، ( ٣) رات کو تہجد پڑھنا ہے کہ جب لوگ سو رہے ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- کچھ محدثین نے ابوقلابہ اور ابن عباس (رض) کے درمیان اس حدیث میں ایک شخص کا ذکر کیا ہے۔ (اور وہ خالد بن لجلاج ہیں ان روایت کے آگے آرہی ہے) ٢- اس حدیث کو قتادہ نے ابوقلابہ سے روایت کی ہے اور ابوقلابہ نے خالد بن لجلاج سے، اور خالد بن لجلاج نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٤١٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مولف نے اس حدیث کو ارشاد باری تعالیٰ «ما کان لي من علم بالملإ الأعلی إذ يختصمون» (ص : 69 ) کی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الظلال (388) ، التعليق الرغيب (1 / 98 - 126) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3233

【285】

تفسیر سورت ص

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے میرا رب (خواب میں) بہترین صورت میں نظر آیا، اور اس نے مجھ سے کہا : محمد ! میں نے کہا : میرے رب ! میں تیری خدمت میں حاضر و موجود ہوں، کہا : اونچے مرتبے والے فرشتوں کی جماعت کس بات پر جھگڑ رہی ہے ؟ میں نے عرض کیا : (میرے) رب ! میں نہیں جانتا، (اس پر) میرے رب نے اپنا دست شفقت و عزت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان (سینے میں) محسوس کی، اور مجھے مشرق و مغرب کے درمیان کی چیزوں کا علم حاصل ہوگیا، (پھر) کہا : محمد ! میں نے عرض کیا : (میرے) رب ! میں حاضر ہوں، اور تیرے حضور میری موجودگی میری خوش بختی ہے، فرمایا : فرشتوں کی اونچے مرتبے والی جماعت کس بات پر جھگڑ رہی ہے ؟ میں نے کہا : انسان کا درجہ و مرتبہ بڑھانے والی اور گناہوں کو مٹانے والی چیزوں کے بارے میں (کہ وہ کیا کیا ہیں) تکرار کر رہے ہیں، جماعتوں کی طرف جانے کے لیے اٹھنے والے قدموں کے بارے میں اور طبیعت کے نہ چاہتے ہوئے بھی مکمل وضو کرنے کے بارے میں۔ اور ایک نماز پڑھ کر دوسری نماز کا انتظار کرنے کے بارے میں، جو شخص ان کی پابندی کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارے گا، اور خیر (بھلائی) ہی کے ساتھ مرے گا، اور اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک و صاف ہوجائے گا جس دن کہ ان کی ماں نے جنا تھا، اور وہ گناہوں سے پاک و صاف تھا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں معاذ بن جبل اور عبدالرحمٰن بن عائش (رض) ١ ؎ کی بھی نبی اکرم ﷺ سے روایت ہے، اور اس پوری لمبی حدیث کو معاذ بن جبل نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا، (اس میں ہے) میں نے ذرا سی اونگھ لی، تو مجھے گہری نیند آ گئی، پھر میں نے اپنے رب کو بہترین صورت میں دیکھا، میرے رب نے کہا : «فيم يختصم الملأ الأعلی» فرشتوں کی (سب سے اونچے مرتبے کی جماعت) کس بات پر لڑ جھگڑ رہی ہے ؟ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ٥٧٨٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : معاذ بن جبل (رض) کی حدیث تو خود مؤلف کے یہاں آرہی ہے ، اور عبدالرحمٰن بن عائش (رض) کی حدیث بغوی کی شرح السنہ میں ہے ، ان عبدالرحمٰن بن عائش کی صحابیت کے بارے میں اختلاف ہے ، صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ صحابی نہیں ہیں ، معاذ کی اگلی حدیث بھی انہی کے واسطہ سے ہے اور ان کے اور معاذ کے درمیان بھی ایک راوی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (3233) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3234

【286】

تفسیر سورت ص

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ ایک صبح رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھانے سے روکے رکھا، یہاں تک کہ قریب تھا کہ ہم سورج کی ٹکیہ کو دیکھ لیں، پھر آپ تیزی سے (حجرہ سے) باہر تشریف لائے، لوگوں کو نماز کھڑی کرنے کے لیے بلایا، آپ نے نماز پڑھائی، اور نماز مختصر کی، پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو آواز دے کر لوگوں کو (اپنے قریب) بلایا، فرمایا : اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ، پھر آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے، آپ نے فرمایا : میں آپ حضرات کو بتاؤں گا کہ فجر میں بروقت مجھے تم لوگوں کے پاس مسجد میں پہنچنے سے کس چیز نے روک لیا، میں رات میں اٹھا، وضو کیا، (تہجد کی) نماز پڑھی جتنی بھی میرے نام لکھی گئی تھی، پھر میں نماز میں اونگھنے لگا یہاں تک کہ مجھے گہری نیند آ گئی، اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ میں اپنے بزرگ و برتر رب کے ساتھ ہوں وہ بہتر صورت و شکل میں ہے، اس نے کہا : اے محمد ! میں نے کہا : میرے رب ! میں حاضر ہوں، اس نے کہا : «ملا ٔ الأعلی» (فرشتوں کی اونچے مرتبے والی جماعت) کس بات پر جھگڑ رہی ہے ؟ میں نے عرض کیا : رب کریم میں نہیں جانتا، اللہ تعالیٰ نے یہ بات تین بار پوچھی، آپ نے فرمایا : میں نے اللہ ذوالجلال کو دیکھا کہ اس نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا یہاں تک کہ میں نے اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے کے اندر محسوس کی، ہر چیز میرے سامنے روشن ہو کر آ گئی، اور میں جان گیا (اور پہچان گیا ) پھر اللہ عزوجل نے فرمایا : اے محمد ! میں نے کہا : رب ! میں حاضر ہوں، اس نے کہا : «ملا ٔ الأعلی» کے فرشتے کس بات پر جھگڑ رہے ہیں ؟ میں نے کہا : «کفارات» کے بارے میں، اس نے پوچھا : وہ کیا ہیں ؟ میں نے کہا : نماز باجماعت کے لیے پیروں سے چل کر جانا، نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ کر (دوسری نماز کے انتظار میں) رہنا، ناگواری کے وقت بھی مکمل وضو کرنا، اس نے پوچھا : پھر کس چیز کے بارے میں (بحث کر رہے ہیں) ؟ میں نے کہا : (محتاجوں اور ضرورت مندوں کو) کھانا کھلانے کے بارے میں، نرم بات چیت میں، جب لوگ سو رہے ہوں اس وقت اٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں، رب کریم نے فرمایا : مانگو (اور مانگتے وقت کہو) کہو :«اللهم إني أسألک فعل الخيرات وترک المنکرات وحب المساکين وأن تغفر لي وترحمني وإذا أردت فتنة قوم فتوفني غير مفتون أسألک حبک وحب من يحبک وحب عمل يقرب إلى حبك» اے اللہ ! میں تجھ سے بھلے کاموں کے کرنے اور منکرات (ناپسندیدہ کاموں) سے بچنے کی توفیق طلب کرتا ہوں، اور مساکین سے محبت کرنا چاہتا ہوں، اور چاہتا ہوں کہ تجھے معاف کر دے اور مجھ پر رحم فرما، اور جب تو کسی قوم کو آزمائش میں ڈالنا چاہے، تو مجھے تو فتنہ میں ڈالنے سے پہلے موت دیدے، میں تجھ سے اور اس شخص سے جو تجھ سے محبت کرتا ہو، محبت کرنے کی توفیق طلب کرتا ہوں، اور تجھ سے ایسے کام کرنے کی توفیق چاہتا ہوں جو کام تیری محبت کے حصول کا سبب بنے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ حق ہے، اسے پڑھو یاد کرو اور دوسروں کو پڑھاؤ سکھاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور یہ بھی کہا کہ یہ حدیث ولید بن مسلم کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے وہ عبدالرحمٰن بن یزید بن جابر سے روایت کرتے ہیں، کہتے ہیں : ہم سے بیان کیا خالد بن لجلاج نے، وہ کہتے ہیں : مجھ سے بیان کیا عبدالرحمٰن بن عائش حضرمی نے، وہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آگے یہی حدیث بیان کی، اور یہ غیر محفوظ ہے، ولید نے اسی طرح اپنی حدیث میں جسے انہوں نے عبدالرحمٰن بن عائش سے روایت کیا ہے ذکر کیا ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، جبکہ بشر بن بکر نے، روایت کیا عبدالرحمٰن بن یزید بن جابر سے، یہ حدیث اسی سند کے ساتھ، انہوں نے روایت کیا، عبدالرحمٰن بن عائش سے اور عبدالرحمٰن نے نبی اکرم ﷺ سے (بلفظ «عن» اور یہ زیادہ صحیح ہے، کیونکہ عبدالرحمٰن بن عائش نے نبی اکرم ﷺ سے نہیں سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٣٦٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر العلو (119 / 80) ، الظلال (388) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3235

【287】

سورہ زمر کی تفسیر

عبداللہ بن زبیر (رض) اپنے باپ (زبیر ) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آیت «ثم إنكم يوم القيامة عند ربکم تختصمون» پھر تم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس (توحید و شرک کے سلسلے میں) جھگڑ رہے ہو گے (الروم : ٣١) ، نازل ہوئی تو زبیر بن عوام (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! اس دنیا میں ہمارا آپس میں جو لڑائی جھگڑا ہے اس کے بعد بھی دوبارہ ہمارے درمیان (آخرت میں) لڑائی جھگڑے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ، انہوں نے کہا : پھر تو معاملہ بڑا سخت ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٦٢٩) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3236

【288】

سورہ زمر کی تفسیر

اسماء بنت یزید کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو آیت «يا عبادي الذين أسرفوا علی أنفسهم لا تقنطوا من رحمة اللہ إن اللہ يغفر الذنوب جميعا» اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے (یعنی گناہ کیے ہیں) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوؤ، اللہ سبھی گناہ معاف کردیتا ہے (الزمر : ٥٣) ، پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ اللہ کو کوئی پروا نہیں ہوتی (کہ اللہ کی اس چھوٹ اور مہربانی سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے اور کون محروم رہ رہا ہے) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف ثابت کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ شہر بن حوشب سے روایت کرتے ہیں، ٣- شہر بن حوشب ام سلمہ انصاریہ سے روایت کرتے ہیں، اور ام سلمہ انصاریہ اسماء بنت یزید ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٧٧١) (ضعیف الإسناد) (سند میں ” شہر بن حوشب “ ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : احمد کی روایت میں «لا يبالي» کے بعد آیت کا اگلا ٹکڑا بھی ہے «إن اللہ هو الغفور الرحيم» (الشوری : ٥) صاحب تحفہ الأحوذی فرماتے ہیں : شاید پہلے «لا يبالي» کا لفظ بھی آیت میں شامل تھا جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3237

【289】

سورہ زمر کی تفسیر

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : محمد ! اللہ آسمانوں کو ایک انگلی پر روکے ہوئے ہے، زمینوں کو ایک انگلی پر اٹھائے ہوئے ہے، پہاڑوں کو ایک انگلی سے تھامے ہوئے ہے، اور مخلوقات کو ایک انگلی پر آباد کئے ہوئے ہے، پھر کہتا ہے : میں ہی (ساری کائنات کا) بادشاہ ہوں۔ (یہ سن کر) آپ ﷺ کھلکھلا کر ہنس پڑے، فرمایا : پھر بھی لوگوں نے اللہ کی قدر و عزت نہ کی جیسی کہ کرنی چاہیئے تھی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الزمر ٢ (٤٨١١) ، والتوحید ١٩ (٧٤١٤) ، و ٢٦ (٧٤٥١) ، و ٣٦ (٧٥١٣) ، صحیح مسلم/المنافقین ح ١٩ (٢٧٨٦) (تحفة الأشراف : ٤٩٠٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الظلال (541 - 544) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3238

【290】

سورہ زمر کی تفسیر

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ پس نبی اکرم ﷺ تعجب سے اور (اس کی باتوں کی) تصدیق میں ہنس پڑے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الظلال (541 - 544) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3239

【291】

سورہ زمر کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک یہودی کا نبی اکرم ﷺ کے پاس سے گزر ہوا، نبی اکرم ﷺ نے اس (یہودی) سے کہا : ہم سے کچھ بات چیت کرو ، اس نے کہا : ابوالقاسم ! آپ کیا کہتے ہیں : جب اللہ آسمانوں کو اس پر اٹھائے گا ١ ؎ اور زمینوں کو اس پر اور پانی کو اس پر اور پہاڑوں کو اس پر اور ساری مخلوق کو اس پر، ابوجعفر محمد بن صلت نے (یہ بات بیان کرتے ہوئے) پہلے چھنگلی (کانی انگلی) کی طرف اشارہ کیا، اور یکے بعد دیگرے اشارہ کرتے ، ہوئے انگوٹھے تک پہنچے، (اس موقع پر بطور جواب) اللہ تعالیٰ نے «وما قدروا اللہ حق قدره» انہوں نے اللہ کی (ان ساری قدرتوں کے باوجود) صحیح قدر و منزلت نہ جانی، نہ پہچانی (الزمر : ٦٧) ، نازل کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢- ہم اسے (ابن عباس (رض) کی روایت سے) صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٣- ابوکدینہ کا نام یحییٰ بن مہلب ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو دیکھا ہے، انہوں نے یہ حدیث حسن بن شجاع سے اور حسن نے محمد بن صلت سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٤٥٧) (ضعیف) (سند میں عطاء بن السائب مختلط راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : احمد کی روایت میں یوں ہے «یوم یحمل…»۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف المصدر نفسه // هو کتاب ظلال الجنة في تخريج أحاديث کتاب السنة لابن أبي عاصم برقم (545) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3240

【292】

سورہ زمر کی تفسیر

مجاہد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا : کیا تمہیں معلوم ہے جہنم کتنی بڑی ہے ؟ میں نے کہا : نہیں، انہوں نے کہا : بیشک، قسم اللہ کی ! مجھے بھی معلوم نہ تھا، (مگر) عائشہ (رض) نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے آیت «والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه» ساری زمین قیامت کے دن رب کی ایک مٹھی میں ہوگی اور سارے آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے (الزمر : ٦٧) ، کے تعلق سے پوچھا : رسول اللہ ! پھر اس دن لوگ کہاں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : جہنم کے پل پر، (اس سے مجھے معلوم ہوگیا کہ جہنم بہت لمبی چوڑی ہوگی) اس حدیث کے سلسلے میں پوری ایک کہانی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ١٦٢٢٨) (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3241

【293】

سورہ زمر کی تفسیر

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول ! «والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه» زمین ساری کی ساری قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی، اور آسمان سارے کے سارے اس کے ہاتھ لپٹے ہوئے ہوں گے پھر اس دن مومن لوگ کہاں پر ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : عائشہ ! وہ لوگ (پل) صراط پر ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3242

【294】

سورہ زمر کی تفسیر

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں کیسے چین سے رہ سکتا ہوں جب کہ صور پھونکنے والا صور کو منہ سے لگائے ہوئے اپنا رخ اسی کی طرف کئے ہوئے ہے، اسی کی طرف کان لگائے ہوئے ہے، انتظار میں ہے کہ اسے صور پھونکنے کا حکم دیا جائے تو وہ فوراً صور پھونک دے، مسلمانوں نے کہا : ہم (ایسے موقعوں پر) کیا کہیں اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : کہو : «حسبنا اللہ ونعم الوکيل توکلنا علی اللہ ربنا وربما» ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے، ہم نے اپنے رب اللہ پر بھروسہ کر رکھا ہے راوی کہتے ہیں : کبھی کبھی سفیان نے «توکلنا علی اللہ ربنا» کے بجائے «علی اللہ توکلنا» روایت کیا ہے۔ (اس کے معنی بھی وہی ہیں) ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اعمش نے بھی اسے عطیہ سے اور عطیہ نے ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٢٤٤) (صحیح) (سند میں عطیہ ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : مولف نے یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ : «ونفخ في الصور فصعق من في السماوات ومن في الأرض» (الزمر : 68) کی تفسیر میں ذکر کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1078 - 1079) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3243

【295】

سورہ زمر کی تفسیر

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے کہا : اللہ کے رسول ! صور کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ایک سینگ (بھوپو) ہے جس میں پھونکا جائے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے اور ہم اسے صرف سلیمان تیمی کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٤٣٠ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : تو آواز گونجتی اور دور تک جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1080) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3244

【296】

سورہ زمر کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا : نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تمام انسانوں میں سے چن لیا، (یہ سنا) تو ایک انصاری شخص نے ہاتھ اٹھا کر ایک طمانچہ اس کے منہ پر مار دیا، کہا : تو ایسا کہتا ہے جب کہ (تمام انسانوں اور جنوں کے سردار) نبی اکرم ﷺ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ (دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے) رسول اللہ ﷺ نے آیت : «ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء اللہ ثم نفخ فيه أخری فإذا هم قيام ينظرون» جب صور پھونکا جائے گا آواز کی کڑک سے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے گا آسمانوں و زمین کے سبھی لوگ غشی کھا جائیں گے، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، تو وہ کھڑے ہو کر دیکھتے ہوں گے (کہ ان کے ساتھ) کیا کیا جاتا ہے ؟ (الزمر : ٦٩) ، پڑھی اور کہا : سب سے پہلا سر اٹھانے والا میں ہوں گا تو موسیٰ مجھے عرش کا ایک پایہ پکڑے ہوئے دکھائی دیں گے، میں نہیں کہہ سکتا کہ موسیٰ نے مجھ سے پہلے سر اٹھایا ہوگا یا وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے «إلا من شاء الله» کہہ کر مستثنیٰ کردیا ہے ٢ ؎ اور جس نے کہا : میں یونس بن متی (علیہ السلام) سے بہتر ہوں اس نے غلط کہا ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٠٦٢) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : روز حشر کا یہ واقعہ سنانے کہ آپ ﷺ موسیٰ (علیہ السلام) کی فضیلیت ذکر کرنا چاہتے ہیں نیز اپنی خاکساری کا اظہار فرما رہے ہیں ، اپنی خاکساری ظاہری کرنا دوسری بات ہے ، اور فی نفسہ موسیٰ (علیہ السلام) کا تمام انبیاء کے افضل ہونا اور بات ہے البتہ اس طرح کسی نبی کا نام لے کر آپ کے ساتھ مقابلہ کر کے آپ کی فضیلت بیان کرنے والے کو تاؤ میں آ کر مار دینا مناسب نہیں ہے ، آپ نے اس وقت یہی تعلیم دہی ہے۔ ٣ ؎ : حقیقت میں نبی اکرم ﷺ سب سے افضل نبی ہیں ، اور سیدالأنبیاء و الرسل ہیں ، لیکن انبیاء کا آپس میں تقابل عام حالات میں صحیح نہیں ہے ، بلکہ خلاف ادب ہے ، اس کا تواضح و انکساری اور انبیاء و رسل کی غرض و احترام میں آپ نے ادب سکھایا اور اس طرح کے موازنہ پر تنقید فرمائی۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح تخريج الطحاوية ص // (160 - // 162) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3245

【297】

سورہ زمر کی تفسیر

ابوسعید اور ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پکارنے والا پکار کر کہے گا : (جنت میں) تم ہمیشہ زندہ رہو گے، کبھی مرو گے نہیں، تم صحت مند رہو گے، کبھی بیمار نہ ہو گے، کبھی محتاج و حاجت مند نہ ہو گے، اللہ تعالیٰ کے قول : «وتلک الجنة التي أورثتموها بما کنتم تعملون» یہی وہ جنت ہے جس کے تم اپنے نیک اعمال کے بدلے وارث بنائے جاؤ گے (الزخرف : ٧٢) ، کا یہی مطلب ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابن مبارک وغیرہ نے یہ حدیث ثوری سے روایت کی ہے، اور انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنة ٨ (٢٨٣٧) (تحفة الأشراف : ٣٩٦٣، ١٢١٩٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3246

【298】

سورہ مومن کی تفسیر

نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : دعا ہی عبادت ہے، پھر آپ نے آیت : «وقال ربکم ادعوني أستجب لکم إن الذين يستکبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين» (غافر : 60) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٩٦٩ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : تمہارے رب نے فرمایا : مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ جو لوگ بڑا بن کر میری عبادت ( دعا ) سے منہ پھیرتے ہیں وہ ذلت خواری کے ساتھ جہنم میں جائیں گے ( المؤمن : ٦٠) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3828) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3247

【299】

حم السجدہ کی تفسیر

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ تین آدمی خانہ کعبہ کے قریب جھگڑ بیٹھے، دو قریشی تھے اور ایک ثقفی، یا دو ثقفی تھے اور ایک قریشی، ان کے پیٹوں پر چربی چڑھی تھی، ان میں سے ایک نے کہا : کیا سمجھتے ہو کہ ہم جو کہتے ہیں اللہ اسے سنتا ہے، دوسرے نے کہا : ہم جب زور سے بولتے ہیں تو وہ سنتا ہے اور جب ہم دھیرے بولتے ہیں تو وہ نہیں سنتا۔ تیسرے نے کہا : اگر وہ ہمارے زور سے بولنے کو سنتا ہے تو وہ ہمارے دھیرے بولنے کو بھی سنتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :«وما کنتم تستترون أن يشهد عليكم سمعکم ولا أبصارکم ولا جلودکم» (فصلت : 22) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة المومن ١ (٤٨١٦) ، و ٢ (٤٨١٧) ، والتوحید ٤١ (٧٥٢١) ، صحیح مسلم/المنافقین ح ٥ (٢٧٧٥) (تحفة الأشراف : ٩٣٣٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور تم ( اپنی بداعمالیاں ) اس وجہ سے پوشیدہ رکھتے ہی نہ تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں گواہی دیں گی ، ہاں تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو اس میں سے بہت سے اعمال سے اللہ بیخبر ہے ( حم السجدہ : ٢٢) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3248

【300】

حم السجدہ کی تفسیر

عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : میں کعبہ کے پردوں میں چھپا ہوا کھڑا تھا، تین ناسمجھ جن کے پیٹوں کی چربی زیادہ تھی) آئے، ایک قریشی تھا اور دو اس کے سالے ثقفی تھے، یا ایک ثقفی تھا اور دو اس کے قریشی سالے تھے، انہوں نے ایک ایسی زبان میں بات کی جسے میں سمجھ نہ سکا، ان میں سے ایک نے کہا : تمہارا کیا خیال ہے : کیا اللہ ہماری یہ بات چیت سنتا ہے ؟ دوسرے نے کہا : جب ہم بآواز بلند بات چیت کرتے ہیں تو سنتا ہے، اور جب ہم اپنی آواز بلند نہیں کرتے ہیں تو نہیں سنتا ہے، تیسرے نے کہا : اگر وہ ہماری بات چیت کا کچھ حصہ سن سکتا ہے تو وہ سبھی کچھ سن سکتا ہے، عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں : میں نے اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر آیت «وما کنتم تستترون أن يشهد عليكم سمعکم ولا أبصارکم ولا جلودکم» (فصلت : 22) سے لے کر «فأصبحتم من الخاسرين» (فصلت : 23) تک نازل فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں ـ: ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ٩٣٩٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3249 اس سند سے سفیان ثوری نے اعمش سے، اعمش نے عمارہ بن عمیر سے اور عمارہ نے وہب بن ربیعہ کے واسطہ سے عبداللہ سے اسی طرح روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ٩٥٩٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3249

【301】

حم السجدہ کی تفسیر

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت «إن الذين قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا» (فصلت : 30) ١ ؎ پڑھی، آپ نے فرمایا : بہتوں نے تو «ربنا الله» کہنے کے باوجود بھی کفر کیا، سنو جو اپنے ایمان پر آخر وقت تک قائم رہ کر مرا وہ استقامت کا راستہ اختیار کرنے والوں میں سے ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٣- میں نے ابوزرعہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ عفان نے عمرو بن علی سے ایک حدیث روایت کی ہے، ٤- اس آیت کے سلسلے نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر و عمر (رض) سے «استقاموا» کا معنی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٤٢٣) (ضعیف الإسناد) (سند میں سہیل بن ابی حزم ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : (واقعی ) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اسی پر قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں اور کہتے ہیں : تم نہ ڈرو ، نہ غم کرو ، اور اس جنت کا خوشخبری سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ( حم السجدۃ : ٣٠) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (4079) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3250

【302】

سورہ شوری کی تفسیر

طاؤس کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس (رض) سے اس آیت «قل لا أسألكم عليه أجرا إلا المودة في القربی» اے نبی ! کہہ دو میں تم سے (اپنی دعوت و تبلیغ کا) کوئی اجر نہیں مانگتا، ہاں چاہتا ہوں کہ قرابت داروں میں الفت و محبت پیدا ہو (الشوریٰ : ٢٣) ، کے بارے میں پوچھا گیا، اس پر سعید بن جبیر نے کہا : «قربیٰ» سے مراد آل محمد ہیں، ابن عباس نے کہا : (تم نے رشتہ داری کی تشریح میں جلد بازی کی ہے) قریش کی کوئی شاخ ایسی نہیں تھی جس میں آپ کی رشتہ داری نہ ہو، (آیت کا مفہوم ہے) اللہ نے کہا : میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا (بس میں تو یہ چاہتا ہوں کہ) ہمارے اور تمہارے درمیان جو رشتہ داری ہے اس کا پاس و لحاظ رکھو اور ایک دوسرے سے حسن سلوک کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عباس (رض) سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ١ (٣٤٩٧) ، وتفسیر سورة الشوری ١ (٤٨١٨) (تحفة الأشراف : ٥٧٢٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3251

【303】

سورہ شوری کی تفسیر

بنی مرہ کے ایک شیخ کہتے ہیں کہ میں کوفہ آیا مجھے بلال بن ابوبردہ ١ ؎ کے حالات کا علم ہوا تو میں نے (جی میں) کہا کہ ان میں عبرت و موعظت ہے، میں ان کے پاس آیا، وہ اپنے اس گھر میں محبوس و مقید تھے جسے انہوں نے خود (اپنے عیش و آرام کے لیے) بنوایا تھا، عذاب اور مار پیٹ کے سبب ان کی ہر چیز کی صورت و شکل بدل چکی تھی، وہ چیتھڑا پہنے ہوئے تھے، میں نے کہا : اے بلال ! تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، میں نے آپ کو اس وقت بھی دیکھا ہے جب آپ بغیر دھول اور گردوغبار کے (نزاکت و نفاست سے) ناک پکڑ کر ہمارے پاس سے گزر جاتے تھے، اور آج آپ اس حالت میں ہیں ؟ انہوں نے کہا : تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو ؟ میں نے کہا : بنی مرہ بن عباد سے، انہوں نے کہا : کیا میں تم سے ایک ایسی حدیث نہ بتاؤں جس سے امید ہے کہ اللہ تمہیں اس سے فائدہ پہنچائے گا، میں نے کہا : پیش فرمائیے، انہوں نے کہا : مجھ سے میرے باپ ابوبردہ نے بیان کیا اور وہ اپنے باپ ابوموسیٰ اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کسی بندے کو چھوٹی یا بڑی جو بھی مصیبت پہنچتی ہے اس کے گناہ کے سبب ہی پہنچتی ہے، اور اللہ اس کے جن گناہوں سے درگزر فرما دیتا ہے وہ تو بہت ہوتے ہیں ۔ پھر انہوں نے آیت پڑھی «وما أصابکم من مصيبة فبما کسبت أيديكم ويعفو عن کثير» (الشوری : 30) پڑھی ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٠٧٩) (ضعیف الإسناد) (سند میں ” شیخ من بنی مرہ “ مبہم راوی ہے، نیز عبیداللہ بن الوازع الکلابی البصری مجہول ہے) وضاحت : ١ ؎ : یہ ابوموسیٰ اشعری (رض) کے پوتے تھے ، بصرہ کے قاضی تھے ، بڑے متکبر اور ظالم تھے ، کسی وجہ سے قید کردیئے گئے تھے۔ ٢ ؎ : تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے پہنچتی ہے ، اور بہت سے گناہ تو وہ ( یونہی ) معاف کردیتا ہے ، یعنی ان کی وجہ سے مصیبت میں نہیں ڈالتا ( الشوریٰ : ٣٠) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3252

【304】

سورہ زخرف کی تفسیر

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی قوم ہدایت پانے کے بعد جب گمراہ ہوجاتی ہے تو جھگڑا لو اور مناظرہ باز ہوجاتی ہے، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی «ما ضربوه لك إلا جدلا بل هم قوم خصمون» یہ لوگ تیرے سامنے صرف جھگڑے کے طور پر کہتے ہیں بلکہ یہ لوگ طبعاً جھگڑالو ہیں (الزخرف : ٥٨) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ہم اسے صرف حجاج بن دینار کی روایت سے جانتے ہیں، حجاج ثقہ، مقارب الحدیث ہیں اور ابوغالب کا نام حزور ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٧ (٤٨) (تحفة الأشراف : ٤٩٣٦) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (48) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3253

【305】

سورہ دخان کی تفسیر

مسروق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آ کر کہا : ایک قصہ گو (واعظ) قصہ بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا (قیامت کے قریب) زمین سے دھواں نکلے گا، جس سے کافروں کے کان بند ہوجائیں گے، اور مسلمانوں کو زکام ہوجائے گا۔ مسروق کہتے ہیں : یہ سن کر عبداللہ غصہ ہوگئے (پہلے) ٹیک لگائے ہوئے تھے، (سنبھل کر) بیٹھ گئے۔ پھر کہا : تم میں سے جب کسی سے کوئی چیز پوچھی جائے اور وہ اس کے بارے میں جانتا ہو تو اسے بتانی چاہیئے اور جب کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو اسے «اللہ اعلم» اللہ بہتر جانتا ہے کہنا چاہیئے، کیونکہ یہ آدمی کے علم و جانکاری ہی کی بات ہے کہ جب اس سے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو وہ کہہ دے «اللہ اعلم» اللہ بہتر جانتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا : «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتکلفين» کہہ دو میں تم سے اس کام پر کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، اور میں خود سے باتیں بنانے والا بھی نہیں ہوں (ص : ٨٦) ، (بات اس دخان کی یہ ہے کہ) جب رسول اللہ ﷺ نے قریش کو دیکھا کہ وہ نافرمانی ہی کیے جا رہے ہیں تو آپ نے فرمایا : اے اللہ ! یوسف (علیہ السلام) کے سات سالہ قحط کی طرح ان پر سات سالہ قحط بھیج کر ہماری مدد کر (آپ کی دعا قبول ہوگئی) ، ان پر قحط پڑگیا، ہر چیز اس سے متاثر ہوگئی، لوگ چمڑے اور مردار کھانے لگے (اس حدیث کے دونوں راویوں اعمش و منصور میں سے ایک نے کہا ہڈیاں بھی کھانے لگے) ، عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : دھواں جیسی چیز زمین سے نکلنے لگی، تو ابوسفیان نے آپ کے پاس آ کر کہا : آپ کی قوم ہلاک و برباد ہوگئی، آپ ان کی خاطر اللہ سے دعا فرما دیجئیے عبداللہ نے کہا : یہی مراد ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «يوم تأتي السماء بدخان مبين يغشی الناس هذا عذاب أليم» جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا یہ (دھواں) لوگوں کو ڈھانپ لے گا، یہ بڑا تکلیف دہ عذاب ہے (الدخان : ١٠) ، کا، منصور کہتے ہیں : یہی مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «ربنا اکشف عنا العذاب إنا مؤمنون» اے ہمارے رب ! ہم سے عذاب کو ٹال دے ہم ایمان لانے والے ہیں (الدخان : ١٢) ، کا، تو کیا آخرت کا عذاب ٹالا جاسکے گا ؟۔ عبداللہ کہتے ہیں : «بطشہ» ، «لزام» (بدر) اور دخان کا ذکرو زمانہ گزر گیا اعمش اور منصور دونوں راویوں میں سے، ایک نے کہا : «قمر» (چاند) کا شق ہونا گزر گیا، اور دوسرے نے کہا : روم کے مغلوب ہونے کا واقعہ بھی پیش آچکا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- «لزام» سے مراد یوم بدر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستسقاء ٢ (١٠٠٧) ، و ١٣ (١٠٢٠) ، تفسیر سورة یوسف ٤ (٤٦٩٣) ، وتفسیر سورة الفرقان ٥ (٤٧٦٧) ، وتفسیر الروم ١ (٤٧٧٤) ، وتفسیر ص ٣ (٤٨٠٩) ، وتفسیر الدخان ١ (٤٨٢٠) ، و ٢ (٤٨٢١) ، و ٣ (٤٨٢٢) ، صحیح مسلم/المنافقین ٧ (٢٧٩٨) (تحفة الأشراف : ٩٥٧٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3254

【306】

سورہ دخان کی تفسیر

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر مومن کے لیے دو دروازے ہیں، ایک دروازہ وہ ہے جس سے اس کے نیک عمل چڑھتے ہیں اور ایک دروازہ وہ ہے جس سے اس کی روزی اترتی ہے، جب وہ مرجاتا ہے تو یہ دونوں اس پر روتے ہیں، یہی ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : «فما بکت عليهم السماء والأرض وما کانوا منظرين» (کفار و مشرکین) پر زمین و آسمان کوئی بھی نہ رویا اور انہیں کسی بھی طرح کی مہلت نہ دی گئی (الدخان : ٢٩) ، کا مطلب ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے مرفوع صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- موسیٰ بن عبیدہ اور یزید بن ابان رقاشی حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٧٥) (ضعیف) (سند میں یزید بن ابان رقاشی ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (4491) // ضعيف الجامع الصغير (5214) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3255

【307】

سورہ دخان کی تفسیر

عبداللہ بن سلام (رض) کے بھتیجے کہتے ہیں کہ جب عثمان غنی (رض) کو جان سے مار ڈالنے کا ارادہ کرلیا گیا تو عبداللہ بن سلام (رض) ان کے پاس آئے، عثمان (رض) نے ان سے کہا : تم کس مقصد سے یہاں آئے ہو ؟ انہوں نے کہا : میں آپ کی مدد میں (آپ کو بچانے کے لیے) آیا ہوں، انہوں نے کہا : تم لوگوں کے پاس جاؤ اور انہیں مجھ سے دور ہٹا دو ، تمہارا میرے پاس رہنے سے باہر رہنا زیادہ بہتر ہے، چناچہ عبداللہ بن سلام لوگوں کے پاس آئے اور انہیں مخاطب کر کے کہا : لوگو ! میرا نام جاہلیت میں فلاں تھا (یعنی حصین) پھر رسول اللہ ﷺ نے میرا نام عبداللہ رکھا، میرے بارے میں کتاب اللہ کی کئی آیات نازل ہوئیں، میرے بارے میں آیت : «وشهد شاهد من بني إسرائيل علی مثله فآمن واستکبرتم إن اللہ لا يهدي القوم الظالمين» بنی اسرائیل میں سے گواہی دینے والے نے اس کے مثل گواہی دی (یعنی اس بات پر گواہی دی کہ قرآن اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے) اور ایمان لایا اور تم نے تکبر کیا، اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا (الاحقاف : ١٠) ، اور میرے ہی حق میں «قل کفی بالله شهيدا بيني وبينكم ومن عنده علم الکتاب» اے نبی کہہ دو ! اللہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور وہ بھی گواہ ہے جس کے پاس کتاب کا علم ہے (اس سے مراد عبداللہ بن سلام ہیں کہ حق کیا ہے اور کس کے پاس ہے) (الرعد : ٤٣) ، آیت اتری ہے، بیشک اللہ کے پاس ایسی تلوار ہے جو تمہیں نظر نہیں آتی، بیشک تمہارے اس شہر میں جس میں تمہارے نبی بھیجے گئے، فرشتے تمہارے پڑوسی ہیں، تو ڈرو اللہ سے، ڈرو اللہ سے اس شخص (عثمان) کے قتل کردینے سے، قسم ہے اللہ کی اگر تم لوگوں نے انہیں قتل کر ڈالا تو تم اپنے پڑوسی فرشتوں کو اپنے سے دور کر دو گے (بھگا دو گے) اور اللہ کی وہ تلوار جو تمہاری نظروں سے پوشیدہ ہے تمہارے خلاف سونت دی جائے گی، پھر وہ قیامت تک میان میں ڈالی نہ جاسکے گی، راوی کہتے ہیں : لوگوں نے (عبداللہ بن مسعود (رض) کی بات سن کر) کہا : اس یہودی کو قتل کر دو ، اور عثمان (رض) کو بھی مار ڈالو قتل کر دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس حدیث کو شعیب بن صفوان نے عبدالملک بن عمیر سے اور عبدالملک بن عمیر نے ابن محمد بن عبداللہ بن سلام سے اور ابن محمد نے اپنے دادا عبداللہ بن سلام (رض) سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٣٤٤) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابن اخی عبد اللہ بن سلام مجہول راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد // وسيأتي برقم (795 / 4073) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3256

【308】

سورہ دخان کی تفسیر

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب برسنے والا کوئی بادل دیکھتے تو آگے بڑھتے پیچھے ہٹتے (اندر آتے باہر جاتے) مگر جب بارش ہونے لگتی تو اسے دیکھ خوش ہوجاتے، میں نے عرض کیا : ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں (صحیح) جانتا تو نہیں شاید وہ کچھ ایسا ہی نہ ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «فلما رأوه عارضا مستقبل أوديتهم قالوا هذا عارض ممطرنا» جب انہوں نے اسے بحیثیت بادل اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کہا : یہ بادل ہم پر برسنے آ رہا ہے، بلکہ یہ وہ عذاب ہے جس کی تم نے جلدی مچا رکھی تھی (آندھی ہے کہ جس میں نہایت درد ناک عذاب ہے) (الاحقاف : ٢٤) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٥ (٣٢٠٦) ، وتفسیر الاحقاف ٢ (٤٨٢٩) (تحفة الأشراف : ١٧٣٨٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2757) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3257

【309】

سورہ دخان کی تفسیر

علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن مسعود (رض) سے کہا : کیا جنوں والی رات میں آپ لوگوں میں سے کوئی نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا ؟ انہوں نے کہا : ہم میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہیں تھا، آپ مکہ میں تھے اس وقت کی بات ہے، ایک رات ہم نے آپ کو نائب پایا، ہم نے کہا : آپ کا اغوا کرلیا گیا ہے یا (جن) اڑا لے گئے ہیں، آپ کے ساتھ کیا کیا گیا ہے ؟ بری سے بری رات جو کوئی قوم گزار سکتی ہے ہم نے ویسی ہی اضطراب وبے چینی کی رات گزاری، یہاں تک کہ جب صبح ہوئی، یا صبح تڑکے کا وقت تھا اچانک ہم نے دیکھا کہ آپ حرا کی جانب سے تشریف لا رہے ہیں، لوگوں نے آپ سے اپنی اس فکرو تشویش کا ذکر کیا جس سے وہ رات کے وقت دوچار تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : جنوں کا قاصد (مجھے بلانے) آیا، تو میں ان کے پاس گیا، اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا ، ابن مسعود کہتے ہیں : ـپھرآپاٹھکرچلے اور ہمیں انکے آثار (نشانات و ثبوت) دکھائے، اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے۔ شعبی کہتے ہیں : جنوں نے آپ سے توشہ مانگا، اور وہ جزیرہ کے رہنے والے جن تھے، آپ نے فرمایا : ہر ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا جائے گا تمہارے ہاتھ میں پہنچ کر پہلے سے زیادہ گوشت والی بن جائے گی، ہر مینگنی اور لید (گوبر) تمہارے جانوروں کا چارہ ہے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ سے) فرمایا : (اسی وجہ سے) ان دونوں چیزوں سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ دونوں چیزیں تمہارے بھائی جنوں کی خوراک ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٣ (٤٥٠) ، سنن ابی داود/ الطھارة ٤٢ (٨٥) (تحفة الأشراف : ٩٣٦٣) (صحیح) (اس حدیث پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو : الضعیفة رقم ١٠٣٨) قال الشيخ الألباني : صحيح دون جملة اسم اللہ و علف لدوابکم ، الضعيفة (1038) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3258

【310】

سورت محمد ﷺ کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت : «واستغفر لذنبک وللمؤمنين والمؤمنات» تو اپنے گناہوں کے لیے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے مغفرت مانگ (محمد : ١٩) ، کی تفسیر میں فرمایا : میں اللہ سے ہر دن ستر بار مغفرت طلب کرتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابوہریرہ (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں دن میں اللہ سے سو بار مغفرت طلب کرتا ہوں ، ٣- نیز متعدد دیگر سندوں سے بھی نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ میں اللہ سے ہر دن سو مرتبہ استغفار طلب کرتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٤٥ (٤٣ ¤ ٤- ٤٣٩) (تحفة الأشراف : ١٥٢٧٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3259

【311】

سورت محمد ﷺ کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن یہ آیت «وإن تتولوا يستبدل قوما غيركم ثم لا يکونوا أمثالکم» اے عرب کے لوگو ! تم (ایمان و جہاد سے) پھر جاؤ گے تو تمہارے بدلے اللہ دوسری قوم کو لا کر کھڑا کرے گا، وہ تمہارے جیسے نہیں (بلکہ تم سے اچھے) ہوں گے (محمد : ٣٨) ، تلاوت فرمائی، صحابہ نے کہا : ہمارے بدلے کون لوگ لائے جائیں گے ؟ آپ ﷺ نے سلمان کے کندھے پر ہاتھ مارا (رکھا) پھر فرمایا : یہ اور اس کی قوم، یہ اور اس کی قوم ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- اس کی سند میں کلام ہے، ٣- عبداللہ بن جعفر نے بھی یہ حدیث علاء بن عبدالرحمٰن سے روایت کی ہے (ان کی روایت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٠٣٦) (صحیح) (سند میں ایک راوی مبہم ہے، لیکن آنے والی حدیث کی متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1017 / الطبعة الثانية) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3260

【312】

سورت محمد ﷺ کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ کون لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ نے کیا ہے کہ اگر ہم پلٹ جائیں گے تو وہ ہماری جگہ لے آئے جائیں گے، اور وہ ہم جیسے نہ ہوں گے، سلمان (رض) رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے سلمان (رض) کی ران پر ہاتھ رکھا اور فرمایا : یہ اور ان کے اصحاب، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر ایمان ثریا ١ ؎ کے ساتھ بھی معلق ہوگا تو بھی فارس کے کچھ لوگ اسے پالیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ عبداللہ بن جعفر بن نجیح : علی بن المدینی کے والد ہیں، ٢- علی بن حجر نے عبداللہ بن جعفر سے بہت سے احادیث روایت کی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1017 / الطبعة الثانية) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3261 علی بن حجر نے ہمیں یہ حدیث بطریق : «‏‏‏‏إسمعيل بن جعفر عن عبد اللہ بن جعفر» روایت کی ہے، نیز : ہم سے بشر بن معاذ نے یہ حدیث بطریق «عبد اللہ بن جعفر عن العلاء» بھی روایت کی ہے مگر اس طریق میں «معلق بالثريا» کے الفاظ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ثریا سات ستارے ہیں جو سب ستاروں سے زیادہ بلندی پر ہیں ، اور آپ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایمان ( یا دین ، یا علم جیسا کہ دیگر روایات میں ہے اور سب کا حاصل مطلب ایک ہی ہے ) ثریا پر بھی چلا جائے تو بھی سلمان فارسی (رض) کو قوم کے کچھ لوگ وہاں بھی جا کر حاصل کرلیں گے ، اور یہ پیشین گوئی اس طرح ہوگئی کہ اہل فارس میں سیکڑوں علماء اسلام پیدا ہوئے ، اور بقول امام احمد بن حنبل : اگر اس سے محدثین نہیں مراد ہوں تو میں نہیں سمجھتا کہ تب پھر کون مراد ہوں گے ، «رحمہم اللہ جمیعا»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1017 / الطبعة الثانية) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3261

【313】

سورہ فتح کی تفسیر

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی سفر میں تھے، میں نے آپ سے کچھ کہا، آپ خاموش رہے، میں نے پھر آپ سے بات کی آپ پھر خاموش رہے، میں نے پھر بات کی آپ (اس بار بھی) خاموش رہے، میں نے اپنی سواری کو جھٹکا دیا اور ایک جانب (کنارے) ہوگیا، اور (اپنے آپ سے) کہا : ابن خطاب ! تیری ماں تجھ پر روئے، تو نے رسول اللہ ﷺ سے تین بار اصرار کیا، اور آپ نے تجھ سے ایک بار بھی بات نہیں کی، تو اس کا مستحق اور سزاوار ہے کہ تیرے بارے میں کوئی آیت نازل ہو (اور تجھے سرزنش کی جائے) عمر بن خطاب کہتے ہیں : ابھی کچھ بھی دیر نہ ہوئی تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کو سنا، وہ مجھے پکار رہا تھا، عمر بن خطاب کہتے ہیں : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا، آپ نے فرمایا : ابن خطاب ! آج رات مجھ پر ایک ایسی سورة نازل ہوئی ہے جو مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج نکلتا ہے اور وہ سورة یہ ہے «إنا فتحنا لک فتحا مبينا» بیشک اے نبی ! ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے (الفتح : ١) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- بعض نے اس حدیث کو مالک سے مرسلاً (بلاعاً ) روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٥ (٤١٧٧) ، وتفسیر سورة الفتح ١ (٤٨٣٣) ، وفضائل القرآن ١٢ (٥٠١٢) (تحفة الأشراف : ١٠٣٨٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3262

【314】

سورہ فتح کی تفسیر

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ پر حدیبیہ سے واپسی کے وقت «ليغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر» (اللہ نے جہاد اس لیے فرض کیا ہے) تاکہ اللہ تمہارے اگلے پچھلے گناہ بخش دے (الفتح : ٢) ، نازل ہوئی، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھ پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے زمین کی ساری چیزوں سے زیادہ محبوب ہے ، پھر آپ نے وہ آیت سب کو پڑھ کر سنائی، لوگوں نے (سن کر) «هنيأ مريئًا» (آپ کے لیے خوش گوار اور مبارک ہو) کہا، اے اللہ کے نبی ! اللہ نے آپ کو بتادیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا مگر ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟ اس پر آیت «ليدخل المؤمنين والمؤمنات جنات تجري من تحتها الأنهار» سے لے کر سے «فوزا عظيما» تاکہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان سے ان کے گناہ دور کر دے اور اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی کامیابی ہے (الفتح : ٥) ، تک نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں مجمع بن جاریہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٤٢) (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3263

【315】

سورہ فتح کی تفسیر

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ پر حملہ آور ہونے کے لیے اسی ( ٨٠) کی تعداد میں کافر تنعیم پہاڑ سے نماز فجر کے وقت اترے، وہ چاہتے تھے کہ نبی اکرم ﷺ کو قتل کردیں، مگر سب کے سب پکڑے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں چھوڑ دیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت :«وهو الذي كف أيديهم عنکم وأيديكم عنهم» وہی ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے (الفتح : ٢٤) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ٤٦ (١٨٠٨) ، سنن ابی داود/ الجھاد ١٣٠ (٢٦٨٨) (تحفة الأشراف : ٣٠٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2408) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3264

【316】

سورہ فتح کی تفسیر

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے «وألزمهم كلمة التقوی» اللہ نے انہیں تقوے کی بات پر جمائے رکھا (الفتح : ٢٦) ، کے متعلق فرمایا : اس سے مراد «لا إله إلا الله» ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- اسے ہم حسن بن قزعہ کے سوا کسی اور کو مرفوع روایت کرتے ہوئے نہیں جانتے، ٣- میں نے ابوزرعہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس سند کے سوا کسی اور سند سے اسے مرفوع نہیں جانا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3265

【317】

سورہ حجرات کی تفسیر

عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ اقرع بن حابس نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، ابوبکر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : اللہ کے رسول ! آپ انہیں ان کی اپنی قوم پر عامل بنا دیجئیے، عمر (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ انہیں عامل نہ بنائیے، ان دونوں حضرات نے آپ کی موجودگی میں آپس میں تو تو میں میں کی، ان کی آوازیں بلند ہوگئیں، ابوبکر نے عمر (رض) سے کہا : آپ کو تو بس ہماری مخالفت ہی کرنی ہے، عمر (رض) نے کہا : میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا، چناچہ یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتکم فوق صوت النبي» رسول اللہ ﷺ کے سامنے اپنی آواز بلند نہ کرو ( الحجرات : ٢) ، اس واقعہ کے بعد عمر (رض) جب نبی اکرم ﷺ سے گفتگو کرتے تو اتنے دھیرے بولتے کہ بات سنائی نہیں پڑتی، سامع کو ان سے پوچھنا پڑجاتا، راوی کہتے ہیں : ابن زبیر نے اپنے نانا یعنی ابوبکر (رض) کا ذکر نہیں کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- بعض نے اس حدیث کو ابن ابی ملیکہ سے مرسل طریقہ سے روایت کیا ہے اور اس میں عبداللہ بن زبیر (رض) کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٦٨ (٤٣٦٧) ، وتفسیر الحجرات ٢ (٤٨٤٧) ، والاعتصام ٦ (٧٣٠٢) (تحفة الأشراف : ٥٢٦٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : ابن زبیر نے آپ ﷺ کے سامنے پست ترین آواز سے بات نہ کرنے کے سلسلے میں صرف عمر کا ذکر کیا ، اپنے نانا ابوبکر (رض) کا ذکر نہیں کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3266

【318】

سورہ حجرات کی تفسیر

براء بن عازب (رض) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «إن الذين ينادونک من وراء الحجرات أكثرهم لا يعقلون» اے نبی ! جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے آواز دے کر پکارتے ہیں، ان کی اکثریت بےعقلوں کی ہے (الحجرات : ٤) ، کی تفسیر میں کہتے ہیں : ایک شخص نے (آپ کے دروازے پر) کھڑے ہو کر (پکار کر) کہا : اللہ کے رسول ! میری تعریف میری عزت ہے اور میری مذمت ذلت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ صفت تو اللہ کی ہے (یہ اللہ ہی کی شان ہے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3267

【319】

سورہ حجرات کی تفسیر

ابوجبیرہ بن ضحاک کہتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے دو دو تین تین نام ہوا کرتے تھے، ان میں سے بعض کو بعض نام سے پکارا جاتا تھا، اور بعض نام سے پکارنا اسے برا لگتا تھا، اس پر یہ آیت «ولا تنابزوا بالألقاب» لوگوں کو برے القاب (برے ناموں) سے نہ پکارو (الحجرات : ١١) ، نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابوجبیرہ، یہ ثابت بن ضحاک بن خلیفہ انصاری کے بھائی ہیں، اور ابوزید سعید بن الربیع صاحب الہروی بصرہ کے رہنے والے ثقہ (معتبر) شخص ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٧١ (٤٩٦٢) (تحفة الأشراف : ١١٨٨٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3741) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3268 اس سند سے داود نے شعبی سے اور شعبی نے ابوجبیرہ بن ضحاک سے اسی طرح روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3741) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3268

【320】

سورہ حجرات کی تفسیر

ابونضرہ کہتے ہیں کہ ابو سعید خدری (رض) نے آیت : «واعلموا أن فيكم رسول اللہ لو يطيعكم في كثير من الأمر لعنتم» جان لو تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے، اگر وہ بیشتر معاملات میں تمہاری بات ماننے لگ جائے تو تم مشقت و تکلیف میں پڑجاؤ گے (الحجرات : ٧) ، تلاوت کی اور اس کی تشریح میں کہا : یہ تمہارے نبی اکرم ﷺ ہیں، ان پر وحی بھیجی جاتی ہے اور اگر وہ بہت سارے معاملات میں تمہاری امت کے چیدہ لوگوں کی اطاعت کرنے لگیں گے تو تم تکلیف میں مبتلا ہوجاتے، چناچہ (آج) اب تمہاری باتیں کب اور کیسے مانی جاسکتی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- علی بن مدینی کہتے ہیں : میں نے یحییٰ بن سعید قطان سے مستمر بن ریان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : وہ ثقہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٣٨٣) (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3269

【321】

سورہ حجرات کی تفسیر

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطاب فرمایا : لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کا فخر و غرور اور خاندانی تکبر ختم کردیا ہے، اب لوگ صرف دو طرح کے ہیں ( ١) اللہ کی نظر میں نیک متقی، کریم و شریف اور ( ٢) دوسرا فاجر بدبخت، اللہ کی نظر میں ذلیل و کمزور، لوگ سب کے سب آدم کی اولاد ہیں۔ اور آدم کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : «يا أيها الناس إنا خلقناکم من ذکر وأنثی وجعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا إن أكرمکم عند اللہ أتقاکم إن اللہ عليم خبير» اے لوگو ! ہم نے تمہیں نر اور مادہ (کے ملاپ) سے پیدا کیا اور ہم نے تمہیں کنبوں اور قبیلوں میں تقسیم کردیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، (کہ کون کس قبیلے اور کس خاندان کا ہے) بیشک اللہ کی نظر میں تم میں سب سے زیادہ معزز و محترم وہ شخص ہے جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ بیشک اللہ جاننے والا اور خبر رکھنے ولا ہے (الحجرات : ١٣) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اس حدیث کو صرف اسی سند کے سوا جسے عبداللہ بن دینار ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کسی اور سند سے مروی نہیں جانتے، ٣- عبداللہ بن جعفر ضعیف قرار دیئے گئے ہیں، انہیں یحییٰ بن معین وغیرہ نے ضعیف کہا ہے، اور عبداللہ بن جعفر - یہ علی ابن مدینی - کے والد ہیں، ٤- اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٢٠١) (صحیح) (سند میں علی بن المدینی کے والد عبد اللہ بن جعفر ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2700) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3270

【322】

سورہ حجرات کی تفسیر

سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : «حسب» مال کو کہتے ہیں اور «کرم» سے مراد تقویٰ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف سلام بن ابی مطیع کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٤ (٤٢١٩) (تحفة الأشراف : ٤٥٩٨) ، وحإ (٥/١٠) (صحیح) (سند میں سلام بن ابی مطیع قتادہ سے روایت میں ضعیف راوی ہیں، نیز حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : مؤلف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ «إن أكرمکم عند اللہ أتقاکم إن اللہ عليم خبير» (الحجرات : ١٣) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1870) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3271

【323】

سورہ ق کی تفسیر

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جہنم کہتی رہے گی «هل من مزيد» کوئی اور (جہنمی) ہو تو لاؤ، (ڈال دو اسے میرے پیٹ میں) (قٓ: ٣٠) ، یہاں تک کہ اللہ رب العزت اپنا قدم اس میں رکھ دے گا، اس وقت جہنم «قط قط» بس، بس کہے گی اور قسم ہے تیری عزت و بزرگی کی (اس کے بعد) جہنم کا ایک حصہ دوسرے حصے میں ضم ہوجائے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ فائدہ ١ ؎: یعنی ایک حصہ دوسرے حصہ سے چمٹ کر یکجا ہوجائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان والنذور ١٢ (٦٦٦١) ، صحیح مسلم/الجنة ١٣ (٢٨٤٨) (تحفة الأشراف : ١٢٩٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح ظلال الجنة (531 - 534) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3272

【324】

سورہ ذاریات کی تفسیر

ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی ربیعہ کے ایک شخص نے کہا : میں مدینہ آیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہاں آپ کے پاس (دوران گفتگو) میں نے قوم عاد کے قاصد کا ذکر کیا، اور میں نے کہا : میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں عاد کے قاصد جیسابن جاؤں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عاد کے قاصد کا قصہ کیا ہے ؟ میں نے کہا : (اچھا ہوا) آپ نے واقف کار سے پوچھا (میں آپ کو بتاتا ہوں) قوم عاد جب قحط سے دوچار ہوئی تو اس نے قیل (نامی شخص) کو (امداد و تعاون حاصل کرنے کے لیے مکہ) بھیجا، وہ (آ کر) بکر بن معاویہ کے پاس ٹھہرا، بکر نے اسے شراب پلائی، اور دو مشہور مغنیاں اسے اپنے نغموں سے محظوظ کرتی رہیں، پھر قیل نے وہاں سے نکل کر مہرہ کے پہاڑوں کا رخ کیا (مہرہ ایک قبیلہ کے دادا کا نام ہے) اس نے (دعا مانگی) کہا : اے اللہ ! میں تیرے پاس کوئی مریض لے کر نہیں آیا کہ اس کا علاج کراؤں، اور نہ کسی قیدی کے لیے آیا اسے آزاد کرا لوں، تو اپنے بندے کو پلا (یعنی مجھے) جو تجھے پلانا ہے اور اس کے ساتھ بکر بن معاویہ کو بھی پلا (اس نے یہ دعا کر کے) اس شراب کا شکریہ ادا کیا، جو بکر بن معاویہ نے اسے پلائی تھی، (انجام کار) اس کے لیے (آسمان پر) کئی بدلیاں چھائیں اور اس سے کہا گیا کہ تم ان میں سے کسی ایک کو اپنے لیے چن لو، اس نے ان میں سے کالی رنگ کی بدلی کو پسند کرلیا، کہا گیا : اسے لے لو اپنی ہلاکت و بربادی کی صورت میں، عاد قوم کے کسی فرد کو بھی نہ باقی چھوڑے گی، اور یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ عاد پر ہوا (آندھی) اس حلقہ یعنی انگوٹھی کے حلقہ کے برابر ہی چھوڑی گئی۔ پھر آپ نے آیت «إذ أرسلنا عليهم الريح العقيم ما تذر من شيء أتت عليه إلا جعلته کالرميم» یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے ان پر بانجھ ہوا بھیجی جس چیز کو بھی وہ ہوا چھو جاتی اسے چورا چورا کردیتی (الذاریات : ٤٢) ، پڑھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث کو کئی لوگوں نے سلام ابومنذر سے، سلام نے عاصم بن ابی النجود سے، عاصم نے ابو وائل سے اور ابو وائل نے («عن رجل من ربیعة» کی جگہ) حارث بن حسان سے روایت کیا ہے۔ (یہ روایت آگے آرہی ہے) ٢- حارث بن حسان کو حارث بن یزید بھی کہا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجھاد ٢٠ (٢٨١٦) (تحفة الأشراف : ٣٢٧٧) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن الضعيفة تحت الحديث (1228) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3273

【325】

سورہ ذاریات کی تفسیر

حارث بن یزید البکری کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا، مسجد نبوی میں گیا، وہ لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، کالے جھنڈ ہوا میں اڑ رہے تھے اور بلال (رض) آپ کے سامنے تلوار لٹکائے ہوئے کھڑے تھے، میں نے پوچھا : کیا معاملہ ہے ؟ لوگوں نے کہا : آپ کا ارادہ عمرو بن العاص (رض) کو (فوجی دستہ کے ساتھ) کسی طرف بھیجنے کا ہے، پھر پوری لمبی حدیث سفیان بن عیینہ کی حدیث کی طرح اسی کے ہم معنی بیان کی۔ حارث بن یزید کو حارث بن حسان بھی کہا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن انظر ما قبله (3273) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3274

【326】

سورت طور کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : «إدبار النجوم» ١ ؎ (نجوم کے پیچھے) سے مراد نماز فجر سے پہلے کی دو رکعتیں یعنی سنتیں ہیں اور «إدبار السجود» (سجدوں کے بعد) سے مراد مغرب کے بعد کی دو رکعتیں ہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اس حدیث کو مرفوعاً صرف محمد بن فضیل کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ رشدین بن کریب سے روایت کرتے ہیں، ٣- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے محمد (محمد بن فضیل) اور رشدین بن کریب کے بارے میں پوچھا کہ ان دونوں میں کون زیادہ ثقہ ہے ؟ انہوں نے کہا : دونوں ایک سے ہیں، لیکن محمد بن فضیل میرے نزدیک زیادہ راجح ہیں (یعنی انہیں فوقیت حاصل ہے) ٤- میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن (دارمی) سے اس بارے میں پوچھا (آپ کیا کہتے ہیں ؟ ) کہا : کیا خوب دونوں میں یکسانیت ہے، لیکن رشدین بن کریب میرے نزدیک ان دونوں میں قابل ترجیح ہیں، کہتے ہیں : میرے نزدیک بات وہی درست ہے جو ابو محمد یعنی دارمی نے کہی ہے، رشدین محمد بن فضیل سے راجح ہیں اور پہلے کے بھی ہیں، رشدین نے ابن عباس کا زمانہ پایا ہے اور انہیں دیکھا بھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٣٤٨) (ضعیف) (سند میں رشدین بن کریب ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : سورة الطور میں «إِدْبَارُ السُّجُودِ» (ہمزہ کے کسرہ ساتھ ) ہے ، اور سورة ق میں «أَدْبَارُ السُّجُودِ» لیکن اس حدیث میں یہاں بھی ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ روایت ہے ، بہرحال یہاں انہی دونوں کی تفسیر مقصود ہے ، («ادبار السجود» بفتح الہمزہ کی صورت میں بعض لوگوں نے اس کا معنی سجدوں کے بعد یعنی نمازوں کے بعد کی تسبیحات بیان کیا ہے۔ ٢ ؎ : مولف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ «ادبار السجود» (الطور : ٤٩) کی تفسیر میں لائے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (...) ، // ضعيف الجامع الصغير (248) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3275

【327】

سورت نجم کی تفسیر

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ (معراج کی رات) سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پہنچے تو کہا : یہی وہ آخری جگہ ہے جہاں زمین سے چیزیں اٹھ کر پہنچتی ہیں اور یہی وہ بلندی کی آخری حد ہے جہاں سے چیزیں نیچے آتی اور اترتی ہیں، یہیں اللہ نے آپ کو وہ تین چیزیں عطا فرمائیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں فرمائی تھیں، ( ١) آپ پر پانچ نمازیں فرض کی گئیں، ( ٢) سورة البقرہ کی «خواتیم» (آخری آیات) عطا کی گئیں، ( ٣) اور آپ کی امتیوں میں سے جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا، ان کے مہلک و بھیانک گناہ بھی بخش دیئے گئے، (پھر) ابن مسعود (رض) نے آیت «إذ يغشی السدرة ما يغشی» ڈھانپ رہی تھی سدرہ کو جو چیز ڈھانپ رہی تھی (النجم : ١٦) ، پڑھ کر کہا «السدرہ» (بیری کا درخت) چھٹے آسمان پر ہے، سفیان کہتے ہیں : سونے کے پروانے ڈھانپ رہے تھے اور سفیان نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے انہیں چونکا دیا (یعنی تصور میں چونک کر ان پروانوں کے اڑنے کی کیفیت دکھائی) مالک بن مغول کے سوا اور لوگ کہتے ہیں کہ یہیں تک مخلوق کے علم کی پہنچ ہے اس سے اوپر کیا کچھ ہے کیا کچھ ہوتا ہے انہیں اس کا کچھ بھی علم اور کچھ بھی خبر نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٧٦ (١٧٣) ، سنن النسائی/الصلاة ١ (٤٥٢) (تحفة الأشراف : ٩٥٤٨) ، و مسند احمد (١/٣٨٧، ٤٢٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3276

【328】

سورت نجم کی تفسیر

شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے زر بن حبیش سے آیت : «فكان قاب قوسين أو أدنی» دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم فرق رہ گیا (النجم : ٩) ، کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے کہا : مجھے ابن مسعود (رض) نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل کو دیکھا اور ان کے چھ سو پر تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٧ (٣٢٣٢) ، وتفسیر سورة النجم ٢ (٤٨٥٦) ، و ٣ (٤٨٥٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧٦ (١٧٤) (تحفة الأشراف : ٩٢٠٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3277

【329】

سورت نجم کی تفسیر

عامر شراحیل شعبی کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) کی ملاقات کعب الاحبار سے عرفہ میں ہوئی، انہوں نے کعب سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے تکبیرات پڑھیں جن کی صدائے بازگشت پہاڑوں میں گونجنے لگی، ابن عباس (رض) نے کہا : ہم بنو ہاشم سے تعلق رکھتے ہیں، کعب نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اپنی رویت و دیدار کو اور اپنے کلام کو محمد ﷺ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔ اللہ نے موسیٰ سے دو بار بات کی، اور محمد ﷺ نے اللہ کو دو بار دیکھا۔ مسروق کہتے ہیں : میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس پہنچا، میں نے ان سے پوچھا : کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ انہوں نے کہا : تم نے تو ایسی بات کہی ہے جسے سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں، میں نے کہا : ٹھہریئے، جلدی نہ کیجئے (پوری بات سن لیجئے) پھر میں نے آیت «لقد رأى من آيات ربه الکبری» پھر آپ نے اللہ کی بڑی آیات و نشانیاں دیکھیں (النجم : ١٨) ، تلاوت کی ام المؤمنین عائشہ (رض) نے فرمایا : تمہیں کہاں لے جایا گیا ہے ؟ (کہاں بہکا دیے گئے ہو ؟ ) یہ دیکھے جانے والے تو جبرائیل تھے، تمہیں جو یہ خبر دے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ یا جن باتوں کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ان میں سے آپ نے کچھ چھپالیا ہے، یا وہ پانچ چیزیں جانتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ «إن اللہ عنده علم الساعة وينزل الغيث» اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور اللہ ہی جانتا ہے کہ بارش کب اور کہاں نازل ہوگی (سورۃ لقمان : ٣٤) ، اس نے بڑا جھوٹ بولا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ آپ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا، جبرائیل (علیہ السلام) کو آپ نے ان کی اپنی اصل صورت میں صرف دو مرتبہ دیکھا ہے، (ایک بار) سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اور ایک بار جیاد میں (جیاد نشیبی مکہ کا ایک محلہ ہے) جبرائیل (علیہ السلام) کے چھ سو بازو تھے، انہوں نے سارے افق کو اپنے پروں سے ڈھانپ رکھا تھا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : داود بن ابی ہند نے شعبی سے، شعبی نے مسروق سے اور مسروق نے عائشہ (رض) کے واسطہ سے، نبی اکرم ﷺ سے اس جیسی حدیث روایت کی، داود کی حدیث مجالد کی حدیث سے چھوٹی ہے (لیکن وہی صحیح ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (بقصة ابن عباس مع کعب) وانظر حدیث رقم ٣٠٦٨ (للجزء الأخیر) (ضعیف الإسناد) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3278

【330】

سورت نجم کی تفسیر

عکرمہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا : محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے، میں نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے «لا تدرکه الأبصار وهو يدرک الأبصار» اس کو آنکھیں نہیں پاسکتی ہیں ہاں وہ خود نگاہوں کو پا لیتا ہے (الانعام : ١٠٣) ، انہوں نے کہا : تم پر افسوس ہے (تم سمجھ نہیں سکے) یہ تو اس وقت کی بات ہے جب وہ اپنے ذاتی نور کے ساتھ تجلی فرمائے، انہوں نے کہا : آپ نے اپنے رب کو دو بار دیکھا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٦٠٤٠) (ضعیف) (سند میں حکم بن ابان سے وہم ہوجایا کرتا تھا) قال الشيخ الألباني : ضعيف ظلال الجنة (190 / 437) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3279

【331】

سورت نجم کی تفسیر

ابوسلمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس (رض) نے آیت : «ولقد رآه نزلة أخری عند سدرة المنتهى» ١ ؎ «فأوحی إلى عبده ما أوحی» ٢ ؎«فكان قاب قوسين أو أدنی» ٣ ؎ کی تفسیر میں کہا : نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٥٦٣) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : النجم : ١٣ ، ٢ ؎ : النجم : ١٠ ، ٣ ؎ : النجم : ٩ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح الظلال (191 / 439) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3280

【332】

سورت نجم کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت «ما کذب الفؤاد ما رأى» جو کچھ انہوں نے دیکھا اسے دل نے جھٹلایا نہیں (بلکہ اس کی تصدیق کی) (النجم : ١١) ، پڑھی، کہا : نبی اکرم ﷺ نے اپنے رب کو دل کی آنکھ سے دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦١٢١) (صحیح) (عکرمہ سے سماک کی روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح الظلال (191 / 439) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3281

【333】

سورت نجم کی تفسیر

عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر (رض) سے کہا : اگر میں نے نبی اکرم ﷺ کو پایا ہوتا تو آپ سے پوچھتا، انہوں نے کہا : تم آپ ﷺ سے کیا پوچھتے ؟ میں نے کہا : میں یہ پوچھتا کہ کیا آپ (محمد ﷺ ) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ ابوذر (رض) نے کہا : میں نے آپ سے یہ بات پوچھی تھی، آپ نے فرمایا : وہ نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٧٨ (١٧٨) (تحفة الأشراف : ١١٩٣٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الظلال (192 / 441) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3282

【334】

سورت نجم کی تفسیر

عبداللہ بن مسعود (رض) اس آیت : «ما کذب الفؤاد ما رأى» کی تفسیر میں کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو باریک ریشمی جوڑا پہنے ہوئے دیکھا۔ آسمان و زمین کی ساری جگہیں ان کے وجود سے بھر گئی تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) وراجع صحیح البخاری/ (٤٨٥٨) (تحفة الأشراف : ٩٣٩٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3283

【335】

سورت نجم کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) آیت «الذين يجتنبون کبائر الإثم والفواحش إلا اللمم» جو لوگ بڑے گناہوں سے بچتے ہیں مگر چھوٹے گناہ (جو کبھی ان سے سرزد ہوجائیں تو وہ بھی معاف ہوجائیں گے) (النجم : ٣٢) ، کی تفسیر میں کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے رب اگر بخشتا ہے تو سب ہی گناہ بخش دے، اور تیرا کون سا بندہ ایسا ہے جس سے کوئی چھوٹا گناہ بھی سرزد نہ ہوا ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف زکریا بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٩٤٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2349 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3284

【336】

سورت قمر کی تفسیر

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ اس دوران کہ ہم منیٰ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، چاند دو ٹکڑے ہوگیا، ایک ٹکڑا (اس جانب) پہاڑ کے پیچھے اور دوسرا ٹکڑا اس جانب (پہاڑ کے آگے) رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا : گواہ رہو، یعنی اس بات کے گواہ رہو کہ «اقتربت الساعة وانشق القمر» یعنی : قیامت قریب ہے اور چاند کے دو ٹکڑے ہوچکے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٧ (٣٦٣٦) ، ومناقب الأنصار ٣٦ (٣٨٦٩) ، وتفسیر سورة القمر ١ (٤٨٦٤) ، صحیح مسلم/المنافقین ٨ (٢٨٠٠) (تحفة الأشراف : ٩٣٣٦) (صحیح) وضاحت : ؎ : قیامت قریب آچکی ہے اور چاند کے دو ٹکڑے ہوچکے ہیں ( القمر : ١) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3285

【337】

سورت قمر کی تفسیر

انس (رض) کہتے ہیں کہ اہل مکہ نے نبی اکرم ﷺ سے نشانی (معجزہ) کا مطالبہ کیا جس پر مکہ میں چاند دو بار دو ٹکڑے ہوا، اس پر آیت «اقتربت الساعة وانشق القمر» سے لے کر «سحر مستمر» نازل ہوئی، راوی کہتے ہیں : «سحر مستمر» میں «مستمر» کا مطلب ہے «ذاہب» (یعنی وہ جادو جو چلا آ رہا ہو) امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المنافقین ٨ (٢٨٠) (تحفة الأشراف : ١٣٣٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں «مرتین» کا معنی یہ نہیں ہے کہ چاند کے ٹکڑے ہونے کا واقعہ دو مرتبہ ہوا ، یہ واقعہ دو مرتبہ ہوا نہیں ، صرف ایک مرتبہ ہوا ، یہاں «مرتين» سے مراد «فلقتين» ہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3286

【338】

سورت قمر کی تفسیر

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں چاند دو ٹکڑے ہو تو نبی اکرم ﷺ نے ہم سے فرمایا : تم سب گواہ رہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٢٨٥ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3287

【339】

سورت قمر کی تفسیر

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم سب گواہ رہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المنافقین ٨ (٢٨٠١) (تحفة الأشراف : ٧٣٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3288

【340】

سورت قمر کی تفسیر

جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا، ایک ٹکڑا اس پہاڑ پر اور ایک ٹکڑا اس پہاڑ پر، ان لوگوں نے کہا : محمد ( ﷺ ) نے ہم پر جادو کردیا ہے، لیکن ان ہی میں سے بعض نے (اس کی تردید کی) کہا : اگر انہوں نے ہمیں جادو کردیا ہے تو (باہر کے) سبھی لوگوں کو جادو کے زیر اثر نہیں لاسکتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ان میں سے بعض نے یہ حدیث حصین سے حصین نے جبیر بن محمد بن جبیر بن مطعم سے، جبیر نے اپنے باپ محمد سے، محمد نے ان (جبیر پوتا) کے دادا جبیر بن مطعم سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣١٩٧) (صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ باہر سے آنے والوں نے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کی خبر دی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3289

【341】

سورت قمر کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ مشرکین قریش آ کر نبی اکرم ﷺ سے تقدیر کے مسئلہ میں لڑنے (اور الجھنے) لگے اس پر آیت کریمہ : «يوم يسحبون في النار علی وجوههم ذوقوا مس سقر إنا کل شيء خلقناه بقدر» یاد کرو اس دن کو جب جہنم میں وہ اپنے مونہوں کے بل گھسیٹے جائیں گے (کہا جائے گا) دوزخ کا عذاب چکھو ہم نے ہر چیز تقدیر کے مطابق پیدا کی ہے (القمر : ٤٨) ، نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢١٥٧ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (83) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3290

【342】

سورت رحمن کی تفسیر

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے پاس آئے اور ان کے سامنے سورة الرحمن شروع سے آخر تک پڑھی، لوگ (سن کر) چپ رہے، آپ نے کہا : میں نے یہ سورة اپنی جنوں سے ملاقات والی رات میں جنوں کو پڑھ کر سنائی تو انہوں نے مجھے تمہارے بالمقابل اچھا جواب دیا، جب بھی میں پڑھتا ہوا آیت «فبأي آلاء ربکما تکذبان» پر پہنچتا تو وہ کہتے «لا بشيء من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد» اے ہمارے رب ! ہم تیری نعمتوں میں سے کسی نعمت کا بھی انکار نہیں کرتے، تیرے ہی لیے ہیں ساری تعریفیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے ولید بن مسلم کی روایت کے سوا جسے وہ زہیر بن محمد سے روایت کرتے ہیں، اور کسی سے نہیں جانتے، ٢- احمد بن حنبل کہتے ہیں : زہیر بن محمد جو شام میں ہیں، وہ زہیر نہیں جن سے اہل عراق روایت کرتے ہیں تو ان وہ دوسرے آدمی ہیں، لوگوں نے ان کا نام اس وجہ سے تبدیل کردیا ہے (تاکہ لوگ ان کا نام نہ جان سکیں) کیونکہ لوگ ان سے منکر احادیث بیان کرتے تھے، ٣- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ اہل شام زہیر بن محمد سے مناکیر (منکر احادیث) روایت کرتے ہیں، اور اہل عراق ان سے صحیح احادیث روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٠١٧) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : «فبأي آلاء ربکما تکذبان» کا جملہ پوری سورت میں ٣١ بار آیا ہے ، تو کیا اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے نماز میں مقتدی امام کے جواب میں ٣١ بار ایسا کہیں گے ؟ وہ بھی زور سے ، ایسا سلف سے کوئی تعامل مروی نہیں ہے ، اس لیے اس کا مطلب : یا تو یہ ہے کہ نماز سے باہر جب سنیں تو ایسا جواب دیں ، یا نماز میں ایک بار جواب دیں کافی ہوگا ، اس بارے میں امام احمد کا فتوی ہے کہ اپنے دل میں سرّاً کہہ لے ( مغنی ) اور زیادہ صرف نوافل اور سنن میں اس طرح کے جواب کے قائل ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (2150) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3291

【343】

سورت واقعہ کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ فرماتا ہے : میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی چیزیں تیار کی ہیں جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ ہی کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال آیا ہے، تم چاہو تو اس آیت کو پڑھ لو «فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما کانوا يعملون» ان کے نیک اعمال کے بدلے میں ان کی آنکھ کی ٹھنڈک کے طور پر جو چیز تیار کی گئی ہے اسے کوئی بھی نہیں جانتا (السجدۃ : ١٧) ، جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کی (گھنی) چھاؤں میں سوار سو برس تک بھی چلتا چلا جائے تو بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو، تم چاہو تو آیت کا یہ ٹکڑا «وظل ممدود» پھیلا ہوا لمبا لمبا سایہ (الواقعہ : ٣٠) ، پڑھ لو، جنت میں ایک کوڑا رکھنے کی جگہ برابر دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے، چاہو تو دلیل کے طور پر یہ آیت پڑھ لو «فمن زحزح عن النار وأدخل الجنة فقد فاز وما الحياة الدنيا إلا متاع الغرور» جو شخص جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے (آل عمران : ١٨٥) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٠٤٢، و ١٥٠٥٢) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (1978) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3292

【344】

سورت واقعہ کی تفسیر

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایک درخت ہے، سوار اس کے سایہ میں سو سال تک چلے گا پھر بھی اس درخت کے سایہ کو عبور نہ کرسکے گا، اگر چاہو تو پڑھو «وظل ممدود وماء مسکوب» ان کے لیے دراز سایہ ہے اور (فراواں) بہتا ہوا پانی (الواقعہ : ٣٠) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٤٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3293

【345】

سورت واقعہ کی تفسیر

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت کریمہ : «وفرش مرفوعة» جنتیوں کے اونچے اونچے بچھونے ہوں گے (الواقعہ : ٣٤) ، کے سلسلے میں فرمایا : ان بچھونوں کی اونچائی اتنی ہے جنتا آسمان و زمین کے درمیان کا فاصلہ ہے اور ان کے درمیان چلنے کی مسافت پانچ سو سال کی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف رشدین کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- بعض اہل علم کہتے ہیں : اس حدیث میں «ارتفاعها كما بين السماء والأرض» کا مفہوم یہ ہے کہ بچھونوں کی اونچائی درجات کی بلندی کے مطابق ہوگی اور ہر دو درجے کے درمیان کا فاصلہ اتنا ہوگا جتنا آسمان و زمین کے درمیان کا فاصلہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٥٤٠ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (4 / 262) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3294

【346】

سورت واقعہ کی تفسیر

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت «وتجعلون رزقکم أنكم تکذبون» اور تم اپنے رزق (کا شکریہ یہ ادا کرتے ہو کہ) تم (اللہ کی رزاقیت کی) تکذیب کرتے ہو (الواقعہ : ٨٢) ، کے متعلق فرمایا : تمہارا «شكر» یہ ہوتا ہے : تم کہتے ہو کہ یہ بارش فلاں فلاں نچھتر کے باعث اور فلاں فلاں ستاروں کی گردش کی بدولت ہوئی ہے۔ اس طرح تم جھوٹ بول کر حقیقت کو جھٹلاتے ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ہم اسے اسرائیل کی روایت کے سوا اور کسی سند سے مرفوع نہیں جانتے، ٢- اس حدیث کو سفیان ثوری نے عبدالاعلی سے، عبدالاعلیٰ نے ابوعبدالرحمٰن سلمی سے، اور عبدالرحمٰن نے علی سے اسی طرح روایت کیا ہے، اور اسے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠١٧٣) (ضعیف الإسناد) (سند میں ” عبد الاعلی بن عامر “ کو وہم ہوجایا کرتا تھا) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3295

【347】

سورت واقعہ کی تفسیر

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت : «إنا أنشأناهن إنشاء» ہم انہیں نئی اٹھان اٹھائیں گے نئی اٹھان (الواقعہ : ٨٢) ، کے سلسلے میں فرمایا : ان نئی اٹھان والی عورتوں میں وہ عورتیں بھی ہیں جو دنیا میں بوڑھی تھیں، جن کی آنکھیں خراب ہوچکی ہوں اور ان سے پانی بہتا رہتا ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے مرفوع صرف موسیٰ بن عبیدہ کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- اور موسیٰ بن عبیدہ اور یزید بن ابان رقاشی حدیث بیان کرنے میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٧٦) (ضعیف الإسناد) (سند میں ” موسیٰ بن عبیدہ “ اور ” یزید بن ابان وقاشی “ دونوں ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3296

【348】

سورت واقعہ کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : آپ تو بوڑھے ہو چلے ؟ آپ نے فرمایا : مجھے «هود» ،«الواقعة» ، «المرسلات» ، «عم يتساء لون» اور سورة «إذا الشمس کوّرت» نے بوڑھا کردیا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے ابن عباس (رض) کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- علی بن صالح نے یہ حدیث اسی طرح ابواسحاق سے، اور ابواسحاق نے ابوحجیفہ (رض) سے روایت کی ہے، ٣- اس حدیث کی کچھ باتیں ابواسحاق ابومیسرہ سے مرسلاً روایت کی گئی ہیں۔ ابوبکر بن عیاش نے ابواسحاق کے واسطہ سے، ابواسحاق نے عکرمہ سے، اور عکرمہ نے نبی اکرم ﷺ سے شیبان کی اس حدیث جیسی روایت کی ہے جسے انہوں نے ابواسحاق سے روایت کی ہے اور انہوں نے اس روایت میں ابن عباس (رض) سے روایت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦١٧٥) (صحیح) (الصحیحة ٩٥٥) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ ان میں قیامت کی خبریں اور عذاب کی آیتیں ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (955) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3297

【349】

سورت حدید کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ اس دوران کہ نبی اکرم ﷺ اور صحابہ بیٹھے ہوئے تھے، ان پر ایک بدلی آئی، نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا : یہ بادل ہے اور یہ زمین کے گوشے و کنارے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بادل کو ایک ایسی قوم کے پاس ہانک کرلے جا رہا ہے جو اس کی شکر گزار نہیں ہے اور نہ ہی اس کو پکارتے ہیں ، پھر آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو تمہارے اوپر کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا : یہ آسمان «رقیع» ہے، ایسی چھت ہے جو (جنوں سے) محفوظ کردی گئی ہے، ایک ایسی (لہر) ہے جو (بغیر ستون کے) روکی ہوئی ہے ، پھر آپ نے پوچھا : کیا تم جانتے ہو کہ کتنا فاصلہ ہے تمہارے اور اس کے درمیان ؟ لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا : تمہارے اور اس کے درمیان پانچ سو سال مسافت کی دوری ہے ، پھر آپ نے پوچھا : کیا تمہیں معلوم ہے اور اس سے اوپر کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے، آپ نے فرمایا : اس کے اوپر دو آسمان ہیں جن کے بیچ میں پانچ سو سال کی مسافت ہے ۔ ایسے ہی آپ نے سات آسمان گنائے، اور ہر دو آسمان کے درمیان وہی فاصلہ ہے جو آسمان و زمین کے درمیان ہے، پھر آپ نے پوچھا : اور اس کے اوپر کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، اور اس کے رسول آپ نے فرمایا : اس کے اوپر عرش ہے، عرش اور آسمان کے درمیان اتنی دوری ہے جتنی دوری دو آسمانوں کے درمیان ہے ، آپ نے پوچھا : کیا تم جانتے ہو تمہارے نیچے کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں : آپ نے فرمایا : یہ زمین ہے ، آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو اس کے نیچے کیا ہے ؟ ، لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا : اس کے نیچے دوسری زمین ہے، ان دونوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت کی دوری ہے ، اس طرح آپ نے سات زمینیں شمار کیں، اور ہر زمین کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت کی دوری بتائی، پھر آپ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! اگر تم کوئی رسی زمین کی نچلی سطح تک لٹکاؤ تو وہ اللہ ہی تک پہنچے گی، پھر آپ نے آیت «هو الأول والآخر والظاهر والباطن وهو بکل شيء عليم» وہی اول و آخر ہے وہی ظاہر و باطن ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے (الحدید : ٣) ، پڑھی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢- ایوب، یونس بن عبید اور علی بن زید سے مروی ہے، ان لوگوں نے کہا ہے کہ حسن بصری نے ابوہریرہ سے نہیں سنا ہے، ٣- بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے کہا : مراد یہ ہے کہ وہ رسی اللہ کے علم پر اتری ہے، اور اللہ اور اس کی قدرت و حکومت ہر جگہ ہے اور جیسا کہ اس نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں اپنے متعلق بتایا ہے وہ عرش پر مستوی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٢٥٣) (ضعیف) (ابوہریرہ (رض) سے حسن بصری کا سماع نہیں ہے، نیز وہ مدلس ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف ظلال الجنة (578) // ضعيف الجامع الصغير (6094) ، المشکاة (5735) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3298

【350】

سورت مجادلہ کی تفسیر

سلمہ بن صخر انصاری (رض) کہتے ہیں کہ مجھے عورت سے جماع کی جتنی شہوت و قوت ملی تھی (میں سمجھتا ہوں) اتنی کسی کو بھی نہ ملی ہوگی، جب رمضان کا مہینہ آیا تو میں نے اس ڈر سے کہ کہیں میں رمضان کی رات میں بیوی سے ملوں (صحبت کر بیٹھوں) اور پے در پے جماع کئے ہی جاؤں کہ اتنے میں صبح ہوجائے اور میں اسے چھوڑ کر علیحدہ نہ ہو پاؤں، میں نے رمضان کے ختم ہونے تک کے لیے بیوی سے ظہار ١ ؎ کرلیا، پھر ایسا ہوا کہ ایک رات میری بیوی میری خدمت کر رہی تھی کہ اچانک مجھے اس کی ایک چیز دکھائی پڑگئی تو میں (اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا) اسے دھر دبوچا، جب صبح ہوئی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اور انہیں اپنے حال سے باخبر کیا، میں نے ان سے کہا کہ میرے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلو تاکہ میں آپ کو اپنے معاملے سے باخبر کر دوں، ان لوگوں نے کہا : نہیں، اللہ کی قسم ! ہم نہ جائیں گے، ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہمارے متعلق قرآن (کوئی آیت) نازل نہ ہوجائے، یا رسول اللہ ﷺ کوئی بات نہ کہہ دیں جس کی شرمندگی برقرار رہے، البتہ تم خود ہی جاؤ اور جو مناسب ہو کرو، تو میں گھر سے نکلا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ کو اپنی بات بتائی، آپ نے فرمایا : تم نے یہ کام کیا ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں، میں نے ایسا کیا ہے، آپ نے فرمایا : تم نے ایسا کیا ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں، میں نے ایسا کیا ہے آپ نے (تیسری بار بھی یہی) پوچھا : تو نے یہ بات کی ہے ، میں نے کہا : جی ہاں، مجھ سے ہی ایسی بات ہوئی ہے، مجھ پر اللہ کا حکم جاری و نافذ فرمائیے، میں اپنی اس بات پر ثابت و قائم رہنے والا ہوں، آپ نے فرمایا : ایک غلام آزاد کرو ، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ! میں اپنی اس گردن کے سوا کسی اور گردن کا مالک نہیں ہوں (غلام کیسے آزاد کروں) آپ نے فرمایا : پھر دو مہینے کے روزے رکھو ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! مجھے جو پریشانی و مصیبت لاحق ہوئی ہے وہ اسی روزے ہی کی وجہ سے تو لاحق ہوئی ہے، آپ نے فرمایا : تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو ، میں نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ! ہم نے یہ رات بھوکے رہ کر گزاری ہے، ہمارے پاس رات کا بھی کھانا نہ تھا، آپ نے فرمایا : بنو زریق کے صدقہ دینے والوں کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ تمہیں صدقہ کا مال دے دیں اور اس میں سے تم ایک وسق ساٹھ مسکینوں کو اپنے کفارہ کے طور پر کھلا دو اور باقی جو کچھ بچے وہ اپنے اوپر اور اپنے بال بچوں پر خرچ کرو، وہ کہتے ہیں : پھر میں لوٹ کر اپنی قوم کے پاس آیا، میں نے کہا : میں نے تمہارے پاس تنگی، بدخیالی اور بری رائے و تجویز پائی، جب کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کشادگی اور برکت پائی، رسول اللہ ﷺ نے مجھے تمہارا صدقہ لینے کا حکم دیا ہے تو تم لوگ اسے مجھے دے دو ، چناچہ ان لوگوں نے مجھے دے دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : سلیمان بن یسار نے میرے نزدیک سلمہ بن صخر سے نہیں سنا ہے، سلمہ بن صخر کو سلمان بن صخر بھی کہتے ہیں، ٣- اس باب میں خولہ بنت ثعلبہ سے بھی روایت ہے، اور یہ اوس بن صامت کی بیوی ہیں (رضی اللہ عنہما) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١١٩٨ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : میں نے کہہ دیا کہ تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہے۔ تاکہ رمضان بھر تو جماع سے بچا رہ سکوں ، اور حالت صوم میں جماع کی نوبت نہ آنے پائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2062) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3299

【351】

سورت مجادلہ کی تفسیر

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ جب آیت کریمہ : «يا أيها الذين آمنوا إذا ناجيتم الرسول فقدموا بين يدي نجواکم صدقة» اے ایمان والو ! جب رسول اللہ ( ﷺ ) سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو (المجادلہ : ١٢) ، نازل ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے پوچھا : تمہاری کیا رائے ہے، ایک دینار صدقہ مقرر کر دوں ؟ میں نے کہا : لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے، آپ نے فرمایا : تو کیا آدھا دینار مقرر کر دوں ؟ میں نے کہا : اس کی بھی طاقت نہیں رکھتے ، آپ نے فرمایا : پھر کتنا کر دوں ؟ میں نے کہا : ایک جو کردیں، آپ نے فرمایا : تم تو بالکل ہی گھٹا دینے والے نکلے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی «أأشفقتم أن تقدموا بين يدي نجواکم صدقات» کیا تم اس حکم سے ڈر گئے کہ تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقے دے دیا کرو (المجادلہ : ١٣) ، علی (رض) کہتے ہیں : اللہ نے میری وجہ سے فضل فرما کر اس امت کے معاملے میں تخفیف فرما دی (یعنی اس حکم کو منسوخ کردیا) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- علی (رض) کے قول «شعيرة» سے مراد ایک جو کے برابر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٢٤٩) (ضعیف الإسناد) (سند میں علی بن علقمہ لین الحدیث راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3300

【352】

سورت مجادلہ کی تفسیر

انس ابن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کے پاس آ کر کہا : «السام عليكم» (تم پر موت آئے) لوگوں نے اسے اس کے «سام» کا جواب دیا، نبی اکرم ﷺ نے لوگوں سے پوچھا : کیا تم جانتے ہو اس نے کیا کہا ہے ؟ لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں، اے اللہ کے نبی ! اس نے تو سلام کیا ہے، آپ نے فرمایا : نہیں، بلکہ اس نے تو ایسا ایسا کہا ہے، تم لوگ اس (یہودی) کو لوٹا کر میرے پاس لاؤ، لوگ اس کو لوٹا کر لائے، آپ نے اس یہودی سے پوچھا : تو نے «السام عليكم» کہا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، نبی اکرم ﷺ نے اسی وقت سے یہ حکم صادر فرمایا دیا کہ جب اہل کتاب میں سے کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس کے جواب میں «عليك ما قلت» (جو تم نے کہی وہی تمہارے لیے بھی ہے) کہہ دیا کرو، اور آپ نے یہ آیت پڑھی «وإذا جاءوک حيوک بما لم يحيك به الله» یہ یہودی جب تمہارے پاس آتے ہیں تو وہ تمہیں اس طرح سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تمہیں سلام نہیں کیا ہے (المجادلہ : ٨) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٠٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (5 / 117) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3301

【353】

سورت حشر کی تفسیر

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی نضیر کے کھجور کے درخت جلا دئیے اور کاٹ ڈالے، اس جگہ کا نام بویرہ تھا، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «ما قطعتم من لينة أو ترکتموها قائمة علی أصولها فبإذن اللہ وليخزي الفاسقين» جو ان کے درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر قائم (و سالم) چھوڑ دیا یہ سب کچھ اذن الٰہی سے تھا، اور اس لیے بھی تھا کہ اللہ ایسے فاسقوں کو رسوا کرے (الحشر : ٥) ، نازل فرمائی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المزارعة ٤ (٢٣٥٦) ، والجھاد ١٥٤ (٣٠٢٠) ، والمغازي ١٤ (٣٩٦٠) ، صحیح مسلم/الجھاد ١٠ (١٧٤٦) ، سنن ابی داود/ الجھاد ٩١ (٢٦١٥) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد (٢٨٤٤) ، وسنن الدارمی/السیر ٢٣ (٢٥٠٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ غزوہ بنو نضیر کا واقعہ ہے ، جس میں ایک جنگی مصلحت کے تحت نبی ﷺ نے بنو نضیر کے بعض کھجور کے درختوں کو کاٹ ڈالنے کا حکم دیا تھا ، اس پر یہودیوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا تھا کہ دیکھو محمد دین الٰہی کے دعویدار بنتے ہیں ، بھلا دین الٰہی میں پھلدار درختوں کو کاٹ ڈالنے کا معاملہ جائز ہوسکتا ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو جواب دیا کہ یہ سب اللہ کے حکم سے کسی مصلحت کے تحت ہوا ( ایک خاص مصلحت یہ تھی کہ یہ مسلمانوں کی حکومت اور غلبے کا اظہار تھا ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2844) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3302

【354】

سورت حشر کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) آیت «ما قطعتم من لينة أو ترکتموها قائمة علی أصولها» کی تفسیر میں فرماتے ہیں : «لينة» سے مراد کھجور کے درخت ہیں اور «وليخزي الفاسقين» (تاکہ اللہ فاسقوں کو ذلیل کرے) کے بارے میں کہتے ہیں : ان کی ذلت یہی ہے کہ مسلمانوں نے انہیں ان کے قلعوں سے نکال بھگایا اور (مسلمانوں کو یہود کے) کھجور کے درخت کاٹ ڈالنے کا حکم دیا گیا، تو ان کے دلوں میں یہ بات کھٹکی، مسلمانوں نے کہا : ہم نے بعض درخت کاٹ ڈالے اور بعض چھوڑ دیئے ہیں تو اب ہم رسول اللہ ﷺ سے پوچھیں گے کہ ہم نے جو درخت کاٹے ہیں کیا ہمیں ان کا کچھ اجر و ثواب ملے گا، اور جو درخت ہم نے نہیں کاٹے ہیں کیا ہمیں اس کا کچھ عذاب ہوگا ؟ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی، «ما قطعتم من لينة أو ترکتموها قائمة علی أصولها» تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پر باقی رہنے دیا، یہ سب اللہ تعالیٰ کے فرمان سے تھا اور اس لیے بھی تھا کہ اللہ فاسقوں کو رسوا کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٥٤٨٨) (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3303 بعض اور لوگوں نے یہ حدیث بطریق : «حفص بن غياث عن حبيب بن أبي عمرة عن سعيد بن جبير» مرسلاً روایت کی ہے، اور اس کی سند میں عبداللہ بن عباس (رض) کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3303

【355】

سورت حشر کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک انصاری شخص کے پاس رات میں ایک مہمان آیا، اس انصاری کے پاس (اس وقت) صرف اس کے اور اس کے بچوں بھر کا ہی کھانا تھا، اس نے اپنی بیوی سے کہا (ایسا کرو) بچوں کو (کسی طرح) سلا دو اور (کھانا کھلانے چلو تو) چراغ بجھا دو ، اور جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ مہمان کے قریب رکھ دو ، اس پر آیت «ويؤثرون علی أنفسهم ولو کان بهم خصاصة» یہ خود محتاج و ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی اپنے پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں (الحشر : ٩) ، نازل ہوئی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ١٠ (٣٧٩٧) ، وتفسیر سورة الحشر ٦ (٤٨٨٩) ، صحیح مسلم/الأشربة ٣٢ (٢٠٥٤) (تحفة الأشراف : ١٣٤١٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ انصاری شخص ابوطلحہ (رض) تھے ، جیسا کہ صحیح مسلم میں صراحت ہے ، اس واقعہ میں یہ بھی ہے کہ دونوں میاں بیوی اندھیرے میں برتن اپنے سامنے رکھ کر خود بھی کھانے کا مظاہرہ کر رہے تھے تاکہ مہمان کو یہ اندازہ ہو کہ وہ بھی کھا رہے ہیں ، چراغ بجھا دینے کی یہی حکمت تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3304

【356】

سورت ممتحنہ کی تفسیر

عبیداللہ بن ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے زبیر اور مقداد بن اسود کو بھیجا، فرمایا : جاؤ، روضہ خاخ ١ ؎ پر پہنچو وہاں ایک ھودج سوار عورت ہے، اس کے پاس ایک خط ہے، وہ خط جا کر اس سے لے لو، اور میرے پاس لے آؤ، چناچہ ہم نکل پڑے، ہمارے گھوڑے ہمیں لیے لیے دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش کر رہے تھے، ہم روضہ پہنچے، ہمیں ہودج سوار عورت مل گئی، ہم نے اس سے کہا : خط نکال، اس نے کہا : ہمارے پاس کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا : خط نکالتی ہے یا پھر اپنے کپڑے اتارتی ہے ؟ (یہ سن کر) اپنی چوٹی (جوڑے) سے اس نے خط نکالا، ہم اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آ گئے، وہ خط حاطب بن ابی بلتعہ (رض) کی جانب سے تھا، مکہ کے کچھ مشرکین کے پاس بھیجا گیا تھا، نبی اکرم ﷺ کے بعض اقدامات کی انہیں خبر دی گئی تھی، آپ نے فرمایا : حاطب ! یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہمارے خلاف حکم فرمانے میں جلدی نہ کریں، میں ایک ایسا شخص تھا جو قریش کے ساتھ مل جل کر رہتا تھا، لیکن (خاندانی طور پر) قریشی نہ تھا، باقی جو مہاجرین آپ کے ساتھ تھے ان کی وہاں رشتہ داریاں تھیں جس کی وجہ سے وہ رشتہ دار مکہ میں ان کے گھر والوں اور ان کے مالوں کی حفاظت و حمایت کرتے تھے، میں نے مناسب سمجھا کہ جب ہمارا ان سے کوئی خاندانی و نسبی تعلق نہیں ہے تو میں ان پر احسان کر کے کسی کا ہاتھ پکڑ لوں جس کی وجہ سے یہ اہل مکہ ہمارے گھر اور رشتہ داروں کی حفاظت و حمایت کریں، میں نے ایسا کفر اختیار کرلینے یا اپنے دین سے مرتد ہوجانے یا کفر کو پسند کرلینے کی وجہ سے نہیں کیا ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حاطب نے سچ اور (صحیح) بات کہی ہے ، عمر بن خطاب (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجئیے، میں اس منافق کی گردن مار دوں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ جنگ بدر میں موجود رہے ہیں، تمہیں معلوم نہیں، یقیناً اللہ نے بدر والوں کی حالت (یعنی ان کے جذبہ جاں فروشی) کو دیکھ کر کہہ دیا ہے : جو چاہو کرو ہم نے تمہارے گناہ بخش دیئے ہیں ، اسی سلسلے میں یہ پوری سورة «يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوکم أولياء» اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ، تم انہیں دوستی کا پیغام بھیجتے ہو (الممتحنۃ : ١) ، آخر تک نازل ہوئی۔ عمرو (راوی حدیث) کہتے ہیں : میں نے عبیداللہ بن ابی رافع کو دیکھا ہے، وہ علی (رض) کے کاتب (محرر) تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسی طرح کئی ایک نے یہ حدیث سفیان بن عیینہ سے روایت کی ہے، اور ان سبھوں نے بھی یہی لفظ ذکر کیا ہے کہ علی اور زبیر (رض) وغیرہ نے کہا : تمہیں خط نکال کردینا ہوگا، ورنہ پھر تمہیں کپڑے اتارنے پڑیں گے، ٣- ابوعبدالرحمٰن السلمی سے بھی یہ حدیث مروی ہوئی ہے، انہوں نے علی (رض) سے اسی حدیث کے مانند روایت کیا ہے، ٤- اس باب میں عمر اور جابر بن عبداللہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور بعضوں نے ذکر کیا کہ انہوں نے کہا کہ تو خط نکال دے ورنہ ہم تجھے ننگا کردیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٤١ (٣٧٠٠) ، والمغازي ٩ (٣٩٨٣) ، وتفسیر سورة الممتحنة ١ (٤٨٩٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٣٦ (٢٤٩٤) (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٧) ، و مسند احمد (١/٧٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : خاخ ایک جگہ کا نام ہے اس کے اور مدینہ کے درمیان ١٢ میل کا فاصلہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2381) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3305

【357】

سورت ممتحنہ کی تفسیر

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کسی کا امتحان نہیں لیا کرتے تھے مگر اس آیت سے جس میں اللہ نے «إذا جاءک المؤمنات يبايعنك» اے مومنوا ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں (مکہ سے) ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو، اللہ تو ان کے ایمان کو جانتا ہی ہے، اگر تم یہ جان لو کہ یہ واقعی مومن عورتیں ہیں تو ان کو ان کے کافر شوہروں کے پاس نہ لوٹاؤ، نہ تو وہ کافروں کے لیے حلال ہیں نہ کافر ان کے لیے حلال ہیں (الممتحنۃ : ١٠) ، کہا ہے ١ ؎۔ معمر کہتے ہیں : ابن طاؤس نے مجھے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ ان کے باپ نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ نے اس عورت کے سوا جس کے آپ مالک ہوتے کسی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر : صحیح البخاری/الأحکام ٤٩ (٧٢١٤) (تحفة الأشراف : ١٦٦٤٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور امتحان لینے کا مطلب یہ ہے کہ کافر ہوں اور اپنے شوہروں سے ناراض ہو کر ، یا کسی مسلمان کے عشق میں گرفتار ہو کر آئی ہوں ، اور جب تحقیق ہوجائے تب بھی صلح حدیبیہ کی شق کے مطابق ان عورتوں کو واپس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مسلمان عورت کافر مرد کے لیے حرام ہے ، ( مردوں کو بھلے واپس کیا جائے گا ) ٢ ؎ : اس سے اشارہ اس بات کا ہے کہ آپ عورتوں سے بیعت زبانی لیتے تھے ، اور بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر رکھ کر بیعت لیا وہ اکثر مرسل روایات ہیں ، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے اپنے اور ان کے ہاتھوں کے درمیان کوئی حائل ( موٹا کپڑا وغیرہ ) رکھا ہو ، جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے «لیس فی نسخۃ الالبانی ، وہوضعیف لأجل أبی نصرالاسدی فہومجہول»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3306

【358】

سورت ممتحنہ کی تفسیر

ام سلمہ انصاریہ (رض) کہتی ہیں کہ عورتوں میں سے ایک عورت نے عرض کیا : (اللہ کے رسول ! ) اس معروف سے کیا مراد ہے جس میں ہمیں آپ کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیئے، آپ نے فرمایا : وہ یہی ہے کہ تم (کسی کے مرنے پر) نوحہ مت کرو ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! فلاں قبیلے کی عورتوں نے نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی جب میں نے اپنے چچا پر نوحہ کیا تھا، اس لیے میرے لیے ضروری ہے کہ جب ان کے نوحہ کرنے کا وقت آئے تو میں ان کے ساتھ نوحہ میں شریک ہو کر اس کا بدلہ چکاؤں، آپ نے انکار کیا، (مجھے اجازت نہ دی) میں نے کئی بار آپ سے اپنی عرض دہرائی تو آپ نے مجھے ان کا بدلہ چکا دینے کی اجازت دے دی، اس بدلہ کے چکا دینے کے بعد پھر میں نے نہ ان پر اور نہ ہی کسی اور پر اب قیامت تک نوحہ (جبکہ) میرے سوا کوئی عورت ایسی باقی نہیں ہے جس نے نوحہ نہ کیا ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ام عطیہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- عبد بن حمید کہتے ہیں، ام سلمہ انصاریہ ہی اسماء بنت یزید بن السکن ہیں (رض) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥١ (١٥٧٩) (١٥٧٦٩) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان عورتوں میں سے ہر عورت نے نوحہ کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1579) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3307

【359】

سورت ممتحنہ کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) اس آیت «إذا جاء کم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن» کی تفسیر میں کہتے ہیں : جب کوئی عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس ایمان لانے کے لیے آتی تو آپ اسے اللہ تعالیٰ کی قسم دلا کر کہلاتے کہ میں اپنے شوہر سے ناراضگی کے باعث کفر سے نہیں نکلی ہوں بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت لے کر اسلام قبول کرنے آئی ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : لم یوردہ في ترجمة أبي نصر عن ابن عباس) (ضعیف) (سند میں راوی قیس بن الربیع کوفی صدوق راوی ہیں، لیکن بڑھاپے میں حافظہ میں تبدیلی آ گئی تھی، اور ان کے بیٹے نے ان کی کتاب میں وہ احادیث داخل کردیں جو ان کی روایت سے نہیں تھیں، اور انہوں ان روایات کو بیان کیا، اور ابوالنصر اسدی بصری کو ابو زرعہ نے ثقہ کہا ہے، اور امام بخاری کہتے ہیں کہ ابو نصر کا سماع ابن عباس سے غیر معروف ہے (صحیح البخاری، النکاح (٥١٠٥) تہذیب الکمال ٣٤/٣٤٣) اور حافظ ابن حجر ابو نصر أسدی کو مجہول کہتے ہیں (التقریب) ١ ؎۔ وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث تحفۃ الأحوذی میں نہیں ہے ، نیز سنن ترمذی کے مکتبۃ المعارف والے نسخے میں بھی نہیں ہے ، جب کہ ضعیف سنن الترمذی میں یہ حدیث موجود ہے ، اور شیخ البانی نے إتحاف الخیرۃ المہرۃ ٨/ ١٧٤) کا حوالہ دیا ہے ، واضح رہے کہ یہ حدیث عارضۃ الأحوذی شرح صحیح الترمذی لابن العربی المالکی کے مطبوعہ نسخے ب تحقیق جمال مرعشلی میں موجود ہے ، اور حاشیہ میں یہ نوٹ ہے کہ مزی نے اس حدیث کو تحفۃ الأشراف میں نہیں ذکر کیا ہے ، اور یہ ترمذی کے دوسرے نسخوں میں موجود نہیں ہے ١٢/١٤١) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3308

【360】

تفسیر سورت الصف

عبداللہ بن سلام (رض) کہتے ہیں کہ ہم چند صحابہ بیٹھے ہوئے تھے، آپس میں باتیں کرنے لگے، ہم نے کہا : اگر ہم جان پاتے کہ کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے تو ہم اسی پر عمل کرتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : «سبح لله ما في السموات وما في الأرض وهو العزيز الحکيم يا أيها الذين آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون» زمین و آسمان کی ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے، اے ایمان والو ! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو (الصف : ١- ٣) ١ ؎ عبداللہ بن سلام کہتے ہیں : یہ سورة ہمیں رسول اللہ ﷺ نے پڑھ کر سنائی، ابوسلمہ کہتے ہیں : یہ سورة ہمارے سامنے ابن سلام نے پڑھی، اور یحییٰ کہتے ہیں : یہ سورة ہمارے سامنے ابوسلمہ نے پڑھ کر سنائی، اور محمد بن کثیر کہتے ہیں : ہمارے سامنے اسے اوزاعی نے پڑھ کر سنایا، اور عبداللہ کہتے ہیں : یہ سورة ہمیں ابن کثیر نے پڑھ کر سنائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث کی اوزاعی سے روایت کرنے میں محمد بن کثیر کی مخالفت کی گئی ہے۔ (اس کی تفصیل یہ ہے) ٢- ابن مبارک نے اوزاعی سے روایت کی، اوزاعی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، یحییٰ نے ہلال بن ابومیمونہ سے، ہلال نے عطاء بن یسار سے، اور عطاء نے عبداللہ بن سلام سے، یا ابوسلمہ کے واسطہ سے عبداللہ بن سلام سے، ٣- ولید بن مسلم نے اوزاعی سے یہ حدیث اسی طرح روایت کی ہے جس طرح محمد بن کثیر نے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٣٤٠) (صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : یہ تمنا کیوں کرتے ہو کہ اے کاش ہم جان لیتے کہ کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسندیدہ ہے ، تو ہم اس کو انجام دیتے ، جبکہ تم ایسا نہیں کرتے ( یعنی : اکثر ایسا نہیں کرتے ) تو گویا تم وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3309

【361】

سورت جمعہ کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جس وقت سورة الجمعہ نازل ہوئی اس وقت ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے، آپ نے اس کی تلاوت کی، جب آپ «وآخرين منهم لما يلحقوا بهم» اور اللہ نے اس نبی کو ان میں سے ان دوسرے لوگوں کے لیے بھی بھیجا ہے جو اب تک ان سے ملے نہیں ہیں (الجمعۃ : ٣) ، پر پہنچے تو ایک شخص نے آپ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! وہ کون لوگ ہیں جو اب تک ہم سے نہیں ملے ہیں ؟ (آپ خاموش رہے) اس سے کوئی بات نہ کی، سلمان (فارسی) (رض) ہمارے درمیان موجود تھے، آپ نے اپنا ہاتھ سلمان پر رکھ کر فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر ایمان ثریا پر ہوتا تو بھی (اتنی بلندی اور دوری پر پہنچ کر) ان کی قوم کے لوگ اسے حاصل کر کے ہی رہتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، اور عبداللہ بن جعفر، علی بن المدینی کے والد ہیں، یحییٰ بن معین نے انہیں ضعیف کہا ہے، ٢- ثور بن زید مدنی ہیں، اور ثور بن یزید شامی ہیں، اور ابوالغیث کا نام سالم ہے، یہ عبداللہ بن مطیع کے آزاد کردہ غلام ہیں، مدنی اور ثقہ ہیں، ٣- یہ حدیث ابوہریرہ (رض) کے واسطے سے نبی ﷺ سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے (اور اسی بنیاد پر صحیح ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الجمعة ١ (٤٨٩٧) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥٩ (٢٥٤٦/٢٣١) (تحفة الأشراف : ١٢٩١٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : سورة «محمد» آیت نمبر ٣٨ «وإن تتولوا يستبدل قوما غيركم» (محمد : ٣٨) کی تفسیر میں بھی یہی حدیث ( رقم ٣٢٦٠) مؤلف لائے ہیں ، حافظ ابن حجر کہتے ہیں : دونوں آیات کے نزول پر آپ ﷺ نے ایسا فرمایا ہو ، ایسا بالکل ممکن ہے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1027) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3310

【362】

سورت جمعہ کی تفسیر

جابر (رض) کہتے ہیں کہ اس دوران کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن کھڑے خطبہ دے رہے تھے، مدینہ کا (تجارتی) قافلہ آگیا، (یہ سن کر) صحابہ بھی (خطبہ چھوڑ کر) ادھر ہی لپک لیے، صرف بارہ آدمی باقی رہ گئے جن میں ابوبکر و عمر (رض) بھی تھے، اسی موقع پر آیت «وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وترکوک قائما» اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشہ نظر آ جائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے (الجمعۃ : ١١) ، نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٨ (٩٣٦) ، والبیوع ٦ (٢٠٥٨) ، و ١١ (٢٠٦٤) ، وتفسیر الجمعة ١ (٤٨٩٩) ، صحیح مسلم/الجمعة ١١ (٨٦٣) (تحفة الأشراف : ٢٢٩٢، و ٢٢٣٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3311

【363】

سورت منافقون کی تفسیر

زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا کے ساتھ تھا، میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو اپنے ساتھیوں سے کہتے ہوئے سنا کہ ان لوگوں پر خرچ نہ کرو، جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہیں، یہاں تک کہ وہ تتربتر ہوجائیں، اگر ہم اب لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا، میں نے یہ بات اپنے چچا کو بتائی تو میرے چچا نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کردیا، آپ نے مجھے بلا کر پوچھا تو میں نے آپ کو (بھی) بتادیا، آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا کر پوچھا، تو انہوں نے قسم کھالی کہ ہم نے نہیں کہی ہے، رسول اللہ ﷺ نے مجھے جھوٹا اور اسے سچا تسلیم کرلیا، اس کا مجھے اتنا رنج و ملال ہوا کہ اس جیسا صدمہ، اور رنج و ملال مجھے کبھی نہ ہوا تھا، میں (مارے شرم و ندامت اور صدمہ کے) اپنے گھر میں ہی بیٹھ رہا، میرے چچا نے کہا : تو نے یہی چاہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں جھٹلا دیں اور تجھ پر خفا ہوں ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے «إذا جاءک المنافقون» والی سورت نازل فرمائی، تو آپ نے مجھے بلا بھیجا (جب میں آیا تو) آپ نے یہ سورة پڑھ کر سنائی، پھر فرمایا : اللہ نے تجھے سچا قرار دے دیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر المنافقین ١ (٤٩٠٠) ، و ٢ (٤٩٠١) ، و ٣ (٤٩٠٣) ، و ٤ (٤٩٠٤) ، صحیح مسلم/المنافقین ح ١ (٢٧٧٢) (تحفة الأشراف : ٣٦٧٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3312

【364】

سورت منافقون کی تفسیر

زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ (غزوہ بنی مصطلق میں) جہاد کے لیے نکلے، ہمارے ساتھ کچھ اعرابی بھی تھے (جب کہیں پانی نظر آتا) تو ہم ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر حاصل کرلینے کی کوشش کرتے، اعرابی پانی تک پہنچنے میں ہم سے آگے بڑھ جاتے (اس وقت ایسا ہوا) ایک دیہاتی اپنے ساتھیوں سے آگے نکل گیا، جب آگے نکلتا تو حوض کو بھرتا اور اس کے اردگرد پتھر رکھتا، اس پر چمڑے کی چٹائی ڈال دیتا، پھر اس کے ساتھی آتے، اسی موقع پر انصاریوں میں سے ایک اعرابی کے پاس آیا، اور اپنی اونٹنی کی مہار ڈھیلی کردی تاکہ وہ پانی پی لے، مگر اس اعرابی شخص نے پانی پینے نہ دیا، انصاری نے باندھ توڑ دیا اعرابی نے لٹھ اٹھائی اور انصاری کے سر پر مار کر اس کا سر توڑ دیا، وہ انصاری منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کے پاس آیا، وہ اس کے (ہم خیال) ساتھیوں میں سے تھا، اس نے اسے واقعہ کی اطلاع دی، عبداللہ بن ابی یہ خبر سن کر بھڑک اٹھا، غصہ میں آگیا، کہا : ان لوگوں پر تم لوگ خرچ نہ کرو جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہیں جب تک کہ وہ (یعنی اعرابی) ہٹ نہ جائیں جب کہ ان کا معمول یہ تھا کہ کھانے کے وقت وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس اکٹھا اور موجود ہوتے تھے، عبداللہ بن ابی نے کہا : جب وہ لوگ محمد کے پاس سے چلے جائیں تو محمد کے پاس کھانا لے کر آؤ تاکہ محمد ( ﷺ ) اور ان کے ساتھ (خاص) موجود لوگ کھا لیں، پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا : اگر ہم مدینہ (بسلامت) پہنچ گئے تو تم میں جو عزت والے ہیں انہیں ذلت والوں (اعرابیوں) کو مدینہ سے ضرور نکال بھگا دینا چاہیئے، زید کہتے ہیں : میں سواری پر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میں نے عبداللہ بن ابی کی بات سن لی، تو اپنے چچا کو بتادی، چچا گئے، انہوں نے جا کر رسول اللہ ﷺ کو خبر دیدی، رسول اللہ ﷺ نے کسی کو بھیج کر اسے بلوایا، اس نے آ کر قسمیں کھائیں اور انکار کیا (کہ میں نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں) تو رسول اللہ ﷺ نے اسے سچا مان لیا اور مجھے جھوٹا ٹھہرا دیا، پھر میرے چچا میرے پاس آئے، بولے (بیٹے) تو نے کیا سوچا تھا کہ رسول اللہ ﷺ تجھ پر غصہ ہوں اور رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں نے تجھے جھوٹا ٹھہرا دیا، (یہ سن کر) مجھے اتنا غم اور صدمہ ہوا کہ شاید اتنا غم اور صدمہ کسی اور کو نہ ہوا ہوگا، میں غم سے اپنا سر جھکائے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں چلا ہی جا رہا تھا کہ یکایک آپ میرے قریب آئے میرے کان کو جھٹکا دیا اور میرے سامنے مسکرا دیئے مجھے اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ اس کے بدلے میں اگر مجھے دنیا میں جنت مل جاتی تو بھی اتنی خوشی نہ ہوتی، پھر مجھے ابوبکر (رض) ملے، مجھ سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ نے تم سے کیا کہا ؟ میں نے کہا : مجھ سے آپ نے کچھ نہیں کہا : البتہ میرے کان پکڑ کر آپ نے ہلائے اور مجھے دیکھ کر ہنسے، ابوبکر (رض) نے کہا : خوش ہوجاؤ، پھر مجھے عمر (رض) ملے، میں نے انہیں بھی وہی بات بتائی، جو میں نے ابوبکر (رض) سے کہی تھی، پھر صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے (نماز فجر میں) سورة منافقین پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ٣٦٩١) (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3313

【365】

سورت منافقون کی تفسیر

حکم بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں محمد بن کعب قرظی کو چالیس سال سے زید بن ارقم (رض) سے روایت کرتے سن رہا ہوں کہ غزوہ تبوک میں عبداللہ بن ابی نے کہا : اگر ہم مدینہ لوٹے تو عزت والے لوگ ذلت والوں کو مدینہ سے ضرور نکال باہر کریں گے، وہ کہتے ہیں : میں یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا، اور آپ کو یہ بات بتادی (جب اس سے بازپرس ہوئی) تو وہ قسم کھا گیا کہ اس نے تو ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں ہے، میری قوم نے مجھے ملامت کی، لوگوں نے کہا : تجھے اس طرح کی (جھوٹ) بات کہنے سے کیا ملا ؟ میں گھر آگیا، رنج و غم میں ڈوبا ہوا لیٹ گیا، پھر نبی اکرم ﷺ میرے پاس آئے یا میں آپ کے پاس پہنچا (راوی کو شک ہوگیا ہے کہ زید بن ارقم (رض) نے یہ کہا یا وہ کہا) آپ نے فرمایا : اللہ نے تجھے سچا ٹھہرایا ہے یہ آیت نازل ہوئی ہے : «هم الذين يقولون لا تنفقوا علی من عند رسول اللہ حتی ينفضوا» وہی لوگ تھے جو کہتے تھے ان لوگوں پر خرچ نہ کرو، جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ منتشر ہوجائیں (المنافقون : ٧) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٣١٢ (تحفة الأشراف : ٣٦٨٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3314

【366】

سورت منافقون کی تفسیر

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں تھے، (سفیان کہتے ہیں : لوگوں کا خیال یہ تھا کہ وہ غزوہ بنی مصطلق تھا) ، مہاجرین میں سے ایک شخص نے ایک انصاری شخص کے چوتڑ پر لات مار دی، مہاجر نے پکارا : اے مہاجرین، انصاری نے کہا : اے انصاریو ! یہ (آواز) نبی اکرم ﷺ نے سن لی، فرمایا : جاہلیت کی کیسی پکار ہو رہی ہے ؟ لوگوں نے بتایا : ایک مہاجر شخص نے ایک انصاری شخص کو لات مار دی ہے، آپ نے فرمایا : یہ (پکار) چھوڑ دو ، یہ قبیح و ناپسندیدہ پکار ہے ، یہ بات عبداللہ بن ابی بن سلول نے سنی تو اس نے کہا : واقعی انہوں نے ایسا کیا ہے ؟ قسم اللہ کی مدینہ پہنچ کر ہم میں سے عزت دار لوگ ذلیل و بےوقعت لوگوں کو نکال دیں گے، عمر (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجئیے میں اس منافق کی گردن اڑا دوں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جانے دو (گردن نہ مارو) لوگ یہ باتیں کرنے لگیں کہ محمد تو اپنے ساتھیوں کو قتل کردیتا ہے ، عمرو بن دینار کے علاوہ دوسرے راویوں نے کہا : عبداللہ بن ابی سے اس کے بیٹے عبداللہ ابن عبداللہ نے (تو یہاں تک) کہہ دیا کہ تم پلٹ نہیں سکتے جب تک یہ اقرار نہ کرلو کہ تم ہی ذلیل ہو اور رسول اللہ ﷺ ہی باعزت ہیں تو اس نے اقرار کرلیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر المنافقین ٦ (٤٩٠٧) ، صحیح مسلم/البر والصلة ١٦ (٢٥٨٤/٦٣) (تحفة الأشراف : ٢٥٢٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3315

【367】

سورت منافقون کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جس کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ حج بیت اللہ کو جاسکے یا اس پر اس میں زکاۃ واجب ہوتی ہو اور وہ حج کو نہ جائے، زکاۃ ادا نہ کرے تو وہ مرتے وقت اللہ سے درخواست کرے گا کہ اسے وہ دنیا میں دوبارہ لوٹا دے، ایک شخص نے کہا : ابن عباس ! اللہ سے ڈرو، دوبارہ لوٹا دیئے جانے کی آرزو تو کفار کریں گے (نہ کہ مسلمین) ابن عباس (رض) نے کہا : میں تمہیں اس کے متعلق قرآن پڑھ کر سناتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا «يا أيها الذين آمنوا لا تلهكم أموالکم ولا أولادکم عن ذکر اللہ ومن يفعل ذلک فأولئك هم الخاسرون وأنفقوا من ما رزقناکم من قبل أن يأتي أحدکم الموت» سے «والله خبير بما تعملون» اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں، اور جس نے ایسا کیا وہی لوگ ہیں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے، اور جو روزی ہم نے تمہیں دی ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے اور وہ کہنے لگے کہ اے میرے رب ! کیوں نہ تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دے لیتا، اور نیک لوگوں میں سے ہوجاتا اور جب کسی کا مقررہ وقت آ جاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو سب معلوم ہے (المنافقین : ٩- ١١) ، تک۔ اس نے پوچھا : کتنے مال میں زکاۃ واجب ہوجاتی ہے ؟ ابن عباس (رض) نے کہا : جب مال دو سو درہم ١ ؎ ہوجائے یا زیادہ، پھر پوچھا : حج کب واجب ہوتا ہے ؟ کہا : جب توشہ اور سواری کا انتظام ہوجائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٦٨٩) (ضعیف الإسناد) (سند میں ضحاک بن مزاحم کثیر الارسال ہیں، اور ابو جناب کلبی ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ٥٩٥ گرام چاندی ہوجائے تو اس پر زکاۃ ہے ، ١٢ فیصد زکاۃ ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (5803) ، القسم الأول منه // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3316

【368】

تفسیر سورت التغابن

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ان سے ایک آدمی نے آیت «يا أيها الذين آمنوا إن من أزواجکم وأولادکم عدوا لکم فاحذروهم» اے ایمان والو ! تمہاری بعض بیویاں اور بعض بچے تمہارے دشمن ہیں، پس ان سے ہوشیار رہنا اور اگر تم معاف کر دو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے (التغابن : ١٤) ، کے بارے میں پوچھا کہ یہ کس کے بارے میں اتری ہے ؟ انہوں نے کہا : اہل مکہ میں کچھ لوگ تھے جو ایمان لائے تھے، اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچنے کا ارادہ کرلیا تھا، مگر ان کی بیویوں اور ان کی اولادوں نے انکار کیا کہ وہ انہیں چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس جائیں، پھر جب وہ (کافی دنوں کے بعد) رسول اللہ ﷺ کے یہاں آئے اور دیکھا کہ لوگوں نے دین کی فقہ، (دین کی سوجھ بوجھ) کافی حاصل کرلی ہے، تو انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ اپنی بیویوں اور بچوں کو (ان کے رکاوٹ ڈالنے کے باعث) سزا دیں، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦١٢٣) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3317

【369】

سورہ تحریم کی تفسیر

عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو کہتے ہوئے سنا : میری برابر یہ خواہش رہی کہ میں عمر (رض) سے نبی اکرم ﷺ کی ان دو بیویوں کے بارے میں پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «إن تتوبا إلى اللہ فقد صغت قلوبکما» اے نبی کی دونوں بیویو ! اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو (تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں (یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں (التحریم : ٤) ، (مگر مجھے موقع اس وقت ملا) جب عمر (رض) نے حج کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا، میں نے ڈول سے پانی ڈال کر انہیں وضو کرایا، (اسی دوران) میں نے ان سے پوچھا : امیر المؤمنین ! نبی اکرم ﷺ کی وہ دو بیویاں کون ہیں جن کے بارے میں اللہ نے کہا ہے «إن تتوبا إلى اللہ فقد صغت قلوبکما وإن تظاهرا عليه فإن اللہ هو مولاه» عمر (رض) نے مجھ سے حیرت سے کہا : ہائے تعجب ! اے ابن عباس (تمہیں اتنی سی بات معلوم نہیں) (زہری کہتے ہیں قسم اللہ کی ابن عباس (رض) نے جو بات پوچھی وہ انہیں بری لگی مگر انہوں نے حقیقت چھپائی نہیں بتادی) انہوں نے مجھے بتایا : وہ عائشہ اور حفصہ (رض) ہیں، پھر وہ مجھے پوری بات بتانے لگے کہا : ہم قریش والے عورتوں پر حاوی رہتے اور انہیں دبا کر رکھتے تھے، مگر جب مدینہ آئے تو یہاں ایسے لوگ ملے جن پر ان کی بیویاں غالب اور حاوی ہوتی تھیں، تو ہماری عورتیں ان کی عورتوں سے ان کے رنگ ڈھنگ سیکھنے لگیں، ایک دن ایسا ہوا کہ میں اپنی بیوی پر غصہ ہوگیا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بھی مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی، مجھے (سخت) ناگوار ہوا کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے، اس نے کہا : آپ کو یہ بات کیوں ناگوار لگ رہی ہے ؟ قسم اللہ کی نبی اکرم ﷺ کی بعض بیویاں بھی آپ ﷺ کو پلٹ کر جواب دے رہی ہیں اور دن سے رات تک آپ کو چھوڑے رہتی ہیں (روٹھی اور اینٹھی رہتی) ہیں، میں نے اپنے جی میں کہا : آپ کی بیویوں میں سے جس نے بھی ایسا کیا وہ ناکام ہوئی اور گھاٹے میں رہی، میرا گھر مدینہ کے بنی امیہ نامی محلہ میں عوالی کے علاقہ میں تھا، اور میرا ایک انصاری پڑوسی تھا، ہم باری باری رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا کرتے تھے، ایک دن وہ آتا اور جو کچھ ہوا ہوتا وہ واپس جا کر مجھے بتاتا، اور ایسے ہی ایک دن میں آپ کے پاس آتا اور وحی وغیرہ کی جو بھی خبر ہوتی میں جا کر اسے بتاتا، ہم (اس وقت) باتیں کیا کرتے تھے کہ اہل غسان ہم سے لڑائی کرنے کے لیے اپنے گھوڑوں کے پیروں میں نعلیں ٹھونک رہے ہیں، ایک دن عشاء کے وقت ہمارے پڑوسی انصاری نے آ کر، دروازہ کھٹکھٹایا، میں دروازہ کھول کر اس کے پاس گیا، اس نے کہا : ایک بڑی بات ہوگئی ہے، میں نے پوچھا : کیا اہل غسان ہم پر چڑھائی کر آئے ہیں ؟ اس نے کہا : اس سے بھی بڑا معاملہ پیش آگیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے، میں نے اپنے جی میں کہا : حفصہ ناکام رہی گھاٹے میں پڑی، میں سوچا کرتا تھا کہ ایسا ہونے والا ہے، جب میں نے فجر پڑھی تو اپنے کپڑے پہنے اور چل پڑا، حفصہ کے پاس پہنچا تو وہ (بیٹھی) رو رہی تھی، میں نے پوچھا : کیا تم سب بیویوں کو رسول اللہ ﷺ نے طلاق دے دی ہے ؟ انہوں نے کہا : مجھے نہیں معلوم ہے، البتہ آپ اس بالاخانے پر الگ تھلگ بیٹھے ہیں، عمر (رض) کہتے ہیں : میں (اٹھ کر آپ سے ملنے) چلا، میں ایک کالے رنگ کے (دربان) لڑکے کے پاس آیا اور اس سے کہا : جاؤ، آپ ﷺ سے عمر کے آنے کی اجازت مانگو، عمر (رض) کہتے ہیں : وہ لڑکا آپ کے پاس گیا پھر نکل کر میرے پاس آیا اور کہا : میں نے آپ کے آنے کی خبر کی مگر آپ نے کچھ نہ کہا، میں مسجد چلا گیا (دیکھا) منبر کے آس پاس کچھ لوگ بیٹھے رو رہے تھے، میں بھی انہیں لوگوں کے پاس بیٹھ گیا، (مجھے سکون نہ ملا) میری فکرو تشویش بڑھتی گئی، میں اٹھ کر دوبارہ لڑکے کے پاس چلا آیا، میں نے کہا : جاؤ آپ سے عمر کے اندر آنے کی اجازت مانگو، تو وہ اندر گیا پھر میرے پاس واپس آیا، اس نے کہا : میں نے آپ کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا، لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا، عمر (رض) کہتے ہیں : میں دوبارہ مسجد میں آ کر بیٹھ گیا، مگر مجھ پر پھر وہی فکر سوار ہوگئی، میں (سہ بارہ) لڑکے کے پاس آگیا اور اس سے کہا : جاؤ اور آپ سے عمر کے اندر آنے کی اجازت مانگو، وہ لڑکا اندر گیا پھر میرے پاس واپس آیا، کہا : میں نے آپ سے آپ کے آنے کا ذکر کیا مگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا، (یہ سن کر) میں پلٹ پڑا، یکایک لڑکا مجھے پکارنے لگا، (آ جائیے آ جائیے) اندر تشریف لے جائیے، رسول اللہ ﷺ نے آپ کو اجازت دے دی ہے، میں اندر چلا گیا، میں نے دیکھا آپ بوریئے پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں اور اس کا اثر و نشان آپ کے پہلوؤں میں دیکھا، میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، میں نے کہا : اللہ اکبر، آپ نے دیکھا ہوگا اللہ کے رسول ! ہم قریشی لوگ اپنی بیویوں پر کنٹرول رکھتے تھے، لیکن جب ہم مدینہ آ گئے تو ہمارا سابقہ ایک ایسی قوم سے پڑگیا ہے جن پر ان کی بیویاں حاوی اور غالب رہتی ہیں، ہماری عورتیں ان کی عورتوں سے (ان کے طور طریقے) سیکھنے لگیں، ایک دن اپنی بیوی پر غصہ ہوا تو وہ مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی، مجھے یہ سخت برا لگا، کہنے لگی آپ کو کیوں اتنا برا لگ رہا ہے، قسم اللہ کی نبی اکرم ﷺ کی بعض بیویاں بھی آپ کو پلٹ کر جواب دے رہی ہیں اور کوئی بھی عورت دن سے رات تک آپ کو چھوڑ کر (روٹھی و اینٹھی) رہتی ہے، میں نے حفصہ سے کہا : کیا تم پلٹ کر رسول اللہ ﷺ کو جواب دیتی ہو ؟ اس نے کہا : ہاں، ہم میں کوئی بھی آپ سے (خفا ہو کر) دن سے رات تک آپ سے علیحدہ رہتی ہے، میں نے کہا : تم میں سے جس نے بھی ایسا کیا وہ گھاٹے میں رہی اور ناکام ہوئی، کیا تم میں سے ہر کوئی اس بات سے مطمئن ہے کہ اللہ اپنے رسول کی ناراضگی کے سبب اس سے ناراض و ناخوش ہوجائے اور وہ ہلاک و برباد ہوجائے ؟ (یہ سن کر) آپ ﷺ مسکرا پڑے، عمر (رض) نے کہا : میں نے حفصہ سے کہا : رسول اللہ ﷺ کو پلٹ کر جواب نہ دو اور نہ آپ سے کسی چیز کا مطالبہ کرو، جس چیز کی تمہیں حاجت ہو وہ مجھ سے مانگ لیا کرو، اور تم بھروسے میں نہ رہو تمہاری سوکن تو تم سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ ﷺ کی چہیتی ہے ١ ؎ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ پھر مسکرا دیئے، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا میں دل بستگی کی بات کروں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ، عمر کہتے ہیں : میں نے سر اٹھایا تو گھر میں تین کچی کھالوں کے سوا کوئی اور چیز دکھائی نہ دی، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول ! اللہ سے دعا فرمایئے کہ وہ آپ کی امت کو وہ کشادگی و فراوانی دے جو اس نے روم و فارس کو دی ہے، جب کہ وہ اس کی عبادت و بندگی بھی نہیں کرتے ہیں، (یہ سن کر) آپ جم کر بیٹھ گئے، فرمایا : خطاب کے بیٹے ! کیا تم ابھی تک اسلام کی حقانیت کے بارے میں شک و شبہہ میں پڑے ہوئے ہو ؟ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ان کے حصہ کی اچھی چیزیں پہلے ہی دنیا میں دے دی گئی ہیں ، عمر (رض) کہتے ہیں : آپ نے قسم کھائی تھی کہ آپ ایک مہینہ تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جائیں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے فہمائش کی اور آپ کو کفارہ یمین (قسم کا کفارہ) ادا کرنے کا حکم دیا۔ زہری کہتے ہیں : عروہ نے عائشہ (رض) سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ عائشہ (رض) نے بتایا کہ جب مہینے کے ٢٩ دن گزر گئے تو نبی اکرم ﷺ سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے، آپ نے فرمایا : میں تم سے ایک بات کا ذکر کرنے والا ہوں، اپنے والدین سے مشورہ کئے بغیر جواب دینے میں جلدی نہ کرنا ، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی «يا أيها النبي قل لأزواجک» (آخر آیت تک) اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئیے کہ اگر تمہیں دنیا کی زندگی اور اس کی خوش رنگینیاں چاہیئے، تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دوں، اور خوش اسلوبی سے تم کو رخصت کر دوں، اور اگر تمہیں اللہ اور اس کا رسول چاہیں اور آخرت کی بھلائی چاہیں تو بیشک اللہ تعالیٰ نے تم میں سے نیک عمل کرنے والیوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے (الاحزاب : ٢٨، ٢٩) ، عائشہ (رض) کہتی ہیں : آپ جانتے تھے، قسم اللہ کی میرے والدین مجھے آپ سے علیحدگی اختیار کرلینے کا ہرگز حکم نہ دیں گے، میں نے کہا : کیا میں اس معاملے میں والدین سے مشورہ کروں ؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی اور پسند کرتی ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٤٦١ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے اگر اس حرکت پر نبی ﷺ عائشہ (رض) کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتے ہیں تو تم بھی اس بھرے میں مت آؤ ، وہ تو تم سے زیادہ حسن و جمال کی مالک ہیں ، ان کا کیا کہنا !۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3318 معمر کہتے ہیں : مجھے ایوب نے خبر دی کہ عائشہ (رض) نے آپ سے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ اپنی دوسری بیویوں کو نہ بتائیے گا کہ میں نے آپ کو چنا اور پسند کیا ہے، آپ نے فرمایا : اللہ نے مجھے پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا ہے تکلیف پہنچانے اور مشقت میں ڈالنے کے لیے نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے اور کئی سندوں سے ابن عباس (رض) سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٥ (١٤٧٥) (حسن) (سند میں بظاہر انقطاع ہے، اس لیے کہ ایوب بن ابی تمیمہ کیسانی نے عائشہ (رض) کا زمانہ نہیں پایا، اور امام مسلم نے اس ٹکڑے کو مستقلاً نہیں ذکر کیا، بلکہ یہ ابن عباس کی حدیث کے تابع ہے، اور ترمذی نے ابن عباس کی حدیث کی تصحیح کی ہے، لیکن اس فقرے کا ایک شاہد مسند احمد میں (٣/٣٢٨) میں بسند ابوالزبیر عن جابر مرفوعا ہے، جس کی سند امام مسلم کی شرط پر ہے، اس لیے یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، الصحیحة ١٥١٦) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3318

【370】

سورت قلم کی تفسیر

عبدالواحد بن سلیم کہتے ہیں کہ میں مکہ آیا، عطاء بن ابی رباح سے میری ملاقات ہوئی، میں نے ان سے کہا : ابو محمد ! ہمارے یہاں کچھ لوگ تقدیر کا انکار کرتے ہیں، عطا نے کہا : میں ولید بن عبادہ بن صامت سے ملا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے : سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا (بنایا) پھر اس سے کہا : لکھ، تو وہ چل پڑا، اور ہمیشہ ہمیش تک جو کچھ ہونے والا تھا سب اس نے لکھ ڈالا ١ ؎۔ اس حدیث میں ایک قصہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، اور اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢١٥٥ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور یہی تقدیر ہے ، تو پھر تقدیر کا انکار کیوں ؟ تقدیر رزق کے بارے میں ہو ، یا انسانی عمل کے بارے میں اللہ نے سب کو روز ازل میں لکھ رکھا ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ رزق کے سلسلے میں اس نے اپنے اختیار سے لکھا ہے ، اور عمل کے سلسلے میں اس نے اپنے علم غیب کی بنا پر انسان کے آئندہ عمل کے بارے میں جو جان لیا اس کو لکھا ہے اس سلسلے میں جبر نہیں کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی برقم (2258) وفيه القصة صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3319

【371】

سورت حاقہ کی تفسیر

عباس بن عبدالمطلب (رض) کہتے ہیں کہ میں وادی بطحاء میں صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور آپ بھی انہیں لوگوں میں تشریف فرما تھے، اچانک لوگوں کے اوپر سے ایک بدلی گزری، لوگ اسے دیکھنے لگے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا : کیا تم جانتے ہو اس کا نام کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں ہم جانتے ہیں، یہ «سحاب» ہے، آپ نے فرمایا : کیا یہ «مزن» ہے ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں یہ «مزن» بھی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا اسے «عنان» ١ ؎ بھی کہتے ہیں ، لوگوں نے کہا : جی ہاں یہ «عنان» بھی ہے، پھر آپ نے لوگوں سے کہا : کیا تم جانتے ہو آسمان اور زمین کے درمیان کتنی دوری ہے ؟ لوگوں نے کہا : نہیں، قسم اللہ کی ہم نہیں جانتے، آپ نے فرمایا : ان دونوں میں اکہتر ( ٧١) بہتر ( ٧٢) یا تہتر ( ٧٣) سال کا فرق ہے اور جو آسمان اس کے اوپر ہے وہ بھی اتنا ہی دور ہے ، اور اسی فرق کے ساتھ آپ نے سات آسمان گن ڈالے، پھر آپ نے فرمایا : ساتویں آسمان پر ایک دریا ہے جس کی اوپری سطح اور نچلی سطح میں اتنی دوری ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی دوری ہے (یعنی وہ اتنا زیادہ گہرا ہے) اور ان کے اوپر آٹھ جنگلی بکرے (فرشتے) ہیں جن کی کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنی دوری اور لمبائی ہے جتنی دوری اور لمبائی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان ہے، پھر ان کی پیٹھوں پر عرش ہے، عرش کی نچلی سطح اور اوپری سطح میں ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی سی دوری ہے (یعنی عرش اتنا موٹا ہے) اور اللہ اس کے اوپر ہے۔ عبد بن حمید کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین کو کہتے ہوئے سنا ہے، عبدالرحمٰن بن سعد حج کرنے کیوں نہیں جاتے کہ وہاں ان سے یہ حدیث ہم سنتے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- ولید بن ابوثور نے سماک سے اسی طرح یہ حدیث روایت کی ہے اور اسے مرفوعاً روایت کیا ہے، ٣- شریک نے سماک سے اس حدیث کے بعض حصوں کی روایت کی ہے اور اسے موقوفا روایت کیا ہے، مرفوعاً نہیں کیا، ٤- عبدالرحمٰن، یہ ابن عبداللہ بن سعد رازی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ١٩ (٤٧٢٣) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٩٣) (تحفة الأشراف : ٢٤٥١) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن عمیرہ لین الحدیث راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یہ تینوں نام بدلیوں کے مختلف نام ہیں جو مختلف طرح کی بدلیوں کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ ٢ ؎ : یعنی اگر موسم حج میں یہ حدیث بیان کی جاتی اور جہمیوں کو اس کا پتہ چل جاتا تو خواہ مخواہ کے اعتراضات نہ اٹھاتے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (193) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3320

【372】

سورت حاقہ کی تفسیر

عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن سعد رازی سے روایت ہے کہ ان کے باب عبداللہ نے ان کو خبر دی، انہوں نے کہا : میں نے ایک شخص کو بخارا میں خچر پر سوار سر پر سیاہ عمامہ باندھے ہوئے دیکھا وہ کہتا تھا : یہ وہ عمامہ ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے مجھے پہنایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (ضعیف الإسناد) (سند میں سعد بن عثمان الرازی الدشت کی مقبول راوی ہیں، لیکن متابعت نہ ہونے کی وجہ سے وہ لین الحدیث ہیں) وضاحت : ١ ؎ : باب سے اس حدیث کا ظاہری تعلق نہیں ہے ، اسے صرف یہ بتانے کے لیے ذکر کیا گیا ہے کہ اس سے پہلے مذکورہ حدیث کی سند میں جس میں عبدالرحمٰن بن سعد کا ذکر ہے اس سے یہی عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن سعد رازی مراد ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3321

【373】

سورت معارج کی تفسیر

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت کریمہ : «يوم تکون السماء کالمهل» جس دن آسمان تیل کی تلچھٹ کے مانند ہوجائے گا (المعارج : ٨) ، میں مہل کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا : اس سے مراد تیل کی تلچھٹ ہے، جب کافر اسے اپنے منہ کے قریب لائے گا تو سر کی کھال مع بالوں کے اس میں گرجائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے اور ہم اسے صرف رشدین کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٥٨١ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : ضعيف ومضی برقم (2707) // (475 / 2720) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3322

【374】

تفسیر سورت الجن

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نہ قرآن جنوں کو پڑھ کر سنایا ہے اور نہ انہیں دیکھا ہے ١ ؎ (ہوا یہ ہے) کہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کی جماعت کے ساتھ عکاظ بازار جا رہے تھے، (بعثت محمدی کے تھوڑے عرصہ بعد) شیطانوں اور ان کے آسمانی خبریں حاصل کرنے کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی تھی اور ان پر شعلے برسائے جانے لگے تھے، تو وہ اپنی قوم کے پاس لوٹ گئے، ان کی قوم نے کہا : کیا بات ہے ؟ کیسے لوٹ آئے ؟ انہوں نے کہا : ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان دخل اندازی کردی گئی ہے، آسمانی خبریں سننے سے روکنے کے لیے ہم پر تارے پھینکے گئے ہیں، قوم نے کہا : لگتا ہے (دنیا میں) کوئی نئی چیز ظہور پذیر ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان رکاوٹ کھڑی ہوئی ہے، تم زمین کے مشرق و مغرب میں چاروں طرف پھیل جاؤ اور دیکھو کہ وہ کون سی چیز ہے جو ہمارے اور ہمارے آسمان سے خبریں حاصل کرنے کے درمیان حائل ہوئی (اور رکاوٹ بنی) ہے چناچہ وہ زمین کے چاروں کونے مغربین و مشرقین میں تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے، شیاطین کا جو گروہ تہامہ کی طرف نکلا تھا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا (اس وقت) آپ سوق عکاظ جاتے ہوئے مقام نخلہ میں تھے، اور اپنے صحابہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے، جب انہوں نے قرآن سنا تو پوری توجہ سے کان لگا کر سننے لگے، (سن چکے تو) انہوں نے کہا : یہ ہے قسم اللہ کی ! وہ چیز جو تمہارے اور آسمان کی خبر کے درمیان حائل ہوئی ہے، ابن عباس (رض) کہتے ہیں : یہیں سے وہ لوگ اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے، (وہاں جا کر) کہا : اے میری قوم ! «إنا سمعنا قرآنا عجبا يهدي إلى الرشد فآمنا به ولن نشرک بربنا أحدا» ہم نے عجیب و غریب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے ہم اس پر ایمان لا چکے (اب) ہم کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے (الجن : ١- ٢) ، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم ﷺ پر آیت «قل أوحي إلي أنه استمع نفر من الجن» نازل فرمائی، اور آپ پر جن کا قول وحی کیا گیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٥ (٧٧٢) ، تفسیر سورة الجن (٤٩٢١) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣١ (٤٤٦) (تحفة الأشراف : ٥٤٥٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ ابن عباس (رض) کے اپنے علم کے مطابق ہے ، چونکہ بات ایسی نہیں ہے کہ اس لیے شاید امام بخاری نے اس حدیث کا یہ ٹکڑا اپنی صحیح میں درج نہیں کیا ہے ، اور صحیح مسلم میں اس کے فوراً بعد ابن مسعود (رض) کی روایت درج کی ہے کہ آپ ﷺ نے جنوں کی دعوت پر ان کے پاس جا کر ان پر قرآن پڑھا ہے ، ان دونوں حدیثوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ یہ دو واقعے ہیں ، پہلے واقعہ کی بابت ابن عباس (رض) کی یہ روایت اور ان کا یہ قول ہے ، اس کے بعد یہ ہوا تھا کہ آپ ان کے پاس تشریف لے جا کر ان کو قرآن سنایا تھا ( کما فی الفتح ) ٢ ؎ : ابن عباس کا یہ قول ان کے اسی دعوے کی بنیاد پر ہے کہ آپ جنوں کے پاس خود نہیں گئے تھے ، انہوں نے آپ کی قراءت اچانک سن لی ، اس واقعہ کی اطلاع بھی آپ کو بذریعہ وحی دی گی۔ قال الشيخ الألباني : (قول ابن عباس : ما قرأ رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم علی الجن ... إلى قوله : وإنما أوحی إليه قول الجن) صحيح، (وقول ابن عباس : قول الجن لقومهم * (لما قام عبد الله .....) * إلى قوله : قالوا لقومهم * (لما قام عبد الله .....) *) صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3323

【375】

تفسیر سورت الجن

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جن آسمان کی طرف چڑھ کر وحی سننے جایا کرتے تھے، اور جب وہ ایک بات سن لیتے تو اس میں اور بڑھا لیتے، تو جو بات وہ سنتے وہ تو حق ہوتی لیکن جو بات وہ اس کے ساتھ بڑھا دیتے وہ باطل ہوتی، اور جب رسول اللہ ﷺ مبعوث فرما دیئے گئے تو انہیں (جنوں کو) ان کی نشست گاہوں سے روک دیا گیا تو انہوں نے اس بات کا ذکر ابلیس سے کیا : اس سے پہلے انہیں تارے پھینک پھینک کر نہ مارا جاتا تھا، ابلیس نے کہا : زمین میں کوئی نیا حادثہ وقوع پذیر ہوا ہے جبھی ایسا ہوا ہے، اس نے پتا لگانے کے لیے اپنے لشکر کو بھیجا، انہیں رسول اللہ ﷺ دو پہاڑوں کے درمیان کھڑے نماز پڑھتے ہوئے ملے۔ راوی کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ ابن عباس (رض) نے کہا : یہ واقعہ مکہ میں پیش آیا، وہ لوگ آپ سے ملے اور جا کر اسے بتایا، پھر اس نے کہا یہی وہ حادثہ ہے جو زمین پر ظہور پذیر ہوا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٥٥٨٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3324

【376】

تفسیر سورت الجن

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ وحی موقوف ہوجانے کے واقعہ کا ذکر کر رہے تھے، آپ نے دوران گفتگو بتایا : میں چلا جا رہا تھا کہ یکایک میں نے آسمان سے آتی ہوئی ایک آواز سنی، میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ فرشتہ جو (غار) حراء میں میرے پاس آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، رعب کی وجہ سے مجھ پر دہشت طاری ہوگئی، میں لوٹ پڑا (گھر آ کر) کہا : مجھے کمبل میں لپیٹ دو ، تو لوگوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا، اسی موقع پر آیت «يا أيها المدثر قم فأنذر» سے «والرجز فاهجر» اے کپڑا اوڑھنے والے، کھڑے ہوجا اور لوگوں کو ڈرا، اور اپنے رب کی بڑائیاں بیان کر، اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر، اور ناپاکی کو چھوڑ دے (المدثر : ١- ٥) ، تک نازل ہوئی، یہ واقعہ نماز فرض ہونے سے پہلے کا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث یحییٰ بن کثیر نے بھی ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے واسطہ سے جابر سے بھی روایت کی ہے، ٣- اور ابوسلمہ کا نام عبداللہ ہے۔ (یہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کے بیٹے تھے اور ان کا شمار فقہائے مدینہ میں ہوتا تھا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الوحي ١ (٤) ، وبدء الخلق ٧ (٣٢٣٨) ، وتفسیر المدثر ٢ (٤٩٢٢) ، وتفسیر ” اقراء باسم ربک “ (٤٩٥٤) ، و الأدب ١١٨ (٦٢١٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧٣ (١٦١) (تحفة الأشراف : ٣١٥١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3325

【377】

تفسیر سورت الجن

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «صعود» جہنم کا ایک پہاڑ ہے، اس پر کافر ستر سال تک چڑھتا رہے گا پھر وہاں سے لڑھک جائے گا، یہی عذاب اسے ہمیشہ ہوتا رہے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے مرفوع صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں، ٣- اس حدیث کا کچھ حصہ عطیہ سے مروی ہے جسے وہ ابوسعید سے موقوفاً روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٥٧٦ (ضعیف) وضاحت : ١ ؎ : مولف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ «سأرهقه صعودا» (المدثر : ١٧) کی تفسیر میں لائے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف ومضی برقم (2702) // (473 / 2715) ، ضعيف الجامع الصغير (3552) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3326

【378】

تفسیر سورت الجن

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ کچھ یہودیوں نے بعض صحابہ سے پوچھا : کیا تمہارا نبی جانتا ہے کہ جہنم کے نگراں کتنے ہیں ؟ انہوں نے کہا : ہم نہیں جانتے مگر پوچھ کر جان لیں گے، اسی دوران ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، کہا : اے محمد ! آج تو تمہارے ساتھی ہار گئے، آپ نے پوچھا : کیسے ہار گئے ؟ اس نے کہا : یہود نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہارا نبی جانتا ہے کہ جہنم کے نگراں کتنے ہیں ؟ آپ نے پوچھا : انہوں نے کیا جواب دیا ؟ اس نے کہا : انہوں نے کہا : ہمیں نہیں معلوم، ہم اپنے نبی سے پوچھ کر بتاسکتے ہیں، آپ نے فرمایا : کیا وہ قوم ہاری ہوئی مانی جاتی ہے جس سے ایسی چیز پوچھی گئی ہو جسے وہ نہ جانتی ہو اور انہوں نے کہا ہو کہ ہم نہیں جانتے جب تک کہ ہم اپنے نبی سے پوچھ نہ لیں ؟ (اس میں ہارنے کی کوئی بات نہیں ہے) البتہ ان لوگوں نے تو اس سے بڑھ کر بےادبی و گستاخی کی بات کی، جنہوں نے اپنے نبی سے یہ سوال کیا کہ ہمیں اللہ کو کھلے طور پر دکھا دو ، آپ نے فرمایا : اللہ کے ان دشمنوں کو ہمارے سامنے لاؤ میں ان سے جنت کی مٹی کے بارے میں پوچھتا ہوں، وہ نرم مٹی ہے ، جب وہ سب یہودی آ گئے تو انہوں نے کہا : اے ابوالقاسم ! جہنم کے نگراں لوگوں کی کتنی تعداد ہے ؟ آپ نے اس طرح ہاتھ سے اشارہ فرمایا : ایک مرتبہ دس (انگلیاں دکھائیں) اور ایک مرتبہ نو (کل ١٩) انہوں نے کہا : ہاں، (آپ نے درست فرمایا) اب آپ نے پلٹ کر ان سے پوچھا : جنت کی مٹی کا ہے کی ہے ؟ راوی کہتے ہیں : وہ لوگ تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر کہنے لگے : ابوالقاسم ! وہ روٹی کی ہے، آپ نے فرمایا : روٹی میدہ (نرم مٹی) کی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے مجالد کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٣٥١) (ضعیف) (سند میں مجالد ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : مؤلف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ «وما جعلنا أصحاب النار إلا ملائكة» (المدثر : ٣١) کی تفسیر میں لائے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (3348) // ضعيف الجامع الصغير (2937) مختصرا // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3327

【379】

تفسیر سورت الجن

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت کریمہ : «هو أهل التقوی وأهل المغفرة» وہی (اللہ) ہے جس سے ڈرنا چاہیئے، اور وہی مغفرت کرنے والا ہے (المدثر : ٥٦) ، کے بارے میں فرمایا : اللہ عزوجل کہتا ہے کہ میں اس کا اہل اور سزاوار ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، تو جو مجھ سے ڈرا اور میرے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہرایا تو مجھے لائق ہے کہ میں اسے بخش دوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- سہل حدیث میں قوی نہیں مانے جاتے ہیں اور وہ یہ حدیث ثابت سے روایت کرنے میں تنہا (بھی) ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٥ (٤٢٩٩) (تحفة الأشراف : ٤٣٤) (ضعیف) (سند میں سہیل ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (4299) // ضعيف سنن ابن ماجة (936) ، المشکاة (2351 / التحقيق الثاني) ضعيف الجامع الصغير (4061) بلفظ : قال ربکم // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3328

【380】

سورہ قیامہ کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوتا تو جلدی جلدی زبان چلانے (دہرانے) لگتے تاکہ اسے یاد و محفوظ کرلیں، اس پر اللہ نے آیت «لا تحرک به لسانک لتعجل به» اے نبی ! ) آپ قرآن کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں (القیامۃ : ١٦) ، نازل ہوئی۔ (راوی) اپنے دونوں ہونٹ ہلاتے تھے، (ان کے شاگرد) سفیان نے بھی اپنے ہونٹ ہلا کر دکھائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید القطان نے کہا کہ سفیان ثوری موسیٰ بن ابی عائشہ کو اچھا سمجھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الوحی ٤ (٥) ، وتفسیر سورة القیامة ١ (٤٩٢٧) ، و ٢ (٤٩٢٨) ، و ٣ (٤٩٢٩) ، وفضائل القرآن ٢٨ (٥٠٤٤) ، والتوحید ٤٣ (٧٥٢٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٢ (٤٤٨) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٧ (٩٣٦) (تحفة الأشراف : ٥٦٣٧) ، و مسند احمد (١/٣٤٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3329

【381】

سورہ قیامہ کی تفسیر

ثویر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنتیوں میں کمتر درجے کا جنتی وہ ہوگا جو جنت میں اپنے باغوں کو، اپنی بیویوں کو، اپنے خدمت گزاروں کو، اور اپنے (سجے سجائے) تختوں (مسہریوں) کو ایک ہزار سال کی مسافت کی دوری سے دیکھے گا، اور ان میں اللہ عزوجل کے یہاں بڑے عزت و کرامت والا شخص وہ ہوگا جو صبح و شام اللہ کا دیدار کرے گا، پھر آپ نے آیت «وجوه يومئذ ناضرة إلى ربها ناظرة» اس روز بہت سے چہرے تروتازہ اور بارونق ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے (القیامۃ : ٢٣) ، پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے اور کئی راویوں نے یہ حدیث اسی طرح اسرائیل سے مرفوعاً (ہی) روایت کی ہے، ٢- عبدالملک بن ابجر نے ثویر سے، ثویر نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے، اور اسے ابن عمر (رض) کے قول سے روایت کیا ہے اور اسے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٦٦٦) (ضعیف) (سند میں ثویر ضعیف اور رافضی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1985) // ضعيف الجامع الصغير (1382) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3330 اشجعی نے سفیان سے، سفیان نے ثویر سے، ثویر نے مجاہد سے اور مجاہد نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے، اور ان کے قول سے روایت کی ہے اور اسے انہوں نے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے، اور میں ثوری کے علاوہ کسی کو نہیں جانتا جس نے اس سند میں مجاہد کا نام لیا ہو، ٤- اسے ہم سے بیان کیا ابوکریب نے، وہ کہتے ہیں : ہم سے بیان کیا عبیداللہ اشجعی نے اور عبیداللہ اشجعی نے روایت کی سفیان سے، ثویر کی کنیت ابوجہم ہے اور ابوفاختہ کا نام سعید بن علاقہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1985) // ضعيف الجامع الصغير (1382) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3330

【382】

سورہ عبس کی تفسیر

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ «عبس وتولی» والی سورة (عبداللہ) ابن ام مکتوم نابینا کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، آ کر کہنے لگے : اللہ کے رسول ! مجھے وعظ و نصیحت فرمائیے، اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس مشرکین کے اکابرین میں سے کوئی بڑا شخص موجود تھا، تو رسول اللہ ﷺ ان سے اعراض کرنے لگے اور دوسرے (مشرک) کی طرف توجہ فرماتے رہے اور اس سے کہتے رہے میں جو تمہیں کہہ رہا ہوں اس میں تم کچھ حرج اور نقصان پا رہے ہو ؟ وہ کہتا نہیں، اسی سلسلے میں یہ آیتیں نازل کی گئیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- بعض نے یہ حدیث ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے باپ عروہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں «عبس وتولی» ابن ام مکتوم کے حق میں اتری ہے اور اس کی سند میں عائشہ (رض) کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٣٠٥) (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3331

【383】

سورہ عبس کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم لوگ (قیامت کے دن) جمع کیے جاؤ گے ننگے پیر، ننگے جسم، بیختنہ کے، ایک عورت (ام المؤمنین عائشہ (رض)) نے کہا : کیا ہم میں سے بعض بعض کی شرمگاہ دیکھے گا ؟ آپ نے فرمایا : «لكل امرئ منهم يومئذ شأن يغنيه» اے فلانی ! اس دن ہر ایک کی ایک ایسی حالت ہوگی جو اسے دوسرے کی فکر سے غافل و بےنیاز کر دے گی (سورۃ عبس : ٤٢) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یہ مختلف سندوں سے ابن عباس (رض) سے مروی ہے اور اسے سعید بن جبیر نے بھی روایت کیا ہے، ٢- اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٢٣٥) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3332

【384】

سورت تکویر کی تفسیر

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے اچھا لگے کہ وہ قیامت کا دن دیکھے اور اس طرح دیکھے، اس نے آنکھوں سے دیکھا ہے تو اسے چاہیئے کہ «إذا الشمس کورت» اور «إذا السماء انفطرت» ، «وإذا السماء انشقت» ١ ؎ پڑھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- ہشام بن یوسف وغیرہ نے یہ حدیث اسی سند سے روایت کی ہے (اس میں ہے) آپ نے فرمایا : جسے خوشی ہو کہ وہ قیامت کا دن دیکھے، آنکھ سے دیکھنے کی طرح اسے چاہیئے کہ سورة «إذا الشمس کورت» پڑھے، ان لوگوں نے اپنی روایتوں میں «إذا السماء انفطرت» اور «وإذا السماء انشقت» کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٣٠٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ یہ تینوں سورتیں قیامت کا واضح نقشہ پیش کرتی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1081) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3333

【385】

سورت مطففین کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے، پھر جب وہ گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور استغفار اور توبہ کرتا ہے تو اس کے دل کی صفائی ہوجاتی ہے (سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے) اور اگر وہ گناہ دوبارہ کرتا ہے تو سیاہ نکتہ مزید پھیل جاتا ہے یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتا ہے، اور یہی وہ «ران» ہے جس کا ذکر اللہ نے اس آیت «كلا بل ران علی قلوبهم ما کانوا يکسبون» یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے (المطففین : ١٤) ، میں کیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٤١ (٤١٨) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٩ (٤٢٤٤) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (2 / 268) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3334

【386】

سورت مطففین کی تفسیر

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے، وہ آیت «يوم يقوم الناس لرب العالمين» جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے (المطففین : ٦) ، کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ لوگ آدھے کانوں تک پسینے میں شرابور ہوں گے۔ حماد کہتے ہیں : یہ حدیث ہمارے نزدیک مرفوع ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٤٢٢ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وهو مکرر الحديث (2550) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3335

【387】

سورت مطففین کی تفسیر

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت «يوم يقوم الناس لرب العالمين» کی تفسیر میں فرمایا کہ اس دن ہر ایک آدھے کانوں تک پسینے میں کھڑا ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3336

【388】

سورہ انشقاق کی تفسیر

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس سے حساب کی جانچ پڑتال کرلی گئی وہ ہلاک (برباد) ہوگیا ، میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اللہ تو فرماتا ہے «فأما من أوتي کتابه بيمينه» سے «يسيرا» جس کو کتاب دائیں ہاتھ میں ملی اس کا حساب آسانی سے ہوگا (الانشقاق : ٧- ٨) ، تک آپ نے فرمایا : وہ حساب و کتاب نہیں ہے، وہ تو صرف نیکیوں کو پیش کردینا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ہم سے بیان کیا سوید بن نصر نے وہ کہتے ہیں : ہمیں خبر دی عبداللہ بن مبارک نے، اور وہ روایت کرتے ہیں عثمان بن اسود سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح، ٣- ہم سے بیان کیا محمد بن ابان اور کچھ دیگر لوگوں نے انہوں نے کہا کہ ہم سے بیان کیا عبدالوہاب ثقفی نے اور انہوں نے ایوب سے، ایوب نے ابن ابوملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے عائشہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٤٢٦ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وقد مضی برقم (2556) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3337

【389】

None

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا حساب ہوا ( یوں سمجھو کہ ) وہ عذاب میں پڑا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے قتادہ کی روایت سے جسے وہ انس سے، اور انس رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

【390】

سورہ بروج کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «اليوم الموعود» سے مراد قیامت کا دن ہے، اور «واليوم المشهود» سے مراد عرفہ کا دن اور («شاہد» ) سے مراد جمعہ کا دن ہے، اور جمعہ کے دن سے افضل کوئی دن نہیں ہے جس پر سوج کا طلوع و غروب ہوا ہو، اس دن میں ایک ایسی گھڑی (ایک ایسا وقت) ہے کہ اس میں جو کوئی بندہ اپنے رب سے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو اللہ اس کی دعا قبول کرلیتا ہے، اور اس گھڑی میں جو کوئی مومن بندہ کسی چیز سے پناہ چاہتا ہے تو اللہ اسے اس سے بچا لیتا اور پناہ دے دیتا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ہم سے علی بن حجر نے بیان کیا : وہ کہتے ہیں : ہم سے قران بن تمام اسدی نے بیان کیا، اور قران نے موسیٰ بن عبیدہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی، ٢- موسیٰ بن عبیدہ ربذی کی کنیت ابوعبدالعزیز ہے، ان کے بارے میں ان کے حافظہ کے سلسلے میں یحییٰ بن سعید قطان وغیرہ نے کلام کیا ہے، شعبہ، ثوری اور کئی اور ائمہ نے ان سے روایت کی ہے، ٣- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٤- ہم اسے صرف موسیٰ بن عبیدہ کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔ موسیٰ بن عبیدہ حدیث بیان کرنے میں ضعیف مانے جاتے ہیں، انہیں یحییٰ بن سعید وغیرہ نے ضعیف ٹھہرایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٥٥٩) (حسن) (الصحیحة ١٥٠٢) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (1362 / التحقيق الثانی) ، الصحيحة (1502) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3339

【391】

سورہ بروج کی تفسیر

صہیب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب عصر پڑھتے تھے، تو «همس» (سرگوشی) کرتے، «همس» بعض لوگوں کے کہنے کے مطابق اپنے دونوں ہونٹوں کو اس طرح حرکت دینا (ہلانا) ہے تو ان وہ باتیں کر رہا ہے (آخر کار) آپ سے پوچھ ہی لیا گیا، اللہ کے رسول ! جب آپ عصر کی نماز پڑھتے ہیں تو آپ دھیرے دھیرے اپنے ہونٹ ہلاتے ہیں (کیا پڑھتے ہیں ؟ ) آپ نے نبیوں میں سے ایک نبی کا قصہ بیان کیا، وہ نبی اپنی امت کی کثرت دیکھ کر بہت خوش ہوئے، اور کہا : ان کے مقابلے میں کون کھڑا ہوسکتا ہے ؟ اللہ نے اس نبی کو وحی کیا کہ تم اپنی قوم کے لیے دو باتوں میں سے کوئی ایک بات پسند کرلو، یا تو میں ان سے انتقام لوں یا میں ان پر ان کے دشمن کو مسلط کر دوں، تو انہوں نے «نقمہ» (سزا و بدلہ) کو پسند کیا، نتیجۃً اللہ نے ان پر موت مسلط کردی، چناچہ ایک دن میں ستر ہزار لوگ مرگئے ١ ؎۔ صہیب (راوی) کہتے ہیں کہ جب آپ نے یہ حدیث بیان کی تو اس کے ساتھ آپ نے ایک اور حدیث بھی بیان فرمائی، آپ نے فرمایا : ایک بادشاہ تھا اس بادشاہ کا ایک کاہن تھا، وہ اپنے بادشاہ کو خبریں بتاتا تھا، اس کاہن نے بادشاہ سے کہا : میرے لیے ایک ہوشیار لڑکا ڈھونڈھ دو ، راوی کو یہاں شبہہ ہوگیا کہ «غلاما فهما» کہا یا «فطنا لقنا» کہا (معنی تقریباً دونوں الفاظ کا ایک ہی ہے) میں اسے اپنا یہ علم سکھا دوں، کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں مرگیا تو تمہارے پاس سے یہ علم ختم ہوجائے گا اور تم میں کوئی نہ رہ جائے گا جو اس علم سے واقف ہو، آپ فرماتے ہیں : اس نے جن صفات و خصوصیات کا حامل لڑکا بتایا تھا لوگوں نے اس کے لیے ویسا ہی لڑکا ڈھونڈ دیا، لوگوں نے اس لڑکے سے کہا کہ وہ اس کاہن کے پاس حاضر ہوا کر اور اس کے پاس باربار آتا جاتا ہے وہ لڑکا اس کاہن کے پاس آنے جانے لگا، اس لڑکے کے راستے میں ایک عبادت خانہ کے اندر ایک راہب رہا کرتا تھا (اس حدیث کے ایک راوی) معمر کہتے ہیں : میں سمجھتا ہوں عبادت خانہ کے لوگ اس وقت کے مسلمان تھے، وہ لڑکا جب بھی اس راہب کے پاس سے گزرتا دین کی کچھ نہ کچھ باتیں اس سے پوچھا کرتا، یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ اس لڑکے نے راہب کو اپنے متعلق خبر دی، کہا : میں اللہ کی عبادت کرنے لگا ہوں وہ لڑکا راہب کے پاس زیادہ سے زیادہ دیر تک بیٹھنے اور رکنے لگا اور کاہن کے پاس آنا جانا کم کردیا، کاہن نے لڑکے والوں کے یہاں کہلا بھیجا کہ لگتا ہے لڑکا اب میرے پاس نہ آیا جایا کرے گا، لڑکے نے راہب کو بھی یہ بات بتادی، راہب نے لڑکے سے کہا کہ جب کاہن تم سے پوچھے کہاں تھے ؟ تو کہہ دیا کرو گھر والوں کے پاس تھا، اور جب تیرے گھر والے کہیں کہ تو کہاں تھا ؟ تو ان کو بتایا کہ تم کاہن کے پاس تھے، راوی کہتے ہیں : غلام کے دن ایسے ہی کٹ رہے تھے کہ ایک دن لڑکے کا گزر لوگوں کی ایک ایسی بڑی جماعت پر ہوا جنہیں ایک جانور نے روک رکھا تھا، بعض لوگوں نے کہا کہ وہ چوپایہ شیر تھا، لڑکے نے یہ کیا کہ ایک پتھر اٹھایا اور کہا : اے اللہ ! راہب جو کہتا ہے اگر وہ سچ ہے تو میں تجھ سے اسے قتل کردینے کی توفیق چاہتا ہوں، یہ کہہ کر اس نے اسے پتھر مارا اور جانور کو ہلاک کردیا، لوگوں نے پوچھا : اسے کس نے مارا ؟ جنہوں نے دیکھا تھا، انہوں نے کہا : فلاں لڑکے نے، یہ سن کر لوگ اچنبھے میں پڑگئے، لوگوں نے کہا : اس لڑکے نے ایسا علم سیکھا ہے جسے کوئی دوسرا نہیں جانتا، یہ بات ایک اندھے نے سنی تو اس نے لڑکے سے کہا : اگر تو میری بینائی واپس لا دے تو میں تجھے یہ دوں گا، لڑکے نے کہا : میں تجھ سے یہ سب چیزیں نہیں مانگتا تو یہ بتا اگر تیری بینائی تجھے واپس مل گئی تو کیا تو اپنی بینائی عطا کرنے والے پر ایمان لے آئے گا ؟ اس نے کہا : ہاں۔ (بالکل ایمان لے آؤں گا) ۔ راوی کہتے ہیں : لڑکے نے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے اس کی بینائی واپس لوٹا دی، یہ دیکھ کر اندھا ایمان لے آیا، ان کا معاملہ بادشاہ تک پہنچ گیا، اس نے انہیں بلا بھیجا تو انہیں لا کر حاضر کیا گیا، اس نے ان سے کہا : میں تم سب کو الگ الگ طریقوں سے قتل کر ڈالوں گا، پھر اس نے راہب کو اور اس شخص کو جو پہلے اندھا تھا قتل کر ڈالنے کا حکم دیا، ان میں سے ایک کے سر کے بیچوں بیچ (مانگ) پر آرا رکھ کر چیر دیا گیا اور دوسرے کو دوسرے طریقے سے قتل کردیا گیا، پھر لڑکے کے بارے میں حکم دیا کہ اسے ایسے پہاڑ پر لے جاؤ جو ایسا ایسا ہو اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر سے نیچے پھینک دو چناچہ لوگ اسے اس خاص پہاڑ پر لے گئے اور جب اس آخری جگہ پر پہنچ گئے جہاں سے وہ لوگ اسے پھینک دینا چاہتے تھے، تو وہ خود ہی اس پہاڑ سے لڑھک لڑھک کر گرنے لگے، یہاں تک کہ صرف لڑکا باقی بچا، پھر جب وہ واپس آیا تو بادشاہ نے اس کے متعلق پھر حکم دیا کہ اسے سمندر میں لے جاؤ، اور اسے اس میں ڈبو کر آ جاؤ، اسے سمندر پر لے جایا گیا تو اللہ نے ان سب کو جو اس لڑکے کے ساتھ گئے ہوئے تھے ڈبو دیا، اور خود لڑکے کو بچا لیا، (لڑکا بچ کر پھر بادشاہ کے پاس آیا) اور اس سے کہا : تم مجھے اس طرح سے مار نہ سکو گے إلا یہ کہ تم مجھے سولی پر لٹکا دو اور مجھے تیر مارو، اور تیر مارتے وقت کہو اس اللہ کے نام سے میں تیر چلا رہا ہوں جو اس لڑکے کا رب ہے، بادشاہ نے اس لڑکے کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا حکم دیا، لڑکا سولی پر لٹکا دیا گیا پھر بادشاہ نے اس پر تیر مارا، اور تیر مارتے ہوئے کہا : «بسم اللہ رب هذا الغلام» بادشاہ نے تیر چلایا تو لڑکے نے اپنا ہاتھ اپنی کنپٹی پر رکھ لیا پھر مرگیا (شہید) ہوگیا، لوگ بول اٹھے اس لڑکے کو ایسا علم حاصل تھا جو کسی اور کو معلوم نہیں، ہم تو اس لڑکے کے رب پر ایمان لاتے ہیں ، آپ نے فرمایا : بادشاہ سے کہا گیا کہ آپ تو تین ہی آدمیوں سے گھبرا گئے جنہوں نے آپ کی مخالفت کی، اب تو یہ سارے کے سارے لوگ ہی آپ کے خلاف ہوگئے ہیں (اب کیا کریں گے ؟ ) آپ نے فرمایا : اس نے کئی ایک کھائیاں (گڈھے) کھودوائے اور اس میں لکڑیاں ڈلوا دیں اور آگ بھڑکا دی، لوگوں کو اکٹھا کر کے کہا : جو اپنے (نئے) دین سے پھر جائے گا اسے ہم چھوڑ دیں گے اور جو اپنے دین سے نہ پلٹے گا ہم اسے اس آگ میں جھونک دیں گے، پھر وہ انہیں ان گڈھوں میں ڈالنے لگا ، آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کے متعلق فرماتا ہے (پھر آپ نے آیت «قتل أصحاب الأخدود النار ذات الوقود» سے لے کر « العزيز الحميد» تک پڑھی ٢ ؎۔ راوی کہتے ہیں : لڑکا (سولی پر لٹکا کر قتل کر دئیے جانے کے بعد) دفن کردیا گیا تھا، کہا جاتا ہے کہ وہ لڑکا عمر بن خطاب (رض) کے زمانہ میں زمین سے نکالا گیا، اس کی انگلیاں اس کی کنپٹی پر اسی طرح رکھی ہوئی تھیں جس طرح اس نے اپنے قتل ہوتے وقت رکھا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٩٦٩) (صحیح) صحیح مسلم/الزہد ١٧ (٣٠٠٥) (تحفة الأشراف : ٤٩٦٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد آپ نے فرمایا ( جیسا کہ مسند احمد کی مطول روایت میں ہے ) : میں اپنی اس «ہمس» (خاموش سرگوشی ) میں تمہاری اس بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کو خوش تو ہوتا ہوں لیکن اللہ کے اس طرح کے «نقمہ» (عذاب و سزا سے ) پناہ مانگتا ہوں اور میں اللہ سے یہ دعا کرتا ہوں «اللهم بك أقاتل وبک أحاول ولا حول ولا قوة إلا بالله»۔ ٢ ؎ : خندقوں والے ہلاک کئے گئے وہ ایک آگ تھی ایندھن والی ، جب کہ وہ لوگ اس کے آس پاس بیٹھے تھے اور مسلمانوں کے ساتھ جو کر رہے تھے اس کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے ، یہ لوگ ان مسلمانوں سے ( کسی اور گناہ کا ) بدلہ نہیں لے رہے تھے سوائے اس کے کہ وہ اللہ غالب لائق حمد کی ذات پر ایمان لائے تھے ( البروج : ٤-٨) یہ واقعہ رسول اللہ کی ولادت سے پچاس سال پہلے ملک یمن میں پیش آیا تھا ، اس ظالم بادشاہ کا نام ذونواس یوسف تھا ، یہ یہودی المذہب تھا ، ( تفصیل کے لیے دیکھئیے الرحیم المختوم / صفی الرحمن مبارکپوری ) ۔ قال الشيخ الألباني : (حديث : إن نبيا من الأنبياء .... ) صحيح، (حديث : کان ملک من الملوک وکان لذلک الملک کا هن ) صحيح (حديث : إن نبيا من الأنبياء .. ) تخريج الکلم الطيب (125 / 83) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3340

【392】

سورہ غاشیہ کی تفسیر

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں (جنگ جاری رکھو) جب تک کہ لوگ «لا إلہ إلا اللہ» کہنے نہ لگ جائیں، جب لوگ اس کلمے کو کہنے لگ جائیں تو وہ اپنے خون اور مال کو مجھ سے محفوظ کرلیں گے، سوائے اس صورت کے جب کہ جان و مال دینا حق بن جائے تو پھر دینا ہی پڑے گا، اور ان کا (حقیقی) حساب تو اللہ ہی لے گا، پھر آپ نے آیت «إنما أنت مذکر لست عليهم بمصيطر» آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں آپ کچھ ان پر داروغہ نہیں ہیں (الغاشیہ : ٢٢) ، پڑھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨ (٢١/٣٥) (تحفة الأشراف : ٢٧٤٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : بظاہر اس باب کی حدیث اور اس آیت میں تضاد نظر آ رہا ہے ، امام نووی فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے وقت قتال کا حکم نہیں تھا ، بعد میں ہوا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح متواتر، ابن ماجة (71) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3341

【393】

سورہ فجر کی تفسیر

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے «شفع» اور «وتر» کے بارے میں پوچھا گیا کہ «شفع» (جفت) اور «الوتر» (طاق) سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس سے مراد نماز ہے، بعض نمازیں «شفع» (جفت) ہیں اور بعض نمازیں «وتر» (طاق) ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف قتادہ کی روایت سے جانتے ہیں، ٣- خالد بن قیس حدانی نے بھی اسے قتادہ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٨٩) (ضعیف الإسناد) (سند میں ایک مبہم راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3342

【394】

سورت الشمس کی تفسیر

عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک دن اس اونٹنی کا (مراد صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی) اور جس شخص نے اس اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے یہ آیت «إذ انبعث أشقاها» تلاوت کی، اس کام کے لیے ایک «شرِّ» سخت دل طاقتور، قبیلے کا قوی و مضبوط شخص اٹھا، مضبوط و قوی ایسا جیسے زمعہ کے باپ ہیں، پھر میں نے آپ کو عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا : آخر کیوں کوئی اپنی بیوی کو غلام کو کوڑے مارنے کی طرح کوڑے مارتا ہے اور جب کہ اسے توقع ہوتی ہے کہ وہ اس دن کے آخری حصہ میں (یعنی رات میں) اس کے پہلو میں سوئے بھی ، انہوں نے کہا : پھر آپ نے کسی کے ہوا خارج ہوجانے پر ان کے ہنسنے پر انہیں نصیحت کی، آپ نے فرمایا : آخر تم میں کا کوئی کیوں ہنستا (و مذاق اڑاتا) ہے جب کہ وہ خود بھی وہی کام کرتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ١٧ (٣٣٧٧) ، وتفسیر الشمس ١ (٤٩٤٢) ، والنکاح ٩٤ (٥٢٠٤) ، والأدب ٤٣ (٦٠٤٢) ، صحیح مسلم/الجنة والنار ١٣ (٢٨٥٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥١ (١٩٨٣) (تحفة الأشراف : ٥٢٩٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کی کوچیں کاٹنے والے بدبخت کے ذکر کے ساتھ اسلام کی دو اہم ترین اخلاقی تعلیمات کا ذکر ہے ، ١- اپنی شریک زندگی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ٢- مجلس میں کسی کی ریاح زور سے خارج ہوجانے پر نہ ہنسنے کا مشورہ ، کس حکیمانہ پیرائے میں آپ ﷺ نے دونوں باتوں کی تلقین کی ہے ! قابل غور ہے ، «فداہ أبی وأمی»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1983) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3343

【395】

سورہ اللیل کی تفسیر

علی (رض) کہتے ہیں کہ ہم (قبرستان) بقیع میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے، نبی اکرم ﷺ بھی تشریف لے آئے، آپ بیٹھ گئے، ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ بیٹھ گئے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، آپ اس سے زمین کریدنے لگے، پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور فرمایا : ہر متنفس کا ٹھکانہ (جنت یا جہنم) پہلے سے لکھ دیا گیا ہے ، لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیوں نہ ہم اپنے نوشتہ (تقدیر) پر اعتماد و بھروسہ کر کے بیٹھ رہیں ؟ جو اہل سعادہ نیک بختوں میں سے ہوگا وہ نیک بختی ہی کے کام کرے گا، اور جو بدبختوں میں سے ہوگا وہ بدبختی ہی کے کام کرے گا، آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں بلکہ عمل کرو، کیونکہ ہر ایک کو توفیق ملے گی، جو نیک بختوں میں سے ہوگا، اس کے لیے نیک بختی کے کام آسان ہوں گے اور جو بدبختوں میں سے ہوگا اس کے لیے بدبختی کے کام آسان ہوں گے ، پھر آپ نے (سورۃ واللیل کی) آیت «فأما من أعطی واتقی وصدق بالحسنی فسنيسره لليسری وأما من بخل واستغنی وکذب بالحسنی فسنيسره للعسری» جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور ڈرا (اپنے رب سے) اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے، لیکن جس نے بخیلی کی اور بےپرواہی برتی اور نیک بات کی تکذیب کی تو ہم بھی اس کی تنگی اور مشکل کے سامان میسر کردیں گے (اللیل : ٥- ١٠) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢١٣٦ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی باختصار برقم (2234) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3344

【396】

سورہ ضحی کی تفسیر

جندب بجلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک غار میں تھا، آپ کی انگلی سے (کسی سبب سے) خون نکل آیا، اس موقع پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تو صرف ایک انگلی ہے جس سے خون نکل آیا ہے اور یہ سب کچھ جو تجھے پیش آیا ہے اللہ کی راہ میں پیش آیا ہے ، راوی کہتے ہیں : آپ کے پاس جبرائیل (علیہ السلام) کے آنے میں دیر ہوئی تو مشرکین نے کہا : (پروپگینڈہ کیا) کہ محمد ( ﷺ ) چھوڑ دئیے گئے، تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے (سورۃ والضحیٰ کی) آیت «ما ودعک ربک وما قلی» نہ تو تیرے رب نے تجھے چھوڑا ہے اور نہ بیزار ہوا ہے (الضحیٰ : ٣) ، نازل فرمائی۔ ١ ؎ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسے شعبہ اور ثوری نے بھی اسود بن قیس سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٩ (٢٨٠٢) ، والأدب ٩٠ (٦١٤٦) ، صحیح مسلم/الجھاد ٣٩ (١٧٩٦) (تحفة الأشراف : ٣٢٥٠) ، و مسند احمد (٤/٣١٢، ٣١٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : وحی میں یہ تاخیر کسی وجہ سے ہوئی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3345

【397】

سورہ الم نشرح کی تفسیر

انس بن مالک (رض) اپنی قوم کے ایک شخص مالک بن صعصہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں بیت اللہ کے پاس نیم خوابی کے عالم میں تھا (کچھ سو رہا تھا اور کچھ جاگ رہا تھا) اچانک میں نے ایک بولنے والے کی آواز سنی، وہ کہہ رہا تھا تین آدمیوں میں سے ایک (محمد ہیں) ١ ؎، پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، اس میں زمزم کا پانی تھا، اس نے میرے سینے کو چاک کیا یہاں سے یہاں تک ، قتادہ کہتے ہیں : میں نے انس (رض) سے کہا : کہاں تک ؟ انہوں نے کہا : آپ نے فرمایا : پیٹ کے نیچے تک ، پھر آپ نے فرمایا : اس نے میرا دل نکالا، پھر اس نے میرے دل کو زمزم سے دھویا، پھر دل کو اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا اور ایمان و حکمت سے اسے بھر دیا گیا ٢ ؎ اس حدیث میں ایک لمبا قصہ ہے ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ٢- اسے ہشام دستوائی اور ہمام نے قتادہ سے روایت کیا ہے، ٣- اس باب میں ابوذر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٦ (٣٢٠٧) ، ومناقب الأنصار ٤٢ (٣٣٣٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧٤ (١٦٤) ، سنن النسائی/الصلاة ١ (٤٤٩) (تحفة الأشراف : ١١٢٠٢) ، و مسند احمد (٤/١٠٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ان تین میں ایک جعفر ، ایک حمزہ اور ایک نبی ﷺ تھے ٢ ؎ : شق صدر کا واقعہ کئی بار ہوا ہے ، انہی میں سے ایک یہ واقعہ ہے۔ ٣ ؎ : یہ قصہ اسراء اور معراج کا ہے جو بہت معروف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3346

【398】

سورہ التین کی تفسیر

اسماعیل بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک بدوی اعرابی کو کہتے ہوئے سنا، میں نے ابوہریرہ (رض) کو اسے روایت کرتے ہوئے سنا ہے، وہ کہتے تھے جو شخص (سورۃ) «والتين والزيتون» پڑھے اور پڑھتے ہوئے «أليس اللہ بأحكم الحاکمين» تک پہنچے تو کہے : «بلی وأنا علی ذلک من الشاهدين»۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اسی سند کے ساتھ اسی اعرابی سے ابوہریرہ (رض) کے واسطے سے مروی ہے اور اس اعرابی کا نام نہیں لیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٥٤ (٨٨٧) (تحفة الأشراف : ١٥٥٠٠) (ضعیف) (اس کا ایک راوی مبہم شخص ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (156) // عندنا (188 / 887) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3347

【399】

سورہ علق کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) آیت «سندع الزبانية» ہم بھی جہنم کے پیادوں کو بلا لیں گے (العلق : ١٨) ، کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں : ابوجہل نے کہا : اگر میں نے محمد ( ﷺ ) کو نماز پڑھتے دیکھ لیا تو اس کی گردن کو لاتوں سے روندوں گا، یہ بات آپ نے سنی تو فرمایا : اگر وہ ایسا کرتا تو فرشتے اسے دیکھتے ہی دبوچ لیتے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة العلق ٤ (٤٩٥٨) (تحفة الأشراف : ٦١٤٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3348

【400】

سورہ علق کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ ابوجہل آگیا، اس نے کہا : میں نے تمہیں اس (نماز) سے منع نہیں کیا تھا ؟ کیا میں نے تجھے اس (نماز) سے منع نہیں کیا تھا ؟ نبی اکرم ﷺ نے نماز سے سلام پھیرا اور اسے ڈانٹا، ابوجہل نے کہا : تجھے خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھ سے زیادہ کسی کے ہم نشیں نہیں ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «فليدع ناديه سندع الزبانية» اپنے ہم نشینوں کو بلا کر دیکھ لے، ہم جہنم کے فرشتوں کو بلا لیتے ہیں (العلق : ١ ٧- ١٨) ، ابن عباس (رض) کہتے ہیں : قسم اللہ کی ! اگر وہ اپنے ہم نشینوں کو بلا لیتا تو عذاب پر متعین اللہ کے فرشتے اسے دھر دبوچتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ٦٠٨٢) (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3349

【401】

سورہ قدر کی تفسیر

یوسف بن سعد کہتے ہیں کہ ایک شخص حسن بن علی (رض) کے پاس ان کے معاویہ (رض) کے ہاتھ پر بیعت کرلینے کے بعد گیا اور کہا : آپ نے تو مسلمانوں کے چہروں پر کالک مل دی، (راوی کو شک ہے «سودت» کہا یا «يا مسود وجوه المؤمنين» (مسلمانوں کے چہروں پر کالک مل دینے والا) کہا، انہوں نے کہا تو مجھ پر الزام نہ رکھ، اللہ تم پر رحم فرمائے، نبی اکرم ﷺ کو بنی امیہ اپنے منبر پر دکھائے گئے تو آپ کو یہ چیز بری لگی، اس پر آیت «إنا أعطيناک الکوثر» اے محمد ! ہم نے آپ کو کوثر دی ، نازل ہوئی۔ کوثر جنت کی ایک نہر ہے اور سورة القدر کی آیات «إنا أنزلناه في ليلة القدر وما أدراک ما ليلة القدر ليلة القدر خير من ألف شهر» ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا، اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے ، نازل ہوئیں، اے محمد تیرے بعد بنو امیہ ان مہینوں کے مالک ہوں گے ٣ ؎ قاسم بن فضل حدانی کہتے ہیں : ہم نے بنی امیہ کے ایام حکومت کو گنا تو وہ ہزار مہینے ہی نکلے نہ ایک دن زیادہ نہ ایک دن کم ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اس سند سے صرف قاسم بن فضل کی روایت سے جانتے ہیں۔ ٢- یہ بھی کہا گیا ہے کہ قاسم بن فضل سے روایت کی گئی ہے اور انہوں نے یوسف بن مازن سے روایت کی ہے، قاسم بن فضل حدانی ثقہ ہیں، انہیں یحییٰ بن سعید اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے ثقہ کہا ہے، اور یوسف بن سعد ایک مجہول شخص ہیں اور ہم اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٤٠٧) (ضعیف) (سند میں اضطراب ہے، اور متن منکر ہے، جیسا کہ مؤلف نے بیان کردیا ہے) وضاحت : ١ ؎ : سند میں اضطراب اور مجہول راوی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے متن میں سخت نکارت ہے ، کہاں آیت کا نزول شب قدر کی فضیلت کے بیان کے لیے ہونا ، اور کہاں بنو امیہ کی حدث خلافت ؟ یہ سب بےتکی باتیں ہیں ، نیز کہاں «إنا أعطيناک الکوثر» کی شان نزول ، اور کہاں بنو امیہ کی چھوٹی خلافت۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد مضطرب، ومتنه منكر صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3350

【402】

سورہ قدر کی تفسیر

زر بن حبیش (جن کی کنیت ابومریم ہے) کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب (رض) سے کہا آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں : جو سال بھر (رات کو) کھڑے ہو کر نمازیں پڑھتا رہے وہ لیلۃ القدر پالے گا، ابی بن کعب (رض) نے کہا : اللہ ابوعبدالرحمٰن کی مغفرت فرمائے (ابوعبدالرحمٰن، عبداللہ بن مسعود (رض) کی کنیت ہے) انہیں معلوم ہے کہ شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ رمضان کی ستائیسویں ( ٢٧) رات ہے، لیکن وہ چاہتے تھے کی لوگ اسی ایک ستائیسویں ( ٢٧) رات پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ رہیں کہ دوسری راتوں میں عبادت کرنے اور جاگنے سے باز آ جائیں، بغیر کسی استثناء کے ابی بن کعب (رض) نے قسم کھا کر کہا : (شب قدر) یہ ( ٢٧) رات ہی ہے، زر بن حبیش کہتے ہیں : میں نے ان سے کہا : ابوالمنذر ! آپ ایسا کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا : اس آیت اور نشانی کی بنا پر جو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتائی ہے (یہاں راوی کو شک ہوگیا ہے کہ انہوں نے «بالآية» کا لفظ استعمال کیا یا «بالعلامة» کا آپ نے علامت یہ بتائی (کہ ستائیسویں شب کی صبح) سورج طلوع تو ہوگا لیکن اس میں شعاع نہ ہوگی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٧٩٣ (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کئی برسوں کے تجربہ کی بنیاد پر مذکورہ علامتوں کو ٢٧ کی شب منطبق پانے بعد ہی ابی بن کعب (رض) یہ دعویٰ کیا تھا اور اس کی سند بھی صحیح ہے ، اس لیے آپ کا دعویٰ مبنی برحق ہے ، لیکن سنت کے مطابق دس دن اعتکاف کرنا یہ الگ سنت ہے ، اور الگ اجر و ثواب کا ذریعہ ہے ، نیز صرف طاق راتوں میں شب بیداری کرنے والوں کی شب قدر تو ملے گی ہے ، مزید اجر و ثواب الگ ہوگا ، ہاں ! پورے سال میں شب قدر کی تلاش کی بات : یہ ابن مسعود (رض) کا اپنا اجتہاد ہوسکتا ہے ، ویسے بھی شب قدر کا حصول اور اجر و ثواب تو متعین ہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وقد مضی نحوه (790) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3351

【403】

سورہ لم تکن کی تفسیر

مختار بن فلفل کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے کہا : «يا خير البرية» ! اے تمام مخلوق میں بہتر ! آپ نے فرمایا : یہ ابراہیم (علیہ السلام) ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٤١ (٢٣٦٩) ، سنن ابی داود/ السنة ١٤ (٤٦٧٢) (تحفة الأشراف : ١٥٧٤) ، وحإ (٣/١٧٨، ١٨٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ایسا آپ ﷺ نے تواضعاً اور ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے احتراماً فرمایا تھا ، ورنہ آپ خود اپنے فرمان کے مطابق : «سید ولد آدم» ہیں ، اور یہی ہمارا عقیدہ ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے مولف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ «أولئك هم خير البرية» (البينة : ٧) کی تفسیر میں لائے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3352

【404】

سورہ زلزال کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (سورۃ الزلزال کی) آیت «يومئذ تحدث أخبارها» اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کر دے گی (الزلزال : ٤) ، پڑھی، پھر آپ نے پوچھا : کیا تم لوگ جانتے ہو اس کی خبریں کیا ہیں ؟ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا : اس کی خبریں یہ ہیں کہ اس کی پیٹھ پر یعنی زمین پر ہر بندے نے خواہ مرد ہو یا عورت جو کچھ کیا ہوگا اس کی وہ گواہی دے گی، وہ کہے گی : اس بندے نے فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا، یہی اس کی خبریں ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٤٢٩ (ضعیف الإسناد) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد ومضی (2546) // (428 / 2559) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3353

【405】

سورہ تکاثر کی تفسیر

شخیر (رض) کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ آیت «ألهاكم التکاثر» زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کردیا (التکاثر : ١) ، تلاوت فرما رہے تھے، آپ نے فرمایا : ابن آدم میرا مال، میرا مال کہے جاتا ہے (اسی ہوس و فکر میں مرا جاتا ہے) مگر بتاؤ تو تمہیں اس سے زیادہ کیا ملا جو تم نے صدقہ دے دیا اور آگے بھیج دیا یا کھا کر ختم کردیا یا پہن کر بوسیدہ کردیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٣٤٢ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ابن آدم کا حقیقی مال وہی ہے جو اس نے راہ خدا میں خرچ کیا ، یا خود کھایا پیا اور پہن کر بوسیدہ کردیا ، اور باقی جانے والا مال تو اس کا اپنا مال نہیں بلکہ اس کے وارثین کا مال ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی (2445) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3354

【406】

سورہ تکاثر کی تفسیر

علی (رض) کہتے ہیں کہ ہم عذاب قبر کے بارے میں برابر شک میں رہے، یہاں تک کہ سورة «ألهاكم التکاثر» نازل ہوئی، تو ہمیں اس پر یقین حاصل ہوا۔ ابوکریب کبھی عمرو بن ابی قیس کہتے ہیں، تو یہ عمروبن قیس رازی ہیں - اور عمرو بن قیس ملائی کوفی ہیں اور یہ ابن ابی لیلیٰ سے روایت کرتے ہیں : اور وہ (ابن ابی لیلیٰ ) روایت کرتے ہیں منہال بن عمرو سے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٠٩٥) (ضعیف الإسناد) (سند میں حجاج بن ارطاة ضعیف اور مدلس راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3355

【407】

سورہ تکاثر کی تفسیر

زبیر بن عوام (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت «ثم لتسألن يومئذ عن النعيم» اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہوگا (التکاثر : ٨) ، نازل ہوئی تو زبیر (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! کن نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا ؟ ہمیں تو صرف دو ہی (کالی) نعمتیں حاصل ہیں، ایک کھجور اور دوسرے پانی ١ ؎ آپ نے فرمایا : عنقریب وہ بھی ہوجائیں گی ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ١٢ (٤١٥٨) (تحفة الأشراف : ٣٦٢٥) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان دونوں نعمتوں کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا ، اور دوسرے اور بہت سی نعمتیں بھی حاصل ہوجائیں گی۔ ٢ ؎ : مدینہ کی کھجوریں عموماً کالی ہوتی تھیں ، اور پانی کو غالباً کالا کہہ دیا جاتا تھا اس لیے ان دونوں کو عرب «الاسودان» (دو کالے کھانے ) کہا کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3356

【408】

سورہ تکاثر کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب آیت «ثم لتسألن يومئذ عن النعيم» نازل ہوئی تو لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! کن نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا ؟ وہ تو صرف یہی دو سیاہ چیزیں ہیں (ایک کھجور دوسرا پانی) (ہمارا) دشمن (سامنے) حاضر و موجود ہے اور ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر ہیں ١ ؎۔ آپ نے فرمایا : (تمہیں ابھی معلوم نہیں) عنقریب ایسا ہوگا (کہ تمہارے پاس نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث سے زیادہ صحیح میرے نزدیک ابن عیینہ کی وہ حدیث ہے جسے وہ محمد بن عمر سے روایت کرتے ہیں، (یعنی پچھلی روایت) سفیان بن عیینہ ابوبکر بن عیاش کے مقابلے میں حدیث کو زیادہ یاد رکھنے اور زیادہ صحت کے ساتھ بیان کرنے والے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥١٢١) (حسن) (سند میں ابوبکر بن عیاش کا حافظہ بڑھاپے میں کمزور ہوگیا تھا، لیکن سابقہ حدیث کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے) وضاحت : ١ ؎ : ہمیں لڑنے مرنے سے فرصت کہاں کہ ہمارے پاس طرح طرح کی نعمتیں ہوں اور ہم ان نعمتوں میں عیش و مستی کریں جس کی ہم سے بازپرس کی جائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن بما قبله (3356) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3357

【409】

سورہ تکاثر کی تفسیر

ضحاک بن عبدالرحمٰن بن عرزم اشعری کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے جن نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، (وہ یہ ہیں) اس سے کہا جائے گا : کیا میں نے تمہارے لیے تمہارے جسم کو تندرست اور ٹھیک ٹھاک نہ رکھا اور تمہیں ٹھنڈا پانی نہ پلاتا رہا ؟ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ضحاک، یہ بیٹے ہیں عبدالرحمٰن بن عرزب کے، اور انہیں ابن عرزم بھی کہا جاتا ہے اور ابن عرزم کہنا زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٥١١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (539) ، المشکاة (5196) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3358

【410】

سورہ کوثر کی تفسیر

انس (رض) کہتے ہیں کہ ارشاد باری «إنا أعطيناک الکوثر» کے متعلق نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وہ ایک نہر ہے جنت میں جس کے دونوں کناروں پر موتی کے گنبد بنے ہوئے ہیں، میں نے کہا : جبرائیل ! یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : یہ وہ کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو دی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ١٣٣٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ کوثر وہ خیر کثیر ہے جو نبی ﷺ کو دی گئی ہے اس پر بعض لوگوں نے ان کے شاگرد سعید بن جبیر سے کہا کہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ وہ ایک نہر ہے جنت میں ؟ تو اس پر سعید بن جبیر نے کہا : یہ نہر بھی منجملہ خیر کثیر ہی کے ہے ، گویا سعید بن جبیر نے دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق دینے کی کوشش کی ہے ، ویسے جب بزبان رسالت مآب صحیح سند سے یہ تصریح آ گئی کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے تو پھر کسی اور روایت کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ( تحفۃ وتفسیر ابن جریر ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3359

【411】

سورہ کوثر کی تفسیر

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں جنت میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میرے سامنے ایک نہر پیش کی گئی جس کے دونوں کناروں پر موتی کے گنبد بنے ہوئے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : یہی وہ کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو دی ہے۔ پھر انہوں نے اپنا ہاتھ مٹی تک ڈال دیا، نکالا تو وہ مشک کی طرح مہک رہی تھی، پھر میرے سامنے سدرۃ المنتہیٰ لا کر پیش کی گئی، میں نے وہاں بہت زیادہ نور (نور عظیم) دیکھا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث کئی اور سندوں سے بھی انس (رض) سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٥٣ (٦٥٨١) (تحفة الأشراف : ١١٥٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3360

【412】

سورہ کوثر کی تفسیر

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «الکوثر» جنت میں ایک نہر ہے، اس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں، اس کے پانی کا گزر موتیوں اور یاقوت پر ہوتا ہے، اس کی مٹی مشک سے بھی زیادہ خوشبودار ہے اور اس کا پانی شہد سے بھی زیادہ میٹھا ہے اور برف سے بھی زیادہ سفید ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٩ (٤٣٣٤) (تحفة الأشراف : ١١٥٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4334) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3361

【413】

سورہ فتح کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کی موجودگی میں عمر (رض) مجھ سے (مسئلہ) پوچھتے تھے (ایک بار) عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے ان سے کہا : آپ ان ہی سے کیوں پوچھتے ہیں جب کہ ہمارے بھی ان کے جیسے بچے ہیں (کیا بات ہے ؟ ) عمر (رض) نے انہیں جواب دیا وہ جس مقام و مرتبہ پر ہے وہ آپ کو معلوم ہے۔ پھر انہوں نے ان سے اس آیت «إذا جاء نصر اللہ والفتح» کے بارے میں پوچھا، (ابن عباس (رض) کہتے ہیں) میں نے کہا : اس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کی خبر ہے، اللہ نے آپ کو آگاہ کیا ہے، انہوں نے یہ پوری سورة شروع سے آخر تک پڑھی، عمر (رض) نے ان سے کہا : قسم اللہ کی ! میں نے اس سورة سے وہی سمجھا اور جانا جو تو نے سمجھا اور جانا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢

【414】

سورہ لہب کی تفسیر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ صفا (پہاڑ) پر چڑھ گئے، وہاں سے یا «صباحاه» ١ ؎ آواز لگائی تو قریش آپ کے پاس اکٹھا ہوگئے۔ آپ نے فرمایا : میں تمہیں سخت عذاب سے ڈرانے والا (بنا کر بھیجا گیا) ہوں، بھلا بتاؤ تو اگر میں تمہیں خبر دوں کہ (پہاڑ کے پیچھے سے) دشمن شام یا صبح تک تم پر چڑھائی کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ مجھے سچا جانو گے ؟ ابولہب نے کہا کیا : تم نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا ؟ تمہارا ستیاناس ہو ٢ ؎، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «تبت يدا أبي لهب وتب» ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہوگیا (تبت : ١) ، نازل فرمائی، امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٩٨ (١٣٩٤) ، والمناقب ١٣ (٣٥٢٥) ، وتفیسر الشعراء ٢ (٤٧٧٠) ، وتفسیر سبا ٢ (٤٨٠١) ، وتفسیر تبت یدا أبي لہب ١ (٤٩٧١) ، و ٢ (٤٩٧٢) ، و ٣ (٤٩٧٣) ، وصحیح مسلم/الإیمان ٨٩ (٢٠٨) (تحفة الأشراف : ٥٥٩٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ آواز عرب اس وقت لگایا کرتے تھے جب قبیلہ حملہ والوں کو کسی خاص اور اہم معاملہ کے لیے جمع کرنا ہوتا تھا۔ ٢ ؎ : دیگر روایات میں آتا ہے کہ لوگوں کے جمع ہوجانے پر پہلے آپ نے ان سے تصدیق چاہی کہ اگر میں ایسا کہوں تو کیا تم میری بات کی تصدیق کرو گے ، نہیں ؟ اس پر انہوں نے کہا ، کیوں نہیں کریں گے ، آپ ہمارے درمیان امین اور صادق مسلم ہیں ، اس پر آپ ﷺ نے توحید کی دعوت پیش کی اس دلیل سے کہ تب میری اس بات پر بھی تصدیق کرو اس پر ابولہب نے مذکورہ بات کہی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3363

【415】

سورہ اخلاص کی تفسیر

ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : آپ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے «قل هو اللہ أحد اللہ الصمد» کہہ دیجئیے اللہ اکیلا ہے، اللہ بےنیاز ہے (الاخلاص : ١- ٢) ، نازل فرمائی، اور «صمد» وہ ہے جو نہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہو، اس لیے (اصول یہ ہے کہ) جو بھی کوئی چیز پیدا ہوگی وہ ضرور مرے گی اور جو بھی کوئی چیز مرے گی اس کا وارث ہوگا، اور اللہ عزوجل کی ذات ایسی ہے کہ نہ وہ مرے گی اور نہ ہی اس کا کوئی وارث ہوگا، «ولم يكن له کفوا أحد» اور نہ اس کا کوئی «کفو» (ہمسر) ہے ، راوی کہتے ہیں : «کفو» یعنی اس کے مشابہ اور برابر کوئی نہیں ہے، اور نہ ہی اس جیسا کوئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦) (حسن) آیت تک صحیح ہے، اور ” الصمد الذي إالخ) کا سیاق صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ سند میں ابو جعفر الرازی سیٔ الحفظ اور ابو سعید الخراسانی ضعیف ہیں، اور مسند احمد ٥/١١٣، ١٣٤، اور طبری ٣٠/٢٢١ کے طریق سے تقویت پا کر اول حدیث حسن ہے، تراجع الألبانی ٥٥٩) قال الشيخ الألباني : حسن دون قوله : والصمد الذی ... ظلال الجنة (663 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3364

【416】

سورہ اخلاص کی تفسیر

ابولعالیہ (رفیع بن مہران) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کے (یعنی مشرکین کے) معبودوں کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا : آپ ہم سے اپنے رب کا نسب بیان کیجئے، آپ نے بتایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) ان کے پاس یہ سورة «قل هو اللہ أحد» لے کر آئے، پھر انہوں نے اسی طرح حدیث بیان کی، اور اس کی سند میں ابی بن کعب سے روایت کا ذکر نہیں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ ابوسعد کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ابوسعد کا نام محمد بن میسر ہے، اور ابو جعفر رازی کا نام عیسیٰ ہے، ابوالعالیہ کا نام رفیع ہے یہ ایک غلام تھے جنہیں ایک قیدی عورت نے آزاد کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (ضعیف) (یہ مرسل روایت ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف ظلال الجنة (663 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3365

【417】

معو ذتین کی تفسیر

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے چاند کی طرف دیکھ کر فرمایا : عائشہ ! اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو، کیونکہ یہ «غاسق» ہے جب یہ ڈوب جائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١١٦ (٣٠٤) (تحفة الأشراف : ١٧٧٠٣) ، و مسند احمد (٦/٢١٥) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کے ڈوبنے سے رات کی تاریکی بڑھ جاتی ہے اور بڑھی ہوئی تاریکی میں زنا ، چوریاں بدکاریاں وغیرہ زیادہ ہوتی ہیں ، اس لیے اس سے پناہ مانگنے کے لیے کہا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الصحيحة (372) ، المشکاة (2475) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3366

【418】

معو ذتین کی تفسیر

عقبہ بن عامر جہنی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ نے مجھ پر کچھ ایسی آیتیں نازل کی ہیں کہ ان جیسی آیتیں کہیں دیکھی نہ گئی ہیں، وہ ہیں «قل أعوذ برب الناس» آخر سورة تک اور «قل أعوذ برب الفلق» آخر سورة تک۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٩٠٢ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وقد مضی (3078) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3367

【419】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور ان میں روح پھونک دی، تو ان کو چھینک آئی، انہوں نے «الحمد لله» کہنا چاہا چناچہ اللہ کی اجازت سے «الحمد لله» کہا، (تمام تعریفیں اللہ کے لیے سزاوار ہیں) پھر ان سے ان کے رب نے کہا : اللہ تم پر رحم فرمائے، اے آدم ! ان فرشتوں کی بیٹھی ہوئی جماعت و گروہ کے پاس جاؤ اور ان سے السلام علیکم کہو، انہوں نے جا کر السلام علیکم کیا، فرشتوں نے جواب دیا، وعلیک السلام ورحمۃ اللہ، پھر وہ اپنے رب کے پاس لوٹ آئے، اللہ نے فرمایا : یہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا آپس میں طریقہ سلام و دعا ہے، پھر اللہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کر کے آدم سے کہا : ان میں سے جسے چاہو پسند کرلو، وہ کہتے ہیں : میں نے اللہ کے دایاں ہاتھ کو پسند کیا، اور حقیقت یہ ہے کہ میرے رب کے دونوں ہی ہاتھ داہنے ہاتھ ہیں اور برکت والے ہیں، پھر اس نے مٹھی کھولی تو اس میں آدم اور آدم کی ذریت تھی، آدم (علیہ السلام) نے پوچھا : اے میرے رب یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا یہ سب تیری اولاد ہیں اور ہر ایک کی عمر اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں لکھی ہوئی ہے، ان میں ایک سب سے زیادہ روشن چہرہ والا تھا، آدم (علیہ السلام) نے پوچھا : اے میرے رب یہ کون ہے ؟ کہا یہ تمہارا بیٹا داود ہے، میں نے اس کی عمر چالیس سال لکھ دی ہے، آدم (علیہ السلام) نے کہا : اے میرے رب ! اس کی عمر بڑھا دیجئیے، اللہ نے کہا : یہ عمر تو اس کی لکھی جا چکی ہے، آدم (علیہ السلام) نے کہا : اے میرے رب ! میں اپنی عمر میں سے ساٹھ سال اسے دیئے دیتا ہوں، اللہ نے کہا : تم اور وہ جانو ؟ چلو خیر، پھر آدم (علیہ السلام) جنت میں رہے جب تک کہ اللہ کو منظور ہوا، پھر آدم (علیہ السلام) جنت سے نکال باہر کردیئے گئے، آدم (علیہ السلام) اپنی زندگی کے دن گنا کرتے تھے، ملک الموت ان کے پاس آئے تو آدم (علیہ السلام) نے ان سے کہا : آپ تو جلدی آ گئے میری عمر تو ہزار برس لکھی گئی ہے، ملک الموت نے کہا : ہاں (بات تو صحیح ہے) لیکن آپ نے تو اپنی زندگی کے ساٹھ سال اپنے بیٹے داود کو دے دیے تھے، تو انہوں نے انکار کردیا آدم (علیہ السلام) کے اسی انکار کا نتیجہ اور اثر ہے کہ ان کی اولاد بھی انکار کرنے لگ گئی، آدم (علیہ السلام) بھول گئے، ان کی اولاد بھی بھولنے لگ گئی، اسی دن سے حکم دے دیا گیا ساری باتیں لکھ لی جایا کریں اور گواہ بنا لیے جایا کریں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- یہ حدیث کئی اور سندوں سے ابوہریرہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، اور ابوہریرہ کی اس حدیث کو زید بن اسلم نے بطریق : «أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٨٢ (٢١٨) (تحفة الأشراف : ١٢٩٥٥) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (4662) ، ظلال الجنة (204 - 206) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3368

【420】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب اللہ نے زمین بنائی تو وہ ہلنے لگی چناچہ اللہ نے پہاڑ بنائے اور ان سے کہا : اسے تھامے رہو، تو زمین ٹھہر گئی، (اس کا ہلنا و جھکنا بند ہوگیا) فرشتوں کو پہاڑوں کی سختی و مضبوطی دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی، انہوں نے کہا : اے میرے رب ! کیا آپ کی مخلوق میں پہاڑ سے بھی زیادہ ٹھوس کوئی چیز ہے ؟ اللہ نے فرمایا : ہاں، لوہا ہے ، انہوں نے کہا : اے ہمارے رب ! کیا آپ کی مخلوق میں لوہے سے بھی طاقتور کوئی چیز ہے ؟ اللہ نے فرمایا : ہاں، آگ ہے ، انہوں نے کہا : اے میرے رب ! کیا آپ کی مخلوق میں آگ سے بھی زیادہ طاقتور کوئی چیز ہے ؟ اللہ نے فرمایا : ہاں، پانی ہے ، انہوں نے کہا : اے ہمارے رب ! کیا آپ کی مخلوق میں پانی سے بھی زیادہ طاقتور کوئی چیز ہے ؟ اللہ نے فرمایا : ہاں، ہوا ہے ، انہوں نے عرض کیا : اے ہمارے رب ! کیا آپ کی مخلوق میں ہوا سے بھی زیادہ طاقتور کوئی مخلوق ہے۔ اللہ نے فرمایا : ہاں، ابن آدم ہے جو اپنے داہنے سے اس طرح صدقہ دیتا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہیں ہونے پاتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٧١) (ضعیف) (سند میں سلیمان بن ابی سلیمان الھاشمی لین الحدیث راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1923) ، التعليق الرغيب (2 / 31) // ضعيف الجامع الصغير (4770) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3369