42. قرأت کا بیان

【1】

قرائت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے، آپ : «الحمد لله رب العالمين» پڑھتے، پھر رک جاتے، پھر «الرحمن الرحيم» پڑھتے پھر رک جاتے، اور «ملك يوم الدين» پڑھتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ابو عبید بھی یہی پڑھتے تھے اور اسی کو پسند کرتے تھے ٢ ؎، ٣ - یحییٰ بن سعید اموی اور ان کے سوا دوسرے لوگوں نے ابن جریج سے اور ابن جریج نے ابن ابی ملیکہ کے واسطہ سے ام سلمہ سے اسی طرح روایت کی ہے، اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، کیونکہ لیث بن سعد نے یہ حدیث ابن ابی ملیکہ سے ابن ابی ملیکہ نے یعلیٰ بن مملک سے انہوں نے ام سلمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی قرأت کی کیفیت ایک ایک حرف الگ کر کے بیان کی۔ لیث کی حدیث زیادہ صحیح ہے اور لیث کی حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ آپ ﷺ «ملك يوم الدين» پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحروف والقراءت (٤٠٠١) (تحفة الأشراف : ١٨١٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : رسول اکرم ﷺ یعنی «مالک یوم الدین» کی جگہ «ملک یوم الدین» پڑھتے تھے۔ ٢ ؎ : یعنی : ابوعبید قاسم بن سلام «مالک یوم الدین» کے بجائے «ملک یوم الدین» کو پڑھنا پسند کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (343) ، المشکاة (2205) ، صفة الصلاة، مختصر الشمائل (270) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2927

【2】

قرائت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر و عمر (رض) (راوی زہری کہتے ہیں کہ) اور میرا خیال ہے کہ انس (رض) نے عثمان (رض) کا بھی نام لیا کہ یہ سب لوگ «مالک يوم الدين» پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف زہری کی روایت سے جسے وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں صرف اس شیخ یعنی ایوب بن سوید رملی کی روایت سے ہی جانتے ہیں، ٣ - زہری کے بعض اصحاب (تلامذہ) نے یہ حدیث زہری سے (مرسلاً ) روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر و عمر «مالک يوم الدين» پڑھتے تھے۔ اور عبدالرزاق نے معمر سے، معمر نے زہری سے اور زہری نے سعید بن مسیب سے (مرسلاً ) روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر و عمر (رض) «مالک يوم الدين» پڑھتے تھے، (یعنی : اس کو مرفوعاً صرف ایوب بن سوید ہی نے روایت کیا ہے، اور وہ ضعیف ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥٧٠) (ضعیف الإسناد) (سند میں ” ایوب بن محمد الرملی “ روایت میں غلطیاں کر جاتے تھے، اس روایت میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ ” الزہري عن النبی صلی+اللہ+علیہ+وسلم مرسلاً “ ہے جیسا کہ مولف نے وضاحت کی ہے، مگر دیگر سندوں سے یہ حدیث ثابت ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2928

【3】

قرائت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پڑھا : «أن النفس بالنفس والعين بالعين» ١ ؎ «بالعين» ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ابوعلی بن یزید، یونس بن یزید کے بھائی ہیں، ٣ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : اس حدیث کو یونس بن یزید سے روایت کرنے میں ابن مبارک منفرد (تنہا) ہیں، ٤ - اور ابو عبید (قاسم بن سلام) نے اس حدیث کی اتباع میں اس طرح («العين» ‏‏‏‏ «بالعين» ) پڑھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحروف (٣٩٧٦) (تحفة الأشراف : ١٥٧٢) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابو علی بن یزید مجہول راوی ہے) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : «العینُ» کی نون پر پیش کے ساتھ ، جبکہ یہ «النفس» پر عطف ہے جس کا تقاضا ہے کہ نون پر بھی زبر (فتحہ) پڑھا جائے۔ ٢ ؎ : جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ ہے (المائدہ : ٤٥ ) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد //، ضعيف أبي داود (854 / 3976) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2929 ہم سے سوید بن نصر نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن مبارک نے یونس بن یزید سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف الإسناد ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد //، ضعيف أبي داود (854 / 3976) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2929

【4】

قرائت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پڑھا «هل تستطيع ربك» ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف رشدین کی حدیث سے جانتے ہیں، ٢ - اور اس کی سند قوی نہیں ہے، رشدین بن سعد اور (عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم) افریقی دونوں حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٣٣٧) (ضعیف الإسناد) (سند میں عبد الرحمن بن زیاد افریقی اور رشدین بن سعد ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مشہور قراءت یوں ہے «هل يستطيع ربك» یعنی یاء تحتانیہ اور راء کے اوپر ضمہ کے ساتھ پوری آیت اس طرح ہے «هل يستطيع ربك أن ينزل علينا مآئدة من السماء» (المائدہ : ١١٢ ) اور اس حدیث میں مذکور قراءت کسائی کی ہے ، معنی ہوگا کیا تو اپنے رب سے مانگنے کی طاقت رکھتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2930

【5】

قرائت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

ام سلمہ ١ ؎ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ پڑھتے تھے «إنه عمل غير صالح» ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اسی طرح کئی ایک رواۃ نے ثابت بنانی سے اس حدیث کی روایت کی ہے، ٢ - یہ حدیث شہر بن حوشب سے اسماء بنت یزید کے واسطہ سے بھی روایت کی گئی ہے، ٣ - میں نے عبد بن حمید کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ اسماء بنت یزید ہی ام سلمہ انصاریہ ہیں، ٤ - یہ دونوں ہی حدیثیں میرے نزدیک ایک ہیں، ٥ - شہر بن حوشب نے کئی حدیثیں ام سلمہ انصاریہ سے روایت کی ہیں، اور ام سلمہ انصاریہ یہی اسماء بنت یزید ہیں، ٦ - عائشہ (رض) سے مروی ہے انہوں نے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحروف (٣٩٨٢، و ٢٩٨٣) (تحفة الأشراف : ١٨١٦٣/الف) ، و مسند احمد (٦/٤٥٩) (صحیح) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة رقم : ٢٨٠٩ ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ام المؤمنین ام سلمہ (رض) نہیں ہیں ، بلکہ انصاریہ صحابیہ ہیں ، لیکن مسند احمد کی بعض روایات میں ام المؤمنین کا اضافہ سے مزی نے اس حدیث کو دونوں ترجمہ میں ذکر کیا ہے۔ ٢ ؎ : نوح (علیہ السلام) کے بیٹے نے غیر صالح عمل کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2809) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2931

【6】

قرائت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت اس طرح پڑھی : «إنه عمل غير صالح»۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة رقم : ٢٨٠٩ ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2932

【7】

قرائت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

ابی بن کعب سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پڑھا : «قد بلغت من لدني عذرا» ١ ؎ یعنی «لدني» کو نون ثقیلہ کے ساتھ پڑھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - امیہ بن خالد ثقہ ہیں، ٣ - ابوالجاریہ عبدی مجہول شیخ ہیں، ہم ان کا نام نہیں جانتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحروف (٣٩٨٥) (تحفة الأشراف : ٤٢) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابو الجاریہ عبدی مجہول راوی ہے ) وضاحت : ١ ؎ : مشہور قراءت اسی طرح ہے یعنی نون پر تشدید کے ساتھ لیکن نافع وغیرہ نے اس کو اس طرح پڑھا ہے «مِنْ لَدُنِیْ» یعنی نون پر صرف سادہ زیر کے ساتھ بہرحال معنی ایک ہی ہے ، یعنی یقیناً آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ گئے۔ (الکہف : ٧٦ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد //، ضعيف أبي داود (856 / 3985) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2933

【8】

قرائت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے «في عين حمئة» پڑھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - صحیح ابن عباس کی قرأت ہے جو ان سے مروی ہے، ٣ - مروی ہے کہ ابن عباس اور عمرو بن العاص (رض) دونوں نے اس آیت کی قرأت میں آپس میں اختلاف کیا، اور اپنا معاملہ (فیصلہ کے لیے) کعب احبار کے پاس لے گئے۔ اگر ان کے پاس اس بارے میں نبی اکرم ﷺ سے کوئی روایت ہوتی تو وہ روایت ان کے لیے کافی ہوتی، اور کعب احبار کی طرف انہیں رجوع کی حاجت نہ رہتی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحروف (٣٩٨٦) (تحفة الأشراف : ٤٣) (ضعیف الإسناد) (سند میں سعد بن اوس سے غلطیاں ہوجایا کرتی تھیں، اور مصدع لین الحدیث ہیں، مگر اس حدیث کا متن دیگر سندوں سے ثابت ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یہی مشہور قراءت ہے ، یعنی : «حَمِئَةٍ» حاء کے بعد بغیر الف کے ، جبکہ بعض قراء کی قراءت «حَامِئَةٍ» یعنی حاء کے بعد الف غیر مہموزہ کے ساتھ ، بہرحال معنی ہے : اور سورج کو ایک دلدل کے چشمے میں ڈوبتا پایا ۔ (الکہف : ٨٦ ) قال الشيخ الألباني : صحيح المتن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2934

【9】

قرائت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر رومی (اہل کتاب نصاریٰ ) اہل فارس (آتش پرست مجوسیوں) پر غالب آ گئے۔ تو یہ چیز مسلمانوں کو بڑی پسند آئی اور اسی موقع پر («الم غلبت الروم» سے «يفرح المؤمنون» ) تک کی آیات نازل ہوئیں ١ ؎۔ چناچہ مسلمان اہل روم کے اہل فارس پر غلبہ سے خوش ہوئے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - «غَلَبَتْ» اور «غُلِبَتْ» دونوں پڑھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں : اہل روم پہلے مغلوب ہوئے پھر غالب آ گئے، ایسے ہی نصر بن علی نے «غَلَبَتْ» پڑھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٢٠٨) (صحیح) (عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : «الم» رومی مغلوب ہوگئے ہیں نزدیک کی زمین پر اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آ جائیں گے ، چند سال میں ہی ، اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی اختیار اللہ تعالیٰ ہی کا ہے ، اس روز مسلمان خوش ہوں گے ۔ (الروم : ١ -٤) ٢ ؎ : اس لیے کہ مسلمان اہل کتاب (قرآن والے) تھے اور رومی بھی اہل کتاب (انجیل والے) تھے ، اور اہل فارس کافر و مشرک تھے جیسے اہل مکہ کافر و مشرک تھے۔ ان کی خوشی ادنی موافقت کی بنا پر تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح وسيأتي برقم (3420) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2935

【10】

قرائت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کے سامنے «خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ» (ضاد کے فتحہ کے ساتھ) پڑھا تو آپ نے فرمایا :«مِنْ ضَعْفٍ» نہیں «مِنْ ضُعْفٍ» ١ ؎ (ضاد کے ضمہ کے ساتھ) پڑھو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف فضیل بن مرزوق کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحروف (٣٩٧٨) (تحفة الأشراف : ٧٣٣٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یہی مشہور قراءت ہے، اور ضاد کے فتحہ کے ساتھ عاصم اور حمزہ کی قراءت ہے، یعنی ہے : اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا ۔ (الروم : ٥٤ ) قال الشيخ الألباني : حسن، الروض النضير (530) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2936 ہم سے عبد بن حمید نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا یزید بن ہارون نے اور یزید بن ہارون نے فضیل بن مرذوق سے کی حدیث روایت کی فضل بن مرذوق نے عطیہ سے اور عطیہ نے ابن عمر کے واسطہ سے نبی ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، الروض النضير (530) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2936

【11】

قرائت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ «فهل من مدکر» ١ ؎ پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/احادیث الأنبیاء ٣ (٣٣٤١) ، وتسیر سورة القمر ٢ (٤٨٧ ¤ ٢- ٤٨٧٤) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٠ (٨٢٣) ، سنن ابی داود/ الحروف (٢٩٩٤) (تحفة الأشراف : ٩١٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہی مشہور قراءت ہے یعنی دال مہملہ کے ساتھ اس کی اصل ہے «مُذْ تَکِر» (بروزن «مُجْتَنِب» تاء کو دال مہملہ سے بدل دیا اور ذال کو دال میں مدغم کردیا تو «مُدَّکِر» ہوگیا ، بعض قراء نے «ُ مُذَّکِر» (ذال معجم کے ساتھ) پڑھا ہے بہرحال معنی ہے : پس کیا کوئی ہے نصیحت پکڑنے والا (القمر : ٤٠ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2937

【12】

قرائت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ «فروح وريحان وجنة نعيم» ١ ؎ پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اسے ہم صرف ہارون اعور کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحروف (٣٩٩١) (تحفة الأشراف : ١٦٢٠٤) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : مشہور قراءت «فَرَوحٌ» (راء پر فتحہ کے ساتھ) ہے ، یعقوب کی قراءت راء کے ضمہ کے ساتھ ہے ، فتحہ کی صورت میں معنی ہے اسے تو راحت ہے اور غذائیں ہیں اور آرام والی جنت ہے ، اور ضمہ کی صورت میں معنی ہوگا : اس کی روح پھولوں اور آرام والی جنت میں نکل کر جائیگی (الواقعہ : ٨٩ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2938

【13】

قرائت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

علقمہ کہتے ہیں کہ ہم شام پہنچے تو ابوالدرواء (رض) ہمارے پاس آئے اور کہا : کیا تم میں کوئی شخص ایسا ہے جو عبداللہ بن مسعود کی قرأت کی طرح پر قرأت کرتا ہو ؟ تو لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، میں نے کہا : ہاں، انہوں نے کہا : تم نے یہ آیت «والليل إذا يغشی» عبداللہ بن مسعود کو کیسے پڑھتے ہوئے سنا ہے ؟ میں نے کہا : میں نے انہیں «والليل إذا يغشی والذکر والأنثی» ١ ؎ پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ ابو الدرداء نے کہا : اور میں، قسم اللہ کی، میں نے بھی رسول اللہ ﷺ کو ایسا ہی پڑھتے ہوئے سنا ہے، اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں اسے «وما خلق» پڑھوں (یعنی «وما خلق والذکر والأنثی» ) تو میں ان کی بات نہ مانوں گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - عبداللہ بن مسعود کی قرأت بھی اسی طرح ہے : «والليل إذا يغشی والنهار إذا تجلی والذکر والأنثی » تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة اللیل ١ (٤٩٤٤) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٠ (٨٢٤) (تحفة الأشراف : ١٠٩٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مشہور قراءت ہے «والليل إذا يغشی والنهار إذا تجلی وما خلق الذکر والأنثی» حدیث میں مذکور قراءت اس میں مذکور اشخاص ہی کی ہے ، ان کے علاوہ اور کسی بھی قاری سے یہ منقول نہیں ہے ، عثمان (رض) کے قراءت شاید اس کے منسوخ ہوجانے کی خبر پہنچی ہو جو ان مذکورہ اشخاص تک نہیں پہنچی ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2939

【14】

قرائت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے «إني أنا الرزاق ذو القوة المتين» پڑھایا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحروف (٣٩٩٣) (تحفة الأشراف : ٩٣٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جب کہ مشہور قرأت «إن اللہ هو الرزاق ذو القوة المتين» ہے ، یعنی : اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے (الذاریات : ٥٨ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح المتن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2940

【15】

قرائت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پڑھا : «وتری الناس سکاری وما هم بسکاری» ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - قتادہ صحابہ میں سے انس ابوطفیل کے علاوہ کسی اور صحابی سے ہم سماع نہیں جانتے، ٣ - یہ روایت میرے نزدیک مختصر ہے۔ پوری روایت اس طرح ہے : روایت کی گئی قتادہ سے، قتادہ نے روایت کی حسن بصری سے، اور حسن بصری نے روایت کی عمران بن حصین سے، ہم نبی ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے تو آپ نے آیت «يا أيها الناس اتقوا ربکم» ٢ ؎ پڑھی، (آگے) پوری حدیث بیان کی، ٤ - حکم بن عبدالملک کی حدیث میرے نزدیک اس حدیث سے مختصر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٨٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہی مشہور قراءت ہے ، جس کے معنی ہیں : اور تو دیکھے گا کہ لوگ مدہوش اور بدمست دکھائی دیں گے ، حالانکہ درحقیقت وہ متوالے نہ ہوں گے ، لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہے ، بعض اور قاریوں نے اسے «سَکْرَی» پڑھا ہے۔ ٢ ؎ : الحج : ١ ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2941

【16】

قرائت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ان میں سے یا تم میں سے کسی کے لیے یہ کہنا برا ہے کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا، بلکہ یہ کہو کہ وہ بھلا دیا گیا ١ ؎ تم قرآن یاد کرتے دھراتے رہو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! قرآن لوگوں کے سینوں سے نکل بھاگنے میں چوپایوں کے اپنی رسی سے نکل بھاگنے کی بہ نسبت زیادہ تیز ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ٢٣ (٥٠٣٢) ، و ٢٦ (٥٠٣٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٣ (٧٩٠) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٧ (٩٤٤) (تحفة الأشراف : ٩٢٩٥) ، و مسند احمد (١/٣٨٢، ٤١٧، ٤٢٣، ٤٦٣٤٣٩) ، وسنن الدارمی/فضائل القرآن ٤ (٣٣٩٠) ، والرقاق ٣٢ (٢٧٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ممانعت نہی تحریمی نہیں ہے ، بلکہ نہی تنزیہی ہے یعنی : ایسا نہیں کہنا چاہیئے کیونکہ اس سے اپنی سستی اور قرآن سے غفلت کا خود ہی اظہار ہے ، یا یہ مطلب ہے کہ ایسا موقع ہی نہ آنے دے کہ یہ بات کہنے کی نوبت آئے بعض روایات میں میں بھول گیا کہنا بھی ملتا ہے ، اس لیے مذکورہ ممانعت نہی تنزیہی پر محمول کی گئی ہے۔ یعنی ایسا نہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ ٢ ؎ : معلوم ہوا کہ قرآن کو باربار پڑھتے اور دہراتے رہنا چاہیئے ، کیونکہ قرآن جس طرح جلد یاد ہوتا ہے اسی طرح جلد ذہن سے نکل جاتا ہے ، اس لیے قرآن کو بار بار پڑھنا اور اس کا دہرانا ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الظلال (422) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2942

【17】

اس بارے میں قرآن سات قراءتوں پر نازل ہوا

مسور بن مخرمہ (رض) اور عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ ان دونوں نے عمر بن خطاب (رض) کو کہتے ہوئے سنا ہے : میں ہشام بن حکیم بن حزام کے پاس سے گزرا، وہ سورة الفرقان پڑھ رہے تھے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ زندہ تھے، میں نے ان کی قرأت سنی، وہ ایسے حرفوں پر پڑھ رہے تھے، جن پر رسول اللہ ﷺ نے مجھے پڑھایا ہی نہ تھا۔ قریب تھا کہ میں ان پر حملہ کردیتا مگر میں نے انہیں (نماز پڑھ لینے تک کی) مہلت دی۔ جونہی انہوں نے سلام پھیرا میں نے ان کو انہیں کی چادر ان کے گلے میں ڈال کر گھسیٹا، میں نے ان سے پوچھا : یہ سورة جسے میں نے تمہیں ابھی پڑھتے ہوئے سنا ہے، تمہیں کس نے پڑھائی ہے ؟ کہا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے پڑھائی ہے۔ میں نے کہا : تم غلط کہتے ہو، قسم اللہ کی ! رسول اللہ ﷺ نے ہی مجھے یہ سورة پڑھائی جو تم پڑھ رہے تھے ١ ؎، میں انہیں کھینچتا ہوا نبی اکرم ﷺ کے پاس لے گیا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے انہیں سورة الفرقان ایسے حرفوں (طریقوں) پر پڑھتے ہوئے سنا ہے جن پر آپ نے مجھے پڑھنا نہیں سکھایا ہے جب کہ آپ ہی نے مجھے سورة الفرقان پڑھایا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : عمر ! انہیں چھوڑ دو ، ہشام ! تم پڑھو ۔ تو انہوں نے وہی قرأت کی جو میں نے ان سے سنی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، ایسی ہی نازل ہوئی ہے ۔ پھر مجھ سے آپ ﷺ نے فرمایا : عمر ! تم پڑھو ، تو میں نے اسی طرح پڑھا جس طرح آپ نے مجھے پڑھایا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، اسی طرح نازل کی گئی ہے ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : یہ قرآن سات حرفوں پر اتارا گیا ہے ٢ ؎، تو جو قرأت تمہیں آسان لگے اسی قرأت پر تم قرآن پڑھو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - مالک بن انس نے زہری سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اپنی روایت میں مسور بن مخرمہ کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخصومات ٤ (٢٤١٩) ، وفضائل القرآن ٥ (٤٩٩٢) ، و ٢٧ (٥٠٤١) ، والمرتدین ٩ (٦٩٣٦) ، والتوحید ٥٣ (٧٥٥٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤٨ (٨١٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٧ (١٤٧٥) ، سنن النسائی/الإفتتاح ٣٧ (٩٣٧-٩٣٩) (تحفة الأشراف : ١٠٥٩١ و ١٠٦٤٢) ، وط/القرآن ٤ (٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : لیکن جس طرح تم پڑھ رہے تھے اس طرح مجھے رسول اللہ ﷺ نے نہیں پڑھایا ، اس لیے تم غلط گو ہو۔ ٢ ؎ : سات حرفوں پر قرآن کے نازل ہونے کے مطلب میں علماء کے بہت سے اقوال ہیں ، لیکن سب سے راجح مطلب یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کی ادائیگی (لہجہ) یا اس کے ہم معنی دوسرے لفظ کا استعمال مراد ہے جیسے بعض قبائل «حَتّٰی حِیْنَ» کو عین سے «عتّٰی حِیْنَ» پڑھتے تھے ، اور جیسے «سُکٰریٰ» کو «سَکْرٰی» یا «سکر» پڑھتے تھے وغیرہ وغیرہ تو جس قبیلے کا جس لفظ میں جو لہجہ تھا اس کو پڑھنے کی اجازت دیدی گئی تاکہ قرآن پڑھنے میں لوگوں کو آسانی ہو ، لیکن اس کا معنی یہ بھی نہیں ہے کہ قرآن کے ہر لفظ میں سات لہجے یا طریقے ہیں ، کسی میں دو ، کسی میں چار ، اور شاذ و نادر کسی میں سات لہجے ہیں ، زیادہ تر میں صرف ایک ہی لہجہ ہے ، عثمان (رض) نے سب ختم کر کے ایک لہجہ یعنی قریش کی زبان پر قرآن کو جمع کر کے باقی سب کو ختم کرا دیا تھا ، تاکہ اب اس طرح کا جھگڑا ہی نہ ہو ، «فجزاہ اللہ عن الاسلام خیراً»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1325) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2943

【18】

اس بارے میں قرآن سات قراءتوں پر نازل ہوا

ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جبرائیل (علیہ السلام) سے ملے۔ آپ نے فرمایا : جبرائیل ! میں ایک امی (ان پڑھ) قوم کے پاس نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں، ان میں بوڑھی عورتیں اور بوڑھے مرد ہیں، لڑکے اور لڑکیاں ہیں، ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے کبھی کوئی کتاب پڑھی ہی نہیں ہے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا : محمد ! قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمر، حذیفہ بن یمان، ابوہریرہ، اور ام ایوب (رض) ام ایوب (ابوایوب انصاری کی بیوی) ۔ اور سمرہ، ابن عباس، ابوجہیم بن حارث بن صمہ، عمرو بن العاص اور ابوبکرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - ابی بن کعب سے یہ حدیث متعدد سندوں سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢٠) ، وانظر : مسند احمد (٥/١١٤، ١٢٢، ١٢٥) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، صحيح أبي داود (1328) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2944

【19】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنے بھائی کی کوئی دنیاوی مصیبت دور کی تو اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کوئی نہ کوئی مصیبت دور فرمائے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی۔ تو اللہ اس کی دنیا و آخرت میں پردہ پوشی کرے گا، اور جس نے کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کی، تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کے لیے آسانی پیدا فرمائے گا۔ اللہ اپنے بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے، اور جو ایسی راہ چلتا ہے جس میں اسے علم کی تلاش ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ ہموار کردیتا ہے اور جب قوم (لوگ) مسجد میں بیٹھ کر کلام اللہ (قرآن) کی تلاوت کرتے ہیں اور اسے پڑھتے پڑھاتے (سمجھتے سمجھاتے) ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، انہیں رحمت الٰہی ڈھانپ لیتی ہے۔ ملائکہ انہیں اپنے گھیرے میں لیے رہتے ہیں، جس کے عمل نے اسے پیچھے کردیا تو آخرت میں اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ایسے ہی کئی رواۃ نے اسی حدیث کی طرح اعمش سے اعمش نے ابوصالح کے واسطہ سے، اور ابوصالح نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ٢ - اسباط بن محمد نے بھی اعمش سے روایت کی ہے، (اس روایت میں ہے کہ) اعمش کہتے ہیں : مجھ سے بیان کیا گیا ہے ٢ ؎ ابوصالح کے واسطہ سے اور ابوصالح نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں پھر اس حدیث کا بعض حصہ ذکر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٦٤٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ کہنا کہ میں فلاں خاندان کا ہوں ، اس کے کہنے اور سمجھنے سے اس کا رتبہ و مرتبہ بلند نہیں ہوجائے گا ، بلند ہوگا تو قرآن پڑھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے ہوگا۔ ٢ ؎ : یعنی اس سند میں اعمش اور ابوصالح کے درمیان ایک اور راوی کا واسطہ ہے ، جبکہ پہلی سند میں اعمش کی ابوصالح سے براہ راست روایت ہے ، اور اعمش ابوصالح سے براہ راست روایت کرتے ہیں ، بلکہ اعمش تو ابوصالح کے راویہ (بہت بڑے راوی) ہیں حتیٰ کہ ابوصالح سے روایت میں اعمش کے عنعنہ کو بھی تحدیث (براہ راست سماع) پر محمول کیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (225) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2945

【20】

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں کتنے دنوں میں قرآن پڑھ ڈالوں ؟ آپ نے فرمایا : مہینے میں ایک بار ختم کرو ، میں نے کہا میں اس سے بڑھ کر (یعنی کم مدت میں) ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : تو بیس دن میں ختم کرو ۔ میں نے کہا : میں اس سے زیادہ کی یعنی اور بھی کم مدت میں ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : پندرہ دن میں ختم کرلیا کرو ۔ میں نے کہا : میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : دس دن میں ختم کرلیا کرو ۔ میں نے کہا : میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : پانچ دن میں ختم کرلیا کرو ۔ میں نے کہا : میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ تو آپ نے مجھے پانچ دن سے کم مدت میں قرآن ختم کرنے کی اجازت نہیں دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - یہ حدیث بطریق : «أبي بردة عن عبد اللہ بن عمرو» غریب سمجھی گئی ہے، ٣ - یہ حدیث کئی سندوں سے عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے۔ عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے قرآن تین دن سے کم مدت میں پڑھا، اس نے قرآن کو نہیں سمجھا ، ٤ - عبداللہ بن عمرو سے (یہ بھی) مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : قرآن چالیس دن میں پڑھ ڈالا کرو ، ٥ - اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں : ہم اس حدیث کی بنا پر کسی آدمی کے لیے یہ پسند نہیں کرتے کہ اس پر چالیس دن سے زیادہ گزر جائیں اور وہ قرآن پاک ختم نہ کرچکا ہو، ٦ - اس حدیث کی بنا پر جو نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ تین دن سے کم مدت میں قرآن پڑھ کر نہ ختم کیا جائے، ٧ - اور بعض اہل علم نے اس کی رخصت دی ہے، ٨ - اور عثمان بن عفان سے متعلق ہے مروی ہے کہ وہ وتر کی ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھ ڈالتے تھے، ٩ - سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ انہوں نے کعبہ کے اندر ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھا، ١٠ - قرأت میں ترتیل (ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا) اہل علم کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ٨٩٥٦) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابواسحاق سبیعی مدلس اور مختلط ہیں، نیز حدیث میں یہ ہے کہ اختمه في خمس یعنی پانچ دن میں قرآن ختم کرو، عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ میں اس سے زیادہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہوں پھر کہا کہ رسول اللہ صلی+اللہ+علیہ+وسلم نے اس سے کم دن میں قرآن ختم کرنے کی مجھے اجازت نہیں دی، امام ترمذی اس حدیث کو حسن صحیح غریب کہتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ غرابت بسند ابو بردة عن عبداللہ بن عمرو ہے، واضح رہے کہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے آیا ہے کہ رسول اللہ صلی+اللہ+علیہ+وسلم نے ان سے کہا کہ اقرأ القرآن في كل شهر قال : إني أطيق أكثر فما زال حتی قال : $في ثلاث# تم ہر مہینے میں قرآن ختم کرو، تو انہوں نے کہا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں اور برابر یہ کہتے رہے کہ میں اس سے زیادہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہوں تو رسول اللہ صلی+اللہ+علیہ+وسلم نے کہا : ” تین دن میں قرآن ختم کرو “ (صحیح البخاری/الصیام ٥٤ (١٩٧٨) ، اور صحیح بخاری (فضائل القرآن ٣٤ ٥٠٥٤) ، اور صحیح مسلم (صیام ٣٥ /١٨٢) وأبوداو سنن ابی داود/ الصلاة ٣٢٥ (١٣٨٨) میں ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے : فاقرأه في كل سبع ولا تزد علی ذلک یعنی ہر سات دن پر قرآن ختم کرو، اور اس سے زیادہ نہ کرو، تو اس سے پتہ چلا کہ فما رخص لي مجھے پانچ دن سے کم کی اجازت نہیں سنن الدارمی/ کا جملہ شاذ ہے، اور تین دن میں قرآن ختم کرنے کی اجازت محفوظ اور ثابت ہے، اور ایسے ہی دوسری روایت میں سات دن ختم کرنے کی اجازت ہے) اور سبب ضعف ابواسحاق السبیعی ہیں) ۔ وضاحت : ١ ؎ : ایک دن یا تین دن میں ختم کرنے سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا اور تلاوت کرنا زیادہ پسندیدہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد، وقد، الصحيحة أنه قال له : اقرأه في كل ثلاث ، صحيح أبي داود (1255) // (1237 / 1388) //، صحيح أبي داود (1260) // (1242 / 1394) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2946

【21】

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : چالیس دن میں قرآن پورا پڑھ لیا کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - بعضوں نے معمر سے، اور معمر نے سماک بن فضل کے واسطہ سے وہب بن منہہ سے روایت کی ہے، کہ نبی اکرم ﷺ نے عبداللہ بن عمرو (رض) کو حکم دیا کہ وہ قرآن چالیس دن میں پڑھا کریں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٢٦ (١٣٩٥) (تحفة الأشراف : ٨٩٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1261) ، الصحيحة (1512) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2947

【22】

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے ؟ آپ نے فرمایا : «الحال» اور «المرتحل» (اترنے اور کوچ کرنے والا) عمل۔ اس نے کہا : «الحال» اور «المرتحل» (اترنے اور کوچ کرنے والا) سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا : جو قرآن شروع سے لے کر آخر تک پڑھتا ہے، جب بھی وہ اترتا ہے کوچ کردیتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف ابن عباس (رض) کی اس روایت سے جانتے ہیں جو اس سند سے آئی ہے اور اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥٤٢٩) (ضعیف الإسناد) (سند میں صالح المری ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2948 مجھ سے بیان کیا محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں : بیان کیا مجھ سے مسلم بن ابراہیم نے، وہ کہتے ہیں : بیان کیا مجھ سے صالح مری نے قتادہ کے واسطہ سے اور قتادہ نے زرارہ بن اوفی کے واسطہ سے نبی ﷺ اسی جیسی اسی معنی کی حدیث روایت کی، لیکن اس میں ابن عباس سے روایت کا ذکر نہیں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ روایت میرے نزدیک نضر بن علی کی اس روایت سے جسے وہ ہیثم بن ربیع سے روایت کرتے ہیں (یعنی : پہلی سند سے) زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٨٦٥٣) (ضعیف) (سند ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے، اس لیے کہ زرارہ تابعی ہیں، اور انہوں نے روایت میں واسطہ نہیں ذکر کیا ہے ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے جو قاری مسافر کے مثل اپنی منزل تک پہنچ کر پھر نئے سرے سے سفر کا آغاز کردیتا ہے۔ یعنی ایک بار قرآن ختم کرے دوبارہ شروع کردیتا ہے اس کا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2948

【23】

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس نے قرآن سمجھا ہی نہیں جس نے تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کر ڈالا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٢٦ (١٣٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٨ (١٣٤٧) (تحفة الأشراف : ٨٩٥٠) ، و مسند احمد (٢/١٤٦، ١٨٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1260) ، المشکاة (2201) ، الصحيحة (1513) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2949 بیان کیا مجھ سے محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں : بیان کیا مجھ سے محمد بن جعفر نے، وہ کہتے ہیں : مجھ سے شعبہ نے اس سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1260) ، المشکاة (2201) ، الصحيحة (1513) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2949