37. ایمان کا بیان

【1】

اس بارے میں کہ مجھے لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے یہانتک کہ لاالہ الااللہ کہیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ (جہاد) کروں یہاں تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کا اقرار کرلیں، پھر جب وہ اس کا اقرار کرلیں تو اب انہوں نے اپنے خون اور اپنے اموال کو مجھ سے محفوظ کرلیا، مگر کسی حق کے بدلے ١ ؎، اور ان کا (مکمل) حساب تو اللہ تعالیٰ پر ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں جابر، ابوسعید اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٠٢ (٢٩٤٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨ (٢٦١٠) ، سنن ابی داود/ الجھاد ١٠٤ (٢٦٤٠) ، سنن النسائی/الجھاد ١ (٣٠٩٢) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١ (٣٩٢٧) (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٦) ، و مسند احمد (٢/٣١٤، ٣٧٧، ٤٢٣، ٤٣٩، ٤٧٥، ٤٨٢، ٥٠٢، ٥٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کی جان اور ان کا مال صرف اسی وقت لیا جائے گا جب وہ قول و عمل سے اپنے آپ کو اس کا مستحق اور سزاوار بنادیں ، مثلاً کسی نے کسی کو قتل کردیا تو ایسی صورت میں مقتول کے ورثاء اسے قتل کریں گے یا اس سے دیت لیں گے۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے ، اس کا مقصد دنیا سے تاریکی ، گمراہی اور ظلم و بربریت کا خاتمہ ہے ، ساتھ ہی لوگوں کو ایک اللہ کی بندگی کی راہ پر لگانا اور انہیں عدل و انصاف مہیا کرنا ہے ، دوسری بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ جو اسلام کو اپنے گلے سے لگالے اس کی جان مال محفوظ ہے ، البتہ جرائم کے ارتکاب پر اس پر اسلامی احکام لاگو ہوں گے ، وہ اپنے مال سے زکاۃ ادا کرے گا ، کسی مسلمان کو ناجائز قتل کردینے کی صورت میں اگر ورثاء اسے معاف نہ کریں اور نہ ہی دیت لینے پر راضی ہوں تو اسے قصاص میں قتل کیا جائے گا ، یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کے ظاہری حالات کے مطابق اسلامی احکام کا اجراء ہوگا ، اس کا باطنی معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح متواتر، ابن ماجة (71) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2606

【2】

ایمان جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد ابوبکر (رض) خلیفہ بنا دئیے گئے اور عربوں میں جنہیں کفر کرنا تھا کفر کا اظہار کیا، تو عمر بن خطاب (رض) نے ابوبکر (رض) سے کہا : آپ لوگوں سے کیسے جنگ (جہاد) کریں گے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : مجھے حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ کہیں : «لا إلہ الا اللہ» ، تو جس نے «لا إلہ الا اللہ» کہا، اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان محفوظ کرلی ١ ؎، اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے ، ابوبکر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! میں تو ہر اس شخص کے خلاف جہاد کروں گا جو صلاۃ و زکاۃ میں فرق کرے گا، کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے، قسم اللہ کی ! اگر انہوں نے ایک رسی بھی دینے سے انکار کیا جسے وہ رسول اللہ ﷺ کو (زکاۃ میں) دیا کرتے تھے تو میں ان کے اس انکار پر بھی ان سے جنگ (جہاد) کروں گا۔ عمر بن خطاب (رض) نے کہا : قسم اللہ کی ! اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ میں نے دیکھا : اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کے سینے کو جنگ کے لیے کھول دیا ہے اور میں نے جان لیا کہ یہی حق اور درست ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسی طرح شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے، زہری نے عبیداللہ بن عبداللہ سے اور عبداللہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، ٣ - عمران بن قطان نے یہ حدیث معمر سے، معمر نے زہری سے، زہری نے انس بن مالک سے، اور انس بن مالک نے ابوبکر سے روایت کی ہے، لیکن اس حدیث (کی سند) میں غلطی ہے۔ (اور وہ یہ ہے کہ) معمر کے واسطہ سے عمران کی روایت کی مخالفت کی گئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦ (١٣٩٩) ، و ٤٠ (١٤٧٥) ، والمرتدین ٣ (٦٩٢٤) ، والإعتصام ٢ (٧٢٨٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨ (٢١) ، سنن ابی داود/ الزکاة ١ (١٥٥٦) ، سنن النسائی/الزکاة ٣ (٢٤٤٥) ، والجھاد ١ (٣٠٩٤، ٣٠٩٥) ، والمحاربة ١ (٣٩٧٥) (تحفة الأشراف : ١٠٦٦٦) ، و مسند احمد (٢/٥٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اب نہ اس کا مال لیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے قتل کیا جاسکتا ہے «حتی يقولوا لا إله إلا اللہ ويقيموا الصلاة» یہاں تک کہ وہ : «لا إلہ الا اللہ» کہیں ، اور نماز قائم کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (407) ، صحيح أبي داود (1391 - 1393) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2607

【3】

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اس وقت تک لوگوں سے لڑوں جب تک یہ لا الہ الا اللہ کہیں اور نماز پڑھیں

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک لوگ اس بات کی شہادت نہ دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ( ﷺ ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ (کر کے عبادت) نہ کرنے لگیں۔ ہمارا ذبیحہ نہ کھانے لگیں اور ہمارے طریقہ کے مطابق نماز نہ پڑھنے لگیں۔ جب وہ یہ سب کچھ کرنے لگیں گے تو ان کا خون اور ان کا مال ہمارے اوپر حرام ہوجائے گا، مگر کسی حق کے بدلے ١ ؎، انہیں وہ سب کچھ حاصل ہوگا ٢ ؎ جو عام مسلمانوں کو حاصل ہوگا اور ان پر وہی سب کچھ ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو عام مسلمانوں پر عائد ہوں گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - یحییٰ بن ایوب نے حمید سے اور حمید نے انس سے اس حدیث کی طرح روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں معاذ بن جبل اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٨ (٣٩٢) ، سنن ابی داود/ الجھاد ١٠٤ (٢٦٤١) ، سنن النسائی/تحریم الدم (المحاربة) ١ (٣٩٧١) ، والإیمان ١٥ (٥٠٠٦) (تحفة الأشراف : ٧٠٦) ، و مسند احمد (٣/١٩٩، ٢٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی وہ کوئی ایسا عمل کر بیٹھیں جس کے نتیجہ میں ان کی جان اور ان کا مال مباح ہوجائے تو اس وقت ان کی جان اور ان کا مال حرام نہ رہے گا۔ ٢ ؎ : یعنی جو حقوق و اختیارات اور مراعات عام مسلمانوں کو حاصل ہوں گے وہ انہیں بھی حاصل ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (303 - 1 / 152) ، صحيح أبي داود (2374) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2608

【4】

اس بارے میں کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے : ( ١ ) گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، ( ٢ ) نماز قائم کرنا، ( ٣ ) زکاۃ دینا ( ٤ ) رمضان کے روزے رکھنا، ( ٥ ) بیت اللہ کا حج کرنا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابن عمر (رض) کے واسطہ سے کئی سندوں سے مروی ہے، اسی طرح یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عمر (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے، ٣ - اس باب میں جریر بن عبداللہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢ (٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ٥ (١٦) ، سنن النسائی/الإیمان ١٣ (٥٠٠٤) (تحفة الأشراف : ٦٦٨٢) ، و مسند احمد (٢/٩٣، ١٢٠، ١٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (781) ، إيمان أبي عبيد (2) ، الروض النضير (270) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2609

【5】

اس کے متعلق کہ حضرت جبرئیل نے نبی اکرم ﷺ سے ایمان واسلام کی کیا صفات بیان کیں

یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس شخص نے تقدیر کے انکار کی بات کی وہ معبد جہنی ہے، میں اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری دونوں (سفر پر) نکلے یہاں تک کہ مدینہ پہنچے، ہم نے (آپس میں بات کرتے ہوئے) کہا : کاش ہماری نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے کسی شخص سے ملاقات ہوجائے تو ہم ان سے اس نئے فتنے کے متعلق پوچھیں جو ان لوگوں نے پیدا کیا ہے، چناچہ (خوش قسمتی سے) ہماری ان سے یعنی عبداللہ بن عمر (رض) سے کہ جب وہ مسجد سے نکل رہے تھے، ملاقات ہوگئی، پھر میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا ١ ؎ میں نے یہ اندازہ لگا کر کہ میرا ساتھی بات کرنے کی ذمہ داری اور حق مجھے سونپ دے گا، عرض کیا : ابوعبدالرحمٰن ! کچھ لوگ ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن میں غور و فکر اور تلاش و جستجو (کا دعویٰ ) بھی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ خیال رکھتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ہے، اور امر (معاملہ) از سرے نو اور ابتدائی ہے ٢ ؎ ابن عمر (رض) نے کہا : جب تم ان سے ملو (اور تمہارا ان کا آمنا سامنا ہو) تو انہیں بتادو کہ میں ان سے بری (و بیزار) ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم کھاتا ہے عبداللہ ! (یعنی اللہ کی) اگر ان میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر ڈالے تو جب تک وہ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہیں لے آتا اس کا یہ خرچ مقبول نہ ہوگا، پھر انہوں نے حدیث بیان کرنی شروع کی اور کہا : عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے اسی دوران ایک شخص آیا جس کے کپڑے بہت زیادہ سفید تھے، اس کے بال بہت زیادہ کالے تھے، وہ مسافر بھی نہیں لگتا تھا اور ہم لوگوں میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا۔ وہ نبی اکرم ﷺ کے قریب آیا اور اپنے گھٹنے آپ ﷺ کے گھٹنوں سے ملا کر بیٹھ گیا پھر کہا : اے محمد ! ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔ اس نے (پھر) پوچھا : اور اسلام کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا، بیت اللہ شریف کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ، اس نے (پھر) پوچھا : احسان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو تو ان تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اللہ کو دیکھنے کا تصور اپنے اندر پیدا نہ کرسکو تو یہ یقین کر کے اس کی عبادت کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ، وہ شخص آپ ﷺ کے ہر جواب پر کہتا جاتا تھا کہ آپ نے درست فرمایا۔ اور ہم اس پر حیرت کرتے تھے کہ یہ کیسا عجیب آدمی ہے کہ وہ خود ہی آپ سے پوچھتا ہے اور خود ہی آپ ﷺ کے جواب کی تصدیق بھی کرتا جاتا ہے، اس نے (پھر) پوچھا : قیامت کب آئے گی ؟ آپ نے فرمایا : جس سے پوچھا گیا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ، اس نے کہا : اس کی علامت (نشانی) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس وقت حالت یہ ہوگی کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ٣ ؎، اس وقت تم دیکھو گے کہ ننگے پیر چلنے والے، ننگے بدن رہنے والے، محتاج بکریوں کے چرانے والے ایک سے بڑھ کر ایک اونچی عمارتیں بنانے میں فخر کرنے والے ہوں گے ، عمر (رض) کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ مجھے اس واقعہ کے تین دن بعد ملے تو آپ نے فرمایا : عمر ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ پوچھنے والا کون تھا ؟ وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے۔ تمہارے پاس تمہیں دین کی بنیادی باتیں سکھانے آئے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ١ (٨) ، سنن ابی داود/ السنة ١٧ (٤٦٩٥) ، سنن النسائی/الإیمان ٥ (٤٩٩٣) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٦٣) (تحفة الأشراف : ١٠٥٧٢) ، و مسند احمد (١/٢٧، ٢٨، ٥١، ٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک ان کے داہنے ہوگیا اور دوسرا ان کے بائیں۔ ٢ ؎ : اور امر (معاملہ) از سرے نو اور ابتدائی ہے کا مطلب یعنی جب کوئی چیز واقع ہوجاتی ہے تب اللہ کو اس کی خبر ہوتی ہے ، پہلے سے ہی کوئی چیز لکھی ہوئی اور متعین شدہ نہیں ہے۔ ٣ ؎ : یعنی لونڈی زادی مالکہ بن جائے گی اور جسے مالکہ کے مقام پر ہونا چاہیئے وہ لونڈی کے مقام ودرجہ پر پہنچا دی جائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (63) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2610 اس سند سے بھی عمر بن خطاب (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (63) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2610 اس سند سے بھی عمر (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ متعدد سندوں سے ابن عمر سے بھی اسی طرح مروی ہے، ٣ - کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ یہ حدیث ابن عمر کے واسطہ سے آئی ہے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ ابن عمر روایت کرتے ہیں، عمر (رض) سے اور عمر (رض) روایت کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ سے، ٢ - اس باب میں طلحہ بن عبیداللہ، انس بن مالک اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (63) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2610

【6】

اس بارے میں کہ فرائض ایمان میں داخل ہیں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عبدقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، انہوں نے آپ سے عرض کیا : (اے اللہ کے رسول ! ) ہمارے اور آپ کے درمیان ربیعہ کا یہ قبیلہ حائل ہے، حرمت والے مہینوں کے علاوہ مہینوں میں ہم آپ کے پاس آ نہیں سکتے ١ ؎ اس لیے آپ ہمیں کسی ایسی چیز کا حکم دیں جسے ہم آپ سے لے لیں اور جو ہمارے پیچھے ہیں انہیں بھی ہم اس کی طرف بلا سکیں، آپ نے فرمایا : میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں ( ١ ) اللہ پر ایمان لانے کا، پھر آپ نے ان سے اس کی تفسیر و تشریح بیان کی «لا إلہ الا اللہ» اور «محمد رسول الله» کی شہادت دینا ( ٢ ) نماز قائم کرنا ( ٣ ) زکاۃ دینا ( ٤ ) مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ (خمس) نکالنا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٥٩٩ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : حرمت والے مہینے چار ہیں : رجب ، ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور محرم ، چونکہ زمانہ جاہلیت میں ان مہینوں کو چھوڑ کر باقی دوسرے مہینوں میں جنگ و جدال جاری رہتا تھا ، اسی لیے قبیلہ عبدقیس کے وفد کے لوگوں نے آپ ﷺ سے دوسرے مہینوں میں آپ تک نہ پہنچ سکنے کی معذرت کی اور آپ سے دین کی اہم اور بنیادی باتیں پوچھیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح إيمان أبي عبيد ص (58 - 59) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2611 اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح حسن ہے، ٢ - شعبہ نے بھی اسے ابوجمرہ نصر بن عمران ضبعی سے روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے «أتدرون ما الإيمان شهادة أن لا إله إلا اللہ وأني رسول الله» کیا تم جانتے ہو ایمان کیا ہے ؟ ایمان یہ ہے : گواہی دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور گواہی دی جائے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور پھر پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٥٩٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح إيمان أبي عبيد ص (58 - 59) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2611

【7】

ایمان میں کمی زیادتی اور اس کا مکمل ہونا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ کامل ایمان والا مومن وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والا ہو، اور جو اپنے بال بچوں پر سب سے زیادہ مہربان ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - اور میں نہیں جانتا کہ ابوقلابہ نے عائشہ (رض) سے سنا ہے، ٣ - ابوقلابہ نے عائشہ کے رضاعی بھائی عبداللہ بن یزید کے واسطہ سے عائشہ (رض) سے اس حدیث کے علاوہ بھی اور حدیثیں روایت کی ہیں، ٤ - اس باب میں ابوہریرہ اور انس بن مالک (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٦١٩٥) ، وانظر مسند احمد (٦/٤٧، ٩٩) (ضعیف) (عائشہ (رض) کی روایت سے اور ” وألطفهم بأهله “ کے اضافہ کے ساتھ یہ روایت ضعیف ہے، کیوں کہ ابو قلابہ اور عائشہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے، لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیے : الصحیحة رقم : ٢٨٤ ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان اور حسن اخلاق ایک دوسرے کے لیے لازم ہیں ، یعنی جو اپنے اخلاق میں جس قدر کامل ہوگا اس کا ایمان بھی اتنا ہی کامل ہوگا ، گویا ایمان کامل کے لیے بہتر اخلاق کا حامل ہونا ضروری ہے ، یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے گھر والوں کے لیے جو سب سے زیادہ مہربان ہوگا وہ سب سے بہتر ہے ، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ایمان پایا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الصحيحة تحت الحديث (284) // ضعيف الجامع الصغير (1990) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2612

【8】

ایمان میں کمی زیادتی اور اس کا مکمل ہونا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا تو اس میں آپ نے لوگوں کو نصیحت کی پھر (عورتوں کی طرف متوجہ ہو کر) فرمایا : اے عورتوں کی جماعت ! تم صدقہ و خیرات کرتی رہو کیونکہ جہنم میں تمہاری ہی تعداد زیادہ ہوگی ١ ؎ ان میں سے ایک عورت نے کہا : اللہ کے رسول ! ایسا کیوں ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : تمہارے بہت زیادہ لعن طعن کرنے کی وجہ سے، یعنی تمہاری اپنے شوہروں کی ناشکری کرنے کے سبب ، آپ نے (مزید) فرمایا : میں نے کسی ناقص عقل و دین کو تم عورتوں سے زیادہ عقل و سمجھ رکھنے والے مردوں پر غالب نہیں دیکھا ۔ ایک عورت نے پوچھا : ان کی عقل اور ان کے دین کی کمی کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم میں سے دو عورتوں کی شہادت (گواہی) ایک مرد کی شہادت کے برابر ہے ٢ ؎، اور تمہارے دین کی کمی یہ ہے کہ تمہیں حیض کا عارضہ لاحق ہوتا ہے جس سے عورت (ہر مہینے) تین چار دن نماز پڑھنے سے رک جاتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابو سعید خدری اور ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٤ (٨٠) (تحفة الأشراف : ١٢٧٢٣) ، و مسند احمد (٢/٣٧٣، ٣٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ جہنم میں تمہاری تعداد سب سے زیادہ ہوگی ، اس لیے اس سے بچاؤ کی صورتیں اپناؤ ، اور صدقہ و خیرات یہ جہنم سے بچاؤ کا سب سے بہتر ذریعہ ہیں۔ ٢ ؎ : یہ تمہاری عقل کی کمی کی وجہ سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1 / 205) ، الظلال (956) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2613

【9】

ایمان میں کمی زیادتی اور اس کا مکمل ہونا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایمان کی تہتر شاخیں (ستر دروازے) ہیں۔ سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز کا دور کردینا ہے، اور سب سے بلند «لا إلہ الا اللہ» کا کہنا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ایسے ہی سہیل بن ابی صالح نے عبداللہ بن دینار سے، عبداللہ نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، ٣ - عمارہ بن غزیہ نے یہ حدیث ابوصالح سے، ابوصالح نے ابوہریرہ (رض) سے، اور ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا ہے ایمان کی چونسٹھ شاخیں ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣ (٩) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٢ (٣٥) ، سنن ابی داود/ السنة ١٥ (٤٦٧٦) ، سنن النسائی/الإیمان ٦ (٥٠٠٧) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٥٧) (تحفة الأشراف : ١٢٨١٦) ، و مسند احمد (٢/٤١٤، ٤٤٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : (حديث : الإيمان بضع وسبعون ... ) صحيح، (حديث : الإيمان أربعة وستون بابا ) شاذ بهذا اللفظ (حديث : الإيمان بضع وسبعون .... ) ، ابن ماجة (57) ، (حديث : الإيمان أربعة وستون بابا ) // ضعيف الجامع الصغير (2303) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2614 اس سند سے ابوہریرہ (رض) کے ذریعہ نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔ ١ ؎: معلوم ہوا کہ عمل کے حساب سے ایمان کے مختلف مراتب و درجات ہیں، یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان اور عمل ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٨٥٤) (شاذ) (کیوں کہ پچھلی اصح حدیث کے مخالف ہے ) قال الشيخ الألباني : (حديث : الإيمان بضع وسبعون ... ) صحيح، (حديث : الإيمان أربعة وستون بابا ) شاذ بهذا اللفظ (حديث : الإيمان بضع وسبعون .... ) ، ابن ماجة (57) ، (حديث : الإيمان أربعة وستون بابا ) // ضعيف الجامع الصغير (2303) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2614

【10】

اس بارے میں کہ حیاء ایمان سے ہے

عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو حیاء (شرم اور پاکدامنی) اختیار کرنے پر نصیحت کر رہا تھا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے (بطور تاکید) فرمایا : حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - احمد بن منیع نے اپنی روایت میں کہا : نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو حیاء کے بارے میں اپنے بھائی کو پھٹکارتے ہوئے سنا، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ، ابوبکرہ اور ابوامامہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ١٦ (٢٤) ، والأدب ٧٧ (٦١١٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٢ (٣٦) ، سنن ابی داود/ الأدب ٧ (٤٧٩٥) ، سنن النسائی/الإیمان ٢٧ (٥٠٣٦) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٥٨) (تحفة الأشراف : ٦٨٢٨) ، وط/حسن الخلق ٢ (١٠) ، و مسند احمد (٢/٥٦، ١٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے حیاء کی فضیلت و اہمیت ثابت ہے ، ایک باحیاء انسان اپنی زندگی میں حیاء سے پورا پورا فائدہ اٹھاتا ہے ، کیونکہ حیاء انسان کو گناہوں سے روکتی اور نیکیوں پر آمادہ کرتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (58) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2615

【11】

نماز کی عظمت کے بارے میں

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا، ایک دن صبح کے وقت میں آپ ﷺ سے قریب ہوا، ہم سب چل رہے تھے، میں نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے، اور جہنم سے دور رکھے ؟ آپ نے فرمایا : تم نے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہے۔ اور بیشک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ آسان کر دے۔ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکاۃ دو ، رمضان کے روزے رکھو، اور بیت اللہ کا حج کرو ۔ پھر آپ نے فرمایا : کیا میں تمہیں بھلائی کے دروازے (راستے) نہ بتاؤں ؟ روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہ کو ایسے بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے، اور آدھی رات کے وقت آدمی کا نماز (تہجد) پڑھنا ، پھر آپ نے آیت «تتجافی جنوبهم عن المضاجع» کی تلاوت «يعملون» تک فرمائی ١ ؎، آپ نے پھر فرمایا : کیا میں تمہیں دین کی اصل، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتادوں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ؟ اللہ کے رسول (ضرور بتائیے) آپ نے فرمایا : دین کی اصل اسلام ہے ٢ ؎ اور اس کا ستون (عمود) نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا : کیا میں تمہیں ان تمام باتوں کا جس چیز پر دارومدار ہے وہ نہ بتادوں ؟ میں نے کہا : جی ہاں، اللہ کے نبی ! پھر آپ نے اپنی زبان پکڑی، اور فرمایا : اسے اپنے قابو میں رکھو ، میں نے کہا : اللہ کے نبی ! کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں اس پر پکڑے جائیں گے ؟ آپ نے فرمایا : تمہاری ماں تم پر روئے، معاذ ! لوگ اپنی زبانوں کے بڑ بڑ ہی کی وجہ سے تو اوندھے منہ یا نتھنوں کے بل جہنم میں ڈالے جائیں گے ؟ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٢ (٣٩٧٣) (تحفة الأشراف : ١١٣١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں ، اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں ، اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے ، وہ خرچ کرتے ہیں ، کوئی نفس نہیں چاہتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لیے پوشیدہ کر رکھی ہے ، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔ (السجدہ : ١٦ - ١٧) ٢ ؎ : یہاں اسلام سے مراد کلمہ شہادتین کا اقرار اور اس کے تقاضے کو پورا کرنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3973) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2616

【12】

نماز کی عظمت کے بارے میں

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی شخص کو مسجد میں پابندی سے آتے جاتے دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : «إنما يعمر مساجد اللہ من آمن بالله واليوم الآخر وأقام الصلاة وآتی الزکاة» الآية اللہ کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، نمازوں کے پابندی کرتے ہیں، زکاۃ دیتے ہیں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے، توقع ہے کہ یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں (سورۃ التوبہ : ١٨ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المساجد ١٨ (٨٠٢) (تحفة الأشراف : ٤٠٥٠) (ضعیف) (سند میں دراج ابوالسمح ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (802) // ضعيف سنن ابن ماجة (172) ، المشکاة (723) ، ضعيف الجامع الصغير (509) ، وسيأتي برقم (601 / 3304) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2617

【13】

ترک نماز کی وعید

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز کا ترک کرنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٥ (٨٢) ، سنن ابی داود/ السنة ١٥ (٤٦٧٨) ، سنن النسائی/الصلاة ٨ (٤٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٧ (١٠٧٨) (تحفة الأشراف : ٢٣٠٣) ، و مسند احمد (٣/٣٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفر اور بندے کے مابین حد فاصل نماز ہے ، اگر نماز ادا کرتا ہے تو صاحب ایمان ہے ، بصورت دیگر کافر ہے ، صحابہ کرام کسی نیک عمل کو چھوڑ دینے کو کفر نہیں خیال کرتے تھے ، سوائے نماز کے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) فرماتے ہیں : لوگوں کی اکثریت پنج وقتہ نماز کی پابند نہیں ہے اور نہ ہی اسے پورے طور پر چھوڑنے والی بلکہ کبھی پڑھ لیتے ہیں اور کبھی نہیں پڑھتے ، یہ ایسے لوگ ہیں جن میں ایمان و نفاق دونوں موجود ہیں ، ان پر اسلام کے ظاہری احکام جاری ہوں گے ، کیونکہ عبداللہ بن ابی جیسے خالص منافق پر جب یہ احکام جاری تھے تو نماز سے غفلت اور سستی برتنے والوں پر تو بدرجہ اولیٰ جاری ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1078) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2618

【14】

ترک نماز کی وعید

جابر (رض) سے اس سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بندے اور شرک یا بندے اور کفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز کا چھوڑ دینا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2618) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2619

【15】

ترک نماز کی وعید

جابر (رض) سے اس سند بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بندے اور کفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز کا چھوڑ دینا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ٢٧٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (2619) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2620

【16】

ترک نماز کی وعید

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہمارے اور منافقین کے درمیان نماز کا معاہدہ ہے ١ ؎ تو جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں انس اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصلاة ٨ (٤٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٧ (١٠٧٩) (تحفة الأشراف : ١٩٦٠) ، و مسند احمد (٥/٣٤٦، ٣٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں گے ہم ان پر اسلام کے احکام جاری رکھیں گے ، اور جب نماز چھوڑ دیں گے تو کفار کے احکام ان پر جاری ہوں گے ، کیونکہ ہمارے اور ان کے درمیان معاہدہ نماز ہے ، اور جب نماز چھوڑ دی تو گویا معاہدہ ختم ہوگیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1079) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2621

【17】

ترک نماز کی وعید

عبداللہ بن شقیق عقیلی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) نماز کے سوا کسی عمل کے چھوڑ دینے کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : میں نے ابومصعب مدنی کو کہتے ہوئے سنا کہ جو یہ کہے کہ ایمان صرف قول (یعنی زبان سے اقرار کرنے) کا نام ہے اس سے توبہ کرائی جائے گی، اگر اس نے توبہ کرلی تو ٹھیک، ورنہ اس کی گردن مار دی جائے گی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : لم یذکرہ المزي في المراسیل) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح الترغيب (1 / 227 / 564) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2622

【18】

عباس بن عبدالمطلب (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص اللہ کے رب ہونے اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی (اور خوش) ہوا اس نے ایمان کا مزہ پا لیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ١١ (٣٤) (تحفة الأشراف : ٥١٢٧) ، و مسند احمد (١/٢٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو اللہ ہی سے ہر چیز کا طالب ہوا ، اسلام کی راہ کو چھوڑ کر کسی دوسری راہ پر نہیں چلا اور نبی اکرم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر اس نے عمل کیا تو ایسے شخص کو ایمان کی مٹھاس مل کر رہے گی ، کیونکہ اس کا دل ایمان سے پر ہوگا ، اور ایمان اس کے اندر پورے طور پر رچا بسا ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2623

【19】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس میں تین خصلتیں ہوں گی اسے ان کے ذریعہ ایمان کی حلاوت مل کر رہے گی۔ ( ١ ) جس کے نزدیک اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ محبوب ہوں۔ ( ٢ ) وہ جس کسی سے بھی محبت کرے تو صرف اللہ کی رضا کے لیے کرے، ( ٣ ) کفر سے اللہ کی طرف سے ملنے والی نجات کے بعد کفر کی طرف لوٹنا اس طرح ناپسند کرے جس طرح آگ میں گرنا ناپسند کرتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - قتادہ نے بھی یہ حدیث انس کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٩ (١٦) و ١٤ (٢١) ، والأدب ٤٢ (٦٠٤١) ، ووالإکراہ ١ (٦٩٤١) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٥ (٤٣) ، سنن النسائی/الإیمان ٢ (٤٩٩٠) ، و ٣ (٤٩٩١) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٣ (٤٠٣٣) (تحفة الأشراف : ٩٤٦) ، و مسند احمد (٣/١٠٣، ١١٤، ١٧٢، ١٧٤، ٢٣٠، ٢٤٨، ٢٧٥، ٢٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4033) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2624

【20】

کوئی زانی زنا کرتے ہوئے حامل ایمان نہیں رہتا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو زنا کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا ١ ؎ اور جب چوری کرنے والا چوری کرتا ہے تو چوری کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، لیکن اس کے بعد بھی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس سند سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابن عباس، عائشہ اور عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ابوہریرہ (رض) سے ایک اور حدیث مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب آدمی زنا کرتا ہے تو ایمان اس کے اندر سے نکل کر اس کے سر کے اوپر چھتری جیسا (معلق) ہوجاتا ہے، اور جب اس فعل (شنیع) سے فارغ ہوجاتا ہے تو ایمان اس کے پاس لوٹ آتا ہے ۔ ابو جعفر محمد بن علی (اس معاملہ میں) کہتے ہیں : جب وہ ایسی حرکت کرتا ہے تو ایمان سے نکل کر صرف مسلم رہ جاتا ہے۔ علی ابن ابی طالب، عبادہ بن صامت اور خزیمہ بن ثابت سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے زنا اور چوری کے سلسلے میں فرمایا : اگر کوئی شخص اس طرح کے کسی گناہ کا مرتکب ہوجائے اور اس پر حد جاری کردی جائے تو یہ (حد کا اجراء) اس کے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ اور جس شخص سے اس سلسلے میں کوئی گناہ سرزد ہوگیا پھر اللہ نے اس کی پردہ پوشی کردی تو وہ اللہ کی مشیت پر منحصر ہے اگر وہ چاہے تو اسے قیامت کے دن عذاب دے اور چاہے تو اسے معاف کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٠ (٢٤٧٥) ، والأشربة ١ (٥٥٧٨) ، والحدود ٢ (٦٧٧٢) ، و ٢٠ (٦٨١٠) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٣ (٥٧) ، سنن ابی داود/ السنة ١٦ (٤٦٨٩) ، سنن النسائی/قطع السارق ١ (٤٨٨٦) ، والأشربة ٤٢ (٥٦٧٥) (تحفة الأشراف : ١٢٥٣٩) ، و مسند احمد (٢/٢٤٣، ٣٧٦، ٣٨٦، ٤٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زنا کے وقت مومن کامل نہیں رہتا ، یا یہ مطلب ہے کہ اگر وہ عمل زنا کو حرام سمجھتا ہے تو اس کا ایمان جاتا رہتا ہے ، پھر زنا سے فارغ ہونے کے بعد اس کا ایمان لوٹ آتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3936) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2625

【21】

کوئی زانی زنا کرتے ہوئے حامل ایمان نہیں رہتا

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی جرم کیا اور اسے اس کے جرم کی سزا دنیا میں مل گئی تو اللہ اس سے کہیں زیادہ انصاف پسند ہے کہ وہ اپنے بندے کو آخرت میں دوبارہ سزا دے اور جس نے کوئی گناہ کیا اور اللہ نے اس کی پردہ پوشی کردی اور اس سے درگزر کردیا تو اللہ کا کرم اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ وہ بندے سے اس بات پر دوبارہ مواخذہ کرے جسے وہ پہلے معاف کرچکا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - یہی اہل علم کا قول ہے۔ ہم کسی شخص کو نہیں جانتے جس نے زنا کر بیٹھنے، چوری کر ڈالنے اور شراب پی لینے والے کو کافر گردانا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحدود ٣٣ (٢٦٠٤) (تحفة الأشراف : ١٠٣١٣) (ضعیف) (سند میں حجاج بن محمد المصیصی اگرچہ ثقہ راوی ہیں، لیکن آخری عمر میں موت سے پہلے بغداد آنے پر اختلاط کا شکار ہوگئے تھے، اور ابواسحاق السبیعی ثقہ لیکن مدلس اور مختلط راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2604) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (567) مع اختلاف في اللفظ، ضعيف الجامع الصغير (5423) ، المشکاة (3629) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2626

【22】

اس بارے میں کہ مسلمان وہ جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان (کامل) وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور مومن (کامل) وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو محفوظ سمجھیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر، ابوموسیٰ اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے (بھی) احادیث آئی ہیں، ٣-

【23】

اس بارے میں کہ مسلمان وہ جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔

نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ سے پوچھا گیا : سب سے بہتر مسلمان کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإیمان ٨ (٤٩٩٨) (تحفة الأشراف : ١٢٨٦٤) ، و مسند احمد (٢/٣٧٩) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (33 / التحقيق الثاني) ، الصحيحة (549) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2627 ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ مسلمانوں میں کون سا مسلمان سب سے بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ مسلمان جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے مسلمان محفوظ رہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث ابوموسیٰ اشعری کی روایت سے جسے وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں صحیح غریب حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح وهو مکرر (2632) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2628

【24】

اس بارے میں کہ اسلام کی ابتداء وانتہاء غریبوں سے ہے

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری و مبارک بادی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن مسعود (رض) کی روایت سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں سعد، ابن عمر، جابر، اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی روایت ہے، ٣ - میں اس حدیث کو صرف حفص بن غیاث کی روایت سے جسے وہ اعمش کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں، جانتا ہوں، ٤ - ابوالاحوص کا نام عوف بن مالک بن نضلہ جشمی ہے، ٥ - ابوحفص اس حدیث کی روایت میں منفرد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٥ (٣٩٨٨) (تحفة الأشراف : ٩٥١٠) ، و مسند احمد (١/٣٩٨) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٤٢ (٢٧٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ اسلام جب آیا تو اس کے ماننے والوں کی زندگی جس اجنبیت کے عالم میں گزر رہی تھی یہاں تک کہ لوگ ان سے نفرت کرتے تھے ، اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کو اپنے لیے حقارت سمجھتے تھے انہیں تکلیفیں پہنچاتے تھے ، ٹھیک اسی اجنبیت کے عالم میں اسلام کے آخری دور میں اس کے پیروکار ہوں گے ، لیکن خوشخبری اور مبارک بادی ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اس اجنبی حالت میں اسلام کو گلے سے لگایا اور جو اس کے آخری دور میں اسے گلے سے لگائیں گے ، اور دشمنوں کی تکالیف برداشت کر کے جان و مال سے اس کی خدمت و اشاعت کرتے رہیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3988) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2629

【25】

اس بارے میں کہ اسلام کی ابتداء وانتہاء غریبوں سے ہے

عمرو بن عوف (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (ایک وقت آئے گا کہ) دین اسلام حجاز میں سمٹ کر رہ جائے گا جس طرح کہ سانپ اپنے سوراخ میں سمٹ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اور یقیناً دین حجاز میں آ کر ایسے ہی محفوظ ہوجائے گا جس طرح پہاڑی بکری پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر محفوظ ہوجاتی ہے ١ ؎، دین اجنبی حالت میں آیا اور وہ پھر اجنبی حالت میں جائے گا، خوشخبری اور مبارک بادی ہے ایسے گمنام مصلحین کے لیے جو میرے بعد میری سنت میں لوگوں کی پیدا کردہ خرابیوں اور برائیوں کی اصلاح کرتے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٧٧٨) (ضعیف جدا) (سند میں کثیر بن عبداللہ سخت ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بارش کا بادل پہاڑ کی نچلی سطح پر ہوتا ہے تو بکری پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنے کو بارش سے بچا لیتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بکری پہاڑ کی نشیبی سطح پر ہو اور برساتی پانی کا ریلا آ کر اسے بہا لے جائے اور مار ڈالے اس ڈر سے وہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اس طرح کی مصیبتوں اور ہلاکتوں سے اپنے کو محفوظ کرلیتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا الصحيحة تحت الحديث (1273) ، المشکاة (170) // ضعيف الجامع الصغير (1441) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2630

【26】

منافق کی علمات کے متعلق

اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ١٤٣٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں ایک منافق کی جو خصلتیں بیان ہوئی ہیں ، بدقسمتی سے آج مسلمانوں کی اکثریت اس عملی نفاق میں مبتلا ہے ، مسلمان دنیا بھر میں جو ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں اس میں ان کے اسی منافقانہ کردار اور اخلاق و عمل کا دخل ہے ، منافق وہ ہے جو اپنی زبان سے اہل اسلام کے سامنے اسلام کا اظہار کرے ، لیکن دل میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد رکھے ، یہ اعتقادی نفاق ہے ، وحی الٰہی کے بغیر اس کا پہچاننا اور جاننا ناممکن ہے ، حدیث میں مذکورہ خصلتیں عملی نفاق کی ہیں ، اعتقادی نفاق کفر ہے ، جب کہ عملی نفاق کفر نہیں ہے تاہم یہ بھی بہت خطرناک ہے جس سے بچنا چاہیئے ، رب العالمین مسلمانوں کو ہدایت بخشے۔ آمین قال الشيخ الألباني : صحيح إيمان أبي عبيد ص (95) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2631

【27】

منافق کی علمات کے متعلق

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ (مکمل) منافق ہوگا۔ اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی، اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے : وہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب جھگڑا کرے تو گالیاں بکے اور جب معاہدہ کرے تو بےوفائی کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٤ (٣٤) ، والمظالم ١٧ (٢٤٥٩) ، والجزیة ١٧ (٢١٧٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٥ (٥٨) ، سنن ابی داود/ السنة ١٦ (٤٦٨٨) ، سنن النسائی/الإیمان ٢٠ (٥٠٢٣) (تحفة الأشراف : ٨٩٣١) ، و مسند احمد (٢/١٨٩، ١٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2632 اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس سے اہل علم کے نزدیک عملی نفاق مراد ہے، نفاق تکذیب (اعتقادی نفاق) صرف رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تھا ١ ؎، ٣ - حسن بصری سے بھی اس بارے میں کچھ اسی طرح سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں : نفاق دو طرح کا ہوتا ہے، ایک عملی نفاق اور دوسرا اعتقادی نفاق۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کا عمل منافقوں جیسا ہے۔ اس کے عمل میں نفاق ہے ، لیکن ہم اس کے منافق ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ اسے اس کے ایمان میں جھوٹا ٹھہرا کر منافق قرار نہیں دے سکتے۔ ایسا تو صرف رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہوسکتا تھا۔ کیونکہ آپ ﷺ صاحب وحی تھے ، وحی الٰہی کی روشنی میں آپ کسی کے بارے میں کہہ سکتے تھے کہ فلاں منافق ہے مگر ہمیں اور آپ کو کسی کے منافق ہونے کا فیصلہ کرنے کا حق و اختیار نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2632

【28】

منافق کی علمات کے متعلق

زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب آدمی کسی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت یہ ہو کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے گا لیکن وہ (کسی عذر و مجبوری سے) پورا نہ کرسکا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اس کی اسناد قوی نہیں ہے، ٣ - علی بن عبدالاعلی ثقہ ہیں، ابونعمان اور ابو وقاص غیر معروف ہیں اور دونوں ہی مجہول راوی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٩٠ (٤٩٩٥) (تحفة الأشراف : ٣٦٩٣) (ضعیف) (مولف نے وجہ بیان کر سنن الدارمی/ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایسا شخص منافقین کے زمرہ میں نہ آئے گا ، کیونکہ اس کی نیت صالح تھی اور عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (4881) ، الضعيفة (1447) // ضعيف الجامع الصغير (723) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2633

【29】

اس کے متعلق کہ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کا اپنے کسی مسلمان بھائی سے جنگ کرنا کفر ہے اور اس سے گالی گلوچ کرنا فسق ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث عبداللہ بن مسعود سے کئی سندوں سے آئی ہے، ٣ - اس باب میں سعد اور عبداللہ بن مغفل (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٩٨٣) (تحفة الأشراف : ٩٣٦٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح وقد مضی (2066) سند آخر عنه صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2634

【30】

اس کے متعلق کہ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کو گالی گلوچ دینا فسق ہے، اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - حدیث کے الفاظ «قتاله كفر» کا معنی و مراد یہ ہے کہ اسود عنسی کے ارتداد کے کفر جیسا کفر نہیں ہے اور اس کی دلیل نبی اکرم ﷺ کی وہ حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص کو جان بوجھ کر قتل کردیا گیا ہو تو اس مقتول کے اولیا و وارثین کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ چاہیں تو مقتول کے قاتل کو قصاص میں قتل کردیں اور چاہیں تو اسے معاف کردیں اور چھوڑ دیں۔ اگر یہ قتل کفر (حقیقی) کے درجہ میں ہوتا تو پھر قاتل کا قتل واجب ہوجاتا، ٤ - ابن عباس، طاؤس، عطاء اور دوسرے بہت سے اہل علم سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں : یہ کفر تو ہے لیکن کمتر درجے کا کفر ہے، یہ فسق تو ہے لیکن چھوٹے درجے کا فسق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٩٨٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح وهو مکرر الحديث (2066) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2635

【31】

جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی تکفیر کرے

ثابت بن ضحاک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بندہ جس چیز کا مالک نہ ہو اس چیز کی نذر مان لے تو اس نذر کا پورا کرنا واجب نہیں ١ ؎، مومن پر لعنت بھیجنے والا گناہ میں اس کے قاتل کی مانند ہے اور جو شخص کسی مومن کو کافر ٹھہرائے تو وہ ویسا ہی برا ہے جیسے اس مومن کا قاتل، اور جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کر ڈالا، تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اسی چیز سے عذاب دے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوذر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٣ (١٣٦٣) ، والأدب ٤٤ (٦٠٤٧) ، و ٧٣ (٦١٠٥) ، والأیمان والنذور ٧ (٦٦٥٢) ، صحیح مسلم/الأیمان ٤٧ (١١٠) ، سنن ابی داود/ الأیمان ٩ (٣٢٥٧) ، سنن النسائی/الأیمان ٧ (٣٨٠١، ٣٨٠٢) ، و ٣١ (٣٨٤٤) (تحفة الأشراف : ٢٠٦٢) ، و مسند احمد (٤/٣٣، ٣٤) (وانظر ماتقدم عند المؤلف برقم ١٥٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ اگر اللہ میرے مریض کو شفاء دیدے تو فلاں غلام آزاد ہے ، حالانکہ اس غلام کا وہ مالک نہیں ہے ، معلوم ہوا کہ جو چیز بندہ کے بس میں نہیں ہے اس کی نذر ماننا صحیح نہیں اور ایسی نذر کا کچھ بھی اعتبار نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2098) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2636

【32】

جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی تکفیر کرے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر کسی نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک نے (گویا کہ) اپنے کافر ہونے کا اقرار کرلیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - «باء» ، «أقر» کے معنی میں ہے، یعنی اقرار کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٧٣ (٦١٠٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٦ (٦٠) (تحفة الأشراف : ٧٢٣٣) ، وط/الکلام ١ (١) ، و مسند احمد (٢/١٨، ٤٤، ٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ کسی مومن کو کافر ، کافر ہی کہہ سکتا ہے ، ایک مومن دوسرے مومن کو کافر نہیں کہہ سکتا ، اگر کہتا ہے تو جس کو کہا ہے وہ حقیقت میں اگر کافر کہلانے کا مستحق ہے تو وہ کافر ہے ، ورنہ کہنے والا اس کے سزا میں کفر کے وبال میں مبتلا ہوگا۔ اس لیے کوئی بات سوچ سمجھ کر اور زبان کو قابو میں رکھ کر ہی کہنی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2637

【33】

جس شخص کا خاتمہ توحید پر ہو

صنابحی سے روایت ہے کہ میں عبادہ بن صامت (رض) کے پاس اس وقت گیا جب وہ موت کی حالت میں تھے، میں (انہیں دیکھ کر) رو پڑا، انہوں نے کہا : ٹھہرو ٹھہرو، روتے کیوں ہو ؟ قسم اللہ کی ! اگر مجھ سے گواہی طلب کی گئی تو میں (آخرت میں) تمہارے ایمان کی گواہی دوں گا، اور اگر مجھے شفاعت کا موقع دیا گیا تو میں تمہاری سفارش ضرور کروں گا اور اگر مجھے کچھ استطاعت نصیب ہوئی تو میں تمہیں ضرور فائدہ پہنچاؤں گا۔ پھر انہوں نے کہا : قسم اللہ کی ! کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہو اور اس میں تم لوگوں کے لیے خیر ہو مگر میں نے اسے تم لوگوں سے بیان نہ کردیا ہو، سوائے ایک حدیث کے اور آج میں اسے بھی تم لوگوں سے بیان کیے دے رہا ہوں جب کہ میری موت قریب آچکی ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو گواہی دے کہ کوئی معبود (برحق) نہیں سوائے اللہ کے اور گواہی دے کہ محمد ( ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں تو اللہ اس پر آگ کو حرام کر دے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس سند سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - میں نے ابن ابی عمر کو کہتے ہوئے سنا کہ ابن عیینہ کہتے تھے کہ محمد بن عجلان ثقہ آدمی ہیں اور حدیث میں مامون (قابل اعتماد) ہیں، ٣ - صنابحی سے مراد عبدالرحمٰن بن عسیلہ ابوعبداللہ ہیں (ابوعبداللہ کنیت ہے) ، ٤ - اس باب میں ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، جابر، ابن عمر، اور زید بن خالد (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٥ - زہری سے مروی ہے کہ ان سے نبی اکرم ﷺ کے فرمان : «من قال لا إله إلا اللہ دخل الجنة» جس نے «لا إله إلا الله» کہا وہ جنت میں داخل ہوگا کے متعلق پوچھا گیا (کہ اس کا مطلب کیا ہے ؟ ) تو انہوں نے کہا : یہ شروع اسلام کی بات ہے جب کہ فرائض اور امر و نہی کے احکام نہیں آئے تھے، ٦ - بعض اہل علم کے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ اہل توحید (ہر حال میں) جنت میں جائیں گے اگرچہ انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے آگ کی سزا سے بھی کیوں نہ دوچار ہونا پڑے، کیونکہ وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہیں گے ١ ؎، ٧ - عبداللہ بن مسعود، ابوذر، عمران بن حصین، جابر بن عبداللہ، ابن عباس، ابو سعید خدری، انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عنقریب ایسا ہوگا کہ توحید کے قائلین کی ایک جماعت جہنم سے نکلے گی اور جنت میں داخل ہوگی ٢ ؎، ایسا ہی سعید بن جبیر ابراہیم نخعی اور دوسرے بہت سے تابعین سے مروی ہے، یہ لوگ آیت «ربما يود الذين کفروا لو کانوا مسلمين» وہ بھی وقت ہوگا کہ کافر اپنے مسلمان ہونے کی آرزو کریں گے (الحجر : ٢ ) ، کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ جب اہل توحید جہنم سے نکالے اور جنت میں داخل کئے جائیں گے تو کافر لوگ آرزو کریں گے اے کاش ! وہ بھی مسلمان ہوتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ١٠ (٢٩) (تحفة الأشراف : ٥٠٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر لامحالہ جنت میں جائیں گے اور ان کی آخری آرام گاہ جنت ہی ہوگی۔ ٢ ؎ : غالباً یہی وہ موحد لوگ ہوں گے جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے جہنم کی سزائیں کاٹ کر جنت میں جائیں گے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2638

【34】

جس شخص کا خاتمہ توحید پر ہو

عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میری امت کے ایک شخص کو چھانٹ کر نکالے گا اور سارے لوگوں کے سامنے لائے گا اور اس کے سامنے (اس کے گناہوں کے) ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے، ہر دفتر حد نگاہ تک ہوگا، پھر اللہ عزوجل پوچھے گا : کیا تو اس میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے ؟ کیا تم پر میرے محافظ کاتبوں نے ظلم کیا ہے ؟ وہ کہے گا : نہیں اے میرے رب ! پھر اللہ کہے گا : کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے ؟ تو وہ کہے گا : نہیں، اے میرے رب ! اللہ کہے گا (کوئی بات نہیں) تیری ایک نیکی میرے پاس ہے۔ آج کے دن تجھ پر کوئی ظلم (و زیادتی) نہ ہوگی، پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس پر «أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( ﷺ ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں لکھا ہوگا۔ اللہ فرمائے گا : جاؤ اپنے اعمال کے وزن کے موقع پر (کانٹے پر) موجود رہو، وہ کہے گا : اے میرے رب ! ان دفتروں کے سامنے یہ پرچہ کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ اللہ فرمائے گا : تمہارے ساتھ زیادتی نہ ہوگی۔ آپ ( ﷺ ) نے فرمایا : پھر وہ تمام دفتر (رجسٹر) ایک پلڑے میں رکھ دیئے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں، پھر وہ سارے دفتر اٹھ جائیں گے، اور پرچہ بھاری ہوگا۔ (اور سچی بات یہ ہے کہ) اللہ کے نام کے ساتھ (یعنی اس کے مقابلہ میں) جب کوئی چیز تولی جائے گی، تو وہ چیز اس سے بھاری ثابت نہیں ہوسکتی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٥ (٣٠٠) (تحفة الأشراف : ٨٨٥٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4300) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2639 اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4300) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2639

【35】

امت میں افتراق کے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور نصاریٰ بھی اسی طرح بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں سعد، عبداللہ بن عمرو، اور عوف بن مالک (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٧ (٣٩٩١) (تحفة الأشراف : ١٥٠٨٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بعض احادیث میں یہ آیا ہے کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ، ان میں سے بہتر جہنمی ہوں گے ، صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا ، امت کے یہ فرقے کون ہیں ؟ صاحب تحفہ الأحوذی نے اس کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ فرق مذمومہ سے فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے فرقے مراد نہیں ہیں ، بلکہ اس سے مراد وہ فرقے ہیں جو اہل حق سے اصول میں اختلاف رکھتے ہیں ، مثلاً توحید ، تقدیر ، نبوت کی شرطیں اور موالات صحابہ وغیرہ ، کیونکہ یہ ایسے مسائل ہیں جن میں اختلاف کرنے والوں نے ایک دوسرے کی تکفیر کی ہے جب کہ فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کرتے ، جنتی فرقہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو کتاب وسنت پر قائم رہنے والے اور صحابہ کرام سے محبت کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (3991) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2640

【36】

امت میں افتراق کے متعلق

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے ساتھ ہو بہو وہی صورت حال پیش آئے گی جو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آچکی ہے، (یعنی مماثلت میں دونوں برابر ہوں گے) یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگر اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہوگا جو اس فعل شنیع کا مرتکب ہوگا، بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ کون سی جماعت ہوگی ؟ آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث جس میں ابوہریرہ (رض) کے حدیث کے مقابلہ میں کچھ زیادہ وضاحت ہے حسن غریب ہے۔ ہم اسے اس طرح صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٨٦٤) (حسن) (تراجع الالبانی ٢٤٩، والصحیحہ ١٣٤٨ ) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (171 / التحقيق الثاني) ، الصحيحة (1348) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2641

【37】

امت میں افتراق کے متعلق

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو تاریکی میں پیدا کیا پھر ان پر اپنا نور ڈالا (یعنی اپنے نور کا پر تو) تو جس پر یہ نور پڑگیا وہ ہدایت یاب ہوگیا اور جس پر نور نہ پڑا (تجاوز کر گیا) تو وہ گمراہ ہوگیا، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اللہ کے علم پر (تقدیر کا) قلم خشک ہوچکا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : لم یذکرہ المزي) ، و مسند احمد (٢/١٧٦، ١٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہدایت و گمراہی کی پیشگی تحریر اللہ کے علم کے مطابق ازل میں لکھی جا چکی ہے ، اس میں کسی قسم کا ردوبدل نہیں ہوسکتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (101) ، الصحيحة (1076) ، الظلال (241 - 244) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2642

【38】

امت میں افتراق کے متعلق

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ بندوں پر اللہ کا حق کیا ہے ؟ میں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : اس کا حق بندوں پر یہ ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ۔ (پھر) آپ نے کہا : کیا تم یہ بھی جانتے ہو کہ جب لوگ ایسا کریں تو اللہ پر ان کا کیا حق ہے ؟ میں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ان کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث متعدد سندوں سے معاذ بن جبل (رض) سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٤٦ (٢٨٥٦) ، واللباس ١٠١ (٥٩٦٧) ، والاستئذان ٣٠ (٦٢٦٧) ، والرقاق ٣٧ (٦٥٠٠) ، والتوحید ١ (٧٣٧٣) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٠ (٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٥ (٤٢٩٦) (تحفة الأشراف : ١١٣٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4296) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2643

【39】

امت میں افتراق کے متعلق

ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور مجھے بشارت دی کہ جو شخص اس حال میں مرگیا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا تو وہ جنت میں جائے گا ، میں نے کہا : اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ، (اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابو الدرداء سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستقراض ٣ (٢٣٨٨) ، و بدء الخلق ٦ (٣٢٢٢) ، والاستئذان ٣٠ (٦٢٦٨) ، والرقاق ١٣ (٦٤٤٣) ، و ١٤ (٦٤٤٤) ، والتوحید ٣٣ (٧٤٨٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٠ (٩٤) ، والزکاة ٩ (٩٤/٣٢) (تحفة الأشراف : ١١٩١٥) ، و مسند احمد (٥/١٥٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کی صورت یہ ہوگی کہ وہ زنا اور چوری کی اپنی سزا کاٹ کر اپنے موحد ہونے کے صلہ میں لامحالہ جنت میں جائے گا ، یا ممکن ہے رب العالمین اپنی رحمت سے اسے معاف کر دے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (826) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2644