33. گواہیوں کا بیان

【1】

گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں سب سے اچھے گواہ کے بارے میں نہ بتادوں ؟ سب سے اچھا گواہ وہ آدمی ہے جو گواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأقضیة ٩ (١٧١٩) ، سنن ابی داود/ الأقضیة ١٣ (٣٥٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٨ (٢٣٦٤) (تحفة الأشراف : ٣٧٥٤) ، وط/الأقضیة ٢ (٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس گواہی کی صورت یہ ہے کہ کسی شخص کا کوئی ایسا معاملہ درپیش ہے جس میں کسی گواہ کی ضرورت ہے اور اس کے علم کے مطابق اس معاملہ کا کوئی گواہ نہیں ہے ، پھر اچانک ایک دوسرا شخص آئے اور خود سے اپنے آپ کو پیش کرے اور اس معاملہ کی گواہی دے تو اس حدیث میں ایسے ہی گواہ کو سب سے بہتر گواہ کہا گیا ہے ، معلوم ہوا کہ کسی کے پاس اگر کوئی شہادت موجود ہے تو اسے قاضی کے سامنے حاضر ہو کر معاملہ کے تصفیہ کی خاطر گواہی دینی چاہیئے اسے اس کے لیے طلب کیا گیا ہو یا نہ طلب کیا گیا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2295 اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اکثر لوگوں نے اپنی روایت میں عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ کہا ہے۔ ٣ - اس حدیث کی روایت کرنے میں مالک کے شاگردوں کا اختلاف ہے، بعض راویوں نے اسے ابی عمرہ سے روایت کیا ہے، اور بعض نے ابن ابی عمرہ سے، ان کا نام عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ انصاری ہے، ابن ابی عمرہ زیادہ صحیح ہے، کیونکہ مالک کے سوا دوسرے راویوں نے «عن عبدالرحمٰن بن أبي عمرة عن زيد بن خالد» کہا ہے «عن ابن أبي عمرة عن زيد بن خالد» کی سند سے اس کے علاوہ دوسری حدیث بھی مروی ہے، اور وہ صحیح حدیث ہے، ابو عمرہ زید بن خالد جہنی کے آزاد کردہ غلام تھے، اور ابو عمرہ کے واسطہ سے خالد سے حدیث غلول مروی ہے، اکثر لوگ عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ ہی کہتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مؤلف کے سوا ہر ایک کے یہاں «ابن أبي عمرة» ہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2296

【2】

گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : سب سے بہتر گواہ وہ ہے جو گواہی طلب کیے جانے سے پہلے اپنی گواہی کا فریضہ ادا کر دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2297

【3】

گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خیانت کرنے والے مرد اور عورت کی گواہی درست اور مقبول نہیں ہے، اور نہ ان مردوں اور عورتوں کی گواہی مقبول ہے جن پر حد نافذ ہوچکی ہے، نہ اپنے بھائی سے دشمنی رکھنے والے کی گواہی مقبول ہے، نہ اس آدمی کی جس کی ایک بار جھوٹی گواہی آزمائی جا چکی ہو، نہ اس شخص کی گواہی جو کسی کے زیر کفالت ہو اس کفیل خاندان کے حق میں (جیسے مزدور وغیرہ) اور نہ اس شخص کی جو ولاء یا رشتہ داری کی نسبت میں متہم ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف یزید بن زیاد دمشقی کی روایت سے جانتے ہیں، اور یزید ضعیف الحدیث ہیں، نیز یہ حدیث زہری کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانی جاتی ہے، ٣ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی حدیث مروی ہے، ٤ - فزازی کہتے ہیں : «قانع» سے مراد «تابع» ہے، ٥ - اس حدیث کا مطلب ہم نہیں سمجھتے اور نہ ہی سند کے اعتبار سے یہ میرے نزدیک صحیح ہے، ٦ - اس بارے میں اہل علم کا عمل ہے کہ رشتہ دار کے لیے رشتہ کی گواہی درست ہے، البتہ بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی یا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، اکثر اہل علم بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی یا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کو درست نہیں سمجھتے، ٧ - بعض اہل علم کہتے ہیں : جب گواہی دینے والا عادل ہو تو باپ کی گواہی بیٹے کے حق میں اسی طرح باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی درست ہے، ٨ - بھائی کی گواہی کے جواز کے بارے میں اختلاف نہیں ہے، ٩ - اسی طرح رشتہ دار کے لیے رشتہ دار کی گواہی میں بھی اختلاف نہیں ہے، ١٠ - امام شافعی کہتے ہیں : جب دو آدمیوں میں دشمنی ہو تو ایک کے خلاف دوسرے کی گواہی درست نہ ہوگی، گرچہ گواہی دینے والا عادل ہو، انہوں نے عبدالرحمٰن اعرج کی حدیث سے استدلال کیا ہے جو نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً مروی ہے کہ دشمنی رکھنے والے کی گواہی درست نہیں ہے، اسی طرح اس (مذکورہ) حدیث کا بھی مفہوم یہی ہے، (جس میں) آپ نے فرمایا : اپنے بھائی کے لیے دشمنی رکھنے والے کی گواہی درست نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٦٦٩٠) (ضعیف) (سند میں یزید بن زیاد دمشقی متروک الحدیث راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (2675) ، المشکاة (3781 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6199) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2298

【4】

گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں بڑے بڑے (کبیرہ) گناہوں کے بارے میں نہ بتادوں ؟ صحابہ نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹی بات بولنا ، ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ آخری بات کو برابر دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگوں نے دل میں کہا : کاش ! آپ خاموش ہوجاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی حدیث آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٩٠١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (277) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2301

【5】

گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

ایمن بن خریم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا : لوگو ! جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی «فاجتنبوا الرجس من الأوثان واجتنبوا قول الزور» تو بتوں کی گندگی سے بچے رہو (ان کی پرستش نہ کرو) اور جھوٹ بولنے سے بچے رہو (الحج : ٣٠ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف سفیان بن زیاد کی روایت سے جانتے ہیں۔ اور لوگوں نے سفیان بن زیاد سے اس حدیث کی روایت کرنے میں اختلاف کیا ہے، ٣ - نیز ہم ایمن بن خریم کا نبی اکرم ﷺ سے سماع بھی نہیں جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٧٤٨) (ضعیف) (یہ مرسل ہے أیمن بن خریم تابعی ہیں، نیز اس کے راوی فاتک بن فضالہ مستور (مجہول الحال) ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2372) // ضعيف سنن ابن ماجة (518) ، تخريج الإيمان لابن سلام (49 / 118) ، طبع المکتب الإسلامي، المشکاة (3779 و 3780) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2299

【6】

گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

خریم بن فاتک اسدی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فجر پڑھائی، جب پلٹے تو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا : جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے ، آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی پھر آپ نے یہ مکمل آیت تلاوت فرمائی «واجتنبوا قول الزور» اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث میرے نزدیک زیادہ صحیح ہے، ٢ - خریم بن فاتک کو شرف صحابیت حاصل ہے، نبی اکرم ﷺ سے انہوں نے کئی حدیثیں روایت کی ہیں، اور مشہور صحابی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ٣٢ (٢٣٧٢) (ضعیف) (سند میں زیاد عصفری اور حبیب بن نعمان دونوں لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2300

【7】

گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں بڑے بڑے (کبیرہ) گناہوں کے بارے میں نہ بتادوں ؟ صحابہ نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹی بات بولنا ، ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ آخری بات کو برابر دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگوں نے دل میں کہا : کاش ! آپ خاموش ہوجاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی حدیث آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٩٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (277) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2301

【8】

گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : سب سے اچھے لوگ میرے زمانہ کے ہیں (یعنی صحابہ) ، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (یعنی تابعین) ، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (یعنی اتباع تابعین) ١ ؎، آپ ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو موٹا ہونا چاہیں گے، موٹاپا پسند کریں گے اور گواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دیں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اعمش کے واسطہ سے علی بن مدرک کی روایت سے غریب ہے، ٢ - اعمش کے دیگر شاگردوں نے «عن الأعمش عن هلال بن يساف عن عمران بن حصين» کی سند سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٢٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے صحابہ کرام کی فضیلت تابعین پر ، اور تابعین کی فضیلت اتباع تابعین پر ثابت ہوتی ہے۔ ٢ ؎ : ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے یہ لفظ دو یا تین بار دہرایا ، اگر تین بار دہرایا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے خود اپنا زمانہ مراد لیا ، پھر صحابہ کا پھر تابعین کا ، پھر اتباع تابعین کا ، اور اگر آپ نے صرف دو بار فرمایا تو اس کا وہی مطلب ہے جو ترجمہ کے اندر قوسین میں واضح کیا گیا ہے۔ ٣ ؎ : اس حدیث سے از خود شہادت دینے کی مذمت ثابت ہوتی ہے ، جب کہ حدیث نمبر ٢١٩٥ سے اس کی مدح و تعریف ثابت ہے ، تعارض اس طرح دفع ہوجاتا ہے کہ مذمت مطلقاً اور از خود شہادت پیش کرنے کی نہیں بلکہ جلدی سے ایسی شہادت دینے کی وجہ سے ہے جس سے جھوٹ ثابت کرسکیں اور باطل طریقہ سے کھا پی سکیں اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر اسے ہضم کر سکں ، معلوم ہوا کہ حقوق کے تحفظ کے لیے دی گئی شہادت مقبول اور بہتر وعمدہ ہے جب کہ حقوق کو ہڑپ کر جانے کی نیت سے دی گئی شہادت قبیح اور بری ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مضی (2334) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2302

【9】

گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب

اس سند سے بھی عمران بن حصین سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اور یہ محمد بن فضیل کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : حدیث کے الفاظ «يعطون الشهادة قبل أن يسألوها» سے جھوٹی گواہی مراد ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ان کا کہنا ہے کہ گواہی طلب کیے بغیر وہ گواہی دیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مضی (2334 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2302 عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سب سے اچھے اور بہتر لوگ ہمارے زمانے والے ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر جھوٹ عام ہوجائے گا یہاں تک کہ آدمی گواہی طلب کیے بغیر گواہی دے گا، اور قسم کھلائے بغیر قسم کھائے گا ۔ اور نبی اکرم ﷺ کی وہ حدیث کہ سب سے بہتر گواہ وہ ہے، جو گواہی طلب کیے بغیر گواہی دے تو اس کا مفہوم ہمارے نزدیک یہ ہے کہ جب کسی سے کسی چیز کی گواہی (حق بات کی خاطر) دلوائی جائے تو وہ گواہی دے، گواہی دینے سے باز نہ رہے، بعض اہل علم کے نزدیک دونوں حدیثوں میں تطبیق کی یہی صورت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢١٦٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2303

【10】

زہد کے جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہیں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ١ (٦٤١٢) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ١٥ (٤١٧٠) (تحفة الأشراف : ٥٦٦٦) ، و مسند احمد (١/٢٥٨، ٣٤٤) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٢ (٢٧٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کی قدر نہیں کرتے ہیں ایک تندرستی اور دوسری فراغت ہیں بلکہ یوں ہی انہیں ضائع کردیتے ہیں جب کہ تندرستی کو بیماری سے پہلے اور فرصت کو مشغولیت سے پہلے غنیمت سمجھنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2304

【11】

زہد کے جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کون ایسا شخص ہے جو مجھ سے ان کلمات کو سن کر ان پر عمل کرے یا ایسے شخص کو سکھلائے جو ان پر عمل کرے ، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں ایسا کروں گا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان پانچ باتوں کو گن کر بتلایا : تم حرام چیزوں سے بچو، سب لوگوں سے زیادہ عابد ہوجاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم شدہ رزق پر راضی رہو، سب لوگوں سے زیادہ بےنیاز رہو گے، اور اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرو پکے سچے مومن رہو گے۔ اور دوسروں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو سچے مسلمان ہوجاؤ گے اور زیادہ نہ ہنسو اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - حسن بصری کا سماع ابوہریرہ سے ثابت نہیں، ٣ - اسی طرح ایوب، یونس بن عبید اور علی بن زید سے مروی ہے ان سب کا کہنا ہے کہ حسن بصری نے ابوہریرہ سے نہیں سنا ہے، ٤ - ابوعبیدہ ناجی نے اسے حسن بصری سے روایت کرتے ہوئے اس کو حسن بصری کا قول کہا ہے اور یہ نہیں ذکر کیا کہ یہ حدیث حسن بصری ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں، اور ابوہریرہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٢٤٧) ، و مسند احمد (٢/٣١٠) (حسن) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ” حسن بصری “ کا سماع ابوہریرہ (رض) سے نہیں ہے، نیز ” ابو طارق “ مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الصحیحہ ٩٣٠ ) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (930) ، تخريج المشکلة (17) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2305

【12】

نیک اعمال میں جلدی کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سات چیزوں سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو، تمہیں ایسے فقر کا انتظار ہے جو سب کچھ بھلا ڈالنے والا ہے ؟ یا ایسی مالداری کا جو طغیانی پیدا کرنے والی ہے ؟ یا ایسی بیماری کا جو مفسد ہے (یعنی اطاعت الٰہی میں خلل ڈالنے والی) ہے ؟ یا ایسے بڑھاپے کا جو عقل کو کھو دینے والا ہے ؟ یا ایسی موت کا جو جلدی ہی آنے والی ہے ؟ یا اس دجال کا انتظار ہے جس کا انتظار سب سے برے غائب کا انتظار ہے ؟ یا اس قیامت کا جو قیامت نہایت سخت اور کڑوی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اعرج ابوہریرہ سے مروی حدیث ہم صرف محرز بن ہارون کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - بشر بن عمر اور ان کے علاوہ لوگوں نے بھی اسے محرز بن ہارون سے روایت کیا ہے، ٤ - معمر نے ایک ایسے شخص سے سنا ہے جس نے بسند «سعيدا المقبري عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی جیسی حدیث روایت کی ہے اس میں «هل تنتظرون» کی بجائے «تنتظرون» ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٩٥١) (ضعیف) (سند میں ” محرر ۔ یا محرز۔ بن ہارون “ متروک الحدیث راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1666) // ضعيف الجامع الصغير (2315) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2306

【13】

موت کو یاد کرنے کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لذتوں کو توڑنے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب، ٢ - اس باب میں ابو سعید خدری (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٣ (١٨٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣١ (٤٢٥٨) (تحفة الأشراف : ١٥٠٨٠) ، و مسند احمد (٢/٢٩٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : موت کی یاد اور اس کا تصور انسان کو دنیاوی مشاغل سے دور اور معصیت کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے ، اس لیے بکثرت موت کو یاد کرنا چاہیئے اور اس کے پیش آنے والے معاملات سے غافل نہیں رہنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (4258) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2307

【14】

ہانی مولی عثمان کہتے ہیں کہ عثمان (رض) جب کسی قبرستان پر ٹھہرتے تو اتنا روتے کہ آپ کی داڑھی تر ہوجاتی، ان سے کسی نے کہا کہ جب آپ کے سامنے جنت و جہنم کا ذکر کیا جاتا ہے تو نہیں روتے ہیں اور قبر کو دیکھ کر اس قدر رو رہے ہیں ؟ تو کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : آخرت کے منازل میں سے قبر پہلی منزل ہے، سو اگر کسی نے قبر کے عذاب سے نجات پائی تو اس کے بعد کے مراحل آسان ہوں گے اور اگر جسے عذاب قبر سے نجات نہ مل سکی تو اس کے بعد کے منازل سخت تر ہوں گے ، عثمان (رض) نے مزید کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : گھبراہٹ اور سختی کے اعتبار سے قبر کی طرح کسی اور منظر کو نہیں دیکھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف ہشام بن یوسف کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٢ (٤٢٦٧) (تحفة الأشراف : ٩٨٣٩) ، و مسند احمد (١/٦٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : عثمان (رض) کا یہ حال کہ قبر کے عذاب کا اتنا خوف اور ڈر لاحق ہو کہ اسے دیکھ کر زار و قطار رونے لگیں باوجود یہ کہ آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور ہمارا یہ حال ہے کہ اس عذاب کو بھولے ہوئے ہیں ، حالانکہ یہ منازل آخرت میں سے پہلی منزل ہے ، اللہ رب العالمین ہم سب کو قبر کے عذاب سے بچائے آمین۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4267) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2308

【15】

جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا خواہش مند اللہ بھی اس سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے

عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا چاہے گا، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا ناپسند کرے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عبادہ کی حدیث صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، ام المؤمنین عائشہ، انس اور ابوموسیٰ اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٠٦٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نسائی کتاب الجنائز باب رقم ١٠ ، حدیث رقم ١٨٣٨ میں ہے : ام المؤمنین عائشہ (رض) نے اس حدیث کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ یہ موت کے وقت کا معاملہ ہے جب بینائی چھن جائے ، جاں کنی کا عالم ہو اور رونگٹے کھڑے ہوجائیں تو جس کو اللہ کی رحمت اور مغفرت کی بشارت دی جائے اس وقت جو اللہ سے ملنا چاہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہے گا اور جس کو اللہ کے عذاب کی وارننگ دی جائے وہ اللہ سے ملنا ناپسند کرے تو اللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرے گا ، یعنی مومن کو اللہ سے ملنے میں خوشی اور کافر کو گھبراہٹ اور ڈر لاحق ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2309

【16】

نبی ﷺ کا امت کو خوف دلانا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ : «وأنذر عشيرتک الأقربين» نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے عبدالمطلب کی بیٹی صفیہ ! ، اے محمد کی بیٹی فاطمہ ! اے عبدالمطلب کی اولاد ! اللہ کی طرف سے تم لوگوں کے نفع و نقصان کا مجھے کچھ بھی اختیار نہیں ہے، تم میرے مال میں سے تم سب کو جو کچھ مانگنا ہو وہ مجھ سے مانگ لو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عائشہ کی حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ان میں سے بعض نے اسی طرح ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے، اور بعض نے «عن هشام عن أبيه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے مرسلاً روایت کی ہے اور «عن عائشة» کا ذکر نہیں کیا، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس اور ابوموسیٰ اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨٩ (٢٠٥) ، سنن النسائی/الوصایا ٦ (٣٦٧٨) ویأتي عند المؤلف برقم ٣١٨٤ (تحفة الأشراف : ١٧٢٣٧) ، و مسند احمد (٦/١٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ تں ہی عذاب دینا چاہے تو میں تمہیں اس کے عذاب سے نہیں بچا سکتا ، کیونکہ میں کسی کے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں ، البتہ دنیاوی وسائل جو مجھے اللہ کی جانب سے حاصل ہیں ، ان میں سے جو چاہو تم لوگ مانگ سکتے ہو ، میں دینے کے لیے تیار ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2310

【17】

خوف اللہ سے رونے کی فضیلت کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے خوف اور ڈر سے رونے والا شخص جہنم میں نہیں جاسکتا جب تک کہ دودھ تھن میں واپس نہ پہنچ جائے اور اللہ کی راہ کا گرد و غبار اور جہنم کا دھواں دونوں اکٹھا نہیں ہوسکتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوریحانہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - محمد بن عبدالرحمٰن آل طلحہ کے آزاد کردہ غلام ہیں مدنی ہیں، ثقہ ہیں، ان سے شعبہ اور سفیان ثوری نے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٦٣٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نہ کبھی دودھ تھن میں واپس ہوگا اور نہ ہی اللہ کے خوف سے رونے والا جہنم میں ڈالا جائے گا ، اسی طرح راہ جہاد میں نکلنے والا بھی جہنم میں نہیں جاسکتا ، کیونکہ جہاد مجاہد کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے ، معلوم ہوا کہ جہاد کی بڑی فضیلت ہے ، لیکن یہ ثواب اس مجاہد کے لیے ہے جو کبیرہ گناہوں سے بچتا رہا ہو۔ معلوم ہوجائے تو بہت کم ہنسو گے اور بہت زیادہ روؤ گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3828) ، التعليق الرغيب (2 / 166) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2311

【18】

نبی کا فرمان کہ اگر تم لوگ وہ کچھ جان لو جو کچھ میں جانتا ہوں توہنسنا کم کر دو

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سن رہا ہوں جو تم نہیں سنتے۔ بیشک آسمان چرچرا رہا ہے اور اسے چرچرانے کا حق بھی ہے، اس لیے کہ اس میں چار انگل کی بھی جگہ نہیں خالی ہے مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی اللہ کے حضور رکھے ہوئے ہے، اللہ کی قسم ! جو میں جانتا ہوں اگر وہ تم لوگ بھی جان لو تو ہنسو گے کم اور رؤ گے زیادہ اور بستروں پر اپنی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہو گے، اور یقیناً تم لوگ اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہوئے میدانوں میں نکل جاتے ، (اور ابوذر (رض)) فرمایا کرتے تھے کہ کاش میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اور یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس کے علاوہ ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے کہ ابوذر (رض) فرمایا کرتے تھے : کاش میں ایک درخت ہوتا کہ جسے لوگ کاٹ ڈالتے ، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ، ابن عباس اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ١٩ (٤١٩٠) (تحفة الأشراف : ١١٩٨٦) (حسن) (حدیث میں ” لوددت … “ کا جملہ مرفوع نہیں ہے، ابو ذر (رض) کا اپنا قول ہے ) قال الشيخ الألباني : حسن دون قوله : لوددت .... ، ابن ماجة (4190) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2312

【19】

نبی کا فرمان کہ اگر تم لوگ وہ کچھ جان لو جو کچھ میں جانتا ہوں توہنسنا کم کر دو

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو میں جانتا ہوں اگر تم لوگ جان لیتے تو ہنستے کم اور روتے زیادہ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥٠٤٩) ، وانظر مسند احمد (٢/٢٥٧، ٣١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح فقه السيرة (479) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2313

【20】

جو شخص لوگوں کو ہنسانے کے لئے کوئی بات

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کبھی ایسی بات کہہ دیتا ہے جس میں وہ خود کوئی حرج نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی وجہ سے وہ ستر برس تک جہنم کی آگ میں گرتا چلا جائے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٢٣ (٦٤٧٧، ٦٤٧٨) ، صحیح مسلم/الزہد ٦ (٢٩٨٨) (تحفة الأشراف : ١٤٢٨٣) ، و مسند احمد (٢/٢٣٦، ٣٥٥، ٣٧٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک شخص دوسروں کو ہنسانے کے لیے اور ان کی دلچسپی کی خاطر اپنی زبان سے اللہ کی ناراضگی کی بات کہتا ہے یا بناوٹی اور جھوٹی بات کہتا ہے ، اور کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ وہ باعث گناہ اور لائق سزا ہے حالانکہ وہ اپنی اس بات کے سبب جہنم کی سزا کا مستحق ہوتا ہے ، معلوم ہوا کہ دوسروں کو ہنسانے اور انہیں خوش کرنے کے لیے کوئی ایسی ہنسی کی بات نہیں کرنی چاہیئے جو گناہ کی بات ہو اور باعث عذاب ہو۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (3970) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2314

【21】

جو شخص لوگوں کو ہنسانے کے لئے کوئی بات

معاویہ بن حیدہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے : تباہی و بربادی ہے اس شخص کے لیے جو ایسی بات کہتا ہے کہ لوگ سن کر ہنسیں حالانکہ وہ بات جھوٹی ہوتی ہے تو ایسے شخص کے لیے تباہی ہی تباہی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٨٨ (٤٩٩٠) (تحفة الأشراف : ١١٣٨١) ، و مسند احمد (٥/٣) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٦٦ (٢٧٤٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ ہنسی کی وہ بات جو جھوٹی ہے قابل مذمت ہے ، لیکن بات اگر سچی ہے تو اس کے ذریعہ کبھی کبھار ہنسی کی فضا ہموار کرنا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، چناچہ رسول اللہ ﷺ سے بعض مواقع پر ہنسی کی بات کرنا ثابت ہے ، جیسے ایک بار آپ نے ایک بڑھیا سے فرمایا کہ کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی ، اسی طرح عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ کو اس وقت ہنسے پر مجبور کردیا جب آپ اپنی ازواج مطہرات سے ناراض تھے۔ قال الشيخ الألباني : حسن غاية المرام (376) ، المشکاة (4838 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2315

【22】

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک صحابی کی وفات ہوگئی، ایک آدمی نے کہا : تجھے جنت کی بشارت ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شاید تمہیں نہیں معلوم کہ اس نے کوئی ایسی بات کہی ہو جو بےفائدہ ہو، یا ایسی چیز کے ساتھ بخل سے کام لیا ہو جس کے خرچ کرنے سے اس کا کچھ نقصان نہ ہوتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٩٣) (صحیح) (امام ترمذی نے حدیث پر غریب ہونے کا حکم لگایا ہے، اور ایسے ہی تحفة الأشراف میں ہے، نیز ترمذی نے لکھا ہے کہ أعمش کا سماع انس سے نہیں ہے (تحفة الأشراف) لیکن منذری کہتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا : حديث حسن صحیح اور خود منذری نے کہا کہ سند کے رواة ثقات ہیں، دوسرے طرق اور شواہد کی بنا پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح الترغیب ٢٨٨٢، ٢٨٨٣، وتراجع الألبانی ٥١١ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (4 / 11) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2316

【23】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اس حدیث کو ابوسلمہ کی روایت سے جسے وہ ابوہریرہ (رض) سے اور ابوہریرہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٢ (٣٩٧٦) (تحفة الأشراف : ١٥٢٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو باتیں اس سے متعلق نہیں ہیں اور نہ ہی جن سے دینی یا دنیاوی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے ان کی ٹوہ میں نہ لگا رہے بلکہ ان سے دور رہے یہی اس کے اسلام کی خوبی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3976) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2317

【24】

علی بن حسین (زین العابدین) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو چھوڑ دے جو اس سے غیر متعلق ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - زہری کے شاگردوں میں سے کئی لوگوں نے اسی طرح «عن الزهري عن علي بن حسين عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے مالک کی حدیث کی طرح مرسلا روایت کی ہے، ٢ - ہمارے نزدیک یہ حدیث ابوسلمہ کی ابوہریرہ سے مروی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ١ ؎، ٣ - علی بن حسین (زین العابدین) کی ملاقات علی (رض) سے ثابت نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (١٩١٣٤) (صحیح) (علی بن حسین زین العابدین تابعی ہیں اس لیے یہ حدیث مرسل ہے، مگر سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اصل حدیث ثابت ہے ، اس کی بحث «زهد وكيع» رقم ٣٦٤ میں دیکھئیے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (2317) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2318

【25】

کم گوئی کی فضلیت کے متعلق

صحابی رسول بلال بن حارث مزنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تم میں سے کوئی اللہ کی رضا مندی کی ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا کہ اس کی وجہ سے اس کا مرتبہ کہاں تک پہنچے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے اپنی خوشنودی اور رضا مندی لکھ دیتا ہے جس دن وہ اس سے ملے گا، اور تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ اس کی وجہ سے اس کا وبال کہاں تک پہنچے گا جب کہ اللہ اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے ہے جس دن وہ اس سے ملے گا اپنی ناراضگی لکھ دیتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور اسے اسی طرح سے کئی لوگوں نے محمد بن عمرو سے اسی کے مثل روایت کیا ہے یعنی «عن محمد بن عمرو عن أبيه عن جده عن بلال بن الحارث» کی سند سے، ٣ - اس حدیث کو مالک نے «عن محمد بن عمرو عن أبيه عن بلال بن الحارث» کی سند سے روایت کیا ہے لیکن اس میں «عن أبيه» کا ذکر نہیں ہے، ٤ - اس باب میں ام حبیبہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٢ (٣٩٦٩) (تحفة الأشراف : ٢٠٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فضول باتوں سے پرہیز کرنا چاہیئے ، اور کوشش کرنی چاہیئے کہ حسب ضرورت مفید اور سچ بات زبان سے نکلے ، بات کرتے وقت رضائے الٰہی پیش نظر رہے ، کیونکہ وہ بات جو جھوٹ اور فضول ہوگی وہ اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3969) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2319

【26】

اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی بے وقعتی

سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی وقعت اگر ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣ (٤١١٠) (تحفة الأشراف : ٤٦٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں دنیا کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے بلکہ یہ حقیر سے حقیر چیز ہے ، اس کی حقارت کی دلیل یہ ہے کہ اگر اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی قدر و قیمت ہوتی تو اسے صرف اپنے محبوب بندوں کو نوازتا ، جب کہ حال یہ ہے کہ اسے اپنے دشمنوں یعنی کفار و مشرکین کو دیتا ہے ، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دینے والا اپنے دشمن کو وہ چیز دے جو اس کے نزدیک قدر و قیمت والی ہو ، کافروں کو جنت کی ایک ادنی نعمت سے اسی لیے محروم رکھا گیا ہے کیونکہ جنت اللہ کے محبوب بندوں کے لیے ہے ، نہ کہ اس کے دشمنوں کے لیے ، معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک دنیا اور اس کے مال و اسباب کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں ہے ، لہٰذا اہل ایمان کے نزدیک بھی اس کی زیادہ اہمیت نہیں ہونی چاہیئے بلکہ اسے آخرت کی زندگی سنوارنے کا ایک ذریعہ سمجھنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (940) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2320

【27】

اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی بے وقعتی

مستورد بن شداد (رض) کہتے ہیں کہ میں بھی ان سواروں کے ساتھ تھا جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک بکری کے مرے ہوئے بچے کے پاس کھڑے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم لوگ اسے دیکھ رہے ہو کہ جب یہ اس کے مالکوں کے نزدیک حقیر اور بےقیمت ہوگیا تو انہوں نے اسے پھینک دیا، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس کی بےقیمت ہونے کی بنیاد ہی پر لوگوں نے اسے پھینک دیا ہے، آپ نے فرمایا : دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر اور بےوقعت ہے جتنا یہ اپنے لوگوں کے نزدیک حقیر اور بےوقعت ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - مستورد (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں جابر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣ (٤١١١) (تحفة الأشراف : ١١٢٥٨) وانظر مسند احمد (٤/٢٢٩، ٢٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4111) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2321

【28】

اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی بے وقعتی

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بیشک دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یاد اور اس چیز کے جس کو اللہ پسند کرتا ہے، یا عالم (علم والے) اور متعلم (علم سیکھنے والے) کے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣ (٤١١٢) (تحفة الأشراف : ١٣٥٧٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں جو اللہ کی یاد سے غافل کردینے والی ہوں سب کی سب اللہ کے نزدیک ملعون ہیں ، گویا لعنت دنیا کی ان چیزوں پر ہے جو ذکر الٰہی سے غافل کردینے والی ہوں ، اس سے دنیا کی وہ نعمتیں اور لذتیں مستثنیٰ ہیں جو اس بری صفت سے خالی ہیں ، مثلاً مال اگر حلال طریقے سے حاصل ہو اور حلال مصارف پر خرچ ہو تو یہ اچھا ہے ، بصورت دیگر یہی مال برا اور لعنت کے قابل ہے ، وہ علم بھی اچھا ہے جو بندوں کو اللہ سے قریب کر دے بصورت دیگر یہ بھی برا ہے ، اس حدیث سے علماء اور طلبائے علوم دینیہ کی فضیلت ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4112) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2322

【29】

اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی بے وقعتی

مستورد بن شداد فہری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا کی مثال آخرت کے سامنے ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کی انگلی سمندر کا کتنا پانی اپنے ساتھ لائی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسماعیل بن ابی خالد کی کنیت ابوعبداللہ ہے، ٣ - قیس کے والد ابوحازم کا نام عبد بن عوف ہے اور یہ صحابی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/صفة الجنة ١٤ (٢٨٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣ (٤١٠٨) (تحفة الأشراف : ١١٢٥٥) ، و مسند احمد (٤/٢٢٩، ٢٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں آخرت کی نعمتوں اور اس کی دائمی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی قدر و قیمت اور اس کی زندگی کا تناسب بیان کیا گیا ہے ، یہ تناسب ایسے ہی ہے جیسے ایک قطرہ پانی اور سمندر کے پانی کے درمیان تناسب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4108) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2323

【30】

اس بارے میں کہ دنیا مومن کے لئے جیل اور کافر کے لئے جنت ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا مومن کے لیے قید خانہ (جیل) ہے اور کافر کے لیے جنت (باغ و بہار) ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣ (٤١١٣) (تحفة الأشراف : ١٤٠٥٥) ، و مسند احمد (٢/٣٢٣، ٣٨٩، ٤٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ جس طرح قید خانہ کا قیدی اس کے قواعد و ضوابط کا پابند ہوتا ہے اسی طرح یہ دنیا مومن کے لیے ایک قید خانہ کی مثل ہے ، اس میں مومن شہوات و خواہشات نفس سے بچتا ہوا مومنانہ و متقیانہ زندگی گزارتا ہے ، اس کے برعکس کافر ہر طرح سے آزاد رہ کر خواہشات و شہوات کی لذتوں میں مست رہتا ہے گویا دنیا اس کے لیے جنت ہے جب کہ مومن کے لیے قید خانہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2324

【31】

دنیا کی مثال چار شخصوں کی سی ہے

ابوکبشہ انماری (رض) کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : میں تین باتوں پر قسم کھاتا ہوں اور میں تم لوگوں سے ایک بات بیان کر رہا ہوں جسے یاد رکھو ، کسی بندے کے مال میں صدقہ دینے سے کوئی کمی نہیں آتی (یہ پہلی بات ہے) ، اور کسی بندے پر کسی قسم کا ظلم ہو اور اس پر وہ صبر کرے تو اللہ اس کی عزت کو بڑھا دیتا ہے (دوسری بات ہے) ، اور اگر کوئی شخص پہنے کے لیے سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ اس کے لیے فقر و محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے ۔ (یا اسی کے ہم معنی آپ نے کوئی اور کلمہ کہا) (یہ تیسری بات ہے) اور تم لوگوں سے ایک اور بات بیان کر رہا ہوں اسے بھی اچھی طرح یاد رکھو : یہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے : ایک بندہ وہ ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال اور علم کی دولت دی، وہ اپنے رب سے اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں ڈرتا ہے اور اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے ١ ؎ اور اس میں سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتا ہے ٢ ؎ ایسے بندے کا درجہ سب درجوں سے بہتر ہے۔ اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے علم دیا، لیکن مال و دولت سے اسے محروم رکھا پھر بھی اس کی نیت سچی ہے اور وہ کہتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس شخص کی طرح عمل کرتا لہٰذا اسے اس کی سچی نیت کی وجہ سے پہلے شخص کی طرح اجر برابر ملے گا، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اسی علم سے محروم رکھا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے، اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے، نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ کے حق کا خیال رکھتا ہے تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بدتر ہے، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت اور علم دونوں سے محروم رکھا، وہ کہتا ہے کاش میرے پاس مال ہوتا تو فلاں کی طرح میں بھی عمل کرتا (یعنی : برے کاموں میں مال خرچ کرتا) تو اس کی نیت کا وبال اسے ملے گا اور دونوں کا عذاب اور بار گناہ برابر ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وأخرج ابن ماجہ نحوہ في الزہد ٢٦ (٤٢٢٨) (تحفة الأشراف : ١٢١٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اسے اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرتا ہے اور اعزہ و اقرباء کا خاص خیال رکھتا ہے۔ ٢ ؎ : یعنی فریضہ زکاۃ کی ادائیگی کرتا ہے اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے جو کچھ اس پر واجب ہوتا ہے خرچ کرتا ہے اور اس میں سے عام صدقات و خیرات بھی کرتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4228) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2325

【32】

دنیا کی محبت اور اس کے متعلق غمگین ہونا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص فاقہ کا شکار ہو اور اس پر صبر نہ کر کے لوگوں سے بیان کرتا پھرے ١ ؎ تو اس کا فاقہ ختم نہیں ہوگا، اور جو فاقہ کا شکار ہو اور اسے اللہ کے حوالے کر کے اس پر صبر سے کام لے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیر یا سویر روزی دے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٢٩ (١٦٤٥) (تحفة الأشراف : ٩٣١٩) ، و مسند احمد (١/٣٨٩) (صحیح) ” بموت عاجل أو غني عاجل “ ) کے لفظ سے صحیح ہے، صحیح سنن ابی داود ١٤٥٢، الصحیحة ٢٨٨٧ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی لوگوں سے اپنی محتاجی اور لاچاری کا تذکرہ کر کے ان کے آگے ہاتھ پھیلائے تو ایسے شخص کی ضرورت کبھی پوری نہیں ہوگی ، اور اگر وقتی طور پر پوری ہو بھی گئی تو پھر اس سے زیادہ سخت دوسری ضرورتیں اس کے سامنے آئیں گی جن سے نمٹنا اس کے لیے آسان نہ ہوگا۔ ٢ ؎ : چونکہ اس نے صبر سے کام لیا ، اس لیے اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں رزق عطا فرمائے گا ، یا آخرت میں اسے ثواب سے نوازے گا ، معلوم ہوا کہ حاجت و ضرورت کے وقت انسانوں کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بلفظ : ... بموت عاجل أو غنی عاجل ، صحيح أبي داود (1452) ، الصحيحة (2787) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2326

【33】

دنیا کی محبت اور اس کے متعلق غمگین ہونا

ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) ابوہاشم بن عتبہ بن ربیعہ القرشی کی بیماری کے وقت ان کی عیادت کے لیے آئے اور کہا : اے ماموں جان ! کیا چیز آپ کو رلا رہی ہے ؟ کسی درد سے آپ بےچین ہیں یا دنیا کی حرص ستا رہی ہے، ابوہاشم نے کہا : ایسی کوئی بات نہیں ہے، البتہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک وصیت کی تھی جس پر میں عمل نہ کرسکا۔ آپ نے فرمایا تھا : تمہارے لیے پورے سرمایہ میں سے ایک خادم اور ایک سواری جو اللہ کی راہ میں کام آئے کافی ہے، جب کہ اس وقت میں نے اپنے پاس بہت کچھ جمع کرلیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - زائدہ اور عبیدہ بن حمید نے «عن منصور عن أبي وائل عن سمرة بن سهم» کی سند سے روایت کی ہے جس میں یہ نقل کیا ہے کہ معاویہ (رض) ابوہاشم کے پاس داخل ہوئے پھر اسی کے مانند حدیث ذکر کی ٢ - اس باب میں بریدہ اسلمی نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ١١٩ (٥٣٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ١ (٤١٠٣) (تحفة الأشراف : ١٢١٧٨) و مسند احمد (٥/٢٩٠) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4103) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2327

【34】

دنیا کی محبت اور اس کے متعلق غمگین ہونا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جائیداد ١ ؎ کو مت بناؤ کہ اس کی وجہ سے تمہیں دنیا کی رغبت ہوجائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٢٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث میں ضیعہ آیا ہے ، اس سے مراد ایسی جائدادیں ہیں جو غیر منقولہ ہوں مثلاً باغ ، کھیت اور گاؤں وغیرہ ، کچھ لوگ کہتے ہیں : اس سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن پر انسان کی معاشی زندگی کا دارومدار ہو ، اگر یہ چیزیں انسان کو ذکر الٰہی سے غافل کردینے والی ہوں اور انسان آخرت کو بھول بیٹھے اور اس کے دل میں پورے طورے پر دنیا کی رغبت پیدا ہوجائے تو اسے چاہیئے کہ ان سے کنارہ کشی اختیار کرے اور خشیت الٰہی کو اپنائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (12) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2328

【35】

دنیا کی محبت اور اس کے متعلق غمگین ہونا

عبداللہ بن بسر (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥١٩٧) ، مسند احمد (٤/١٨٨، ١٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عمر لمبی ہوگی اور عمل اچھا ہوگا تو نیکیاں زیادہ ہوں گی ، اس لیے یہ مومن کے حق میں بہتر ہے ، اس کے برعکس اگر عمر لمبی ہو اور اعمال برے ہوں تو یہ اور برا معاملہ ہوگا ، «أعاذنا اللہ منه»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1836) ، المشکاة (5285 / التحقيق الثانی) ، الروض النضير (926) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2329

【36】

دنیا کی محبت اور اس کے متعلق غمگین ہونا

ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہو ، اس آدمی نے پھر پوچھا کہ لوگوں میں سب سے بدتر شخص کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٦٨٩) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر جیسے سابقہ حدیث سے یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : ایک تاجر کی نگاہ میں راس المال اور سرمایہ کی جو حیثیت ہے وہی حیثیت اور مقام وقت کا ہے ، تاجر اپنے سرمایہ کو ہمیشہ بڑھانے کا خواہشمند ہوتا ہے ، اسی طرح لمبی مدت پانے والے کو چاہیئے کہ اس کے اوقات زیادہ سے زیادہ نیکی کے کاموں میں گزاریں ، اگر اس نے اپنی زندگی کے اس سرمایہ کو اسی طرح باقی رکھا تو جس طرح سرمایہ بڑھانے کا خواہشمند تاجر اکثر نفع کماتا ہے ، اسی طرح یہ بھی فائدہ ہی حاصل کرتا رہے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (2329) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2330

【37】

اس بارے میں کہ اس امت کی عمریں ساٹھ اور ستر سال کے درمیان ہیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے اکثر لوگوں کی عمر ساٹھ سے ستر سال تک کے درمیان ہوگی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوصالح کی یہ حدیث جسے وہ ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں حسن غریب ہے، ٢ - یہ حدیث ابوہریرہ (رض) سے اس کے علاوہ کئی اور سندوں سے بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٧ (٤٢٣٦) ، ویأتي عند المؤلف في الدعوات ١٠٢ (٣٥٥٠) (تحفة الأشراف : ١٢٨٧٦) (حسن صحیح) (یہ حدیث ” أعمار أمتي مابین … “ کے لفظ سے صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح بلفظ : أعمار أمتی ما بين ... وسيأتى برقم (3545) // هذا رقم الدع اس، وهو عندنا (2815 - 3802) //، ابن ماجة (4236) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2331

【38】

زمانے کا قرب اور امیدروں کی قلت کے متعلق

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت نہیں قائم ہوگی یہاں تک کہ زمانہ قریب ہوجائے گا ١ ؎ سال ایک مہینہ کے برابر ہوجائے گا جب کہ ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر اور ایک دن ایک ساعت (گھڑی) کے برابر ہوجائے گا اور ایک ساعت (گھڑی) آگ سے پیدا ہونے والی چنگاری کے برابر ہوجائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس سند سے یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : زمانہ قریب ہوجائے گا اس کا مفہوم یہ ہے کہ یا تو اس کی برکتیں کم ہوجائیں گی اور فائدہ کی بجائے نقصانات زیادہ ہوں گے یا اس طرف اشارہ ہے کہ لوگ دنیاوی مشاغل میں اس قدر منہمک و مشغول ہوں گے کہ انہیں دن اور رات کے گزرنے کا احساس ہی نہ ہوگا (دوسرے ٹکڑے سے متعلق حدیث اگلے باب میں آرہی ہے) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5448 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2332

【39】

امیدوں کے کم ہونے کے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے بدن کے بعض حصے کو پکڑ کر فرمایا : تم دنیا میں ایسے رہو گویا تم ایک مسافر یا راہ گیر ہو، اور اپنا شمار قبر والوں میں کرو ۔ مجاہد کہتے ہیں : ابن عمر (رض) نے مجھ سے کہا : جب تم صبح کرو تو شام کا یقین مت رکھو اور جب شام کرو تو صبح کا یقین نہ رکھو، اور بیماری سے قبل صحت و تندرستی کی حالت میں اور موت سے قبل زندگی کی حالت میں کچھ کرلو اس لیے کہ اللہ کے بندے ! تمہیں نہیں معلوم کہ کل تمہارا نام کیا ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اعمش نے مجاہد سے، مجاہد نے ابن عمر (رض) سے اس حدیث کی اسی طرح سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٣ (٦٤١٦) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣ (٤١١٤) (تحفة الأشراف : ٧٣٨٦) ، و مسند احمد (٢/٢٤، ١٣١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں دنیا سے بےرغبتی اور دنیاوی آرزوئیں کم رکھنے کا بیان ہے ، مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ایک مسافر دوران سفر کچھ وقت کے لیے کسی جگہ قیام کرتا ہے ، تم دنیا کو اپنے لیے ایسا ہی سمجھو ، بلکہ اپنا شمار قبر والوں میں کرو ، گویا تم دنیا سے جا چکے ، اسی لیے آگے فرمایا : صبح پالینے کے بعد شام کا انتظار مت کرو اور شام پالینے کے بعد صبح کا انتظار مت کرو بلکہ اپنی صحت و تندرستی کے وقت مرنے کے بعد والی زندگی کے لیے کچھ تیاری کرلو ، کیونکہ تمہیں کچھ خبر نہیں کہ کل تمہارا شمار مردوں میں ہوگا یا زندوں میں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1157) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2333 اس سند سے بھی ابن عمر (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1157 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2333

【40】

امیدوں کے کم ہونے کے متعلق

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ ابن آدم ہے اور یہ اس کی موت ہے ، اور آپ نے اپنا ہاتھ اپنی گدی پر رکھا پھر اسے دراز کیا اور فرمایا : یہ اس کی امید ہے، یہ اس کی امید ہے، یہ اس کی امید ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابو سعید خدری (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٧ (٤٢٣٢) (تحفة الأشراف : ١٠٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ ابن آدم کی زندگی کی مدت بہت مختصر ہے ، موت اس سے قریب ہے ، لیکن اس کی خواہشیں اور آرزوئیں لامحدود ہیں ، اس لیے آدمی کو چاہیئے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنی مختصر زندگی کو پیش نظر رکھے ، اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی فکر کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4232) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2334

【41】

امیدوں کے کم ہونے کے متعلق

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس سے گزرے، ہم اپنا چھپر کا مکان درست کر رہے تھے، آپ نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ یہ گھر بوسیدہ ہوچکا ہے، لہٰذا ہم اس کو ٹھیک کر رہے ہیں، آپ نے فرمایا : میں تو معاملے (موت) کو اس سے بھی زیادہ قریب دیکھ رہا ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٦٩ (٥٢٣٥) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ١٣ (٤١٦٠) (تحفة الأشراف : ٨٦٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آپ کے ارشاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مکان کی لیپا پوتی اور اس کی اصلاح و مرمت نہ کی جائے بلکہ مراد اس سے موت کی یاد دہانی ہے ، تاکہ موت ہر وقت انسان کے سامنے رہے اور کسی وقت بھی اس سے غفلت نہ برتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5275 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2335

【42】

اس بارے میں کہ اس امت کا فتنہ مال میں ہے

کعب بن عیاض (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ہر امت کی آزمائش کسی نہ کسی چیز میں ہے اور میری امت کی آزمائش مال میں ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس حدیث کو ہم معاویہ بن صالح کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ١١١٢٩) ، و مسند احمد (٤/١٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : فتنہ سے مراد آزمائش ہے ، اس حدیث میں اس امت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ وہ مال کی محبت میں اعتدال سے کام لے ، ورنہ وہ اس آزمائش میں ناکام ہوسکتی ہے اور یہ مال جو اللہ کی نعمت ہے اس کے لیے شدید عذاب کا سبب بن سکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (594) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2336

【43】

اگر کسی شخص کے پاس دو وادیاں مال سے بھری ہوں تب بھی اسے تیسری کی حرص ہو گی

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر آدمی کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو اسے ایک تیسری وادی کی خواہش ہوگی اور اس کا پیٹ کسی چیز سے نہیں بھرے گا سوائے مٹی سے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو اس سے توبہ کرے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس سند سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابی بن کعب، ابو سعید خدری، عائشہ، ابن زبیر، ابو واقد، جابر، ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٠ (٦٤٣٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٩ (١٠٤٨) (تحفة الأشراف : ١٥٠٨) ، و مسند احمد (٣/١٢٢، ١٧٦، ١٩٢، ١٩٨، ٢٣٨، ٢٧٢) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٦٢ (٢٨٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ ابن آدم کے اندر دنیاوی حرص اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے کہ اس کے پاس مال کی بہتات ہو پھر بھی اسے آسودگی نہیں ہوتی یہاں تک کہ موت اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے پھر قبر کی مٹی سے ہی وہ آسودہ ہوتا ہے ، لیکن اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں دنیا سے بےرغبتی ہوتی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ انہیں دنیاوی حرص سے محفوظ رکھتا ہے ، اور قناعت کی دولت سے وہ سب مالا مال ہوتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج مشكلة الفقر (14) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2337

【44】

اس بارے میں کہ بوڑھے کا دل دو چیزوں کی محبت پر جوان ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دو چیزوں کی محبت میں بوڑھے کا دل جوان رہتا ہے : لمبی زندگی کی محبت، دوسرے مال کی محبت ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٧ (٤٢٣٣) (تحفة الأشراف : ١٢٨٦٩) ، و مسند احمد (٢/٣١٧، ٣٣٥، ٣٣٨، ٣٣٩، ٣٥٨، ٣٧٩، ٣٩٤، ٤٤٣، ٤٤٧) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ بوڑھے کا دل لمبی عمر کی خواہش اور کثرت مال کی محبت سے سرشار ہوتا ہے ، یعنی بوڑھا ہونے کے باوجود اس کے اندر مال کی ہوس اور عمر کی زیادتی کی تمنا یہ دونوں خواہشیں جوان ہوتی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (4233) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2338

【45】

اس بارے میں کہ بوڑھے کا دل دو چیزوں کی محبت پر جوان ہے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے البتہ اس کے اندر دو چیزیں جوان رہتی ہیں ایک (لمبی) زندگی کی خواہش، دوسرے مال کی حرص ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣٩ (١٠٤٧) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٧ (٤٢٣٤) (تحفة الأشراف : ١٤٣٤) ، و مسند احمد (٣/١١٥، ١١٩، ١٦٩، ١٩٢، ٢٥٦، ٢٧٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4234) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2339

【46】

دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں

ابوذر غفاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : دنیا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے اور مال کو برباد کر دے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مال تمہارے ہاتھ میں ہے، اس پر تم کو اس مال سے زیادہ بھروسہ نہ ہو جو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور تمہیں مصیبت کے ثواب کی اس قدر رغبت ہو کہ جب تم مصیبت میں گرفتار ہوجاؤ تو خواہش کرو کہ یہ مصیبت باقی رہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - راوی حدیث عمرو بن واقد منکرالحدیث ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ١ (٤١٠٠) (تحفة الأشراف : ١١٩٢٥) (ضعیف جداً ) (سند میں عمرو بن واقد متروک الحدیث راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، ابن ماجة (4100) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (894) ، المشکاة (5301 / التحقيق الثاني) ، ضعيف الجامع الصغير (3194) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2340

【47】

دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں

عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دنیا کی چیزوں میں سے ابن آدم کا حق سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اس کے لیے ایک گھر ہو جس میں وہ زندگی بسر کرسکے اور اتنا کپڑا ہو جس سے وہ اپنا ستر ڈھانپ سکے، اور روٹی اور پانی کے لیے برتن ہوں جن سے وہ کھانے پینے کا جتن کرسکے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث حریث بن سائب کی روایت سے ہے، ٣ - میں نے ابوداؤد سلیمان بن سلم بلخی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نضر بن شمیل نے کہا : «جلف الخبز» کا مطلب ہے وہ روٹی ہے جس کے ساتھ سالن نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٧٩٠) ، وانظر مسند احمد (١/٦٢) (ضعیف) (سند میں حریث وہم کے شکار ہوجایا کرتے تھے، اسی لیے اسرائیلی روایات کو انہوں نے مرفوع سمجھ کر روایت کردیا ہے، دیکھیے : الضعیفة رقم ١٠٦٣ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1063) ، نقد الکتاني ص (22) // ضعيف الجامع الصغير (4914) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2341

【48】

دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں

عبداللہ بن شخیر (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور آپ «ألهاكم التکاثر» کی تلاوت کر رہے تھے تو آپ نے فرمایا : ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال، حالانکہ تمہارا مال صرف وہ ہے جو تم نے صدقہ کردیا اور اسے آگے چلا دیا ١ ؎، اور کھایا اور اسے ختم کردیا یا پہنا اور اسے پرانا کردیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٥٩) ، سنن النسائی/الوصایا ١ (٣٦٤٣) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر ” التکاثر “ (٣٣٤٩) (تحفة الأشراف : ٥٣٤٦) ، و مسند احمد (٤/٢٤، ٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ آدمی اس مال کو اپنا مال سمجھتا ہے جو اس کے پاس ہے حالانکہ حقیقی مال وہ ہے جو حصول ثواب کی خاطر اس نے صدقہ کردیا ، اور یوم جزاء کے لیے جسے اس نے باقی رکھ چھوڑا ہے ، باقی مال کھا پی کر اسے ختم کردیا یا پہن کر اسے بوسیدا اور پرانا کردیا ، صدقہ کئے ہوئے مال کے علاوہ کوئی مال آخرت میں اس کے کام نہیں آئے گا ، اس حدیث میں مستحقین پر اور اللہ کی پسندیدہ راہوں پر خرچ کرنے کی ترغیب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2342

【49】

دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں

ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : ابن آدم ! اگر تو اپنی حاجت سے زائد مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا تو یہ تیرے لیے بہتر ہوگا، اور اگر تو اسے روک رکھے گا تو یہ تیرے لیے برا ہوگا، اور بقدر کفاف خرچ کرنے میں تیری ملامت نہیں کی جائے گی اور صدقہ و خیرات دیتے وقت ان لوگوں سے شروع کر جن کی کفالت تیرے ذمہ ہے، اور اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے ہاتھ (مانگنے والے) سے بہتر ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣٢ (١٠٣٦) (تحفة الأشراف : ٤٨٧٩) ، و مسند احمد (٥/٢٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اس سے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضرورت و حاجت کا خیال رکھو اور ضرورت سے زائد مال حاجتمندوں اور مستحقین کے درمیان تقسیم کر دو کیونکہ جمع خوری کا نتیجہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ صحیح نہیں ، جمع خوری سے معاشرے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں ، اور آخرت میں بخل کا جو انجام ہے وہ بالکل واضح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (3 / 318 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2343

【50】

دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : اگر تم لوگ اللہ پر توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسہ) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ١٤ (٤١٦٤) (تحفة الأشراف : ١٠٥٨٦) ، و مسند احمد (١/٣٠، ٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ مومن کی زندگی رزق و معیشت کی فکر سے خالی ہونی چاہیئے ، اور اس کا دل پرندوں کی طرح ہونا چاہیئے جو اپنے لیے کچھ جمع کر کے نہیں رکھتے بلکہ ہر روز صبح تلاش رزق میں نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر ہو کر لوٹتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4164) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2344

【51】

دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں دو بھائی تھے، ان میں ایک نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں رہتا تھا اور دوسرا محنت و مزدوری کرتا تھا، محنت و مزدوری کرنے والے نے ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ سے اپنے بھائی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا : شاید تجھے اسی کی وجہ سے روزی ملتی ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : محنت مزدوری کرنے والے نے یہ شکایت کی کہ یہ کمانے میں میرا تعاون نہیں کرتا اور میرے ساتھ کھاتا ہے ، اس پر آپ ﷺ نے شکایت کرنے والے کی یہ فہمائش کی کہ وہ علم دین سیکھنے کے لیے میرے پاس رہتا ہے ، اس لیے یہ سمجھو کہ تم کو جو تمہاری کمائی سے روزی ملتی ہے اس میں اس کی برکت بھی شامل ہے ، اس لیے تم گھمنڈ میں مت مبتلا ہوجاؤ ، واضح رہے کہ دوسرا بھائی یونہی بیکار نہیں بیٹھا رہتا تھا ، یا یونہی کام چوری نہیں کرتا تھا ، علم دین کی تحصیل میں مشغول رہتا تھا ، اس لیے اس حدیث سے بےکاری اور کام چوری کی دلیل نہیں نکالی جاسکتی ، بلکہ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اللہ کے راستہ میں لگنے والوں کی تائید اور معاونت دیگر اہل خانہ کیا کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5308) ، الصحيحة (2769) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2345

【52】

دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں

عبیداللہ بن محصن خطمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جس نے بھی صبح کی اس حال میں کہ وہ اپنے گھر یا قوم میں امن سے ہو اور جسمانی لحاظ سے بالکل تندرست ہو اور دن بھر کی روزی اس کے پاس موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ دی گئی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف مروان بن معاویہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اور «حيزت» کا مطلب یہ ہے کہ جمع کی گئی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٩ (٤١٤١) (تحفة الأشراف : ٩٧٣٩) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4141) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2346 اس سند سے بھی عبیداللہ بن محصن خطمی (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اس باب میں ابوالدرداء (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن ) وضاحت : ؎ : مفہوم یہ ہے کہ امن و صحت کے ساتھ ایک دن کی روزی والی زندگی دولت کے انبار والی اس زندگی سے کہیں بہتر ہے جو امن و صحت والی نہ ہو، گویا انسان کو مال و دولت کے پیچھے زیادہ نہیں بھاگنا چاہیے بلکہ صبر و قناعت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ امن و سکون اور راحت و آسائش اسی میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4141) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2346

【53】

گزارے کے لائق روزی پر صبر کرنا

ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے دوستوں میں میرے نزدیک سب سے زیادہ رشک کرنے کے لائق وہ مومن ہے جو مال اور اولاد سے ہلکا پھلکا ہو، نماز میں جسے راحت ملتی ہو، اپنے رب کی عبادت اچھے ڈھنگ سے کرنے والا ہو، اور خلوت میں بھی اس کا مطیع و فرماں بردار رہا ہو، لوگوں کے درمیان ایسی گمنامی کی زندگی گزار رہا ہو کہ انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا جاتا، اور اس کا رزق بقدر «کفاف» ہو پھر بھی اس پر صابر رہے، پھر آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا اور فرمایا : جلدی اس کی موت آئے تاکہ اس پر رونے والیاں تھوڑی ہوں اور اس کی میراث کم ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٩٠٩) (ضعیف) (یہ سند معروف ترین ضعیف سندوں میں سے ہے، عبیداللہ بن زحرعن علی بن یزید عن القاسم سب ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : تراجع الالبانی ٣٦٤ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5189 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (1397) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2347

【54】

گزارے کے لائق روزی پر صبر کرنا

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اسلام قبول کیا اور بقدر «کفاف» اسے روزی حاصل ہوئی اور اللہ نے اسے (اپنے دئیے ہوئے پر) «قانع» بنادیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٤٣ (١٠٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٩ (٤١٣٨) (تحفة الأشراف : ٨٨٤٨) ، و مسند احمد (٢/١٦٨، ١٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آخرت کی کامیابی کا دارومدار صرف اور صرف اسلام ہے ، اگر بدقسمتی سے کسی کا دامن دولت اسلام سے خالی رہا تو دنیا بھر کے خزانے اسے اخروی کامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتے ، اسی طرح بقدر ضرورت اور برابر سرابر والی زندگی میں جو امن و سکون میسر ہے وہ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی خواہش رکھنے والے انسان کو کبھی حاصل نہیں ہوسکتی ، گویا بقدر کفاف روزی کے ساتھ قناعت و استغنا کامل جانا امن و سکون کی ضمانت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4138) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2348

【55】

گزارے کے لائق روزی پر صبر کرنا

فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : مبارکبادی ہو اس شخص کو جسے اسلام کی ہدایت ملی اور اسے بقدر «کفاف» روزی ملی پھر وہ اسی پر قانع و مطمئن رہا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابوہانی کا نام حمید بن ہانی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ١١٠٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 11) ، الصحيحة (1506) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2349

【56】

فقر کی فضیلت کے بارے میں

عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا : جو کہہ رہے ہو اس کے بارے میں سوچ سمجھ لو ، اس نے پھر کہا : اللہ کی قسم ! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا : جو کہہ رہے ہو اس کے بارے میں سوچ سمجھ لو ، اس نے پھر کہا : اللہ کی قسم ! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، اسی طرح تین دفعہ کہا تو آپ نے فرمایا : اگر تم مجھ سے واقعی محبت کرتے ہو تو فقر و محتاجی کا ٹاٹ تیار رکھو اس لیے کہ جو شخص مجھے دوست بنانا چاہتا ہے اس کی طرف فقر اتنی تیزی سے جاتا ہے کہ اتنا تیز سیلاب کا پانی بھی اپنے بہاؤ کے رخ پر نہیں جاتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٦٤٧) (ضعیف) (سند میں ” جابر بن عمرو ابو الوازع “ وہم کے شکار ہوجایا کرتے تھے، اور اسی لیے یہ منکر حدیث روایت کردی، دیکھیے الضعیفہ رقم : ١٦٨١ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1681) // ضعيف الجامع الصغير (1297) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2350

【57】

اس بارے میں کہ فقرا مہاجرین امرا سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہاجر فقراء جنت میں مالدار مہاجر سے پانچ سو سال پہلے داخل ہوں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٦ (٤١٢٣) (تحفة الأشراف : ٤٢٠٧) (صحیح) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یہ اس لیے کہ غریب مہاجر کے پاس چونکہ مال کم تھا ، اس لیے انہیں حساب و کتاب میں زیادہ تاخیر نہیں ہوگی ، جب کہ مالدار مہاجرین کو مال کے حساب میں بہت تاخیر ہوگی ، اس سے غریب کی فضیلت معلوم ہوئی۔ آخرت کا آدھا دن دنیا کے پانچ سو سال کے برابر ہوگا ، اس لحاظ سے جس حدیث میں آدھے دن کا ذکر ہے اس سے آخرت کا آدھا دن مراد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4123) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2351

【58】

اس بارے میں کہ فقرا مہاجرین امرا سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے

انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی : «اللهم أحيني مسكينا وأمتني مسكينا واحشرني في زمرة المساکين يوم القيامة» یا اللہ ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں وفات دے اور قیامت کے روز مسکینوں کے زمرے میں اٹھا ، ام المؤمنین عائشہ (رض) نے دریافت کیا اللہ کے رسول ! ایسا کیوں ؟ آپ نے فرمایا : اس لیے کہ مساکین جنت میں اغنیاء سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے، لہٰذا اے عائشہ کسی بھی مسکین کو دروازے سے واپس نہ کرو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی سہی، عائشہ ! مسکینوں سے محبت کرو اور ان سے قربت اختیار کرو، بیشک اللہ تعالیٰ تم کو روز قیامت اپنے سے قریب کرے گا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥١٩) (صحیح ) وضاحت : ٢ ؎ : اس حدیث میں تواضع کے اپنانے اور کبر و نخوت سے دور رہنے کی ترغیب ہے ، ساتھ ہی فقراء مساکین سے محبت اور ان سے قربت اختیار کرنے کی تعلیم ہے۔ قال الشيخ الألباني : (حديث أنس : اللهم أحيني ... ) صحيح، (من أول قول عائشة : لم يا رسول الله ؟ قال : إنهم يدخلون .... ) ضعيف جدا (حديث أنس : اللهم أحيني ... ) ، ابن ماجة (4126) // صحيح سنن ابن ماجة باختصار السند برقم (3328) //، (من أول قول عائشة : لم يا رسول الله ؟ .... ) ، الإرواء (3 / 359) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (861) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2352

【59】

اس بارے میں کہ فقرا مہاجرین امرا سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فقراء جنت میں مالداروں سے پانچ سو برس پہلے داخل ہوں گے اور یہ قیامت کے آدھا دن کے برابر ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٦ (٤١٢٢) (تحفة الأشراف : ١٥٠٢٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں پانچ سو سال کا ذکر ہے ، جب کہ اس سے پہلے والی حدیث میں چالیس سال کا ذکر ہے ، مدت میں فرق فقراء کے درجات و مراتب میں فرق کے لحاظ سے ہے ، معلوم ہوا کہ کچھ فقراء اپنے مراتب و درجات کے لحاظ سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے جب کہ کچھ فقراء چالیس سال پہلے جائیں گے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (4122) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2353

【60】

اس بارے میں کہ فقرا مہاجرین امرا سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فقیر و محتاج مسلمان جنت میں مالداروں سے آدھا دن پہلے داخل ہوں گے اور یہ آدھا دن پانچ سو برس کے برابر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ١٥٠٣٩) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح انظر الحديث (2472) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2354

【61】

اس بارے میں کہ فقرا مہاجرین امرا سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : فقیر و محتاج مسلمان جنت میں مالداروں سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢٥٠٣) ، وانظر مسند احمد (٣/٣٢٤) (صحیح) (فقراء المہاجرین کے لفظ سے صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح بلفظ : ... فقراء المهاجرين ... // ضعيف الجامع الصغير (6423) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2355

【62】

رسول اللہ ﷺ اور آپ کے گھر والوں کا رہن سہن

مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ہمارے لیے کھانا طلب کیا اور کہا کہ میں کسی کھانے سے سیر نہیں ہوتی ہوں کہ رونا چاہتی ہوں پھر رونے لگتی ہوں۔ میں نے سوال کیا : ایسا کیوں ؟ عائشہ (رض) نے کہا : میں اس حالت کو یاد کرتی ہوں جس پر رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوا، اللہ کی قسم ! آپ روٹی اور گوشت سے ایک دن میں دو بار کبھی سیر نہیں ہوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر مایأتي بعدہ (تحفة الأشراف : ١٧٦٢٧) (ضعیف) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف ہیں، اگلی روایت صحیح ہے جس کا سیاق اس حدیث کے سیاق سے قدرے مختلف ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (4 / 109) ، مختصر الشمائل (128) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2356

【63】

رسول اللہ ﷺ اور آپ کے گھر والوں کا رہن سہن

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو روز متواتر جو کی روٹی کبھی سیر ہو کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ وفات پا گئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٤٩ (٣٣٤٦) (تحفة الأشراف : ١٦٠١٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (123) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2357

【64】

رسول اللہ ﷺ اور آپ کے گھر والوں کا رہن سہن

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اہل خانہ نے مسلسل تین دن تک گیہوں کی روٹی سیر ہو کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ رحلت فرما گئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٢٣ (٥٤١٤) نحوہ) ، صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٤٨ (٣٣٤٣) (تحفة الأشراف : ١٣٤٤٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3343) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2358

【65】

رسول اللہ ﷺ اور آپ کے گھر والوں کا رہن سہن

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے گھر سے جو کی روٹی (اہل خانہ کی) ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - یحییٰ بن ابی بکیر کوفی ہیں، ابوبکیر جو یحییٰ کے والد ہیں سفیان ثوری نے ان کی حدیث روایت کی ہے، ٣ - یحییٰ بن عبداللہ بن بکیر مصری ہیں اور لیث کے شاگرد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٨٧٠) ، وانظر مسند احمد (٥/٢٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی گھر میں آٹے کی مقدار اتنی کم ہوتی تھی کہ اس سے بمشکل آپ کے گھر والوں کی ضرورت پوری ہوتی ، کیونکہ یہ لوگ دوسروں کو ہمیشہ اپنے پر ترجیح دیتے تھے اور «ويؤثرون علی أنفسهم ولو کان بهم خصاصة» (الحشر : ٩ ) کا کامل نمونہ تھے ، بقدر کفاف زندگی گزارنا پسند کرتے تھے ، اسی لیے جو کی روٹی بھی ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (124) ، التعليق الرغيب (4 / 110) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2359

【66】

رسول اللہ ﷺ اور آپ کے گھر والوں کا رہن سہن

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے گھر والے مسلسل کئی راتیں خالی پیٹ گزار دیتے، اور رات کا کھانا نہیں پاتے تھے۔ اور ان کی اکثر خوراک جو کی روٹی ہوتی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٤٩ (٣٣٤٧) (تحفة الأشراف : ٦٢٣٣) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (3347) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2360

【67】

رسول اللہ ﷺ اور آپ کے گھر والوں کا رہن سہن

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا کی «اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا» اے اللہ ! محمد ﷺ کے گھر والوں کو صرف اتنی روزی دے جس سے ان کے جسم کا رشتہ برقرار رہ سکے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٧ (٦٤٦٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤٣ (١٠٥٥) ، والزہد ١ (١٠٥٥/١٨) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٩ (٤١٣٦) (تحفة الأشراف : ١٤٨٩٨) ، و مسند احمد (٢/٢٣٢، ٤٤٦، ٤٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آپ ﷺ ایسی زندگی گزارنا پسند کرتے تھے جو دنیوی آلائشوں اور آرام و آسائش سے پاک ہو ، کیونکہ بعثت نبوی کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ لوگوں کو دنیا کے ہنگاموں ، مشاغل اور زیب و زینت سے ہٹا کر آخرت کی طرف متوجہ کریں ، اسی لیے آپ ﷺ نے اپنے اور اپنے گھر والوں کے حق میں مذکورہ دعا فرمائی ، آپ کی اس دعا سے علماء اور داعیان اسلام کو نصیحت حاصل کرنا چاہیئے کہ ہماری زندگی سادگی کا نمونہ اور دنیاوی تکلفات سے پاک ہو ، اگر اللہ ہمیں مال و دولت سے نوازے تو مالدار صحابہ کرام کا کردار ہمارے پیش نظر ہونا چاہیئے تاہم مال و دولت کا زیادہ سے زیادہ حصول ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہیئے اور نہ اس کے لیے ہر قسم کا حربہ و ہتھکنڈہ استعمال کرنا چاہیئے خواہ اس حربے اور ہتھکنڈے کا استعمال کسی دینی کام کے آڑ میں ہی کیوں نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4136) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2361

【68】

رسول اللہ ﷺ اور آپ کے گھر والوں کا رہن سہن

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ آنے والے کل کے لیے کچھ نہیں رکھ چھوڑتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - یہ حدیث «عن جعفر بن سليمان عن ثابت عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے مرسلا بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (304) ، التعليق الرغيب (2 / 42) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2362

【69】

رسول اللہ ﷺ اور آپ کے گھر والوں کا رہن سہن

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چوکی (یا میز) پر کھانا کبھی نہیں کھایا اور نہ ہی کبھی باریک آٹے کی روٹی کھائی یہاں تک کہ دنیا سے کوچ کر گئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث سعید بن ابی عروبہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٧٨٨ (تحفة الأشراف : ١١٧٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3292 و 3293) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2363

【70】

رسول اللہ ﷺ اور آپ کے گھر والوں کا رہن سہن

سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا : کیا رسول اللہ ﷺ نے کبھی میدہ کی روٹی کھائی ہے ؟ سہل نے جواب دیا : رسول اللہ ﷺ نے میدہ کی روٹی دیکھی بھی نہیں یہاں تک کہ رحلت فرما گئے۔ پھر ان سے پوچھا گیا : کیا آپ لوگوں کے پاس عہد نبوی میں چھلنی تھی ؟ کہا ہم لوگوں کے پاس چھلنی نہیں تھی۔ پھر ان سے پوچھا گیا کہ آپ لوگ جو کے آٹے کو کیسے صاف کرتے تھے ؟ تو کہا : پہلے ہم اس میں پھونکیں مارتے تھے تو جو اڑنا ہوتا وہ اڑ جاتا تھا پھر ہم اس میں پانی ڈال کر اسے گوندھ لیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس حدیث کو مالک بن انس نے بھی ابوحازم سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٢٣ (٥٤١٣) (وانظر أیضا : ٥٤١٠) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٤٤ (٣٣٣٥) (تحفة الأشراف : ٤٧٠٤) ، و مسند احمد (٥/٣٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3335) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2364

【71】

صحابہ کرام کے رہن سہن کے بارے میں

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ میں پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں خون بہایا (یعنی کافر کو قتل کیا) اور میں پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر پھینکا، میں نے اپنے آپ کو محمد ﷺ کے ساتھیوں کی ایک جماعت کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے دیکھا ہے، کھانے کے لیے ہم درختوں کے پتے اور «حبلہ» (خاردار درخت کے پھل) کے علاوہ اور کچھ نہیں پاتے تھے، یہاں تک کہ ہم لوگ بکریوں اور اونٹوں کی طرح قضائے حاجت میں مینگنیاں نکالتے تھے، اور قبیلہ بنی اسد کے لوگ مجھے دین کے سلسلے میں طعن و تشنیع کرتے ہیں، اگر میں اسی لائق ہوں تو بڑا ہی محروم ہوں اور میرے تمام اعمال ضائع و برباد ہوگئے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ١٥ (٣٨٢٨) ، والأطعمة ٢٣ (٥٤١٢) ، والرقاق ١٧ (٦٤٥٣) ، صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٦٦) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٣١) (تحفة الأشراف : ٣٩١٣) ، و مسند احمد (١/١٧٤، ١٨١، ١٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سعد (رض) نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب بعض جاہل لوگوں نے آپ پر چند الزامات لگائے تھے ، ان الزامات میں سے ایک الزام یہ بھی تھا کہ آپ کو ٹھیک سے نماز پڑھنا نہیں آتی ، یہ آپ کے کوفہ کے گورنری کے وقت کی بات ہے ، اور شکایت خلیفہ وقت عمر فاروق (رض) سے کی گئی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (114) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2365

【72】

صحابہ کرام کے رہن سہن کے بارے میں

سعد بن مالک (ابی وقاص) (رض) کہتے ہیں کہ میں عرب کا پہلا شخص ہوں جس نے راہ خدا میں تیر پھینکا، اور ہم نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد کرتے وقت دیکھا ہے کہ ہمارے پاس خاردار درختوں کے پھل اور کیکر کے درخت کے علاوہ کھانے کے لیے کچھ نہ تھا یہاں تک کہ ہم لوگ قضائے حاجت میں بکریوں کی طرح مینگنیاں نکالا کرتے تھے ١ ؎، اور اب قبیلہ بنی اسد کے لوگ مجھے دین کے سلسلے میں ملامت کرنے لگے ہیں، اگر میں اسی لائق ہوں تو بڑا ہی محروم ہوں اور میرے اعمال ضائع ہوگئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عتبہ بن غزوان سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ جہاد جیسے افضل عمل کو انجام دیتے وقت ہماری تنگی کا یہ حال تھا کہ ہم جنگلی درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہوجاتے تھے ، کیونکہ وسائل کی کمی کے باعث اتنا سامان خوراک ساتھ نہیں ہوتا تھا جو اختتام تک کفایت کرتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2365) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2366

【73】

صحابہ کرام کے رہن سہن کے بارے میں

محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ ہم ابوہریرہ (رض) کی خدمت میں موجود تھے، آپ کے پاس گیرو سے رنگے ہوئے دو کتان کے کپڑے تھے، انہوں نے ایک کپڑے میں ناک پونچھی اور کہا : واہ واہ، ابوہریرہ ! کتان میں ناک پونچھتا ہے، حالانکہ ایک وہ زمانہ بھی تھا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے، اور حجرہ عائشہ (رض) کے درمیان بھوک کی شدت کی وجہ سے بیہوش ہو کر گرپڑتا تو کوئی آنے والا آتا اور میری گردن پر اپنا پاؤں رکھ دیتا اور سمجھتا کہ میں پاگل ہوں، حالانکہ میں پاگل نہیں ہوتا تھا ایسا صرف بھوک کی شدت کی وجہ سے ہوتا تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اور اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتصام ١٦ (٧٣٢٤) (تحفة الأشراف : ١٤٤١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ انتہائی تنگی کی زندگی گزارنے کے باوجود صحابہ کرام بےانتہا خوددار ، صابر اور قانع تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2367

【74】

صحابہ کرام کے رہن سہن کے بارے میں

فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب لوگوں کو نماز پڑھاتے تو صف میں کھڑے بہت سے لوگ بھوک کی شدت کی وجہ سے گرپڑتے تھے، یہ لوگ اصحاب صفہ تھے، یہاں تک کہ اعراب (دیہاتی لوگ) کہتے کہ یہ سب پاگل اور مجنون ہیں، پھر رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو ان کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے : اگر تم لوگوں کو اللہ کے نزدیک اپنا مرتبہ معلوم ہوجائے تو تم اس سے کہیں زیادہ فقر و فاقہ اور حاجت کو پسند کرتے ١ ؎، فضالہ (رض) کہتے ہیں : میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٠٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اصحاب صفہ کس قدر تنگی اور فقر و فاقہ کی حالت میں تھے ، پھر بھی ان کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے صبر و قناعت کی زندگی گزارتے تھے ، یہ بھی معلوم ہوا کہ دینی علوم کے سیکھنے کے لیے ایسی جگہوں کا انتخاب کرنا چاہیئے جہاں تعلیمی و تربیتی معیار اچھا ہو چاہے کھانے پینے کی سہولتوں کی کمی ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ اصحاب صفہ کی زندگی سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (4 / 120) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2368

【75】

صحابہ کرام کے رہن سہن کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ خلاف معمول ایسے وقت میں گھر سے نکلے کہ جب آپ نہیں نکلتے تھے اور نہ اس وقت آپ سے کوئی ملاقات کرتا تھا، پھر آپ کے پاس ابوبکر (رض) پہنچے تو آپ نے پوچھا : ابوبکر تم یہاں کیسے آئے ؟ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں اس لیے نکلا تاکہ آپ سے ملاقات کروں اور آپ کے چہرہ انور کو دیکھوں اور آپ پر سلام پیش کروں، کچھ وقفے کے بعد عمر (رض) بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا : عمر ! تم یہاں کیسے آئے ؟ اس پر انہوں نے بھوک کی شکایت کی، آپ نے فرمایا : مجھے بھی کچھ بھوک لگی ہے ١ ؎، پھر سب مل کر ابوالہیشم بن تیہان انصاری کے گھر پہنچے، ان کے پاس بہت زیادہ کھجور کے درخت اور بکریاں تھیں مگر ان کا کوئی خادم نہیں تھا، ان لوگوں نے ابوالھیثم کو گھر پر نہیں پایا تو ان کی بیوی سے پوچھا : تمہارے شوہر کہاں ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لانے گئے ہیں، گفتگو ہو رہی تھی کہ اسی دوران ! ابوالہیشم ایک بھری ہوئی مشک لیے آ پہنچے، انہوں نے مشک کو رکھا اور رسول اللہ ﷺ سے لپٹ گئے اور کہا : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، پھر سب کو وہ اپنے باغ میں لے گئے اور ان کے لیے ایک بستر بچھایا پھر کھجور کے درخت کے پاس گئے اور وہاں سے کھجوروں کا گچھا لے کر آئے اور اسے رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھ دیا۔ آپ نے فرمایا : ہمارے لیے اس میں سے تازہ کھجوروں کو چن کر کیوں نہیں لائے ؟ عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے چاہا کہ آپ خود ان میں سے چن لیں، یا یہ کہا کہ آپ حضرات پکی کھجوروں کو کچی کھجوروں میں سے خود پسند کرلیں، بہرحال سب نے کھجور کھائی اور ان کے اس لائے ہوئے پانی کو پیا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یقیناً یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیا جائے گا اور وہ نعمتیں یہ ہیں : باغ کا ٹھنڈا سایہ، پکی ہوئی عمدہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی ، پھر ابوالھیثم اٹھ کھڑے ہوئے تاکہ ان لوگوں کے لیے کھانا تیار کریں تو آپ ﷺ نے ان سے کہا : دودھ والے جانور کو ذبح نہ کرنا ، چناچہ آپ کے حکم کے مطابق انہوں نے بکری کا ایک مادہ بچہ یا نر بچہ ذبح کیا اور اسے پکا کر ان حضرات کے سامنے پیش کیا، ان سبھوں نے اسے کھایا اور پھر آپ نے ابوالھیثم سے پوچھا ؟ کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے ؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا : جب ہمارے پاس کوئی قیدی آئے تو تم ہم سے ملنا ، پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس دو قیدی لائے گئے جن کے ساتھ تیسرا نہیں تھا، ابوالھیثم بھی آئے تو آپ ﷺ نے ان سے کہا کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو پسند کرلو، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ خود ہمارے لیے پسند کر دیجئیے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیشک جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین ہوتا ہے۔ لہٰذا تم اس کو لے لو (ایک غلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کیونکہ ہم نے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور اس غلام کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ، پھر ابوالھیثم اپنی بیوی کے پاس گئے اور رسول اللہ ﷺ کی باتوں سے اسے باخبر کیا، ان کی بیوی نے کہا کہ تم نبی اکرم ﷺ کی وصیت کو پورا نہ کرسکو گے مگر یہ کہ اس غلام کو آزاد کر دو ، اس لیے ابوالھیثم نے فوراً اسے آزاد کردیا، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کسی نبی یا خلیفہ کو نہیں بھیجا ہے مگر اس کے ساتھ دو راز دار ساتھی ہوتے ہیں، ایک اسے بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے، جب کہ دوسرا ساتھی اسے خراب کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا، پس جسے برے ساتھی سے بچا لیا گیا گویا وہ بڑی آفت سے نجات پا گیا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٢٣ (٥١٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٣٧ (٣٧٤٥) (وکلاہما بقولہ : ” المستشار مؤتمن “ ) ویأتي عند المؤلف في الأدب ٥٧ (٢٨٢٢) (تحفة الأشراف : ١٤٩٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کتاب الزہد اور اس باب سے اس حدیث کی مناسبت اسی ٹکڑے میں ہے ، مطلب یہ ہے کہ آپ اور آپ کے صحابہ بھی کھانے کے لیے کچھ نہیں پاتے تھے اور بھوک سے دو چار ہوتے تھے۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کس قدر تنگ دستی کی زندگی گزار رہے تھے ، ایسے احباب کے پاس طلب ضیافت کے لیے جانا جائز ہے جن کی بابت علم ہو کہ وہ اس سے خوش ہوں گے ، اس حدیث میں مہمان کی عزت افزائی اور اس کی آمد پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی ترغیب ہے ، اسی طرح گھر پر شوہر کی عدم موجودگی میں اگر کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو عورت اپنے شوہر کے مہمانوں کا استقبال کرسکتی ، اور انہیں خوش آمدید کہہ سکتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1641) ، مختصر الشمائل (113) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2369

【76】

صحابہ کرام کے رہن سہن کے بارے میں

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے (مرسل) روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر و عمر (رض) گھر سے نکلے، اس کے بعد راوی نے مذکورہ حدیث جیسی حدیث بیان کی، لیکن اس میں ابوہریرہ کا ذکر نہیں کیا، شیبان کی (سابقہ) حدیث ابو عوانہ کی (اس) حدیث سے زیادہ مکمل اور زیادہ طویل ہے، شیبان محدثین کے نزدیک ثقہ اور صاحب کتاب ہیں ١ ؎، ابوہریرہ (رض) سے یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی مروی ہے، اور یہ حدیث ابن عباس سے بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کے پاس احادیث کا لکھا ہوا مجموعہ بھی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2369) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2370

【77】

صحابہ کرام کے رہن سہن کے بارے میں

ابوطلحہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے (جنگ خندق کے دوران) رسول اللہ ﷺ سے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھایا جن پر ایک ایک پتھر بندھا ہوا تھا سو آپ نے اپنے مبارک پیٹ سے کپڑا اٹھایا تو اس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٧٧٣) (ضعیف) (سند میں سیار بن حاتم وہم کے شکار ہوجایا کرتے تھے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف مختصر الشمائل (112) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2371

【78】

صحابہ کرام کے رہن سہن کے بارے میں

نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ تم لوگ جو چاہتے ہو کھاتے پیتے ہو حالانکہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو اس حال میں دیکھا کہ ردی کھجوریں بھی اس مقدار میں آپ کو میسر نہ تھیں جن سے آپ اپنا پیٹ بھرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٧٧) (تحفة الأشراف : ١١٦٢١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (110) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2372 ابو عوانہ اور ان کے علاوہ کئی لوگوں نے سماک بن حرب سے ابوالاحوص کی حدیث کی طرح روایت کی ہے، شعبہ نے یہ حدیث «عن سماک عن النعمان بن بشير عن عمر» کی سند سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (110) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2372

【79】

غناء درحقیقت دل سے ہوتا ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مالداری ساز و سامان کی کثرت کا نام نہیں ہے، بلکہ اصل مالداری نفس کی مالداری ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٥ (٦٤٤٦) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤٠ (١٠٥١) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٩ (٤١٣٧) (تحفة الأشراف : ١٢٨٤٥) ، وحإ (٢/٢٤٣، ٢٦١، ٣١٥، ٣٩٠، ٤٣٨، ٤٤٣، ٥٣٩، ٥٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : انسان کے پاس جو کچھ ہے اسی پر صابر و قانع رہ کر دوسروں سے بےنیاز رہنا اور ان سے کچھ نہ طلب کرنا درحقیقت یہی نفس کی مالداری ہے ، گویا بندہ اللہ کی تقسیم پر راضی رہے ، دوسروں کے مال و دولت کو للچائی ہوئی نظر سے نہ دیکھے اور زیادتی کی حرص نہ رکھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4137) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2373

【80】

حق کے ساتھ مال لینے کے متعلق

حمزہ بن عبدالمطلب کی بیوی خولہ بنت قیس (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے ١ ؎ جس نے اسے حلال طریقے سے حاصل کیا اس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور کتنے ایسے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مال کو حرام و ناجائز طریقہ سے حاصل کرنے والے ہیں ان کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ تیار ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥٨٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مال سے مراد دنیا ہے ، یعنی دنیا بےانتہا میٹھی ، ہری بھری ، اور دل کو لبھانے والی ہے ، زبان اور نگاہ سب کی لذت کی جامع ہے ، اس لیے اس کے حصول کے لیے حرام طریقہ سے بچ کر صرف حلال طریقہ اپنانا چاہیئے ، کیونکہ حلال طریقہ اپنانے والے کے لیے جنت اور حرام طریقہ اپنانے والے کے لیے جہنم ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1592) ، المشکاة (4017 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2374

【81】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دینار کا بندہ ملعون ہے، درہم کا بندہ ملعون ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - یہ حدیث اس سند کے علاوہ «عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے مروی ہے اور یہ بھی سند اس سے زیادہ مکمل اور طویل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٢٤٨) (ضعیف) (سند میں حسن بصری مدلس ہیں، اور ابوہریرہ (رض) سے ان کا سماع بھی نہیں ہے، اور روایت عنعنہ سے ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5180 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (4695) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2375

【82】

کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو بھوکے بھیڑیئے جنہیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے اتنا نقصان نہیں پہنچائیں گے جتنا نقصان آدمی کے مال و جاہ کی حرص اس کے دین کو پہنچاتی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے، اور وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١١٣٦) ، وانظر : مسند احمد (٣/٤٥٦، ٤٦٠) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٢١ (٢٧٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال و جاہ کی محبت اور حرص جس کے اندر آ گئی وہ ہلاکتوں سے اپنا دامن نہیں بچا سکتا ، بدقسمتی سے آج امت اسی فتنہ سے دو چار ہے اور اس کی تباہی کا یہ عالم ہے کہ جس انتشار اور شدید اختلافات کا یہ امت اور اس کی دینی جماعتیں شکار ہیں ان کے اسباب میں بھی مال وجاہ کی محبت سر فہرست ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (5 - 7) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2376

【83】

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک چٹائی پر سو گئے، نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کے پہلو پر چٹائی کا نشان پڑگیا تھا، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم آپ کے لیے ایک بچھونا بنادیں تو بہتر ہوگا، آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے دنیا سے کیا مطلب ہے، میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سوار ہو جو ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے بیٹھے، پھر وہاں سے کوچ کر جائے اور درخت کو اسی جگہ چھوڑ دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣ (٤١٠٩) (تحفة الأشراف : ٩٤٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4109) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2377

【84】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٩ (٤٨٣٣) (تحفة الأشراف : ١٤٦٢٥) ، و مسند احمد (٢/٣٠٣، ٣٣٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ اچھے انسان کی صحبت سے اچھائی اور برے انسان کی صحبت سے برائی حاصل ہوتی ہے ، اس لیے کسی سے دوستی کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ دوست دیندار ہو ورنہ بری صحبت تباہی کا باعث ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (927) ، المشکاة (5019) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2378

【85】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مردے کے ساتھ قبر تک تین چیزیں جاتی ہیں، پھر دو چیزیں لوٹ آتی ہیں اور ساتھ میں ایک باقی رہ جاتی ہے، اس کے رشتہ دار، اس کا مال اور اس کے اعمال ساتھ میں جاتے ہیں پھر رشتہ دار، اور مال لوٹ آتے ہیں اور صرف اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤٢ (٦٥١٤) ، صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٦٠) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٢ (١٩٣٩) (تحفة الأشراف : ٩٥٠) ، و مسند احمد (٣/١١٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2379

【86】

اس بارے میں میں کہ زیادہ کھانا مکروہ ہے

مقدام بن معدیکرب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برا نہیں بھرا، آدمی کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں اور اگر زیادہ ہی کھانا ضروری ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٥٠ (٣٣٤٩) (تحفة الأشراف : ١١٥٧٥) ، و مسند احمد (٤/١٣٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں زیادہ کھانے کی ممانعت ہے اور کم کھانے کی ترغیب ہے ، اس میں کوئی شک نہیں اور حکماء و اطباء کا اس پر اتفاق ہے کہ کم خوری صحت کے لیے مفید ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3349) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2380 اس حدیث کو ہم سے حسن بن عرفہ نے بیان کیا وہ کہتے ہیں : ہم سے اسماعیل بن عیاش نے اسی جیسی حدیث بیان کی، اور سند یوں بیان کی «لمقدام بن معدي كرب عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اس میں انہوں نے «سمعت النبي صلی اللہ عليه وسلم» کا ذکر نہیں کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3349) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2380

【87】

ریا کاری اور شہرت کے متعلق

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو ریاکاری کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے لوگوں کے سامنے ظاہر کر دے گا، اور جو اللہ کی عبادت شہرت کے لیے کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے رسوا و ذلیل کرے گا ، فرمایا : جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اس پر اللہ تعالیٰ بھی رحم نہیں کرتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں جندب اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢١ (٤٢٠٦) (تحفة الأشراف : ٤٢٢٠) ، و مسند احمد (٣/٤٠) (صحیح) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4206) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2381

【88】

ریا کاری اور شہرت کے متعلق

عقبہ بن مسلم سے شفیا اصبحی نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ وہ مدینہ میں داخل ہوئے، اچانک ایک آدمی کو دیکھا جس کے پاس کچھ لوگ جمع تھے، انہوں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ لوگوں نے جواباً عرض کیا : یہ ابوہریرہ (رض) ہیں، شفیا اصبحی کا بیان ہے کہ میں ان کے قریب ہوا یہاں تک کہ ان کے سامنے بیٹھ گیا اور وہ لوگوں سے حدیث بیان کر رہے تھے، جب وہ حدیث بیان کرچکے اور تنہا رہ گئے تو میں نے ان سے کہا : میں آپ سے اللہ کا باربار واسطہ دے کر پوچھ رہا ہوں کہ آپ مجھ سے ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہو اور اسے اچھی طرح جانا اور سمجھا ہو۔ ابوہریرہ (رض) نے فرمایا : ٹھیک ہے، یقیناً میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں گا جسے مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا ہے اور میں نے اسے اچھی طرح جانا اور سمجھا ہے۔ پھر ابوہریرہ نے زور کی چیخ ماری اور بیہوش ہوگئے، تھوڑی دیر بعد جب افاقہ ہوا تو فرمایا : یقیناً میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جسے رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے اسی گھر میں بیان کیا تھا جہاں میرے سوا کوئی نہیں تھا، پھر دوبارہ ابوہریرہ نے چیخ ماری اور بیہوش ہوگئے، پھر جب افاقہ ہوا تو اپنے چہرے کو پونچھا اور فرمایا : ضرور میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جسے رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے بیان کیا ہے اور اس گھر میں میرے اور آپ کے سوا کوئی نہیں تھا، پھر ابوہریرہ نے زور کی چیخ ماری اور بیہوش ہوگئے، اپنے چہرے کو پونچھا اور پھر جب افاقہ ہوا تو فرمایا : ضرور میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جسے رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے بیان کیا ہے اور اس گھر میں میرے اور آپ کے سوا کوئی نہیں تھا، پھر ابوہریرہ نے زور کی چیخ ماری اور بیہوش ہو کر منہ کے بل زمین پر گرپڑے، میں نے بڑی دیر تک انہیں اپنا سہارا دیئے رکھا پھر جب افاقہ ہوا تو فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی ہے : قیامت کے دن جب ہر امت گھٹنوں کے بل پڑی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کے لیے نزول فرمائے گا، پھر اس وقت فیصلہ کے لیے سب سے پہلے ایسے شخص کو بلایا جائے گا جو قرآن کا حافظ ہوگا، دوسرا شہید ہوگا اور تیسرا مالدار ہوگا، اللہ تعالیٰ حافظ قرآن سے کہے گا : کیا میں نے تجھے اپنے رسول پر نازل کردہ کتاب کی تعلیم نہیں دی تھی ؟ وہ کہے گا : یقیناً اے میرے رب ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو علم تجھے سکھایا گیا اس کے مطابق تو نے کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا : میں اس قرآن کے ذریعے راتوں دن تیری عبادت کرتا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ تو نے جھوٹ کہا، پھر اللہ تعالیٰ کہے گا : (قرآن سیکھنے سے) تیرا مقصد یہ تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں، سو تجھے کہا گیا، پھر صاحب مال کو پیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا : کیا میں نے تجھے ہر چیز کی وسعت نہ دے رکھی تھی، یہاں تک کہ تجھے کسی کا محتاج نہیں رکھا ؟ وہ عرض کرے گا : یقیناً میرے رب ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں نے تجھے جو چیزیں دی تھیں اس میں کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا : صلہ رحمی کرتا تھا اور صدقہ و خیرات کرتا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی اسے جھٹلائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : بلکہ تم یہ چاہتے تھے کہ تمہیں سخی کہا جائے، سو تمہیں سخی کہا گیا، اس کے بعد شہید کو پیش کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا : تجھے کس لیے قتل کیا گیا ؟ وہ عرض کرے گا : مجھے تیری راہ میں جہاد کا حکم دیا گیا چناچہ میں نے جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہوگیا، اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا : تو نے جھوٹ کہا، فرشتے بھی اسے جھٹلائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تیرا مقصد یہ تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے سو تجھے کہا گیا ، پھر رسول اللہ ﷺ نے میرے زانو پر اپنا ہاتھ مار کر فرمایا : ابوہریرہ ! یہی وہ پہلے تین شخص ہیں جن سے قیامت کے دن جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ولید ابوعثمان کہتے ہیں : عقبہ بن مسلم نے مجھے خبر دی کہ شفیا اصبحی ہی نے معاویہ (رض) کے پاس جا کر انہیں اس حدیث سے باخبر کیا تھا۔ ابوعثمان کہتے ہیں : علاء بن ابی حکیم نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ معاویہ (رض) کے جلاد تھے، پھر معاویہ کے پاس ایک آدمی پہنچا اور ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے اس حدیث سے انہیں باخبر کیا تو معاویہ نے کہا : ان تینوں کے ساتھ ایسا معاملہ ہوا تو باقی لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا، یہ کہہ کر معاویہ زار و قطار رونے لگے یہاں تک کہ ہم نے سمجھا کہ وہ زندہ نہیں بچیں گے، اور ہم لوگوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ یہ شخص شر لے کر آیا ہے، پھر جب معاویہ (رض) کو افاقہ ہوا تو انہوں نے اپنے چہرے کو صاف کیا اور فرمایا : یقیناً اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا ہے اور اس آیت کریمہ کی تلاوت کی «من کان يريد الحياة الدنيا وزينتها نوف إليهم أعمالهم فيها وهم فيها لا يبخسون أولئك الذين ليس لهم في الآخرة إلا النار وحبط ما صنعوا فيها وباطل ما کانوا يعملون» جو شخص دنیاوی زندگی اور اس کی زیب و زینت کو چاہے گا تو ہم دنیا ہی میں اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے دیں گے اور کوئی کمی نہیں کریں گے، یہ وہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں جہنم کے علاوہ اور کوئی حصہ نہیں ہے اور دنیا کے اندر ہی ان کے سارے اعمال ضائع اور باطل ہوگئے (سورۃ ہود : ١٦ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٤٩٣) ، وأخرج نحوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٤٣ (١٩٠٥) ، سنن النسائی/الجھاد ٢٢ (٣١٣٩) ، و مسند احمد (٢/٣٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (1 / 29 - 30) ، التعليق علی بن خزيمة (2482) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2382

【89】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «جب الحزن» (غم کی وادی) سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو ، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! «جب الحزن» کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا : جہنم کی ایک وادی ہے جس سے جہنم بھی ہر روز سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے ، پھر صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس میں کون لوگ داخل ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : ریاکار قراء (اس میں داخل ہوں گے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢٣ (٢٥٦) (تحفة الأشراف : ١٤٥٨٦) (ضعیف) (سند میں ” ابو معان “ یا ” ابو معاذ “ مجہول راوی ہے، اور ” عمار بن سیف “ ضعیف الحدیث، ابوہریرہ (رض) سے اس کا دوسرا طریق بھی ضعیف ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے : الضعیفة رقم : ٥٠٢٣، و ٥١٥٢ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (256) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (52) أتم من هنا وفي نسخة القراء ، المشکاة (275) ، ضعيف الجامع الصغير (2460) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2383

【90】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آدمی نیک عمل کرتا ہے پھر اسے چھپاتا ہے لیکن جب لوگوں کو اس کی اطلاع ہوجاتی ہے تو وہ اسے پسند کرتا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کے لیے دو اجر ہیں ایک نیکی کے چھپانے کا اور دوسرا اس کے ظاہر ہوجانے کا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ٢ - اعمش وغیرہ نے اس حدیث کو «حبيب بن أبي ثابت عن أبي صالح عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے مرسلاً روایت کیا ہے، اور اعمش کے شاگردوں نے اس میں «عن أبي هريرة» کا ذکر نہیں کیا، ٣ - بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا : اس کے نیک عمل کے ظاہر ہوجانے پر لوگوں کے پسند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی تعریف اور ثناء خیر کو وہ پسند کرتا ہے اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہو ، یقیناً اسے لوگوں کی تعریف پسند آتی ہے کیونکہ اسے لوگوں کی تعریف سے آخرت کے خیر کی امید ہوتی ہے، البتہ اگر کوئی لوگوں کے جان جانے پر اس لیے خوش ہوتا ہے کہ اس کے نیک عمل کو جان کر لوگ اس کی تعظیم و تکریم کریں گے تو یہ ریا و نمود میں داخل ہوجائے گا، ٤ - اور بعض اہل علم نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ لوگوں کے جان جانے پر وہ اس لیے خوش ہوتا ہے کہ نیک عمل میں لوگ اس کی اقتداء کریں گے اور اسے بھی ان کے اعمال میں اجر ملے گا تو یہ خوشی بھی مناسب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٥ (٤٢٢٦) (تحفة الأشراف : ١٢٣١١) (ضعیف) (سند میں سعید بن سنان حافظہ کے کمزور ہیں، اس لیے مرسل روایت کو مرفوع ومتصل بنادیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے : الضعیفة رقم : ٤٣٤٤ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (4226) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (927) صفحة (347) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2384

【91】

آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ وہ صحبت رکھے گا

انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! قیامت کب آئے گی ؟ نبی اکرم ﷺ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : قیامت کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ اس آدمی نے کہا : میں موجود ہوں اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : قیامت کے لیے تم نے کیا تیاری کر رکھی ہے ، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے کوئی زیادہ صوم و صلاۃ اکٹھا نہیں کی ہے (یعنی نوافل وغیرہ) مگر یہ بات ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے محبت کرتا ہے، اور تم بھی اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو ۔ انس کا بیان ہے کہ اسلام لانے کے بعد میں نے مسلمانوں کو اتنا خوش ہوتے نہیں دیکھا جتنا آپ کے اس قول سے وہ سب خوش نظر آ رہے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٦ (٣٦٨٨) ، والأدب ٩٥ (٦١٦٧) ، و ٩٦ (٦١٧١) ، والأحکام ١٠ (٧١٥٣) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٥٠ (٣٦٣٩) (تحفة الأشراف : ٥٨٥) ، و مسند احمد (٣/١٠٤، ١١٠، ١٥٩، ١٦٥، ١٦٧، ١٦٨، ١٧٣، ١٧٨، ١٩٢، ١٩٨، ٢٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (104) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2385

【92】

آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ وہ صحبت رکھے گا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے اور اسے وہی بدلہ ملے گا جو کچھ اس نے کمایا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن بصری کی روایت سے حسن غریب ہے، اور حسن بصری نے انس بن مالک سے اور انس بن مالک نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، ٢ - یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے دوسری سندوں سے بھی مروی ہے، ٣ - اس باب میں علی، عبداللہ بن مسعود، صفوان بن عسال، ابوہریرہ اور ابوموسیٰ اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ٥٣٠) (صحیح) (” أنت مع من أحببت ولک ما اکتسبت “ کے سیاق سے صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح بلفظ : أنت مع من احببت ولک ما احتسبت ، الصحيحة (3253) // ضعيف الجامع الصغير (5923) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2386

【93】

آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ وہ صحبت رکھے گا

صفوان بن عسال (رض) کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی جس کی آواز بہت بھاری تھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اے محمد ! ایک آدمی قوم سے محبت کرتا ہے البتہ وہ ان سے عمل میں پیچھے ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٩٥٢) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، الروض النضير (360) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2387 اس سند سے بھی صفوان بن عسال (رض) سے محمود بن غیلان کی حدیث جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، الروض النضير (360) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2387

【94】

اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھنے کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الدعاء والذکر ٦ (٢٦٧٥) (تحفة الأشراف : ١٤٨٢١) (وراجع أیضا : صحیح البخاری/التوحید ١٥ (٧٤٠٥) ، و ٣٥ (٥٥٣٧) ، وصحیح مسلم/التوبة ١ (٢٦٧٥) ، وماعند المؤلف في الدعوات برقم ٣٦٠٣) ، وسنن ابن ماجہ/الأدب ٥٨ (٣٨٢٢) ، و مسند احمد (٢/٢٥١) ، ٣٩١، ٤١٣، ٤٤٥، ٤٨٠، ٤٨٢، ٥١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کی ترغیب ہے ، لیکن عمل کے بغیر کسی بھی چیز کی امید نہیں کی جاسکتی ہے ، گویا اللہ کا معاملہ بندوں کے ساتھ ان کے عمل کے مطابق ہوگا ، بندے کا عمل اگر اچھا ہے تو اس کے ساتھ اچھا معاملہ اور برے عمل کی صورت میں اس کے ساتھ برا معاملہ ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2388

【95】

نیکی اور بدی کے بارے میں

نواس بن سمعان (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور بدی کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹک پیدا کرے اور لوگوں کا مطلع ہونا تم اس پر ناگوار گزرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٥ (٢٥٥٣) (تحفة الأشراف : ١١٧١٢) ، و مسند احمد (٤/١٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اسلام میں اچھے اخلاق کا درجہ بہت اونچا ہے ، دوسروں کے کام آنا ، ہر اچھے کام میں لوگوں کا تعاون کرنا ، کسی کو تکلیف نہ پہنچانا یہ سب ایسی اخلاقی خوبیاں ہیں جو اسلام کی نظر میں نیکیاں ہیں ، اس حدیث میں گناہ کی دو علامتیں بیان کی گئی ہیں ، ایک علامت یہ ہے کہ گناہ وہ ہے جو انسان کے دل میں کھٹکے اور دوسری علامت یہ ہے کہ دوسروں کے اس سے باخبر ہونے کو وہ ناپسند کرے ، گویا انسانی فطرت صحیح بات کی طرف انسان کو رہنمائی کرتی ہے ، اور برائیوں سے روکتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2389

【96】

اللہ کے لئے محبت کرنا

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : میری عظمت و بزرگی کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن نور (روشنی) کے ایسے منبر ہوں گے جن پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابو الدرداء، ابن مسعود، عبادہ بن صامت، ابوہریرہ اور ابو مالک اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٣٢٥) ، وانظر : مسند احمد (٥/٢٢٩، ٢٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی عظمت و بزرگی کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کا مقام و مرتبہ اس قدر اونچا ہوگا کہ انبیاء و شہداء باوجود یہ کہ سب سے اونچے مراتب پر فائز ہوں گے اگر دوسروں کے حال پر قیامت کے دن رشک کرتے تو ایسے لوگوں کے مراتب پر ضرور رشک کرتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5011 / التحقيق الثانی) ، التعليق الرغيب (4 / 47) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2390

【97】

اللہ کے لئے محبت کرنا

ابوہریرہ یا ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن کہ جب اس کے (عرش کے) سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا : ان میں سے ایک انصاف کرنے والا حکمراں ہے، دوسرا وہ نوجوان ہے جو اللہ کی عبادت میں پلا بڑھا ١ ؎، تیسرا وہ شخص ہے جس کا دل مسجد میں لگا ہوا ہو ٢ ؎ چوتھا وہ دو آدمی جنہوں نے صرف اللہ کی رضا کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی، اسی کے واسطے جمع ہوتے ہیں اور اسی کے واسطے الگ ہوتے ہیں ٣ ؎، پانچواں وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ کا ذکر کرے اور عذاب الٰہی کے خوف میں آنسو بہائے، چھٹا وہ آدمی جسے خوبصورت عورت گناہ کی دعوت دے، لیکن وہ کہے کہ مجھے اللہ کا خوف ہے، ساتواں وہ آدمی جس نے کوئی صدقہ کیا تو اسے چھپایا یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہ پتہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث امام مالک بن انس سے اس کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی اسی کے مثل مروی ہے، ان میں بھی راوی نے شک کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے «عن أبي هريرة أو عن أبي سعيد» اور عبیداللہ بن عمر عمری نے اس حدیث کو خبیب بن عبدالرحمٰن سے بغیر شک کے روایت کیا ہے، اس میں انہوں نے صرف «عن أبي هريرة» کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٦ (٦٦٠) ، والزکاة ١٦ (١٤٢٣) ، والرقاق ٢٤ (٦٤٧٩) ، والحدود ١٩ (٦٨٠٦) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٠ (١٠٣١) ، سنن النسائی/القضاة ٢ (٥٣٨٢) (تحفة الأشراف : ١٢٢٦٤، و ٣٩٩٦) ، وط/الشعر ٥ (١٤) ، و مسند احمد (٢/٤٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی بچپن سے ہی اس کی تربیت اسلامی خطوط پر ہوئی اور جوانی کی آنکھیں کھولتے ہی وہ اللہ کی عبادت کو سمجھتا تھا اور پھر وہ اس پر کاربند رہا۔ ٢ ؎ : یعنی وہ اس انتظار میں رہے کہ کب اذان ہو اور وہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جائے۔ ٣ ؎ : یعنی ان کے اکٹھا ہونے اور جدا ہونے کی بنیاد دین ہے ، گویا دین کی پابندی انہیں ایک دوسرے سے وابستہ رکھتی ہے اور دین سے انحراف انہیں باہم جدا کردیتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (887) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2391

【98】

محبت کی خبر دینے کے متعلق

مقدام بن معدیکرب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنے کسی مسلمان بھائی سے محبت کرے تو وہ اپنی اس محبت سے آگاہ کر دے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - مقدام کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوذر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٢٢ (٥١٢٤) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٧٨ (٢٠٦) (تحفة الأشراف : ١١٥٥٢) ، و مسند احمد (٤/١٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ جب دونوں ایک دوسرے کی محبت سے آگاہ اور باخبر ہوجائیں گے تو لازمی طور پر ان میں باہمی محبت پیدا ہوگی اور دو اسلامی بھائیوں کے دلوں سے کدورت و اختلاف سے متعلق ساری چیزیں دور ہوجائیں گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (417 و 2515) // ضعيف الجامع الصغير (269) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2392

【99】

تعریف کرنے اور تعریف کرانے والوں کی برائی

ابومعمر عبداللہ بن سخبرہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر ایک امیر کی تعریف شروع کی تو مقداد بن عمرو کندی (رض) اس کے چہرے پر مٹی ڈالنے لگے، اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تعریف کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈال دیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - زائدہ نے یہ حدیث مجاہد سے، مجاہد نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے حالانکہ مجاہد کی روایت جو ابومعمر سے ہے وہ زیادہ صحیح ہے، ٣ - ابومعمر کا نام عبداللہ بن سخبرہ ہے اور مقداد بن اسود مقداد بن عمرو الکندی ہیں، جن کی کنیت ابو معبد ہے۔ اسود بن عبدیغوث کی طرف ان کی نسبت اس لیے کی گئی کیونکہ انہوں نے مقداد کو لڑکپن میں اپنا متبنی بیٹا بنا لیا تھا، ٤ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١٤ (٣٠٠٢) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٠ (٤٨٠٤) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٣٦ (٣٧٤٢) (تحفة الأشراف : ١١٥٤٥) ، و مسند احمد (٦/٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مٹی ڈالنے کا حکم شاید اس لیے ہے کہ جب کسی کی تعریف اس کے منہ پر کی جائے گی تو اس کے اندر کبر و غرور پیدا ہونے کا احتمال ہے اور اپنے عیب کو ہنر اور دوسرے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھنے کا خدشہ ہے ، اس لیے تعریف کرنے والا کسی کی بےجا تعریف سے اور جس سے مذکورہ خطرہ محسوس ہو اپنے آپ کو بچائے کیونکہ اسے محرومی کے سوا کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3742) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2393

【100】

تعریف کرنے اور تعریف کرانے والوں کی برائی

٤ - ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم بےجا تعریف کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈال دیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث ابوہریرہ (رض) کی روایت سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٢٤٩) (صحیح) (سند میں حسن بصری کا سماع ابوہریرہ (رض) سے نہیں ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (2393) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2394

【101】

مومن کی محبت کے متعلق

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : مومن کے سوا کسی کی صحبت اختیار نہ کرو، اور تمہارا کھانا صرف متقی ہی کھائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٩ (٤٨٣٢) (تحفة الأشراف : ٤٠٤٩ و ٤٣٩٩) ، و مسند احمد (٣/٣٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں اشارہ اس طرف ہے کہ ایک مسلمان دنیا میں رہتے ہوئے اچھے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرے ، یہاں تک کہ کھانے کی دعوت دیتے وقت ایسے لوگوں کا انتخاب کرے جو متقی و پرہیزگار ہوں ، کیونکہ دعوت سے آپسی الفت و محبت میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے کوشش یہ ہو کہ الف و محبت کسی پرہیزگار شخص سے ہو۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (5018) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2395

【102】

مصیبت پر صبر کرنے کے بارے میں

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دنیا ہی میں جلد سزا دے دیتا ہے ١ ؎، اور جب اپنے کسی بندے کے ساتھ شر (برائی) کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے گناہوں کی سزا کو روکے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پوری پوری سزا دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٤٩) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : (حديث : إذا أراد اللہ ... ) حسن صحيح، (حديث : إن عظم الجزاء .. ) حسن (حديث : إذا أراد الله .. ) ، الصحيحة (1220) ، المشکاة (1565) ، (حديث : إن عظم الجزاء ... ) ، ابن ماجة (4031) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2396

【103】

مصیبت پر صبر کرنے کے بارے میں

ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے درد سے زیادہ درد کسی شخص کا نہیں دیکھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المرضی ٣ (٥٦٤٦) (تحفة الأشراف : ١٦١٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے اس تکلیف کی طرف اشارہ ہے جس سے مرض الموت میں آپ ﷺ دو چار ہوئے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1622) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2397

【104】

مصیبت پر صبر کرنے کے بارے میں

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! سب سے زیادہ مصیبت کس پر آتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : انبیاء و رسل پر، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر بندہ اپنے دین میں سخت ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتا ہے تو اس کے دین کے مطابق مصیبت بھی ہوتی ہے، پھر مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس باب میں ابوہریرہ اور حذیفہ بن یمان کی بہن فاطمہ (رض) سے بھی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ مصیبتیں کس پر زیادہ آتی ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : انبیاء و رسل پر پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں پھر جو ان کے بعد میں ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٣ (٤٠٢٣) (تحفة الأشراف : ٣٩٣٤) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٦٧ (٢٨٢٥) ، و مسند احمد (١/١٧٢، ١٧٤، ١٨٠، ١٨٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ جو بندہ اپنے ایمان میں جس قدر مضبوط ہوگا اسی قدر اس کی ابتلاء و آزمائش بھی ہوگی ، لیکن اس ابتلاء و آزمائش میں اس کے لیے ایک بھلائی کا بھی پہلو ہے کہ اس سے اس کے گناہ معاف ہوتے رہیں گے ، اور بندہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (4023) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2398

【105】

مصیبت پر صبر کرنے کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن مرد اور مومن عورت کی جان، اولاد، اور مال میں آزمائشیں آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ مرنے کے بعد اللہ سے ملاقات کرتے ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥١١٤) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مومن ہمیشہ آزمائش سے دو چار رہے گا ، لیکن یہ آزمائشیں اس کے لیے اس کے گناہوں کا کفارہ بنتی رہیں گی ، بشرطیکہ وہ صبر کا دامن پکڑے رہے اور ایمان پر مضبوطی سے قائم رہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الصحيحة (2280) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2399

【106】

بینائی زائل ہونے کے متعلق

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جب میں اپنے بندے کی پیاری آنکھیں چھین لیتا ہوں تو میرے پاس اس کا بدلہ صرف جنت ہی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ اور زید بن ارقم (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المرضی ٧ (تعلیقا عقب حدیث رقم ٥٦٥٣، وھو أیضا عن أنس نحوہ) (تحفة الأشراف : ١٦٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : انسان کو جو نعمتیں رب العالمین کی جانب سے حاصل ہیں ، ان میں آنکھ ایک بڑی عظیم نعمت ہے ، یہی وجہ ہے کہ رب العالمین جب کسی بندے سے یہ نعمت چھین لیتا ہے اور بندہ اس پر صبر و رضا سے کام لیتا ہے تو اسے قیامت کے دن اس نعمت کے بدل میں جس چیز سے نوازا جائے گا وہ جنت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (4 / 155 و 156) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2400

【107】

بینائی زائل ہونے کے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے جس کی پیاری آنکھیں چھین لیں اور اس نے اس پر صبر کیا اور ثواب کی امید رکھی تو میں اسے جنت کے سوا اور کوئی بدلہ نہیں دوں گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عرباض بن ساریہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٣٨٦) ، و مسند احمد (٢/٢٦٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (4 / 156) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2401

【108】

بینائی زائل ہونے کے متعلق

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب قیامت کے دن ایسے لوگوں کو ثواب دیا جائے گا جن کی دنیا میں آزمائش ہوئی تھی تو اہل عافیت خواہش کریں گے کاش دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کتری جاتیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - بعض لوگوں نے اس حدیث کا کچھ حصہ «عن الأعمش عن طلحة بن مصرف عن مسروق» کی سند مسروق کے قول سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢٧٧٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دنیاوی ابتلاء و آزمائش کا کس قدر عظیم ثواب ہے کہ قیامت کے دن عافیت اور امن و امان میں رہنے والے لوگ اس عظیم ثواب کی تمنا کریں گے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (2206) ، التعليق الرغيب (4 / 146) ، المشکاة (1570) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2402

【109】

بینائی زائل ہونے کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بھی مرتا ہے وہ نادم و شرمندہ ہوتا ہے ، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! شرم و ندامت کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : اگر وہ شخص نیک ہے تو اسے اس بات پر ندامت ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیکی نہ کرسکا، اور اگر وہ بد ہے تو نادم ہوتا ہے کہ میں نے بدی سے اپنے آپ کو نکالا کیوں نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - یحییٰ بن عبیداللہ کے بارے میں شعبہ نے کلام کیا ہے، اور یہ یحییٰ بن عبیداللہ بن موہب مدنی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤١٢٣) (ضعیف جداً ) (سند میں یحییٰ بن عبید اللہ متروک الحدیث راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، المشکاة (5545) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2403

【110】

بینائی زائل ہونے کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آخر زمانہ میں کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو دین کے ساتھ دنیا کے بھی طلب گار ہوں گے، وہ لوگوں کو اپنی سادگی اور نرمی دکھانے کے لیے بھیڑ کی کھال پہنیں گے، ان کی زبانیں شکر سے بھی زیادہ میٹھی ہوں گی جب کہ ان کے دل بھیڑیوں کے دل کی طرح ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کیا یہ لوگ مجھ پر غرور کرتے ہیں یا مجھ پر جرات کرتے ہیں میں اپنی ذات کی قسم کھاتا ہوں کہ ضرور میں ان پر ایسا فتنہ نازل کروں گا جس سے ان میں کا عقلمند آدمی بھی حیران رہ جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں عبداللہ بن عمر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤١٢٢) (ضعیف جداً ) (سند میں یحییٰ بن عبید اللہ متروک الحدیث راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، التعليق الرغيب (1 / 32) // ضعيف الجامع الصغير (6419) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2404

【111】

بینائی زائل ہونے کے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے ایک ایسی مخلوق پیدا کی ہے جن کی زبانیں شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہیں اور ان کے دل ایلوا کے پھل سے بھی زیادہ کڑوے ہیں، میں اپنی ذات کی قسم کھاتا ہوں ! کہ ضرور میں ان کے درمیان ایسا فتنہ نازل کروں گا جس سے ان میں کا عقلمند آدمی بھی حیران رہ جائے گا، پھر بھی یہ مجھ پر غرور کرتے ہیں یا جرات کرتے ہیں ؟ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث ابن عمر (رض) کی روایت سے حسن غریب ہے اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧١٤٨) (ضعیف) (سند میں حمزہ بن أبی محمد ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 32) // ضعيف الجامع الصغير (162) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2405

【112】

زبان کی حفاظت کرنے کے متعلق

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! نجات کی کیا صورت ہے ؟ آپ نے فرمایا : اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھر کی وسعت میں مقید رہو اور اپنی خطاؤں پر روتے رہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٩٢٨) ، وانظر مسند احمد (٤/١٤٨) ، و (٥/٢٥٩) (صحیح) (یہ سند مشہور ضعیف اسانید میں سے ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے الصحیحة رقم : ٨٩٠ ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں زبان کی حفاظت کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے ، کیونکہ اسے کنٹرول میں نہ رکھنے کی صورت میں اس سے بکثرت گناہ صادر ہوتے ہیں ، اس لیے لایعنی اور غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرنا چاہیئے اور کوشش یہ ہو کہ ہمیشہ زبان سے خیر ہی نکلے ، ایسے لوگوں اور مجالس سے دور رہنا چاہیئے جن سے شر کا خطرہ ہو ، بحیثیت انسان غلطیاں ضرور ہوں گی ان کی تلافی کے لیے رب العالمین کے سامنے عاجزی کا اظہار کریں اور اس سے مغفرت طلب کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (888) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2406

【113】

زبان کی حفاظت کرنے کے متعلق

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : انسان جب صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء زبان کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں : تو ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں اگر تو سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٠٣٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں زبان کو سارے اعضاء کے سدھار کا مرکز بتایا گیا ہے ، حالانکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کا مرکز دل ہے ، توفیق کی صورت یہ ہے کہ زبان کو جسم کے ترجمان کی حیثیت حاصل ہے ، اس لیے مجازا اسے سارے اعضاء کا مرکز کہا گیا ، ورنہ مرکز دل ہے نہ کہ زبان۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (4838 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2407

【114】

زبان کی حفاظت کرنے کے متعلق

سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مجھ سے اپنی دونوں ڈاڑھوں اور دونوں ٹانگوں کے بیچ کا ضامن ہو میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث سہل بن سعد کی روایت سے حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٢٣ (٦٤٧٤) ، والحدود ١٩ (٦٨٠٧) (تحفة الأشراف : ٤٧٣٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ زبان اور شرمگاہ گناہوں کے صدور کا اصل مرکز ہیں ، اسی لیے ان کی حفاظت کی زیادہ ضرورت ہے ، اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے ان دونوں کی حفاظت کی ضمانت دینے والوں کے لیے جنت کی ضمانت دی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (3 / 197) ، الضعيفة (2302) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2408

【115】

زبان کی حفاظت کرنے کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے اللہ نے اس کی ٹانگوں اور ڈاڑھوں کے درمیان کی چیز کے شر و فساد سے بچا لیا وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ابوہریرہ (رض) سے روایت کرنے والے راوی ابوحازم کا نام سلمان ہے، یہ عزہ اشجعیہ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور کوفی ہیں اور سہل بن سعد سے روایت کرنے والے راوی ابوحازم کا نام سلمہ بن دینار ہے جو زاہد مدنی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٤٢٩) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الصحيحة (510) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2409

【116】

زبان کی حفاظت کرنے کے متعلق

سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ مجھ سے ایسی بات بیان فرمائیں جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں، آپ نے فرمایا : کہو : میرا رب (معبود حقیقی) اللہ ہے پھر اسی عہد پر قائم رہو ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کو مجھ سے کس چیز کا زیادہ خوف ہے ؟ آپ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا : اسی کا زیادہ خوف ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث سفیان بن عبداللہ ثقفی سے کئی سندوں سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ١٤ (٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٢ (٣٩٧٢) (تحفة الأشراف : ٤٤٧٨) ، و مسند احمد (٣/٤١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3972) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2410

【117】

زبان کی حفاظت کرنے کے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ذکر الٰہی کے سوا کثرت کلام سے پرہیز کرو اس لیے کہ ذکر الٰہی کے سوا کثرت کلام دل کو سخت بنا دیتا ہے اور لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ دور سخت دل والا ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧١٢٣) (ضعیف) (سند میں ابراہیم میں قدرے کلام ہے، یہ حدیث رسول ﷺ نہیں بلکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے اقوال میں سے ہے جس کو ابراہیم نے حدیث رسول بنادیا ہے، دیکھیے الضعیفة : ٩٠٨، و ٩٢٠ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (920) ، المشکاة (2276 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6265) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2411

【118】

زبان کی حفاظت کرنے کے متعلق

ام المؤمنین حبیبہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : انسان کی ساری باتیں اس کے لیے وبال ہیں ان میں سے اسے امربالمعروف، نہی عن المنکر اور ذکر الٰہی کے سوا اسے کسی اور کا ثواب نہیں ملے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے اسے ہم صرف محمد بن یزید بن خنیس کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٢ (٣٩٧٤) (تحفة الأشراف : ١٥٨٧٧) (ضعیف) (سند میں ” محمد بن یزید بن خنیس “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3974) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (861) ، ضعيف الجامع الصغير (4283) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2412

【119】

ابوجحیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سلمان اور ابو الدرداء کے مابین بھائی چارہ کروایا تو ایک دن سلمان نے ابوالدرداء (رض) کی زیارت کی، دیکھا کہ ان کی بیوی ام الدرداء معمولی کپڑے میں ملبوس ہیں، چناچہ انہوں نے پوچھا کہ تمہاری اس حالت کی کیا وجہ ہے ؟ ان کی بیوی نے جواب دیا : تمہارے بھائی ابوالدرداء (رض) کو دنیا سے کوئی رغبت نہیں ہے کہ جب ابو الدرداء گھر آئے تو پہلے انہوں نے سلمان (رض) کے سامنے کھانا پیش کیا اور کہا : کھاؤ میں آج روزے سے ہوں۔ سلمان (رض) نے کہا : میں نہیں کھاؤں گا یہاں تک کہ تم بھی میرے ساتھ کھاؤ۔ چناچہ سلمان نے بھی کھایا۔ پھر جب رات آئی تو ابوالدرداء (رض) تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے، تو سلمان نے ان سے کہا : سو جاؤ وہ سو گئے۔ پھر تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو کہا سو جاؤ، چناچہ وہ سو گئے، پھر جب صبح قریب ہوئی تو سلمان نے ان سے کہا : اب اٹھ جاؤ چناچہ دونوں نے اٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلمان نے ان سے کہا : تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے رب کا تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر صاحب حق کو اس کا حق ادا کرو ، اس کے بعد دونوں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس گفتگو کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا : سلمان نے سچ کہا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٥ (١٩٦٨) ، والأدب ٨٦ (٦١٣٩) (تحفة الأشراف : ١١٨١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں بہت سارے فوائد ہیں : ایک بھائی کا دوسرے بھائی کی زیارت کرنا تاکہ اس کے حالات سے آگاہی ہو ، عبادت کا وہی طریقہ اپنانا چاہیئے جو مسنون ہے تاکہ دوسروں کے حقوق کی پامالی نہ ہو ، زیارت کے وقت اپنے بھائی کو اچھی باتوں کی نصیحت کرنا اور اس کی کوتاہیوں سے اسے باخبر کرنا ، کسی پریشان حال کی پریشانی کی بابت اس سے معلومات حاصل کرنا ، رات کی عبادت کا اہتمام کرنا وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2413

【120】

عبدالوہاب بن ورد سے روایت ہے کہ ان سے مدینہ کے ایک شخص نے بیان کیا : معاویہ (رض) نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس ایک خط لکھا کہ مجھے ایک خط لکھئیے اور اس میں کچھ وصیت کیجئے۔ چناچہ عائشہ (رض) نے معاویہ (رض) کے پاس خط لکھا : دعا و سلام کے بعد معلوم ہو کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جو لوگوں کی ناراضگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہو تو لوگوں سے پہنچنے والی تکلیف کے سلسلے میں اللہ اس کے لیے کافی ہوگا اور جو اللہ کی ناراضگی میں لوگوں کی رضا کا طالب ہو تو اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کو اسے تکلیف دینے کے لیے مقرر کر دے گا ، (والسلام علیک تم پر اللہ کی سلامتی نازل ہو) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٧٨١٥) (صحیح) (سند میں ایک راوی ” رجل من أھل المدینة “ مبہم ہے، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے : الصحیحة رقم : ٢٣١١ ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رضا مندی ہر چیز پر مقدم ہے ، اس لیے اگر کوئی ایسا امر پیش ہو جسے انجام دینے سے اللہ کی رضا مندی حاصل ہوگی لیکن لوگوں کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا تو لوگوں کو نظر انداز کر کے اللہ کی رضا مندی کا طالب بنے ، کیونکہ ایسی صورت میں اسے اللہ کی نصرت و تائید حاصل رہے گی ، اور اگر بندوں کے غیض و غضب سے خائف ہو کر اللہ کی رضا کو بھول بیٹھا تو ایسا شخص رب العالمین کی نصرت و تائید سے محروم رہے گا ، ساتھ ہی اسے انہی بندوں کے ذریعہ ایسی ایذا اور تکلیف پہنچائے گا جو اس کے لیے باعث ندامت ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2311) ، تخريج الطحاوية (278) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2414