30. تقدیر کا بیان

【1】

تقدیر میں بحث کرنے کی ممانعت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے، آپ غصہ ہوگئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور ایسا نظر آنے لگا گویا آپ کے گالوں پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔ آپ نے فرمایا : کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا میں اسی واسطے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ؟ بیشک تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوگئیں جب انہوں نے اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ کیا، میں تمہیں قسم دلاتا ہوں کہ اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ نہ کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے اس سند سے صرف صالح مری کی روایت سے جانتے ہیں اور صالح مری کے بہت سارے غرائب ہیں جن کی روایت میں وہ منفرد ہیں، کوئی ان کی متابعت نہیں کرتا۔ ٣ - اس باب میں عمر، عائشہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٥٣٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے ، یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ بندوں کے اچھے اور برے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان کا ظہور اللہ کے قضاء و قدر اور اس کے ارادے و مشیئت پر ہے ، اور اس کا علم اللہ کو پوری طرح ہے ، لیکن ان امور کا صدور خود بندے کے اپنے اختیار سے ہوتا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ اچھے اعمال کو پسند کرتا ہے ، اور برے اعمال کو ناپسند کرتا ہے ، اور اسی اختیار کی بنیاد پر جزا و سزا دیتا ہے ، تقدیر کے مسئلہ میں عقل سے غور و خوض اور بحث و مباحثہ جائز نہیں ، کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا گمراہی کا خطرہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (98 و 99) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2133

【2】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آدم اور موسیٰ نے باہم مناظرہ کیا، موسیٰ نے کہا : آدم ! آپ وہی تو ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ کے اندر اپنی روح پھونکی ١ ؎ پھر آپ نے لوگوں کو گمراہ کیا اور ان کو جنت سے نکالا ؟ آدم نے اس کے جواب میں کہا : آپ وہی موسیٰ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے گفتگو کرنے کے لیے منتخب کیا، کیا آپ میرے ایسے کام پر مجھے ملامت کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کرنے سے پہلے میرے اوپر لازم کردیا تھا ؟ ، آدم موسیٰ سے دلیل میں جیت گئے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - حسن صحیح غریب ہے، ٢ - یہ حدیث اس سند سے یعنی سلیمان تیمی کی روایت سے جسے وہ اعمش سے روایت کرتے ہیں، ٣ - اعمش کے بعض شاگردوں نے «عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔ اور بعض نے اس کی سند یوں بیان کی ہے «عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي سعيد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» ، ٤ - کئی اور سندوں سے یہ حدیث ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے، ٥ - اس باب میں عمر اور جندب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/احادیث الأنبیاء ٣١ (٣٤٠٩) ، وتفسیر طہ ١ (٤٧٣٦) ، و ٢ (٤٧٣٨) ، و القدر ١١ (٦٦٤١) ، والتوحید ٣٧ (٧٥١٥) ، صحیح مسلم/القدر ٢ (٢٦٥٢) ، سنن ابی داود/ السنة ١٧ (٤٧٠١) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٠ (٨٠) (تحفة الأشراف : ١٢٣٨٩) ، و موطا امام مالک/القدر ١ (١) ، و مسند احمد (٢/٢٤٨، ٢٦٨، ٣٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی وہ روح جو اللہ کی پیدا کردہ ہے ، اور جس کا ہر ذی روح حاجت مند ہے۔ ٢ ؎ : صحیح مسلم میں اس کی تصریح ہے کہ آدم اور موسیٰ کا یہ مباحثہ اللہ رب العالمین کے سامنے ہوا۔ «واللہ اعلم » قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (80) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2134

【3】

ختی اور خوش بختی کے بارے میں

عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جو عمل ہم کرتے ہیں اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، وہ نیا شروع ہونے والا امر ہے یا ایسا امر ہے جس سے فراغت ہوچکی ہے ؟ ١ ؎ آپ نے فرمایا : ابن خطاب ! وہ ایسا امر ہے جس سے فراغت ہوچکی ہے، اور ہر آدمی کے لیے وہ امر آسان کردیا گیا ہے (جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے) ، چناچہ جو آدمی سعادت مندوں میں سے ہے وہ سعادت والا کام کرتا ہے اور جو بدبختوں میں سے ہے وہ بدبختی والا کام کرتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی، حذیفہ بن اسید، انس اور عمران بن حصین (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٧٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو عمل ہم کرتے ہیں کیا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے علم میں آتا ہے ؟ یا وہ پہلے سے لکھا ہوا ہے اور اللہ کے علم میں ہے ؟۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ظلال الجنة (161 - 167) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2135

【4】

ختی اور خوش بختی کے بارے میں

علی (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ زمین کرید رہے تھے کہ اچانک آپ نے آسمان کی طرف اپنا سر اٹھایا پھر فرمایا : تم میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کا حال معلوم نہ ہو، (وکیع کی روایت میں ہے : تم میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں جس کی جنت یا جہنم کی جگہ نہ لکھ دی گئی ہو) ، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم لوگ (تقدیر کے لکھے ہوئے پر) بھروسہ نہ کرلیں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، تم لوگ عمل کرو اس لیے کہ ہر آدمی کے لیے وہ چیز آسان کردی گئی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٢ (١٣٦٢) ، وتفسیر سورة واللیل إذا یغشی ٣ (٤٩٤٥) ، والأدب ١٢٠ (٦٢١٧) ، و القدر ٤ (٦٦٠٥) ، والتوحید ٥٤ (٧٥٥٢) ، صحیح مسلم/القدر ١ (٢٦٤٧) ، سنن ابی داود/ السنة ١٧ (٤٦٩٤) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٠ (٧٨) ، ویأتي عند المؤلف برقم ٣٣٤٤) (تحفة الأشراف : ١٠١٦٧) ، و مسند احمد (١/١٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (78) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2136

【5】

اس متعلق کہ اعمال کا اعتبار خاتمہ پر ہے

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم سے صادق و مصدوق رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا ١ ؎، تم میں سے ہر آدمی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن تک «علقة» (یعنی جمے ہوئے خون) کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن تک «مضغة» (یعنی گوشت کے لوتھڑے) کی شکل میں رہتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کے اندر روح پھونکتا ہے، پھر اسے چار چیزوں (کے لکھنے) کا حکم کیا جاتا ہے، چناچہ وہ لکھتا ہے : اس کا رزق، اس کی موت، اس کا عمل اور یہ چیز کہ وہ «شقي» (بدبخت) ہے یا «سعيد» (نیک بخت) ، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تم میں سے کوئی آدمی جنتیوں کا عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر اس کے اوپر لکھی ہوئی تقدیر غالب آتی ہے اور جہنمیوں کے عمل پر اس کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے، اور تم میں سے کوئی آدمی جہنمیوں کا عمل کرتا رہتا ہے پھر اس کے اوپر لکھی ہوئی تقدیر غالب آتی ہے اور جنتیوں کے عمل پر اس کا خاتمہ کیا جاتا ہے، لہٰذا وہ جنت میں داخل ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٦ (٣٢٠٨) ، وأحادیث الأنبیاء ١ (٣٣٩٣) ، صحیح مسلم/القدر ١ (٢٦٤٣) ، سنن ابی داود/ السنة ١٧ (٤٧٠٨) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٠ (٧٦) (تحفة الأشراف : ٩٢٢٨) ، و مسند احمد (١/٣٨٢، ٤١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی سچے ہیں اور سچی بات آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (76) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2137

【6】

اس بارے میں کہ ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے ١ ؎، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی، یا مشرک بناتے ہیں عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! جو اس سے پہلے ہی مرجائے ؟ ٢ ؎ آپ نے فرمایا : اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٩٢ (١٣٨٣) ، و القدر ٣ (٦٥٩٢) ، صحیح مسلم/القدر ٦ (٢٦٥٨) ، سنن ابی داود/ السنة ١٨ (٤٧١٤) (تحفة الأشراف : ١٢٤٧٦) ، و موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٥٢) ، و مسند احمد (٢/٢٤٤، ٢٥٣، ٢٥٩، ٢٦٨، ٣١٥، ٣٤٧، ٣٩٣، ٤٧١، ٤٨٨، ٥١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : فطرت اسلام پر پیدا ہونے کی علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ چونکہ «ألست بربکم» کا عہد جس وقت اللہ رب العالمین اپنی مخلوق سے لے رہا تھا تو اس وقت سب نے اس عہد اور اس کی وحدانیت کا اقرار کیا تھا ، اس لیے ہر بچہ اپنے اسی اقرار پر پیدا ہوتا ہے ، یہ اور بات ہے کہ بعد میں وہ ماں باپ کی تربیت یا لوگوں کے بہکاوے میں آ کر یہودی ، نصرانی اور مشرک بن جاتا ہے۔ ٢ ؎ : یعنی بچپن ہی میں جس کا انتقال ہوجائے ، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1220) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2138

【7】

اس بارے میں کہ تقدیر کو صرف دعا ہی لوٹا سکتی ہے

سلمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دعا کے سوا کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹالتی ہے ١ ؎ اور نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث سلمان کی روایت سے حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابواسید سے بھی روایت ہے، ٣ - ہم اسے صرف یحییٰ بن ضریس کی روایت سے جانتے ہیں، ٤ - ابومودود دو راویوں کی کنیت ہے، ایک کو فضہ کہا جاتا ہے، اور یہ وہی ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے، ان کا نام فضہ ہے اور دوسرے ابومودود کا نام عبدالعزیز بن ابوسلیمان ہے، ان میں سے ایک بصرہ کے رہنے والے ہیں اور دوسرے مدینہ کے، دونوں ایک ہی دور میں تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ مؤالف (تحفة الأشراف : ٤٥٠٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : «قضاء» سے مراد امر مقدر ہے ، کچھ لوگوں کا کہنا ہے : مفہوم یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے ٹالنے میں دعا بےحد موثر ہے ، یہاں تک کہ اگر قضاء کا کسی چیز سے لوٹ جانا ممکن ہوتا تو وہ دعا ہوتی ، جب کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے : مراد یہ ہے کہ دعا سے قضاء کا سہل و آسان ہوجانا ہے گویا دعا کرنے والے کو یہ احساس ہوگا کہ قضاء نازل ہی نہیں ہوئی ، اس کی تائید ترمذی کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں دعا جو کچھ قضاء نازل ہوچکی ہے اس کے لیے اور جو نازل نہیں ہوئی ہے اس کے لیے بھی نفع بخش ثابت ہوتی ہے۔ ٢ ؎ : عمر میں اضافہ اگر حقیقت کے اعتبار سے ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اضافہ اس فرشتہ کے علم کے مطابق ہے جو انسان کے عمر پر مقرر ہے ، نہ کہ اللہ کے علم کی طرف نسبت کے اعتبار سے ہے ، مثلاً لوح محفوظ میں اگر یہ درج ہے کہ فلاں کی عمر اس کے حج اور عمرہ کرنے کی صورت میں ساٹھ سال کی ہوگی اور حج و عمرہ نہ کرنے کی صورت میں چالیس سال کی ہوگی تو یہ اللہ کے علم میں ہے کہ وہ حج و عمرہ کرے گا یا نہیں ، اور علم الٰہی میں رد و بدل اور تغیر نہیں ہوسکتا جب کہ فرشتے کے علم میں جو ہے اس میں تبدیلی کا امکان ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (154) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2139

【8】

اس بارے میں کہ لوگوں کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا پڑھتے تھے «يا مقلب القلوب ثبت قلبي علی دينك» اے دلوں کے الٹنے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ آپ پر اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لے آئے کیا آپ کو ہمارے سلسلے میں اندیشہ رہتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، لوگوں کے دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں جیسا چاہتا ہے انہیں الٹتا پلٹتا رہتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - کئی لوگوں نے اسی طرح «عن الأعمش عن أبي سفيان عن أنس» کی سند سے روایت کی ہے۔ بعض لوگوں نے «عن الأعمش عن أبي سفيان عن جابر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے، لیکن ابوسفیان کی حدیث جو انس سے مروی ہے زیادہ صحیح ہے، ٣ - اس باب میں نواس بن سمعان، ام سلمہ، عبداللہ بن عمرو اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدعاء ٢ (٣٨٣٤) (تحفة الأشراف : ٩٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3834) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2140

【9】

اس بارے میں کہ اللہ تعالیٰ نے دوزخیوں اور جنتوں کے متعلق کتاب لکھی ہوئی ہے

عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (ایک بار) ہماری طرف نکلے اس وقت آپ کے ہاتھ میں دو کتابیں تھیں۔ آپ نے پوچھا : تم لوگ جانتے ہو یہ دونوں کتابیں کیا ہیں ؟ ہم لوگوں نے کہا : نہیں، سوائے اس کے کہ آپ ہمیں بتادیں۔ داہنے ہاتھ والی کتاب کے بارے میں آپ نے فرمایا : یہ رب العالمین کی کتاب ہے، اس کے اندر جنتیوں، ان کے آباء و اجداد اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں، پھر آخر میں ان کا میزان ذکر کردیا گیا ہے۔ لہٰذا ان میں نہ تو کسی کا اضافہ ہوگا اور نہ ان میں سے کوئی کم ہوگا ، پھر آپ نے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا : یہ رب العالمین کی کتاب ہے، اس کے اندر جہنمیوں، ان کے آباء و اجداد اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں اور آخر میں ان کا میزان ذکر کردیا گیا ہے، اب ان میں نہ تو کسی کا اضافہ ہوگا اور نہ ان میں سے کوئی کم ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! پھر عمل کس لیے کریں جب کہ اس معاملہ سے فراغت ہوچکی ہے ؟ آپ نے فرمایا : سیدھی راہ پر چلو اور میانہ روی اختیار کرو، اس لیے کہ جنتی کا خاتمہ جنتی کے عمل پہ ہوگا، اگرچہ اس سے پہلے وہ جو بھی عمل کرے اور جہنمی کا خاتمہ جہنمی کے عمل پہ ہوگا اگرچہ اس سے پہلے وہ جو بھی عمل کرے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا، پھر ان دونوں کتابوں کو پھینک دیا اور فرمایا : تمہارا رب بندوں سے فارغ ہوچکا ہے، ایک فریق جنت میں جائے گا اور ایک فریق جہنم میں جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ٨٨٢٥) ، و مسند احمد (٢/١٦٧) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (96) ، الصحيحة (848) ، الظلال (348) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2141

【10】

اس بارے میں کہ اللہ تعالیٰ نے دوزخیوں اور جنتوں کے متعلق کتاب لکھی ہوئی ہے

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے عمل کراتا ہے ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کیسے عمل کراتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : موت سے پہلے اسے عمل صالح کی توفیق دیتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفردی بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥٨٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (2 / 87) ، المشکاة (5288) ، الظلال (397 - 399) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2142

【11】

عدوی صفر اور ہامہ کی نفی کے متعلق

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا : کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی ، ایک اعرابی (بدوی) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! خارشتی شرمگاہ والے اونٹ سے (جب اسے باڑہ میں لاتے ہیں) تو تمام اونٹ (کھجلی والے) ہوجاتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پھر پہلے کو کس نے کھجلی دی ؟ کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی ہے اور نہ ماہ صفر کی نحوست کی کوئی حقیقت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر نفس کو پیدا کیا ہے اور اس کی زندگی، رزق اور مصیبتوں کو لکھ دیا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٦٤٠) ، وانظر مسند احمد (١/٤٤٠) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، سند میں ایک راوی ” صاحب لنا “ مبہم ہے، اور ہوسکتا ہے کہ یہ ابوہریرہ (رض) ہوں، ابو زرعہ ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں، نیز مسند احمد (٢/٣٢٧) میں یہ حدیث بواسطہ ابو زرعہ ابوہریرہ (رض) سے موجود ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس باب میں زمانہ جاہلیت کی تین باتوں کی نفی کی گئی ہے ، اور اس حدیث میں متعدی مرض اور صفر کے سلسلے میں موجود بداعتقادی پر نکیر ہے ، اہل جاہلیت کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلے کے بغیر بیماری خود سے متعدی ہوتی ہے ، یعنی خود سے پھیل جاتی ہے ، اسلام نے ان کے اس اعتقاد باطل کو غلط ٹھہرایا ، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «لاعدوی» یعنی بیماری خود سے متعدی نہیں ہوتی ، اور اس کے لیے سب سے پہلے اونٹ کو کھجلی کی بیماری کیسے لگی ، کی بات کہہ کر سمجھایا اور بتایا کہ کسی بیماری کا لاحق ہونا اور اس بیماری سے شفاء دینا یہ سب اللہ رب العالمین کے حکم سے ہے وہی مسبب الاسباب ہے۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہوتا ہے ، البتہ بیماریوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسباب کو اپنانا مستحب ہے ،«ھامہ» یعنی الو کا ذکر باب میں ہے ، اس حدیث میں نہیں ہے ، بلکہ دوسری احادیث میں ہے آیا ہے ، الو کو دن میں دکھائی نہیں دیتا ہے ، تو وہ رات کو نکلتا ہے ، اور اکثر ویرانوں میں رہتا ہے ، عرب لوگ اس کو منحوس جانتے تھے ، اور بعض یہ سمجھتے تھے کہ مقتول کی روح الو بن کر پکارتی پھرتی ہے ، جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو وہ اڑ جاتا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے اس خیال کو باطل قرار دیا ، اور فرمایا : «و ولاهامة» ، آج بھی الو کی نحوست کا اعتقاد باطل بہت سے لوگوں کے یہاں پایا جاتا ہے ، جو جاہلیت کی بداعتقادی ہے ، اسی طرح صفر کے مہینے کو جاہلیت کے زمانے میں لوگ منحوس قرار دیتے تھے ، اور جاہل عوام اب تک اسے منحوس جانتے ہیں ، صفر کے مہینے کے پہلے تیرہ دن جس میں رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تھے ان ایام کو تیرہ تیزی کہتے ہیں ، ان میں عورتیں کوئی بڑا کام جیسے شادی بیاہ وغیرہ کرنے نہیں دیتیں ، یہ بھی لغو ہے ، صفر کا مہینہ اور مہینوں کی طرح ہے ، کچھ فرق نہیں ہے۔ یہ بھی آتا ہے کہ عرب ماہ محرم کی جگہ صفر کو حرمت والا مہینہ بنا لیتے تھے ، اسلام میں یہ بھی باطل ، اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ عربوں کے اعتقاد میں پیٹ میں ایک سانپ ہوتا تھا جس کو صفر کہا جاتا ہے ، بھوک کے وقت وہ پیدا ہوتا ہے اور آدمی کو ایذا پہنچاتا ہے ، اور ان کے اعتقاد میں یہ متعدی مرض تھا ، تو اسلام نے اس کو باطل قرار دیا (ملاحظہ ہو : النہایۃ فی غریب الحدیث : مادہ : صفر ، نیز ان مسائل پر ہم نے سنن ابن ماجہ (کتاب الطب : باب نمبر ٤٣ ، حدیث نمبر ٣٥٣ ٦-٣٥٤١) میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ، اس کا مطالعہ مفید ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1152) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2143

【12】

خیر وشر کے مقدر ہونے پر ایمان لانا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لے آئے، اور یہ یقین کرلے کہ جو کچھ اسے لاحق ہوا ہے چوکنے والا نہ تھا اور جو کچھ چوک گیا ہے اسے لاحق ہونے والا نہ تھا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف عبداللہ بن میمون کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - عبداللہ بن میمون منکر حدیث ہیں، ٣ - اس باب میں عبادہ، جابر اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢٦١٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2439) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2144

【13】

خیر وشر کے مقدر ہونے پر ایمان لانا

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی بندہ چار چیزوں پر ایمان لائے بغیر مومن نہیں ہوسکتا : ( ١ ) گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، اس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے، ( ٢ ) موت پر ایمان لائے، ( ٣ ) مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لائے، ( ٤ ) تقدیر پر ایمان لائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٠ (٨١) (تحفة الأشراف : ١٠٠٨٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (81) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2145

【14】

اس بارے میں کہ ہر شخص وہیں مرتا ہے جہاں اس کی موت لکھی ہوتی ہے

مطر بن عکامس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی موت کے لیے کسی زمین کا فیصلہ کردیتا ہے تو وہاں اس کی کوئی حاجت و ضرورت پیدا کردیتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - مطر بن عکامس کی نبی اکرم ﷺ سے اس حدیث کے علاوہ کوئی دوسری حدیث نہیں معلوم ہے، ٣ - اس باب میں ابوعزہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٢٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چناچہ بندہ اپنی ضرورت کی تکمیل کے لیے زمین کے اس حصہ کی جانب سفر کرتا ہے جہاں اللہ نے اس کی موت اس کے لیے مقدر کر رکھی ہے ، پھر وہاں پہنچ کر اس کی موت ہوتی ہے ، «وما تدري نفس بأي أرض تموت» اور کسی جان کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ اس کی موت کسی سر زمین میں آئے گی (لقمان : ٣٤ ) ، اسی طرف اشارہ ہے کہ زمین کے کس حصہ میں موت آئے گی کسی کو کچھ خبر نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (110) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2146

【15】

اس بارے میں کہ ہر شخص وہیں مرتا ہے جہاں اس کی موت لکھی ہوتی ہے

ابوعزہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی موت کے لیے کسی زمین کا فیصلہ کردیتا ہے تو وہاں اس کی کوئی حاجت پیدا کردیتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - ابوعزہ کو شرف صحبت حاصل ہے اور ان کا نام یسار بن عبد ہے، ٣ - راوی ابوملیح کا نام عامر بن اسامہ بن عمیر ہذلی ہے۔ انہیں زید بن اسامہ بھی کہا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٨٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2146) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2147

【16】

اس بارے میں کہ تقدیر الہی کو دم جھاڑ اور دوا نہیں ٹال سکتے

ابوخزامہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی نے آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ دم جن سے ہم جھاڑ پھونک کرتے ہیں، دوائیں جن سے علاج کرتے ہیں اور بچاؤ کی چیزیں جن سے بچاؤ کرتے ہیں، آپ بتائیے کیا یہ اللہ کی تقدیر میں سے کچھ لوٹا سکتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : یہ سب بھی تو اللہ کی تقدیر سے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ہم اس حدیث کو صرف زہری کی روایت سے جانتے ہیں، کئی لوگوں نے یہ حدیث «عن سفيان عن الزهري عن أبي خزامة عن أبيه» کی سند سے روایت کی ہے، یہ زیادہ صحیح ہے۔ اسی طرح کئی لوگوں نے «عن الزهري عن أبي خزامة عن أبيه» کی سند سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠٦٥) (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف مضی (2066) // 359 / 2159 // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2148

【17】

قدریہ کے بارے میں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے دو قسم کے لوگوں کے لیے اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے : ( ١ ) مرجئہ ( ٢ ) قدریہ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں عمر، ابن عمر اور رافع بن خدیج (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المدقدمة ٩ (٧٣) (تحفة الأشراف : ٦٢٢٢) (ضعیف) (سند میں ” نزار بن حیان اسدی “ ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مرجئہ : باطل اور گمراہ فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے جو یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ بندہ کو اپنے افعال کے سلسلہ میں کچھ بھی اختیار حاصل نہیں ، جمادات کی طرح وہ مجبور محض ہے ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جس طرح کفر کے ساتھ اطاعت و فرمانبرداری کچھ بھی مفید نہیں اسی طرح ایمان کے ساتھ معصیت ذرہ برابر نقصان دہ نہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (105) ، الظلال (334 و 335) // يعني کتاب السنة لابن أبي عاصم طبع المکتب الإسلامي، وضعيف الجامع الصغير (3498) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2149

【18】

عبداللہ بن شخیر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ابن آدم کی مثال ایسی ہے کہ اس کے پہلو میں ننانوے آفتیں ہیں اگر وہ ان آفتوں سے بچ گیا تو بڑھاپے میں گرفتار ہوجائے گا یہاں تک کہ اسے موت آ جائے گی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥٣٥٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ انسان پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک مختلف قسم کے آفات و مصائب سے گھرا ہوا ہے ، اگر وہ ان آفات سے کسی طرح بچ نکلا تو بڑھاپے جیسی آفت سے وہ نہیں بچ سکے گا ، اور بالآخر موت اسے آ دبوچے گی گویا یہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے سبز و سنہرا باغ ہے ، اسی لیے مومن کو اللہ کے ہر فیصلہ پر صبر کرنا چاہیئے ، اور اللہ نے اس کے لیے جو کچھ مقدر کر رکھا ہے اس پر راضی رہنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (1569) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2150

【19】

رضاء بالقضاء کے بارے میں

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے فیصلے پر راضی ہونا ابن آدم کی سعادت (نیک بختی) ہے، اللہ سے خیر طلب نہ کرنا ابن آدم کی شقاوت (بدبختی) ہے اور اللہ کے فیصلے پر ناراض ہونا ابن آدم کی شقاوت (بدبختی) ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف محمد بن ابی حمید کی روایت سے جانتے ہیں، انہیں حماد بن ابی حمید بھی کہا جاتا ہے، ان کی کنیت ابوابراہیم ہے، اور مدینہ کے رہنے والے ہیں، یہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٩٣٤) (ضعیف) (سند میں ” محمد بن أبی حمید “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1800) ، التعليق الرغيب (1 / 244) // ضعيف الجامع الصغير (5300) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2151

【20】

رضاء بالقضاء کے بارے میں

نافع کا بیان ہے کہ ابن عمر (رض) کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا : فلاں شخص نے آپ کو سلام عرض کیا ہے، اس سے ابن عمر (رض) نے کہا : مجھے خبر ملی ہے کہ اس نے دین میں نیا عقیدہ ایجاد کیا ہے، اگر اس نے دین میں نیا عقیدہ ایجاد کیا ہے تو اسے میرا سلام نہ پہنچانا، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اس امت میں یا میری امت میں، (یہ شک راوی کی طرف سے ہوا ہے) تقدیر کا انکار کرنے والوں پر «خسف» ، «مسخ» یا «قذف» کا عذاب ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - ابوصخر کا نام حمید بن زیاد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٩ (٤٠٦١) (تحفة الأشراف : ٧٦٥١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : «خسف» : زمین میں دھنسانے ، «مسخ» : صورتیں تبدیل کرنے اور «قذف» : پتھروں کے عذاب کو کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4061) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2152

【21】

رضاء بالقضاء کے بارے میں

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری امت میں «خسف» اور «مسخ» کا عذاب ہوگا اور یہ عذاب تقدیر کے جھٹلانے والوں پر آئے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2153

【22】

عبدالواحد بن سلیم کہتے ہیں کہ میں مکہ گیا تو عطاء بن ابی رباح سے ملاقات کی اور ان سے کہا : ابو محمد ! بصرہ والے تقدیر کے سلسلے میں (برسبیل انکار) کچھ گفتگو کرتے ہیں، انہوں نے کہا : بیٹے ! کیا تم قرآن پڑھتے ہو ؟ میں نے کہا : ہاں، انہوں نے کہا : سورة الزخرف پڑھو، میں نے پڑھا : «حم والکتاب المبين إنا جعلناه قرآنا عربيا لعلکم تعقلون وإنه في أم الکتاب لدينا لعلي حكيم» حم، قسم ہے اس واضح کتاب کی، ہم نے اس کو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے کہ تم سمجھ لو، یقیناً یہ لوح محفوظ میں ہے، اور ہمارے نزدیک بلند مرتبہ حکمت والی ہے (الزخرف : ١ - ٤ ) پڑھی، انہوں نے کہا : جانتے ہو ام الکتاب کیا ہے ؟ میں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، انہوں نے کہا : وہ ایک کتاب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے سے پہلے لکھا ہے، اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ فرعون جہنمی ہے اور اس میں «تبت يدا أبي لهب وتب» ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے، اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا (تبت : ١ ) بھی لکھا ہوا ہے۔ عطاء کہتے ہیں : پھر میں ولید بن عبادہ بن صامت (رض) سے ملا (ولید کے والد عبادہ بن صامت صحابی رسول تھے) اور ان سے سوال کیا : مرتے وقت آپ کے والد کی کیا وصیت تھی ؟ کہا : میرے والد نے مجھے بلایا اور کہا : بیٹے ! اللہ سے ڈرو اور یہ جان لو کہ تم اللہ سے ہرگز نہیں ڈر سکتے جب تک تم اللہ پر اور تقدیر کی اچھائی اور برائی پر ایمان نہ لاؤ۔ اگر اس کے سوا دوسرے عقیدہ پر تمہاری موت آئے گی تو جہنم میں جاؤ گے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور فرمایا : لکھو ، قلم نے عرض کیا : کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تقدیر لکھو جو کچھ ہوچکا ہے اور جو ہمیشہ تک ہونے والا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥١١٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (133) ، تخريج الطحاوية (271) ، المشکاة (94) ، الظلال (102 - 105) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2155

【23】

عبدالواحد بن سلیم کہتے ہیں کہ میں مکہ گیا تو عطاء بن ابی رباح سے ملاقات کی اور ان سے کہا : ابو محمد ! بصرہ والے تقدیر کے سلسلے میں (برسبیل انکار) کچھ گفتگو کرتے ہیں، انہوں نے کہا : بیٹے ! کیا تم قرآن پڑھتے ہو ؟ میں نے کہا : ہاں، انہوں نے کہا : سورة الزخرف پڑھو، میں نے پڑھا : «حم والکتاب المبين إنا جعلناه قرآنا عربيا لعلکم تعقلون وإنه في أم الکتاب لدينا لعلي حكيم» حم، قسم ہے اس واضح کتاب کی، ہم نے اس کو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے کہ تم سمجھ لو، یقیناً یہ لوح محفوظ میں ہے، اور ہمارے نزدیک بلند مرتبہ حکمت والی ہے (الزخرف : ١ - ٤ ) پڑھی، انہوں نے کہا : جانتے ہو ام الکتاب کیا ہے ؟ میں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، انہوں نے کہا : وہ ایک کتاب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے سے پہلے لکھا ہے، اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ فرعون جہنمی ہے اور اس میں «تبت يدا أبي لهب وتب» ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے، اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا (تبت : ١ ) بھی لکھا ہوا ہے۔ عطاء کہتے ہیں : پھر میں ولید بن عبادہ بن صامت (رض) سے ملا (ولید کے والد عبادہ بن صامت صحابی رسول تھے) اور ان سے سوال کیا : مرتے وقت آپ کے والد کی کیا وصیت تھی ؟ کہا : میرے والد نے مجھے بلایا اور کہا : بیٹے ! اللہ سے ڈرو اور یہ جان لو کہ تم اللہ سے ہرگز نہیں ڈر سکتے جب تک تم اللہ پر اور تقدیر کی اچھائی اور برائی پر ایمان نہ لاؤ۔ اگر اس کے سوا دوسرے عقیدہ پر تمہاری موت آئے گی تو جہنم میں جاؤ گے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور فرمایا : لکھو ، قلم نے عرض کیا : کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تقدیر لکھو جو کچھ ہوچکا ہے اور جو ہمیشہ تک ہونے والا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥١١٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (133) ، تخريج الطحاوية (271) ، المشکاة (94) ، الظلال (102 - 105) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2155

【24】

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اللہ تعالیٰ نے تقدیر کو زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے لکھا تھا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/القدر ٢ (٢٦٥٣) (تحفة الأشراف : ٨٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2156

【25】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ مشرکین قریش تقدیر کے بارے میں جھگڑتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو یہ آیت نازل ہوئی «يوم يسحبون في النار علی وجوههم ذوقوا مس سقر إنا کل شيء خلقناه بقدر» یعنی جس دن وہ جہنم میں منہ کے بل گھسیٹے جائیں گے (تو ان سے کہا جائے گا) تم لوگ جہنم کا مزہ چکھو، ہم نے ہر چیز کو اندازے سے پیدا کیا ہے (القمر : ٤ ٨ - ٤٩ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - مذکورہ حدیث مجھ سے قبیصہ نے بیان کی، وہ کہتے ہیں : مجھ سے عبدالرحمٰن بن زید نے بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/القدر ٤ (٢٦٥٦) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٠ (٨٣) ، ویأتي برقم (٣٢٩٠) (تحفة الأشراف : ١٤٥٨٩) ، و مسند احمد (٢/٤٤٤، ٤٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (83) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2157