26. طب کا بیان

【1】

پرہیز کرنا

قتادہ بن نعمان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے دنیا سے اسی طرح بچاتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی آدمی اپنے بیمار کو پانی سے بچاتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - یہ حدیث محمود بن لبید کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسل طریقہ سے آئی ہے، ٣ - اس باب میں صہیب اور ام منذر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٠٧٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اللہ کی نظر میں جب اس کا کوئی بندہ محبوب ہوجاتا ہے تو اس کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ اس کی دنیا ہے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے اس محبوب بندے کو دنیا سے ٹھیک اسی طرح بچاتا اور اسے محفوظ رکھتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بیمار کو کھانے اور پانی سے بچاتا ہے ، کیونکہ اسے جو مرض لاحق ہے اس میں کھانا پانی اس کے لیے بےحد مضر اور نقصان دہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5250 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2036 اس سند سے محمود بن لبید سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں قتادہ بن نعمان (رض) کا تذکرہ نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - قتادہ بن نعمان ظفری، ابو سعید خدری کے اخیافی (ماں شریک) بھائی ہیں، ٢ - محمود بن لبید نے نبی اکرم ﷺ کا زمانہ پایا ہے اور کم سنی میں آپ کو دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5250 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2036

【2】

پرہیز کرنا

ام منذر (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ علی (رض) کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے، ہمارے گھر کھجور کے خوشے لٹکے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ اس میں سے کھانے لگے اور آپ کے ساتھ علی (رض) بھی کھانے لگے، رسول اللہ ﷺ نے علی (رض) سے فرمایا : علی ! ٹھہر جاؤ، ٹھہر جاؤ، اس لیے کہ ابھی ابھی بیماری سے اٹھے ہو، ابھی کمزوری باقی ہے، ام منذر کہتی ہیں : علی (رض) بیٹھ گئے اور نبی اکرم ﷺ کھاتے رہے، پھر میں نے ان کے لیے چقندر اور جو تیار کی، نبی اکرم ﷺ نے کہا : علی ! اس میں سے لو (کھاؤ) ، یہ تمہارے مزاج کے موافق ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف فلیح کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - یہ حدیث فلیح سے بھی مروی ہے جسے وہ ایوب بن عبدالرحمٰن سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطب ٢ (٣٨٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٣ (٣٤٤٢) (تحفة الأشراف : ١٨٣٦٢) ، و مسند احمد (٦/٣٦٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مریض اپنے مزاج و طبیعت کا خیال رکھتے ہوئے کھانے پینے کی چیزوں سے پرہیز کرے ، ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ مرض سے شفاء یابی کے بعد بھی بیمار احتیاط برتتے ہوئے نقصان دہ چیزوں کے کھانے پینے سے پرہیز کرے۔ قال الشيخ الألباني : حسن انظر ما بعده (2038) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2037

【3】

دواء اور اس کی فضیلت

اسامہ بن شریک (رض) کہتے ہیں کہ اعرابیوں (بدوؤں) نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا ہم (بیماریوں کا) علاج کریں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، اللہ کے بندو ! علاج کرو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بیماری پیدا کی ہے اس کی دوا بھی ضرور پیدا کی ہے، سوائے ایک بیماری کے ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ کون سی بیماری ہے ؟ آپ نے فرمایا : بڑھاپا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن مسعود، ابوہریرہ، «ابو خزامہ عن أبیہ» ، اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطب ١ (٣٨٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الطب ١ (٣٤٣٦) (تحفة الأشراف : ١٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ مرض کے ساتھ ساتھ رب العالمین نے دوا اور علاج کا بھی بندوبست فرمایا ہے ، لیکن بڑھاپا ایسا مرض ہے جس کا کوئی علاج نہیں ، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ بھی اس سے پناہ مانگتے تھے ، یہ بھی معلوم ہوا کہ علاج و معالجہ کرنا مباح ہے اور مرض کی شفاء کے لیے اسباب تلاش کرنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3436) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2038

【4】

مریض کو کیا کھلایا جائے۔ ،

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کے گھر والوں کو تپ دق آتا تو آپ «حساء» ١ ؎ تیار کرنے کا حکم دیتے، «حساء» تیار کیا جاتا، پھر آپ ان کو تھوڑا تھوڑا پینے کا حکم دیتے، تو وہ اس میں سے پیتے، آپ ﷺ فرماتے تھے : «حساء» غمگین کے دل کو تقویت دیتا ہے، اور مریض کے دل سے اسی طرح تکلیف دور کرتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی پانی کے ذریعہ اپنے چہرے سے میل دور کرتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/في الکبری : الطب (٧٥٧٣) سنن ابن ماجہ/الطب ٥ (٣٤٤٥) (تحفة الأشراف : ١٧٩٩٠) مسند احمد (٦/٧٩) (حسن) (سند میں أم محمد مقبول راوی ہیں، یعنی متابعت کے وقت، اور مؤلف نے عروہ کی متابعت ذکر کی ہے، جو صحیحین میں ہے، لیکن کما تسرو ... الخ شاہد اور متابع نہ ہونے کی بنا پر ضعیف ہے، حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس آخری فقرے کو بھی نسائی کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور احمد اور ترمذی کی اس حدیث کو بھی ذکر کیا ہے، اور سکوت اختیار کیا ہے، یہ بھی اس حدیث کی ان کے نزدیک تقویت کی دلیل ہے) وضاحت : ١ ؎ : جو کے آٹے کا شہد یا دودھ کے ساتھ (حریرہ) ۔ آج کل جو سے بنی بارلی بہت مشہور غذا ہے ، جس کو میٹھا اور نمکین دونوں طرح استعمال کرتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3445) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (752) ، المشکاة (4234) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2039

【5】

مریض کو کھانے پینے پر مجبور نہ کیا جائے

عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے بیماروں کو کھانے پر مجبور نہ کرو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کھلاتا پلاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطب ٤ (٣٤٤٤) (تحفة الأشراف : ٩٩٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3444) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2040

【6】

کلونجی

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم لوگ اس کالے دانہ (کلونجی) کو لازمی استعمال کرو اس لیے کہ اس میں «سام» کے علاوہ ہر بیماری کی شفاء موجود ہے، «سام» موت کو کہتے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں بریدہ، ابن عمر اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - «الحبة السوداء» ،«شونيز» (کلونجی) کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٧ (٥٦٨٨) ، صحیح مسلم/السلام ٢٩ (٢٢١٥) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٦ (٣٤٤٧) (تحفة الأشراف : ١٥١٤٨) ، و مسند احمد (٢/٢٤١، ٢٦١، ٢٦٨، ٣٤٣، ٣٨٩، ٤٢٣، ٤٦٨، ٤٨٤، ٥٠٤، ٥١٠، ٥٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3447) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2041

【7】

اونٹوں کا پیشاب پینا

انس (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہیں آئی، تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں صدقہ کے اونٹوں کے ساتھ (چراگاہ کی طرف) روانہ کیا اور فرمایا : تم لوگ اونٹنیوں کے دودھ اور پیشاب پیو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٧٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آپ ﷺ نے اونٹ اور اونٹنی کا پیشاب علاج کی غرض سے انہیں پینے کا حکم دیا ، اس سے معلوم ہوا کہ حلال جانوروں کا پیشاب پاک ہے ، اگر ناپاک ہوتا تو اس کے پینے کی اجازت نہ ہوتی ، کیونکہ حرام اور نجس چیز سے علاج درست نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح وقد مضی أتم منه (62) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2042

【8】

جس نے زہر کھا کر خود کشی کی

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے لوہے کے ہتھیار سے اپنی جان لی، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے ہاتھ میں وہ ہتھیار ہوگا اور وہ اسے جہنم کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں گھونپکتا رہے گا، اور جس نے زہر کھا کر خودکشی کی، تو اس کے ہاتھ میں وہ زہر ہوگا، اور وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ اسے پیتا رہے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٥٦ (٥٧٧٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٧ (١٧٥) ، سنن ابی داود/ الطب ١١ (٣٨٧٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٨ (١٩٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الطب ١١ (٣٤٦٠) (تحفة الأشراف : ١٢٤٤٠) ، و مسند احمد (٢/٢٥٤، ٢٧٨، ٤٨٨) ، و سنن الدارمی/الدیات ١٠ (٢٤٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اہل توحید کے سلسلہ میں متعدد روایات سے ثابت ہے کہ وہ جہنم میں اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر اس سے باہر آ جائیں گے ، یہی وجہ ہے کہ علماء نے «خالدا مخلدا» کی مختلف توجیہیں کی ہیں : ( ١ ) اس سے زجر و توبیخ مراد ہے ، ( ٢ ) یہ اس شخص کی سزا ہے جس نے ایسا حلال و جائز سمجھ کر کیا ہو ، ( ٣ ) اس عمل کی سزا یہی ہے لیکن اہل توحید پر اللہ کی نظر کرم ہے کہ یہ سزا دینے کے بعد پھر انہیں جہنم سے نکال لے گا ، ( ٤ ) ہمیشہ ہمیش رہنے مراد لمبی مدت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3460) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2043

【9】

جس نے زہر کھا کر خود کشی کی

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے لوہے سے اپنی جان لی، اس کے ہاتھ میں وہ ہتھیار ہوگا اور وہ اسے جہنم کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں گھونپکتا رہے گا، اور جس نے زہر کھا کر خودکشی کی، تو اس کے ہاتھ میں زہر ہوگا اور وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ اسے پیتا رہے گا، اور جس نے پہاڑ سے گر کر خودکشی کی، وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ گرتا رہے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١٢٣٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2043) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2044

【10】

جس نے زہر کھا کر خود کشی کی

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خبیث دوا استعمال کرنے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : خبیث دوا سے وہ دوا مراد ہے جس میں زہر ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطب ١١ (٣٨٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الطب ١١ (٣٤٥٩) (تحفة الأشراف : ١٤٣٤٦) ، و مسند احمد (٢/٣٠٥، ٤٤٦، ٤٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : خبیث دوا میں وہ سب چیزیں داخل ہیں جو نجس ناپاک اور حرام ہوں اور انسانی طبائع جس سے نفرت کرتے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3459) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2045

【11】

نشہ آور چیز سے علاج کرنا منع ہے

وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر تھے جب سوید بن طارق یا طارق بن سوید نے آپ سے شراب کے بارے میں پوچھا تو آپ نے انہیں شراب سے منع فرمایا، سوید نے کہا : ہم لوگ تو اس سے علاج کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ دوا نہیں بلکہ وہ تو خود بیماری ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ٣ (١٩٨٤) ، سنن ابی داود/ الطب ١١ (٣٨٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٧١) ، و مسند احمد (٣/٣١٧) ، (وھو مروي أیضا من مسند طارق بن سوید عند : سنن ابن ماجہ/الطب ٢٧ (٣٥٠٠) ، و مسند احمد (٤/٣١١) ، و (٥/٢٩٢- ٢٩٣، ٢٩٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3500) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2046 اس سند سے بھی وائل (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ (اس سند کے ایک راوی) نضر نے طارق بن سوید کہا اور (دوسرے راوی) شبابہ نے سوید بن طارق کہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3500) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2046

【12】

ناک میں دوائی ڈالنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس چیز سے علاج کرتے ہو اس میں سب سے بہتر «سعوط» (ناک میں ڈالنے والی دوا) ، «لدود» (منہ کے ایک کنارہ سے ڈالی جانے والی دوا) ، «حجامة» (پچھنا لگانا حجامہ) اور دست آور دوا ہے، جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو صحابہ نے آپ کے منہ کے ایک کنارہ میں دوا ڈالی، جب وہ دوا ڈال چکے تو آپ نے فرمایا : موجود لوگوں کے بھی منہ میں دوا ڈالو ، ابن عباس (رض) کہتے ہیں : عباس (رض) کے علاوہ تمام لوگوں کے منہ میں دوا ڈالی گئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر حدیث رقم ١٧٥٧ (لم یذکرہ المزي بھذا اللفظ، وإنما ذکرہ بلفظ ما مضی برقم ١٧٥٧ (ضعیف) (سند میں عباد بن منصور مدلس اور مختلط راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (4473 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2047

【13】

ناک میں دوائی ڈالنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس چیز سے تم علاج کرتے ہو ان میں سب سے بہتر منہ کے ایک کنارہ سے ڈالی جانے والی دوا، ناک میں ڈالنے کی دوا، پچھنا اور دست آور دوا ہے اور تمہارا اپنی آنکھوں میں لگانے کا سب سے بہتر سرمہ اثمد ہے، اس لیے کہ وہ بینائی (نظر) کو بڑھاتا ہے اور بال اگاتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک سرمہ دانی تھی جس سے سوتے وقت ہر آنکھ میں تین سلائی لگاتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : عباد بن منصور کی یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف إلا فقرة الاکتحال بالإثمد فصحيحة، ابن ماجة (3495 - 3497 - 3499) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2048

【14】

داغ لگانے کی ممانعت

عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بدن داغنے سے منع فرمایا ١ ؎، پھر بھی ہم بیماری میں مبتلا ہوئے تو ہم نے بدن داغ لیا، لیکن ہم کامیاب و کامران نہیں ہوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٨٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : داغ کر علاج کرنے کی ممانعت نہی تنزیہی پر محمول ہے یعنی نہ داغنا بہتر ہے ، ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ ممانعت عمران بن حصین کے ساتھ مخصوص ہے ، کیونکہ اس بات کا امکان ہے کہ وہ کسی ایسے مرض میں مبتلا رہے ہوں جس میں بدن داغنے سے انہیں فائدہ کے بجائے نقصان پہنچنے والا ہو ، دیکھئیے اگلی حدیث۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3490) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2049

【15】

داغ لگانے کی اجازت

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اسعد بن زرارہ کے بدن کو سرخ پھنسی کی بیماری میں داغا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابی اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علاج کے طور پر بدن کو داغنا جائز ہے لیکن بلا ضرورت محض بیماری کے اندیشہ سے ایسا کرنا مکروہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5434 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2050

【16】

پچھنے لگانا

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گردن کی دونوں جانب موجود دو پوشیدہ رگوں اور کندھے پر پچھنا لگواتے تھے، اور آپ مہینہ کی سترہویں، انیسویں اور اکیسویں تاریخ کو پچھنا لگواتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابن عباس اور معقل بن یسار (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطب ٤ (٣٨٦٠) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٢١ (٣٤٨٢) (تحفة الأشراف : ١١٤٧) ، و مسند احمد (٣/١١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3483) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2051

【17】

پچھنے لگانا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معراج کی رات کا حال بیان کیا کہ آپ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرے انہوں نے آپ کو یہ حکم ضرور دیا کہ اپنی امت کو پچھنا لگوانے کا حکم دیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث ابن مسعود کی روایت سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٣٦٤) ، وانظر : مسند احمد (١/٢٥٤) (صحیح) (سند میں عبدالرحمن بن اسحاق واسطی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3477) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2052

【18】

پچھنے لگانا

عکرمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) کے پاس پچھنا لگانے والے تین غلام تھے، ان میں سے دو ابن عباس اور ان کے اہل و عیال کے لیے غلہ حاصل کرتے تھے اور ایک غلام ان کو اور ان کے اہل و عیال کو پچھنا لگاتا تھا، ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پچھنا لگانے والا غلام کیا ہی اچھا ہے، وہ (فاسد) خون کو دور کرتا ہے، پیٹھ کو ہلکا کرتا ہے، اور آنکھ کو صاف کرتا ہے ۔ آپ ﷺ معراج میں فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرے انہوں نے یہ ضرور کہا کہ تم پچھنا ضرور لگواؤ، آپ نے فرمایا : تمہارے پچھنا لگوانے کا سب سے بہتر دن مہینہ کی سترہویں، انیسویں اور اکیسویں تاریخ ہے ، آپ ﷺ نے مزید فرمایا : سب سے بہتر علاج جسے تم اپناؤ وہ ناک میں ڈالنے کی دوا، منہ کے ایک طرف سے ڈالی جانے والی دوا، پچھنا اور دست آور دوا ہے ، رسول اللہ ﷺ کے منہ میں عباس اور صحابہ کرام نے دوا ڈالی، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : میرے منہ میں کس نے دوا ڈالی ہے ؟ تمام لوگ خاموش رہے تو آپ نے فرمایا : گھر میں جو بھی ہو اس کے منہ میں دوا ڈالی جائے، سوائے آپ کے چچا عباس کے ۔ راوی عبد کہتے ہیں : نضر نے کہا : «لدود» سے مراد «وجور» ہے (حلق میں ڈالنے کی ایک دوا) ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عباد منصور ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔ ٢ - اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطب ٢٠ (٣٤٧٨) (تحفة الأشراف : ٦١٣٨) (ضعیف) (سند میں عباد بن منصور مدلس اور مختلط راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : (کان لابن عباس ..) ضعيف الإسناد، (نعم العبد ..) ضعيف، (إن خير ما تحتجمون ..) **، (إن خير ما تداويتم ..) ضعيف، (لا يبقی ممن ... ) صحيح - دون قوله لده العباس بل هو منکر لمخالفته لقوله صلی اللہ عليه وسلم في حديث عائشة نحوه بلفظ غير (نعم العبد ....) ، ابن ماجة (3478) // ضعيف سنن ابن ماجة (762) ، ضعيف الجامع الصغير (5966) //، (إن خير ما تداويتم .....) مضی (2048) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2053

【19】

مہندی سے علاج کرنا

سلمی (رض) سے (جو نبی اکرم ﷺ کی خدمت کرتی تھیں) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو تلوار اور چاقو یا پتھر اور کانٹے سے جو زخم بھی لگتا تھا آپ ﷺ مجھے اس پر مہندی رکھنے کا ضرور حکم دیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے فائد ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - بعض لوگوں نے اس حدیث کی فائد سے روایت کرتے ہوئے سند میں «عن علي بن عبيد الله، عن جدته سلمی» کی بجائے «عن عبيد اللہ ابن علي عن جدته سلمی» بیان کیا ہے، «عبيد اللہ بن علي» ہی زیادہ صحیح ہے، «سلمیٰ» کو «سُلمیٰ» بھی کہا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف بھذا اللفظ، وأخرجہ نحوہ بھذا السند : سنن ابی داود/ الطب ٣ (٣٨٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٢٩ (٣٥٠٢) (تحفة الأشراف : ١٥٨٩٣) ، و مسند احمد (٦/٤٦٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3502) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2054 ہم سے محمد بن علی نے «زيد ابن حباب عن فائد مولی عبيد اللہ بن علي عن مولاه عبيد اللہ بن علي عن جدته عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی اسی معنی کی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3502 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2054

【20】

تعویذ اور جھاڑ پھونک کی ممانعت

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بدن داغا یا جھاڑ پھونک کرائی وہ توکل کرنے والوں میں سے نہ رہا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن مسعود، ابن عباس اور عمران بن حصین (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطب ٢٣ (٣٤٨٩) (تحفة الأشراف : ١١٥١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : شرکیہ الفاظ یا ایسے الفاظ جن کے معنی و مفہوم واضح نہ ہوں ان کے ذریعہ جھاڑ پھونک ممنوع ہے ، ماثور الفاظ کے ساتھ جھاڑ پھونک جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3489) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2055

【21】

تعویذ اور دم وغیرہ کی اجازت

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بچھو کے ڈنک، نظر بد اور پسلی میں نکلنے والے دانے کے سلسلے میں، جھاڑ پھونک کی اجازت دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : الطب ٣٤ (٣٥١٦) (تحفة الأشراف : ٩٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2056

【22】

تعویذ اور دم وغیرہ کی اجازت

عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جھاڑ پھونک صرف نظر بد اور پسلی میں نکلنے والے دانے کی وجہ سے ہی جائز ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : شعبہ نے یہ حدیث «عن حصين عن الشعبي عن بريدة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطب ١٧ (٣٨٨٤) ، وأخرجہ البخاري في الطب ١٧ (٥٧٠٥) موقوفا علی عمران بن حصین رضي اللہ عنہ (تحفة الأشراف : ١٠٨٣٠) ، وانظر مسند احمد (٤/٤٣٦، ٤٣٨، ٤٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کسی اور بیماری میں جھاڑ پھونک جائز نہیں ہے ، کیونکہ ان کے علاوہ میں جھاڑ پھونک احادیث سے ثابت ہے ، اس لیے اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ان دونوں میں جھاڑ بھونک زیادہ مفید اور کار آمد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4557) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2057

【23】

معوذتین کے ساتھ جھاڑ پھونک کرنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جنوں اور انسان کی نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے، یہاں تک کہ معوذتین (سورۃ الفلق اور سورة الناس) نازل ہوئیں، جب یہ سورتیں اتر گئیں تو آپ نے ان دونوں کو لے لیا اور ان کے علاوہ کو چھوڑ دیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الاستعاذة ٣٧ (٥٤٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٣٣ (٣٥١١) (تحفة الأشراف : ٤٣٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ان دونوں سورتوں یعنی «قل أعوذ برب الفلق» اور «قل أعوذ برب الناس» کے بہت سارے فائدے ہیں ، انہیں صبح و شام تین تین بار پڑھنے والا إن شاء اللہ مختلف قسم کی بلاؤں اور آفتوں سے محفوظ رہے گا ، ان سورتوں کے نازل ہونے کے بعد نبی اکرم ﷺ انہیں دونوں کے ذریعہ پناہ مانگا کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3511) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2058

【24】

نظر بد سے جھاڑ پھونک

عبید بن رفاعہ زرقی (رض) سے روایت ہے کہ اسماء بنت عمیس (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جعفر طیار (رض) کے لڑکوں کو بہت جلد نظر بد لگ جاتی ہے، کیا میں ان کے لیے جھاڑ پھونک کراؤں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، اس لیے کہ اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت کرسکتی تو اس پر نظر بد ضرور سبقت کرتی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث «عن أيوب عن عمرو بن دينار عن عروة بن عامر عن عبيد بن رفاعة عن أسماء بنت عميس عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے بھی مروی ہے، ٣ - اس باب میں عمران بن حصین اور بریدہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطب ٣٣ (٣٥١٠) ، (والنسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ١٥٧٥٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3510) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2059 اس سند سے بھی اسماء بنت عمیس (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ فائدہ ١ ؎: معلوم ہوا کہ نظر بد کا اثر بےانتہائی نقصان دہ اور تکلیف دہ ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی چیز خلاف تقدیر پیش آسکتی اور ضرر پہنچا سکتی تو وہ نظر بد ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3510) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2059

【25】

نظر بد سے جھاڑ پھونک

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول حسن اور حسین (رض) پر یہ کلمات پڑھ کر جھاڑ پھونک کرتے تھے : «أعيذكما بکلمات اللہ التامة من کل شيطان وهامة ومن کل عين لامة» میں تمہارے لیے اللہ کے مکمل اور پورے کلمات کے وسیلے سے ہر شیطان اور ہلاک کرنے والے زہریلے کیڑے اور نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں ، اور آپ فرماتے تھے : اسماعیل اور اسحاق کے لیے اسی طرح ابراہیم (علیہم السلام) پناہ مانگتے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/احادیث الأنبیاء ١٠ (٣٦٦٩) ، سنن ابی داود/ السنة ٢٢ (٤٧٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٣٦ (٣٥٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3525) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2060

【26】

نظر لگ جانا حق ہے اور اس کے لئے غسل کرنا

حابس تمیمی (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : الو (کے سلسلے میں لوگوں کے اعتقاد) کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نظر بد کا اثر حقیقی چیز ہے (یعنی سچ ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٢٧٢) ، وانظر مسند احمد (٤/٦٧) (صحیح) (سند میں حیہ بن حابس متابعت کے باب میں مقبول راوی ہیں، اس لیے حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، تراجع الالبانی/٥، السراج المنیر ٥٥٩٠ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، لکن قوله : العين حق صحيح .، الضعيفة (4804) ، الصحيحة (1248) // ضعيف الجامع الصغير (6295) ، صحيح الجامع الصغير (7503) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2061

【27】

نظر لگ جانا حق ہے اور اس کے لئے غسل کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت (پہل) کرسکتی تو اس پر نظر بد ضرور سبقت (پہل) کرتی، اور جب لوگ تم سے غسل کرائیں تو تم غسل کرلو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - حیہ بن حابس کی روایت (جو اوپر مذکور ہے) غریب ہے، ٣ - شیبان نے اسے «عن يحيى بن أبي كثير عن حية بن حابس عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کیا ہے جب کہ علی بن مبارک اور حرب بن شداد نے اس سند میں ابوہریرہ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، ٤ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ١٦ (٢١٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٧١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : زمانہ جاہلیت میں نظر بد کا ایک علاج یہ تھا کہ جس آدمی کی نظر لگنے کا اندیشہ ہوتا اس سے غسل کرواتے ، اور اس پانی سے نظر لگنے والے کو غسل دیتے ، نبی اکرم ﷺ نے اس عمل کو سند جواز عطا فرمایا ، اور فرمایا کہ اگر کسی سے ایسے غسل کی طلب کی جائے تو وہ برا نہ مانے اور غسل کر کے غسل کیا ہوا پانی نظر بد لگنے والے کو دیدے۔ مگر اس غسل کا طریقہ عام غسل سے سے قدرے مختلف ہے ، تفصیل کے لیے ہماری کتاب مسنون وظائف واذکار اور شافی طریقہ علاج کا مطالعہ کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1251 - 1252) ، الکلم الطيب (242) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2062

【28】

تعویز پر اجرت لینا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا، ہم نے ایک قوم کے پاس پڑاؤ ڈالا اور ان سے ضیافت کی درخواست کی، لیکن ان لوگوں نے ہماری ضیافت نہیں کی، اسی دوران ان کے سردار کو بچھو نے ڈنک مار دیا، چناچہ انہوں نے ہمارے پاس آ کر کہا : کیا آپ میں سے کوئی بچھو کے ڈنک سے جھاڑ پھونک کرتا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں، میں کرتا ہوں، لیکن اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک کہ تم مجھے کچھ بکریاں نہ دے دو ، انہوں نے کہا : ہم تم کو تیس بکریاں دیں گے، چناچہ ہم نے قبول کرلیا اور میں نے سات بار سورة فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کیا تو وہ صحت یاب ہوگیا اور ہم نے بکریاں لے لیں ١ ؎، ہمارے دل میں بکریوں کے متعلق کچھ خیال آیا ٢ ؎، لہٰذا ہم نے کہا : جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ جائیں، جب ہم آپ ﷺ کے پاس پہنچے تو میں نے جو کچھ کیا تھا آپ سے بیان کردیا، آپ نے فرمایا : تم نے کیسے جانا کہ سورة فاتحہ رقیہ (جھاڑ پھونک کی دعا) ہے ؟ تم لوگ بکریاں لے لو اور اپنے ساتھ اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - شعبہ، ابو عوانہ ہشام اور کئی لوگوں نے یہ حدیث «عن أبي المتوکل عن أبي سعيد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے، ٣ - تعلیم قرآن پر معلم کے لیے اجرت لینے کو امام شافعی نے جائز کہا ہے اور وہ معلم کے لیے اجرت کی شرط لگانے کو درست سمجھتے ہیں، انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإجارة ١٦ (٢٢٧٦) ، وفضائل القرآن ٩ (٥٠٠٧) ، والطب ٣٣ (٥٧٣٦) ، و ٣٩ (٥٧٤٩) ، صحیح مسلم/السلام ٢٣ (٢٢٠١) ، سنن ابی داود/ الطب ١٩ (٣٩٠٠) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٧ (٢١٥٦) (تحفة الأشراف : ٤٣٠٧) ، و مسند احمد (٣/٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ خیال آیا کہ یہ ہمارے لیے حلال ہیں یا نہیں۔ ٢ ؎ : جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اذان ، قضاء ، امامت ، اور تعلیم قرآن کی اجرت لی جاسکتی ہے ، کیونکہ صحیح بخاری میں کتاب اللہ کی تعلیم کی بابت اجرت لینے سے متعلق ابن عباس کی روایت اور سورة فاتحہ پڑھ کر دم کر کے اس کی اجرت لینے سے متعلق ابو سعید خدری (رض) کی یہ حدیث جو صحیح بخاری میں بھی ہے ، اسی طرح صحیحین میں سہل بن سعد (رض) کی حدیث جس میں ہے کہ آپ نے ایک شخص کے نکاح میں قرآن کی چند آیات کو مہر قرار دیا یہ ساری کی ساری روایات اس کے جواز پر دلیل ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2156) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2063

【29】

تعویز پر اجرت لینا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ (جن میں شامل میں بھی تھا) عرب کے ایک قبیلہ کے پاس سے گزرے، انہوں نے ان کی مہمان نوازی نہیں کی، اسی دوران ان کا سردار بیمار ہوگیا، چناچہ ان لوگوں نے ہمارے پاس آ کر کہا : آپ لوگوں کے پاس کوئی علاج ہے ؟ ہم نے کہا : ہاں، لیکن تم نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی ہے اس لیے ہم اس وقت تک علاج نہیں کریں گے جب تک تم ہمارے لیے اجرت نہ متعین کر دو ، انہوں نے اس کی اجرت میں بکری کا ایک گلہ مقرر کیا، ہم میں سے ایک آدمی (یعنی میں خود) اس کے اوپر سورة فاتحہ پڑھ کر دم کرنے لگا تو وہ صحت یاب ہوگیا، پھر جب ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اس واقعہ کو بیان کیا تو آپ نے فرمایا : تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورة فاتحہ جھاڑ پھونک (کی دعا) ہے ؟ ابو سعید خدری (رض) نے آپ سے اس پر کوئی نکیر ذکر نہیں کی، آپ نے فرمایا : کھاؤ اور اپنے ساتھ اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث اعمش کی اس روایت سے جو جعفر بن ایاس کے واسطہ سے آئی ہے زیادہ صحیح ہے، ٣ - کئی لوگوں نے یہ حدیث «عن أبي بشر جعفر بن أبي وحشية عن أبي المتوکل عن أبي سعيد» کی سند سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ٤٢٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2063) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2064

【30】

جھاڑ پھونک اور ادویات

ابوخزامہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! جس دم سے ہم جھاڑ پھونک کرتے ہیں، جس دوا سے علاج کرتے ہیں اور جن بچاؤ کی چیزوں سے ہم اپنا بچاؤ کرتے ہیں (ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ ) کیا یہ اللہ کی تقدیر میں کچھ تبدیلی کرتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : یہ سب بھی اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر ہی کا حصہ ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطب ١ (٣٤٣٧) (تحفة الأشراف : ١١٨٩٨) (ضعیف) (اس کی سند میں اضطراب ہے ۔ یعنی ” أبوخزامة، عن أبيه “ یا ” ابن أبي خزامة، عن أبيه “ نیز ابو خزامہ تابعی ہیں یا صحابی ؟ ، اگر ” ابو خزامہ “ تابعی ہیں تو ان کا حال معلوم نہیں، اگر یہ صحابی ہیں تو ان کے بیٹے ” ابن أبی خزمہ “ ہیں، تراجع الالبانی ٣٤٤ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کی توفیق حسب تقدیر الٰہی ہوتی ہے ، اس لیے اسباب کو اپنانا چاہیئے ، لیکن یہ اعتقاد نہ ہو کہ ان سے تقدیر بدل جاتی ہے ، کیونکہ اللہ اپنے فیصلہ کو نہیں بدلتا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3437) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (749) ، وسيأتي برقم (379 / 2252) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2065

【31】

کھمبی اور عجوہ (عمدہ کھجور)

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عجوہ (کھجور) جنت کا پھل ہے، اس میں زہر سے شفاء موجود ہے اور صحرائے عرب کا «فقعہ» ١ ؎ ایک طرح کا «من» (سلوی والا «من» ) ہے، اس کا عرق آنکھ کے لیے شفاء ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - یہ محمد بن عمرو کی روایت سے ہے، ہم اسے صرف محمد بن عمر ہی سعید بن عامر کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ محمد بن عمرو سے روایت کرتے ہیں، ٣ - اس باب میں سعید بن زید، ابوسعید اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطب ٨ (٣٤٥٥) (تحفة الأشراف : ١٥٠٢٧) و مسند احمد (٢/٣٠١، ٣٠٥، ٣٢٥، ٣٥٦، ٤٢١، ٤٨٨، ٤٩٠، ٥١١) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہاں حدیث میں وارد لفظ «الکمأ ۃ » کا ترجمہ کھمبی قطعاً درست نہیں ہے «الکمأ ۃ » کو عربوں کی عامی زبان میں «فقعہ» کہا جاتا ہے ، یہ «فقعہ» موسم سرما کی بارشوں کے بعد صحرائے نجد و نفود کبریٰ ، مملکت سعودیہ کے شمال اور ملک عراق کے جنوب میں پھیلے ہوئے بہت بڑے صحراء میں زیر زمین پھیلتا ہے ، اس کی رنگت اور شکل و صورت آلو جیسی ہوتی ہے ، جب کہ کھمبی زمین سے باہر اور ہندوستان کے ریتلے علاقوں میں ہوتی ہے ، ابن القیم ، ابن حجر اور دیگر علماء امت نے «الکمأ ۃ » کی جو تعریف لکھی ہے اس کے مطابق بھی «الکمأ ۃ » درحقیقت «فقعہ» ہے کھمبی نہیں ، (تفصیل کے لیے فتح الباری اور تحفۃ الأحوذی کا مطالعہ کرلیں ، نیز اس پر تفصیلی کلام ابن ماجہ کے حدیث نمبر ( ٣٤٥٥ ) کے حاشیہ میں ملاحظہ کریں ، اور جہاں بھی «کمأ ۃ » کا ترجمہ کھمبی لکھا ہے ، اس کی جگہ «فقعہ» لکھ لیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (4235 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2066

【32】

کھمبی اور عجوہ (عمدہ کھجور)

سعید بن زید (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صحرائے عرب کا فقعہ ایک طرح کا «من» (سلوی والا «من» ) ہے اور اس کا عرق آنکھ کے لیے شفاء ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر البقرة ٤ (٤٤٧٨) ، وتفسیر الأعراف ٢ (٤٦٣٩) ، والطب ٢٠ (٥٧٠٨) ، صحیح مسلم/الأشربة والأطعمة ٢٨ (٢٠٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٨ (٣٤٥٤) (تحفة الأشراف : ٤٤٦٥) ، و مسند احمد (١/١٨٧، ١٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (444) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2067

【33】

کھمبی اور عجوہ (عمدہ کھجور)

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا : کھنبی زمین کی چیچک ہے، (یہ سن کر) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صحرائے عرب کا «فقعہ» ایک طرح کا «من» ہے، اس کا عرق آنکھ کے لیے شفاء ہے، اور عجوہ کھجور جنت کے پھلوں میں سے ایک پھل ہے، وہ زہر کے لیے شفاء ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٠٦٦ (تحفة الأشراف : ١٣٤٩٦) (صحیح) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن اوپر کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (2067) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2068

【34】

کھمبی اور عجوہ (عمدہ کھجور)

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے تین، پانچ یا سات کھنبی لی، ان کو نچوڑا، پھر اس کا عرق ایک شیشی میں رکھا اور اسے ایک لڑکی کی آنکھ میں ڈالا تو وہ صحت یاب ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (ضعیف) (سند میں قتادہ اور ابوہریرہ (رض) کے درمیان انقطاع ہے، نیز یہ موقوف ہے، یعنی ابوہریرہ کا کلام ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد مع وقفه صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2069

【35】

کھمبی اور عجوہ (عمدہ کھجور)

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ کلونجی موت کے علاوہ ہر بیماری کی دوا ہے۔ قتادہ ہر روز کلونجی کے اکیس دانے لیتے، ان کو ایک پوٹلی میں رکھ کر پانی میں بھگوتے پھر ہر روز داہنے نتھنے میں دو بوند اور بائیں میں ایک بوند ڈالتے، دوسرے دن بائیں میں دو بوندیں اور داہنی میں ایک بوند ڈالتے اور تیسرے روز داہنے میں دو بوند اور بائیں میں ایک بوند ڈالتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (ضعیف) (اس سند میں بھی قتادہ اور ابوہریرہ (رض) کے درمیان انقطاع ہے، نیز یہ موقوف ہے، یعنی ابوہریرہ کا کلام ہے، لیکن ابوہریرہ کا یہ قول مرفوع حدیث سے ثابت ہے، الصحیحة ١٩٠٥ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد مع وقفه، لكن، الصحيحة مرفوعا دون قول قتادة : يأخذ ... ، الصحيحة (1905) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2070

【36】

کاہن کی اجرت

ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت، زانیہ عورت کی کمائی اور کاہن کے نذرانے لینے سے منع فرمایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١١٣٣، ١٢٧٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : غیب کا علم صرف رب العالمین کے لیے خاص ہے ، اس کا دعویٰ کرنا بہت بڑا گناہ ہے ، اسی لیے اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی باطل اور غلط طریقے سے جو مال لوگوں سے حاصل کرتے ہیں ، وہ حرام ہے ، زنا معصیت اور فحش کے اعمال میں سے سب سے بدترین عمل ہے ، اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت ناپاک اور حرام ہے ، کتا ایک نجس جانور ہے اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ جس برتن میں یہ منہ ڈال دے شریعت نے اسے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے ، اسی لیے کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے ، سوائے اس کے کہ گھر ، جائیداد اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2159) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2071

【37】

گلے میں تعویز لٹکانا

عیسیٰ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عکیم ابومعبد جہنی کے ہاں ان کی عیادت کرنے گیا، ان کو «حمرة» کا مرض تھا ١ ؎ ہم نے کہا : کوئی تعویذ وغیرہ کیوں نہیں لٹکا لیتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : موت اس سے زیادہ قریب ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی چیز لٹکائی وہ اسی کے سپرد کردیا گیا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : عبداللہ بن عکیم کی حدیث کو ہم صرف محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی روایت سے جانتے ہیں، عبداللہ بن عکیم نے نبی اکرم ﷺ سے حدیث نہیں سنی ہے لیکن وہ آپ ﷺ کے زمانہ میں تھے، وہ کہتے تھے : رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں کے پاس لکھ کر بھیجا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٦٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «حمرہ» ایک قسم کا وبائی مرض ہے جس کی وجہ سے بخار آتا ہے ، اور بدن پر سرخ دانے پڑجاتے ہیں۔ ٢ ؎ : جو چیزیں کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہیں وہ حرام ہیں ، چناچہ تعویذ گنڈا اور جادو منتر وغیرہ اسی طرح حرام کے قبیل سے ہیں ، تعویذ میں آیات قرآنی کا ہونا اس کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتی ، کیونکہ حدیث میں مطلق لٹکانے کو ناپسند کیا گیا ہے ، یہ حکم عام ہے اس کے لیے کوئی دوسری چیز مخص نہیں ہے۔ بلکہ ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی تعویذ ، گنڈا یا کوئی منکا وغیرہ لٹکایا اس نے شرک کیا ۔ قال الشيخ الألباني : حسن غاية المرام (297) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2072

【38】

بخار کو پانی سے ٹھنڈا کرنا

رافع بن خدیج (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بخار جہنم کی گرمی سے ہوتا ہے، لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں اسماء بنت ابوبکر، ابن عمر، زبیر کی بیوی، ام المؤمنین عائشہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں (عائشہ (رض) کی روایت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٠ (٣٢٦٢) ، والطب ٢٨ (٥٧٢٦) ، صحیح مسلم/السلام ٢٦ (٢٢١٢) ، سنن ابن ماجہ/الطب ١٩ (٣٤٧٣) (تحفة الأشراف : ٣٥٦٢) ، و مسند احمد (٣/٤٦٤) ، و (٤/١٤١) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٥٥ (٢٨١١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3473) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2073

【39】

بخار کو پانی سے ٹھنڈا کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بخار جہنم کی گرمی سے ہوتا ہے، لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٢٨ (٥٧٢٥) ، صحیح مسلم/السلام ٢٦ (٢٢١٠) ، سنن ابن ماجہ/الطب ١٩ (٣٤٧١) (تحفة الأشراف : ١٧٠٥٠) ، مسند احمد (٦/٥٠، ٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2074

【40】

بخار کو پانی سے ٹھنڈا کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ صحابہ کو بخار اور ہر قسم کے درد میں یہ دعا پڑھنا سکھاتے تھے، «بسم اللہ الکبير أعوذ بالله العظيم من شر کل عرق نعار ومن شر حر النار» میں بڑے اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور عظمت والے اللہ کے واسطے سے ہر بھڑکتی رگ اور آگ کی گرمی کے شر سے پناہ مانگتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف ابراہیم بن اسماعیل بن ابوحبیبہ کی روایت سے جانتے ہیں اور ابراہیم بن اسماعیل ضعیف الحدیث سمجھے جاتے ہیں، ٣ - بعض احادیث میں «عرق نعار» کے بجائے «عرق يعار» بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطب ٣٧ (٣٥٢٦) (تحفة الأشراف : ٦٠٧٦) (ضعیف) (سند میں ابراہیم بن اسماعیل ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1554) // ضعيف الجامع الصغير (4587) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2075

【41】

بچے کو دودھ پلانے کی حالت میں بیوی سے جماع کرنا

جدامہ بنت وہب (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : میں نے ارادہ کیا کہ ایام رضاعت میں صحبت کرنے سے لوگوں کو منع کر دوں، پھر میں نے دیکھا کہ فارس اور روم کے لوگ ایسا کرتے ہیں، اور ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - مالک نے یہ حدیث «عن أبي الأسود عن عروة عن عائشة عن جدامة بنت وهب عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں اسماء بنت یزید سے بھی روایت ہے، ٤ - مالک کہتے ہیں : «غيلہ» یہ ہے کہ کوئی شخص ایام رضاعت میں اپنی بیوی سے جماع کرے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٣٤ (١٤٤٢) ، سنن ابی داود/ الطب ١٦ (٣٨٨٢) ، سنن النسائی/النکاح ٥٤ (٣٣٢٦) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٦ (٢٠١١) (تحفة الأشراف : ١٥٧٨٦) ، وط/الرضاع ٣ (١٦) ، و مسند احمد (٦/٣٦١، ٤٣٤) ، وسنن الدارمی/النکاح ٣٣ (٢٢٦٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2011) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2076

【42】

بچے کو دودھ پلانے کی حالت میں بیوی سے جماع کرنا

جدامہ بنت وہب اسدیہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : میں نے ارادہ کیا تھا کہ ایام رضاعت میں جماع کرنے سے لوگوں کو منع کروں، پھر مجھے یاد آیا کہ روم اور فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں اور اس سے ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے ۔ مالک کہتے ہیں :«غيلہ» یہ ہے کہ کوئی شخص ایام رضاعت میں اپنی بیوی سے جماع کرے۔ عیسیٰ بن احمد کہتے ہیں : ہم سے اسحاق بن عیسیٰ نے بیان کیا وہ کہتے ہیں : مجھ سے مالک نے ابوالاسود کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث بیان کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2076) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2077

【43】

بچے کو دودھ پلانے کی حالت میں بیوی سے جماع کرنا

زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ذات الجنب ١ ؎ کی بیماری میں زیتون کا تیل اور ورس ٢ ؎ تشخیص کرتے تھے، قتادہ کہتے ہیں : اس کو منہ میں ڈالا جائے گا، اور منہ کی اس جانب سے ڈالا جائے گا جس جانب مرض ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابوعبداللہ کا نام میمون ہے، وہ ایک بصریٰ شیخ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطب ١٧ (٣٤٦٧) (تحفة الأشراف : ٣٦٨٤) (سند میں میمون ابوعبد اللہ ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : پسلی کا ورم جو اکثر مہلک ہوتا ہے۔ ٢ ؎ : ایک زرد رنگ کی خوشبودار گھاس ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3467) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (761) ، وفيه زيادة : القسط // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2078

【44】

بچے کو دودھ پلانے کی حالت میں بیوی سے جماع کرنا

زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ذات الجنب کا علاج قسط بحری (عود ہندی) اور زیتون کے تیل سے کریں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢ - ہم اسے صرف میمون کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ زید بن ارقم سے روایت کرتے ہیں، ٣ - میمون سے کئی لوگوں نے یہ حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف انظر ما قبله (2078) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2079

【45】

عثمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عیادت کے لیے میرے پاس تشریف لائے، اس وقت مجھے ایسا درد تھا کہ لگتا تھا وہ مار ڈالے گا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے داہنے ہاتھ سے سات مرتبہ درد کی جگہ چھوؤ اور یہ دعا پڑھو «أعوذ بعزة اللہ وقدرته وسلطانه من شر ما أجد» میں اللہ کی عزت اور اس کی قدرت اور طاقت کے وسیلے سے اس تکلیف کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو مجھے لاحق ہے ۔ میں نے ویسا ہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے میری تکلیف دور کردی، چناچہ میں ہمیشہ اپنے گھر والوں کو اور دوسروں کو یہ دعا پڑھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٣٤ (٢٢٠٢) ، سنن ابی داود/ الطب ١٩ (٣٨٩١) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٣٦ (٣٥٢٢) (تحفة الأشراف : ٩٧٧٤) ، وط/العین ٤ (٩) ، و مسند احمد (٤/٢١، ٢١٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3522) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2080

【46】

سنا کے بارے میں

اسماء بنت عمیس (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ اسہال کے لیے تم کیا لیتی ہو ؟ میں نے کہا : «شبرم» ١ ؎، آپ نے فرمایا : وہ گرم اور بہانے والا ہے ۔ اسماء کہتی ہیں : پھر میں نے «سنا» ٢ ؎ کا مسہل لیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر کسی چیز میں موت سے شفاء ہوتی تو «سنا» میں ہوتی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس سے (یعنی «سنا» سے) مراد دست آور دواء ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطب ١٢ (٣٤٦١) (تحفة الأشراف : ١٥٧٥٩) (ضعیف) (اس کی سند میں سخت اضطراب ہے ” زرعة بن عبداللہ، زرعة بن عبدالرحمن “ ، ” عتبة بن عبداللہ، عبید اللہ “ بہر حال یہ آدمی مجہول ہے ) وضاحت : ١ ؎ : گرم اور سخت قسم کا چنے کے برابر ایک طرح کا دانہ ہوتا ہے۔ ٢ ؎ : ایک دست لانے والی دوا کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (4537) // هذا وهم في أصل الشيخ ناصر . وإنما هو رقم مشکاة المصابيح والشيخ ناصر لم يحل علی المشکاة . وأما رقم ضعيف سنن ابن ماجة فهو (760 - 3461) ومن منا لا يسهو - وانظر ضعيف الجامع الصغير (4807) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2081

【47】

شہد کے بارے میں

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی نے آ کر عرض کیا : میرے بھائی کو دست آ رہا ہے، آپ نے فرمایا : اسے شہد پلاؤ، چناچہ اس نے اسے پلایا، پھر آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اسے شہد پلایا لیکن اس سے دست میں اور اضافہ ہوگیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے شہد پلاؤ، اس نے اسے شہد پلایا، پھر آپ کے پاس آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اسے شہد پلایا لیکن اس سے دست میں اور اضافہ ہوگیا ہے، ابو سعید خدری کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ (اپنے قول میں) سچا ہے، اور تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے، اس کو شہد پلاؤ، چناچہ اس نے شہد پلایا تو (اس بار) اچھا ہوگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٤ (٥٦٨٤) ، و ٢٤ (٥٧١٦) ، صحیح مسلم/السلام ٣١ (٢٢١٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٥١) ، و مسند احمد (٣/١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2082

【48】

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان بندہ کسی ایسے مریض کی عیادت کرے جس کی موت کا ابھی وقت نہ ہوا ہو اور سات بار یہ دعا پڑھے «أسأل اللہ العظيم رب العرش العظيم أن يشفيك» میں عظمت والے اللہ اور عظیم عرش کے مالک سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں اچھا کر دے تو ضرور اس کی شفاء ہوجاتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف منہال بن عمرو کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ١٢ (٣١٠٦) (تحفة الأشراف : ٥٦٢٨) ، و مسند احمد (١/٢٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (1553) ، الکلم الطيب (149) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2083

【49】

ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو بخار آئے اور بخار آگ کا ایک ٹکڑا ہے تو وہ اسے پانی سے بجھا دے، ایک بہتی نہر میں اترے اور پانی کے بہاؤ کی طرف اپنا رخ کرے پھر یہ دعا پڑھے : «بسم اللہ اللهم اشف عبدک وصدق رسولک» اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے اللہ ! اپنے بندے کو شفاء دے اور اپنے رسول کی اس بات کو سچا بنا وہ اس عمل کو فجر کے بعد اور سورج نکلنے سے پہلے کرے، وہ اس نہر میں تین دن تک تین غوطے لگائے، اگر تین دن میں اچھا نہ ہو تو پانچ دن تک، اگر پانچ دن میں اچھا نہ ہو تو سات دن تک اور اگر سات دن میں اچھا نہ ہو تو نو دن تک، اللہ کے حکم سے اس کا مرض نو دن سے آگے نہیں بڑھے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢٠٨٧) (ضعیف) (سند میں ” سعید بن زرعہ حمصی “ مجہول الحال ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (2339) // ضعيف الجامع الصغير (375) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2084

【50】

راکھ سے زخم کا علاج کرنے کے متعلق

ابوحازم کہتے ہیں کہ سہل بن سعد (رض) سے پوچھا گیا اور میں سن رہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زخم کا کس چیز سے علاج کیا گیا ؟ انہوں نے کہا : اس چیز کو مجھ سے زیادہ جاننے والا اب کوئی باقی نہیں ہے، علی (رض) اپنی ڈھال میں پانی لا رہے تھے، جب کہ فاطمہ (رض) آپ کے زخم سے خون دھو رہی تھیں اور میں آپ کے لیے ٹاٹ جلا رہا تھا، پھر اسی کی راکھ سے آپ کا زخم بھرا گیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٧٢ (٢٤٣) ، والجھاد ٨٠ (٢٩٠٣) ، و ٨٥ (٢٩١١) ، و ١٦٣ (٣٠٣٧) ، والمغازي ٢٤ (٤٠٧٥) ، والنکاح ١٢٢ (٥٢٤٨) ، والطب ٢٧ (٥٧٢٢) ، صحیح مسلم/الجھاد ٣٧ (١٧٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الطب ١٥ (٣٤٦٤) (تحفة الأشراف : ٤٦٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2085

【51】

راکھ سے زخم کا علاج کرنے کے متعلق

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب مریض صحت یاب اور تندرست ہوجائے تو شفافیت اور رنگ میں اس کی مثال اس اولے کی طرح ہے جو آسمان سے گرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : لم یذکرہ) (موضوع) (سند میں ولید بن محمد موقری متروک الحدیث ہے، اور اس کی ملاقات بھی زہری سے نہیں ہے ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2086

【52】

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم مریض کے پاس جاؤ تو موت کے سلسلے میں اس کا غم دور کرو ١ ؎ یہ تقدیر تو نہیں بدلتا ہے لیکن مریض کا دل خوش کردیتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ١ (١٤٣٨) (تحفة الأشراف : ٤٢٩٢) (ضعیف جداً ) (سند میں موسیٰ بن محمد بن ابراہیم تیمي منکر الحدیث راوی ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کے لیے درازی عمر اور صحت یابی کی دعا کرو۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1438) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (303) ، المشکاة (1572) ، ضعيف الجامع الصغير (488) ، الضعيفة (184) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2087

【53】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کی عیادت کی جسے تپ دق کا مرض تھا، آپ نے فرمایا : خوش ہوجاؤ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے : یہ میری آگ ہے جسے میں اپنے گنہگار بندے پر مسلط کرتا ہوں تاکہ یہ جہنم کی آگ میں سے اس کا حصہ بن جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطب ١٨ (٣٤٧٠) (تحفة الأشراف : ١٥٤٣٩/ولم ینسبہ للترمذي) ، و مسند احمد (٢/٤٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی وہ آخرت میں جہنم کی آگ سے محفوظ رہے۔ نبی اکرم ﷺ مریض کی عیادت کے وقت یوں بھی فرماتے تھے : «لابأس طهور إن شاء الله»۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2088

【54】

حسن بصری کہتے ہیں کہ ایک رات صحابہ یہ امید ظاہر کر رہے تھے کہ بخار چھوٹے گناہوں کے لیے کفارہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح الإسناد ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2089