17. حدود کا بیان

【1】

جن پر حد واجب نہیں

علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہیں (یعنی قابل مواخذہ نہیں ہیں) : سونے والا جب تک کہ نیند سے بیدار نہ ہوجائے، بچہ جب تک کہ بالغ نہ ہوجائے، اور دیوانہ جب تک کہ سمجھ بوجھ والا نہ ہوجائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس سند سے علی (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢ - یہ حدیث کئی اور سندوں سے بھی علی (رض) سے مروی ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، ٣ - بعض راویوں نے «وعن الغلام حتی يحتلم» کہا ہے، یعنی بچہ جب تک بالغ نہ ہوجائے مرفوع القلم ہے، ٤ - علی (رض) کے زمانے میں حسن بصری موجود تھے، حسن نے ان کا زمانہ پایا ہے، لیکن علی (رض) سے ان کے سماع کا ہمیں علم نہیں ہے، ٥ - یہ حدیث : عطاء بن سائب سے بھی مروی ہے انہوں نے یہ حدیث بطریق : «أبي ظبيان عن علي بن أبي طالب عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، اور اعمش نے بطریق : «أبي ظبيان عن ابن عباس عن علي» موقوفاً روایت کیا ہے، انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا، ٦ - اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٧ - اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ ) (تحفة الأشراف : ١٠٠٩٧) ، وراجع : سنن ابی داود/ الحدود ١٦ (٤٣٩٩- ٤٤٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٥ (٢٠٤٢) ، و مسند احمد (١/١١٦، ١٤٠، ٩٥٥، ١٥٨) (صحیح) (شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ صحیح ہے، ورنہ حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز ان کا سماع بھی علی (رض) سے نہیں ہے اور دیگر طرق بھی کلام سے خالی نہیں ہیں، دیکھئے : الإرواء رقم ٢٩٧ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2041 - 2042) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1423

【2】

حدود کو ساقط کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہاں تک تم سے ہو سکے مسلمانوں سے حدود کو دفع کرو، اگر مجرم کے بچ نکلنے کی کوئی صورت ہو تو اسے چھوڑ دو ، کیونکہ مجرم کو معاف کردینے میں امام کا غلطی کرنا اسے سزا دینے میں غلطی کرنے سے کہیں بہتر ہے۔ اس سند سے وکیع نے یزید بن زیاد سے محمد بن ربیعہ کی حدیث کی طرح بیان کیا، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔

【3】

مسلمان کے عیوب کی پردہ پوشی

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی مومن سے دنیا کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی اللہ اس کے آخرت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا، اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اللہ بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ٢ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث کو اسی طرح کئی لوگوں نے بطریق : «الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» ، اور اسباط بن محمد نے اعمش سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوصالح کے واسطہ سے بیان کیا گیا ہے، انہوں نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، ٣ - ہم سے اسے عبید بن اسباط بن محمد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے اعمش کے واسطہ سے یہ حدیث بیان کی، ٤ - اس باب میں عقبہ بن عامر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر ١١ (٢٢٩٩) ، سنن ابی داود/ الأدب ٦٨ (٤٩٤٦) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٧ (٢٢٥) ، والحدود ٥ (٢٥٤٤) ، ویأتي عند المؤلف فی البر والصلة ١٩ (١٩٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٠) ، و مسند احمد (٢/٢٥٢) ، سنن الدارمی/المقدمة ٣٢ (٣٦٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (225) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1425

【4】

مسلمان کے عیوب کی پردہ پوشی

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ١ ؎، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کی مدد چھوڑتا ہے، اور جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہوتا ہے، جو اپنے کسی مسلمان کی پریشانی دور کرتا ہے اللہ اس کی وجہ سے اس سے قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کرے گا، اور جو کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالے گا اللہ قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٣ (٢٤٤٢) ، والإکراہ ٧ (٦٩٥١) ، صحیح مسلم/البر والصلة ١٥ (٢٥٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اللہ تعالیٰ کے فرمان : «إنما المؤمنون إخوة» (الحجرات : ١٠ ) کا بھی یہی مفہوم ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (504) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1426

【5】

حدود میں تلقین

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ماعز بن مالک (رض) سے فرمایا : تمہارے بارے میں جو مجھے خبر ملی ہے کیا وہ صحیح ہے ؟ ماعز (رض) نے کہا : میرے بارے میں آپ کو کیا خبر ملی ہے ؟ آپ نے فرمایا : مجھے خبر ملی ہے کہ تم نے فلاں قبیلے کی لونڈی کے ساتھ زنا کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، پھر انہوں نے چار مرتبہ اقرار کیا، تو آپ نے حکم دیا، تو انہیں رجم کردیا گیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عباس (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢ - اس حدیث کو شعبہ نے سماک بن حرب سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے مرسلاً روایت کیا ہے، انہوں نے اس سند میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے، ٣ - اس باب میں سائب بن یزید سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩٣) ، سنن ابی داود/ الحدود ٢٤ (٤٤٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٥١٩) ، و مسند احمد (١/٢٤٥، ٣١٤، ٣٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مجرم اگر اپنے گناہ کا خود اقرار کر رہا ہو تو اس کے سامنے ایسی باتیں رکھنا جن کی وجہ سے اس پر حد واجب نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (7 / 355) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1427

【6】

معترف اپنے اقرار سے پھر جائے تو حد ساقط ہوجاتی ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ماعز اسلمی (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر اعتراف کیا کہ میں نے زنا کیا ہے، آپ نے ان کی طرف سے منہ پھیرلیا، پھر وہ دوسری طرف سے آئے اور بولے : اللہ کے رسول ! میں نے زنا کیا ہے، آپ نے پھر ان کی طرف سے منہ پھیرلیا، پھر وہ دوسری طرف سے آئے اور بولے : اللہ کے رسول ! میں نے زنا کیا ہے، پھر چوتھی مرتبہ اعتراف کرنے پر آپ نے رجم کا حکم دے دیا، چناچہ وہ ایک پتھریلی زمین کی طرف لے جائے گئے اور انہیں رجم کیا گیا، جب انہیں پتھر کی چوٹ لگی تو دوڑتے ہوئے بھاگے، حتیٰ کہ ایک ایسے آدمی کے قریب سے گزرے جس کے پاس اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی، اس نے ماعز کو اسی سے مارا اور لوگوں نے بھی مارا یہاں تک کہ وہ مرگئے، پھر لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا کہ جب پتھر اور موت کی تکلیف انہیں محسوس ہوئی تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگوں نے اسے کیوں نہیں چھوڑ دیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - ابوہریرہ (رض) سے کئی اور سندوں سے بھی مروی ہے، یہ حدیث زہری سے بھی مروی ہے، انہوں نے اسے بطریق : «عن أبي سلمة عن جابر بن عبد اللہ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے (جو آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٢٢ (٦٨١٥) ، والأحکام ١٩ (٧١٦٧) ، صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٩ (٢٥٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٦١) ، و مسند احمد (٢/٢٨٦-٢٨٧، ٤٥٠، ٤٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں : «هلا ترکتموه لعله أن يتوب فيتوب اللہ عليه» یعنی اسے تم لوگوں نے کیوں نہیں چھوڑ دیا ، ہوسکتا ہے وہ اپنے اقرار سے پھرجاتا اور توبہ کرتا ، پھر اللہ اس کی توبہ قبول کرتا (اسی ٹکڑے میں باب سے مطابقت ہے) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (2554) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1428

【7】

معترف اپنے اقرار سے پھر جائے تو حد ساقط ہوجاتی ہے

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے آ کر زنا کا اعتراف کیا، تو آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیا، پھر اس نے اقرار کیا، آپ نے پھر منہ پھیرلیا، حتیٰ کہ اس نے خود چار مرتبہ اقرار کیا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا تم پاگل ہو ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ نے پوچھا : کیا تم شادی شدہ ہو ؟ اس نے کہا ہاں : پھر آپ نے رجم کا حکم دیا، چناچہ اسے عید گاہ میں رجم کیا گیا، جب اسے پتھروں نے نڈھال کردیا تو وہ بھاگ کھڑا ہوا، پھر اسے پکڑا گیا اور رجم کیا گیا یہاں تک کہ وہ مرگیا، رسول اللہ ﷺ نے اس کے حق میں کلمہ خیر کہا لیکن اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - بعض اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ زنا کا اقرار کرنے والا جب اپنے اوپر چار مرتبہ گواہی دے تو اس پر حد قائم کی جائے گی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ٣ - بعض اہل علم کہتے ہیں : ایک مرتبہ بھی کوئی زنا کا اقرار کرلے گا تو اس پر حد قائم کردی جائے گی، یہ مالک بن انس اور شافعی کا قول ہے، اس بات کے قائلین کی دلیل ابوہریرہ (رض) اور زید بن خالد کی یہ حدیث ہے کہ دو آدمی رسول اللہ ﷺ تک اپنا قضیہ لے گئے، ایک نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے بیٹے نے اس کی بیوی سے زنا کیا، یہ ایک لمبی حدیث ہے، (آخر میں ہے) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : انیس ! اس کی بیوی کے پاس جاؤ اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اسے رجم کر دو ، آپ نے اس حدیث میں یہ نہیں فرمایا کہ جب چار مرتبہ اقرار کرے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ١١ (٥٢٧٠) ، والحدود ٢١ (٦٨١٤) ، و ٢٥ (٦٨٢٠) ، صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦) ، سنن ابی داود/ الحدود ٢٤ (٤٤٣٠) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٣ (١٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٣١٤٩) ، و مسند احمد (٣/٣٢٣) ، وسنن الدارمی/الحدود ١٢ (٢٣٦١) (صحیح) (إلاّ أن البخاري قال : ” وصلی علیہ “ وہی شاذة ) وضاحت : ١ ؎ : بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی ہے ، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نفی کی روایت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ رجم والے دن آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ، جب کہ اثبات والی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے دن آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی ، اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو عمران بن حصین سے قبیلہ جہینہ کی اس عورت کے متعلق آئی ہے جس سے زنا کا عمل ہوا پھر اسے رجم کیا گیا ، اور نبی اکرم ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی تو عمر (رض) نے کہا : «أتصلي عليها وقد زنت ؟» کیا اس زانیہ عورت کی نماز جنازہ آپ پڑھیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : «لقد تابت توبة لو قسمت بين سبعين لوسعتهم» یعنی اس نے جو توبہ کی ہے اسے اگر ستر افراد کے درمیان بانٹ دیا جائے تو وہ ان سب کے لیے کافی ہوگی ، عمران بن حصین کی یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے ، دیکھئیے : کتاب الحدود ، باب تربص الرجم بالحبلی حتی تضع ، حدیث رقم ١٤٣٥ ۔ ٢ ؎ : اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ چار مرتبہ اقرار کی نوبت اس وقت پیش آتی ہے جب اقرار کرنے والے کی بابت عقلی و ذہنی اعتبار سے کسی قسم کا اشتباہ ہو بصورت دیگر حد جاری کرنے کے لیے صرف ایک اقرار کافی ہے ، پوری حدیث «باب الرجم علی الثیب» کے تحت آگے آرہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (7 / 353) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1429

【8】

حدود میں سفارش کی ممانعت

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ قریش قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت ١ ؎ کے معاملے میں جس نے چوری کی تھی، کافی فکرمند ہوئے، وہ کہنے لگے : اس کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے کون گفتگو کرے گا ؟ لوگوں نے جواب دیا : رسول اللہ ﷺ کے چہیتے اسامہ بن زید کے علاوہ کون اس کی جرات کرسکتا ہے ؟ چناچہ اسامہ نے آپ سے گفتگو کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہے ہو ؟ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا : لوگو ! تم سے پہلے کے لوگ اپنی اس روش کی بنا پر ہلاک ہوئے کہ جب کوئی اعلیٰ خاندان کا شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے، اور جب کمزور حال شخص چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے، اللہ کی قسم ! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا (بھی) ہاتھ کاٹ دیتا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں مسعود بن عجماء، ابن عمر اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - مسعود بن عجماء کو مسعود بن اعجم بھی کہا جاتا ہے، ان سے صرف یہی ایک حدیث آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٨ (٢٦٤٨) ، والأنبیاء ٥٤ (٣٤٧٥) ، وفضائل الصحابة ١٨ (٣٧٣٢) ، والمغازي ٥٣ (٤٣٠٤) ، والحدود ١١ (٦٧٨٧) ، و ١٢ (٦٧٨٨) و ١٤ (٦٨٠٠) ، صحیح مسلم/الحدود ٢ (١٦٨٨) ، سنن ابی داود/ الحدود ٤ (٤٣٧٣) ، سنن النسائی/قطع السارق ٦ (٤٩٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٦ (٤٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٧٨) ، و مسند احمد (٦/١٦٢) ، وسنن الدارمی/الحدود ٥ (٢٣٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قبیلہ بنو مخزوم کی اس عورت کا نام فاطمہ بنت اسود تھا ، اس کی یہ عادت بھی تھی کہ جب کسی سے کوئی سامان ضرورت پڑنے پر لے لیتی تو پھر اس سے مکر جاتی۔ ٢ ؎ : نبی اکرم ﷺ کا ارشاد کہ اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی ، یہ بالفرض والتقدیر ہے ، ورنہ فاطمہ (رض) کی شان اس سے کہیں عظیم تر ہے کہ وہ ایسی کسی غلطی میں مبتلا ہوں ، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سارے اہل بیت کی عفت و طہارت کی خبر دی ہے «إنما يريد اللہ ليذهب عنکم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا» (الأحزاب : ٣٣ ) فاطمہ (رض) نبی اکرم ﷺ کے نزدیک آپ کے اہل خانہ میں سب سے زیادہ عزیز تھیں اسی لیے ان کے ذریعہ مثال بیان کی گئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2547) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1430

【9】

رجم کی تحقیق

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ اللہ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اور آپ پر کتاب نازل کی، آپ پر جو کچھ نازل کیا گیا اس میں آیت رجم بھی تھی ١ ؎، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا، (لیکن) مجھے اندیشہ ہے کہ جب لوگوں پر زمانہ دراز ہوجائے گا تو کہنے والے کہیں گے : اللہ کی کتاب میں ہم رجم کا حکم نہیں پاتے، ایسے لوگ اللہ کا نازل کردہ ایک فریضہ چھوڑنے کی وجہ سے گمراہ ہوجائیں گے، خبردار ! جب زانی شادی شدہ ہو اور گواہ موجود ہوں، یا جس عورت کے ساتھ زنا کیا گیا ہو وہ حاملہ ہوجائے، یا زانی خود اعتراف کرلے تو رجم کرنا واجب ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور کئی سندوں سے یہ حدیث عمر (رض) سے آئی ہے، ٣ - اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٣٠ (٦٨٢٩) ، صحیح مسلم/الحدود ٤ (١٦٩١) ، سنن ابی داود/ الحدود ٢٣ (٤٤١٨) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٨ (٢٥٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٠٨) ، و مسند احمد (١/٢٩، ٤٠، ٤٧، ٥٠، ٥٥) ، سنن الدارمی/الحدود ١٦ (٢٣٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آیت رجم کی تلاوت منسوخ ہے لیکن اس کا حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2553) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1432 عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (دین خاص طور پر زنا کے احکام) مجھ سے سیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ١ ؎ راہ نکال دی ہے : شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ ملوث ہو تو سو کوڑوں اور رجم کی سزا ہے، اور کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو تو سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - نبی اکرم ﷺ کے بعض اہل علم صحابہ کا اسی پر عمل ہے، ان میں علی بن ابی طالب، ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود وغیرہ (رض) شامل ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں : شادی شدہ زانی کو کوڑے لگائے جائیں گے اور رجم کیا جائے گا، بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ٣ - جب کہ صحابہ میں سے بعض اہل علم جن میں ابوبکر اور عمر وغیرہ (رض) شامل ہیں، کہتے ہیں : شادی شدہ زنا کار پر صرف رجم واجب ہے، اسے کوڑے نہیں لگائے جائیں گے، اور نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح دوسری حدیث میں ماعز وغیرہ کے قصہ کے سلسلے میں آئی ہے کہ آپ نے صرف رجم کا حکم دیا، رجم سے پہلے کوڑے لگانے کا حکم نہیں دیا، بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی اور احمد کا یہی قول ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٣ (١٦٩٠) ، سنن ابی داود/ الحدود ٢٣ (٤٤١٥) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٧ (٢٥٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٨٣) ، و مسند احمد (٣/٤٧٥) ، سنن الدارمی/الحدود ١٩ (٢٣٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جنہیں زنا کے جرم میں گھروں میں قید رکھنے کا حکم دیا گیا تھا اور اللہ کے حکم کا انتظار کرنے کے لیے کہا گیا تھا ، اللہ نے ایسے لوگوں کے لیے راہ نکال دی ہے ، اس سے اشارہ اس آیت کی طرف ہے «واللاتي يأتين الفاحشة من نسآئكم فاستشهدوا عليهن أربعة منکم فإن شهدوا فأمسكوهن في البيوت حتی يتوفاهن الموت أو يجعل اللہ لهن سبيلا» یعنی تمہاری عورتوں میں سے جو بےحیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو ، اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو ، یہاں تک کی موت ان کی عمریں پوری کر دے ، یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راستہ نکالے (النساء : ١٥ ) ، یہ ابتدائے اسلام میں بدکار عورتوں کی وہ عارضی سزا ہے جب زنا کی سزا متعین نہیں ہوئی تھی۔ ٢ ؎ : جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کا یہی قول ہے کہ کوڑے کی سزا اور رجم دونوں اکٹھا نہیں ہوسکتے ، کیونکہ قتل کے ساتھ اگر کئی حدود ایک ساتھ جمع ہوجائیں تو صرف قتل کافی ہوگا اور باقی حدود ساقط ہوجائیں گی «واللہ اعلم»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2550) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1434

【10】

رجم کی تحقیق

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا، ابوبکر (رض) نے رجم کیا، اور میں نے بھی رجم کیا، اگر میں کتاب اللہ میں زیادتی حرام نہ سمجھتا تو اس کو ١ ؎ مصحف میں لکھ دیتا، کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ قومیں آئیں گی اور کتاب اللہ میں حکم رجم (سے متعلق آیت) نہ پا کر اس کا انکار کردیں۔ ابوعیسیٰ (ترمذی) کہتے ہیں : ١ - عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور دوسری سندوں سے بھی عمر (رض) سے روایت کی گئی ہے، ٣ - اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٤٥١) ، وانظر مسند احمد (١/٣٦، ٤٣) وانظر ما یأتي (صحیح) (متابعات کی بنا پر صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ” سعید بن مسیب “ اور ” عمر (رض) “ کے درمیان انقطاع ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی آیت رجم «الشيخ والشيخة إذا زنيا فأرجموهما البتة نکالا من اللہ ...» کو مصحف میں ضرور لکھ دیتا۔ ٢ ؎ : سلف صالحین رحمہم اللہ کو اللہ کے احکام و فرائض کے سلسلہ میں کس قدر فکر لاحق تھی اس کا اندازہ عمر (رض) کے اس قول سے لگایا جاسکتا ہے ، عمر (رض) نے جس اندیشہ کا اظہار کیا تھا وہ سو فیصد درست ثابت ہوا ، چناچہ معتزلہ اور خوارج کی ایک جماعت نے رجم کا انکار کیا ، افسوس صد افسوس ! برصغیر میں بھی کچھ ایسے سر پھرے لوگ موجود ہیں جو اس سزا کے منکر ہیں ، رجم کے انکار کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایسے لوگوں کی فکری بنیاد انکار حدیث پر ہے ، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو احادیث صحیح سندوں سے ثابت اور ان کے راویوں کی ایک بڑی تعداد ہو پھر بھی ان کا انکار کیا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح التعليق علی ابن ماجة، الإرواء (8 / 4 - 5) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1431

【11】

رجم صرف شادی شدہ پر ہے

ابوہریرہ، زید بن خالد اور شبل (رض) سے روایت ہے کہ یہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس موجود تھے، اسی دوران آپ کے پاس جھگڑتے ہوئے دو آدمی آئے، ان میں سے ایک کھڑا ہوا اور بولا : اللہ کے رسول ! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ! آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے (یہ سن کر) مدعی علیہ نے کہا اور وہ اس سے زیادہ سمجھدار تھا، ہاں، اللہ کے رسول ! ہمارے درمیان آپ کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے، اور مجھے مدعا بیان کرنے کی اجازت دیجئیے، (چنانچہ اس نے بیان کیا) میرا لڑکا اس کے پاس مزدور تھا، چناچہ وہ اس کی بیوی کے ساتھ زنا کر بیٹھا ١ ؎، لوگوں ( یعنی بعض علماء) نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر رجم واجب ہے، لہٰذا میں نے اس کی طرف سے سو بکری اور ایک خادم فدیہ میں دے دی، پھر میری ملاقات کچھ اہل علم سے ہوئی تو ان لوگوں نے کہا : میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی واجب ہے ٢ ؎، اور اس کی بیوی پر رجم واجب ہے ٣ ؎، (یہ سن کر) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے موافق ہی فیصلہ کروں گا، سو بکری اور خادم تمہیں واپس مل جائیں گے، (اور) تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال کے لیے اسے شہر بدر کیا جائے گا، انیس ! ٤ ؎ تم اس کی بیوی کے پاس جاؤ، اگر وہ زنا کا اعتراف کرلے تو اسے رجم کر دو ، چناچہ انیس اس کے گھر گئے، اس نے اقبال جرم کرلیا، لہٰذا انہوں نے اسے رجم کردیا ٥ ؎۔ اس سند سے ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی سے، اسی جیسی اسی معنی کی حدیث نبی اکرم ﷺ سے روایت ہے۔ اس سند سے بھی مالک کی سابقہ حدیث جیسی اسی معنی کی حدیث روایت ہے۔

【12】

None

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ( دین خاص طور پر زنا کے احکام ) مجھ سے سیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ۱؎ راہ نکال دی ہے: شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ ملوث ہو تو سو کوڑوں اور رجم کی سزا ہے، اور کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو تو سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اہل علم صحابہ کا اسی پر عمل ہے، ان میں علی بن ابی طالب، ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود وغیرہ رضی الله عنہم شامل ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں: شادی شدہ زانی کو کوڑے لگائے جائیں گے اور رجم کیا جائے گا، بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ۳- جب کہ صحابہ میں سے بعض اہل علم جن میں ابوبکر اور عمر وغیرہ رضی الله عنہما شامل ہیں، کہتے ہیں: شادی شدہ زنا کار پر صرف رجم واجب ہے، اسے کوڑے نہیں لگائے جائیں گے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح دوسری حدیث میں ماعز وغیرہ کے قصہ کے سلسلے میں آئی ہے کہ آپ نے صرف رجم کا حکم دیا، رجم سے پہلے کوڑے لگانے کا حکم نہیں دیا، بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی اور احمد کا یہی قول ہے ۲؎۔

【13】

اس سے متعلق

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ کے پاس زنا کا اقرار کیا، اور عرض کیا : میں حاملہ ہوں، نبی اکرم ﷺ نے اس کے ولی کو طلب کیا اور فرمایا : اس کے ساتھ حسن سلوک کرو اور جب بچہ جنے تو مجھے خبر کرو، چناچہ اس نے ایسا ہی کیا، اور پھر آپ نے حکم دیا، چناچہ اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے ١ ؎ پھر آپ نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا، چناچہ اسے رجم کردیا گیا، پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی تو عمر بن خطاب (رض) نے آپ سے کہا : اللہ کے رسول ! آپ نے اسے رجم کیا ہے، پھر اس کی نماز پڑھ رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر یہ مدینہ کے ستر آدمیوں کے درمیان تقسیم کردی جائے تو سب کو شامل ہوجائے گی ٢ ؎، عمر ! اس سے اچھی کوئی چیز تمہاری نظر میں ہے کہ اس نے اللہ کے لیے اپنی جان قربان کردی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩٦) ، سنن ابی داود/ الحدود ٢٥ (٤٤٤٠) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٤ (١٩٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٩ (٢٥٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨١) ، و مسند احمد (٤/٤٢٠، ٤٣٥، ٤٣٧، ٤٤٠) ، سنن الدارمی/الحدود ١٨ (٢٣٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ عورتوں پر حد جاری کرتے وقت ان کے جسم کی ستر پوشی کا خیال رکھنا چاہیئے۔ ٢ ؎ : مسلمانوں کے دیگر اموات کی طرح جس پر حد جاری ہو اس پر بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ، کیونکہ حد کا نفاذ صاحب حد کے لیے باعث کفارہ ہے ، اس پر جملہ مسلمانوں کا اتفاق ہے ، یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے عمر (رض) سے اس تائبہ کے توبہ کی کیا اہمیت ہے اسے واضح کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2555) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1435

【14】

اہل کتاب کو سنگسار کرنے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو رجم کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اور یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - حدیث میں ایک قصہ کا بھی ذکر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٦٠ (١٣٢٩) ، والمناقب ٢٦ (٣٦٣٥) ، والحدود ٢٤ (٦٨١٩) ، صحیح مسلم/الحدود ٦ (١٦٩٩) ، سنن ابی داود/ الحدود ٢٦ (٤٤٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١٠ (٢٥٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٤) ، وط/الحدود ١ (١) ، سنن الدارمی/الحدود ١٥ (٢٣٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : امام ترمذی نے جس قصہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے : یہود نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک ایسے مرد اور عورت کو لائے جن سے زنا کا صدور ہوا تھا ، اللہ کے رسول نے ان لوگوں سے پوچھا : اس کے متعلق توراۃ میں کیا حکم ہے ؟ کیونکہ ہمارے یہاں اس کی سزا رجم ہے ، ان لوگوں نے کہا : کوڑے کی سزا ہے ، یا چہرے پر کالا پوت کر عوام میں رسوا کیا جانا ہے ، عبداللہ بن سلام نے کہا : تم کذب بیانی سے کام لے رہے ہو ، اس میں بھی رجم کا حکم ہے ، چناچہ توراۃ طلب کی گئی ، اسے پڑھا جانے لگا تو پڑھنے والے نے آیت رجم کو چھپا کر اس سے ما قبل اور بعد کی آیات پڑھیں ، پھر عبداللہ بن سلام کے کہنے پر اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو آیت رجم موجود تھی ، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں رجم کا حکم دیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1476) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1436

【15】

اہل کتاب کو سنگسار کرنے

جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو رجم کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - جابر بن سمرہ (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر، براء، جابر، ابن ابی اوفی، عبداللہ بن حارث بن جزء اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں : جب اہل کتاب آپس میں جھگڑیں اور مسلم حکمرانوں کے پاس اپنا مقدمہ پیش کریں تو ان پر لازم ہے کہ وہ کتاب و سنت اور مسلمانوں کے احکام کے مطابق فیصلہ کریں، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ٤ - بعض لوگ کہتے ہیں : اہل کتاب پر زنا کی حد نہ قائم کی جائے، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحدود ١٠ (٢٥٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٢١٧٥) (صحیح) (سند میں ” شریک القاضی “ حافظے کے کمزور ہیں، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ یہ قول اس باب کی احادیث کے مطابق ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (1436) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1437

【16】

زانی کی جلاوطنی

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کو) کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا ابوبکر (رض) نے بھی کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا، اور عمر (رض) نے بھی کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث غریب ہے، ٢ - اسے کئی لوگوں نے عبداللہ بن ادریس سے روایت کیا ہے، اور ان لوگوں نے اسے مرفوع کیا ہے، (جب کہ) بعض لوگوں نے اس حدیث کو بطریق : «عن عبد اللہ بن إدريس هذا الحديث عن عبيد اللہ عن نافع عن ابن عمر» (موقوفاً ) روایت کیا ہے کہ ابوبکر (رض) نے (غیر شادی شدہ زانی کو) کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا، عمر (رض) نے کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا، ٣ -

【17】

حدود جن پر جاری کی جائیں ان کے لئے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں۔

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک مجلس میں موجود تھے، آپ نے فرمایا : ہم سے اس بات پر بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ شرک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے اور زنا نہ کرو گے، پھر آپ نے ان کے سامنے آیت پڑھی ١ ؎ اور فرمایا : جو اس اقرار کو پورا کرے گا اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور جو ان میں سے کسی گناہ کا مرتکب ہوا پھر اس پر حد قائم ہوگئی تو یہ اس کے لیے کفارہ ہوجائے گا ٢ ؎، اور جس نے کوئی گناہ کیا اور اللہ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو وہ اللہ کے اختیار میں ہے، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو اسے بخش دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عبادہ بن صامت کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - امام شافعی کہتے ہیں : میں نے اس باب میں اس حدیث سے اچھی کوئی چیز نہیں سنی کہ حدود اصحاب حدود کے لیے کفارہ ہیں، ٣ - شافعی کہتے ہیں : میں چاہتا ہوں کہ جب کوئی گناہ کرے اور اللہ اس پر پردہ ڈال دے تو وہ خود اپنے اوپر پردہ ڈال لے اور اپنے اس گناہ کی ایسی توبہ کرے کہ اسے اور اس کے رب کے سوا کسی کو اس کا علم نہ ہو، ٤ - ابوبکر اور عمر (رض) سے اسی طرح مروی ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ اپنے اوپر پردہ ڈال لے، ٥ - اس باب میں علی، جریر بن عبداللہ اور خزیمہ بن ثابت (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ١١ (١٨) ، ومناقب الأنصار ٤٣ (٣٨٩٢) ، وتفسیر الممتحنة ٣ (٤٨٩٤) ، والحدود ٨ (٦٧٨٤) ، و ١٤ (٦٨٠١) ، والدیات ٢ (٦٨٧٣) ، والأحکام ٤٩ (٧٢١٣) ، والتوحید ٣١ (٧٤٦٨) ، صحیح مسلم/الحدود ١٠ (١٧٠٩) ، سنن النسائی/البیعة ٩ (٤١٦٦) ، و ١٧ (٤١٨٣) ، و ٣٨ (٤٢١٥) ، والإیمان ١٤ (٥٠٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٩٤) ، و مسند احمد (٥/٣١٤، ٣٢١، ٣٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ آیت کس سورة کی تھی ؟ اس سلسلہ میں بصراحت کسی صحابی سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے ، کیونکہ شرک باللہ ، چوری اور زنانہ کرنے کی صورت میں پورا پورا اجر ملنے کا ذکر قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں ہے اور یہ کہنا کہ فلاں سورة کی فلاں آیت ہی مقصود ہے تو اس کے ثبوت کے لیے کسی صحابی سے اس کی تصریح ضروری ہے۔ اکثر علماء نے اس آیت سے مراد سورة الممتحنہ کی آیت رقم ١٢ مراد لیا ہے ، جو یہ ہے «يا أيها النبي إذا جائك المؤمنات يبايعنك»إلى آخره . ٢ ؎ : اس حدیث میں جو یہ عموم پایا جا رہا ہے کہ جوان میں سے کسی گناہ کا مرتکب ہو پھر اس پر حد قائم ہو تو یہ حد اس کے لیے کفارہ ہے تو یہ عموم آیت کریمہ : «إن اللہ لا يغفر أن يشرک به ويغفر ما دون ذلک لمن يشاء» (النساء : ١١٦ ) سے خاص ہے ، لہٰذا ارتداد کی بنا پر اگر کسی کا قتل ہوا تو یہ قتل اس کے لیے باعث کفارہ نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2334) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1439

【18】

لونڈیوں پر حدود قائم کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے تو اللہ کی کتاب کے (حکم کے) مطابق تین بار اسے کوڑے لگاؤ ١ ؎ اگر وہ پھر بھی (یعنی چوتھی بار) زنا کرے تو اسے فروخت کر دو ، چاہے قیمت میں بال کی رسی ہی ملے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ان سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے، ٣ - اس باب میں علی، ابوہریرہ، زید بن خالد (رض) سے اور شبل سے بواسطہ عبداللہ بن مالک اوسی بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - صحابہ میں سے بعض اہل علم اور کچھ دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ سلطان (حاکم) کے بجائے آدمی اپنے مملوک (غلام) پر خود حد نافذ کرے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ٥ - بعض لوگ کہتے ہیں : سلطان (حاکم) کے پاس مقدمہ پیش کیا جائے گا، کوئی آدمی بذات خود حد نافذ نہیں کرے گا، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ ) (تحفة الأشراف : ١٢٤٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی زنا کی حرکت اس سے اگر تین بار سرزد ہوئی ہے تو ہر مرتبہ اسے کوڑے کی سزا ملے گی ، اور چوتھی مرتبہ اسے شہر بدر کردیا جائے گا۔ ٢ ؎ : کیونکہ باب کی حدیث کا مفہوم یہی ہے ، مالک کے پاس اپنی لونڈی یا غلام کی بدکاری سے متعلق اگر معتبر شہادت موجود ہو تو مالک بذات خود حد قائم کرسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2565) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1440

【19】

لونڈیوں پر حدود قائم کرنا

ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ علی (رض) نے خطبہ کے دوران کہا : لوگو ! اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر حد قائم کرو، جس کی شادی ہوئی ہو اس پر بھی اور جس کی شادی نہ ہوئی ہو اس پر بھی، رسول اللہ ﷺ کی ایک لونڈی نے زنا کیا، چناچہ آپ نے مجھے کوڑے لگانے کا حکم دیا، میں اس کے پاس آیا تو (دیکھا) اس کو کچھ ہی دن پہلے نفاس کا خون آیا تھا ١ ؎ لہٰذا مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے اسے کوڑے لگائے تو کہیں میں اسے قتل نہ کر بیٹھوں، یا انہوں نے کہا : کہیں وہ مر نہ جائے ٢ ؎، چناچہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور آپ سے اسے بیان کیا، تو آپ نے فرمایا : تم نے اچھا کیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٧ (١٧٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کچھ ہی دن قبل اس سے ولادت ہوئی تھی۔ ٢ ؎ : یہ شک راوی کی طرف سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (7 / 360) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1441

【20】

نشہ والے کی حد

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حد قائم کرتے ہوئے چالیس جوتیوں کی سزا دی، مسعر راوی کہتے ہیں : میرا خیال ہے شراب کی حد میں (آپ نے چالیس جوتیوں کی سزا دی) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوسعید (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں علی، عبدالرحمٰن بن ازہر، ابوہریرہ، سائب، ابن عباس اور عقبہ بن حارث (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ ) (تحفة الأشراف : ٣٩٧٥) (ضعیف الإسناد) (سند میں زید العمی سخت ضعیف راوی ہے، لیکن دیگر احادیث صحیحہ سے شرابی کو جوتے سے مارنا ثابت ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1442

【21】

نشہ والے کی حد

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا جس نے شراب پی تھی، آپ نے اسے کھجور کی دو چھڑیوں سے چالیس کے قریب مارا، ابوبکر (رض) نے بھی (اپنے دور خلافت میں) ایسا ہی کیا، پھر جب عمر (رض) خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اس سلسلے میں لوگوں سے مشورہ کیا، چناچہ عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا : حدوں میں سب سے ہلکی حد اسی کوڑے ہیں، چناچہ عمر نے اسی کا حکم دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - صحابہ میں سے اہل علم اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ شرابی کی حد اسی کوڑے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٢ (٦٧٧١) ، (بدون قصة الاستشارة) ، صحیح مسلم/الحدود ٨ (١٧٠٦) سنن ابی داود/ الحدود ٣٦ (٤٤٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١٦ (٢٥٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٤) ، و مسند احمد (٣/١١٥، ١٨٠، ٢٤٧، ٢٧٢- ٢٧٣) ، سنن الدارمی/الحدود ٩ (٢٣٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ شرابی کی حد چالیس کوڑے ہیں ، البتہ امام اس سے زائد اسی کوڑے تک کی سزا دے سکتا ہے ، لیکن اس کا انحصار حسب ضرورت امام کے اپنے اجتہاد پر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2377) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1443

【22】

شرابی کی سزا تین مرتبہ کوڑے اور چوتھی مرتبہ پر قتل ہے۔

معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شراب پئیے اسے کوڑے لگاؤ، پھر اگر چوتھی بار پئے تو اسے قتل کر دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - معاویہ (رض) کی حدیث کو اسی طرح ثوری نے بطریق : «عاصم عن أبي صالح عن معاوية عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، اور ابن جریج اور معمر نے بطریق : «سهيل بن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ابوصالح کی حدیث جو بواسطہ معاویہ نبی اکرم ﷺ سے اس سلسلہ میں آئی ہے، یہ ابوصالح کی اس حدیث سے جو بواسطہ ابوہریرہ نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے زیادہ صحیح ہے، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ، شرید، شرحبیل بن اوس، جریر، ابورمد بلوی اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا ١ ؎ پھر اس کے بعد منسوخ ہوگیا، اسی طرح محمد بن اسحاق نے «محمد بن المنکدر عن جابر بن عبد الله» کے طریق سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا : جو شراب پئیے اسے کوڑے لگاؤ، پھر اگر چوتھی بار پئیے تو اسے قتل کر دو ، پھر اس کے بعد نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا جس نے چوتھی بار شراب پی تھی، تو آپ نے اسے کوڑے لگائے اور قتل نہیں کیا، اسی طرح زہری نے قبیصہ بن ذویب سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ٥ - چناچہ قتل کا حکم منسوخ ہوگیا، پہلے اس کی رخصت تھی، عام اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، میرے علم میں اس مسئلہ میں ان کے درمیان نہ پہلے اختلاف تھا نہ اب اختلاف ہے، اور اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو نبی اکرم ﷺ سے بیشمار سندوں سے آئی ہے کہ آپ نے فرمایا : جو مسلمان شہادت دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اس کا خون تین میں سے کسی ایک چیز کی بنا پر ہی حلال ہوسکتا ہے : ناحق کسی کا قاتل ہو، شادی شدہ زانی ہو، یا اپنا دین (اسلام) چھوڑنے والا (مرتد) ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحدود ٣٧ (٤٤٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١٧ (٢٥٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٤١٢) ، و مسند احمد (٤/٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی شرابی کے قتل کا حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہوگیا چناچہ قتل سے متعلق روایت بعض اہل ظاہر کو چھوڑ کر تمام اہل علم کے نزدیک منسوخ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2572 - 2573) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1444

【23】

کتنی قیمت کی چیز چوری کرنے پر ہاتھ کاٹا جائے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ چوتھائی دینار ١ ؎ اور اس سے زیادہ کی چوری پر ہاتھ کاٹتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث دوسری سندوں سے عمرہ کے واسطہ سے عائشہ (رض) سے مرفوعاً آئی ہے، جب کہ بعض لوگوں نے اسے عمرہ کے واسطہ سے عائشہ (رض) سے موقوفاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ١٣ (٦٧٨٩) ، صحیح مسلم/الحدود ١ (١٦٨٤) ، سنن ابی داود/ الحدود ١١ (٤٣٨٣) ، سنن النسائی/قطع السارق ٩ (٤٩٢٢) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢٢ (٢٥٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٢٠) ، وط/الحدود ٧ (٢٤) ، و مسند احمد (٦/٣٦، ٨٠، ٨١، ١٠٤، ١٦٣، ٢٤٩، ٢٥٢) ، سنن الدارمی/الحدو ٤ (٢٣٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : موجودہ وزن کے اعتبار سے ایک دینار کا وزن تقریباً سوا چار گرام سونا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2402) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1445

【24】

کتنی قیمت کی چیز چوری کرنے پر ہاتھ کاٹا جائے۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم ١ ؎ تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں سعد، عبداللہ بن عمرو، ابن عباس، ابوہریرہ اور ایمن (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - صحابہ میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان میں ابوبکر (رض) بھی شامل ہیں، انہوں نے پانچ درہم کی چوری پر ہاتھ کاٹا، ٤ - عثمان اور علی (رض) سے مروی ہے کہ ان لوگوں نے چوتھائی دینار کی چوری پر ہاتھ کاٹا، ٥ - ابوہریرہ اور ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ پانچ درہم کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا، ٦ - بعض فقہائے تابعین کا اسی پر عمل ہے، مالک بن انس، شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں : چوتھائی دینار اور اس سے زیادہ کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا، ٧ - اور ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ایک دینار یا دس درہم کی چوری پر ہی ہاتھ کاٹا جائے گا، لیکن یہ مرسل (یعنی منقطع) حدیث ہے اسے قاسم بن عبدالرحمٰن نے ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے، حالانکہ قاسم نے ابن مسعود سے نہیں سنا ہے، بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، چناچہ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں : دس درہم سے کم کی چوری پر ہاتھ نہ کاٹا جائے، ٨ - علی (رض) کہتے ہیں کہ دس درہم سے کم کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، لیکن اس کی سند متصل نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ١٣ (٦٧٩٥) ، صحیح مسلم/الحدود ١ (١٦٨٦) ، سنن ابی داود/ الحدود ١١ (٤٣٨٥) ، سنن النسائی/قطع السارق ٨ (٤٩١٢) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢٢ (٢٥٨٤) ، التحفة : ٨٢٧٨) ، موطا امام مالک/الحدود ٧ (٢١) ، و مسند احمد (٢/٦، ٥٤، ٦٤، ٨٠، ١٤٣) ، سنن الدارمی/الحدود ٤ (٢٣٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آج کے وزن کے اعتبار سے ایک درہم (چاندی) تقریباً تین گرام کے برابر ہے ، معلوم ہوا کہ چوتھائی دینار (سونا) : یعنی تین درہم (چاندی) یا اس سے زیادہ کی مالیت کا سامان اگر کوئی چوری کرتا ہے تو اس کے بدلے اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2584) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1446

【25】

چور کا ہاتھ کاٹ کر اس کے گلے میں لٹکا دینا

عبدالرحمٰن بن محیریز کہتے ہیں کہ میں نے فضالہ بن عبید سے پوچھا : کیا چور کا ہاتھ کاٹنے کے بعد اس کی گردن میں لٹکانا سنت ہے ؟ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک چور لایا گیا اس کا ہاتھ کاٹا گیا، پھر آپ نے حکم دیا ہاتھ اس کی گردن میں لٹکا دیا گیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف عمر بن علی مقدمی ہی کی روایت سے جانتے ہیں، انہوں نے اسے حجاج بن ارطاۃ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحدود ٢١ (٤٤١١) ، سنن النسائی/قطع السارق ١٩ (٤٩٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢٣ (٢٥٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٢٩) ، و مسند احمد (٦/١٩) (ضعیف) (سند میں ” حجاج بن ارطاة “ ضعیف، اور ” عبدالرحمن بن محیریز “ مجہول ہیں) دیکھئے : الإرواء : ٢٤٣٢ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2587) ، المشکاة (3605 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1447

【26】

خائن، اچکے اور ڈاکو

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : خیانت کرنے والے، ڈاکو اور اچکے کی سزا ہاتھ کاٹنا نہیں ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - مغیرہ بن مسلم نے ابن جریج کی حدیث کی طرح اسے ابوزبیر سے، ابوزبیر نے جابر (رض) سے اور جابر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، ٣ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحدود ١٣ (٤٣٩١) ، سنن النسائی/قطع السارق ١٤ (٤٩٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢٦ (٢٥٩١) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٠) ، و مسند احمد (٣/٣٨٠) ، سنن الدارمی/الحدود ٨ (٢٣٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کسی محفوظ جگہ سے جہاں مال اچھی طرح سے چھپا کر رکھا گیا مال چرانا «سرقہ» ہے اور خیانت ، اچکنا اور ڈاکہ زنی یہ سب کے سب «سرقہ» کی تعریف سے خارج ہیں ، لہٰذا ان کی سزا ہاتھ کاٹنا نہیں ہے ، «خائن» اسے کہتے ہیں جو خفیہ طریقہ پر مال لیتا رہے اور مالک کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کا اظہار کرے۔ حدیث میں مذکورہ جرائم پر حاکم جو مناسب سزا تجویز کرے گا وہ نافذ کی جائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2589) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1448

【27】

پھلوں اور کھجور کے خوشوں کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا

رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : پھل اور کھجور کے گابھے کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اسی طرح بعض اور لوگوں نے بھی لیث بن سعد کی روایت کی طرح بطریق : «يحيى بن سعيد عن محمد بن يحيى بن حبان عن عمه واسع بن حبان عن رافع بن خديج عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، ٢ - مالک بن انس اور کئی لوگوں نے اس حدیث کو بطریق : «يحيى بن سعيد عن محمد بن يحيى بن حبان عن رافع بن خديج عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، ان لوگوں نے اس حدیث کی سند میں واسع بن حبان کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحدود ١٢ (٤٣٨٨) ، سنن النسائی/قطع السارق ١٤ (٤٩٩٢) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢٧ (٢٥٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٨٨) ، وط/الحدود ١١ (٣٢) ، و مسند احمد (٣/٤٦٣، ٤٦٤) و (٥/١٤٠، ١٤٢) ، سنن الدارمی/الحدود ٧ (٢٣٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2593) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1449

【28】

پھلوں اور کھجور کے خوشوں کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا

بسر بن ارطاۃ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : جنگ کے دوران (چوری کرنے والے کا) ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ابن لہیعہ کے علاوہ کچھ دوسرے لوگوں نے بھی اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ٣ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، انہیں میں اوزاعی بھی ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں : دشمن کی موجودگی میں جہاد کے دوران (چوری کرنے پر) حد قائم نہیں کی جائے گی، کیونکہ جس پر حد قائم کی جائے گی اندیشہ ہے کہ وہ دشمن سے مل جائے، البتہ امام جب دارالحرب سے نکل کر دارالاسلام واپس آ جائے تو چوری کرنے والے پر حد قائم کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحدود ١٨ (٤٤٠٨) ، سنن النسائی/قطع السارق ١٧ (٤٩٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٠١٥) ، و مسند احمد (٤/١٨١) (صحیح) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے جس کا ذکر مؤلف نے کیا ہے، ورنہ اس کے راوی ” ابن لھیعہ “ ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مسند احمد میں عبادہ بن صامت کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «أقيموا الحدود في الحضر والسفر» حضر اور سفر دونوں میں حدود قائم کرو ، اس میں اور بسر بن ارطاۃ کی حدیث میں تعارض ہے ، علامہ شوکانی کہتے ہیں : دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے ، کیونکہ بسر ارطاۃ کی حدیث خاص ہے جب کہ عبادہ کی حدیث عام ہے ، کیونکہ ہر مسافر مجاہد نہیں ہوتا البتہ ہر مجاہد مسافر ہوتا ہے ، نیز بسر کی حدیث کا تعلق چوری کی حد سے ہے ، جب کہ عبادہ کی حدیث کا تعلق عام حد سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3601 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1450

【29】

جو شخص اپنی بیوی کی لونڈی سے زناکرے

حبیب بن سالم کہتے ہیں کہ نعمان بن بشیر (رض) کے پاس ایک ایسے شخص کا مقدمہ پیش ہوا جس نے اپنی بیوی کی لونڈی کے ساتھ زنا کیا تھا، انہوں نے کہا : میں اس میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کروں گا : اگر اس کی بیوی نے اسے لونڈی کے ساتھ جماع کی اجازت دی ہے تو (بطور تادیب) اسے سو کوڑے ماروں گا اور اگر اس نے اجازت نہیں دی ہے تو (بطور حد) اسے رجم کروں گا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحدود ٢٨ (٤٤٥٨) ، سنن النسائی/النکاح ٧٠ (٣٣٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الحدود (٢٥٥١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦١٣) ، و مسند احمد (٦/٢٧٢، ٢٧٦، ٢٧٦، ٢٧٧) ، سنن الدارمی/الحدود ٢٠ (٢٣٧٤) (ضعیف) (سند میں ” حبیب بن سالم “ میں بہت کلام ہے، نیز بقول خطابی ان کا سماع نعمان (رض) سے نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2551) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1451

【30】

جو شخص اپنی بیوی کی لونڈی سے زناکرے

اس سند سے بھی نعمان بن بشیر سے اسی جیسی حدیث آئی ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا : حبیب بن سالم کے پاس یہ مسئلہ لکھ کر بھیجا گیا ١ ؎۔ ابوبشر نے بھی یہ حدیث حبیب بن سالم سے نہیں سنی، انہوں نے اسے خالد بن عرفطہٰ سے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - نعمان کی حدیث کی سند میں اضطراب ہے میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ قتادہ نے اس حدیث کو حبیب بن سالم سے نہیں سنا ہے، انہوں نے اسے خالد بن عرفطہٰ سے روایت کیا ہے، ٢ - اس باب میں سلمہ بن محبق سے بھی روایت ہے، ٣ - بیوی کی لونڈی کے ساتھ زنا کرنے والے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، چناچہ نبی اکرم ﷺ کے کئی صحابہ سے مروی ہے جن میں علی اور ابن عمر بھی شامل ہیں کہ اس پر رجم واجب ہے، ابن مسعود کہتے ہیں : اس پر کوئی حد نہیں ہے، البتہ اس کی تادیبی سزا ہوگی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا مسلک اس (حدیث) کے مطابق ہے جو نبی اکرم ﷺ سے بواسطہ نعمان بن بشیر آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : گویا قتادہ نے یہ حدیث حبیب بن سالم سے نہیں سنی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1452

【31】

عورت جس کے ساتھ زبردستی زنا کیا جائے

وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت کے ساتھ زبردستی زنا کیا گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے حد سے بری کردیا اور زانی پر حد جاری کی، راوی نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ آپ نے اسے کچھ مہر بھی دلایا ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، اس کی اسناد متصل نہیں ہے، ٢ - یہ حدیث دوسری سند سے بھی آئی ہے، ٣ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا : عبدالجبار بن وائل بن حجر کا سماع ان کے باپ سے ثابت نہیں ہے، انہوں نے اپنے والد کا زمانہ نہیں پایا ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے والد کی موت کے کچھ مہینے بعد پیدا ہوئے، ٣ - صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اور کچھ دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ جس سے جبراً زنا کیا گیا ہو اس پر حد واجب نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحدود ٣٠ (٢٥٩٨) (ضعیف) (نہ تو ” حجاج بن ارطاة “ نے ” عبدالجبار “ سے سنا ہے، نہ ہی ” عبدالجبار “ نے اپنے باپ سے سنا ہے، یعنی سند میں دو جگہ انقطاع ہے، لیکن یہ مسئلہ اگلی حدیث سے ثابت ہے ) وضاحت : ١ ؎ : لیکن دوسری احادیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جماع کے بدلے اس عورت کو کچھ دلایا بھی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (3571) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1453

【32】

عورت جس کے ساتھ زبردستی زنا کیا جائے

وائل بن حجر کندی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت نماز کے لیے نکلی، اسے ایک آدمی ملا، اس نے عورت کو ڈھانپ لیا اور اس سے اپنی حاجت پوری کی (یعنی اس سے زبردستی زنا کیا) ، وہ عورت چیخنے لگی اور وہ چلا گیا، پھر اس کے پاس سے ایک (دوسرا) آدمی گزرا تو یہ عورت بولی : اس (دوسرے) آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا (یعنی زنا) کیا ہے ١ ؎ اور اس کے پاس سے مہاجرین کی بھی ایک جماعت گزری تو یہ عورت بولی : اس آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا (یعنی زنا) کیا ہے، (یہ سن کر) وہ لوگ گئے اور جا کر انہوں نے اس آدمی کو پکڑ لیا جس کے بارے میں اس عورت نے گمان کیا تھا کہ اسی نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے اور اسے اس عورت کے پاس لائے، وہ بولی : ہاں، وہ یہی ہے، پھر وہ لوگ اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لائے، چناچہ جب آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، تو اس عورت کے ساتھ زنا کرنے والا کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس کے ساتھ زنا کرنے والا میں ہوں، پھر آپ نے اس عورت سے فرمایا : تو جا اللہ نے تیری بخشش کردی ہے ٢ ؎ اور آپ نے اس آدمی کو (جو قصوروار نہیں تھا) اچھی بات کہی ٣ ؎ اور جس آدمی نے زنا کیا تھا اس کے متعلق آپ نے فرمایا : اسے رجم کرو ، آپ نے یہ بھی فرمایا : اس (زانی) نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ اس طرح توبہ کرلیں تو ان سب کی توبہ قبول ہوجائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢ - علقمہ بن وائل بن حجر کا سماع ان کے والد سے ثابت ہے، یہ عبدالجبار بن وائل سے بڑے ہیں اور عبدالجبار کا سماع ان کے والد سے ثابت نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحدود ٧ (٤٣٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٧) ، و مسند احمد (٦/٣٩٩) (حسن) (اس میں رجم کی بات صحیح نہیں ہے، راجح یہی ہے کہ رجم نہیں کیا گیا، دیکھئے : الصحیحہ رقم ٩٠٠ ) وضاحت : ١ ؎ : حالانکہ زنا کرنے والا کوئی اور تھا ، عورت نے غلطی سے اسے سمجھ لیا۔ ٢ ؎ : کیونکہ تجھ سے حد والا کام زبردستی کرایا گیا ہے۔ ٣ ؎ : یعنی اس کے لیے تسلی کے کلمات کہے ، کیونکہ یہ بےقصور تھا۔ ٤ ؎ : چونکہ اس نے خود سے زنا کا اقرار کیا اور شادی شدہ تھا ، اس لیے آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اسے رجم کیا جائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن - دون قوله ارجموه والأرجح أنه لم يرجم -، المشکاة (3572) ، الصحيحة (900) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1454

【33】

جو شخص جانور سے بدکاری کرے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس آدمی کو جانور کے ساتھ وطی (جماع) کرتے ہوئے پاؤ تو اسے قتل کر دو اور (ساتھ میں) جانور کو بھی قتل کر دو ۔ عبداللہ بن عباس (رض) سے پوچھا گیا : جانور کو قتل کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلے میں کچھ نہیں سنا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ جس جانور کے ساتھ یہ برا فعل کیا گیا ہو، اس کا گوشت کھانے اور اس سے فائدہ اٹھانے کو رسول اللہ ﷺ نے ناپسند سمجھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عمرو بن ابی عمرو کی حدیث کو جسے وہ بطریق : «عكرمة عن ابن عباس عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کرتے ہیں۔ ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحدود ٢٩ (٣٠٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١٣ (٤٤٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٦١٧٦) ، و مسند احمد (١/٢٦٩، ٣٠٠ (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی عاصم کی روایت جو ابن عباس سے موقوف ہے یہ زیادہ صحیح ہے عمرو بن ابی عمرو کی روایت سے جو اس سے پہلے مذکور ہوئی ہے۔ ٢ ؎ : یعنی ان کا عمل عاصم کی موقوف روایت پر ہے کہ جانور سے وطی کرنے والے پر کوئی حد نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (2564) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1455

【34】

لواطت کی سزا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ جسے قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول (بدفعلی کرنے اور کرانے والے) دونوں کو قتل کر دو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث بواسطہ ابن عباس (رض) نبی اکرم ﷺ سے صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے، محمد بن اسحاق نے بھی اس حدیث کو عمرو بن ابی عمرو سے روایت کیا ہے، (لیکن اس میں ہے) آپ نے فرمایا : قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) کرنے والا ملعون ہے ، راوی نے اس حدیث میں قتل کا ذکر نہیں کیا، البتہ اس میں یہ بیان ہے کہ جانور سے وطی (جماع) کرنے والا ملعون ہے ، اور یہ حدیث بطریق : «عاصم بن عمر عن سهيل بن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی گئی ہے۔ (اس میں ہے کہ) آپ نے فرمایا : فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو ، ٢ - اس حدیث کی سند میں کلام ہے، ہم نہیں جانتے کہ اسے سہیل بن ابی صالح سے عاصم بن عمر العمری کے علاوہ کسی اور نے روایت کیا ہے اور عاصم بن عمر کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے حفظ کے تعلق سے حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، ٣ - اس باب میں جابر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - اغلام بازی (بدفعلی) کرنے والے کی حد کے سلسلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں : بدفعلی کرنے والا شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اس کی سزا رجم ہے، مالک شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ٥ - فقہاء تابعین میں سے بعض اہل علم نے جن میں حسن بصری، ابراہیم نخعی اور عطا بن ابی رباح وغیرہ شامل ہیں کہتے ہیں : بدفعلی کرنے والے کی سزا زانی کی سزا کی طرح ہے، ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحدود ٢٩ (٤٤٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١٣ (٢٥٦١) (تحفة الأشراف : ٦١٧٦) ، و مسند احمد (١/٢٦٩، ٣٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس میں کوئی شک نہیں کہ اغلام بازی امور معصیت کے کاموں میں سے ہلاکت خیزی کے اعتبار سے سب سے خطرناک کام ہے اور فساد و بگاڑ کے اعتبار سے کفر کے بعد اسی کا درجہ ہے ، اس کی تباہ کاری بسا اوقات قتل کی تباہ کاریوں سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے ، قوم لوط سے پہلے عالمی پیمانہ پر کوئی دوسری قوم اس فحش عمل میں ملوث نہیں پائی گئی تھی ، یہی وجہ ہے کہ یہ قوم مختلف قسم کے عذاب سے دوچار ہوئی ، چناچہ یہ اپنی رہائش گاہوں کے ساتھ پلٹ دی گئی اور زمین میں دھنسنے کے ساتھ آسمان سے نازل ہونے والے پتھروں کا شکار ہوئی ، اسی لیے جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اس کی سزا زنا کی سزا سے کہیں سخت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3561) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1456

【35】

لواطت کی سزا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے اپنی امت کے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اور ہم اسے صرف اسی سند «عن عبد اللہ بن محمد بن عقيل بن أبي طالب عن جابر» سے ہی جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحدود ١٢ (٢٥٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٦٧) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2563) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1457

【36】

مرتد کی سزا

عکرمہ سے روایت ہے کہ علی (رض) نے کچھ ایسے لوگوں کو زندہ جلا دیا جو اسلام سے مرتد ہوگئے تھے، جب ابن عباس (رض) کو یہ بات معلوم ہوئی ١ ؎ تو انہوں نے کہا : اگر (علی (رض) کی جگہ) میں ہوتا تو انہیں قتل کرتا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : جو اپنے دین (اسلام) کو بدل ڈالے اسے قتل کرو ، اور میں انہیں جلاتا نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : اللہ کے عذاب خاص جیسا تم لوگ عذاب نہ دو ، پھر اس بات کی خبر علی (رض) کو ہوئی تو انہوں نے کہا : ابن عباس (رض) نے سچ کہا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح حسن ہے، ٢ - مرتد کے سلسلے میں اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٣ - جب عورت اسلام سے مرتد ہوجائے تو اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے : اسے قتل کیا جائے گا، اوزاعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ٤ - اور اہل علم کی دوسری جماعت کہتی ہے : اسے قتل نہیں بلکہ قید کیا جائے گا، سفیان ثوری اور ان کے علاوہ بعض اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٤٩ (٣٠١٧) ، والمرتدین ٢ (٦٩٢٢) ، سنن ابی داود/ الحدود ١ (٤٣٥١) ، سنن النسائی/المحاربة ١٤ (٤٠٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢ (٢٥٣٥) (تحفة الأشراف : ٥٩٨٧) ، و مسند احمد (١/٢٨٢، ٢٨٣، ٣٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عبداللہ بن عباس (رض) علی (رض) کی جانب سے اس وقت بصرہ کے گورنر تھے۔ ٢ ؎ : جو شخص اسلام میں داخل ہوگیا اور اسے اچھی طرح پہچاننے کے بعد پھر اس سے مرتد ہوگیا تو اس کا کفر اسلام نہ لانے والے کافر سے بڑھ کر ہے ، اس لیے ایسے شخص کی سزا قتل ہے اور یہ سزا حدیث رسول «من بدل دينه فاقتلوه» کے مطابق سب کے لیے عام ہے خواہ مرد ہو یا عورت۔ «واللہ اعلم » قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2535) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1458

【37】

مسلمانوں پر ہتھیار اٹھائے۔

ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو ہمارے خلاف ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے ١ ؎۔ اس باب میں ابن عمر، ابن زبیر، ابوہریرہ اور سلمہ بن الاکوع (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٧ (٧٠٧١) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٢ (١٠٠) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١٩ (٢٥٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٠٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مسلمانوں کے خلاف ناحق ہتھیار اٹھانے والا اگر اسے حلال سمجھ کر ان سے صف آرا ہے تو اس کے کافر ہونے میں کسی کو شبہ نہیں اور اگر اس کا یہ عمل کسی دنیاوی طمع و حرص کی بناء پر ہے تو اس کا شمار باغیوں میں سے ہوگا اور اس سے قتال جائز ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2575 - 2577) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1459

【38】

جادوگر کی سزا

جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جادوگر کی سزا تلوار سے گردن مارنا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن سے بھی مروی ہے، اور صحیح یہ ہے کہ جندب سے موقوفاً مروی ہے۔ ٢ - ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، ٣ - اسماعیل بن مسلم مکی اپنے حفظ کے تعلق سے حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، اور اسماعیل بن مسلم جن کی نسبت عبدی اور بصریٰ ہے وکیع نے انہیں ثقہ کہا ہے۔ ٤ - صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم صحابہ اور کچھ دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، مالک بن انس کا یہی قول ہے، ٥ - شافعی کہتے ہیں : جب جادوگر کا جادو حد کفر تک پہنچے تو اسے قتل کیا جائے گا اور جب اس کا جادو حد کفر تک نہ پہنچے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا قتل نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٢٦٩) (ضعیف) (سند میں ” اسماعیل بن مسلم “ ضعیف ہیں جیسا کہ مؤلف نے خود صراحت کر سنن الدارمی/ ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1446) ، المشکاة (3551 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (2699) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1460

【39】

جو شخص غنیمت کا مال چرانے والی کی سزا

عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کو اللہ کی راہ میں مال (غنیمت) میں خیانت کرتے ہوئے پاؤ اس کا سامان جلا دو ۔ صالح کہتے ہیں : میں مسلمہ کے پاس گیا، ان کے ساتھ سالم بن عبداللہ تھے تو مسلمہ نے ایک ایسے آدمی کو پایا جس نے مال غنیمت میں خیانت کی تھی، چناچہ سالم نے (ان سے) یہ حدیث بیان کی، تو مسلمہ نے حکم دیا پھر اس (خائن) کا سامان جلا دیا گیا اور اس کے سامان میں ایک مصحف بھی پایا گیا تو سالم نے کہا : اسے بیچ دو اور اس کی قیمت صدقہ کر دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : اسے صالح بن محمد بن زائدہ نے روایت کیا ہے، یہی ابو واقد لیثی ہے، یہ منکرالحدیث ہے، ٣ - بخاری کہتے ہیں کہ مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کے سلسلے میں نبی اکرم ﷺ سے دوسری احادیث بھی آئی ہیں، آپ نے ان میں اس (خائن) کے سامان جلانے کا حکم نہیں دیا ہے، ٤ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اوزاعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ١٤٥ (٢٧١٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٦٣) ، سنن الدارمی/السیر ٤٩ (٢٥٣٧) (ضعیف) (سند میں ” صالح بن محمد بن زائدہ “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (468) // عندنا (580 / 2713) ، المشکاة (3633 / التحقيق الثاني) ، تحقيق المختارة (191 - 194) // ضعيف الجامع الصغير (5871) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1461

【40】

جو شخص کسی کو ہیجڑا کہ کر پکاریاس کی سزا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی آدمی دوسرے کو یہودی کہہ کر پکارے تو اسے بیس کوڑے لگاؤ، اور جب مخنث (ہجڑا) کہہ کر پکارے تو اسے بیس کوڑے لگاؤ، اور جو کسی محرم کے ساتھ زنا کرے اسے قتل کر دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - ابراہیم بن اسماعیل بن علیہ حدیث کی روایت میں ضعیف ہیں، ٣ - نبی اکرم ﷺ سے یہ کئی سندوں سے مروی ہے، ٤ - براء بن عازب اور قرہ بن ایاس مزنی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا تو نبی اکرم ﷺ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا، ٥ - ہمارے اصحاب (محدثین) کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں : جو جانتے ہوئے کسی محرم کے ساتھ زنا کرے تو اس پر قتل واجب ہے، ٦ - (امام) احمد کہتے ہیں : جو اپنی ماں سے نکاح کرے گا اسے قتل کیا جائے گا، ٧ - اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : جو کسی محرم کے ساتھ زنا کرے اسے قتل کیا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحدود ١٥ (٢٥٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٧٥) (ضعیف) (سند میں ” ابراہیم بن اسماعیل “ ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (3632 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (610) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1462

【41】

تعزیر کے بارے میں

ابوبردہ بن نیار (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا : دس سے زیادہ کسی کو کوڑے نہ لگائے جائیں ١ ؎ سوائے اس کے کہ اللہ کی حدود میں سے کوئی حد جاری کرنا ہو ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف بکیر بن اشج کی روایت سے جانتے ہیں۔ ٢ - تعزیر کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، تعزیر کے باب میں یہ حدیث سب سے اچھی ہے، ٣ - اس حدیث کو ابن لہیعہ نے بکیر سے روایت کیا ہے، لیکن ان سے اس سند میں غلطی ہوئی ہے، انہوں نے سند اس طرح بیان کی ہے : «عن عبدالرحمٰن بن جابر بن عبد اللہ عن أبيه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» حالانکہ یہ غلط ہے، صحیح لیث بن سعد کی حدیث ہے، اس کی سند اس طرح ہے : «عبدالرحمٰن بن جابر بن عبد اللہ عن أبي بردة بن نيار عن النبي صلی اللہ عليه وسلم»۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٤٢ (٦٨٤٨) ، صحیح مسلم/الحدود ٩ (١٧٠٨) ، سنن ابی داود/ الحدود ٣٩ (٤٤٩١) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٣٢ (٢٦٠١) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٢٠) ، و مسند احمد (٣/٤٦٦) ، سنن الدارمی/الحدود ١١ (٢٣٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے کا صحیح محل یہ ہے کہ یہ بال بچوں اور غلام و خادم کی تادیب سے متعلق ہے کہ آدمی اپنے زیر لوگوں کو ادب سکھائے تو دس کوڑے تک کی سزا دے ، رہ گئی دوسری وہ خطائیں جن میں شریعت نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے جیسا کہ خائن ، لٹیرے ، ڈاکو اور اچکے پر خاص حد نہیں ہے تو یہ حاکم کی رائے پر منحصر ہے ، اگر حاکم اس میں تعزیراً سزا دینا چاہے تو دس کوڑے سے زیادہ جتنا چاہے حتیٰ کہ قتل تک سزا دے سکتا ہے ، رہ گئی زیر نظر حدیث تو اس میں اور یہ ایسے تادیبی امور ہیں جن کا تعلق معصیت سے نہیں ہے ، مثلاً والد کا اپنی چھوٹی اولاد کو بطور تأدیب سزا دینا۔ ٢ ؎ : ابن القیم (رح) فرماتے ہیں : اس حدیث میں حدود سے مراد ایسے حقوق ہیں جن کا تعلق اوامر الٰہی اور منہیات الٰہی سے ہے ، چناچہ «ومن يتعد حدود اللہ فأولئك هم الظالمون» (البقرة : ٢٢٩ ) اسی طرح «تلک حدود اللہ فلا تقربوها» (البقرة : ١٨٧ ) میں حدود کا یہی مفہوم ہے۔ اگر بات شریعت کے اوامر و نواہی کی ہو تو حاکم کو مناسب سزاؤں کے اختیار کی اجازت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2601) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1463