9. قبلہ کے متعلق احادیث

【1】

بیت اللہ شریف کی طرف چہرہ کرنا

براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے سولہ ماہ تک بیت المقدس کی جانب نماز پڑھی، پھر آپ خانہ کعبہ کی طرف پھیر دیئے گئے، ایک شخص جو نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا، انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کا رخ کعبہ کی طرف کردیا گیا ہے، وہ لوگ (یہ سنتے ہی نماز کی حالت میں) کعبہ کی طرف پھرگئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٩٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 742

【2】

کون سے وقت بیت اللہ شریف کی جانب چہرہ کرنا لازم نہیں ہے

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں اپنی سواری پر نماز پڑھتے تھے خواہ وہ کسی بھی طرف متوجہ ہوجاتی۔ مالک کہتے ہیں کہ عبداللہ بن دینار کا کہنا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٩٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 743

【3】

کون سے وقت بیت اللہ شریف کی جانب چہرہ کرنا لازم نہیں ہے

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سواری پر نماز پڑھتے خواہ وہ کسی بھی طرف آپ کو لے کر متوجہ ہوتی، وتر بھی اسی پر پڑھتے تھے، البتہ فرض نماز اس پر نہیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٩١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 744

【4】

اگر ایک آدمی نے غور کر کے بیت اللہ شریف کی جانب نماز ادا کی پھر علم ہوا قبلہ اس جانب نہیں تھا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ لوگ مسجد قباء میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا : آج رات رسول اللہ ﷺ پر کچھ قرآن نازل ہوا ہے، اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ قبلہ (کعبہ) کی طرف رخ کریں، تو ان لوگوں نے کعبہ کی طرف رخ کرلیا، اور حال یہ تھا کہ ان کے چہرے شام کی طرف تھے تو وہ کعبہ کی طرف (جنوب کی طرف) گھوم گئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٩٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ تحری اور اجتہاد کے بعد آدمی نماز شروع کرے پھر نماز کے دوران ہی اسے غلط سمت میں نماز پڑھنے کا علم ہوجائے تو اپنا رخ پھیر کر صحیح سمت کی طرف کرلے، اور لاعلمی میں جو حصہ پڑھ چکا ہے اسے دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 745

【5】

نمازی شخص کے سترہ سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے غزوہ تبوک میں نمازی کے سترہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : یہ کجاوہ کی پچھلی لکڑی کی طرح کی بھی کوئی چیز ہوسکتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٩٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 746

【6】

نمازی شخص کے سترہ سے متعلق

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ (اپنے سامنے) نیزہ گاڑتے تھے، پھر اس کی طرف (رخ کر کے) نماز پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٩٢ (٤٩٨) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ٨١٧٢) ، مسند احمد ٢/١٣، ١٨، ١٤٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٤ (١٤٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کھلا میدان ہو یا بند مکان، حتیٰ کہ مسجد میں بھی امام اور منفرد سب کے لیے سترہ فرض ہے، مساجد میں دیوار، کھمبا یا کسی آدمی ہی کو سہی سترہ بنا لے، تو وہ آدمی اس کی نماز ختم ہونے تک اس کے سامنے بیٹھا رہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 747

【7】

نمازی کو سترہ کے قریب کھڑے ہو کر نماز پڑھنا چاہئے

سہل بن ابو حثمہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی سترہ کی طرف (رخ کر کے) نماز پڑھے، تو اس سے قریب رہے کہ شیطان اس کی نماز باطل نہ کرسکے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٠٧ (٦٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٤٨) ، مسند احمد ٤/٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 748

【8】

نمازی شخص کو سترہ سے کس قدر فاصلہ پر کھڑا ہونا چاہئے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ، اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن طلحہ حجبی رضی اللہ عنہم چاروں خانہ کعبہ میں داخل ہوئے، تو نبی اکرم ﷺ نے دروازہ بند کرلیا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جب وہ لوگ نکلے تو میں نے بلال (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ نے (کعبہ کے اندر) کیا کیا ؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے ایک کھمبا (ستون) اپنے بائیں طرف کیا، دو کھمبے اپنے دائیں طرف، اور تین کھمبے اپنے پیچھے، (ان دنوں خانہ کعبہ چھ ستونوں پر تھا) پھر آپ نے نماز پڑھی، اور اپنے اور دیوار کے درمیان تقریباً تین ہاتھ کا فاصلہ رکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٩٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نمازی اپنے اور سترہ کے درمیان اتنا ہی فاصلہ رکھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 749

【9】

بحالت نماز کونسی شے کے سامنے سے گزرنے سے نماز فاسد ہوتی ہے اور کونسی شے سے نہیں

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو تو جب اس کے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی جیسی کوئی چیز ہو تو وہ اس کے لیے سترہ ہوجائے گی، اور اگر کجاوہ کی پچھلی لکڑی کی طرح کوئی چیز نہ ہو تو عورت، گدھا اور کالا کتا اس کی نماز باطل کر دے گا ۔ عبداللہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر (رض) سے پوچھا : پیلے اور لال رنگ کے مقابلہ میں کالے (کتے) کی کیا خصوصیت ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : جس طرح آپ نے مجھ سے پوچھا ہے میں نے بھی یہی بات رسول اللہ ﷺ سے پوچھی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا : کالا کتا شیطان ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥٠ (٥٠١) ، سنن ابی داود/فیہ ١١٠ (٧٠٢) ، سنن الترمذی/فیہ ١٣٧ (٣٣٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٣٨ (٩٥٢) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١١٩٣٩) ، مسند احمد ٥/١٤٩، ١٥١، ١٥٥، ١٥٨، ١٦٠، ١٦١، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٨ (١٤٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعض لوگوں نے اسے ظاہر پر محمول کیا ہے، اور کہا ہے کہ ان چیزوں کے گزرنے سے واقعی نماز باطل ہوجائے گی، لیکن جمہور نے اس کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ باطل ہونے سے مراد نماز میں نقص ہے کیونکہ ان چیزوں کی وجہ سے دل نماز کی طرف پوری طرح سے متوجہ نہیں ہو سکے گا اور نماز کے خشوع و خضوع میں فرق آجائے گا، اور کچھ لوگوں نے اس روایت ہی کو منسوخ مانا ہے۔ ٢ ؎: بعض لوگوں نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ شیطان کالے کتے کی شکل اختیار کرلیتا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا کہ وہ دوسرے کتوں کے بالمقابل زیادہ ضرر رساں ہوتا ہے اس لیے اسے شیطان کہا گیا ہے (واللہ اعلم) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 750

【10】

بحالت نماز کونسی شے کے سامنے سے گزرنے سے نماز فاسد ہوتی ہے اور کونسی شے سے نہیں

قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن زید سے پوچھا : کون سی چیز نماز کو باطل کردیتی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ابن عباس رضی اللہ عنہم کہتے تھے : حائضہ عورت اور کتا۔ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ شعبہ نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٠ (٧٠٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٣٨ (٩٤٩) ، مسند احمد ١/٤٣٧، (تحفة الأشراف : ٥٣٧٩) ، (من طریق شعبة مرفوعاً ) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 751

【11】

بحالت نماز کونسی شے کے سامنے سے گزرنے سے نماز فاسد ہوتی ہے اور کونسی شے سے نہیں

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں : میں اور فضل دونوں اپنی ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے، اور رسول اللہ ﷺ عرفہ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے (پھر انہوں نے ایک بات کہی جس کا مفہوم تھا :) تو ہم صف کے کچھ حصہ سے گزرے، پھر ہم اترے اور ہم نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا، تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کچھ نہیں کہا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ١٨ (٧٦) ، الصلاة ٩٠ (٤٩٣) ، الأذان ١٦١ (٨٦١) ، جزاء الصید ٢٥ (١٨٥٧) ، المغازي ٧٧ (٤٤١٢) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٣ (٧١٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٦ (٣٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٨ (٩٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٤) ، موطا امام مالک/السفر ١١ (٣٨) ، مسند احمد ١/٢١٩، ٢٦٤، ٢٦٥، ٣٣٧، ٣٤٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٩ (١٤٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس پر رسول اللہ ﷺ نے ہماری کوئی سرزنش نہیں کی، کیونکہ امام مقتدیوں کا سترہ ہوتا ہے، اور وہ دونوں صف کے کچھ ہی حصہ سے گزرے تھے، امام کو عبور نہیں کیا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 752

【12】

بحالت نماز کونسی شے کے سامنے سے گزرنے سے نماز فاسد ہوتی ہے اور کونسی شے سے نہیں

فضل بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے ایک بادیہ میں عباس (رض) سے ملنے آئے، وہاں ہماری ایک کتیا موجود تھی، اور ہماری ایک گدھی چر رہی تھی، نبی اکرم ﷺ نے عصر کی نماز پڑھی، اور وہ دونوں آپ کے آگے موجود تھیں، تو انہیں نہ ہانکا گیا اور نہ ہٹا کر پیچھے کیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : (اس کے راوی ” محمد بن عمر “ لین الحدیث ہیں، اور ان کی یہ روایت ثقات کی روایات کے خلاف ہے) (منکر) سنن ابی داود/الصلاة ١١٤ (٧١٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٤٥) ، مسند احمد ١/٢١١، ٢١٢ قال الشيخ الألباني : منکر ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 753

【13】

بحالت نماز کونسی شے کے سامنے سے گزرنے سے نماز فاسد ہوتی ہے اور کونسی شے سے نہیں

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ وہ اور بنی ہاشم کا ایک لڑکا دونوں رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے ایک گدھے پر سوار ہو کر گزرے، آپ نماز پڑھ رہے تھے، تو وہ دونوں اترے اور آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے، پھر ان لوگوں نے نماز پڑھی اور آپ نے نماز نہیں توڑی، اور ابھی آپ نماز ہی میں تھے کہ اتنے میں بنی عبدالمطلب کی دو بچیاں دوڑتی ہوئی آئیں، اور آپ کے گھٹنوں سے لپٹ گئیں، آپ نے ان دونوں کو جدا کیا، اور نماز نہیں توڑی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٣ (٧١٦، ٧١٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٨٧) ، مسند احمد ١/٢٣٥، ٣٤١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ گدھے کے گزرنے سے لوگوں نے نماز میں کوئی حرج نہیں سمجھا، اسی لیے بعض علماء نے گدھے کو نماز باطل کرنے والی چیزوں میں سے مستثنیٰ کردیا ہے، لیکن ابوذر (رض) کی حدیث (رقم : ٧٥١ ) اس باب میں واضح اور قاطع ہے، نیز یہ قطعی نہیں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کا گدھا چھوڑ دینے کے بعد امام کے آگے سے گزرا بھی ہو، بلکہ حدیث (رقم : ٧٥٣ ) سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صف کے کچھ ہی حصہ تک گدھا بھی محدود رہا، اور دونوں بچیاں چونکہ ابھی بالغ نہیں ہوئی تھیں اس لیے ان کے گزرنے سے کوئی حرج نہیں سمجھا گیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 754

【14】

بحالت نماز کونسی شے کے سامنے سے گزرنے سے نماز فاسد ہوتی ہے اور کونسی شے سے نہیں

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے تھی، آپ نماز پڑھ رہے تھے تو جب میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو مجھے یہ بات ناگوار لگی کہ میں اٹھ کر آپ کے سامنے سے گزروں تو میں دھیرے سے سرک گئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٩٩ (٥٠٨) ، ١٠٢ (٥١١) ، ١٠٥ (٥١٤) ، الاستئذان ٣٧ (٦٢٧٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٥١ (٥١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٨٧) ، مسند احمد ٦/١٧٤، ٢٦٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک تو عائشہ رضی اللہ عنہا چارپائی پر سوئی ہوئی تھیں (جس کو آپ نے سترہ بنایا ہوا تھا) دوسرے وہ آپ کے آگے گزری نہیں بلکہ سرک گئی تھیں، مرور کہتے ہیں ایک جانب سے دوسری جانب تک یعنی ادھر سے ادھر تک گزرنا، اور السلال کہتے ہیں کہ ایک ہی جانب سے سرک جانا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 755

【15】

سترہ کے اور نماز کے درمیان سے نکل جانے کی وعید

بسر بن سعید سے روایت ہے کہ زید بن خالد نے انہیں ابوجہیم (رض) کے پاس بھیجا، وہ ان سے پوچھ رہے تھے کہ انہوں نے نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کو کیا کہتے سنا ہے ؟ تو ابوجہیم (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانتا کہ اس پر کیا گناہ ہے تو وہ چالیس (دن، مہینہ یا سال) تک کھڑا رہنے کو بہتر اس بات سے جانتا کہ وہ اس کے سامنے سے گزرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠١ (٥١٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٨ (٥٠٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٠٩ (٧٠١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٥ (٣٣٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٣٧ (٩٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٨٤) ، موطا امام مالک/السفر ١٠ (٣٤) ، مسند احمد ٤/١٦٩، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٠ (١٤٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 756

【16】

سترہ کے اور نماز کے درمیان سے نکل جانے کی وعید

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے نہ دے، اگر وہ نہ مانے تو اسے سختی سے دفع کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٨ (٥٠٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٠٨ (٦٩٧، ٦٩٨) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٣٩ (٩٥٤) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٤١١٧) ، موطا امام مالک/السفر ١٠ (٣٣) ، مسند احمد ٣/٣٤، ٤٣، ٤٩، ٥٧، ٩٣، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٥ (١٤٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 757

【17】

مذکو رہ مسئلہ کی اجازت سے متعلق

مطلب بن ابی وداعۃ سہمی (رض) کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے خانہ کعبہ کا سات چکر لگایا، پھر مقام ابراہیم کے حاشیہ میں اپنے جوتوں کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی، اور آپ کے اور طواف کرنے والوں کے درمیان کوئی (سترہ) نہ تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٨٩ (٢٠١٦) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٣٣ (٢٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٨٥) ، مسند احمد ٦/٣٩٩، ویأتی عند المؤلف برقم : ٢٩٦٢ (ضعیف) (اس کے راوی ” کثیر بن المطلب “ لین الحدیث ہیں، اسی لیے ان کے بیٹے کثیر بن کثیر ان کا نام حذف کر کے کبھی ” عن بعض أھلہ “ اور کبھی ” عمن سمع جدہ “ کہا کرتے تھے ) وضاحت : ١ ؎: اولاً : تو یہ حدیث ہی ضعیف ہے، اس سے استدلال درست نہیں، ثانیاً : مقام ابراہیم ہی بطور سترہ کافی تھا، اس اعتبار سے یہ روایت ان لوگوں کی دلیل نہیں بن سکتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مکہ میں سترہ کی ضرورت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 758

【18】

سوتے ہوئے شخص کی اقتداء میں نماز ادا کرنا

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ رات کو نماز پڑھتے تھے، اور میں آپ کے اور قبلہ کے بیچ آپ کے بستر پر چوڑان میں سوئی رہتی تھی، تو جب آپ وتر پڑھنے کا ارادہ کرتے تو مجھے جگاتے، تو میں (بھی) وتر پڑھتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣ ١٠ (٥١٢) ، الوتر ٣ (٩٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣١٢) ، مسند احمد ٦/٥٠، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٢ (٣٨٣) ، ١٠٤ (٥١٣) ، ١٠٧ (٥١٨) ، العمل في الصلاة ١٠ (١٢٠٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٥١ (٥١٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٢ (٧١٢) ، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ١ (٢) ، مسند احمد ٦/٥٠، ١٩٢، ٢٠٥، ٢٣١، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٧ (١٤٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 759

【19】

قبر کی جانب نماز ادا کرنے کی ممانعت سے متعلق

ابومرثد غنوی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہ تم قبروں کی طرف (رخ کر کے) نماز پڑھو اور نہ ان پر بیٹھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٣ (٩٧٢) ، سنن ابی داود/الجنائز ٧٧ (٣٢٢٩) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥٧ (١٠٥٠، ١٠٥١) ، (تحفة الأشراف : ١١١٦٩) ، مسند احمد ٤/١٣٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 760

【20】

تصویر والے کپڑے پر نماز نہ پڑھنے سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے گھر ایک کپڑا تھا جس میں تصویریں تھیں، میں نے اسے گھر کے ایک روشندان پر لٹکا دیا تھا، رسول اللہ ﷺ اس کی طرح (رخ کر کے) نماز پڑھتے تھے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! اسے میرے پاس سے ہٹا دو ، تو میں نے اسے اتار لیا، اور اس کے تکیے بنا ڈالے۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٩٤) ، مسند احمد ٦/١٧٢، سنن الدارمی/الاستئذان ٣٣ (٢٧٠٤) ، ویأتی عند المؤلف في الزینة فی المجتبی ١١١ (برقم : ٥٣٥٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 761

【21】

نمازی اور امام کے درمیان سترہ کا حکم

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک چٹائی تھی جسے آپ دن میں بچھایا کرتے تھے، اور رات میں اس کو حجرہ نما بنا لیتے اور اس میں نماز پڑھتے، لوگوں کو اس کا علم ہوا تو آپ کے ساتھ وہ بھی نماز پڑھنے لگے، آپ کے اور ان کے درمیان وہی چٹائی حائل ہوتی، آپ ﷺ نے فرمایا : (اتنا ہی) عمل کرو جتنا کہ تم میں طاقت ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکے گا البتہ تم (عمل سے) تھک جاؤ گے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر مداومت ہو گرچہ وہ کم ہو ، پھر آپ ﷺ نے وہ جگہ چھوڑ دی، اور وہاں دوبارہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، آپ جب کوئی کام کرتے تو اسے جاری رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨١ (٧٣٠) مختصراً ، اللباس ٤٣ (٥٨٦١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٠ (٧٨٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٧ (١٣٦٨) (من قولہ : اکلفوا من العمل الخ) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٣٦ (٩٤٢) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٢٠) ، مسند احمد ٦/٤٠، ٦١، ٢٤١، (ولیس قولہ : ” ثم ترک م صلاة ۔۔۔ حتی قبضہ اللہ “ عند أحد سوی المؤلف (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 762

【22】

ایک کپڑے میں نماز پڑھنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک سائل نے رسول اللہ ﷺ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم میں سے ہر ایک کو دو کپڑے میسر ہیں ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤ (٣٥٨) ، ٩ (٣٦٥) ، صحیح مسلم/الصلاة ٥٢ (٥١٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٧٨ (٦٢٥) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ١٣٢٣١) ، موطا امام مالک/الجماعة ٩ (٣٠) ، مسند احمد ٦/٢٣٠، ٢٣٩، ٢٨٥، ٣٤٥، ٤٩٥، ٤٩٨، ٤٩٩، ٥٠١، سنن الدارمی/الصلاة ٩٩ (١٤١٠، ١٤١١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 763

【23】

ایک کپڑے میں نماز پڑھنا

عمر بن ابوسلمہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک ایسے کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا جس کے دونوں کناروں کو آپ اپنے دونوں کندھوں پر رکھے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤ (٣٥٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٥٢ (٥١٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٨ (٣٣٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٦٩ (١٠٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٨٤) ، موطا امام مالک/الجماعة ٩ (٢٩) ، مسند احمد ٤/٢٦، ٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 764

【24】

صرف کرتے میں نماز ادا کرنے سے متعلق

سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں شکار پر جاتا ہوں اور میرے جسم پر سوائے قمیص کے کچھ نہیں ہوتا، تو کیا میں اس میں نماز پڑھ لوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : (ہاں پڑھ لو) اور اس میں ایک تکمہ لگا لو گرچہ کانٹے ہی کا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٨١ (٦٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٣٣) ، مسند احمد ٤/٤٩، ٥٤ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 765

【25】

تہہ بند لنگی میں نماز ادا کرنا

سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بچوں کی طرح اپنا تہبند باندھے نماز پڑھ رہے تھے، تو عورتوں سے (جو مردوں کے پیچھے پڑھ رہی تھیں) کہا گیا کہ جب تک مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں تم اپنے سروں کو نہ اٹھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٦ (٣٦٢) ، الأذان ١٣٦ (٨١٤) ، العمل في الصلاة ١٤ (١٢١٥) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٩ (٤٤١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٧٩ (٦٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٨١) ، مسند احمد ٣/٤٣٣، ٥/٣٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 766

【26】

تہہ بند لنگی میں نماز ادا کرنا

عمرو بن سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ جب میرے قبیلہ کے لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس سے لوٹ کر آئے تو کہنے لگے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے : تم میں جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ تمہاری امامت کرائے ، تو ان لوگوں نے مجھے بلا بھیجا، اور مجھے رکوع اور سجدہ کرنا سکھایا تو میں ان لوگوں کو نماز پڑھاتا تھا، میرے جسم پر ایک پھٹی چادر ہوتی، تو وہ لوگ میرے والد سے کہتے تھے کہ تم ہم سے اپنے بیٹے کی سرین کیوں نہیں ڈھانپ دیتے ؟۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٣٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 767

【27】

اگر ایک کپڑے کا کچھ حصہ نمازی کے جسم پر ہو اور ایک حصہ اس کی بیوی کے جسم پر ہو؟

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو نماز پڑھتے تھے، اور میں آپ کے پہلو میں ہوتی، اور میں حائضہ ہوتی، اور میرے اوپر ایک چادر ہوتی جس کا کچھ حصہ رسول اللہ ﷺ پر (بھی) ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥١ (٥١٤) ، سنن ابی داود/الطھارة ١٣٥ (٣٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٣١ (٦٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٠٨) ، مسند احمد ٦/٦٧، ٩٩، ١٣٧، ١٩٩، ٢٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 768

【28】

ایک ہی کپڑے کے اندر نماز پڑھنا جب کہ کاندھوں پر کچھ نہ ہونا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے جس کا کوئی حصہ اس کے کندھے پر نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥٢ (٥١٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٧٨ (٦٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٧٨) ، مسند احمد ٢/٢٤٣، ٤٦٤، سنن الدارمی/الصلاة ٩٩ (١٤١١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 769

【29】

ریشمی کپڑے میں نماز ادا کرنا

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک ریشمی قباء ہدیے میں دی گئی، تو آپ نے اسے پہنا، پھر اس میں نماز پڑھی، پھر جب آپ نماز پڑھ چکے تو اسے زور سے اتار پھینکا جیسے آپ اسے ناپسند کر رہے ہوں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اہل تقویٰ کے لیے یہ مناسب نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٦ (٣٧٥) ، اللباس ١٢ (٥٨٠١) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢ (٢٠٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٥٩) ، مسند احمد ٤/١٤٣، ١٤٩، ١٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 770

【30】

نقشین چادر کو اوڑھ کر نماز ادا کرنا

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش و نگار تھے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ان بیل بوٹوں نے مجھے مشغول کردیا، اسے ابوجہم کے پاس لے جاؤ، اور اس کے عوض کوئی سادی چادر لے آؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٤ (٣٧٣) ، الأذان ٩٣ (٧٥٢) ، اللباس ١٩ (٥٨١٧) ، صحیح مسلم/المساجد ١٥ (٥٥٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٦٧ (٩١٤) ، اللباس ١١ (٤٠٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١ (٣٥٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٤) ، موطا امام مالک/الصلاة ١٨ (٦٨) مرسلاً ، مسند احمد ٦/٣٧، ٤٦، ١٧٧، ١٩٩، ٢٠٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 771

【31】

سرخ رنگ کے کپڑے میں نماز ادا کرنا

ابوحجیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سرخ جوڑے میں نکلے، اور آپ نے اپنے سامنے ایک برچھی گاڑی، پھر اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، اور اس کے پیچھے سے کتے، عورتیں اور گدھے گزرتے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٧ (٣٧٦) ، الأذان ١٨ (٦٣٣) ، المناقب ٢٣ (٣٥٥٣) ، اللباس ٣ (٥٧٨٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٤ (٥٢٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٠ (١٩٧) ، تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٨٠٨) ، مسند احمد ٤/٣٠٧، ٣٠٨، ٣٠٩ (بعضھم لم یذکر الحلة) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 772

【32】

ایسے کپڑے میں نماز ادا کرنا جو کہ جسم سہ لگا ہوا رہے

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اکرم ابوالقاسم ﷺ دونوں جسم سے لگے ایک ہی کپڑے میں سوتے اور میں حائضہ ہوتی، اگر مجھ سے آپ کو کچھ (خون) لگ جاتا تو آپ جتنی جگہ میں لگتا اسی کو دھو لیتے اور اس سے آگے تجاوز نہ فرماتے، اور اسی میں نماز پڑھتے، پھر واپس آ کر میرے ساتھ لیٹتے، اگر پھر مجھ سے کچھ (خون) لگ جاتا تو آپ پھر ویسے ہی کرتے، اور اس سے آگے تجاوز نہ فرماتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شعار: اس کپڑے کو کہتے ہیں جو آدمی کے جسم سے ملا ہوا ہوتا ہے، جیسے کرتے کے نیچے بنیان، یا بغیر بنیان کے کرتا اور چادر وغیرہ، یہاں چادر ہی مراد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 773

【33】

موزے پہن کر نماز ادا کرنے سے متعلق

ہمام کہتے ہیں کہ میں نے جریر (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے پیشاب کیا پھر پانی منگایا، اور وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر وہ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی، تو اس کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 774

【34】

جوتا پہن کر نماز ادا کرنا

ابوسلمہ (ان کا نام سعید بن یزید بصریٰ ہے اور وہ ثقہ ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ جوتوں میں نماز پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : جی ہاں (پڑھتے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٤ (٣٨٦) ، اللباس ٣٧ (٥٨٥٠) ، صحیح مسلم/المساجد ١٤ (٥٥٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٧ (٤٠٠) ، مسند احمد ٣/١٠٠، ١٦٦، ١٨٩، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٣ (١٤١٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 775

【35】

جس وقت امام نماز پڑھائے تو اپنے جوتے کس جگہ رکھے؟

عبداللہ بن سائب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح (مکہ) کے دن نماز پڑھی، تو آپ نے اپنے جوتوں کو اپنے بائیں جانب رکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٨٩ (٦٤٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٢٠٥ (١٤٣١) ، (تحفة الأشراف : ٥٣١٤) ، مسند احمد ٣/٤١٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چونکہ نبی اکرم ﷺ امام تھے، آپ کے بائیں جانب کوئی نہیں تھا اس لیے آپ نے اپنے جوتوں کو اپنے بائیں رکھا، اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی بائیں جانب ہو تو بائیں بھی جوتا نہیں رکھنا چاہیئے کیونکہ تمہارا بایاں دوسرے شخص کا دایاں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 776