43. قربانی سے متعلق احادیث مبارکہ

【1】

چیو نٹی مارنے سے متعلق حدیث

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے ذی الحجہ کے مہینے کا چاند دیکھا پھر قربانی کرنے کا ارادہ کیا تو وہ اپنے بال اور ناخن قربانی کرنے تک نہ لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأضاحی ٣ (١٩٧٧) ، سنن ابی داود/الضحایا ٣ (٢٧٩١) ، سنن الترمذی/الضحایا ٢٤(١٥٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الضحایا ١١ (٣١٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٢) مسند احمد ٦/٢٨٩، ٣٠١، ٣١١، سنن الدارمی/الأضاحی ٢ (١٩٩٠) ، ویأتی برقم : ٤٣٦٧-٤٣٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بال اور ناخن وغیرہ کچھ نہ کاٹے، جمہور کے نزدیک یہ حکم استحبابی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4361

【2】

چیو نٹی مارنے سے متعلق حدیث

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص قربانی کرنا چاہے تو وہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں نہ اپنے ناخن کترے اور نہ بال کٹوائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4362

【3】

چیو نٹی مارنے سے متعلق حدیث

تابعی سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ جو شخص قربانی کا ارادہ کرے اور (ذی الحجہ کے ابتدائی) دس دن شروع ہوجائیں تو اپنے بال اور اپنے ناخن نہ کترے، میں نے اس چیز کا ذکر عکرمہ سے کیا تو انہوں نے کہا : وہ عورتوں اور خوشبو سے بھی دور رہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم : ٤٣٦٦ (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ” شریک القاضی “ حافظے کے کمزور ہیں ) وضاحت : ١ ؎: ان کو اس بابت مرفوع حدیث نہیں پہنچی تھی اس لیے بطور طنز ایسا کہا، ویسے اس کی سند ضعیف ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4363

【4】

چیو نٹی مارنے سے متعلق حدیث

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے اور تم میں کا کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے اپنے بال اور اپنی کھال سے کچھ نہیں چھونا چاہیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٦٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4364

【5】

جس شخص میں قربانی کرنے کی طاقت نہ ہو؟

عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا : مجھے قربانی کے دن (دسویں ذی الحجہ) کو عید منانے کا حکم ہوا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس دن کو اس امت کے لیے عید کا دن بنایا ہے ، وہ شخص بولا : اگر میرے پاس سوائے ایک دو دھاری بکری کے کچھ نہ ہو تو آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا میں اس کی قربانی کروں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، بلکہ تم (قربانی کے دن) ١ ؎ اپنے بال، ناخن کاٹو، اپنی مونچھ تراشو اور ناف کے نیچے کے بال کاٹو، تو یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری مکمل قربانی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأضاحی ١ (٢٧٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٠٩) ، مسند احمد (٢/١٦٩) (حسن) (شیخ البانی نے ” عیسیٰ بن ہلال صوفی “ کو مجہول قرار دے کر اس حدیث کی تضعیف کی ہے ۔ جب کہ عیسیٰ ب تحقیق ابن حجر ” صدوق “ ہیں دیکھئے ” أحکام العیدین للفریابی “ تحقیق مساعد الراشد حدیث رقم ٢ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے رک جاؤ، اور عید کی نماز پڑھ کر ان کو کاٹو تو تمہیں بھی مکمل قربانی کا ثواب ملے گا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4365

【6】

امام کا عید گاہ میں قربانی کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید گاہ میں ہی (قربانی کا جانور) ذبح یا نحر کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٩٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں مدینہ میں عید گاہ کے اندر قربانی کرنے کی سہولت میسر تھی تو آپ نے ایسا کیا، اگر آج ایسی سہولت میسر ہو تو عید گاہ کے اندر ایسا کیا جاسکتا ہے، یہ کوئی واجب اور سنت نہیں کہ ہر حال میں ایسا ہی کیا جائے، اس زمانہ میں تو اب شاید کسی دیہات میں بھی یہ سہولت نہ ہو، شہروں میں تو اب ایسا ممکن ہی نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4366

【7】

امام کا عید گاہ میں قربانی کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عید الاضحی کے دن مدینے میں اونٹ نحر (ذبح) کیا، اور جب آپ (اونٹ) نحر نہیں کرتے تو عید گاہ میں ذبح کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٧١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4367

【8】

لوگوں کا عیدگاہ میں قربانی کرنا

جندب بن سفیان (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عید الاضحی میں تھا، آپ نے لوگوں کو نماز عید پڑھائی، جب نماز مکمل کرلی تو آپ نے دیکھا کہ کچھ بکریاں (نماز سے پہلے ہی) ذبح کردی گئیں ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : نماز عید سے پہلے جس نے ذبح کیا ہے اسے چاہیئے کہ وہ اس کی جگہ دوسری بکری ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا ہے تو وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ٢٣ (٩٨٥) ، الصید ١٧ (٥٥٠٠) ، الأضاحی ١٢ (٥٥٦٢) ، الأیمان ١٥ (٦٦٧٤) ، التوحید ١٣ (٧٤٠٠) ، صحیح مسلم/الأضاحی ١ (١٩٦٠) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحی ١٢ (٣١٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٥١) ، مسند احمد (٤/٣١٢، ٣١٣) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٤٤٠٣ (صحیح ) وضاحت :: ١ ؎ واضح طور پر باب کے مطابق پچھلی حدیث ہے، مؤلف نے اس حدیث سے اس طرح استدلال کیا ہے کہ آپ ﷺ نے عید گاہ میں ذبح پر کچھ نہیں فرمایا : بلکہ صرف نماز عید سے پہلے ذبح کردیئے جانے پر اعتراض کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4368

【9】

جن جانوروں کی قربانی ممنوع ہے جیسے کہ کانے جانور کی قربانی

ابوالضحاک عبید بن فیروز کہتے ہیں کہ میں نے براء (رض) سے کہا : مجھے بتائیے کہ کن کن جانوروں کی قربانی سے رسول اللہ ﷺ نے روکا ہے ؟ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے (اور براء نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا) میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے چھوٹا ہے، آپ نے فرمایا : چار طرح کے جانور جائز نہیں : ایک تو کانا جس کا کانا پن صاف معلوم ہو، دوسرا بیمار جس کی بیماری واضح ہو، تیسرا لنگڑا جس کا لنگڑا پن صاف ظاہر ہو، چوتھا وہ دبلا اور کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو ۔ میں نے کہا : مجھے یہ بھی ناپسند ہے کہ اس کے سینگ میں کوئی نقص عیب ہو یا اس کے دانت میں کوئی کمی ہو ١ ؎، انہوں نے کہا : جو تمہیں ناپسند ہو اسے چھوڑ دو ، لیکن تم کسی اور کو اس سے مت روکو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ٦ (٢٨٠٢) ، سنن الترمذی/الضحایا ٥ (١٤٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الضحایا ٨ (٣١٤٤) ، موطا امام مالک/الضحایا ١ (١) ، مسند احمد (٤/٢٨٤، ٢٨٩، ٣٠٠، ٣٠١) ، سنن الدارمی/الأضاحی ٣ (١٩٩٣) ، ویأتی برقم : ٤٣٧٥، ٤٣٧٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد : سینگ یا دانت میں معمولی سی کمی ہے، اسی لیے اتنی کمی والے جانور کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا : جو تمہیں ناپسند ہو … ورنہ مذکورہ چاروں عیوب کی طرح کسی بھی بڑے عیب کی موجودگی میں جمہور کے نزدیک قربانی جائز نہیں جیسے آدھا سے زیادہ کان کٹا ہوا ہو سینگ ٹوٹی ہوئی، پاؤں کٹا ہوا ہو، اندھا ہو، وغیرہ وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4369

【10】

لنگڑے جانور سے متعلق

عبید بن فیروز کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے کہا : مجھے بتائیے کہ رسول اللہ ﷺ کو کن کن جانوروں کی قربانی ناپسند تھی، یا آپ ان سے منع فرماتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے (اور اس طرح انہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، اور میرا ہاتھ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ سے چھوٹا ہے) : چار جانوروں کی قربانی درست اور صحیح نہیں ہے : کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو، بیمار جس کی بیماری واضح ہو، لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو، اور دبلا اور کمزور جس میں گودا نہ ہو ، انہوں نے کہا : مجھے ناپسند ہے کہ اس جانور کے سینگ اور کان میں کوئی عیب ہو، انہوں نے کہا : جو تمہیں ناپسند ہو اسے چھوڑ دو لیکن کسی اور کو اس سے مت روکو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4370

【11】

قربانی کے لئے لاغر اور کمزور جانور وغیرہ کے متعلق؟

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، انہوں نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا اور میری انگلیاں رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں سے چھوٹی ہیں، انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے آپ فرما رہے تھے : قربانی کے جانوروں میں یہ جانور جائز نہیں ہیں : کانا جس کا کانا پن صاف معلوم ہو، لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو، بیمار جس کی بیماری صاف ظاہر ہو رہی ہو اور دبلا اور کمزور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٧٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4371

【12】

وہ جانور جس کے سامنے سے کان کٹا ہوا ہو اس کا حکم

علی (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ہم (جانوروں کے) آنکھ اور کان دیکھ لیں اور کسی ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان سامنے سے کٹا ہو، یا جس کا کان پیچھے سے کٹا ہو، اور نہ دم کٹے جانور کی، اور نہ ایسے جانور کی جس کے کان میں سوراخ ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ٦ (٢٨٠٤) ، سنن الترمذی/الضحایا ٦(١٤٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الضحایا ٨ (٣١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٢٥) ، مسند احمد (١/٨٠، ١٠٨، ١٢٨، ١٤٩) ، سنن الدارمی/الأضاحی ٣(١٩٩٥) ، ویأتی فیما یلی : ٤٣٧٨-٤٣٨٠ (ضعیف) (اس کے راوی ” ابواسحاق “ مختلط اور مدلس ہیں، نیز ” شریح “ سے ان کا سماع نہیں ہے، اس لیے سند میں انقطاع بھی ہے، مگر مطلق کان ناک دیکھ بھال کرلینے کا حکم صحیح ہے، دیکھئے حدیث نمبر ٤٣٨١، اور حاشیہ نمبر حدیث ٤٣٧٤ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف لکن جملة الاستشراف صحيحة صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4372

【13】

مدابرہ (پیچھے سے کان کٹا جانور) سے متعلق

علی (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے (جانوروں کے) آنکھ اور کان دیکھ لینے کا حکم دیا، اور یہ کہ ہم کسی ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جو کانا ہو، جس کا کان سامنے سے کٹا ہو، یا جس کا کان پیچھے سے کٹا ہو، اور نہ کسی ایسے جانور کی جس کے کان چرے ہوئے ہوں، اور نہ ایسے جانور کی جس کے کان میں سوراخ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4373

【14】

خرقائ (جس کے کان میں سوراخ ہو) سے متعلق

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سامنے اور پیچھے سے کان کٹے ہوئے جانور، اور پھٹے کان والے جانور اور چرے ہوئے کان والے جانور اور ایسے جانور جن کے کان میں سوراخ ہو اور کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی کرنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٧٧ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4374

【15】

جس جانور کے کان چرے ہوئے ہوں اس کا حکم

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سامنے سے اور پیچھے سے کان کٹے ہوئے، اور کان چرے ہوئے اور کان پھٹے ہوئے اور کانے جانوروں کی قربانی نہ کی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٧٧ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4375

【16】

جس جانور کے کان چرے ہوئے ہوں اس کا حکم

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں آنکھ اور کان دیکھ لینے کا حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الضحایا ٩ (١٥٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الضحایا ٨ (٣١٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٤) ، مسند احمد (١/١٠٤) سنن الدارمی/الأضاحی ٣ (١٩٩٤) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4376

【17】

قربانی میں عضباء (یعنی سینگ ٹوٹی ہوئی) سے متعلق

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سینگ ٹوٹے جانور کو ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (راوی قتادہ کہتے ہیں) : میں نے اس کا ذکر سعید بن مسیب سے کیا تو انہوں نے کہا : ہاں، جس جانور کا آدھا سینگ یا اس سے زیادہ ٹوٹا ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ٦(٢٨٠٥) ، سنن الترمذی/الضحایا ٩(١٥٠٤) ، سنن ابن ماجہ/الضحایا ٨(٣١٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٣١) ، مسند احمد (١/٨٣، ١٠١، ١٠٩، ١٢٧، ١٢٩، ١٣٧) (ضعیف) (اس کے راوی ” جری “ لین الحدیث ہیں، لیکن سعید بن المسیب کے قول کی سند صحیح ہے کیونکہ اس میں ” جری “ نہیں ہیں ) وضاحت : ١ ؎: سعید بن مسیب کا قول قتادہ نے نقل کیا ہے اور قتادہ مدلس ہیں لیکن انہوں نے سعید بن المسیب سے اپنی بات نقل کی ہے تو اس طرح حدیث بیان کرنے کی صراحت کردی ہے، اس لیے سعید بن المسیب کے قول کی روایت صحیح ہے اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ سینگ ٹوٹے جانور کی قربانی جائز نہ ہونے کی بات اس جانور کے بارے میں ہے جس کا سینگ آدھے سے زیادہ ٹوٹا ہو، نیز دیکھئیے حاشیہ حدیث نمبر : ٤٣٧٤۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4377

【18】

قربانی میں مسنہ اور جذعہ سے متعلق

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صرف مسنہ ذبح کرو سوائے اس کے کہ اس کی قربانی تم پر گراں اور مشکل ہو تو تم بھیڑ میں سے جذعہ ذبح کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأضاحی ٢ (١٩٦٢) ، سنن ابی داود/الضحایا ٥ (٢٧٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الضحایا ٧ (٣١٤١) ، (تحفة الأشراف : ٢٧١٥) ، مسند احمد (٣/٣١٢، ٣٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مُسِنّہ: وہ جانور ہے جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ چکے ہوں، اور یہ اونٹ میں عموماً اس وقت ہوتا ہے جب وہ پانچ سال پورے کر کے چھٹے میں داخل ہوگیا ہو، اور گائے اور بیل میں اس وقت ہوتا ہے جب وہ دو سال پورے کر کے تیسرے میں داخل ہوگئے ہوں، اور بکری اور بھیڑ میں اس وقت ہوتا ہے جب وہ ایک سال پورا کر کے دوسرے میں داخل ہوجائیں، اور جذعہ اس دنبہ یا بھیڑ کو کہتے ہیں جو سال بھر کا ہوچکا ہو، (محققین اہل لغت اور شارحین حدیث کا یہی صحیح قول ہے، دیکھئیے مرعاۃ شرح مشکاۃ المصابیح) لیکن یہاں مسنہ سے مراد مسن ۃ من المعز (یعنی دانت والی بکری) مراد ہے، کیونکہ اس کے مقابلے میں جذع ۃ من الضان (ایک سال کا دنبا) لایا گیا ہے، یعنی : دانت والی بکری ہی جائز ہے، جس کے سامنے والے دو دانت ٹوٹ چکے ہوں ایک سال کی بکری جائز نہیں، ہاں اگر دانت والی بکری میسر نہ ہو تو ایک سال کا دنبہ جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4378

【19】

قربانی میں مسنہ اور جذعہ سے متعلق

عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آپس میں تقسیم کرنے کے لیے بکریاں دیں، صرف ایک سال کی بکری بچ رہی۔ اس کا ذکر انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کیا۔ تو آپ نے فرمایا : تم اسے ذبح کرلو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ١ (٢٣٠٠) ، الشرکة ١٢ (٢٥٠٠) ، الأضاحی ٧ (٥٥٥٥) ، صحیح مسلم/الأضاحي ١ (١٩٦٥) ، سنن الترمذی/الأضاحي ٧ (١٥٠٠) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٧ (٣١٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٥٥) ، مسند احمد (٤/١٤٩، ١٥٢) ، سنن الدارمی/الأضاحی ٤ (١٩٩٧) ، ویأتی فیما یلی : ٤٣٨٥، ٤٣٨٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عتود ایک سال کی بکری کو کہتے ہیں۔ جذعہ بھی اسی معنی میں ہے، پس اگلی دونوں روایتوں میں جو جذعہ کا لفظ ہے اس کا مطلب ہے جذع ۃ من المعز یعنی بکری کا ایک سالہ بچہ۔ نبی اکرم ﷺ نے عقبہ یا ابوبردہ (رض) کو مجبوری کے تحت ایک سال کی بکری کی اجازت خصوصی طور سے دی تھی ورنہ قربانی میں اصل دانتا ہوا جانور ہی جائز ہے جیسا کہ حدیث نمبر : ٤٢٨٣ میں گزرا۔ ٢ ؎: تم اسے ذبح کرلو یعنی صرف تمہارے لیے جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4379

【20】

قربانی میں مسنہ اور جذعہ سے متعلق

عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان قربانی کے جانور تقسیم کیے، میرے حصے میں ایک جذعہ آیا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے حصے میں تو ایک جذعہ آیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم اسی کی قربانی کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأضاحي ٢ (٥٥٤٧) ، صحیح مسلم/الأضاحي ٢ (١٩٦٥) ، سنن الترمذی/الأضاحي ٧ (١٠٠ م) ، (تحفة الأشراف : ٩٩١٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4380

【21】

قربانی میں مسنہ اور جذعہ سے متعلق

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان قربانی کے جانور تقسیم کیے، تو مجھے ایک جذعہ ملا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے تو ایک جذعہ ملا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم اسی کی قربانی کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4381

【22】

قربانی میں مسنہ اور جذعہ سے متعلق

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جذعہ یعنی ایک سال کی بھیڑ کی قربانی کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٩٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اولاً تو اس کے راوی معاذ بن عبداللہ بذات خود صدوق ہونے کے باوجود روایت میں وہم کا شکار ہوجایا کرتے تھے، تو ممکن ہے کہ جذع ۃ من المعز یا صرف جذع ۃ ہو اور انہوں نے وہم سے جذع ۃ من الضان کردیا ہو، ثانیاً : ہوسکتا ہے کہ یہ مجبوری کی صورت میں ہو، بہرحال بعض علماء اس حدیث اور اگلی دونوں حدیثوں سے استدلال کرتے ہوئے بغیر مجبوری کے بھی ایک سالہ دنبہ کی قربانی کو جائز قرار دیتے ہیں اور مسنہ والی حدیث کو استحباب پر محمول کرتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4382

【23】

قربانی میں مسنہ اور جذعہ سے متعلق

کلیب کہتے ہیں کہ ہم سفر میں تھے کہ عید الاضحی کا وقت آگیا، تو ہم میں سے کوئی دو دو یا تین تین جذعوں (ایک سالہ بھیڑوں) کے بدلے ایک مسنہ خریدنے لگا، تو مزینہ کے ایک شخص نے ہم سے کہا : ہم لوگ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ یہی دن آگیا (یعنی عید الاضحی) تو ہم میں سے کوئی دو یا تین جذعے دے کر مسنہ خریدنے لگا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جذعہ سے بھی وہی حق ادا ہوسکتا ہے جو ثنی یعنی مسنہ سے ہوتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٦٦٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأضاحی ٥ (٢٧٩٩) ، سنن ابن ماجہ/الضحایا ٧ (٣١٤٠) ، مسند احمد (٥/٣٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک تو بقول ابن المدینی عاصم بن کلیب جب روایت میں منفرد ہوں تو ان کی روایت سے استدلال جائز نہیں، دوسرے : ممکن ہے کہ الجذع سے مراد الجذع من الضان بھیڑ کا ایک سالہ بچہ ہو، بکری کا نہیں، تاکہ حدیث نمبر ٤٣٨٣ سے مطابقت ہو سکے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4383

【24】

قربانی میں مسنہ اور جذعہ سے متعلق

کلیب ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا : ہم عید الاضحی سے دو دن پہلے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، ہم دو جذعے دے کر ثنیہ یعنی مسنہ لے رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جذعہ بھی اس کام کے لیے کافی ہے جس کے لیے ثنیہ یعنی مسنہ کافی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4384

【25】

مینڈھے سے متعلق احادیث

انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کرتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ بطور استحباب ہے (ورنہ ایک جانور ایک گھر کی طرف سے کافی ہے) آپ ﷺ تو کبھی سو سو اونٹ ذبح کردیا کرتے تھے، تو اس سے وجوب پر کسی نے استدلال نہیں کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4385

【26】

مینڈھے سے متعلق احادیث

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چتکبرے یعنی سفید اور کالا یا کالا اور لال رنگ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4386

【27】

مینڈھے سے متعلق احادیث

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دو چتکبرے مینڈھوں کی جن کے سینگ برابر تھے قربانی کی، انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور بسم اللہ واللہ اکبر کہا اور اپنا (دایاں) پاؤں ان کی گردن کے پہلو پر رکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأضاحي ١٤ (٥٥٦٥) ، صحیح مسلم/الأضاحی ٣ (١٩٦٦) ، سنن الترمذی/الأضاحي ٢ (١٤٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٧) ، مسند احمد (٣/٩٩، ١١٥، ١٧٠، ١٧٨، ١٨٩، ٢١١، ٢١٤، ٢٢٢، ٢٥٥، ٢٥٨، ٢٦٧، ٢٧٢، ٢٧٩، ٢٨١) ، سنن الدارمی/الأضاحی ١ (١٩٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جانور کو قبلہ رخ لٹا کر اس کی گردن کے دائیں پہلو پر ذبح کرنے والا اپنا دایاں پاؤں رکھے گا اس سے جانور پر مکمل قابو حاصل ہوجاتا ہے، اور جانور زیادہ حرکت نہیں کر پاتا جو اسی کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4387

【28】

مینڈھے سے متعلق احادیث

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے عید الاضحی کے دن خطبہ دیا اور دو چتکبرے مینڈھوں کے پاس آئے پھر انہیں ذبح کیا (مختصر) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4388

【29】

مینڈھے سے متعلق احادیث

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ پھر آپ (گویا کہ ان کی مراد رسول اللہ ﷺ ہیں) قربانی کے دن (نماز عید کے بعد) دو چتکبرے مینڈھوں کی طرف مڑے، انہیں ذبح کیا، اور بکری کے ایک ریوڑ کی طرف گئے اور انہیں ہمارے درمیان تقسیم کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/القسامة (الحدود) ٩ (١٦٧٩) ، سنن الترمذی/الأضاحی ٢١(١٥٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4389

【30】

مینڈھے سے متعلق احادیث

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سینگ والے موٹے دنبہ کی قربانی کی جو چلتا تھا سیاہی میں کھاتا تھا سیاہی میں اور دیکھتا تھا سیاہی میں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأضاحی ٤(٢٧٩٦) ، سنن الترمذی/الضحایا ٤(١٤٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الضحایا ٤(٣١٢٨) (تحفة الأشراف : ٤٢٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کا پاؤں، اس منہ اور اس کی آنکھیں سب سیاہ (کالے) تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4390

【31】

اونٹ میں کتنے افراد کی جانب سے قربانی کافی ہے؟

رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مال غنیمت کی تقسیم کے وقت دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھتے تھے۔ شعبہ کہتے ہیں : مجھے غالب یقین یہی ہے کہ میں نے اسے سعید بن مسروق (سفیان ثوری کے والد) سے سنا ہے اور اسے مجھ سے سفیان نے ان سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا، واللہ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٠٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4391

【32】

اونٹ میں کتنے افراد کی جانب سے قربانی کافی ہے؟

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ قربانی کا دن آگیا، ہم ایک اونٹ میں دس دس لوگ اور ایک گائے میں سات سات لوگ شریک ہوئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٦٦(٩٠٥) ، والأضاحی ٨(١٥٠١) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحی ٥(٣١٣١) ، مسند احمد ١/٢٧٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کچھ علماء قربانی میں اونٹ میں دس آدمیوں کی شرکت کو جائز قرار دیتے ہیں، جب کہ جمہور علماء صحیح مسلم میں مروی جابر (رض) کی حدیث (حج ٦١ ، ٦٢ ) کی بنیاد پر اونٹ میں بھی صرف سات آدمیوں کی شرکت کے قائل ہیں، حالانکہ دونوں (جابر و ابن عباس رضی اللہ عنہم کی) حدیثوں کا محمل اور مصداق الگ الگ ہے، ابن عباس (رض) کی حدیث قربانی میں شرکت کے سلسلے میں ہے جب کہ جابر (رض) کی حدیث ہدی (حج کی قربانی) سے متعلق ہے، دونوں (قربانی و ہدی) کو ایک دوسرے پر قیاس کرنے کی وجہ سے علماء میں مذکورہ اختلاف واقع ہوا ہے، دونوں حدیثوں میں تطبیق کی یہی صورت ہے کہ دونوں کا محل الگ الگ ہے، (یعنی قربانی میں اونٹ دس کی طرف سے کافی ہے اور ہدی میں صرف سات کی طرف سے) علامہ شوکانی نے یہی بات لکھی ہے (کمافی نیل الا ٔوطار) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4392

【33】

گائے کی قربانی کس قدر افراد کی جانب سے کافی ہے؟

جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (حج) تمتع کر رہے تھے تو ہم سات لوگوں کی طرف سے ایک گائے ذبح کرتے اور اس میں شریک ہوتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٢(١٣١٨) ، سنن ابی داود/الأضاحی ٧(٢٨٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٣٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٦٦ (٩٠٤) ، موطا امام مالک/الضحایا ٥ (٩) ، مسند احمد (٣/٣١٨) ، سنن الدارمی/الأضاحی ٥ ١٩٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4393

【34】

امام سے قبل قربانی کرنا

براء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید الاضحی کے دن کھڑے ہو کر فرمایا : جس نے ہمارے قبلے کی طرف رخ کیا، ہماری جیسی نماز پڑھی اور قربانی کی تو وہ جب تک نماز نہ پڑھ لے ذبح نہ کرے۔ یہ سن کر میرے ماموں کھڑے ہوئے اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے قربانی میں جلدی کردی تاکہ میں اپنے بال بچوں اور گھر والوں - یا اپنے گھر والوں اور پڑوسیوں - کو کھلا سکوں، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دوبارہ قربانی کرو ، انہوں نے عرض کیا : میرے پاس بکری کا ایک چھوٹا بچہ ٢ ؎ ہے جو مجھے گوشت والی دو بکریوں سے زیادہ عزیز ہے، آپ نے فرمایا : تم اسی کو ذبح کرو، یہ ان دو کی قربانی سے بہتر ہے، لیکن تمہارے بعد جذعے کی قربانی کسی کی طرف سے کافی نہیں ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٦٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : امام سے پہلے یعنی عید الاضحی کی نماز سے پہلے قربانی کا کیا حکم ہے ؟ ٢ ؎: عناق لبن سے مراد وہ بکری جو ابھی ایک سال کی نہیں ہوئی ہو، اور حدیث نمبر ٤٣٨٤ میں اسی تناظر میں عتود کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی ہیں بکری کا وہ بچہ جو ایک سال ہوچکا ہو مگر دانتا ہوا نہ ہو، اور دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ دونوں قسم کے جانوروں کی قربانی کی اجازت صرف مذکورہ دونوں صحابہ کے لیے دی گئی، اور عام حالات میں عام مسلمانوں کے لیے صرف دانتا جانور ہی جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4394

【35】

امام سے قبل قربانی کرنا

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ قربانی کے دن رسول اللہ ﷺ نے نماز عید کے بعد ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : جس نے ہماری جیسی نماز پڑھی اور ہماری جیسی قربانی کی تو اس نے قربانی کی اور جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کی تو وہ گوشت کی بکری ہے ١ ؎ یہ سن کر ابوبردہ (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ! میں نماز کے لیے نکلنے سے پہلے ہی قربانی کرچکا ہوں، دراصل میں نے سمجھا کہ آج کا دن کھانے پینے کا دن ہے، تو میں نے جلدی کی اور کھایا اور اپنے بال بچوں نیز پڑوسیوں کو کھلایا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ تو گوشت کی بکری ہے ۔ وہ بولے : میرے پاس بکری کا ایک چھوٹا بچہ ہے جو گوشت کی ان دو بکریوں سے بہتر ہے، کیا وہ میرے لیے کافی ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، لیکن تمہارے بعد یہ کسی کے لیے کافی نہیں ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٦٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کے لیے قربانی کا ثواب نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4395

【36】

امام سے قبل قربانی کرنا

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے دن فرمایا : جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا ہے، اسے چاہیئے کہ پھر سے قربانی کرے ، ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ ایسا دن ہے کہ جس میں ہر ایک کی گوشت کی خواہش ہوتی ہے، اور پھر انہوں نے پڑوسیوں کا حال بیان کیا، گویا رسول اللہ ﷺ نے ان کی تصدیق فرمائی۔ انہوں نے کہا : میرے پاس بکری کا ایک چھوٹا بچہ ہے جو مجھے گوشت والی دو بکریوں سے زیادہ ہے، تو انہیں اس کی رخصت دی گئی، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ یہ رخصت دوسروں کے لیے ہے یا نہیں ؟ اس کے بعد آپ ﷺ دو مینڈھوں کی طرف گئے اور انہیں ذبح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4396

【37】

امام سے قبل قربانی کرنا

ابوبردہ بن نیار (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے پہلے ذبح کیا تو آپ ﷺ نے انہیں دوبارہ ذبح کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے عرض کیا : میرے پاس ایک سالہ بکری کا بچہ ہے جو مجھے دو مسنہ سے زیادہ پسند ہے، آپ نے فرمایا : اسی کو ذبح کر دو ۔ عبیداللہ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے کہا : میرے پاس ایک جذعہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے تو آپ نے انہیں اسی کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٧٢٢) ، موطا امام مالک/الضحایا ٣ (٤) ، مسند احمد (٣/٤٦٦ و ٤/٤٥) ، سنن الدارمی/الأضاحی ٧ (٢٠٠٦) (صحیح الإسناد) (یہ حدیث براء رضی الله عنہ سے متفق علیہ ثابت ہے، خود مؤلف کے یہاں ١٥٦٤ اور ٤٤٠٠ پر گزری ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4397

【38】

امام سے قبل قربانی کرنا

جندب بن سفیان (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک دن کچھ قربانیاں کیں، تو ہم نے دیکھا کہ لوگ نماز عید سے پہلے ہی اپنے جانور ذبح کرچکے ہیں، جب آپ فارغ ہو کر لوٹے تو انہیں دیکھا کہ وہ نماز عید سے پہلے ہی ذبح کرچکے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز عید سے پہلے ذبح کیا تو اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا یہاں تک کہ ہم نے نماز عید پڑھ لی تو وہ اللہ کے نام پر ذبح کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٧٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4398

【39】

دھار دار پتھر سے ذبح کرنا

محمد بن صفوان (رض) سے روایت ہے کہ انہیں دو خرگوش ملے انہیں کوئی لوہا نہ ملا جس سے وہ انہیں ذبح کرتے تو انہیں پتھر سے ذبح کردیا، پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور کہا : اللہ کے رسول ! میں نے دو خرگوش شکار کئے مجھے کوئی لوہا نہ مل سکا جس سے میں انہیں ذبح کرتا تو میں نے ان کو ایک تیز دھار والے پتھر سے ذبح کردیا، کیا میں انہیں کھاؤں ؟ آپ نے فرمایا : کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4399

【40】

دھار دار پتھر سے ذبح کرنا

زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ بھیڑیئے نے ایک بکری کے جسم میں دانت گاڑ دیے لوگوں نے اسے پتھر سے ذبح کیا تو نبی اکرم ﷺ نے اسے کھانے کی اجازت دے دی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الذبائح ٥ (٣١٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٧١٨) ، مسند احمد (٥/١٨٣) ویأتی عند المؤلف برقم ٤٤١٢(صحیح) (اس کے راوی ” حاضر “ لین الحدیث ہیں، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4400

【41】

تیز لکڑی سے ذبح کرنا

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں اپنا کتا چھوڑتا، اور شکار کو پا لیتا ہوں، میں پھر کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس سے میں ذبح کروں تو کیا میں دھاردار پتھر اور لکڑی سے ذبح کرسکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : جس چیز سے چاہو خون بہاؤ اور اس پر اللہ کا نام لو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٠٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4401

【42】

تیز لکڑی سے ذبح کرنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص کی ایک اونٹنی تھی، جو احد پہاڑ کی طرف چرتی تھی، اسے عارضہ لاحق ہوگیا، تو اس نے اسے کھونٹی سے ذبح کردیا۔ میں نے زید بن اسلم سے کہا : لکڑی کی کھونٹی یا لوہے کی ؟ کہا : لوہا نہیں، بلکہ لکڑی کی کھونٹی سے، پھر اس انصاری نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر آپ سے پوچھا تو آپ نے اسے کھانے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٤١٨٤) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4402

【43】

ناخن سے ذبح کرنے کی ممانعت

رافع بن خدیج (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس چیز سے (جانور کا) خون بہہ جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ، سوائے اس کے جو دانت اور ناخن سے ذبح کیا گیا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٠٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4403

【44】

دانت سے ذبح کرنے کی ممانعت

رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم کل دشمنوں سے ملیں گے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں، تو آپ نے فرمایا : جس چیز سے (جانور کا) خون بہہ جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو) تو اسے کھاؤ، جب تک کہ وہ آلہ دانت یا ناخن نہ ہو، اور جلد ہی تمہیں اس سلسلے میں بتاؤں گا، رہا دانت تو وہ ہڈی ہے اور رہا ناخن تو وہ حبشہ والوں کی چھری ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4404

【45】

چاقو چھری تیز کرنے سے متعلق

شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو باتیں یاد کی ہیں، آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تم پر ہر چیز میں احسان (اچھا سلوک کرنا) فرض کیا ہے، تو جب تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو، اور جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، اور تم میں سے ہر ایک کو چاہیئے کہ اپنی چھری تیز کرلے اور اپنے جانور کو آرام پہنچائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید ١١ (١٩٥٥) ، سنن ابی داود/الأضاحی ١٢ (٢٨١٥) ، سنن الترمذی/الدیات ١٤(١٤٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ٣ (٣١٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٨١٧) ، مسند احمد (٤/١٢٣، ١٢٤، ١٢٥) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٤٤١٦- ٤٤١٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے اسلام میں کسی بھی جاندار کے ساتھ احسان (اچھا برتاؤ کرنے) کا ثبوت ملتا ہے، پس جو مذہب جانوروں کے ساتھ ذبح کی حالت میں بھی احسان کا داعی ہے وہ انسانی جانوں کے ساتھ کیسے سلوک کا حکم دے گا واضح ہے۔ سبق لیں اسلام پر تشدد کا الزام لگانے والے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4405

【46】

اگر اونٹ کو بجائے نحر کے ذبح کریں اور دوسرے جانوروں کو بجائے ذبح کے نحر کریں تو حرج نہیں

اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک گھوڑا ذبح کیا پھر ہم نے اسے کھایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٢٤(٥٥١٠) ، ٢٧(٥٥١٩) ، صحیح مسلم/الصید ٦(١٩٤٢) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١٢(٣١٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤٦) ، مسند احمد (٦/٣٤٥، ٣٤٦، ٣٥٣) ، سنن الدارمی/الأضاحی ٢٢ (٢٠٣٥) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٤٤٢٥، ٤٤٢٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گھوڑا نحر کیے جانے والے جانوروں میں سے نہیں ہے پھر بھی آپ کے سامنے نحر کیا گیا، اس سے ذبح کیے جانے والے جانورں کو نحر کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے، تو اس کے برعکس سے جائز ہوگا یعنی ذبح کئے جانے والے جانورں کو نحر بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ صرف جواز کی صورت ہے، زیادہ اچھا یہی ہے کہ نحر کئے جانے والے جانورں کو پہلے نحر ہی کیا جائے، اور پھر ذبح کیا جائے اور ذبح کئے جانے والے جانوروں کو ذبح کرنا ہی افضل ہے، (ذبح کئے جانے والے جانور جیسے : بکری، دنبہ، بھیڑ، مینڈھا، مرغی، اور نحر کئے جانے والے جانور جیسے : گائے، بیل، گھوڑا اور اونٹ) نحر میں پہلے دھاردار ہتھیار سے جانور کے سینے کے اوپری حصہ کے سوراخ میں مارا جاتا ہے، جب سارا خون نکل کر جانور ساکت ہوجاتا ہے تب گرا کر ذبح کیا جاتا ہے، نحر کے ذریعہ بڑے جانور پر آسانی سے قابو پا لیا جاتا ہے اس لیے ان کے حق میں نحر مشروع ہوا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4406

【47】

جس جانور میں درندہ دانت مارے اس کا ذبح کرنا

زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ ایک بھیڑیئے نے ایک بکری میں دانت گاڑ دئیے، لوگوں نے اسے دھاردار پتھر سے ذبح کیا، تو نبی اکرم ﷺ نے اسے کھانے کی اجازت دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٤٠٥ (صحیح) (اس کے راوی ” حاضر بن مہاجر “ لین الحدیث ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4407

【48】

اگر جانور کنوئیں میں گر جائے اور وہ مر نے کے قریب ہوجائے تو اس کو کس طرح حلال کریں؟

ابو العشراء کے والد (مالک دارمی رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ذبح ذکا ۃ صرف حلق اور سینے میں ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : اگر تم اس کی ران میں بھی کونچ دو تو کافی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأضاحی ١٦(٢٨٢٥) ، سنن الترمذی/الصید ١٣(١٤٨١) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ٩(٣٨١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٩٤) ، مسند احمد (٤/٣٣٤) ، سنن الدارمی/الأضاحی ١٢ (٢٠١٥) (ضعیف) (اس کے راوی ” ابوالعشراء “ مجہول ہیں، لیکن حدیث نمبر ٤٣٠٢ سے اس کے معنی کی تائید ہو رہی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4408

【49】

بے قابو ہوجانے والے جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ

رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم کل دشمن سے ملیں گے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں، آپ نے فرمایا : دانت اور ناخن کے علاوہ جس کسی آلہ سے (جانور کا) خون بہہ جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ، پھر رسول اللہ ﷺ کو کچھ اونٹ اور غنیمت کا مال ملا، ان میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ گیا، ایک شخص نے اسے تیر مارا، جس سے وہ رک گیا، آپ نے فرمایا : ان جانوروں میں، یا یوں فرمایا : ان اونٹوں میں، جنگل کے وحشی جانوروں کی طرح بعض بدکنے والے ہوتے ہیں تو جو تم کو ان میں سے کوئی (پکڑنے میں) تھکا دے، تو اس کے ساتھ اسی طرح کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٠٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4409

【50】

بے قابو ہوجانے والے جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ

رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ کل دشمن سے ملیں گے، اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں، آپ نے فرمایا : جس آلہ سے خون بہہ جائے اور وہ دانت ناخن نہ ہو اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ، اور جلد ہی میں تمہیں اس کا سبب بتاتا ہوں، رہا دانت تو وہ ہڈی ہے اور رہا ناخن تو وہ حبشہ والوں کی چھری ہے ، پھر مال غنیمت میں ہمیں کچھ بکریاں یا اونٹ ملے، ان میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ گیا، ایک شخص نے ایک تیر اسے مارا جس سے وہ رک گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان اونٹوں میں کچھ جنگلی وحشیوں کی طرح بدکنے والے ہیں، لہٰذا جب تم کو ان میں سے کوئی تھکا دے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٠٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4410

【51】

بے قابو ہوجانے والے جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ

شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان (اچھا سلوک کرنا) فرض کیا ہے، لہٰذا جب تم قتل کرو تو اچھی طرح کرو اور جب ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو اور جب تم ذبح کرو تو اپنی چھری کو تیز کرلیا کرو اور ذبیحہ کو (ذبح کرتے وقت) آرام پہنچاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٤١٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4411

【52】

عمدہ طریقہ سے ذبح کرنا

شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے احسان (اچھے سلوک اور برتاؤ) کو ہر چیز میں فرض کیا ہے، لہٰذا جب تم قتل کرو تو اچھی طرح کرو، اور جب ذبح کرو تو اچھی طرح کرو، اور تم اپنی چھریاں تیز کرلیا کرو اور جانور کو (ذبح کرتے وقت) آرام پہنچاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٤١٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4412

【53】

عمدہ طریقہ سے ذبح کرنا

شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے سن کر دو باتیں یاد رکھیں ہیں، آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان (اچھے سلوک اور برتاؤ) فرض کیا ہے، لہٰذا جب تم قتل کرو تو اچھی طرح کرو، اور جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح کرو اور تم اپنی چھریاں تیز کرلو تاکہ تم اپنے جانور کو آرام دے سکو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٤١٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4413

【54】

عمدہ طریقہ سے ذبح کرنا

شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ دو چیزیں ہیں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر یاد کی ہیں : اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان (اچھے سلوک اور برتاؤ) کو فرض کیا ہے، لہٰذا جب تم قتل کرو تو اچھی طرح کرو، اور جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح کرو۔ تم اپنی چھریاں تیز کرلو اور جانور کو آرام دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٤١٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4414

【55】

قربانی کا جانور ذبح کرنے کے وقت اس کے پہلو پر پاؤں رکھنا

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سینگ دار دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی، آپ اللہ اکبر اور بسم اللہ پڑھ رہے تھے، میں نے دیکھا کہ آپ انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کر رہے ہیں اور اپنا پاؤں ان (کی گردن) کے پہلو پر رکھے ہوئے ہیں۔ (شعبہ کہتے ہیں) میں قتادہ نے عرض کیا : کیا آپ نے اسے انس سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأضاحي ٩ (٥٥٥٨) ، صحیح مسلم/الأضاحي ٣ (١٩٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ١ (٣١٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠) ، مسند احمد (٣/٩٩، ١١٥، ١١٨، ١٨٣، ٢٢٢، ٢٥٥، ٢٧٢، ٢٧٨، سنن الدارمی/الأضاحي ١ (١٩٨٨) ، ویأتي عند المؤلف ٤٤٢١، ٤٤٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4415

【56】

قربانی ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنے کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دو چتکبرے سینگ دار مینڈھے ذبح کرتے اور آپ بسم اللہ پڑھتے اور تکبیر بلند کرتے ١ ؎، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھ سے انہیں ذبح کر رہے ہیں اور آپ کا پیر ان (کی گردن) کے پہلو پر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٤٢٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بسم اللہ، اللہ اکبر کہتے تھے، بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں کہتے تھے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4416

【57】

قربانی ذبح کرنے کے وقت اللہ اکبر کہنے سے متعلق

انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو یعنی نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھ سے دو سینگ دار اور چتکبرے مینڈھے ذبح کر رہے ہیں، اور آپ کا پیر ان (کی گردن) کے پہلو پر ہے۔ آپ (ذبح کرتے ہوئے) بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ رہے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٤٢٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4417

【58】

اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے سے متعلق

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دو مینڈھوں کی قربانی کی جو سینگ دار اور چتکبرے تھے۔ آپ ان (کی گردن) کے پہلو پر قدم رکھ کر انہیں ذبح کر رہے تھے اور بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأضاحي ٣ (١٩٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: زیادہ بہتر یہی ہے کہ اپنی قربانی خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے، لیکن جائز یہ بھی ہے کہ دوسرے سے کروائے، جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4418

【59】

ایک شخص دوسرے کی قربانی ذبح کرسکتا ہے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اپنی بعض اونٹنیوں کو نحر کیا اور بعض کو دوسروں نے نحر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٦٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4419

【60】

جس جانور کو ذبح کرنا چاہے تو اس کو نحر کرے تو درست ہے

اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک گھوڑا نحر کیا اور اسے کھایا۔ قتیبہ نے (فاکلناہ کے بجائے) فاکلنا لحمہ پھر ہم نے اس کا گوشت کھایا کہا۔ عبدہ بن سلیمان نے سفیان کی مخالفت کی ہے اور اسے یوں روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٤١١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4420

【61】

جس جانور کو ذبح کرنا چاہے تو اس کو نحر کرے تو درست ہے

اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک گھوڑا ذبح کیا، ہم مدینے میں تھے پھر ہم نے اسے کھایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٤١١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نحرنا کی جگہ ذبحنا ہے، اور ہشام کے اکثر شاگردوں کی روایت نحرنا ہی کی ہے، صرف عبدہ کی روایت میں ذبحنا ہے اسی اختلاف الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے مؤلف نے یہ باب باندھا ہے بہرحال نحر و ذبح دونوں جائز ہیں، مقصد خون بہانا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4421

【62】

جو شخص ذبح کرے علاوہ خداوند قدوس کے کسی دوسرے کے واسطے

عامر بن واثلہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے علی (رض) سے سوال کیا : کیا رسول اللہ ﷺ لوگوں کو چھوڑ کر آپ کو کوئی راز کی بات بتاتے تھے ؟ اس پر علی (رض) غصہ ہوگئے یہاں تک کہ ان کا چہرہ لال پیلا ہوگیا اور کہا : آپ لوگوں کو چھوڑ کر مجھے کوئی بات راز کی نہیں بتاتے تھے، سوائے اس کے کہ آپ نے مجھے چار باتیں بتائیں، میں اور آپ ایک گھر میں تھے، آپ نے فرمایا : اللہ اس پر لعنت کرے جس نے اپنے والد (ماں یا باپ) پر لعنت کی، اللہ اس پر بھی لعنت کرے جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا، اللہ اس پر لعنت کرے جس نے کسی بدعتی کو پناہ دی ١ ؎، اور اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے جس نے زمین کی حد کے نشانات بدل ڈالے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأضاحي ٨ (١٩٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٥٢) مسند احمد (١/١٠٨، ١١٨، ١٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کی تائید و حمایت کی اور بدعت سے خوش ہوا۔ ٢ ؎: مثلاً دو آدمیوں کی زمین کو الگ کرنے والے نشانات بدلے، اور اس سے مقصد دوسری کی زمین میں سے کچھ ہتھیا لینا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4422

【63】

تین روز سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانا اور رکھ چھوڑنا ممنوع ہے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے روکا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأضاحی ٥ (١٩٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٤٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأضاحی ١٦ (٥٥٧٤) ، سنن الترمذی/الأضاحی ١٣ (١٥٠٩) ، مسند احمد (٢/٩، ١٦، ٣٤، ٨١، ١٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ پابندی شروع شروع میں تھی، پھر گوشت رکھنے کی اجازت دے دی گئی، جیسا کہ اگلے باب میں ہے، یہ حالات و ظروف کے لحاظ سے ہے، اگر لوگوں کو گوشت کی زیادہ حاجت ہے تو ذخیرہ اندوزی صحیح نہیں، بصورت دیگر صحیح ہے۔ (دیکھئیے حدیث نمبر ٤٤٣٤ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4423

【64】

تین روز سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانا اور رکھ چھوڑنا ممنوع ہے

عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کے غلام ابو عبید کہتے ہیں کہ میں نے علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کو عید کے دن دیکھا، انہوں نے خطبے سے پہلے نماز شروع کی اور بلا اذان اور بلا اقامت پڑھی، پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو منع فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی تین دن سے زیادہ اپنی قربانی میں سے کوئی چیز روکے رکھے، (یعنی اسے چاہیئے کہ بانٹ دے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٣٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأضاحی ١٦ (٥٥٧٣) ، صحیح مسلم/الضحایا ٥ (١٩٦٩) ، مسند احمد (٣/٣١٧، ٣٧٨، ٣٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4424

【65】

تین روز سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانا اور رکھ چھوڑنا ممنوع ہے

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہیں منع فرمایا ہے کہ تم تین دن سے زیادہ اپنی قربانی کا گوشت کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4425

【66】

تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنا اور اس کو کھانا

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرمایا، پھر فرمایا : کھاؤ، توشہ (زاد سفر) بناؤ اور ذخیرہ کر کے رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأضاحی ٥ (١٩٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٣٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١٢٤ (١٧١٩) ، موطا امام مالک/الضحایا ٤ (٦) ، مسند احمد (٣/٣٢٥، ٣٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4426

【67】

تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنا اور اس کو کھانا

عبداللہ بن خباب سے روایت ہے کہ ابو سعید خدری (رض) ایک سفر سے آئے تو ان کے گھر والوں نے انہیں قربانی کے گوشت میں سے کچھ پیش کیا، انہوں نے کہا : میں اسے نہیں کھا سکتا جب تک کہ معلوم نہ کرلوں، چناچہ وہ اپنے اخیافی بھائی قتادہ بن نعمان کے پاس گئے (وہ بدری صحابی تھے) اور ان سے اس بارے میں پوچھا ؟ انہوں نے کہا : تمہارے بعد نیا حکم ہوا جس سے تین دن بعد قربانی کا گوشت کھانے پر سے پابندی ہٹ گئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازی ١٢ (٣٩٩٧) ، الأضاحی ١٦(٥٥٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٧٢) ، موطا امام مالک/الضحایا ٤ (٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اخیافی بھائی وہ بھائی، بہن جن کی ماں ایک ہو اور باپ الگ الگ ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4427

【68】

تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنا اور اس کو کھانا

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے روکا ہے، پھر قتادہ (رض) ابو سعید خدری (رض) کے پاس آئے اور وہ ابو سعید خدری (رض) کے اخیافی بھائی اور بدری صحابی تھے، ابوسعید نے قتادہ کو (گوشت) پیش کیا، تو وہ بولے : کیا اس سے رسول اللہ ﷺ نے روکا نہیں ہے ؟ ابوسعید (رض) نے کہا : اس سلسلہ میں ایک نیا حکم آیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں تین دن سے زیادہ اسے کھانے سے روکا تھا، پھر ہمیں اسے کھانے اور ذخیرہ کرنے کی رخصت دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (شاذ) (اس سے پہلے والی حدیث جو صحیح بخاری میں بھی ہے) میں کھانے سے رکنے سے والے ابوسعید خدری رضی الله عنہ ہیں اور اجازت کی روایت کرنے والے قتادہ رضی الله عنہ ہیں اور اس حدیث میں کھانے سے رکنے والے قتادہ ہیں اور اجازت کی روایت کرنے والے ابوسعید خدری رضی الله عنہ ہیں، جو صحیح بخاری میں ہے وہی زیادہ صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4428

【69】

تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنا اور اس کو کھانا

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تم لوگوں کو تین چیزوں سے روکا تھا : قبروں کی زیارت کرنے سے، اب ان کی زیارت کرو، اس زیارت سے تم میں خیر و بھلائی بڑھنی چاہیئے، میں نے تمہیں تین دن بعد قربانی کا گوشت کھانے سے روکا تھا، لیکن اب کھاؤ اور جتنا چاہو روک کر رکھو، میں نے تمہیں کچھ برتنوں میں پینے سے روکا تھا لیکن اب جس برتن میں چاہو پیو، لیکن کوئی نشہ لانے والی چیز نہ پیو۔ محمد بن معدان کی روایت میں امسکوا روک کر رکھنے کا ذکر نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠٣٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4429

【70】

تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنا اور اس کو کھانا

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہیں تین دن بعد قربانی کا گوشت کھانے سے، مشکیزے کے علاوہ کسی برتن میں نبیذ بنانے سے اور قبروں کی زیارت کرنے سے روکا تھا۔ لیکن اب تم جب تک چاہو قربانی کا گوشت کھاؤ اور سفر کے لیے توشہ بناؤ اور ذخیرہ کرو، اور جو قبروں کی زیارت کرنا چاہے (تو کرے) اس لیے کہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہے اور ہر مشروب پیو لیکن نشہ لانے والی چیز سے بچو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٩٧٦) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٦٥٤) (صحیح) (اس کے راوی ” ابواسحاق “ مدلس اور مختلط ہیں، لیکن پچھلی سند سے تقویف پا کر صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4430

【71】

قربانیوں کے گوشت کو ذخیرہ بنانا

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اعرابیوں (دیہاتیوں) کی ایک جماعت عید الاضحی کے دن مدینے آئی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کھاؤ اور تین دن تک ذخیرہ کر کے رکھو ، اس کے بعد لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! لوگ اپنی قربانی سے فائدہ اٹھاتے تھے، ان کی چربی اٹھا کر رکھ لیتے اور ان کی کھالوں سے مشکیں بناتے تھے۔ آپ نے فرمایا : تو اب کیا ہوا ؟ وہ بولا : جو آپ نے قربانی کے گوشت جمع کر کے رکھنے سے روک دیا، آپ نے فرمایا : میں نے تو صرف اس جماعت کی وجہ سے روکا تھا جو مدینے آئی تھی، کھاؤ، ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأضاحی ٥ (١٩٧١) ، سنن ابی داود/الضحایا ١٠ (٢٨١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٠١) ، موطا امام مالک/الضحایا ٤ (٧) ، مسند احمد (٦/٥١) ، سنن الدارمی/الأضاحی ٦ (٢٠٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4431

【72】

قربانیوں کے گوشت کو ذخیرہ بنانا

عابس کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جا کر عرض کیا : کیا رسول اللہ ﷺ تین دن بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرماتے تھے ؟ بولیں : ہاں، لوگ سخت محتاج اور ضروت مند تھے، رسول اللہ ﷺ نے چاہا کہ مالدار لوگ غریبوں کو کھلائیں، پھر بولیں : میں نے آل محمد (گھر والوں) کو دیکھا کہ وہ لوگ پائے پندرہ دن بعد کھاتے تھے، میں نے کہا : یہ کس وجہ سے ؟ وہ ہنسیں اور بولیں : محمد ﷺ کے گھر والوں نے کبھی بھی تین دن تک سالن روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ ﷺ اللہ عزوجل کے پاس تشریف لے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٢٧ (٥٤٢٣) ، ٣٧ (٥٤٣٨) ، الأضاحی ١٦ (٥٥٧٠) ، صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٧٠) ، سنن الترمذی/الأضاحی ١٤ (١٥١١) ، سنن ابن ماجہ/الضحایا ١٦ (١٥١١) ، الأطعمة ٣٠ (٣١٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٦٥) ، مسند احمد (٦/١٠٢، ١٢٧، ١٣٦، ١٨٧، ٢٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4432

【73】

قربانیوں کے گوشت کو ذخیرہ بنانا

عابس کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے قربانی کے گوشت کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے لیے ایک ایک مہینے تک قربانی کے پائے رکھ چھوڑتے، پھر آپ اسے کھاتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4433

【74】

قربانیوں کے گوشت کو ذخیرہ بنانا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت اٹھا کر رکھنے سے منع فرمایا پھر فرمایا : کھاؤ اور لوگوں کو کھلاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٤٢٩٥) ، مسند احمد (٣/٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4434

【75】

یہود کے ذبح کئے ہوئے جانور

عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے دن چربی کی ایک مشک لٹکی ہوئی ہاتھ آئی، میں اس سے لپٹ گیا، میں نے کہا : اس میں سے میں کسی کو کچھ نہیں دوں گا، پھر میں مڑا تو دیکھا رسول اللہ ﷺ مسکرا رہے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ٢٠ (٣١٥٣) ، المغازي ٣٨ (٤٢١٤) ، الصید ٢٢ (٥٥٠٨) ، صحیح مسلم/الجہاد ٢٥ (١٧٧٢) ، سنن ابی داود/الجھاد ١٣٧ (٢٧٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٥٦) ، مسند احمد (٤/٨٦ و ٥/٥٥، ٥٦) ، سنن الدارمی/السیر ٥٧(٢٥٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ ﷺ نے ان کو اس چربی کو لینے سے منع نہیں کیا، حالانکہ وہ یہودیوں کے ذبیحہ سے نکلی ہوئی تھی، جس سے ثابت ہوا کہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) کا ذبیحہ جائز ہے، (سورۃ المائدہ آیت : ٥ ، میں بھی اس کی صراحت ہے) مگر شرط یہ ہے کہ ذبح اسلامی طریقہ پر کیا گیا ہو، ان کا مشینی ذبیحہ جائز نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4435

【76】

وہ جانور جس کا علم نہ ہو کہ بوقت ذبح اللہ کا نام لیا گیا یا نہیں؟

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کچھ اعرابی (دیہاتی) ہمارے پاس گوشت لاتے تھے، ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ آیا انہوں نے اس پر اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ اس پر اللہ کا نام لو اور کھاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد النسائي (تحفة الأشراف : ١٧٢٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ اس بابت خواہ مخواہ کا شک و شبہہ صحیح اور درست نہیں ہے، إلا یہ کہ پختہ طریقے سے ثابت ہوجائے کہ اس ذبیحہ پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4436

【77】

آیت|"ولا تاکلوا مما لم یذکراسم اللہ|" کی تفسیر و تشریح

عبداللہ بن عباس (رض) آیت کریمہ : ولا تأکلوا مما لم يذكر اسم اللہ عليه جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے مت کھاؤ (الأنعام : ١٢١) کے بارے میں کہتے ہیں : (یہ اس وقت اتری جب) کفار و مشرکین نے مسلمانوں سے بحث کی تو کہا : جسے اللہ ذبح کرتا ہے (یعنی مرجائے) تو اسے تم نہیں کھاتے ہو اور جسے تم خود ذبح کرتے ہو اسے کھاتے ہو ؟۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٦٣٢٥) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4437

【78】

مجثمہ (جانور کو نشانہ بنا کر) مارنے کا ممنوع ہونا

ابوثعلبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجثمة‏ حلال نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٣١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مجثمة‏ یعنی وہ جانور جس کو باندھ کر نشانہ لگا کر مسلسل تیر مارا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4438

【79】

مجثمہ (جانور کو نشانہ بنا کر) مارنے کا ممنوع ہونا

ہشام بن زید کہتے ہیں کہ میں انس (رض) کے ساتھ حکم (حکم بن ایوب) کے یہاں گیا تو دیکھا کہ چند لوگ امیر کے گھر میں ایک مرغی کو نشانہ بنا کر مار رہے ہیں، تو انس (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ جانوروں کو باندھ کر اس طرح مارا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٢٥ (٥٥١٣) ، صحیح مسلم/الصید ١٢ (١٩٥٦) ، سنن ابی داود/الأضاحی ١٢ (٢٨١٦) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١٠ (٣١٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٠) ، مسند احمد (٣/١١٧، ١٧١، ١٨٠، ١٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4439

【80】

مجثمہ (جانور کو نشانہ بنا کر) مارنے کا ممنوع ہونا

عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر چند لوگوں کے پاس سے ہوا۔ وہ ایک مینڈھے کو تیر مار رہے تھے، آپ نے اسے پسند نہیں کیا اور فرمایا : جانوروں کا مثلہ نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٢٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4440

【81】

مجثمہ (جانور کو نشانہ بنا کر) مارنے کا ممنوع ہونا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص پر لعنت بھیجی جس نے ایسی چیز کو نشانہ بنایا جو جاندار ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٢٥ (٥٥١٥) ، صحیح مسلم/الصید ١١(١٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٥٤) ، مسند احمد ١/٣٣٨ و ٢/١٣، ٤٣، ٦٠، ٨٦، ١٠٣، ١٤١) ، سنن الدارمی/الأضاحی ١٣ (٢٠١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نشانہ بازی کے مقصد سے نشانہ بنایا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4441

【82】

مجثمہ (جانور کو نشانہ بنا کر) مارنے کا ممنوع ہونا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے جو جانوروں کا مثلہ کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کسی جاندار کے ہاتھ پاؤں ناک اور کان وغیرہ اعضاء کو کاٹ کر اس کی شکل و صورت بگاڑ دینے کو مثلہ کہتے ہیں، مثلہ حرام ہے خواہ انسان کا ہو یا جانور کا، اور کسی حلال جانور کو ذبح کرنے کے بعد اس کے گوشت کی بوٹیاں بنانے کی کے مقصد سے اس کے ٹکڑے کرنا مثلہ نہیں ہے، مثلہ میں فقط شبیہ بگاڑ کر پھینک دینا مقصود ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4442

【83】

مجثمہ (جانور کو نشانہ بنا کر) مارنے کا ممنوع ہونا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی ایسی چیز کو نشانہ نہ بناؤ جس میں روح اور جان ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٢٥ (٥٥١٥ م تعلیقًا) ، صحیح مسلم/الصید ١٢ (١٩٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٥٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأطعمة ١ (١٤٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١٠ (٣١٨٧) ، مسند احمد (١/٢١٦، ٢٧٤، ٢٨٠، ٢٨٥، ٢٩١، ٣٤٠، ٣٤٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4443

【84】

مجثمہ (جانور کو نشانہ بنا کر) مارنے کا ممنوع ہونا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم ایسی چیز کو نشانہ نہ بناؤ جس میں روح اور جان ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4444

【85】

جو کوئی بلاوجہ کسی چڑیا کو ہلاک کرے؟

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی گوریا، یا اس سے چھوٹی کسی چڑیا کو بلا وجہ مارا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سلسلے میں سوال کرے گا ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! تو اس کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اسے ذبح کر کے کھائے اور اس کا سر کاٹ کر یوں ہی نہ پھینک دے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٥٤ (حسن) (سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی ٩٩٩، تراجع الالبانی ٤٥٨ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4445

【86】

جو کوئی بلاوجہ کسی چڑیا کو ہلاک کرے؟

شرید (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے بلا وجہ کوئی گوریا ماری تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے چلائے گی اور کہے گی : اے میرے رب ! فلاں نے مجھے بلا وجہ مارا مجھے کسی فائدے کے لیے نہیں مارا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٤٨٤٣) ، مسند احمد (٤/٣٨٩) (ضعیف) (اس کے راوی صالح بن دینار لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4446

【87】

جلالہ کے گوشت کے ممنوع ہونے سے متعلق

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن پالتو گدھوں کے گوشت سے اور جلالہ پر سواری کرنے اور اس کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٣٤ (٣٨١١) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٢٦) ، مسند احمد (٢/٢١٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: عبداللہ بن عمرو یعنی اگر راوی نے محمد کے بعد عن أبیہ کہا تھا تو عبد الله بن عمرو کی روایت ہوگی، اور اگر عن جدہ کہا تھا تو عمرو بن العاص کی روایت ہوگی، ابوداؤد میں بغیر شک کے عمرو بن شعیب عن أبیہ، عن جدہ ہے، یعنی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما، مزی نے اس کو عبداللہ بن عمرو (رض) ہی کی مسند ذکر کیا ہے۔ جلالہ: وہ جانور جو صرف نجاست یا اکثر نجاست کھاتا ہو۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4447

【88】

جلالہ کا دودھ پینے کی ممانعت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجثمہ (جو جانور باندھ کر نشانہ لگا کر مار ڈلا گیا ہو) سے، جلالہ (گندگی کھانے والے جانور) کے دودھ سے، اور مشک کے منہ سے منہ لگا کر پینے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأشربة ١٤ (٣٧١٩) ، والأطعمة ٢٥ (٣٧٨٦) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٢٤ (١٨٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٦١٩٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأشربة ٢٤ (٥٦٢٩) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ٢٠ (٣٤٢١) ، مسند احمد ١/٢٢٦، ٢٤١، ٣٣٩، ٢٩٣، ٣٢١، ٣٣٩) ، سنن الدارمی/الأضاحي ١٣ (٢٠١٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4448