28. گھوڑوں سے متعلقہ احادیث

【1】

گھوڑ دوڑ اور تیر اندازی سے متعلق احادیث

سلمہ بن نفیل کندی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس وقت ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! لوگوں نے گھوڑوں کی اہمیت اور قدر و قیمت ہی گھٹا دی، ہتھیار اتار کر رکھ دیے اور کہتے ہیں : اب کوئی جہاد نہیں رہا، لڑائی موقوف ہوچکی ہے۔ یہ سنتے ہی رسول اللہ ﷺ نے اپنا رخ اس کی طرف کیا اور (پورے طور پر متوجہ ہو کر) فرمایا : غلط اور جھوٹ کہتے ہیں، (صحیح معنوں میں) لڑائی کا وقت تو اب آیا ہے ١ ؎، میری امت میں سے تو ایک امت (ایک جماعت) حق کی خاطر ہمیشہ برسرپیکار رہے گی اور اللہ تعالیٰ کچھ قوموں کے دلوں کو ان کی خاطر کجی میں مبتلا رکھے گا ٢ ؎ اور انہیں (اہل حق کو) ان ہی (گمراہ لوگوں) کے ذریعہ روزی ملے گی ٣ ؎، یہ سلسلہ قیامت ہونے تک چلتا رہے گا، جب تک اللہ کا وعدہ (متقیوں کے لیے جنت اور مشرکوں و کافروں کے لیے جہنم) پورا نہ ہوجائے گا، قیامت تک گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی (خیر) بندھی ہوئی ہے ٤ ؎ اور مجھے بذریعہ وحی یہ بات بتادی گئی ہے کہ جلد ہی میرا انتقال ہوجائے گا اور تم لوگ مختلف گروہوں میں بٹ کر میری اتباع (کا دعویٰ ) کرو گے اور حال یہ ہوگا کہ سب (اپنے متعلق حق پر ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود) ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہوں گے اور مسلمانوں کے گھر کا آنگن (جہاں وہ پڑاؤ کرسکیں، ٹھہر سکیں، کشادگی سے رہ سکیں) شام ہوگا ٥ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٤٥٦٣) ، مسند احمد (٤/١٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اللہ تعالیٰ کی جانب سے لڑائی کی مشروعیت تو ابھی ہوئی ہے اتنی جلد یہ بند کیسے ہوجائے گی۔ ٢ ؎: یعنی وہ گمراہ و بدراہ ہوں گے اور انہیں راہ راست پر لانے کے لیے یہ حق پرست دعوت و تبلیغ اور قتال و جہاد کا سلسلہ جاری و قائم رکھیں گے۔ ٣ ؎: یعنی لوگ انہیں جہاد کے لیے اموال اور اسباب و ذرائع مہیا کریں گے اور وہ ان سے اپنی روزی ( بصورت مال غنیمت ) حاصل کریں گے ۔ ٤ ؎: مفہوم یہ ہے کہ گھوڑوں میں ان کے مالکوں کے لیے بھلائی اور خیر رکھ دی گئی ہے، اس لیے گھوڑوں کو جنگ و قتال کے لیے ہر وقت تیار رکھو۔ ٥ ؎: یعنی ایسے خلفشار کے وقت شام میں امن و سکون ہوگا جہاں اہل حق رہ سکیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3561

【2】

گھوڑ دوڑ اور تیر اندازی سے متعلق احادیث

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے گھوڑوں کی پیشانیوں میں خیر رکھ دیا ہے ۔ گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں : بعض ایسے گھوڑے ہیں جن کے باعث آدمی (یعنی گھوڑے والے) کو اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے، اور کچھ گھوڑے وہ ہوتے ہیں جو آدمی کی عزت و وقار کے لیے پردہ پوشی کا باعث (اور آدمی کا بھرم باقی رکھنے کا سبب بنتے) ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو آدمی کے لیے بوجھ (اور وبال) ہوتے ہیں۔ اب رہے وہ گھوڑے جو آدمی کے لیے اجر و ثواب کا باعث بنتے ہیں تو یہ ایسے گھوڑے ہیں جو اللہ کی راہ میں کام آنے کے لیے رکھے جائیں اور جہاد کے لیے تیار کیے جائیں، وہ جو چیز بھی کھالیں گے ان کے اپنے پیٹ میں ڈالی ہوئی ہر چیز کے عوض ان کے مالک کو اجر و ثواب ملے گا اگرچہ وہ چراگاہ میں چرنے کے لیے چھوڑ دئیے گئے ہوں۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٢٧٩٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3562

【3】

گھوڑ دوڑ اور تیر اندازی سے متعلق احادیث

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کچھ گھوڑے ایسے ہیں جو آدمی کے لیے اجر و ثواب کا باعث ہیں، اور بعض گھوڑے ایسے ہیں جو آدمی کے لیے ستر و حجاب کا ذریعہ ہیں، اور بعض گھوڑے وہ ہیں جو آدمی پر بوجھ ہوتے ہیں، اب رہا وہ آدمی جس کے لیے گھوڑے اجر و ثواب کا باعث ہوتے ہیں تو وہ ایسا آدمی ہے جس نے گھوڑوں کو اللہ کی راہ میں کام آنے کے لیے باندھ کر پالا اور باغ و چراگاہ میں چرنے کے لیے ان کی رسی لمبی کی، تو وہ اس رسی کی درازی کے سبب چراگاہ اور باغ میں جتنی دور بھی چریں گے اس کے لیے (اسی اعتبار سے) نیکیاں لکھی جائیں گی اور اگر وہ اپنی رسی توڑ کر آگے پیچھے دوڑنے لگیں اور (بقدر) ایک دو منزل بلندیوں پر چڑھ جائیں تو بھی ان کے ہر قدم (اور حارث کی روایت کے مطابق) حتیٰ کہ ان کی لید (گوبر) پر بھی اسے اجر و ثواب ملے گا اور اگر وہ کسی نہر پر پہنچ جائیں اور اس نہر سے وہ پانی پی لیں اور مالک کا انہیں پانی پلانے کا پہلے سے کوئی ارادہ بھی نہ رہا ہو تو بھی یہ اس کی نیکیوں میں شمار ہوں گی اور اسے اس کا بھی اجر ملے گا۔ اور (اب رہا دوسرا) وہ شخص جو گھوڑے پالے شکر کی نعمت اور دوسرے لوگوں سے مانگنے کی محتاجی سے بےنیازی کے اظہار کے لیے اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرے ان کی گردنوں اور ان کے پٹھوں کے ذریعہ (یعنی ان کی زکاۃ دے، اور جب اللہ کی راہ میں ان پر سواری کی ضرورت پیش آئے تو انہیں سواری کے لیے پیش کرے) تو ایسے شخص کے لیے یہ گھوڑے اس کے لیے (جہنم کے عذاب اور مار سے بچنے کے لیے) ڈھال بن جائیں گے۔ اور (اب رہا تیسرا) وہ شخص جو فخر، ریا و نمود اور اہل اسلام سے دشمنی کی خاطر گھوڑے باندھے تو یہ گھوڑے اس کے لیے بوجھ (عذاب و مصیبت) ہیں ۔ اور نبی اکرم ﷺ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس سلسلے میں ان کے متعلق مجھ پر کچھ نہیں اترا ہے سوائے اس منفرد جامع آیت کے فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره * ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره جو شخص ذرہ برابر بھی نیکی یا بھلائی کرے گا وہ اسے قیامت کے دن دیکھے گا اور جو شخص ذرہ برابر شر (برائی) کرے گا وہ اسے دیکھے گا (الزلزال : ٧ ، ٨) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرب والمساقاة ١٢ (٢٣٧١) ، الجہاد ٤٨ (٢٨٦٠) ، والمناقب ٢٨ (٣٦٤٦) ، تفسیر سورة الزلزلة ١ (٤٩٦٢) ، ٢ (٤٩٦٣) ، والاعتصام ٢٤ (٧٣٥٦) ، صحیح مسلم/الزکاة ٦ (٩٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣١٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٠ (١٦٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٤ (٢٧٨٨) ، مسند احمد (٢/٢٦٢، ٢٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3563

【4】

گھوڑوں سے محبت رکھنا

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو عورت کے بعد گھوڑوں سے زیادہ کوئی چیز محبوب اور پسندیدہ نہ تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٢٢١) (ضعیف) (سند میں قتادہ بن دعامہ مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3564

【5】

کون سے رنگ کا گھوڑا عمدہ ہوتا ہے؟

صحابی رسول ابو وہب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم (اپنے بچوں کے) نام انبیاء کے ناموں پر رکھو، اور اللہ کے نزدیک سب ناموں میں زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہے ١ ؎، گھوڑے باندھو، ان کی پیشانی سہلاؤ اور ان کے پٹھوں کی مالش کرو، ان کے گلے میں قلادے لٹکاؤ، لیکن تانت کے نہیں، کمیتی (سرخ سیاہ رنگ والے) گھوڑے رکھو جن کی پیشانی اور ٹانگیں سفید ہوں یا اشقر (سرخ زرد رنگ والے) گھوڑے رکھو جن کی پیشانیاں اور ٹانگیں سفید ہوں یا ادھم (کالے رنگ کے) گھوڑے رکھو جن کی پیشانی اور ٹانگوں پر سفیدی ہو (یہ گھوڑے اچھے اور خیر و برکت والے ہوتے ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٤٤ (٢٥٤٤) ، ٥٠ (٢٥٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥١٩، ١٥٥٢٠، ١٥٥٢١) ، مسند احمد ش (٤/٣٤٥) (حسن) (اس کے راوی عقیل بن شبیب مجہول ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، دیکھئے صحیح ابوداود ٢٣٠١، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی ١٠٤٠، ٩٠٤، تراجع الالبانی ٤٦، ٤٨٧) لیکن (تسموا بأسماء الأنبيائ) کا فقرہ شاہد نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے) ۔ وضاحت : ١ ؎: مفہوم یہ ہے کہ یہ اور انہیں دونوں جیسے ایسے نام رکھو جن میں عبودیت کا اعتراف اور اظہار ہو۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3565

【6】

اس قسم کے گھوڑوں کے بارے میں کہ جس کے تین پاؤں سفید اور ایک پاؤں دوسرے رنگ کا ہو

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ شکال گھوڑا ناپسند فرماتے تھے۔ اس حدیث کے الفاظ اسماعیل راوی کی روایت کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢٧ (١٨٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٩٤) ، مسند احمد (٢/٤٥٧، ٤٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ راوی نے شکال کی تفسیر کی ہے، اہل لغت کے نزدیک گھوڑوں میں شکال یہ ہے کہ اس کے تین پاؤں سفید ہوں، اور ایک باقی بدن کے ہم رنگ ہو یا اس کے برعکس ہو، یعنی ایک پاؤں سفید اور باقی تین پاؤں باقی بدن کے ہم رنگ ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3566

【7】

اس قسم کے گھوڑوں کے بارے میں کہ جس کے تین پاؤں سفید اور ایک پاؤں دوسرے رنگ کا ہو

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے شکال گھوڑا ناپسند فرمایا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : گھوڑے کا شکال یہ ہے کہ اس کے تین پیر سفید ہوں اور ایک کسی اور رنگ کا ہو یا تین پیر کسی اور رنگ کے ہوں اور ایک سفید ہو، شکال ہمیشہ پیروں میں ہوتا ہے ہاتھ میں نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢٧ (١٨٧٥) ، سنن ابی داود/الجہاد ٤٦ (٢٥٤٧) ، سنن الترمذی/الجہاد ٢١ (١٦٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٤ (٢٧٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٩٠) ، مسند احمد (٢/٢٥٠، ٤٣٦، ٤٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3567

【8】

گھوڑوں میں نحوست سے متعلق

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نحوست تین چیزوں میں ہے، عورت، گھوڑے اور گھر میں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٣٤ (٢٢٢٥) ، سنن الترمذی/الأدب ٥٨ (٢٨٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٢٦) ، مسند احمد (٢/٨، ٣٦، ١١٥، ١٢٦) (صحیح) (اس حدیث میں ” الشؤم “ کا لفظ آیا ہے اور بعض روایتوں میں إنما الشؤم ہے جو (شاذ) ہے اور محفوظ ”إن کان الشؤم “ کا لفظ ہے جیسا کہ صحیحین وغیرہ میں ابن عمر سے ”إن کان الشؤم “ لفظ ثابت ہے، جس کے شواہد جابر (صحیح مسلم/٢٢٢٧ و نسائی ٣٦٠٠) سعد بن أبی وقاص (سنن ابی داود : ٣٩٢١ ومسند أحمد ١/١٨٠، ١٨٦) ، اور سہل بن سعد (صحیح البخاری/٥٠٩٥) ، کی احادیث میں ہیں، اس لئے بعض اہل علم نے پہلے لفظ کو شاذ قرار دیا ہے، (ملاحظہ ہو : الفتح ٦/٦٠-٦٣) وسلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٧٩٩، ٧٨٩، ١٨٥٧) ۔ اب جب کہ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کی یہی روایت صحیح مسلم میں کئی سندوں سے اس طرح ہے : ” اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی “ اور یہی مطلب اس عام روایت کا بھی ہے، اس کی وضاحت سعد بن مالک کی روایت میں ہے، اور وہ جو سنن ابی داود (٣٩٢٤) میں انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم ایک گھر میں تھے تو اس میں ہمارے لو گوں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور ہمارے پاس مال بھی زیادہ رہتا تھا پھر ہم ایک دوسرے گھر میں آگئے تو اس میں ہماری تعداد بھی کم ہوگئی اور ہمارا مال بھی گھٹ گیا، اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے چھوڑ دو ، مذموم حالت میں “ تو اس گھر کو چھوڑ دینے کا حکم آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس لئے دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا عقیدہ خراب ہوجائے، اور وہ گھر ہی کو مؤثر سمجھنے لگ جائیں اور شرک میں پڑجائیں، اور یہ حکم ایسے ہی ہے جیسے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے احتیاطا کوڑھی سے دور بھاگنے کا حکم دیا، حالانکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے : ” چھوت کی کوئی حقیقت نہیں ہے “۔ وضاحت : ١ ؎: اگر نحوست بات عملاً مان لی جائے یا یہ کہ لوگ معاشرہ میں ایسا ہی سمجھتے اور سوچتے ہیں تو عورت کی نحوست یہ ہے کہ عورت زبان دراز یا بدخلق ہو اور گھوڑے کی نحوست یہ ہے کہ لات مارے، دانت کاٹے اور گھر کی نحوست یہ ہے کہ پڑوسی اچھے نہ ہوں یا گرمی و سردی کے لحاظ سے آرام دہ نہ ہو، اس طرح سے ان چیزوں سے آدمی متوحش ہوتا ہے، اور اپنے جذبات کی تعبیر نحوست کے لفظ سے کرتا ہے، لیکن اس کا معنی یہی ہوتا ہے جو ہم نے ذکر کیا۔ قال الشيخ الألباني : شاذ والمحفوظ بلفظ إن کان الشؤم في شيء ففي ... صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3568

【9】

گھوڑوں میں نحوست سے متعلق

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نحوست گھر میں، عورت میں اور گھوڑے میں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٨ (٥٠٩٣) ، الطب ٥٤ (٥٧٧٢) ، صحیح مسلم/السلام ٣٤ (٢٢٢٥) ، سنن ابی داود/الطب ٢٤ (٣٩٢٢) ، سنن الترمذی/الأدب ٥٨ (٢٨٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٩٩) ، موطا امام مالک/الاستئذان ٨ (٢٢) ، مسند احمد (٢/٢٦، ١١٥، ١٢٦، ١٣٦) (صحیح) (جیسا کہ اوپر گزرا الشؤم اور إنماالشؤم کا لفظ شاذ ہے، اور خود صحیحین میں إن کان الشؤم کی روایت موجود ہے تو شواہد کی بنا پر یہی لفظ محفوظ ہوگا اور علماء نے یہ بات لکھی ہے کہ امام بخاری طرق حدیث کے ذکر میں راجح روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جس کے لیے یہ مثال کافی ہے، نیز ملاحظہ ہو اس کے بعد کی حدیث حاشیہ ) قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3569

【10】

گھوڑوں میں نحوست سے متعلق

جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر نحوست کسی چیز میں ہوسکتی ہے تو گھر، عورت اور گھوڑے میں ہوسکتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٣٤ (٢٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٢٤) مسند احمد (٣/٣٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لگتا ہے کہ امام نسائی کے یہاں بھی راجح یہی لفظ ہے کہ اگر نحوست کسی چیز میں ہوسکتی تو ان چیزوں میں ہوتی اس لیے کہ پہلی دونوں حدیثوں میں الشؤم مطلقاً کی تخریج کی اور آخر میں جابر کی حدیث دے کر اپنا فیصلہ سنا دیا، اس طرح سے یہ مثال امام نسائی کے طریقہ ترجیح میں ایک عمدہ مثال مانی جانی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3570

【11】

گھوڑوں کی برکت سے متعلق

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گھوڑوں کی پیشانیوں میں برکت (رکھ دی گئی) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٤٣ (٢٨٥١) ، والمناقب ٢٨ (٣٦٤٥) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٦ (١٨٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٥) ، مسند احمد (٣/١١٤، ١٢٧، ١٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3571

【12】

گھوڑوں کی پیشانی کے بالوں کو (ہاتھوں سے) بٹنے سے متعلق

جریر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک گھوڑے کی پیشانی کے بال اپنی انگلیوں کے درمیان لے کر گوندھتے ہوئے دیکھا ہے اور آپ فرما رہے تھے : گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے خیر رکھ دیا گیا ہے۔ خیر سے مراد ثواب اور مال غنیمت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢٦ (١٨٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٣٨) ، مسند احمد (٤/٣٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی قیامت تک جہاد کا سلسلہ جاری رہے گا اور لوگ اللہ کی راہ میں کام آنے کے لیے گھوڑے پالیں اور باندھیں گے جس کے نتیجہ میں ثواب بھی پائیں گے اور جہاد کے زریعہ مال غنیمت بھی حاصل ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3572

【13】

گھوڑوں کی پیشانی کے بالوں کو (ہاتھوں سے) بٹنے سے متعلق

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے خیر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢٦ (١٨٧١) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٤ (٢٧٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٨٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٤٣ (٢٨٤٩) ، والمناقب ٢٨ (٣٦٤٤) ، مسند احمد (٢/٤٩، ٥٧، ١٠١، ١١٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3573

【14】

گھوڑوں کی پیشانی کے بالوں کو (ہاتھوں سے) بٹنے سے متعلق

عروہ بارقی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے خیر رکھ دی گئی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٤٣ (٢٨٥٠) ، ٤٤ (٢٨٥٢) ، الخمس ٨ (٣١١٩) ، المناقب ٢٨ (٣٦٤٣) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٦ (١٨٧٣) ، سنن الترمذی/الجہاد ١٩ (١٦٩٤) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٩ (٢٣٠٥) ، الجہاد ١٤ (٢٧٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٩٧) ، مسند احمد (٤/٣٧٥، ٣٧٦) ، سنن الدارمی/الجہاد ٣٤ (٢٤٧٠، ٢٤٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3574

【15】

گھوڑوں کی پیشانی کے بالوں کو (ہاتھوں سے) بٹنے سے متعلق

ابوالجعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے خیر کی گرہ لگا دی گئی (جس کے سبب) اجر بھی ملے گا اور غنیمت بھی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3575

【16】

گھوڑوں کی پیشانی کے بالوں کو (ہاتھوں سے) بٹنے سے متعلق

عروہ بارقی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : گھوڑے کی پیشانی سے قیامت تک کے لیے خیر وابستہ کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اجر بھی ملے گا اور مال غنیمت بھی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3576

【17】

گھوڑوں کی پیشانی کے بالوں کو (ہاتھوں سے) بٹنے سے متعلق

عروہ بن ابی الجعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت تک گھوڑے کی پیشانی کے ساتھ خیر باندھ دیا گیا ہے (اور خیر سے مراد کیا ہے ؟ ) ثواب اور مال غنیمت ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3577

【18】

گھوڑے کو تربیت دینے سے متعلق

خالد بن یزید جہنی کہتے ہیں کہ عقبہ بن عامر (رض) ہمارے قریب سے گزرا کرتے تھے، کہتے تھے : اے خالد ! ہمارے ساتھ آؤ، چل کر تیر اندازی کرتے ہیں، پھر ایک دن ایسا ہوا کہ میں سستی سے ان کے ساتھ نکلنے میں دیر کردی تو انہوں نے آواز لگائی : خالد ! میرے پاس آؤ۔ میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی فرمائی ہوئی ایک بات بتاتا ہوں، چناچہ میں ان کے پاس گیا۔ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ ایک تیر کے ذریعے تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرمائے گا : (ایک) بھلائی حاصل کرنے کے ارادہ سے تیر بنانے والا، (دوسرا) تیر چلانے والا، (تیسرا) تیر پکڑنے والا، اٹھا اٹھا کردینے والا، (آپ ﷺ نے فرمایا :) تیر اندازی کرو، گھوڑ سواری کرو اور تمہاری تیر اندازی مجھے تمہاری گھوڑ سواری سے زیادہ محبوب ہے۔ (مباح و مندوب) لہو و لذت یابی، تفریح و مزہ تو صرف تین چیزوں میں ہے : (ایک) اپنے گھوڑے کو میدان میں کار آمد بنانے کے لیے سدھانے میں، (دوسرے) اپنی بیوی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، کھیل کود میں اور (تیسرے) اپنی کمان و تیر سے تیر اندازی کرنے میں اور جو شخص تیر اندازی جاننے (و سیکھنے) کے بعد اس سے نفرت و بیزاری کے باعث اسے چھوڑ دے تو اس نے ایک نعمت کی (جو اسے حاصل تھی) ناشکری (و ناقدری) کی۔ راوی کو شبہ ہوگیا ہے کہ آپ نے اس موقع پر کفرہا کہا یا کفر بہا کہا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١٤٨ (ضعیف) (لکن فقرة ” اللہوة “ ثابت فی حدیث آخر بنحوہ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3578

【19】

گھوڑے کی دعا

ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر عربی گھوڑے کو (یہاں مخاطب عرب تھے) (اس لیے آپ نے عربی گھوڑا کہا، لیکن مقصود راہ جہاد میں کام آنے والے گھوڑے ہیں، اس لیے ہر اس عمدہ گھوڑے کو خواہ کسی بھی ملک کا ہو جو جہاد کی نیت سے رکھا جائے اس دعا کی اجازت ہونی چاہیئے) ہر صبح دو دعائیں کرنے کی اجازت دی جاتی ہے (وہ کہتا ہے) اے اللہ ! اولاد آدم میں سے جس کی بھی سپردگی میں مجھے دے اور جس کو بھی مجھے عطا کرے مجھے اس کے گھر والوں اور اس کے مالوں میں سب سے زیادہ محبوب و عزیز بنا دے یا مجھے اس کے محبوب گھر والوں اور پسندیدہ مالوں میں سے کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٩٧٩) ، مسند احمد (٥/١٦٢، ١٧٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3579

【20】

گھوڑیوں کو خچر پیدا کرانے کے لئے گدھوں سے جفتی کرانے کے کی سخت مذمت کے بارے میں۔

علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو ہدیہ میں خچر دیا گیا جس پر آپ ﷺ نے سواری کی۔ علی (رض) نے کہا : اگر ہم گدھوں کو گھوڑیوں پر چڑھا (کر جفتی کرا) دیں تو ہمارے پاس اس جیسے (بہت سے خچر) ہوجائیں گے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ایسا وہ لوگ کرتے ہیں جو نادان و ناسمجھ ہوتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٥٩ (٢٥٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٨٤) ، مسند احمد (١/٩٨، ١٠٠، ١٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ گھوڑوں میں جو بات ہے وہ خچروں میں نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3580

【21】

گھوڑیوں کو خچر پیدا کرانے کے لئے گدھوں سے جفتی کرانے کے کی سخت مذمت کے بارے میں۔

عبداللہ بن عبیداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ میں ابن عباس (رض) کے پاس تھا اس وقت ان سے کسی نے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر میں کچھ پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : نہیں، اس نے کہا ہوسکتا ہے اپنے من ہی من میں پڑھتے رہے ہوں۔ انہوں نے کہا : تم پر پتھر لگیں گے یہ تو پہلے سے بھی خراب بات تم نے کہی۔ رسول اللہ ﷺ اللہ کے بندے تھے، اللہ نے آپ کو اپنا پیغام دے کر بھیجا، آپ نے اسے پہنچا دیا۔ قسم اللہ کی، رسول اللہ ﷺ نے عامۃ الناس سے ہٹ کر ہم اہل بیت سے تین باتوں کے سوا اور کوئی خصوصیت نہیں برتی۔ ہمیں حکم دیا کہ ہم مکمل وضو کریں، ہم صدقہ کا مال نہ کھائیں اور نہ ہی گدھوں کو گھوڑیوں پر ک دائیں (جفتی کرائیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3581

【22】

گھوڑوں کو چارہ کھلانے کے ثواب سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ کی راہ میں کام آنے کے لیے گھوڑا پالے اور اللہ پر اس کا پورا ایمان ہو اور اللہ کے وعدوں پر اسے پختہ یقین ہو تو اس گھوڑے کی آسودگی، اس کی سیرابی، اس کا پیشاب اور اس کا گوبر سب نیکیاں بنا کر اس کے میزان میں رکھ دی جائیں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٤٥ (٢٨٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٦٤) ، مسند احمد (٢/٥٧٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3582

【23】

غیر مضمر گھوڑوں کی گھڑ دوڑ

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک) گھوڑوں کی دوڑ کرائی (کہ کون گھوڑا آگے نکلتا ہے) ١ ؎ حفیاء سے روانہ کرتے (دوڑاتے) اور ثنیۃ الوداع آخری حد تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان گھوڑوں میں بھی دوڑ کرائی جو محنت و مشقت کے عادی نہ تھے (جو سدھائے اور تربیت یافتہ نہ تھے) اور ان کے دوڑ کی حد ثنیۃ سے مسجد بنی زریق تک تھی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٥٦ (٢٨٦٨) ، ٥٧ (٢٨٦٩) ، ٥٨ (٢٨٧٠) ، الاعتصام ١٦ (٧٣٣٦) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٥ (١٨٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٨٠) ، مسند احمد ٢/٥، ٥٥-٥٦، سنن الدارمی/الجھاد ٣٦ (٢٤٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حفیاء ایک گاؤں کا نام اور ثنیّۃ الوداع ایک پہاڑ یا ایک محلے کا نام ہے۔ ٢ ؎: ثنیّۃ سے مسجد بنی زریق تک ایک میل کا اور حفیاء سے ثنیّۃ تک پانچ چھ میل کا فاصلہ ہے، معلوم ہوا کہ مسابقہ و مقابلہ مشروع اور جائز ہے عبث ولا یعنی چیز نہیں ہے بلکہ اس سے ایسی مشق ہوتی ہے جن سے جنگ وغیرہ میں اچھے مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3583

【24】

گھوڑوں کو دوڑنے کے لئے تیار کرنے سے متعلق

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سدھائے ہوئے گھوڑوں کے درمیان آگے بڑھنے کا مقابلہ کرایا، (دوڑ کی) آخری حد حفیاء سے شروع ہو کر ثنیۃ الوداع تک تھی، (ایسے ہی) رسول اللہ ﷺ نے ان گھوڑوں کے درمیان بھی ثنیۃ سے لے کر مسجد بنی زریق کے درمیان دوڑ کا مقابلہ کرایا جو، غیر تربیت یافتہ تھے (جو مشقت اور بھوک و تکلیف کے عادی نہ تھے) ۔ نافع کہتے ہیں : عبداللہ بن عمر (رض) ان لوگوں میں سے تھے جن ہوں نے اس مقابلے کے دوڑ میں حصہ لیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤١ (٤٢٠) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٥ (٨٧٠) ، سنن ابی داود/الجہاد ٢٧ (٢٥٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٠) ، موطا امام مالک/الجہاد ٩ (٤٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3584

【25】

گھوڑ دوڑ کے بیان میں۔

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صرف تین چیزوں میں (انعام و اکرام کی) شرط لگانا جائز ہے : تیر اندازی میں، اونٹ بھگانے میں اور گھوڑے دوڑانے میں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٦٧ (٢٥٧٤) ، سنن الترمذی/الجہاد ٢٢ (١٧٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٣٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الجہاد ٤٤ (٢٨٧٨) ، مسند احمد (٢/٢٥٦، ٣٥٨، ٤٢٥، ٤٧٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3585

【26】

گھوڑ دوڑ کے بیان میں۔

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آگے بڑھنے کی شرط صرف تین چیزوں میں لگانا درست ہے : تیر اندازی میں، اونٹ بھگانے میں اور گھوڑے دوڑانے میں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3586

【27】

گھوڑ دوڑ کے بیان میں۔

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ شرط حلال نہیں ہے سوائے اونٹ میں اور گھوڑے میں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٤٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خف:( اونٹ کا پاؤں ) مراد ہے اونٹ، اور حافر:( جانور کا گھر ) مراد ہے گھوڑا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3587

【28】

گھوڑ دوڑ کے بیان میں۔

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس عضباء نامی ایک اونٹنی تھی وہ ہارتی نہ تھی، اتفاقاً ایک اعرابی (دیہاتی) اپنے جوان اونٹ پر آیا اور وہ مقابلے میں عضباء سے بازی لے گیا، یہ بات (ہار) مسلمانوں کو بڑی ناگوار گزری۔ جب آپ نے لوگوں کے چہروں کی ناگواری و رنجیدگی دیکھی تو لوگ خود بول پڑے : اللہ کے رسول ! عضباء شکست کھا گئی (اور ہمیں اس کا رنج ہے) ، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تو اللہ کے حق (و اختیار) کی بات ہے کہ جب دنیا میں کوئی چیز بہت بلند ہوجاتی اور بڑھ جاتی ہے تو اللہ اسے پست کردیتا اور نیچے گرا دیتا ہے (اس لیے کبیدہ خاطر ہونا ٹھیک نہیں ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٦٤١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٥٩ (٢٨٧١) ، الرقاق ٣٨ (٦٥٠١) ، سنن ابی داود/الأدب ٩ (٤٨٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3588

【29】

گھوڑ دوڑ کے بیان میں۔

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اونٹوں اور گھوڑوں کے آگے بڑھنے کے مقابلوں کے سوا اور کہیں شرط لگانا درست نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجہاد ٤٤ (٢٨٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٧٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3589

【30】

جلب کے بارے میں

عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسلام میں نہ تو جلب ہے اور نہ جنب ہے اور نہ ہی شغار ہے اور جس نے لوٹ کھسوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٣٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جلب یہ ہے کہ آدمی گھڑ دوڑ کے مقابلے میں اپنے گھوڑے کے پیچھے کسی کو اسے ڈانٹنے اور ہکارنے کے لیے لگالے تاکہ وہ اور تیز دوڑے۔ اور جنب یہ ہے کہ اپنے پہلو میں دوسرا گھوڑا رکھے اور جب مقابلے کا گھوڑا تھکنے لگے تو اس پر سوار ہوجائے۔ اور شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی کسی عزیزہ کی شادی دوسرے سے اس شرط کے ساتھ کر دے کہ وہ دوسرا اپنی قریبی عزیزہ کی شادی اس کے ساتھ کر دے، اور ان دونوں کے مابین مہر متعین نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3590

【31】

جنب سے متعلق حدیث

عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام میں نہ جلب ہے نہ جنب اور نہ ہی شغار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٨١٧) ، مسند احمد (٤/٤٢٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3591

【32】

جنب سے متعلق حدیث

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نے نبی اکرم ﷺ سے (اونٹنی کی) دوڑ کا مقابلہ کیا تو وہ آگے نکل گیا، اس سے رسول ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ملال ہوا اور آپ سے ان کے اس چیز (رنج و ملال) کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو بھی اپنے آپ کو دنیا میں بہت بڑا سمجھنے لگے اللہ کا حق اور اس کی ایک طرح کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسے نیچا کر دے تاکہ اس کا غرور ٹوٹ جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٦٩٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3592

【33】

مال غنیمت میں گھوڑوں کے حصہ کے بارے میں

عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کہتے تھے کہ (فتح) خیبر کے سال زبیر بن العوام (رض) کے لیے رسول اللہ ﷺ نے (مال غنیمت میں) چار حصے لگائے۔ ایک حصہ ان کا اپنا اور ایک حصہ قرابت داری کا لحاظ کر کے کیونکہ صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہا زبیر بن عوام (رض) کی ماں تھیں اور دو حصے گھوڑے کے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٢٩١) ، مسند احمد (١/١٦٦) (حسن الإسناد ) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3593