2. پانیوں کا بیان

【1】

جو شخص وضو کے لئے پانی اور تیمم کرنے کے لئے مٹی نہ پا سکے

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ایک بیوی نے غسل جنابت کیا، تو آپ ﷺ نے اس کے بچے ہوئے پانی سے وضو کیا، اس نے آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ٣٥ (٦٨) ، سنن الترمذی/فیہ ٤٨ (٦٥) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٣٣ (٣٧٠) ، (تحفة الأشراف ٦١٠٣) ، مسند احمد ١/٢٣٥، ٢٨٤، ٣٠٨، ٣٣٧، سنن الدارمی/الطہارة ٥٧(٧٦١، ٧٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جو پانی جنبی یا محدث کے استعمال سے بچ جائے، وہ استعمال کرنے والے کی جنابت یا حدث کی وجہ سے نجس نہیں ہوتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 325

【2】

بیئر بضاء سے متعلق

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم بضاعہ نامی کنویں سے وضو کریں ؟ اور حال یہ ہے کہ یہ ایک ایسا کنواں ہے جس میں کتوں کے گوشت، حیض کے کپڑے، اور بدبودار چیزیں ڈالی جاتی ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : پانی پاک ہوتا ہے، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ٣٤ (٦٦، ٦٧) ، سنن الترمذی/فیہ ٤٩ (٦٦) ، (تحفة الأشراف ٤١٤٤) ، مسند احمد ٣/١٦، ٣١، ٨٦ (صحیح) (متابعات اور شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” عبیداللہ “ مجہول الحال ہیں) قال إبن حجر : ” مستور “ من الرابعة ۔ وضاحت : ١ ؎: بئر بضاعہ مدینہ کے ایک کنویں کا نام ہے۔ ٢ ؎: یعنی اس کنویں کے نشیب میں واقع ہونے اور منڈیر نہ ہونے کی وجہ سے سیلاب اور ہوائیں ان چیزوں کو بہا اور اڑا کر کنویں میں ڈال دیتی تھیں۔ ٣ ؎: الماء طہور میں الف لام عہد کا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ سائل کے ذہن میں جس کنویں کا پانی ہے وہ نجاست گرنے سے ناپاک نہیں ہوگا، کیونکہ اس کنویں کی چوڑائی چھ ہاتھ تھی، اور اس میں ناف سے اوپر پانی رہتا تھا، اور جب کم ہوتا تو ناف سے نیچے ہوجاتا جیسا کہ امام ابوداؤد (رح) نے اپنی سنن میں اس کا ذکر کیا ہے، مطلب حدیث کا یہ ہے کہ جب پانی کی مقدار زیادہ ہو تو محض نجاست کا گر جانا اسے ناپاک نہیں کرتا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ مطلق پانی میں نجاست گرنے سے وہ ناپاک نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 326

【3】

بیئر بضاء سے متعلق

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس سے گزرا، آپ بئر بضاعہ کے پانی سے وضو کر رہے تھے، میں نے عرض کیا : کیا آپ اس سے وضو کر رہے ہیں حالانکہ اس میں تو ایسی بدبودار چیزیں ڈالی جاتی ہیں جو ناگوار ہوتی ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف ٤١٢٥) ، مسند احمد ٣/ ١٥ (صحیح) (متابعات اور شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” خالد “ ١ ؎ اور ” سلیط “ ٢ ؎ وضاحت ١ ؎: قال إبن حجر : ” مقبول “ من السادسة ٢ ؎: قال إبن حجر : ” مقبول “ من السادسة وضاحت : ١ ؎: لیکن یہ اس وقت ہے جب پانی دو قلہ کی مقدار کو پہنچ گیا ہو، اور جب تک وہ اس کے رنگ، بو اور مزہ میں سے کسی وصف کو بدل نہ دے، اگر دو قلہ سے کم ہو تو نجاست پڑنے سے پانی ناپاک ہوجائے گا، اسی طرح اگر رنگ مزہ اور بو کو نجاست نے بدل دیا، تو گویا وہ پانی نہیں رہا، اور جب پانی نہیں رہا تو اس میں پاک ہونے اور پاک کرنے کی صفت باقی نہیں رہی کیونکہ یہ صفت پانی ہی کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 327

【4】

پانی کا ایک اندازہ جو کہ ناپاکی کے گرنے سے ناپاک نہ ہو

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پانی کے بارے میں پوچھا گیا جس پر چوپائے اور درندے آتے جاتے ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب پانی دو قلہ ١ ؎ ہو تو وہ گندگی کو دفع کردیتا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٣٣(٦٤، ٦٥) ، سنن الترمذی/الطہارة ٥٠(٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٥(٥١٧، ٥١٨) ، مسند احمد ٢/١٢، ٢٣، ٢٦، ٣٨، ٠١٧، سنن الدارمی/الطہارة ٥٥(٧٥٨، ٧٥٩) ، (تحفة الأشراف ٧٣٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قلہ کے معنی بڑے گھڑے کے ہیں، اس کی جمع قلال آتی ہے یہاں قلہ ھجر مراد ہے جس میں دو مشکیزہ یا کچھ زیادہ پانی آتا ہے، اس طرح دو قلہ پانچ مشکیزہ پانی ہوگا جو پانچ سو بغدادی رطل کے برابر ہوتا ہے۔ ٢ ؎: یعنی نجاست پڑنے سے نجس نہیں ہوتا کچھ لوگوں نے لم يحمل الخبث کا ترجمہ کیا ہے کہ وہ نجاست کا متحمل نہیں ہوسکتا یعنی نجس ہوجاتا ہے لیکن یہ ترجمہ دو وجہوں سے مردود اور باطل ہے، ایک یہ کہ ابوداؤد کی ایک صحیح روایت میں إذا بلغ الماء قلتين لم ينجس آیا ہے، لہٰذا وہ روایت اسی پر محمول ہوگی اور لم يحمل الخبث کے معنی لم ينجس کے ہوں گے، دوسری یہ کہ قلتین سے نبی اکرم ﷺ نے پانی کی تحدید کی ہے، اور یہ معنی لینے کی صورت میں تحدید باطل ہوجائے گی کیونکہ قلتین سے کم اور قلتین دونوں ایک ہی حکم میں آجائیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 328

【5】

پانی کا ایک اندازہ جو کہ ناپاکی کے گرنے سے ناپاک نہ ہو

انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی مسجد میں پیشاب کرنے لگا، تو کچھ لوگ اس کی طرف بڑھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے نہ روکو (پیشاب کرلینے دو ) جب وہ پیشاب کرچکا تو آپ ﷺ نے ایک ڈول پانی منگا کر اس پر بہا دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 329

【6】

پانی کا ایک اندازہ جو کہ ناپاکی کے گرنے سے ناپاک نہ ہو

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی کھڑا ہوا اور مسجد میں پیشاب کرنے لگا، لوگ اسے پکڑنے کے لیے بڑھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : اسے چھوڑ دو (پیشاب کرلینے دو ) ، اور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی بہا دو ، اس لیے کہ تم لوگ آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو سختی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 330

【7】

ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی شخص کو غسل کرنے کی ممانعت سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے اس حال میں کہ وہ جنبی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 331

【8】

سمندر کے پانی سے وضو سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ! ہم سمندری سفر کرتے ہیں، اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں، اگر ہم اس سے وضو کرلیں تو ہم پیاسے رہ جائیں گے، کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کرلیا کریں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کا پانی پاک کرنے والا، اور مردار حلال ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سائل کو سمندر کے پانی کے سلسلہ میں تردد تھا اس میں مرجانے والے جانوروں کے سلسلہ میں بدرجہ اولیٰ تردد رہا ہوگا، اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے حکیمانہ اسلوب اختیار کیا تاکہ سائل کا دوسرا شبہ بھی جس کے متعلق اس نے سوال نہیں کیا ہے رفع ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 332

【9】

برف اور اولے کے پانی سے وضو کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دعا کرتے تھے : اللہم اغسل خطاياى بماء الثلج والبرد ونق قلبي من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس اے اللہ ! میرے گناہوں کو برف اور اولوں سے دھو دے، اور میرے دل کو گناہوں سے اسی طرح صاف کر دے جس طرح تو سفید کپڑے کو میل سے صاف کردیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 333

【10】

برف اور اولے کے پانی سے وضو کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دعا کرتے تھے : ‏اللہم اغسلني من خطاياى بالثلج والماء والبرد اے اللہ ! مجھے میرے گناہوں سے برف، پانی اور اولوں کے ذریعہ دھو دے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 334

【11】

کتے کا جوٹھا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال دے تو (جو اس میں ہے) اسے بہا دے، پھر اسے سات مرتبہ دھو ڈالے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 335

【12】

کتے کے جوٹھے برتن کو مٹی سے مانجھنے سے متعلق

عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا، اور شکاری کتوں کی نیز بکریوں کی رکھوالی کرنے والے کتوں کی اجازت دی، اور فرمایا : جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھو لو، اور آٹھویں دفعہ مٹی سے مانجھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 336

【13】

کتے کے جوٹھے برتن کو مٹی سے مانجھنے سے متعلق

عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا، آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کو کتوں سے کیا سروکار ؟ اور آپ ﷺ نے شکاری کتوں اور بکریوں کی رکھوالی کرنے والے کتوں کی اجازت دی، اور فرمایا : جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات دفعہ دھو لو، آٹھویں دفعہ مٹی سے مانجھو ، ابوہریرہ (رض) نے عبداللہ بن مغفل کی مخالفت کی ہے اور (اپنی روایت میں) یوں کہا ہے : ان میں سے ایک بار مٹی سے مانجھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے پہلے ایک روایت میں عفروه الثامنة اور دوسری روایت میں إحداهن بالتراب کے الفاظ آئے ہیں، ان تینوں روایتوں میں بظاہر تعارض ہے، ان میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ إحداهن والی مبہم روایت أولاهن والی معین روایت پر محمول کی جائے گی، اب سات اور آٹھ کی عدد میں جو اختلاف باقی رہ گیا ہے تو سات کو وجوب، اور آٹھ کو ندب اور احتیاط پر محمول کیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 337

【14】

کتے کے جوٹھے برتن کو مٹی سے مانجھنے سے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال دے تو وہ اسے سات مرتبہ دھوئے ان میں سے پہلی مرتبہ مٹی سے (مانجھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف ١٤٦٦٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 338

【15】

کتے کے جوٹھے برتن کو مٹی سے مانجھنے سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھوئے، ان میں سے پہلی مرتبہ مٹی سے (مانجھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٣٧ (٧٣) بنحوہ وفیہ السابقة بالتراب، (تحفة الأشراف ١٤٤٩٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 339

【16】

بلی کے جوٹھے سے متعلق

کبشہ بنت کعب سے روایت ہے کہ ابوقتادہ (رض) ان کے پاس آئے (پھر راوی نے ایک کلمے کا ذکر کیا جس کا مفہوم ہے) کہ میں نے ان کے لیے وضو کا پانی (لوٹے میں) ڈالا، اتنے میں ایک بلی آئی، اور اس سے پینے لگی، تو انہوں نے اس کے لیے برتن جھکا دیا یہاں تک کہ اس نے پی لیا، کبشہ کہتی ہیں : تو انہوں نے مجھے دیکھا کہ میں انہیں (تعجب سے) دیکھ رہی ہوں، تو کہنے لگے : بھتیجی ! کیا تم تعجب کر رہی ہو ؟ میں نے کہا : ہاں ! تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : یہ ناپاک نہیں ہے، یہ تو تمہارے پاس بکثرت آنے جانے والوں اور آنے جانے والیوں میں سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 340

【17】

حائضہ عورت کے جھوٹے کا حکم

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اپنے دانتوں سے ہڈی سے گوشت نوچتی تھی، تو رسول اللہ ﷺ اپنا منہ مبارک وہیں رکھتے جہاں میں نے رکھا ہوتا، اور میں حائضہ ہوتی تھی، اور میں برتن سے پانی پیتی تھی تو آپ اپنا منہ مبارک اسی جگہ رکھتے جہاں میں رکھا ہوتا، اور میں حائضہ ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 341

【18】

عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کی اجازت

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مرد اور عورتیں دونوں ایک ساتھ وضو کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ظاہر ہے دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے سے پہلے فارغ ہوتا، اور پانی دوسرے کے لیے بچ جاتا تو اگر یہ جائز نہ ہوتا تو وہ ایسا نہ کرتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 342

【19】

عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے سے منع سے متعلق

حکم بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرد کو عورت کے وضو کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ٤٠ (٨٢) ، سنن الترمذی/فیہ ٤٧ (٦٤) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٣٤ (٣٧٣) ، (تحفة الأشراف ٣٤٢١) ، مسند احمد ٤/٢١٣ و ٥/٦٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ نہی تحریمی نہیں تنزیہی ہے، (دیکھیں پچھلی حدیث) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 343

【20】

جنبی کے غسل سے جو پانی بچ جائے اس سے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرتی تھیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس میں اور اس سے پہلے والی حدیث میں تعارض ہے، دونوں میں تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ نہی والی روایت کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جاتا ہے، اور اس حدیث کو بیان جواز پر۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 344

【21】

وضو اور غسل کے واسطے کتنا پانی کافی ہے؟

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مد سے وضو کرتے تھے، اور پانچ مد سے غسل کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث میں لفظ مکوک سے مراد مُد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 345

【22】

وضو اور غسل کے واسطے کتنا پانی کافی ہے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مد پانی سے وضو، اور ایک صاع کے برابر پانی سے غسل کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤٤(٩٢) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١(٢٦٨) ، مسند احمد (٦/١٢١، ٢٣٤، ٢٣٨، ٢٤٩) ، (تحفة الأشراف ١٧٨٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 346

【23】

وضو اور غسل کے واسطے کتنا پانی کافی ہے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مد سے وضو، اور ایک صاع سے غسل کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف ١٧٨٣٧) ، مسند احمد ٦/٢٧٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 347