15. بارش طلبی کی نماز سے متعلقہ احادیث

【1】

امام نماز استسقاء کی امامت کب کرے؟

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! چوپائے ہلاک ہوگئے، (اور پانی نہ ہونے سے) راستے (سفر) ٹھپ ہوگئے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے دعا کی، تو جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک ہم پر بارش ہوتی رہی، تو پھر ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! گھر منہدم ہوگئے، راستے (سیلاب کی وجہ سے) کٹ گئے، اور جانور مرگئے، تو آپ نے دعا کی : اللہم على رءوس الجبال والآکام وبطون الأودية ومنابت الشجر اے اللہ ! پہاڑوں کی چوٹیوں، ٹیلوں، نالوں اور درختوں پر برسا تو اسی وقت بادل مدینہ سے اس طرح چھٹ گئے جیسے کپڑا (اپنے پہننے والے سے اتار دینے پر الگ ہوجاتا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستسقاء ٦ (١٠١٣) ، ٧ (١٠١٤) ، ٩ (١٠١٦) ، ١٠ (١٠١٧) ، ١٢ (١٠١٩) ، صحیح مسلم/الإستسقاء ٢ (٨٩٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٠ (١١٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٦) ، موطا امام مالک/الإستسقاء ٢ (٣) ، مسند احمد ٣/٤ ١٠، ١٨٢، ١٩٤، ٢٤٥، ٢٦١، ٢٧١ ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١٥١٦، ١٥١٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1504

【2】

امام کا بارش کی نماز کے لئے باہر نکلنا

عبداللہ بن زید (رض) (جنہیں خواب میں اذان دکھائی گئی تھی) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ استسقاء کی نماز پڑھنے کے لیے عید گاہ کی طرف نکلے۔ تو آپ نے قبلہ کی طرف رخ کیا، اور اپنی چادر پلٹی، اور دو رکعت نماز پڑھی۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہ ابن عیینہ کی غلطی ہے ١ ؎ عبداللہ بن زید جنہیں خواب میں اذان دکھائی گئی تھی وہ عبداللہ بن زید بن عبد ربہ ہیں، اور یہ جو استسقا کی حدیث روایت کر رہے ہیں عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإستسقاء ١ (١٠٠٥) ٤ (١٠١١، ١٠١٢) ، ١٥ (١٠٢٣) ، ١٦ (١٠٢٤) ، ١٧ (١٠٢٥) ، ١٨ (١٠٢٦) ، ١٩ (١٠٢٧) ، ٢٠ (١٠٢٨) ، الدعوات ٢٥ (٦٣٤٣) ، صحیح مسلم/الإستسقاء ١ (٨٩٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٥٨ (١١٦١، ١١٦٢، ١١٦٣، ١١٦٤) ، ٢٥٩ (١١٦٦، ١١٦٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٨ (الجمعة ٤٣) (٥٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٣ (١٢٦٧) ، موطا امام مالک/الإستسقاء ١ (١) ، مسند احمد ٤/٣٨، ٣٩، ٤٠، ٤١، ٤٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٨ (١٥٧٤، ١٥٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٧) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١٥٠٨، ١٥١٠، ١٥١١، ١٥١٢، ١٥١٣، ١٥٢٠، ١٥٢١، ١٥٢٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی سفیان بن عیینہ کا اس حدیث کے راوی کے بارے میں یہ کہنا کہ انہیں کو خواب میں اذان دکھائی گئی ان کا وہم ہے، اذان عبداللہ بن زیدبن عبدربہ کو دکھائی گئی، اور اس حدیث کے راوی کا نام عبداللہ بن زید بن عاصم ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1505

【3】

امام کے لئے (نماز استسقاء میں) کس طریقہ سے نکلنا بہتر ہے

اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ فلاں نے مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس بھیجا کہ میں ان سے رسول اللہ ﷺ کی نماز استسقاء کے بارے میں پوچھوں۔ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ (استسقاء کی نماز کے لیے) عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتے ہوئے پھٹے پرانے کپڑے میں نکلے، تو آپ نے تمہارے اس خطبہ کی طرح خطبہ نہیں دیا ١ ؎ آپ نے دو رکعت نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٥٨ (١١٦٥) ، سنن الترمذی/فیہ ٢٧٨ (الجمعة ٤٣) (٥٥٨، ٥٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٣ (١٢٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٥٩) ، مسند احمد ١/٢٣٠، ٢٦٩، ٣٥٥، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١٥٠٩، ١٥٢٢ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: بلکہ آپ کا خطبہ دعا و استغفار اور اللہ سے عاجزی اور گڑگڑانے پر مشتمل تھا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1506

【4】

امام کے لئے (نماز استسقاء میں) کس طریقہ سے نکلنا بہتر ہے

عبداللہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے استسقاء کی نماز پڑھی، اور آپ کے جسم مبارک پر ایک سیاہ چادر تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1507

【5】

استسقاء میں امام کا منبر پر تشریف رکھنا

اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہم سے رسول اللہ ﷺ کے استسقاء کی نماز کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ پھٹے پرانے کپڑوں میں عاجزی اور گریہ وزاری کا اظہار کرتے ہوئے نکلے، اور منبر پر بیٹھے، تو آپ نے تمہارے اس خطبہ کی طرح خطبہ نہیں دیا، بلکہ آپ برابر دعا اور عاجزی کرتے رہے، اور اللہ کی بڑائی بیان کرنے میں لگے رہے، اور آپ نے دو رکعت نماز پڑھی جیسے آپ عیدین میں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٠٧ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1508

【6】

بوقت استسقاء امام دعا مانگے اور پشت کو لوگوں کی طرف پھیر لے۔

عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ استسقاء کی نماز کے لیے نکلے تو آپ نے اپنی چادر پلٹی، اور لوگوں کی جانب اپنی پیٹھ پھیری، اور دعا کی، پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، اور قرآت کی تو بلند آواز سے قرآت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1509

【7】

بوقت استقاء امام کا چادر الٹ دینا

عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ استسقاء کے لیے نکلے، تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، اور اپنی چادر پلٹی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم : ١٥٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1510

【8】

کس وقت امام اپنی چادر کو الٹے

عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (جائے نماز کی طرف) نکلے، تو آپ نے استسقاء کی نماز پڑھی، اور جس وقت آپ قبلہ رخ ہوئے اپنی چادر پلٹی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1511

【9】

امام کا بوقت استسقاء بغرض دعا ہاتھوں کا اٹھانا

عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو استسقاء میں دیکھا کہ آپ قبلہ رخ ہوئے، آپ نے اپنی چادر پلٹی، اور (دعا مانگنے کے لیے) اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1512

【10】

ہاتھ کہاں تک بلند کیے جائیں؟

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سوائے استسقاء کے اپنے دونوں ہاتھ کسی دعا میں نہیں اٹھاتے تھے، آپ اس میں اپنے دونوں ہاتھ اتنا بلند کرتے کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإستسقاء ٢٢ (١٠٣١) ، المناقب ٢٣ (٣٥٦٥) ، الدعوات ٢٣ (٦٣٤١) ، صحیح مسلم/الإستسقاء ١ (٨٩٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٠ (١١٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٨ (١١٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٨) ، مسند احمد ٣/ ١٨١، ٢٨٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٩ (١٥٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1513

【11】

ہاتھ کہاں تک بلند کیے جائیں؟

آبی اللحم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو احجار الزیت کے پاس دیکھا کہ آپ بارش کے لیے دعا کر رہے تھے، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اٹھائے دعا کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٨ (الجمعة ٤٣) (٥٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٠ (١١٦٨) ، مسند احمد ٥/٢٢٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: احجار الزیت مدینہ میں ایک مقام کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1514

【12】

ہاتھ کہاں تک بلند کیے جائیں؟

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ جمعہ کے روز مسجد میں تھے، اور رسول اللہ ﷺ لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! راستے (سفر) ٹھپ ہوگئے، جانور ہلاک ہوگئے، اور علاقے خشک سالی کا شکار ہوگئے، لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ ہمیں سیراب کرے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے کے بالمقابل اٹھایا، پھر آپ نے دعا کی : اللہم اسقنا اے اللہ ! ہمیں سیراب کر تو قسم اللہ کی ! رسول اللہ ﷺ ابھی منبر سے اترے بھی نہ تھے کہ زور دار بارش ہونے لگی، اور اس دن سے دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ چناچہ پھر ایک آدمی کھڑا ہوا (مجھے یاد نہیں کہ یہ وہی شخص تھا جس نے رسول اللہ ﷺ سے بارش کے لیے دعا کرنے کے لیے کہا تھا یا کوئی دوسرا شخص تھا) اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! پانی کی زیادتی کی وجہ سے راستے بند ہوگئے ہیں، اور جانور ہلاک ہوگئے ہیں، لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ (اب) ہم سے بارش روک لے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی : اللہم حوالينا ولا علينا ولکن على الجبال ومنابت الشجر اے اللہ ! ہمارے اطراف میں برسا، ہم پر نہ برسا، اور پہاڑوں پر اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر برسا ۔ انس (رض) کہتے ہیں : قسم اللہ کی ! آپ کا یہ کہنا ہی تھا کہ بادل پھٹ پھٹ کر (آسمان صاف ہوگیا) یہاں تک کہ ہمیں اس میں سے کچھ نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1515

【13】

دعا کے متعلق

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دعا کی : اللہم اسقنا اے اللہ ! ہمیں سیراب فرما ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٦٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1516

【14】

دعا کے متعلق

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ کچھ لوگ آپ کی طرف اٹھ کر بڑھے، اور چلا کر کہنے لگے : اللہ کے نبی ! بارش نہیں ہو رہی ہے، اور جانور ہلاک ہو رہے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ ہمیں سیراب کرے۔ تو آپ نے دعا کی : اللہم اسقنا اللہم اسقنا اے اللہ ! ہمیں سیراب فرما، اے اللہ ہمیں سیراب فرما ۔ انس (رض) کہتے ہیں : قسم اللہ کی ! اس وقت ہم کو آسمان میں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نظر نہیں آ رہا تھا (مگر آپ کے دعا کرتے ہی) بدلی اٹھی، اور پھیل گئی، پھر برسنے لگی، رسول اللہ ﷺ اترے، اور آپ نے نماز پڑھی، اور لوگ فارغ ہو کر پلٹے تو دوسرے جمعہ تک برابر بارش ہوتی رہی۔ تو دوسرے جمعہ کو جب رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگے، تو لوگ پھر چلا کر کہنے لگے : اللہ کے نبی ! گھر گرگئے، راستے ٹھپ ہوگئے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ اب اسے ہم سے روک لے، تو رسول اللہ ﷺ مسکرائے، اور آپ نے دعا فرمائی : اللہم حوالينا ولا علينا اے اللہ ! ہمارے اطراف میں برسا ہم پر نہ برسا تو بادل مدینہ سے چھٹ گئے، اور اس کے اطراف میں برسنے لگے، اور مدینہ میں ایک بوند بارش کی نہیں پڑ رہی تھی۔ میں نے مدینہ کو دیکھا کہ وہ ایسا لگ رہا تھا گویا وہ تاج پہنے ہوئے ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإستسقاء ١٤ (١٠٢١) ، صحیح مسلم/الإستسقاء ٢ (٨٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1517

【15】

دعا کے متعلق

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا، اور رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے، تو وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف رخ کر کے کھڑا ہوگیا، اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! مال (جانور) ہلاک ہوگئے، اور راستے بند ہوگئے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ ہمیں سیراب کرے، تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، اور دعا کی : اللہم أغثنا اللہم أغثنا اے اللہ ! ہمیں سیراب فرما، اے اللہ ہمیں سیراب فرما ۔ انس (رض) کہتے ہیں : قسم اللہ کی ! ہم کو آسمان میں کہیں بادل یا بادل کا کوئی ٹکڑا دکھائی نہیں دے رہا تھا، اور ہمارے اور سلع پہاڑی کے بیچ کسی گھر یا مکان کی آڑ نہ تھی، اتنے میں ڈھال کے مانند بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا، پھر جب وہ آسمان کے درمیان میں پہنچا تو پھیل گیا، اور برسنے لگا۔ انس (رض) کہتے ہیں : قسم اللہ کی ! ہم نے ایک ہفتہ تک سورج نہیں دیکھا۔ پھر اگلے جمعہ میں اسی دروازے سے ایک آدمی داخل ہوا، اور رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے، تو وہ آپ کی طرف چہرہ کر کے کھڑا ہوگیا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ کا سلام و صلاۃ (درود و رحمت) ہو آپ پر ! مال ہلاک ہوگئے (جانور مرگئے) ، اور راستے بند ہوگئے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ ہم سے اسے روک لے، تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے، اور دعا کی : اللہم حوالينا ولا علينا اللہم على الآکام والظراب وبطون الأودية ومنابت الشجر اے اللہ ! ہمارے اردگرد برسا، ہم پر نہ برسا، اے اللہ ! ٹیلوں، چوٹیوں، گھاٹیوں اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر برسا یہ کہنا تھا کہ بادل چھٹ گئے، اور ہم نکل کر دھوپ میں چل رہے تھے۔ شریک بن عبداللہ بن ابی نمر کہتے ہیں کہ میں نے انس (رض) سے پوچھا : کیا یہ وہی پہلا شخص تھا، تو انہوں نے کہا : نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٠٥ (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں جزم ہے، اور اس سے پہلے ایک روایت گزر چکی ہے اس میں ہے کہ انہوں نے کہا لا أدری ہو الذی قال لرسول اللہ ﷺ استسق لنا أم لا دونوں میں اس طرح تطبیق دی گئی ہے کہ شاید انہیں بھول جانے کے بعد یاد آیا ہو، یا یاد رہا ہو پھر بھول گئے ہوں یا لا یہاں لا أدری کے معنی میں ہو۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1518

【16】

دعا مانگنے کے بعد نماز ادا کرنا

عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ استسقاء کی غرض سے نکلے، تو آپ نے لوگوں کی جانب اپنی پیٹھ پھیری، اور قبلہ رخ کھڑے ہو کر اللہ سے دعا کی، اور اپنی چادر الٹی، پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی۔ ابن ابی ذئب کہتے ہیں : حدیث میں یہ بھی ہے : وقرأ فيهما اور ان دونوں میں قرأت کی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1519

【17】

نماز استقاء کی رکعتیں

عبداللہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرنے نکلے، تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، اور قبلہ کی طرف منہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1520

【18】

نماز استسقاء ادا کرنے کا طریقہ

اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ امراء میں سے ایک امیر نے مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس بھیجا کہ میں ان سے استسقاء کے بارے میں پوچھوں، تو ابن عباس رضی اللہ عنہم نے کہا : وہ مجھ سے خود کیوں نہیں پوچھتے ؟ رسول اللہ ﷺ عاجزی و انکساری کے ساتھ پھٹے پرانے کپڑوں میں گریہ وزاری کرتے ہوئے نکلے، پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، اسی طرح جیسی آپ عیدین میں پڑھتے تھے، اور آپ نے تمہارے اس خطبہ کی طرح خطبہ نہیں دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٠٧ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یہاں نفی قید کی ہے، مقید کی نہیں جیسا کہ اس پر وہ احادیث دلالت کرتی ہیں جن میں خطبہ کی تصریح ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1521

【19】

نماز استسقاء میں بآواز بلند قرأت کرنا

عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ استسقاء کے لیے نکلے، تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، ان میں آپ نے بلند آواز سے قرآت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1522

【20】

بارش کے وقت کیا دعا کی جائے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بارش ہوتی تو کہتے : ‏اللہم اجعله صيبا نافعا اے اللہ ! خوب برسا اور اسے فائدہ مند بنا ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأدب ١١٣ (٥٠٩٩) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٢١ (٣٨٨٩) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ١٦١٤٦) ، مسند احمد ٦/٤١، ٩٠، ١١٩، ١٣٧، ١٣٨، ١٦٦، ١٩٠، ٢٢٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1523

【21】

ستاروں کی وجہ سے مینہ برسنے کے عقیدہ کا رد

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جب بھی میں نے اپنے بندوں کو بارش کی نعمت سے نوازا تو ان میں سے ایک گروہ اس کی وجہ سے کافر رہا، وہ لوگ کہتے رہے : فلاں ستارے نے ایسا کیا ہے، اور فلاں ستارے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٢ (٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤١١٣) ، مسند احمد ٢/٣٦٢، ٣٦٨، ٤٢١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حالانکہ ستاروں میں کوئی طاقت نہیں، وہ تو جماد ہیں، یہ نعمت تو اس ذات باری تعالیٰ نے دی ہے جس نے ستاروں، ساری مخلوقات کو پیدا کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1524

【22】

ستاروں کی وجہ سے مینہ برسنے کے عقیدہ کا رد

زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں بارش ہوئی تو آپ نے فرمایا : کیا تم نے سنا نہیں کہ تمہارے رب نے آج رات کیا فرمایا ؟ اس نے فرمایا : میں نے جب بھی بارش کی نعمت اپنے بندوں پر کی تو ان میں سے ایک گروہ اس کی وجہ سے کافر رہا، وہ کہتا رہا : فلاں و فلاں نچھتر کے سبب ہم پر بارش ہوئی، تو رہا وہ شخص جو مجھ پر ایمان لایا، اور میرے بارش برسانے پر اس نے میری تعریف کی، تو یہ وہی شخص ہے جو مجھ پر ایمان لایا، اور ستاروں کا انکار کیا، اور جس نے کہا : ہم فلاں فلاں نچھتر کے سبب بارش دیئے گئے، تو یہ وہ شخص ہے جس نے میرے ساتھ کفر کیا، اور ستاروں پر ایمان رکھا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥٦ (٨٤٦) ، الاستسقاء ٢٨ (١٠٣٨) ، المغازي ٣٥ (٤١٤٧) ، التوحید ٣٥ (٧٥٠٣) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٢ (٧١) ، سنن ابی داود/الطب ٢٢ (٣٩٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٥٧) ، موطا امام مالک/الاستسقاء ٣ (٤) ، مسند احمد ٤/١١٥، ١١٦، ١١٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1525

【23】

ستاروں کی وجہ سے مینہ برسنے کے عقیدہ کا رد

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے پانچ سال تک بارش روکے رکھے، پھر اسے چھوڑے تو بھی لوگوں میں سے ایک گروہ کافر ہی رہے گا، کہے گا : ہم تو مجدح ستارے کے سبب برسائے گئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤١٤٨) ، مسند احمد ٣/٧، سنن الدارمی/الرقاق ٤٩ (٢٨٠٤) (ضعیف) (اس کے راوی ” عتاب “ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: مجدح ستارے ان ستاروں میں سے ایک ستارے کا نام ہے جو عربوں کے نزدیک بارش پر دلالت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے بارش بند ہونے کی دعا کرے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1526

【24】

اگر نقصان کا خطرہ ہو تو امام بارش کے تھمنے کے لئے دعا کرے

انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک سال بارش نہیں ہوئی تو کچھ مسلمان جمعہ کے دن نبی اکرم ﷺ کے سامنے کھڑے ہوئے، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! بارش نہیں ہو رہی ہے، زمین سوکھ گئی ہے، اور جانور ہلاک ہوگئے ہیں، تو آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، اور اس وقت آسمان میں ہمیں بادل کا کوئی ٹکڑا نظر نہیں آ رہا تھا، آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو خوب دراز کیا یہاں تک کہ مجھے آپ کے بغلوں کی سفیدی دکھائی دینے لگی، آپ اللہ تعالیٰ سے پانی برسنے کے لیے دعا کر رہے تھے۔ ابھی ہم جمعہ کی نماز سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے (کہ بارش ہونے لگی) یہاں تک کہ جس جوان کا گھر قریب تھا اس کو بھی اپنے گھر جانا مشکل ہوگیا، اور برابر دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی، جب اگلا جمعہ آیا تو لوگ کہنے لگے : اللہ کے رسول ! گھر گرگئے، اور سوار محبوس ہو کر رہ گئے، تو رسول اللہ ﷺ ابن آدم (انسان) کے جلد اکتا جانے پر مسکرائے، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کی : اللہم حوالينا ولا علينا اے اللہ ! ہمارے اطراف میں برسا اور (اب) ہم پر نہ برسا تو مدینہ سے بادل چھٹ گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٩٦) ، مسند احمد ٣/١٠٤ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1527

【25】

بارش کی دعا کرنے کے لئے ہاتھوں کا بلند کرنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ (ایک بار) رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگوں کو قحط سالی سے دو چار ہونا پڑا، رسول اللہ ﷺ منبر پر جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک اعرابی (بدو) کھڑا ہوا، اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! مال (جانور) ہلاک ہوگئے، اور بال بچے بھوکے ہیں، لہٰذا آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا، اس وقت ہمیں آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ آپ نے اپنے ہاتھوں کو ابھی نیچے بھی نہیں کیا تھا کہ بادل پہاڑ کے مانند امنڈنے لگا، اور آپ ابھی اپنے منبر سے اترے بھی نہیں کہ میں نے دیکھا بارش کا پانی آپ کی داڑھی سے ٹپک رہا ہے، ہم پر اس دن، دوسرے دن اور اس کے بعد والے دن یہاں تک کہ دوسرے جمعہ تک برابر بارش ہوتی رہی، تو وہی اعرابی یا کوئی اور شخص کھڑا ہوا، اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! عمارتیں منہدم ہوگئیں، اور مال و اسباب ڈوب گئے، لہٰذا آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے۔ تو پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا، اور آپ نے یوں دعا کی : اللہم حوالينا ولا علينا اے اللہ ! ہمارے اطراف میں برسا اور (اب) ہم پر نہ برسا چناچہ آپ نے اپنے ہاتھ سے بادل کی جانب جس طرف سے بھی اشارہ کیا، وہ وہاں سے چھٹ گئے یہاں تک کہ مدینہ ایک گڈھے کی طرح لگنے لگا، اور وادی پانی سے بھر گئی، اور جو بھی کوئی کسی طرف سے آتا یہی بتاتا کہ خوب بارش ہوئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٥ (٩٣٣) ، الإستسقاء ١١ (١٠١٨) ، ٢٤ (١٠٣٢) ، صحیح مسلم/الإستسقاء ٢ (٨٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤) ، مسند احمد ٣/٢٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1528