46. فضائل کا بیان

【1】

نبی ﷺ کے نسب مبارک کی فضیلت اور نبوت سے قبل پتھر کا آپ ﷺ کو سلام کرنے کے بیان میں

محمد بن مہران رازی محمد بن عبدالرحمن بن سہم ولید ابن مہران ولید بن مسلم، اوزاعی ابی عمار شداد، حضرت واثلہ بن اسقع (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے کنانہ کو چنا اور قریش کو کنانہ میں سے چنا اور قریش میں سے بنی ہاشم کو چنا اور پھر بنی ہاشم میں سے مجھے چنا۔

【2】

نبی ﷺ کے نسب مبارک کی فضیلت اور نبوت سے قبل پتھر کا آپ ﷺ کو سلام کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن ابی بکیر ابراہیم، بن طہمان سماک بن حرب، حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں کہ جو مکہ مکرمہ میں میرے مبعوث ہونے سے پہلے مجھ پر سلام کیا کرتا تھا۔

【3】

اس بات کے بیان میں کہ ساری مخلوقات میں سب سے افضل ہمارے نبی ﷺ ہیں۔

حکم بن موسیٰ ابوصالح ہقل ابن زیاد اوزاعی ابوعمار عبداللہ بن فروض حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میں حضرت آدم کی اولاد کا سردار ہوں گا اور سب سے پہلے میری قبر کھلے گی اور سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی۔

【4】

نبی ﷺ کے معجزات کے بیان میں

ابوربیع سلیمان بن داؤد عتکی حماد بن زید ثابت حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے پانی مانگا تو ایک کشادہ پیالہ لایا گیا لوگ اس میں سے وضو کرنے لگے میں نے اندازہ لگایا کہ ساٹھ سے اسی تک لوگوں نے وضو کیا ہوگا اور میں پانی کو دیکھ رہا تھا کہ آپ ﷺ کی انگلیوں سے پھوٹ رہا ہے۔

【5】

نبی ﷺ کے معجزات کے بیان میں

اسحاق بن موسیٰ انصاری معن مالک ابوطاہر ابن وہب، مالک بن انس، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس حال میں دیکھا کہ عصر کی نماز کا وقت ہوگیا تھا اور لوگوں نے وضو کرنے کے لئے پانی تلاش کیا لیکن پانی نہیں ملا پھر تھوڑا سا پانی رسول اللہ ﷺ کے وضو کے لئے لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ مبارک رکھ دیا اور صحابہ کرام (رض) کو اس پانی سے وضو کرنے کا حکم فرمایا حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ پانی آپ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے بہہ رہا ہے پھر صحابہ کرام (رض) نے وضو کیا یہاں تک کہ ان میں سے جو سب سے آخر میں تھا اس نے بھی وضو کیا۔

【6】

نبی ﷺ کے معجزات کے بیان میں

ابوغسان مسمعی معاذ ابن ہشام ابوقتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام (رض) زوراء کے مقام میں تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ زوراء مدینہ منورہ کے بازار میں مسجد کے قریب ایک مقام ہے آپ ﷺ نے پانی کا پیالہ منگوایا اور آپ ﷺ نے اپنی ہتھیلی مبارک اس پانی والے پیالے میں رکھ دی تو آپ کی انگلیوں سے پانی پھوٹنے لگا پھر آپ کے تمام صحابہ نے اس سے وضو کیا حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے پوچھا کہ اے ابوحمزہ صحابہ کرام کتنی تعداد میں تھے حضرت انس (رض) نے فرمایا صحابہ کرام (رض) اس وقت تقریبا تین سو کی تعداد میں تھے۔

【7】

نبی ﷺ کے معجزات کے بیان میں

محمد بن مثنی محمد بن جعفر، سعید قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ زوراء کے مقام میں تھے کہ آپ کی خدمت میں ایک برتن لایا گیا کہ جس میں صرف اتنا پانی تھا کہ اس میں آپ ﷺ کی انگلیاں ڈوبتی نہیں تھیں یا آپ ﷺ کی انگلیاں اس میں چھپتی نہیں تھیں پھر ہشام کی روایت کی طرح ذکر کی۔

【8】

نبی ﷺ کا اپنے صحابہ کرام کے درمیان بھائی چارہ قائم کرانے کے بیان میں

سلمہ بن شبیب حسن بن اعین معقل ابن زبیر جابر، ام مالک حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت مالک (رض) کی والدہ نبی ﷺ کی خدمت میں گھی کے ایک برتن میں گھی بطور ہدیہ کے بھیجا کرتی تھیں پھر اس کے بیٹے آتے اور اپنی والدہ سے سالن مانگتے لیکن ان کے پاس کوئی چیز نہ ہوتی تو حضرت مالک کی والدہ اس برتن کے پاس جاتیں جس میں وہ نبی ﷺ کے لئے گھی بھیجا کرتی تھیں تو وہ اس برتن میں گھی موجود پاتیں تو اس طرح ہمیشہ ان کے گھر کا سالن چلتا رہا یہاں تک کہ ام مالک نے اس برتن کو نچوڑ لیا (یعنی بالکل خالی کردیا) پھر وہ نبی ﷺ کی خدمت میں آئیں تو آپ نے فرمایا تو نے اس برتن کو نچوڑ لیا ہوگا تو اس نے کہا جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کاش تو اسے اسی طرح چھوڑ دیتی تو وہ ہمیشہ قائم رہتا۔

【9】

نبی ﷺ کے معجزات کے بیان میں

سلمہ بن شبیب حسن بن اعین معقل ابی زبیر حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں آیا اور اس نے آپ ﷺ سے کھانے کے لئے کچھ مانگا تو آپ ﷺ نے اسے آدھا وسق جو دے دیئے پھر وہ آدمی اور اس کی بیوی اور ان کے مہمان ہمیشہ اس سے کھاتے رہے یہاں تک کہ اس نے اس کا وزن کرلیا پھر نبی ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کاش کہ تو اس کا وزن نہ کرتا تو ہمیشہ تم اسی میں سے کھاتے رہتے اور وہ تمہارے لئے قائم رہتا۔

【10】

نبی ﷺ کے معجزات کے بیان میں

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، ابوعلی حنفی مالک ابن انس، ابوزبیر، مکی ابوطفیل عامر بن واثلہ حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ تبوک والے سال ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو آپ ﷺ نمازوں کو جمع فرماتے تھے ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی پڑھتے تھے اور مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے ایک دن نماز میں دیر فرمائی پھر آپ ﷺ نکلے اور ظہر و عصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں پھر آپ ﷺ اندر تشریف لے گئے پھر اس کے بعد آپ ﷺ تشریف لائے اور مغرب اور عشا کی نمازیں اکٹھی پڑھیں پھر آپ نے فرمایا اگر اللہ نے چاہا تو کل تم دن چڑھے تک چشمہ پر پہنچ جاؤ گے اور تم میں کوئی اس چشمے کے پانی کو ہرگز ہاتھ نہ لگائے جب تک کہ میں نہ آجاؤں۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم سے پہلے دو آدمی اس چشمے کی طرف پہنچ گئے اور چشمے میں پانی جوتی کے تسمے کے برابر ہوگا اور وہ پانی بھی آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں آدمیوں سے پوچھا کہ کیا تم نے اس چشمے کے پانی کو ہاتھ لگایا ہے انہوں نے کہا جی ہاں تو نبی ﷺ نے جو اللہ نے چاہا ان کو برا کہا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر لوگوں نے اپنے ہاتھوں کے ساتھ چشمہ کا تھوڑا تھوڑا پانی ایک برتن میں جمع کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک اور اپنے چہرہ اقدس کو دھویا پھر وہ پانی اس چشمہ میں ڈال دیا پھر اس چشمہ سے جوش مارتے ہوئے پانی بہنے لگا یہاں تک کہ لوگوں نے بھی پانی پیا ( اور جانوروں نے بھی پانی پیا) پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے معاذ اگر تیری زندگی لمبی ہوئی تو تو دیکھے گا کہ اس چشمے کا پانی باغوں کو سیراب کر دے گا۔

【11】

نبی ﷺ کے معجزات کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب سلیمان بن بلال عمرو بن یحییٰ عباس بن سہل بن سعد ساعدی حضرت ابوحمید سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو ہم وادی قری میں ایک عورت کے باغ پر آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس باغ کے پھلوں کا اندازہ تو لگاؤ تو ہم نے اندازہ لگایا اور رسول اللہ کے اندازے کے مطابق دس وسق معلوم ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا اگر اللہ نے چاہا تو ہمارا تیری طرف واپس آنے تک اس تعداد کو یاد رکھنا اور پھر ہم چلے یہاں تک کہ تبوک میں آگئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آج رات بہت تیز آندھی چلے گی اور تم میں سے کوئی آدمی بھی اس میں کھڑا نہ ہو جس آدمی کے پاس اونٹ ہیں وہ انہیں مضبوطی سے باندھ دے ایسے ہی ہوا بہت تیز آندھی چلی ایک آدمی کھڑا ہوا تو ہوا اسے لے کر اڑ گئی یہاں تک کہ طی کے دونوں پہاڑوں کے درمیان اسے ڈال دیا پھر اس کے بعد علماء کے بیٹے کا ایک قاصد جو کہ ایلہ کا حکمران تھا وہ ایک کتاب اور ایک سفید گدھا رسول اللہ ﷺ کے لئے بطور ہدیہ لے کر آیا رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کی طرف جواب لکھا اور ایک چادر بطور ہدیہ اس کی طرف بھیجی پھر ہم واپس ہوئے یہاں تک کہ ہم وادی قری میں آگئے تو رسول اللہ ﷺ نے اس عورت سے اس پھل کے باغ کے بارے میں پوچھا کہ اس باغ میں کتنا پھل نکلا اس عورت نے عرض کیا دس وسق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں جلدی جانے والا ہوں اور تم میں سے جو کوئی جلدی جانا چاہے تو وہ میرے ساتھ چلے اور جو چاہے تو ٹھہر جائے پھر ہم نکلے یہاں تک کہ ہمیں مدینہ منورہ نظر آنے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ طابہ ہے اور یہ احد ہے اور یہ وہ احد پہاڑ ہے کہ جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا انصار کے سب گھروں سے بہتر بنی نجار کے گھر ہیں پھر قبیلہ عبدالا شہل کے گھر اور انصار کے سب گھروں میں خیر ہے پھر حضرت سعد بن عبادہ ہم سے ملے تو حضرت ابوسعید (رض) نے ان سے کہا کیا تو نے خیال نہیں کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کے گھروں کی بھلائی بیان کی ہے اور ہمیں سب سے آخر میں کردیا ہے حضرت سعد (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ نے انصار کے گھروں کی بھلائی بیان کی ہے اور آپ ﷺ نے ہمیں سب سے آخر میں کردیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تم پسندیدہ لوگوں میں سے ہوجاؤ۔

【12】

نبی ﷺ کے معجزات کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان اسحاق بن ابراہیم، مغیرہ بن سلمہ مخزومی وہیب حضرت عمر بن یحییٰ نے اسی سند کے ساتھ روایت نقل کی ہے (اس روایت میں) آپ ﷺ کے اس فرمان تک ہے کہ انصار کے سب گھروں میں بھلائی ہے اور اس کے بعد حضرت سعد (رض) بن عبادہ والے واقعہ کا ذکر نہیں کیا اور وہیب کی حدیث میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایلہ والوں کے لئے ان کا ملک لکھ دیا اور وہب کی حدیث میں یہ الفاظ نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف لکھا۔

【13】

نبی ﷺ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کے بیان میں

عبد بن حمید عبدالرزاق، معمر، زہری، ابوسلمہ جابر، ابوعمران محمد بن جعفر بن زیاد ابراہیم ابن سعد زہری، سنان بن ابی سنان دولی حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نجد کی طرف ایک غزوہ میں گئے تو ہم نے رسول اللہ کو ایک ایسی وادی میں پایا جہاں کانٹے دار درخت بہت تھے رسول اللہ ﷺ ایک درخت کے نیچے اترے اور آپ ﷺ نے تلوار ایک شاخ سے لٹکا دی اور صحابہ کرام (رض) اس وادی کے درختوں کے سائے میں علیحدہ علیحدہ ہو کر بیٹھ گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک آدمی میرے پاس اس حال میں آیا کہ میں سو رہا تھا تو اس نے تلوار پکڑ لی میں بیدار ہو تو وہ آدمی میرے سر پر کھڑا تھا مجھے صرف اس وقت پتہ چلا جب ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی وہ آدمی مجھ سے کہنے لگا اب تجھے کون مجھ سے بچائے گا میں نے کہا اللہ دوبارہ پھر اس نے مجھ سے کہا اب تجھے کون مجھ سے بچائے گا میں نے کہا اللہ اس نے تلوار اپنی نیام میں ڈالی وہ آدمی یہ بیٹھا ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے اس سے کچھ تعرض نہیں فرمایا۔

【14】

نبی ﷺ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کے بیان میں

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی ابوبکر بن اسحاق ابویمان شعیب زہری، سنان بن ابی سنان دولی ابوسلمہ بن عبدالرحمن حضرت جابر بن عبداللہ انصاری (رض) جو کہ نبی ﷺ کے صحابہ کرام (رض) میں سے تھے وہ خبر دیتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ نجد کی طرف ایک غزوہ میں گئے تو جب نبی ﷺ واپس ہوئے تو ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھے ایک دن دوپہر کو ہم نے ان کو آرام کرتے ہوئے پایا پھر اس کے بعد معمر اور ابراہیم بن سعد کی طرح حدیث ذکر کی۔

【15】

نبی ﷺ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان ابان بن یزید یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ ہم ذات الرقاع تک پہنچ گئے مذکورہ حدیث کی طرح حدیث نقل کی گئی لیکن اس میں یہ نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے کچھ تعرض نہیں فرمایا۔

【16】

اس مثال کے بیان میں کہ نبی کریم ﷺ کو کتناعلم اور ہدایت دے کر مبعوث فرمایا گیا

ابوبکر بن ابی شیبہ ابوعامر اشعری محمد بن علاء ابی عامر ابوسامہ برید حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے جتنا علم اور ہدایت دے کر معبوث فرمایا اس کی مثال ایسے ہے جیسے کہ زمین پر مینہ برسا اس زمین میں سے کچھ حصہ ایسا تھا کہ جس نے پانی اپنے اندر جذب کرلیا اور بہت کثرت سے چارہ اور سبزہ اگایا اور زمین کا کچھ حصہ سخت تھا کہ وہ پانی کو روک لیتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو نفع دیتے ہیں لوگ اس میں سے پیتے ہیں اپنے جانوروں کو پلاتے ہیں اور آگاہ رہو گھاس چراتے ہیں اور زمین کا کچھ حصہ چٹیل میدان ہے کہ وہ پانی کو نہیں روکتا اور نہ ہی اس میں گھاس پیدا ہوتی ہے تو یہی مثال اس کی ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے دین کو سمجھا اور جو دین اللہ تعالیٰ نے مجھے دے کر مبعوث فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے لوگوں کو فائدہ پہنچایا چناچہ اس نے خود بھی دین سیکھا اور دوسروں کو بھی سکھایا اور مثال ان لوگوں کی کہ جنہوں نے اس طرف سر بھی نہیں اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت (دین) کو جسے مجھے دے کر بھیجا گیا ہے اس کو قبول نہیں کیا۔

【17】

نبی ﷺ کا اپنی امت پر شفقت کے بیان میں۔

عبداللہ بن براء، اشعری ابوکریب ابواسامہ برید حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا میرے اس دین کی مثال جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرما کر مبعوث فرمایا ہے اس آدمی کی طرح ہے کہ جو اپنی قوم سے آکر کہے اے قوم میں نے اپنی آنکھوں سے دشمن کا ایک لشکر دیکھا ہے اور میں تم کو واضع طور پر ڈراتا ہوں تو تم اپنے آپ کو دشمن سے بچاؤ اور اس کی قوم میں سے ایک جماعت نے اس کی اطاعت کرلی اور شام ہوتے ہی اس مہلت کی بناء پر بھاگ گئی اور ایک گروہ نے اس کو جھٹلایا اور وہ صبح تک اسی جگہ پر رہے تو صبح ہوتے ہی دشمن کے لشکر نے ان پر حملہ کردیا اور وہ ہلاک ہوگئے اور ان کو جڑ سے اکھیڑ دیا یہی مثال ہے جو میری اطاعت کرتا ہے اور میں جو دین حق لے کر آیا ہوں اس کی اتباع کرتا ہے اور مثال ان لوگوں کی جو میری نافرمانی کرتے ہیں اور جو دین حق لے کر آیا ہوں اسے جھٹلاتے ہیں۔

【18】

نبی ﷺ کا اپنی امت پر شفقت کے بیان میں۔

قتیبہ بن سعید، مغیرہ بن عبدالرحمن قرشی ابی زناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری مثال اور میری امت کی مثال اس آدمی کی طرح ہے کہ جس نے آگ جلائی ہوئی ہو اور سارے کیڑے مکوڑے اور پتنگے اس میں گرتے چلے جا رہے ہوں اور میں تمہاری کمروں کو پکڑے ہوئے ہوں اور تم بلا سوچے اندھا دھند اس میں گرتے چلے جا رہے ہو۔

【19】

نبی ﷺ کا اپنی امت پر شفقت کے بیان میں۔

عمرو ناقد ابن ابی عمر سفیان، حضرت ابوالزناد (رض) سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【20】

نبی ﷺ کا اپنی امت پر شفقت کے بیان میں۔

محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، ہمام ابن منبہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری مثال اس آدمی کی طرح ہے کہ جس نے آگ جلائی ہو تو جب اس نے آگ سے اپنے ارد گرد کو روشن کیا تو اس میں کیڑے مکوڑے اور وہ جانور جو اس میں گرتے ہیں وہ گرنے لگے وہ ان کو روکے مگر وہ نہ رکیں اور اس میں گرتے رہیں آپ ﷺ نے فرمایا یہی مثال میری اور تمہاری ہے کہ میں تمہاری کمر پکڑ کر تمہیں دوزخ میں گرنے سے روکتا ہوں اور میں تمہیں کہتا ہوں کہ دوزخ کے پاس سے چلے آؤ دوزخ کے پاس سے چلے آؤ لیکن تم نہیں مانتے اور اس میں گرتے چلے جا رہے ہو۔

【21】

نبی ﷺ کا اپنی امت پر شفقت کے بیان میں۔

محمد بن حاتم ابن مہدی سلیم سعید بن میناء، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری مثال اور تمہاری مثال اس آدمی کی طرح ہے کہ جس نے آگ جلائی تو اس میں ٹڈی اور پتنگے گرنے لگیں اور وہ آدمی ان کو روکے اور میں بھی دوزخ کی آگ سے تمہاری کمروں کو تھامے ہوئے ہوں اور تم میرے ہاتھوں سے نکلتے چلے جا رہے ہو۔

【22】

نبی ﷺ کے خاتم النیبین ہونے کے بیان میں

عمرو بن محمد ناقد، سفیان بن عیینہ، ابی زناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا میری مثال اور تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کی مثال ایسی ہے جیسے کسی آدمی نے کوئی مکان بنایا اور اسے بہت اچھا اور خوبصورت بنایا اور لوگ اس مکان کے چاروں طرف گھومنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم نے اس مکان سے زیادہ خوبصورت مکان نہیں دیکھا سوائے اس ایک اینٹ کے (یعنی ایک اینٹ کی جگہ خالی ہے) تو وہ اینٹ میں ہی ہوں۔

【23】

نبی ﷺ کے خاتم النیبین ہونے کے بیان میں

محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا میری مثال اور ان تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کی مثال جو مجھ سے پہلے آچکے ہیں ایسی ہے جیسے کسی آدمی نے گھر بنایا اور اس کو اچھا خوبصورت اور مکمل طور پر بنایا لیکن اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ باقی رہ گئی لوگ اس مکان کے چاروں طرف گھومتے ہیں اور اسے دیکھتے ہیں اور وہ مکان ان کو اچھا لگتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر اس جگہ ایک اینٹ رکھ دی جاتی تو تمہارا مکان مکمل ہوجاتا حضرت محمد ﷺ نے فرمایا میں ہی وہ اینٹ ہوں۔

【24】

نبی ﷺ کے خاتم النیبین ہونے کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ ابن حجر اسماعیل ابن جعفر عبداللہ بن دینار ابوصالح سمان حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری مثال اور ان تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کی مثال جو مجھ سے پہلے آچکے ہیں اس آدمی کی طرح ہے کہ جس نے مکان بنایا اور بہت اچھا اور خوبصورت بنایا لیکن مکان کے ایک کونے میں سے ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی لوگ اس کے مکان کے چاروں طرف گھومے وہ مکان ان کو بڑا اچھا لگا اور وہ مکان بنانے والے سے کہنے لگے کہ آپ نے اس جگہ ایک اینٹ کیوں نہ رکھ دی آپ ﷺ نے فرمایا وہ اینٹ میں ہی ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔

【25】

نبی ﷺ کے خاتم النیبین ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب ابومعاویہ اعمش، ابوصالح حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور پھر مذکورہ حدیث کی طرح حدیث نقل کی۔

【26】

نبی ﷺ کے خاتم النیبین ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان سلیم بن حیان سعد بن میناء، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا میری مثال اور دوسرے تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کی مثال اس آدمی کی طرح ہے کہ جس نے ایک گھر بنایا اور اسے پورا اور کامل بنایا سوائے ایک اینٹ کی جگہ کے کہ وہ خالی رہ گئی لوگ اس گھر کے اندر داخل ہو کر اسے دیکھنے لگے اور وہ گھر ان کو پسند آنے لگا وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ رکھ دی گئی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں ہی اس اینٹ کی جگہ آیا ہوں اور میں نے انبیاء کرام (علیہم السلام) کی آمد کا سلسلہ ختم کردیا ہے۔

【27】

نبی ﷺ کے خاتم النیبین ہونے کے بیان میں

محمد بن حاتم، ابن مہدی حضرت سلم (رض) سے اسی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح حدیث نقل کی گئی ہے صرف لفظی فرق ہے۔

【28】

اس بات کے بیان میں کہ جب اللہ تعالیٰ امت پر رحم کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس امت کے نبی کو اس کی ہلاکت سے پہلے ہی بلا لیتا ہے۔

مسلم ابی اسامہ ابراہیم، بن سعید جوہری ابواسامہ یرید بن عبداللہ حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل جب اپنے بندوں میں سے کسی امت پر رحم کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس امت کے نبی کو امت کی ہلاکت سے پہلے بلا لیتا ہے اور وہ اپنی امت کے لئے اجر اور پیش خیمہ ہوتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی امت کو ہلاک کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے اس نبی کی زندگی میں ہی اس کے سامنے اس کی امت پر عذاب نازل فرماتا ہے اور نبی اس امت کی ہلاکت دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور اس کے حکم کی نافرمانی کی تھی۔

【29】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

احمد بن عبداللہ بن یونس زائدہ عبدالملک بن عمیر حضرت جندب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں حوض پر تمہارا پیش خیمہ ہوں گا۔

【30】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابوکریب ابن بشر مسعر عبیداللہ بن معاذ ابی محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، عبدالملک بن عمیر حضرت جندب (رض) نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کرتے ہیں۔

【31】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، یعقوب بن ابراہیم، قاری، ابی حازم حضرت سہل (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں حوض پر تمہارا پیش خیمہ ہوں گا جو اس حوض پر آئے گا وہ اس حوض میں سے پئے گا اور جو اس میں سے (ایک مرتبہ) پی لے گا پھر وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا میرے پاس (حوض کو ثرپر) کچھ لوگ آئیں گے میں ان کو پہچانتا ہوں گا اور وہ لوگ مجھے پہچانتے ہوں گے پھر میرے اور ان کے درمیان (ایک پردہ) حائل کردیا جائے گا (یعنی میری طرف آنے سے روک دیا جائے گا) ابوحازم (رض) کہتے ہیں کہ جب میں یہ حدیث بیان کر رہا تھا تو حضرت نعمان بن ابی عیاش (رض) بھی یہ حدیث سن رہے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت سہل (رض) سے یہ حدیث اسی طرح سنی ہے میں نے کہا جی ہاں۔ حضرت نعمان نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری (رض) سے بھی یہ حدیث اسی طرح سنی ہے لیکن وہ اتنی بات زیادہ فرماتے تھے کہ آپ ﷺ فرمائیں گے کہ یہ لوگ تو میرے ہیں تو آپ ﷺ کو جواب میں کہا جائے گا کہ آپ ﷺ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ ﷺ کے بعد کیا کیا کام کئے میں کہوں گا دور ہوجاؤ دور ہوجاؤ وہ لوگ کہ جنہوں نے میرے بعد دین میں ردوبدل کردیا۔

【32】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

انھوں ( نعمان بن ابی عیاش ) نے کہا : اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری سے سنا ، وہ اس ( حدیث ) میں مزید یہ بیان کرتے تھےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے : " یہ میرے ( لوگ ) ہیں تو کہا جائے گا : آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد کیا کیا ۔ تو میں کہوں گا : دوری ہو ، ہلاکت ہو!ان کے لئے جنھوں نے میرے بعد ( دین میں ) تبدیلی کردی

【33】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

ہارون بن سعید ایلی ابن وہب، ابواسامہ ابوحازم، سہل نعمان ابن ابی عیاش حضرت ابوسعید خدری (رض) سے نبی ﷺ یعنی یعقوب کی روایت کی طرح نقل کرتے ہیں۔

【34】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

داؤد بن عمرو ضبی نافع بن عمر جمحی ابن ابی ملیکہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے حوض (کی لمبائی چوڑائی) ایک ماہ کی مسافت کے برابر ہے اور اس کے سارے کونے برابر ہیں اور اس حوض کا پانی چاندی سے زیادہ سفید اور اس کی خوشبو مشک سے زیادہ بہتر ہے اور اس کے کوزے آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں تو جو آدمی میرے اس حوض سے پئے گا پھر اس کے بعد اس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی۔

【35】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں حوض (کوثر) پر ہوں گا یہاں تک کہ جو تم میں سے میرے پاس آئے گا میں اسے دے رہا ہوں گا اور کچھ لوگوں کو میرے قریب ہونے سے پہلے ہی پکڑ لیا جائے گا تو میں اللہ عزوجل کی بارگاہ میں عرض کروں گا اے میرے پروردگار ! یہ لوگ تو میرے (فرمانبدار) اور میرے امتی ہیں تو آپ ﷺ کو جواب میں کہا جائے گا کہ کیا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا کام (بدعات) کئے اللہ کی قسم آپ ﷺ کے بعد یہ لوگ فورا ایڑیوں کے بل پھرگئے۔ راوی کہتے ہیں کہ ابن ابی ملیکہ یہ دعا پڑھا کرتے تھے اے اللہ ہم اس بات سے پناہ مانگتے ہیں کہ ہم ایڑیوں کے بل پھرجائیں اور اس بات سے بھی کہ ہم اپنے دین سے کسی آزمائش میں مبتلا کردیئے جائیں۔

【36】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

ابن ابی عمر یحییٰ بن سلیم ابن خثیم عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا اس حال میں کہ اپنے صحابہ کرام (رض) کے درمیان بیٹھے ہوئے فرما رہے تھے کہ میں حوض (کوثر) پر تمہارا انتظار کروں گا کہ تم میں سے کون کون میرے پاس آتا ہے اللہ کی قسم کچھ آدمی میرے پاس آنے سے روک دیئے جائیں گے میں کہوں گا اے میرے پروردگار یہ تو میرے امتی ہیں تو اللہ فرمائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا کام کئے یہ لگاتار اپنے ایڑیوں کے بل (یعنی اپنے دین) سے پھرتے ہی رہے۔

【37】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

یونس بن عبدالاعلی صدفی عبداللہ بن وہب، عمرو ابن حارث بکیر قاسم بن عباس ہاشمی عبداللہ بن رافع مولیٰ حضرت ام سلمہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ فرماتی ہیں کہ لوگوں سے حوض (کوثر) کا ذکر سنتی تھی لیکن اس کے بارے میں میں نے رسول اللہ ﷺ سے نہیں سنا تھا ایک دن جبکہ ایک لڑکی میرے سر میں کنگھی کر رہی تھی تو میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا اے لوگو کہ میں نے اس لڑکی سے کہا مجھ سے علیحدہ ہوجا وہ کہنے لگی آپ ﷺ نے صرف مردوں کو بلایا ہے اور عورتوں کو نہیں بلایا تو میں نے کہا میں بھی لوگوں میں سے ہوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمہارے لئے حوض کوثر پر پیش خیمہ ہوں گا اور تم اس بات سے ڈرنا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی میری طرف آئے اور پھر وہ مجھ سے ہٹا دیا جائے جیسا کہ گم شدہ اونٹ ہٹا دیا جاتا ہے تو میں ان کے بارے میں کہوں گا تو آپ ﷺ کو جواب دیا جائے گا کہ آپ ﷺ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ ﷺ کے جانے کے بعد کیا کیا (رسوم و بدعات) ایجاد کرلیں تھیں تو میں (ان لوگوں سے) کہوں گا دور ہوجاؤ۔

【38】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

ابومعن رقاشی ابوبکر بن نافع عبد بن حمید ابوعامر عبدالملک بن عمرو افلح ابن سعید عبداللہ بن رافع ام سلمہ حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا اس حال میں کہ وہ کنگھی کروا رہی تھیں آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگو ! حضرت ام سلمہ (رض) نے سنا تو کنگھی کرنے والی سے کہنے لگیں میرے سر کو رہنے دے باقی روایت بکیر عن القاسم کی روایت کی طرح نقل کی گئی ہے۔

【39】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، یزید بن ابی حبیب، ابی خیر حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن باہر نکلے اور شہداء احد کی نماز اس طرح سے پڑھی جس طرح کہ میت کی نماز پڑھا کرتے ہیں پھر آپ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا میں تمہارے لئے پیش خیمہ ہوں اور میں تمہارا گواہ ہوں اور اللہ کی قسم ! میں اب بھی اپنے حوض (کوثر) کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں ہیں یا زمین کی چابیاں اور اللہ کی قسم ! مجھے اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک بن جاؤ گے بلکہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا کے لالچ میں آکر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو گے۔

【40】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

محمد بن مثنی، وہب ابن جریر، بن حازم ابی یحییٰ بن ایوب، یزید بن ابی حبیب، مرثد حضرت عقبہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شہداء احد پر نماز پڑھی پھر آپ ﷺ منبر پر چڑھے جیسا کہ کوئی زندوں اور مردوں کو رخصت کررہا ہو آپ ﷺ نے فرمایا میں حوض کوثر پر تمہارا پیش خیمہ ہوں گا اور حوض کوثر کی چوڑائی اتنی ہے جتنا کہ ایلہ کے مقام سے جحفہ کے مقام تک فاصلہ ہے مجھے تم سے اس بات کو ڈر نہیں کہ تم میرے بعد مشرک بن جاؤ گے لیکن مجھے تم سے اس بات کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا کے لالچ میں آپس میں حسد کرنے لگ جاؤ گے اور آپس میں خون ریزی کرنے لگ جاؤ گے جس کے نتیجہ میں تم ہلاک ہوجاؤ گے جس طرح کہ تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوئے حضرت عقبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو آخری مرتبہ منبر پر دیکھا تھا۔

【41】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب ابن نمیر، ابومعاویہ اعمش، شقیق، عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں حوض کوثر پر تمہارا پیش خیمہ ہوں گا اور کچھ لوگوں کی خاطر مجھے جھگڑنا پڑے گا پھر میں ان پر مغلوب کردیا جاؤں گا پھر میں عرض کروں گا یہ تو میرے ساتھی ہیں یہ تو میرے ساتھی ہیں تو جواب میں مجھ سے فرمایا جائے گا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے جانے کے بعد کیا کیا (رسوم و بدعات) ایجاد کر ڈالی تھیں۔ عثمان بن ابی شیبہ اسحاق بن ابراہیم، جریر حضرت اعمش (رض) سے اسی سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے لیکن اس میں أَصْحَابِي أَصْحَابِي کے الفاظ ذکر نہیں ہیں۔ عثمان بن ابی شیبہ اسحاق بن ابراہیم، جریر، ابن مثنی محمد بن جعفر، سعبہ مغیرہ ابو وائل حضرت عبداللہ (رض) نبی ﷺ سے حضرت اعمش (رض) کی روایت کی طرح نقل کرتے ہیں اور شعبہ کی روایت میں عَنْ مُغِيرَةَ کی جگہ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ کے الفاظ ذکر کئے گئے ہیں۔ سعید بن عمرو اشعثی عبثر ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن فضیل حصین ابو وائل حضرت حذیفہ (رض) نبی ﷺ سے حضرت اعمش (رض) اور حضرت مغیرہ کی حدیث کی طرح روایت نقل کرتے ہیں۔

【42】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

جریر اعمش سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور " میرے ساتھی ہیں ۔ میرے ساتھی ہیں ، کے الفاظ بیان نہیں کیے

【43】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

جریر اور شعبہ نے مغیرہ سے ، انھوں نے ابو وائل سے ، انھوں نے حضرت عبد اللہ ( بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اعمش کی حدیث کے مانند روایت کی ۔ شعبہ کی مغیرہ سے روایت ( کی سند ) میں یہ الفا ظ ہیں : میں نے ابو وائل سے سنا

【44】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

عبثراور ابن فضیل دونوں نے حصین سے انھوں نے ابو وائل سے ، انھون نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ، جس طرح اعمش اور مغیرہ کی روایت ہے

【45】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن بریع ابن ابی عدی، شعبہ، معبد بن خالد حضرت حارثہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا حوض اتنا بڑا ہے کہ جتنا کہ صنعاء اور مدینہ منورہ کے درمیان فاصلہ ہے حضرت مستورد نے یہ حدیث سن کر کہا کہ کیا آپ نے برتنوں کے بارے میں کچھ نہیں سنا انہوں نے کہا نہیں تو حضرت مستورد کہنے لگے کہ اس حوض میں ستاروں کی طرح برتن ہونگے۔

【46】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

ابراہیم بن محمد بن عرعرہ حرمی بن عمارہ شعبہ، معبد بن خالد حضرت حارثہ بن وہب خزاعی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں اور پھر حوض کی روایت مذکورہ حدیث کی طرح نقل کی اور اس میں حضرت مستور کا قول ذکر نہیں کیا۔

【47】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

ابوربیع زہرانی ابوکامل جحدری حماد بن زید ایوب نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تمہارے سامنے حوض ہے اس کے دونوں کناروں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ جتنا کہ مقام جربا اور اذرح کے درمیان فاصلہ ہے۔

【48】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، عبیداللہ بن سعید یحییٰ قطان عبیداللہ نافع حضرت ابن عمر (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے سامنے حوض (کوثر) ہے (اور یہ اتنا بڑا ہے) جتنا کہ مقام جربا اور اذرح کے درمیان فاصلہ ہے اور ابن مثنی کی روایت میں حوضی کا لفظ ہے یعنی میرا حوض۔

【49】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

ابن نمیر، ابی ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، عبیداللہ (رض) اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے اس میں صرف یہ الفاظ زائد ہیں کہ حضرت عبیداللہ نے حضرت نافع (رض) سے مقام جرباء اور اذرح کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ شام میں دو بستیاں ہیں ان دونوں بستیوں کے درمیان تین رات کی مسافت کا فاصلہ ہے اور ابن کثیر کی روایت میں تین دن کا ذکر ہے۔

【50】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

سوید بن سعید حفص بن میسرہ موسیٰ بن عقبہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) نبی ﷺ سے حضرت عبیداللہ کی روایت کی طرح حدیث نقل کرتے ہیں۔

【51】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ ، عبداللہ بن وہب، عمر بن محمد، نافع، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے سامنے حوض (کوثر) ہے (یہ حوض اتنا بڑا ہے) جتنا کہ مقام جرباء اور ازرج کے درمیان فاصلہ ہے اور اس حوض میں آسمان کے ستاروں کی طرح کوزے ہیں جو آدمی اس حوض پر آئے گا اور اس میں سے پئیے گا تو اس کے بعد وہ کبھی بھی پیاسا نہیں ہوگا۔

【52】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، ابن ابی عمر مکی ابن ابی شیبہ ابن اسحاق عبدالعزیز بن عبدالصمد ابوعمر انجونی عبداللہ بن صامت حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ حوض کوثر کے برتن کیسے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے اس حوض کے برتن آسمان کے ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہیں اور اس رات کے ستارے جو رات اندھیری ہو اور جس میں بدلی ہو یہ جنت کے برتن ہیں جو اس برتن سے پئے گا وہ پھر کبھی بھی پیاسا نہیں ہوگا اس حوض میں جنت کے دو نالے بہتے ہیں جو اس سے پئے گا وہ پیاسا نہیں ہوگا اس حوض کی چوڑائی اور لمبائی دونوں برابر ہیں جتنا کہ مقام عمان اور مقام ایلہ کے درمیان فاصلہ ہے اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔

【53】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

ابوغسان مسمعی محمد بن مثنی، ابن بشار معاذ بن ہشام ابوقتادہ، سالم بن ابی جعد معدان بن ابی طلحہ یعمری حضرت ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا میں اپنے حوض کے کنارے پر لوگوں کو ہٹا رہا ہوں گا یمن والوں کو میں اپنی لاٹھی ماروں گا یہاں تک کہ یمن والوں پر (حوض کا پانی) بہہ پڑے گا پھر آپ ﷺ سے حوض کی چوڑائی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میرے اس مقام سے عمِّان تک، پھر آپ ﷺ سے اس کے پانی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : (حوض کا پانی) دودھ سے ذیادہ سفید اور شہد سے ذیادہ میٹھا ہے سے زیادہ میٹھا ہے اس حوض میں جنت کے دو پرنالے بہیں گے جن کی جنت کے ذریعہ سے مدد ہوگی ان میں سے ایک پرنالہ سونے کا اور دوسرا چاندی کا پرنالہ ہوگا۔

【54】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

زہیر بن حرب، حسن بن موسیٰ شیبان، حضرت قتادہ (رض) سے ہشام کی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح حدیث نقل کی گئی ہے سوائے اس کے کہ اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں قیامت کے دن کوثر کے کنارے پر ہوں گا۔

【55】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

محمد بن بشار، یحییٰ بن حماد شعبہ، قتادہ، حضرت ثوبان (رض) نبی ﷺ سے حوض کوثر کی حدیث کہ میں نے یحییٰ بن حماد سے کہا کہ تو نے یہ حدیث ابوعوانہ سے سنی ہے وہ کہنے لگے کہ اور میں نے یہ حدیث شعبہ سے بھی سنی ہے تو میں نے کہا وہ بھی مجھ سے بیان کرو تو انہوں نے وہ بھی مجھ سے بیان کردی۔

【56】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

عبدالرحمن بن سلام جمعحی ربیع ابن مسلم محمد بن زیاد حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا میں اپنے حوض کوثر سے لوگوں کو اس طرح ہٹاؤں گا جس طرح کہ اجنبی اونٹوں کو ہٹایا جاتا ہے۔

【57】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ ابی شعبہ، محمد بن زیادہ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ حدیث کی طرح فرمایا۔

【58】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب، حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے حوض کی مقدار اتنی ہے جتنی کہ ایلہ کے مقام سے مقام صنعاء جو کہ علاقہ یمن کے درمیان ہے اور اس حوض میں برتن آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں۔

【59】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

محمد بن حاتم، عفان بن مسلم صفار وہیب عبدالعزیز بن صہیب حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا حوض پر کچھ ایسے آدمی آئیں گے جو دنیا میں میرے ساتھ رہے یہاں تک کہ جب میں ان کو دیکھوں گا اور ان کو میرے سامنے کیا جائے گا تو ان کو میرے قریب آنے سے روک دیا جائے گا تو میں کہوں گا اے میرے پروردگار یہ تو میرے ساتھی ہیں یہ تو میرے ساتھی ہیں تو جواب میں کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے ہیں انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا (رسوم و بدعات) ایجاد کیں۔

【60】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن حجر علی بن مسہر، ابوکریب ابن فضیل مختار بن فلفل، حضرت انس (رض) نبی ﷺ سے یہی روایت نقل کرتے ہیں اور اس میں یہ زائد ہے کہ اس حوض کے برتن ستاروں کے برابر ہیں۔

【61】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

عاصم، بن نضر تیمی ہریم بن عبدالاعلی، معتمر قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا میرے حوض کے دونوں کناروں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا کہ مقام صنعاء اور مدینہ منورہ کے درمیان فاصلہ ہے۔

【62】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

ہارون بن عبداللہ عبدالصمد ہشام حسن بن علی حلوانی ابو ولید طیالسی ابوعوانہ، قتادہ، حضرت انس (رض) نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کرتے ہیں سوائے اس کے کہ اس میں دونوں راویوں کو شک ہے وہ کہتے ہیں کہ یا تو آپ نے فرمایا مدینہ منورہ اور عمان کے درمیان جتنا فاصلہ ہے اور ابوعوانہ کی روایت میں (لَابَتَيْ حَوْضِي) کے الفاظ ہیں۔

【63】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

یحییٰ بن حبیب حارثی، محمد بن عبداللہ رزی خالد بن حارث، سعید حضرت قتادہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت انس (رض) فرمایا اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا تو اس حوض میں سونے اور چاندی کے کوزے دیکھے گا جتنے آسمان کے تارے ہیں۔

【64】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

زہیر بن حرب، حسن بن موسیٰ شیبان قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے مذکورہ حدیث کی طرح فرمایا اور اس میں اتنی بات زائد ہے کہ آسمان کے ستاروں کی تعداد سے زیادہ۔

【65】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

ولید بن شجاع، بن ولید سکونی ابی (رض) زیادہ بن خیثمہ سماک بن حرب، حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں حوض کوثر پر تمہارے لئے پیش خیمہ ہوں گا اور اس حوض کے دونوں کناروں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا کہ مقام صنعاء اور مقام ایلہ کے درمیان فاصلہ ہے اور اس میں کوزے ستاروں کی طرح ہوں گے۔

【66】

ہمارے نبی ﷺ کے حوض (کوثر) کے اثبات اور آپ ﷺ کی صفات کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، حاتم بن اسماعیل مہاجر بن مسمار حضرت عامر بن سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہ (رض) کی طرف اپنے غلام نافع کے ہاتھ ایک خط لکھ کر بھیجا کہ مجھے اس چیز کی خبر دو کہ جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے انہوں نے مجھے لکھا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں میں حوض کوثر پر تمہارے پیش خیمہ ہوں گا۔

【67】

نبی ﷺ کے اس اکرام کے بیان میں کہ فرشتوں نے آپ ﷺ کے ساتھ مل کر کفار سے قتال کیا ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر ابواسامہ مسعر سعد بن ابراہیم، حضرت سعد (رض) سے روایت ہے کہ میں نے غزوہ احد کے دن رسول اللہ ﷺ کے دائیں اور بائیں دو آدمیوں کو دیکھا جنہوں نے سفید لباس پہنا ہوا تھا میں نے ان کو نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ ہی اس کے بعد کبھی دیکھا یعنی حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل علیہما السلام۔

【68】

نبی ﷺ کے اس اکرام کے بیان میں کہ فرشتوں نے آپ ﷺ کے ساتھ مل کر کفار سے قتال کیا ہے۔

اسحاق بن منصور عبدالصمد عبدالوارث ابراہیم بن سعد، سعد، ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد کے دن رسول اللہ ﷺ کے دائیں اور بائیں طرف دو آدمیوں کو دیکھا جنہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ آدمی آپ ﷺ کی طرف خوب شدت سے قتال کر رہے تھے میں نے ان کو نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا اور نہ اس کے بعد کبھی دیکھا۔

【69】

نبی ﷺ کی شجاعت کے بیان میں

یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، سعید بن منصور، ابوربیع عتکی ابوکامل یحییٰ یحیی حماد بن زید ثابت، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت اور تمام لوگوں سے زیادہ سخی اور تمام لوگوں سے زیادہ بہادر تھے ایک رات مدینہ منورہ والے گھبرا گئے اور جس طرف سے آواز آرہی تھی صحابہ کرام (رض) اس طرف چل پڑے راستے میں آپ ﷺ ان لوگوں کو واپس آتے ہوئے ملے اور آپ ﷺ اس آواز کی طرف سب سے پہلے تشریف لے گئے اور آپ ﷺ حضرت ابوطلحہ (رض) کے گھوڑے پر سوار تھے جو کہ ننگی پیٹھ تھا اور آپ کی گردن میں تلوار (لٹکی ہوئی) تھی اور فرما رہے تھے کوئی گھبرانے کی بات نہیں کوئی گھبرانے کی بات نہیں اور آپ ﷺ نے فرمایا ہم نے اس گھوڑے کو تیز رفتاری میں سمندر کی طرح پایا اور یہ تو دریا ہے اور وہ گھوڑا پہلے سست رفتاری میں مشہور تھا۔

【70】

نبی ﷺ کی شجاعت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، شعبہ، قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ مدینہ منورہ میں کچھ گھبراہٹ سی پیدا ہوگئی تو نبی ﷺ نے حضرت ابوطلحہ (رض) کا گھوڑا مانگا جسے مندوب کہا جاتا تھا آپ ﷺ اس گھوڑے پر سوار ہوئے اور فرمایا ہم نے تو کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں دیکھی اور ہم نے اس گھوڑے کو سمندر کی طرح پایا۔

【71】

نبی ﷺ کی شجاعت کے بیان میں

محمد بن مثنی ابن بشار محمد بن جعفر، یحییٰ بن حبیب، خالد ابن حارث شعبہ، ابن جعفر حضرت شعبہ (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے اور ابن جعفر کی روایت میں ہے کہ ہمارا گھوڑا لیا اور اس میں حضرت ابوطلحہ (رض) کے گھوڑے کا ذکر نہیں اور خالد کی روایت میں عَنْ قَتَادَةَ کی جگہ سَمِعْتُ أَنَسًا ہے۔

【72】

رسول اللہ ﷺ کی سخاوت کے بیان میں

منصور بن ابی مزاحم ابراہیم، ابن سعد زہری، ابوعمران محمد بن جعفر، بن زیاد ابراہیم ابن شہاب عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ ابن مسعود حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں میں سے مال کے عطا کرنے میں سخی تھے اور تمام اوقات سے زیادہ رمضان کے مہینے میں آپ ﷺ کی سخاوت ہوتی تھی اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہر سال رمضان کے اختتام تک آپ سے ملاقات کرتے تھے رسول اللہ ﷺ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو قرآن مجید سناتے تھے اور جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کرتے تھے تو آپ ﷺ چلتی ہوئی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے۔

【73】

رسول اللہ ﷺ کی سخاوت کے بیان میں

ابوکریب ابن مبارک یونس عبد حمید عبدالرزاق، معمر، حضرت زہری (رض) سے اسی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث مبارکہ کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【74】

رسول اللہ ﷺ کی سخاوت کے بیان میں

سعید بن منصور، ابوربیع حماد بن زید ثابت، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی دس سال تک خدمت کا شرف حاصل ہوا اللہ کی قسم آپ ﷺ نے مجھے کبھی بھی اف تک نہیں فرمایا اور نہ ہی کبھی یہ فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا اور یہ کام کیوں نہیں کیا۔ حضرت ابوالربیع نے یہ الفاظ زائد کہے ہیں کہ جو کام خادم کو کرنا چاہئے اور وَاللَّهِ کا لفظ ذکر نہیں کیا۔

【75】

رسول اللہ ﷺ کی سخاوت کے بیان میں

شیبان بن فروخ سلام بن مسکین بنانی حضرت انس (رض) سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【76】

رسول اللہ ﷺ کی سخاوت کے بیان میں

احمد بن حنبل زہیر بن حرب، اسماعیل احمد بن اسماعیل بن ابراہیم، عبدالعزیز، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت ابوطلحہ (رض) نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے رسول اللہ ﷺ کی طرف لے کر چل پڑے اور عرض کرنے لگے اے اللہ کے رسول ﷺ انس عقلمند لڑکا ہے یہ آپ ﷺ کی خدمت کرے گا حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سفر اور حضر میں آپ کی خدمت کی اللہ کی قسم آپ ﷺ نے کسی کام کے بارے میں جو میں نے کیا ہو کبھی نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کام اس طرح کیوں کیا اور نہ ہی اس کام کے بارے میں جس کو میں نے کیا ہو آپ ﷺ نے نہیں فرمایا کہ یہ کام تو نے کیوں نہیں کیا۔

【77】

رسول اللہ ﷺ کی سخاوت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، محمد بن بشر زکریا، سعید بن انس، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ مجھے نو سال تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت کا شرف حاصل ہوا ہے میں نہیں جانتا کہ آپ ﷺ نے کبھی فرمایا ہو تو نے یہ کام اس طرح کیوں کیا اور نہ ہی کبھی آپ ﷺ نے کوئی نکتہ چینی کی۔

【78】

رسول اللہ ﷺ کی سخاوت کے بیان میں

ابومعن رقاشی زید بن زید عمر بن یونس عکرمہ ابن عمار اسحاق، حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے ایک دن آپ ﷺ نے مجھے کسی کام کے لئے بھیجا میں نے کہا اللہ کی قسم میں نہیں جاؤں گا اور میرے جی میں یہ بات تھی کہ جس کام کا اللہ کے نبی ﷺ نے مجھے حکم فرمایا ہے اس کے لئے میں ضرور جاؤں گا تو میں نکلا یہاں تک کہ میں کچھ ایسے بچوں کے پاس سے گزرا کہ وہ بازار میں کھیل رہے تھے اچانک میں کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ پیچھے سے میری گدی پکڑے ہوئے ہیں حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کی طرف دیکھا تو آپ ﷺ مسکرا رہے تھے اور آپ ﷺ نے فرمایا اے انس کیا تو وہاں گیا تھا ؟ جہاں جانے کا میں نے تجھے حکم دیا تھا حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول میں اب جا رہا ہوں۔

【79】

رسول اللہ ﷺ کی سخاوت کے بیان میں

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! میں نے نو سال تک آپ ﷺ کی خدمت کی میں نہیں جانتا کہ کسی کام کے بارے میں آپ ﷺ نے مجھے فرمایا ہو کہ تو نے یہ کام اس طرح کیوں کیا یا کسی ایسے کام کے بارے میں کہ جس کو میں نے نہ کیا ہو کہ تو نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔

【80】

رسول اللہ ﷺ کی سخاوت کے بیان میں

شیبان بن فروخ ابوربیع عبدالورث ابوتیاح، حضرت انس (رض) بن مالک سے روایت ہے کہ (کبھی بھی ایسا نہیں ہوا) کہ رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے۔

【81】

رسول اللہ ﷺ کی جود وسخاء کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو بن منکدر جابر بن عبداللہ، حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ ﷺ نے " نہ " فرمایا ہو (یعنی آپ ﷺ سے جس چیز کا بھی سوال کیا گیا آپ ﷺ نے وہ چیز فوراً عطا فرما دی ) ۔

【82】

رسول اللہ ﷺ کی جود وسخاء کے بیان میں

ابوکریب اشجعی محمد بن مثنی، عبدالرحمن ابن مہدی سفیان، محمد بن منکدر حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【83】

رسول اللہ ﷺ کی جود وسخاء کے بیان میں

عاصم، بن نضر تیمی خالد ابن حارث حمید موسیٰ بن انس، حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ (جس کسی نے) اسلام قبول کرنے پر رسول اللہ ﷺ سے جو چیز بھی مانگی آپ نے وہ چیز عطا فرما دی راوی کہتے ہیں ایک آدمی آیا آپ ﷺ نے دو پہاڑوں کے درمیان کی بکریاں عطا فرما دیں وہ واپس اپنی قوم کی طرف آیا اور اس نے کہا اے قوم اسلام قبول کرلو کیونکہ محمد ﷺ اتنا عطا فرماتے ہیں کہ فاقہ کشی کا خوف ہی نہیں رہتا۔

【84】

رسول اللہ ﷺ کی جود وسخاء کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ ثابت حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے دو پہاڑوں کی بکریاں مانگیں تو آپ نے اسے اتنی ہی بکریاں عطا فرما دیں وہ آدمی اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا اے قوم اسلام قبول کرلو اللہ کی قسم ! محمد ﷺ اس قدر عطا فرماتے ہیں کہ پھر محتاجی کا خوف ہی نہیں رہتا حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی سوائے دنیا حاصل کرنے کے لئے اسلام قبول نہیں کرتا لیکن مسلمان ہونے کے بعد اسلام اس کی نظر میں آپ ﷺ کی صحبت اختیار کرنے کی وجہ سے ساری دنیا سے زیادہ اسے محبوب ہوجاتا ہے۔

【85】

رسول اللہ ﷺ کی جود وسخاء کے بیان میں

ابوطاہر احمد بن عمر بن سرح عبداللہ بن وہب، یونس حضرت ابن شہاب (رض) سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن غزوہ کے بعد رسول اللہ ﷺ اپنے ان تمام مسلمانوں کے ساتھ جو آپ ﷺ کے ساتھ تھے حنین کی طرف نکلے حنین میں مسلمانوں نے قتال کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین اور مسلمانوں کی مدد فرمائی اس دن رسول اللہ ﷺ نے صفوان بن امیہ کو سو اونٹ عطا فرمائے پھر سو اونٹ عطا فرمائے پھر سوا ونٹ عطا فرمایا حضرت ابن شہاب فرماتے ہیں کہ مجھ سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ صفوان کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ نے مجھے عطا فرمایا جتنا عطا فرمایا اور تمام لوگوں سے زیادہ مجھے مبغوض تھے اور آپ ﷺ ہمیشہ مجھے عطا فرماتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہوگئے۔

【86】

رسول اللہ ﷺ کی جود وسخاء کے بیان میں

عمرو ناقد سفیان بن عیینہ، ابن منکدر جابر بن عبداللہ، اسحاق سفیان، ابن منکدر جابر، عمرو محمد بن علی جابر، یزید ابن ابی عمر سفیان، محمد بن منکدر جابر، بن عبداللہ سفیان، عمرو بن دینار محمد بن علی حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر ہمارے پاس بحرین کا مال آیا تو میں تجھے اس اس قدر دوں گا اور اس قدر اور اس قدر اور آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کر کے فرمایا تو نبی ﷺ بحرین کے مال کے آنے سے پہلے ہی رحلت فرما گئے حضرت جابر (رض) آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آئے تو حضرت ابوبکر (رض) نے ایک اعلان کرنے والے کو حکم فرمایا کہ وہ یہ اعلان کر دے کہ جس آدمی سے نبی ﷺ نے کوئی وعدہ کیا ہو یا جس پر آپ ﷺ کا قرض ہو تو اسے چاہئے کہ وہ آئے تو میں کھڑا ہوگیا اور میں نے عرض کیا نبی ﷺ (کا مجھ سے وعدہ تھا) کہ اگر ہمارے پاس بحرین کا مال آیا تو میں تجھے اس اس قدر دوں گا اور اس قدر اور اس قدر تو حضرت ابوبکر (رض) نے ایک لپ بھرا پھر مجھ سے فرمایا اسے گنو میں نے ان کو گنا تو وہ پانچ سو نکلے حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا اس سے دو گنا لے لو۔

【87】

رسول اللہ ﷺ کی جود وسخاء کے بیان میں

محمد بن حاتم، ابن میمون محمد بن بکر، ابن جریج، عمرو بن دینار محمد بن علی جابر بن عبداللہ، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ انتقال فرما گئے تو حضرت ابوبکر (رض) کے پاس علاء بن حضرمی کی طرف سے کچھ مال آیا تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا جس آدمی کا نبی ﷺ پر کوئی قرض ہو یا جس سے آپ ﷺ نے کوئی وعدہ فرمایا ہو تو وہ آدمی ہمارے پاس آجائے باقی روایت ابن عیینہ کی روایت کی طرح منقول ہے۔

【88】

جناب نبی ﷺ کا بچوں اور اہل وعیال پر شفقت اور آپ ﷺ کی تواضع اور اس کے فضائل کے بیان میں

ہداب بن خالد شیبان بن فروخ سلیمان شیبان سلیمان بن مغیرہ ثابت، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رات میرے ہاں ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی میں نے اس لڑکے کا نام اپنے باپ حضرت ابراہیم کے نام پر رکھا پھر آپ نے وہ لڑکا ام سیف کو دے دیا جو کہ ایک لوہار کی بیوی تھی اور اس لوہار کو ابوسیف کہا جاتا تھا (ایک دن) آپ ﷺ ابوسیف کی طرف چلے اور میں بھی آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چلا۔ جب ہم ابو سیف کے ہاں پہنچے تو وہ اپنی لوہے کی بھٹی دھونک رہے تھے اور ان کا گھر دھوئیں سے بھرا ہو تھا تو میں نے جلدی جلدی رسول اللہ ﷺ سے پہلے جا کر اس سے کہا اے ابوسیف ٹھہر جاؤ رسول اللہ ﷺ تشریف لا رہے ہیں تو وہ ٹھہر گئے نبی ﷺ نے بچے کو بلایا اور اسے آپ ﷺ نے اپنے سینے سے چمٹا لیا اور آپ ﷺ نے وہ فرمایا جو اللہ نے چاہا انس فرماتے ہیں کہ میں نے اس بچے کو دیکھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے دم توڑ رہا ہے (یہ دیکھ کر) رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور آپ ﷺ نے فرمایا آنکھیں اشک آلود ہیں اور دل غمزدہ ہے اور ہم وہ بات نہیں کہتے کہ جس سے ہمارا رب راضی نہ ہو اللہ کی قسم ! اے ابراہیم ! ہم تیری وجہ سے غمزدہ ہیں۔

【89】

جناب نبی ﷺ کا بچوں اور اہل وعیال پر شفقت اور آپ ﷺ کی تواضع اور اس کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، محمد بن عبداللہ بن نمیر، زہیر اسماعیل ابن علیہ، ایوب عمرو بن سعید حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ میں نے بال بچوں پر اتنی شفقت کرتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا جتنی رسول اللہ ﷺ بچوں پر شفقت فرمایا کرتے تھے (آپ ﷺ کے لخت جگر) حضرت ابراہیم عوالئی مدینہ میں دودھ پیتے تھے اور آپ ﷺ وہاں چلے جایا کرتے تھے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ ہوتے تھے اور آپ ﷺ ان کے گھر میں بھی چلے جاتے وہاں دھواں ہوتا کیونکہ اس کا خاوند لوہار تھا تو آپ ﷺ اپنے بچے کو لیتے اس سے پیار کرتے پھر آپ ﷺ واپس تشریف لے آتے عمر وکہتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم انتقال کر گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابراہیم (رضی اللہ عنہ) میرا بیٹا ہے اور وہ رضاعت کی حالت میں ہی انتقال کر گیا ہے اب اس کے لئے دو انائیں ہیں جو اسے جنت میں رضاعت کی مدت پوری ہونے تک دودھ پلائیں گی۔

【90】

جناب نبی ﷺ کا بچوں اور اہل وعیال پر شفقت اور آپ ﷺ کی تواضع اور اس کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب ابواسامہ ابن نمیر، ہشام حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ کچھ دیہاتی لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے کیا آپ ﷺ اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ہاں تو وہ دیہاتی لوگ کہنے لگے اللہ کی قسم ہم تو بچوں سے پیار نہیں کرتے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں کیا کروں اگر اللہ نے تمہارے اندر سے رحم کو اٹھا لیا ہے اور ابن نمیر کہتے ہیں اللہ نے تمہارے دل سے رحم نکال دیا ہے۔

【91】

جناب نبی ﷺ کا بچوں اور اہل وعیال پر شفقت اور آپ ﷺ کی تواضع اور اس کے فضائل کے بیان میں

عمرو ناقد ابن ابی عمر سفیان، سفیان بن عیینہ، زہری، ابوسلمہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہا قرع بن حابس (رض) نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ حضرت حسن (رض) کو پیار کر رہے ہیں اقرع کہنے لگا کہ میرے تو دس بیٹے ہیں میں نے تو ان میں سے کسی سے پیار نہیں کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

【92】

جناب نبی ﷺ کا بچوں اور اہل وعیال پر شفقت اور آپ ﷺ کی تواضع اور اس کے فضائل کے بیان میں

عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابوسلمہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کرتے ہیں۔

【93】

جناب نبی ﷺ کا بچوں اور اہل وعیال پر شفقت اور آپ ﷺ کی تواضع اور اس کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، جریر، اسحاق بن ابراہیم، علی بن خشرم عیسیٰ بن یونس، ابوکریب محمد بن علاء ابومعاویہ ابوسعید اشج حفص ابن عیاث اعمش، زید بن وہب، ابی طبیان جریر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ بھی اس آدمی پر رحم نہیں کرے گا۔

【94】

جناب نبی ﷺ کا بچوں اور اہل وعیال پر شفقت اور آپ ﷺ کی تواضع اور اس کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، عبداللہ بن نمیر اسماعیل قیس جریر، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن ابی عمرو احمد بن عبدہ سفیان، عمرو نافع بن جبیر حضرت جریر (رض) نبی ﷺ سے اعمش کی روایت نقل کرتے ہیں۔

【95】

جناب نبی ﷺ کا بچوں اور اہل وعیال پر شفقت اور آپ ﷺ کی تواضع اور اس کے فضائل کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ، ابی شعبہ، قتادہ، عبداللہ بن ابی عتبہ، ابوسعید خدری (رض) ، زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، احمد بن سنان، زہیر، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، قتادہ، عبداللہ بن ابی عتبہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرم وحیاء والے تھے جو کہ باپردہ ہو اور جب آپ ﷺ کسی چیز کو ناپسند سمجھتے تھے تو ہم اسے آپ ﷺ کے چہرہ اقدس سے پہچان جاتے تھے۔

【96】

جناب نبی ﷺ کا بچوں اور اہل وعیال پر شفقت اور آپ ﷺ کی تواضع اور اس کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، عثمان بن ابی شیبہ جریر، اعمش، شقیق، عبداللہ بن عمرو معاویہ حضرت مسروق (رض) سے روایت ہے کہ جس وقت حضرت امیر معاویہ (رض) کوفہ کی طرف تشریف لائے تو ہم حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس گئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا فرمانے لگے کہ آپ ﷺ نہ تو بد زبان تھے اور نہ ہی بد زبانی کرتے تھے اور انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم لوگوں میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں۔

【97】

جناب نبی ﷺ کا بچوں اور اہل وعیال پر شفقت اور آپ ﷺ کی تواضع اور اس کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ وکیع، ابن نمیر، ابی ابوسعید اشج ابوخالد احمر، حضرت اعمش (رض) سے اسی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث مبارکہ کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【98】

رسول اللہ ﷺ کے تبسم اور حسن معاشرت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابوخیثمہ سماک بن حرب (رض) حضرت سماک (رض) بن حرب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے عرض کیا کہ کیا آپ (رض) رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے انہوں نے فرمایا ہاں بہت زیادہ آپ ﷺ صبح کی نماز جس جگہ پڑھا کرتے تھے تو وہاں سے سورج نکلنے تک نہ اٹھتے تھے اور جب سورج نکل آتا تو آپ ﷺ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوتے اور صحابہ کرام (رض) باتوں میں مصروف ہوتے تھے اور زمانہ جاہلیت کے کاموں کا تذکرہ کرتے تو آپ ﷺ مسکرا پڑتے تھے۔

【99】

نبی ﷺ کا عورتوں پر رحم کرنے کے بیان میں۔

ابوربیع عتکی حامد بن عمرو قتیبہ بن سعید، ابوکامل حماد بن زید ابوربیع حماد بن ایوب ابی قلابہ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے اور ایک سیاہ فام غلام جسے انجشہ کہا جاتا تھا وہ شعر پڑھ رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا اے نجشہ ذرا آہستہ آہستہ چل اور ان اونٹوں کو شیشہ لدے ہوئے اونٹوں کی طرح ہانک۔

【100】

نبی ﷺ کا عورتوں پر رحم کرنے کے بیان میں۔

ابوربیع عتکی حامد بن عمر ابوکامل حماد ثابت، حضرت انس (رض) سے مذکورہ روایت کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【101】

نبی ﷺ کا عورتوں پر رحم کرنے کے بیان میں۔

عمرو ناقد زہیر بن حرب، ابن علیہ، زہیر اسماعیل ایوب ابی قلابہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے پاس آئے اور ایک ہنکانے والا ان کے اونٹوں کو ہنکا رہا تھا جسے انجشہ کہا جاتا ہے آپ ﷺ نے اس سے فرمایا اے انجشہ شیشوں کو آہستہ آہستہ لے کر چل۔ حضرت ابوقلابہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسی بات ارشاد فرمائی کہ اگر تم میں سے کوئی اس طرح کی بات کرتا ہے تو تم اسے کھیل (مذاق) سمجھتے۔

【102】

نبی ﷺ کا عورتوں پر رحم کرنے کے بیان میں۔

یحییٰ بن یحیی، یزید بن زریع سلیمان تیمی انس بن مالک، ابوکامل یزید بن تیمی، ام سلیم حضرت انس (رض) بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت ام سلیم (رض) جو کہ نبی کی ازواج مطہرات کے ساتھ تھیں اور ایک ہنکانے والا ان کے اونٹوں کو ہنکا رہا تھا تو اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا اے انجشہ آہستہ آہستہ شیشوں کو لے کر چل۔

【103】

نبی ﷺ کا عورتوں پر رحم کرنے کے بیان میں۔

ابن مثنی عبدالصمد ہمام قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا حدی خوان خوش الحان (یعنی اچھی آواز والا) تھا رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا اے انجشہ آہستہ آہستہ چل کہیں شیشوں کو نہ توڑ دینا یعنی کمزور عورتوں کو کوئی تکلیف نہ ہو۔

【104】

نبی ﷺ کا عورتوں پر رحم کرنے کے بیان میں۔

ابن بشار ابوداؤد ہشام قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت نقل کرتے ہیں لیکن اس میں حدی خوان کی خوش آوازی کا ذکر نہیں ہے۔

【105】

نبی ﷺ سے لوگوں کا تقرب اور برکت حاصل کرنے اور آپ ﷺ کا لوگوں کے لئے تو اضع اختیار کرنے کے بیان میں۔

مجاہد بن موسیٰ ابوبکر بن نضر بن ابی نضر ہارون بن عبداللہ ابی نضر ابوبکر ابونضر ہاشم بن قاسم سلیمان بن مغیرہ ثابت، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تھے تو مدینہ منورہ کے خادم اپنے برتنوں میں پانی لے کر آتے پھر جو برتن آپ ﷺ کے پاس لایا جاتا تو آپ ﷺ اس برتن میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے اور اکثر اوقات سخت سردی کے موسم میں بھی یہ اتفاقات پیش آجاتے تو پھر بھی آپ ﷺ اس میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے۔

【106】

نبی ﷺ سے لوگوں کا تقرب اور برکت حاصل کرنے اور آپ ﷺ کا لوگوں کے لئے تو اضع اختیار کرنے کے بیان میں۔

محمد بن رافع ابونضر سلیمان ثابت حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے دیکھا کہ حجام آپ ﷺ کی حجامت بنا رہا تھا اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام (رض) آپ ﷺ کے اردگرد تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کا کوئی بال مبارک نیچے گرے بلکہ کسی نہ کسی آدمی کے ہاتھ میں آپ ﷺ کا بال گرے۔

【107】

نبی ﷺ سے لوگوں کا تقرب اور برکت حاصل کرنے اور آپ ﷺ کا لوگوں کے لئے تو اضع اختیار کرنے کے بیان میں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ ثابت بن انس، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت جس کی عقل میں کچھ فتور تھا وہ عرض کرنے لگی اے اللہ کے رسول ! مجھے آپ ﷺ سے ایک کام ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا اے ام فلاں تو جس جگہ چاہتی ہے ٹھہر لے میں تیراکام کر دوں گا تو آپ ﷺ نے ایک راستہ میں اس عورت سے علیحدگی میں بات کی یہاں تک کہ وہ اپنے کام سے فارغ ہوگئی۔

【108】

سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے انتقام چھوڑ دینے کے بیان مٰن

قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، سیدہ عائشہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب دو کاموں میں سے ایک کام کرنے کا اختیار دیا جاتا تو آپ ان میں سے آسان کام کو اختیار فرماتے تھے شرط یہ ہے کہ وہ گناہ کا کام نہ ہوتا ہو اور اگر گناہ کو کام ہوتا تو آپ ﷺ سب لوگوں سے بڑھ کر اس کام سے دور رہتے اور رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی سے اپنی ذات کی وجہ سے انتقام نہیں لیا لیکن اگر کوئی آدمی اللہ کے حکم کے خلاف کام کرتا تو آپ ﷺ اسے سزا دیتے۔

【109】

سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے انتقام چھوڑ دینے کے بیان مٰن

زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، جریر، احمد بن عبدہ فضیل بن عیاض منصور محمد فضیل ابن شہاب جریر، محمد زہری، عروہ حضرت عائشہ (رض) سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت منقول ہے۔

【110】

سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے انتقام چھوڑ دینے کے بیان مٰن

حرملہ بن یحییٰ ، ابن وہب، یونس، حضرت ابن شہاب (رض) سے اس سند کے ساتھ مذکورہ مالک کی حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【111】

سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے انتقام چھوڑ دینے کے بیان مٰن

ابوکریب ابواسامہ ہشام حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب بھی دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ ﷺ ان میں سے آسان کام کو اختیار فرماتے جب تک کہ وہ گناہ کا کام نہ ہوتا اور اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ اس کام سے دور رہتے۔

【112】

سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے انتقام چھوڑ دینے کے بیان مٰن

ابوکریب ابن نمیر عبداللہ بن نمیر حضرت ہشام (رض) سے اسی سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے لیکن اس میں أَيْسَرَهُمَا یعنی ان میں سے آسان کام کو اختیار فرمانے تک کا قول مذکور ہے لیکن اس کے بعد کا حصہ مذکور نہیں ہے۔

【113】

سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے انتقام چھوڑ دینے کے بیان مٰن

ابوکریب ابواسامہ ہشام سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا اور نہ ہی کسی عورت کو اور نہ ہی کسی خادم کو مارا سوائے اس کے کہ اللہ کے راستے میں جو جہاد کیا جاتا ہے اور جس نے بھی آپ ﷺ کو کوئی تکلیف پہنچائی تو آپ ﷺ نے اس سے بدلہ نہیں لیا سوائے اس کے کہ جس نے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی تو آپ ﷺ نے اللہ ہی کے لئے اس سے انتقام لیا۔

【114】

سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے انتقام چھوڑ دینے کے بیان مٰن

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، عبدہ وکیع، ابوکریب ابومعاویہ حضرت ہشام (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت منقول کی گئی ہے صرف کچھ کمی بیشی ہے۔

【115】

نبی ﷺ کے جسم مبارک کی خوشبو اور آپ ﷺ کی ہتھیلی کی نرمی کے بیان میں

عمرو بن حماد بن طلحہ قناد اسباط ابن نصر ہمدانی سماک حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی پھر آپ ﷺ اپنے گھر کی طرف نکلے اور میں بھی آپ کے ساتھ نکلا تو سامنے سے کچھ بچے آئے تو آپ ﷺ نے ان بچوں میں سے ہر ایک کے رخسار پر ہاتھ پھیرا حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے میرے رخسار پر بھی ہاتھ پھیرا حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے ہاتھ مبارک میں ٹھنڈک اور خوشبو محسوس کی گویا کہ عطار کے ڈبہ سے ہاتھ باہر نکالا ہو۔

【116】

نبی ﷺ کے جسم مبارک کی خوشبو اور آپ ﷺ کی ہتھیلی کی نرمی کے بیان میں

قتیبہ بن سیعد جعفر بن سلیمان ثابت انس، زہیر بن حرب، ہاشم ابن قاسم سلیمان ابن مغیر ثابت حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نہ عنبر کو نہ مشک اور نہ ہی کوئی ایسی خوشبو سونگھی جو خوشبو میں نے رسول اللہ ﷺ کے جسم اطہر سے محسوس کی اور نہ ہی میں نے رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک سے زیادہ کسی دیباج اور ریشم کو نرم پایا۔

【117】

نبی ﷺ کے جسم مبارک کی خوشبو اور آپ ﷺ کی ہتھیلی کی نرمی کے بیان میں

احمد بن سعید صخر دارمی حباب حماد ثابت حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا رنگ مبارک سفید چمکتا ہوا تھا اور آپ ﷺ کا پسنیہ مبارک موتی کی طرح چمکتا ہوا تھا اور جب آپ ﷺ چلتے تو آگے جھکتے ہوئے دباؤ ڈال کر چلتے تھے اور میں نے دیباج اور ریشم کو بھی اتنا نرم نہیں پایا جتنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی مبارک ہتھیلیوں کو نرم پایا اور مشک وغیرہ میں وہ خوشبو نہیں تھی کہ جو رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک میں تھی۔

【118】

نبی ﷺ کا پسینہ مبارک کے خوشبو دار مبترک ہونے کے بیان میں

زہیر بن حرب، ہاشم ابن قاسم سلیمان ثابت، حضرت انس (رض) بن مالک سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے اور آپ ﷺ نے آرام فرمایا آپ ﷺ کو پسینہ آیا میری والدہ محترمہ ایک شیشی لائیں اور آپ ﷺ کا مبارک پسینہ پونچھ کر اس شیشی میں ڈالنے لگیں تو نبی ﷺ بیدار ہوگئے اور آپ ﷺ نے فرمایا اے ام سلیم تم یہ کیا کر رہی ہو ام سلیم (رض) کہنے لگی یہ آپ ﷺ کا پسینہ مبارک ہے جس کو ہم اپنی خوشبو میں ڈالیں گے اور تمام خوشبوؤں سے بڑھ کر خوشبو محسوس کریں گے۔

【119】

نبی ﷺ کا پسینہ مبارک کے خوشبو دار مبترک ہونے کے بیان میں

محمد بن رافع حجین بن مثنی عبدالعزیز ابن ابوسلمہ اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ام سلیم (رض) کے گھر تشریف لاتے تو ام سلیم کے بستر پر سو جاتے اور ام سلیم وہاں نہ ہوتیں۔ راوی حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن آپ ﷺ تشریف لائے تو ام سلیم (رض) کے بستر پر سو گئے ام سلیم آئیں تو ان سے لوگوں نے کہا نبی ﷺ آپ کے گھر میں آپ کے بستر پر سو رہے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ام سلیم (رض) اندر آئیں تو دیکھا کہ آپ ﷺ کو پسینہ آ رہا ہے اور آپ ﷺ کا پسینہ مبارک چمڑے کے بستر پر جمع ہو رہا ہے تو ام سلیم (رض) نے ایک ڈبہ کھولا اور آپ ﷺ کا پسینہ مبارک پونچھ پونچھ کر اس میں ڈالنے لگیں تو نبی ﷺ گھبرا گئے اور فرمانے لگے اے ام سلیم یہ کیا کر رہی ہو ام سلیم (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم اپنے بچوں کے لئے اس پسینے سے برکت کی امید رکھتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا تو ٹھیک کر رہی ہے۔

【120】

نبی ﷺ کا پسینہ مبارک کے خوشبو دار مبترک ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان بن مسلم وہیب ایوب ابی قلابہ انس، حضرت ام سلیم (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ان کے ہاں تشریف لاتے تھے اور آرام فرماتے تھے ام سلیم آپ ﷺ کے لئے چمڑے کا ایک ٹکڑا بچھا دیتی تھیں اس پر آپ ﷺ آرام فرماتے آپ ﷺ کو پسینہ بہت زیادہ آتا تھا ام سلیم آپ ﷺ کا پسینہ مبارک اکٹھا کرتی تھیں اور اسے خوشبو اور شیشیوں میں ملا دیتی تھی تو نبی ﷺ نے فرمایا اے ام سلیم یہ کیا ہے وہ کہنے لگیں یہ آپ ﷺ کا پسنیہ مبارک ہے جس کو میں اپنی خوشبو میں ملاتی ہوں۔

【121】

سردی کے دنوں میں دوران وحی آپ ﷺ کو پسینہ آنے کے بیان میں

ابوکریب محمد بن علاء ابواسامہ ہشام سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر سردی کے دنوں میں وحی نازل ہوتی تو آپ ﷺ کی پیشانی مبارک پر پسینہ بہنے لگ جاتا تھا۔

【122】

سردی کے دنوں میں دوران وحی آپ ﷺ کو پسینہ آنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، ابوکریب ابواسامہ ابن بشر ہشام محمد بن بشر سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ آپ ﷺ پر وحی کیسے آتی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھ پر وحی کبھی تو گھنٹی کی جھنکار کی طرح آتی ہے اور وہ کیفیت مجھ پر بہت سخت ہوتی ہے پھر وہ کیفیت موقوف ہوجاتی ہے اور میں اس وحی کو محفوظ کرچکا ہوتا ہوں اور کبھی تو ایک فرشتہ انسانی شکل میں آتا ہے اور جو وہ کہتا ہے میں اسے یاد کرلیتا ہوں۔

【123】

سردی کے دنوں میں دوران وحی آپ ﷺ کو پسینہ آنے کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالاعلی ابوقتادہ، حسن حطان بن عبداللہ حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تو اس کی وجہ سے آپ ﷺ پر سختی ہوتی اور آپ ﷺ چہرہ اقدس کا رنگ بدل جاتا۔

【124】

سردی کے دنوں میں دوران وحی آپ ﷺ کو پسینہ آنے کے بیان میں

محمد بن بشار، معاذ بن ہشام ابی قرادہ حسن حطان بن عبداللہ رقاشی حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ ﷺ اپنا سر مبارک جھکا لیتے تھے اور آپ ﷺ کے صحابہ بھی اپنے سروں کو جھکا لیتے اور جب وحی ختم ہوجاتی تو آپ ﷺ اپنا سر مبارک اٹھا لیتے تھے۔

【125】

رسول اللہ ﷺ کے بال مبارک اور آپ ﷺ کی صفات اور پکے حلیہ مبارک کے بیان میں

منصور بن ابی مزاحم محمد بن جعفر، بن زیاد منصور ابن جعفر ابراہیم، ابن سعد ابن شہاب عبیداللہ بن عبداللہ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اہل کتاب اپنے بالوں کو پیشانی پر لٹکے ہوئے چھوڑ دیتے تھے اور مشرک لوگ مانگ نکالتے تھے اور رسول اللہ ﷺ جس کسی کام کے بارے میں اللہ کا حکم نہ ہوتا تو اس کام کے بارے میں اہل کتاب کی موافقت بہتر سمجھتے تھے تو رسول اللہ ﷺ بھی اپنی پیشانی مبارک پر بال لٹکانے لگے پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے مانگ نکالنی شروع کردی۔

【126】

رسول اللہ ﷺ کے بال مبارک اور آپ ﷺ کی صفات اور پکے حلیہ مبارک کے بیان میں

ابوطاہر ابن وہب، یونس حضرت ابن شہاب (رض) سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【127】

نبی ﷺ کی صفات اور اس بات کے بیان میں کہ آپ ﷺ لوگوں میں سے سب سے زیادہ حسین تھے۔

محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق، حضرت براء (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ میانہ قد کے آدمی تھے آپ ﷺ کے دونوں شانوں کا درمیانی حصہ وسیع تھا آپ ﷺ گنجان بالوں والے تھے جو کہ کانوں کی لو تک آتے تھے، آپ پر ایک سرخ دھاری دار چادر تھی میں نے آپ ﷺ سے زیادہ حسین چیز کبھی نہیں دیکھی۔

【128】

نبی ﷺ کی صفات اور اس بات کے بیان میں کہ آپ ﷺ لوگوں میں سے سب سے زیادہ حسین تھے۔

عمرو ناقد ابوکریب وکیع، سفیان ابواسحاق حضرت براء (رض) سے روایت ہے کہ میں نے کسی پٹے والے کو سرخ جوڑے میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا آپ کے بال مبارک آپ کے کندھوں تک آرہے تھے آپ کے دونوں کندھوں کا درمیانی حصہ وسیع تھا اور نہ آپ ﷺ زیادہ لمبے قد کے تھے اور نہ ہی چھوٹے قد کے۔

【129】

نبی ﷺ کی صفات اور اس بات کے بیان میں کہ آپ ﷺ لوگوں میں سے سب سے زیادہ حسین تھے۔

ابوکریب محمد بن علاء اسحاق بن منصور ابراہیم، ابن یوسف ابی اسحاق حضرت براء (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ اقدس سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت تھا اور آپ کے اخلاق سب لوگوں سے زیادہ اچھے تھے اور آپ ﷺ نہ زیادہ لمبے قد والے تھے اور نہ ہی چھوٹے قد والے۔

【130】

نبی ﷺ کے بال مبارک کا بیان

شیبان بن فروخ جریربن حازم، حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بال مبارک کیسے تھے ؟ انہوں نے فرمایا درمیانے قسم کے تھے نہ تو بہت زیادہ گھونگریالے اور نہ ہی بہت سیدھے آپ کے کانوں اور کندھوں کے درمیان تک آپ کے بال تھے۔

【131】

نبی ﷺ کے بال مبارک کا بیان

زہیر بن حرب، حبان بن ہلال محمد بن مثنی، عبدالصمد ہمام قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بال مبارک کندھوں کے قریب تک تھے۔

【132】

نبی ﷺ کے بال مبارک کا بیان

یحییٰ بن یحیی، ابوکریب اسماعیل بن علیہ حمید، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بال مبارک آدھے کانوں تک تھے۔

【133】

نبی ﷺ کے مبہ مبارک اور آنکھوں اور ایڑیوں کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابن مثنی محمد بن جعفر، شعبہ، حضرت جابر بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فراخ منہ والے تھے آپ ﷺ کی آنکھوں کی سفیدی میں سرخ ڈورے پڑے ہوئے تھے آپ ﷺ کی ایڑیوں میں بہت کم گوشت تھا راوی کہتے ہیں کہ میں نے سماک سے پوچھا کہ ضَلِيعَ الْفَمِ کا کیا معنی ہے انہوں نے فرمایا فراخ منہ راوی نے کہا کہ پھر میں نے پوچھا کہ أَشْکَلَ الْعَيْنِ کا کیا معنی انہوں نے فرمایا دراز آنکھوں کے شگاف راوی کہتے ہیں کہ میں نے پھر پوچھا کہ نْهُوسَ الْعَقِبَ کے کیا معنی ہیں انہوں نے فرمایا تھوڑے گوشت والی ایڑی۔

【134】

اس بات کے بیان میں کہ نبی ﷺ کے چہرہ اقدس کا رنگ مبارک سفید ملامت دار تھا۔

سعید بن منصور، خالد بن عبداللہ حضرت جریری (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابوالطفیل سے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے انہوں نے فرمایا ہاں آپ کے چہرہ اقدس کا رنگ مبارک سفید ملاحت دار تھا امام مسلم بن حجاج فرماتے ہیں کہ حضرت ابوالطفیل نے 100 ھ میں وفات پائی اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام (رض) میں سے سب سے آخر میں وفات پانے والے یہی حضرت ابوالطفیل تھے۔

【135】

اس بات کے بیان میں کہ نبی ﷺ کے چہرہ اقدس کا رنگ مبارک سفید ملامت دار تھا۔

عبیداللہ بن عمر قواریری عبدالاعلی جریری حضرت ابوالطفیل (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے اور اب کرہ ارض پر میرے علاوہ کوئی آدمی رسول اللہ ﷺ کو دیکھنے والا نہیں ہے حضرت جریری (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوالطفیل (رض) سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کیسا دیکھا ہے حضرت ابوالطفیل (رض) فرمانے لگے کہ آپ ﷺ کا رنگ سفید ملاحت دار تھا اور درمیانہ قد والے تھے۔

【136】

رسول اللہ کے بڑھاپے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، عمرو ناقد ابن ادریس عمر بن عبداللہ بن ادریس اودی ہشام ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رض) سے پوچھا گیا کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے خضاب لگایا ہے انہوں نے فرمایا آپ ﷺ پر اس قدر بڑھاپا ہی نہیں دیکھا گیا سوائے اس کے کہ ابن ادریس کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) نے مہندی اور وسمہ کے ساتھ خضاب لگایا ہے۔

【137】

رسول اللہ کے بڑھاپے کے بیان میں

محمد بن بکار بن ریان اسماعیل بن زکریا، عاصم، احول، حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے خضاب لگایا ہے تو انہوں نے فرمایا آپ ﷺ خضاب کے درجے کو پہنچے ہی نہیں آپ ﷺ کی داڑھی مبارک میں صرف چند بال سفید تھے حضرت ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے پھر حضرت انس (رض) سے پوچھا کہ کیا حضرت ابوبکر (رض) خضاب لگاتے تھے تو انہوں نے فرمایا ہاں مہندی اور وسمہ کے ساتھ۔

【138】

رسول اللہ کے بڑھاپے کے بیان میں

حجاج بن شاعر، معلی بن اسد وہیب بن خالد ایوب محمد بن سیرین انس بن مالک، حضرت محمد بن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے خضاب لگایا ہے انہوں نے فرمایا آپ ﷺ کا بڑھاپا ہی نہیں دیکھا گیا سوائے تھوڑے سے بڑھاپے کے۔

【139】

رسول اللہ کے بڑھاپے کے بیان میں

ابوربیع عتکی حماد ثابت انس بن مالک حضرت ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رض) سے نبی ﷺ کے خضاب لگانے کے بارے میں پوچھا گیا تو حضرت انس (رض) نے فرمایا اگر میں چاہتا تو میں آپ کے سر مبارک میں سفید بال گن سکتا تھا آپ نے خضاب نہیں لگایا البتہ حضرت ابوبکر (رض) نے مہندی اور وسمہ کے ساتھ خضاب لگایا ہے اور حضرت عمر (رض) نے صرف مہندی سے خضاب لگایا ہے۔

【140】

رسول اللہ کے بڑھاپے کے بیان میں

نصر بن علی جہضمی ابی مثنی بن سعید قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ آدمی اپنے سر اور داڑھی کے سفید بالوں کو اکھاڑے اور فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ نے خضاب نہیں لگایا اور آپ ﷺ کی چھوٹی داڑھی جو کہ ہونٹوں کے نیچے ہوتی ہے اس میں کچھ سفید بال تھے اور کچھ کنپٹیوں اور کچھ سر میں سفید بال تھے۔

【141】

رسول اللہ کے بڑھاپے کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالصمد مثنی حضرت مثنی سے اسی سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے۔

【142】

رسول اللہ کے بڑھاپے کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار احمد بن ابراہیم، دورقی ہارون بن عبداللہ ابی داؤد ابن مثنی سلیمان ابوداؤد شعبہ، خالد بن جعفر ابوایاس، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ان سے نبی ﷺ کے بڑھاپے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اللہ نے آپ ﷺ کو بڑھاپے کے ساتھ نہیں بدلا۔

【143】

رسول اللہ کے بڑھاپے کے بیان میں

احمد بن یونس زہیر ابواسحاق یحییٰ بن یحیی، ابوخیثمہ ابواسحاق، حضرت ابوجحفیہ (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ میں یہ سفیدی دیکھی اور زہیر نے اپنی انگلیاں اپنی ٹھوڑی کے بالوں پر رکھ کر بتایا حضرت ابوجحفیہ سے کہا گیا کہ اس دن تم کیسے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا میں تیر میں پیکان اور پر لگاتا تھا۔

【144】

رسول اللہ کے بڑھاپے کے بیان میں

واصل بن عبدالاعلی محمد بن فضیل اسماعیل بن ابی خالد حضرت ابوجحفیہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ کا رنگ مبارک سفید تھا اور آپ ﷺ پر کچھ بڑھاپا آگیا تھا حضرت حسن بھی آپ ﷺ کے مشابہ تھے۔

【145】

رسول اللہ کے بڑھاپے کے بیان میں

سعید بن منصور، سفیان، خالد بن عبداللہ ابن نمیر، محمد بن بشر اس سند کے ساتھ حضرت ابوحجفیہ سے یہی روایت نقل کی گئی ہے لیکن اس میں آپ ﷺ کے رنگ کی سفید اور بڑھاپے کا تذکرہ نہیں ہے۔

【146】

رسول اللہ کے بڑھاپے کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابوداؤد سلیمان بن داؤد، شعبہ، سماک بن حرب، حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے نبی ﷺ کے بڑھاپے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب اپنے سر مبارک میں تیل لگاتے تو کچھ سفیدی دکھائی نہ دتیی اور جب تیل نہ لگاتے تو آپ ﷺ کے سر مبارک سے کچھ سفیدی دکھائی دیتی۔

【147】

نبی کریم ﷺ کے مہر نبوت کے ثبوت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبیداللہ اسرائیل سماک جابر، بن سمرہ حضرت جابر بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک اور داڑھی مبارک کا اگلا حصہ سفید ہوگیا تھا اور جب آپ ﷺ تیل لگاتے تو سفیدی ظاہر نہ ہوتی اور جب آپ ﷺ کے سر مبارک کے بال پراگندہ ہوتے تو سفیدی ظاہر ہوجاتی اور آپ ﷺ کی داڑھی مبارک کے بال بہت گھنے تھے ایک آدمی کہنے لگا کہ آپ ﷺ کا چہرہ اقدس تلوار کی طرح ہے حضرت جابر (رض) کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ ﷺ کا چہرہ اقدس سورج اور چاند کی طرح گولائی مائل تھا اور میں نے مہر نبوت آپ کے کندھے مبارک کے پاس دیکھی جس طرح کہ کبوتر کا انڈہ اور اس کا رنگ آپ کے جسم مبارک کے مشابہ تھا۔

【148】

نبی کریم ﷺ کے مہر نبوت کے ثبوت کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، سماک، حضرت جابر بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی پشت مبارک میں مہر نبوت دیکھی جیسا کہ کبوتر کا انڈا۔

【149】

نبی کریم ﷺ کے مہر نبوت کے ثبوت کے بیان میں

ابن نمیر، عبیداللہ بن موسیٰ ، حسن بن صالح، حضرت سماک سے اسی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【150】

نبی کریم ﷺ کے مہر نبوت کے ثبوت کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، محمد بن عباد حاتم ابن اسماعیل جعد بن عبدالرحمن، حضرت سائب بن یزید (رض) فرماتے ہیں کہ میری خالہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گئیں اور عرض کرنے لگیں اے اللہ کے رسول ﷺ میرا یہ بھانجا بیمار ہے تو آپ ﷺ نے میرے سر پر اپنا ہاتھ پھیرا اور میرے لئے برکت کی دعا فرمائی پھر آپ ﷺ نے وضو فرمایا اور میں نے آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی پی لیا پھر میں آپ ﷺ کی پشت مبارک کے پیچھے کھڑا ہوا تو میں نے آپ ﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت دیکھی جو کہ مسہری کی گھنڈیوں جیسی تھی۔

【151】

نبی کریم ﷺ کے مہر نبوت کے ثبوت کے بیان میں

ابوکامل حامد ابن زید سوید ابن سعید علی بن مسہر، عاصم، احول حامد بن عمر بکراوی عبدالوحد ابن زیادعاصم، حضرت عبداللہ بن سرجس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا اور میں نے آپ کے ساتھ روٹی اور گوشت یا ثرید کھایا حضرت عاصم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ سے کہا کہ کیا نبی ﷺ نے تیرے لئے دعائے مغفرت بھی کی ہے انہوں نے کہا جی ہاں اور تیرے لئے بھی دعائے مغفرت کی ہے پھر یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی (وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْ بِكَ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ) 47 ۔ محمد : 19) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ پھر میں آپ ﷺ کے پیچھے کی طرف ہوا تو میں نے آپ ﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان چینی کی ہڈی کے پاس بائیں کندھے کے قریب مٹھی کی طرح مہر نبوت دیکھی اس پر مسوں کی طرح کے تل تھے۔

【152】

نبی ﷺ کی عمر مبارک کے بیان میں اور اقامت مکہ و مدینہ کے بارے میں۔

یحییٰ بن یحیی، مالک ربیعہ بن ابوعبدالرحمن، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نہ تو بہت طویل القامت تھے اور نہ ہی پست قد اور نہ ہی آپ ﷺ بالکل سفید تھے اور نہ ہی گندمی رنگ اور آپ کے بال مبارک نہ تو بالکل گھنگریالے تھے اور نہ ہی بالکل سیدھے اللہ تعالیٰ نے آپ کے سر مبارک پر چالیس سال کی عمر میں نبوت کا تاج رکھا پھر آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں دس سال قیام فرمایا اور دس سال مدینہ منورہ میں رہے اور ساٹھ سے کچھ اوپر تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وفات دے دی اور آپ ﷺ کے سر مبارک اور داڑھی مبارک میں بیس بال بھی سفید نہیں تھے۔

【153】

نبی ﷺ کی عمر مبارک کے بیان میں اور اقامت مکہ و مدینہ کے بارے میں۔

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، علی بن حجر اسماعیل ابن جعفر قاسم بن زکریا، خالد بن مخلد، سلیمان بن بلال، ربیعہ ابن ابوعبدالرحمن، حضرت انس بن مالک (رض) سے حضرت مالک (رض) کی روایت کی طرح روایت نقل کی گئی ہے کہ لیکن ان دونوں روایتوں میں یہ الفاظ زائدہ ہیں کہ آپ ﷺ کا رنگ مبارک چمکتا ہو سفید تھا۔

【154】

نبی ﷺ کی وفات کے دن عمر مبارک کے بیان میں

ابوغسان، رازی، محمد بن عمرو، حکام بن سلم، عثمان بن زائدہ، زبیر بن عدی، حضرت انس (رض) بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا وصال تریسٹھ سال کی عمر میں ہوا اور حضرت ابوبکر (رض) نے بھی تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔

【155】

نبی ﷺ کی وفات کے دن عمر مبارک کے بیان میں

عبدالملک بن شعیب بن لیث، ابی جدی عقیل بن خالد ابن شہاب عروہ سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تریسٹھ سال کی عمر مبارک میں وفات پائی ابن شہاب (رض) کہتے ہیں کہ مجھے حضرت سعید بن مسیب (رض) نے بھی اسی طرح خبر دی ہے۔

【156】

نبی ﷺ کی وفات کے دن عمر مبارک کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ، عباد بن موسی، طلحہ بن یحیی، یونس بن یزید، حضرت ابن شہاب (رض) سے ان دونوں اسناد کے ساتھ عقیل کی روایت کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【157】

نبی ﷺ کا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کی ضرورت کے بیان میں

ابومعمر، اسماعیل بن ابراہیم، ہذلی سفیان، حضرت عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عروہ (رض) سے پوچھا کہ نبی ﷺ نے مکہ مکرمہ میں کتنا عرصہ قیام کیا انہوں نے فرمایا دس سال میں نے کہا حضرت ابن عباس (رض) نے تو تیرہ سال فرمائے ہیں۔

【158】

نبی ﷺ کا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کی ضرورت کے بیان میں

ابن ابی عمر، سفیان، عمرو حضرت عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عروہ (رض) سے پوچھا کہ نبی ﷺ نے مکہ مکرمہ میں کنتا عرصہ قیام فرمایا انہوں نے فرمایا دس سال میں نے کہا کہ حضرت ابن عباس (رض) تو دس سال سے کچھ اوپر کہتے تھے تو حضرت عروہ نے ان کے لئے مغفرت کی دعا فرمائی اور کہنے لگے کہ ان کو شاعر کے قول سے وہم ہوگیا ہے

【159】

نبی ﷺ کا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کی ضرورت کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، ہارون بن عبداللہ روح بن عبادہ، زکریا، بن اسحاق، عمرو بن دینار، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں تیرہ سال قیام فرمایا اور آپ نے تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔

【160】

نبی ﷺ کا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کی ضرورت کے بیان میں

ابن ابی عمر، بشر بن سری، حماد، ابوحمزہ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں تیرہ سال قیام فرمایا اور اس عرصہ میں آپ ﷺ کی طرف وحی آتی رہی اور مدینہ منورہ میں آپ ﷺ نے دس سال قیام فرمایا اور آپ نے تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔

【161】

نبی ﷺ کا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کی ضرورت کے بیان میں

ابن عمر بن محمد بن ابان جعفی سلام ابوالاحوص حضرت ابواسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عتبہ (رض) کے پاس بیٹھا تھا کہ وہاں موجود لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک کا ذکر کیا تو کچھ لوگوں نے کہا حضرت ابوبکر (رض) رسول اللہ ﷺ سے بڑے تھے حضرت عبداللہ (رض) فرمانے لگے کہ رسول اللہ ﷺ نے تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی اور حضرت عمر فاروق (رض) تریسٹھ سال کی عمر میں شہید کئے گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں میں سے ایک آدمی جسے عامر بن سعد کہا جاتا ہے کہنے لگا ہم سے حضرت جریر (رض) نے بیان کیا کہ ہم حضرت امیر معاویہ (رض) کے پاس بیٹھے تھے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک کا تذکرہ کیا تو حضرت معاویہ (رض) نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی اور حضرت ابوبکر (رض) نے بھی تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی ہے اور حضرت عمر (رض) نے بھی تریسٹھ سال کی عمر میں شہادت پائی۔

【162】

نبی ﷺ کا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کی ضرورت کے بیان میں

ابن مثنی ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق عامر بن سعد بجلی حضرت جریر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت امیر معاویہ (رض) سے سنا انہوں نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی ہے اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) نے بھی تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی اور میں بھی اب تریسٹھ سال کا ہوں۔

【163】

نبی ﷺ کا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کی ضرورت کے بیان میں

ابن منہال ضریر یزید بن زریع یونس بن عبیداللہ حضرت عمار (رض) (بنی ہاشم کے مولا) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ کی عمر مبارک آپ کی وفات کے دن کتنی تھی تو انہوں نے فرمایا میرا خیال نہیں تھا کہ آپ ﷺ کی قوم میں سے ہوتے ہوئے بھی اتنی سی بات تم سے پوشیدہ ہوگی میں نے کہا کہ میں نے لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اختلاف کیا اس لئے میں نے پسند کیا کہ میں اس سلسلے میں آپ کا قول جان لوں حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا تم حساب جانتے ہو میں نے کہا جی ہاں انہوں نے فرمایا تم چالیس کو یاد رکھو اس وقت آپ ﷺ کو مبعوث کیا گیا پندرہ سال مکہ مکرمہ میں رہے کبھی امن اور کبھی خوف کے ساتھ رہے اور پھر آپ ﷺ نے ہجرت کے بعد دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا۔

【164】

نبی ﷺ کا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کی ضرورت کے بیان میں

محمد بن رافع شبابہ بن سوار شعبہ، یونس حضرت یونس سے اس سند کے ساتھ یزید بن زریع کی طرح حدیث نقل کی گئی ہے۔

【165】

نبی ﷺ کا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کی ضرورت کے بیان میں

نصر بن علی بشر بن مفضل خالد خذا عمار مولیٰ بنی ہاسم حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ کی وفات پینسٹھ سال کی عمر میں ہوئی۔

【166】

نبی ﷺ کا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کی ضرورت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن علیہ، حضرت خالد سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے۔

【167】

نبی ﷺ کا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کی ضرورت کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، حنظلی روح حماد بن سلمہ عمار بن ابی عمار حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں پندرہ سال قیام پذیر رہے آپ آواز سنتے (یعنی جبرئیل (علیہ السلام) کی) اور روشنی دیکھتے (یعنی راتوں کی تاریکی میں عظیم نور دیکھتے اور یہ سلسلہ) سات سال تک رہا لیکن آپ ﷺ کوئی صورت نہ دیکھتے اور پھر آٹھ سال تک وحی آنے لگی اور آپ ﷺ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا۔

【168】

نبی ﷺ کے اسماء مبارک کے بیان میں

زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، ابن ابی عمرو زہیر اسحاق سفیان بن عیینہ، زہری، حضرت محمد بن جبیر (رض) بن مطعم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا میں محمد ہوں اور میں احمد بھی ہوں اور میں ماحی بھی ہوں یعنی اللہ میری وجہ سے کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں (قیامت کے دن) سب لوگوں کو میرے پاؤں پر جمع کیا جائے گا اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے کہ جس کے بعد کوئی اور نبی نہیں (یعنی میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں، اس وجہ سے میرا ایک عاقب بھی ہے) ۔

【169】

نبی ﷺ کے اسماء مبارک کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب حضرت محمد بن جبیر (رض) بن مطعم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے بہت سے نام ہیں میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور ماحی ہوں اور میں حاشر ہوں (حاشر کا معنی یہ کہ قیامت کے دن) اللہ سب لوگوں کو میرے پاؤں پر جمع فرمائے گا اور میں عاقب ہوں (عاقب کا معنی یہ ہے کہ) جس کے بعد کوئی نبی نہیں اور اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کا نام رؤف اور رحیم رکھا ہے۔

【170】

نبی ﷺ کے اسماء مبارک کے بیان میں

عبدالملک بن شعیب بن لیث، ابی جدی عقیل عبد بن حمید عبدالرزاق، معمر، عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، ابوسمان شعیب حضرت زہری (رض) سے ان سندوں کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے اور شعبہ اور معمر کی حدیث میں سمعت رسول اللہ ﷺ کے الفاظ ہیں اور عقیل کی روایت میں ہے کہ میں نے حضرت زہری سے پوچھا کہ عاقب کے کیا معنی ہیں انہوں نے فرمایا جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو اور عقیل نے اپنے روایت میں " کفر " کا لفظ کہا ہے اور شعیب نے اپنی روایت میں " کفر " کا لفظ کہا ہے۔

【171】

نبی ﷺ کے اسماء مبارک کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم حنظلی، جریر، اعمش، عمرو بن مرہ ابی عبیدہ حضرت ابوموسی اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے اپنے کئی نام بیان فرمائے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا میں محمد اور احمد اور مُقَفِّي اور حاشر، نبی التوبہ اور نبی الرحمت ہوں۔

【172】

اس بات کے بیان مٰن کہ جناب نبی ﷺ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جاننے والے اور اللہ سے ڈرنے والے تھے۔

زہیر بن حرب، جریر، اعمش، ابن ضحی مسروق، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک کام کیا اور اس میں رخصت رکھی تو یہ بات آپ ﷺ کے صحابہ کرام (رض) میں سے کچھ لوگوں تک پہنچی تو ان لوگوں نے اسے ناپسند سمجھا اور اس سے پرہیز کیا آپ ﷺ کو اس بات کا پتہ چلا تو پھر کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کیا حال ہے ان لوگوں کا کہ جن کو یہ بات پہنچی ہے کہ میں نے ایک کام کرنے کی اجازت دے دی ہے اور وہ اسے ناپسند سمجھ رہے ہیں اور اس سے پرہیز کر رہے ہیں اللہ کی قسم میں ہی سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں اور میں ہی اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔

【173】

اس بات کے بیان مٰن کہ جناب نبی ﷺ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جاننے والے اور اللہ سے ڈرنے والے تھے۔

ابوسعید اشج حفص ابن عیاث اسحاق بن ابراہیم، علی بن حشرم عیسیٰ بن یونس، اعمش حضرت اعمش (رض) سے جریر کی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث مبارکہ کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【174】

اس بات کے بیان مٰن کہ جناب نبی ﷺ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جاننے والے اور اللہ سے ڈرنے والے تھے۔

ابوکریب ابومعاویہ اعمش، مسلم مسروق، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کام کے کرنے کے بارے میں اجازت عطا فرمائی تو لوگوں میں سے کچھ لوگ اس سے بچنے لگے جب یہ بات نبی ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ غصہ میں آگئے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے چہرہ اقدس پر غصہ کے اثرات نمایاں ہوگئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا ان لوگوں کا کیا حال ہے کہ جس کام کے کرنے کی میں اجازت دی ہے اور وہ لوگ اس سے اعراض کرتے ہیں اللہ کی قسم میں سب سے زیادہ اللہ کو جانتا ہوں اور میں ہی سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔

【175】

رسول اللہ کی اتباع کے وجوب کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، لیث، ابن شہاب عروہ ابن زبیر حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) بیان فرماتے ہیں کہ انصار کا ایک آدمی حرہ کے ایک مہرے کے بارے میں کہ جس سے کھجور کے درختوں کو پانی لگاتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے سامنے جھگڑا کرنے لگا انصاری نے کہا کہ پانی کو چھوڑ دے تاکہ وہ بہتا رہے۔ حضرت زبیر (رض) نے انکار کردیا تو سب نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس جھگڑے کا (ذکر کیا) رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر (رض) سے فرمایا اے زبیر ! تو اپنے درختوں کو پانی دے پھر پانی اپنے پڑوسی کی طرف چھوڑ دے۔ انصاری (یہ بات سن کر) غصہ میں آگیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول ! یہ زبیر تو آپ ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے (یہ بات سن کر) اللہ کے نبی ﷺ کے چہرہ اقدس کا رنگ بدل گیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے زبیر ! اپنے درختوں کو پانی دے پھر پانی کو روک لے یہاں تک کہ پانی دیواروں تک چڑھ جائے۔ حضرت زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ یہ آیت (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا) 4 ۔ النسآء : 65) اس بارے میں نازل ہوئی ہے " اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ اپنے جھگڑوں میں آپ ﷺ کو حکم تسلیم نہ کرلیں اور پھر آپ "۔

【176】

بغیر ضرورت کے کثرت سے سوال کرنے کی ممانعت کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ تجیبی ابن وہب، یونس ابن شہاب حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن اور حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ میں جس کام سے تمہیں روکتا ہوں تم اس سے رک جاؤ اور جس کام کے کرنے کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں تو تم اپنی استطاعت کے مطابق اس کام کو کرو کیونکہ تم سے پہلے وہ لوگ اس وجہ سے ہلاک ہوئے کہ وہ اپنے نبیوں سے کثرت سے سوال اور اختلاف کرتے تھے۔

【177】

بغیر ضرورت کے کثرت سے سوال کرنے کی ممانعت کے بیان میں

محمد بن احمد بن ابی خلف ابوسلمہ منصور بن سلمہ خزاعی لیث، یزید بن ہاد حضرت ابن شہاب (رض) سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث مبارکہ کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【178】

بغیر ضرورت کے کثرت سے سوال کرنے کی ممانعت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، ابن نمیر، ابی اعمش، ابوصالح، ابوہریرہ، قتیبہ بن سعید، مغیرہ حزامی، ابن ابی عمر، سفیان، ابوزناد، اعرج، ابوہریرہ، عبیداللہ بن معاذ، ابی شعبہ، محمد بن زیاد، ابوہریرہ، محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، ابوہریرہ۔ ان سب سندوں کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس کام کو میں چھوڑ دوں تم بھی اس کو چھوڑ دو اور ہمام کی روایت میں ترکتم کا لفظ ہے مطلب یہ کہ جس معاملہ میں تمہیں چھوڑ دیا جائے پھر آگے روایت میں زہری عن سعید اور ابوسلمہ عن ابوہریرہ (رض) کی روایت کی طرح ذکر کیا گیا ہے۔

【179】

بغیر ضرورت کے کثرت سے سوال کرنے کی ممانعت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابرہیم بن سعد ابن شہاب حضرت عامر بن سعد (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان میں سے سب بڑا جرم اس مسلمان کا ہے کہ جس نے کسی چیز کے بارے میں پوچھا (جب کہ وہ حرام) مسلمانوں پر حرام نہیں تھی لیکن ان کے سوال کرنے کی وجہ سے ان پر وہ چیز حرام کردی گئی۔

【180】

بغیر ضرورت کے کثرت سے سوال کرنے کی ممانعت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن ابی عمر سفیان بن عیینہ، زہری، محمد بن عباد سفیان، حضرت عامر بن سعد (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مسلمانوں میں سب سے بڑا جرم اس مسلمان کا ہے کہ جس نے کسی ایسے کام کے بارے میں سوال کیا جو حرام نہیں تھا تو پھر وہ کام اس مسلمان کے سوال کرنے کی وجہ سے لوگوں پر حرام کردیا گیا۔

【181】

بغیر ضرورت کے کثرت سے سوال کرنے کی ممانعت کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس عبد بن حمید عبدالرزاق، معمر، حضرت زہری (رض) سے اسی سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے لیکن معمر کی روایت میں یہ الفاظ زائدہ ہیں کہ ایک آدمی نے کسی چیز کے بارے میں پوچھا اور اس کے بارے میں موشگافی کی اور یونس نے اپنے روایت میں عامر بن سَعْدٍ أَنَّهُ سے سَمِعَ سَعْدًا کے الفاظ ذکر کئے ہیں۔

【182】

بغیر ضرورت کے کثرت سے سوال کرنے کی ممانعت کے بیان میں

محمود بن غیلان محمد بن قدامہ سلمہ یحییٰ بن محمد لولوی محمود نضر بن شمیل نضر شعبہ، موسیٰ بن انس، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کو اپنے صحابہ کرام (رض) کی طرف سے کوئی بات پہنچی تو آپ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا کہ میرے سامنے جنت اور دوزخ کو پیش کیا گیا تو میں نے آج کے دن کی طرح کوئی خیر اور کوئی شر کبھی نہیں دیکھی اور اگر تم بھی جان لیتے جو میں جانتا ہوں تو تم لوگ کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔ راوی حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ (رض) پر اس دن سے زیادہ سخت دن کوئی نہیں آیا۔ راوی کہتے ہیں کہ ان سب نے اپنے سروں کو جھکا لیا اور ان پر گریہ طاری ہوگیا راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت عمر (رض) کھڑے ہوئے اور وہ کہنے لگے ہم اللہ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہیں پھر اس کے بعد وہی آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میرے باپ کون تھے آپ ﷺ نے فرمایا تیرا باپ فلاں تھا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْ َ لُوْا عَنْ اَشْيَا ءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ) 5 ۔ المائدہ : 101) اے ایمان والو تم ایسی چیزوں کے بارے میں نہ پوچھا کرو کہ اگر وہ ظاہر ہوجائیں تو تم کو بری معلوم ہونے لگیں۔

【183】

بغیر ضرورت کے کثرت سے سوال کرنے کی ممانعت کے بیان میں

محمد بن معمر، بن ربعی قیسی روح بن عبادہ، شعبہ، موسیٰ بن انس، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرا باپ کون تھا آپ ﷺ نے فرمایا تیرا باپ فلاں آدمی تھا اور یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (یااَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْلُوْا عَنْ اَشْيَا ءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ) 5 ۔ المائدہ : 101) اے ایمان والو تم ایسی چیزوں کے بارے میں نہ پوچھا کرو کہ اگر وہ ظاہر ہوجائیں تو تم کو بری معلوم ہونے لگیں۔

【184】

بغیر ضرورت کے کثرت سے سوال کرنے کی ممانعت کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ بن عبداللہ بن حرملہ بن عمران ابن وہب، یونس ابن شہاب، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سورج ڈھلنے کے بعد نکلے اور آپ نے صحابہ (رض) کو ظہر کی نماز پڑھائی پھر جب سلام پھیرا تو آپ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور قیامت کا ذکر فرمایا اور آپ ﷺ نے فرمایا قیامت سے پہلے بہت سی بڑی بڑی باتیں ظاہر ہوں گی پھر آپ ﷺ نے فرمایا جو آدمی مجھ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے وہ مجھ سے پوچھ لے اللہ کی قسم ! تم مجھ سے جس چیز کے بارے میں پوچھو گے تو میں تم کو اس کے بارے میں خبر دے دوں گا جب تک کہ میں اپنی اس جگہ پر ہوں حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ جس وقت انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی یہ بات سنی تو بہت سے لوگوں نے رونا شروع کردیا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمانا شروع کردیا کہ مجھ سے پوچھو حضرت عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرا باپ کون تھا آپ ﷺ نے فرمایا کہ تیرا باپ حذیفہ تھا رسول اللہ ﷺ نے پھر فرمانا شروع کردیا کہ تم لوگ مجھ سے پوچھو تو حضرت عمر (رض) اپنے گھٹنوں کے بل گرپڑے اور عرض کیا ہم اللہ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہیں راوی کہتے ہیں کہ جس وقت حضرت عمر (رض) نے یہ کہا تو رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آفت قریب ہے اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میں محمد ﷺ کی جان ہے اور اس دیوار کے کونے میں میرے سامنے جنت اور دوزخ کو پیش کیا گیا تو میں نے آج کے دن کی طرح کی کوئی بھلائی اور برائی کبھی نہیں دیکھی ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی ہے وہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن حذافہ کی ماں نے ان سے کہا کہ میں نے تیرے جیسا نافرمان بیٹا کوئی نہیں دیکھا کہ تجھے اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ تیری ماں نے بھی وہ گناہ کیا ہوگا کہ جو زمانہ جاہلیت کی عورتیں کیا کرتی تھیں پھر تو اپنی ماں کو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے رسوا کرے حضرت عبداللہ بن حذافہ کہنے لگے کہ اگر میرا رشتہ ایک حبشی غلام سے بھی ملایا جاتا تو میں اس سے مل جاتا۔

【185】

بغیر ضرورت کے کثرت سے سوال کرنے کی ممانعت کے بیان میں

عبد بن حمید عبدالرزاق، معمر، عبداللہ بن اعبدالرحمن دارمی ابویمان شعیب زہری، حضرت انس نے نبی ﷺ سے یہ حدیث یونس کی روایت کی طرح نقل کی ہے اور شعیب کی روایت میں ہے کہ حضرت زہری (رض) کہتے ہیں کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی وہ کہتے ہیں کہ اہل علم میں سے کسی آدمی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن حذیفہ (رض) کی ماں نے ان سے کہا۔

【186】

بغیر ضرورت کے کثرت سے سوال کرنے کی ممانعت کے بیان میں

یوسف بن حماد عبدالاعلی سعید بن قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے اللہ کے نبی ﷺ سے پوچھنا شروع کردیا یہاں تک کہ لوگوں نے آپ ﷺ کو تنگ کردیا تو ایک دن آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور منبر پر چڑھ کر فرمایا کہ تم لوگ مجھ سے پوچھو اور جس چیز کے بارے میں پوچھو گے میں تمہیں بتادوں گا جب لوگوں نے یہ سنا تو وہ خاموش ہوگئے اور اس بات سے ڈرنے لگے کہ کہیں کوئی بات تو پیش آنے والی نہیں ہے حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے دائیں بائیں دیکھا تو ہر آدمی اپنا منہ اپنے کپڑے میں لپیٹے رو رہا تھا بالاآخر مسجد کے ایک آدمی کہ جس سے لوگ جھگڑتے تھے اور اسے اس کے غیر باپ کی طرف منسوب کرتے تھے، میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ میرا باپ کون ہے آپ ﷺ نے فرمایا تیرا باپ حذیفہ ہے پھر حضرت عمر نے ہمت کر کے عرض کیا ہم اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر راضی ہیں تمام برے فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے آج کے دن کی طرح کی بھلائی اور برائی کبھی نہیں دیکھی کیونکہ جنت اور دوزخ کو میرے سامنے لایا گیا اور میں نے اس دیوار کے کونے میں ان دونوں کو دیکھا ہے۔

【187】

بغیر ضرورت کے کثرت سے سوال کرنے کی ممانعت کے بیان میں

یحییٰ بن حبیب حارثی، خالد بن حارث، محمد بن بشار، محمد بن ابی عدی ہشام عاصم، بن نضر معتمر ان سندوں کے ساتھ حضرت انس (رض) سے یہی واقعہ نقل کی گیا ہے۔

【188】

بغیر ضرورت کے کثرت سے سوال کرنے کی ممانعت کے بیان میں

عبداللہ بن براء، اشعری محمد بن علاء، ہمدانی ابواسامہ برید حضرت ابوموسی (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ سے لوگوں نے کچھ ایسی چیزوں کے بارے میں پوچھا کہ جو آپ ﷺ کو ناگوار معلوم ہوئیں تو جب لوگوں نے بار بار ایسی چیزوں کے بارے میں آپ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ غصہ میں آگئے پھر آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا جو چاہو مجھ سے پوچھ لو ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میرا باپ کون ہے آپ ﷺ نے فرمایا تیرا باپ حذیفہ ہے پھر ایک دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میرا باپ کون ہے آپ نے فرمایا سالم مولیٰ شیبہ پھر حضرت عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ اقدس پر غصہ کے اثرات دیکھے تو عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں۔

【189】

اس بات کے بیان میں کہ رسول اللہ ﷺ شریعت کا جو حکم بھی فرمائیں اس پر عمل کرنا واجب ہے اور دنیوں معیشت کے بارے میں جو مشورہ یا جو بات اپنی رائے سے فرمائیں اس پر عمل کرنے میں اختیار ہے۔

قتیبہ بن سعید، ثقفی ابوکامل جحدر قتیبہ ابوعوانہ، سماک حضرت موسیٰ بن طلحہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جو کہ کھجور کے درختوں کے پاس تھے آپ ﷺ نے فرمایا یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یہ لوگ قلم لگاتے ہیں یعنی نر کو مادہ کے ساتھ ملاتے ہیں تو وہ پھل دار ہوجاتا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے خیال میں اس چیز میں کچھ فائدہ نہیں راوی کہتے ہیں کہ جب اس بات کی خبر ان لوگوں کو ہوئی تو انہوں نے اس طرح کرنا چھوڑ دیا رسول اللہ ﷺ کو اس بارے میں خبر دی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر یہ کام ان کو نفع دیتا ہے تو وہ لوگ یہ کام کریں کیونکہ میرے خیال پر تم مجھے نہ پکڑو لیکن جب میں تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم بیان کروں تو تم اس پر عمل کرو کیونکہ میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا نہیں ہوں۔

【190】

اس بات کے بیان میں کہ رسول اللہ ﷺ شریعت کا جو حکم بھی فرمائیں اس پر عمل کرنا واجب ہے اور دنیوں معیشت کے بارے میں جو مشورہ یا جو بات اپنی رائے سے فرمائیں اس پر عمل کرنے میں اختیار ہے۔

عبداللہ بن رومی یمامی عباس بن عبدالعظیم عنبری احمد بن جعفر نضر بن محمد عکرمہ ابن عمار ابونجاشی حضرت رافع بن خدیج (رض) فرماتے ہیں کہ کہ اللہ کے نبی ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہ لوگ کھجوروں کو قلم لگا رہے تھے یعنی کھجوروں کو گابھن کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا تم لوگ کیا کر رہے ہو انہوں نے کہا ہم لوگ اسی طرح کرتے چلے آئے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم اس طرح نہ کرو تو شاید تمہارے لئے یہ بہتر ہو انہوں نے اس طرح کرنا چھوڑ دیا تو کھجوریں کم ہوگئیں صحابہ کرام نے اس بارے میں آپ ﷺ سے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا میں ایک انسان ہوں جب میں تمہیں کوئی دین کی بات کا حکم دوں تو تم اس کو اپنا لو اور جب میں اپنی رائے سے کسی چیز کے بارے میں بتاؤں تو میں بھی ایک انسان ہی ہوں حضرت عکرمہ کہتے ہیں کہ یا اسی طرح کچھ اور آپ ﷺ نے فرمایا۔

【191】

اس بات کے بیان میں کہ رسول اللہ ﷺ شریعت کا جو حکم بھی فرمائیں اس پر عمل کرنا واجب ہے اور دنیوں معیشت کے بارے میں جو مشورہ یا جو بات اپنی رائے سے فرمائیں اس پر عمل کرنے میں اختیار ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد اسود بن عمار ابوبکر اسود بن عامر حماد بن سلمہ ہشام بن عروہ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک جماعت کے پاس سے گزرے جو کہ قلم لگا رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم اس طرح کرو تو بہتر ہوگا (آپ کے فرمان کے مطابق انہوں نے اس طرح نہ کیا) تو کھجور خراب آئی راوی کہتے ہیں کہ کہ آپ ﷺ پھر اس طرف سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے درختوں کو کیا ہوا ان لوگوں نے کہا آپ نے ایسے ایسے فرمایا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم لوگ اپنے دنیوی معاملات کو میرے نسبت زیادہ بہتر جانتے ہو۔

【192】

نبی ﷺ کا دیدار کرنے اور اس کی تمنا کرنے کی فضلیت کے بیان میں

محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، ہمام حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے تم پر ایک دن آئے گا کہ تم لوگ مجھے دیکھ نہیں سکو گے اور تمہارے لئے مجھے دیکھنا تمہیں اہل و عیال اور مال و دولت سے زیادہ پسندیدہ ہوگا۔

【193】

حضرت عیسیٰ کے فضائل کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب ابا سلمہ بن عبدالرحمن حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں لوگوں میں سے سب سے زیادہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قریب ہوں اور انبیاء کرام (علیہم السلام) سب علاتی بھائیوں کی طرح ہیں اور میرے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔

【194】

حضرت عیسیٰ کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوداؤد عمر بن سعد سفیان، ابی زناد اعرج ابوسلمہ (رض) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں لوگوں میں سب سے زیادہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قریب ہوں اور تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) علاتی بھائی ہیں اور میرے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔

【195】

حضرت عیسیٰ کے فضائل کے بیان میں

محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں دنیا اور آخرت میں سب لوگوں سے زیادہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے قریب ہوں صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کیسے ؟ آپ نے فرمایا تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) علاتی بھائی ہیں ان کی مائیں علیحدہ علیحدہ ہیں اور ان سب کا دین ایک ہی ہے اور ہمارے (یعنی میرے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے) درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔

【196】

حضرت عیسیٰ کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدالاعلی معمر، زہری، سعید، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی بچہ ایسا نہیں کہ جس کی ولادت کے وقت شیطان اس کے کو نچہ نہ مارتا ہو پھر وہ بچہ شیطان کے کو نچہ مارنے کی وجہ سے چیختا (روتا) ہے سوائے حضرت ابن مریم (علیہ السلام) کے اور ان کی والدہ کے پھر حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا اگر تم چاہو تو یہ آیت کریمہ پڑھو (وَاِنِّىْ اُعِيْذُھَابِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ ) 3 ۔ آل عمران : 36)

【197】

حضرت عیسیٰ کے فضائل کے بیان میں

محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، ابویمان شعیب، حضرت زہری (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے اور اس روایت میں ہے کہ جس وقت بچہ کی ولادت ہوتی ہے تو شیطان اسے چھوتا ہے تو شیطان کے چھونے کی وجہ سے وہ بچہ چلا کر روتا ہے۔

【198】

حضرت عیسیٰ کے فضائل کے بیان میں

ابوطاہر ابن وہب، عمرو بن حارث، ابویونس، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر انسان کی پیدائش کے دن شیطان اسے چھوتا ہے سوائے حضرت مریم اور ان کے بیٹے (علیہ السلام) کے کہ شیطان نے ان کو نہیں چھوا۔

【199】

حضرت عیسیٰ کے فضائل کے بیان میں

شیبان بن فروخ ابوعوانہ، سہیل حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ولادت کے وقت بچے کا چیخنا شیطان کے کو نچے مارنے کی وجہ سے ہوتا ہے

【200】

حضرت عیسیٰ کے فضائل کے بیان میں

محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ چوری کر رہا ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس آدمی سے فرمایا تو چوری کرتا ہے ؟ اس آدمی نے کہا ہرگز نہیں اور قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں اللہ پر ایمان لایا اور میں نے اپنے نفس کو جھٹلایا۔

【201】

حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، ابن فضیل مختار علی بن سعدی علی بن مسہر، مختار بن فلفل، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کیا یا خیرالبریہ ! تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں۔

【202】

حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں

ابوکریب ابن ادریس مختار بن فلفل بن مثنی عبدالرحمن سفیان، مختار، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول پھر مذکورہ حدیث کی طرح حدیث ذکر کی

【203】

حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالرحمن سفیان، مختار، حضرت انس (رض) نے نبی کریم ﷺ سے مذکورہ حدیث مبارکہ کی طرح روایت نقل کی ہے۔

【204】

حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، مغیرہ ابن عبدالرحمن خزامی ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسی سال کی عمر میں بسولہ (درانتی) سے اپنا ختنہ خود کیا

【205】

حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب ابوسلمہ بن عبدالرحمن سعید بن مسیب حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ شک کرنے کے حقدار ہیں جب انہوں نے فرمایا اے پروردگار مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تجھے یقین نہیں ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کیوں نہیں لیکن میں اپنے دل کا اطمینان چاہتا ہوں اور اللہ حضرت لوط (علیہ السلام) پر رحم فرمائے وہ ایک مضبوط قلعہ کی پناہ چاہتے تھے اور اگر اتنے عرصے تک مجھے قید میں رکھا جاتا جتنا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) رہے تو میں بلانے والے کے ساتھ فورا چلا جاتا۔

【206】

حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں

عبداللہ بن محمد بن اسما جویر نہ مالک زہری، سعید بن مسیب ابوعبید، حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کرتے ہیں

【207】

حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، شبابہ ابوزناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ حضرت لوط (علیہ السلام) کی مغفرت فرمائے کہ انہوں نے ایک مضبوط قلعہ کی پناہ چاہی

【208】

حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں

ابوطاہر عبداللہ بن وہب، جریر، بن حازم ایوب سختیانی محمد بن سیرین حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تین مرتبہ کے علاوہ کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ دو جھوٹ تو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے تھے اور ایک انہوں نے یہ فرمایا کہ میں بیمار ہوں۔ دوسرا یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ فرمانا کہ ان بتوں کو ان کے بڑے بت نے توڑا ہے اور تیسرا حضرت سارہ کے بارے میں ان کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک ظالم و جابر بادشاہ کے ملک میں پہنچے اور ان کے ساتھ (ان کی بیوی) حضرت سارہ بھی تھیں اور وہ بڑی خوبصورت خاتون تھیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی بیوی سے فرمایا اگر اس ظالم باد شاہ کو اس بات کا علم ہوگیا کہ تو میری بیوی ہے تو وہ تجھے مجھ سے چھین لے گا اور اگر وہ بادشاہ تجھ سے پوچھے تو تو اسے بتانا کہ یہ میرا بھائی ہے کیونکہ تو میری اسلامی بہن ہے اور اس وقت پوری دنیا میں میرے اور تیرے علاوہ کوئی مسلمان بھی نہیں پھر جب یہ دونوں اس ظالم باد شاہ کے ملک میں پہنچے تو اس بادشاہ کے ملازم حضرت سارہ کو دیکھنے کے لئے آن پہنچے (حضرت سارہ کو دیکھنے کے بعد) ملازموں نے بادشاہ سے کہا کہ تمہارے ملک میں ایک ایسی عورت آئی ہے جو تمہارے علاوہ کسی کے لائق نہیں اس ظالم بادشاہ نے حضرت سارہ کو بلوا لیا حضرت سارہ کو بادشاہ کی طرف لایا گیا تو حضرت ابراہیم ﷺ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے تو جب حضرت سارہ اس ظالم بادشاہ کے پاس آگئیں تو اس ظالم نے بےاختیار اپنا ہاتھ حضرت سارہ کی طرف بڑھایا تو اس ظالم کا ہاتھ جکڑ دیا گیا وہ ظالم کہنے لگا کہ تو اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ کھل جائے میں تجھے کوئی تکلیف نہیں دوں گا حضرت سارہ نے دعا کی اس کا ہاتھ کھل گیا پھر دوبارہ اس ظالم نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو پہلے سے زیادہ اس کا ہاتھ جکڑ دیا گیا اس نے پھر دعا کے لئے سارہ سے کہا حضرت سارہ نے پھر اس کے لئے دعا کردی اس ظالم نے تیسری مرتبہ پھر اپنا (ناپاک) ہاتھ بڑھایا پھر پہلی دونوں مرتبہ سے زیادہ اس کا ہاتھ جکڑ دیا گیا وہ ظالم کہنے لگا کہ تو اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ کھل جائے اللہ کی قسم ! تجھے کبھی تکلیف نہیں دوں گا حضرت سارہ نے دعا کی تو اس کا ہاتھ کھل گیا اور اس ظالم نے پھر اس آدمی کو بلایا کہ جو سارہ کو لے آیا تھا وہ ظالم بادشاہ اس ملازم آدمی سے کہنے لگا کہ تو میرے پاس (اَلعَیَاذُ بِاللہِ ) شیطاننی کو لایا ہے اور انسان نہیں لایا تو اس ظالم نے حضرت سارہ کو اپنے ملک سے نکال دیا اور حضرت ہاجرہ کو بھی ان کو دے دیا حضرت سارہ حضرت ہاجرہ کو لے کر چل پڑیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب ان کو دیکھا تو پلٹے اور ان سے فرمایا کہ کیا ہوا حضرت سارہ کہنے لگیں خیر ہے اور اللہ نے اس بد کردار ظالم کا ہاتھ مجھ سے روک دیا اور اس نے مجھے ایک خادمہ بھی دلوا دی حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں اے اولاد مَائِ السَّمَائِ ۔ یہی حضرت ہاجرہ تمہاری ماں ہے

【209】

موسیٰ (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں۔

محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا نبی اسرائیل کے لوگ ننگے غسل کرتے تھے اور ایک دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھتے تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) علیحدگی میں غسل کرتے تھے تو بنی اسرائیل کے لوگ کہنے لگے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہمارے ساتھ غسل کرنے میں یہی چیز رکاوٹ ہے کہ ان کو فتق کی بیماری ہے یعنی ان کے خصیوں میں سوج ہے چناچہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) غسل کر رہے تھے اور انہوں نے اپنے کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھا ہوا تھا، پتھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کپڑوں کو لے کر بھاگ پڑا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس پتھر کے پیچھے بھاگے اور کہتے جاتے تھے اے پتھر میرے کپڑے دے دے اے پتھر میرے کپڑے دے دے یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شرمگاہ کو دیکھ لیا اور وہ کہنے لگے اللہ کی قسم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تو کوئی بیماری نہیں ہے جب سب لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ لیا تو پتھر کھڑا ہوگیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے کپڑوں کو پکڑا اور پتھر کو مارنے لگے حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مارنے کی وجہ سے اس پتھر پر چھ یا سات نشان پڑگئے

【210】

موسیٰ (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں۔

یحییٰ بن حبیب حارثی، یزید بن زریع خالد حذاء عبداللہ بن شقیق حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک حیاء والے آدمی تھے اور کبھی برہنہ نہیں دیکھے گئے راوی کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے کہا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فتق کی بیماری ہے ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کسی پانی کے پاس غسل کرتے وقت ایک پتھر پر اپنے کپڑے رکھے تو وہ پتھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کپڑے لے کر دوڑ پڑا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی لاٹھی مارتے ہوئے اس کے پیچھے چلے اور کہتے ہوئے جا رہے تھے میرے کپڑے اے پتھر میرے کپڑے اے پتھر اور جب آپ بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے اور نبی ﷺ پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اے ایمان والو تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ کہ جنہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تکلیف دی تھی پھر اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی تہمت سے بری کردیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت عزت والے ہیں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف ملک الموت موت کا فرشتہ بھیجا گیا تو جب وہ ان کے پاس آیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ملک الموت کے ایک تھپڑ مار دیا جس سے ملک الموت کی آنکھ نکل گئی تو ملک الموت اپنے ربّ کی طرف لوٹا اور اس نے کہا اے پروردگار ! آپ نے مجھے ایک ایسے بندے کی طرف بھیجا ہے کہ جو مرنا نہیں چاہتا اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ لوٹا دی اور فرمایا دوبارہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف جا اور ان سے کہہ کہ اپنا ہاتھ مبارک ایک بیل کی پشت پر رکھیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اتنی عمر بڑھا دی جائے گی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے پروردگار پھر کیا ہوگا اللہ تعالیٰ نے فرمایا پھر موت آجائے گی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا پھر ابھی سہی اور پھر حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ اے اللہ مجھے ارض مقدس سے ایک پتھر پھینکے جانے کے فاصلے پر کر دے رسول ﷺ نے فرمایا اگر میں اس جگہ ہوتا تو میں تمہیں کثیب احمر کے نیچے ایک راستہ کی جانب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر دکھاتا۔

【211】

موسیٰ (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں۔

محمد بن رافع، عبد بن حمید، عبد، ابن رافع، عبدالرزاق، معمر، ابن طاؤس، حضررت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس ملک الموت (موت کا فرشتہ) آیا اور حضرت موسیٰ سے عرض کرنے لگا اے موسیٰ اپنے رب کی طرف چلئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس فرشتے کے ایک تھپڑ مار کر اس کی آنکھ نکال دی موت کا فرشتہ واپس اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹا اور اس نے عرض کیا اے پروردگار تو نے مجھے ایک ایسے بندے کی طرف بھیجا ہے کہ جو موت نہیں چاہتا اور اس نے میری آنکھ نکال دی اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ لوٹا دی اور فرمایا : میرے بندے کی طرف دوبارہ جا اور ان سے کہہ کہ کیا آپ زندگی چاہتے ہیں ؟ اگر آپ زندگی چاہتے ہیں تو اپنا ہاتھ بیل کی پشت پر رکھیں جتنے بال آپ کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے اتنے سال آپ کی عمر بڑھا دی جائے گی حضرت موسیٰ کہنے لگے کہ پھر کیا ہوگا ؟ انہوں نے کہا پھر موت ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے کہ پھر موت ہے تو ابھی سہی اور حضرت موسیٰ نے عرض کیا اے میرے پروردگار ارض مقدس سے ایک پتھر پھینکے جانے کے فاصلے پر میری روح نکالنا رسول ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم ! اگر میں اس جگہ کے پاس ہوتا تو میں تم کو کثیب احمر کے پاس راستے کے ایک طرف موسیٰ کی قبر دکھاتا۔

【212】

موسیٰ (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں۔

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہشام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس ملک الموت (موت کا فرشتہ) آیا اور حضرت موسیٰ سے عرض کرنے لگا اے موسیٰ اپنے رب کی طرف چلئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس فرشتے کے ایک تھپڑ مار کر اس کی آنکھ نکال دی موت کا فرشتہ واپس اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹا اور اس نے عرض کیا اے پروردگار تو نے مجھے ایک ایسے بندے کی طرف بھیجا ہے کہ جو موت نہیں چاہتا اور اس نے میری آنکھ نکال دی اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ لوٹا دی اور فرمایا بندے کی طرف دوبارہ جا اور ان سے کہہ کہ کیا آپ زندگی چاہتے ہیں ؟ اگر آپ زندگی چاہتے ہیں تو اپنا ہاتھ بیل کی پشت پر رکھیں جتنے بال آپ کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے اتنے سال آپ کی عمر بڑھا دی جائے گی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے کہ پھر کیا ہوگا انہوں نے کہا پھر موت ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے کہ پھر موت ہے تو ابھی سہی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے پروردگار ارض مقدس سے ایک پتھر پھینکے جانے کے فاصلے پر میری روح نکالنا۔ رسول ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم اگر میں اس جگہ کے پاس ہوتا تو میں تم کو کثیب احمر کے پاس راستے کے ایک طرف موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر دکھاتا۔

【213】

موسیٰ (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں۔

ابو اسحاق محمد بن یحییٰ عبدالرزاق، حضرت معمر (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے

【214】

موسیٰ (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں۔

ابو اسحاق محمد بن یحییٰ عبدالرزاق، معمر، زہیر بن حرب، حجین بن مثنی عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابوسلمہ عبداللہ بن فضل ہاشمی عبدالرحمن حضرت ابوپریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک یہودی اپنا کچھ سامان بیچ رہا تھا جب اس کو اس کے سامان کی کچھ قیمت دی گئی تو اس نے اسے ناپسند کیا یا وہ اس قیمت پر راضی نہ ہوا راوی عبد العزیز کو شک ہے یہودی نے کہا نہیں اور قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت موسیٰ کو تمام انسانوں پر فضیلت عطا فرمائی انصار کے ایک آدمی نے جب یہودی کی یہ بات سنی تو اس نے یہودی کو چہرے پر تھپڑ مارا اور کہا کہ تو کہتا ہے کہ قسم اس ذات کی جس نے حضرت موسیٰ کو تمام انسانوں پر فضیلت عطا فرمائی حلان کہ رسول ﷺ تمہارے درمیان موجود ہیں وہ یہودی رسول ﷺ کی طرف گیا اور عرض کرنے لگا اے ابا القاسم ! بیشک میں ذمی ہوں اور مجھے امان دی گئی ہے اور اس نے کہا کہ فلاں آدمی نے میرے چہرے پر تھپڑ مارا ہے رسول ﷺ نے اس آدمی سے فرمایا تو نے اس کے چہرے پر تھپڑ کیوں مارا ہے اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! اس یہودی نے یہ کہا تھا کہ اس ذات کی قسم جس نے حضرت موسیٰ کو تمام انسانوں پر فضیلت عطا فرمائی جبکہ آپ ہمارے درمیان موجود ہیں رسول ﷺ غصہ میں آگئے یہاں تک کہ غصہ کے آثار آپ کے چہرے میں پہچانے گئے پھر آپ نے فرمایا تم مجھے اللہ کے نبیوں کے درمیان فضیلت نہ دو کیونکہ جس وقت صور پھونکا جائے گا تو تمام آسمانوں اور زمین والوں کے ہوش اڑ جائیں گا سوائے اس کے کہ جسے اللہ چاہے پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سب سے پہلے مجھے اٹھایا جائے گا یا فرمایا کہ اٹھنے والوں میں سب سے پہلے میں ہوں گا تو حضرت موسیٰ کو میں دیکھوں گا کہ وہ عرش کو پکڑے ہوئے ہیں اور میں نہیں جانتا کہ طور کے دن کی بیہوشی میں ان کا حساب لیا گیا یا وہ مجھ سے پہلے اٹھائے گئے اور میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی آدمی بھی حضرت یونس بن متی (علیہ السلام) سے افضل ہے

【215】

موسیٰ (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں۔

محمد بن حاتم، یزید بن ہارون، حضرت عبدالعزیز بن ابی سلمہ (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے

【216】

موسیٰ (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں۔

زہیر بن حرب، ابوبکر بن نضر، یعقوب بن ابرہیم، ابی، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، عبدالرحمن اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ دو آدمی جھگڑ پڑے ایک آدمی یہودیوں میں سے تھا اور ایک آدمی مسلمانوں میں سے تھا مسلمان آدمی نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی اور یہودی آدمی کہنے لگا اس ذات کی قسم جس نے حضرت موسیٰ کو تمام جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی راوی کہتے ہیں کہ مسلمان نے اپنا ہاتھ اٹھا کر یہودی کے چہرے پر ایک تھپڑ مارا تو یہودی آدمی رسول ﷺ کی طرف گیا اور آپ کو اس کی خبر دی جو اس کے اور مسلمان کے درمیان معاملہ پیش آیا تو رسول ﷺ نے فرمایا مجھے حضرت موسیٰ پر فضیلت نہ دو کیونکہ روز قیامت لوگوں کے ہوش اڑ جائیں گے اور سب سے پہلے میں ہوں گا جسے ہوش آئے گا تو میں حضرت موسیٰ کو عرش کا ایک کونہ پکڑے ہوئے دیکھوں گا اور میں نہیں جانتا کہ حضرت موسیٰ کے ہوش اڑ گئے تھے اور وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا وہ ان میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے مستثنی رکھا۔

【217】

موسیٰ (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں۔

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، ابوبکر بن اسحاق ابویمان شعیب زہری، ابوسلمہ بن عبدالرحمن سعید بن مسیب حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے ایک آدمی اور یہودیوں میں سے ایک آدمی کے درمیان جھگڑا ہوا اور پھر آگے مذکورہ حدیث کی طرح ذکر کی۔

【218】

موسیٰ (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں۔

عمرو ناقد ابواحمد زبیری سفیان، عمرو بن یحییٰ حضرت ابوسعد خدری (رض) سے روایت ہے کہ ایک یہودی آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں آیا جس کے چہرے پر تھپڑ مارا گیا تھا اور پھر مذکورہ حدیث کی طرح ذکر کی اور اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ وہ (موسیٰ علیہ السلام) ان میں سے تھے کہ جن کے ہوش اڑ گئے تھے اور مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا طور کی بیہوشی کی وجہ سے اکتفاء کرلیا گیا۔

【219】

موسیٰ (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، ابن نمیر، ابی سفیان، عمرو بن یحییٰ ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا تم مجھے انبیاء کرام (علیہم السلام) کے درمیان فضیلت نہ دو ۔

【220】

موسیٰ (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں۔

ہداب بن خالد، شیبان بن فروخ، حماد بن سلمہ، ثابت بنانی، سلیمان تیمی، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا میں آیا اور ہداب کی روایت میں ہے کہ معراج کی رات میں حضرت موسیٰ کے پاس سے گزرا اس حال میں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کثیب احمر کے پاس اپنی قبر میں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔

【221】

موسیٰ (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں۔

علی بن خشرم عیسیٰ ابن یونس عثمان بن ابی شیبہ جریر، سلیمان تیمی انس، ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان سفیان، سلیمان تیمی حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا میں حضرت موسیٰ کے پاس سے گزرا اس حال میں کہ حضرت موسیٰ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے عیسیٰ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات میں گزرا۔

【222】

یونس (علیہ السلام) کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا قول کہ میرے کسی بندے کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کہے کہ میں حضرت یونس سے بہتر ہو۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، سعد بن ابرہیم حمید بن عبدالرحمن حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے کسی بندے کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں حضرت یونس بن متی (علیہ السلام) سے بہتر ہوں۔

【223】

یونس (علیہ السلام) کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا قول کہ میرے کسی بندے کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کہے کہ میں حضرت یونس سے بہتر ہو۔

محمد بن مثنی ابن بشار ابن مثنی محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، ابوعالیہ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کسی بندے کے لئے مناسب نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں حضرت یونس بن متی (علیہ السلام) سے بہتر ہوں اور آپ ﷺ نے ان کو ان کے باپ کی طرف منسوب کیا۔

【224】

یوسف (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں۔

زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، عبداللہ بن سعید یحییٰ بن سعید عبداللہ ابوسعید حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آپ ﷺ سے عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول ! ﷺ لوگوں میں سے سب سے زیادہ مکرم (معزز) کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا ہم آپ سے اس کا سوال نہیں کرتے آپ نے فرمایا وہ تو حضرت یوسف (علیہ السلام) ہیں جو کہ اللہ کے نبی ہیں اللہ کے نبی کے بیٹے ہیں حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کے پو تے ہیں صحابہ کرام نے عرض کیا ہم آپ ﷺ سے اس کا بھی سوال نہیں کرتے آپ نے فرمایا پھر تم مجھ سے عرب کے قبیلوں کے بارے میں پوچھتے ہو وہ جو زمانہ جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام کے زمانہ میں بھی بہترین لوگ ہیں جبکہ وہ لوگ دین کی سمجھ حاصل کرلیں

【225】

زکر یا (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں

ہداب بن خالد حماد بن سلمہ ثابت ابی رافع حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا زکریا (علیہ السلام) بڑھئی تھے

【226】

خضر (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں

عمرو بن محمد ناقد اسحاق بن ابراہیم، عبیداللہ بن سعید محمد بن ابی عمر مکی، ابن عیینہ ابن عمر سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار حضرت سعید بن جبیر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عباس (رض) سے کہا کہ نوف بکالی کا گمان ہے کہ بنی اسرائیل والے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تھے اور حضرت خضر (علیہ السلام) کے حضرت موسیٰ اور تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اللہ کے اس دشمن نے جھوٹ بولا ہے حضرت ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ سے سنا آپ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کھڑے ہو کر بنی اسرائیل کو خطبہ دے رہے تھے تو ان سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ علم والا کون ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں سب سے زیادہ علم والا ہوں آپ نے فرمایا اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر عتاب فرمایا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف علم کو نہیں لوٹایا یعنی اللہ کا علم سب سے زیادہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی کی کہ مجمع البحرین میں میرے بندوں میں سے ایک بندہ ایسا ہے کہ جو تجھ سے بھی زیادہ علم رکھتا ہے حضرت موسیٰ نے عرض کیا اے میرے پروردگار میں تیرے اس بندہ تک کیسے پہنچوں گا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا گیا اپنے تھیلے میں ایک مچھلی رکھو جس جگہ وہ مچھلی گم ہوجائے گی تو وہی وہ جگہ کہ جہاں میرا وہ بندہ ہوگا جو تجھ سے زیادہ علم والا ہے یعنی حضرت خضر (علیہ السلام) پھر حضرت موسیٰ چل پڑے اور حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) بھی ان کے ساتھ چل پڑے دونوں حضرات چلتے چلتے ایک چٹان کے پاس آگئے حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع (علیہم السلام) دونوں حضرات سو گئے تھیلے میں مچھلی تڑپی اور تھیلی میں سے باہر نکل کر سمندر میں جا گری اللہ تعالیٰ نے اس مچھلی کی خاطر پانی کے بہنے کو روک دیا یہاں تک کہ مچھلی کے لئے پانی میں مخروطی کی طرح ایک سرنگ بنتی چلی گئی اور مچھلی کے لئے خشک راستہ بن گیا حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع علیہما السلام دونوں حضرات کے لئے یہ ایک حیران کن منظر تھا تو باقی سارا دن اور ساری رات وہ دونوں چلتے رہے اور حضرت موسیٰ کے ساتھی ان کو یہ بتانا بھول گئے تو جب صبح ہوئی اور حضرت موسیٰ نے اپنے ساتھی سے کہا ناشتہ لاؤ اس سفر نے تو ہمیں تھکا دیا ہے اور تھکاوٹ اس وقت سے شروع ہوئی جب اس جگہ سے آگے نکل گئے جس جگہ جانے کا حکم دیا گیا تھا حضرت موسیٰ کے ساتھی نے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم صخرہ ایک چٹان تک آئے تو اور شیطان ہی نے تو ہمیں مچھلی کا ذکر کرنے سے بھلا دیا اور بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ مچھلی نے سمندر میں اپنا راستہ بنا لیا حضرت موسیٰ نے اپنے ساتھی سے فرمایا ہم اسی جگہ کی تلاش میں تو تھے پھر وہ دونوں حضرات اپنے قدموں کے نشانات پر واپس ہوئے پھر یہاں تک کہ وہ اس صخرہ چٹان پر آگئے اس جگہ ایک آدمی کو اپنے اوپر کپڑا اوڑھے ہوئے دیکھا حضرت موسیٰ نے ان پر سلام کیا حضرت خضر (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ سے فرمایا ہمارے علاقے میں سلام کہاں ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا میں موسیٰ ہوں حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا جی ہاں حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا اے موسیٰ اللہ تعالیٰ نے تمہیں وہ علم دیا ہے کہ جسے میں نہیں جانتا اور مجھے وہ عطا فرمایا ہے کہ جسے آپ نہیں جانتے حضرت موسیٰ نے فرمایا اے خضر ! میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ علم سکھا دیں جو اللہ نے آپ کو دیا ہے حضرت خضر نے فرمایا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکو گے اور تمہیں اس بات پر کس طرح صبر ہو سکے گا کہ جس کا تمہیں علم نہیں حضرت موسیٰ نے فرمایا اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا حضرت خضر نے حضرت موسیٰ سے فرمایا اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو مجھ سے کسی چیز کے بارے میں نہ پوچھنا جب تک کہ میں خود ہی وہ بات آپ سے بیان نہ کر دوں حضرت موسیٰ نے فرمایا اچھا چناچہ حضرت خضر اور حضرت موسیٰ دونوں حضرات سمندر کے کنارے چلے ان دونوں حضرات کے سامنے سے ایک کشتی گزری انہوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ وہ ہمیں اپنی کشتی پر سوار کرلے کشتی والوں نے حضرت خضر کو پہچان لیا تو انہوں نے ان دونوں حضرات کو بغیر کرایہ کے کشتی پر سوار کرلیا تو حضرت خضر نے اس کشتی کے تختوں میں سے ایک تختے کو اکھاڑ پھینکا حضرت موسیٰ نے حضرت خضر سے فرمایا ان کشتی والوں نے ہمیں بغیر کرایہ کے کشتی پر سوار کیا ہے اور آپ نے ان کی کشتی کو توڑ دیا ہے تاکہ کشتی والوں کو غرق کردیا جائے یہ تو نے بڑا عجیب کام کیا ہے حضرت خضر نے فرمایا کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکیں گے حضرت موسیٰ نے فرمایا اس چیز کو بھی میں بھول گیا ہوں آپ اس پر میری پکڑ نہ کریں اور نہ ہی میرے معاملہ میں کوئی سختی کریں پھر دونوں حضرات کشتی سے نکلے اور سمندر کے ساحل پر چلنے لگے تو انہوں نے ایک لڑکے کو دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا حضرت خضر نے اس لڑکے کو پکڑ کر اس کا سر تن سے جدا کردیا حضرت موسیٰ پھر بول پڑے کہ آپ نے ایک لڑکے کو بغیر کسی وجہ کے قتل کردیا آپ نے بڑا نازیبا کام کیا حضرت خضر نے فرمایا اے موسیٰ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکیں گے نبی ﷺ نے فرمایا حضرت خضر (علیہ السلام) کا یہ انداز پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا حضرت موسیٰ نے فرمایا اگر اب میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھوں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں کیونکہ میرا عذر معقول ہے پھر دونوں حضرات چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں تک آئے انہوں نے ان گاؤں والوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے ان کو مہمان رکھنے سے انکار کردیا ان دونوں حضرات نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گر نے کے قریب تھی تو اس دیوار کو سیدھا کردیا وہ دیوار جھکی ہوئی تھی تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے اس دیوار کو سید ھا کردیا حضرت موسیٰ فرمانے لگے کہ یہ تو وہ لوگ ہیں کہ جن کے پاس ہم گئے تھے لیکن انہوں نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی اور ہمیں کھانا نہیں کھلایا اگر آپ چاہیں تو ان سے اس دیوار کو سیدھا کرنے کی مزدوری لے لیں حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے اب میں آپ کو ان باتوں کا بیان بتاتا ہوں کہ جس پر آپ صبر نہیں کرسکے رسول ﷺ نے فرمایا اللہ حضرت موسیٰ پر رحم فرمائے کاش کہ وہ صبر کرتے یہاں تک کہ اللہ ہمیں ان دونوں حضرات کے مزید واقعات بیان فرماتا اور رسول ﷺ نے فرمایا حضرت موسیٰ کا پہلی مرتبہ سوال کرنا بھول تھا آپ نے فرمایا ایک چڑیا آئی یہاں تک کہ وہ کشتی کے کنارے بیٹھ گئی پھر اس چڑیا نے اپنی چونچ سمندر میں ڈالی تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ سے فرمایا کہ میرے اور تیرے علم سے اللہ تعالیٰ کے علم میں اتنی کمی بھی نہیں کی جتنی اس چڑیا نے سمندر میں کی ہے سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ ابن عباس (رض) پڑھتے تھے کہ ان کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر صحیح کشتی کو چھین لیتا تھا اور وہ یہ بھی پڑھتے تھے کہ وہ لڑکا کافر تھا

【227】

خضر (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن عبدالاعلی قیسی معتمر بن سلیمان تیمی اسحاق حضرت سعید بن جبیر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے کہا گیا کہ نوف بکالی کیا کہتا ہے کہ جو حضرت موسیٰ حضرت خضر (علیہ السلام) کے پاس علم کی تلاش میں گئے تھے وہ بنی اسرائیل کے حضرت موسیٰ نہیں تھے حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اے سعید کیا تو نے اسے یہ کہتے سنا ہے انہوں نے کہا جی ہاں حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا نوف جھوٹ کہتا ہے۔

【228】

خضر (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں

حضرت ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے لوگوں سامنے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی آزمائشوں کے بارے میں نصیحتیں فرما رہے تھے اور انہوں نے فرمایا میرے علم میں نہیں ہے کہ ساری دنیا میں کوئی آدمی مجھ سے بہتر ہو یا مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی نازل فرمائی کہ میں اس آدمی کو جانتا ہوں کہ جو تجھ سے بہتر ہے یا تجھ سے زیادہ علم والا ہے حضرت موسیٰ نے عرض کیا اے پروردگار مجھے اس آدمی سے ملا دے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ کو حکم دیا گیا کہ ایک مچھلی کو نمک لگا کر اپنے توشہ میں رکھ جس جگہ وہ مچھلی گم ہوجائے اس جگہ پر وہ آدمی تمہیں مل جائے گا حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی یہ سن کر چل پڑے یہاں تک کہ صخرہ کے مقام پر پہنچ گئے اس جگہ کوئی آدمی نہ ملا حضرت موسیٰ کے ساتھی نے کہا میں اللہ کے نبی سے ملوں اور ان کو اس کی خبر دوں پھر وہ حضرت موسیٰ سے اس واقعہ کا ذکر بھول گئے تو جب ذرا آگے بڑھ گئے تو حضرت موسیٰ نے اپنے ساتھی سے کہا ناشتہ لاؤ اس سفر نے ہمیں تھکا دیا ہے اور حضرت موسیٰ کو یہ تھکاوٹ اس جگہ سے آگے بڑھنے سے ہوئی حضرت موسیٰ کے ساتھی نے یاد کیا اور کہنے لگا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم صخرہ کے مقام پر پہنچے تو میں مچھلی کو بھول گیا اور سوائے شیطان کے یہ مجھے کسی نے نہیں بھلایا بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ مچھلی نے سمندر میں اپنا راستہ بنا لیا حضرت موسیٰ کے ساتھی نے وہ جگہ بتادی جس جگہ مچھلی گم ہوگئی تھی اس جگہ پر حضرت موسیٰ تلاش کر رہے تھے کہ حضرت موسیٰ نے اس جگہ حضرت خضر (علیہ السلام) کو دیکھ لیا کہ یہ ایک کپڑا اوڑھے ہوئے چت لیٹے ہوئے ہیں حضرت موسیٰ نے فرمایا السلام علیکم ! حضرت خضر (علیہ السلام) نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا وعلیکم السلام ! آپ کون ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا میں موسیٰ ہوں حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کون موسیٰ ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کیسے آنا ہوا ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا اے خضر ! اپنے علم میں سے کچھ مجھے بھی دکھا دو حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکو گے اور جن چیزوں کا تمہیں علم نہ ہو تو تم ان پر کیسے صبر کرسکو گے تو اگر تم صبر نہ کرسکو گے تو مجھے بتادو کہ میں اس وقت کیا کروں حضرت موسیٰ فرمانے لگے کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے صبر کرنے والا ہی پاؤ گے اور میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا اچھا اگر تم نے میرے ساتھ رہنا ہے تو تم نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھنا جب تک کہ میں خود ہی تمہیں اس کے بارے میں بتا نہ دوں پھر دونوں حضرات چلے یہاں تک کہ ایک کشتی میں سوار ہوئے حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس کشتی کا تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ بول پڑھے کہ آپ نے کشتی کو توڑ دیا تاکہ اس کشتی والے غرق ہوجائیں آپ نے بڑا عجیب کام کیا ہے حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا اے موسیٰ ! کیا میں تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکو گے حضرت موسیٰ نے فرمایا جو بات میں بھول گیا ہوں آپ اس پر میرا مؤ اخذہ نہ کریں اور مجھے تنگی میں نہ ڈالیں پھر دونوں حضرات چلے یہاں تک کہ ایک ایسی جگہ پر آگئے کہ جہاں کچھ لڑکے کھیل رہے تھے حضرت خضر (علیہ السلام) نے بغیر سوچے سمجھے ان لڑکوں میں سے ایک لڑکے کو پکڑا اور سے قتل کردیا حضرت موسیٰ یہ دیکھ کر گھبرا گئے اور فرمایا آپ نے ایک بےگنا لڑکے کو قتل کردیا یہ کام تو آپ نے بڑی ہی نازیبا کیا ہے رسول ﷺ نے اس مقام پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر اور حضرت موسیٰ پر رحم فرمائے اگر موسیٰ جلدی نہ کرتے تو بہت ہی عجیب عجیب باتیں ہم دیکھتے لیکن حضرت موسیٰ کو حضرت خضر سے شرم آگئی اور فرمایا اگر اب میں آپ سے کوئی بات پوچھوں تو آپ میرا ساتھ چھوڑ دیں کیونکہ میرا عذر معقول ہے اور اگر حضرت موسیٰ صبر کرتے تو عجیب باتیں دیکھتے اور آپ جب بھی انبیاء (علیہ السلام) میں سے کسی کو یاد فرماتے تو فرماتے کہ ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور میرے فلاں بھائی پر اللہ کی رحمت ہو پھر وہ دونوں حضرات (حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے اس گاؤں کے لوگ بڑے کنجوس تھے یہ دونوں حضرات سب مجلسوں میں گھومے اور کھانا طلب کیا لیکن ان گاؤں والوں میں سے کسی نے بھی ان دونوں حضرات کی مہمان نوازی نہیں کی پھر انہوں نے وہاں ایک ایسی دیوار کو پایا کہ جو گرنے کے قریب تھی تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس دیوار کو سیدھا کھڑا کردیا حضرت موسیٰ نے فرمایا اے خضر ! اگر آپ چاہتے تو ان لوگوں سے اس دیوار کے سیدھا کرنے کی مزدوری لے لیتے حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بس اب میرے اور تیرے درمیان جدائی ہے اور حضرت خضر (علیہ السلام) حضرت موسیٰ کا کپڑا پکڑ کر فرمایا کہ میں اب آپ کو ان کاموں کا راز بتاتا ہوں کہ جن پر تم صبر نہ کرسکے کشتی تو ان مسکینوں کی تھی کہ جو سمندر میں مزدوری کرتے تھے اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ظلما کشتیوں کو چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ میں اس کشتی کو عیب دار کر دوں تو جب کشتی چھیننے والا آیا تو اس نے کشتی کو عیب دار سمجھ کر چھوڑ دیا اور وہ کشتی آگے بڑھ گئی اور کشتی والوں نے ایک لکڑی لگا کر اسے درست کرلیا اور وہ لڑکا جسے میں نے قتل کیا ہے فطرةً کافر تھا اس کے ماں باپ اس سے بڑا پیار کرتے تھے تو جب وہ بڑا ہوا تو وہ اپنے ماں باپ کو بھی سرکشی میں پھنسا دیتا تو ہم نے چاہا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس لڑکے کے بدلہ میں دوسرا لڑکا عطا فرما دے جو کہ اس سے بہتر ہو اور وہ دیوار جسے میں نے درست کیا وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی جس کے نیچے خزانہ تھا آخر آیت تک

【229】

خضر (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، محمد بن یوسف عبد بن حمید عبیداللہ بن موسیٰ اسرائیل ابواسحاق، تیمی حضرت ابواسحاق (رض) مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کرتے ہیں

【230】

خضر (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں

عمرو ناقد سفیان بن عیینہ، عمرو بن سعید بن جبیر ابن عباس حضرت ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قرآن مجید کی یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی (آیت)

【231】

خضر (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ ابن مسعود حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ان کا اور حر بن قیس بن حصین فرازی کا حضرت موسیٰ کے ساتھی بارے میں مباحثہ ہوا حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ وہ حضرت خضر (علیہ السلام) تھے پھر حضرت ابی بن کعب (رض) اس طرف سے گزرے حضرت ابن عباس (رض) نے ان کو بلایا اور فرمایا اے ابوالطفیل ! ادھر آئیں میں اور میرے یہ ساتھی حضرت موسیٰ کے اس ساتھی کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں کہ جن سے حضرت موسیٰ ملنا چاہتے تھے تو کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں کچھ سنا ہے ؟ حضرت ابی نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کیا آپ اپنے سے زیادہ کسی کو علم والا سمجھتے ہیں ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا نہیں ! تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی فرمائی کہ (اے موسیٰ ! ) ہمارا بندہ خضر ہے (جو تجھ سے زیادہ علم والا ہے) حضرت موسیٰ نے اس بندے سے ملنے کا راستہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مچھلی کو نشانی بنایا اور ان سے فرمایا کہ جب تم مچھلی کو گم پاؤ تو فورا واپس پلٹ آؤ گے تو اس بندے سے تمہاری ملاقات ہوجائے گی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چلے جتنا انکا چلنا اللہ تعالیٰ کو منظور تھا پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھی سے فرمایا ہمارا ناشتہ تو لاؤ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی نے کہا کہ کیا آپ کے علم میں ہے کہ جب ہم صخراء کے مقام پر پہنچے تو میں مچھلی بھول گیا اور شیطان نے بھی اس کا ذکر کرنا بھلا دیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھی سے فرمایا کہ ہم اسی جگہ کی تو تلاش میں تھے پھر وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانات پر واپس پلٹے اور حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی اور پھر ان کو جو واقعات پیش آئے اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی کتاب (قرآن مجید) میں بیان کردیا ہے۔ سوائے یونس کے کہ انہوں نے کہا کہ وہ مچھلی کے نشان پر جو سمندر میں تھے چلے۔

【232】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، عبد بن حمید عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، عبداللہ حبان بن ہلال ہمام ثابت حضرت انس بن مالک (رض) بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے بیان فرمایا ہے کہ میں نے مشرکوں کے پاؤں اپنے سروں پر دیکھے جبکہ ہم غار میں تھے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اگر ان مشرکوں میں سے کوئی اپنے پاؤں کی طرف دیکھے تو وہ ہمیں دیکھ لے گا، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے ابوبکر ! تیرا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے کہ جن کا تیسرا اللہ ہے۔

【233】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبداللہ بن جعفر بن یحییٰ بن خالد معن مالک بی نضر عبید بن حین حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور آپ نے فرمایا ایک بندہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس بات کا اختیار دیا ہے کہ چاہے تو وہ دنیا کی نعمتیں حاصل کرلے اور چاہے تو اللہ تعالیٰ کے پاس رپنے کو پسند کرلے، تو اس اللہ کے بندہ نے اللہ کے پاس رہنے کو پسند کرلیا ہے (یہ سنا) تو حضرت ابوبکر (رض) رو پڑے اور خوب روئے اور پھر عرض کیا ہمارے آباؤ اجداد اور ہماری مائیں آپ پر قربان ہوں، راوی کہتے ہیں کہ (پھر معلوم ہوا) کہ وہ تو رسول اللہ ﷺ تھے، کہ جن کو اختیار دیا گیا اور حضرت ابوبکر (رض) ان چیزوں کے بارے میں ہم سے زیادہ جاننے والے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ مال اور محبت میں مجھ پر احسان حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا ہے اور اگر میں (اللہ کے علاوہ) کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا اور مسجد میں کسی کی کھڑکی کھلی باقی نہ رکھی جائے (سب کھڑکیاں دروازے بند کردیئے جائیں) سوائے حضرت ابوبکر (رض) کی کھڑکی کے۔

【234】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

سعید بن منصور، فلیح بن سلیمان سالم ابونضر عبید بن حنین بسر بن سعدی حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا (اور پھر مذکورہ مالک کی حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے) ۔

【235】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن بشار، عبدی محمد بن جعفر، شعبہ، اسماعیل بن رجاء عبداللہ بن ابی ہذیل ابوالاحوص حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر میں (اللہ کے سوا) کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر (رض) کو بناتا لیکن حضرت ابوبکر (رض) تو میرے بھائی اور میرے صحابی (ساتھی) ہیں اور تمہارے صاحب کو تو اللہ عزوجل نے خلیل بنا لیا ہے۔

【236】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار ابن مثنی محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق، ابوالاحوص حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو (اللہ کے سوا) خلیل بناتا تو ابوبکر (رض) کو بناتا۔

【237】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار عبدالرحمن سفیان، ابواسحاق احوص عبداللہ عبد بن حمید جعفر بن عون ابوعمیس ابن ابی ملیکہ حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر میں (اللہ عزوجل کے علاوہ) کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوقحافہ کے بیٹے (حضرت ابوبکر (رض) کو اپنا خلیل بناتا۔

【238】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق جریر، مغیرہ واصل بن حیان عبداللہ بن ابی ہذیل ابوالاحوص حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر میں زمین والوں میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوقحافہ کے بیٹے (حضرت ابوبکر (رض) کو خلیل بناتا لیکن تمہارے صاحب (نبی کریم ﷺ تو (بس) اللہ عزوجل کے خلیل ہیں

【239】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ وکیع، اسحاق بن ابراہیم، جریر، ابن ابی عمر سفیان، اعمش، محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابوسعید اشج، وکیع، اعمش، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا آگاہ ہوجاؤ کہ میں ہر ایک دوست کی دوستی سے (سوائے اللہ تعالیٰ کے) برأت کا اعلان کرتا ہوں اور اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر (رض) کو خلیل بناتا لیکن تمہارے صاحب (نبی ﷺ تو اللہ کے خلیل ہیں .

【240】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، خالد بن عبداللہ خالد بی عثمان عمرو بن عاص حضرت عمرو بن العاص (رض) خبر دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو ذات السلام کے لشکر کے ساتھ بھیجا تو جب میں واپس آیا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! لوگوں میں سے سب سے زیادہ محبت آپ کو کس سے ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا عائشہ (رض) سے۔ میں نے عرض کیا مردوں میں سے کس سے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا عائشہ (رض) کے باپ (حضرت ابوبکر (رض) سے، میں نے عرض کیا پھر کس سے ؟ آپ نے فرمایا حضرت عمر (رض) سے، پھر آپ نے بہت سے آدمیوں کا نام شمار کیا۔

【241】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

حسن بن علی حلوانی جعفر بن عون حضرت ابن ابی ملیکہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے سنا اور ان سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ (اگر اپنی حیات طیبہ) میں کسی کو خلیفہ بناتے تو کس کو بناتے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا حضرت ابوبکر (رض) کو پھر حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد کس کو ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا حضرت عمر (رض) کو، پھر حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا گیا کہ حضرت عمر (رض) کے بعد کس کو بناتے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا حضرت ابوعبیدہ بن جراح (رض) کو، پھر اس کے بعد حضرت عائشہ (رض) خاموش ہوگئیں۔

【242】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

عباد بن موسیٰ ابراہیم، بن سعد حضرت محمد بن جبیر بن مطعم (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے کسی چیز کا سوال کیا تو آپ نے اس عورت کو دوبارہ آنے کے لئے فرمایا : اس عورت نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر میں پھر آؤں اور آپ کو (موجود) نہ پاؤں ؟ (یعنی آپ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہوں تو ؟ ) آپ نے فرمایا اگر تو مجھے نہ پائے تو (حضرت) ابوبکر ( (رض) کے پاس آجانا (اس حدیث سے حضرت ابوبکر (رض) کی خلافت بلا فصل واضح ہے)

【243】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

حجاج بن شاعر، یعقوب بن ابراہیم، حضرت محمد بن جبیر بن مطعم (رض) خبر دیتے ہیں کہ ان کے باپ حضرت جبیر بن مطعم (رض) نے خبر دی ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی اور اس نے آپ ﷺ سے کسی چیز کے بارے میں بات کی تو آپ نے اس عورت کو حکم فرمایا پھر آگے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے۔

【244】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبیداللہ بن سعید یزید بن ہارون، ابراہیم، سعد صالح بن کیسان زہری، عروہ سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے مرض الوفات میں فرمایا کہ اپنے باپ حضرت ابوبکر (رض) اور اپنے بھائی کو بلاؤ تاکہ میں ایک ایسی کتاب لکھوا دوں کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں کوئی خلافت کی تمنا نہ کرنے لگ جائے اور کوئی کہنے والا یہ بھی نہ کہے کہ میں خلافت کا زیادہ حقدار ہوں اور اللہ اور مؤمنین (رضی اللہ عنھم) سوائے حضرت ابوبکر (رض) کی خلافت کے اور کسی کی خلافت سے انکار کرتے ہیں۔

【245】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن ابی عمر مکی، مروان ابن معاویہ یزید ابن کیسان ابی حازم اشجعی حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آج تم میں سے کسی نے روزہ کی حالت میں صبح کی (یعنی روزہ رکھا ؟ ) حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا میں نے روزہ رکھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا آج کے دن تم میں سے کون کسی جنازے کے ساتھ گیا ہے ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا کہ میں گیا ہوں، آپ نے فرمایا آج تم میں سے کسی نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا میں نے، آپ نے فرمایا آج تم میں سے کسی نے کسی بیمار کی تیمار داری کی ہے ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا میں نے، آپ نے فرمایا جس میں یہ ساری چیزیں جمع ہوگئیں وہ جنت میں داخل ہوگیا۔

【246】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوطاہر احمد بن عمرو بن سرح حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب سعید بن مسیب ابوسلمہ بن عبدالرحمن حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک آدمی بیل پر بوجھ ڈالے ہوئے اسے ہانک رہا تھا کہ اس بیل نے اس آدمی کی طرف دیکھ کر کہا کہ میں اس کام کے لئے پیدا نہیں کیا گیا ہوں بلکہ مجھے تو کھیتی باڑی کے لئے پیدا کیا گیا ہے، لوگوں نے حیرانگی اور گھبراہٹ میں سُبْحَانَ اللَّهِ کہا اور کہا کیا بیل بھی بولتا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تو اس بات پر یقین کرتا ہوں اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) بھی یقین کرتے ہیں، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک چرواہا اپنی بکریوں میں تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور اس نے ایک بکری پکڑی اور لے گیا تو اس چرواہے نے اس بھیڑیے کا پیچھا کیا یہاں تک کہ اس بھیڑیے سے بکری کو چھڑا لیا تو بھیڑیے نے اس چرواہے کی طرف دیکھ کر کہا کہ اس دن بکری کو کون بچائے گا جس دن میرے علاوہ کوئی چرواہا نہیں ہوگا ؟ لوگوں نے کہا سُبْحَانَ اللَّهِ ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تو اس پر بھی یقین رکھتا ہوں اور ابوبکر (رض) اور عمر (رض) بھی اس پر یقین رکھتے ہیں۔

【247】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبدالملک بن شعیب بن لیث، ابی جعی عقیل بن خالد حضرت ابن شہاب (رض) سے ان سندوں کے ساتھ بکری اور بھیڑیے کا واقعہ نقل کیا گیا ہے لیکن اس میں بیل کے واقعہ کا ذکر نہیں ہے۔

【248】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن عباد سفیان بن عیینہ، محمد بن رافع ابوداؤد حفری سفیان، ابوزناد اعرج ابوسلمہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے یونس عن الزہری کی روایت کی طرح روایت نقل کی ہے اور اس میں بیل اور بکری دونوں کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں تو اس پر یقین رکھتا ہوں اور (حضرت) ابوبکر (رض) اور (حضرت) عمر ( (رض) بھی اور (اس وقت) یہ دونوں حضرات وہاں موجود نہیں تھے۔

【249】

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، محمد بن عباد سفیان بن عیینہ، مسعر سعد بن ابراہیم، ابوسلمہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے نبی کریم ﷺ سے مذکورہ حدیث مبارکہ کی طرح روایت نقل کی ہے۔

【250】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

سعید بن عمرو اشعثی ابوربیع عتکی ابوکریب محمد بن علاء، ابی کریب ابوربیع ابن مبارک عمر بن سعید ابی حسین ابن ابی ملیکہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو جب تخت پر رکھا گیا تو لوگ ان کے اردگرد جمع ہوگئے اور ان کے لئے دعا کی اور ان کی تعریف کرنے لگے اور ان کا جنازہ اٹھانے سے پہلے ان کی نماز جنازہ پڑھ رہے تھے اور میں بھی انہی لوگوں میں تھا، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نہیں گھبرایا سوائے ایک آدمی سے کہ جس نے میرے پیچھے سے آ کر میرا کندھا پکڑا، میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ حضرت علی (رض) تھے، تو حضرت علی (رض) نے حضرت عمر (رض) کے لئے رحم کی دعا فرمائی اور پھر فرمایا (اے عمر ! ) آپ نے اپنے پیچھے کوئی ایسا آدمی نہیں چھوڑا جس کے اعمال ایسے ہوں کہ ان اعمال پر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا پسند ہو، آپ سے زیادہ اور اللہ کی قسم ! مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے دونوں ساتھیوں کا ساتھ فرمائے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں زیادہ تر رسول اللہ ﷺ سے سنا کرتا تھا کہ آپ فرماتے تھے کہ میں آیا اور ابوبکر (رض) اور عمر (رض) آئے اور میں اندر داخل ہوا اور حضرت ابوبکر و عمر (رض) اندر داخل ہوئے، میں نکلا اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر (رض) بھی نکلے اور میں امید کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان دونوں کے ساتھ (یعنی نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) کے ساتھ کر دے گا۔

【251】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، حضرت عمر بن سعید (رض) سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【252】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

منصور بن ابی مزاحم، ابراہیم، بن سعد صالح بن کیسان زہیر بن حرب، حسن بن علی حلوانی عبد بن حمید یعقوب بن ابرہیم صالح ابن شہاب ابوامامہ بن سہل حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں سو رہا تھا کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ پیش کئے جاتے ہیں اور ان کے (بدنوں پر) کُرتے ہیں، ان میں سے کچھ کے کرتے چھاتی تک ہیں اور کچھ کے کرتے اس سے نیچے تک ہیں اور پھر حضرت عمر بن خطاب (رض) گزرے اور وہ اتنا لمبا کرتا پہنے ہوئے ہیں کہ وہ زمین پر گھسیٹتا چلا جا رہا ہے، صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! اس کی تعبیر کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : دین۔

【253】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ بن وہب یونس ابن شہاب حضرت حمزہ بن عبداللہ بن عمر خطاب (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں سو رہا تھا میں نے ایک پیالہ دیکھا جو میری طرف لایا گیا، اس پیالے میں دودھ تھا، میں نے اس میں سے پیا یہاں تک کہ تازگی اور سیرابی میرے ناخنوں میں سے نکلنے گلی، پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو دے دیا، صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا علم۔

【254】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، عقیل حلوانی عبد بن حمید یعقوب بن ابراہیم، ابن سعد حضرت صالح (رض) سے یونس کی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【255】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ بن وہب یونس ابن شہاب سعید بن مسیب حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں سو رہا تھا میں نے اپنے آپ کو ایک کنوئیں پر دیکھا کہ جس پر ڈول پڑا ہوا ہے تو میں نے اس ڈول کے ذریعے کنوئیں میں سے جتنا اللہ نے چاہا پانی کھینچا، پھر اسے ابوقحافہ کے بیٹے حضرت ابوبکر (رض) نے پکڑا اور اس سے ایک یا دو ڈول کھینچے اور ان کے کھینچنے میں اللہ ان کی مغفرت فرمائے کمزوری تھی، پھر وہ ڈول بڑا ہوگیا اور اسے ابن خطاب (یعنی حضرت عمر (رض) نے پکڑا تو میں نے لوگوں میں سے ایسا بہادر نہیں دیکھا کہ جو حضرت عمر (رض) کی طرح پانی کھینچتا ہو، (حضرت عمر (رض) نے اس قدر پانی نکالا) یہاں تک کہ لوگ اپنے اپنے اونٹوں کو سیراب کر کے اپنی آرام کی جگہ پر چلے گئے۔

【256】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبدالملک بن شعیب بن لیث، ابی جدی عقیل بن خالد عمرو ناقد حلوانی عبد بن حمید یعقوب بن ابراہیم، بن سعد حضرت ابوصالح (رض) سے یونس کی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【257】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

حلوانی عبد بن حمید یعقوب ابوصالح اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے ابوقحافہ کے بیٹے (حضرت ابوبکر (رض) کو دیکھا کہ وہ (ڈول) کھینچ رہے ہیں اور باقی حدیث زہری کی حدیث کی طرح نقل کی گئی ہے۔

【258】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

احمد بن عبدالرحمن بن وہب عمی عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، ابویونس مولیٰ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے سونے کی حالت میں دکھایا گیا کہ میں اپنے حوض میں سے پانی نکال کر لوگوں کو پلا رہا ہوں، اسی دوران میرے پاس حضرت ابوبکر (رض) آئے اور انہوں نے مجھ سے ڈول پکڑ لیا تاکہ وہ مجھے آرام پہنچائیں، تو حضرت ابوبکر (رض) نے دو ڈول پانی کھینچا اور ان کے کھینچنے میں کمزوری تھی، اللہ ان کی مغفرت فرمائے، پھر (اس کے بعد) خطاب کے بیٹے (حضرت عمر (رض) آئے اور انہوں نے حضرت ابوبکر (رض) کے ہاتھ سے ڈول پکڑا تو میں نے حضرت عمر (رض) سے زیادہ قوت سے پانی کھینچنا اور کسی آدمی کا نہیں دیکھا یہاں تک کہ لوگ (پانی سے سیراب ہو کر) واپس چلے گئے اور حوض کا پانی بھر کر بہہ رہا ہے۔

【259】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابی بکر، محمد بن بشر، حضرت عبیداللہ بن عمر (رض) ، ابوبکر بن سالم، سالم بن عبداللہ، عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے (خواب) میں دکھایا گیا کہ میں ایک ڈول کے ساتھ ایک کنوئیں میں سے صبح کے وقت پانی کھینچ رہا ہوں تو اسی دوران حضرت ابوبکر (رض) آگئے تو انہوں نے ایک یا دو ڈول پانی کے کھینچے اور اللہ ان کی مغفرت فرمائے کہ ان کے ڈول کھینچنے میں کمزوری تھی پھر حضرت عمر (رض) آئے اور انہوں نے ڈول کے ذریعے پانی نکالا تو میں نے لوگوں میں سے ایسی زبردست بہادری کے ساتھ پانی نکالنے والا حضرت عمر (رض) کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا، یہاں تک کہ لوگ (پانی پی کر سیراب ہوگئے) اور انہوں نے اپنے اونٹوں کو پانی پلا کر آرام کی جگہ بٹھا دیا۔

【260】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

احمد بن عبداللہ بن یونس زہیر موسیٰ بن عقبہ حضرت سالم بن عبداللہ (رض) نے اپنے باپ سے رسول اللہ ﷺ کا حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کے بارے میں خواب مذکورہ حدیث مبارکہ کی طرح نقل کیا ہے۔

【261】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، سفیان، عمرو بن منکدر جابر، زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، ابن منکدر عمرو، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے جنت میں ایک گھر یا ایک محل دیکھا، میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے ؟ (وہاں موجود حاضرین) نے کہاں یہ محل حضرت عمر (رض) کا ہے، میں نے چاہا کہ میں اس میں داخل ہوجائیں، مگر (اے عمر (رض) ! ) مجھے تیری غیرت کا خیال آگیا، حضرت عمر (رض) (یہ سن کر) رو پڑے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ﷺ کیا میں آپ کے داخل ہونے پر غیرت کرتا ؟

【262】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، سفیان، عمرو بن منکدر جابر، ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو جابر، عمرو ناقد سفیان، ابن منکدر حضرت جابر (رض) سے نبی ﷺ کی ابن نمیر اور زہیر کی کسی روایت کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【263】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ بن وہب یونس ابن شہاب سعید بن مسیب، ابوہریرہ (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں سو رہا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا تو وہاں ایک عورت ایک محل کے کونے میں وضو کر رہی تھی، میں نے کہا یہ محل کس کا ہے ؟ (وہاں موجود لوگوں) نے کہا یہ محل حضرت عمر بن خطاب (رض) کا ہے (آپ نے فرمایا کہ یہ سن کر) مجھے حضرت عمر (رض) کی غیرت یاد آگئی تو میں پشت پھیر کر چل پڑا، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) یہ سن کر رو پڑے اور ہم سب اس مجلس میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، پھر حضرت عمر (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ پر میرے ماں باپ قربان، کیا میں آپ پر غیرت کروں گا۔

【264】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

عمرو ناقد حسن حلوانی عبد بن حمید یعقوب ابن ابراہیم، ابوصالح حضرت ابن شہاب (رض) سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【265】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

منصور بن ابی مزاحم ابراہیم، ابن سعد حسن حلوانی عبد بن حمید عبد حسن یعقوب ابن ابراہیم، بن سعد ابی صالح ابن شہاب عبدالحمید ابن عبدالرحمن بن زید محمد بن سعد بن ابی وقاص حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے (اندر داخل ہونے کی) اجازت مانگی اور آپ ﷺ کے پاس قریش کی کچھ عورتیں موجود تھیں اور وہ عورتیں آپ سے بہت ہی زیادہ باتیں کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں بھی بلند تھیں تو جب حضرت عمر (رض) نے اجازت مانگی تو وہ عورتیں پردے میں دوڑ پڑیں، رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر (رض) کو اجازت عطا فرما دی اور رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے تو حضرت عمر (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہنستا رکھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا کہ جو میرے پاس بیٹھی تھیں (اے عمر ! ) جب انہوں نے تیری آواز سنی تو وہ پردے میں دوڑ پڑیں، حضرت عمر (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ وہ عورتیں آپ سے ڈریں پھر حضرت عمر (رض) نے ان عورتوں سے فرمایا اے اپنی جان کی دشمنو ! کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ ﷺ سے نہیں ڈرتی ہو ؟ وہ عورتیں کہنے لگیں جی ہاں ! آپ سخت ہیں اور رسول اللہ ﷺ سے زیادہ غصہ والے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، شیطان جب تجھے کسی راستے پر چلتا ہوا ملتا ہے تو شیطان وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے، کہ جس راستے پر (اے عمر ! ) تو چلتا ہے۔

【266】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

ہارون بن معروف، عبدالعزیز بن محمد سہیل حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ عورتیں بیٹھیں تھیں، جو رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنی آوازوں کو بلند کر رہی تھی تو جب حضرت عمر (رض) نے (اندر آنے کی) اجازت مانگی تو وہ سب عورتیں پردے میں دوڑ پڑیں، پھر آگے زہری کی روایت کی طرح روایت نقل منقول ہے۔

【267】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوطاہر احمد بن عمرو بن سرح عبداللہ بن وہب، ابراہیم بن سعد سعد بن ابراہیم، سیدہ عائشہ (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ تم سے پہلے امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے (یعنی بغیر ارادہ کے ان کی زبانوں پر بات جاری ہوجاتی تھی) تو اگر میری امت میں ان میں سے کوئی محدث ہے تو وہ حضرت عمر بن خطاب (رض) ہیں۔ ابن وہب محدثین کی تفسیر میں مُلْهَمُونَ فرماتے ہیں، یعنی جن پر الہام کیا جاتا ہے

【268】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، عمرو ناقد زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، ابن عجلان سعد بن ابراہیم (رض) سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح حدیث نکل کی گئی ہے۔

【269】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

عقبہ بن مکرم، سعید بن عامر، جویریہ ابن اسماء، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی (1) مقام ابرہیم میں نماز پڑھنے کی (2) عورتوں کے پردے میں جانے کی (3) بدر کے قیدیوں کے بارے میں۔

【270】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ عبیداللہ بن نافع حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی بن سلول فوت ہوگیا تو اس کا بیٹا حضرت عبداللہ بن عبداللہ (رض) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور اس نے آپ ﷺ کا کرتہ مانگا کہ جس میں اس کے باپ کو کفن دیا جائے تو آپ نے اپنا کرتہ اسے دے دیا۔ پھر اس نے عرض کیا کہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں، تو رسول اللہ ﷺ اس پر نماز جنازہ پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر (رض) کھڑے ہوگئے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا کپڑا پکڑ لیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا آپ اس پر نماز پڑھتے ہیں جبکہ اللہ نے آپ کو اس پر نماز پڑھنے سے منع فرما دیا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی (اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً ) 9 ۔ التوبہ : 80) آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تو ستر مرتبہ سے بھی زیادہ مرتبہ دعائے مغفرت کروں گا، حضرت عمر (رض) نے عرض کیا کہ یہ تو منافق ہے، بالآخر رسول اللہ ﷺ نے اس پر نماز پڑھی لی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، (وَلَا تُصَلِّ عَلَی أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَی قَبْرِهِ ) میں سے کوئی مرجائے تو ان پر کبھی نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی ان میں سے کسی کی قبر پر کھڑے ہوں۔

【271】

حضرت عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبیداللہ بن سعید یحییٰ قطان حضرت عبیداللہ (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے اور اس میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ پھر آپ ﷺ نے ان منافقوں کی نماز جنازہ پڑھنا چھوڑ دی۔

【272】

حضرت عثمان بن عفان (رض) کے فضائل کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، یحییٰ بن ایوب، قتیبہ ابن حجر یحییٰ بن یحیی، اسماعیل یعنی ابن جعفر محمد بن ابی حرملہ عطاء، سلیمان ابنی یسار ابوسلمہ بن عبدالرحمن سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے، اس حال میں کہ آپ کی رانیں یا پنڈلیاں مبارک کھلی ہوئی تھیں (اسی دوران) حضرت ابوبکر (رض) نے اجازت مانگی تو آپ نے ان کو اجازت عطا فرما دی اور آپ اسی حالت میں لیٹے باتیں کررہے تھے، پھر حضرت عمر (رض) نے اجازت مانگی تو آپ نے ان کو بھی اجازت عطا فرما دی اور آپ اسی حالت میں باتیں کرتے رہے، پھر حضرت عثمان (رض) نے اجازت مانگی تو رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور اپنے کپڑوں کو سیدھا کرلیا، روای محمد کہتے ہیں کہ میں نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کی بات ہے، پھر حضرت عثمان (رض) اندر داخل ہوئے اور باتیں کرتے رہے تو جب وہ سب حضرات نکل گئے تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا حضرت ابوبکر (رض) آئے تو آپ نے کچھ خیال نہیں کیا اور نہ کوئی پرواہ کی، پھر حضرت عمر (رض) تشریف لائے تو بھی آپ نے کچھ خیال نہیں کیا اور نہ ہی کوئی پرواہ کی، پھر حضرت عثمان (رض) آئے تو آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور آپ نے اپنے کپڑو وں کو درست کیا تو آپ نے فرمایا (اے عائشہ ! ) کیا میں اس آدمی سے حیاء نہ کروں کہ جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔

【273】

حضرت عثمان بن عفان (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبدالملک بن شعیب بن لیث، بن سعد ابی جدی عقیل بن خالد ابن شہاب یحییٰ بن سعید بن عاص حضرت سعید بن عاص (رض) خبر دیتے ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ اور حضرت عثمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت مانگی اس حال میں کہ آپ اپنے بستر پر حضرت عائشہ (رض) کی چادر اوڑھے ہوئے لیٹے تھے، آپ نے حضرت ابوبکر (رض) کو اجازت عطا فرما دی اور آپ اسی حالت پر رہے اور انہوں نے اپنی ضرورت پوری کی اور پھر چلے گئے، پھر حضرت عمر (رض) نے اجازت مانگی تو آپ نے ان کو بھی اجازت عطا فرما دی اور آپ اسی حالت پر رہے اور انہوں نے بھی اپنی ضرورت پوری کی اور پھر وہ چلے گئے، حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ پھر میں نے آپ سے اجازت مانگی تو آپ بیٹھ گئے اور آپ نے حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا اپنے کپڑے درست کرلو اور میں نے بھی اپنی ضرورت بیان کی اور پھر میں بھی چلا گیا، تو حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا ہوا ؟ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) کے آنے پر میں نے آپ کو اس قدر گھبراتے ہوئے نہیں دیکھا جتنا کہ آپ حضرت عثمان (رض) کے آنے پر گھبرائے، رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان (رض) کے بارے میں فرمایا کہ عثمان ایک باحیاء آدمی ہے اور مجھے خدشہ ہوا کہ اگر میں نے ان کو اسی حالت پر اجازت دے دی تو ہوسکتا ہے کہ وہ مجھ سے اپنی ضرورت پوری نہ کروا سکیں۔

【274】

حضرت عثمان بن عفان (رض) کے فضائل کے بیان میں

عمرو ناقد حسن بن علی حلوانی عبد بن حمید یعقوب بن ابراہیم، بن سعد ابوصالح بن کیسان ابن شہاب یحییٰ بن سعید بن عاص سعید بن عاص عثمان حضرت عثمان (رض) اور سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت مانگی اور پھر آگے عقیل عن الزہری کی حدیث کی طرح حدیث ذکر کی۔

【275】

حضرت عثمان بن عفان (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، عنزی ابن ابی عدی، عثمان ابن غیاث ابی عثمان نہدی حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (ایک دن) مدینہ منورہ کے کسی باغ میں تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما تھے اور ایک لکڑی کو کیچڑ میں ڈالے کھرچ رہے تھے کہ اسی دوران ایک آدمی نے دروازہ کھلوایا تو آپ ﷺ نے فرمایا دروازہ کھول دو اور اسے جنت کی خوشخبری سنا دو ، روای کہتے ہیں کہ وہ ابوبکر (رض) تھے، میں نے ان کے لئے دروازہ کھولا اور ان کو جنت کی خوشخبری دی، راوی کہتے ہیں کہ پھر ایک دوسرے آدمی نے دروازہ کھلوایا تو آپ نے فرمایا دروازہ کھول دو اور اسے جنت کی خوشخبری دے دو ، راوی کہتے ہیں کہ میں گیا، دیکھا تو وہ حضرت عمر (رض) تھے، میں نے ان کے لئے دروازہ کھولا اور ان کو جنت کی خوشخبری سنا دی، پھر ایک تیسرے آدمی نے دروازہ کھلوایا، راوی کہتے ہیں کہ پھر نبی ﷺ بیٹھ گئے اور آپ نے فرمایا دروازہ کھول دو اور ان کو جنت کی خوشخبری اس بلویٰ کے ساتھ دے دو کہ جو ان کو پیش آئے گا، راوی کہتے ہیں کہ میں گیا تو دیکھا تو وہ حضرت عثمان (رض) تھے، راوی کہتے ہیں کہ میں نے دروازہ کھولا اور ان کو جنت کی خوشخبری سنائی، راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان (رض) سے وہ کہا کہ جو آپ نے فرمایا تو حضرت عثمان (رض) نے فرمایا اے اللہ ! صبر عطا فرما اور اللہ ہی مددگار ہے۔

【276】

حضرت عثمان بن عفان (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوربیع عتکی حماد ایوب ابی عثمان نہدی حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک باغ میں تشریف لائے اور آپ ﷺ نے مجھے حکم فرمایا کہ اس دروازہ پر پہرہ دوں، پھر مذکورہ حدیث کی طرح روایت ذکر کی۔

【277】

حضرت عثمان بن عفان (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مسکین یمامی یحییٰ بن حسان، سلیمان ابن بلال شریک بن ابی نمر سعید بن مسیب حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) فرماتے ہیں کہ انہوں نے اپنے گھر میں وضو کیا پھر وہ باہر نکلے اور کہنے لگے کہ آج میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہوں گا اور سارا دن آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا، پھر حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) مسجد میں آئے اور نبی کریم ﷺ کے بارے میں پوچھا تو صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) نے کہا کہ آپ ﷺ اس طرف نکلے ہیں، حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میں اس دروازے پر بیٹھ گیا اور وہ دروازہ لکڑی کا تھا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے اور آپ نے وضو فرمایا تو میں آپ کی طرف گیا، دیکھا کہ آپ بئر اریس پر تشریف فرما ہیں اور اس کے کنارے پر اپنی پنڈلیاں مبارک کھول کر کنوئیں میں لٹکائی ہوئی ہیں، حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے آپ پر سلام کیا پھر میں واپس ہو کر دروازے کے پاس بیٹھ گیا اور میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ آج میں رسول اللہ ﷺ کا دربان بنوں گا (اسی دوران) حضرت ابوبکر (رض) تشریف لائے اور انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا، میں نے کہا کون ؟ انہوں نے فرمایا ابوبکر، میں نے کہا، ٹھہریں، حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ پھر میں گیا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! یہ ابوبکر (رض) ہیں اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا ان کو اجازت دے دو اور ان کو جنت کی خوشخبری دے دو ، راوی کہتے ہیں کہ پھر میں آیا اور میں نے حضرت ابوبکر (رض) سے کہا تشریف لے آئیں اور رسول اللہ ﷺ آپ کو جنت کی خوشبخری دیتے ہیں، راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت ابوبکر (رض) تشریف لائے اور کنوئیں کے کنارے آپ کے دائیں طرف بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کنوئیں میں لٹکا دیئے، جس طرح کے نبی ﷺ نے کیا ہوا تھا اور اپنی پنڈلیاں کھولے ہوئے تھے، پھر میں واپس لوٹا (اور دروازے پر) بیٹھ گیا اور میں اپنے بھائی کو وضو کرتے ہوئے چھوڑ آیا تھا اور وہ میرے پاس آنے والا تھا تو میں نے (اپنے دل میں کہا) کہ اگر اللہ تعالیٰ میرے اس بھائی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے گا تو وہ اسے بھی لے آئے گا، تو میں نے دیکھا کہ ایک انسان نے دروازہ کو ہلایا، میں نے کہا کون ؟ انہوں نے کہا عمر بن خطاب میں نے عرض کیا ٹھہریں، پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور میں نے آپ پر سلام کیا اور میں نے عرض کیا یہ حضرت عمر (رض) آپ سے اجازت مانگتے ہیں، آپ نے فرمایا ان کو اجازت دے دو اور ان کو جنت کی خوشخبری بھی دے دو ، پھر میں حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اور میں نے کہا، آپ کو اجازت ہے اور رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنت کی خوشخبری دی ہے، راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) تشریف لائے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کنوئیں کے کنارے پر آپ کی بائیں جانب بیٹھ گئے اور حضرت عمر (رض) نے بھی اپنے پاؤں کنوئیں میں لٹکا دیئے پھر میں لوٹ گیا (اور دروازے پر) بیٹھ گیا اور میں نے کہا اگر اللہ فلاں کے ساتھ (ساتھ) میرے بھائی سے بھی بھلائی چاہے گا تو اسے بھی لے آئے گا، پھر ایک انسان آیا اور اس نے دروازے کو ہلایا تو میں نے کہا کون ؟ انہوں نے کہا عثمان بن عفان، میں نے عرض کیا ٹھہریں ! حضرت ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں آیا اور میں نے آپ کو حضرت عثمان (رض) کے آنے کی خبر دی تو آپ نے فرمایا ان کو اجازت دے دو اور ان کو جنت کی خوشخبری دے دو ، اس بلویٰ کے ساتھ کہ جو نا کو پہنچے گا، راوی کہتے ہیں کہ میں آیا اور میں نے کہا آپ تشریف لائیں اور رسول اللہ ﷺ نے آپ کو بلویٰ کے ساتھ جنت کی خوشخبری دی ہے کہ جو آپ کو پہنچے گا، حضرت ابوموسیٰ (رض) کہتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کنوئیں کے کنارے اس طرف جگہ نہیں ہے تو وہ آپ کے ساتھ دوسری طرف بیٹھ گئے، شریک کہتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ میں اس سے سمجھا کہ ان کی قبریں بھی اسی طرح سے ہوں گی۔

【278】

حضرت عثمان بن عفان (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن اسحاق سعید بن عفید سلیمان بن بلال شریک بن عبداللہ بن ابی نمیر سعید بن مسیب حضرت ابوموسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں نکلا تو میں نے آپ کو باغوں کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو میں آپ کے پیچھے چلا تو میں نے آپ کو ایک باغ میں پایا (اور میں نے دیکھا) کہ آپ ایک کنوئیں کے کنارے پر تشریف فرما ہیں اور آپ اپنی پنڈلیاں کھول کر ان کو کنوئیں پر لٹکائے ہوئے ہیں اور پھر باقی روایت یحییٰ بن حسان کی روایت کی طرح ذکر کی ہے اور سعید بن مسیب کا یہ قول ذکر نہیں کیا کہ ان کی قبریں بھی اسی طرح ہوں گی۔

【279】

حضرت عثمان بن عفان (رض) کے فضائل کے بیان میں

حسن بن علی حلوانی ابوبکر بن اسحاق سعید بن ابر مریم محمد بن جعفر، بن ابی کثیر شریک بن عبداللہ بن ابی نمیر سعید بن مسیب حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم ایک دن اپنی کسی ضرورت کے لئے مدینہ منورہ کے کسی باغ میں تشریف لے گئے تو میں بھی آپ ﷺ کے پیچھے نکلا اور پھر باقی روایت سلیمان بن بلال کی حدیث کی طرح ذکر کی اور ابن مسیب کہتے ہیں کہ میں نے ان حضرات کے اس طرح بیٹھنے سے ان کی قبروں کی ترتیب کو سمجھا کہ ان تینوں حضرات کی قبریں ایک ساتھ ہیں اور حضرت عثمان (رض) کی قبر علیحدہ ہے۔

【280】

حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کے بیان میں

یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، ابوجعفر محمد بن صباح عبیداللہ قواریری سریج بن یونس یونس بن ماجشون ابن صابھ یوسف ابوسلمہ ماجشون محمد بن منکدر سعید بن مسیب حضرت عامر بن سعد بن ابی وقاص (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے حضرت علی (رض) سے فرمایا (اے علی) تم میرے لئے اس طرح ہو کہ جس طرح ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے تھے، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے، حضرت سعید کہتے ہیں کہ میں نے چاہا کہ میں خود یہ حدیث حضرت سعد (رض) سے سنوں تو میں نے حضرت سعد (رض) سے ملاقات کی میں نے ان کو وہ حدیث بیان کی کہ جو حضرت عامر (رض) نے مجھ سے بیان کی تھی تو حضرت سعد (رض) کہنے لگے کہ میں نے یہ حدیث سنی ہے، تو میں نے کہا کیا آپ نے یہ حدیث سنی ہے ؟ تو حضرت سعد (رض) نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں پر رکھیں اور کہنے لگے ہاں ! میں نے یہ حدیث سنی ہے اور اگر میں نے یہ حدیث سنی نہ ہو تو میرے یہ دونوں کان بہرے ہوجائیں۔

【281】

حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، حکم مسعب حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے حضرت علی ابن ابی طالب (رض) کو (مدینہ منورہ پر) حاکم بنایا، جب آپ غزوہ تبوک میں تشریف لے گئے تو حضرت علی (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا (اے علی ! ) کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تیرا مقام میرے ہاں ایسے ہے کہ جسے حضرت ہارون (علیہ السلام) کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاں، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

【282】

حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ شعبہ، حضرت شعبہ اس سند کے ساتھ روایت نقل کرتے ہیں۔

【283】

حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، محمد بن عباد حاتم ابن اسماعیل بکیر بن مسمار امر معاویہ بن ابی سفیان، سعد حضرت عامر بن سعد بن ابی وقاص (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے حضرت سعد (رض) کو امیر بنایا اور ان سے فرمایا تجھے ابوالتراب (علی (رض) کو برا بھلا کہنے سے کس چیز نے منع کیا ہے، حضرت سعد (رض) نے کہا مجھے تین باتیں یاد ہیں کہ جو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمائی ہیں جن کی وجہ سے میں ان کو برا بھلا نہیں کہتا اگر ان تین باتوں میں سے کوئی ایک بھی مجھے حاصل ہوجائے تو وہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پیاری ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا اور آپ نے کسی غزوہ میں جاتے ہوئے ان کو اپنے پیچھے مدینہ منورہ میں چھوڑا تو حضرت علی (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جا رہے ہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا (اے علی ! ) کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہارا مقام میرے ہاں اس طرح ہے جس طرح کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا مقام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاں تھا، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور میں نے آپ سے سنا، آپ خیبر کے دن فرما رہے تھے کہ کل میں ایک ایسے آدمی کو جھنڈا عطا کروں گا کہ جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہو اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتا ہوگا، راوی کہتے ہیں کہ (یہ سن کر ہم اس انتظار میں رہے کہ ایسا خوش نصیب کون ہوگا ؟ ) تو آپ نے فرمایا میرے پاس حضرت علی (رض) کو بلاؤ ان کو بلایا گیا تو ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں تو آپ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں پر لگایا اور عَلَم ان کو عطا فرما دیا، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت علی (رض) کے ہاتھوں فتح عطا فرمائی اور یہ آیت مبارکہ نازل ہوئیں (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَا ءَنَا وَاَبْنَا ءَكُمْ وَنِسَا ءَنَا وَنِسَا ءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ) 3 ۔ آل عمران : 61) تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی (رض) اور حضرت فاطمہ (رض) اور حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) کو بلایا اور فرمایا اے اللہ ! یہ سب میرے اہل بیت (گھر والے) ہیں۔

【284】

حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر شعبہ، محمد بن مثنی ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، سعد بن ابراہیم، ابراہیم بن سعد حضرت سعد (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا (اے علی ! ) کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہارا مقام میرے ہاں ایسا ہو جیسا کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا مقام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک تھا۔

【285】

حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، یعقوب بن ابراہیم، قاری، سہیل حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ خیبر کے دن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ جھنڈا میں ایک ایسے آدمی کو دوں گا کہ جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہوگا، اللہ اس کے ہاتھوں پر فتح عطا فرمائے گا، حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے اس دن کے علاوہ کبھی بھی امارت کی آرزو نہیں کی، حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ پھر میں اس امید کو لے کر آپ کے سامنے آیا کہ آپ مجھے اس کام کے لئے بلا لیں، راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی (رض) کو بلایا تو آپ نے جھنڈا حضرت علی (رض) کو عطا فرمایا اور آپ نے فرمایا جاؤ اور کسی طرف توجہ نہ کرو یہاں تک کہ اللہ تجھے (تیرے ہاتھوں) فتح عطا فرما دے، راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت علی (رض) کچھ چلے اور پھر ٹھہر گئے اور کسی طرف توجہ نہیں کی پھر چیخ کر بولے، اے اللہ کے رسول ! میں لوگوں سے کس بات پر قتال کروں ؟ آپ نے فرمایا تم ان لوگوں سے اس وقت تک لڑو جب تک کہ وہ لوگ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ اور مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّهِ ﷺ کی گواہی نہ دیں تو جب وہ لوگ اس بات کی گواہی دے دیں تو انہوں نے اپنا خون اور مال تم سے محفوظ کرلیا، سوائے کسی حق کے بدلہ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔

【286】

حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز ابن ابی حازم سہل بن سعد قتیبہ بن سعید، یعقوب ابن عبدالرحمن ابی حازم حضرت سہل بن سعد (رض) خبر دیتے ہیں کہ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے ارشاد فرمایا میں یہ جھنڈا ایک ایسے آدمی کو عطا کروں گا کہ جس کے ہاتھوں پر اللہ فتح عطا فرمائیں گے، وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس سے محبت کرتے ہیں، راوی کہتے ہیں کہ لوگ ساری رات اسی بات کا تذکرہ کرتے رہے کہ جھنڈا کس (خوش نصیب) کو عطا کیا جائے گا ؟ راوی کہتے ہیں جب صبح ہوئی اور سب لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور ان میں سے ہر ایک آدمی کی یہ آرزو تھی کہ یہ جھنڈا اسے ملے تو آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا علی (رض) بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ تو صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا وہ ہیں، اے اللہ کے رسول ! ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے، رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی (رض) کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا اور ان کے لئے دعا فرمائی، حضرت علی (رض) بالکل صحیح ہوگئے گویا کہ ان کو کوئی تکلیف ہی نہیں تھی، پھر آپ نے حضرت علی (رض) کو جھنڈا عطا فرمایا تو حضرت علی (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں ان سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لوگ ہماری طرح ہوجائیں، تو آپ نے فرمایا آہستہ آہستہ چل یہاں تک کہ تو ان کے میدان میں اتر جائے پھر تو ان کو اسلام کی دعوت دے اور ان کو خبر دے کہ ان پر اللہ کا جو حق واجب ہے، اللہ کی قسم ! اگر اللہ تیری وجہ سے کسی ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے تو یہ تیرے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے۔

【287】

حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، حاتم بن اسماعیل برید بن ابی عبید حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) غزوہ خیبر میں نبی ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے کیونکہ ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، پھر حضرت علی (رض) فرمانے لگے کہ کیا میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہوں ؟ پھر حضرت علی (رض) نکلے اور جا کر نبی ﷺ سے مل گئے تو جب اس رات کی شام ہوئی کہ جس کی صبح کو اللہ نے فتح عطا فرمائی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں کل یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا یا یہ جھنڈا کل وہ آدمی لے گا کہ جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہوں یا آپ نے فرمایا وہ آدمی اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہو، اللہ اس کے ہاتھوں پر فتح عطا فرمائے گا، پھر اچانک ہم نے حضرت علی (رض) کو دیکھا اور ہمیں اس کی امید نہیں تھی کہ یہ جھنڈا حضرت علی (رض) کو عطا کیا جائے گا، تو لوگوں نے عرض کیا یہ حضرت علی (رض) ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ان کو جھنڈا عطا فرما دیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں پر فتح عطا فرمائی۔

【288】

حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، شجاع بن مخلد ابن علیہ، زہیر اسماعیل بن ابراہیم، ابوحیان حضرت یزید بن حیان (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلمہ (رض) ، حضرت زید بن ارقم (رض) کی طرف چلے تو جب ہم ان کے پاس جا کر بیٹھ گئے تو حضرت حصین (رض) نے حضرت زید (رض) سے کہا اے زید ! تو نے بہت بڑی نیکی حاصل کی ہے کہ تو نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے اور آپ سے یہ حدیث سنی ہے اور تو نے آپ کے ساتھ مل کر جہاد کیا ہے اور تو نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی ہے، اے زید ! آپ نے رسول اللہ ﷺ سے احادیث سنی ہیں، وہ ہم سے بیان کرو، حضرت زید بن ارقم (رض) نے فرمایا اے میرے بھتیجے ! اللہ کی قسم میری عمر بڑھاپے کو پہنچ گئی ہے اور ایک زمانہ گزر گیا (جس کی وجہ سے) میں بعض وہ باتیں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کو یاد رکھی تھیں، بھول گیا ہوں، اس وجہ سے میں تم سے بیان کروں تو تم اسے قبول کرو اور جو میں تم سے بیان نہ کروں تو تم اس کے بارے میں مجھے مجبور نہ کرنا، حضرت زید (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن ایک پانی کہ جسے خم کہہ کر پکارا جاتا ہے جو کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ہے پر ہمیں خطبہ ارشا فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو آپ نے فرمایا بعد حمد و صلوٰہ ! آگاہ رہو اے لوگو ! میں ایک آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا میرے پاس آئے تو میں اسے قبول کروں اور میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے، جس میں ہدایت اور نور ہے تو تم اللہ کی اس کتاب کو پکڑے رکھو اور اس کے ساتھ مضبوطی سے قائم رہو اور آپ نے اللہ کی کتاب (قرآن مجید) کی خوب رغبت دلائی، پھر آپ نے فرمایا (دوسری چیز) میرے اہل بیت ہیں، میں تم لوگوں کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تم لوگوں کو اللہ یاد دلاتا ہوں، حضرت حصین (رض) نے حضرت زید (رض) سے عرض کیا اے زید ! آپ کے اہل بیت کون ہیں ؟ کیا آپ کی ازواج مطہرات (رض) اہل بیت میں سے نہیں ہیں ؟ حضرت زید (رض) نے فرمایا آپ کی ازواج مطہرات (رض) آپ کے اہل بیت میں سے ہیں اور وہ سب اہل بیت میں سے ہیں کہ جن پر آپ کے بعد صدقہ (زکوٰہ، صدقہ و خیرات وغیرہ) حرام ہے، حضرت حصین (رض) نے عرض کیا وہ کون ہیں ؟ حضرت زید (رض) نے فرمایا حضرت علی (رض) کا خاندان، حضرت عقیل کا خاندان، آل جعفر، آل عباس، حضرت حصٰین نے عرض کیا ان سب پر صدقہ وغیرہ حرام ہے ؟ حضرت زید (رض) نے فرمایا ہاں ! ان سب پر صدقہ، زکوٰۃ وغیرہ حرام ہے۔

【289】

حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن بکار بن ریان حسان بن ابراہیم، سعید بن مسروق، برید بن حیان حضرت زید بن ارقم (رض) نبی کریم ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کرتے ہیں۔

【290】

حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل اسحاق بن ابراہیم، جریر، حضرت ابوحیان اس سند کے ساتھ اسماعیل کی روایت کی طرح نقل کرتے ہیں اور جریر کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ اللہ کی کتاب میں ہدایت اور نور ہے، جو اسے پکڑے گا وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔

【291】

حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن بکار ابن ریان حسان ابرہیم سعید ابن مسروق، حضرت یزید بن حیان (رض) حضرت زید بن ارقم (رض) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ہم ان کی خدمت میں گئے اور ہم نے کہا آپ نے بہت خیر دیکھی ہے، رسول اللہ ﷺ کی صحبت حاصل کی ہے اور آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور آگے حدیث ابوحیان کی روایت کی طرح ہے سوائے اس کے کہ اس میں ہے آپ نے فرمایا آگاہ رہو ! میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ان میں سے ایک اللہ عزوجل کی کتاب ہے اور وہ اللہ کی رسی ہے، جو اس کی اتباع کرے گا، وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہی پر رہے گا اور اس میں یہ بھی ہے کہ ہم نے کہا اہل بیت کون ہیں ؟ کیا آپ کی ازواج مطہرات (رض) اہل بیت ہیں ؟ انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم ! ایک عورت ایک زمانے تک مرد کے ساتھ رہتی ہے پھر وہ اسے طلاق دے دیتا ہے تو وہ عورت اپنے باپ اور اپنی قوم کی طرف لوٹ جاتی ہے، اہل بیت سے مراد آپ کی ذات تھی اور آپ کے وہ عصبات کے جن پر آپ کے بعد صدقہ وغیرہ لینا حرام کردیا گیا ہے۔

【292】

حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز ابن ابی حازم حضرت سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ مروان کے خاندان میں سے ایک آدمی مدینہ منورہ پر حاکم مقرر ہوا، اس حاکم نے حضرت سہل بن سعد (رض) کو بلایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ حضرت علی (رض) کو برا کہیں، تو حضرت سہل بن سعد (رض) نے (اس طرح کرنے سے) انکار کردیا تو اس حاکم نے حضرت سہل (رض) سے کہا اگر تو حضرت علی (رض) کو (اَلعَیَاذُ بِاللہِ ) برا کہنے سے انکار کرتا ہے تو تُو اس طرح کہہ (اَلعَیَاذُ بِاللہِ ) ابوالتراب (رض) پر اللہ کی لعنت ہو۔ حضرت سہل (رض) فرمانے لگے حضرت علی (رض) کو تو ابوالتراب سے زیادہ کوئی نام محبوب نہیں تھا اور جب حضرت علی (رض) کو اس نام سے پکارا جاتا تھا تو وہ خوش ہوتے تھے، وہ حاکم حضرت سہل (رض) سے کہنے لگا ہمیں اس واقعہ کے بارے میں باخبر کرو کہ حضرت علی (رض) کا نام ابوالتراب کیوں رکھا گیا ؟ حضرت سہل (رض) نے فرمایا رسول اللہ ﷺ (ایک مرتبہ) حضرت فاطمہ (رض) کے گھر تشریف لائے تو آپ نے گھر میں حضرت علی (رض) کو موجود نہ پایا، آپ نے فرمایا (اے فاطمہ ! ) تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے ؟ تو حضرت فاطمہ (رض) نے عرض کیا میرے اور حضرت علی (رض) کے درمیان کچھ بات ہوگئی ہے جس کی وجہ سے وہ غصہ میں آ کر باہر نکل گئے ہیں اور وہ میرے یہاں نہیں سوئے، تو رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا علی کو دیکھو کہ وہ کہاں ہیں ؟ تو وہ آدمی (دیکھ) کر آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! حضرت علی (رض) مسجد میں سو رہے ہیں، رسول اللہ ﷺ (مسجد میں) حضرت علی (رض) کے پاس تشریف لائے اور حضرت علی (رض) لیٹے ہوئے تھے اور ان کی چادر ان کے پہلو سے دور ہوگئی تھی اور ان کے جسم کو مٹی لگی ہوئی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی (رض) کے جسم سے مٹی صاف کرنا شروع کردی اور آپ فرمانے لگے ابوتراب ! اٹھ جاؤ، ابوتراب اٹھ جاؤ۔

【293】

حضرت سعد بن ابی وقاص کے فضائل کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب سلیمان بن بلال یحییٰ بن سعید عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ کی ایک رات آنکھ کھل گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کاش کہ میرے صحابہ میں سے کوئی ایسا نیک آدمی ہو جو رات بھر میری حفاظت کرے سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم نے اسلحہ کی آواز سنی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ کون ہے عرض کیا سعد بن ابی وقاص اے اللہ کے رسول میں آپ ﷺ کی خدمت میں پہرہ دینے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺ سو گئے یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺ کے خراٹوں کی آواز سنی۔

【294】

حضرت سعد بن ابی وقاص کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، محمد بن رمح، لیث، یحییٰ بن سعید عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ کے مدینہ منورہ میں تشریف لانے کے زمانے میں ایک رات آپ ﷺ جاگتے رہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کاش کہ میرے صحابہ (رضی اللہ عنہم) میں سے کوئی ایسا نیک آدمی ہوتا جو رات بھر میری حفاظت کرتا حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم اسی حالت میں تھے کہ ہم نے اسلحہ کی کچھ جھنجھناہٹ سنی تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ کون ہے ؟ عرض کیا سعد بن ابی وقاص رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد سے فرمایا تو کس وجہ سے آیا ہے حضرت سعد نے عرض کیا کہ میرے دل میں رسول اللہ کی ذات اقدس کے بارے میں کچھ خوف سا محسوس ہوا اس لئے میں پہرہ دینے کے لئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد کو دعا دی پھر آپ ﷺ سو گئے اور ابن رمح کی روایت میں ہے کہ ہم نے کہا یہ کون ہے ؟

【295】

حضرت سعد بن ابی وقاص کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالوہاب یحییٰ بن سعید عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک رات جاگے سلیمان بن بلال کی حدیث کی طرح ذکر فرمایا۔

【296】

حضرت سعد بن ابی وقاص کے فضائل کے بیان میں

منصور بن ابر مزاحم ابراہیم، ابن سعد عبداللہ بن شداد حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ماں باپ کے لئے کسی کو جمع نہیں فرمایا سوائے حضرت سعد بن مالک (رض) یعنی حضرت سعد بن ابی وقاص کے لئے آپ ﷺ نے احد کے دن حضرت سعد سے فرمایا اے سعد تیر پھینک میرے ماں باپ تجھ پر قربان۔ (سبحان اللہ ! کیا شان ہے حضرت سعد کی کہ جن پر اللہ کے نبی ﷺ اپنے ماں باپ کو قربان کر رہے ہیں، مترجم) ۔

【297】

حضرت سعد بن ابی وقاص کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابوکریب اسحاق حنظلی محمد بن بشر مسعر ابن ابی عمر سفیان، مسعر سعد بن ابراہیم، عبداللہ بن حضرت علی (رض) نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کرتے ہیں۔

【298】

حضرت سعد بن ابی وقاص کے فضائل کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ قعنب سلیمان ابن بلال ابن سعید حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ احد کے دن رسول اللہ ﷺ نے مجھ پر اپنے ماں باپ کو جمع فرمایا۔

【299】

حضرت سعد بن ابی وقاص کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، ابن رمح لیث، سعد ابن مثنی عبدالوہاب حضرت یحییٰ بن سعید اس سند کے ساتھ روایت نقل کرتے ہیں۔

【300】

حضرت سعد بن ابی وقاص کے فضائل کے بیان میں

محمد بن عباد حاتم ابن اسماعیل بکیر بن مسمار حضرت عامر بن سعد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ان کے لئے احد کے دن اپنے ماں باپ کو جمع فرمایا حضرت سعد فرماتے ہیں کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی تھا کہ جس نے مسلمانوں کو جلا ڈالا تھا تو نبی ﷺ نے حضرت سعد سے فرمایا اے سعد (ارْمِ فِدَاکَ أَبِي وَأُمِّي) تیر پھینک میرے ماں باپ تجھ پر قربان حضرت سعد فرماتے ہیں کہ میں نے بغیر پرکھے تیر کھینچ کر اس کے پہلو پر مارا جس سے وہ گرپڑا اور اس کی شرمگاہ کھل گئی تو رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺ کی داڑھیں مبارک دیکھیں۔

【301】

حضرت سعد بن ابی وقاص کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، موسیٰ زہیر سماک بن حرب، حضرت مصعب بن سعد اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ ان کے بارے میں قرآن مجید میں سے کچھ آیات کریمہ نازل ہوئیں۔ راوی کہتے ہیں کہ ان کی والدہ نے قسم کھائی کہ وہ اس سے کبھی بات نہیں کرے گی یہاں تک کہ وہ اپنے دین کا انکار کریں اور وہ نہ کھائے گی اور نہ پئے گی وہ کہنے لگی اللہ نے تجھے اپنے والدین کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے اور میں تیری والدہ ہوں اور میں تجھے اس بات کا حکم دیتی ہوں راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ تین دن تک اسی طرح رہی یہاں تک کہ اس پر غشی طاری ہوگئی تو اس کا ایک بیٹا کھڑا ہوا جسے عمارہ کہا جاتا ہے اس نے اپنی والدہ کو پانی پلایا تو حضرت سعد کو بد دعا دینے لگی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے لیکن اگر وہ تجھ سے اس بات پر جھگڑا کریں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک کرے جس کا تجھے علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کر راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بہت سا غنیمت کا مال آیا جس میں ایک تلوار بھی تھی تو میں نے وہ تلوار پکڑی اور اسے رسول اللہ کی خدمت میں لے کر آیا اور میں نے عرض کیا یہ تلوار مجھے انعام کے طور پر عنایت فرما دیں اور میں کون ہوں اس کا آپ ﷺ کو علم ہی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا جہاں سے تو نے لیا ہے وہیں لوٹا دے تو میں چلا یہاں تک کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں اس تلوار کو گودام میں رکھ دوں لیکن میرے دل نے مجھے ملامت کی اور پھر میں آپ ﷺ کی طرف لوٹا اور میں نے عرض کیا یہ تلوار مجھے عطا فرما دیں آپ نے مجھے اپنی آواز کی سختی سے فرمایا جہاں سے تو نے یہ تلوار لی ہے اس کو وہیں لوٹا دے تو اللہ عزوجل نے آیت کریمہ نال فرمائی آپ ﷺ سے پوچھتے ہیں مال غنیمت کے حکم کے بارے میں حضرت سعد فرماتے ہیں کہ میں بیمار ہوگیا تو میں نے نبی ﷺ کی طرف پیغام بھیجا تو آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا مجھے اجازت عطا فرمائیں کہ میں اپنے مال جس طرح چاہوں تقسیم کروں حضرت سعد کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے انکار کردیا میں نے عرض کیا آدھا مال تقسیم کر دوں آپ ﷺ نے اس سے بھی انکار فرما دیا میں نے عرض کیا تہائی مال تقسیم کر دوں حضرت سعد کہتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ خاموش ہوگئے پھر اس کے بعد یہی حکم ہوا کہ تہائی مال تقسیم کرنے کی اجازت ہے حضرت سعد فرماتے ہیں کہ میں مہاجرین اور انصار کے کچھ لوگوں کے پاس آیا تو انہوں نے کہا آئیں ہم آپ کو کھانا کھلاتے ہیں اور ہم آپ کو شراب پلاتے ہیں اور یہ شراب کے حرام ہونے سے پہلے کی بات ہے حضرت سعد (رض) کہتے ہیں کہ پھر میں ان کے پاس ایک باغ میں گیا تو میں نے دیکھ کہ ان کے پاس اونٹ کے سر کا گوشت بھنا ہوا پڑا ہے اور شراب کی ایک مشک بھی رکھی ہوئی ہے حضرت سعد کہتے ہیں کہ میں نے ان کے ساتھ گوشت بھی کھایا اور شراب بھی پی حضرت سعد کہتے ہیں کہ پھر ان کے ہاں مہاجرین اور انصار کا ذکر ہوا تو میں نے کہا مہاجر لوگ انصار سے بہتر ہیں حضرت سعد کہتے ہیں کہ پھر ایک آدمی نے سری کا ایک ٹکڑا لیا اور اس سے مجھے مارا تو میری ناک زخمی ہوگئی پھر میں رسول اللہ کی خدمت میں آیا اور میں نے آپ ﷺ کا اس سارے واقعہ کی خبر دی تو اللہ عزوجل نے میری وجہ سے شراب کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ( اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ ) 5 ۔ المائدہ : 90) شراب، جُوا، بت اور تیر یہ سب گندے اور شیطان کے کام ہیں۔

【302】

حضرت سعد بن ابی وقاص کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، بن سماک بن حرب، حضرت مصعب بن سعد (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا میرے بارے میں چار آیات کریمہ نازل کی گئیں ہی زہیر عن سماک کی حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے اور شعبہ کی روایت میں یہ الفاظ زائدہ ہیں کہ حضرت سعد نے فرمایا لوگ جب چاہتے ہیں وہ میری والدہ کو کھانا کھلائیں تو اس کا منہ لکڑی سے کھولتے پھر اس کے منہ میں کچھ ڈالتے اور اس روایت میں ہے کہ حضرت سعد کے ناک پر انہوں نے مارا جس سے ان کی ناک چر گئی اور پھر چری ہی رہی۔

【303】

حضرت سعد بن ابی وقاص کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، عبدالرحمن سفیان، مقدام بن شریح حضرت سعد (رض) سے روایت ہے کہ یہ آیت کریمہ اور نہ دور کرو ان لوگوں کو جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں اور اس کی رضا چاہتے ہیں چھ آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے میں اور حضرت ابن مسعود (رض) انہی میں سے تھے اور مشرک کہتے تھے کہ آپ ﷺ ان لوگوں کو اپنے قریب رکھتے ہیں۔

【304】

حضرت سعد بن ابی وقاص کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ اسدی اسرائیل مقدام بن شریح حضرت سعد (رض) سے روایت ہے کہ ہم چھ آدمی نبی ﷺ کے ساتھ تھے تو مشرک لوگوں نے نبی ﷺ سے کہا آپ ﷺ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹا دیں تو یہ ہم پر جرات نہیں کرسکیں گے حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت ابن مسعود (رض) اور ہذیل کا ایک آدمی اور حضرت بلال اور دو آدمی جن کا نام نہیں جانتا تھا تو رسول اللہ کے دل میں جو اللہ نے چاہا واقع ہوا اور آپ ﷺ نے اپنے دل ہی میں باتیں کیں تو اللہ عزوجل نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ان لوگوں کو دور نہ کرو جو اپنے رب کو صبح شام پکارتے ہیں اور اس کی رضا چاہتے ہیں۔

【305】

حضرت سعد بن ابی وقاص کے فضائل کے بیان میں

محمد بن ابی بکر مقدمی حامد بن عمر بکراوی محمد بن عبدالاعلی معتمر ابن سلیمان حضرت ابوعثمان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان دنوں میں کہ جن دنوں میں رسول اللہ ﷺ قتال (جہاد) کر رہے تھے سوائے حضرت طلحہ (رض) اور حضرت سعد (رض) کے کوئی بھی نہیں رہا۔

【306】

حضرت طلحہ اور حضرت زبیر (رض) کی فضلیت کے بیان میں

عمرو ناقد سفیان بن عیینہ، محمد بن منکدر حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خندق کے دن لوگوں کو جہاد کی ترغیب فرمائی حضرت زبیر (رض) نے عرض کیا کہ میں حاضر ہوں آپ ﷺ نے پھر جہاد کی ترغیب فرمائی پھر حضرت زبیر (رض) ہی نے عرض کیا کہ میں حاضر ہوں آپ نے پھر ترغیب فرمائی تو پھر حضرت زبیر (رض) ہی نے عرض کیا کہ میں تیار ہوں پھر نبی ﷺ نے فرمایا ہر نبی کے کچھ خصوصی معاون ہوتے ہیں اور میرے خصوصی معاون زبیر ہے۔

【307】

حضرت طلحہ اور حضرت زبیر (رض) کی فضلیت کے بیان میں

ابوکریب ابواسامہ ہشام عروہ ابوکریب اسحاق بن ابراہیم، وکیع، سفیان، محمد بن منکدر حضرت جابر (رض) نے نبی ﷺ سے ابن عیینہ کی حدیث کی طرح حدیث نقل کی ہے۔

【308】

حضرت طلحہ اور حضرت زبیر (رض) کی فضلیت کے بیان میں

اسمعیل بن خلیل سوید بن سعدی ابن مسہر اسماعیل علی بن مسہر، ہشام بن عروہ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے اور حضرت عمرو بن ابی سلمہ غزوہ خندق کے دن عورتوں کے ساتھ حضرت حسان کے قلعہ ہی میں تھے تو کبھی وہ میرے لئے جھک جاتا تو وہ مجھے دیکھ لیتا اور کبھی میں اپنے باپ کو پہچان جاتا جب وہ مسلح ہو کر گھوڑے پر سوار ہو کر بنی قریظہ کی طرف جاتے راوی کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عبداللہ بن عروہ نے حضرت عبداللہ بن زبیر کے حوالہ سے خبر دی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کا ذکر اپنے باپ سے کیا تو انہوں نے فرمایا اے میرے بیٹے کیا تو نے مجھے دیکھا تھا میں نے کہا جی ہاں انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم اس دن رسول اللہ ﷺ نے میر لئے اپنے ماں باپ کو جمع فرمایا اور آپ ﷺ نے فرمایا (فَدَاکَ أَبِي وَأُمِّي) میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں۔

【309】

حضرت طلحہ اور حضرت زبیر (رض) کی فضلیت کے بیان میں

ابوکریب ابواسامہ ہشام حضرت عبداللہ بن زیبر (رض) سے روایت ہے کہ جب خندق ہوا تو میں اور حضرت عمرو بن ابی سلمہ اس قلعہ میں تھے کہ جس میں عورتیں تھیں یعنی نبی ﷺ کی ازواج مطہرات تھیں مذکورہ حدیث کی طرح حدیث ذکر کی لیکن اس میں حضرت عبداللہ بن عروہ کا ذکر نہیں ہے لیکن اس واقعہ کو ہشام عن ابیہ عن ابن الزیبر کی حدیث میں ملا دیا ہے۔

【310】

حضرت طلحہ اور حضرت زبیر (رض) کی فضلیت کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز ابن محمد سہیل حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ حرا پر تھے حضرت ابوبکر (رض) عمر، عثمان، علی، طلحہ اور زیبر (رض) بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھے تو وہ پتھر حرکت کرنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ٹھہر جا کیونکہ تیرے اوپر سوائے نبی یا صدیق یا شہید کے اور کوئی نہیں ہے۔

【311】

حضرت طلحہ اور حضرت زبیر (رض) کی فضلیت کے بیان میں

عبیداللہ بن محمد بن یزید بن خنیس احمد بن یوسف ازدی اسماعیل بن ابی اویس سلیمان بن بلال یحییٰ بن سعید سہیل بن ابوصالح حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حرا پہاڑ پر تھے تو وہ پہاڑ حرکت کرنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے حرا ٹھہر جا کیونکہ تیرے اوپر سوائے نبی یا صدیق یا شہید کے اور کوئی نہیں ہے اور اس پہاڑ پر نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) تھے۔

【312】

حضرت طلحہ اور حضرت زبیر (رض) کی فضلیت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، عبدہ حضرت ہشام (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ (رض) نے مجھ سے فرمایا اللہ کی قسم تیرے دونوں باپ (یعنی زبیر اور ابوبکر (رض) ان لوگوں میں سے تھے جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے جن لوگوں نے حکم مانا اللہ کا اور اس کے رسول کا بعد اس کے کہ پہنچ چکے تھے ان کو زخم (ابوبکر عروہ کے باپ نہیں تھے بلک نانا تھے۔ نانا کو باپ بھی کہتے ہیں) ۔

【313】

حضرت طلحہ اور حضرت زبیر (رض) کی فضلیت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ ابوبکر زبیر حضرت ہشام (رض) اس سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں اور اس میں صرف یہ الفاظ زائد ہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت زبیر ہیں

【314】

حضرت طلحہ اور حضرت زبیر (رض) کی فضلیت کے بیان میں

ابوکریب محمد بن علاء، وکیع، اسماعیل حضرت عروہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ (رض) صدیقہ نے مجھ سے فرمایا تیرے دونوں باپ ان لوگوں میں سے تھے کہ جنہوں نے زخمی ہوجانے کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی۔

【315】

حضرت ابوعبیدہ (رض) بن جراح کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ خالد زہیر بن حرب، اسماعیل ابن علیہ، خالد، حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور ہمارے اس امت کے امین حضرت ابوعبیدہ بن جراح ہیں (اگرچہ اور صحابہ (رض) بھی امین تھے مگر ابوعبیدہ (رض) اوروں سے ممتاز تھے) ۔

【316】

حضرت ابوعبیدہ (رض) بن جراح کے فضائل کے بیان میں

عمرو ناقد عفان حماد ابن سلمہ ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ یمن کے علاقہ کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہمارے ساتھ کوئی ایسا آدمی بھیجیں کہ جو ہمیں سنت اور اسلام کی تعلیم دے حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت ابوعبیدہ (رض) کا ہاتھ پکڑا اور آپ ﷺ نے فرمایا یہ اس امت کا امین ہے۔

【317】

حضرت ابوعبیدہ (رض) بن جراح کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار ابن مثنی محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق صلہ بن زفر حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ نجران کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہماری طرف کسی امانت دار آدمی کو بھیج دیں تو آپ ﷺ نے فرمایا میں تمہاری طرف ایک ایسے امانت دار آدمی کو بھیج رہا ہوں کہ جو یقینا امانت دار ہے یقینا امانت دار ہے حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں نے اس طرف اپنی نظروں کو جما لیا راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کو بھیجا۔

【318】

حضرت ابوعبیدہ (رض) بن جراح کے فضائل کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، ابوداؤد جفری سفیان، حضرت ابواسحاق سے اس سند کے ساتھ مذکورہ روایت کی طرح روایت نقل کرتے ہیں۔

【319】

حضرت حسن اور حسین (رض) کے فضائل کے بیان میں

احمد بن حنبل سفیان بن عیینہ، عبیداللہ بن ابی برید نافع بن جبیر حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت حسن کے لئے فرمایا اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور تو اس سے محبت کر جو اس سے محبت کرے۔

【320】

حضرت حسن اور حسین (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابن ابی عمر سفیان، عبداللہ بن ابی یزید نافع بن جبیر بن مطعم حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ دن کے کسی وقت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلا نہ تو آپ ﷺ مجھ سے کوئی بات کرتے تھے اور نہ ہی میں نے آپ سے کوئی بات کی یہاں تک کہ ہم بنی قینقاع کے بازار میں آگئے پھر آپ ﷺ واپس ہوئے اور حضرت فاطمہ (رض) کے ہاں تشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا کیا بچہ ہے ؟ کیا بچہ ہے ؟ یعنی حضرت حسن۔ تو ہم نے خیال کیا کہ ان کی ماں نے ان کو غسل کروانے کے لئے اور ان کو خوشبوں کا ہار پہنانے کے لئے روک رکھا ہے لیکن تھوڑی سی دیر کے بعد وہ دوڑتے ہوئے آئے یہاں تک کہ وہ دونوں یعنی آپ ﷺ اور حضرت حسن ایک دوسرے سے گلے ملے پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور تو اس سے محبت کر جو اس سے محبت کرے۔

【321】

حضرت حسن اور حسین (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ ابی شیعبہ عدی ابن ثابت حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بن علی (رض) کو نبی ﷺ کے کندھے پر دیکھا اور آپ ﷺ فرما رہے تھے اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔

【322】

حضرت حسن اور حسین (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن بشار، ابوبکر بن نافع ابن نافع غندر شعبہ، عدی ابن ثابت، حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے حضرت حسن بن علی (رض) کو اپنے کندھوں پر بٹھایا ہوا ہے اور آپ ﷺ فرما رہے ہیں اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔

【323】

حضرت حسن اور حسین (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبداللہ بن رومی یمامی عباس بن عبدالعظیم عنبری نضر بن محمد عکرمہ ابن عمار حضرت ایاس (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے اس سفید گدھے کو کھینچا کہ جس پر اللہ کے نبی ﷺ اور حضرت حسن اور حضرت حسین سوار ہیں یہاں تک کہ میں اسے کھینچ کر نبی ﷺ کے حجرہ تک لے گیا ان میں سے ایک آپ ﷺ کے آگے ایک پیچھے تھا۔

【324】

اہل بیت عظام (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابوبکر محمد بن بشر زکریا، مصعب بن شیبہ صفیہ بنت شیبہ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ صبح کے وقت اس حال میں نکلے کہ آپ ﷺ اپنے اوپر ایک ایسی چادر اوڑھے ہوئے تھے کہ جس پر کجاو وں یا ہانڈیوں کے نقش سیاہ بالوں سے بنے ہوئے تھے اسی دوران میں حضرت حسن (رض) آگئے تو آپ ﷺ نے ان کو اپنی اس چادر کے اندر کرلیا پھر حضرت حسین (رض) بھی آگئے تو آپ ﷺ نے ان کو بھی اپنی چادر کے اندر کرلیا پھر حضرت فاطمہ (رض) آئیں تو آپ ﷺ نے ان کو بھی اپنی چادر میں کرلیا پھر حضرت علی (رض) آئے تو آپ ﷺ نے ان کو بھی اپنی چادر میں کرلیا پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی (اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا 33) 33 ۔ الاحزاب : 33)

【325】

حضرت زید بن حارثہ (رض) اور حضرت اسامہ بن زید (رض) کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، یعقوب ابن عبدالرحمن قاری موسیٰ بن مقبہ حضرت سالم بن عبداللہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم حضرت زید بن حارثہ (رض) کو زید بن محمد کہہ کر پکارا کرتے تھے (کیونکہ زید (رض) آپ ﷺ کے متبنیٰ تھے) یہاں تک کہ قرآن مجید نازل ہوا کہ تم لوگ ان کو ان کے باپوں کی طرف نسبت کر کے پکارو تو یہ اللہ کے ہاں زیادہ بہتر ہے۔

【326】

حضرت زید بن حارثہ (رض) اور حضرت اسامہ بن زید (رض) کے فضائل کے بیان میں

احمد بن سعید دارمی حبان وہیب موسیٰ بن عقبہ سالم حضرت عبداللہ (رض) سے مذکورہ حدیث مبارکہ کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【327】

حضرت زید بن حارثہ (رض) اور حضرت اسامہ بن زید (رض) کے فضائل کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، و یحییٰ بن ایوب، قتیبہ ابن حجر یحییٰ بن یحیی، اسماعیل یعنی ابن جعفر عبداللہ بن دینار حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا اور اس لشکر پر حضرت اسامہ بن زید کو سردار مقرر فرمایا تو لوگوں نے حضرت اسامہ کی سرداری کے بارے میں نکتہ چینی کی تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوگئے اور فرمایا : اگر تم حضرت اسامہ (رض) کی سرداری پر طعن کرتے ہو تو تم لوگ اس سے پہلے حضرت اسامہ کے باپ کی سرداری میں بھی نکتہ چینی کرچکے ہو اور اللہ کی قسم ! اسامہ کا باپ بھی سرداری کے لائق تھا اور وہ سب لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب تھا اور اب ان کے بعد یہ اسامہ بھی مجھے لوگوں میں سے سب سے زیادہ محبوب ہے۔

【328】

حضرت زید بن حارثہ (رض) اور حضرت اسامہ بن زید (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوکریب محمد بن علا ابواسامہ عمر ابن حمزہ حضرت سالم (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس حال میں کہ آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے کہ اگر تم لوگ اسامہ کی سرداری پر نکتہ چینی کرتے ہو تو تم لوگ اس سے پہلے ان کے باپ کی سرداری پر بھی نکتہ چینی کرچکے ہو اور اللہ کی قسم ! وہ سرداری کے لائق تھے اور اللہ کی قسم وہ میرے محبوب ترین لوگوں میں سے تھے اللہ کی قسم اسامہ بن زید بھی سرداری کے لائق ہے اور حضرت زید کے بعد مجھے یہ سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہے اسی وجہ سے میں تم لوگوں کو حضرت اسامہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ تمہارے نیک لوگوں میں سے ہیں۔

【329】

حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ حبیب ابن شہید حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) نے حضرت ابن زیبیر (رض) سے فرمایا کیا آپ کو یاد ہے کہ جب میں نے اور آپ نے اور حضرت ابن عباس (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی تھی انہوں نے فرمایا جی ہاں تو آپ ﷺ نے ہمیں سوار کرلیا تھا اور آپ کو چھوڑ دیا تھا۔

【330】

حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) کے فضائل کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، ابواسامہ حضرت حبیب بن شہید سے ابن علیہ کی حدیث اور ان کی سند کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【331】

حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) کے فضائل کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ ابوبکر یحییٰ ابومعاویہ عاصم، احول مورق عجلی حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تھے تو گھر کے بچے آپ ﷺ سے جا کر ملتے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ سفر سے واپس تشریف لائے تو میں آپ ﷺ سے ملنے کے لئے آ گے بڑھا تو آپ ﷺ نے مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا پھر حضرت فاطمہ (رض) کے لخت جگر آئے تو آپ ﷺ نے ان کو اپنے پیچھے بٹھا لیا راوی کہتے ہیں کہ پھر ہم تینوں ایک ہی سواری پر بیٹھے ہوئے مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔

【332】

حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدالرحیم بن سلیمان عاصم، مورق عجلی حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ جب کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو آپ ﷺ ہم سے ملتے راوی کہتے ہیں مجھ سے اور حضرت حسن (رض) سے یا حضرت حسین (رض) سے ملے تو آپ ﷺ نے ہم میں سے ایک کو اپنے سامنے بٹھایا اور ایک کو اپنے پیچھے بٹھا لیا یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ میں داخل ہوگئے۔

【333】

حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) کے فضائل کے بیان میں

شیبان بن فروخ مہدی بن میمون محمد بن عبداللہ بن ابی یعقوب حسن بن سعد مولیٰ حسن بن علی حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا اور خاموشی سے مجھے ایک بات ارشاد فرمائی جس کو میں لوگوں میں سے کسی سے بیان نہیں کروں گا۔

【334】

ام المومنین سیدہ خدیجہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر ابوسامہ ابوکریب ابواسامہ بن نمیر وکیع، ابومعاویہ اسحاق بن ابراہیم، عبدہ بن سلیمان ہشام بن عروہ ابواسامہ، ابوکریب اسامہ ہشام حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) سے کوفہ میں سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ تمام عورتوں میں سب سے افضل عورت مریم بنت عمران ہے اور سب عورتوں سے افضل عورت حضرت خدیجہ (رض) بنت خویلد ہیں ابوکریب کہتے ہیں کہ حضرت وکیع نے آسمان و زمین کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔

【335】

ام المومنین سیدہ خدیجہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب وکیع، محمد بن مثنی، ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، عبیداللہ بن معاذ عنبری ابی شعبہ، عمرو بن مروہ حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مردوں میں سے بہت سے مرد کامل ہوئے ہیں اور عورتوں میں سے کوئی عورت بھی کامل نہیں ہوئی سوائے حضرت مریم بنت عمران اور حضرت آسیہ فرعون کی بیوی کے سیدہ عائشہ (رض) کی فضیلت تمام عورتوں پر اس طرح ہے جس طرح کہ ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے۔

【336】

ام المومنین سیدہ خدیجہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب ابن نمیر، ابن فضیل عمارہ ابوزرعہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نبی ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ یہ حضرت خدیجہ (رض) ہیں آپ ﷺ کے پاس جو ایک برتن لے کر آئیں ہیں اس برتن میں سالن ہے یا کھانا ہے یا پینے کی کوئی چیز (شربت وغیرہ) تو جب وہ آپ ﷺ کے پاس آئیں تو آپ ﷺ ان کو اپنے پروردگار عزوجل کی طرف سے اور میری طرف سے سلام فرمائیں اور ان کو جنت میں ایک ایسے محل کی خوشخبری دے دیں کہ جو خول دار موتیوں کا بنا ہوا ہے جس محل میں نہ کسی قسم کی گونج ہوگی اور نہ کسی قسم کی کوئی تکلیف ہوگی۔

【337】

ام المومنین سیدہ خدیجہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابی محمد بن بشر حضرت اسماعیل سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ (رض) کو جنت میں ایک گھر کی خوشخبری دی ہے انہوں نے فرمایا کہ جی ہاں آپ نے حضرت خدیجہ (رض) کو جنت میں ایک خول دار موتیوں کے بنے ہوئے گھر کی خوشخبری دی ہے جس گھر میں نہ کسی قسم کا شور ہوگا اور نہ ہی کوئی تکلیف۔

【338】

ام المومنین سیدہ خدیجہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابومعاویہ ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، اسحاق بن ابراہیم، معتمر بن سلیمان جریر، ابن ابی عمر سفیان، اسماعیل بن ابی خالد، حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) نے نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے۔

【339】

ام المومنین سیدہ خدیجہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ عبدہ ہشام بن عروہ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ بنت خویلد (رض) کو جنت میں ایک گھر کی خوشخبری عطا فرمائی ہے۔

【340】

ام المومنین سیدہ خدیجہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوکریب محمد علاء، ابواسامہ، ہشام سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے کسی عورت پر اس قدر رشک نہیں کیا جس قدر کہ میں نے حضرت خدیجہ (رض) پر رشک کیا اور حضرت خدیجہ میری شادی سے تین سال پہلے وفات پاچکی تھیں کہ جب آپ ﷺ حضرت خدیجہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے اور آپ ﷺ کو آپ کے پروردگار نے حکم فرمایا کہ حضرت خدیجہ (رض) کو جنت میں خولدار موتیوں سے بنے ہوئے گھر کی خوشخبری دے دو اور جب بھی بکری ذبح کرتے تھے تو حضرت خدیجہ (رض) کی سہلیوں کو گوشت بھیجا کرتے تھے۔

【341】

ام المومنین سیدہ خدیجہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

سہل بن عثمان حفص بن عیاث ہشام بن عروہ سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر رشک نہیں کیا سوائے حضرت خدیجہ (رض) کے اور میں نے حضرت خدیجہ (رض) کو نہیں پایا سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بکری ذبح کرتے تھے تو آپ ﷺ فرماتے کہ اس کا گوشت حضرت خدیجہ (رض) کی سہیلیوں کو بھیج دو سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں ایک دن غصہ میں آگئی اور میں نے کہا خدیجہ خدیجہ ہی ہو رہی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت خدیجہ (رض) کی محبت مجھے عطا کی گئی ہے۔

【342】

ام المومنین سیدہ خدیجہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، ابوکریب ابومعاویہ، حضرت ہشام اس سند کے ساتھ ابواسامہ کی حدیث کی طرح بیان کرتے ہیں لیکن اس میں بکری کے واقعہ تک کا ذکر نہیں اور اس کے بعد کی زیادتی کا ذکر نہیں کیا۔

【343】

ام المومنین سیدہ خدیجہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبد بن حمید عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کسی عورت پر اتنا رشک نہیں کیا جتنا کہ میں نے حضرت خدیجہ (رض) پر رشک کیا ہے کیونکہ نبی ﷺ ان کا کثرت سے ذکر کرتے تھے اور میں ان کو کبھی بھی نہیں دیکھا۔

【344】

ام المومنین سیدہ خدیجہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبد بن حمید عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت خدیجہ (رض) پر (دوسری) شادی نہیں کی یہاں تک کہ حضرت خدیجہ (رض) کا انتقال ہوگیا۔

【345】

ام المومنین سیدہ خدیجہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

سوید بن سعید علی بن مسہر، ہشام سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ کی بہن حضرت ہالہ بنت خویلد نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ کو حضرت خدیجہ کا اجازت مانگنا یاد آگیا تو آپ ﷺ اس کی وجہ سے خوش ہوئے اور آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ یہ تو ہالہ بنت خویلد ہیں مجھے یہ دیکھ کر رشک آگیا میں نے عرض کیا آپ ﷺ قریش کی بوڑھی عورتوں میں سے ایک بھاری گا لوں والی عورت کو یاد کرتے ہیں جس کی پنڈلیاں باریک تھیں اور ایک لمبی مدت ہوئی وہ انتقال کر چکیں تو اللہ پاک نے آپ ﷺ کو ان سے بہتر بدل عطا فرمایا۔

【346】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

خلف بن ہشام ابوربیع حماد بن زید ابی ربعی حماد ہشام سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اے عائشہ) تو مجھے تین رات تک خواب میں دکھائی گئی ایک فرشتہ سفید ریشم کے ٹکڑے میں تجھے میرے پاس لایا اور وہ مجھ سے کہنے لگا یہ آپ ﷺ کی بیوی ہے میں نے اس کا چہرہ کھولا تو وہ تو ہی نکلی تو میں نے کہا اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خواب ہے تو اس طرح ضرور ہوگا۔

【347】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابن نمیر، ابن ادریس ابوکریب ابواسامہ حضرت ہشام (رض) اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کرتے ہیں۔

【348】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابی اسامہ ہشام ابوکریب محمد علاء، ابواسامہ ہشام سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ میں جانتا ہوں جس وقت کہ تُو مجھ سے راضی ہوتی ہے تو تُو کہتی ہے کہ محمد کے رب کی قسم ! اور جب تُو غصہ ہوتی ہے تو کہتی ہے ابراہیم کے رب کی قسم۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا بیشک اے اللہ کے رسول اللہ کی قسم میں تو صرف آپ کا نام مبارک ہی چھوڑتی ہوں

【349】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابن نمیر، عبدہ حضرت ہشام بن عروہ سے روایت ہے اس سند کے ساتھ ابراہیم کے رب کی قسم تک کا قول ذکر ہے اور اس کے بعد کا جملہ ذکر نہیں کیا

【350】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، عبدالعزیز بن محمد بن ہشام ابن عروہ حضرت صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں وہ فرماتی ہیں کہ میرے پاس میری سہیلیاں آیا کرتی تھیں تو جب وہ رسول اللہ کو دیکھتیں تو غائب ہوجاتیں تھیں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کو میری طرف بھیج دیا کرتے تھے۔

【351】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوکریب ابواسامہ، زہیر بن حرب، جریر، ابن نمیر، محمد بن بشر حضرت ہشام اس سند کے ساتھ روایت نقل کرتے ہیں کہ جریر کی روایت میں ہے انہوں نے کہا کہ میں آپ ﷺ کے گھر میں گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں اور وہی کھیل تھے۔

【352】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوکریب، عبدہ، ہشام، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ لوگ (یعنی صحابہ (رض) تحفے تحائف بھیجنے کے لئے میری باری کا انتظار کیا کرتے تھے (یعنی آپ ﷺ کی جس دن میرے ہاں باری ہوتی تھی اس دن صحابہ (رض) تحفے بھیجا کرتے تھے) ۔ اور وہ اس سے رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی چاہتے تھے۔

【353】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

حسن بن علی حلوانی ابوبکر بن نضر عبد بن حمید عبد یعقوب بن ابراہیم، بن سعد ابوصالح ابن شہاب محمد بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام، نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ کی ازواج مطہرات نے رسول اللہ کی بیٹی حضرت فاطمہ کو رسول اللہ کی طرف بھیجا تو حضرت فاطمہ نے آپ ﷺ سے اجازت مانگی اس حال میں کہ آپ ﷺ میرے ساتھ میری چادر میں لپٹے ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ کو اجازت عطا فرما دی۔ حضرت فاطمہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ کی ازواج مطہرات نے مجھے آپ کی طرف اس لئے بھیجا ہے کہ آپ ﷺ حضرت ابوبکر کی بیٹی (حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں (محبت وغیرہ) میں ہم سے انصاف کریں اور میں خاموش تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ سے فرمایا اے بیٹی ! کیا تو اس سے محبت نہیں کرتی جس سے میں محبت کرتا ہوں۔ حضرت فاطمہ نے عرض کیا کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو ان سے (حضرت عائشہ (رض) محبت رکھ۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جس وقت حضرت فاطمہ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی تو وہ کھڑی ہوگئیں اور نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کی طرف آئیں اور انہیں اس بات کی خبر دی جو انہوں نے کہا اور اس بات کی بھی جو ان سے آپ ﷺ نے فرمایا تو وہ ازواج مطہرات کہنے لگیں کہ تم ہمارے کسی کام نہ آئیں اس لئے رسول اللہ کی طرف پھر جاؤ اور آپ ﷺ سے عرض کرو کہ آپ ﷺ کی ازواج مطہرات حضرت ابوبکر کی بیٹی (حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں آپ ﷺ سے انصاف چاہتی ہیں۔ حضرت فاطمہ کہنے لگیں لیکن اللہ کی قسم میں تو اس بارے میں کبھی آپ ﷺ سے بات نہیں کروں گی۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ پھر نبی ﷺ کی ازواج مطہرات نے نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت زینب بنت جحش کو آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا اور رسول اللہ کے نزدیک مرتبہ میں میرے برابر وہی تھیں اور میں نے کوئی عورت حضرت زینب سے زیادہ دیندار اور اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والی اور سب سے زیادہ سچ بولنے والی اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والی اور بہت ہی صدقہ و خیرات کرنے والی عورت نہیں دیکھی اور نہ ہی حضرت زینب سے بڑھ کر تواضع اختیار کرنے والی اور اپنے ان اعمال کو کم سمجھنے والی کوئی عورت دیکھی لیکن ایک چیز میں کہ ان میں تیزی تھی اور اس سے بھی وہ جلدی پھرجاتی تھیں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ انہوں نے آپ ﷺ سے اجازت مانگی تو آپ نے انہیں اس حال میں اجازت عطا فرما دی کہ آپ ﷺ حضرت عائشہ (رض) کے ساتھ انہی کی چادر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ ﷺ اس حال میں تھے کہ جس حال میں حضرت فاطمہ آپ ﷺ کی خدمت میں آئی تھیں۔ حضرت زینب نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ کی ازواج مطہرات نے مجھے آپ ﷺ کی طرف اس لئے بھیجا ہے کہ آپ ﷺ ابوبکر کی بیٹی (حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں ہم سے انصاف کریں (حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں) کہ حضرت زینب یہ کہہ کر میری طرف متوجہ ہوئیں اور انہوں نے مجھے بہت کچھ کہا اور میں رسول اللہ کی نگاہوں کو دیکھ رہی تھیں کہ کیا آپ ﷺ مجھے اس بارے میں حضرت زینب کو جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں حضرت زینب کے بولنے کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ میں نے پہچان لیا کہ رسول اللہ میرے جواب دینے کو ناپسند نہیں سمجھیں گے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ پھر میں بھی ان پر متوجہ ہوئی اور تھوڑی ہی دیر میں ان کو چپ کرا دیا حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (یہ دیکھتے ہوئے) مسکرائے اور فرمایا یہ حضرت ابوبکر کی بیٹی ہے۔

【354】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن قہزار عبداللہ بن عثمان عبداللہ بن مبارک، یونس، حضرت زہری سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح حدیث نقل کی گئی ہے اور اس میں کہ جب حضرت عائشہ (رض) حضرت زینب (رض) کی طرف متوجہ ہوئیں تو پھر وہ مجھ پر غالب نہ آسکیں۔

【355】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابی اسامہ ہشام سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں آج کہاں ہوں اور کل کہاں ہوں گا یہ خیال کرتے ہوئے کہ عائشہ (رض) کے دن کی بارے میں ابھی دیر ہے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ پھر جب میرا دن ہوا تو اللہ نے آپ ﷺ کو میرے سینے اور حق کے درمیان وفات دے دی (یعنی اس حال میں آپ ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوئے کہ آپ کا زر مبارک حضرت عائشہ (رض) کے سینے سے لگا ہؤا تھا) ۔

【356】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، قری ہشام عباد بن عبداللہ بن زبیر سیدہ عائشہ (رض) خبر دیتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ اپنی وفات سے قبل اس حال میں آرام فرما رہے تھے کہ آپ ﷺ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے میں نے آپ ﷺ کی طرف توجہ کی تو آپ فرما رہے تھے (اللَّهُمَّ اغْفِرْلِي وَارْحَمْنِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ ) اے اللہ میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق اعلی سے ملا دے۔

【357】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شبیہ ابوکریب ابواسامہ ابن نمیر، ابواسحاق بن ابراہیم، عبدہ بن سلیمان حضرت ہشام (رض) سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【358】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار ابن مثنی محمد بن جعفر، شعبہ، بن سعد بن ابراہیم، عروہ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں آپ ﷺ سے سنا کرتی تھی کہ کوئی نبی اس وقت تک فوت نہیں ہوتا جب تک کہ اسے دنیا میں رہنے اور آخرت میں جانے کے بارے میں اختیار نہ دے دیا جاتا حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ پھر میں نے نبی ﷺ سے آپ کے مرض وفات میں سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے ( مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَائِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِيقًا) یعنی ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے نیبوں میں سے اور صدیقیں اور شہداء میں سے اور نیک لوگوں میں سے اور یہ سارے بہترین رفیق ہیں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ پھر میں اسی وقت سمجھ گئی کہ آپ ﷺ کو اختیار دے دیا گیا ہے۔

【359】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شبیہ وکیع، عبیداللہ بن معاذ، ابی شعبہ حضرت سعد (رض) سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث مبارکہ کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【360】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبدالملک بن شعیب بن لیث، ابن سعد ابی جدی عقیل بن خالد ابن شہاب سعید بن مسیب عروہ بن زبیر، سیدہ عائشہ (رض) نبی کی زوجہ مطہرہ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ اس حال میں کہ آپ تندرست تھے فرماتے ہیں کہ کوئی نبی اس وقت تک اس دنیا سے رخصت نہیں ہوتا جب تک کہ اسے جنت میں اس کا مقام نہ دکھا دیا جائے پھر اختیار نہ دے دیا جائے سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ کے وصال کا وقت آگیا تو آپ ﷺ کے سر مبارک میری ران پر تھا آپ ﷺ پر کچھ دیر غشی طاری رہی پھر افاقہ ہوا اور آپ نے اپنی نگاہ چھت کی طرف کی پھر فرمایا اے اللہ مجھے رفیق اعلی سے ملا دے سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اس وقت میں نے کہا اب آپ ﷺ ہمیں اختیار نہیں فرمائیں گے اور مجھے وہ حدیث یاد آگئی جو آپ ﷺ نے ہمیں صحت و تندرستی کی حالت میں بیان فرمائی تھی کہ کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی گئی جب تک کہ اسے جنت میں اس کا مقام نہ دکھا دیا جائے پھر اسے اختیار نہ دے دیا جائے سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جو بات فرمائی اس کا آخری کلمہ یہ تھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا (اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَی) اے اللہ مجھے رفیق اعلی سے ملا دے۔

【361】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید، ابی نعیم عبد ابونعیم عبدالواحد بن ایمن ابن ابی ملیکہ قاسم بن محمد سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب (کسی سفر وغیرہ کے لئے) تشریف لے جاتے تو آپ ﷺ اپنی ازواج مطہرات (رض) کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ایک مرتبہ قرعہ میرے اور حضرت حفصہ (رض) کے نام نکلا تو ہم دونوں اکٹھی آپ ﷺ کے ساتھ نکلیں اور رسول اللہ ﷺ جب رات کو سفر کرتے تھے تو سیدہ عائشہ (رض) کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے چلتے تھے حضرت حفصہ (رض) مجھ سے کہنے لگیں کیا آج کی رات تو میرے اونٹ پر سوار نہیں ہوجاتی اور میں تیرے اونٹ پر سوار ہوجاؤں تو بھی دیکھے اور میں بھی دیکھوں گی سیدہ عائشہ (رض) نے کہا کیوں نہیں تو حضرت عائشہ (رض) حضرت حفصہ (رض) کے اونٹ پر سوار ہوگئیں اور حضرت حفصہ (رض) حضرت عائشہ (رض) کے اونٹ پر سوار ہیں آپ ﷺ نے سلام کیا پھر حضرت حفصہ (رض) کے ساتھ ہی سوار ہو کر چل پڑے یہاں تک کہ ایک جگہ اترے سیدہ عائشہ (رض) نے آپ ﷺ کو نہ پایا تو انہیں غیرت آئی پھر جب وہ اتریں تو اپنے پاؤں اذخر گھاس میں مارنے لگیں اور کہنے لگیں اے پروردگار مجھ پر بچھو یا سانپ مسلط کر دے جو مجھے ڈس لے وہ تیرے رسول اللہ ﷺ ہیں اور میں انہیں کچھ کہنے کی طاقت نہیں رکھتی۔

【362】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب سلیمان ابن بلال عبداللہ بن عبدالرحمن، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ (رض) کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسا کہ ثرید کھانے کی فضیلت تمام کھانوں پر۔

【363】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، قتیبہ بن حجر اسماعیل یعنون بن جعفر قتیبہ عبدالعزیز ابن محمد عبداللہ بن عبدالرحمن، حضرت انس (رض) نے نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے لیکن ان دونوں روایتوں میں سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے الفاظ نہیں ہیں اور اسماعیل کی روایت میں أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ کے الفاظ ہیں۔

【364】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدالرحیم بن سلیمان یعلی بن عبید زکریا، شعبی، ابوسلمہ سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے سیدہ عائشہ (رض) سے فرما حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تجھے سلام کہتے ہیں سیدہ عائشہ (رض) نے فرمایا میں نے عرض کیا وعلیہ السلام و (رح) یعنی جبریئل (علیہ السلام) پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو۔

【365】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، زکریا، ابی زئداہ عامر ابوسملہ بن عبدالرحمن سیدہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے مذکورہ حدیثوں کی طرح فرمایا۔

【366】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، اسباط بن محمد، حضرت زکریا سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی۔

【367】

سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، ابویمان شعیب زہری، ابوسلمہ بن عبدالرحمن سیدہ عائشہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ ! حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں تجھے سلام کہتے ہیں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میں نے کہا وعلیہ السلام و (رح) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ وہ دیکھتے ہیں کہ جو میں نہیں دیکھتی۔

【368】

حدیث ام زرع کے ذکر کے بیان میں

علی بن حجر سعد احمد بن حباب عیسیٰ ابن حجر عیسیٰ بن یونس، ہشام بن عروہ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ گیارہ عورتیں آپس میں یہ معاہدہ کر کے بیٹھیں کہ اپنے اپنے خاوندوں کا پورا پورا صحیح صحیح حال بیان کریں کوئی بات نہ چھپائیں ان میں سے پہلی عورت نے کہا کہ میرا خاوند ناکارہ پتلے دبلے اونٹ کی طرح ہے اور گوشت بھی سخت دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پہ رکھا ہوا ہو کہ نہ تو پہاڑ کا راستہ آسان ہو کہ جس کی وجہ سے اس پر چڑھنا ممکن ہو اور نہ ہی وہ گوشت ایسا ہو کہ بڑی دقت اٹھا کر اسے اتارنے کی کوشش کی جائے۔ دوسری عورت نے کہا میں اپنے خاوند کی کیا خبر بیان کروں مجھے یہ ڈر ہے کہ اگر میں اس کے عیب ذکر کرنا شروع کر دوں تو کسی عیب کا ذکر نہ چھوڑوں (یعنی سارے ہی عیب بیان کردوں) اور اگر ذکر کروں تو اس کے ظاہری اور باطنی سارے عیب ذکر کر ڈالوں۔ تیسری عورت کہنے لگی کہ میرا خاوند لم ڈھینگ اگر میں کسی بات میں بول پڑوں تو مجھے طلاق ہوجائے اور اگر خاموش رہوں تو لٹکی رہوں۔ چوتھی عورت نے کہا میرا خاوند تہامہ کی رات کی طرح ہے نہ گرم نہ سرد نہ اس سے کسی قسم کا ڈر اور رنج۔ پانچویں عورت نے کہا میرا خاوند جب گھر میں داخل ہوتا ہے تو وہ چیتا بن جاتا ہے اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر بن جاتا ہے اور گھر میں جو کچھ ہوتا ہے اور اس بارے میں پوچھ گچھ نہیں کرتا۔ چھٹی عورت نے کہا میرا خاوند اگر کھاتا ہے تو سب ہڑپ کرجاتا ہے اور اگر پیتا ہے تو سب چڑھا جاتا ہے اور جب لیٹتا ہے تو اکیلا ہی کپڑے میں لیٹ جاتا ہے میری طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا تاکہ میری پراگندی کا علم ہو۔ ساتویں عورت نے کہا میرا خاوند ہمبستری سے عاجز نامرد اور اس قدر بیوقوف ہے کہ وہ بات بھی نہیں کرسکتا دنیا کی ہر بیماری اس میں ہے اور سخت مزاج ایسا کہ میرا سر پھوڑ دے یا میرا جسم زخمی کر دے یا دونوں کر ڈالے۔ آٹھویں عورت کہنے لگی کہ میرا خاوند خوشبو میں زعفران کی طرح مہکتا ہے اور چھونے میں خرگوش کی طرح نرم ہے۔ نویں عورت نے کہا میرا خاوند بلند شان والا دراز قد والا بڑا ہی مہمان نواز اس کا گھر مجلس اور دارالمشور کے قریب ہے۔ دسویں عورت کہنے لگی کہ میرا خاوند مالک ہے اور میں مالک کی کیا شان بیان کروں کہ اس کے اونٹ اس قدر زیادہ ہیں جو مکان کے قریب بٹھائے جاتے ہیں چراگاہ میں کم ہی چرتے ہیں وہ اونٹ باجے کی آواز سنتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ ہلاکت کا وقت قریب آگیا ہے۔ گیارہویں عورت کہنے لگی کہ میرا خاوند ابوزرع ہے میں ابوزرع کی کیا شان بیان کروں کہ زیوروں سے اس نے میرے کان جھکا دئے اور چربی سے میرے بازو بھر دئیے اور مجھے ایسا خوش رکھتا ہے کہ خود پسندی میں میں اپنے آپ کو بھولنے لگی مجھے اس نے ایک ایسے غریب گھرانے میں پایا تھا کہ جو بڑی مشکل سے بکریوں پر گزر اوقات کرتے تھے اور پھر مجھے اپنے خوشحال گھرانے میں لے آیا کہ جہاں گھوڑے اونٹ کھیتی باڑی کے بیل اور کسان موجود تھے اور وہ مجھے کسی بات پر نہیں ڈانٹتا تھا میں دن چڑھے تک سوتی رہتی اور کوئی مجھے جگا نہیں سکتا تھا اور کھانے پینے میں اس قدر فراخی کہ میں خوب سیر ہو کر چھوڑ دیتی ابوزرع کی ماں بھلا اس کی کیا تعریف کروں اس کے بڑے بڑے برتن ہر وقت بھرے کے بھرے رہتے ہیں اس کا گھر بڑا کشادہ ہے اور ابوزرع کا بیٹا بھلا اس کے کیا کہنے کہ وہ کبھی ایسا دبلا پتلا چھریرے جسم والا کہ اس کے سونے کی جگہ (خواب گاہ) نرم و نازک جیسے تلوار کی میان، بکری کے بچے کی ایک دست اس کا پیٹ بھرنے کے لئے کافی ابوزرع کی بیٹی کہ اس کو کیا کہنے کہ وہ اپنی ماں کی تابعدار باپ کی فرمانبردار موٹی تازی سوکن کی جلن تھی ابوزرع کی باندی کا بھی کیا کمال بیان کروں کہ گھر کی بات وہ کبھی باہر جا کر نہیں کہتی تھی کھانے کی چیز میں بغیر اجازت کے خرچ نہیں کرتی تھی اور گھر میں کوڑا کرکٹ جمع نہیں ہونے دیتی تھی بلکہ گھر صاف ستھرا رکھتی تھی ایک دن صبح جبکہ دودھ کے برتن بلوائے جا رہے تھے ابوزرع گھر سے نکلے راستے میں ایک عورت پڑی ہوئی ملی جس کی کمر کے نیچے چیتے کی طرح دو بچے دو اناروں (یعنی اس کے پستانوں) سے کھیل رہے تھے پس وہ عورت اسے کچھ ایسی پسند آگئی کہ اس نے مجھے طلاق دے دی اور اس عورت سے نکاح کرلیا پھر میں نے بھی ایک شریف سردار سے نکاح کرلیا جو کہ شہسوار ہے اور سپہ سالار ہے اس نے مجھے بہت سی نعمتوں سے نوزا اور ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا اس نے مجھے دیا اور یہ بھی اس نے کہا کہ اے ام زرع خود بھی کھا اور اپنے میکے میں بھی جو کچھ چاہے بھیج دے لیکن بات یہ ہے کہ اگر میں اس کی ساری عطاؤں کو اکٹھا کرلوں تو پھر بھی وہ ابوزرع کی چھوٹی سے چھوٹی عطا کے برابر نہیں ہوسکتی سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (یہ سارا قصہ سنا کر) مجھ سے فرمایا : (اے عائشہ ! ) میں بھی تیرے لئے اسی طرح سے ہوں جسطرح کہ ابوزرع ام زرع کے لئے ہے۔

【369】

حدیث ام زرع کے ذکر کے بیان میں

حسن بن علی حلوانی موسیٰ بن اسماعیل سعید بن سلمہ ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے لیکن اس وقت میں معمولی لفظوں کا رد و بدل ہے۔

【370】

نبی ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

احمد بن عبداللہ بن یونس قتیبہ بن سعید، لیث، بن سعد ابن یونس لیث، عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ قرشی تیمی مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا کہ ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اپنی بیٹی کا نکاح حضرت علی بن ابی طالب سے کرنے کی اجازت مانگی تو میں ان کو اجازت نہیں دوں گا پھر (آپ نے فرمایا) میں ان کو اجازت نہیں دوں گا، پھر (آپ نے فرمایا) میں ان کو اجازت نہیں دوں گا مگر یہ کہ ابوطالب کے بیٹے علی میری بیٹی کو طلاق دینا پسند کریں اور ان کی بیٹی سے نکاح کریں کیونکہ میری بیٹی میرا ایک ٹکڑا ہے مجھے شک میں ڈالتا ہے جو کہ اسے شک میں ڈالتا ہے تکلیف دیتی ہے مجھے وہ چیز کہ جو اسے تکلیف دیتی ہے۔

【371】

نبی ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابومعمر، اسماعیل بن ابراہیم، ہذلی سفیان، عمرو ابن ابی ملیکہ حضرت مسورہ بن مخرمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا فاطمہ (رض) میرا ٹکڑا ہے مجھے تکلیف دیتی ہے وہ چیز کہ جو اسے تکلیف دیتی ہے۔

【372】

نبی ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

احمد بن حنبل، یعقوب بن ابراہیم، ابی ولید بن کثیر، محمد بن عمرو بن حلحلہ دولی، ابن شہاب، علی بن حسین (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ جس وقت حضرت حسین کی شہادت کے بعد مدینہ منورہ میں یزید بن معاویہ کے پاس آئے تو ان سے حضرت مسور بن مخرمہ نے ملاقات کی اور اس سے کہنے لگے اگر آپ کو مجھ سے کوئی ضرورت ہو تو آپ مجھے حکم کریں انہوں نے کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ نہیں (یعنی مجھے آپ سے کوئی کام نہیں) ، حضرت مسور بن مخرمہ نے اس سے کہا کہ کیا آپ مجھے رسول اللہ کی تلوار عنایت کردیں گے (محفوظ کرنے کی خاطر) کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں لوگ زبردستی آپ سے (یہ تلوار) چھین نہ لیں اللہ کی قسم ! اگر آپ وہ تلوار مجھے عنایت کردیں گے تو جب تک میری جان میں جان ہے اس تلوار کو مجھ سے کوئی نہیں لے سکے گا۔ حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے حضرت فاطمہ (رض) کے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھیجا تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا اور میں ان دنوں جوان ہوچکا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا فاطمہ (میرے جسم) کا ایک ٹکڑا ہے اور مجھ ڈر ہے کہ کہیں ان کے دین میں کوئی فتنہ نہ ڈال دیا جائے راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ نے اپنے ایک داماد جو کہ عبد الشمس کی اولاد میں سے تھا اس سے ذکر فرمایا اور ان کی دامادی کی خوب تعریف بیان کی اور آپ ﷺ نے فرمایا انہوں نے مجھ سے جو بات بیان کی سچی بیان کی اور انہوں نے مجھ سے جو وعدہ کیا تو اسے پورا کیا اور میں کسی حلال چیز کو حرام نہیں کرتا اور نہ ہی کسی حرام کو حلال کرتا ہوں لیکن اللہ کی قسم اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ہی جگہ کبھی بھی اکٹھی نہیں ہوسکتیں۔

【373】

نبی ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، ابویمان شعیب زہری، علی بن حسین حضرت مسور بن مخرمہ (رض) خبر دیتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے ابوجہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھیجا حالانکہ حضرت علی (رض) کے پاس رسول اللہ کی بیٹی حضرت فاطمہ (رض) تھیں تو جب حضرت فاطمہ نے یہ بات سنی تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں آئیں اور عرض کرنے لگیں کہ آپ ﷺ کی قوم کے لوگ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ بیٹیوں کے لئے غصے میں نہیں آتے اور علی (رض) ہیں جو کہ ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں۔ مسور (رض) کہتے ہیں کہ پھر نبی ﷺ کھڑے ہوئے تو میں نے آپ ﷺ سے سنا جس وقت کہ آپ ﷺ نے تشہد پڑھا پھر آپ نے فرمایا اما بعد میں نے ابوالعاص بن ربیع (رض) سے اپنی بیٹی زینب کا نکاح کردیا اس نے جو بات مجھ سے بیان کی سچ بیان کی اور حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) محمد ﷺ کی بیٹی میرے جگر کا ٹکڑا ہے اور میں اس بات کو ناپسند سمجھتا ہوں کہ لوگ اس کے دین پر کوئی آفت لائیں اللہ کی قسم اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کی دشمن کی بیٹی کبھی ایک آدمی کے پاس اکٹھی نہ ہوں گی راوی کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے تو نکاح کا پیغام چھوڑ دیا۔

【374】

نبی ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابومعن رقاشی وہب ابن جریر، نعمان ابن راشد، حضرت زہری (رض) اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کرتے ہیں۔

【375】

نبی ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

منصور بن ابی مزاحم ابراہیم، ابن سعد عروہ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کو بلایا اور ان کے کان میں ان سے کوئی بات فرمائی تو وہ رو پڑیں پھر آپ ﷺ نے ان کے کان میں ان سے کوئی بات فرمائی تو وہ ہنس پڑیں سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت فاطمہ سے پوچھا کہ تمہارے کان میں رسول اللہ ﷺ نے کیا فرمایا جس کی وجہ سے تم رو پڑیں پھر آپ ﷺ نے کچھ فرمایا تو تم ہنس پڑیں حضرت فاطمہ نے فرمایا کہ پہلے آپ نے میرے کان میں خبر دی کہ میری موت قریب ہے تو میں رو پڑی پھر آپ ﷺ نے میرے کان میں مجھے خبر دی کہ تو سب سے پہلے میرے گھر والوں میں سے میرا ساتھ دے گی تو پھر میں ہنس پڑی۔

【376】

نبی ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوکامل جحدری فضیل بن حسین ابوعوانہ، فراس عامر مسروق، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی ساری ازواج مطہرات (رض) آپ ﷺ کے پاس موجود تھیں ان میں سے کوئی بھی زوجہ مطہرہ غیر حاضر نہیں تھی تو اسی دوران حضرت فاطمہ تشریف لائیں اور حضرت فاطمہ کا چلنے کا انداز رسول اللہ کے چلنے کی طرح تھا تو جب آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ کو دیکھا تو آپ نے ان کو خوش آمدید اے میری بیٹی فرمایا پھر آپ نے حضرت فاطمہ کو اپنی دائیں یا اپنی بائیں طرف بٹھا لیا پھر آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ کے کان میں خاموشی سے کوئی بات فرمائی تو وہ بہت سخت رونے لگی تو جب آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ کا یہ حال دیکھا تو پھر دوبارہ آپ ﷺ نے ان کے کان میں کچھ فرمایا تو وہ ہنس پڑیں (سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ) میں نے فاطمہ (رض) سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات سے ہٹ کر تجھ سے کیا خاص باتیں کی ہیں پھر تم رو پڑیں پھر جب رسول اللہ کھڑے ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے تم سے کیا فرمایا ہے ؟ حضرت فاطمہ کہنے لگیں کہ میں رسول اللہ کا راز فاش نہیں کروں گی سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ پھر رسول اللہ وفات پا گئے تو میں نے حضرت فاطمہ کو اس حق کی قسم دی جو میرا ان پر تھا کہ مجھ سے وہ بات بیان کرو جو رسول اللہ ﷺ نے تم سے فرمائی حضرت فاطمہ کہنے لگی کہ اب میں بیان کروں گی وہ یہ کہ جس وقت آپ ﷺ نے میرے کان میں پہلی مرتبہ بات بیان فرمائی کہ حضرت جبریئل (علیہ السلام) ہر سال میرے ساتھ ایک یا دو مرتبہ قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے اور اس مرتبہ حضرت جبریئل نے دو مرتبہ دور کیا ہے جس کی وجہ سے میرا خیال ہے کہ موت کا وقت قریب ہوگیا ہے پس تو اللہ سے ڈرتی رہ اور صبر کر کیونکہ میں تیرے لئے بہترین پیش خیمہ ہوں میں رو پڑی جس طرح کہ تو نے مجھے روتے ہوئے دیکھا ہے تو پھر آپ نے دوبارہ میرے کان میں جو بات فرمائی (وہ یہ ہے کہ) اے فاطمہ ! کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہوجاتی کہ تم مومنوں کی عورتوں کی سردار ہو یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہو حضرت فاطمہ فرماتی ہیں کہ میں ہنس پڑی جس طرح کہ آپ ﷺ نے مجھے ہنستے ہوئے دیکھا تھا۔

【377】

نبی ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، ابی زکریا، فراس عامر مسروق، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی تمام عورتیں اکٹھی ہوئی ان میں سے کوئی زوجہ مطہرہ بھی غائب نہیں تھی تو اسی دوران حضرت فاطمہ (رض) آئیں ان کے چلنے کا انداز رسول اللہ کے چلنے کے انداز جیسا تھا آپ نے فرمایا اے میری بیٹی خوش آمدید حضرت فاطمہ کو اپنے دائیں طرف یا بائیں طرف بٹھا لیا پھر آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ (رض) کے کان میں کوئی بات فرمائی تو حضرت فاطمہ رو پڑیں پھر آپ نے اس طرح حضرت فاطمہ کے کان میں کوئی بات فرمائی تو پھر وہ ہنس پڑیں میں نے حضرت فاطمہ سے کہا کہ کس وجہ سے روئیں تو حضرت فاطمہ فرمانے لگیں کہ میں رسول اللہ کا زار فاش نہیں کروں گی میں نے کہا میں نے آج کی طرح کی کبھی ایسی خوشی نہیں دیکھی کہ جو رنج والم سے اس قدر قریب ہو پھر میں نے حضرت فاطمہ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے علیحدہ ہو کر تجھ سے خاص بات فرمائی ہے پھر تم رو پڑی ہو اور میں نے حضرت فاطمہ سے اس بات کے بارے میں پوچھا کہ آپ ﷺ نے کیا فرمایا ہے حضرت فاطمہ فرمانے لگیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کا راز فاش نہیں کرنے والی ہوں یہاں تک کہ جب آپ ﷺ کی وفات ہوگئی تو میں نے حضرت فاطمہ سے پوچھا تو وہ کہنے لگیں کہ آپ نے مجھ سے بیان فرمایا تھا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہر سال میرے ساتھ ایک مرتبہ قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے اور اس مرتبہ دو مرتبہ دور کیا ہے میرا خیال ہے کہ میری وفات کا وقت قریب ہے اور تو میرے گھر والوں میں سب سے پہلے مجھ سے ملو گی اور میں تیرے لئے بہترین پیش خیمہ ہوں گا اس وجہ سے میں رو پڑی پھر آپ نے میرے کان میں فرمایا : (اے فاطمہ ! ) کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تو مومن عورتوں کی سردار ہے یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہے تو پھر میں ہنس پڑی۔

【378】

ام المومنیں حضرت ام سلمہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبدالاعلی بن حماد محمد بن عبدالاعلی قیسی معتمر ابن حمد معتمر بن سلیمان حضرت سلمان (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ اگر تجھ سے ہو سکے تو تو سب سے پہلے بازار میں داخل نہ ہو اور نہ ہی سب کے بعد بازار سے نکل کیونکہ بازار شیطان کا معرکہ ہے اور اس جگہ اس کا جھنڈا گاڑھا ہوا ہوتا ہے حضرت سلمان (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نبی ﷺ کی خدمت میں تشریف لائے اور حضرت ام سلمہ (رض) آپ ﷺ کے پاس تھیں راوی کہتے ہیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ سے باتیں کرنے لگے پھر کھڑے ہوئے تو اللہ کے نبی ﷺ نے حضرت ام سلمہ (رض) سے پوچھا کہ یہ کون تھے ؟ حضرت ام سلمہ (رض) نے عرض کیا کہ یہ حضرت دحیہ کلبی (رض) تھے حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم میں تو انہیں حضرت دحیہ کلبی ہی سمجھتی رہی یہاں تک کہ میں نے اللہ کے نبی کا خطبہ سنا آپ ﷺ ہماری خبر ان سے بیان فرما رہے تھے راوی حضرت سلمان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوعثمان (رض) سے پوچھا کہ آپ نے یہ حدیث کس سے سنی ہے انہوں نے فرمایا حضرت اسامہ بن زید (رض) سے۔

【379】

ام المومنین حضرت زینب (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمود بن غیلان ابواحمد فضل بن موسیٰ سیانی طلحہ بن یحییٰ بن طلحہ ام المومنین سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے سب سے پہلے مجھ سے وہ ملے گی کہ جس کے ہاتھ سب سے زیادہ لمبے ہوں گے تو ساری ازواج مطہرات (رض) اپنے اپنے ہاتھ ناپنے لگیں تاکہ پتہ چلے کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم سب میں سے زیادہ لمبے ہاتھ حضرت زینب (رض) کے تھے کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرتی اور صدقہ خیرات دیتی تھیں۔

【380】

حضرت ام ایمن (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوکریب محمد بن علاء ابواسامہ سلیمان بن مغیرہ ثابت حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حضرت اُمِّ ایمن کی طرف تشریف لے گئے تو میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ چل پڑا حضرت ام ایمن ایک برتن میں شربت لے کر آئیں حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ آپ ﷺ روزہ کی حالت میں تھے یا آپ ﷺ نے ویسے ہی اسے واپس لوٹا دیا تو حضرت ام ایمن آپ ﷺ پر چلانے لگیں اور آپ ﷺ پر غصہ ہونے لگیں۔

【381】

حضرت ام ایمن (رض) کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، عمرو بن عاصم، کلابی سلیمان بن مغیرہ ثابت حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے رسول اللہ کی وفات کے بعد حضرت عمر (رض) سے فرمایا کہ ہمارے ساتھ حضرت ام ایمن کی طرف چلو تاکہ ہم ان کی زیارت کریں جس طرح کہ رسول اللہ ان کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے تو جب ہم حضرت ام ایمن کی طرف پہنچے تو وہ رونے لگ گئیں دونوں حضرات نے حضرت ام ایمن سے فرمایا آپ کیوں روتی ہیں جو اللہ کے پاس ہے وہ اس کے رسول اللہ کے لئے بہتر ہے حضرت ام ایمن کہنے لگیں کہ میں اس وجہ سے نہیں روتی کہ میں یہ نہیں جانتی کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس کے رسول کے لئے بہتر ہے بلکہ میں اس وجہ سے روتی ہوں کہ آسمان سے وحی آنی منقطع ہوگئی حضرت ام ایمن کے یہ کہنے سے ان دونوں حضرات کو بھی رونا آگیا اور پھر یہ دونوں حضرات بھی حضرت ام ایمن کی ساتھ رونے لگ گئے۔

【382】

حضرت انس بن مالک کی والدہ ام سلیم اور حضرت بلال (رضی اللہ عنہم) کی فضائل کے بیان میں

حسن حلوانی عمرو بن عاصم، ہمام اسحاق بن عبداللہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنی ازواج مطہرات (رض) میں سے حضرت ام سلیم (رض) کے علاوہ کسی کے ہاں نہیں جایا کرتے تھے آپ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے ان پر بڑا رحم آتا ہے ان کا بھائی میرے ساتھ مارا گیا۔

【383】

حضرت انس بن مالک کی والدہ ام سلیم اور حضرت بلال (رضی اللہ عنہم) کی فضائل کے بیان میں

ابن ابی عمر بشر ابن سری حماد بن سلمہ ثابت، حضرت انس (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں کسی کے چلنے کی آواز سنی میں نے کہا یہ کون ہے وہاں والوں نے مجھے بتایا کہ یہ غمیصاء بنت ملحان حضرت انس کی والدہ ہیں۔

【384】

حضرت انس بن مالک کی والدہ ام سلیم اور حضرت بلال (رضی اللہ عنہم) کی فضائل کے بیان میں

ابوجعفر محمد بن فرج زید ابن حباب عبدالعزیز بن ابوسلمہ محمد بن منکدر حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے جنت دکھائی گئی تو میں نے ابو طلحہ کی بیوی کو وہاں دیکھا پھر میں نے اپنے آگے چلنے والے کی آواز سنی دیکھا تو وہ حضرت بلال (رضی اللہ عنہ) ہیں۔

【385】

ابا طلحہ انصار کے فضائل کے بیان میں

محمد بن حاتم، بن میمون بہز سلیمان بن مغیرہ ثابت حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابوطلحہ (رض) کا ایک بیٹا جو کہ حضرت ام سلیم سے تھا فوت ہوگیا تو حضرت ام سلیم نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم ابوطلحہ کو اس کے بیٹے کی خبر نہ بیان کرنا بلکہ میں خود ان سے بات کروں گی۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ پھر حضرت ابوطلحہ آئے تو ام سلیم ان کے سامنے شام کا کھانا لائیں انہوں نے کھانا کھایا اور پیا پھر ام سلیم نے ان کے لئے خوب بناؤ سنگھار کیا یہاں تک کہ حضرت ابوطلحہ نے ام سلیم سے ہم بستری کی تو جب حضرت ابوطلحہ نے دیکھا کہ وہ خوب سیر ہوگئے ہیں اور ان کے ساتھ صحبت بھی کرلی ہے تو پھر حضرت ام سلیم کہنے لگیں اے ابوطلحہ آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کچھ لوگ کسی کو کوئی چیز ادھار دے دیں پھر وہ لوگ اپنی چیز واپس مانگیں تو کیا وہ ان کو واپس کرنے سے روک سکتے ہیں ؟ حضرت ابوطلحہ (رض) نے کہا نہیں حضرت ام سلیم (رض) کہنے لگیں کہ میں آپ کو آپ کے بیٹے کی وفات کی خبر دیتی ہوں حضرت ابوطلحہ غصے میں ہوئے کہ تو نے مجھے بتایا کیوں نہیں یہاں تک کہ جب میں آلودہ ہوا پھر تو نے مجھے میرے بیٹے کی خبر دی پھر حضرت ابوطلحہ چلے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آگئے اور آپ ﷺ کو اس چیز کی خبر دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری گزری رات میں برکت عطا فرمائے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت ام سلیم حاملہ ہوگئیں رسول اللہ ﷺ کسی سفر میں تھے اور حضرت ام سلیم بھی آپ کے ساتھ تھیں اور رسول اللہ ﷺ جب سفر سے واپس مدینہ منورہ آئے تھے تو رات کو مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوتے تھے جب لوگ مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو حضرت ام سلیم کو درد زہ شروع ہوگیا اور حضرت ابوطلحہ ان کے پاس ٹھہر گئے اور رسول اللہ ﷺ چل پڑے حضرت ابوطلحہ کہنے لگے اے میرے پروردگار تو جانتا ہے کہ مجھے تیرے رسول ﷺ کے ساتھ نکلنا پسند ہے جب آپ ﷺ نکلیں اور مجھے آپ ﷺ کے ساتھ داخل ہونا پسند ہے جب آپ ﷺ داخل ہوں (اے پروردگار ! ) تو جانتا کہ جس کی وجہ سے میں رک گیا ہوں۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ حضرت ام سلیم کہنے لگیں اے ابوطلحہ مجھے اب اس طرح درد نہیں ہے جس طرح پہلے درد تھی چلو ہم بھی چلتے ہیں حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ جس وقت وہ دونوں مدینہ میں آگئے تو پھر حضرت ام سلیم کو وہی درد زہ شروع ہوگئی پھر ایک بچہ پیدا ہوا۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے میری والدہ نے کہا اے انس کوئی اس بچے کو دودھ نہ پلائے یہاں تک کہ جب صبح ہوگئی تو اسے رسول ﷺ کی خدمت میں لے کے جانا پھر جب صبح ہوئی تو میں نے اس بچے کو اٹھایا اور رسول اللہ ﷺ کی طرف چل پڑا۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے ہاتھ میں اونٹوں کو داغ دینے کا آلہ ہے تو جب آپ ﷺ نے مجھے دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا شاید کہ یہ بچہ حضرت ام سلیم نے جنا ہے میں نے عرض کیا جی ہاں تو پھر آپ ﷺ نے وہ آلہ اپنے ہاتھ سے رکھ دیا اور میں نے وہ بچہ رسول اللہ ﷺ کی گود میں ڈال دیا گود میں ڈال دیا اور رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کی عجوہ کھجور منگوائی اور پھر اسے اپنے منہ میں چبایا یہاں تک کہ جب وہ نرم ہوگئی تو وہ اس بچے کے منہ میں ڈالی بچہ اس کو چوسنے لگا حضرت انس کہتے ہیں پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دیکھو انصار کو کھجور سے کس قدر محبت ہے راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ نے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔

【386】

ابا طلحہ انصار کے فضائل کے بیان میں

احمد بن حسن بن خراش عمرو بن عاصم، سلیمان بن مغیرہ ثابت حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ (رض) کا ایک بیٹا فوت ہوگیا مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی۔

【387】

بلال (رض) کے فضائل کے بیان میں۔

عبید بن ییش محمد بن علاء ہمدانی ابواسامہ ابی حبان محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابی ابوحیان تیمی یحییٰ بن سعید ابی زرعہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال (رض) سے صبح کی نماز کے وقت فرمایا اے بلال تو مجھ سے وہ عمل بیان کر جو تو نے اسلام میں کیا ہو اور جس کے نفع کی تجھے زیادہ امید ہو کیونکہ آج رات میں نے جنت میں اپنے سامنے تیرے قدموں کی آواز سنی ہے۔ حضرت بلال (رض) نے عرض کیا میں نے اسلام میں کوئی ایسا عمل نہیں کیا کہ جس کے نفع کی مجھے زیادہ امید ہو سوائے اس کے کہ جب بھی میں رات یا دن کے وقت کامل طریقے سے وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے جس قدر اللہ نے میرے مقدر میں لکھا ہوتا ہے نماز پڑھ لیتا ہوں۔

【388】

سیدنا عبداللہ بن مسعود اور ان کی والدہ محترمہ (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

منجاب بن حارث تمیمی سہل بن عثمان عبداللہ بن عامر بن زرارہ حضرمی سوید بن سعید ولید بن سجاع سہل منجاب علی بن مسہر، اعمش، ابراہیم، علقمہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت (لَيْسَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْ ا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ : 93) جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے انہیں اس بات پر کوئی گناہ نہیں ہے جو وہ کھاچکے ہیں ایمان اور پرہیز کے ساتھ آخر آیت تک نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا کیا تم ان میں سے ہو۔

【389】

سیدنا عبداللہ بن مسعود اور ان کی والدہ محترمہ (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم حنظلی، محمد بن رافع ابن رافع اسحاق یحییٰ بن آدم بن ابی زائدہ ابواسحاق اسود بن بزید حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ میں اور میرا بھائی یمن سے آئے تھے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور ان کی والدہ کا کثرت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے گھر آنے جانے اور ان کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ہم انہیں رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت ہی سے سمجھتے تھے۔

【390】

سیدنا عبداللہ بن مسعود اور ان کی والدہ محترمہ (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن حاتم، اسحاق بن منصور ابراہیم، بن یوسف اسحاق اسود حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ تحقیق میں اور میرا بھائی یمن سے آئے تھے باقی حدیث اسی طرح مذکور ہے۔

【391】

سیدنا عبداللہ بن مسعود اور ان کی والدہ محترمہ (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، محمد بن مثنیابن بشار عبدالرحمن سفیان ابواسحاق اسود حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے حضرت عبداللہ کو اہل بیت سے ہی تصور کرتا تھا یا اسی طرح ذکر کیا۔

【392】

سیدنا عبداللہ بن مسعود اور ان کی والدہ محترمہ (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی ابن بشار ابن مثنی محمد بن جعفر، سعبہ ابواسحاق، حضرت ابوالاحوص (رح) سے روایت ہے کہ میں نے ابن مسعود کے انتقال کے وقت حضرت ابوموسی اور حضرت ابومسعود (رض) کے پاس گیا تو ان دونوں میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا تمہارا کیا خیال ہے کہ (حضرت ابن مسعود (رض) نے اپنے بعد اپنے جیسا کوئی آدمی چھوڑا ہے تو دوسرے نے کہا اگر تم نے یہ کہا ہے تو ان کی عظمت یہ تھی کہ جب ہم کو روک دیا جاتا تو ان کے لئے اجازت دے دی جاتی تھی اور ہم جب غائب ہوجاتے تو یہ اس وقت بھی حاضر رہتے تھے۔

【393】

سیدنا عبداللہ بن مسعود اور ان کی والدہ محترمہ (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

ابوکریب محمد بن علاء، یحییٰ بن آدم قطبہ بن عبدالعزیز اعمش، مالک بن حارث حضرت ابوالاحوص (رح) سے روایت ہے کہ ہم ابوموسی (رض) کے گھر میں حضرت عبداللہ (رض) کے چند ساتھیوں کے ہمراہ موجود تھے اور وہ قرآن مجید دیکھ رہے تھے عبداللہ کھڑے ہوگئے تو ابومسعود (رض) نے کہا میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد ان کھڑے ہونے والے سے بڑھ کر زیادہ اللہ کی نازل کردہ آیات کے بارے میں علم رکھنے والے کسی کو چھوڑا ہو تو ابوموسی نے کہا اگر تم نے ایسی بات کہی ہے تو ان کا حال تو یہ تھا کہ جب ہم غائب ہوتے تھے تو یہ حاضر رہتے تھے اور جب ہمیں حاضر ہونے سے روک دیا جاتا تو انہیں اجازت دی جاتی تھی۔

【394】

سیدنا عبداللہ بن مسعود اور ان کی والدہ محترمہ (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

قاسم بن زکریا، عبیداللہ بن موسیٰ شیبان اعمش، مالک بن حارث ابی احوص ابوموسی عبداللہ ابوکریب محمد بن ابی عبیدہ ابی اعمش، زید بن وہب، حذیفہ ان دو اسناد سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے البتہ حضرت زید بن وہب (رض) سے روایت ہے کہ میں حضرت حذیفہ اور ابوموسی (رض) کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا باقی حدیث گزر چکی ہے۔

【395】

سیدنا عبداللہ بن مسعود اور ان کی والدہ محترمہ (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، حنظلی عبدہ بن سلیمان اعمش، شقیق حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا جس نے کسی چیز میں خیانت کی تو وہ قیامت کے دن اپنی خیانت شدہ چیز کو لے کر حاضر ہوگا پھر کہا تم مجھے کس آدمی کی قرأت کے بارے میں حکم دیتے کہ میں قرأت کروں حالانکہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے ستر سے کچھ اوپر سورتیں پڑھ چکا ہوں اور تحقیق رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام (رض) جانتے ہیں کہ میں ان سب سے زیادہ اللہ کی کتاب کا علم رکھنے والا ہوں اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی ایک مجھ سے زیادہ علم رکھنے والا ہے تو میں اس کی طرف سوار ہو کر چلا جاتا اور شقیق نے کہا میں نبی ﷺ کے صحابہ کے حلقوں میں بیٹھا ہوں میں نے کسی سے بھی نہیں سنا جس نے ابن مسعود کا رد کیا ہو یا ان پر کوئی عیب لگایا ہو۔

【396】

سیدنا عبداللہ بن مسعود اور ان کی والدہ محترمہ (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

ابوکریب، یحییٰ بن آدم، قطبہ، اعمش، مسلم، حضرت مسروق (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ (رض) نے کہا اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں اللہ کی کتاب میں کوئی سورت ایسی نہیں ہے مگر میں جانتا ہوں کہ وہ کس چیز کے بارے میں نازل کی گئی تھی اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کوئی ایک اللہ کی کتاب کو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے اور اس تک اونٹ پہنچ سکتے ہوں تو میں سوار ہو کر اس کی طرف جاتا۔

【397】

سیدنا عبداللہ بن مسعود اور ان کی والدہ محترمہ (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، وکیع، اعمش، شقیق حضرت مسروق (رض) سے روایت ہے کہ ہم حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور ان سے محو گفتگو ہوتے ان کے پاس ایک دن ہم نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا تحقیق تم نے ایسے آدمی کا ذکر کیا ہے جن سے میں اس وقت سے محبت کرتا ہوں جب سے میں نے ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے کہ قرآن ان چار ابن ام عبد (ابن مسعود (رض) اور ان سے شروع کیا اور معاذ بن جبل اور ابی بن کعب اور ابوحذیفہ کے مولیٰ حضرت سالم (رض) سے حاصل کرو۔

【398】

سیدنا عبداللہ بن مسعود اور ان کی والدہ محترمہ (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، زہیر بن حرب، عثمان بن ابی شیبہ جریر، اعمش، ابو وائل حضرت مسروق (رض) سے روایت ہے کہ ہم حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کی خدمت میں حاضر تھے کہ ہم نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ایک حدیث ذکر کی تو انہوں نے کہا یہ وہ آدمی ہیں جس سے میں اس وقت سے محبت کرتا ہوں جب سے ان کے بارے میں میں نے رسول اللہ ﷺ سے فرماتے ہوئے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے چار آدمیوں ابن ابن ام عبد (عبداللہ بن مسعود (رض) اور ان سے ابتداء کی اور ابی بن کعب اور ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم اور معاذ بن جبل (رض) سے پڑھو۔

【399】

سیدنا عبداللہ بن مسعود اور ان کی والدہ محترمہ (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، اعمش، جریر، وکیع، ابوبکر ابومعاویہ اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ مروی ہے البتہ چاروں کے نام میں تقدیم و تاخیر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

【400】

سیدنا عبداللہ بن مسعود اور ان کی والدہ محترمہ (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

ابن مثنی ابن بشار ابن ابی عدی، بشر ابن خالد محمد ابن جعفر شعبہ، اعمش، ان دو اسناد سے بھی یہ حدیث مروی ہے البتہ شعبہ سے چاروں کی ترتیب میں اختلاف مذکور ہے۔

【401】

سیدنا عبداللہ بن مسعود اور ان کی والدہ محترمہ (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرہ ابراہیم، حضرت مسروق (رض) سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمرو (رض) کے پاس حضرت ابن مسعود (رض) کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا یہ وہ آدمی ہیں جن سے میں اس وقت سے محبت کرتا ہوں جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے ان کے بارے میں سنا ہے کہ قرآن مجید پڑھنا ان چار سے سیکھو ابن مسعود اور ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم اور ابی بن کعب اور معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہم) ۔

【402】

سیدنا عبداللہ بن مسعود اور ان کی والدہ محترمہ (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ ابی شعبہ، اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے البتہ اس میں اضافہ یہ ہے کہ شعبہ (رض) نے کہا آپ ﷺ نے ان دونوں سے ابتدا کی البتہ یہ معلوم نہیں کہ ان دو میں سے کس سے ابتداء کی تھی۔

【403】

حضرت ابی بن کعب (رض) اور انصار (رض) سے ایک جماعت کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابوداؤد شعبہ، قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں چار آدمیوں نے قرآن مجید کو جمع کیا اور وہ سارے کے سارے انصار سے تھے معاذ بن جبل ابی بن کعب زید بن ثابت اور ابوزید (رض) ۔ قتادہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے انس سے کہا ابو زید کون تھے ؟ انہوں نے کہا وہ چچاؤں میں سے ایک تھے۔

【404】

حضرت ابی بن کعب (رض) اور انصار (رض) سے ایک جماعت کے فضائل کے بیان میں

ابوداؤد سلیمان بن معبد عمرو بن عاصم، ہمام قتادہ، انس بن مالک، ہمام، حضرت قتادہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے کہا رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں قرآن مجید کس نے جمع کیا انہوں نے کہا چار نے اور وہ سارے انصار میں سے تھے ابی بن کعب معاذ بن جبل اور زید بن ثابت (رض) اور انصار میں سے ایک آدمی نے جن کی کنیت ابوزید تھی۔

【405】

حضرت ابی بن کعب (رض) اور انصار (رض) سے ایک جماعت کے فضائل کے بیان میں

ہداب بن خالد ہمام قتادہ حضرت انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابی سے فرمایا اللہ رب العزت نے مجھے حکم دیا ہے کہ تیرے سامنے قرآن مجید پڑھوں انہوں نے عرض کیا اللہ نے آپ ﷺ سے میرا نام لے کر فرمایا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ نے تیرا نام لے کر مجھ سے فرمایا ہے تو ابیحضرت ابی سے (خوشی سے) رونے لگے۔

【406】

حضرت ابی بن کعب (رض) اور انصار (رض) سے ایک جماعت کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابی بن کعب (رض) سے فرمایا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے (لَمْ يَکُنْ الَّذِينَ کَفَرُوا) پڑھوں انہوں نے عرض کیا (اللہ نے) میرا نام لیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ہاں راوی کہتے ہیں پھر وہ (ابی بن کعب) رو دئیے۔

【407】

حضرت ابی بن کعب (رض) اور انصار (رض) سے ایک جماعت کے فضائل کے بیان میں

یحییٰ بن حبیب، خالد بن حارث، شعبہ، قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابی سے فرمایا۔ باقی حدیث مبارکہ اسی طرح ہے۔

【408】

سعد بن معاذ (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبد بن حمید عبدالرزاق، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس حال میں فرمایا کہ حضرت سعد بن معاذ (رض) کا جنازہ ان کے سامنے تھا کہ ان کی (موت کی) وجہ سے اللہ کے عرش کو بھی حرکت آگئی ہے۔

【409】

سعد بن معاذ (رض) کے فضائل کے بیان میں

عمرو ناقد عبداللہ بن ادریس اودی اعمش، ابوسفیان، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت سعد بن معاذ (رض) کی وجہ سے رحمن کا عرش بھی لرزہ براندام ہے۔

【410】

سعد بن معاذ (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن عبداللہ رزی عبدالوہاب بن عطاء، سعید قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا جبکہ سعد کا جنازہ رکھا ہوا تھا کہ اس کی (موت) وجہ سے اللہ کا عرش بھی حرکت میں آگیا ہے۔

【411】

سعد بن معاذ (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق، حضرت براء (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ریشم کا ایک جوڑا ہدیہ کیا گیا تو آپ ﷺ کے صحابہ (رض) نے اسے چھونا شروع کردیا اور اس کی نرمی کی وجہ سے تعجب کرنے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اس کی نرمی کی وجہ سے تعجب کر رہے ہو حالانکہ سعد بن معاذ کے رومال جنت میں اس سے بہتر اور نرم ہوں گے۔

【412】

سعد بن معاذ (رض) کے فضائل کے بیان میں

احمد بن عبدہ ضبی ابوداؤد شعبہ، ابواسحاق براء، بن عازب اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔

【413】

سعد بن معاذ (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن عمرو بن جبلہ امیہ بن خالد شعبہ، اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔

【414】

سعد بن معاذ (رض) کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، یونس بن محمد شیبان قتادہ حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو سندس ریشم کا ایک جبہ ہدیہ کیا گیا اور آپ ﷺ ریشم سے منع فرماتے تھے پس لوگوں نے (اس کی خوبصورتی پر) کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے بیشک سعد بن معاذ کا رومال جنت میں اس سے بھی خوبصورت ہے۔

【415】

سعد بن معاذ (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن بشار، سالم بن نوح عمر بن عامر قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ اکیدر دومہ الجندل کے حاکم نے رسول اللہ ﷺ کو ایک حلہ ہدیہ کیا باقی حدیث اسی طرح مذکور ہے اور اس حدیث میں یہ نہیں کہ آپ ﷺ ریشم سے منع کرتے تھے۔

【416】

ابو دجانہ سماک بن خرشہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان حماد بن سلمہ ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ احد کے دن ایک تلوار لے کر فرمایا مجھ سے یہ تلوار کون لے گا پس صحابہ (رض) میں سے ہر انسان نے اپنے ہاتھوں کو یہ کہتے ہوئے دراز کیا میں آپ ﷺ نے فرمایا اسے اس کا حق ادا کرنے کی شرط پر کون لیتا ہے لوگ پیچھے ہٹ گئے تو حضرت سماک بن خرشہ ابودجانہ (رض) نے عرض کیا میں اسے اس کا حق ادا کرنے کی شرط پر لیتا ہوں پس انہوں نے یہ تلوار لے لی اور اس کے ساتھ مشرکین کی کھوپڑیاں پھوڑیں۔

【417】

سیدنا جابر (رض) کے والد گرامی حضرت عبداللہ ابن عمرو بن حرام (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبیداللہ بن عمر قواریری عمر ناقد سفیان، عبیداللہ سفیان بن عیینہ، ابن منکدر حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ جب غزوہ احد کے دن میرے باپ کو کپڑے سے ڈھکا ہوا لایا گیا اس حال میں کہ ان کے اعضاء کاٹے گئے تھے پس میں نے کپڑا اٹھانے کا ارادہ کیا تو میری قوم نے مجھے منع کردیا میں نے پھر کپڑا اٹھانے کا ارادہ کیا تو میری قوم نے مجھے منع کردیا پس رسول اللہ ﷺ نے خود اٹھا دیا یا حکم دیاتو اسے اٹھا دیا گیا پس آپ ﷺ نے ایک رونے چلانے والی عورت کی آواز سنی تو فرمایا یہ کون ہے لوگوں نے عرض کیا عمرو کی بیٹی یا عمرو کی بہن ہے آپ ﷺ نے فرمایا کیوں روتی ہے حالانکہ فرشتے برابر اس پر اپنے پروں سے سایہ کئے ہوئے ہیں یہاں تک کہ (جنازہ) اٹھا لیا جائے۔

【418】

سیدنا جابر (رض) کے والد گرامی حضرت عبداللہ ابن عمرو بن حرام (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، وہب بن جریر، شعبہ، محمد بن منکدر حضرت جابر (رض) بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ میرے والد غزوہ احد کے دن شہید کئے گئے پس میں ان کے چہرہ سے کپڑا اٹھایا اور رونے لگا اور لوگوں نے مجھے روکنا شروع کردیا اور رسول اللہ ﷺ مجھے روک نہیں رہے تھے اور فاطمہ بنت عمر نے بھی رونا شروع کردیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اس پر رؤ یا نہ رؤ فرشتے برابر اس پر اپنے پروں سے سایہ کر رہے ہیں یہاں تک کہ تم ان کا جنازہ اٹھالو۔

【419】

سیدنا جابر (رض) کے والد گرامی حضرت عبداللہ ابن عمرو بن حرام (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبد بن حمید روح بن عبادہ، ابن جریج، اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، محمد بن منکدر جابر، ان اسناد سے بھی یہ حدیث مروی ہے لیکن ابن جریج کی حدیث میں حالانکہ اور رونے والے کے رونے کا ذکر نہیں ہے۔

【420】

سیدنا جابر (رض) کے والد گرامی حضرت عبداللہ ابن عمرو بن حرام (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن احمد بن ابی خلف زکریا، بن عدی عبیداللہ بن عمرو عبدالکریم محمد بن منکدر حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ غزوہ احد کے دن میرے باپ کو ناک اور کان کٹے ہوئے لایا گیا پس انہیں نبی ﷺ کے سامنے رکھا گیا باقی حدیث مبارکہ انہیں کی طرح ہے۔

【421】

حضرت جلیبیب (رض) کے فضائل کے بیان میں

اسحاق بن عمرو بن سلیط حماد سلیمہ ثابت کنانہ بن نعیم حضرت ابوبرزہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک جہاد میں تھے کہ اللہ نے آپ ﷺ کو مال عطا کیا تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام (رض) سے فرمایا کیا تمہیں کوئی ایک غائب معلوم ہوتا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں فلاں فلاں اور فلاں آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی گم نہیں ہے ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں فلاں فلاں اور فلاں غائب ہیں آپ ﷺ نے پھر فرمایا کیا تم میں سے کوئی گم نہیں ہے ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا نہیں آپ ﷺ نے فرمایا لیکن میں تو جلیبیب کو گم پاتا ہوں پس اسے تلاش کرو پس انہیں شہداء میں تلاش کیا گیا تو انہوں نے انہیں ان ہی سات آدمیوں کے پہلو میں پایا جنہیں انہوں نے انہیں سات آدمیوں کے پہلو میں پایا جنہیں انہوں نے قتل کیا تھا پھر کافروں نے انہیں شہید کردیا پس نبی ﷺ ان کے پاس آ کر کھڑے ہوئے پھر فرمایا اس نے سات کو قتل کیا پھر انہوں نے انہیں شہید کردیا یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں پھر آپ ﷺ نے اپنے بازوؤں پر اٹھا لیا اور اس طرح کہ نبی ﷺ کے علاوہ کسی اور نے اٹھایا ہوا نہ تھا پھر ان کے لئے قبر کھودی گئی اور انہیں قبر میں دفن کردیا گیا اور غسل کا ذکر نہیں کیا۔

【422】

ابوذر (رض) کے فضائل کے بیان میں

ہداب بن خالد ازدی سلیمان بن مغیرہ حمید بن ہلال عبداللہ بن صامت حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ ہم اپنی قوم غفار سے نکلے اور وہ حرمت والے مہینے کو بھی حلال جانتے تھے پس میں اور میرا بھائی انیس اور ہماری والدہ نکلے پس ہم اپنے ماموں کے ہاں اترے پس ہمارے ماموں نے اعزازو اکرام کیا اور خوب خاطر مدارت کی جس کی وجہ سے ان کی قوم نے ہم پر حسد کیا تو انہوں نے کہا (ماموں سے) کہ جب تو اپنے اہل سے نکل کرجاتا ہے تو انیس ان سے بدکاری کرتا ہے پس ہمارے ماموں آئے اور انہیں جو کچھ کہا گیا تھا وہ الزام ہم پر لگا میں نے کہا تو نے ہمارے ساتھ جو احسان و نیکی کی تھی اسے تو نے اس الزام کے وجہ سے خراب کردیا ہے پس اب اس کے بعد ہمارا آپ سے تعلق اور نبھاؤ نہیں ہوسکتا پس ہم اپنے اونٹوں کے قریب آئے اور ان پر اپنا سامان سوار کیا اور ہمارے ماموں نے کپڑا ڈال کر رونا شروع کردیا پس ہم چل پڑے یہاں تک کہ مکہ کے قریب پہنچے پس انیس نے ہمارے اونٹوں اور اتنے ہی اور اونٹوں پر شرط لگائی (شاعری میں) کہ کس کے اونٹ عمدہ ہیں پس وہ دونوں کاہن کے پاس گئے تو اس نے انہیں کے اونٹوں کو پسند کیا پس انیس ہمارے پاس ہمارے اونٹوں کو اور اتنے ہی اور اونٹوں کو لے کر آیا اور میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات سے تین سال پہلے ہی اے میرے بھیجتے نماز پڑھا کرتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہا کس کی رضا کے لئے انہوں نے کہا اللہ کی رضا کے لئے میں نے کہا تو اپنا رخ کس طرف کرتا تھا انہوں نے کہا جہاں میرا رب رخ کردیتا اسی طرف میں عشاء کی نماز ادا کرلیتا تھا یہاں تک کہ جب رات کا آخری حصہ ہوتا تو میں اپنے آپ کو اس طرح ڈال لیتا گویا کہ میں چادر ہی ہوں یہاں تک کہ سورج بلند ہوجاتا انیس نے کہا مجھے مکہ میں ایک کام ہے تو میرے معاملات کی دیکھ بھال کرنا پس انیس چلا یہاں تک کہ مکہ آیا اور کچھ عرصہ کے بعد واپس آیا تو میں نے کہا تو نے کیا کیا اس نے کہا میں مکہ میں ایک آدمی سے ملا جو تیرے دین پر ہے اور دعوی کرتا ہے کہ اللہ نے اسے (رسول بنا کر) بھیجا ہے میں نے کہا لوگ کیا کہتے ہیں ؟ اس نے کہا لوگ اسے شاعر، کاہن اور جادوگر کہتے ہیں اور انیس خود شاعروں میں سے تھا انیس نے کہا میں کاہنوں کی باتیں سن چکا ہوں پس اس کا کلام کاہنوں جیسا نہیں ہے اور تحقیق میں نے اس کے اقوال کا شعراء کے اشعار سے بھی موزانہ کیا لیکن کسی شخص کی زبان پر ایسے شعر بھی مناسب نہیں۔ اللہ کی قسم ! وہ سچا ہے اور دوسرے لوگ جھوٹے ہیں میں نے کہا تم میرے معاملات کی نگرانی کرو یہاں تک کہ میں جاتا ہوں اور دیکھتا ہوں پس میں مکہ میں آیا اور ان میں سے ایک کمزور آدمی کو مل کر پوچھا کہ وہ کہاں ہے جسے تم صابی کہتے ہو ؟ پس اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ دین بدلنے والا ہے پس وادی والوں میں سے ہر ایک سنتے ہی مجھ پر ڈھیلوں اور ہڈیوں کے ساتھ ٹوٹ پڑا یہاں تک کہ میں بےہوش ہو کر گرپڑا پس جب میں بےہوشی سے ہوش میں آ کر اٹھا تو میں گویا سرخ بت (خون میں لت پت) تھا میں زمزم کے پاس آیا اور اپنا خون دھویا پھر اس کا پانی پیا اور میں اے بھتیجے تین رات اور دن وہاں ٹھہرا رہا اور میرے لئے زمزم کے پانی کے سوا کوئی خوراک نہ تھی پس میں موٹا ہوگیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں ختم ہوگئیں اور نہ ہی میں نے اپنے جگر میں بھوک کی وجہ سے گرمی محسوس کی پس اس دوران ایک چاندنی رات میں جب اہل مکہ سو گئے اور اس وقت کوئی بھی بیت اللہ کا طواف نہیں کرتا تھا اور ان میں سے دو عورتیں اساف اور نائلہ (بتوں) کو پکار رہی تھیں پس وہ جب اپنے طواف کے دوران میری طرف آئیں تو میں نے کہا ان میں سے ایک (بت) کا دوسرے کے ساتھ نکاح کردو (اساف مرد اور نائلہ عورت تھی اور باعتقاد مشرکین مکہ کے مطابق یہ دونوں زنا کرتے وقت مسخ ہو کر بت ہوگئے تھے) لیکن وہ اپنی بات سے باز نہیں آئیں پس جب وہ میرے قریب آئیں تو میں نے بغیر کنایہ اور اشارہ کے فلاں کہہ دیا کہ فلاں کے (فرج میں) لکڑی۔ پس وہ چلاتی اور یہ کہتی ہوئی گئیں کہ کاش اس وقت ہمارے لوگوں میں سے کوئی موجود ہوتا راستہ میں انہیں رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) پہاڑی سے اترتے ہوئے ملے آپ ﷺ نے فرمایا تمہیں کیا ہوگیا ہے انہوں نے کہا کعبہ اور اس کے پردوں کے درمیان ایک دین کو بدلنے والا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اس نے کیا کہا ہے انہوں نے کہا اس نے ہمیں ایسی بات کہی ہے جو منہ کو بھر دیتی ہے پس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے یہاں تک کہ حجر اسود کا بوسہ لیا اور بیت اللہ کا طواف کیا پھر نماز ادا کی حضرت ابوذر (رض) نے کہا میں وہ پہلا آدمی ہوں جس نے اسلام کے طریقہ کے مطابق آپ ﷺ کو سلام کیا میں نے کہا اے اللہ کے رسول آپ پر سلام ہو آپ ﷺ نے فرمایا تو کون ہے ؟ میں نے عرض کیا میں قبیلہ غفار سے ہوں آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور اپنی انگلیاں پیشانی پر رکھیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ آپ ﷺ کو میرا قبیلہ غفار سے ہونا ناپسند ہوا ہے پس میں آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑنے کے لئے آگے بڑھا تو آپ ﷺ کے ساتھی نے مجھے پکڑ لیا اور وہ مجھ سے زیادہ آپ ﷺ کے بارے میں واقفیت رکھتا تھا کہ آپ ﷺ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا تو یہاں کب سے ہے میں نے عرض کیا میں یہاں تین دن رات سے ہوں آپ ﷺ نے فرمایا تجھے کھانا کون کھلاتا ہے میں نے عرض کیا میرے لئے زمزم کے پانی کے علاوہ کوئی کھانا نہیں ہے پس اس سے موٹا ہوگیا ہوں یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بل مڑ گئے ہیں اور میں اپنے جگر میں بھوک کی وجہ سے گرمی بھی محسوس نہیں کرتا آپ ﷺ نے فرمایا یہ پانی بابرکت ہے اور کھانے کی طرح پیٹ بھی بھر دیتا ہے حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے اس کے رات کے کھانے کی اجازت دے دیں پس رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) چلے اور میں بھی ان کے ساتھ ساتھ چلا پس ابوبکر (رض) نے دروازہ کھولا اور میرے لئے طائف کی کشمش نکالنے لگے اور یہ میرا پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں کھایا پھر میں رہا جب تک رہا پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے کھجوروں والی زمین دکھائی گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ یثرب کے علاوہ کوئی اور علاقہ نہیں ہے کیا تو میری طرف سے اپنی قوم کو تبلیغ کرے گا عنقریب اللہ انہیں تیری وجہ سے فائدہ عطا کرے گا اور تمہیں ثواب عطا کیا جائے گا پھر میں انیس کے پاس آیا تو اس نے کہا تو نے کیا کیا ؟ میں نے کہا میں اسلام قبول کرچکا ہوں اور تصدیق کرچکا ہوں اس نے کہا مجھے بھی تجھ سے نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام قبول کرتا ہوں اور تصدیق کرتا ہوں پھر ہم اپنی والدہ کے پاس گئے تو اس نے کہا مجھے تم دونوں کے دین سے نفرت نہیں میں بھی اسلام قبول کرتی اور تصدیق کرتی ہوں پھر ہم نے اپنا سامان لادا اور اپنی قوم غفار کے پاس آئے تو ان میں سے آدھے لوگ مسلمان ہوگئے اور ان کی امامت ان کے سرادر ایماء بن رحضہ انصاری کراتے تھے اور باقی آدھے لوگوں نے کہا جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائیں گے تو ہم مسلمان ہوجائیں گے پس جب رسول اللہ مدینہ تشریف لائے تو باقی آدھے لوگ بھی مسلمان ہوگئے اور قبیلہ اسلام کے لوگ بھی حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم بھی اس بات پر اسلام قبول کرتے ہیں جس پر ہمارے بھائی مسلمان ہوئے ہیں پس وہ بھی مسلمان ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قبیلہ غفار کو اللہ نے معاف فرما دیا اور قبیلہ کی اللہ نے حفاظت کی (قتل اور قید سے)

【423】

ابوذر (رض) کے فضائل کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم حنظلی، نضر بن شمیل سلیمان بن مغیرہ حمید بن ہلال اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت ابوذر نے بیان کیا کہ میں نے کہا تم میرے معاملات کی نگرانی کرو یہاں تک کہ میں جا کر دیکھ آؤں انیس نے کہا جی ہاں جاؤ لیکن اہل مکہ سے بچتے رہنا کیونکہ وہ اس آدمی کے دشمن ہیں اور برے طریقوں سے لڑتے ہیں۔

【424】

ابوذر (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی عنزی ابن ابی عدی، ابن عون حمید بن ہلال حضرت عبداللہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابوذر (رض) نے فرمایا اے بھیجتے میں نبی کریم ﷺ کی بعثت سے دو سال پہلے نماز پڑھا کرتا تھا میں نے کہا تو اپنا رخ کس طرف کرتا تھا انہوں نے کہا جہاں اللہ تعالیٰ میرا رخ فرما دیا کرتے باقی حدیث گزر چکی اس میں یہ اضافہ ہے کہ وہ دونوں کاہنوں میں سے ایک آدمی کے پاس گئے اور میرا بھائی برابر اس کی تعریف کرتا رہا یہاں تک کہ اس پر غالب آگیا پس ہم نے اس سے اونٹ لے لیا اور انہیں اپنے اونٹوں کے ساتھ ملا لیا اس حدیث میں اضافہ بھی ہے کہ نبی ﷺ تشریف لائے اور بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیھچے دو رکعتیں ادا کیں پس میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور میں لوگوں میں سب سے پہلے ہوں جس نے آپ ﷺ کو اسلام کے مطابق سلام کیا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ پر سلامتی ہو آپ ﷺ نے فرمایا تجھ پر بھی سلامتی ہو تو کون ہے ؟ اور یہ بھی اضافہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تم کب سے یہاں ہو ؟ میں نے عرض کیا پندرہ دن سے اور مزید یہ ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے کہا انہیں رات کی مہمان نوازی کے لئے میرے ساتھ کردیں۔

【425】

ابوذر (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابرہیم بن محمد بن عرعرہ سامی محمد بن حاتم، ابن حاتم عبدالرحمن بن مہدی، مثنی بن سعد ابی جمرہ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ابوذر (رض) کو جب نبی ﷺ کی بعثت کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا اس وادی کے طرف سوار ہو کر جاؤ اور میرے لئے اس آدمی کے بارے میں معلومات لے کر آؤ جو دعوی کرتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبریں آتی ہیں اور اس کی گفتگو سن کر میرے پاس واپس آ۔ وہ چلے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور آپ ﷺ کی بات سنی پھر حضرت ابوذر (رض) کی طرف لوٹے اور کہا میں نے انہیں عمدہ اخلاق کا حکم دیتے ہوئے دیکھا ہے اور گفتگو ایسی ہے جو شعر نہیں ہے تو ابوذر (رض) نے کہا جس چیز کا میں نے ارادہ کیا تھا تم اس کی تسلی بخش جواب نہیں لائے ہو پھر انہوں نے زاد راہ لیا اور ایک مشکیزہ جس میں پانی تھا لادا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گئے مسجد میں پہنچے اور نبی ﷺ کو ڈھونڈنا شروع کردیا اور آپ ﷺ کو پہچانتے نہ تھے اور آپ ﷺ کے بارے میں پوچھنا مناسب نہ سمجھا یہاں تک کہ رات ہوگئی اور لیٹ گئے حضرت علی (رض) نے انہیں دیکھا تو اندازہ لگایا کہ یہ مسافر ہے پس وہ انہیں دیکھنے ان کے پیچھے گئے اور ان دونوں میں سے کسی ایک نے بھی اپنے ساتھی سے کوئی گفتگو نہ کی یہاں تک کہ صبح ہوگئی انہوں نے پھر اپنی مشک اور زاد راہ اٹھایا اور مسجد کی طرف چل دئیے پس یہ دن بھی اسی طرح گزر گیا اور نبی ﷺ کو دیکھ نہ سکے یہاں تک کہ شام ہوگئی اور اپنے ٹھکانے کی طرف لوٹے پس علی (رض) ان کے پاس سے گزرے تو کہا اس آدمی کو ابھی تک اپنی منزل کا علم نہیں ہوسکا پس انہیں اٹھایا اور اپنے ساتھ لے گئے اور ان دونوں میں سے کسی ایک نے بھی اپنے ساتھی سے کسی چیز کے بارے میں نہ پوچھا یہاں تک کہ تیسرے دن بھی اسی طرح ہوا کہ حضرت علی (رض) انہیں اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے اور ان سے کہا کیا تم مجھے بتاؤ گے نہیں کہ تم اس شہر میں کس غرض سے آئے ہو ابوذر (رض) نے کہا اگر تم مجھ سے پختہ وعدہ کرو کہ تم میری صحیح راہنمائی کرو گے تو میں بتادیتا ہوں پس حضرت علی (رض) نے وعدہ کرلیا حضرت ابوذر (رض) نے اپنا مقصد بیان کیا تو حضرت علی (رض) نے کہا آپ ﷺ سچے اور اللہ کے رسول ہیں جب صبح ہوئی تو تم میرے ساتھ چلنا اگر میں نے تمہارے بارے میں کوئی خطرہ محسوس کیا تو میں کھڑا ہوجاؤں گا گویا کہ میں پانی بہا رہا ہوں اور اگر میں چلتا رہا تو تم میری اتباع کرنا یہاں تک کہ جہاں میں داخل ہوں تم بھی داخل ہوجانا پس انہوں نے ایسا ہی کیا کہ حضرت علی (رض) کے پیچھے پیچھے چلتے رہے یہاں تک کہ حضرت علی (رض) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ابو ذر (رض) ان کے ساتھ حاضر خدمت ہوئے اور آپ ﷺ کی گفتگو سنی اور اسی جگہ اسلام قبول کرلیا تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا اپنی قوم کی طرف لوٹ جا اور انہیں اس (دین کی) تبلیغ کر یہاں تک کہ تیرے پاس میرا حکم پہنچ جائے ابوذر (رض) نے عرض کیا اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے میں تو یہ بات مکہ والوں کے سامنے پکار کر کروں گا پس وہ نکلے یہاں تک کہ مسجد میں آئے اور اپنی بلند آواز سے کہا (أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ) میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوائے کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور قوم ان پر ٹوٹ پڑی انہیں مارنا شروع کردیا یہاں تک کہ انہیں لٹا دیا پس حضرت عباس (رض) آئے اور ان پر جھک گئے اور کہا تمہارے لئے افسوس ہے کیا تم جانتے نہیں ہو کہ یہ قبیلہ غفار سے ہیں اور تمہاری شام کی طرف تجارت کا راستہ ان کے پاس سے گزرتا ہے پھر ابوذر (رض) کو ان سے چھڑا لیا انہوں نے اگلی صبح پھر اسی جملہ کو دہرایا اور مشرکین ان پر ٹوٹ پڑے اور مارنا شروع کردیا حضرت عباس (رض) نے ان پر جھک کر انہیں بچایا اور چھڑا کرلے گئے۔

【426】

حضرت جریر بن عبداللہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، خالد بن عبداللہ، قیس بن ابی حازم، جریر بن عبداللہ، عبدالحمید بن بیان، خالد، بیان، قیس بن ابی حازم، حضرت جریر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی مجھے اندر آنے سے نہیں روکا ہے اور جب بھی (آپ ﷺ مجھے دیکھتے تو مسکراتے تھے۔

【427】

حضرت جریر بن عبداللہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابواسامہ اسماعیل ابن نمیر، عبداللہ بن ادریس اسماعیل حضرت جریر (رض) سے روایت ہے کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا رسول ﷺ نے کبھی بھی مجھے اندر آنے سے نہیں روکا اور جب بھی مجھے دیکھتے تو میرے سامنے مسکرا دیتے ابن ادریس کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ میں نے آپ ﷺ سے شکایت کی کہ میں گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا تو آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک کو میرے سینے پر مارا اور فرمایا اے اللہ اسے جما دے اور اسے ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا دے۔

【428】

حضرت جریر بن عبداللہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبدالحمید ابن بیان خالد بیان حضرت جریر (رض) سے روایت ہے کہ دور جاہلیت میں ایک گھر تھا جسے ذوالخلصہ کہا جاتا تھا اور اسی کو کعبہ یمانیہ اور کعبہ شامیہ بھی کہا جاتا تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تو مجھے ذوالخلصہ اور کعبہ یمانہ اور شامیہ کی فکر سے آرام پہنچائے گا پس میں قبیلہ احمس سے ایک سو پچاس آدمیوں کو لے کر اس کی طرف چل پڑا ہم نے اسے توڑ دیا اور جسے اس کے پاس پایا اسے قتل کردیا پھر میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ کو اس کی خبر دی تو آپ ﷺ نے ہمارے لئے اور قبیلہ احمس کے لئے دعا فرمائی۔

【429】

حضرت جریر بن عبداللہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، جریر، اسماعیل بن ابی خالد قیس بن ابی حازم حضرت جریر بن عبداللہ بجلی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا اے جریر کیا تم مجھے خثعم کے گھر ذوالخلصہ کے معاملہ سے آزاد نہیں کردیتے اسے کعبہ یمانیہ کہا جاتا تھا پس میں ایک سو پچاس سواروں کے ساتھ اس کی طرف چل پڑا اور میں گھوڑے پر جم کر نہ بیٹھ سکتا تھا میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مار کر فرمایا اے اللہ اسے ثابت قدمی عطا فرما اور اسے ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا پس میں گیا اور اسے آگ میں جلا ڈالا پھر حضرت جریر (رض) نے ہم میں سے ایک آدمی کو جس کی کنیت ابوارطاہ تھی رسول اللہ ﷺ کی طرف خوشخبری دینے کے لئے بھیجا پس وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا ہم ذوالخلصہ کو خارش زدہ اونٹ کی طرح کر کے چھوڑ کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں پس رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ احمس کے سواروں اور پیادوں کے لئے پانچ مرتبہ برکت کی دعا کی۔

【430】

حضرت جریر بن عبداللہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابن نمیر، ابی محمد بن عباد سفیان، ابن ابی عمر مروان فزاری محمد بن رافع ابواسامہ اسماعیل ان اسنا سے بھی یہ حدیث مروی ہے اور مروان کی حدیث میں ہے کہ پس جریر کی طرف سے خوشخبری لانے والا ابوارطاہ حصین بن ربیعہ تھا جس نے نبی ﷺ کو خوشخبری دی۔

【431】

سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، ابوبکر بن نضر ہاشم بن قاسم ورقاء بن عمر بشکری عبیداللہ بن ابی یزید حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو میں نے آپ کے لئے پانی رکھا جب آپ ﷺ بیت الخلاء سے نکلے تو فرمایا یہ کس نے رکھا ہے صحابہ (رض) نے عرض کیا یا میں نے عرض کیا ابن عباس (رض) نے آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ اسے دین کی فقاہت و سمجھ عطا فرما۔

【432】

سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوربیع خلف بن ہشام ابوکامل جحدری حماد بن زید ابوربیع حماد بن زید ایوب نافع حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا کہ میرے ہاتھ میں استبرق کا ایک ٹکڑا ہے اور جنت کے جس مکان کی طرف میں جانے کا ارادہ کرتا ہوں وہ اڑ کر اس جگہ پہنچ جاتا ہے پس میں نے اس کا پورا قصہ حضرت حفصہ (رض) سامنے بیان کیا پھر حضرت حفصہ (رض) نے نبی ﷺ سے بیان کیا تو نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا میرا خیال ہے کہ عبداللہ ایک نیک آدمی ہوں گے۔

【433】

سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم بن عمر حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی مبارک میں کوئی آدمی جو بھی خواب دیکھتا اسے رسول اللہ کے سامنے بیان کرتا اور میں غیر شدہ نوجوان تھا اور رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں میں مسجد میں سویا کرتا تھا پس میں نے نیند میں دیکھا گویا کہ دو فرشتوں نے مجھے پکڑا اور مجھے دوزخ کی طرح لے گئے تو وہ کنوئیں کی دو لکڑیوں کی طرح لکڑیاں بھی تھیں اور اس میں لوگ تھے جنہیں میں پہچانتا تھا پس میں نے (اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ النَّارِ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ النَّارِ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ النَّارِ ) میں آگ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں دہرانا شروع کردیا ان دو فرشتوں میں سے ایک اور فرشتہ ملا تو اس نے مجھ سے کہا تو خوف نہ کر پس میں نے حضرت حفصہ سے اس کا تذکرہ کیا تو حضرت حفصہ نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا عبداللہ کتنا اچھا آدمی ہے کاش یہ اٹھ کر رات کو نماز پڑھے سالم نے کہا اس کے بعد حضرت عبداللہ (رض) رات کو تھوڑی دیر ہی سویا کرتے تھے۔

【434】

سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، موسیٰ بن خالد ابواسحاق فزاری عبیداللہ بن عمر نافع ابن عمر حضرت ابن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ میں رات مسجد میں گزار کرتا تھا اور میری بیوی نہ تھی پس میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا کہ مجھے ایک کنوئیں کی طرف لے جایا گیا ہے باقی حدیث مبارکہ اسی طرح مذکور ہے۔

【435】

سیدنا انس بن مالک (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، انس، حضرت ام سلیم (رض) سے روایت ہے کہ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ انس آپ ﷺ کا خادم ہے اللہ سے اس کے لئے دعا کردیں تو آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ اس کے مال اور اولاد میں کثرت و زیادتی کر جو تو اسے عطا کر اس میں برکت عطا فرما۔

【436】

سیدنا انس بن مالک (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار ابوداؤد شعبہ، قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ام سلیم (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! یہ انس آپ ﷺ کا خادم ہے۔ باقی حدیث مذکورہ حدیث کی طرح ہے۔

【437】

سیدنا انس بن مالک (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ہشام ابن زید اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔

【438】

سیدنا انس بن مالک (رض) کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، ہاشم بن قاسم سلیمان بن ثابت حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے اور اس وقت میں میری امی اور میری خالہ ام حرام کے علاوہ وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا تو میری والدہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ آپ ﷺ کا ادنیٰ سا خادم ہے اللہ سے اس کے لئے دعا مانگیں تو آپ ﷺ نے میر لئے ہر بھلائی کی دعا مانگی اور میرے لئے جو دعا مانگی اس کے آخر میں یہ کہا اے اللہ اس کے مال اور اولاد کو زیادہ کر اور اس میں اس کے لئے برکت فرما۔

【439】

سیدنا انس بن مالک (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابومعن رقاشی عمر بن یونس عکرمہ اسحاق حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ میری امی جان مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گئیں اور تحقیق انہوں نے مجھے اپنے آدھے دوپٹے کی چادر بنادی اور آدھے کو مجھے اوڑھا دیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! یہ میرا بیٹا انس ہے میں آپ ﷺ کے پاس آپ کی خدمت کرنے کے لئے پیش کرنے کو لائی ہوں آپ ﷺ اللہ سے اس کے لئے دعا مانگیں تو آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ اس کے مال اور اولاد میں زیادتی کر۔ انس (رض) نے کہا اللہ کی قسم میرا مال بہت کثیر ہے اور میری اولاد اور میری اولاد کی اولاد کی تعداد آج کل تقریبا ایک سو ہے۔

【440】

سیدنا انس بن مالک (رض) کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، جعفر ابن سلیمان ابن عثان، مالک حضرت انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ گزرے تو میری والدہ ام سلیم نے آپ ﷺ کی آواز سنی تو عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان اے اللہ کے رسول یہ چھوٹا انس ہے۔ پس رسول اللہ ﷺ نے میرے لئے تین دعائیں کیں ان میں سے دو دنیا میں دیکھ چکا ہوں اور تیسری کا آخرت میں امیدوار ہوں۔

【441】

سیدنا انس بن مالک (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن نافع بہز حماد سلمہ ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا آپ ﷺ نے ہمیں سلام کیا پھر مجھے کسی کام کے لئے بھیجا پس میں اپنی والدہ کے پاس دیر سے گیا جب میں ان کے پاس پہنچا تو اس نے کہا تجھے کس چیز نے روکے رکھا میں نے کہا مجھے رسول اللہ ﷺ نے کسی کام کے لئے بھیج دیا تھا انہوں نے کہا آپ ﷺ کا کیا کام تھا میں نے کہا وہ راز کی بات ہے انہوں نے کہا تم رسول اللہ ﷺ کے راز کو کسی سے بھی بیان نہ کرنا انس (رض) نے کہا اللہ کی قسم اگر میں وہ بات کسی سے بیان کرتا تو اے ثابت تجھ سے بیان کردیتا۔

【442】

سیدنا انس بن مالک (رض) کے فضائل کے بیان میں

حجاج بن شاعر، عارم بن فضل معتمر ابن سلیمان حضرت انس (رض) بن مالک سے (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مجھے ایک راز کی بات کی اور میں نے اس کے بعد کسی کو بھی اس کی خبر نہیں دی اور میرے والدہ ام سلیم نے بھی مجھ سے اس راز کے بارے میں سوال کیا لیکن میں نے انہیں بھی نہ بتایا۔

【443】

سیدنا عبداللہ بن سلام (رض) کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، اسحاق بن عیسیٰ مالک ابی نضر حضرت عامر بن سعد (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زمین پر زندہ چلنے والوں میں سے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) کے علاوہ کسی کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ جنتی ہے۔

【444】

سیدنا عبداللہ بن سلام (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، معاذ عبداللہ بن عون محمد بن سیرین حضرت قیس بن عباد (رض) سے روایت ہے کہ مدینہ میں میں کچھ لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا جن میں سے بعض رسول اللہ کے صحابہ بھی تھے پس ایک آدمی جس کے چہرے پر اللہ کے خوف کے آثار نمایاں تھے تو بعض لوگوں نے کہا یہ آدمی جنت والوں میں سے ہے یہ آدمی اہل جنت میں سے ہے اس نے دو رکعتیں ادا کیں لیکن ان میں اختصار کیا پھر چل دیا میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلا وہ اپنے گھر میں داخل ہوا اور میں بھی داخل ہوگیا پھر اس نے ہم سے گفتگو کی جب اس سے مانوسیت ہوگئی تو میں نے اس سے کہا جب آپ اس سے پہلے مسجد میں داخل ہوئے تو ایک آدمی نے اس اس طرح کہا انہوں نے کہا سُبْحَانَ اللَّهِ کسی کے لئے بھی یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ ایسی بات کرے جس کے بارے میں علم نہیں رکھتا اور میں ابھی بتاتا ہوں کہ یہ کیوں ہے میں نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک خواب دیکھا جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا میں نے اپنے خواب میں دیکھا اور پھر اسے اس کی وسعت پیداوار اور سرسبزی کو بیان کیا اور باغ کے درمیان میں لوہے کا ایک ستون تھا اس کا نچلا حصہ زمین اور اوپر کا حصہ آسمانوں میں اور اس کی بلندی میں ایک حلقہ تھا پس مجھے کہا گیا کہ اس پر چڑھو میں نے اس سے کہا کہ میں تو چڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا پس میرے پاس ایک مِنصَف آیا ابن عون نے کہا مِنصَف خادم کو کہتے ہیں اس نے میرے پیچھے سے میرے کپڑے اٹھائے اور بیان کیا کہ اس نے اس کے پیچھے سے اپنے ہاتھ سے اسے اٹھایا پس میں چڑھ گیا یہاں تک کہ اس ستون کی بلندی تک پہنچ گیا۔ پس میں نے اس حلقہ کو پکڑ لیا پھر مجھے کہا گیا اسے مضبوطی سے پکڑے رکھو پھر میں بیدار ہوگیا اور وہ حلقہ میرے ہاتھ میں ہی تھا میں نے یہ خواب نبی ﷺ سے بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ باغ اسلام ہے اور وہ ستون اسلام کا ستون ہے اور وہ حلقہ عروہ الوثقی یعنی مضبوط حلقہ ہے اور تیری موت اسلام پر ہی آئے گی کہا کہ وہ آدمی حضرت عبداللہ بن سلام (رض) تھے۔

【445】

سیدنا عبداللہ بن سلام (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن عمر بن عباد بن جبلہ ابی رواء حرمی بن عمارہ قرہ بن خالد بن محمد ابن سیرین حضرت قیس بن عباد (رض) سے روایت ہے کہ میں ایک حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا جس میں حضرت سعد بن مالک اور ابن عمر (رض) بھی تشریف فرما تھے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) گزرے تو لوگوں نے کہا یہ اہل آدمی جنت میں سے ہے پس میں کھڑا ہوا اور اس سے کہا انہوں نے اس اس طرح کہا ہے اس نے کہا سُبْحَانَ اللَّهِ ان کے لئے مناسب نہ تھا کہ وہ ایسی بات کرتے جس کے بارے میں انہیں علم نہ تھا میں نے (خواب میں) دیکھا گویا کہ ایک ستون ہے جسے سرسبز باغ میں بنایا گیا ہے اور اس کے درمیان میں گاڑھ دیا گیا ہے اور سرے پر ایک حلقہ ہے اور اس کے نیچے ایک مصنف یعنی خدمت گزار کھڑا ہے پس مجھے کہا گیا کہ اس پر چڑھو پس میں چڑھا یہاں تک کہ اس حلقہ کو پکڑ لیا میں نے یہاں سارا قصہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عبداللہ اس حال میں فوت ہوگا کہ عروہ الوثقی اسلام کی مضبوط رسی کو پکڑنے والا ہوگا۔

【446】

سیدنا عبداللہ بن سلام (رض) کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، اسحاق بن ابراہیم، قتیبہ جریر، اعمش، سلیمان مسہر حضرت خرشہ بن حُر (رح) سے روایت ہے کہ میں مدینہ کی مسجد میں ایک حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا اور اس مجلس میں ایک بزرگ خوبصورت شکل و صورت والے بھی تھے جو عبداللہ بن سلام (رض) تھے اور انہوں نے لوگوں سے عمدہ باتیں کرنا شروع کردیں جب وہ اٹھ گئے تو لوگوں نے کہا جس آدمی کو یہ پسند ہو کہ وہ جنتی آدمی کو دیکھے اسے چاہئے کہ وہ اس آدمی کو دیکھ لے۔ میں نے کہا اللہ کی قسم میں اس کے پیچھے پیچھے جاؤں گا تاکہ اس کے گھر کا پتہ کرسکوں پس میں ان کے پیچھے چلا وہ چلتے رہے یہاں تک کہ مدینہ سے نکلنے کے قریب ہوئے پھر اپنے گھر میں داخل ہوگئے میں نے ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت دے دی پھر فرمایا اے بھیجتے تجھے کیا کام ہے میں نے کہا میں نے لوگوں سے آپ کے بارے میں کہتے ہوئے سنا کہ جب آپ کھڑے ہوئے کہ جسے یہ بات پسندیدہ ہو کہ جنتی آدمی کو دیکھے تو اسے چاہئے کہ انہیں دیکھ لے تو مجھے پسند آیا کہ میں آپ کے ساتھ ہی رہوں انہوں نے کہا اہل جنت کے بارے میں تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور میں تمہیں بیان کرتا ہوں جس وجہ سے انہوں نے یہ کہا ہے اس دوران کہ میں سویا ہوا تھا میرے پاس ایک آدمی آیا اس نے مجھے کہا کھڑا ہوجا میرا ہاتھ پکڑا اور میں اس کے ساتھ چل پڑا مجھے راستہ میں اپنی بائیں طرف کچھ راہیں ملی جن میں میں نے جانا چاہا تو اس نے مجھے کہاں میں مت جاؤ کیونکہ یہ بائیں طرف کے راستے ہیں پھر دائیں طرف ایک راستہ نظر آیا تو اس نے مجھ سے کہا اس میں چلے جاؤ پھر وہ ایک پہاڑ پر لے چلا پھر مجھے سے کہا اس پر چڑھ جاؤ پس میں نے چڑھنا شروع کیا لیکن جب میں چڑھنے کا ارادہ کرتا تو سیرین کے بل گرپڑتا یہاں تک کہ مجھے ایک ستون کے پاس لایا جس کا (اوپر والا) سرا آسمان میں اور نچلا حصہ زمین میں تھا اور اس کی بلندی میں ایک حلقہ تھا تو اس نے مجھے کہا اس کے اوپر چڑھو میں نے کہا میں اس پر کیسے چڑھوں حالانکہ اس کا سرا تو آسمان میں ہے پس اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اوپر چڑھا دیا میں نے دیکھا کہ میں حلقہ کو پکڑے ہوئے کھڑا ہوں پھر اس نے اس ستون پر ایک ضرب ماری جس سے وہ گرگیا لیکن میں حلقہ کے ساتھ ہی لٹکا رہا یہاں تک کہ میں نے صبح کی تو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ کو یہ سارا قصہ سنایا آپ ﷺ نے فرمایا وہ راستے جو تو نے اپنے طرف دیکھے وہ تو بائیں طرف (جہنم) والوں کے راستے تھے اور وہ راستے جو تو نے اپنی دائیں طرف دیکھے وہ دائیں طرف (جنت) والوں کے راستے تھے اور وہ پہاڑ شہداء کا مقام ہے جسے تم حاصل نہ کرسکو گے اور ستون اسلام کا ستون ہے اور حلقہ تو یہ اسلام کا حلقہ ہے اور تو مرتے دم تک اسلام کے حلقہ کو پکڑے رکھے گا۔

【447】

سیدنا حسان بن ثابت (رض) کے فضائل کے بیان میں

عمرو ناقد اسحاق بن ابراہیم، ابی عمر سفیان، عمرو سفیان، عیینہ زہری، سعید حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) حضرت حسان (رض) کے پاس سے گزرے اور وہ مسجد میں شعر کہہ رہے تھے پس انہوں نے (حضرت عمر (رض) کی طرف غصہ سے دیکھا تو انہوں نے کہا میں اس وقت بھی شعر کہتا تھا جبکہ آپ سے بہتر اس میں موجود ہوتے تھے پھر انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی طرف متوجہ ہو کر کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کیا تو نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری طرف سے جواب دو اے اللہ اس کی روح القدس کے ذریعہ نصرت و مدد فرما۔ ( ابوہریرہ (رض) نے کہا : اے تو جانتا ہے، جی ہاں ! (میں نے سنا ہے) ۔

【448】

سیدنا حسان بن ثابت (رض) کے فضائل کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، محمد بن رافع بن حمید عبدالرزاق، معمر، زہری، حضرت ابن مسیب (رض) سے روایت ہے کہ حضرت حسان (رض) نے ایک حلقہ میں بیٹھے ہوئے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہا اے ابوہریرہ ! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تو نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ باقی حدیث اسی طرح ذکر کی۔

【449】

سیدنا حسان بن ثابت (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، ابویمان شعیب زہری، حسان بن ثابت انصاری حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن (رح) سے روایت ہے کہ اس نے حضرت حسان بن ثابت انصاری (رض) سے حضرت ابوہریرہ (رض) کو گواہ بناتے ہوئے سنا انہوں نے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں تو نے نبی ﷺ سے سنا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے حسان رسول اللہ کی طرف سے جواب دے اے اللہ اس کی روح القدس کے ذریعہ نصرت فرما۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا ہاں۔

【450】

سیدنا حسان بن ثابت (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ ابی شعبہ، عدی ابن ثابت، براء بن عازب سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے حضرت حسان بن ثابت (رض) کو فرماتے ہوئے سنا ان کی ہجو کرو اور جبرائیل (علیہ السلام) بھی تیرے ساتھ ہیں۔

【451】

سیدنا حسان بن ثابت (رض) کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، عبدالرحمن ابوبکر بن نافع غندر ابن بشار محمد بن جعفر عبدالرحمن شعبہ، ان اسناد سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔

【452】

سیدنا حسان بن ثابت (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابواسامہ، ہشام، حسان بن ثابت، حضرت عروہ (رض) سے روایت ہے کہ حسان بن ثابت (رض) نے عائشہ (رض) کے متعلق باتیں کی تھیں تہمت والے قصہ میں میں نے انہیں برا بھلا کہا تو سیدہ عائشہ (رض) نے کہا اے میرے بھانجے انہیں چھوڑ دو کیونکہ یہ نبی ﷺ کی مدافعت کرتے تھے۔

【453】

سیدنا حسان بن ثابت (رض) کے فضائل کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ عبدہ ہشام اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ مروی ہے۔

【454】

سیدنا حسان بن ثابت (رض) کے فضائل کے بیان میں

بشر بن خالد محمد بن جعفر، شعبہ، سلیمان ضحی حضرت مسروق (رح) سے روایت ہے کہ میں سیدہ عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے پاس حضرت حسان (رض) شعر کہہ رہے تھے اپنے تغزل آمیز شعر انہیں سنا رہے تھے تو کہا سیدہ عائشہ پاک دامن اور عقلمند ہیں اور ان پر کسی شک کی بنا پر تہمت نہیں لگائی جاسکتی اور وہ اس حال میں صبح کرتی ہیں کہ ناواقف عورتوں کے گوشت سے بھوکی ہوتی ہیں۔ تو سیدہ عائشہ (رض) نے ان سے کہا لیکن تم تو ایسے نہیں ہو۔ مسروق (رح) نے کہا میں نے ان سے کہا آپ انہیں اپنے پاس آنے کی اجازت کیوں دیتی ہیں حالا ن کہ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا وَالَّذِي تَوَلَّی کِبْرَهُ اور جس نے ان میں سے (بہتان) میں بڑا حصہ لیا اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے تو انہوں نے کہا اس سے بڑا عذاب کیا ہوگا کہ وہ (حسان (رض) نابینا ہوگئے ہیں یہ وہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی (کفار کی طرف سے) مدافعت کرتے تھے یا ان کی ہجو کرتے تھے۔

【455】

سیدنا حسان بن ثابت (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابن مثنی ابن ابی عدی، شعبہ، اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے اس میں یہ ہے کہ سیدہ عائشہ (رض) نے کہا وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے جواب دیتے تھے اور اس میں شعر مذکورہ نہیں۔

【456】

سیدنا حسان بن ثابت (رض) کے فضائل کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، یحییٰ بن زکریا، ہشام بن عروہ سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حسان (رض) نے کہا اے اللہ کے رسول ! مجھے ابوسفیان کے بارے میں کچھ کہنے کی اجازت دیں آپ ﷺ نے فرمایا اس کے ساتھ میری قرابت کا لحاظ کیسے کرو گے حسان (رض) نے عرض کیا اس ذات کی قسم ! جس نے آپ ﷺ کو معزز و مکرم بنایا میں آپ ﷺ کو ان سے ایسے نکال لوں گا جیسے آٹے میں سے بال کو نکال لیا جاتا ہے حسان نے کہا اور بیشک خاندان بنو ہاشم میں سے بنت مخزوم کی اولاد ہی عظمت و بزرگی والی ہے۔ ابوسفیان ! تیرا والد تو غلام تھا جیسے بیان کیا گیا۔

【457】

سیدنا حسان بن ثابت (رض) کے فضائل کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ عبدہ ہشام بن عروہ حسان بن ثابت (رض) سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حسان بن ثابت نے نبی ﷺ سے مشرکین کی ہجو کرنے کی اجازت طلب کی اس سند میں ابوسفیان کا نام ذکر نہیں کیا اور خمیر کی جگہ عجین کہا ہے۔

【458】

سیدنا حسان بن ثابت (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبدالملک بن شعیب بن لیث، ابی جدی خالد بن یزید سعید بن ابی ہلال عمارہ بن غزیہ محمد بن ابراہیم، ابوسلمہ بن عبدالرحمن سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قریش کی ہجو کرو کیونکہ یہ انہیں تیروں کی بوچھاڑ سے بھی زیادہ سخت محسوس ہوتی ہے آپ ﷺ نے ابن رواحہ کی طرف پیغام بھیجا تو فرمایا ان کی ہجو کرو انہوں نے ہجو بیان کی لیکن آپ ﷺ خوش نہ ہوئے پھر حضرت کعب بن مالک (رض) کی طرف پیغام بھیجا پھر حسان بن ثابت کو بلوایا جب حسان (رض) آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو عرض کیا اب وہ وقت آگیا ہے کہ اس دم ہلاتے ہوئے شیر کو تم میری طرف چھوڑ دو پھر اپنی زبان کو نکالا اور اسے حرکت دینا شروع کردیا اور عرض کیا اس ذات کی قسم ! جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں انہیں اپنی زبان سے چیر پھاڑ کر رکھ دوں گا جس طرح چمڑے کو چیر دیا جاتا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جلدی مت کرو بیشک ابوبکر (رض) قریش کے نسب کو خوب جانتے ہیں اور تیرا نسب قریش کے نصب سے بالکل واضح کردیں گے۔ پس حضرت حسان (رض) حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آئے اور پھر واپس گئے تو عرض کیا اے اللہ کے رسول تحقیق انہوں نے مجھے آپ ﷺ کا نسب واضح کردیا ہے اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے میں آپ ﷺ کو اس سے ایسے نکال لوں گا جیسے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے سیدہ عائشہ (رض) نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے حضرت حسان کو فرماتے ہوئے سنا جب تک اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے مدافعت کرتا رہے گا روح القدس برابر تیری نصرت و مدد کرتا رہے گا اور کہتی ہیں میں نے رسول اللہ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ حسان نے کفار کی ہجو بیان کر کے مسلمانوں کو شفاء یعنی خوشی دی اور کفار کو بیمار کردیا ہے حسان نے کہا۔ تو نے محمد کی ہجو کی ہے ان کی طرف سے میں جواب دیتا ہوں اور اس میں اللہ ہی کے پاس جزا اور بدلہ ہوگا تو نے محمد کی ہجو کی جو نیک اور دین حنیف کے مطابق تقوی اختیار کرنے والے اللہ کے رسول ہیں وعدہ وفا کرنا ان کی صفت ہے بیشک میرے باپ اور میری ماں اور میری عزت محمد ﷺ کو تم سے بچانے کے لئے صدقہ اور قربان ہیں میں اپنے آپ پر آہ وزاری کروں اگر تم نہ دیکھو اس کو کہ کداء کے دونوں طرف سے غبار کو اڑا دے گا وہ گھوڑے جو باگوں پر زور کریں اپنی قوت و طاقت سے اوپر چڑھتے ہوئے ان کے کندھوں پر خون کے پیاسے نیزے ہیں ہمارے گھوڑے دوڑتے ہوئے آئیں گے اور ان کے نتھنوں کو عورتیں اپنے دوپٹوں سے صاف کریں گی اگر تم ہم سے رو گردانی و اعراض کرو تو ہم عمرہ کریں گے اور فتح ہوجانے سے پردہ اٹھ جائے گا ورنہ صبر کرو اس دن کی مار کے لئے جس دن اللہ جسے چاہے گا عزت عطا کرے گا اور اللہ نے فرمایا ہے تحقیق میں نے اپنا بندہ بھیجا ہے جو حق بات کہتا ہے جس میں کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے اور اللہ نے کہا ہے کہ میں نے ایک لشکر تیار کردیا ہے اور انصار ہیں کہ انکا مقصد صرف دشمن سے مقابلہ ہے وہ ہر دن کسی نہ کسی تیاری میں ہے کبھی گالیاں دی جاتی ہیں یا لڑائی یا ہجو ہے۔ پس تم میں سے جو بھی رسول اللہ ﷺ کی ہجو کرے یا آپ ﷺ کی تعریف کرے اور آپ ﷺ کی مدد کرے سب برابر ہے ہم میں اللہ کا پیغام لانے والے جبرائیل و روح القدس موجود ہیں جن کا کوئی ہمسر اور برابر کرنے والا نہیں ہے۔

【459】

سیدنا ابوہریرہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

عمرو ناقد عمرو بن یونس یمامی عکرمہ عمار ابی کثیر یزید بن عبدالرحمن حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف دعوت دیتا تھا اور وہ مشرکہ تھیں میں نے ایک دن انہیں دعوت دی تو اس نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ایسے الفاظ مجھے سنائے جنہیں میں گورا نہ کرتا تھا میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ میں رو رہا تھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف دعوت دیتا تھا اور وہ انکار کرتی تھی میں نے آج انہیں دعوت دی تو اس نے ایسے الفاظ آپ ﷺ کے بارے میں مجھے سنائے جنہیں (سننا) مجھے گوارا نہ تھا آپ ﷺ اللہ سے دعا کریں کہ وہ ابوہریرہ (رض) کی والدہ کو ہدایت عطا فرمائے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ابوہریرہ (رض) کی والدہ کو ہدایت عطا فرما میں نبی ﷺ کی دعا لے کر خوشی سے نکلا جب میں آیا اور دروازہ پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بند کیا ہوا ہے پس میری والدہ نے میرے قدموں کی آہٹ سنی تو کہا اے ابوہریرہ اپنی جگہ پر رک جاؤ اور میں نے پانی گرنے کی آواز سنی پس اس نے غسل کیا اور اپنی قمیض پہنی اور اپنا دوپٹہ اوڑھتے ہوئے جلدی سے باہر آئیں اور دروازہ کھولا پھر کہا اے ابوہریرہ (أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ) میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی مبعود نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں میں رسول اللہ ﷺ کی طرف لوٹا اور میں خوشی سے رو رہا تھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! خوشخبری ہو اللہ نے آپ ﷺ کی دعا کو قبول فرما لیا اور ابوہریرہ (رض) کی والدہ کو ہدایت عطا فرما دی پس آپ ﷺ نے اللہ عزوجل کی تعریف اور اس کی صفت بیان کی اور کچھ بھلائی کے جملے ارشاد فرمائے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اللہ سے دعا مانگیں کہ وہ میری اور میری والدہ کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور ہمارے دلوں میں ان کی محبت پیدا فرما دے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! اپنے بندوں کے ہاں محبوب بنا دے اور مؤمنین کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے اور کوئی مومن ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے میرا ذکر سنایا مجھے دیکھا ہوا اور اس نے مجھ سے محبت نہ کی ہو۔

【460】

سیدنا ابوہریرہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، سفیان، زہیر سفیان بن عیینہ، زہری، حضرت اعرج (رح) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ تم خیال کرتے ہو کہ ابوہریرہ رسول اللہ ﷺ سے کثرت کے ساتھ احادیث روایت کرتا ہے اور اللہ ہی وعدہ کی جگہ ہے میں غریب و مسکین آدمی تھا اور میں رسول اللہ کی خدمت میں اپنے پیٹ بھرنے پر کیا کرتا تھا اور مہاجرین کو بازار کے معاملات میں مشغولیت رہتی تھی اور انصار اپنے اموال کی حفاظت میں مصروف رہتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اپنے کپڑے کو پھیلائے گا وہ مجھ سے سنی ہوئی کوئی بات کبھی بھی نہ بھلائے گا پس میں نے اپنا کپڑا پھیلا دیا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنی حدیث پوری کی پھر میں نے اس کپڑے کو اپنے ساتھ چمٹا لیا اور اس میں سے کوئی بھی حدیث نہ بھولا جو آپ ﷺ سے سن چکا تھا۔

【461】

سیدنا ابوہریرہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبداللہ بن جعفر بن یحییٰ بن خالد، مالک بن انس، عبد بن حمید، عبدالرزاق اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے البتہ یہ حدیث ابوہریرہ (رض) کے قول پر پوری ہوجاتی ہے اور اس میں نبی ﷺ کا قول اپنے کپڑے کو جو پھیلائے گا سے آخر حدیث تک مذکور نہیں ہے۔

【462】

سیدنا ابوہریرہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ تجیبی ابن وہب، یونس ابن شہاب عروہ بن زبیر عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ کیا تم حضرت ابوہریرہ (رض) پر تعجب نہیں کرتے وہ آئے اور میرے حجرہ کے ایک طرف بیٹھ کر مجھے رسول اللہ ﷺ سے مروی حدیثیں سنانے لگے اور میں تسبیح کر رہی تھی اور میری تسبیح پوری ہونے سے پہلے ہی وہ اٹھ کر چلے گئے اور اگر میں ان کو پالیتی تو تردید کرتی کہ رسول اللہ تمہاری طرح مسلسل احادیث بیان نہ کرتے تھے

【463】

سیدنا ابوہریرہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابن مسیب (رض) نے بیان کیا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ بیشک ابوہریرہ (رض) کثرت کے ساتھ احادیث روایت کرتا ہے اور اللہ ہی وعدہ کی جگہ ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اس کی احادیث روایت نہیں کرتے میں ابھی تمہیں اس بارے میں خبر دوں گا میرے انصاری بھائیوں کو زمین (کھیتی باڑی) کی مصروفیت تھی اور میرے مہاجرین بھائی بازار اور تجارت میں مشغول تھے اور میں نے اپنے آپ کو پیٹ بھرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لازم کرلیا تھا جب وہ غائب ہوتے تو میں حاضر ہوتا تھا جب وہ بھول جاتے میں یاد کرتا تھا اور ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو اپنے کپڑے کو پھیلائے گا وہ میری ان احادیث کو لے لے گا پھر انہیں اپنے سینہ میں جمع کرلے گا پھر وہ آپ ﷺ سے سنی ہوئی کوئی بات بھی کبھی نہ بھلائے پس میں نے اپنی چادر کو بچھا دیا یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنی بات سے فارغ ہوگئے اور پھر میں نے اسے سمیٹ کر اپنے سینہ سے چمٹا لیا اور اس کے بعد آج تک میں کوئی حدیث نہ بھولا جو آپ ﷺ نے مجھ سے بیان کی اور اگر اللہ نے اپنی کتاب میں یہ دو آیات مبارکہ نہ نازل کی ہوتیں تو میں کبھی بھی کوئی حدیث روایت نہ کرتا ( إِنَّ الَّذِينَ يَکْتُمُونَ ) بیشک وہ لوگ جو چھپاتے ہیں ہماری نشانیاں اور ہدایت کی باتیں جو ہم نے اتاری ہیں آخر تک عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، ابویمان شعیب زہری، سعید بن مسیب ابوسلمہ بن عبدالرحمن حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ تم کہتے ہو کہ ابوہریرہ (رض) رسول اللہ ﷺ کثرت کے احادیث روایت کرتے ہیں باقی حدیث گزر چکی۔

【464】

حاطب بن ابی بلتعہ (رض) اور اہل بدر (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، ابن ابی عمر عمرو اسحاق سفیان بن عیینہ، عمرو حسن بن محمد عبیداللہ بن ابی رافع علی حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، زبیر اور مقداد کو بھیجا اور فرمایا کہ خاخ باغ کی طرف جاؤ وہاں ایک اونٹ سوار عورت ملے گی جس کے پاس خط ہوگا پس تم وہ خط اس سے لے لینا۔ پس گھوڑے دوڑاتے ہوئے چل پڑے پس جب تم عورت کے پاس پہنچے تو اس سے کہا خط نکالو اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ہم نے کہا خط نکال دے ورنہ اپنے کپڑے اتار۔ پس اس نے وہ خط اپنے سر کی میں مینڈھیوں سے نکال کر دے دیا ہم وہ خط لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تو اس میں یہ لکھا تھا حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے اہل مکہ کے مشرکین لوگوں کی طرف اور انہیں رسول اللہ ﷺ کے بعض معاملات کی خبر دی تھی تو نبی ﷺ نے فرمایا اے حاطب یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے متعلق جلدی میں کوئی فیصلہ نہ کریں میں قریش سے ملا ہوا یعنی ان کا حلیف آدمی تھا سفیان (رح) نے کہا کہ وہ مشرکین کا حلیف تھا لیکن ان کے خاندان سے نہ تھا اور جو آپ ﷺ کے ساتھ مہاجرین میں سے صحابہ ہیں ان کی وہ ان رشتہ داریاں ہیں اور انہی رشتہ داریوں کی وجہ سے وہ ان کے اہل و عیال کی حفاظت کریں گے پس میں نے پسند کیا کہ ان کے ساتھ میرا نسبی تعلق تو ہے نہیں کہ میں ان پر ایک احسان ہی کر دوں جس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی بھی حفاظت کریں گے اور میں نے ایسا نہ تو کفر کی وجہ سے کیا ہے اور نہ ہی اپنے دین سے مرتد ہونے کی وجہ سے کیا ہے اور نہ ہی اسلام قبول کرنے کے بعد کفر پر راضی رہنے کی وجہ سے تو نبی ﷺ نے فرمایا اس نے سچ کہا ہے حضرت عمر (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیں تاکہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں آپ ﷺ نے فرمایا یہ غزوہ بدر میں شریک ہوگیا ہے اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کے ( آئندہ) حالات سے واقفیت کے باوجود فرمایا ہے تم جو چاہو عمل کرو تحقیق میں نے تمہیں معاف کردیا تو اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَا ءَ ) 66 ۔ الممتحنہ : 1) اے ایمان والوں میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔

【465】

حاطب بن ابی بلتعہ (رض) اور اہل بدر (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل اسحاق بن ابراہیم، عبداللہ بن ادریس رفاعہ بن ہیثم واسطی خلاد بن عبداللہ حصین سعد بن عیبدہ ابوعبدالرحمن سلمی علی حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، ابومرثد غنوی اور زبیر بن عوام کو بھیجا اور ہم سب گھوڑوں پر سوار تھے آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ یہاں تک کہ تم باغ خاخ میں پہنچو وہاں مشرکین میں سے ایک عورت ہوگی جس کے پاس حاطب کی طرف سے مشرکین کے نام ایک خط ہوگا باقی حدیث گزر چکی۔

【466】

حاطب بن ابی بلتعہ (رض) اور اہل بدر (رض) کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، لیث، ابی زبیر جابر، عبد حاطب حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت حاطب (رض) کا ایک غلام رسول اللہ کی خدمت میں حاطب کی شکایت کرنے کے لئے حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! حاطب تو جہنم میں داخل ہوجائے گا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو نے جھوٹ کہا وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا کیونکہ وہ بدر اور حدیبیہ میں شریک ہوا۔

【467】

اصحاب شجرہ یعنی بیعت رضوان میں شریک (صحابہ (رض) کے فضائل کے بیان میں

ہارون بن عبداللہ حجاج بن محمد ابن جریج، ابوزبیر، جابر بن عبداللہ، حضرت ام مبشر سے روایت ہے کہ اس نے نبی ﷺ کو سیدہ حفصہ (رض) سے فرماتے ہوئے سنا انشاء اللہ اصحاب شجرہ میں سے کوئی ایک بھی جہنم میں داخل نہ ہوگا جنہوں نے اس درخت کے نیچے بیعت کی تھی۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیوں نہیں تو آپ ﷺ نے انہیں جھڑکا تو سیدہ حفصہ (رض) نے عرض کیا (وَإِنْ مِنْکُمْ إِلَّا وَارِدُهَا) یعنی تم میں سے کوئی ایسا نہیں جو جہنم پر پیش نہ کیا جائے تو نبی ﷺ نے فرمایا تحقیق اللہ رب العزت نے فرمایا (ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا) پھر ہم پرہیز گاروں کو نجات دے دیں گے اور ظالموں کو گھٹنوں کے بل اس میں چھوڑ دیں گے۔

【468】

سیدنا ابو موسیٰ اشعری اور سیدنا ابو عامر اشعری (رض) کے فضائل کے بیان میں

ابوعامر ابوکریب ابی اسماہ ابوعامر ابواسامہ برید جدہ ابوبردہ حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ میں نبی ﷺ کے پاس حاضر تھا اس حال میں کہ آپ ﷺ مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام جعرانہ پر قیام پذیر تھے اور آپ ﷺ کے ساتھ حضرت بلال (رض) بھی تھے تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک دیہاتی نے حاضر ہو کر عرض کیا اے محمد ﷺ آپ مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہ کریں گے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا خوشخبری ہو تو اس اعرابی نے آپ ﷺ سے کہا کیا آپ ﷺ نے مجھے کثرت کے ساتھ کہا تو خوش ہوجاؤ تو رسول اللہ ﷺ حضرت ابوموسی اور بلال کی طرف غصہ کی حالت میں متوجہ ہوئے اور فرمایا یہ وہ آدمی ہے جس نے بشارت کو رد کردیا ہے تم دونوں قبول کرلو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم نے قبول کیا پھر رسول اللہ ﷺ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اس میں اپنے ہاتھوں اور چہرے کو دھویا اور اسی میں کلی بھی کی پھر فرمایا اس میں سے تم دونوں پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر انڈیل لو اور خوش ہوجاؤ پس انہوں نے پیالہ لے کر اسی طرح کیا جو انہیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا پھر انہیں پردہ کے پیچھے سے ام سلمہ (رض) نے آواز دی کہ اپنی والدہ کے لئے بھی اپنے برتنوں سے بچا لینا پس انہوں نے انہیں بھی اس سے بچا ہوا دے دیا۔

【469】

سیدنا ابو موسیٰ اشعری اور سیدنا ابو عامر اشعری (رض) کے فضائل کے بیان میں

عبداللہ بن براء، ابوعامر اشعری ابوکریب محمد بن علاء، ابی عامر ابواسامہ یزید حضرت ابوبردہ (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی ﷺ غزوہ حنین سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے ابوعامر (رض) کو ایک لشکر کے ہمراہ طاؤس کی طرف بھیجا پس درید بن صمہ سے ان کا مقابلہ ہوا تو درید کا قتل روک دیا گیا اور اللہ نے اس کے ساتھیوں کو شکست سے دوچار کیا ابوموسی نے کہا مجھے بھی ابوعامر کے ہمراہ بھیجا تھا پس ابوعامر کے گھٹنے میں تیر مارا گیا جو کہ بنو جشم کے ایک آدمی نے پھینکا تھا اور وہ تیر آ کر ان کے گھٹنے میں چبھ گیا میں ان کی طرف بڑھا تو میں نے کہا اے چچا جان آپ کو کس نے تیر مارا ہے تو ابوعامر نے اشارہ کے ذریعہ ابوموسی کو بتایا کہ وہ جسے تم دیکھ رہے ہو وہ میرا قاتل ہے اور اسی نے مجھے تیر مارا ہے ابوموسی نے کہا میں اسے (مارنے) کے ارادہ سے چل دیا اور اسے جا پہنچا پس اس نے مجھے دیکھا تو مجھ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا شروع کردیا میں بھی اس کے پیچھے چل دیا اور اسے کہنا شروع کردیا کیا تجھے حیاء نہیں آتی کیا تو عربی نہیں ہے کیا تو نہیں ٹھہرے گا وہ رک گیا پھر میرا اور اس کا مقابلہ ہوا پس اس نے بھی وار کیا اور میں نے بھی وار کیا بالآخر میں نے اسے قتل کردیا ہے اس نے کہا یہ تیر نکالو میں نے اسے نکالا تو اس کی جگہ سے پانی نکلنا شروع ہوگیا تو انہوں نے کہا اے بھیجتے رسول اللہ ﷺ کی طرف جا اور آپ کو میری طرف سے سلام عرض کر اور آپ سے عرض کر کہ ابوعامر آپ سے عرض کرتا ہے کہ میرے لئے مغفرت طلب فرمائیں اور ابوعامر نے مجھے لوگوں پر امیر مقرر کردیا پھر وہ تھوڑی ہی دیر کے بعد شہید ہوگئے پس جب میں نبی ﷺ کی طرف لوٹا اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ گھر میں بان کی چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے جس پر بستر نہ تھا اس وجہ سے چارپائی کے نشانات آپ ﷺ کے پہلؤوں اور کمر پر نمایاں تھے پس میں نے آپ ﷺ کو اپنی اور ابوعامر کی خبر دی اور آپ ﷺ سے عرض کیا ابوعامر (رض) نے آپ ﷺ سے عرض کیا تھا کہ آپ ﷺ میرے لئے دعائے مغفرت فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے پانی منگوایا اور اس سے وضو فرمایا پھر ہاتھ اٹھا کر فرمایا اے اللہ عبید ابوعامر کی مغفرت فرما یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی پھر فرمایا اے اللہ اسے قیامت کے دن اپنی اکثر مخلوق یا لوگوں سے بلندی و عظمت عطا فرما میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اور میرے لئے بھی دعائے مغفرت فرما دیں تو نبی ﷺ نے فرمایا اے اللہ عبداللہ بن قیس کے گناہوں کو معاف فرما دے اور اسے قیامت کے دن معزز جگہ میں داخل فرما ابوبردہ نے کہا ان میں ایک دعا ابوعامر اور دوسری دعا ابوموسی کے لئے کی گئی۔

【470】

اشعری (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

ابوکریب محمد بن علاء، ابواسامہ برید حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اشعری حضرات جب رات کے وقت گھروں کی طرف قرآن مجید پڑھتے ہوئے آتے ہیں تو میں ان کی آوازوں کو پہچان لیتا ہوں اور ان کے گھروں کو رات کے وقت قرآن پڑھنے کی آواز سے پہچان لیتا ہوں حالانکہ دن میں ان کے گھروں کو نہیں دیکھا جب وہ دن کے وقت اترتے ہیں اور ان میں سے ایک آدمی حکیم ہے جب وہ کافروں کے سواروں یا دشمنوں سے مقابلہ کرتا ہے تو انہیں کہتا ہے میرے ساتھی تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم ان کا انتظار کرو۔

【471】

اشعری (رضی اللہ عنہم) کے فضائل کے بیان میں

ابوعامر اشعری ابوکریب ابی اسامہ ابوعامر ابواسامہ برید بن عبداللہ بن جدہ حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بیشک اشعری حضرت جب جہاد میں محتاج ہوجاتے ہیں یا مدینہ میں ان کے اہل و عیال کے لئے کھانا کم پڑجاتا ہے تو اپنے پاس موجود سب کچھ ایک کپڑے میں جمع کرلیتے ہیں پھر اسے آپس میں ایک برتن میں برابر برابر تقسیم کرلیتے ہیں وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔

【472】

سیدنا ابوسفیان بن حرب (رض) کے فضائل کے بیان میں

عباس بن عبدالعظیم عنبر احمد بن جعفر معقری نضر ابن محمد یمامی عکرمہ ابوزمیل حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ مسلمان نہ تو ابوسفیان کی طرف دیکھتے تھے اور نہ ہی ان کے پاس بیٹھتے تھے۔ تو ابوسفیان (رض) نے نبی ﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے نبی تین باتیں مجھے عطا فرمائیں آپ نے فرمایا : جی ہاں ! بتاؤ۔ عرض کیا : میری بیٹی ام حبیبہ بنت ابوسفیان اہل عرب سے حسین و جمیل ہیں میں اس کا نکاح آپ ﷺ سے کرتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا : بہتر عرض کیا اور معاویہ (رض) کو اپنے لئے کاتب مقرر کرلیں آپ ﷺ نے فرمایا : بہتر آپ ﷺ مجھے حکم دیں کہ میں کفار سے لڑتا رہوں جیسا کہ میں مسلمانوں سے لڑتا تھا آپ ﷺ نے فرمایا بہتر ابوزمیل نے کہا اگر یہ خود نبی ﷺ سے ان باتوں کا مطالبہ نہ کرتے تو آپ ﷺ یہ کام نہ فرماتے کیونکہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ ﷺ سے جس بھی چیز کا مطالبہ کیا جاتا تو آپ ﷺ اس کے جواب میں ہاں ہی فرماتے تھے۔

【473】

سیدنا جعفر بن ابوطالب (رض) اور سیدہ اسماء بنت عمیس (رض) اور کشتی والوں کے فضائل کے بیان میں

عبداللہ بن براء، اشعری محمد بن علاء، ہمدانی ابواسامہ برید حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے روانہ ہونے کی خبر پہنچی تو ہم یمن میں تھے پس ہم آپ ﷺ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے روانہ ہوگئے میں اور میرے دو بھائی تھے اور میں ان دونوں سے چھوٹا تھا ان میں سے ایک کا نام ابوبردہ اور دوسرے کا نام ابورہم تھا ہمارے ساتھ چند آدمی یا کہا ترپن یا باون آدمی ہمارے قبیلہ کے بھی تھے پس ہم کشتی میں سوار ہوئے ہمیں ہماری کشتی نے حبشہ میں نجاشی کے پاس جا چھوڑا پس ہمیں اس کے پاس سیدنا جعفر (رض) نے کہا رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہاں بھیجا ہے اور ہمیں یہاں قیام کرنے کا حکم دیا ہے تم بھی ہمارے ساتھ رہو پس ہم ان کے ساتھ ٹھہر گئے یہاں تک کہ ہم سب اکٹھے ہو کر آئے پھر ہم رسول اللہ ﷺ سے اس وقت ملے جب خبیر فتح ہوچکا تھا تو آپ ﷺ نے ہمارے لئے حصہ مقرر کیا یا ہمیں بھی خیبر سے عطا کیا اور فتح خیبر میں شریک لوگوں کے علاوہ غائب لوگوں میں سے کسی کو بھی اس کے مال غنیمت میں سے کچھ بھی عطا نہیں کیا تھا اور ہماری کشتی والوں کو بھی حضرت جعفر (رض) اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ فتح خیبر میں شریک لوگوں کے ساتھ تقسیم غنیمت میں حصہ عطا فرمایا پس لوگوں میں بعض نے ہمیں یعنی کشتی والوں سے کہا ہم نے ہجرت میں تم سے سبقت کی۔

【474】

سیدنا جعفر بن ابوطالب (رض) اور سیدہ اسماء بنت عمیس (رض) اور کشتی والوں کے فضائل کے بیان میں

اسماء بنت عمیس حفصہ (رض) حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ حضرت اسماء (رض) کی خدمت میں جو ہمارے ساتھ آئی تھیں وہ زوجہ نبی ﷺ کی خدمت میں ملاقات کرنے لئے حاضر ہوئیں اور اس نے مہاجرین کے ساتھ نجاشی کی طرف ہجرت کی تھی پس حضرت عمر (رض) سیدہ حفصہ (رض) کے پاس آئے اور ان کے پاس حضرت اسماء (رض) کو دیکھا تو کہا یہ کون ہے ؟ سید حفصہ (رض) نے کہا اسماء بنت عمیس (رض) ۔ حضرت عمر (رض) نے کہا یہ حبشہ بحریہ ہے اسماء (رض) نے کہا ہاں تو حضرت عمر (رض) نے کہا ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی ہم تم سے زیادہ رسول اللہ کے حقدار ہیں وہ ناراض ہوگئیں اور ایک بات کہی کہ اے عمر آپ نے غلط کہا ہے ہرگز نہیں اللہ کی قسم تم رسول اللہ کے ساتھ تھے جو تمہارے بھوکوں کو کھلاتے اور تمہارے جاہلوں کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایسے علاقے میں تھے جو دور دراز اور دشمن ملک حبشہ میں تھے اور وہاں صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لئے تھے اللہ کی قسم میں اس وقت تک نہ کوئی کھانا کھاؤں گی اور نہ پینے کی کوئی چیز پیوں گی جب تک آپ کی کہی بات کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے نہ کرلوں اور ہمیں تکلیف دی جاتی تھی اور ڈرایا جاتا تھا میں عنقریب رسول اللہ ﷺ سے اس کا تذکرہ کروں گی اور آپ ﷺ سے اس بارے میں سوال کروں گی اور اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی نہ بےراہ چلوں گی اور نہ ہی اس پر کوئی زیادتی کروں گی جب نبی ﷺ تشریف لائے تو اسماء نے کہا اے اللہ کے نبی ﷺ حضرت عمر (رض) نے اس اس طرح کہا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ تم سے زیادہ میرے (قرب کے) حقدار نہیں اس نے اس کے ساتھیوں نے ایک مرتبہ ہجرت کی تمہارے اور کشتی والوں کے لئے دو ہجرتیں ہیں اسماء نے کہا تحقیق میں نے ابوموسی اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ میرے پاس گروہ در گروہ آتے اور وہ یہ حدیث سنتے تھے دنیا کی کوئی چیز انہیں اس سے زیادہ خوش کرنے والی اور اس فرمان نبی ﷺ سے زیادہ عظمت والی ان کے ہاں نہ تھی۔ سیدہ نے کہا میں نے ابوموسی کو دیکھا کہ وہ یہ حدیث مجھ سے بار بار دہرایا کرتے تھے۔

【475】

سیدنا سلیمان، صہیب اور بلال (رض) کے فضائل کے بیان میں

محمد بن حاتم، بہز حماد بن سلمہ ثابت معاویہ بن قرہ عابد بن عمرو ابوسفیان، سلمان صہیب (رض) بلال (رض) حضرت عائذ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابوسفیان، سیدنا سلمان، صہیب اور بلال (رض) کے پاس آئے کچھ لوگ بھی ان کے پاس موجود تھے تو انہوں نے کہا اللہ کی قسم ! اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردنوں میں اپنی جگہ پر نہیں پہنچی ہیں تو حضرت ابوبکر (رض) نے کہا کیا تم قریش کے اس شیخ اور ان کے سردار کے بارے میں ایسے کہتے ہو ؟ پھر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو اس بات کی خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا اے ابوبکر شاید تو نے ان کو ناراض کردیا ہو اگر تو نے انہیں ناراض کردیا ؟ تو تیرا رب تجھ پر ناراض ہوجائے گا پھر ابوبکر ان کے پاس آئے تو کہا اے میرے بھائیوں میں نے تمہیں ناراض کردیا انہوں نے کہا نہیں اے میرے بھائی اللہ آپ کی مغفرت فرمائے۔

【476】

سیدنا سلیمان، صہیب اور بلال (رض) کے فضائل کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم حنظلی، احمد بن عبدہ اسحاق سفیان، عمرو، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ یہ آیت کریمہ (اِذْ ھَمَّتْ طَّا ى ِفَتٰنِ مِنْكُمْ ) 3 ۔ آل عمران : 122) ہمارے بارے میں یعنی بنو سلمہ اور بنو حارثہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور ہم یہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آیت کریمہ نازل نہ ہوتی کیونکہ اللہ عزوجل نے واللہ ولیہما فرما دیا ہے۔ (یعنی ان دو جماعتوں کا مددگار اللہ ہے) ۔

【477】

انصار کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، قتادہ، نضر بن انس، حضرت زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے اللہ انصار کی اور انصار کے بیٹوں کی اور انصار کے بیٹوں کے بیٹوں کی مغفرت فرما۔

【478】

انصار کے فضائل کے بیان میں

یحییٰ بن حبیب، خالد بن حارث، حضرت شعبہ (رض) اس سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں۔

【479】

انصار کے فضائل کے بیان میں

ابومعن رقاشی عمر بن یونس عکرمہ ابن عمار اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس (رض) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کے لئے اور انصار کی اولاد کے لئے اور انصار کے غلاموں کے لئے مغفرت کی دعا فرمائی۔

【480】

انصار کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن علیہ، زہیر اسماعیل عبدالعزیز ابن صہیب حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے کچھ بچوں اور کچھ عورتوں کو ایک شادی میں سے آتے ہوئے دیکھا تو اللہ کے نبی ﷺ سیدھے کھڑے ہوگئے اور پھر فرمایا اللہ کی قسم ! اے انصار تم مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہو اللہ کی قسم ! اے انصار تم مجھے لوگوں میں سے سب سے زیادہ محبوب ہو۔

【481】

انصار کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار غندر ابن مثنی محمد بن جعفر، شعبہ، ہشام بن زید حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ انصار کی ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی تو رسول اللہ ﷺ اس عورت کی (بات سننے کیلئے) علیحدگی میں ہوگئے اور آپ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے تم لوگوں میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو (آپ ﷺ نے یہ بات) تین مرتبہ فرمائی۔

【482】

انصار کے فضائل کے بیان میں

یحییٰ بن حبیب، خالد بن حارث، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب ابن ادریس، حضرت شعبہ (رض) اس سند کے ساتھ روایت نقل کرتے ہیں۔

【483】

انصار کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابن مثنی محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، جضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انصار کے لوگ میرے بااعتماد اور مخصوص لوگوں میں سے ہیں اور لوگ تو بڑھتے چلے جائیں گے لیکن یہ کم ہوتے چلے جائیں گے لہذا ان کی نیکیوں کو قبول کرو اور ان کی خطاؤں کو معاف کردو۔

【484】

انصار کے گھرانوں میں سے بہتر گھرانے کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار ابن مثنی محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ حضرت ابواسید (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انصار کے گھرانوں میں سے بہترین گھرانہ بنی نجار کا گھرانہ ہے پھر بن عبدالاشہل کا پھر نبو حارث بن خزرج کا پھر بنو ساعدہ کا اور انصار کے سب گھروں میں خیر ہے حضرت سعد کہتے ہیں کہ میرے خیال میں رسول اللہ ﷺ نے دوسرے لوگوں کو ہم پر فضیلت عطا فرمائی ہے تو ان سے لوگوں نے کہا کہ آپ ﷺ کو بھی تو بہت سوں پر فضیلت دی گئی ہے۔

【485】

انصار کے گھرانوں میں سے بہتر گھرانے کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابوداؤد شعبہ، قتادہ، انس، حضرت ابوسعید انصاری (رض) نے نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایایت نقل کی ہے۔

【486】

انصار کے گھرانوں میں سے بہتر گھرانے کے بیان میں

قتیبہ بن رمح لیث، بن سعد قتیبہ عبدالعزیز ابن محمد ابن مثنی ابن ابی عمر عبدالوہاب ثقفی یحییٰ بن سعید حضرت انس (رض) نے نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے سوائے اس کے کہ اس میں حضرت سعد کے قول کا ذکر نہیں کیا گیا۔

【487】

انصار کے گھرانوں میں سے بہتر گھرانے کے بیان میں

محمد بن عباد محمد بن مہران رازی ابن عباد حاتم ابن اسماعیل عبدالرحمن بن حمیدا براء، ہیم بن محمد بن طلحہ ابا اسید حضرت ابراہیم بن محمد بن طلحہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت اسید سے ابن عتبہ کے پاس سنا، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انصار کے گھرانوں میں سے بہترین گھرانہ بنی نجار کا گھرانہ ہے اور بنی عبدالاشہل اور بنی حارث بن خزرج اور بنی ساعدہ کا گھرانہ ہے اللہ کی قسم اگر میں ان انصار پر کسی کو ترجیح دیتا تو اپنے خاندان کو ترجیح دیتا۔

【488】

انصار کے گھرانوں میں سے بہتر گھرانے کے بیان میں

یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، مغیرہ بن عبدالرحمن ابی زناد ابوسلمہ حضرت ابواسید انصاری (رض) گواہی دتیے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انصار کے گھرانوں میں بہترین گھرانہ نبی نجار کا گھرانہ ہے پھر بنی عبدالاشہل پھر بنو حارث بن خزرج پھر بنو ساعدہ کا اور انصار کے سب گھرانوں میں خیر ہے حضرت ابوسلمہ (رض) کہتے ہیں کہ حضرت ابواسید (رض) نے فرمایا کیا میں رسول اللہ پر تہمت لگا سکتا ہوں ؟ (یعنی میں رسول اللہ ﷺ کی طرف غلط بات کی نسبت نہیں کرسکتا) اگر میں جھوٹا ہوتا تو پہلے میں اپنی قوم نبی ساعدہ کا نام لیتا یہ بات حضرت سعد بن عبادہ تک پہنچی تو انہیں (یہ بات سن کر) افسوس ہوا اور کہنے لگے کہ ہم چاروں گھرانوں کے آخر میں ہوگئے تم لوگ میرے گدھے پر زین کسو میں رسول اللہ کی خدمت میں جاتا ہوں آپ ﷺ سے بات کرتا ہوں حضرت سہل کے بھیجتے نے کہا کیا آپ رسول اللہ کی بات رد کرنے کے لئے جا رہے ہیں حالانکہ رسول اللہ تو زیادہ جانتے ہیں کیا آپ کے لئے (یہ سعادت) کافی نہیں ہے تم چار میں سے چوتھے نمبر پر ہو پھر حضرت سعد واپس لوٹ پڑے اور فرمانے لگے اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں اور انہوں نے اپنے گدھے سے زین کھولنے کو حکم دے دیا۔

【489】

انصار کے گھرانوں میں سے بہتر گھرانے کے بیان میں

عمرو بن علی بن بحر ابوداؤد حرب بن شداد یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ، حضرت اسید انصاری (رض) بیان فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرماتے بہترین انصار یا فرمایا انصار کا بہترین گھرانہ اور پھر مذکورہ حدیث کی طرح حدیث ذکر کی لیکن اس میں حضرت سعد بن عبادہ (رض) کے واقعہ کا ذکر نہیں ہے۔

【490】

انصار کے گھرانوں میں سے بہتر گھرانے کے بیان میں

عمرو ناقد عبد بن حمید یعقوب ابن ابراہیم، بن سعد ابوصالح ابن شہاب ابوسلمہ عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت میں تشریف فرما تھے آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں انصار کا بہترین گھرانہ نہ بتاؤں ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول جی ہاں (بتائیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بنی عبدالاشہل۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول پھر کونسا گھرانہ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پھر بنو نجار کا گھرانہ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول پھر کون سا گھرانہ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پھر بنو حارث بن خزرج کا گھرانہ۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول پھر کونسا گھرانہ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پھر بنی ساعدہ کا گھرانہ۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا پھر کونسا گھرانہ اے اللہ کے رسول ؟ آپ ﷺ نے فرمایا انصار کے سب گھروں میں خیر ہے۔ حضرت سعد بن عبادہ (رض) غصے میں کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ کیا ہم چاروں کے آخر میں ہیں جب رسول اللہ ﷺ نے ان کے گھرانے کا نام لیا تو انہوں نے رسول اللہ کے فرمان پر اعتراض کرنا چاہا تو ان کی قسم کے آدمیوں نے ان سے کہا بیٹھ جاؤ کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہارے گھرانے کا نام چار گھرانوں میں لیا ہے اور بہت سے گھرانے ایسے ہیں کہ آپ ﷺ نے ان کو چھوڑ دیا اور ان کا نام نہیں لیا۔ تو حضرت سعد بن عبادہ (رض) رسول اللہ ﷺ سے بات کرنے سے رک گئے۔

【491】

انصار سے اچھا سلوک کرنے کا بیان۔

نصر بن علی محمد بن مثنی ابن بشار ابن عرعرہ حضرت انس (رض) بن مالک سے روایت ہے کہ میں حضرت جریر بن عبداللہ بجلی (رض) کے ساتھ ایک سفر میں نکلا وہ میری خدمت کرتے تھے میں نے ان سے عرض کیا آپ ایسے نہ کریں تو انہوں نے فرمایا میں نے انصار کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت کرتے دیکھا تو میں نے قسم کھائی کہ میں جب بھی انصار سے کسی کے ساتھ ہوں گا تو میں اس کی خدمت کروں گا۔ ابن اعمش اور ابن بشار نے اپنی روایات میں یہ الفاظ زائد کئے ہیں کہ حضرت جریر (رض) حضرت انس (رض) سے بڑے تھے۔

【492】

قبیلہ غفار واسلم کے لئے نبی ﷺ کی دعا کے بیان میں

ہداب بن خالد ازدی سلیمان بن مغیرہ حمید بن ہلال عبداللہ بن صامت حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا قبیلہ غفار کی اللہ نے مغفرت فرما دی اور قبیلہ اسلم کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔

【493】

قبیلہ غفار واسلم کے لئے نبی ﷺ کی دعا کے بیان میں

عبیداللہ بن عمر قواریری محمد بن مثنی، ابن بشار ابن مہدی ابن مثنی عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، ابوعمران جونی عبداللہ بن صامت، حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا تو اپنی قوم کے پاس جا اور ان سے کہہ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ قبیلہ اسلم کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا اور قبیلہ غفار کی اللہ تعالیٰ نے مغفرت فرما دی۔

【494】

قبیلہ غفار واسلم کے لئے نبی ﷺ کی دعا کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار ابوداؤد حضرت شعبہ (رض) اس سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں۔

【495】

قبیلہ غفار واسلم کے لئے نبی ﷺ کی دعا کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار سوید بن سعید ابن ابی عمر عبدالوہاب ثقفی ایوب محمد بن ابوہریرہ (رض) عبیداللہ بن معاذ ابی محمد بن مثنی عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، محمد بن زیاد ابوہریرہ (رض) محمد بن رافع شبابہ ورقا ابوزناد اعرج ابوہریرہ یحییٰ بن حبیب، روح بن عبادہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، عبد بن حمید ابوعاصم، ابن جریج، سلمہ بن شیبی حسن بن اعین معقل بن ابوزبیر، حضرت جابر (رض) ان ساری (سات سندیں) سندوں کے ساتھ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا قبیلہ اسلم کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا اور قبیلہ غفار کی اللہ تعالیٰ نے مغفرت فرما دی۔

【496】

قبیلہ غفار واسلم کے لئے نبی ﷺ کی دعا کے بیان میں

حسین بن حریث، فضل بن موسی، خثیم بن عراک حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قبیلہ اسلم کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا اور قبیلہ غفار کی اللہ تعالیٰ نے مغفرت فرما دی اس میں یہ نہیں کہا بلکہ اللہ عزوجل نے اس طرح فرمایا ہے۔

【497】

قبیلہ غفار واسلم کے لئے نبی ﷺ کی دعا کے بیان میں

ابوطاہر ابن وہب، لیث، عمران بن ابی انس، حنظلہ بن علی، حضرت خفاف بن ایماء غفاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک نماز میں ارشاد فرمایا اے اللہ بنی لحیان، رعلا، زکوان اور عصیہ پر لعنت فرما انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے قبیلہ غفار کی مغفرت فرما دی ہے اور قبیلہ اسلام کو بچا لیا ہے۔

【498】

قبیلہ غفار واسلم کے لئے نبی ﷺ کی دعا کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، یحییٰ بن ایوب، قتیبہ ابن حجر یحییٰ بن یحیی، اسماعیل بن جعفر عبداللہ بن دینار، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا قبیلہ غفار کی اللہ تعالیٰ نے مغفرت فرما دی اور قبیلہ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا اور قبیلہ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔

【499】

قبیلہ غفار واسلم کے لئے نبی ﷺ کی دعا کے بیان میں

ابن مثنی عبدالوہاب عبیداللہ عمر بن سواد ابن وہب، اسامہ زہیر بن حرب، حلوانی عبد بن حمید یعقوب بن ابراہیم، بن سعد ابوصالح نافع حضرت ابن عمر (رض) نے نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے اور صالح اور اسامہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ بات منبر پر فرمائی

【500】

قبیلہ غفار واسلم کے لئے نبی ﷺ کی دعا کے بیان میں

حجاج بن شاعر، ابوداؤد طیالسی حرب بن شداد یحییٰ ابوسلمہ، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں (اور پھر) ابن عمر (رض) سے روایت کردہ مذکورہ ساری حدیثوں کی طرح روایت نقل کی ہے۔

【501】

قبیلہ غفار، اسلم، جہنیہ، اشجع، مزنیہ، تمیم، دوس اور قبیلہ طئی کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، یزید ابن ہارون ابومالک اشجعی موسیٰ بن طلحہ حضرت ایوب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قبیلہ انصار، مزنیہ، جہنیہ، اسلم، غفار، اشجع اور جو عبداللہ کی اولاد میں سے ہیں یہ دوسرے لوگوں کے علاوہ میرے مددگار اور اللہ اور اس کے رسول ان سب کا مددگار ہے۔

【502】

قبیلہ غفار، اسلم، جہنیہ، اشجع، مزنیہ، تمیم، دوس اور قبیلہ طئی کے فضائل کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابی سفیان، سعد بن ابراہیم، عبدالرحمن بن ہرمز اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا قبیلہ قریش، انصار، مزنیہ، جہنیہ، اسلم، غفار، اشجع دوست ہیں اور ان کا حمایتی کوئی نہیں ماسوا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے۔

【503】

قبیلہ غفار، اسلم، جہنیہ، اشجع، مزنیہ، تمیم، دوس اور قبیلہ طئی کے فضائل کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ ابی شعبہ، سعد بن ابراہیم، حضرت سعد بن ابراہیم (رض) سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث مبارکہ کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【504】

قبیلہ غفار، اسلم، جہنیہ، اشجع، مزنیہ، تمیم، دوس اور قبیلہ طئی کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابن مثنی محمد بن جعفر، شعبہ، سعد بن ابراہیم، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے روایت نقل کی ہے آپ ﷺ نے فرمایا قبیلہ اسلم، غفار، مزنیہ، جہنیہ، بنی تمیم، بنی عامر اور دونوں حلیفوں اسد اور قبیلہ غطفان سے بہتر ہیں۔

【505】

قبیلہ غفار، اسلم، جہنیہ، اشجع، مزنیہ، تمیم، دوس اور قبیلہ طئی کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، مغیرہ حزامی ابوزناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے قبیلہ غفار، اسلم، جہینہ اللہ کے ہاں قیامت کے دن قبیلہ اسد، غطفان، ہوازن اور تمیم سے بہتر ہوں گے۔

【506】

قبیلہ غفار، اسلم، جہنیہ، اشجع، مزنیہ، تمیم، دوس اور قبیلہ طئی کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، یعقوب دورقی اسماعیل یعینان ابن علیہ، ایوب محمد حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قبیلہ اسلم، غفار اور مزنیہ میں سے کچھ اور جہینہ یا جہنیہ میں سے کچھ اور قبیلہ مزنیہ میں سے اللہ کے ہاں بہترین ہوں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ آپ نے فرمایا قیامت کے دن قبیلہ اسد، غطفان، ہوازن اور تمیم سے ہوں گے۔

【507】

قبیلہ غفار، اسلم، جہنیہ، اشجع، مزنیہ، تمیم، دوس اور قبیلہ طئی کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، محمد بن ابی یعقوب حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقرع بن حابس (رض) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ قبیلہ اسلام، غفار، مزنیہ اور میرا گمان ہے کہ جہینہ نے آپ ﷺ کی بیعت کی ہے یہ حاجیوں کا مال چوری کرنے والے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر قبیلہ اسلم، غفار، مزنیہ اور جہینہ کے لوگ بنی تمیم اور بنی عامر اور اسد غطفان سے بہتر ہوں تو کیا یہ ناکامی اور خسارے میں رہیں گے ؟ حضرت اقرع (رض) نے عرض کیا جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے بلاشبہ یہ لوگ اسلم و غفار وغیرہ ان لوگوں سے بہتر ہیں اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں راوی محمد کے شک کا ذکر نہیں

【508】

قبیلہ غفار، اسلم، جہنیہ، اشجع، مزنیہ، تمیم، دوس اور قبیلہ طئی کے فضائل کے بیان میں

ہارون بن عبداللہ عبدالصمد شعبہ، سید بنی تیمیم محمد بن عبداللہ بن ابی یعقوب ضبی اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کرتے ہیں لیکن اس میں جہنیہ کے بارے میں راوی نے یہ نہیں کہا میرا گمان ہے۔

【509】

قبیلہ غفار، اسلم، جہنیہ، اشجع، مزنیہ، تمیم، دوس اور قبیلہ طئی کے فضائل کے بیان میں

نصر بن علی ابوشعبہ، ابی بشر عبدالرحمن بن ابی بکرہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قبیلہ اسلم، غفار، مزنیہ، جہینہ، بنی تمیم اور بن عامر اور دو حلیفوں بنی اسد اور عطفان سے بہتر ہیں۔

【510】

قبیلہ غفار، اسلم، جہنیہ، اشجع، مزنیہ، تمیم، دوس اور قبیلہ طئی کے فضائل کے بیان میں

محمد بن مثنی، ہارون بن عبداللہ عبدالصمد عمر ناقد شبابہ بن سوار شعبہ، ابی بشر حضرت ابی بشر سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے۔

【511】

قبیلہ غفار، اسلم، جہنیہ، اشجع، مزنیہ، تمیم، دوس اور قبیلہ طئی کے فضائل کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب ابوبکر وکیع، سفیان، عبدالملک ابن عمیر عبدالرحمن بن ابی بکرہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہاری کیا رائے ہے کہ اگر قبیلہ جہنیہ، اسلم، غفار، بنی تمیم اور بنی عبداللہ، بنی غطفان اور عامر بن صعصعہ سے بہتر ہوں اور آپ ﷺ نے اپنی آواز کو بلند فرمایا صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول پھر تو وہ لوگ ناکامی اور خسارے میں ہوں گے آپ ﷺ نے فرمایا بلا شبہ وہ ان سے بہتر ہیں۔

【512】

قبیلہ غفار، اسلم، جہنیہ، اشجع، مزنیہ، تمیم، دوس اور قبیلہ طئی کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، احمد بن اسحاق ابوعوانہ، مغیرہ عامر، حضرت عدی بن حاتم (رض) سے روایت ہے کہ میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس آیا تو حضرت عمر (رض) نے مجھ سے فرمایا سب سے پہلا وہ صدقہ جس نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ (رض) کے چہروں کو منور کردیا تھا وہ قبیلہ طی کے صدقہ کا مال تھا جسے لے کر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا تھا۔

【513】

قبیلہ غفار، اسلم، جہنیہ، اشجع، مزنیہ، تمیم، دوس اور قبیلہ طئی کے فضائل کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مغیرہ بن عبدالرحمن ابوزناد اعرج ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت طفیل (رض) اور ان کے ساتھی آئے انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول دوس نے کفر کیا انکار کردیا ہے تو آپ ﷺ نے ان پر بد دعا فرمائی پھر کہا جانے لگا کہ اب وہ ہلاک ہوگئے اور آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ دوس کو ہدایت عطا فرما اور ان کو اسلام کی طرف لے۔

【514】

قبیلہ غفار، اسلم، جہنیہ، اشجع، مزنیہ، تمیم، دوس اور قبیلہ طئی کے فضائل کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، جریر، مغیرہ حارث ابی زرعہ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بنی تمیم کے بارے میں تین باتیں سنی ہیں جن کی وجہ سے میں ہمیشہ ان سے محبت کرتا ہوں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا وہ لوگ میری امت میں سے سب سے زیادہ سخت دجال پر ہیں حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) ان کے صدقات آئے تو نبی ﷺ نے فرمایا : یہ ہماری قوم کے صدقات ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ انہی میں سے حضرت سیدہ عائشہ (رض) کے پاس ایک باندی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا اسے آزاد کردو کیونکہ یہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہے۔

【515】

قبیلہ غفار، اسلم، جہنیہ، اشجع، مزنیہ، تمیم، دوس اور قبیلہ طئی کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، جریر، عمارہ ابی زرعہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بنی تمیم کے بارے میں تین باتیں سنی ہیں جس کے بعد سے میں ہمیشہ بنی تمیم سے محبت کرنے لگا ہوں پھر اس کے بعد مذکورہ حدیث کی طرح روایت ذکر کی۔

【516】

قبیلہ غفار، اسلم، جہنیہ، اشجع، مزنیہ، تمیم، دوس اور قبیلہ طئی کے فضائل کے بیان میں

حامد بن عمر بکراوی مسلمہ بن علقمہ مازنی امام مسجد داؤد شعبی، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بنی تمیم کے بارے میں سنا (کہ) تین خصلتیں جن کی وجہ سے میں ان سے ہمیشہ محبت کرنے لگا ہوں۔

【517】

بہترین لوگوں کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب سعید بن مسیب ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم لوگوں کو معدنیات جیسا پاؤ گے زمانہ جاہلیت میں جو لوگ بہترین تھے زمانہ اسلام میں بھی وہ لوگ بہترین ہوں گے جبکہ وہ دین میں سمجھ حاصل کریں اور تم اسلام کے معاملے میں لوگوں میں سے بہتر اس آدمی کو پاؤ گے جو اسلام لانے سے پہلے اس سے زیادہ نفرت کرتا ہو اور تم لوگوں میں سے بد ترین اس آدمی کو پاؤ گے جو دو رخا آدمی ہوں جو ان کے پاس ایک رخ لے کر آتا ہے اور ان کے پاس دوسرا رخ لے کر آتا ہے۔

【518】

بہترین لوگوں کے بیان میں

زہیر بن حرب، جریر، عمارہ ابوزرعہ ابوہریرہ، قتیبہ بن سعید، مغیرہ بن عبدالرحمن حزامی ابوزناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم لوگوں کو معدنیات جیسا پاؤ گے زہری کی حدیث کی طرح ہے سوائے اس کے کہ ابوزرعہ اور اعرج کی روایت میں ہے کہ تم لوگوں میں سے اسلام لانے کے معاملہ میں لوگوں میں سے بہترین اس آدمی کو پاؤ گے جو اسلام لانے سے پہلے اس سے زیادہ نفرت کرتا ہو۔

【519】

قریشی عورتوں کے فضائل کے بیان میں

ابن ابی عمر سفیان بن عیینہ، ابی زناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بہترین عورتیں اونٹوں پر سوار ہونے والی ہیں راویوں میں سے ایک راوی نے کہا کہ وہ قریش کی نیک عورتیں ہیں اور دوسرے راوی نے کہ قریش کی وہ عورتیں جو اپنے چھوٹے بچوں پر سب سے زیادہ مہربان ہیں اور اپنے خاوندوں کے مال کی زیادہ حفاظت کرنے والی ہیں۔

【520】

قریشی عورتوں کے فضائل کے بیان میں

عمرو ناقد سفیان، ابی زناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) نبی ﷺ سے اور ابن طاؤس اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کرتے ہوئے نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی لیکن اس روایت میں یتیم کا لفظ نہیں۔

【521】

قریشی عورتوں کے فضائل کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب سعید بن مسیب ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ قریشی عورتیں اونٹوں پر سوار ہونے والی عورتوں میں سب سے بہترین ہیں اور بچوں پر سب سے زیادہ مہربان اور اپنے خاوندوں کے مال کی حفاظت کرنے والی ہیں اس روایت کے بیان کرنے کے بعد حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے تھے کہ حضرت مریم بنت عمران (علیہ السلام) اونٹ پر کبھی سوار نہیں ہوئیں۔

【522】

قریشی عورتوں کے فضائل کے بیان میں

محمد بن رافع عبد بن حمید عبد ابن رافع عبدالرزاق، معمر، زہری، ابن مسیب، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت ام ہانی بنت ابی طالب کو نکاح کا پیغام بھجوایا تو حضرت ام ہانی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں تو بوڑھی ہوچکی ہوں اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بہترین عورتین سوار ہونے والی ہیں اور پھر یونس کی روایت کی طرح حدیث ذکر کی صرف لفظی فرق ہے ترجمہ وہی ہے۔

【523】

قریشی عورتوں کے فضائل کے بیان میں

محمد بن رافع عبد بن حمید ابن رافع عبد عبدالرزاق، معمر، ابن طاؤس ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اونٹوں پر سوار ہونے والی عورتوں میں سب سے بہترین عورتیں قریشی عورتیں ہیں جو کہ چھوٹے بچوں پر مہربان اور اپنے خاوندوں کے مال کی حفاظت کرنے والی ہیں۔

【524】

قریشی عورتوں کے فضائل کے بیان میں

احمد بن عثمان بن حکیم اودی خالد ابن مخلد سلیمان ابن بلال سہیل ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح اس طریقے سے روایت نقل کی ہے۔

【525】

نبی ﷺ کا اپنے صحابہ کرام (رض) کے درمیان بھائی چارہ قائم کرانے کے بیان میں

حجاج بن شاعر، عبدالصمد حماد ابن سلمہ ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوعبیدہ (رض) بن جراح اور حضرت ابوطلحہ (رض) کے درمیان آپس میں بھائی چارہ قائم کرایا تھا۔

【526】

نبی ﷺ کا اپنے صحابہ کرام (رض) کے درمیان بھائی چارہ قائم کرانے کے بیان میں

ابوجعفر محمد بن صباح حفص بن غیاث حضرت عاصم بن احول (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رض) سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسلام میں حلف نہیں ہے۔ تو حضرت انس (رض) نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے گھر میں قریش اور انصار کے درمیان حلف کروایا تھا۔

【527】

نبی ﷺ کا اپنے صحابہ کرام (رض) کے درمیان بھائی چارہ قائم کرانے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، عبدہ بن سلیمان عاصم، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر میں جو کہ مدینہ منورہ میں تھا قریش اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کرایا تھا۔

【528】

نبی ﷺ کا اپنے صحابہ کرام (رض) کے درمیان بھائی چارہ قائم کرانے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر ابواسامہ زکریا، سعد بن ابراہیم، حضرت جبیر بن مطعم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جائیداد کا وارث بنانے والے حلف (قسم) کا اسلام میں کوئی اعتبار نہیں اور زمانہ جاہلیت میں جو حلف نیکی کے لئے تھا وہ اب اسلام میں اور زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔

【529】

اس بات کے بیان میں کہ نبی ﷺ اپنے صحابہ (رض) کے لئے امن کا باعث تھے اور آپ کے صحابہ (رض) امت کے لئے امن کا باعث ہیں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، ابن عمر بن ابان حسین ابوبکر حسین بن علی جعفی مجمع بن یحییٰ سعید بن حضرت ابوبردہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے مغرب کی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھی پھر ہم نے کہا کہ اگر ہم آپ کی خدمت میں بیٹھے رہیں یہاں تک کہ ہم آپ ﷺ کے ساتھ عشاء کی نماز بھی پڑھ لیں۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر ہم بیٹھے رہے اور آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو آپ نے فرمایا کیا تم یہیں ہو ؟ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم نے آپ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی پھر ہم نے سوچا کہ ہم بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء کی نماز بھی آپ کے ساتھ پڑھ لیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم نے اچھا کیا یا آپ نے فرمایا تم نے درست کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا اور آپ بہت کثرت سے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھاتے تھے پھر آپ ﷺ نے فرمایا ستارے آسمان کے لئے امان ہیں جب ستاروں کا نکلنا بند ہوجائے گا تو پھر آسمان پر وہی آجائے گا جس کا وعدہ کیا گیا (یعنی قیامت) ۔ تو میں اپنے صحابہ کے لئے امان ہوں اور میرے صحابہ میری امت کے لئے امان ہیں پھر جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ پر وہ فتنے آئیں گے جن سے ڈرایا گیا ہے اور میرے صحابہ (رض) میری امت کے لئے امان ہیں تو جب صحابہ کرام (رض) چلے جائیں گے تو ان پر وہ فتنے آن پڑیں گے کہ جن سے ڈرایا جاتا ہے۔

【530】

صحابہ کرام (رض)، پھر تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے فضلیت کے بیان میں

ابوخیثمہ زہیر بن حرب، احمد بن عبدہ ضبی زہیر سفیان بن عیینہ، عمرو جابر، حضرت ابوسعید خدری (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ کچھ لوگ جہاد کے لئے نکلیں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی ایسا آدمی بھی ہے کہ جس نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہو وہ کہیں گے جی ہاں ہے تو پھر ان کو فتح حاصل ہوگی پھر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں لوگ جہاد کریں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی ایسا آدمی بھی ہے کہ جس نے رسول اللہ ﷺ کے صحابی کے ساتھ (تابعی) کو دیکھا ہو تو وہ کہیں گے کہ جی ہاں ہے تو پھر انہیں فتح حاصل ہوگی۔

【531】

صحابہ کرام (رض)، پھر تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے فضلیت کے بیان میں

سعید بن یحییٰ بن سعید اموی، ابن جریح، ابوزبیر، جابر، حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں ایک جماعت جہاد پر بھیجی جائے گی تو لوگ کہیں گے کہ دیکھو کیا تمہارے اندر نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کوئی صحابی ہے تو ایک صحابی پایا جائے گا جس کی وجہ سے ان لوگوں کو فتح حاصل ہوگی پھر ایک دوسری جماعت جہاد پر بھیجی جائے گی تو لوگ کہیں گے کیا ان میں کوئی ہے کہ جس نے نبی ﷺ کے صحابہ کو دیکھا ہو تو پھر اس کی وجہ سے ان کو فتح حاصل ہوگی پھر ایک تیسری جماعت جہاد پر بھیجی جائے گی تو کہا جائے گا کہ دیکھو کیا تمہارے اندر کوئی ایسا آدمی ہے کہ جس نے نبی ﷺ کے صحابہ کو دیکھنے والوں (یعنی تبع تابعین) کو دیکھا ہے اور ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں ایک چوتھی جماعت جہاد پر بھیجی جائے گی تو ان سے کہا جائے گا کہ دیکھو کیا تمہارے اندر کوئی ایسا آدمی بھی ہے کہ جس نے نبی ﷺ کے صحابہ کو دیکھنے والوں کے دیکھنے والوں (یعنی تبع تابعی کو دیکھنے والا) کو دیکھا ہے تو ان میں سے ایک ایسا آدمی بھی ہوگا جس کی وجہ سے ان کو فتح حاصل ہوگی۔

【532】

صحابہ کرام (رض)، پھر تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے فضلیت کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، ہناد بن سری ابوالاحوص منصور ابراہیم، بن یزید عبیدہ سلیمانی حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت کے بہترین لوگ اس زمانے کے ہوں گے جو مجھ سے متصل بعد میں آئیں گے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے اور پھر وہ لوگ کے جو ان کے بعد آئیں گے پر ایک ایسی قوم آئے گی کہ جن کی گواہی قسم سے پہلے اور قسم گواہی سے پہلے ہوگی نہاد نے اپنی روایت میں قرن یعنی زمانے کا ذکر نہیں کیا قتیبہ نے " اقوام " کا لفظ کہا ہے۔

【533】

صحابہ کرام (رض)، پھر تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے فضلیت کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ اسحاق بن ابراہیم، حنظلی اسحاق عثمان جریر، منصور ابراہیم، عبیدہ حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے بہترین لوگ کون سے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا میرے زمانے کے لوگ اور پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے اور پھر وہ لوگ کہ جو ان کے بعد آئیں گے اور پھر ایک ایسی قوم آئے گی جن میں سے کچھ کی گواہی قسم سے پہلے اور قسم گواہی سے پہلے ہوگی۔

【534】

صحابہ کرام (رض)، پھر تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے فضلیت کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، حضرت منصور ابوالاحوص اور جریر کی سند کے ساتھ روایت نقل کرتے ہیں لیکن ان دونوں روایتوں میں یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا۔

【535】

صحابہ کرام (رض)، پھر تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے فضلیت کے بیان میں

حسن بن علی حلوانی، ازہر بن سعد سمان، ابن عون، ابراہیم، عبیدہ، عبداللہ (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے میں نہیں جانتا کہ آپ ﷺ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا کہ پھر ان لوگوں کے بعد ایسے لوگ ہوں گے جن میں سے کچھ کی گواہی قسم سے پہلے اور کچھ کی قسم گواہی سے پہلے ہوگی۔

【536】

صحابہ کرام (رض)، پھر تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے فضلیت کے بیان میں

یعقوب بن ابراہیم، ہشیم ابی بشر اسماعیل بن سالم ہشیم ابوبشر عبداللہ بن شقیق حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت کے بہترین لوگ اس زمانے کے لوگ ہیں کہ جن میں میں بھیجا گیا ہوں پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے اور اللہ زیادہ جانتا ہے کہ آپ ﷺ نے تیسرے لوگوں کا ذکر کیا یا نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر ایسے لوگ باقی رہ جائیں گے کہ جو موٹا ہونے کو پسند کریں گے اور بغیر گواہی مانگے گواہی دیں گے۔

【537】

صحابہ کرام (رض)، پھر تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے فضلیت کے بیان میں

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، ابوبکر بن نافع غندر شعبہ، حجاج بن شاعر، ابو ولید ابوعوانہ، حضرت ابوبشر (رض) سے اسی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے سوائے اس کے کہ حضرت شعبہ (رض) کی روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ آپ ﷺ نے دوسرے نمبر پر فرمایا یا تیسرے نمبر پر فرمایا۔

【538】

صحابہ کرام (رض)، پھر تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے فضلیت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار غندر شعبہ، حضرت عمران بن حصین بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ حضرت عمران (رض) فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے زمانہ کے لوگوں کے بعد دو نمبر ذکر فرمائے یا تین نمبر پھر کہ ان کے بعد ایک ایسی قوم کے لوگ آئیں گے جو بغیر گواہی مانگے کے گواہی دیں گے اور خیانت کریں گے اور انہیں امانت دار نہیں سمجھا جائے گا اور منتیں مانیں گے لیکن ان کو پورا نہیں کریں گے اور ان لوگوں میں موٹاپا ظاہر ہوگا۔

【539】

صحابہ کرام (رض)، پھر تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے فضلیت کے بیان میں

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید عبدالرحمن بن بشر عبدی بہز محمد بن رافع شبابہ، حضرت شعبہ (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے اور ان ساری روایات میں یہ ہے کہ میں نہیں جانتا کہ آپ ﷺ نے اپنے زمانے کے بعد دو زمانوں یا تین زمانوں کا ذکر فرمایا اور شبابہ کی روایت میں ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے زہدم بن مضرب سے سنا اور وہ میرے پاس گھوڑے پر اپنی کسی ضرورت کے لئے آئے تھے انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے سنا اور یحییٰ اور شبابہ کی روایت میں (يَنْذُرُونَ وَلَا يَفُونَ ) کے الفاظ ہیں اور بہز کی روایت میں يُوفُونَ ہے جیسا کہ ابن جعفر نے کہا۔

【540】

صحابہ کرام (رض)، پھر تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے فضلیت کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، محمد بن عبدالملک اموی ابوعوانہ، محمد بن مثنی، ابن بشار معاذ بن ہشام ابوقتادہ، زرارہ بن اوفی حضرت عمران بن حصین نبی ﷺ سے یہی حدیث نقل کرتے ہیں اس امت کے بہترین لوگ اس زمانے کے ہیں جس زمانے میں مجھے بھیجا گیا ہے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے ابوعوانہ کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ آپ ﷺ نے تیسرے زمانے کا بھی ذکر فرمایا نہیں اور حضرت ہشام عن قتادہ کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ وہ لوگ قسمیں کھائیں گے حالانکہ ان سے قسم نہیں مانگی جائے گی۔

【541】

صحابہ کرام (رض)، پھر تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے فضلیت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شبیہ شجاع بن مخلد ابوبکر حسین بن علی جعفی زئدہ سدی عبداللہ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ لوگوں میں سے سب سے بہترین لوگ کون سے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اس زمانے کے لوگ کہ جس میں میں ہوں پھر دوسرے زمانے کے لوگ پھر تیسرے زمانے کے لوگ۔

【542】

نبی ﷺ کے اس فرمان مبارک کے بیان میں کہ جو صحابہ (رض) اب موجود ہیں سو سال کے بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔

محمد بن رافع عبد بن حمید، محمد بن رافع عبد عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم بن عبداللہ ابوبکر بن سلیمان حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات مبارک کے آخر میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی تو جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو کھڑے ہوئے اور آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے اپنی اس رات کو دیکھا ہے کیونکہ اب سے سو سال کے بعد زمین والوں میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان مبارک سمجھنے میں لغزش ہوگئی ہے حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان مبارک کا مطلب یہ تھا کہ اس روئے زمین پر آج کے دن تک جو انسان موجود ہے ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا اور یہ زمانہ ختم ہوجائے گا۔

【543】

نبی ﷺ کے اس فرمان مبارک کے بیان میں کہ جو صحابہ (رض) اب موجود ہیں سو سال کے بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، ابویمان شعیب و لیث، عبدالرحمن بن خالد بن مسافر، حضرت زہری (رض) سے معمر کی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث مبارکہ کی طرح روایت نقل کی ہے۔

【544】

نبی ﷺ کے اس فرمان مبارک کے بیان میں کہ جو صحابہ (رض) اب موجود ہیں سو سال کے بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔

ہارون بن عبداللہ حجاج بن شاعر، حجاج ابن محمد ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا آپ ﷺ اپنی وفات سے ایک ماہ پہلے فرما رہے تھے کہ تم لوگ مجھ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہو لیکن قیامت کا علم تو صرف اللہ عزوجل کے پاس ہے اور ہاں میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس زمانے میں زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں ہے کہ اس پر سو سال کا عرضہ گزر جائے اور پھر وہ زندہ رہے (یعنی سرزمین عرب پر آج موجود کوئی جاندار سو سال بعد باقی نہیں رہے گا) ۔

【545】

نبی ﷺ کے اس فرمان مبارک کے بیان میں کہ جو صحابہ (رض) اب موجود ہیں سو سال کے بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔

محمد بن حاتم، محمد بن بکر، حضرت ابن جریج (رض) اس سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں لیکن اس روایت میں آپ ﷺ کی وفات سے ایک ماہ پہلے کا ذکر نہیں ہے۔

【546】

نبی ﷺ کے اس فرمان مبارک کے بیان میں کہ جو صحابہ (رض) اب موجود ہیں سو سال کے بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔

یحییٰ بن حبیب، محمد بن عبد اعلی معتمر ابن حبیب معتمر بن سلیمان ابونضرہ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنی وفات سے تقریبا ایک ماہ قبل فرمایا اس وقت کوئی انسان بھی ایسا نہیں ہے کہ ایک سو سال گزر جانے کے بعد بھی وہ زندہ رہے صاحب السقایہ حضرت عبدالرحمن نے اور حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث مبارکہ نقل کی ہے اور حضرت عبدالرحمن (رض) نے اس کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ عمریں بہت کم ہوجائیں گی۔

【547】

نبی ﷺ کے اس فرمان مبارک کے بیان میں کہ جو صحابہ (رض) اب موجود ہیں سو سال کے بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، حضرت سلیمان تیمی (رض) سے دونوں سندوں کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【548】

نبی ﷺ کے اس فرمان مبارک کے بیان میں کہ جو صحابہ (رض) اب موجود ہیں سو سال کے بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔

ابن نمیر، ابوخالد داؤد ابوبکر بن ابی شیبہ، سلیمان بن حیان داؤد ابی نضرہ حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ تبوک سے واپس تشریف لائے تو لوگوں نے آپ ﷺ سے قیامت کے بارے میں پوچھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا روئے زمین پر آج جتنے بھی انسان موجود ہیں ان میں سے کسی پر بھی سو سال نہیں گزریں گے۔

【549】

نبی ﷺ کے اس فرمان مبارک کے بیان میں کہ جو صحابہ (رض) اب موجود ہیں سو سال کے بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔

اسحاق بن منصور ابو ولید ابوعوانہ، حصین سالم، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے کہ وہ سو سال تک کو پہنچ جائے حضرت سالم (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے اس چیز کا ذکر حضرت جابر (رض) کے سامنے کیا تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہر وہ انسان ہے کہ جو اس دن پیدا ہوا۔

【550】

صحابہ کرام (رض) کی شان میں گستاخی کرنے کی حرمت کے بیان میں

یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن علاء، یحییٰ ابومعاویہ اعمش ابوصالح حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہ (رض) کو برا نہ کہو میرے صحابہ کو برا نہ کہو اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی آدمی احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے گا تو وہ صحابہ کے ایک مد خیرات کو بھی نہیں پہنچ سکے گا اور نہ ہی صحابہ کے آدھے مد کا صدقہ کرنے کو پہنچ سکتا ہے۔

【551】

صحابہ کرام (رض) کی شان میں گستاخی کرنے کی حرمت کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ جریر، اعمش، ابوصالح حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کے درمیان کچھ جھگڑا ہوگیا حضرت خالد نے حضرت عبدالرحمن کو برا بھلا کہا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے کسی صحابی کو برا نہ کہو کیونکہ تم میں سے کوئی آدمی اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو وہ میرے صحابی کو دو مد یا آدھے مد کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتا۔

【552】

صحابہ کرام (رض) کی شان میں گستاخی کرنے کی حرمت کے بیان میں

ابوسعید اشج ابوکریب وکیع، اعمش، عبیداللہ بن معاذ ابی ابن مثنی ابن بشار ابن ابی عدی، شعبہ، حضرت اعمش (رض) جریر اور ابومعاویہ (رض) کی سند کے ساتھ مذکورہ دونوں حدیثوں کی طرح روایت نقل کی گئی ہے اور شعبہ اور وکیع کی روایت میں حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت خالد بن ولید (رض) کا ذکر نہیں ہے۔

【553】

حضرت اویس قرنی (رح) کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، ہاشم بن قاسم سلیمان بن مغیرہ سعید جریر، ابی نضرہ، حضرت اسیر بن جابر (رض) سے روایت ہے کہ کوفہ کے لوگ ایک وفد لے کر حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آئے اس وفد میں ایک ایسا آدمی بھی تھا کہ جو حضرت اویس قرنی (رح) کے ساتھ تمسخر کیا کرتا تھا تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا یہاں کوئی قرنی ہے تو وہی آدمی (حضرت اویس قرنی (رح) ) آئے تو حضرت عمر (رض) فرمانے لگے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ تمہارے پاس یمن سے ایک آدمی آئے گا جسے اویس کہا جاتا ہے۔ وہ یمن کو اپنی والدہ کے سوا نہیں چھوڑے گا اسے برص کی بیماری ہوگی۔ وہ اللہ سے دعا کرے گا تو اللہ اس سے اس بیماری کو دور فرمادے گا سوائے ایک دینار یا ایک درہم کے ( یعنی دینار یا درہم کے بقدر برص کی بیماری کے نشان باقی رہ جائے گا) تو تم میں سے جو کوئی بھی اس سے ملاقات کرے تو وہ اپنے لئے ان سے مغفرت کی دعا کرائے۔

【554】

حضرت اویس قرنی (رح) کے فضائل کے بیان میں

زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، عفان بن مسلم حماد بن سلمہ حضرت سعید بن جریری (رض) سے اس سند کے ساتھ حضرت عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ تابعین میں سے سب سے بہترین وہ آدمی ہوگا جسے اویس کہا جائے گا اس کی ایک والدہ ہوگی اور اس کے جسم پر سفیدی کا ایک نشان ہوگا تو تمہیں چاہئے کہ اس سے اپنے لئے دعائے مغفرت کروانا۔

【555】

حضرت اویس قرنی (رح) کے فضائل کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم حنظلی، محمد بن بشار، اسحاق ابن مثنی معاذ بن ہشام ابوقتادہ، زراوہ بن اوفی، حضرت اسیر بن جابر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس جب بھی یمن سے کوئی جماعت آتی تو حضرت عمر (رض) ان سے پوچھتے کہ کیا تم میں کوئی اویس بن عامر ہے یہاں تک کہ ایک جماعت میں حضرت اویس آگئے تو حضرت عمر (رض) نے پوچھا کیا آپ اویس بن عامر ہیں ؟ انہوں نے کہا جی ہاں حضرت عمر (رض) نے فرمایا کیا آپ قبیلہ مراد سے اور قرن سے ہو ؟ انہوں نے کہا جی ہاں حضرت عمر (رض) نے فرمایا کیا آپ کو برص کی بیماری تھی جو کہ ایک درہم جگہ کے علاوہ ساری ٹھیک ہوگئی انہوں نے فرمایا جی ہاں حضرت عمر (رض) نے فرمایا کیا آپ کی والدہ ہیں انہوں نے کہا جی ہاں حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ تمہارے پاس حضرت اویس بن عامر یمن کی ایک جماعت کے ساتھ آئیں گے جو کہ قبیلہ مراد اور علاقہ قرن سے ہوں گے ان کو برص کی بیماری ہوگی پھر ایک درہم جگہ کے علاوہ صحیح ہوجائیں گے ان کی والدہ ہوگی اور وہ اپنی والدہ کے فرمانبردار ہوں گے اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرما دے گا اگر تم سے ہو سکے تو ان سے اپنے لئے دعائے مغفرت کروانا۔ تو آپ میرے لئے مغفرت کی دعا فرما دیں۔ حضرت اویس قرنی (رح) نے حضرت عمر (رض) کے لئے دعائے مغفرت کردی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اب آپ کہاں جانا چاہتے ہیں ؟ حضرت اویس (رح) فرمانے لگے کوفہ۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کیا میں وہاں کے حکام کو لکھ دوں۔ حضرت اویس (رح) فرمانے لگے کہ مجھے مسکین لوگوں میں رہنا زیادہ پسندیدہ ہے۔ پھر جب آئندہ سال آیا تو کوفہ کے سرداروں میں سے ایک آدمی حج کے لئے آیا تو حضرت عمر (رض) نے ان سے حضرت اویس (رح) کے بارے میں پوچھا تو وہ آدمی کہنے لگا کہ میں حضرت اویس کو ایسی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ ان کا گھر ٹوٹا پھوٹا اور ان کے پاس نہایت کم سامان تھا حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ تمہارے پاس یمن کی ایک جماعت کے ساتھ حضرت اویس بن عامر آئیں گے جو کہ قبیلہ مراد اور علاقہ قرن سے ہوں گے ان کو برص کی بیماری ہوگی جس سے سوائے ایک درہم کی جگہ کے ٹھیک ہوجائیں گے ان کی والدہ ہوں گی وہ اپنی والدہ کے فرمانبردار ہوں گے اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرما دے اگر آپ سے ہو سکے تو ان سے اپنے لئے دعائے مغفرت کروانا تو اس آدمی نے اسی طرح کیا کہ حضرت اویس (رح) کی خدمت میں آیا اور ان سے کہا : میرے لئے دعائے مغفرت کردیں۔ حضرت اویس (رح) نے فرمایا تم ایک نیک سفر سے واپس آئے ہو تم میرے لئے مغفرت کی دعا کرو۔ اس آدمی نے کہا کہ آپ میرے لئے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ حضرت اویس (رح) پھر فرمانے لگے کہ تم ایک نیک سفر سے واپس آئے ہو، تم میرے لئے دعائے مغفرت کرو۔ حضرت ایوس (رح) نے اس آدمی سے پوچھا کہ کیا تم حضرت سے ملے تھے ؟ اس آدمی نے کہا ہاں۔ تو پھر حضرت اویس (رح) نے اس آدمی کے لئے دعائے مغفرت فرما دی۔ پھر لوگ حضرت اویس قرنی (رح) کا مقام سمجھے۔ راوی اسیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت اویس کو ایک چادر اوڑھا دی تھی تو جب بھی کوئی آدمی حضرت اویس کو دیکھتا تو کہتا کہ حضرت اویس کے پاس یہ چادر کہاں سے آگئی ؟

【556】

مصروالوں کو نبی ﷺ کی وصیت کے بیان میں

ابوطاہر ابن وہب، حرملہ ہارون بن سعید ایلی ابن وہب، حرملہ ابن عمران تجیبی عبدالرحمن بن شماسہ مہری حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عنقریب تم ایک ایسا علاقہ فتح کرو گے کہ جس میں قیراط کا رواج ہوگا تو تم اس علاقے والوں سے اچھا سلوک کرنا کیونکہ ان لوگوں کا تم پر حق بھی ہے اور رشتہ بھی اور جب تم وہاں دو آدمیوں کے درمیان ایک اینٹ جگہ کے لئے لڑتے ہوئے دیکھو تو پھر وہاں سے نکل جانا۔ حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ ربیعہ اور عبدالرحمن بن سرجیل ایک اینٹ کی جگہ کی خاطر لڑ رہے ہیں تو پھر وہ اس جگہ سے نکل آئے۔

【557】

مصروالوں کو نبی ﷺ کی وصیت کے بیان میں

زہیر بن حرب، عبیداللہ بن سعید وہب بن جریر، حرملہ مصری عبدالرحمن بن شماشہ ابی بصرہ حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عنقریب تم لوگ مصر کو فتح کرو گے وہ ایسی زمین ہے کہ جس میں قیراط کا لفظ بولا جاتا ہے تو جب تم مصر میں داخل ہو تو وہاں کے رہنے والوں سے اچھا سلوک کرنا کیونکہ ان کا تم پر حق بھی ہے اور رشتہ بھی۔ یا آپ ﷺ نے فرمایا ان کا حق بھی ہے اور دامادی کا رشتہ بھی تو جب تو دو آدمیوں کو دیکھے کہ وہ ایک اینٹ کی جگہ میں جھگڑ رہے ہیں تو وہاں سے نکل جانا ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن بن شرجیل بن حسنہ اور اس کے بھائی ربیعہ کو ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑتے ہوئے دیکھا تو میں وہاں سے نکل آیا۔

【558】

عمان والوں کی فضلیت کے بیان میں

سعید بن منصور، مہدی بن میمون ابی وازع جابر، بن عمرو راسبی حضرت ابوبرزہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو عرب کے قبائل میں سے کسی قبیلے کی طرف بھیجا تو اس قبیلے والوں نے اس آدمی کو گالیاں دیں اور انہوں نے اسے مارا تو وہ آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور اس نے آپ ﷺ کو خبر دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تو عمان والوں کے پاس جاتا تو وہ تجھے نہ تو گالیاں دیتے اور نہ ہی تجھے مارتے۔

【559】

قبیلہ ثقیف کے کذاب اور اس کے ظالم کے ذکر کے بیان میں

عقبہ بن مکرم، یعقوب ابن اسحاق، حضرمی، اسود بن شیبان، عقبہ حضرت ابونوفل (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زیبر (رض) کو مدینہ کی ایک گھاٹی پر (سولی لٹکتے ہوئے) دیکھا۔ حضرت ابو نوفل (رض) کہتے ہیں کہ قریشی اور دوسرے لوگ بھی اس طرف سے گزرتے تھے یہاں تک کہ جب حضرت ابن عمر (رض) اس طرف سے گزرے تو وہاں پر کھڑے ہو کر فرمایا اے ابوخبیب تجھ پر سلامتی ہو۔ اے ابو خبیب تجھ پر سلامتی ہو۔ اے ابو خبیب تجھ پر سلامتی ہو۔ اللہ کی قسم میں آپ کو اس سے (یعنی خدمت سے) پہلے ہی روکتا تھا۔ اللہ کی قسم میں آپ کو اس سے پہلے ہی روکتا تھا۔ اللہ کی قسم میں آپ کی طرح روزہ دار شب زندہ دار اور صلہ رحم کسی کو نہیں جانتا۔ اللہ کی قسم ! (دشمن کی نظر میں) آپ کا جو گروہ برا تھا وہ بہت اچھا گروہ تھا۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر (رض) چلے آئے۔ حجاج کو حضرت عبداللہ (رض) کے یہاں کھڑے ہونے اور کلام کرنے کی اطلاع پہنچی تو حجاج نے حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کی نعش اس گھاٹی سے اتروا کر یہود کے قبرستان میں پھنکوا دی۔ پھر اس نے حضرت عبداللہ کی والدہ حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) کی طرف آدمی بھیج کر ان کو بلوایا حضرت اسماء (رض) نے آنے سے انکار کردیا۔ حجاج نے دوبارہ بلوانے بھیجا اور کہنے لگے کہ اگر کوئی ہے تو (ٹھیک ہے) ورنہ میں تیری طرف ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا کہ جو تیرے بالوں کو کھنیچتا ہوا تجھے میرے پاس لے آئے گا۔ حضرت اسماء (رض) نے پھر انکار کردیا اور فرمانے لگیں اللہ کی قسم میں تیرے پاس نہیں آؤں گی چاہے تو میری طرف ایسے آدمی کو بھیجے کہ وہ میرے بالوں کو کھینچتا ہوا لائے۔ راوی کہتے ہیں کہ بالآخر حجاج کہنے لگا کہ میری جوتیاں لاؤ وہ جوتیاں پہن کر اکڑتا ہوا حضرت اسماء کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ کیا تو نے دیکھا ہے کہ میں نے اللہ کے دشمن کے ساتھ کیا کیا ہے ؟ حضرت اسماء نے فرمایا میں نے دیکھا ہے کہ تو نے اس کی دنیا خراب کردی ہے اور اس نے تیری آخرت خراب کردی ہے۔ (حضرت اسماء (رض) فرماتی ہیں) مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تو نے عبداللہ کو (طنزیہ انداز میں) دو کمر بندوں والی کا بیٹا کہا ہے ؟ اللہ کی قسم میں دو کمر بندوں والی ہوں۔ ایک کمر بند سے تو میں نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) کو کھانا (ہجرت کے موقع پر) باندھا تھا اور دوسرا کمر بند وہی تھا کہ جس کی عورت کو ضرورت ہوتی ہے اور (اے حجاج) سن رسول اللہ ﷺ نے ہم سے ایک حدیث بیان فرمائی تھی (آپ ﷺ نے فرمایا) قبیلہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ظالم ہوگا کہ کذاب کو تو ہم نے دیکھ لیا (یعنی مختار بن ابی عبید ثقفی) اور ظالم میں تیرے علاوہ کسی کو نہیں سمجھتی۔ راوی کہتے ہیں کہ حجاج (یہ سن کر) اٹھ کھڑا ہوا اور حضرت اسماء (رض) کو کوئی جواب نہیں دیا۔

【560】

فارس والوں کی فضلیت کے بیان میں

محمد بن رافع، عبد بن حمید، عبد ابن رافع، عبدالرزاق، معمر، جعفر جزری، یزید بن اصم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر دین ثریا پر بھی ہو تو پھر بھی فارس کا ایک آدمی اسے لے جاتا یا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا فارس کی اولاد میں سے کوئی آدمی اسے لے لیتا۔

【561】

فارس والوں کی فضلیت کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز ابن محمد ثور، ابی غیث، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران آپ ﷺ پر سورت الجمعہ نازل ہوئی تو جب آپ ﷺ نے یہ آیت کریمہ پڑھی (وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ) 62 ۔ الجمعہ : 3) یعنی پاک ہے وہ ذات کہ جس نے عرب اور دوسری قوموں کی طرف اپنے رسولوں کو بھیجا ان لوگوں میں سے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ (یہ عرب کے علاوہ دوسرے لوگوں سے کون مراد ہیں ؟ ) نبی ﷺ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ اس آدمی نے آپ سے ایک مرتبہ یا دو مرتبہ یا تین مرتبہ پوچھا حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم میں حضرت سلمان فارسی (رض) بھی تھے پھر نبی ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک حضرت سلمان (رض) پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا پر بھی ہوتا تو بھی ان کی قوم میں سے کچھ لوگ وہاں تک پہنچ جاتے۔

【562】

نبی ﷺ کے اس فرمان کے بیان میں کہ لوگوں کی مثال اونٹوں کی طرح ہے کہ سو میں مجھے ایک بھی سواری کے قابل نہیں ملتا۔

محمد بن رافع عبد بن حمید محمد ابن رافع عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم لوگوں کو سو اونٹوں کی طرح پاؤ گے کہ ان میں کوئی بھی سوار ہونے کے قابل اونٹ نہ پائے۔