1. مقدمہ مسلم

【1】

ثقات سے روایت کرنے کے وجوب اور جھوٹے لوگوں کی روایات کے ترک میں

سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ اور تمام انبیاء اور رسولوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ بعد حمد وصلوہ امام مسلم اپنے شاگرد ابواسحاق کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے کہ تو نے اپنے پروردگار ہی کی توفیق سے یہ ذکر کیا تھا کہ دین کے اصول اور اس کے احکام سے متعلق رسول اللہ ﷺ سے جو احادیث مروی ہیں ان تمام احادیث کی تلاش و جستجو کی جائے اور وہ احادیث جو ثواب عذاب اور رغبت اور خوف وغیرہ کے متعلق مروی ہیں یعنی فضائل و اخلاق کے متعلق حدیثیں اور ان کے سوا اور باتوں کی اسناد کے ساتھ جن کی رو سے وہ حدیثیں نقل کی گئی ہیں اور جن کو علماء حدیث نے قبول کیا ہے اللہ تعالیٰ تم کو ہدایت دے کہ تم سے اس بات کا ارادہ ظاہر کیا کہ اس قسم کی تمام احادیث کا ایک مجموعہ تیار کیا جائے اور تم نے یہ سوال کیا تھا کہ میں ان سب حدیثوں کو اختصار کے ساتھ تمہارے لئے جمع کروں اور اس میں تکرار نہ ہو اس لئے کہ تکرار سے مقاصد یعنی احادیث میں غور وخوض کرنے اور ان سے مسائل کے نکالنے میں رکاوٹ پیدا ہوگی اللہ تعالیٰ تمہیں عزت عطا فرمائے تم نے جس بات کا سوال کیا جب میں نے اس پر غور کیا اور اس کے انجام کو دیکھا اللہ کرے اس کا انجام اچھا ہو تو سب سے پہلے دوسروں کے علاوہ مجھے خود فائدہ ہوگا بہت سے اسباب سے پہلے دوسروں کے علاوہ مجھے خود فائدہ ہوگا بہت سے اسباب کی وجہ سے جن کا بیان کرنا طویل ہے مگر اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح سے تھوڑی سی احادیث کو یاد رکھنا مضبوطی اور صحت کے ساتھ آسان ہے خاص کر ان لوگوں کے لئے جنہیں صحیح اور غیر صحیح احادیث میں جس وقت تک دوسرے لوگ واقف نہ کرائیں تمیز ہی حاصل نہیں ہوسکتی پس جب معاملہ اس میں ایسا ہی ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا تو ارادہ کرنا کم صحیح روایات کی طرف زیادہ ضعیف روایات سے افضل و اولی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ بہت سی روایات کو اس شان سے بیان کرنا اور مکررات کو جمع کرنا خاص خاص لوگوں کے لئے نفع بخش ہے جن کو علم حدیث میں کچھ حصہ اور بیداری عطاء کی گئی ہے اور حدیث کے اسباب وعلل سے معرفت حاصل ہے پس اگر اللہ نے چاہا تو ایسا شخص جس کو علم حدیث سے کچھ علم دیا گیا ہے وہ کثرت کے ساتھ جمع شدہ احادیث سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے بہرحال عام لوگوں میں سے جو صاحب واقفیت و معرفت ہیں کے برعکس ہیں ان کے لئے کثرت احادیث کا کوئی فائدہ نہیں اور تحقیق وہ کم احادیث کی معرفت سے عاجز آگئے ہیں۔ پھر اگر اللہ نے چاہا تو ہم شروع ہوں گے نکالنے میں ان احادیث کے جس کا تم نے سوال کیا ہے اور تالیف اس کی ایک شرط پر عنقریب میں اس کو تمہارے لئے ذکر کروں گا اور وہ شرط یہ ہے کہ ہم ارادہ کرتے ہیں ان تمام احادیث کا جو سنداً ( متصلاً ) نبی کریم ﷺ سے مروی ہیں پس ہم ان کو تقسیم کرتے ہیں تین اقسام پر اور راویوں کے تین طبقات ثقہ متوسطین ضعفاء پر بغیر تکرار کے ہاں یہ کہ ایسی جگہ میں حدیث آجائے کہ مستغنی نہ کیا جائے اس حدیث کے تکرار سے اس میں معنا زیادتی ہو یا اسناد واقع ہو دوسری اسناد کے پہلو میں کوئی علت (کسی علت کی وجہ اور ضرورت کے پیش نظر تکرار ہوگا ) ۔ کیونکہ ایسے معنی کی زیادتی حدیث میں جس کے احتیاج ہو تو وہ مثل ایک پوری حدیث کے ہے پس ضروری ہوا اس حدیث کا اعادہ کرنا جس میں وہ زیادتی موجود ہو یا یہ کہ جدا کیا جائے وہ معنی پوری حدیث سے اختصار کے ساتھ جب ممکن ہو لیکن اس کا جدا کرنا کبھی مشکل ہوتا ہے اس پوری حدیث سے تو اس خاص ضرورت و مصلحت کے تحت ہم اس پوری حدیث کا اعادہ کردیتے ہیں لیکن اگر تکرار سے بچنے کی کوئی صورت نکل سکے تو ہم ہرگز اعادہ نہیں کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ قسم اول میں ہم ان احادیث مبارکہ کو بیان کریں گے جن کی اسانید دوسری احادیث کی اسانید اور عیوب ونقائص سے محفوظ ہوں گی اور ان کے راوی زیادہ معتبر اور قوی وثقہ ہوں گے حدیث میں کیونکہ نہ تو ان کی روایت میں سخت اختلاف ہے اور نہ فاحش اختلاط جیسا کہ کثیر محدیثن کی کیفیت معلوم ہوگئی ہے اور یہ بات ان احادیث کی روایت سے پائے ثبوت تک پہنچ چکی ہے پھر ہم اس قسم کے لوگوں کی مرویات کا ذکر کرنے کے بعد ایسی احادیث لائیں گے جن کی اسانید میں وہ لوگ ہوں جو اس درجہ اتقان اور حفظ سے موصوف نہ ہوں جو اوپر ذکر ہوا لیکن تقوی پرہیزگاری اور صداقت و امانت میں ان کا مرتبہ ان سے کم نہ ہوگا کیونکہ ان کا عیب ڈھکا ہوا ہے اور ان کی روایت بھی محدیثن کے ہاں مقبول ہے جیسا کہ عطا بن سائب اور یزید بن ابی زیاد لیث بن ابی سلیم اور ان کی مثل حاملیں آثار اور نقول احادیث اگرچہ اہل علم میں مشہور اور مستور ہیں محدیثن کے پاس اتقان اور استقامت روایت میں ان سے بڑھ کر ہے حال اور مرتبہ میں اہل علم کے ہاں بلند درجہ اور عمدہ خصلت ان کو فضیلت والوں میں سے کردیتی ہے کیا تم نہیں دیکھتے جب تم ان تینوں کا جن کا ہم نے نام لیا عطا یزید اور لیث کا منصور بن معتمر اور سلیمان اعمش اور اسماعیل بن خالد سے مواز نہ کرو حدیث کے اتقان اور استقامت میں تو تم ان کو بالکل ان سے جدا اور الگ پاؤگے ہرگز ان کے قریب نہ ہوں گے اس بات میں محدیثن کے ہاں بالکل شک نہیں ہے اس لئے کہ ان کے ہاں ثابت ہوگیا ہے۔ صحت حفظ منصور اور اعمش اور اسماعیل کا اور ان کا اتقان حدیث میں نہیں پہچان حاصل کرسکے ان جیسی عطاء یزید اور لیث سے اور ایسی ہی کیفیت ہے جب تو ہم عصروں کے درمیان مواز نہ کرے جیسے ابن عوف اور ایوب سختیانی کا عوف بن ابی جمیلہ اور اشعث حمرانی کے ساتھ یہ دونوں مصاحب اور ساتھ تھے حسن بصری اور ابن سیرین کے جیسا کہ ابن عوف اور ایوب سختیانی ان کے ساتھی ہیں ہاں بیشک ان دونوں میں بڑا فرق ہے ابن عوف اور ایوب کا درجہ اعلی ہے کمال فضل اور صحت روایت میں اگرچہ عوف اور اشعث بھی اہل علم کے ہاں سچے اور امانت دار ہیں لیکن اصل حال درجے کے اعتبار سے ہے۔ محدیثن کے ہاں وہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہم نے اس لئے یہ مثالیں دی ہیں کہ جو لوگ محدثین کے اصول اور تنقیدی طریق کار کو نہیں جانتے وہ آسانی کے ساتھ راویوں کے مقام و مرتبہ کی پہچان حاصل کرسکے۔ تاکہ بلند مرتبہ راوی کو کم اور کم مرتبہ محدث کو اس سے زیادہ مرتبہ نہ دیا جائے اور ہر محدث کو اس کے منصب کے مطابق مقام و مرتبہ میسر آئے اور تحقیق سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ذکر کی گئی ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ ہم لوگوں سے ان کے مرتبہ اور منصب کے مطابق سلوک کریں اور اس کی تائید قرآن سے بھی ہوتی ہے اللہ عزوجل کا فرمان ہے وفوق کل ذی علم علیم۔ ہر عالم سے بڑھ کر علم والا ہوتا ہے۔ انہی طریقوں پر جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں جمع کرتے ہیں جو تم نے سوال کیا رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں سے ہاں وہ لوگ جو اکثر یا تمام محدثین کے نزدیک مطعون ہیں جیسے عبداللہ بن مسور ابوجعفر مدائنی عمرو بن خالد عبدالقدوس شامی محمد بن سعید مصلوب غیاث بن ابراہیم سلیمان بن عمرو ابی داؤد نخعی اور ان جیسے دوسرے لوگ جن پر وضع حدیث کی تہمت ہے وہ ازخود احادیث بنانے میں بدنام ہیں اسی طرح وہ لوگ بھی جن کی اکثر احادیث منکر ہوتی ہیں یا غلط روایات تو ایسے تمام لوگوں کی روایات کو ہم اپنی کتاب میں جمع نہیں کریں گے۔ اصطلاح اصول حدیث میں منکر اس شخص کی حدیث کو کہتے ہیں جو ثقہ اور کامل الحفظ راویوں کی روایت کی خلاف روایت کرے یا ان احادیث کی کسی موافقت نہ ہو پس جب اس کی احادیث میں سے اکثر اسی طرح ہوں تو وہ متروک الحدیث ہوگا اور اس کی مرویات محدثین کے نزدیک قابل قبول اور قابل عمل نہیں ہوتیں اس قسم کے محدثین میں سے عبداللہ بن محرر یحییٰ بن ابی انیسہ جراح بن منہال ابوالعطوف اور عباد بن کثیر اور حسین بن عبداللہ بن ضمیرہ اور عمر بن صہبان وغیرہ اور ان کی مثل دوسرے حضرات منکر حدیث روایت کرنے والے ہیں پس ہم ان لوگوں کی روایات نہیں لاتے اور نہ ہی ان میں مشغول ہوتے ہیں کیونکہ اہل علم کا حکم ہے اور جو ان کے مذہب سے معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ جو راوی اپنی روایت میں متفرد ہو لیکن اس کی بعض روایات کو بعض دوسرے ثقہ اور حفاظ راویوں نے بھی روایت کیا ہو اور کسی حدیث میں اس کی موافقت کی ہو جب یہ شرط پائی جائے پھر اس کے بعد وہ متفرد راوی اپنی روایت میں کچھ الفاظ کی زیادتی کرتا ہے جن کو اس کے دوسرے معاصرین نے روایت نہیں کیا تو اس کی زیادتی قبول کی جائے گی لیکن اگر تم کسی کو دیکھو کہ وہ زہری جیسے بزرگ شخص سے روایت کرنے کا قصد کرے جس کے شاگرد کثیر تعداد میں حافظ ومتقن ہیں جو اس کی اور دوسروں کی حدیثوں کو روایت کرتے ہیں یا ہشام بن عروہ سے بھی روایت کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ان دونوں محدیثن کی روایات اہل علم کے ہاں بہت مشہور اور پھیلی ہوئی ہیں ان کے شاگردوں نے بھی ان کی اکثر روایات کو بالاتفاق روایت کیا ہے پس اگر کوئی محدث ان مذکورہ بالا دونوں محدثین سے یا ان میں سے کسی ایک سے ایسی روایت کا راوی ہو جس روایت کو ان کے شاگردوں میں سے کسی نے بیان نہ کیا ہے اور یہ راوی ان راویوں میں سے بھی نہیں جو صحیح روایات میں ان کے مشہور شاگردوں کا شریک رہا ہو تو اس قسم کے راوی کی حدیث کو قبول کرنا جائز نہیں اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے۔ ہم نے روایت حدیث کے سلسلہ میں محدثین کے مذہب کو بیان کردیا ہے تاکہ جو لوگ اصول روایت حدیث سے ناواقف ہیں ان کو بھی ابتدائی معلومات حاصل ہوجائیں جن کو توفیق دی جائے لوگوں میں سے اور ہم عنقریب اس کو شرح اور وضاحت سے بیان کریں گے اگر اللہ نے چاہا اس کتاب کے کئے مقامات میں معللہ اخبار کے ذکر کے موقع پر جب وہ اپنے مقامات میں آئیں گی اور جہان شرح کرنا اور وضاحت کرنا مناسب ہوگا۔ اے شاگرد عزیز ! ان تمام مذکورہ بالا باتوں کے بعد اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے اگر ہم برے کا برا عمل نہ دیکھتے جو وہ کر رہے ہیں یعنی وہ محدث صحیح اور مشہور روایت پر اکتفا نہیں کرتا اور وہ اپنے جی میں محدث بنا ہوا ہے ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ ضعیف اور منکر احادیث کو نقل نہ کرے اور صرف انہیں اخبار کو نقل کرے جو صحیح اور مشہور ہیں جن کو معروف ثقہ لوگوں نے سچائی اور امانت کے ساتھ اس معرفت اور اقرار کے بعد روایت کیا ہے ان کی بیان کردہ اکثر روایات جو نامعلوم افراد کی طرف منسوب ہیں منکر اور غیر مقبول ہیں اور ایسے لوگوں سے مروی ہیں جن کی مذمت آئمہ الحدیث میں سے مالک بن انس شعبہ بن حجاج سفیان بن عیینہ یحییٰ بن سعید القطان اور عبدالرحمن بن مہدی وغیر ہم نے کی ہے جب آسان ہوگیا ہم پر تیری خواہش کا پورا کرنا صحیح احادیث کی تمیز اور تحصیل کے ساتھ لیکن اسی وجہ سے جو ہم نے بیان کی کہ لوگ منکر روایات کو ضعیف اور مجہول اسناد سے روایت کرتے ہیں اور عوام کو سناتے ہیں جن میں عیوب کی پہچان کی لیاقت نہیں تو ہمارے لوگوں پر تیرے سوال کو جواب دینا آسان ہوگیا۔

【2】

ثقات سے روایت کرنے کے وجوب اور جھوٹے لوگوں کی روایات کے ترک میں

یاد رکھو یاد رکھو ! اللہ آپ کو توفیق دے ہر ایک محدث پر جو صحیح اور غیر صحیح احادیث میں پہچان رکھتا ہے ثقہ اور غیر ثقہ راویوں کی معرفت رکھتا ہو واجب ہے کہ وہ صرف ایسی روایات ذکر کرے جن کی اسناد صحیح ہوں اور ان کے راویوں میں سے کوئی راوی بھی جھوٹ سے متہم بدعتی اور مخالف سنت نہ ہو ان کا عیب فاش نہ ہوا ہو ہمارے اس قول کی دلیل ایسی لازم ہے کہ اس کا مخالف نہیں وہ اللہ تبارک وتعالی کا قول مؤمنو اگر کوئی بد کر دار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو مبادا کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچادو پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے نیز ارشاد ربانی ہے جو تمہارے پسندیدہ گواہ ہوں نیز ارشاد باری ہے ان لوگوں کو گواہ بناؤ جو عادل ہوں یہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ فاسق کی خبر غیر مقبول ہے اور جو شخص عادل نہ ہو اس کی گواہی مردود ہے حدیث بیان کرنے اور گواہی دینے میں اگرچہ کچھ فرق ہے مگر دونوں ایک بڑے معنی میں مشترک ہیں کیونکہ فاسق کی روایت اسی طرح محدثین کے نزدیک مردود ہے جس طرح عام لوگوں کے نزدیک اس کی گواہی غیر مقبول ہے اور حدیث دلالت کرتی ہے اس بات پر کہ منکر کا روایات بیان کرنا درست نہیں جس طرح قرآن مجید سے خبر فاسق کا غیر معتبر ہونا ثابت ہے اور وہ حدیث وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ سے شہرت کے ساتھ منقول ہے کہ جس نے علم کے باوجود جھوٹی حدیث کو میری طرف منسوب کیا وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔

【3】

رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنے کی سختی کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، منصور، ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ اس نے سنا حضرت علی نے دوران خطبہ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھ پر جھوٹ مت باندھو جو شخص میری طرف جھوٹ منسوب کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔

【4】

رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنے کی سختی کے بیان میں

زہیر بن حرب، اسماعیل بن علیہ، عبدالعزیز بن صہیب، حضرت انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ مجھے تم سے بکثرت احادیث بیان کرنے سے صرف یہ چیز مانع ہے جو رسول اللہ ﷺ نے فرمائی جو شخص عمداً مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔

【5】

رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنے کی سختی کے بیان میں

محمد بن عبید عنبری، ابوعوانہ، ابوحصین، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کرے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔

【6】

رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنے کی سختی کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، سعید بن عبید، حضرت علی بن ربیعہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں مسجد میں آیا اور ان دنوں امیر کوفہ مغیرہ بن شعبہ تھے مغیرہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ مجھ پر جھوٹ ایسا نہیں جیسا کہ کسی اور پر جھوٹ باندھنا جو مجھ پر عمداً جھوٹ باندھتا ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔

【7】

رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنے کی سختی کے بیان میں

علی بن حجرسعدی، علی بن مسہر، محمد بن قیس اسدی، علی بن ربیعہ اسدی، مغیرہ بن شعبہ ایک دوسری سند امام مسلم نے بیان فرمائی ہے کہ حضرت شعبہ نبی کریم ﷺ سے بیان فرماتے ہیں لیکن اس میں إِنَّ کَذِبًا عَلَيَّ لَيْسَ کَکَذِبٍ عَلَی أَحَدٍ کے الفاظ ذکر نہیں کئے۔

【8】

بلا تحقیق ہر سنی ہوئی بات بیان کرنے کی ممانعت کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ عنبری، محمد بن مثنی، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، خبیب بن عبدالرحمن، حفص بن عاصم، حضرت ابوہریرہ (رض) مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کر دے۔

【9】

بلا تحقیق ہر سنی ہوئی بات بیان کرنے کی ممانعت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن حفص، شعبہ، خبیب بن عبدالرحمن، حفص بن عاصم، ابوہریرہ سیدنا ابوہریرہ (رض) اسی روایت کے مثل حدیث بیان کی ہے۔

【10】

بلا تحقیق ہر سنی ہوئی بات بیان کرنے کی ممانعت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ہشیم، سلیمان تیمی، حضرت ابوعثمان نہدی سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا ہر سنی ہوئی بات کو بیان کردینا ہی آدمی کے جھوٹے ہونے کے لئے کافی ہے۔

【11】

بلا تحقیق ہر سنی ہوئی بات بیان کرنے کی ممانعت کے بیان میں

ابوطاہر احمد بن عمرو بن عبداللہ بن عمرو بن سرح، ابن وہب، حضرت امام مالک نے فرمایا جان لے اس بات کو کہ جو شخص ہر سنی ہوئی بات کو بیان کر دے وہ غلطی سے محفوظ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ایسا شخص کبھی مقتدا اور امام بن سکتا ہے اس حال میں کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کردے۔

【12】

بلا تحقیق ہر سنی ہوئی بات بیان کرنے کی ممانعت کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، ابواسحاق، ابوالاحوص، عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ ہر سنی ہوئی بات کو نقل کردینا ہی آدمی کے جھوٹے ہونے کے لئے کافی ہے۔

【13】

بلا تحقیق ہر سنی ہوئی بات بیان کرنے کی ممانعت کے بیان میں

محمد بن مثنی، حضرت عبدالرحمن بن مہدی نے فرمایا ایسا انسان کبھی لائق اقتداء امام نہیں بن سکتا جب تک وہ سنی ہوئی باتوں سے اپنی زبان کو نہیں روکے گا۔

【14】

بلا تحقیق ہر سنی ہوئی بات بیان کرنے کی ممانعت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، عمر بن علی بن مقدم، سفیان بن حسین سے مروی ہے کہ مجھ سے ایاس بن معاویہ نے پوچھا کہ میرا گمان ہے کہ تم قرآن کے حاصل کرنے میں بہت محنت کرتے ہو تو میرے سامنے ایک سورت پڑھو اور اس کی تفسیر بیان کرو تاکہ میں تمہارا علم دیکھو سفیان نے کہا کہ میں نے ایسا ہی کیا ایاس بن معاویہ نے کہا میری بات کو یاد رکھو کہ ناقابل اعتبار احادیث بیان نہ کرنا کیونکہ جس نے شناعت کو اختیار کیا وہ شخص خود بھی اپنی نظر میں حقیر ہوجاتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اس کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔

【15】

بلا تحقیق ہر سنی ہوئی بات بیان کرنے کی ممانعت کے بیان میں

ابوطاہر، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، سیدنا عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ جب تم لوگوں سے ایسی احادیث بیان کروگے جہاں ان کی عقول نہ پہنچ سکیں تو بعض لوگوں کے لئے یہ فتنہ کا باعث بن جائے گی یعنی وہ گمراہ ہوجائیں گے اس لئے ہر شخص سے اس کی عقل کے موافق بات کرنی چاہئے۔

【16】

ضعیف لوگوں سے روایت کرنے کی ممانعت اور روایت کے تحمل میں احتیاط کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، زہیر بن حرب، عبداللہ بن یزید، سعید بن ابی ایوب، ابوہانی، ابوعثمان مسلم بن یسار، حضرت ابوہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میری امت کے اخیر زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو تم سے ایسی احادیث بیان کیا کریں گے جن کو نہ تم اور نہ ہی تمہارے آباؤ اجداد نے اس سے پہلے سنا ہوگا لہذا ان لوگوں سے جس قدر ہو سکے دور رہنا۔

【17】

ضعیف لوگوں سے روایت کرنے کی ممانعت اور روایت کے تحمل میں احتیاط کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، عبداللہ بن حرملہ بن عمران تجیبی، ابن وہب، ابوشریح، شراحیل، مسلم بن یسار، حضرت ابوہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا آخر زمانہ میں جھوٹے دجال لوگ ہوں گے تمہارے پاس ایسی احادیث لائیں گے جن کو نہ تم نے نہ تمہارے آباؤ اجداد نے سنا ہوگا تم ایسے لوگوں سے بچے رہنا مبادا وہ تمہیں گمراہ اور فتنہ میں مبتلا نہ کردیں۔

【18】

ضعیف لوگوں سے روایت کرنے کی ممانعت اور روایت کے تحمل میں احتیاط کے بیان میں

ابوسعید اشج، وکیع، اعمش، مسیب بن رافع، عامر بن عبدہ، حضرت عبداللہ بن مسعود بیان فرماتے ہیں کہ شیطان انسانی شکل و صورت میں قوم کے پاس آکر ان سے کوئی جھوٹی بات کہہ دیتا ہے لوگ منتشر ہوتے ہیں ان میں سے ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے ایسے آدمی سے سنا یہ بات سنی ہے جس کی شکل سے واقف ہوں لیکن اس کا نام نہیں جانتا۔

【19】

ضعیف لوگوں سے روایت کرنے کی ممانعت اور روایت کے تحمل میں احتیاط کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ابن طاؤس، طاؤس، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ سمندر میں بہت سے شیاطیں گرفتار ہیں جن کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے گرفتار کیا ہے قریب ہے کہ ان میں سے کوئی شیطان نکل آئے اور لوگوں کے سامنے قرآن پڑھے۔

【20】

ضعیف لوگوں سے روایت کرنے کی ممانعت اور روایت کے تحمل میں احتیاط کے بیان میں

محمد بن عباد، سعید بن عمر، اشعثی، ابن عیینہ، سعید، سفیان، ہشام، حجیر، حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ بشیر بن کعب عبداللہ بن عباس کے پاس آئے اور ان سے احادیث بیان کیں ابن عباس نے بشیر کو کہا کہ فلاں فلاں حدیث دہراؤ بشیر نے ان احادیث کو دہرایا پھر کچھ اور احادیث بیان کیں ابن عباس نے اس کو کہا کہ فلاں فلاں حدیث کو دوبارہ دہراؤ بشیر نے وہ احادیث پھر دہرا دین اور عرض کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے میری بیان کردہ سب احادیث کی تصدیق کی ہے یا تکذیب کی ہے جن کو آپ نے دہرایا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ہم اس زمانہ میں رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کیا کرتے تھے جب آپ ﷺ پر جھوٹ نہیں باندھا جاتا تھا پھر جب لوگ اچھی اور بری راہ پر چلنے لگے تو ہم نے احادیث بیان کرنا چھوڑ دیں۔

【21】

ضعیف لوگوں سے روایت کرنے کی ممانعت اور روایت کے تحمل میں احتیاط کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ابن طاؤس، طاؤس، حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ہم حدیث یاد کیا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث یاد کی جاتی تھیں لیکن جب تم ہر اچھی اور بری راہ پر چلنے لگے تو اب اعتماد اور اعتبار ختم ہوگیا اور ہم نے اس فن کو چھوڑ دیا۔ ابوایوب، سلیمان بن عبداللہ غیلانی، ابوعامر، عقدی، رباح، قیس بن سعد، حضرت مجاہد بیان فرماتے ہیں کہ بشیر بن کعب عدوی ابن عباس کے پاس آئے اور احادیث بیان کرنا شروع کیں اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے یوں فرمایا لیکن ابن عباس نے نہ اس کی احادیث غور سے سنیں اور نہ ہی اس کی طرف دیکھا بشیر نے عرض کیا اے ابن عباس ! کیا بات ہے کہ میں آپ کے سامنے رسول اللہ ﷺ کی احادیث بیان کر رہا ہوں اور آپ سنتے ہیں نہیں ؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ایک وہ وقت تھا کہ جب ہم کسی سے یہ سنتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو ہماری نگاہیں دفعتا بےاختیار اس کی طرف لگ جاتیں اور غور سے اس کی حدیث سنتے لیکن جب سے لوگوں نے ضعیف اور ہر قسم کی روایات بیان کرنا شروع کردیں تو ہم صرف اسی حدیث کو سن لیتے ہیں جس کو صحیح سمجھتے ہیں۔

【22】

ضعیف لوگوں سے روایت کرنے کی ممانعت اور روایت کے تحمل میں احتیاط کے بیان میں

مجاہد سے روایت ہے کہ بشیر بن کعب عدوی حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے پاس آیا اور اس نے احادیث بیان کرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا : رسول اللہﷺ نے فرمایا ، رسول اللہﷺ نے فرمایا ۔ حضرت ابن عباسؓ ( نے یہ رویہ رکھا کہ ) نہ اس کو دھیان سے سنتے تھے نہ اس کی طرف دیکھتے تھے ۔ وہ کہنے لگا : اے ابن عباس! میرے ساتھ کیا ( معاملہ ) ہے ، مجھے نظر نہیں آتا کہ آپ میری ( بیان کردہ ) حدیث سن رہے ہیں؟ میں آپ کو رسول اللہﷺ سے حدیث سنا رہا ہوں اور آپ سنتے ہی نہیں ۔ حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فرمایا : ایک وقت ایسا تھا کہ جب ہم کسی کو یہ کہتے سنتے : رسول اللہﷺ نے فرمایا تو ہماری نظریں فوراً اس کی طرف اٹھ جاتیں اور ہم کان لگا کر غور سے اس کی بات سنتے ، پھر جب لوگوں نے ( بلا تمیز ) ہر مشکل اور آسان پر سواری ( شروع ) کر دی تو ہم لوگوں سے کوئی حدیث قبول نہ کی سوائے اس ( حدیث ) کے جسے ہم جانتے تھے

【23】

ضعیف لوگوں سے روایت کرنے کی ممانعت اور روایت کے تحمل میں احتیاط کے بیان میں

داؤد بن عمرو ضبی، نافع بن عمر، ابن ابی ملیکہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس کو لکھا کہ میرے پاس کچھ احادیث لکھوا کر پوشیدہ طور پر بھجوادو ابن عباس نے فرمایا لڑکا خیر خواہ دین ہے میں اس کے لئے احادیث کے لکھے ہوئے ذخیرہ میں سے صحیح احادیث کو منتخب کروں گا اور چھپانے کی باتیں چھپالوں گا پھر ابن عباس نے سیدنا علی کے فیصلے منگوائے اور ان میں بعض باتیں لکھنے لگے اور بعضی باتوں کو دیکھ کر فرماتے اللہ کی قسم علی نے یہ فیصلہ نہیں کیا اگر کیا ہے تو وہ بھٹک گئے ہیں یعنی لوگوں نے فیصلہ جات علی میں خلط ملط کردیا ہے۔

【24】

ضعیف لوگوں سے روایت کرنے کی ممانعت اور روایت کے تحمل میں احتیاط کے بیان میں

عمرو ناقد، سفیان بن عیینہ، ہشام، بن حجیر، حضرت طاؤس بیان فرماتے ہیں کہ ابن عباس کے پاس حضرت علی کے فیصلوں کی کتاب لائی گئی تو انہوں نے سب کو مٹا دیا سوائے چند سطور کے سفیان بن عیینہ نے اپنے ہاتھ کی انگلی سے اشارہ کیا۔

【25】

ضعیف لوگوں سے روایت کرنے کی ممانعت اور روایت کے تحمل میں احتیاط کے بیان میں

حسن بن علی حلوانی، یحییٰ بن آدم، ابن ادریس، اعمش، حضرت ابواسحاق فرماتے ہیں کہ جب لوگوں نے ان باتوں کو حضرت علی کے بعد نکالا تو علی کے ساتھیوں میں سے ایک نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان کو تباہ کرے کیسا علم کو بگاڑا۔

【26】

ضعیف لوگوں سے روایت کرنے کی ممانعت اور روایت کے تحمل میں احتیاط کے بیان میں

علی بن خشرم، حضرت ابوبکر بن عیاش فرماتے ہیں کہ میں نے مغیرہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ لوگ حضرت علی (رض) سے جو روایت کرتے ہیں اس کی تصدیق نہ کی جائے سوائے عبداللہ بن مسعود کے ساتھیوں کے۔

【27】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حسن بن ربیع، حماد بن زید، ایوب، ہشام، محمد، ح، فضیل، ہشام، مخلد بن حسین، ہشام، محمد بن سیرین مشہور تابعی نے فرمایا کہ علم حدیث دین ہے تو دیکھ کہ کس شخص سے تم اپنا دین حاصل کر رہے ہو۔

【28】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

ابوجعفر محمد بن صباح، اسماعیل بن زکریا، عاصم احول، حضرت بن سیرین نے فرمایا کہ پہلے لوگ اسناد کی تحقیق نہیں کیا کرتے تھے لیکن جب دین میں بدعات اور فتنے داخل ہوگئے تو لوگوں نے کہا کہ اپنی اپنی سند بیان کرو پس جس حدیث کی سند میں اہلسنت راوی دیکھتے تو ان کی حدیث لے لیتے اور اگر سند میں اہل بدعت راوی دیکھتے تو اس کو چھوڑ دیتے۔

【29】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

اسحاق بن ابراہیم، حنظلی، عیسیٰ ، ابن یونس، اوزاعی، سلیمان بن موسیٰ نے فرمایا کہ میں نے طاؤس سے کہا کہ فلاں شخص نے مجھ سے ایسی ایسی حدیث بیان کی ہے تو انہوں نے کہا کہ اگر تیرا ساتھی ثقہ ہے تو تو اس سے حدیث بیان کر۔

【30】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، مروان بن دمشقی، سعید بن عبدالعزیز، حضرت سلیمان بن موسیٰ نے فرمایا کہ میں نے طاؤس سے کہا کہ فلاں شخص نے مجھ سے ایسی ایسی حدیث بیان کی ہے تو انہوں نے کہا کہ اگر تیرا ساتھی ثقہ ہے تو تو اس سے حدیث بیان کر۔

【31】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

نصر بن علی جہضمی، اصمعی، حضرت ابن ابی الزناد عبداللہ بن ذکوان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے مدینہ میں سو آدمی ایسے پائے جو نیک سیرت تھے مگر انہیں روایت حدیث کا اہل نہیں سمجھا جاتا تھا اور ان سے حدیث نہیں لی جاتی تھی۔

【32】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

محمد عمر مکی، سفیان، ح، ابوبکر بن خلاد باہلی، سفیان بن عیینہ، مسعر، مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے سعد بن ابراہیم سے سنا وہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوائے ثقہ لوگوں (راویوں) کے کسی کی حدیث نقل نہ کرو۔

【33】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

محمد بن عبداللہ قہزاد، حضرت عبداللہ بن عثمان فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک کو فرماتے ہوئے سنا کہ اسناد حدیث امور دین سے ہیں اور اگر اسناد نہ ہوتیں تو آدمی جو چاہتا کہہ دیتا اور عباس بن رزمہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارے اور لوگوں کے درمیان اسناد ستونوں کی طرح ہیں اور ابواسحاق ابراہیم بن عیسیٰ الطالقانی فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے کہا اے ابوعبدالرحمن اس حدیث کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے روایت کی گئی ہے کہ نیکی کے بعد دوسری نیکی یہ ہے کہ تو اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لئے نماز پڑھے اور اپنے روزے کے ساتھ ان کے لئے روزہ رکھے ابن مبارک نے فرمایا کہ یہ حدیث کس کی روایت کردہ ہے ؟ میں نے کہا کہ یہ حدیث شہاب بن خراش سے مروی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو ثقہ ہے پھر انہوں نے کہا کہ انہوں نے کس سے روایت کی ہے میں نے کہا حجاج بن دینار سے انہوں نے فرمایا کہ وہ بھی ثقہ ہے تو انہوں نے فرمایا کہ اس نے کس سے روایت کی ہے میں نے کہا کہ وہ کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت ابن مبارک نے فرمایا اے ابواسحاق ! حجاج اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان تو اتنا طویل زمانہ ہے جس کو طے کرنے کے لئے اونٹوں کی گردنیں تھک جائیں گی (یہ حدیث منقطع ہے کیونکہ حجاج بن دینار تبع تابعین ہے) البتہ صدقہ دینے میں کسی کا اختلاف نہیں علی بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے برسر عام سنا وہ فرما رہے تھے کہ عمرو بن ثابت کی روایت کو چھوڑ دو کیونکہ یہ شخص اسلاف کو گالیاں دیتا ہے۔

【34】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

ابوبکر بن نضر بن ابی نضر، ابونضر، ہاشم، حضرت ابوعقیل (یحیی بن متوکل ضریر) جو کہ مولیٰ تھا بہیہ کا (بہیہ ایک عورت ہے جو حضرت عائشہ (رض) روایت کرتی ہیں) نے فرمایا کہ میں قاسم بن عبیداللہ اور یحییٰ بن سعید کے پاس بیٹھا تھا یحییٰ نے قاسم سے کہا کہ اے ابومحمد آپ جیسے عظیم الشان عالم دین کے لئے یہ بات باعث عار ہے کہ آپ سے دین کا کوئی مسئلہ پوچھا جائے اور آپ کو اس کا نہ کچھ علم ہو نہ اس کا حل اور نہ ہی اس کا جواب۔ قاسم نے پاچھا کیوں باعث عار ہے ؟ یحییٰ نے کہا اس لئے کہ آپ دو بڑے بڑے اماموں ابوبکر وعمر کے بیٹے ہیں (قاسم ابوبکر کے نواسے اور فاروق اعظم کے پوتے ہیں) قاسم نے کہا کہ یہ بات اس سے بھی زیادہ باعث عار ہے اس شخص کے لئے جس کو اللہ نے عقل عطاء فرمائی ہو کہ میں بغیر علم کوئی بات کہوں یا میں اس شخص سے روایت کروں جو ثقہ نہ ہو یہ سن کر یحییٰ خاموش ہوگئے اور اس کا کوئی جواب نہ دیا۔

【35】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

بشربن حکم عبدی، سفیان، ابوعقیل صاحب بہیہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کے بیٹے سے کسی نے کسی چیز کے بارے میں دریافت کیا جس کے بارے میں انہیں علم نہ تھا یہ دیکھ کر یحییٰ بن سعید نے ان سے کہا کہ یہ امر مجھ پر گراں گزرا کہ آپ جیسے شحص سے جو بیٹا ہے دو جلیل القدر ائمہ عمر اور ابن عمر سے کوئی بات پوچھ جائے اور آپ اس کے جواب سے لا علم ہوں انہوں نے کہا اللہ کی قسم اس سے بڑھ کر یہ بات زیادہ بری ہے اللہ کے نزدیک اور جس کو اللہ نے عقل دی ہے کہ وہ بغیر علم کے کوئی بات بتلائے یا میں جواب دوں کسی غیر ثقہ کی روایت سے سفیان نے کہا یحییٰ بن متوکل اس گفتگو کے وقت موجود تھے جب انہوں نے کہا۔

【36】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

عمرو بن علی، ابوحفص، یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ میں نے سفیان ثوری شعبہ، مالک اور ابن عیینہ سے پوچھا کہ لوگ مجھ سے ایسے شخص کی روایت کے بارے میں پوچھتے ہیں جو روایت حدیث میں ثقہ و معتبر نہیں ہے ان سے ائمہ حدیث نے فرمایا کہ لوگوں کو بتادو کہ وہ راوی ناقابل اعتبار ہے۔ (اس میں گناہ غیبت نہ ہوگا کیونکہ مقصود حفاظت دین ہے نہ کہ توہین راوی) ۔

【37】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

عبیداللہ بن سعید، حضرت نضر بن شمیل سے مروی ہے کہ ابن عون اپنے دروازے کی چوکھٹ پر کھڑے تھے کسی نے ان سے شہر بن حوشب کی روایات کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ شہر کو لوگوں نے طعن کیا اور طعن کے نیزوں نے زخمی کیا امام مسلم فرماتے ہیں کہ لوگوں نے اس کی تضعیف کر کے اس میں کلام کیا اور کلام کے نیزوں سے اس کو گھائل کیا ہے۔

【38】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حجاج بن شاعر، شبابہ، شعبہ فرماتے ہیں کہ میری شہر سے ملاقات ہوئی لیکن میں نے ان کی روایت کو قابل اعتبار نہیں سمجھا۔

【39】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

محمد بن عبداللہ قہزاد، حضرت علی بن حسین بن واقد بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ میں نے سفیان ثوری سے کہا کہ تم عباد بن کثیر کے حالات سے واقف ہو کہ وہ جب کوئی حدیث بیان کرتا ہے تو عجیب و غریب بیان کرتا ہے آپ کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے کہ میں لوگوں کو ان سے احادیث بیان کرنے سے روک دوں ؟ حضرت سفیان نے کہا کیوں نہیں ابن مبارک نے فرمایا کہ جس مجلس میں میری موجودگی میں عباد بن کیثر کا ذکر آتا تو میں اس کی دینداری کی تعریف کرتا لیکن یہ بھی کہہ دیتا کہ اس کی احادیث نہ لو عبداللہ بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ میرے باپ نے کہا کہ عبداللہ بن مبارک نے فرمایا کہ میں شعبہ کے پاس گیا کہ عباد بن کثیر سے روایت حدیث میں بچو۔

【40】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حضرت فضل بن سہل نے بیان کیا کہ میں نے معلی رازی سے محمد بن سعید کے متعلق سوال کیا جس سے عباد بن کثیر روایت کرتا ہے تو انہوں نے کہا کہ مجھے عیسیٰ بن یونس نے خبر دی کہ میں ایک دن عباد کے دروازہ پر کھڑا تھا اور سفیان اس کے پاس تھے جب سفیان باہر نکلے تو میں نے ان سے عباد کے متعلق پوچھا تو انہوں نے مجھے خبر دی کہ یہ بہت جھوٹا آدمی ہے۔

【41】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

محمد بن ابی عتاب، عفان، حضرت سعید بن قطان اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے نیک لوگوں کا کذب فی الحدیث سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں دیکھا ابن ابی عتاب نے کہا کہ میری ملاقات سعید بن قطان کے بیٹے سے ہوئی میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے باپ کہتے تھے کہ ہم نے نیک لوگوں کا جھوٹ حدیث میں کذب سے بڑھ کر کسی بات میں نہیں دیکھا امام مسلم نے اس کی تاویل یوں ذکر کی ہے کہ جھوٹی حدیث ان کی زبان سے نکل جاتی ہے وہ قصدا جھوٹ نہیں بولتے۔

【42】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

فضل بن موسیٰ ، یزید بن ہارون، خلیفہ بن موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ میں غالب بن عبیداللہ کے پاس گیا تو وہ مجھے مکحول کی روایات لکھوانے لگا اتنے میں اسے پیشاب آگیا وہ چلا گیا میں نے اس کی اصل کتاب میں دیکھا تو اس میں وہ روایت اس طرح تھی کہ ابان نے انس سے روایت کی اور ابان نے فلاں شخص سے یہ دیکھ کر میں نے اس سے روایت کرنا چھوڑ دیا اور اٹھ کر چلا گیا اور امام مسلم کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن علی الحلوانی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے عفان کی کتاب میں ہشام ابی المقدام کی روایت عمر بن عبدالعزیز کی سند سے دیکھی ہشام نے کہا مجھے ایک شخص نے جس کو یحییٰ کہا جاتا ہے ایک حدیث محمد بن کعب سے بیان کی میں نے عفان بن فلاں سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہشام نے خود اس حدیث کو محمد بن کعب سے سنا ہے عفان نے کہا ہشام اسی حدیث کی وجہ سے مصیبت میں پڑگیا کیونکہ پہلے کہتا تھا کہ مجھ سے یحییٰ نے محمد سے روایت کی پھر اس کے بعد اس نے دعوی کیا کہ اس نے اس روایت کو محمد سے سنا ہے اور واسطہ کو حذف کردیا۔

【43】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

محمد بن عبداللہ قہزاد، حضرت عبداللہ بن عثمان بن جبلہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا کہ وہ شخص کون ہے جس سے آپ نے عبداللہ بن عمر کی یہ روایت بیان کی ہے کہ عبدالفطر تحفہ تحائف کا دن ہے ابن مبارک نے جواب دیا کہ وہ سلیمان بن حجاج ہے جو میں نے نقل کروائی ہیں اور تیرے پاس ہیں ان میں غور و فکر کرلو ابن قہزاد نے کہا کہ میں نے وہب بن زمعہ سے سنا وہ روایت کرتے تھے سفیان بن عبدالملک سے کہ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ میں نے روح بن غطیف کو دیکھا اور اس کی مجلس میں بیٹھاہوں جس نے درہم سے کم خون کی نجاست معاف ہے والی حدیث روایت کی ہے پھر میں اپنے دوستوں سے شرمانے لگا کہ وہ مجھے اس کے پاس بیٹھا دیکھیں اس کی حدیث کی نا پسندیدگی کی وجہ سے اور اس کی روایت میں نا مقبولی کی وجہ سے۔

【44】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

ابن قہزاد، وہب، سفیان، حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ بقیہ بن ولید سچا آدمی ہے لیکن وہ ہر آنے جانے والے آدمی سے حدیث لے لیتا ہے۔

【45】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

قتیبہ بن سعید، جریر، مغیرہ، شعبی بیان فرماتے ہیں کہ مجھے حارث اعور ہمدانی نے حدیث بیان کی اور وہ جھوٹا آدمی تھا۔

【46】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

ابوعامر عبداللہ بن براد اشعری، ابواسامہ، مفضل، حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ میں نے شعبی سے سنا وہ کہتے تھے کہ مجھے حارث اعور نے حدیث بیان کی اور شعبی اس بات کو گواہی دیتے تھے کہ اعور جھوٹوں میں سے ایک ہے۔

【47】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

قتیبہ بن سعید، جریر، مغیرہ، ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ نے کہا کہ میں نے قرآن کریم دو سال میں پڑھا حارث نے کہا قرآن آسان ہے اور احادیث کو حاصل کرنا مشکل ہے۔

【48】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حجاج بن شاعر، احمد بن یونس، حضرت ابراہیم نخعی سے روایت ہے کہ حارث نے کہا کہ میں نے قرآن تین سال میں سیکھا اور احادیث مبارکہ کو دو سال میں یا کہ حدیث تین سال میں اور قرآن دو سال میں۔

【49】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حجاج شاعر، احمد بن یونس، زائدہ، منصور، مغیرہ، حضرت ابراہیم نخعی سے روایت کرتے ہیں کہ حارث متہم تھا۔

【50】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

قتیبہ بن سعید، جریر، حمزہ زیات سے روایت ہے کہ مرہ ہمدانی نے حارث سے کوئی حدیث سنی تو حارث کو کہا کہ دروازہ پر بیٹھ جاؤ مرہ اندر گئے اور تلوار لے آئے اور کہا کہ حارث نے آہٹ محسوس کی کہ کوئی شر ہونے والا ہے تو وہ چل دیا۔

【51】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

عبیداللہ بن سعید، عبدالرحمن بن مہدی، حماد بن زید، حضرت ابن عون سے روایت ہے کہ ہم نے ابراہیم سے کہا کہ مغیرہ بن سعید اور ابوعبدالرحیم سے بچو کیونکہ وہ دونوں جھوٹے آدمی ہیں۔

【52】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

ابوکامل جحدری، حماد بن زید، عاصم بیان کرتے ہیں کہ ہم شباب کے زمانہ میں ابوعبدالرحمن سلمی کے پاس آیا کرتے تھے اور وہ ہمیں فرماتے تھے کہ ابوالاحوص کے علاوہ قصہ خوانوں کے پاس مت بیٹھا کرو اور بچو تم شقیق سے اور کہا کہ یہ شقیق خارجیوں کا سا اعتقاد رکھتا تھا یہ شقیقی ابو وائل نہیں ہے۔

【53】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

ابوغسان محمد بن عمرو رازی، حضرت جریر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن یزید سے رجعت کی لیکن میں نے اس سے کسی روایت کو نہیں لکھا وہ رجعت کا باطل عقیدہ رکھتا تھا۔

【54】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حسن حلوانی، یحییٰ بن آدم، مسعر بیان کرتے ہیں کہ ہم سے جابر بن یزید نے حدیث نے بیان کی اختراع بدعت سے پہلے۔

【55】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

سلمہ بن شبیب، حمیدی، سفیان بیان کرتے ہیں کہ لوگ جابر سے اس کے عقیدہ باطلہ کے اظہار سے پہلے احادیث بیان کرتے تھے لیکن جب اس کا عقیدہ باطل ظاہر ہوگیا اور لوگوں نے اس کو حدیث میں مہتم کیا اور بعض حضرات نے اس سے روایت ترک کردی سفیان سے کہا گیا کہ اس نے کس عقیدہ کا اظہار کیا تھا سفیان نے کہا رجعت کا۔

【56】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حسن حلوانی، ابویحیی حمانی، قبیصہ، جراح بن ملیح کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن یزید سے سنا وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی ستر ہزار احادیث ابوجعفر سے مروی میرے پاس موجود ہیں۔

【57】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حجاج بن شاعر، احمد بن یونس، حضرت زہیر کہتے ہیں کہ میں نے جابر سے سنا وہ کہتے تھے کہ میرے پاس پچاس ہزار احادیث ہیں جن میں سے میں نے ابھی تک کوئی حدیث بیان نہیں کی زہیر کہتے ہیں پھر اس نے ایک دن ایک حدیث بیان کرنے کے بعد کہا یہ ان پچاس ہزار میں سے ہے۔

【58】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

ابراہیم بن خالد یشکری، ابو ولید، سلام بن ابی مطیع کہتے ہیں کہ میں نے جابر جعفی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میرے پاس رسول اللہ ﷺ سے مروی پچاس ہزار احادیث مبارکہ (کا ذخیرہ موجود) ہے۔

【59】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

سلمہ بن شبیب، حمیدی، سفیان بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ ایک آدمی نے جابر سے اللہ کے قول فلن ابرح الارض حتی یاذن لی ابی اویحکم اللہ لی وھو خیر الحاکمین کی تفسیر پوچھی تو جابر نے کہا کہ اس آیت کی تفسیر ابھی ظاہر نہیں ہوئی سفیان نے کہا کہ اس نے جھوٹ بولا ہم نے کہا کہ جابر کی اس سے کیا مراد تھی سفیان نے کہا کہ رافضی یہ کہتے ہیں کہ حضرت علی بادلوں میں ہیں اور ہم ان کی اولاد میں سے کسی کے ساتھ نہ نکلیں گے یہاں تک کہ آسمان سے حضرت علی آواز دیں گے کہ نکلو فلاں کے ساتھ جابر کہتا ہے کہ اس آیت کی تفسیر یہ ہے اور اس نے جھوٹ کہا ہے کہ یہ آیت یوسف کے بھائیوں کے متعلق ہے۔

【60】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

سلمہ، حمیدی، سفیان بیان کرتے ہیں میں نے جابر سے تیس ہزار ایسی احدیث سنی ہیں کہ ان میں سے کسی ایک حدیث کو بھی میں ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتا خواہ اس کے بدلے مجھے کتنا ہی مال وعزت ملے اور سفیان کہتے ہیں میں نے ابوغسان محمد بن عمرو رازی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے جریر بن عبدالحمید سے پوچھا کہ کیا آپ حارث بن حصیرہ سے ملے ہیں ؟ کہا ہاں وہ ایک بوڑھا شخص ہے اکثر خاموش رہتا ہے لیکن بہت بڑی بات پر اصرار کرتا ہے۔

【61】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

احمد بن ابراہیم دورقی، عبدالرحمن بن مہدی، حضرت حماد بن زید سے روایت ہے کہ ایوب نے ایک شخص ابوامیہ عبدالکریم کے بارے میں فرمایا کہ وہ راست گو نہیں اور دوسرے کا ذکر فرمایا کہ وہ تحریر میں زیادتی کرتا ہے۔

【62】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حجاج بن شاعر، سلیمان حرب، حماد بن زید بیان کرتے ہیں کہ ایوب نے کہا کہ میرا ایک ہمسایہ ہے پھر اس کی خوبیوں کا ذکر کیا تاہم وہ دو کھجوروں کے بارے میں بھی شہادت دے تو میں اس کی گواہی کو جائز نہیں سمجھوں گا۔

【63】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

محمد بن رافع، حجاج بن شاعر، عبدالرزاق، حضرت معمر کہتے ہیں کہ میں نے ایوب کو کسی شخص کی غیبت کرتے نہیں دیکھا سوائے ابوامیہ عبدالکریم کے ذکر کیا انہوں نے اس کا کہ وہ غیر ثقہ ہے اس نے مجھ سے حضرت عکرمہ کی ایک حدیث پوچھی پھر کہتا ہے کہ میں نے عکرمہ سے سنا ہے۔

【64】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

فضل بن سہل، عفان بن مسلم، حضرت ہمام بیان کرتے ہیں کہ نفع بن حارث ابوداؤد نابینا ہمارے پاس آیا اور بیان کرنا شروع کردیا کہ ہم سے براء بن عازب اور زید بن ارقم نے بیان کیا ہم نے اس کی حضرت قتادہ سے تحقیق کی انہوں نے کہا یہ جھوٹا ہے اس نے ان سے نہیں سنا یہ شخص طاعون جازف کے زمانہ میں لوگوں سے بھیک مانگتا پھرتا تھا۔

【65】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حسن بن علی حلوانی، یزید بن ہارون، حضرت ہمام نے کہا کہ ابوداؤد اعمی حضرت قتادہ کے پاس آیا جب وہ چلا گیا تو لوگوں نے کہا کہ اس شخص کا دعوی ہے کہ وہ اٹھارہ بدری صحابہ سے ملا ہے حضرت قتادہ نے کہا کہ یہ طاعون جازف سے پہلے بھیک مانگتا تھا اس کا روایت حدیث سے کوئی لگاؤ تھا نہ یہ اس فن میں گفتگو کرتا تھا اللہ کی قسم سعد بن مالک یعنی سعد بن ابی وقاص کے علاوہ کسی بدری صحابی سے حسن بصری اور سعید بن مسیب جیسے لوگوں نے بھی روایت نہیں کی ہے۔

【66】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، حضرت رقبہ بن مستعلہ کوفی سے روایت ہے کہ ابوجعفر ہاشمی حق اور حکمت آمیز کلام کو حدیث بنا کر نقل کرتا تھا حالانکہ وہ نبی کریم ﷺ کی احادیث نہ ہوتیں اور وہ روایت کرتا ان کو نبی کریم ﷺ سے۔

【67】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حسن حلوانی، نعیم بن حماد، ابواسحاق ابراہیم بن محمد بن سفیان، محمد بن یحیی، نعیم بن حماد، ابوداؤد طیالسی، شعبہ، حضرت یونس بن عبید بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن عبید حدیث میں جھوٹ بولتا تھا۔

【68】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

عمرو بن علی ابوحفص، معاذ بن معاذ سے روایت ہے کہ میں نے عوف بن ابی جمیلہ سے پوچھا کہ ہم سے عمرو بن عبید نے حسن بصری سے روایت بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے عوف نے کہا اللہ کی قسم عمر جھوٹا ہے وہ اس حدیث سے اپنے باطل عقائد کی ترویج و اشاعت کرنا چاہتا ہے۔

【69】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

عبیداللہ بن عمر قواریری، حضرت حماد بن زید کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے اوپر ایوب سختیانی کی مجلس اور ان سے حدیث سننے کو لازم کرلیا تھا ایک دن ایوب نے اس کو نہ پایا تو پوچھا تو لوگوں نے کہا کہ اے ابوبکر (کنیت ایوب سختیانی) اس نے عمرو بن عبید کی مجلس کو لازم کرلیا ہے حماد کہتے ہیں کہ ایک دن میں صبح کے وقت ایوب کے ساتھ بازار جارہا تھا اتنے میں وہ شخص سامنے آیا ایوب نے اس کو سلام کیا اور حال پوچھا پھر اس کو کہا کہ مجھے یہ بات پہنچی کہ تو نے فلاں شخص کی مجلس لازم کرلی ہے حماد کہتے ہیں اس کا نام لیا یعنی عمرو۔ اس نے کہا ہاں اے ابوبکر وہ ہم سے عجیب و غریب احادیث بیان کرتا ہے ایوب نے کہا کہ ہم تو ایسے عجائبات سے بھاگتے یا ڈرتے ہیں۔

【70】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حجاج بن شاعر، سلیمان، ابن زید، ایوب، عمرو بن عبید، حضرت حماد بیان کرتے ہیں کہ کہ ایوب سے کسی نے کہا کہ عمرو بن عبید حسن بصری سے یہ حدیث روایت کرتا ہے کہ جو شخص نبیذ پی کر مدہوش ہوجائے تو اس پر حد جاری نہ ہوگی ایوب نے کہا کہ یہ جھوٹ کہتا ہے کیونکہ میں نے حضرت حسن بصری سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ جو شخص نبیذ پی کر مدہوش ہوجائے اسے کوڑے لگائے جائیں گے۔

【71】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حجاج، سلیمان بن حرب، حضرت سلام بن ابی مطیع کہتے ہیں کہ ایوب کو یہ خبر پہنچی کہ میں عمرو کے پاس روایت حدیث کے لئے جاتا ہوں ایک دن وہ مجھے ملے اور کہا کہ تو کیا سمجھتا ہے کہ جس شخص کے دین کا اعتبار نہیں ہے وہ حدیث کی روایت میں کیسے محفوظ ومامون ہوسکتا ہے۔

【72】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

سلمہ بن شبیب، حمیدی، سفیان، حضرت ابوموسیٰ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے عمرو بن عبید سے سماع حدیث اس وقت کیا تھا جب اس نے احادیث گھڑنا شروع نہیں کی تھیں۔

【73】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

عبیداللہ بن معاذ عنبری بیان کرتے ہیں کہ میں نے شعبہ کو لکھا کہ ابوشیبہ قاضی واسط کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو شعبہ نے لکھا کہ ابوشیبہ کی کوئی روایت نہ لکھنا اور میرے اس خط کو پھاڑ دینا۔

【74】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حلوانی، حضرت عفان بیان کرتے ہیں کہ میں نے حماد بن سلمہ کے سامنے وہ حدیث بیان کی جس کو صالح مری نے ثابت سے روایت کیا ہے حماد نے کہا صالح مری جھوٹا ہے اور میں نے ہمام کے سامنے صالح مری کی حدیث بیان کی تو ہمام نے بھی کہا کہ صالح مری جھوٹا ہے۔

【75】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

محمود بن غیلان، حضرت ابوداؤد سے روایت ہے کہ مجھ سے شعبہ نے کہا کہ جریر بن حازم کو جا کر کہو کہ تیرے لئے حسن بن عمارہ سے کوئی روایت جائز نہیں ہے کیونکہ وہ جھوٹ بولتا ہے ابوداؤد نے کہا کہ حسن نے حکم سے کچھ ایسی احادیث ہم سے بیان کی ہیں جن کی اصل کچھ نہیں پاتا میں نے شعبہ سے پوچھا وہ کونسی روایت ہے ؟ شعبہ نے کہا کہ میں نے حکم سے پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ نے شہداء احد پر نماز پڑھی تھی ؟ اس نے کہا نہیں پڑھی تھی پھر حسن بن عمارہ نے حکم سے روایت کیا ہے اس نے مقسم سے اس نے ابن عباس (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان پر نماز جنازہ پڑھی اور ان کو دفن کیا اس کے علاوہ میں نے حکم سے پوچھا کہ تو ولد الزنا کی نماز جنازہ کے بارے میں کیا کہتا ہے ؟ تو اس نے کہا کہ ایسے لوگوں کی جنازہ پڑھی جائے گی میں نے کہا کس سے روای کیا گیا ہے اس نے کہا حسن بصری سے لیکن حسن بن عمارہ نے یہ حدیث حکم سے یحییٰ بن جزار از حضرت علی روایت کی۔ (یعنی اول حدیث میں غلطی فی الالفاظ اور دوسری میں غلطی فی السند ہے )

【76】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حسن حلوانی، حضرت یزید بن ہارون نے زیاد بن میمون کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے قسم کھائی ہے کہ اس سے کوئی حدیث روایت نہی کروں گا اور نہ خالد بن مجدوح سے اور کہا کہ میں زیاد بن میمون سے ملا اور اس سے ایک حدیث پوچھی اس نے یہ حدیث بکر بن عبداللہ مزنی کے واسطہ سے بیان کی دوبارہ ملاقات پر اس نے وہی حدیث مجھ سے مورق سے روایت کی تیسری بار وہی حدیث اس نے مجھ سے حسن کی روایت سے بیان کی اور یزید بن ہارون ان دونوں زیاد اور خالد کو جھوٹا کہتے تھے حلوانی نے کہا کہ میں نے عبدالصمد سے سنا اور میں نے ان کے پاس ابن میمون کا ذکر کیا تو انہوں نے بھی اسے جھوٹا قرار دیا۔

【77】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

محمود بن غیلان بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابوداؤد طیالسی سے کہا کہ آپ نے عباد بن منصور سے کثیر روایات نقل کی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ آپ نے اس سے عطر فروش عورت کی وہ حدیث نہیں سنی جو روایت کی ہے ہمارے لئے نضر بن شمیل نے انہوں نے مجھے کہا خاموش رہو میں اور عبدالرحمن بن مہدی زیاد بن میمون سے ملے اور اس سے پوچھا کہ یہ تمام احادیث وہ ہیں جو تم روایت کرتے تھے حضرت انس (رض) سے یہ کہاں تک صحیح ہیں ؟ اس نے کہا تم دونوں اس آدمی کے بارے میں کیا گمان کرتے ہو جو گناہ کرے پھر توبہ کرلے اللہ اس کی توبہ قبول نہ کرے گا ؟ ہم نے کہا ہاں معاف کرے گا تو اس نے کہا کہ میں نے حضرت انس (رض) سے کسی قسم کی کوئی حدیث نہیں سنی کم نہ زیادہ اگر عام لوگ اس بات سے ناواقف ہیں تو کیا ملا ابوداؤد (رح) اس کے بعد پھر ہمیں علم ہوا کہ وہ انس سے روایت کرتا ہے ہم پھر اس کے پاس آئے تو اس نے کہا میں توبہ کرتا ہوں پھر وہ اس کے بعد روایت کرنے لگا آخر ہم نے اس کی روایت چھوڑ دی۔

【78】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حسن، حضرت شبابہ بن سوار مدائنی کہتے ہیں کہ عبدالقدوس ہم سے حدیث بیان کرتا تو کہتا کہ سوید بن غفلہ نے کہا شبابہ نے کہا کہ میں نے عبدالقدوس سے سنا وہ کہتا تھا رسول اللہ ﷺ نے روح یعنی ہوا کو عرض میں لینے سے منع فرمایا ہے ان سے اس حدیث کا مطلب پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ دیوار میں ایک سوارخ کیا جائے تاکہ اس پر ہوا داخل ہو امام مسلم فرماتے ہیں کہ میں نے عبیداللہ بن عمر قواریری سے سنا انہوں نے کہا میں نے حماد بن زید سے سنا کہ انہوں نے مہدی بن ہلال کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ کیسا کھاری چشمہ ہے جو تمہارے طرف پھوٹا ہے وہ شخص بولا ہاں اے ابواسماعیل۔

【79】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حسن حلوانی، عفان، ابوعوانہ نے کہا کہ مجھے حسن سے کوئی روایت نہیں پہنچی مگر میں اس کو لے کر فورا ابان بن عیاش کے پاس گیا ابان نے اس حدیث کو میرے سامنے پڑھا ( یہ ابان کے کذب کی دلیل ہے کہ وہ ہر حدیث حسن سے روایت کرتا تھا ) ۔

【80】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

سوید بن سعید، علی بن مسہر سے روایت ہے کہ میں اور حمزہ زیات نے ابن ابی عیاش سے تقریبا ایک ہزار احادیث کا سماع کیا ہے علی نے کہا کہ میں حمزہ سے ملا تو انہوں نے بتایا کہ اس نے نبی ﷺ کی خواب میں زیارت کی اور آپ ﷺ کے سامنے ابان سے سنی ہوئی احادیث پیش کیں آپ ﷺ نے ان احادیث کو نہیں پہچانا مگر تھوڑی تقریبا پانچ یا چھ احادیث کی تصدیق کی۔

【81】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، حضرت زکریا بن عدی فرماتے ہیں کہ ابواسحاق فزاری نے مجھ سے کہا لکھو بقیہ سے وہ روایات جو وہ معروف رواہ سے روایت کریں اور جو غیر مشہورا رواہ سے روایت کریں وہ نہ لکھنا اور نہ لکھنا اسماعیل بن عیاش سے وہ روایات بھی جو وہ روایت کریں معروف رواہ سے یا کسی غیر سے۔

【82】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

اسحاق بن ابراہیم حنظلی، حضرت عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ بقیہ اچھا ہوتا اگر وہ ناموں کو کنیت سے اور کنیت کو ناموں سے بیان نہ کرتا ایک عرصہ تک وہ ہم سے ابوسعید وحاظی سے روایت کرتا رہا بعد میں تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ تو عبدالقدوس ہے۔

【83】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

احمد بن یوسف ازدی، حضرت عبدالرزاق کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک کو عبدالقدوس کے علاوہ کسی کو جھوٹا کہتے ہوئے نہیں سنا۔

【84】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، حضرت ابونعیم نے معلی بن عرفان کا ذکر کیا تو کہا کہ ہم سے معلی نے ابو وائل سے نقل کیا ہے کہ ہمارے سامنے عبداللہ بن مسعود جنگ صفین سے آئے تھے ابونعیم نے کہا کہ کیا تو نے ان کو دیکھا ہے مرنے کے بعد زندہ ہونے پر۔

【85】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

عمرو بن علی، حسن حلوانی، عفان بن مسلم فرماتے ہیں کہ ہم اسماعیل بن علیہ کی مجلس میں تھے کہ ایک شخص نے کسی شخص سے حدیث بیان کی تو میں نے کہا کہ وہ غیر معتبر شخص ہے وہ شخص کہنے لگا کہ تم نے اس کی غیبت کی اسماعیل نے کہا اس نے غیبت نہیں کی بلکہ حکم بیان کیا کہ وہ فن حدیث میں معتبر نہیں ہے۔

【86】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

ابوجعفردارمی، حضرت بشر بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام مالک بن انس سے محمد بن عبدالرحمن کے بارے میں پوچھا کہ وہ سعید بن مسیب سے روایت کرتا ہے فرمایا وہ ثقہ نہیں ہے اور میں نے امام مالک (رح) سے ابوالحویرث کے بارے میں پوچھا تو فرمایا وہ بھی ثقہ و معتبر نہیں ہے میں نے شعبہ کے بارے میں پوچھا جن سے ابن ابی ذئب روایت کرتا ہے فرمایا وہ بھی غیر ثقہ ہے پھر میں نے توامہ کے آزاد کردہ غلام صالح کے بارے میں پوچھا تو فرمایا وہ بھی غیر ثقہ ہے پھر میں نے عثمان بن حرام کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا وہ ثقہ نہیں ہے اور میں نے امام مالک سے ان پانچوں راویوں کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ یہ اپنی حدیث میں ثقہ نہیں ہیں اور میں نے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس کا نام میں بھول گیا ہوں تو فرمایا کہ تو نے اس کی روایت میری کتابوں میں دیکھی ہے میں نے کہا نہیں فرمایا کہ اگر وہ ثقہ و معتبر ہوتا تو تو اس کو میری کتابوں میں ضرور دیکھتا۔

【87】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

فضل بن سہل، یحییٰ بن معین، حجاج بیان کرتے کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے شرحبیل بن سعد سے روایت بیان کی اور شرحبیل متہم فی الحدیث تھے۔

【88】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

محمد عبداللہ قہزاد، حضرت ابواسحاق طالقانی فرماتے ہیں میں نے ابن مبارک کو فرماتے ہوئے سنا کہ اگر مجھے اختیار دیا جائے کہ میں پہلے جنت میں داخل ہوں یا عبداللہ بن محرر سے ملاقات کروں تو میں اس سے ملنے کو پسند کروں گا پھر جنت میں داخل ہوں گا جب میں نے اس کی تحقیق کی تو اونٹ کی مینگنی مجھے اس سے زیادہ پسند ہونے لگی۔

【89】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

فضل بن سہل، ولید بن صالح، عبیداللہ بن عمر، حضرت زید بن ابی انیسہ کہا کرتے تھے کہ میرے بھائی سے احادیث مبارکہ مت بیان کیا کرو۔

【90】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

احمد بن ابراہیم دورقی حضرت عبیداللہ بن عمرو نے کہا یحییٰ بن ابی انیسہ کذاب تھا۔

【91】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

احمد بن ابراہیم، سلیمان، حضرت حماد بن زید کہتے ہیں کہ فرقد بن یعقوب کا ذکر ایوب کے سامنے کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ فرقد حدیث کا اہل نہیں۔

【92】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

حضرت عبدالرحمن بن بشر عبدی نے کہا کہ میں نے یحییٰ بن سعید قطان سے سنا جب ان کے سامنے محمد بن عبداللہ بن عبید بن عمیر لیثی کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے اس کو بہت زیادہ ضعیف فرمایا کسی نے یحییٰ سے کہا کہ وہ یعقوب بن عطاء سے بھی زیادہ ضعیف ہے تو فرمایا ہاں پھر فرمایا میرے خیال میں تو کوئی بھی محمد بن عبداللہ بن عبید بن عمیر سے روایات نقل نہیں کرے گا۔

【93】

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔

بشر بن حکیم نے کہا کہ میں نے یحییٰ بن سعید قطان کو حکم بن جبیر اور عبدالاعلی اور یحییٰ بن موسیٰ بن دینار کو ضعیف قرار دیتے ہوئے سنا اور یحییٰ کے بارے میں فرمایا کہ اس کی مرویات ہوا کی طرح ہیں اور موسیٰ بن دہقان اور عیسیٰ بن ابی عیسیٰ مدنی کو بھی ضعیف فرمایا امام مسلم فرماتے ہیں کہ میں نے حسن بن عیسیٰ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ مجھ سے ابن مبارک نے فرمایا جب تم جریر کے پاس جاؤ تو اس کا تمام علم لکھ لینا مگر تین روایوں کی احادیث اس سے مت لکھنا عبید بن معتب دری بن اسماعیل اور محمد بن سالم۔ امام مسلم فرماتے کہ ہم نے مذکورہ سطور میں متہم راویان حدیث کے بارے میں اہل علم کے کلام سے ضعیف راویوں کی جو تفصیل ذکر کی ہے اور ان کی مرویات کے جن عیوب ونقائص کا ذکر کیا ہے وہ صاحب فراست کے لئے کافی ہیں اگر وہ تمام تنقیدی اقوال نقل کئے جاتے جو رواہ حدیث کے متعلق علمائے حدیث نے بیان کئے تو کتاب بہت طویل ہوجاتی اور ائمہ حدیث نے راویوں کا عیب کھول دینا ضروری سمجھا اور اس بات کا فتوی دیا جب ان سے پوچھا گیا اس لئے یہ بڑا اہم کام ہے کیونکہ دین کی بات جب نقل کی جائے گی تو وہ کسی امر کے حلال ہونے کے لئے کافی ہوگی یا حرام ہونے کے لئے یا کسی بات کا حکم ہوگا یا کسی بات کی ممانعت یا وہ رغبت وخوف کے متعلق ہوگی تو یہ تمام احکام ونواہی احادیث پر موقوف ہیں جب حدیث کا کوئی راوی خود صادق اور امانت دار نہ ہو اور وہ روایت کا اقدام کرے اور بعد والے اس راوی کی ثقاہت کے باوجود دوسرے کو جو اس کو غیر ثقہ کے طور پر نہ جانتا ہو اس کی کوئی روایت بیان کرے اور اصل راوی کے احوال پہ کوئی تنقید وتبصرہ نہ کریں تو یہ مسلم عوام کے ساتھ خیانت اور دھوکا ہوگا کیونکہ ان احادیث میں بہت سی احادیث موضوع اور من گھڑت ہوں گی اور عوام کی اکثریت راویوں کے احوال سے نا واقفیت کی بناء پر ان احادیث پر عمل کرے گی تو اس کا گناہ اس راوی پر ہوگا جس نے یہ حدیث بیان کی کہ اس حدیث کو سننے والوں کی غیر معمولی تعداد مسلمانوں کی لاعلمی کی وجہ سے اس پر عمل کرنے کی وجہ سے گناہگار ہو کیونکہ واقعہ میں وہ حدیث ہی نہیں یا کم از کم اس میں تغیر وتبدل کم بیشی تراش خراش کردی گئی علاوہ ازیں جبکہ احادیث صحیحہ جن کو معتبر اور ثقہ رواہ نے بیان کیا ہے اس قدر کثرت کے ساتھ موجود ہیں کہ ان کی موجودگی میں ان باطل اور من گھڑت روایات کی مطلقا ضرورت ہی باقی نہیں رہتی اس تحقیق کے بعد میں یہ گمان نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنی کتاب میں مجہول غیر ثقہ اور غیر معتبر راویوں کی احادیث نقل کرے گا خصوصا جبکہ وہ سند حدیث سے مطلع ہو۔ سوائے اس شخص کے جو لوگوں کے نزدیک اپنا کثرت علم ثابت کرنا چاہیں کہ لوگ کہیں کہ وہ احادیث کا ایک بہت بڑا ذخیرہ پیش کرسکتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے وہ باطل و موضوع اور من گھڑت اسانید کے ساتھ بھی احادیث پیش کرنے میں تامل نہیں کرے گا تاکہ لوگ اس کی وسعت علم و کثرت روایات پر داد دیں لیکن جو شخص ایسے باطل طریقہ کو اختیار کرے گا اہل علم اور دانش مند طبقہ کے ہاں ایسے متحر عالم کی کوئی وقعت وقدر نہ ہوگی اور ایسے شخص کی وسعت علمی کو نادانی اور جہالت سے تعبیر کیا جائے گا۔ امام مسلم فرماتے ہیں کہ ہمارے بعض ہمعصر محدثین نے سند حدیث کی صحت اور سقم کے بارے میں ایک ایسی غلط شرط عائد کی ہے جس کا اگر ہم ذکر نہ کرتے اور اس کا ابطال نہ کرتے تو یہی زیادہ مناسب اور عمدہ تجویز ہوتی اس لئے کہ قول باطل و مردود کی طرف التفات نہ کرنا ہی اس کو ختم کرنے اور اس کے کہنے والے کا نام کھو دینے کے لئے بہتر اور موزوں و مناسب ہوتا ہے تاکہ کوئی جاہل اور ناواقف اس قول باطل کو قول صواب و صحیح نہ سمجھ لے مگر ہم انجام کی برائی سے ڈرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جاہل نئی نئی باتوں کے زیادہ دلدادہ اور عجیب و غریب شرائط کے شیدا ہوتے ہیں اور غلط بات پر جلد اعتقاد کرلیتے ہیں حالانکہ وہ بات علماء راسخین کے نزدیک ساقط الاعتبار ہوتی ہے لہذا اس نظریہ کے پیش نظر ہم نے معاصرین کے قول باطل کی غلطی بیان کرنا اور اس کو رد کرنا اس کا فساد وبطلان اور خرایباں ذکر کرنا لوگوں کے لئے بہتر اور فائدہ مند خیال کیا تاکہ عام لوگ غلط فہمی سے محفوظ رہیں اور ان کا انجام بھی نیک ہو اور اس شخص نے جس کے قول سے ہم نے بات مذکور شروع کی ہے اور جس کے فکر و خیال کو ہم نے باطل قرار دیا ہے یوں گمان اور خیال کیا ہے کہ جس حدیث کی سند میں فلاں عن فلاں ہو اور ہم کو یہ بھی معلوم ہو کہ وہ دونوں معاصر ہیں اس لئے کہ ان دونوں کی ملاقات ممکن ہے اور حدیث کا سماع بھی البتہ ہمارے پاس کوئی دلیل یا روایت ایسی موجود نہ ہو جس سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہو سکے کہ ان دونوں کی ایک دوسرے سے ملاقات ہو اور ایک نے دوسرے سے بالمشافہ اور بلاواسطہ حدیث سنی تو ایسی اسناد سے جو حدیث روایت کی جائے وہ حدیث ان لوگوں کے ہاں اس وقت تک قابل اعتبار اور حجت نہ ہوگی جب تک انہیں اس بات کا یقین نہ ہوجائے کہ وہ دونوں اپنی عمر اور زندگی میں کم از کم ایک بار ملے تھے یا ان میں سے ایک شخص نے دوسرے سے بالمشافہ حدیث سنی تھی یا کوئی ایسی روایت ہو جس سے یہ ثابت ہو کہ ان دونوں کی زندگی میں کم از کم ایک بار ملاقات ہوئی اور اگر نہیں تو کسی دلیل سے ان کی ملاقات کا یقین ہو سکے نہ کسی روایت سے ان کی ملاقات اور سماع ثابت ہو تو ان کے نزدیک اس روایت کا قبول کرنا اس وقت تک موقوف رہے گا جب تک کہ کسی روایت آخر سے ان کی ملاقات اور سماع ثابت نہ ہوجائے خواہ ایسی روایات قلیل ہوں یا کثیر۔ اللہ تجھ پر رحم کرے تو نے یہ قول اسناد کے باب میں ایک نیا ایجاد کیا ہے جو پیشرو محدثین میں سے کسی نے نہیں کہا اور نہ علماء حدیث نے اس کی موافقت کی ہے کیونکہ موجودہ اور سابقین تمام علماء حدیث وارباب فن حدیث اور اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب کوئی ثقہ اور عادل راوی اپنے ایسے ہم عصر ثقہ اور عادل راوی سے کوئی حدیث روایت کرے جس سے اس کی ملاقات اور سماع باعتبار سن اور عمر کے اس وجہ سے ممکن ہو کہ وہ دونوں ایک زمانہ میں موجود تھے تو اس کی روایت قابل قبول اور لائق حجت ہے خوار ہمارے پاس ان کی باہمی ملاقات اور بالمشافہ سماع حدیث پر نہ کوئی دلیل ہو اور کسی اور روایت سے یہ امر ثابت ہو البتہ اگر کسی دلیل یا روایت سے یہ بات یقینی طور پر ثابت ہوجائے کہ درحقیقت یہ راوی دوسرے سے نہیں ملایا ملاقات تو ہوئی لیکن اس سے کوئی روایت نہیں سنی تو اس صورت میں وہ حدیث قابل حجت نہ ہوگی لیکن جب تک یہ امر مبہم رہے یعنی کوئی دلیل نہ ملنے اور نہ سننے کی نہ ہو تو صرف ملاقات کا ممکن ہونا کافی ہے اور اس روایت کو سماع پر محمول کرتے ہوئے قابل حجت سمجھا جائے گا۔ پھر جس شخص نے یہ قول نکالا یا اس کی حمایت کرتا ہے اس سے کہا جائے گا کہ یہ تو تم بھی تسلیم کرتے ہو کہ ایک ثقہ راوی کی روایت دوسرے ثقہ راوی سے حجت ہوتی ہے اور اس کے مقتضی پر عمل لازم ہوتا ہے پھر تم نے مزید ایک شرط کا اضافہ کردیا کہ ان دونوں کی ملاقات بھی ضروری یا اس سے کوئی حدیث سنی تھی اب اس شرط کا ثبوت کسی ایسے ماہر فن حدیث کے قول سے پیش کرنا لازم ہے جس کا ماننا لازم ہو یا صرف تم نے کسی دلیل کی بنیاد پر نئی اختراعی اور من گھڑت شرط عائد کی ہے اگر وہ دعوی کرے کہ اس باب میں سلف کا قول اس شرط کے ثبوت کے لئے تو اس سے اس کی دلیل طلب کی جائے گی لیکن وہ ہرگز ایسا کوئی قول نہیں لاسکے گا نہ اور صاحب علم اس کے علاوہ اور دوسرے صورت کہ اگر وہ کوئی دلیل قائم کرنا چاہے تو اس سے کہا جائے گا وہ دلیل کیا ہے ؟ یہ بھی باطل ہے کیونکہ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اگر یہ شخص اپنی اختراعی شرط کے ثبوت میں یہ کہے کہ میں نے زمانہ حال اور ماضی میں بہت ایسے رواہ حدیث دیکھے ہیں جو ایک دوسرے سے حدیث روایت کرتے ہیں حالانکہ انہوں نے دوسرے کو دیکھا نہ اس سے سنا ہے جب میں نے دیکھا کہ انہوں نے مرسل کو بغیر سماع کے روایت کرنا جائز رکھا ہے اور مرسل روایات ہمارے اور اہل علم کے قول کے مطابق حجت نہیں ہیں اس لئے میں نے سند حدیث میں راوی کے سماع کی شرط عائد کردی پھر اگر مجھے کہیں سے ذرا بھر بھی ثابت ہوگیا کہ راوی نے مروی عنہ سے حدیث سنی ہے تو اس کی تمام مرویات مقبول ہوں گی اور اگر مجھے بالکل معلوم نہ ہوا کسی قرینہ یا روایت اس کا سماع تو حجت نہ ہوگی اس لئے کہ ممکن ہے اس کا مرسل ہونا یہ مخالف فریق کی دلیل مذکور ہوئی آگے اس کا جواب ذکر فرماتے ہیں تو اس سے کہا جائے گا اگر تیرے نزدیک حدیث کو ضعیف کرنے کی اور اس کو قابل حجت نہ ماننے کی علت صرف ارسال کا ممکن ہونا ہے تو آپ کے قاعدہ کے مطابق یہ بات لازم آتی ہے کہ تو کسی اسناد معنعن کو نہ مانے جب تک تو اول سے لے کر آخر تک اس میں سماع کی تصریح نہ دیکھے یعنی ہر راوی اپنی سماعت دوسرے سے بیان کرے فرض کرو جو حدیث ہم تک اس سند سے پہنچی ہے ہشام اپنے باپ عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سماع کیا اور ہمیں یقینا معلوم ہے کہ ہشام نے اپنے والد عروہ سے اور اس کے باپ عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سنا ہے جیسے ہم کو یہ بھی قطعی طور پر معلوم ہے کہ سیدہ عائشہ نے نبی کریم ﷺ سے سماع کیا ہے اور یہ سند بالا تفاق مقبول ہو کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ہشام کسی روایت میں یوں نہ کہیں کہ میں نے عروہ سے سنا ہے یا عروہ نے مجھے خبر دی (یعنی سمعت یا اخبرنی کا صیغہ استعمال نہ کریں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ حدیث ہشام نے اپنے والد سے براہ راست نہ سنی ہو بلکہ ان دونوں کے درمیان کوئی تیسرا شخص واسطہ ہو جس کا ذکر ہشام نے نہ کیا ہو اور براہ راست اپنے والد سے حدیث روایت کردی ہو اسی طرح یہ احتمال عروہ اور سیدہ عائشہ کے درمیان بھی ہوسکتا ہے جو ہشام اور عروہ کے درمیان مذکور ہوا ہے خلاصہ کلام یہ ہوا کہ ہر وہ حدیث جس کا راوی مروی عنہ سے حدیث سننے کی تصریح نہ کرے اس میں یہ ممکن ہے کہ راوی نے مروی عنہ سے وہ حدیث براہ راست اور بلا واسطہ نہ سنی ہو اگرچہ یہ بات معلوم ہو کہ ایک نے دوسرے سے بہت سی احادیث سنی ہیں مگر یہ ہوسکتا ہے کہ بعض روایات اس سے نہ سنی ہیں بلکہ کسی اور سے سن کر اس کو مرسلاً نقل کردیا ہو لیکن جس کے واسطہ سے سن کر اس کا نام نہ لیا ہو اور کبھی اس اجمال کو رفع کرنے کے لئے اس کا نام بھی لے دیا اور ارسال ترک کردیا۔ امام مسلم فرماتے ہیں کہ یہ احتمال جو ہم نے بیان کیا صرف فرضی اور ظنی نہیں بلکہ حدیث میں موجود اور بہت سے ثقہ محدثین کی روایات میں جاری ہے ہم تھوڑی سی ایسی روایات ذکر کرتے ہیں اہل علم کی جن سے اگر اللہ نے چاہا تو بہت سی روایتوں پر دلیل پوری ہوگی پہلی روایت یہ ہے کہ ایوب سختیانی ابن مبارک وکیع اور ابن نمیر اور ایک کثیر جماعت نے ہشام سے روایت کی ہے اس نے اپنے باپ عروہ سے اس نے حضرت عائشہ (رض) اور حضرت عائشہ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے احرام باندھنے اور کھولنے کے مواقع پر حضور ﷺ کو وہ خوشبو لگایا کرتی تھی جو میرے پاس بہتر سے بہتر موجود ہوتی لیکن اس حدیث کو بعینہ لیث بن سعد داؤد عطار حمید بن اسود وہیب بن خالد اور ابواسامہ نے ہشام سے اسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے ہشام فرماتے ہیں کہ مجھے عثمان بن عروہ نے خبر دی عن عائشہ عن النبی ﷺ مثال ثانی ہشام اپنے والد سے اور وہ عائشہ (رض) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں نبی کریم ﷺ حالت اعتکاف میں اپنا سر میرے قریب کردیتے اور میں آپ ﷺ کے سر اقدس میں کنگھی کرتی حالانکہ میں حالت حیض میں ہوتی اسی روایت کو بعینہ مالک بن انس نے اس سند سے نقل کیا ہے عن زہری عن عروہ عن عمرہ عن عائشہ عن النبی ﷺ تیسری مثال زہری اور صالح بن ابی حسان نے بواسطہ ابوسلمہ حضرت عائشہ (رض) نقل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ روزے کی حالت میں انہیں بوسہ دیتے تھے لیکن یحییٰ بن کثیر نے اس بو سے کی حدیث کو یوں روایت کیا کہ مجھے خبر دی ابوسلمہ نے ان کو خبر دی عمر بن عبدالعزیز نے ان کو خبر دی عروہ نے ان کو خبر دی سیدہ عائشہ نے کہا رسول اللہ ﷺ انہیں روزہ کی حالت میں بوسہ دیا کرتے تھے۔ چوتھی مثال یہ ہے کہ ابن عیینہ وغیرہ نے عمرو بن دینار سے حدیث جابر روایت کی ہے کہ حضرت جابر نے فرمایا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے گھوڑوں کا گوشت کھلایا اور پالتو گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا اور اسی حدیث کو حماد بن زید نے عمرو سے انہوں نے محمد بن علی سے انہوں نے حضرت جابر سے عن النبی ﷺ روایت کیا ہے۔ اس قسم کی احادیث کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن جتنی ہم نے بیان کیں وہ سمجھنے والوں کے لئے کافی ہیں پھر جب علت اس شخص کے نزدیک جس کا قول ہم نے اوپر ذکر کیا حدیث کے غیر معتبر ہونے کی یہ ہوئی کہ ایک راوی کا سماع جب دوسرے راوی سے معلوم نہ ہو تو ارسال ممکن ہے تو اس قول کے مطابق ان لوگوں پر لازم ہے کہ ایسی احادیث سے حجت پکڑنا ترک کردیں جن میں راوی کی مروی عنہ سے سماع کی تصریح نہ ہو خواہ دوسرے روایت میں سماع ثابت ہو البتہ اس شخص کے نزدیک وہی حدیث حجت ہوگی جس میں سماع کی تصریح ہو کیونکہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں ائمہ حدیث روایت حدیث میں کبھی تو بعض راویوں کے ذکر کو چھوڑ دیتے ہیں یعنی ارسال کرتے ہیں اور جس سے سنا ہے اس کو سند میں بیان نہیں کرتے اور کبھی خوش ہوتے ہیں تو حدیث کی سند مکمل اسی طرح بیان کردیتے ہیں جس طرح انہوں نے اپنے شیخ سے سنی ہوتی ہے پھر اگر ان کو اتار ہوتا تو اتار بتلاتے اور جو چڑھاؤ ہوتا تو چڑھاؤ بتلاتے جیسے ہم اوپر صاف بیان کرچکے۔ متقدمین میں سے ائمہ حدیث مثلا ایوب سختیانی ابن عوف مالک بن انس شعبہ بن حجاج یحییٰ بن سعید قطان عبدالرحمن بن مہدی اور ان کے بعد ائمہ حدیث میں سے کسی کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ وہ اسناد میں سماع کی تحقیق کرتے ہوں اور کسی محدث نے بھی سماع کی قید نہیں لگائی جیسے یہ شخص دعوی کرتا ہے جس کا قول ہم نے اوپر ذکر کیا ہے البتہ جو راوی تدلیس کرنے میں مشہور ہو اس کے بارے میں محدثین یہ تحقیق ضرور کرتے ہیں کہ وہ جس شیخ کی طرف روایت کی نسبت کررہا ہے فی الوقع اس شخص نے شیخ مذکور سے حدیث سنی بھی ہے یا اس کی طرف تدلیس کی نسبت کردی ہے اور اصل میں کسی اور سے حدیث سنی ہے لیکن یہ تحقیق اس وقت کرنے کا مقصد تدلیس کے مرض کو دور کرنا ہوتا ہے اور اگر فی الواقع راوی نے سند میں تدلیس کی ہو تو اس سند کا عیب ظاہر ہوجائے لیکن سماع کی تحقیق اس راوی میں جو مدلس نہ ہو جس طرح اس شخص نے بیان کیا تو ائمہ اس کی سند اور روایت کے بارے میں تحقیق اس قسم کی نہیں کرتے کہ راوی نے مروی عنہ سے سماع کیا ہے یا نہیں حدیث کے قبول کرنے کے لئے ان لوگوں نے جو یہ باطل شرط عائد کی ہے اس کا ذکر ہم نے فن حدیث کے کسی امام سے نہیں سنا خواہ وہ ائمہ حدیث ہوں جن کا ذکر کیا یا ان کے علاوہ اس قسم کی روایات میں سے عبداللہ بن یزید انصاری کی روایت ہے انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا ہے یعنی صحابی ہیں وہ حضرت حذیفہ اور ابومسعود انصاری دونوں میں سے ہر ایک سے حدیث روایت کرتے ہیں اور اس کو مسند کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ تک اس کے باوجود عبداللہ بن یزید کی کسی روایت پر اعتراض اس وجہ سے نہیں سنا کہ ان کی حذیفہ اور مسعود سے ملاقات اور سماع ثابت نہیں اس کے برخلاف ہمارے علم میں جس قدر اہل علم ہیں وہ سب ان کی سند کو قوی ترین اسانید میں شمار کرتے ہیں اور کسی اہل علم نے عبداللہ کی ان دونوں سے روایت کرنے پر طعن نہیں کیا کہ یہ احادیث ضعیف ہیں بلکہ وہ ان احادیث سے استدلال کرتے ہیں اور ان کے مقتضی پر عمل کرتے اور ان سے حجت لیتے ہیں حالانکہ یہی احادیث اس شخص کے نزدیک جس کا قول ہم نے اوپر ذکر کیا ثبوت ملاقات کی شرط ضعیف غیر معتبر اور بےکار ہیں یہاں تک راوی کا مروی عنہ سے سماع متحقق نہ ہوجائے اور اگر ہم ان تمام احادیث کا شمار شروع کردیں جن کو تمام اہل علم نے صحیح قرار دیا ہے اور اس شخص کے نزدیک ضعیف کمزور ہیں تو ان کو ذکر کرنے اور شمار کرنے سے ہم عاجز آجائیں گے باوجود اس کے ہم چاہتے ہیں کہ بطور نمونہ ایسی متفق علیہ احادیث کی چند مثالیں پیش کردیں جو اہل علم کے نزدیک معتبر و صحیح ہیں اور ان کی شرط کے مطابق ضعیف اور غیر معتبر قرار پاتی ہیں اور وہ یہ ہیں۔ حضرت ابوعثمان نہدی عبدالرحمن اور ابورافع صالغ نقیع مدنی دونوں نے دور جاہلیت پایا اور صحابہ کرام میں بہت سے بدری صحابہ سے ملے ہیں ان سے احادیث روایت کی ہیں پھر ان سے اتر کر صحابہ سے یہاں تک کہ ابوہریرہ اور ابن عمر سے بھی احادیث روایت کی ہیں ان دونوں میں سے ہر ایک نے ابی بن کعب کے واسطہ سے حضور اکرم ﷺ سے بھی احادیث روایت کی ہیں حالانکہ کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان دونوں نے ابی بن کعب کو دیکھا یا ان سے سماع کیا ہو۔ دوسری مثال حضرت ابوعمرو شیبانی سعد بن ایاس کی سند ہے اور وہ بھی انہی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے دور جاہلیت کو پایا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے زمانہ حیات میں جوان مرد تھا اور ابومعمر عبداللہ بن سنجرہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے ابومسعود انصاری کے واسطہ سے حضور ﷺ سے دو احادیث روایت کی ہیں۔ تیسری مثال حضرت عبید بن نمیر کی سند ہے کہ انہوں نے ام سلمہ زوجہ رسول اللہ ﷺ کے واسطہ سے ایک حدیث نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے حالانکہ عبید نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ چوتھی مثال حضرت قیس بن ابی حازم کی سند ہے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ کا زمانہ پایا ہے ابومسعود انصاری کے واسطہ سے حضور ﷺ سے تین احادیث روایت کی ہیں۔ پانچویں مثال حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی کی سند حدیث ہے اور انہوں نے حضرت عمر بن خطاب سے سنا اور حضرت علی کی صحبت میں رہے ہیں انہوں نے انس بن مالک کے واسطہ سے حضور ﷺ سے ایک حدیث روایت کی ہے۔ چھٹی مثال ربعی بن حراش کی سند ہے کہ انہوں نے عن عمران بن حصین عن النبی دو احادیث اور عن ابی بکرہ عن النبی ایک حدیث روایت کی ہے حالانکہ ربعی نے علی بن ابی طالب سے سنا اور ان کی روایت بھی کی ہے۔ ساتویں مثال حضرت نافع بن جبیر بن مطعم کی سند ہے انہوں نے ابوشرح خزاعی کے واسطہ سے حضور ﷺ سے ایک حدیث روایت کی ہے۔ آٹھویں مثال حضرت نعمام بن ابی عیاش کی سند ہے کہ انہوں نے تین احادیث ابوسعید خدری کے واسطہ سے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہیں۔ نویں مثال عطاء بن یزید لیث کی سند ہے کہ انہوں نے عن تمیم داری عن النبی ﷺ ایک حدیث روایت کی ہے۔ دسوین مثال سلیمان بن یسار کی سند ہے کہ انہوں نے عن رافع بن خدیج عن النبی ایک حدیث روایت کی ہے گیارہویں مثال حمید بن عبدالرحمن حمیری کی سند ہے کہ انہوں نے عن ابی ہریرہ عن النبی ﷺ کئی احادیث روایت کی ہیں۔ پھر یہ سب تابعین جن کی روایات ہم نے صحابہ سے کی اور ان کے نام بھی بتلائے ہیں ان میں سے کسی تابعی کے بارے میں ہمیں یہ بات ثابت نہیں ہوسکی کہ اس نے ان صحابہ کرام سے سماع کیا ہو اور نہ ہی یہ بات متحقق ہوسکی کہ ان تابعین کی ان صحابہ کرام سے ملاقات ہوئی ہو اور یہ اسانید حدیث اور روایت کے پہچاننے والوں کے نزدیک صحیح اسناد میں سے ہیں اور نہ ہمارے علم میں ایسا کوئی شخص ہے جس نے ان اسانید کو ضعیف قرار دیا ہو یا ان اسانید میں سماع کی تلاش کی ہو کیونکہ تابعین میں سے ہو تایعی کا صحابی سے حدیث سننا ممکن تھا کیونکہ یہ لوگ ایک دوسرے کے معاصرین اور ہم زمانہ تھے اس لئے اس کا انکار ممکن نہیں اور یہ قول جس کو اس شخص نے نکالا ہے جس کا ہم نے اوپر بیان کیا احادیث صحیحہ کو ضعیف قرار دینے کے لائق نہیں کہ اس کی طرف التفات کیا جائے یا ذکر کیا جائے اس لئے یہ قول نیا، غلط اور فاسد ہے متقدین اہل علم اور اسلاف میں سے کسی محدث نے یہ بات نہیں فرمائی اور جو لوگ اسلاف کے بعد گزرے انہوں نے بھی اس کا انکار کیا ہے جب اہل علم اسلام اور معاصرین نے اس قول کو رد کردیا تو اس سے بڑھ کر اس باطل وفاسد قول کو رد کرنے کی حاجت و ضرورت نہیں جب اس قول اور اس کے کہنے والے کی قدر ومنزلت اور وقعت جیسے بیان ہوئی سب پر واضح ہوگئی اور اللہ مدد کرنے والا ہے اور بات کو رد کرنے کے لئے جو علماء کے مذہب کے خلاف ہے اور اسی پر بھروسہ ہے تمام حمد وثناء کا اللہ تعالیٰ ہی مستحق ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمتیں سیدنا محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی آل واصحاب ہی کے شایان شان ہیں