63. اجازت لینے کا بیان

【1】

سلام کی ابتداء کا بیان

ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کرچکا تو فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں، سلام کرو اور سنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں، کیونکہ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا۔ آدم (علیہ السلام) نے کہا : السلام علیکم ! فرشتوں نے جواب دیا، السلام علیک ورحمۃ اللہ، انہوں نے آدم کے سلام پر ورحمۃ اللہ بڑھا دیا۔ پس جو شخص بھی جنت میں جائے گا آدم (علیہ السلام) کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا۔ اس کے بعد سے پھر خلقت کا قد و قامت کم ہوتا گیا، اب تک ایسا ہی ہوتا رہا۔

【2】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ کسی گھر میں داخل نہ ہو جب تک کہ تم اجازت نہ لے لو اور گھر کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو یہ تمہارے لئے بہتر ہے شاید کہ تم نصیحت پکڑو اگر تم اس مکان میں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تمہیں اجازت نہ دی جائے اور اگر تم سے کہا جاوے کہ تم لوٹ جاؤ تو لوٹ جاؤ یہ تمہارے لئے پاکیزگی کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ ان چیزوں کو جاننے والا ہے جو تم کرتے ہو تم پر کوئی حرج نہیں اس بات میں کہ غیر آباد مکانوں میں داخل ہو جس میں تمہارا سامان ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اس چیز کو جو تم ظاہری طور پر کرتے ہو اور جو چھپا کر کرتے ہو اور سعید بن ابی الحسن نے حسن سے کہا کہ عجم کی عورتیں اپنے سینے اور سروں کو کھلا رکھتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ اپنی نگاہ پھیر لو اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے کہ مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں قتادہ نے کہا یہ حکم ان عورتوں کے لئے ہے جو حلال نہیں (نیز اللہ تعالیٰ کا قول کہ) اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں خائنۃ الاعین کے معنی یہ ہیں کہ اس چیز کی طرف دیکھنا جس سے منع کیا گیا ہے اور کنواری لڑکیوں کی طرف دیکھنے کے متعلق زہری نے کہا کہ اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا درست نہیں جس کو دیکھنے کی خواہش ہوتی ہو اگرچہ وہ کمسن ہو اور عطا نے ان لونڈیوں کی طرف دیکھنے کو مکروہ سمجھا جو فروخت کے لئے مکہ کے بازاروں میں آتی تھیں مگر یہ کہ ان کی خریداری کا ارادہ ہو۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سلیمان بن یسار نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس (رض) نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فضل بن عباس (رض) کو قربانی کے دن اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا۔ وہ خوبصورت گورے مرد تھے۔ نبی کریم ﷺ لوگوں کو مسائل بتانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اسی دوران میں قبیلہ خثعم کی ایک خوبصورت عورت بھی نبی کریم ﷺ سے مسئلہ پوچھنے آئی۔ فضل بھی اس عورت کو دیکھنے لگے۔ اس کا حسن و جمال ان کو بھلا معلوم ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے مڑ کر دیکھا تو فضل اسے دیکھ رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنا ہاتھ پیچھے لے جا کر فضل کی ٹھوڑی پکڑی اور ان کا چہرہ دوسری طرف کردیا۔ پھر اس عورت نے کہا : یا رسول اللہ ! حج کے بارے میں اللہ کا جو اپنے بندوں پر فریضہ ہے وہ میرے والد پر لاگو ہوتا ہے، جو بہت بوڑھے ہوچکے ہیں اور سواری پر سیدھے نہیں بیٹھ سکتے۔ کیا اگر میں ان کی طرف سے حج کرلوں تو ان کا حج ادا ہوجائے گا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ہوجائے گا۔

【3】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ کسی گھر میں داخل نہ ہو جب تک کہ تم اجازت نہ لے لو اور گھر کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو یہ تمہارے لئے بہتر ہے شاید کہ تم نصیحت پکڑو اگر تم اس مکان میں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تمہیں اجازت نہ دی جائے اور اگر تم سے کہا جاوے کہ تم لوٹ جاؤ تو لوٹ جاؤ یہ تمہارے لئے پاکیزگی کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ ان چیزوں کو جاننے والا ہے جو تم کرتے ہو تم پر کوئی حرج نہیں اس بات میں کہ غیر آباد مکانوں میں داخل ہو جس میں تمہارا سامان ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اس چیز کو جو تم ظاہری طور پر کرتے ہو اور جو چھپا کر کرتے ہو اور سعید بن ابی الحسن نے حسن سے کہا کہ عجم کی عورتیں اپنے سینے اور سروں کو کھلا رکھتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ اپنی نگاہ پھیر لو اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے کہ مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں قتادہ نے کہا یہ حکم ان عورتوں کے لئے ہے جو حلال نہیں (نیز اللہ تعالیٰ کا قول کہ) اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں خائنۃ الاعین کے معنی یہ ہیں کہ اس چیز کی طرف دیکھنا جس سے منع کیا گیا ہے اور کنواری لڑکیوں کی طرف دیکھنے کے متعلق زہری نے کہا کہ اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا درست نہیں جس کو دیکھنے کی خواہش ہوتی ہو اگرچہ وہ کمسن ہو اور عطا نے ان لونڈیوں کی طرف دیکھنے کو مکروہ سمجھا جو فروخت کے لئے مکہ کے بازاروں میں آتی تھیں مگر یہ کہ ان کی خریداری کا ارادہ ہو۔

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابوعامر نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا راستوں پر بیٹھنے سے بچو ! صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہماری یہ مجالس تو بہت ضروری ہیں، ہم وہیں روزمرہ گفتگو کیا کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا جب تم ان مجلسوں میں بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو راستے کا حق ادا کیا کرو یعنی راستے کو اس کا حق دو ۔ صحابہ نے عرض کیا : راستے کا حق کیا ہے یا رسول اللہ ! فرمایا (غیر محرم عورتوں کو دیکھنے سے) نظر نیچی رکھنا، راہ گیروں کو نہ ستانا، سلام کا جواب دینا، بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔

【4】

سلام اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو اس سے بہتر طور پر جواب دو یا ویسا ہی جواب دو۔

ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے شقیق نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ جب ہم (ابتداء اسلام میں) نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو کہتے سلام ہو اللہ پر اس کے بندوں سے پہلے، سلام ہو جبرائیل پر، سلام ہو میکائیل پر، سلام ہو فلاں پر، پھر (ایک مرتبہ) جب نبی کریم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اللہ ہی سلام ہے۔ اس لیے جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھے تو التحيات لله،‏‏‏‏ والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبرکاته،‏‏‏‏ السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين‏.‏ الخ پڑھا کرے۔ کیونکہ جب وہ یہ دعا پڑھے گا تو آسمان و زمین کے ہر صالح بندے کو اس کی یہ دعا پہنچے گی۔ أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله‏.‏ اس کے بعد اسے اختیار ہے جو دعا چاہے پڑھے۔

【5】

کم تعداد کا زیادہ تعداد کو سلام کرنا۔

ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا چھوٹا بڑے کو سلام کرے، گزرنے والا بیٹھنے والے کو سلام کرے اور چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو پہلے سلام کرے۔

【6】

سوار کا پیدال چلنے والے کو سلام کرنا۔

ہم سے محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو مخلد نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے زیاد نے خبر دی، انہوں نے عبدالرحمٰن بن زید کے غلام ثابت سے سنا، اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے بڑی تعداد والوں کو۔

【7】

پیدل چلنے والے کا بیٹھے ہوئے کو سلام کرنا۔

ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے زیاد نے خبر دی، انہیں ثابت نے خبر دی جو عبدالرحمٰن بن زید کے غلام ہیں۔ اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو اور چھوٹی جماعت پہلے بڑی جماعت کو سلام کرے۔

【8】

باب

باب : کم عمر والا پہلے بڑی عمر والے کو سلام کرے اور ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے صفوان بن سلیم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چھوٹا بڑے کو سلام کرے، گزرنے والا بیٹھنے والے کو اور کم تعداد والے بڑی تعداد والوں کو۔

【9】

سلام کا رائج کرنا۔

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، ان سے اشعث بن ابی الشعثاء نے، ان سے معاویہ بن سوید بن مقرن نے اور ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا تھا۔ بیمار کی مزاج پرسی کرنے کا، جنازے کے پیچھے چلنے کا، چھینکنے والے کے جواب دینے کا۔ کمزور کی مدد کرنے کا، مظلوم کی مدد کرنے کا، افشاء سلام (سلام کا جواب دینے اور بکثرت سلام کرنے) کا، قسم (حق) کھانے والے کی قسم پوری کرنے کا، اور نبی کریم ﷺ نے چاندی کے برتن میں پینے سے منع فرمایا تھا اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے ہمیں منع فرمایا تھا۔ میثر (ریشم کی زین) پر سوار ہونے سے، ریشم اور دیباج پہننے، قسی (ریشمی کپڑا) اور استبرق پہننے سے (منع فرمایا تھا) ۔

【10】

پہچان یا بغیر پہچان کے لوگوں کو سلام کرنے کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید نے بیان کیا، ان سے ابوالخیر نے، ان سے عبداللہ بن عمر و (رض) نے کہ ایک صاحب نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا : اسلام کی کون سی حالت افضل ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ کہ (اللہ کی مخلوق کو) کھانا کھلاؤ اور سلام کرو، اسے بھی جسے تم پہچانتے ہو اور اسے بھی جسے نہیں پہچانتے۔

【11】

پہچان یا بغیر پہچان کے لوگوں کو سلام کرنے کا بیان۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یزید لیثی نے اور ان سے ابوایوب (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے کسی (مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلق کاٹے کہ جب وہ ملیں تو یہ ایک طرف منہ پھیر لے اور دوسرا دوسری طرف اور دونوں میں اچھا وہ ہے جو سلام پہلے کرے۔ اور سفیان نے کہا کہ انہوں نے یہ حدیث زہری سے تین مرتبہ سنی ہے۔

【12】

پردہ کی آیت کا بیان

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا مجھ کو یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے کہا کہ مجھے انس بن مالک (رض) نے خبر دی کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ (ہجرت کر کے) تشریف لائے تو ان کی عمر دس سال تھی۔ پھر میں نے نبی کریم ﷺ کی زندگی کے باقی دس سالوں میں آپ کی خدمت کی اور میں پردہ کے حکم کے متعلق سب سے زیادہ جانتا ہوں کہ کب نازل ہوا تھا۔ ابی بن کعب (رض) مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ پردہ کے حکم کا نزول سب سے پہلے اس رات ہوا جس میں رسول اللہ ﷺ نے زینب بنت جحش (رض) سے نکاح کے بعد ان کے ساتھ پہلی خلوت کی تھی۔ نبی کریم ﷺ ان کے دولہا تھے اور آپ نے صحابہ کو دعوت ولیمہ پر بلایا تھا۔ کھانے سے فارغ ہو کر سب لوگ چلے گئے لیکن چند آدمی آپ کے پاس بیٹھے رہ گئے اور بہت دیر تک وہیں ٹھہرے رہے۔ نبی کریم ﷺ اٹھ کر باہر تشریف لے گئے اور میں بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ چلا گیا تاکہ وہ لوگ بھی چلے جائیں۔ نبی کریم چلتے رہے اور میں بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ چلتا رہا اور سمجھا کہ وہ لوگ اب چلے گئے ہیں۔ اس لیے واپس تشریف لائے اور میں بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ واپس آیا لیکن آپ جب زینب (رض) کے حجرے میں داخل ہوئے تو وہ لوگ ابھی بیٹھے ہوئے تھے اور ابھی تک واپس نہیں گئے تھے۔ نبی کریم ﷺ دوبارہ وہاں سے لوٹ گئے اور میں بھی آپ کے ساتھ لوٹ گیا۔ جب آپ عائشہ (رض) کے حجرہ کی چوکھٹ تک پہنچے تو آپ نے سمجھا کہ وہ لوگ نکل چکے ہوں گے۔ پھر آپ لوٹ کر آئے اور میں بھی آپ کے ساتھ لوٹ آیا تو واقعی وہ لوگ جا چکے تھے۔ پھر پردہ کی آیت نازل ہوئی اور نبی کریم ﷺ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ لٹکا لیا۔

【13】

پردہ کی آیت کا بیان

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ ان سے ابومجلز نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ نے زینب (رض) سے نکاح کیا تو لوگ اندر آئے اور کھانا کھایا پھر بیٹھ کے باتیں کرتے رہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس طرح اظہار کیا گویا آپ کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ کھڑے نہیں ہوئے جب نبی کریم ﷺ نے یہ دیکھا تو کھڑے ہوگئے۔ آپ کے کھڑے ہونے پر قوم کے جن لوگوں کو کھڑا ہونا تھا وہ بھی کھڑے ہوگئے لیکن بعض لوگ اب بھی بیٹھے رہے اور جب نبی کریم ﷺ اندر داخل ہونے کے لیے تشریف لائے تو کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے (آپ واپس ہوگئے) اور پھر جب وہ لوگ بھی کھڑے ہوئے اور چلے گئے تو میں نے نبی کریم ﷺ کو اس کی اطلاع دی۔ نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور اندر داخل ہوگئے۔ میں نے بھی اندر جانا چاہا لیکن نبی کریم ﷺ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال لیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي‏ اے ایمان والو ! نبی کے گھر میں نہ داخل ہو۔ آخر تک۔

【14】

پردہ کی آیت کا بیان

ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو یعقوب نے خبر دی، مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب (رض) نبی کریم ﷺ سے کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ ازواج مطہرات کا پردہ کرائیں۔ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایسا نہیں کیا اور ازواج مطہرات رفع حاجت کے لیے صرف رات ہی کے وقت نکلتی تھیں (اس وقت گھروں میں بیت الخلاء نہیں تھے) ایک مرتبہ سودہ بنت زمعہ (رض) باہر گئی ہوئی تھیں۔ ان کا قد لمبا تھا۔ عمر بن خطاب (رض) نے انہیں دیکھا۔ اس وقت وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا سودہ میں نے آپ کو پہچان لیا یہ انہوں نے اس لیے کہا کیونکہ وہ پردہ کے حکم نازل ہونے کے بڑے متمنی تھے۔ بیان کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے پردہ کی آیت نازل کی۔

【15】

اجازت مانگنی نظر پڑجانے کی وجہ سے (ضروری) ہے۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے زہری نے بیان کیا (سفیان نے کہا کہ) میں نے یہ حدیث زہری سے سن کر اس طرح یاد کی ہے کہ جیسے تو اس وقت یہاں موجود ہو اور ان سے سہل بن سعد نے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کے کسی حجرہ میں سوراخ سے دیکھا، نبی کریم ﷺ کے پاس اس وقت ایک کنگھا تھا جس سے آپ سر مبارک کھجا رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم جھانک رہے ہو تو یہ کنگھا تمہاری آنکھ میں چبھو دیتا (اندر داخل ہونے سے پہلے) اجازت مانگنا تو ہے ہی اس لیے کہ (اندر کی کوئی ذاتی چیز) نہ دیکھی جائے۔

【16】

اجازت مانگنی نظر پڑجانے کی وجہ سے (ضروری) ہے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن ابی بکر نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ ایک صاحب نبی کریم ﷺ کے کسی حجرہ میں جھانک کر دیکھنے لگے تو نبی کریم ﷺ ان کی طرف تیر کا پھل یا بہت سے پھل لے کر بڑھے، گویا میں نبی کریم ﷺ کو دیکھ رہا ہوں ان صاحب کی طرف اس طرح چپکے چپکے تشریف لائے۔

【17】

اعضاء اور شرمگاہ کے الگ الگ زنا ہیں۔

ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ ابوہریرہ (رض) کی حدیث سے زیادہ صغیرہ گناہوں سے مشابہ میں نے اور کوئی چیز نہیں دیکھی۔ (ابوہریرہ (رض) نے جو باتیں بیان کی ہیں وہ مراد ہیں) ۔ مجھ سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ابن طاؤس نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ میں نے کوئی چیز صغیرہ گناہوں سے مشابہ اس حدیث کے مقابلہ میں نہیں دیکھی جسے ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے معاملہ میں زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے جس سے وہ لامحالہ دوچار ہوگا پس آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے، دل کا زنا یہ ہے کہ وہ خواہش اور آرزو کرتا ہے پھر شرمگاہ اس خواہش کو سچا کرتی ہے یا جھٹلا دیتی ہے۔

【18】

سلام کرنے اور تین بار اجازت مانگنے کا بیان۔

ہم سے اسحٰق نے بیان کیا کہا ہم کو عبدالصمد نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن مثنی نے خبر دی ان سے ثمامہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی کو سلام کرتے (اور جواب نہ ملتا) تو تین مرتبہ سلام کرتے تھے اور جب آپ ﷺ کوئی بات فرماتے تو (زیادہ سے زیادہ) تین مرتبہ اسے دہراتے۔

【19】

سلام کرنے اور تین بار اجازت مانگنے کا بیان۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن خصیفہ نے بیان کیا ان سے بسر بن سعید اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ میں انصار کی ایک مجلس میں تھا کہ ابوموسیٰ (رض) تشریف لائے جیسے گھبرائے ہوئے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عمر (رض) کے یہاں تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت چاہی لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملا، اس لیے واپس چلا آیا (عمر (رض) کو معلوم ہوا) تو انہوں نے دریافت کیا کہ (اندر آنے میں) کیا بات مانع تھی ؟ میں نے کہا کہ میں نے تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت مانگی اور جب مجھے کوئی جواب نہیں ملا تو واپس چلا گیا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی کسی سے تین مرتبہ اجازت چاہے اور اجازت نہ ملے تو واپس چلا جانا چاہیے۔ عمر (رض) نے کہا : واللہ ! تمہیں اس حدیث کی صحت کے لیے کوئی گواہ لانا ہوگا۔ (ابوموسیٰ (رض) نے مجلس والوں سے پوچھا) کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس نے نبی کریم ﷺ سے یہ حدیث سنی ہو ؟ ابی بن کعب (رض) نے کہا کہ اللہ کی قسم ! تمہارے ساتھ (اس کی گواہی دینے کے سوا) جماعت میں سب سے کم عمر شخص کے کوئی اور نہیں کھڑا ہوگا۔ ابوسعید نے کہا اور میں ہی جماعت کا وہ سب سے کم عمر آدمی تھا میں ان کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوگیا اور عمر (رض) سے کہا کہ واقعی نبی کریم ﷺ نے ایسا فرمایا ہے۔ اور ابن مبارک نے بیان کیا کہ مجھ کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، کہا مجھ سے یزید بن خصیفہ نے بیان کیا، انہوں نے بسر بن سعید سے، کہا میں نے ابوسعید (رض) سے سنا پھر یہی حدیث نقل کی۔

【20】

جب کوئی شخص بلایا جائے اور وہ آ جائے تو کیا وہ بھی اجازت لے سعید نے قتادہ سے بواسطہ ابورافع ابوہریرہ (رض) آنحضرت ﷺ سے نقل کیا آپ نے فرمایا کہ وہی اس کی اجازت ہے۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عمر بن ذر نے بیان کیا (دوسری سند) اور ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو مجاہد نے خبر دی، اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (آپ کے گھر میں) داخل ہوا نبی کریم ﷺ نے ایک بڑے پیالے میں دودھ پایا تو فرمایا ابوہریرہ ! اہل صفہ کے پاس جا اور انہیں میرے پاس بلا لا۔ میں ان کے پاس آیا اور انہیں بلا لایا۔ وہ آئے اور (اندر آنے کی) اجازت چاہی پھر جب اجازت دی گئی تو داخل ہوئے۔

【21】

بچوں کو سلام کرنے کا بیان

ہم سے علی بن الجعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں سیار نے انہوں نے ثابت بنانی سے روایت کی، انہیں انس بن مالک (رض) نے کہ آپ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا اور فرمایا کہ نبی کریم ﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔

【22】

مردوں کا عورتوں کو اور عورتوں کا مردوں کو سلام کرنے کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی حازم نے ان سے ان کے والد نے اور ان سے سہل (رض) نے کہ ہم جمعہ کے دن خوش ہوا کرتے تھے۔ میں نے عرض کی کس لیے ؟ فرمایا کہ ہماری ایک بڑھیا تھیں جو مقام بضاعہ جایا کرتی تھیں۔ ابن سلمہ نے کہا کہ بضاعہ مدینہ منورہ کا کھجور کا ایک باغ تھا۔ پھر وہ وہاں سے چقندر لایا کرتی تھیں اور اسے ہانڈی میں ڈالتی تھیں اور جَو کے کچھ دانے پیس کر (اس میں ملاتی تھیں) جب ہم جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس ہوتے تو انہیں سلام کرنے آتے اور وہ یہ چقندر کی جڑ میں آٹا ملی ہوئی دعوت ہمارے سامنے رکھتی تھیں ہم اس وجہ سے جمعہ کے دن خوش ہوا کرتے تھے اور قیلولہ یا دوپہر کا کھانا ہم جمعہ کے بعد کرتے تھے۔

【23】

مردوں کا عورتوں کو اور عورتوں کا مردوں کو سلام کرنے کا بیان۔

ہم سے ابن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی انہیں زہری نے انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ ! یہ جبرائیل ہیں تمہیں سلام کہتے ہیں بیان کیا کہ میں نے عرض کیا وعليه السلام ورحمة الله آپ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ سکتے ام المؤمنین کا اشارہ نبی کریم ﷺ کی طرف تھا۔ معمر کے ساتھ اس حدیث کو شعیب اور یونس اور نعمان نے بھی زہری سے روایت کیا ہے یونس اور نعمان کی روایتوں میں وبرکاته‏. کا لفظ زیادہ ہے۔

【24】

جب کوئی کہے کہ کون تو اس کے جواب میں میں کہنے کا بیان۔

ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے کہا کہ میں نے جابر (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس قرض کے بارے میں حاضر ہوا جو میرے والد پر تھا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کون ہیں ؟ میں نے کہا میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں، میں جیسے آپ نے اس جواب کو ناپسند فرمایا۔

【25】

سلام کے جواب میں علیک السلام کہنے کا بیان۔ اور حضرت عائشہ نے "وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" کہا۔ اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو السلام علیک ورحمۃ اللہ (جواب میں) کہا۔

ہم سے اسحٰق بن منصور نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن نمیر نے خبر دی، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ ﷺ مسجد کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے نماز پڑھی اور پھر حاضر ہو کر نبی کریم ﷺ کو سلام کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا وعلیک السلام واپس جا اور دوبارہ نماز پڑھ، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گئے اور نماز پڑھی۔ پھر (نبی کریم ﷺ ) کے پاس آئے اور سلام کیا آپ نے فرمایا وعلیک السلام۔ واپس جاؤ پھر نماز پڑھو۔ کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گیا اور اس نے پھر نماز پڑھی۔ پھر واپس آیا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا وعلیکم السلام۔ واپس جاؤ اور دوبارہ نماز پڑھو۔ کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ ان صاحب نے دوسری مرتبہ، یا اس کے بعد، عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے نماز پڑھنی سکھا دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوا کرو تو پہلے پوری طرح وضو کیا کرو، پھر قبلہ رو ہو کر تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہو، اس کے بعد قرآن مجید میں سے جو تمہارے لیے آسان ہو وہ پڑھو، پھر رکوع کرو اور جب رکوع کی حالت میں برابر ہوجاؤ تو سر اٹھاؤ۔ جب سیدھے کھڑے ہوجاؤ تو پھر سجدہ میں جاؤ، جب سجدہ پوری طرح کرلو تو سر اٹھاؤ اور اچھی طرح سے بیٹھ جاؤ۔ یہی عمل اپنی ہر رکعت میں کرو۔ اور ابواسامہ راوی نے دوسرے سجدہ کے بعد یوں کہا کہ پھر سر اٹھا یہاں تک کہ سید ھا کھڑا ہوجا۔

【26】

سلام کے جواب میں علیک السلام کہنے کا بیان۔ اور حضرت عائشہ نے "وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" کہا۔ اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو السلام علیک ورحمۃ اللہ (جواب میں) کہا۔

ہم سے ابن بشار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے سعید نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پھر سر سجدہ سے اٹھا اور اچھی طرح بیٹھ جا۔

【27】

جب کوئی شخص کہے کہ فلاں تم کو سلام کہتا ہے۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عامر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) تمہیں سلام کہتے ہیں۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ ان پر بھی اللہ کی طرف سے سلامتی اور اس کی رحمت نازل ہو۔

【28】

اس مجلس کو سلام کرنا جس میں مسلمان اور مشرک مل جل کر بیٹھے ہوئے ہوں۔

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ مجھے اسامہ بن زید (رض) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان بندھا ہوا تھا اور نیچے فدک کی بنی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے سواری پر اپنے پیچھے اسامہ بن زید (رض) کو بٹھایا تھا۔ آپ بنی حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ (رض) کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ نبی کریم ﷺ ایک مجلس پر سے گزرے جس میں مسلمان، بت پرست، مشرک اور یہودی سب ہی شریک تھے۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی ان میں تھا۔ مجلس میں عبداللہ بن رواحہ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گرد پڑا تو عبداللہ نے اپنی چادر سے اپنی ناک چھپالی اور کہا کہ ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ پھر نبی کریم ﷺ نے سلام کیا اور وہاں رک گئے اور اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلایا اور ان کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کی۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول بولا، میاں میں ان باتوں کے سمجھنے سے قاصر ہوں اگر وہ چیز حق ہے جو تم کہتے ہو تو ہماری مجلسوں میں آ کر ہمیں تکلیف نہ دیا کرو۔ اس پر ابن رواحہ نے کہا یا رسول اللہ ! آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں۔ پھر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں اس بات پر تو تو میں میں ہونے لگی اور قریب تھا کہ وہ کوئی ارادہ کر بیٹھیں اور ایک دوسرے پر حملہ کردیں۔ لیکن نبی کریم ﷺ انہیں برابر خاموش کراتے رہے اور جب وہ خاموش ہوگئے تو نبی کریم ﷺ اپنی سواری پر بیٹھ کر سعد بن عبادہ (رض) کے یہاں گئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا، سعد تم نے نہیں سنا کہ ابوحباب نے آج کیا بات کہی ہے۔ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا کہ اس نے یہ یہ باتیں کہی ہیں۔ سعد نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اسے معاف کر دیجئیے اور درگزر فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ حق آپ کو عطا فرمایا ہے جو عطا فرمانا تھا۔ اس بستی (مدینہ منورہ) کے لوگ (آپ کی تشریف آوری سے پہلے) اس پر متفق ہوگئے تھے کہ اسے تاج پہنا دیں اور شاہی عمامہ اس کے سر پر باندھ دیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کو اس حق کی وجہ سے ختم کردیا جو اس نے آپ کو عطا فرمایا ہے تو اسے حق سے حسد ہوگیا اور اسی وجہ سے اس نے یہ معاملہ کیا ہے جو آپ نے دیکھا۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے اسے معاف کردیا۔

【29】

گناہ کے مرتکب کو سلام نہ کرنے اور اس کو جواب نہ دینے کا بیان جب تک کہ اس کے توبہ کے آثار نہ ظاہر ہوں اور گنہگار کی قبولیت توبہ کب ظاہر ہوتی ہے اور عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ شراب پینے والے کو سلام نہ کرو۔

ہم سے ابن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ نے اور ان سے عبداللہ بن کعب نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ جب وہ غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور نبی کریم ﷺ نے ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت کردی تھی اور میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کرتا تھا اور یہ اندازہ لگاتا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے جواب سلام میں ہونٹ مبارک ہلائے یا نہیں، آخر پچاس دن گزر گئے اور نبی کریم ﷺ نے اللہ کی بارگاہ میں ہماری توبہ کے قبول کئے جانے کا نماز فجر کے بعد اعلان کیا۔

【30】

ذمیوں کو سلام کا جواب کس طرح دیا جائے۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی، اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ کچھ یہودی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ السام عليك‏.‏ (تمہیں موت آئے) میں ان کی بات سمجھ گئی اور میں نے جواب دیا عليكم السام واللعنة‏.‏ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ صبر سے کام لے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا تھا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے ان کو جواب دے دیا تھا کہ وعليكم (اور تمہیں بھی) ۔

【31】

ذمیوں کو سلام کا جواب کس طرح دیا جائے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تمہیں یہودی سلام کریں اور اگر ان میں سے کوئی السام عليك‏.‏ کہے تو تم اس کے جواب میں صرف وعليك (اور تمہیں بھی) کہہ دیا کرو۔

【32】

ذمیوں کو سلام کا جواب کس طرح دیا جائے۔

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن ابی بکر بن انس نے خبر دی، ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو تم اس کے جواب میں صرف وعليكم کہو۔

【33】

اس خط کے دیکھنے کا بیان جس میں مسلمانوں کے مفاد کے خلاف کوئی بات لکھی ہو تاکہ اصل حال معلوم ہوجائے۔

ہم سے یوسف بن بہلول نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ادریس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے حصین بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے سعد بن عبیدہ نے، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی نے اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے زبیر بن عوام اور ابومرثد غنوی کو بھیجا۔ ہم سب گھوڑ سوار تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اور جب روضہ خاخ (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام) پر پہنچو تو وہاں تمہیں مشرکین کی ایک عورت ملے گی اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو مشرکین کے پاس بھیجا گیا ہے (اسے لے آؤ) ۔ بیان کیا کہ ہم نے اس عورت کو پا لیا وہ اپنے اونٹ پر جا رہی تھی اور وہیں پر ملی (جہاں) نبی کریم ﷺ نے بتایا تھا۔ بیان کیا کہ ہم نے اس سے کہا کہ خط جو تم ساتھ لے جا رہی ہو وہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے کجاوہ میں تلاشی لی لیکن ہمیں کوئی چیز نہیں ملی۔ میرے دونوں ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں کوئی خط تو نظر آتا نہیں۔ بیان کیا کہ میں نے کہا، مجھے یقین ہے کہ نبی کریم ﷺ نے غلط بات نہیں کہی ہے۔ قسم ہے اس کی جس کی قسم کھائی جاتی ہے، تم خط نکالو ورنہ میں تمہیں ننگا کر دوں گا۔ بیان کیا کہ جب اس عورت نے دیکھا کہ میں واقعی اس معاملہ میں سنجیدہ ہوں تو اس نے ازار باندھنے کی جگہ کی طرف ہاتھ بڑھایا، وہ ایک چادر ازار کے طور پر باندھے ہوئے تھی اور خط نکالا۔ بیان کیا کہ ہم اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ حاطب تم نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے کہا کہ میں اب بھی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں۔ میرے اندر کوئی تغیر و تبدیلی نہیں آئی ہے، میرا مقصد (خط بھیجنے سے) صرف یہ تھا کہ (قریش پر آپ کی فوج کشی کی اطلاع دوں اور اس طرح) میرا ان لوگوں پر احسان ہوجائے اور اس کی وجہ سے اللہ میرے اہل اور مال کی طرف سے (ان سے) مدافعت کرائے۔ آپ کے جتنے مہاجر صحابہ ہیں ان کے مکہ مکرمہ میں ایسے افراد ہیں جن کے ذریعہ اللہ ان کے مال اور ان کے گھر والوں کی حفاظت کرائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہ دیا ہے اب تم لوگ ان کے بارے میں سوا بھلائی کے اور کچھ نہ کہو بیان کیا کہ اس پر عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا کہ اس شخص نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی، مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : عمر ! تمہیں کیا معلوم، اللہ تعالیٰ بدر کی لڑائی میں شریک صحابہ کی زندگی پر مطلع تھا اور اس کے باوجود فرمایا کہ تم جو چاہو کرو، تمہارے لیے جنت لکھ دی گئی ہے، بیان کیا کہ اس پر عمر (رض) کی آنکھیں اشک آلود ہوگئیں اور عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔

【34】

اہل کتاب کی طرف کس طرح خط لکھا جائے۔

ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی انہوں نے کہا ہم کو یونس نے خبر دی اور ان سے زہری نے بیان کیا انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی انہیں عبداللہ بن عباس (رض) نے خبر دی اور انہیں ابوسفیان بن حرب (رض) نے خبر دی کہ ہرقل نے قریش کے چند افراد کے ساتھ انہیں بھی بلا بھیجا یہ لوگ شام تجارت کی غرض سے گئے تھے سب لوگ ہرقل کے پاس آئے پھر انہوں نے واقعہ بیان کیا کہ پھر ہرقل نے رسول اللہ ﷺ کا خط منگوایا اور وہ پڑھا گیا خط میں یہ لکھا ہوا تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، محمد کی طرف سے جو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے ( ﷺ ) ۔ ہرقل عظیم روم کی طرف، سلام ہو ان پر جنہوں نے ہدایت کی اتباع کی۔ امابعد !

【35】

باب

لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے جعفر بن ربیع نے بیان کیا ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے کہ نبی کریم ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا کہ انہوں نے لکڑی کا ایک لٹھا لیا اور اس میں سوراخ کر کے ایک ہزار دینار اور خط رکھ دیا وہ ان کی طرف سے ان کے ساتھی (قرض خواہ) کی طرف تھا اور عمر بن ابی سلمہ نے بیان کیا کہ ان سے ان کے والد نے اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے لکڑی کے ایک لٹھے میں سوراخ کیا اور مال اس کے اندر رکھ دیا اور ان کے پاس ایک خط لکھا، فلاں کی طرف سے فلاں کو ملے۔

【36】

نبی صلی اللہ علیہ کا فرمانا کہ اپنے سردار کے لئے کھڑے ہوجاؤ۔

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ان سے سعد بن ابراہیم نے ان سے ابوامامہ بن سہل بن حنیف نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے کہ قریظہ کے یہودی سعد بن معاذ (رض) کو ثالث بنانے پر تیار ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بلا بھیجا جب وہ آئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنے سردار کے لینے کو اٹھو یا یوں فرمایا کہ اپنے میں سب سے بہتر کو لینے کے لیے اٹھو۔ پھر وہ نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھ گئے اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بنی قریظہ کے لوگ تمہارے فیصلے پر راضی ہو کر (قلعہ سے) اتر آئے ہیں (اب تم کیا فیصلہ کرتے ہو) ۔ سعد (رض) نے کہا کہ پھر میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں جو جنگ کے قابل ہیں انہیں قتل کردیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قید کرلیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ نے وہی فیصلہ فرمایا جس فیصلہ کو فرشتہ لے کر آیا تھا۔ ابوعبداللہ (مصنف) نے بیان کیا کہ مجھے میرے بعض اصحاب نے ابوالولید کے واسطہ سے ابوسعید (رض) کا قول ( على کے بجائے بصلہ إلى حكمك‏.‏ نقل کیا ہے۔

【37】

مصافحہ کرنے کا بیان اور ابن مسعود نے بیان کیا کہ مجھے نبی ﷺ نے تشہد سکھلایا اور میرا ہاتھ آپ کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا اور کعب بن مالک (رض) نے کہا کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسول ﷺ تشریف فرما ہیں، طلحہ بن عبیداللہ میری طرف جلدی سے اٹھ کر آئے یہاں تک کہ مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارکباد دی۔

ہم سے عمرو بن عاصم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا ان سے قتادہ نے کہ میں نے انس (رض) سے پوچھا، کیا مصافحہ کا دستور نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں تھا ؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں ضرور تھا۔

【38】

مصافحہ کرنے کا بیان اور ابن مسعود نے بیان کیا کہ مجھے نبی ﷺ نے تشہد سکھلایا اور میرا ہاتھ آپ کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا اور کعب بن مالک (رض) نے کہا کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسول ﷺ تشریف فرما ہیں، طلحہ بن عبیداللہ میری طرف جلدی سے اٹھ کر آئے یہاں تک کہ مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارکباد دی۔

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے حیوہ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے ابوعقیل زہرہ بن معبد نے بیان کیا، انہوں نے اپنے دادا عبداللہ بن ہشام (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے اور نبی کریم ﷺ عمر بن خطاب (رض) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔

【39】

دونوں ہاتھ پکڑنے کا بیان، اور حماد بن زید نے ابن مبارک سے دونوں ہاتھوں پر مصافحہ کیا۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سیف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے مجاہد سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن بخرہ ابومعمر نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تشہد سکھایا، اس وقت میرا ہاتھ نبی کریم ﷺ کی ہتھیلیوں کے درمیان میں تھا (اس طرح سکھایا) جس طرح آپ قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے۔ التحيات لله والصلوات والطيبات،‏‏‏‏ السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبرکاته،‏‏‏‏ السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين،‏‏‏‏ أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله‏.‏ نبی کریم ﷺ اس وقت حیات تھے۔ جب آپ کی وفات ہوگئی تو ہم (خطاب کا صیغہ کے بجائے) اس طرح پڑھنے لگے السلام‏.‏ على النبي یعنی نبی کریم ﷺ پر سلام ہو۔

【40】

معانقہ کا بیان اور کسی شخص کا یہ پوچھنا کہ صبح طبیعت کیسی رہی۔

ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو بشر بن شعیب نے خبر دی، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے زہری نے، کہا مجھ کو عبداللہ بن کعب نے خبر دی اور ان کو عبداللہ بن عباس (رض) نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب (رض) (مرض الموت میں) نبی کریم ﷺ کے پاس سے نکلے (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس (رض) نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب (رض) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے نکلے، یہ اس مرض کا واقعہ ہے جس میں نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی تھی۔ لوگوں نے پوچھا : اے ابوالحسن ! نبی کریم ﷺ نے صبح کیسی گزاری ؟ انہوں نے کہا کہ بحمدللہ آپ کو سکون رہا ہے۔ پھر علی (رض) کا ہاتھ عباس (رض) نے پکڑ کر کہا۔ کیا تم نبی کریم ﷺ کو دیکھتے نہیں ہو۔ (واللہ) تین دن کے بعد تمہیں لاٹھی کا بندہ بننا پڑے گا۔ واللہ میں سمجھتا ہوں کہ اس مرض میں آپ وفات پاجائیں گے۔ میں بنی عبدالمطلب کے چہروں پر موت کے آثار کو خوب پہچانتا ہوں، اس لیے ہمارے ساتھ تم نبی کریم ﷺ کے پاس چلو۔ تاکہ پوچھا جائے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد خلافت کس کے ہاتھ میں رہے گی اگر وہ ہمیں لوگوں کو ملتی ہے تو ہمیں معلوم ہوجائے گا اور اگر دوسروں کے پاس جائے گی تو ہم عرض کریں گے تاکہ نبی کریم ﷺ ہمارے بارے میں کچھ وصیت کریں۔ علی (رض) نے کہا کہ واللہ ! اگر ہم نے نبی کریم ﷺ سے خلافت کی درخواست کی اور نبی کریم ﷺ نے انکار کردیا تو پھر لوگ ہمیں کبھی نہیں دیں گے میں تو نبی کریم ﷺ سے کبھی نہیں پوچھوں گا کہ آپ کے بعد کون خلیفہ ہو۔

【41】

جواب میں لبیک و سعدیک کہنے کا بیان۔

ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ بن دعامہ نے بیان کیا، ان سے انس (رض) نے اور ان سے معاذ (رض) نے پھر وہی حدیث مذکورہ بالا بیان کی۔

【42】

جواب میں لبیک و سعدیک کہنے کا بیان۔

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے زید بن وہب نے بیان کیا (کہا کہ) واللہ ہم سے ابوذر (رض) نے مقام ربذہ میں بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رات کے وقت مدینہ منورہ کی کالی پتھروں والی زمین پر چل رہا تھا کہ احد پہاڑ دکھائی دیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے ابوذر ! مجھے پسند نہیں کہ اگر احد پہاڑ کے برابر بھی میرے پاس سونا ہو اور مجھ پر ایک رات بھی اس طرح گزر جائے یا تین رات کہ اس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس باقی بچے۔ سوائے اس کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے محفوظ رکھ لوں میں اس سارے سونے کو اللہ کی مخلوق میں اس اس طرح تقسیم کر دوں گا۔ ابوذر (رض) نے اس کی کیفیت ہمیں اپنے ہاتھ سے لپ بھر کر دکھائی۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے ابوذر ! میں نے عرض کیا لبيك وسعديك‏.‏ یا رسول اللہ ! نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ زیادہ جمع کرنے والے ہی (ثواب کی حیثیت سے) کم حاصل کرنے والے ہوں گے۔ سوائے اس کے جو اللہ کے بندوں پر مال اس اس طرح یعنی کثرت کے ساتھ خرچ کرے۔ پھر فرمایا یہیں ٹھہرے رہو ابوذر ! یہاں سے اس وقت تک نہ ہٹنا جب تک میں واپس نہ آجاؤں۔ پھر آپ ﷺ تشریف لے گئے اور نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ اس کے بعد میں نے آواز سنی اور مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں نبی کریم ﷺ کو کوئی پریشانی نہ پیش آگئی ہو۔ اس لیے میں نے (نبی کریم ﷺ کو دیکھنے کے لیے) جانا چاہا لیکن فوراً ہی نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد یاد آیا کہ یہاں سے نہ ہٹنا۔ چناچہ میں وہیں رک گیا (جب آپ تشریف لائے تو) میں نے عرض کی۔ میں نے آواز سنی تھی اور مجھے خطرہ ہوگیا تھا کہ کہیں آپ کو کوئی پریشانی نہ پیش آجائے پھر مجھے آپ کا ارشاد یاد آیا اس لیے میں یہیں ٹھہر گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے۔ میرے پاس آئے تھے اور مجھے خبر دی ہے کہ میری امت کا جو شخص بھی اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اگرچہ اس نے زنا اور چوری کی ہو ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اگر اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو۔ (اعمش نے بیان کیا کہ) میں نے زید بن وہب سے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس حدیث کے راوی ابودرداء (رض) ہیں ؟ زید نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ حدیث مجھ سے ابوذر (رض) نے مقام ربذہ میں بیان کی تھی۔ اعمش نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوصالح نے حدیث بیان کی اور ان سے ابو الدرداء (رض) نے اسی طرح بیان کیا اور ابوشہاب نے اعمش سے بیان کیا۔

【43】

کوئی شخص کسی کو اس کے بیٹھنے کی جگہ سے نہ اٹھائے۔

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کے بیٹھنے کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ خود وہاں بیٹھ جائے۔

【44】

جب تم سے کہا جائے کہ بیٹھنے کیلئے جگہ دے دو تو تم جگہ دے دو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کشادگی کرے گا۔ اور جب کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جاؤ الخ۔

ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبداللہ عمری نے، ان سے نافع اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا تھا کہ کسی شخص کو اس کی جگہ سے اٹھایا جائے تاکہ دوسرا اس کی جگہ پر بیٹھے، البتہ (آنے والے کو مجلس میں) جگہ دے دیا کرو اور فراخی کردیا کرو اور ابن عمر (رض) ناپسند کرتے تھے کہ کوئی شخص مجلس میں سے کسی کو اٹھا کر خود اس کی جگہ بیٹھ جائے۔

【45】

اس شخص کا بیان جو اپنی مجلس سے یا گھر سے اپنے ساتھیوں کی اجازت کے بغیر کھڑا ہوجائے، یا اس لئے کھڑا ہونے کا ادراہ کرے کہ لوگ بھی کھڑے ہوجائیں۔

ہم سے حسن بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے، کہا میں نے اپنے والد سے سنا، وہ ابومجلز (حق بن حمید) سے بیان کرتے تھے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے زینب بنت جحش (رض) سے نکاح کیا تو لوگوں کو (دعوت ولیمہ پر) بلایا۔ لوگوں نے کھانا کھایا پھر بیٹھ کر باتیں کرتے رہے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے ایسا کیا گویا آپ اٹھنا چاہتے ہیں۔ لیکن لوگ (پھر بھی بیٹھے ہوئے تھے) پھر بھی کھڑے نہیں ہوئے۔ جب نبی کریم ﷺ نے یہ دیکھا تو آپ کھڑے ہوگئے جب نبی کریم ﷺ کھڑے ہوئے تو آپ کے ساتھ اور بھی بہت سے صحابہ کھڑے ہوگئے لیکن تین آدمی اب بھی باقی رہ گئے۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ اندر جانے کے لیے تشریف لائے لیکن وہ لوگ اب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد وہ لوگ بھی چلے گئے۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ پھر میں آیا اور میں نے نبی کریم ﷺ کو اطلاع دی کہ وہ (تین آدمی) بھی جا چکے ہیں۔ نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور اندر داخل ہوگئے۔ میں نے بھی اندر جانا چاہا لیکن نبی کریم ﷺ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال لیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم‏ اے ایمان والو ! نبی کے گھر میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے۔ ارشاد ہوا إن ذلکم کان عند الله عظيما‏ تک۔

【46】

ہاتھ سے احتباء کا بیان اور اس کو قرفصاء بھی کہتے ہیں

ہم سے محمد بن ابی غالب نے بیان کیا، کہا ہم کو ابراہیم بن المنذر حزامی نے خبر دی، کہا ہم سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو صحن کعبہ میں دیکھا کہ آپ سرین پر بیٹھے ہوئے دونوں رانیں شکم مبارک سے ملائے ہوئے ہاتھوں سے پنڈلی پکڑے ہوئے بیٹھے تھے۔

【47】

اپنے ساتھیوں کے سامنے تکیہ لگا کر بیٹھے کا بیان۔ خ (رض) کا بیان ہے کہ میں نبی ﷺ کے پاس آیا، آپ (رض) چادر کا تکیہ بنائے ہوئے تھے، میں نے عرض کیا، کیا آپ اللہ سے دعا نہیں فرمائیں گے؟ (یہ سن کر) آپ بیٹھ گئے۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ایاس جریری نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کی خبر نہ دوں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ ! نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔

【48】

اپنے ساتھیوں کے سامنے تکیہ لگا کر بیٹھے کا بیان۔ خ (رض) کا بیان ہے کہ میں نبی ﷺ کے پاس آیا، آپ (رض) چادر کا تکیہ بنائے ہوئے تھے، میں نے عرض کیا، کیا آپ اللہ سے دعا نہیں فرمائیں گے؟ (یہ سن کر) آپ بیٹھ گئے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے اسی طرح مثال بیان کیا، (اور یہ بھی بیان کیا کہ) نبی کریم ﷺ ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا ہاں اور جھوٹی بات بھی۔ نبی کریم ﷺ اسے اتنی مرتبہ باربار دہراتے رہے کہ ہم نے کہا، کاش آپ خاموش ہوجاتے۔

【49】

کسی ضرورت کی وجہ سے یا قصداً تیز چلنے کا بیان۔

ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے عمر بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عقبہ بن حارث (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی اور پھر بڑی تیزی کے ساتھ چل کر آپ گھر میں داخل ہوگئے۔

【50】

تخت کا بیان۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ تخت کے وسط میں نماز پڑھتے تھے اور میں نبی کریم ﷺ اور قبلہ کے درمیان لیٹی رہتی تھی مجھے کوئی ضرورت ہوتی لیکن مجھ کو کھڑے ہو کر آپ کے سامنے آنا برا معلوم ہوتا۔ البتہ آپ کی طرف رخ کر کے میں آہستہ سے کھسک جاتی تھی۔

【51】

کسی کو تکیہ دئیے جانے کا بیان۔

ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عون نے بیان کیا، ان سے خالد (خالد بن عبداللہ طحان) نے بیان کیا، ان سے خالد (خالد حذاء) نے، ان سے ابوقلابہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابوالملیح عامر بن زید نے خبر دی، انہوں نے (ابوقلابہ) کو (خطاب کر کے) کہا کہ میں تمہارے والد زید کے ساتھ عبداللہ بن عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے میرے روزے کا ذکر کیا گیا۔ نبی کریم ﷺ میرے یہاں تشریف لائے میں نے آپ کے لیے چمڑے کا ایک گدا، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی بچھا دیا۔ نبی کریم ﷺ زمین پر بیٹھے اور گدا میرے اور نبی کریم ﷺ کے درمیان ویسا ہی پڑا رہا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تمہارے لیے ہر مہینے میں تین دن کے (روزے) کافی نہیں ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! نبی کریم ﷺ نے فرمایا پھر پانچ دن رکھا کر۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! فرمایا سات دن۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! فرمایا نو دن۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! فرمایا گیارہ دن۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! فرمایا داؤد (علیہ السلام) کے روزے سے زیادہ کوئی روزہ نہیں ہے۔ زندگی کے نصف ایام، ایک دن کا روزہ اور ایک دن بغیر روزہ کے رہنا۔

【52】

کسی کو تکیہ دئیے جانے کا بیان۔

مجھ سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے مغیرہ بن مقسم نے، ان سے ابراہیم نخعی نے اور ان سے علقمہ بن قیس نے کہ آپ ملک شام میں پہنچے (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا کہ اور مجھ سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ نے اور ان سے ابراہیم نے بیان کیا کہ علقمہ ملک شام گئے اور مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھی پھر یہ دعا کی اے اللہ ! مجھے ایک ہم نشین عطا فرما۔ چناچہ وہ ابودرداء (رض) کی مجلس میں جا بیٹھے۔ ابودرداء (رض) نے دریافت کیا۔ تمہارا تعلق کہاں سے ہے ؟ کہا کہ اہل کوفہ سے، پوچھا کیا تمہارے یہاں (نفاق اور منافقین کے) بھیدوں کے جاننے والے وہ صحابی نہیں ہیں جن کے سوا کوئی اور ان سے واقف نہیں ہے ؟ ان کا اشارہ حذیفہ (رض) کی طرف تھا۔ کیا تمہارے یہاں وہ نہیں ہیں (یا یوں کہا کہ) تمہارے وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی زبانی شیطان سے پناہ دی تھی ؟ اشارہ عمار (رض) کی طرف تھا۔ کیا تمہارے یہاں مسواک اور گدے والے نہیں ہیں ؟ ان کا اشارہ ابن مسعود (رض) کی طرف تھا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) سورة والليل إذا يغشى‏ کس طرح پڑھتے تھے۔ علقمہ (رض) نے کہا کہ وہ والذکر والأنثى‏ پڑھتے تھے۔ ابودرداء (رض) نے اس پر کہا کہ یہ لوگ کوفہ والے اپنے مسلسل عمل سے قریب تھا کہ مجھے شبہ میں ڈال دیتے حالانکہ میں نے نبی کریم ﷺ سے خود اسے سنا تھا۔

【53】

جمعہ کے بعد قیلولہ کرنے کا بیان۔

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ ہم کھانا اور قیلولہ نماز جمعہ کے بعد کیا کرتے تھے۔

【54】

مسجد میں قیلولہ کرنے کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن حازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ علی (رض) کو کوئی نام ابوتراب سے زیادہ محبوب نہیں تھا۔ جب ان کو اس نام سے بلایا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ، فاطمہ (علیہا السلام) کے گھر تشریف لائے تو علی (رض) کو گھر میں نہیں پایا تو فرمایا کہ بیٹی تمہارے چچا کے لڑکے (اور شوہر) کہاں گئے ہیں ؟ انہوں نے کہا میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوگئی تھی وہ مجھ پر غصہ ہو کر باہر چلے گئے اور میرے یہاں (گھر میں) قیلولہ نہیں کیا۔ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص سے کہا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں۔ وہ صحابی واپس آئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! وہ تو مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔ نبی کریم ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو علی (رض) لیٹے ہوئے تھے اور چادر آپ کے پہلو سے گرگئی تھی اور گرد آلود ہوگئی تھی نبی کریم ﷺ اس سے مٹی صاف کرنے لگے اور فرمانے لگے، ابوتراب ! (مٹی والے) اٹھو، ابوتراب ! اٹھو۔

【55】

کسی جماعت کے پاس ملاقات کو جانے اور وہاں قیلولہ کرنے کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے، ان سے ثمامہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ (ان کی والدہ) ام سلیم، نبی کریم ﷺ کے لیے چمڑے کا فرش بچھا دیتی تھیں اور نبی کریم ﷺ ان کے یہاں اسی پر قیلولہ کرلیتے تھے۔ بیان کیا پھر جب نبی کریم ﷺ سو گئے (اور بیدار ہوئے) تو ام سلیم (رض) نے نبی کریم ﷺ کا پسینہ اور (جھڑے ہوئے) آپ کے بال لے لیے اور (پسینہ کو) ایک شیشی میں جمع کیا اور پھر سك (ایک خوشبو) میں اسے ملا لیا۔ بیان کیا ہے کہ پھر جب انس بن مالک (رض) کی وفات کا وقت قریب ہوا تو انہوں نے وصیت کی کہ اس سك (جس میں نبی کریم ﷺ کا پسینہ ملا ہوا تھا) میں سے ان کے حنوط میں ملا دیا جائے۔ بیان کیا ہے کہ پھر ان کے حنوط میں اسے ملایا گیا۔

【56】

کسی جماعت کے پاس ملاقات کو جانے اور وہاں قیلولہ کرنے کا بیان۔

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے۔ عبداللہ بن ابی طلحہ نے ان سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ جب رسول اللہ ﷺ قباء تشریف لے جاتے تھے تو ام حرام بنت ملحان (رض) کے گھر بھی جاتے تھے اور وہ نبی کریم ﷺ کو کھانا کھلاتی تھیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور بیدار ہوئے تو آپ ہنس رہے تھے۔ ام حرام (رض) نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں غزوہ کرتے ہوئے میرے سامنے (خواب میں) پیش کئے گئے، جو اس سمندر کے اوپر (کشتیوں میں) سوار ہوں گے (جنت میں وہ ایسے نظر آئے) جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں، یا بیان کیا کہ بادشاہوں کی طرح تخت پر۔ اسحاق کو ان لفظوں میں ذرا شبہ تھا (ام حرام (رض) نے بیان کیا کہ) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے بنائے۔ نبی کریم ﷺ نے دعا کی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر رکھ کر سو گئے اور جب بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے۔ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں ؟ فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستہ میں غزوہ کرتے ہوئے میرے سامنے پیش کئے گئے جو اس سمندر کے اوپر سوار ہوں گے جیسے بادشاہ تحت پر ہوتے ہیں یا مثل بادشاہوں کے تخت پر۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ سے میرے لیے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تو اس گروہ کے سب سے پہلے لوگوں میں ہوگی چناچہ ام حرام (رض) نے (معاویہ (رض) کی شام پر گورنری کے زمانہ میں) سمندری سفر کیا اور خشکی پر اترنے کے بعد اپنی سواری سے گرپڑیں اور وفات پا گئیں۔

【57】

جس طرح آسانی ہو بیٹھنے کا بیان۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یزید لیثی نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے دو طرح کے پہناوے سے اور دو طرح کی خریدو فروخت سے منع فرمایا تھا۔ اشتمال صماء اور ایک کپڑے میں اس طرح احتباء کرنے سے کہ انسان کی شرمگاہ پر کوئی چیز نہ ہو اور ملامست اور منابذت سے۔ اس روایت کی متابعت معمر، محمد بن ابی حفصہ اور عبداللہ بن بدیل نے زہری سے کی ہے۔

【58】

اس کا بیان جو لوگوں کے سامنے سرگوشی کرے اور اس کا بیان جو اپنے ساتھی کا راز کسی کو نہ بتائے، جب مر جائے تو لوگوں کو بتائے۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ وضاح نے، کہا ہم سے فراس بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عامر شعبی نے، ان سے مسروق نے کہ مجھ سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ یہ تمام ازواج مطہرات (نبی کریم ﷺ کے مرض وفات میں) نبی کریم ﷺ کے پاس تھیں، کوئی وہاں سے نہیں ہٹا تھا کہ فاطمہ (رض) چلتی ہوئی آئیں۔ اللہ کی قسم ! ان کی چال رسول اللہ ﷺ کی چال سے الگ نہیں تھی (بلکہ بہت ہی مشابہ تھی) جب نبی کریم ﷺ نے انہیں دیکھا تو خوش آمدید کہا۔ فرمایا بیٹی ! مرحبا ! پھر نبی کریم ﷺ نے اپنی دائیں طرف یا بائیں طرف انہیں بٹھایا۔ اس کے بعد آہستہ سے ان سے کچھ کہا اور فاطمہ (رض) بہت زیادہ رونے لگیں۔ جب نبی کریم ﷺ نے ان کا غم دیکھا تو دوبارہ ان سے سرگوشی کی اس پر وہ ہنسنے لگیں۔ تمام ازواج میں سے میں نے ان سے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہم میں صرف آپ کو سرگوشی کی خصوصیت بخشی۔ پھر آپ رونے لگیں۔ جب نبی کریم ﷺ اٹھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے کان میں نبی کریم ﷺ نے کیا فرمایا تھا انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کا راز نہیں کھول سکتی۔ پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو میں نے فاطمہ (رض) سے کہا کہ میرا جو حق آپ پر ہے اس کا واسطہ دیتی ہوں کہ آپ مجھے وہ بات بتادیں۔ انہوں نے کہا کہ اب بتاسکتی ہوں چناچہ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب نبی کریم ﷺ نے مجھ سے پہلی سرگوشی کی تھی تو فرمایا تھا کہ جبرائیل (علیہ السلام) ہر سال مجھ سے سال میں ایک مرتبہ دور کیا کرتے تھے لیکن اس سال مجھ سے انہوں نے دو مرتبہ دور کیا اور میرا خیال ہے کہ میری وفات کا وقت قریب ہے، اللہ سے ڈرتی رہنا اور صبر کرنا کیونکہ میں تمہارے لیے ایک اچھا آگے جانے والا ہوں بیان کیا کہ اس وقت میرا رونا جو آپ نے دیکھا تھا اس کی وجہ یہی تھی۔ جب نبی کریم ﷺ نے میری پریشانی دیکھی تو آپ نے دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی، فرمایا فاطمہ بیٹی ! کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جنت میں تم مومنوں کی عورتوں کی سردار ہوگی، یا (فرمایا کہ) اس امت کی عورتوں کی سردار ہوگی۔

【59】

چت لیٹنے کا بیان۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عباد بن تمیم نے خبر دی، ان سے ان کے چچا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسجد میں چت لیٹے دیکھا آپ ایک پاؤں دوسرے پر رکھے ہوئے تھے۔

【60】

دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر سر گوشی نہ کریں، اور اﷲ تعالیٰ کا قول کہ ” اے ایمان والو! جب تم سرگوشی کرو، تو گناہ اور ظلم اور رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کی نافرمانی کی سرگوشی نہ کرو، اور اچھی بات اور تقویٰ کی سرگوشی کرو“ وعلی اﷲ فلیتوکل المومنون تک اور اﷲ تعالیٰ کا قول کہ ”اے ایمان والو! جب تم رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے لگو، تو سرگوشی سے پہلے صدقہ کرو یہی تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ ہے، اور اگر تم (اپنے میں) صدقہ کی طاقت نہ پاﺅ تو اﷲ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے، واﷲ خبیر بما تعملوں تک۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تین آدمی ساتھ ہوں تو تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر دو آپس میں کانا پھوسی (سرگوشی) نہ کریں۔

【61】

راز کی حفاظت کرنے بیان۔

ہم سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ایک راز کی بات کہی تھی اور میں نے وہ راز کسی کو نہیں بتایا (ان کی والدہ) ام سلیم (رض) نے بھی مجھ سے اس کے متعلق پوچھا لیکن میں نے انہیں بھی نہیں بتایا۔

【62】

جب تین آدمیوں سے زیادہ ہوں تو چپکے سے بات کرنے اور سرگوشی میں کوئی مضائقہ نہیں۔

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تین آدمی ہوں تو تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر تم آپس میں کانا پھوسی (سرگوشی) نہ کیا کرو۔ اس لیے کہ لوگوں کو رنج ہوگا البتہ اگر دوسرے آدمی بھی ہوں تو مضائقہ نہیں۔

【63】

جب تین آدمیوں سے زیادہ ہوں تو چپکے سے بات کرنے اور سرگوشی میں کوئی مضائقہ نہیں۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ محمد بن میمون نے، ان سے اعمش نے، ان سے شقیق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ کچھ مال تقسیم فرمایا اس پر انصار کے ایک شخص نے کہا کہ یہ ایسی تقسیم ہے جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود نہ تھی میں نے کہا کہ ہاں ! اللہ کی قسم میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جاؤں گا۔ چناچہ میں گیا، نبی کریم ﷺ اس وقت مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے میں نے نبی کریم ﷺ کے کان میں چپکے سے یہ بات کہی تو آپ غصہ ہوگئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا پھر آپ نے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ کی رحمت ہو انہیں اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچائی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا (پس میں بھی صبر کروں گا) ۔

【64】

دیر تک سرگوشی کرتے رہنے کا بیان، آیت واذ ھم نجوی مصدر ہے، نا جیت سے، ان لوگوں کا وصف بیان کیا گیا اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ سرگوشی کرتے ہیں۔

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نماز کی تکبیر کہی گئی اور ایک صحابی رسول ﷺ سے سرگوشی کرتے رہے، پھر وہ دیر تک سرگوشی کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کے صحابہ سونے لگے اس کے بعد آپ اٹھے اور نماز پڑھائی۔

【65】

سوتے وقت گھر میں آگ نہ چھوڑی جائے۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سالم نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب سونے لگو تو گھر میں آگ نہ چھوڑو۔

【66】

سوتے وقت گھر میں آگ نہ چھوڑی جائے۔

ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ہم سے برید بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ مدینہ منورہ میں ایک گھر رات کے وقت جل گیا۔ نبی کریم ﷺ سے اس کے متعلق کہا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ آگ تمہاری دشمن ہے اس لیے جب سونے لگو تو اسے بجھا دیا کرو۔

【67】

سوتے وقت گھر میں آگ نہ چھوڑی جائے۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے کثیر بن شنطیر نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا، ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (سوتے وقت) برتن ڈھک لیا کرو ورنہ دروازے بند کرلیا کرو اور چراغ بجھا لیا کرو کیونکہ یہ چوہا بعض اوقات چراغ کی بتی کھینچ لیتا ہے اور گھر والوں کو جلا دیتا ہے۔

【68】

رات کو دروازے بند کردینے کا بیان۔

ہم سے حسان بن ابی عباد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب رات میں سونے لگو تو چراغ بجھا دیا کرو اور دروازے بند کرلیا کرو اور مشکیزوں کا منہ باندھ دیا کرو اور کھانے پینے کی چیزیں ڈھک دیا کرو۔ حماد نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ بھی فرمایا کہ اگرچہ ایک لکڑی سے ہی ہو۔

【69】

بڑے ہونے کے بعد ختنہ کرانے اور بغل کے بال اکھاڑنے کا بیان۔

ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پانچ چیزیں فطرت سے ہیں، ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال بنانا، بغل کے بال صاف کرنا، مونچھ چھوٹی کرانا اور ناخن کاٹنا۔

【70】

بڑے ہونے کے بعد ختنہ کرانے اور بغل کے بال اکھاڑنے کا بیان۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) نے اسی (80) سال کی عمر میں ختنہ کرایا اور آپ نے قدوم‏‏‏.‏ (تخفیف کے ساتھ) (کلہاڑی) سے ختنہ کیا۔ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے مغیرہ نے بیان کیا اور ان سے ابوالزناد نے بالقدوم‏‏.‏ (تشدید کے ساتھ بیان کیا) ۔

【71】

بڑے ہونے کے بعد ختنہ کرانے اور بغل کے بال اکھاڑنے کا بیان۔

ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم کو عباد بن موسیٰ نے خبر دی، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے سعید بن جبیر نے کہ ابن عباس (رض) سے پوچھا گیا کہ جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی عمر کیا تھی ؟ کہا کہ ان دنوں میرا ختنہ ہوچکا تھا اور عرب لوگوں کی عادت تھی جب تک لڑکا جوانی کے قریب نہ ہوتا اس کا ختنہ نہ کرتے تھے۔ اور عبداللہ ابن ادریس بن یزید نے اپنے والد سے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی تو میرا ختنہ ہوچکا تھا۔

【72】

اس امر کا بیان کہ ہر کھیل جو اللہ عبادت سے غافل کر دے باطل ہے، اور اس شخص کا بیان جو اپنے ساتھی سے کہے کہ آؤ جوا کھیلیں، اور اللہ تعالیٰ کا قول ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے حمید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جس نے قسم کھائی اور کہا کہ لات و عزیٰ کی قسم، تو پھر وہ لا إله إلا الله کہے اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آؤ جوا کھیلیں تو اسے صدقہ کردینا چاہیے۔

【73】

اس چیز کا بیان جو عمارتوں کے متعلق منقول ہے حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے نقل کیا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ جب جانوروں کے چرانے والے عمارتوں میں فخر کرنے لگیں گے۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق نے بیان کیا وہ سعید کے بیٹے ہیں، ان سے سعید نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں اپنے ہاتھوں سے ایک گھر بنایا تاکہ بارش سے حفاظت رہے اور دھوپ سے سایہ حاصل ہو اللہ کی مخلوق میں سے کسی نے اس کام میں میری مدد نہیں کی۔ معلوم ہوا کہ ضرورت کے لائق گھر بنانا درست ہے۔

【74】

اس چیز کا بیان جو عمارتوں () کے متعلق منقول ہے حضرت ابوہریر (رض) نے نبی ﷺ سے نقل کیا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ جب جانوروں کے چرانے والے عمارتوں میں فخر کرنے لگیں گے۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوسفیان ثوری نے، ان سے عمرو بن نشار نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہا کہ واللہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد نہ میں نے کوئی اینٹ کسی اینٹ پر رکھی اور نہ کوئی باغ لگایا۔ سفیان نے بیان کیا کہ جب میں نے اس کا ذکر ابن عمر (رض) کے بعض گھرانوں کے سامنے کیا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم انہوں نے گھر بنایا تھا۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے کہا پھر یہ بات ابن عمر (رض) نے گھر بنانے سے پہلے کہی ہوگی۔