54. کھانے کا بیان

【1】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہم نے تمہیں جو رزق حلال دیا ہے، اس میں سے کھاؤ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اپنی پاک کمائی میں سے خرچ کرو اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک کام کرو، میں تمہارے کاموں کو جاننے والا ہوں

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں منصور نے ان سے ابو وائل نے بیان کیا، اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بھوکے کو کھلاؤ پلاؤ، بیمار کی مزاج پرسی کرو اور قیدی کو چھڑاؤ۔ سفیان ثوری نے کہا کہ (حدیث میں) لفظ عاني سے مراد قیدی ہے۔

【2】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہم نے تمہیں جو رزق حلال دیا ہے، اس میں سے کھاؤ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اپنی پاک کمائی میں سے خرچ کرو اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک کام کرو، میں تمہارے کاموں کو جاننے والا ہوں

ہم سے یوسف بن عیسیٰ مروزی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوحازم (سلمہ بن اشجعی) نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی وفات تک آل محمد ﷺ پر کبھی ایسا زمانہ نہیں گزرا کہ کچھ دن برابر انہوں نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا ہو اور اسی سند سے۔

【3】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہم نے تمہیں جو رزق حلال دیا ہے، اس میں سے کھاؤ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اپنی پاک کمائی میں سے خرچ کرو اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک کام کرو، میں تمہارے کاموں کو جاننے والا ہوں

ابوحازم سے روایت ہے کہ ان سے ابوہریرہ (رض) نے (بیان کیا کہ فاقہ کی وجہ سے) میں سخت مشقت میں مبتلا تھا، پھر میری ملاقات عمر بن خطاب (رض) سے ہوئی اور ان سے میں نے قرآن مجید کی ایک آیت پڑھنے کے لیے کہا۔ انہوں نے مجھے وہ آیت پڑھ کر سنائی اور پھر اپنے گھر میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد میں بہت دور تک چلتا رہا۔ آخر مشقت اور بھوک کی وجہ سے میں منہ کے بل گرپڑا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ میرے سر کے پاس کھڑے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ ! میں نے کہا حاضر ہوں، یا رسول اللہ ! تیار ہوں۔ پھر نبی کریم ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھڑا کیا۔ آپ سمجھ گئے کہ میں کس تکلیف میں مبتلا ہوں۔ پھر آپ مجھے اپنے گھر لے گئے اور میرے لیے دودھ کا ایک بڑا پیالہ منگوایا۔ میں نے اس میں دودھ پیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دوبارہ پیو (ابوہریرہ ! ) میں نے دوبارہ پیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اور پیو۔ میں نے اور پیا۔ یہاں تک کہ میرا پیٹ بھی پیالہ کی طرح بھرپور ہوگیا۔ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر عمر (رض) سے ملا اور ان سے اپنا سارا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ اے عمر ! اللہ تعالیٰ نے اسے اس ذات کے ذریعہ پورا کرا دیا، جو آپ سے زیادہ مستحق تھی۔ اللہ کی قسم ! میں نے تم سے آیت پوچھی تھی حالانکہ میں اسے تم سے بھی زیادہ بہتر طریقہ پر پڑھ سکتا تھا۔ عمر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر میں نے تم کو اپنے گھر میں داخل کرلیا ہوتا اور تم کو کھانا کھلا دیتا تو لال لال (عمدہ) اونٹ ملنے سے بھی زیادہ مجھ کو خوشی ہوتی۔

【4】

کھانے پر بسم اللہ پڑھنے اور دائیں ہاتھ سے کھانے کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا کہ مجھے ولید بن کثیر نے خبر دی، انہوں نے وہب بن کیسان سے سنا، انہوں نے عمر بن ابی سلمہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں بچہ تھا اور رسول اللہ ﷺ کی پرورش میں تھا اور (کھاتے وقت) میرا ہاتھ برتن میں چاروں طرف گھوما کرتا۔ اس لیے آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹے ! بسم اللہ پڑھ لیا کرو، داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور برتن میں وہاں سے کھایا کرو جو جگہ تجھ سے نزدیک ہو۔ چناچہ اس کے بعد میں ہمیشہ اسی ہدایت کے مطابق کھاتا رہا۔

【5】

اپنے سامنے سے کھانے کا بیان اور انس (رض) نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ کا نام لو اور ہر شخص کو اپنے آگے سے کھانا چاہئے

مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن حلحلہ دیلی نے بیان کیا، ان سے وہب بن کیسان ابونعیم نے بیان کیا، ان سے عمر بن ابی سلمہ (رض) نے، وہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ (رض) کے (ابوسلمہ سے) بیٹے ہیں۔ بیان کیا کہ ایک دن میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھانا کھایا اور برتن کے چاروں طرف سے کھانے لگا تو نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اپنے نزدیک سے کھا۔

【6】

اپنے سامنے سے کھانے کا بیان اور انس (رض) نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ کا نام لو اور ہر شخص کو اپنے آگے سے کھانا چاہئے

ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، ان سے ابونعیم وہب بن کیسان نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا لایا گیا، آپ کے ساتھ آپ کے ربیب عمر بن ابی سلمہ (رض) بھی تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بسم اللہ پڑھ اور اپنے سامنے سے کھا۔

【7】

اس شخص کا بیان جو کہ پیالے میں چاروں طرف ڈھونڈے، جب کی اس کے ساتھی کو ناگوار نہ گذرے

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ایک درزی نے رسول اللہ ﷺ کی کھانے کی دعوت کی جو انہوں نے نبی کریم ﷺ کے لیے تیار کیا تھا۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ میں بھی گیا، میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ پیالہ میں چاروں طرف کدو تلاش کرتے تھے (کھانے کے لیے) بیان کیا کہ اسی دن سے کدو مجھ کو بھی بہت بھانے لگا۔

【8】

کھانے وغیرہ میں دائیں ہاتھ سے کام کرنے کا بیان، عمر بن ابی سلمہ نے بیان کیا کہ مجھ سے نبی ﷺ نے فرمایا اپنے دائیں ہاتھ سے کھا

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں اشعث نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جہاں تک ممکن ہوتا پاکی حاصل کرنے میں، جوتا پہننے اور کنگھا کرنے میں داہنی طرف سے ابتداء کرتے۔ اشعث اس حدیث کا راوی جب واسط شہر میں تھا تو اس نے اس حدیث میں یوں کہا تھا کہ ہر ایک کام میں نبی کریم ﷺ داہنی طرف سے ابتداء کرتے۔

【9】

اس شخص کا بیان جو پیٹ بھر کر کھانا کھائے

ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوطلحہ (رض) نے اپنی بیوی ام سلیم (رض) سے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز میں ضعف و نقاہت کو محسوس کیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ فاقہ سے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے ؟ چناچہ انہوں نے جَو کی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنا دوپٹہ نکالا اور اس کے ایک حصہ میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے (یعنی انس (رض) کے) کپڑے کے نیچے چھپا دیا اور ایک حصہ مجھے چادر کی طرح اوڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ بیان کیا کہ میں جب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو مسجد میں پایا اور آپ کے ساتھ صحابہ تھے۔ میں ان سب حضرات کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اے انس ! تمہیں ابوطلحہ نے بھیجا ہوگا۔ میں نے عرض کی جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا : کھانے کے ساتھ ؟ میں نے عرض کی، جی ہاں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ کھڑے ہوجاؤ۔ چناچہ آپ روانہ ہوئے۔ میں سب کے آگے آگے چلتا رہا۔ جب ابوطلحہ (رض) کے پاس واپس پہنچا تو انہوں نے کہا : ام سلیم ! نبی کریم ﷺ صحابہ کو ساتھ لے کر تشریف لائے ہیں، حالانکہ ہمارے پاس کھانے کا اتنا سامان نہیں جو سب کو کافی ہو سکے۔ ام سلیم (رض) اس پر بولیں کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر ابوطلحہ (رض) (استقبال کے لیے) نکلے اور نبی کریم ﷺ سے ملاقات کی۔ اس کے بعد ابوطلحہ (رض) اور نبی کریم ﷺ گھر کی طرف متوجہ ہوئے اور گھر میں داخل ہوگئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ام سلیم ! جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ یہاں لاؤ۔ ام سلیم (رض) روٹی لائیں، نبی کریم ﷺ نے حکم دیا اور اس کا چورا کرلیا گیا۔ ام سلیم (رض) نے اپنے گھی کے ڈبہ میں سے گھی نچوڑ کر اس کا ملیدہ بنا لیا، پھر نبی کریم ﷺ نے دعا کی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ سے دعا کرانی چاہی، اس کے بعد فرمایا کہ ان دس دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلا لو۔ چناچہ دس صحابہ کو بلایا۔ سب نے کھایا اور شکم سیر ہو کر باہر چلے گئے۔ پھر فرمایا کہ دس کو اور بلا لو، انہیں بلایا گیا اور سب نے شکم سیر ہو کر کھایا اور باہر چلے گئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ دس صحابہ کو اور بلا لو، پھر دس صحابہ کو بلایا گیا اور ان لوگوں نے بھی خوب پیٹ بھر کر کھایا اور باہر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد پھر دس صحابہ کو بلایا گیا اس طرح تمام صحابہ نے پیٹ بھر کر کھایا، اس وقت اسی (80) صحابہ کی جماعت وہاں موجود تھی۔

【10】

اس شخص کا بیان جو پیٹ بھر کر کھانا کھائے

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ابوعثمان نہدی نے بھی بیان کیا اور ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) نے بیان کیا کہ ہم ایک سو تیس آدمی نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم میں سے کسی کے پاس کھانا ہے۔ ایک صاحب نے اپنے پاس سے ایک صاع کے قریب آٹا نکالا، اسے گوندھ لیا گیا، پھر ایک مشرک لمبا تڑنگا اپنی بکریاں ہانکتا ہوا ادھر آگیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ یہ بیچنے کی ہیں یا عطیہ ہیں یا نبی کریم ﷺ نے (عطیہ کے بجائے) ہبہ فرمایا۔ اس شخص نے کہا کہ نہیں بلکہ بیچنے کی ہیں۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی پھر ذبح کی گئی اور آپ نے اس کی کلیجی بھونے جانے کا حکم دیا اور قسم اللہ کی ایک سو تیس لوگوں کی جماعت میں کوئی شخص ایسا نہیں رہا جسے نبی کریم ﷺ نے اس بکری کی کلیجی کا ایک ایک ٹکڑا کاٹ کر نہ دیا ہو مگر وہ موجود تھا تو اسے وہیں دے دیا اور اگر وہ موجود نہیں تھا تو اس کا حصہ محفوظ رکھا، پھر اس بکری کے گوشت کو پکا کر دو بڑے کو نڈوں میں رکھا اور ہم سب نے ان میں سے پیٹ بھر کر کھایا پھر بھی دونوں کو نڈوں میں کھانا بچ گیا تو میں نے اسے اونٹ پر لاد لیا۔ عبدالرحمٰن راوی نے ایسا ہی کوئی کلمہ کہا۔

【11】

اس شخص کا بیان جو پیٹ بھر کر کھانا کھائے

ہم سے مسلم بن ابراہیم قصاب نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے منصور بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ان کی والدہ (صفیہ بن شبیہ) نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی، ان دنوں ہم پانی اور کھجور سے سیر ہوجانے لگے تھے۔

【12】

اللہ تعالیٰ کا قول "کہ نہ تو اندھے پر کوئی حرج ہے اور نہ لنگڑے پر اور نہ مریض پر کوئی حرج ہے۔ آخر آیت لعلکم تعقلون تک۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہا یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا، انہوں نے بشیر بن یسار سے سنا، کہا کہ ہم سے سوید بن نعمان (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر کی طرف (سنہ 7 ھ میں) نکلے جب ہم مقام صہباء پر پہنچے۔ یحییٰ نے بیان کیا کہ صہباء خیبر سے دوپہر کی راہ پر ہے تو اس وقت نبی کریم ﷺ نے کھانا طلب فرمایا لیکن ستو کے سوا اور کوئی چیز نہیں لائی گئی، پھر ہم نے اسی کو سوکھا پھانک لیا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے پانی طلب فرمایا اور کلی کی، ہم نے بھی کلی کی۔ اس کے بعد آپ نے ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا (مغرب کے لیے کیونکہ پہلے سے باوضو تھے) ۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے یحییٰ سے اس حدیث میں یوں سنا کہ آپ نے نہ ستو کھاتے وقت وضو کیا نہ کھانے سے فارغ ہو کر۔

【13】

پتلی روٹی اور خوان وسفرہ پر کھانے کا بیان

ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، ان سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے کہا کہ ہم انس (رض) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت ان کا روٹی پکانے والا خادم بھی موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے کبھی چپاتی (میدہ کی روٹی) نہیں کھائی اور نہ ساری دم پختہ بکری کھائی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے۔

【14】

پتلی روٹی اور خوان وسفرہ پر کھانے کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، علی بن عبداللہ المدینی نے کہا کہ یہ یونس اسکاف ہیں (نہ کہ یونس بن عبید بصریٰ ) ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ میں نہیں جانتا کہ نبی کریم ﷺ نے کبھی تشتری رکھ کر (ایک وقت مختلف قسم کا) کھانا کھایا ہو اور نہ کبھی آپ نے پتلی روٹیاں (چپاتیاں) کھائیں اور نہ کبھی آپ ﷺ نے میز پر کھایا۔ قتادہ سے پوچھا گیا کہ پھر کس چیز پر آپ کھاتے تھے ؟ کہا کہ آپ سفرہ (عام دستر خوان) پر کھانا کھایا کرتے تھے۔

【15】

پتلی روٹی اور خوان وسفرہ پر کھانے کا بیان

ہم سے سعید بن مریم نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، کہا مجھ کو حمید نے خبر دی اور انہوں نے انس (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے صفیہ (رض) سے نکاح کے بعد ان کے ساتھ راستے میں قیام کیا اور میں نے مسلمانوں کو آپ کے ولیمہ کی دعوت میں بلایا۔ نبی کریم ﷺ نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا اور وہ بچھایا گیا، پھر آپ نے اس پر کھجور، پنیر اور گھی ڈال دیا اور عمرو بن ابی عمرو نے کہا، ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے صفیہ (رض) کے ساتھ صحبت کی، پھر ایک چمڑے کے دستر خوان پر (کھجور، گھی، پنیر ملا کر بنا ہوا) حلوہ رکھا۔

【16】

پتلی روٹی اور خوان وسفرہ پر کھانے کا بیان

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور وہب بن کیسان نے بیان کیا کہ اہل شام (حجاج بن یوسف کے فوجی) شام کے لوگ عبداللہ بن زبیر (رض) کو عار دلانے کے لیے کہنے لگے یا ابن ذات النطاقین اے دو کمر بند والی کے بیٹے اور ان کی والدہ، اسماء (رض) نے کہا، اے بیٹے ! یہ تمہیں دو کمر بند والی کی عار دلاتے ہیں، تمہیں معلوم ہے وہ کمر بند کیا تھے ؟ وہ میرا کمر بند تھا جس کے میں نے دو ٹکڑے کردیئے تھے اور ایک ٹکڑے سے نبی کریم ﷺ کے برتن کا منہ باندھا تھا اور دوسرے سے دستر خوان بنایا (اس میں توشہ لپیٹا) ۔ وہب نے بیان کیا کہ پھر جب عبداللہ بن زبیر (رض) کو اہل شام دو کمر بند والی کی عار دلاتے تھے، تو وہ کہتے ہاں۔ اللہ کی قسم ! یہ بیشک سچ ہے اور وہ یہ مصرعہ پڑھتے تلک شكاة ظاهر عنک عارها‏. یہ تو ویسا طعنہ ہے جس میں کچھ عیب نہیں ہے۔

【17】

پتلی روٹی اور خوان وسفرہ پر کھانے کا بیان

ہم سے ابونعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ ابن عباس (رض) کی خالہ ام حفید بنت حارث بن حزن (رض) نے نبی کریم ﷺ کو گھی، پنیر اور ساہنہ ہدیہ کے طور پر بھیجی۔ نبی کریم ﷺ نے عورتوں کو بلایا اور انہوں نے آپ کے دستر خوان پر ساہنہ کو کھایا لیکن آپ ﷺ نے اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا جیسے آپ ﷺ اسے ناپسند کرتے ہیں۔ لیکن اگر ساہنہ حرام ہوتا تو آپ کے دستر خوان پر کھایا نہ جاتا اور نہ آپ انہیں کھانے کے لیے فرماتے۔

【18】

ستو کا بیان

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے بشیر بن یسار نے، انہیں سوید بن نعمان (رض) نے خبر دی کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ مقام صہبا میں تھے۔ وہ خیبر سے ایک منزل پر ہے۔ نماز کا وقت قریب تھا تو نبی کریم ﷺ نے کھانا طلب فرمایا لیکن ستو کے سوا اور کوئی چیز نہیں لائی گئی۔ آخر نبی کریم ﷺ نے اس کو پھانک لیا اور ہم نے بھی پھانکا پھر آپ ﷺ نے پانی طلب فرمایا اور کلی کی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے نماز پڑھائی اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ نے (اس نماز کے لیے نیا) وضو نہیں کیا۔

【19】

نبی ﷺ کوئی چیز نہیں کھاتے تھے جب تک کہ آپ سے بیان نہ کیا جاتا اور آپ کو معلوم نہ ہوجاتا کہ کیا ہے

ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن یعلیٰ نے خبر دی، کہا ہم کو یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے ابوامامہ بن سہل بن حنیف انصاری نے خبر دی، انہیں ابن عباس (رض) نے خبر دی اور انہیں خالد بن ولید (رض) نے جو سیف اللہ (اللہ کی تلوار) کے لقب سے مشہور ہیں، خبر دی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ (رض) کے گھر میں داخل ہوئے۔ ام المؤمنین ان کی اور ابن عباس (رض) کی خالہ ہیں۔ ان کے یہاں بھنا ہوا ساہنہ موجود تھا جو ان کی بہن حفیدہ بنت الحارث (رض) نجد سے لائی تھیں۔ انہوں نے وہ بھنا ہوا ساہنہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا نبی کریم ﷺ کسی کھانے کے لیے اس وقت تک ہاتھ بڑھائیں جب تک آپ کو اس کے متعلق بتا نہ دیا جائے کہ یہ فلاں کھانا ہے لیکن اس دن آپ نے بھنے ہوئے ساہنے کے گوشت کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اتنے میں وہاں موجود عورتوں میں سے ایک عورت نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کو بتا کیوں نہیں دیتیں کہ اس وقت آپ کے سامنے جو تم نے پیش کیا ہے وہ ساہنہ ہے، یا رسول اللہ ! (یہ سن کر) آپ نے اپنا ہاتھ ساہنہ سے ہٹا لیا۔ خالد بن ولید (رض) بولے کہ یا رسول اللہ ! کیا ساہنہ حرام ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں لیکن یہ میرے ملک میں چونکہ نہیں پایا جاتا، اس لیے طبیعت پسند نہیں کرتی۔ خالد (رض) نے بیان کیا کہ پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اسے کھایا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ مجھے دیکھ رہے تھے۔

【20】

ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کو کافی ہوتا ہے

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے کافی ہے اور تین کا چار کے لیے کافی ہے۔

【21】

مومن ایک آنت میں کھاتا ہے، اس میں ابوہریرہ (رض) کی روایت نبی ﷺ سے منقول ہے

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ہم سے سے عبدالصمد بن عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے واقد بن محمد نے، ان سے نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے، جب تک ان کے ساتھ کھانے کے لیے کوئی مسکین نہ لایا جاتا۔ ایک مرتبہ میں ان کے ساتھ کھانے کے لیے ایک شخص کو لایا کہ اس نے بہت زیادہ کھانا کھایا۔ بعد میں ابن عمر (رض) نے کہا کہ آئندہ اس شخص کو میرے ساتھ کھانے کے لیے نہ لانا۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے کہ مومن ایک آنت میں کھاتا اور کافر دو آنتیں بھر لیتا ہے۔

【22】

مومن ایک آنت میں کھاتا ہے، اس میں ابوہریرہ (رض) کی روایت نبی ﷺ سے منقول ہے

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ بن سلیمان نے خبر دی، انہیں عبیداللہ عمری نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر یا منافق (عبدہ نے کہا کہ) مجھے یقین نہیں کہ ان میں سے کس کے متعلق عبیداللہ نے بیان کیا کہ وہ ساتوں آنتیں بھر لیتا ہے اور ابن بکیر نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر (رض) اور ان سے نبی کریم ﷺ نے اسی حدیث کی طرح بیان فرمایا۔

【23】

مومن ایک آنت میں کھاتا ہے، اس میں ابوہریرہ (رض) کی روایت نبی ﷺ سے منقول ہے

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے کہ ابونہیک بڑے کھانے والے تھے۔ ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ کافر ساتوں آنتوں میں کھاتا ہے۔ ابونہیک نے اس پر عرض کیا کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں۔

【24】

مومن ایک آنت میں کھاتا ہے، اس میں ابوہریرہ (رض) کی روایت نبی ﷺ سے منقول ہے

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر ساتوں آنتوں میں کھاتا ہے۔

【25】

مومن ایک آنت میں کھاتا ہے، اس میں ابوہریرہ (رض) کی روایت نبی ﷺ سے منقول ہے

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ ایک صاحب بہت زیادہ کھانا کھایا کرتے تھے، پھر وہ اسلام لائے تو کم کھانے لگے۔ اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر ساتوں آنتوں میں کھاتا ہے۔

【26】

تکیہ لگا کر کھانے کا بیان

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے علی ابن الاقمر نے کہ میں نے ابوجحیفہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا۔

【27】

تکیہ لگا کر کھانے کا بیان

مجھ سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم کو جریر نے خبر دی، انہیں منصور نے، انہیں علی ابن الاقمر نے اور ان سے ابوجحیفہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ ﷺ نے ایک صحابی سے جو آپ کے پاس موجود تھے فرمایا کہ میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا۔

【28】

بھنی ہوئی چیز کھانے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ وہ بھنا ہوا بچھڑا لے کر آئے

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوامامہ بن سہل نے اور انہیں ابن عباس (رض) نے کہ خالد بن ولید (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے لیے بھنا ہوا ساہنہ پیش کیا گیا تو آپ اسے کھانے کے لیے متوجہ ہوئے۔ اسی وقت آپ کو بتایا گیا کہ یہ ساہنہ ہے تو آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ خالد (رض) نے پوچھا کیا یہ حرام ہے ؟ فرمایا کہ نہیں لیکن چونکہ یہ میرے ملک میں نہیں ہوتا اس لیے طبیعت اسے گوارا نہیں کرتی۔ پھر خالد (رض) نے اسے کھایا اور نبی کریم ﷺ دیکھ رہے تھے۔ امام مالک نے ابن شہاب سے ضب محنوذ‏.‏ (یعنی بھنا ہوا ساہنہ ضب مشوی کی جگہ محنوذ‏.‏ نقل کیا، دونوں لفظوں کا ایک معنی ہے) ۔

【29】

خزیرہ کا بیان۔ نضر نے بیان کیا کہ خزیرہ میدے سے اور حریرہ دودھ سے بنایا جاتا ہے۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے امام لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں محمود بن ربیع انصاری نے خبر دی کہ عتبان بن مالک (رض) جو نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے تھے اور قبیلہ انصار کے ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بدر کی لڑائی میں شرکت کی تھی۔ آپ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری بصارت کمزور ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں۔ برسات میں وادی جو میرے اور ان کے درمیان حائل ہے۔ بہنے لگتی ہے اور میرے لیے ان کی مسجد میں جانا اور ان میں نماز پڑھنا ممکن نہیں رہتا۔ اس لیے یا رسول اللہ ! میری یہ خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور میرے گھر میں آپ نماز پڑھیں تاکہ میں اسی جگہ کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انشاء اللہ میں جلد ہی ایسا کروں گا۔ عتبان (رض) نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ ابوبکر (رض) کے ساتھ چاشت کے وقت جب سورج کچھ بلند ہوگیا تشریف لائے اور نبی کریم ﷺ نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ میں نے آپ کو اجازت دے دی۔ آپ بیٹھے نہیں بلکہ گھر میں داخل ہوگئے اور دریافت فرمایا کہ اپنے گھر میں کس جگہ تم پسند کرتے ہو کہ میں نماز پڑھوں ؟ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔ نبی کریم ﷺ وہاں کھڑے ہوگئے اور (نماز کے لیے) تکبیر کہی۔ ہم نے بھی (آپ کے پیچھے) صف بنا لی۔ نبی کریم ﷺ کو خزیرہ (حریرہ کی ایک قسم) کے لیے جو آپ کے لیے ہم نے بنایا تھا روک لیا۔ گھر میں قبیلہ کے بہت سے لوگ آ آ کر جمع ہوگئے۔ ان میں سے ایک صاحب نے کہا مالک بن دخشن کہاں ہیں ؟ اس پر کسی نے کہا کہ وہ تو منافق ہے اللہ اور اس کے رسول سے اسے محبت نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ نہ کہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ انہوں نے اقرار کیا ہے کہ لا إله إلا الله یعنی اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور اس سے ان کا مقصد صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ ان صحابی نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ ہم نے عرض کیا (یا رسول اللہ ! ) لیکن ہم ان کی توجہ اور ان کا لگاؤ منافقین کے ساتھ ہی دیکھتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : لیکن اللہ نے دوزخ کی آگ کو اس شخص پر حرام کردیا ہے جس نے کلمہ لا إله إلا الله کا اقرار کرلیا ہو اور اس سے اس کا مقصد اللہ کی خوشنودی ہو۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر میں نے حصین بن محمد انصاری سے جو بنی سالم کے ایک فرد اور ان کے سردار تھے۔ محمود کی حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی۔

【30】

پنیر کا بیان اور حمید نے بیان کیا کہ میں نے انس (رض) سے سنا کہ نبی ﷺ نے صفیہ سے زفاف کیا ( تو دعوت ولیمہ میں) آپ نے کھجوریں، پنیر اور گھی پیش کیا اور عمروبن ابی عمروانس (رض) کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے حیس تیار کرائی تھی

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کی، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ میری خالہ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ساہنہ کا گوشت، پنیر اور دودھ ہدیتاً پیش کیا تو ساہنہ کا گوشت آپ کے دستر خوان پر رکھا گیا اور اگر ساہنہ حرام ہوتا تو آپ کے دستر خوان پر نہیں رکھا جاسکتا تھا لیکن آپ نے دودھ پیا اور پنیر کھایا۔

【31】

چقندر اور جو کا بیان

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ ہمیں جمعہ کے دن بڑی خوشی رہتی تھی۔ ہماری ایک بوڑھی خاتون تھیں وہ چقندر کی جڑیں لے کر اپنی ہانڈی میں پکاتی تھیں، اوپر سے کچھ دانے جَو کے اس میں ڈال دیتی تھیں۔ ہم جمعہ کی نماز پڑھ کر ان کی ملاقات کو جاتے تو وہ ہمارے سامنے یہ کھانا رکھتی تھیں۔ جمعہ کے دن ہمیں بڑی خوشی اسی وجہ سے رہتی تھی۔ ہم نماز جمعہ کے بعد ہی کھانا کھایا کرتے تھے۔ اللہ کی قسم ! نہ اس میں چربی ہوتی تھی نہ گھی اور جب بھی ہم مزے سے اس کو کھاتے۔

【32】

گوشت کو اگلے دانتوں سے نوچ کر اور دیگچی سے نکال کر کھانے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے شانے کی ہڈی کا گوشت کھایا، پھر کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔ آپ ﷺ نے (نماز کے لیے نیا) وضو نہیں کیا اور (اسی سند سے) ۔ ایوب اور عاصم سے روایت ہے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے پکتی ہوئی ہنڈیا میں سے ادھ کچی بوٹی نکالی اور اسے کھایا پھر نماز پڑھائی اور نیا وضو نہیں کیا۔

【33】

بازو کا گوشت چھڑا کر کھانے کا بیان

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عثمان ابن عمر نے بیان کیا، ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار مدنی نے، کہا ہم سے عبداللہ بن ابی قتادہ نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ مکہ کی طرف نکلے (صلح حدیبیہ کے موقع پر) دوسری سند (حدیث دیکھیں 5407 )

【34】

بازو کا گوشت چھڑا کر کھانے کا بیان

اور مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ اسلمی نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں ایک دن نبی کریم ﷺ کے چند صحابہ کے ساتھ مکہ کے راستہ میں ایک منزل پر بیٹھا ہوا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے ہمارے آگے پڑاؤ کیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم احرام کی حالت میں تھے لیکن میں احرام میں نہیں تھا۔ لوگوں نے ایک گورخر کو دیکھا۔ میں اس وقت اپنا جوتا ٹانکنے میں مصروف تھا۔ ان لوگوں نے مجھے اس گورخر کے متعلق بتایا کچھ نہیں لیکن چاہتے تھے کہ میں کسی طرح دیکھ لوں۔ چناچہ میں متوجہ ہوا اور میں نے اسے دیکھ لیا، پھر میں گھوڑے کے پاس گیا اور اسے زین پہنا کر اس پر سوار ہوگیا لیکن کوڑا اور نیزہ بھول گیا تھا۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ کوڑا اور نیزہ مجھے دے دو ۔ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم ! ہم تمہاری شکار کے معاملہ میں کوئی مدد نہیں کریں گے۔ (کیونکہ ہم محرم ہیں) میں غصہ ہوگیا اور میں نے اتر کر خود یہ دونوں چیزیں اٹھائیں پھر سوار ہو کر اس پر حملہ کیا اور ذبح کرلیا۔ جب وہ ٹھنڈا ہوگیا تو میں اسے ساتھ لایا پھر پکا کر میں نے اور سب نے کھایا لیکن بعد میں انہیں شبہ ہوا کہ احرام کی حالت میں اس (شکار کا گوشت) کھانا کیسا ہے ؟ پھر ہم روانہ ہوئے اور میں نے اس کا گوشت چھپا کر رکھا۔ جب نبی کریم ﷺ کے پاس آئے تو ہم نے آپ سے اس کے متعلق پوچھا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، تمہارے پاس کچھ بچا ہوا بھی ہے ؟ میں نے وہی دست پیش کیا اور آپ ﷺ نے بھی اسے کھایا۔ یہاں تک کہ اس کا گوشت آپ نے اپنے دانتوں سے کھینچ کھینچ کر کھایا اور آپ احرام میں تھے۔ محمد بن جعفر نے بیان کیا کہ مجھ سے زید بن اسلم نے یہ واقعہ بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوقتادہ (رض) نے اسی طرح سارا واقعہ بیان کیا۔

【35】

چھری سے گوشت کاٹنے کا بیان

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری نے خبر دی، انہیں ان کے والد عمرو بن امیہ (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا آپ اپنے ہاتھ سے بکری کے شانے کا گوشت کاٹ کر کھا رہے تھے، پھر آپ ﷺ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ نے گوشت اور وہ چھری جس سے گوشت کی بوٹی کاٹ رہے تھے، ڈال دی اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے، پھر آپ ﷺ نے نماز پڑھی اور آپ نے نیا وضو نہیں کیا (کیونکہ آپ پہلے ہی وضو کئے ہوئے تھے) ۔

【36】

آنحضرت ﷺ نے کبھی کسی کھانے کو برا نہیں کہا

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں کوئی عیب نہیں نکالا۔ اگر پسند ہوا تو کھالیا اور اگر ناپسند ہوا تو چھوڑ دیا۔

【37】

جو کو پھونکنے کا بیان

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان (محمد بن مطرف لیثی) نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے سہل بن سعد ساعدی (رض) سے پوچھا کیا تم نے نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں میدہ دیکھا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، میں نے پوچھا کیا تم جَو کے آٹے کو چھانتے تھے ؟ کہا نہیں، بلکہ ہم اسے صرف پھونک لیا کرتے تھے۔

【38】

آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ (رض) کیا کھاتے تھے

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عباس جریری نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نہدی نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کو کھجور تقسیم کی اور ہر شخص کو سات کھجوریں دیں۔ مجھے بھی سات کھجوریں عنایت فرمائیں۔ ان میں ایک خراب تھی (اور سخت تھی) لیکن مجھے وہی سب سے زیادہ اچھی معلوم ہوئی کیونکہ اس کا چبانا مجھ کو مشکل ہوگیا۔

【39】

آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ (رض) کیا کھاتے تھے

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے سعد بن ابی وقاص (رض) نے بیان کیا کہ میں نے اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ کے ساتھ ان سات آدمیوں میں سے ساتواں پایا (جنہوں نے اسلام سب سے پہلے قبول کیا تھا) اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لیے یہی کیکر کے پھل یا پتے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ کھاتے کھاتے ہم لوگوں کا پاخانہ بھی بکری کی مینگنیوں کی طرح ہوگیا تھا یا اب یہ زمانہ ہے کہ بنی اسد قبیلے کے لوگ مجھ کو شریعت کے احکام سکھلاتے ہیں۔ اگر میں ابھی تک اس حال میں ہوں کہ بنی اسد کے لوگ مجھ کو شریعت کے احکام سکھلائیں تب تو میں تباہ ہی ہوگیا میری محنت برباد ہوگئی۔

【40】

آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ (رض) کیا کھاتے تھے

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یعقوب نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے بیان کیا کہ میں نے سہل بن سعد (رض) سے پوچھا، کیا نبی کریم ﷺ نے کبھی میدہ کھایا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو نبی بنایا اس وقت سے وفات تک نبی کریم ﷺ نے میدہ دیکھا بھی نہیں تھا۔ میں نے پوچھا کیا نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں آپ کے پاس چھلنیاں تھیں۔ کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو نبی بنایا اس وقت سے آپ کی وفات تک نبی کریم ﷺ نے چھلنی دیکھی بھی نہیں۔ بیان کیا کہ میں نے پوچھا آپ لوگ پھر بغیر چھنا ہوا جَو کس طرح کھاتے تھے ؟ بتلایا ہم اسے پیس لیتے تھے پھر اسے پھونکتے تھے جو کچھ اڑنا ہوتا اڑ جاتا اور جو باقی رہ جاتا اسے گوندھ لیتے (اور پکا کر) کھالیتے تھے۔

【41】

آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ (رض) کیا کھاتے تھے

مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہیں روح بن عبادہ نے خبر دی، ان سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید بن مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ وہ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جن کے سامنے بھنی ہوئی بکری رکھی تھی۔ انہوں نے ان کو کھانے پر بلایا لیکن انہوں نے کھانے سے انکار کردیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور آپ نے کبھی جَو کی روٹی بھی آسودہ ہو کر نہیں کھائی۔

【42】

آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ (رض) کیا کھاتے تھے

ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، کہا ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے یونس بن ابی الفرات نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے کبھی میز پر کھانا نہیں کھایا اور نہ تشتری میں دو چار قسم کی چیزیں رکھ کر کھائیں اور نہ کبھی چپاتی کھائی۔ میں نے قتادہ سے پوچھا، پھر آپ کس چیز پر کھانا کھاتے تھے ؟ بتلایا کہ سفرہ (چمڑے کے دستر خوان) پر۔

【43】

آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ (رض) کیا کھاتے تھے

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آل محمد ﷺ نے کبھی برابر تین دن تک گیہوں کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے۔

【44】

تلبینہ (لپٹے) کا بیان

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل بن خالد نے، ان سے ابن شہاب زہری نے، ان سے عروہ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے کہ جب کسی گھر میں کسی کی وفات ہوجاتی اور اس کی وجہ سے عورتیں جمع ہوتیں اور پھر وہ چلی جاتیں۔ صرف گھر والے اور خاص خاص عورتیں رہ جاتیں تو آپ ہانڈی میں تلبینہ پکانے کا حکم دیتیں۔ وہ پکایا جاتا پھر ثرید بنایا جاتا اور تلبینہ اس پر ڈالا جاتا۔ پھر ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتیں کہ اسے کھاؤ کیونکہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے کہ تلبینہ مریض کے دل کو تسکین دیتا ہے اور اس کا غم دور کرتا ہے۔

【45】

ثرید کا بیان

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ جملی نے بیان کیا، ان سے مرہ ہمدانی نے، ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مردوں میں تو بہت سے کامل ہوئے لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ کے سوا اور کوئی کامل نہیں ہوا اور عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی فضیلت ہے۔

【46】

ثرید کا بیان

ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے ابوطوالہ نے اور ان سے انس نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں پر عائشہ کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی فضیلت ہے۔

【47】

ثرید کا بیان

ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے ابوحاتم اشہل ابن حاتم سے سنا، ان سے ابن عون نے بیان کیا، ان سے شمامہ بن انس نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ آپ کے ایک غلام کے پاس گیا جو درزی تھے۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک پیالہ پیش کیا جس میں ثرید تھا۔ بیان کیا کہ پھر وہ اپنے کام میں لگ گئے۔ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ اس میں سے کدو تلاش کرنے لگے کہا کہ پھر میں بھی اس میں سے کدو تلاش کر کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھنے لگا۔ بیان کیا کہ اس کے بعد سے میں بھی کدو بہت پسند کرتا ہوں۔

【48】

بھنی بکری اور مونڈھوں اور پہلوکاگوشت کھانے کا بیان

ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا کہ ہم انس (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی روٹی پکانے والا ان کے پاس ہی کھڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کھاؤ۔ میں نہیں جانتا کہ نبی کریم ﷺ نے کبھی پتلی روٹی (چپاتی) دیکھی ہو۔ یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے اور نہ نبی کریم ﷺ نے کبھی مسلم بھنی ہوئی بکری دیکھی۔

【49】

بھنی بکری اور مونڈھوں اور پہلوکاگوشت کھانے کا بیان

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں جعفر بن عمر بن امیہ ضمری نے، انہیں ان کے والد نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ بکری کے شانہ میں سے گوشت کاٹ رہے تھے، پھر آپ نے اس میں سے کھایا۔ پھر آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ کھڑے ہوگئے اور چھری ڈال دی اور نماز پڑھی لیکن نیا وضو نہیں کیا۔

【50】

اگلے لوگ اپنے گھروں اور سفر میں کسی قسم کا کھانا اور گوشت وغیرہ ذخیرہ کر کے رکھتے تھے اور حضرت عائشہ (رض) اور اسماء (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) کے لئے ایک سفرہ (توشہ دان) بنایا تھا

ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا کیا نبی کریم ﷺ نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ صرف ایک سال اس کا حکم دیا تھا جس سال قحط پڑا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے چاہا تھا (اس حکم کے ذریعہ) کہ جو مال والے ہیں وہ (گوشت محفوظ کرنے کے بجائے) محتاجوں کو کھلا دیں اور ہم بکری کے پائے محفوظ رکھ لیتے تھے اور اسے پندرہ پندرہ دن بعد کھاتے تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کرنے کے لیے کیا مجبوری تھی ؟ اس پر ام المؤمنین (رض) ہنس پڑیں اور فرمایا آل محمد ﷺ نے سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی تین دن تک برابر کبھی نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے۔ اور ابن کثیر نے بیان کیا کہ ہمیں سفیان نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے یہی حدیث بیان کی۔

【51】

اگلے لوگ اپنے گھروں اور سفر میں کسی قسم کا کھانا اور گوشت وغیرہ ذخیرہ کر کے رکھتے تھے اور حضرت عائشہ (رض) اور اسماء (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) کے لئے ایک سفرہ (توشہ دان) بنایا تھا

مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے عطاء نے اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ (مکہ مکرمہ سے حج کی) قربانی کا گوشت ہم نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں مدینہ منورہ لاتے تھے۔ اس کی متابعت محمد نے کی ابن عیینہ کے واسطہ سے اور ابن جریج نے بیان کیا کہ میں نے عطاء سے پوچھا کیا جابر (رض) نے یہ بھی کہا تھا کہ یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ آگئے ؟ انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا تھا۔

【52】

حیس کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے مطلب بن عبداللہ بن حنطب کے غلام عمرو بن ابی عمرو نے، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوطلحہ (رض) سے فرمایا کہ اپنے یہاں کے بچوں میں کوئی بچہ تلاش کر لاؤ جو میرے کام کردیا کرے۔ چناچہ ابوطلحہ (رض) مجھے اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا کر لائے۔ میں نبی کریم ﷺ کی، جب بھی آپ کہیں پڑاؤ کرتے خدمت کرتا۔ میں سنا کرتا تھا کہ نبی کریم ﷺ بکثرت یہ دعا پڑھا کرتے تھے اللهم إني أعوذ بک من الهم والحزن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والعجز والکسل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والبخل والجبن وضلع الدين،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وغلبة الرجال اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم سے، رنج سے، عجز سے، سستی سے، بخل سے، بزدلی سے، قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے غلبہ سے۔ (انس (رض) نے بیان کیا کہ) پھر میں اس وقت سے برابر آپ کی خدمت کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ہم خیبر سے واپس ہوئے اور صفیہ بنت حیی (رض) بھی ساتھ تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں پسند فرمایا تھا۔ میں دیکھتا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے اپنی سواری پر پیچھے کپڑے سے پردہ کیا اور پھر انہیں وہاں بٹھایا۔ آخر جب مقام صہبا میں پہنچے تو آپ نے دستر خوان پر حیس (کھجور، پنیر اور گھی وغیرہ کا ملیدہ) بنایا پھر مجھے بھیجا اور میں نے لوگوں کو بلا لایا، پھر سب لوگوں نے اسے کھایا۔ یہی نبی کریم ﷺ کی طرف سے صفیہ (رض) سے نکاح کی دعوت ولیمہ تھی۔ پھر آپ روانہ ہوئے اور جب احد دکھائی دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اس کے بعد جب مدینہ نظر آیا تو فرمایا کہ اے اللہ ! میں اس کے دونوں پہاڑوں کے درمیانی علاقے کو اسی طرح حرمت والا علاقہ بناتا ہوں جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرمت والا شہر بنایا تھا۔ اے اللہ ! اس کے رہنے والوں کو برکت عطا فرما۔ ان کے مد میں اور ان کے صاع میں برکت فرما۔

【53】

چاندی کے ملمع کیے ہوئے برتن میں کھانے کا بیان

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سیف بن ابی سلیمان نے، کہا کہ میں نے مجاہد سے سنا، کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے بیان کیا کہ یہ لوگ حذیفہ بن الیمان (رض) کی خدمت میں موجود تھے۔ انہوں نے پانی مانگا تو ایک مجوسی نے ان کو پانی (چاندی کے پیالے میں) لا کردیا۔ جب اس نے پیالہ ان کے ہاتھ میں دیا تو انہوں نے پیالہ کو اس پر پھینک کر مارا اور کہا اگر میں نے اسے بارہا اس سے منع نہ کیا ہوتا (کہ چاندی سونے کے برتن میں مجھے کچھ نہ دیا کرو) آگے وہ یہ فرمانا چاہتے تھے کہ تو میں اس سے یہ معاملہ نہ کرتا لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ ریشم و دیبا نہ پہنو اور نہ سونے چاندی کے برتن میں کچھ پیو اور نہ ان کی پلیٹوں میں کچھ کھاؤ کیونکہ یہ چیزیں ان (کفار کے لیے) دنیا میں ہیں اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں۔

【54】

کھانے کا ذکر

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس (رض) نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو سنگترے جیسی ہے جس کی خوشبو بھی پاکیزہ ہے اور مزہ بھی پاکیزہ ہے اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی لیکن مزہ میٹھا ہوتا ہے اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو، ریحانہ (پھول) جیسی ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن مزہ کڑوا ہوتا ہے اور جو منافق قرآن بھی نہیں پڑھتا اس کی مثال اندرائن جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور جس کا مزہ بھی کڑوا ہوتا ہے۔

【55】

کھانے کا ذکر

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں پر عائشہ کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی فضیلت ہے۔

【56】

کھانے کا ذکر

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک نے بیان کیا، ان سے سمی نے، ان سے صالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، جو انسان کو سونے اور کھانے سے روک دیتا ہے۔ پس جب کسی شخص کی سفری ضرورت حسب منشا پوری ہوجائے تو اسے جلد ہی گھر واپس آجانا چاہیئے۔

【57】

ترکاری کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے، ان سے ربیعہ نے، انہوں نے قاسم بن محمد سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ بریرہ (رض) کے ساتھ شریعت کی تین سنتیں قائم ہوئیں۔ عائشہ (رض) نے انہیں (ان کے مالکوں سے) خرید کر آزاد کرنا چاہا تو ان کے مالکوں نے کہا کہ ولاء کا تعلق ہم سے ہی قائم ہوگا۔ (عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ) میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم یہ شرط لگا بھی لو جب بھی ولاء اسی کے ساتھ قائم ہوگا جو آزاد کرے گا۔ پھر بیان کیا کہ بریرہ آزاد کی گئیں اور انہیں اختیار دیا گیا کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے شوہر کے ساتھ رہیں یا ان سے الگ ہوجائیں اور تیسری بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن عائشہ (رض) کے گھر تشریف لائے، چولھے پر ہانڈی پک رہی تھی۔ آپ ﷺ نے دوپہر کا کھانا طلب فرمایا تو روٹی اور گھر میں موجود سالن پیش کیا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا میں نے گوشت (پکتے ہوئے) نہیں دیکھا ہے ؟ عرض کیا کہ دیکھا ہے یا رسول اللہ ! لیکن وہ گوشت تو بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے، انہوں نے ہمیں ہدیہ کے طور پر دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کے لیے وہ صدقہ ہے لیکن ہمارے لیے ہدیہ ہے۔

【58】

حلوہ اور شہد کا بیان

مجھ سے اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے، ان سے ہشام نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ میٹھی چیز اور شہد پسند فرمایا کرتے تھے۔

【59】

حلوہ اور شہد کا بیان

ہم سے عبدالرحمٰن بن شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن ابی الفدیک نے خبر دی، انہیں ابن ابی ذئب نے، انہیں مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں پیٹ بھرنے کے بعد ہر وقت نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہی رہا کرتا تھا۔ اس وقت میں روٹی نہیں کھاتا تھا۔ نہ ریشم پہنتا تھا، نہ فلاں اور فلانی میری خدمت کرتے تھے (بھوک کی شدت کی وجہ سے بعض اوقات) میں اپنے پیٹ پر کنکریاں لگا لیتا اور کبھی میں کسی سے کوئی آیت پڑھنے کے لیے کہتا حالانکہ وہ مجھے یاد ہوتی۔ مقصد صرف یہ ہوتا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائے اور کھانا کھلا دے اور مسکینوں کے لیے سب سے بہترین شخص جعفر بن ابی طالب (رض) تھے، ہمیں اپنے گھر ساتھ لے جاتے اور جو کچھ بھی گھر میں ہوتا کھلا دیتے تھے۔ کبھی تو ایسا ہوتا کہ گھی کا ڈبہ نکال کر لاتے اور اس میں کچھ نہ ہوتا۔ ہم اسے پھاڑ کر اس میں جو کچھ لگا ہوتا چاٹ لیتے تھے۔

【60】

کدو کا بیان

ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے ازہر بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن عون نے، ان سے شمامہ بن انس نے اور ان سے انس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ایک درزی غلام کے پاس تشریف لے گئے، پھر آپ کی خدمت میں (پکا ہوا) کدو پیش کیا گیا اور آپ اسے (رغبت کے ساتھ) کھانے لگے۔ اسی وقت سے میں بھی کدو پسند کرتا ہوں کیونکہ میں نے اسے نبی کریم ﷺ کو کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔

【61】

اس شخص کا بیان جو اپنے بھائیوں کے کھلانے میں تکلف کرے۔

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے ابومسعود انصاری (رض) نے بیان کیا کہ جماعت انصار میں ایک صاحب تھے جنہیں ابوشعیب کہا جاتا تھا۔ ان کے پاس ایک غلام تھا جو گوشت بیچتا تھا۔ ابوشعیب (رض) نے ان غلام سے کہا کہ تم میری طرف سے کھانا تیار کر دو ۔ میں چاہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ سمیت پانچ آدمیوں کی دعوت کروں۔ چناچہ وہ نبی کریم ﷺ کو چار دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلا کر لائے۔ ان کے ساتھ ایک صاحب بھی چلنے لگے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہم پانچ آدمیوں کی تم نے دعوت کی ہے مگر یہ صاحب بھی ہمارے ساتھ آگئے ہیں، اگر چاہو تو انہیں اجازت دو اور اگر چاہو منع کر دو ۔ ابوشعیب (رض) نے کہا کہ میں نے انہیں بھی اجازت دے دی۔ محمد بن یوسف نے بیان کیا کہ میں نے محمد بن اسماعیل سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ جب لوگ دستر خوان پر بیٹھے ہوں تو انہیں اس کی اجازت نہیں ہے کہ ایک دستر خوان والے دوسرے دستر خوان والوں کو اپنے دستر خوان سے اٹھا کر کوئی چیز دیں۔ البتہ ایک ہی دستر خوان پر ان کے شرکاء کو اس میں سے کوئی چیز دینے نہ دینے کا اختیار ہے۔

【62】

اس شخص کا بیان جو کسی کو کھانے کی دعوت دے اور خود کسی کام میں مشغول ہوجائے۔

مجھ سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے نضر سے سنا، انہیں ابن عون نے خبر دی، کہا کہ مجھے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے خبر دی اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ میں نوعمر تھا اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہتا تھا۔ نبی کریم ﷺ اپنے ایک درزی غلام کے پاس تشریف لے گئے۔ وہ ایک پیالہ لایا جس میں کھانا تھا اور اوپر کدو کے قتلے تھے۔ آپ کدو تلاش کرنے لگے۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ جب میں نے یہ دیکھا تو کدو کے قتلے آپ کے سامنے جمع کر کے رکھنے لگا۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ (پیالہ نبی کریم ﷺ کے سامنے رکھنے کے بعد) غلام اپنے کام میں لگ گیا۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ اسی وقت سے میں کدو پسند کرنے لگا، جب میں نے نبی کریم ﷺ کا یہ عمل دیکھا۔

【63】

شوربہ کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک بن انس نے، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا کہ ایک درزی نے رسول اللہ ﷺ کو کھانے کی دعوت دی جو انہوں نے نبی کریم ﷺ کے لیے تیار کیا تھا۔ میں بھی آپ کے ساتھ گیا۔ نبی کریم ﷺ کے سامنے جَو کی روٹی اور شوربہ پیش کیا گیا۔ جس میں کدو اور خشک گوشت کے ٹکڑے تھے۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ پیالے میں چاروں طرف کدو تلاش کر رہے تھے، اسی دن سے میں بھی کدو پسند کرنے لگا۔

【64】

سوکھے ہوئے گوشت کا بیان

ہم سے حکیم ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک بن انس نے، ان سے اسحاق بن عبداللہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں شوربہ لایا گیا۔ اس میں کدو اور سوکھے گوشت کے ٹکڑے تھے، پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ اس میں سے کدو کے قتلے تلاش کر کر کے کھا رہے تھے۔

【65】

سوکھے ہوئے گوشت کا بیان

ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایسا کبھی نہیں کیا کہ تین دن سے زیادہ گوشت قربانی والا رکھنے سے منع فرمایا ہو۔ صرف اس سال یہ حکم دیا تھا جس سال قحط کی وجہ سے لوگ فاقے میں مبتلا تھے۔ مقصد یہ تھا کہ جو لوگ غنی ہیں وہ گوشت محتاجوں کو کھلائیں (اور جمع کر کے نہ رکھیں) اور ہم تو بکری کے پائے محفوظ کر کے رکھ لیتے تھے اور پندرہ دن بعد تک (کھاتے تھے) اور آل محمد ﷺ نے کبھی سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی تین دن تک برابر سیر ہو کر نہیں کھائی۔

【66】

اگر کوئی شخص اپنے دوست کے پاس کوئی چیز لائے یا اس کو دسترخوان پر دے تو اس کے متعلق ابن مبارک نے کہا کہ ایک ہی دسترخوان پر ایک دوسرے کو دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن ایک دسترخوان سے دوسرے دسترخوان پر نہ دے

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا کہ ایک درزی نے رسول اللہ ﷺ کو کھانے کی دعوت دی جو اس نے نبی کریم ﷺ کے لیے تیار کیا تھا۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ میں بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ اس دعوت میں گیا۔ انہوں نے آپ کی خدمت میں جَو کی روٹی اور شوربہ، جس میں کدو اور خشک کیا ہوا گوشت تھا، پیش کیا۔ انس (رض) نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ پیالہ میں چاروں طرف کدو تلاش کر رہے ہیں۔ اسی دن سے میں بھی کدو پسند کرنے لگا۔ شمامہ نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے کہ پھر میں نبی کریم ﷺ کے سامنے کدو کے قتلے (تلاش کر کر کے) اکٹھے کرنے لگا۔

【67】

تازہ کھجوریں اور ککڑی ملا کر کھانے کا بیان

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو تازہ کھجور ککڑی کے ساتھ کھاتے دیکھا ہے۔

【68】

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن یزید نے بیان کیا، ان سے عباس جریری نے اور ان سے ابوعثمان نے بیان کیا کہ میں ابوہریرہ (رض) کے یہاں سات دن تک مہمان رہا، وہ اور ان کی بیوی اور ان کے خادم نے رات میں (جاگنے کی) باری مقرر کر رکھی تھی۔ رات کے ایک تہائی حصہ میں ایک صاحب نماز پڑھتے رہے پھر وہ دوسرے کو جگا دیتے اور میں نے ابوہریرہ (رض) کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ میں ایک مرتبہ کھجور تقسیم کی اور مجھے بھی سات کھجوریں دیں، ایک ان میں خراب تھی۔

【69】

ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن زکریا نے بیان کیا، ان سے عاصم نے، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم میں کھجور تقسیم کی پانچ مجھے عنایت فرمائیں چار تو اچھی کھجوریں تھیں اور ایک خراب تھی جو میرے دانتوں کے لیے سب سے زیادہ سخت تھی۔

【70】

تر اور خشک کھجور کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول وھزی الیک بجذع النخلہ تساقط علیک رطبا جنیا اور محمد بن یوسف نے بواسطہ سفیان، منصور بن صفیہ، منصور کی ماں حضرت عائشہ (رض) سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ کی وفات سے پہلے ہم لوگ اسودین یعنی کھجور اور پانی سے شکم سیر ہوتے تھے

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن ابی ربیعہ نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ مدینہ میں ایک یہودی تھا اور وہ مجھے قرض اس شرط پر دیا کرتا تھا کہ میری کھجوریں تیار ہونے کے وقت لے لے گا۔ جابر (رض) کی ایک زمین بئررومہ کے راستہ میں تھی۔ ایک سال کھجور کے باغ میں پھل نہیں آئے۔ پھل چنے جانے کا جب وقت آیا تو وہ یہودی میرے پاس آیا لیکن میں نے تو باغ سے کچھ بھی نہیں توڑا تھا۔ اس لیے میں آئندہ سال کے لیے مہلت مانگنے لگا لیکن اس نے مہلت دینے سے انکار کیا۔ اس کی خبر جب رسول اللہ ﷺ کو دی گئی تو آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ چلو، یہودی سے جابر (رض) کے لیے ہم مہلت مانگیں گے۔ چناچہ یہ سب میرے باغ میں تشریف لائے۔ نبی کریم ﷺ اس یہودی سے گفتگو فرماتے رہے لیکن وہ یہی کہتا رہا کہ ابوالقاسم میں مہلت نہیں دے سکتا۔ جب نبی کریم ﷺ نے یہ دیکھا تو آپ کھڑے ہوگئے اور کھجور کے باغ میں چاروں طرف پھرے پھر تشریف لائے اور اس سے گفتگو کی لیکن اس نے اب بھی انکار کیا پھر میں کھڑا ہوا اور تھوڑی سی تازہ کھجور لا کر نبی کریم ﷺ کے سامنے رکھی۔ نبی کریم ﷺ نے ان کو تناول فرمایا پھر فرمایا جابر ! تمہاری جھونپڑی کہاں ہے ؟ میں نے آپ کو بتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس میں میرے لیے کچھ فرش بچھا دو ۔ میں نے بچھا دیا تو آپ داخل ہوئے اور آرام فرمایا پھر بیدار ہوئے تو میں ایک مٹھی اور کھجور لایا۔ نبی کریم ﷺ نے اس میں سے بھی تناول فرمایا پھر آپ کھڑے ہوئے اور یہودی سے گفتگو فرمائی۔ اس نے اب بھی انکار کیا۔ نبی کریم ﷺ دوبارہ باغ میں کھڑے ہوئے پھر فرمایا کہ جابر ! جاؤ اب پھل توڑو اور قرض ادا کر دو ۔ آپ کھجوروں کے توڑے جانے کی جگہ کھڑے ہوگئے اور میں نے باغ میں سے اتنی کھجوریں توڑ لیں جن سے میں نے قرض ادا کردیا اور اس میں سے کھجوریں بچ بھی گئی پھر میں وہاں سے نکلا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ خوشخبری سنائی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ابوعبداللہ امام بخاری (رح) نے کہا کہ اس حدیث میں جو عروش کا لفظ ہے عروش اور عريش عمارت کی چھت کو کہتے ہیں۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ (سورۃ الانعام میں لفظ) معروشات سے مراد انگور وغیرہ کی ٹٹیاں ہیں۔ دوسری آیت (سورۃ البقرہ) عروشها خاویة علی یعنی اپنی چھتوں پر گرے ہوئے۔

【71】

جمار کھانے کا بیان

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے مجاہد نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کھجور کے درخت کا گابھہ لایا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بعض درخت ایسے ہوتے ہیں جن کی برکت مسلمان کی برکت کی طرح ہوتی ہے۔ میں نے خیال کیا کہ آپ کا اشارہ کھجور کے درخت کی طرف ہے۔ میں نے سوچا کہ کہہ دوں کہ وہ درخت کھجور کا ہوتا ہے، یا رسول اللہ ! لیکن پھر جو میں نے مڑ کر دیکھا تو مجلس میں میرے علاوہ نو آدمی اور تھے اور میں ان میں سب سے چھوٹا تھا۔ اس لیے میں خاموش رہا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ درخت کھجور کا ہے۔

【72】

عجوہ کا بیان

ہم سے جمعہ بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مروان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ہاشم بن ہاشم نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو عامر بن سعد نے خبر دی اور ان سے ان کے والد سعد بن ابی وقاص (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ہر دن صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لیں، اسے اس دن نہ زہر نقصان پہنچا سکے گا اور نہ جادو۔

【73】

دوکھجوریں ایک ساتھ ملا کر کھانے کا بیان

ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جبلہ بن سحیم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن زبیر (رض) کے ساتھ (جب وہ حجاز کے خلیفہ تھے) ایک سال قحط کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے راشن میں ہمیں کھانے کے لیے کھجوریں دیں۔ عبداللہ بن عمر (رض) ہمارے پاس سے گزرتے اور ہم کھجور کھاتے ہوتے تو وہ فرماتے کہ دو کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر نہ کھاؤ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے دو کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع کیا ہے۔ پھر فرمایا سوا اس صورت کے جب اس کو کھانے والا شخص اپنے ساتھی سے (جو کھانے میں شریک ہے) اس کی اجازت لے لے۔ شعبہ نے بیان کیا کہ اجازت والا ٹکڑا ابن عمر (رض) کا قول ہے۔

【74】

ککڑیوں کا بیان

مجھ سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور انہوں نے ابن عمر (رض) سے سنا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو کھجور کو ککڑی کے ساتھ کھاتے ہوئے دیکھا۔

【75】

کھجور کے درخت کی برکت کا بیان

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن طلحہ نے بیان کیا، ان سے زبید نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ درختوں میں ایک درخت مثل مسلمان کے ہے اور وہ کھجور کا درخت ہے۔

【76】

ایک وقت میں دو کھانے یا دو قسم کی غذا کھانے بیان

ہم سے ابن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو ابراہیم بن سعد نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن جعفر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ککڑی کے ساتھ کھجور کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔

【77】

دس دس آدمیوں کو اندر بلانے اور دس اور دس آدمیوں کے دسترخوان پر بیٹھنے کا بیان

ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے، ان سے جعد ابوعثمان نے ان سے انس (رض) نے اور (اس کی روایت حماد نے) ہشام سے بھی کی، ان سے محمد نے اور ان سے انس (رض) نے اور سنان ابوربیعہ سے (بھی کی) اور ان سے انس (رض) نے کہ ان کی والدہ ام سلیم (رض) نے ایک مد جَو لیا اور ان سے پیس کر اس کا خطيفة (آٹے کو دودھ میں ملا کر پکاتے ہیں) پکایا اور ان کے پاس جو گھی کا ڈبہ تھا اس میں اس پر سے گھی نچوڑا، پھر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں (بلانے کے لیے) بھیجا۔ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں گیا تو آپ اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف رکھتے تھے۔ میں نے آپ کو کھانا کھانے کے لیے بلایا۔ آپ نے دریافت فرمایا اور وہ لوگ بھی جو میرے ساتھ ہیں ؟ چناچہ میں واپس آیا اور کہا کہ نبی کریم ﷺ تو فرماتے ہیں کہ جو میرے ساتھ موجود ہیں وہ بھی چلیں گے۔ اس پر ابوطلحہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! وہ تو ایک چیز ہے جو ام سلیم نے آپ کے لیے پکائی ہے۔ نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور کھانا آپ کے پاس لایا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دس آدمیوں کو میرے پاس اندر بلا لو۔ چناچہ دس صحابہ داخل ہوئے اور کھانا پیٹ بھر کر کھایا پھر فرمایا دس آدمیوں کو میرے پاس اور بلا لو۔ یہ دس بھی اندر آئے اور پیٹ بھر کر کھایا پھر فرمایا اور دس آدمیوں کو بلا لو۔ اس طرح انہوں نے چالیس آدمیوں کا شمار کیا۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے کھانا کھایا پھر آپ کھڑے ہوئے تو میں دیکھنے لگا کہ کھانے میں سے کچھ بھی کم نہیں ہوا۔

【78】

لہسن اور (بدبودار) ترکاریوں کے کھانے کی کراہت کا بیان، اس بارے میں ابن عمر (رض) کی روایت آپ ﷺ سے منقول ہے

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز نے بیان کیا کہ انس (رض) نے کہا میں نے نبی کریم ﷺ کو لہسن کے بارے میں کچھ کہتے نہیں سنا۔ البتہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص (لہسن) کھائے تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔

【79】

لہسن اور (بدبودار) ترکاریوں کے کھانے کی کراہت کا بیان، اس بارے میں ابن عمر (رض) کی روایت آپ ﷺ سے منقول ہے

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوصفوان عبداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم کو یونس نے خبر دی، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عطاء نے بیان کیا کہ جابر بن عبداللہ (رض) کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے لہسن یا پیاز کھائی ہو تو اسے چاہیے کہ ہم سے دور رہے، یا یہ فرمایا کہ ہماری مسجد سے دور رہے۔

【80】

کباث یعنی پیلو کے پھل کا بیان

ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا انہیں ابوسلمہ نے خبر دی، کہا کہ مجھے جابر بن عبداللہ (رض) نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ مقام مرالظہران پر تھے، ہم پیلو توڑ رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو خوب کالا ہو وہ توڑو کیونکہ وہ زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ جابر (رض) نے عرض کیا آپ نے بکریاں چرائی ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔

【81】

کھانے کے بعد کلی کرنے کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، انہوں نے یحییٰ بن سعید سے سنا، انہوں نے بشیر بن یسار سے، ان سے سوید بن نعمان نے، کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر روانہ ہوئے۔ جب ہم مقام صہبا پر پہنچے تو نبی کریم ﷺ نے کھانا طلب فرمایا۔ کھانے میں ستو کے سوا اور کوئی چیز نہیں لائی گئی، پھر ہم نے کھانا کھایا اور نبی کریم ﷺ کلی کر کے نماز کے لیے کھڑے ہوگئے، ہم نے بھی کلی کی۔ یحییٰ نے بیان کیا کہ میں نے بشیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا ہم سے سوید (رض) نے بیان کیا ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے جب ہم مقام صہبا پر پہنچے۔ یحییٰ نے کہا کہ یہ جگہ خیبر سے ایک منزل کی دوری پر ہے تو نبی کریم ﷺ نے کھانا طلب فرمایا لیکن ستو کے سوا اور کوئی چیز نہیں لائی گئی۔ ہم نے اسے آپ ﷺ کے ساتھ کھایا پھر آپ نے ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی اور نیا وضو نہیں کیا اور سفیان نے کہا گویا کہ تم یہ حدیث یحییٰ ہی سے سن رہے ہو۔

【82】

رومال سے پونچھنے سے قبل انگلیوں کے چاٹنے اور چوسنے کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص کھانا کھائے تو ہاتھ چاٹنے یا کسی کو چٹانے سے پہلے ہاتھ نہ پونچھے۔

【83】

رومال سے پونچھنے کا بیان

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے، ان سے سعید بن الحارث نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے کہ سعید بن الحارث نے جابر (رض) سے ایسی چیز کے (کھانے کے بعد) جو آگ پر رکھی ہو وضو کے متعلق پوچھا (کہ کیا ایسی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟ ) تو انہوں نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ہمیں اس طرح کا کھانا (جو پکا ہوا ہوتا) بہت کم میسر آتا تھا اور اگر میسر آ بھی جاتا تھا تو سوا ہماری ہتھیلیوں بازوؤں اور پاؤں کے کوئی رومال نہیں ہوتا تھا (اور ہم انہیں سے اپنے ہاتھ صاف کر کے) نماز پڑھ لیتے تھے اور وضو۔

【84】

جب کھانے سے فارغ ہو تو کیا کہے

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ثور نے، ان سے خالد بن معدان نے اور ان سے ابوامامہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کے سامنے سے جب کھانا اٹھایا جاتا تو آپ یہ دعا پڑھتے الحمد لله كثيرا طيبا مبارکا فيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ غير مكفي،‏‏‏‏ ولا مودع ولا مستغنى عنه،‏‏‏‏ ربنا تمام تعریفیں اللہ کے لیے، بہت زیادہ پاکیزہ برکت والی، ہم اس کھانے کا حق پوری طرح ادا نہ کرسکے اور یہ ہمیشہ کے لیے رخصت نہیں کیا گیا ہے (اور یہ اس لیے کہا تاکہ) اس سے ہم کو بےپرواہی کا خیال نہ ہو، اے ہمارے رب !۔

【85】

جب کھانے سے فارغ ہو تو کیا کہے

ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ثور بن یزید نے بیان کیا، ان سے خالد بن معدان نے اور ان سے ابوامامہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ جب کھانے سے فارغ ہوتے اور ایک مرتبہ بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ اپنا دستر خوان اٹھاتے یہ دعا پڑھتے الحمد لله الذي کفانا وأروانا،‏‏‏‏ غير مكفي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ولا مکفور، وقال مرة الحمد لله ربنا،‏‏‏‏ غير مكفي،‏‏‏‏ ولا مودع، ولا مستغنى،‏‏‏‏ ربنا‏‏‏.‏ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہماری کفایت کی اور ہمیں سیراب کیا۔ ہم اس کھانے کا حق پوری طرح ادا نہ کرسکے ورنہ ہم اس نعمت کے منکر نہیں ہیں۔ اور ایک مرتبہ فرمایا تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں اے ہمارے رب ! اس کا حق ادا نہیں کرسکے اور نہ یہ ہمیشہ کے لیے رخصت کیا گیا ہے۔ (یہ اس لیے کہا تاکہ) اس سے ہم کو بےنیازی کا خیال نہ ہو۔ اے ہمارے رب ! ۔

【86】

باب

باب : شکر گزار کھانے والا ( ثواب میں) صابر روزہ دار کی طرح ہے اس مسئلہ میں ابوہریرہ (رض) نے ایک حدیث نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے۔

【87】

اگر کسی شخص کو کھانے پر مدعو کیا جائے (اور کوئی دوسرا بھی آجائے) تو کہہ دے کہ یہ میرے ساتھ آگیا ہے اور انس نے کہا کہ جب تم کسی مسلمان کے پاس جاؤ اور وہ متہم نہ ہو تو اس کے کھانے میں سے کھاؤ اور پینے کی چیز میں سے کھالو۔

ہم سے عبداللہ بن ابی اسود نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے شقیق نے، اور ان سے ابومسعود انصاری (رض) نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ جماعت انصار کے ایک صحابی ابوشعیب (رض) کے نام سے مشہور تھے۔ ان کے پاس ایک غلام تھا جو گوشت بیچا کرتا تھا۔ وہ صحابی نبی کریم ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوئے تو نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے چہرہ مبارک سے فاقہ کا اندازہ لگا لیا۔ چناچہ وہ اپنے گوشت فروش غلام کے پاس گئے اور کہا کہ میرے لیے پانچ آدمیوں کا کھانا تیار کر دو ۔ میں نبی کریم ﷺ کو چار دوسرے آدمیوں کے ساتھ دعوت دوں گا۔ غلام نے کھانا تیار کردیا۔ اس کے بعد ابوشعیب (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں گئے اور آپ کو کھانے کی دعوت دی۔ ان کے ساتھ ایک اور صاحب بھی چلنے لگے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے ابوشعیب ! یہ صاحب بھی ہمارے ساتھ آگئے ہیں، اگر تم چاہو تو انہیں بھی اجازت دے دو اور اگر چاہو تو چھوڑ دو ۔ انہوں نے عرض کیا نہیں بلکہ میں انہیں بھی اجازت دیتا ہوں۔

【88】

رات کا کھانا سامنے آجائے تو عشاء کی نماز میں عجلت نہ کرے

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے اور لیث نے بیان کیا، کہا انہوں نے کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں جعفر بن عمرو بن امیہ (رض) نے خبر دی، انہیں ان کے والد عمرو بن امیہ نے خبر دی کہ انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ہاتھ سے بکری کے شانے کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے، پھر آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ گوشت اور چھری جس سے آپ کاٹ رہے تھے، چھوڑ کر کھڑے ہوگئے اور نماز پڑھائی اور اس نماز کے لیے نیا وضو نہیں کیا۔

【89】

رات کا کھانا سامنے آجائے تو عشاء کی نماز میں عجلت نہ کرے

ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب رات کا کھانا سامنے رکھ دیا گیا ہو اور نماز بھی کھڑی ہوگئی ہو تو پہلے کھانا کھاؤ۔ اور ایوب سے روایت ہے، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے اسی کے مطابق۔ اور ایوب سے روایت ہے، ان سے نافع نے کہ ابن عمر (رض) نے ایک مرتبہ رات کا کھانا کھایا اور اس وقت آپ امام کی قرآت سن رہے تھے۔

【90】

رات کا کھانا سامنے آجائے تو عشاء کی نماز میں عجلت نہ کرے

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب نماز کھڑی ہوچکے اور رات کا کھانا بھی سامنے ہو تو کھانا کھاؤ۔ وہیب اور یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ہشام نے کہ جب رات کا کھانا رکھا جا چکے۔

【91】

اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ جب تم کھانا کھالو تو منتشر ہوجاؤ

مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ میں پردہ کے حکم کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں۔ ابی بن کعب (رض) بھی مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ زینب بنت جحش (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی شادی کا موقع تھا۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے نکاح مدینہ منورہ میں کیا تھا۔ دن چڑھنے کے بعد نبی کریم ﷺ نے لوگوں کی کھانے کی دعوت کی تھی۔ آپ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ بعض اور صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت تک دوسرے لوگ (کھانے سے فارغ ہو کر) جا چکے تھے۔ آخر آپ بھی کھڑے ہوگئے اور چلتے رہے۔ میں بھی آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ آپ عائشہ (رض) کے حجرے پر پہنچے پھر آپ نے خیال کیا کہ وہ لوگ (بھی جو کھانے کے بعد گھر بیٹھے رہ گئے تھے) جا چکے ہوں گے (اس لیے آپ واپس تشریف لائے) میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا لیکن وہ لوگ اب بھی اسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ پھر واپس آگئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ دوبارہ واپس آیا۔ آپ عائشہ (رض) کے حجرہ پر پہنچے پھر آپ وہاں سے واپس ہوئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ اب وہ لوگ جا چکے تھے۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے اپنے اور میرے درمیان پردہ لٹکایا اور پردہ کی آیت نازل ہوئی۔