50. نکاح کا بیان

【1】

نکاح کی ترغیب کا بیان، کیوں کہ فرمان الہٰی ہے فانکحوا ماطاب لکم من النساء اس پر سند ہے۔

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، کہا ہم کو حمید بن ابی حمید طویل نے خبر دی، انہوں نے انس بن مالک سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ تین حضرات (علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہم) نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے، جب انہیں نبی کریم ﷺ کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا نبی کریم ﷺ سے کیا مقابلہ ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کرلوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟ سن لو ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ فمن رغب عن سنتي فليس مني میرے طریقے سے جس نے بےرغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔

【2】

نکاح کی ترغیب کا بیان، کیوں کہ فرمان الہٰی ہے فانکحوا ماطاب لکم من النساء اس پر سند ہے۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے حسان بن ابراہیم سے سنا، انہوں نے یونس بن یزید ایلی سے، ان سے زہری نے، کہا مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہوں نے عائشہ (رض) سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنى وثلاث ورباع فإن خفتم أن لا تعدلوا فواحدة أو ما ملکت أيمانکم ذلک أدنى أن لا تعولوا‏ کے متعلق پوچھا اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں سے انصاف نہ کرسکو گے تو جو عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو۔ دو دو سے، خواہ تین تین سے، خواہ چار چار سے، لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر ایک ہی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو، اس صورت میں قوی امید ہے کہ تم ظلم و زیادتی نہ کرسکو گے۔ عائشہ (رض) نے کہا : بھانجے ! آیت میں ایسی یتیم مالدار لڑکی کا ذکر ہے جو اپنے ولی کی پرورش میں ہو۔ وہ لڑکی کے مال اور اس کے حسن کی وجہ سے اس کی طرف مائل ہو اور اس سے معمولی مہر پر شادی کرنا چاہتا ہو تو ایسے شخص کو اس آیت میں ایسی لڑکی سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ہاں اگر اس کے ساتھ انصاف کرسکتا ہو اور پورا مہر ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اجازت ہے، ورنہ ایسے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ اپنی پرورش میں یتیم لڑکیوں کے سوا اور دوسری لڑکیوں سے شادی کرلیں۔

【3】

نبی ﷺ کا فرمان کہ شادی کی قوت رکھنے پر نکاح کرلو جس کا مطلب یہ ہے جس کسی میں جماع کی طاقت ہو وہ نکاح کرلے کیوں کہ نگاہ کو (پرائی عورت کو دیکھنے سے) نیچا کردیتا ہے اور حرام سے بچاتا ہے، جس کو نکاح کی حاجت نہ ہو اسے نکاح ضروری نہیں

ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے علقمہ بن قیس نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ تھا، ان سے عثمان (رض) نے منیٰ میں ملاقات کی اور کہا : اے ابوعبدالرحمٰن ! مجھے آپ سے ایک کام ہے پھر وہ دونوں تنہائی میں چلے گئے۔ عثمان (رض) نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمٰن ! کیا آپ منظور کریں گے کہ ہم آپ کا نکاح کسی کنواری لڑکی سے کردیں جو آپ کو گزرے ہوئے ایام یاد دلا دے۔ چونکہ عبداللہ (رض) اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے اس لیے انہوں نے مجھے اشارہ کیا اور کہا : علقمہ ! میں جب ان کی خدمت میں پہنچا تو وہ کہہ رہے تھے کہ اگر آپ کا یہ مشورہ ہے تو رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا تھا اے نوجوانو ! تم میں جو بھی شادی کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کرلینا چاہیے کیونکہ یہ خواہش نفسانی کو توڑ دے گا۔

【4】

شادی کی طاقت نہ ہونے پر روزہ رکھنے کا بیان

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمارہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ میں علقمہ اور اسود (رحمہم اللہ) کے ساتھ عبداللہ بن مسعود (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ہم سے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں نوجوان تھے اور ہمیں کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ نبی کریم ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ نوجوانوں کی جماعت ! تم میں جسے بھی نکاح کرنے کے لیے مالی طاقت ہو اسے نکاح کرلینا چاہیے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی بوجہ غربت طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑ دے گا۔

【5】

کئی شادیاں کرنے کا بیان

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطا بن ابی رباح نے خبر دی کہا کہ ہم ابن عباس (رض) کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ (رض) کے جنازہ میں شریک تھے۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں جب تم ان کا جنازہ اٹھاؤ تو زور زور سے حرکت نہ دینا بلکہ آہستہ آہستہ نرمی کے ساتھ جنازہ کو لے کر چلنا۔ نبی کریم ﷺ کے پاس آپ کی وفات کے وقت آپ کے نکاح میں نو بیویاں تھیں آٹھ کے لیے تو آپ نے باری مقرر کر رکھی تھی لیکن ایک کی باری نہیں تھی۔

【6】

کئی شادیاں کرنے کا بیان

ہم سے مسدد نے بیان کیا۔ کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ ایک ہی رات میں اپنی تمام بیویوں کے پاس گئے نبی کریم ﷺ کے پاس نو بیویاں تھیں۔ امام بخاری (رح) نے کہا کہ مجھ سے خلیفہ ابن خیاط نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے پھر یہی حدیث بیان کی۔

【7】

کئی شادیاں کرنے کا بیان

ہم سے علی بن حکم انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے رقبہ نے، ان سے طلحہ الیامی نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ مجھ سے ابن عباس (رض) نے دریافت فرمایا کہ تم نے شادی کرلی ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شادی کرلو کیونکہ اس امت کے بہترین شخص جو تھے (یعنی نبی کریم ﷺ ) ان کی بہت سی بیویاں تھیں۔ بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ اس امت میں اچھے وہی لوگ ہیں جن کی بہت عورتیں ہوں۔

【8】

جس کسی نے عورت کے نکاح کے لئے یا کسی اور کام کے لئے ہجرت کی، اس کو اس کی نیت کے مطابق ثواب ملے گا

ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے محمد بن ابراہیم بن حارث نے، ان سے علقمہ بن وقاص نے اور ان سے عمر بن خطاب (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملتا ہے جس کی وہ نیت کرے۔ اس لیے جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہو، اسے اللہ اور اس کے رسول کی رضا حاصل ہوگی لیکن جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کی نیت سے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے ارادہ سے ہو، اس کی ہجرت اسی کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔

【9】

تنگدست مسلمان جو قرآن کریم جانتا ہو اس کا نکاح کرادینے کا بیان، اس میں سہل کی روایت نبی ﷺ سے ہے

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے قیس نے بیان کیا اور ان سے ابن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ جہاد کیا کرتے تھے اور ہمارے ساتھ بیویاں نہیں تھیں۔ اس لیے ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہم اپنے آپ کو خصی کیوں نہ کرلیں ؟ آپ ﷺ نے ہمیں اس سے منع فرمایا۔

【10】

ایک مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی سے یہ کہنا کہ دیکھ لو تمہیں میری کونسی بیوی پسند ہے تاکہ میں اسے چھوڑ دوں۔ اس کو عبدالرحمن بن عوف نے روایت کیا ہے

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے حمید طویل نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، بیان کیا کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) (ہجرت کر کے مدینہ) آئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کے اور سعد بن ربیع انصاری (رض) کے درمیان بھائی چارہ کرایا۔ سعد انصاری (رض) کے نکاح میں دو بیویاں تھیں۔ انہوں نے عبدالرحمٰن (رض) سے کہا کہ وہ ان کے اہل (بیوی) اور مال میں سے آدھے لیں۔ اس پر عبدالرحمٰن نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اہل اور آپ کے مال میں برکت دے، مجھے تو بازار کا راستہ بتادو ۔ چناچہ آپ بازار آئے اور یہاں آپ نے کچھ پنیر اور کچھ گھی کی تجارت کی اور نفع کمایا۔ چند دنوں کے بعد ان پر زعفران کی زردی لگی ہوئی تھی۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ عبدالرحمٰن یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے ایک انصاری خاتون سے شادی کرلی ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ انہیں مہر میں کیا دیا عرض کیا کہ ایک گٹھلی برابر سونا دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر ولیمہ کر اگرچہ ایک بکری ہی کا ہو۔

【11】

مجرد رہنے اور اپنے تئیں نامرد بنانے کی کراہت

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی، انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے تبتل یعنی عورتوں سے الگ رہنے کی زندگی سے منع فرمایا تھا۔ اگر نبی کریم ﷺ انہیں اجازت دے دیتے تو ہم تو خصی ہی ہوجاتے۔ ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی اور انہوں نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عثمان بن مظعون (رض) کو عورت سے الگ رہنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اگر نبی کریم ﷺ انہیں اس کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی اپنے آپ کو خصی بنا لیتے۔

【12】

مجرد رہنے اور اپنے تئیں نامرد بنانے کی کراہت

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے، ان سے اسماعیل بن ابی خالد بجلی نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد کو جایا کرتے تھے اور ہمارے پاس روپیہ نہ تھا (کہ ہم شادی کرلیتے) اس لیے ہم نے عرض کیا ہم اپنے کو خصی کیوں نہ کرا لیں لیکن نبی کریم ﷺ نے ہمیں اس سے منع فرمایا۔ پھر ہمیں اس کی اجازت دے دی کہ ہم کسی عورت سے ایک کپڑے پر (ایک مدت تک کے لیے) نکاح کرلیں۔ آپ نے ہمیں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھ کر سنائی يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لکم ولا تعتدوا إن الله لا يحب المعتدين‏ کہ ایمان لانے والو ! وہ پاکیزہ چیزیں مت حرام کرو جو تمہارے لیے اللہ تعالیٰ نے حلال کی ہیں اور حد سے آگے نہ بڑھو، بیشک اللہ حد سے آگے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور اصبغ نے کہا کہ مجھے ابن وہب نے خبر دی، انہیں یونس بن یزید نے، انہیں ابن شہاب نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نوجوان ہوں اور مجھے اپنے پر زنا کا خوف رہتا ہے۔ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس پر میں کسی عورت سے شادی کرلوں۔ آپ میری یہ بات سن کر خاموش رہے۔ دوبارہ میں نے اپنی یہی بات دہرائی لیکن آپ اس مرتبہ بھی خاموش رہے۔ سہ بارہ میں نے عرض کیا آپ پھر بھی خاموش رہے۔ میں نے چوتھی مرتبہ عرض کیا آپ ﷺ نے فرمایا اے ابوہریرہ ! جو کچھ تم کرو گے اسے (لوح محفوظ میں) لکھ کر قلم خشک ہوچکا ہے۔ خواہ اب تم خصی ہوجاؤ یا باز رہو۔ یعنی خصی ہونا بیکار محض ہے۔

【13】

کنواری لڑکی سے نکاح کرنے کا بیان ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے حضرت عائشہ (رض) سے کہا نبی ﷺ نے آپ کے علاوہ کسی کنواری سے نکاح نہیں کیا۔

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! فرمائیے اگر آپ کسی وادی میں اتریں اور اس میں ایک درخت ایسا ہو جس میں اونٹ چر گئے ہوں اور ایک درخت ایسا ہو جس میں سے کچھ بھی نہ کھایا گیا ہو تو آپ اپنا اونٹ ان درختوں میں سے کس درخت میں چرائیں گے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس درخت میں جس میں سے ابھی چرایا نہیں گیا ہو۔ ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے سوا کسی کنواری لڑکی سے نکاح نہیں کیا۔

【14】

کنواری لڑکی سے نکاح کرنے کا بیان ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے حضرت عائشہ (رض) سے کہا نبی ﷺ نے آپ کے علاوہ کسی کنواری سے نکاح نہیں کیا۔

ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ ! مجھے خواب میں دو مرتبہ تم دکھائی گئیں۔ ایک شخص (جبرائیل) تمہاری صورت حریر کے ایک ٹکڑے میں اٹھائے ہوئے ہے اور کہتا ہے کہ یہ آپ کی بیوی ہے میں نے جو اس کپڑے کو کھولا تو اس میں تم تھیں۔ میں نے خیال کیا کہ اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے تو وہ اسے ضرور پورا کر کے رہے گا۔

【15】

ثیبہ یعنی بیوہ سے شادی کرنے کا بیان اور ام حبیبہ فرماتی ہیں کہ مجھ سے نبی ﷺ نے فرمایا اے بی بی مجھ پر اپنی بہنیں اور بیٹیاں نکاح کے لئے پیش نہ کرو۔ کیونکہ وہ شرعاً مجھ پر حرام ہیں۔

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سیار بن ابی سیار نے بیان کیا، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک جہاد سے واپس ہو رہے تھے۔ میں اپنے اونٹ کو، جو سست تھا تیز چلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اتنے میں میرے پیچھے سے ایک سوار مجھ سے آ کر ملا اور اپنا نیزہ میرے اونٹ کو چبھو دیا۔ اس کی وجہ سے میرا اونٹ تیز چل پڑا جیسا کہ کسی عمدہ قسم کے اونٹ کی چال تم نے دیکھی ہوگی۔ اچانک نبی کریم ﷺ مل گئے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا جلدی کیوں کر رہے ہو ؟ میں نے عرض کیا ابھی میری شادی نئی ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کنواری سے یا بیوہ سے ؟ میں نے عرض کیا کہ بیوہ سے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ کسی کنواری سے کیوں نہ کی تم اس کے ساتھ کھیل کود کرتے اور وہ تمہارے ساتھ کرتی۔ بیان کیا کہ پھر جب ہم مدینہ میں داخل ہونے والے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تھوڑی دیر ٹھہر جاؤ اور رات ہوجائے تب داخل ہو تاکہ پریشان بالوں والی کنگھا کر لیوے اور جن کے شوہر موجود نہیں تھے وہ اپنے بال صاف کرلیں۔

【16】

ثیبہ یعنی بیوہ سے شادی کرنے کا بیان اور ام حبیبہ فرماتی ہیں کہ مجھ سے نبی ﷺ نے فرمایا اے بی بی مجھ پر اپنی بہنیں اور بیٹیاں نکاح کے لئے پیش نہ کرو۔ کیونکہ وہ شرعاً مجھ پر حرام ہیں۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محارب بن دثار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، انہوں نے عرض کیا کہ میں نے شادی کی تو نبی کریم ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کس سے شادی کی ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ایک عورت سے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کنواری سے کیوں نہ کی کہ اس کے ساتھ تم کھیل کود کرتے۔ محارب نے کہا کہ پھر میں نے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد عمرو بن دینار سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا ہے۔ مجھ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ کا فرمان اس طرح بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تم نے کسی کنواری عورت سے شادی کیوں نہ کی کہ تم اس کے ساتھ کھیل کود کرتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔

【17】

چھوٹی عمر والی کا بڑی عمر والے سے نکاح کرنے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے یزید بن حبیب نے، ان سے عراک بن مالک نے اور ان سے عروہ نے کہ نبی کریم ﷺ نے عائشہ (رض) سے شادی کے لیے ابوبکر صدیق (رض) سے کہا۔ ابوبکر (رض) نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ میں آپ کا بھائی ہوں۔ (تو عائشہ سے کیسے نکاح کریں گے) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے دین اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کے رشتہ سے تم میرے بھائی ہو اور عائشہ میرے لیے حلال ہے۔

【18】

کس عورت سے نکاح کرے اور کونسی عورتیں عمدہ ہیں اور اپنی نسل کے لئے عمدہ عورت کے انتخاب کا بیان

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اونٹ پر سوار ہونے والی (عرب) عورتوں میں بہترین عورت قریش کی صالح عورت ہوتی ہے جو اپنے بچے سے بہت زیادہ محبت کرنے والی اور اپنے شوہر کے مال اسباب میں اس کی بہت عمدہ نگہبان و نگراں ثابت ہوتی ہے۔

【19】

باندیوں سے محبت کرنے اور باندی کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرنے کی برتری کا بیان

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوحد بن زیاد نے، کہا ہم سے صالح بن صالح ہمدانی نے، کہا ہم سے عامر شعبی نے، کہا کہ مجھ سے ابوبردہ نے بیان کیا اپنے والد سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس لونڈی ہو وہ اسے تعلیم دے اور خوب اچھی طرح دے، اسے ادب سکھائے اور پوری کوشش اور محنت کے ساتھ سکھائے اور اس کے بعد اسے آزاد کر کے اس سے شادی کرلے تو اسے دہرا ثواب ملتا ہے اور اہل کتاب میں سے جو شخص بھی اپنے نبی پر ایمان رکھتا ہو اور مجھ پر ایمان لائے تو اسے دوہرا ثواب ملتا ہے اور جو غلام اپنے آقا کے حقوق بھی ادا کرتا ہے اور اپنے رب کے حقوق بھی ادا کرتا ہے اسے دہرا ثواب ملتا ہے۔ عامر شعبی نے (اپنے شاگرد سے اس حدیث کو سنانے کے بعد کہا کہ بغیر کسی مشقت اور محنت کے اسے سیکھ لو۔ اس سے پہلے طالب علموں کو اس حدیث سے کم کے لیے بھی مدینہ تک کا سفر کرنا پڑتا تھا۔ اور ابوبکر نے بیان کیا ابوحصین سے، اس نے ابوبردہ سے، اس نے اپنے والد سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کہ اس شخص نے باندی کو (نکاح کرنے کے لیے) آزاد کردیا اور یہی آزادی اس کا مہر مقرر کی۔

【20】

باندیوں سے محبت کرنے اور باندی کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرنے کی برتری کا بیان

ہم سے سعید بن تلید نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی، کہا کہ مجھے جریر بن حازم نے خبر دی، انہیں ایوب سختیانی نے، انہیں محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ (دوسری سند) ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے حماد بن زید نے، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان سے تین مرتبہ کے سوا کبھی دین میں جھوٹ بات نہیں نکلی۔ ایک مرتبہ آپ ایک ظالم بادشاہ کی حکومت سے گزرے آپ کے ساتھ آپ کی بیوی سارہ (علیہ السلام) تھیں۔ پھر پورا واقعہ بیان کیا (کہ بادشاہ کے سامنے) آپ نے سارہ (علیہ السلام) کو اپنی بہن (یعنی دینی بہن) کہا۔ پھر اس بادشاہ نے سارہ (علیہا السلام) کو آجر (ہاجرہ) کو دے دیا۔ (بی بی سارہ (علیہا السلام) نے ابراہیم (علیہ السلام) سے) کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر کے ہاتھ کو روک دیا اور آجر (ہاجرہ) کو میری خدمت کے لیے دلوا دیا۔ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ اے آسمان کے پانی کے بیٹو ! یعنی اے عرب والو ! یہی ہاجرہ (علیہا السلام) تمہاری ماں ہیں۔

【21】

باندیوں سے محبت کرنے اور باندی کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرنے کی برتری کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمیدی نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے خیبر اور مدینہ کے درمیان تین دن تک قیام کیا اور یہیں ام المؤمنین صفیہ بنت حیی (رض) کے ساتھ خلوت کی۔ پھر میں نے نبی کریم ﷺ کے ولیمہ کی مسلمانوں کو دعوت دی۔ اس دعوت ولیمہ میں نہ تو روٹی تھی اور نہ گوشت تھا۔ دستر خوان بچھانے کا حکم ہوا اور اس پر کھجور، پنیر اور گھی رکھ دیا گیا اور یہی نبی کریم ﷺ کا ولیمہ تھا۔ بعض مسلمانوں نے پوچھا کہ صفیہ امہات المؤمنین میں سے ہیں (یعنی نبی کریم ﷺ نے ان سے نکاح کیا ہے) یا لونڈی کی حیثیت سے آپ نے ان کے ساتھ خلوت کی ہے ؟ اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر نبی کریم ﷺ ان کے لیے پردہ کا انتظام فرمائیں تو اس سے ثابت ہوگا کہ وہ امہات المؤمنین میں سے ہیں اور اگر ان کے لیے پردہ کا اہتمام نہ کریں تو اس سے ثابت ہوگا کہ وہ لونڈی کی حیثیت سے آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر جب کوچ کرنے کا وقت ہوا تو نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے اپنی سواری پر بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی اور ان کے لیے پردہ ڈالا تاکہ لوگوں کو وہ نظر نہ آئیں۔

【22】

لونڈی کا آزاد کرنا ہی اس کا مہر ہے

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت بنانی اور شعیب بن حبحاب نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے صفیہ (رض) کو آزاد کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔

【23】

نادار کے نکاح کرنے کے جواز کے بیان میں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر وہ نادار ہیں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں مالدار کردے گا

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں آپ کی خدمت میں اپنے آپ کو آپ کے لیے وقف کرنے حاضر ہوئی ہوں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ ﷺ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ پھر آپ نے نظر کو نیچی کرلیا اور پھر اپنا سر جھکا لیا۔ جب اس عورت نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو وہ بیٹھ گئی۔ اس کے بعد آپ ﷺ کے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! اگر آپ کو ان سے نکاح کی ضرورت نہیں ہے تو ان سے میرا نکاح کر دیجئیے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس (مہر کے لیے) کوئی چیز ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں، اللہ کی قسم، یا رسول اللہ ! نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اپنے گھر جاؤ اور دیکھو ممکن ہے تمہیں کوئی چیز مل جائے۔ وہ گئے اور واپس آگئے اور عرض کیا : اللہ کی قسم ! میں نے کچھ نہیں پایا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر لوہے کی ایک انگوٹھی بھی مل جائے تو لے آؤ۔ وہ گئے اور واپس آگئے اور عرض کیا : اللہ کی قسم، یا رسول اللہ ! میرے پاس لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں البتہ میرے پاس ایک تہمد ہے۔ انہیں (خاتون کو) اس میں سے آدھا دے دیجئیے۔ سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ ان کے پاس چادر بھی نہیں تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے اس تہمد کا کیا کرے گی۔ اگر تم اسے پہنو گے تو ان کے لیے اس میں سے کچھ نہیں بچے گا اور اگر وہ پہن لے تو تمہارے لیے کچھ نہیں رہے گا۔ اس کے بعد وہ صحابی بیٹھ گئے۔ کافی دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد جب وہ کھڑے ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے انہیں دیکھا کہ وہ واپس جا رہے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں بلوایا جب وہ آئے تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہیں قرآن مجید کتنا یاد ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ انہوں نے گن کر بتائیں۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا کیا تم انہیں بغیر دیکھے پڑھ سکتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر جاؤ۔ میں نے انہیں تمہارے نکاح میں دیا۔ ان سورتوں کے بدلے جو تمہیں یاد ہیں۔

【24】

نسب و خاندان میں اسلام اور دینداری کے لزوم کا بیان نسب و صہر اور کفو کی طرف اشارہ ہے کفو اور کفایت کے معنی نسب وخاندان صہر دامادی۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس (مہشم) نے جو ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں شرکت کی تھی۔ سالم بن معقل (رض) کو لے پالک بیٹا بنایا، اور پھر ان کا نکاح اپنے بھائی کی لڑکی ہندہ بنت الولید بن عتبہ بن ربیعہ سے کردیا۔ پہلے سالم (رض) ایک انصاری خاتون (شبیعہ بنت یعار) کے آزاد کردہ غلام تھے لیکن حذیفہ نے ان کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے زید کو (جو آپ ہی کے آزاد کردہ غلام تھے) اپنا لے پالک بیٹا بنایا تھا جاہلیت کے زمانے میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی شخص کسی کو لے پالک بیٹا بنا لیتا تو لوگ اسے اسی کی طرف نسبت کر کے پکارا کرتے تھے اور لے پالک بیٹا اس کی میراث میں سے بھی حصہ پاتا آخر جب سورة الحجرات میں یہ آیت اتری ادعوهم لآبائهم‏ کہ انہیں ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کر کے پکارو اللہ تعالیٰ کے فرمان ومواليكم‏ تک تو لوگ انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کر کے پکارنے لگے جس کے باپ کا علم نہ ہوتا تو اسے مولى اور دینی بھائی کہا جاتا۔ پھر سہلہ بنت سہیل بن عمرو القرشی ثم العامدی (رض) جو ابوحذیفہ (رض) کی بیوی ہیں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم تو سالم کو اپنا حقیقی جیسا بیٹا سمجھتے تھے اب اللہ نے جو حکم اتارا وہ آپ کو معلوم ہے پھر آخر تک حدیث بیان کی۔

【25】

نسب و خاندان میں اسلام اور دینداری کے لزوم کا بیان نسب و صہر اور کفو کی طرف اشارہ ہے کفو اور کفایت کے معنی نسب وخاندان صہر دامادی۔

ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ضباعہ بنت زبیر (رض) کے پاس گئے (یہ زبیر عبدالمطلب کے بیٹے اور نبی کریم ﷺ کے چچا تھے) اور ان سے فرمایا شاید تمہارا ارادہ حج کا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : اللہ کی قسم ! میں تو اپنے آپ کو بیمار پاتی ہوں نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ پھر بھی حج کا احرام باندھ لے۔ البتہ شرط لگا لینا اور یہ کہہ لینا کہ اے اللہ ! میں اس وقت حلال ہوجاؤں گی جب تو مجھے (مرض کی وجہ سے) روک لے گا۔ اور (ضباعہ بنت زبیر قریشی رضی اللہ عنہا) مقداد بن اسود (رض) کے نکاح میں تھیں۔

【26】

نسب و خاندان میں اسلام اور دینداری کے لزوم کا بیان نسب و صہر اور کفو کی طرف اشارہ ہے کفو اور کفایت کے معنی نسب وخاندان صہر دامادی۔

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے عبیداللہ عموی نے، کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہوگی) ۔

【27】

نسب و خاندان میں اسلام اور دینداری کے لزوم کا بیان نسب و صہر اور کفو کی طرف اشارہ ہے کفو اور کفایت کے معنی نسب وخاندان صہر دامادی۔

ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے، ان سے ان کے والد سلمہ بن دینار نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی نے بیان کیا کہ ایک صاحب (جو مالدار تھے) رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے گزرے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے پاس موجود صحابہ سے پوچھا کہ یہ کیسا شخص ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یہ اس لائق ہے کہ اگر یہ نکاح کا پیغام بھیجے تو اس سے نکاح کیا جائے، اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول کی جائے، اگر کوئی بات کہے تو غور سے سنی جائے۔ سہل نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ اس پر چپ ہو رہے۔ پھر ایک دوسرے صاحب گزرے، جو مسلمانوں کے غریب اور محتاج لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اس کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یہ اس قابل ہے کہ اگر کسی کے یہاں نکاح کا پیغام بھیجے تو اس سے نکاح نہ کیا جائے اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے، اگر کوئی بات کہے تو اس کی بات نہ سنی جائے۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ یہ شخص اکیلا پہلے شخص کی طرح دنیا بھر سے بہتر ہے۔

【28】

کفا یت میں مالداری کالحاظ اور مفلس کا مالدار عورت سے نکاح کا بیان

مجھ سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ انہوں نے عائشہ (رض) سے آیت وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى‏ اور اگر تمہیں خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں تم انصاف نہیں کرسکو گے۔ کے متعلق سوال کیا۔ عائشہ (رض) نے کہا میرے بھانجے ! اس آیت میں اس یتیم لڑکی کا حکم بیان ہوا ہے جو اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور اس کا ولی اس کی خوبصورتی اور مالداری پر ریجھ کر یہ چاہے کہ اس سے نکاح کرے لیکن اس کے مہر میں کمی کرنے کا بھی ارادہ ہو۔ ایسے ولی کو اپنی زیر پرورش یتیم لڑکی سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے جب وہ ان کا مہر انصاف سے پورا ادا کریں گے اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر آیت میں ایسے ولیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی زیر پرورش یتیم لڑکی کے سوا کسی اور سے نکاح کرلیں۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بعد سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے سورة نساء میں آیت ويستفتونک في النساء‏ سے وترغبون أن تنکحوهن‏ تک نازل کی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ یتیم لڑکیاں اگر خوبصورت اور صاحب مال ہوں تو ان کے ولی بھی ان کے ساتھ نکاح کرلینا چاہتے ہیں، اس کا خاندان پسند کرتے ہیں اور مہر پورا ادا کر کے ان سے نکاح کرلیتے ہیں۔ لیکن ان میں حسن کی کمی ہو اور مال بھی نہ ہو تو پھر ان کی طرف رغبت نہیں ہوگی اور وہ انہیں چھوڑ کر دوسری عورتوں سے نکاح کرلیتے ہیں۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جیسے اس وقت یتیم لڑکی کو چھوڑ دیتے ہیں جب وہ نادار ہو اور خوبصورت نہ ہو ایسے ہی اس وقت بھی چھوڑ دینا چاہیے جب وہ مالدار اور خوبصورت ہو البتہ اگر اس کے حق میں انصاف کریں اور اس کا مہر پورا ادا کریں تب اس سے نکاح کرسکتے ہیں۔

【29】

عورت کی نحوست سے پرہیز کرنے کا بیان، اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ تمہارے بعض بچے اور بیوی تمہارے لئے دشمن ہیں

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) کے صاحبزادے حمزہ اور سالم نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نحوست عورت میں، گھر میں اور گھوڑے میں ہوسکتی ہے (نحوست بےبرکتی اگر ہو تو ان میں ہوسکتی ہے) ۔

【30】

عورت کی نحوست سے پرہیز کرنے کا بیان، اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ تمہارے بعض بچے اور بیوی تمہارے لئے دشمن ہیں

ہم سے محمد بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے عمر بن محمد عسقلانی نے بیان کیا، ان سے ان کے والد اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے نحوست کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر نحوست کسی چیز میں ہو تو گھر، عورت اور گھوڑے میں ہوسکتی ہے۔

【31】

عورت کی نحوست سے پرہیز کرنے کا بیان، اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ تمہارے بعض بچے اور بیوی تمہارے لئے دشمن ہیں

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوحازم نے اور انہیں سہل بن سعد ساعدی (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر (نحوست) کسی چیز میں ہو تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہوسکتی ہے۔

【32】

عورت کی نحوست سے پرہیز کرنے کا بیان، اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ تمہارے بعض بچے اور بیوی تمہارے لئے دشمن ہیں

ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، انہوں نے ابوعثمان نہدی سے سنا اور انہوں نے اسامہ بن زید (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں کے فتنہ سے بڑھ کر نقصان دینے والا اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے۔

【33】

آزاد عورت کا غلام سے نکاح کرنے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی انہیں ربیعہ بن ابوعبدالرحمٰن نے انہیں قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ بریرہ کے ساتھ تین سنت قائم ہوتی ہیں، انہیں آزاد کیا اور پھر اختیار دیا گیا (کہ اگر چاہیں تو اپنے شوہر سابقہ سے اپنا نکاح فسخ کرسکتی ہیں) اور رسول اللہ ﷺ نے (بریرہ (رض) کے بارے میں) فرمایا کہ ولاء آزاد کرانے والے کے ساتھ قائم ہوئی ہے اور نبی کریم ﷺ گھر میں داخل ہوئے تو ایک ہانڈی (گوشت کی) چولہے پر تھی۔ پھر نبی کریم ﷺ کے لیے روٹی اور گھر کا سالن لایا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (چولہے پر) ہانڈی (گوشت کی) بھی تو میں نے دیکھی تھی۔ عرض کیا گیا کہ وہ ہانڈی اس گوشت کی تھی جو بریرہ کو صدقہ میں ملا تھا اور آپ ﷺ صدقہ نہیں کھاتے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور اب ہمارے لیے ان کی طرف سے تحفہ ہے۔ ہم اسے کھا سکتے ہیں۔

【34】

چار عورتوں سے زیادہ نہ رکھنے کا بیان، اللہ تعالیٰ کا قول دو دو، تین تین، چار، چار علی بن حسین فرماتے ہیں اس سے مراد دو دو، تین تین، یا چار چار ہیں (مجموعہ مراد نہیں) اور اللہ تعالیٰ کا فرمان اولی اجنحۃ مثنی وثلاث ورباع یعنی دو دو یا تین تین یا چار چار

ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں ہشام نے، انہیں ان کے والد نے اور انہیں عائشہ (رض) نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد وإن خفتم أن لا،‏‏‏‏ تقسطوا في اليتامى‏ اور اگر تمہیں خوف ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف نہیں کرسکو گے۔ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد یتیم لڑکی ہے جو اپنے ولی کی پرورش میں ہو۔ ولی اس سے اس کے مال کی وجہ سے شادی کرتے اور اچھی طرح اس سے سلوک نہ کرتے اور نہ اس کے مال کے بارے میں انصاف کرتے ایسے شخصوں کو یہ حکم ہوا کہ اس یتیم لڑکی سے نکاح نہ کریں بلکہ اس کے سوا جو عورتیں بھلی لگیں ان سے نکاح کرلیں۔ دو دو، تین تین یا چار چار تک کی اجازت ہے۔

【35】

دودھ پلانے والی ماں کا بیان۔ (آپ ﷺ کا فرمان کہ) جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہوجاتے ہیں

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے، ان سے عبداللہ بن ابوبکر نے، ان سے عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ ان کے یہاں تشریف رکھتے تھے اور آپ نے سنا کہ کوئی صاحب ام المؤمنین حفصہ (رض) کے گھر میں اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ شخص آپ کے گھر میں آنے کی اجازت چاہتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ یہ فلاں شخص ہے، آپ ﷺ نے حفصہ (رض) کے ایک دودھ کے چچا کا نام لیا۔ اس پر عائشہ (رض) نے پوچھا : کیا فلاں، جو ان کے دودھ کے چچا تھے، اگر زندہ ہوتے تو میرے یہاں آ جاسکتے تھے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں جیسے خون ملنے سے حرمت ہوتی ہے، ویسے ہی دودھ پینے سے بھی حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔

【36】

دودھ پلانے والی ماں کا بیان، (آپ ﷺ کا فرمان کہ) جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہوجاتے ہیں

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے قتادہ نے، ان سے جابر بن زید نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے کہا گیا کہ آپ حمزہ (رض) کی بیٹی سے نکاح کیوں نہیں کرلیتے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ میرے دودھ کے بھائی کی بیٹی ہے۔ اور بشر بن عمر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے قتادہ سے سنا اور انہوں نے اسی طرح جابر بن زید سے سنا۔

【37】

دودھ پلانے والی ماں کا بیان، (آپ ﷺ کا فرمان کہ) جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہوجاتے ہیں

ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہیں زینب بنت ابی سلمہ نے خبر دی اور انہیں ام المؤمنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان نے خبر دی کہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری بہن (ابوسفیان کی لڑکی) سے نکاح کرلیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم اسے پسند کرو گی (کہ تمہاری سوکن بہن بنے) ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں، میں تو پسند کرتی ہوں اگر میں اکیلی آپ کی بیوی ہوتی تو پسند نہ کرتی۔ پھر میری بہن اگر میرے ساتھ بھلائی میں شریک ہو تو میں کیونکر نہ چاہوں گی (غیروں سے تو بہن ہی اچھی ہے) آپ ﷺ نے فرمایا وہ میرے لیے حلال نہیں ہے۔ ام حبیبہ (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! لوگ کہتے ہیں آپ ابوسلمہ کی بیٹی سے جو ام سلمہ کے پیٹ سے ہے، نکاح کرنے والے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ میری ربیبہ اور میری پرورش میں نہ ہوتی (یعنی میری بیوی کی بیٹی نہ ہوتی) جب بھی میرے لیے حلال نہ ہوتی۔ وہ دوسرے رشتے سے میری دودھ بھتیجی ہے، مجھ کو اور ابوسلمہ کے باپ کو دونوں کو ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے۔ دیکھو، ایسا مت کرو اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو مجھ سے نکاح کرنے کے لیے نہ کہو۔ عروہ راوی نے کہا ثوبیہ ابولہب کی لونڈی تھی۔ ابولہب نے اس کو آزاد کردیا تھا۔ (جب اس نے نبی کریم ﷺ کے پیدا ہونے کی خبر ابولہب کو دی تھی) پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا جب ابولہب مرگیا تو اس کے کسی عزیز نے مرنے کے بعد اس کو خواب میں برے حال میں دیکھا تو پوچھا کیا حال ہے کیا گزری ؟ وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں کبھی آرام نہیں ملا مگر ایک ذرا سا پانی (پیر کے دن مل جاتا ہے) ابولہب نے اس گڑھے کی طرف اشارہ کیا جو انگوٹھے اور کلمہ کے انگلی کے بیچ میں ہوتا ہے یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثوبیہ کو آزاد کردیا تھا۔

【38】

جو شخص یہ کہے کہ دو سال کی عمر کے بعد رضاعت کی حرمت ثابت نہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو کوئی رضاعت پوری کرنا چاہے تو اس کی مدت دو سال ہے اور واقعہ یہ ہے کہ عورت کا دودھ پینے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے، خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اشعث نے، ان سے ان کے دادا نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ ان کے یہاں ایک مرد بیٹھا ہوا ہے۔ آپ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا گویا کہ آپ نے اس کو پسند نہیں فرمایا عائشہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ میرے دودھ والے بھائی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا دیکھو، سوچ سمجھ کر کہو کون تمہارا بھائی ہے۔

【39】

بیوی کا دودھ پینے پر شوہر کا بیٹا شمار ہونے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر نے، اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ابوقعیس کے بھائی افلح نے ان کے یہاں اندر آنے کی اجازت چاہی۔ وہ عائشہ (رض) کے رضاعی چچا تھے (یہ واقعہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ) میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی پھر جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ ﷺ کو ان کے ساتھ اپنے معاملے کو بتایا، نبی کریم ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں انہیں اندر آنے کی اجازت دے دوں۔

【40】

دودھ پلانے والی کی شہادت سے رضاعت کے ثبوت کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے، کہا ہم کو ایوب سختیانی نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن ابی ملیکہ نے، کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن ابی مریم نے بیان کیا، ان سے عقبہ بن حارث (رض) نے (عبداللہ بن ابی ملیکہ نے) بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث خود عقبہ سے بھی سنی ہے لیکن مجھے عبید کے واسطے سے سنی ہوئی حدیث زیادہ یاد ہے۔ عقبہ بن حارث نے بیان کیا کہ میں نے ایک عورت (ام یحییٰ بن ابی اہاب) سے نکاح کیا۔ پھر ایک کالی عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں (میاں بیوی) کو دودھ پلایا ہے۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے فلانی بنت فلاں سے نکاح کیا ہے۔ اس کے بعد ہمارے یہاں ایک کالی عورت آئی اور مجھ سے کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، حالانکہ وہ جھوٹی ہے ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عقبہ کا یہ کہنا کہ وہ جھوٹی ہے ناگوار گزرا) آپ ﷺ نے اس پر اپنا چہرہ مبارک پھیرلیا۔ پھر میں آپ کے سامنے آیا اور عرض کیا وہ عورت جھوٹی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس بیوی سے اب کیسے نکاح رہ سکے گا جبکہ یہ عورت یوں کہتی ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، اس عورت کو اپنے سے الگ کر دو ۔ (حدیث کے راوی) اسماعیل بن علیہ نے اپنی شہادت اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا کہ ایوب نے اس طرح اشارہ کر کے۔

【41】

None

خون کی رو سے تم پر سات رشتے حرام ہیں اور شادی کی وجہ سے ( یعنی سسرال کی طرف سے ) سات رشتے بھی۔ انہوں نے یہ آیت پڑھی «حرمت عليكم أمهاتكم‏» آخر تک۔ اور عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب نے علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی زینب اور علی کی بی بی ( لیلٰی بنت مسعود ) دونوں سے نکاح کیا، ان کو جمع کیا اور ابن سیرین نے کہا اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور امام حسن بصری نے ایک بار تو اسے مکروہ کہا پھر کہنے لگے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب نے اپنے دونوں چاچاؤں ( یعنی محمد بن علی اور عمرو بن علی ) کی بیٹیوں کو ایک ساتھ میں نکاح میں لے لیا اور جابر بن زید تابعی نے اس کو مکروہ جانا، اس خیال سے کہ بہنوں میں جلاپا نہ پیدا ہو مگر یہ کچھ حرام نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «وأحل لكم ما وراء ذلكم‏» کہ ان کے سوا اور سب عورتیں تم کو حلال ہیں۔ اور عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ اگر کسی نے اپنی سالی سے زنا کیا تو اس کی بیوی ( سالی کی بہن ) اس پر حرام نہ ہو گی۔ اور یحییٰ بن قیس کندی سے روایت ہے، انہوں نے شعبی اور جعفر سے، دونوں نے کہا اگر کوئی شخص لواطت کرے اور کسی لونڈے کے دخول کر دے تو اب اس کی ماں سے نکاح نہ کرے۔ اور یحییٰ راوی مشہور شخص نہیں ہے اور نہ کسی اور نے اس کے ساتھ ہو کر یہ روایت کی ہے اور عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ اگر کسی نے اپنی ساس سے زنا کیا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہ ہو گی۔ اور ابونصر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ حرام ہو جائے گی اور اس راوی ابونصر کا حال معلوم نہیں۔ اس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ہے یا نہیں ( لیکن ابوزرعہ نے اسے ثقہ کہا ہے ) اور عمران بن حصین اور جابر بن زید اور حسن بصری اور بعض عراق والوں ( امام ثوری اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) کا یہی قول ہے کہ حرام ہو جائے گی۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا حرام نہ ہو گی جب تک اس کی ماں ( اپنی خوشدامن ) کو زمین سے نہ لگا دے ( یعنی اس سے جماع نہ کرے ) اور سعید بن مسیب اور عروہ اور زہری نے اس کے متعلق کہا ہے کہ اگر کوئی ساس سے زنا کرے تب بھی اس کی بیٹی یعنی زنا کرنے والے کی بیوی اس پر حرام نہ ہو گی ( اس کو رکھ سکتا ہے ) اور زہری نے کہا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کی جورو اس پر حرام نہ ہو گی اور یہ روایت منقطع ہے۔

【42】

باب

باب : اللہ کے اس فرمان کا بیان اور حرام ہیں تم پر تمہاری بیویوں کی لڑکیاں اور حرام ہیں تم پر تمہاری بیویوں کی لڑکیاں (وہ جو دوسرے خاوند لائیں) جن کو تم پرورش کرتے ہو جب ان بیویوں سے دخول کرچکے ہو اور ابن عباس (رض) نے کہ لفظ دخول اور مسيس اور ماس ان سب سے جماع ہی مراد ہے اور اس قول کا بیان کہ جورو کی اولاد (مثلاً پوتی یا نواسی) بھی حرام ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ام حبیبہ (رض) سے فرمایا اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو مجھ پر نہ پیش کیا کرو تو بیٹیوں میں بیٹے کی بیٹی (پوتی) اور بیٹی کی بیٹی (نواسی) سب آگئیں اور اس طرح بہوؤں میں پوت بہو (پوتے کی بیوی) اور بیٹیوں میں بیٹے کی بیٹیاں (پوتیاں) اور نواسیاں سب داخل ہیں اور جورو کی بیٹی ہر حال میں ربیبہ ہے خواہ خاوند کی پرورش میں ہو یا اور کسی کے پاس پرورش پاتی ہو، ہر طرح سے حرام اور نبی کریم ﷺ نے اپنی ربیبہ (زینب کو) جو ابوسلمہ کی بیٹی تھی ایک اور شخص (نوفل اشجعی) کو پالنے کے لیے دی اور نبی کریم ﷺ نے اپنے نواسے حسن (رض) کو اپنا بیٹا فرمایا۔

【43】

اللہ تعالیٰ کا فرمان (حرام یہ ہے کہ) تم دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرو، مگر جو گذر چکا

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں زینب بنت ابی سلمہ (رض) نے خبر دی کہ ام حبیبہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میری بہن (غرہ) بنت ابی سفیان سے آپ نکاح کرلیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اور تمہیں بھی پسند ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں کوئی میں تنہا تو ہوں نہیں اور میری خواہش ہے کہ آپ کی بھلائی میں میرے ساتھ میری بہن بھی شریک ہوجائے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ میرے لیے حلال نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! اس طرح کی باتیں سننے میں آتی ہیں کہ آپ ابوسلمہ کی صاحبزادی درہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ ام سلمہ کی لڑکی سے ؟ میں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا اللہ کی قسم اگر وہ میری پرورش میں نہ ہوتی جب بھی وہ میرے لیے حلال نہیں تھی کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے۔ مجھے اور ابوسلمہ کو ثویبہ نے دودھ پلایا تھا۔ (اس لیے وہ میری رضاعی بھتیجی ہوگئی) تم لوگ میرے نکاح کے لیے اپنی لڑکیوں اور بہنوں کو نہ پیش کیا کرو۔

【44】

کسی شخص کا اپنی بیوی کی بھتیجی یا بھانجی سے نکاح نہ کرنے کے حکم کا بیان

ہم سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو عاصم نے خبر دی، انہیں شعبی نے اور انہوں نے جابر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی ایسی عورت سے نکاح کرنے سے منع کیا تھا جس کی پھوپھی یا خالہ اس کے نکاح میں ہو۔ اور داؤد بن عون نے شعبی سے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے۔

【45】

کسی شخص کا اپنی بیوی کی بھتیجی یا بھانجی سے نکاح نہ کرنے کے حکم کا بیان

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی عورت کو اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کے ساتھ نکاح میں جمع نہ کیا جائے۔

【46】

کسی شخص کا اپنی بیوی کی بھتیجی یا بھانجی سے نکاح نہ کرنے کے حکم کا بیان

ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھ سے قبیصہ بن ذویب نے بیان کیا اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، وہ بیان کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع کیا ہے کہ کسی عورت کو اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کے ساتھ نکاح میں جمع کیا جائے (زہری نے کہا کہ) ہم سمجھتے ہیں کہ عورت کے باپ کی خالہ بھی (حرام ہونے میں) اسی درجہ میں ہے کیونکہ (اگلی حدیث دیکھیں) ۔ عروہ نے مجھ سے بیان کیا، ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رضاعت سے بھی ان تمام رشتوں کو حرام سمجھو جو خون کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔

【47】

نکاح شغار (بٹہ) کا بیان

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے شغار سے منع فرمایا ہے۔ شغار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی لڑکی یا بہن کا نکاح اس شرط کے ساتھ کرے کہ وہ دوسرا شخص اپنی (بیٹی یا بہن) اس کو بیاہ دے اور کچھ مہر نہ ٹھہرے۔

【48】

عورت کا اپنا نفس کسی کو ہبہ کردینے کا بیان

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ خولہ بنت حکیم (رض) ان عورتوں میں سے تھیں جنہوں نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے لیے ہبہ کیا تھا۔ اس پر عائشہ (رض) نے کہا کہ ایک عورت اپنے آپ کو کسی مرد کے لیے ہبہ کرتے شرماتی نہیں۔ پھر جب آیت ترجئ من تشاء منهن‏ اے پیغمبر ! تو اپنی جس بیوی کو چاہے پیچھے ڈال دے اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے نازل ہوئی تو میں نے کہا : یا رسول اللہ ! اب میں سمجھی اللہ تعالیٰ جلد جلد آپ کی خوشی کو پورا کرتا ہے۔ اس حدیث کو ابوسعید (محمد بن مسلم) ، مؤدب اور محمد بن بشر اور عبدہ بن سلیمان نے بھی ہشام سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے۔ ایک نے دوسرے سے کچھ زیادہ مضمون نقل کیا ہے۔

【49】

حالت احرام میں نکاح کرنے کا بیان

ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، کہا ہم کو عمرو بن دینار نے خبر دی، کہا ہم سے جابر بن زید نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن عباس (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے (میمونہ (رض) سے) نکاح کیا اور اس وقت آپ احرام باندھے ہوئے تھے۔

【50】

رسول اللہ ﷺ کا نکاح متعہ اخیر وقت میں منع کرنے کا بیان

ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے زہری سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے حسن بن محمد بن علی اور ان کے بھائی عبداللہ بن محمد بن علی نے اپنے والد (محمد بن الحنفیہ) سے خبر دی کہ علی (رض) نے عبداللہ بن عباس (رض) سے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے متعہ اور پالتو گدھے کے گوشت سے جنگ خیبر کے زمانہ میں منع فرمایا تھا۔

【51】

رسول اللہ ﷺ کا نکاح متعہ اخیر وقت میں منع کرنے کا بیان

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا میں نے ابن عباس (رض) سے سنا، ان سے عورتوں کے ساتھ نکاح متعہ کرنے کے متعلق سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے اس کی اجازت دی، پھر ان کے ایک غلام نے ان سے پوچھا کہ اس کی اجازت سخت مجبوری یا عورتوں کی کمی یا اسی جیسی صورتوں میں ہوگی ؟ تو ابن عباس (رض) نے کہا کہ ہاں۔ (نوٹ : یہ حرمت سے قبل کی بات ہے بعد میں ہر حالت میں ہر شخص کے لیے متعہ حرام قرار دیا گیا جو قیامت تک کے لیے ہے) ۔

【52】

رسول اللہ ﷺ کا نکاح متعہ اخیر وقت میں منع کرنے کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے حسن بن محمد بن علی بن ابی طالب نے اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری اور سلمہ بن الاکوع نے بیان کیا کہ ہم ایک لشکر میں تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہیں متعہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے اس لیے تم نکاح کرسکتے ہو۔ اور ابن ابی ذئب نے بیان کیا کہ مجھ سے ایاس بن سلمہ بن الاکوع نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے اور ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو مرد اور عورت متعہ کرلیں اور کوئی مدت متعین نہ کریں تو (کم سے کم) تین دن، تین رات مل کر رہیں، پھر اگر وہ تین دن سے زیادہ اس متعہ کو رکھنا چاہیں یا ختم کرنا چاہیں تو انہیں اس کی اجازت ہے (سلمہ بن الاکوع کہتے ہیں کہ) مجھے معلوم نہیں یہ حکم صرف ہمارے (صحابہ) ہی کے لیے تھا یا تمام لوگوں کے لیے ہے ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) کہتے ہیں کہ خود علی (رض) نے نبی کریم ﷺ سے ایسی روایت کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ متعہ کی حلت منسوخ ہے۔

【53】

None

جو مرد اور عورت متعہ کر لیں اور کوئی مدت متعین نہ کریں تو ( کم سے کم ) تین دن، تین رات مل کر رہیں، پھر اگر وہ تین دن سے زیادہ اس متعہ کو رکھنا چاہیں یا ختم کرنا چاہیں تو انہیں اس کی اجازت ہے ( سلمہ بن الاکوع کہتے ہیں کہ ) مجھے معلوم نہیں یہ حکم صرف ہمارے ( صحابہ ) ہی کے لیے تھا یا تمام لوگوں کے لیے ہے ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) کہتے ہیں کہ خود علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی روایت کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ متعہ کی حلت منسوخ ہے۔

【54】

عورت کو نیک آدمی سے اپنے نکاح کی درخواست کرنے کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے مرحوم بن عبدالعزیز بصریٰ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ثابت بنانی سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں انس (رض) کے پاس تھا اور ان کے پاس ان کی بیٹی بھی تھیں۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنے آپ کو آپ ﷺ کے لیے پیش کرنے کی غرض سے حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ کو میری ضرورت ہے ؟ اس پر انس (رض) کی بیٹی بولیں کہ وہ کیسی بےحیاء عورت تھی۔ ہائے، بےشرمی ! ہائے بےشرمی ! انس (رض) نے ان سے کہا وہ تم سے بہتر تھیں، ان کو نبی کریم ﷺ کی طرف رغبت تھی، اس لیے انہوں نے اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ کے لیے پیش کیا۔

【55】

عورت کو نیک آدمی سے اپنے نکاح کی درخواست کرنے کا بیان

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد (رض) نے کہ ایک عورت نے اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ سے نکاح کے لیے پیش کیا۔ پھر ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ یا رسول اللہ ! ان کا نکاح مجھ سے کرا دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا تمہارے پاس (مہر کے لیے) کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اور تلاش کرو، خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی مل جائے۔ وہ گئے اور واپس آگئے اور عرض کیا کہ اللہ کی قسم ! میں نے کوئی چیز نہیں پائی۔ مجھے لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی، البتہ یہ میرا تہمد میرے پاس ہے اس کا آدھا انہیں دے دیجئیے۔ سہل (رض) نے بیان کیا کہ ان کے پاس چادر بھی نہیں تھی۔ مگر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے اس تہمد کا کیا کرے گی، اگر یہ اسے پہن لے گی تو یہ اس قدر چھوٹا کپڑا ہے کہ پھر تو تمہارے لیے اس میں سے کچھ باقی نہیں بچے گا اور اگر تم پہنو گے تو اس کے لیے کچھ نہیں رہے گا۔ پھر وہ صاحب بیٹھ گئے، دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد اٹھے (اور جانے لگے) تو نبی کریم ﷺ نے انہیں دیکھا اور بلایا، یا انہیں بلایا گیا (راوی کو ان الفاظ میں شک تھا) پھر آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تمہیں قرآن کتنا یاد ہے ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے فلاں، فلاں سورتیں یاد ہیں چند سورتیں انہوں نے گنائیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہم نے تمہارے نکاح میں اس کو اس قرآن کے بدلے دے دیا جو تمہیں یاد ہے۔

【56】

بیٹی یا بہن کی کسی بزرگ سے شادی کردینے کی درخواست کرنے کا بیان

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم کے متعلق سنا کہ جب (ان کی صاحبزادی) حفصہ بنت عمر (رض) (اپنے شوہر) خنیس بن حذافہ سہمی کی وفات کی وجہ سے بیوہ ہوگئیں اور خنیس رسول اللہ ﷺ کے صحابی تھے اور ان کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئی تھی۔ عمر بن خطاب (رض) نے بیان کیا کہ میں عثمان بن عفان (رض) کے پاس آیا اور ان کے لیے حفصہ (رض) کو پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس معاملہ میں غور کروں گا۔ میں نے کچھ دنوں تک انتظار کیا۔ پھر مجھ سے ابوبکر (رض) نے ملاقات کی اور میں نے کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کی شادی حفصہ (رض) سے کر دوں۔ ابوبکر (رض) خاموش رہے اور مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کی اس بےرخی سے مجھے عثمان (رض) کے معاملہ سے بھی زیادہ رنج ہوا۔ کچھ دنوں تک میں خاموش رہا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے خود حفصہ (رض) سے نکاح کا پیغام بھیجا اور میں نے نبی کریم ﷺ سے اس کی شادی کردی۔ اس کے بعد ابوبکر (رض) مجھ سے ملے اور کہا کہ جب تم نے حفصہ (رض) کا معاملہ میرے سامنے پیش کیا تھا تو میرے اس پر میرے خاموش رہنے سے تمہیں تکلیف ہوئی ہوگی کہ میں نے تمہیں اس کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ واقعی ہوئی تھی۔ ابوبکر (رض) نے کہا کہ تم نے جو کچھ میرے سامنے رکھا تھا، اس کا جواب میں نے صرف اس وجہ سے نہیں دیا تھا کہ میرے علم میں تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے خود حفصہ (رض) کا ذکر کیا ہے اور میں نبی کریم ﷺ کے راز کو ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا اگر نبی کریم ﷺ چھوڑ دیتے تو میں حفصہ کو اپنے نکاح میں لے آتا۔

【57】

بیٹی یا بہن کی کسی بزرگ سے شادی کردینے کی درخواست کرنے کا بیان

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے، ان سے عراک بن مالک نے اور انہیں زینب بنت ابی سلمہ نے خبر دی کہ ام حبیبہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ سے نکاح کرنے والے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اس سے اس کے باوجود نکاح کرسکتا ہوں کہ (ان کی ماں) ام سلمہ میرے نکاح میں پہلے ہی سے موجود ہے اور اگر میں ام سلمہ سے نکاح نہ کئے ہوتا جب بھی وہ درہ میرے لیے حلال نہیں تھی۔ کیونکہ اس کے والد (ابوسلمہ رضی اللہ عنہ) میرے رضاعی بھائی تھے۔

【58】

زمانہ عدت میں علانیہ پیغام نکاح بھیجنے سے خوف نہ کرنے کا بیان، اکننتم کے معنی تم نے چھپایا (اور جس چیز کی حفاظت کی جائے اسے مکنون کہتے ہیں) تم کو (عورت کے زمانہ عدت میں) پیغام نکاح بھیجنے سے کچھ خوف نہیں، یا چاہے اپنے دلوں میں رکھو اللہ جانتا ہے کہ تم ذکر کئے بغیر نہ رہوگے، مگر خفیہ قول وقرار نہ کرو

امام بخاری (رح) نے کہا مجھ سے طلق بن غنام نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ بن قدام نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے مجاہد نے کہ ابن عباس (رض) نے آیت فيما عرضتم‏ کی تفسیر میں کہا کہ کوئی شخص کسی ایسی عورت سے جو عدت میں ہو کہے کہ میرا ارادہ نکاح کا ہے اور میری خواہش ہے کہ مجھے کوئی نیک بخت عورت میسر آجائے اور اس نکاح میں قاسم بن محمد نے کہا کہ (تعریض یہ ہے کہ) عدت میں عورت سے کہے کہ تم میری نظر میں بہت اچھی ہو اور میرا خیال نکاح کرنے کا ہے اور اللہ تمہیں بھلائی پہنچائے گا یا اسی طرح کے جملے کہے اور عطاء بن ابی رباح نے کہا کہ تعریض و کنایہ سے کہے۔ صاف صاف نہ کہے (مثلاً ) کہے کہ مجھے نکاح کی ضرورت ہے اور تمہیں بشارت ہو اور اللہ کے فضل سے اچھی ہو اور عورت اس کے جواب میں کہے کہ تمہاری بات میں نے سن لی ہے (بصراحت) کوئی وعدہ نہ کرے ایسی عورت کا ولی بھی اس کے علم کے بغیر کوئی وعدہ نہ کرے اور اگر عورت نے زمانہ عدت میں کسی مرد سے نکاح کا وعدہ کرلیا اور پھر بعد میں اس سے نکاح کیا تو دونوں میں جدائی نہیں کرائی جائے گی۔ حسن نے کہا کہ لا تواعدوهن سرا‏ سے یہ مراد ہے کہ عورت سے چھپ کر بدکاری نہ کرو۔ ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ الکتاب أجله‏ سے مراد عدت کا پورا کرنا ہے۔

【59】

عورت کو نکاح سے پہلے دیکھ لینے کے جائز ہونے کے بیان میں

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (نکاح سے پہلے) میں نے تمہیں خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ (جبرائیل علیہ السلام) ریشم کے ایک ٹکڑے میں تمہیں لپیٹ کرلے آیا ہے اور مجھ سے کہہ رہا ہے کہ یہ تمہاری بیوی ہے۔ میں نے اس کے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو وہ تم تھیں۔ میں نے کہا کہ اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے تو وہ اسے خود ہی پورا کر دے گا۔

【60】

عورت کو نکاح سے پہلے دیکھ لینے کے جائز ہونے کے بیان میں

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے، ان سے سہل بن سعد (رض) نے کہ ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں آپ کی خدمت میں اپنے آپ کو ہبہ کرنے آئی ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور نظر اٹھا کر دیکھا، پھر نظر نیچی کرلی اور سر کو جھکا لیا۔ جب خاتون نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو بیٹھ گئیں۔ اس کے بعد آپ کے صحابہ میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اگر آپ کو ان کی ضرورت نہیں تو ان کا نکاح مجھ سے کرا دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کوئی چیز ہے ؟ انہوں نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ، اللہ کی قسم ! نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنے گھر جاؤ اور دیکھو شاید کوئی چیز مل جائے۔ وہ گئے اور واپس آ کر عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ ! میں نے کوئی چیز نہیں پائی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اور دیکھ لو، اگر ایک لوہے کی انگوٹھی بھی مل جائے۔ وہ گئے اور واپس آ کر عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی، البتہ یہ میرا تہمد ہے۔ سہل (رض) نے بیان کیا کہ ان کے پاس چادر بھی نہیں تھی (ان صحابی نے کہا کہ) ان خاتون کو اس تہمد میں سے آدھا عنایت فرما دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے تہمد کا کیا کرے گی اگر تم اسے پہنو گے تو اس کے لیے اس میں سے کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس کے بعد وہ صاحب بیٹھ گئے اور دیر تک بیٹھے رہے پھر کھڑے ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں واپس جاتے ہوئے دیکھا اور انہیں بلانے کے لیے فرمایا، انہیں بلایا گیا۔ جب وہ آئے تو آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس قرآن مجید کتنا ہے۔ انہوں نے عرض کیا فلاں فلاں سورتیں۔ انہوں نے ان سورتوں کو گنایا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم ان سورتوں کو زبانی پڑھ لیتے ہو۔ انہوں نے ہاں میں جواب دیا۔ نبی کریم ﷺ نے پھر فرمایا کہ جاؤ میں نے اس خاتون کو تمہارے نکاح میں اس قرآن کی وجہ سے دیا جو تمہارے پاس ہے۔ ان سورتوں کو اس سے یاد کرا دو ۔

【61】

بغیر ولی نکاح صحیح نہ ہونے کے بیان میں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہیں روکو نہیں اس میں بیاہی اور کنواری دونوں داخل ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشرکوں سے نکاح بغیر ایمان لائے نہ کرو، نیز فرمان الہی ہے کہ رانڈوں کا نکاح کردیا کرو

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے خبر دی کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح چار طرح ہوتے تھے۔ ایک صورت تو یہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں، ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کرلیتا۔ دوسرا نکاح یہ تھا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے جب وہ حیض سے پاک ہوجاتی تو کہتا تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے منہ کالا کرا لے اس مدت میں شوہر اس سے جدا رہتا اور اسے چھوتا بھی نہیں۔ پھر جب اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہوجاتا جس سے وہ عارضی طور پر صحبت کرتی رہتی، تو حمل کے ظاہر ہونے کے بعد اس کا شوہر اگر چاہتا تو اس سے صحبت کرتا۔ ایسا اس لیے کرتے تھے تاکہ ان کا لڑکا شریف اور عمدہ پیدا ہو۔ یہ نکاح استبضاع کہلاتا تھا۔ تیسری قسم نکاح کی یہ تھی کہ چند آدمی جو تعداد میں دس سے کم ہوتے کسی ایک عورت کے پاس آنا جانا رکھتے اور اس سے صحبت کرتے۔ پھر جب وہ عورت حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو وضع حمل پر چند دن گزرنے کے بعد وہ عورت اپنے ان تمام مردوں کو بلاتی۔ اس موقع پر ان میں سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا تھا۔ چناچہ وہ سب اس عورت کے پاس جمع ہوجاتے اور وہ ان سے کہتی کہ جو تمہارا معاملہ تھا وہ تمہیں معلوم ہے اور اب میں نے یہ بچہ جنا ہے۔ پھر وہ کہتی کہ اے فلاں ! یہ بچہ تمہارا ہے۔ وہ جس کا چاہتی نام لے دیتی اور وہ لڑکا اسی کا سمجھا جاتا، وہ شخص اس سے انکار کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔ چوتھا نکاح اس طور پر تھا کہ بہت سے لوگ کسی عورت کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔ عورت اپنے پاس کسی بھی آنے والے کو روکتی نہیں تھی۔ یہ کسبیاں ہوتی تھیں۔ اس طرح کی عورتیں اپنے دروازوں پر جھنڈے لگائے رہتی تھیں جو نشانی سمجھے جاتے تھے۔ جو بھی چاہتا ان کے پاس جاتا۔ اس طرح کی عورت جب حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو اس کے پاس آنے جانے والے جمع ہوتے اور کسی قیافہ جاننے والے کو بلاتے اور بچہ کا ناک نقشہ جس سے ملتا جلتا ہوتا اس عورت کے اس لڑکے کو اسی کے ساتھ منسوب کردیتے اور وہ بچہ اسی کا بیٹا کہا جاتا، اس سے کوئی انکار نہیں کرتا تھا۔ پھر جب محمد ﷺ حق کے ساتھ رسول ہو کر تشریف لائے آپ نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کو باطل قرار دے دیا صرف اس نکاح کو باقی رکھا جس کا آج کل رواج ہے۔

【62】

بغیر ولی نکاح صحیح نہ ہونے کے بیان میں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہیں روکو نہیں اس میں بیاہی اور کنواری دونوں داخل ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشرکوں سے نکاح بغیر ایمان لائے نہ کرو، نیز فرمان الہی ہے کہ رانڈوں کا نکاح کردیا کرو

ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ آیت وما يتلى عليكم في الکتاب في يتامى النساء اللاتي لا تؤتونهن ما کتب لهن وترغبون أن تنکحوهن‏ یعنی وہ (آیات بھی) جو تمہیں کتاب کے اندر ان یتیم لڑکوں کے بارے میں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں جنہیں تم وہ نہیں دیتے ہو جو ان کے لیے مقرر ہوچکا ہے اور اس سے بیزار ہو کہ ان کا کسی سے نکاح کرو۔ ایسی یتیم لڑکی کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو کسی شخص کی پرورش میں ہو۔ ممکن ہے کہ اس کے مال و جائیداد میں بھی شریک ہو، وہی لڑکی کا زیادہ حقدار ہے لیکن وہ اس سے نکاح نہیں کرنا چاہتا البتہ اس کے مال کی وجہ سے اسے روکے رکھتا ہے اور کسی دوسرے مرد سے اس کی شادی نہیں ہونے دیتا کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا اس کے مال میں حصہ دار بنے۔

【63】

بغیر ولی نکاح صحیح نہ ہونے کے بیان میں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہیں روکو نہیں اس میں بیاہی اور کنواری دونوں داخل ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشرکوں سے نکاح بغیر ایمان لائے نہ کرو، نیز فرمان الہی ہے کہ رانڈوں کا نکاح کردیا کرو

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے خبر دی کہ جب حفصہ بنت عمر (رض) ابن حذافہ سہمی سے بیوہ ہوئیں۔ ابن حذافہ (رض) نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں سے تھے اور بدر کی جنگ میں شریک تھے ان کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئی تھی تو عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں عثمان بن عفان (رض) سے ملا اور انہیں پیش کش کی اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ کا نکاح آپ سے کروں۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں اس معاملہ میں غور کروں گا چند دن میں نے انتظار کیا اس کے بعد وہ مجھ سے ملے اور کہا کہ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ابھی نکاح نہ کروں۔ عمر (رض) نے بیان کیا کہ پھر میں ابوبکر (رض) سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ کا نکاح آپ سے کروں۔

【64】

بغیر ولی نکاح صحیح نہ ہونے کے بیان میں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہیں روکو نہیں اس میں بیاہی اور کنواری دونوں داخل ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشرکوں سے نکاح بغیر ایمان لائے نہ کرو، نیز فرمان الہی ہے کہ رانڈوں کا نکاح کردیا کرو

ہم سے احمد بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد حفص بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے حسن بصری نے آیت فلا تعضلوهن‏ کی تفسیر میں بیان کیا کہ مجھ سے معقل بن یسار (رض) نے بیان کیا کہ یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی میں نے اپنی ایک بہن کا نکاح ایک شخص سے کردیا تھا۔ اس نے اسے طلاق دے دی لیکن جب عدت پوری ہوئی تو وہ شخص (ابوالبداح) میری بہن سے پھر نکاح کا پیغام لے کر آیا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں نے تم سے اس کا (اپنی بہن) کا نکاح کیا اسے تمہاری بیوی بنایا اور تمہیں عزت دی لیکن تم نے اسے طلاق دیدی اور اب پھر تم نکاح کا پیغام لے کر آئے ہو۔ ہرگز نہیں، اللہ کی قسم ! اب میں تمہیں کبھی اسے نہیں دوں گا۔ وہ شخص ابوالبداح کچھ برا آدمی نہ تھا اور عورت بھی اس کے یہاں واپس جانا چاہتی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی فلا تعضلوهن‏ کہ تم عورتوں کو مت روکو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اب میں کر دوں گا۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے اپنی بہن کا نکاح اس شخص سے کردیا۔

【65】

ولی خود عورت سے نکاح کرنا چاہے تو جائز ہے، مغیرہ بن شعبہ نے ایک عورت سے منگنی کی، جس کا وہ ولی قریب تھا اور ایک شخص کو حکم دیا، جس نے ان کا نکاح پڑھا دیا اور عبدالرحمن بن عوف نے ام حکیم دخترقارظ سے کہا کہ تو مجھے مختار بناتی ہے، اس نے کہا جی ہاں، عبدالرحمن نے کہا، پھر تو اس حالت میں میں تجھ سے نکاح کئے لیتا ہوں، عطاء کہتے ہیں کہ گواہ کرکے یوں کہئے کہ میں نے تجھ سے نکاح کرلیا یا پھر اس کے کنبہ والوں میں سے کسی کو اجازت دے، سہل کہتے کہ ایک عورت نے آپ ﷺ سے کہا کہ میں اپنا نفس آپ کو دیتی ہوں، ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ! اگر آپ کو اس کی ضرورت نہ ہو تو مجھ سے اس کا نکاح کردیجئے

ہم سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، کہا ہم سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے آیت ويستفتونک في النساء قل الله يفتيكم فيهن‏ اور آپ سے عورتوں کے بارے میں مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ ان کے بارے میں تمہیں مسئلہ بتاتا ہے۔ آخر آیت تک فرمایا کہ یہ آیت یتیم لڑکی کے بارے میں نازل ہوئی، جو کسی مرد کی پرورش میں ہو۔ وہ مرد اس کے مال میں بھی شریک ہو اور اس سے خود نکاح کرنا چاہتا ہو اور اس کا نکاح کسی دوسرے سے کرنا پسند نہ کرتا ہو کہ کہیں دوسرا شخص اس کے مال میں حصہ دار نہ بن جائے اس غرض سے وہ لڑکی کو روکے رکھے تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس سے منع کیا ہے۔

【66】

ولی خود عورت سے نکاح کرنا چاہے تو جائز ہے، مغیرہ بن شعبہ نے ایک عورت سے منگنی کی، جس کا وہ ولی قریب تھا اور ایک شخص کو حکم دیا، جس نے ان کا نکاح پڑھا دیا اور عبدالرحمن بن عوف نے ام حکیم دخترقارظ سے کہا کہ تو مجھے مختار بناتی ہے، اس نے کہا جی ہاں، عبدالرحمن نے کہا، پھر تو اس حالت میں میں تجھ سے نکاح کئے لیتا ہوں، عطاء کہتے ہیں کہ گواہ کرکے یوں کہئے کہ میں نے تجھ سے نکاح کرلیا یا پھر اس کے کنبہ والوں میں سے کسی کو اجازت دے، سہل کہتے کہ ایک عورت نے آپ ﷺ سے کہا کہ میں اپنا نفس آپ کو دیتی ہوں، ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ! اگر آپ کو اس کی ضرورت نہ ہو تو مجھ سے اس کا نکاح کردیجئے

ہم سے احمد بن مقدام نے بیان کیا، کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوحازم نے بیان کیا، کہا ہم سے سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خاتون آئیں اور اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ کے لیے پیش کیا۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں نظر نیچی اوپر کر کے دیکھا اور کوئی جواب نہیں دیا پھر آپ کے صحابہ میں سے ایک صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ان کا نکاح مجھ سے کرا دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کوئی چیز ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس تو کچھ نہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں ہے۔ البتہ میں اپنی یہ چادر پھاڑ کے آدھی انہیں دے دوں گا اور آدھی خود رکھوں گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں، تمہارے پاس کچھ قرآن بھی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر جاؤ میں نے تمہارا نکاح ان سے اس قرآن مجید کی وجہ سے کیا جو تمہارے ساتھ ہے۔

【67】

اپنی چھوٹی بچیوں کا خود نکاح کردینے کا بیان، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اللائی لم یحضن اس کی دلیل ہے، کیوں کہ نابالغہ کی عدت (اس آیت میں) تین ماہ قرار پائی ہے

ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے جب ان کا نکاح کیا تو ان کی عمر چھ سال تھی اور جب ان سے صحبت کی تو اس وقت ان کی عمر نو برس کی تھی اور وہ نو برس آپ کے پاس رہیں۔

【68】

والد کا امام سے اپنی بیٹی بیاہنے کا بیان، حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میرے پاس آپ ﷺ نے حفصہ کا پیغام بھیجا، میں نے آپ سے حفصہ کا نکاح بلاتامل کردیا

ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے نکاح کیا تو ان کی عمر چھ سال تھی اور جب ان سے صحبت کی تو ان کی عمر نو سال تھی۔ ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ نو سال تک رہیں۔

【69】

بادشاہ کے ولی ہونے کا بیان، آپ ﷺ کا یہ قول کہ زوجنا کھا بمامعک من القرآن اس کا ثبوت ہے

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوحازم مسلم بن دینار نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا کہ میں اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہی۔ اتنے میں ایک مرد نے کہا کہ اگر نبی کریم ﷺ کو اس کی ضرورت نہ ہو تو اس کا نکاح مجھ سے فرما دیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس انہیں مہر میں دینے کے لیے کوئی چیز ہے ؟ اس نے کہا کہ میرے پاس اس تہمد کے سوا اور کچھ نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اپنا یہ تہمد اس کو دے دو گے تو تمہارے پاس پہننے کے لیے تہمد بھی نہیں رہے گا۔ کوئی اور چیز تلاش کرلو۔ اس مرد نے کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کچھ تو تلاش کرو، ایک لوہے کی انگوٹھی ہی سہی ! اسے وہ بھی نہیں ملی تو نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا۔ کیا تمہارے پاس کچھ قرآن مجید ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں ! فلاں فلاں سورتیں ہیں، ان سورتوں کا انہوں نے نام لیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر ہم نے تیرا نکاح اس عورت سے ان سورتوں کے کے بدلے کیا جو تم کو یاد ہیں۔

【70】

کسی شخص یا والد کے لئے بالغہ یا کسی بیوہ عورت کا بغیر اس کی مرضی حاصل کیے نکاح نہ کرسکنے کا بیان

ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے، ان سے یحییٰ بن ابی بشیر نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔

【71】

کسی شخص یا والد کے لئے بالغہ یا کسی بیوہ عورت کا بغیر اس کی مرضی حاصل کیے نکاح نہ کرسکنے کا بیان

ہم سے عمرو بن ربیع بن طارق نے بیان کیا، کہا کہ مجھے لیث بن سعد نے خبر دی، انہیں ابن ابی ملیکہ نے، انہیں عائشہ (رض) کے غلام ابوعمرو ذکوان نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کنواری لڑکی (کہتے ہوئے) شرماتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کا خاموش ہوجانا ہی اس کی رضا مندی ہے۔

【72】

بیٹی اگر نکاح سے ناراض ہو تو نکاح کے ناجائز ہونے کا بیان

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے عبدالرحمٰن اور مجمع نے جو دونوں یزید بن حارثہ کے بیٹے ہیں، ان سے خنساء بنت خذام انصاریہ (رض) نے کہ ان کے والد نے ان کا نکاح کردیا تھا، وہ ثیبہ تھیں، انہیں یہ نکاح منظور نہیں تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، نبی کریم ﷺ نے اس نکاح کو فسخ کردیا۔

【73】

بیٹی اگر نکاح سے ناراض ہو تو نکاح کے ناجائز ہونے کا بیان

ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید بن ہارون نے خبر دی، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید انصاری نے خبر دی، ان سے قاسم بن محمد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید اور مجمع بن یزید نے بیان کیا کہ خذام نامی ایک صحابی نے اپنی لڑکی کا نکاح کردیا تھا۔ پھر پچھلی حدیث کی طرح بیان کیا۔

【74】

یتیم لڑکی کے نکاح کرنے کا بیان، وان خفتم الاتقسطوا فی الیتمامی، یتیم لڑکی کے نکاح پر دلیل ہے، اگر کوئی شخص ولی سے کہے کہ فلاں عورت سے میرا نکاح کردے اور وہ خاموش ہو رہے یا کہے تیرے پاس کیا ہے، پھر وہ جواب دے کہ اتنا اور اتنا ہے، یا دونوں رکے رہیں، پھر ولی کہے کہ میں نے تجھ سے اس عورت کا نکاح کردیا، تو یہ جائز ہے، اس میں سہل کی حدیث آپ ﷺ سے روایت کی گئی ہے

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے اور (دوسری سند) اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے، کہا مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ انہوں نے عائشہ (رض) سے سوال کیا کہ اے ام المؤمنین ! اس آیت میں کیا حکم بیان ہوا ہے ؟ وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى‏ اور اگر تمہیں خوف ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے۔ ما ملکت أيمانکم‏ تک۔ عائشہ (رض) نے کہا : میرے بھانجے ! اس آیت میں اس یتیم لڑکی کا حکم یبان ہوا ہے جو اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور ولی کو اس کے حسن اور اس کے مال کی وجہ سے اس کی طرف توجہ ہو اور وہ اس کا مہر کم کر کے اس سے نکاح کرنا چاہتا ہو تو ایسے لوگوں کو ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح سے ممانعت کی گئی ہے سوائے اس صورت کے کہ وہ ان کے مہر کے بارے میں انصاف کریں (اور اگر انصاف نہیں کرسکتے تو انہیں ان کے سوا دوسری عورتوں سے نکاح کا حکم دیا گیا ہے۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بعد مسئلہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے آیت ويستفتونک في النساء‏ اور آپ سے عورتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں سے وترغبون‏ تک نازل کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ حکم نازل کیا کہ یتیم لڑکیاں جب صاحب مال اور صاحب جمال ہوتی ہیں تب تو مہر میں کمی کر کے اس سے نکاح کرنا رشتہ لگانا پسند کرتے ہیں اور جب دولت مندی یا خوبصورتی نہیں رکھتی اس وقت اس کو چھوڑ کر دوسری عورتوں سے نکاح کردیتے ہیں (یہ کیا بات) ان کو چاہیے کہ جیسے مال و دولت اور حسن و جمال نہ ہونے کی صورت میں اس کو چھوڑ دیتے ہیں ایسے ہی اس وقت بھی چھوڑ دیں جب وہ مالدار اور خوبصورت ہو البتہ اگر انصاف سے چلیں اور اس کا پورا مہر مقرر کریں تو خیر نکاح کرلیں۔

【75】

پیغام دینے والا اگر ولی سے کہے کہ فلاں عورت سے میرا نکاح کردو، جواب میں ولی کہے کہ اتنے مہر کے عوض میں نے تجھ سے نکاح کردیا تو نکاح جائز ہے، اگرچہ اس کے بعد شوہر سے دریافت نہ کرے کہ قبول کرلیا یا تو راضی ہے

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی اور اس نے اپنے آپ کو آپ ﷺ سے نکاح کے لیے پیش کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اب عورت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر ایک صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ان کا نکاح مجھ سے کر دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس عورت کو کچھ دو ، خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی سہی۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا تمہیں قرآن کتنا یاد ہے ؟ عرض کیا فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر میں نے انہیں تمہارے نکاح میں دیا۔ اس قرآن کے بدلے جو تم کو یاد ہے۔

【76】

اپنے مسلمان بھائی کی منگنی (پیغام نکاح) پر نکاح کا پیغام نہ بھیجے، جب تک کہ پہلی منگنی کا معاملہ ختم نہ ہوجائے یا وہ نکاح کرلے

ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے جریج نے بیان کیا، کہا کہ میں نے نافع سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ ہم کسی کے بھاؤ پر بھاؤ لگائیں اور کسی شخص کو اپنے کسی (دینی) بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام بھیجیں یہاں تک کہ پیغام بھیجنے والا اپنا ارادہ بدل دے یا اسے پیغام نکاح بھیجنے کی اجازت دے دے تو جائز ہے۔

【77】

اپنے مسلمان بھائی کی منگنی (پیغام نکاح) پر نکاح کا پیغام نہ بھیجے، جب تک کہ پہلی منگنی کا معاملہ ختم نہ ہوجائے یا وہ نکاح کرلے

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیس بن سعد نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ، ان سے اعرج نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے (اور لوگوں کے رازوں کی) کھود کرید نہ کیا کرو اور نہ (لوگوں کی نجی گفتگووں کو) کان لگا کر سنو، آپس میں دشمنی نہ پیدا کرو بلکہ بھائی بھائی بن کر رہو۔ اور کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ بھیجے یہاں تک کہ وہ نکاح کرے یا چھوڑ دے۔

【78】

منگنی چھوڑنے کی وضاحت کا بیان

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زھری نے، کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ عمر (رض) نے بیان کیا کہ میری بیٹی حفصہ (رض) بیوہ ہوئیں تو میں ابوبکر صدیق (رض) سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح عزیزہ حفصہ بنت عمر (رض) سے کر دوں۔ پھر کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کے نکاح کا پیغام بھیجا اس کے بعد ابوبکر (رض) مجھ سے ملے اور کہا آپ نے جو صورت میرے سامنے رکھی تھی اس کا جواب میں نے صرف اس وجہ سے نہیں دیا تھا کہ مجھے معلوم تھا رسول اللہ ﷺ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کا راز کھولوں ہاں نبی کریم ﷺ انہیں چھوڑ دیتے تو میں ان کو قبول کرلیتا۔ شعیب کے ساتھ اس حدیث کو یونس بن یزید اور موسیٰ بن عقبہ اور محمد بن ابی عتیق نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔

【79】

خطبہ نکاح کا بیان

ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے کہا کہ میں نے ابن عمر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ دو آدمی مدینہ کے مشرق کی طرف سے آئے، وہ مسلمان ہوگئے اور خطبہ دیا، نہایت فصیح و بلیغ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ بعض تقریر جادو کی اثر کرتی ہے۔

【80】

ولیمہ اور نکاح میں دف بجانے کا بیان

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن ذکوان نے بیان کیا، کہ ربیع بنت معوذ ابن عفراء (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور جب میں دلہن بنا کر بٹھائی گئی نبی کریم ﷺ اندر تشریف لائے اور میرے بستر پر بیٹھے اسی طرح جیسے تم اس وقت میرے پاس بیٹھے ہوئے ہو۔ پھر ہمارے یہاں کی کچھ لڑکیاں دف بجانے لگیں اور میرے باپ اور چچا جو جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے، ان کا مرثیہ پڑھنے لگیں۔ اتنے میں، ان میں سے ایک لڑکی نے پڑھا، اور ہم میں ایک نبی ہے جو ان باتوں کی خبر رکھتے ہے جو کچھ کل ہونے والی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ چھوڑ دو ۔ اس کے سوا جو کچھ تم پڑھ رہی تھیں وہ پڑھو۔

【81】

اللہ تعالیٰ کا حکم کہ عورتوں کو ہنسی خوشی مہردو اور زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کتنا مہر جائز ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم کسی عورت کو ( مہر میں) بے انتہا مال دے دو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد اوتفرضوا لھن فریضۃ ( وجوب مہر پر) دلیل ہے، سہل فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (مہر ضرور دو) اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے ایک خاتون سے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر (سونے کے مہر پر) نکاح کیا۔ پھر نبی کریم ﷺ شادی کی خوشی ان میں دیکھی تو ان سے پوچھا۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے برابر نکاح کیا ہے اور قتادہ (رض) نے انس (رض) سے یہ روایت اس طرح نقل کی ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے ایک عورت سے۔ ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے پر نکاح کیا تھا۔

【82】

بعوض تعلیم قرآن نکاح کرنے اور بغیر ادائے مہر کے شادی کرنے کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، کہا میں نے ابوحازم سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے سہل بن سعد ساعدی سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا اس میں ایک خاتون کھڑی ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں آپ اب جو چاہیں کریں۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ پھر کھڑی ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کردیا ہے آپ جو چاہیں کریں۔ نبی کریم ﷺ نے اس مرتبہ بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ تیسری مرتبہ کھڑی ہوئیں اور کہا کہ انہوں نے اپنے آپ کو آپ ﷺ کے لیے ہبہ کردیا، آپ جو چاہیں کریں۔ اس کے بعد ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! ان کا نکاح مجھ سے کر دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اور تلاش کرو ایک لوہے کی انگوٹھی بھی اگر مل جائے لے آؤ۔ وہ گئے اور تلاش کیا، پھر واپس آ کر عرض کیا کہ میں نے کچھ نہیں پایا، لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں ملی۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ قرآن ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ میرے پاس فلاں فلاں سورتیں ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر جاؤ میں نے تمہارا نکاح ان سے اس قرآن پر کیا جو تم کو یاد ہے۔

【83】

دیگر اس اور لوہے کی انگوٹھی بھی مہر میں مقرر ہوسکنے کا بیان

ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے سفیان نے ان سے ابوحازم نے اور ان سے صحابی سہل بن سعد (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک آدمی سے فرمایا کہ نکاح کر، خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی پر ہی ہو۔

【84】

نکاح کے وقت شرطیں کرنے کا بیان، حضرت عمر (رض) نے فرمایا، شرط کرنے کے وقت حقوق شوہر ختم ہوجاتے ہیں، مسور کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ سے سنا کہ آپ نے اپنے ایک داماد کا ذکر کیا اور (حقوق) دامادی (ادا کرنے) پر ان کی تعریف کی اور فرمایا کہ اس نے مجھے جو بات کہی تھی وہ سچ کر دکھائی اور جو وعدہ کیا، پورا کر دکھایا

ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے، ان سے ابوالخیر اور ان سے عقبہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمام شرطوں میں وہ شرطیں سب سے زیادہ پوری کی جانے کے لائق ہیں جن کے ذریعہ تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا ہے۔ یعنی نکاح کی شرطیں ضرور پوری کرنی ہوں گی۔

【85】

نکاح کے وقت شرطیں عائد کرنا درست نہیں، ابن مسعود کہتے ہیں کہ عورت اپنی بہن کی طلاق کی شرط نہ لگائے

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ان سے زکریا نے جو ابوزائدہ کے صاحبزادے ہیں، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ اپنی کسی (سوکن) بہن کی طلاق کی شرط اس لیے لگائے تاکہ اس کے حصہ کا پیالہ بھی خود انڈیل لے کیونکہ اسے وہی ملے گا جو اس کے مقدر میں ہوگا۔

【86】

دولہا (زرد رنگ) کا استعمال کرنے کا بیان، عبدالرحمن بن عوف نے نبی ﷺ یہ حدیث نقل کی ہے

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، ان کو مالک نے خبر دی، انہیں حمید طویل نے اور انہیں انس بن مالک نے کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے اوپر زرد رنگ کا نشان تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے انصار کی ایک عورت سے نکاح کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اسے مہر کتنا دیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ایک گٹھلی کے برابر سونا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر ولیمہ کر خواہ ایک بکری ہی کا ہو۔

【87】

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے حمیدی نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے زینب بنت جحش (رض) کے ساتھ نکاح پر دعوت ولیمہ کی اور مسلمانوں کے لیے کھانے کا انتظام کیا۔ (کھانے سے فراغت کے بعد) نبی کریم ﷺ باہر تشریف لے گئے، جیسا کہ نکاح کے بعد آپ کا دستور تھا۔ پھر آپ امہات المؤمنین کے حجروں میں تشریف لے گئے۔ آپ نے ان کے لیے دعا کی اور انہوں نے آپ کے لیے دعا کی۔ پھر آپ واپس تشریف لائے تو دو صحابہ کو دیکھا (کہ ابھی بیٹھے ہوئے تھے) اس لیے آپ ﷺ پھر تشریف لے گئے۔ (انس (رض) نے بیان کیا کہ) مجھے پوری طرح یاد نہیں کہ میں نے خود نبی کریم ﷺ کو خبر دی یا کسی اور نے خبر دی کہ وہ دونوں صحابی بھی چلے گئے ہیں۔

【88】

دولہا کو دعادینے کا بیان

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے کے مہر پر نکاح کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے دعوت ولیمہ کر خواہ ایک بکری ہی کی ہو۔

【89】

دلہن بنانے والی عورتوں کا دلہن کے حق میں دعا کرنے کا بیان

ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے جب مجھ سے شادی کی تو میری والدہ (ام رومان بنت عامر) میرے پاس آئیں اور مجھے نبی کریم ﷺ کے گھر کے اندر لے گئیں۔ گھر کے اندر قبیلہ انصار کی عورتیں موجود تھیں۔ انہوں نے (مجھ کو اور میری ماں کو) یوں دعا دی بارک و بارک الله اللہ کرے تم اچھی ہو تمہارا نصیبہ اچھا ہو۔

【90】

شرکت جنگ سے پہلے زفاف کرنے کا بیان

ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن المبارک نے بیان کیا، ان سے معمر بن راشد نے، ان سے ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ گزشتہ انبیاء میں سے ایک نبی (یوشع (علیہ السلام) یا داؤد علیہ السلام) نے غزوہ کیا اور (غزوہ سے پہلے) اپنی قوم سے کہا کہ میرے ساتھ کوئی ایسا شخص نہ چلے جس نے کسی نئی عورت سے شادی کی ہو اور اس کے ساتھ صحبت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور ابھی صحبت نہ کی ہو۔

【91】

نوسال سے کم عمر کی بیوی سے خلوت کرنے کا بیان

ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے اور ان سے عروہ نے کہ نبی کریم ﷺ نے عائشہ (رض) سے نکاح کیا تو ان کی عمر چھ سال کی تھی اور جب ان کے ساتھ خلوت کی تو ان کی عمر نو سال کی تھی اور وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ نو سال تک رہیں۔

【92】

سفر میں نئی دلہن سے ملنے کا بیان

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے خبر دی، انہیں حمید نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ اور خیبر کے درمیان (راستہ میں) تین دن تک قیام کیا اور وہاں ام المؤمنین صفیہ بنت حیی (رض) کے ساتھ خلوت کی۔ میں نے مسلمانوں کو نبی کریم ﷺ کے ولیمہ پر بلایا لیکن اس دعوت میں روٹی اور گوشت نہیں تھا۔ آپ نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا اور اس پر کھجور، پنیر اور گھی رکھ دیا گیا اور یہی نبی کریم ﷺ کا ولیمہ تھا۔ مسلمانوں نے صفیہ (رض) کے بارے میں (کہا کہ) امہات المؤمنین میں سے ہیں یا نبی کریم ﷺ نے انہیں لونڈی ہی رکھا ہے (کیونکہ وہ بھی جنگ خیبر کے قیدیوں میں سے تھیں۔ اس پر بعض نے کہا کہ اگر آپ ﷺ ان کے لیے پردہ کرائیں پھر تو وہ امہات المؤمنین میں سے ہیں اور اگر آپ ان کے لیے پردہ نہ کرائیں تو پھر وہ لونڈی کی حیثیت سے ہیں۔ جب سفر ہوا تو نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے اپنی سواری پر پیچھے جگہ بنائی اور لوگوں کے اور ان کے درمیان پردہ ڈلوایا۔

【93】

دن میں خلوت کرنے اور بغیر سواری اور روشنی کے برات لے جانے کا حکم

مجھ سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، انس سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے شادی کی تھی۔ میری والدہ میرے پاس آئیں اور تنہا مجھے ایک گھر میں داخل کردیا۔ پھر مجھے کسی چیز نے خوف نہیں دلایا سوائے رسول اللہ ﷺ کے کہ آپ اچانک ہی میرے پاس چاشت کے وقت آگئے۔ آپ نے مجھ سے ملاپ فرمایا۔

【94】

پردوں یا دیگر بچھانے کی چیزوں کا استعمال عورتوں کے لئے

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن المنکدر نے بیان کیا، ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے (جب انہوں نے شادی کی) فرمایا تم نے جھالر دار چادریں بھی لی ہیں یا نہیں ؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہمارے پاس جھالر دار چادریں کہاں ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جلد ہی میسر ہوجائیں گی۔

【95】

نئی دلہن کو ان کے شوہر کے گھر سرور کے ساتھ رخصت کرنے کا بیان

ہم سے فضیل بن یعقوب نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سابق نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ وہ ایک دلہن کو ایک انصاری مرد کے پاس لے گئیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ ! تمہارے پاس لہو (دف بجانے والا) نہیں تھا، انصار کو دف پسند ہے۔

【96】

باب

باب : دلہن کو تحائف بھیجنا اور ابراہیم بن طہمان نے ابوعثمان جعد بن دینار سے روایت کیا، انہوں نے انس بن مالک سے، ابوعثمان کہتے ہیں کہ انس (رض) ہمارے سامنے سے بنی رفاعہ کی مسجد میں (جو بصرہ میں ہے) گزرے۔ میں نے ان سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ کا قاعدہ تھا آپ جب ام سلیم (رض) کے گھر کی طرف سے گزرتے تو ان کے پاس جاتے، ان کو سلام کرتے (وہ آپ کی رضاعی خالہ ہوتی تھیں) ۔ پھر انس (رض) نے بیان کیا کہ ایک بار ایسا ہوا کہ نبی کریم ﷺ دولہا تھے۔ آپ نے زینب (رض) سے نکاح کیا تھا تو ام سلیم (میری ماں) مجھ سے کہنے لگیں اس وقت ہم نبی کریم ﷺ کے پاس کچھ تحفہ بھیجیں تو اچھا ہے۔ میں نے کہا مناسب ہے۔ انہوں نے کھجور اور گھی اور پنیر ملا کر ایک ہانڈی میں حلوہ بنایا اور میرے ہاتھ میں دے کر نبی کریم ﷺ کے پاس بھجوایا، میں لے کر آپ کے پاس چلا، جب پہنچا تو آپ نے فرمایا رکھ دے اور جا کر فلاں فلاں لوگوں کو بلا لا آپ نے ان کا نام لیا اور جو بھی کوئی تجھ کو راستے میں ملے اس کو بلا لے۔ انس (رض) نے کہا کہ میں آپ کے حکم کے موافق لوگوں کو دعوت دینے گیا۔ لوٹ کر جو آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سارا گھر لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اس حلوے پر رکھے اور جو اللہ کو منظور تھا وہ زبان سے کہا (برکت کی دعا فرمائی) ۔ پھر دس دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلانا شروع کیا۔ آپ ان سے فرماتے جاتے تھے اللہ کا نام لو اور ہر ایک آدمی اپنے آگے سے کھائے۔ (رکابی کے بیچ میں ہاتھ نہ ڈالے) یہاں تک کہ سب لوگ کھا کر گھر کے باہر چل دئیے۔ تین آدمی گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے اور مجھ کو ان کے نہ جانے سے رنج پیدا ہوا (اس خیال سے کہ نبی کریم ﷺ کو تکلیف ہوگی) آخر نبی کریم ﷺ اپنی بیویوں کے حجروں پر گئے میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا پھر راستے میں میں نے آپ سے کہا اب وہ تین آدمی بھی چلے گئے ہیں۔ اس وقت آپ لوٹے اور (زینب (رض) کے حجرے میں) آئے۔ میں بھی حجرے ہی میں تھا لیکن آپ نے میرے اور اپنے بیچ میں پردہ ڈال لیا۔ آپ سورة الاحزاب کی یہ آیت پڑھ رہے تھے۔ مسلمانو ! نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر جب کھانے کے لیے تم کو اندر آنے کی اجازت دی جائے اس وقت جاؤ وہ بھی ایسا ٹھیک وقت دیکھ کر کہ کھانے کے پکنے کا انتظار نہ کرنا پڑے البتہ جب بلائے جاؤ تو اندر آجاؤ اور کھانے سے فارغ ہوتے ہی چل دو ۔ باتوں میں لگ کر وہاں بیٹھے نہ رہا کرو، ایسا کرنے سے پیغمبر کو تکلیف ہوتی تھی، اس کو تم سے شرم آتی تھی (کہ تم سے کہے کہ چلے جاؤ) اللہ تعالیٰ حق بات میں نہیں شرماتا۔ ابوعثمان (جعدی بن دینار) کہتے تھے کہ انس (رض) کہا کرتے تھے۔

【97】

دلہن کے لئے عاریۃ کپڑے اور زیور وغیرہ مانگ لینے کا بیان

مجھ سے عبید بن اسمعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ انہوں نے (اپنی بہن) اسماء (رض) سے ایک ہار عاریۃ لے لیا تھا، راستے میں وہ گم ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ میں سے کچھ آدمیوں کو اسے تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ تلاش کرتے ہوئے نماز کا وقت ہوگیا (اور پانی نہیں تھا) اس لیے انہوں نے وضو کے بغیر نماز پڑھی۔ پھر جب وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں واپس ہوئے تو آپ کے سامنے یہ شکوہ کیا۔ اس پر تیمم کی آیت نازل ہوئی۔ اسید بن حضیر (رض) نے کہا کہ اے عائشہ ! اللہ تمہیں بہتر بدلہ دے۔ واللہ ! جب بھی آپ پر کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے تم سے اسے دور کیا اور مزید برآں یہ کہ مسلمانوں کے لیے برکت اور بھلائی ہوئی۔

【98】

اپنی بیوی کے پاس آتے ہوئے دعا پڑھنے کا بیان

ہم سے سعد بن حفص طلحی نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے سالم بن ابی الجعد نے، ان سے کریب نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس ہمبستری کے لیے جب آئے تو یہ دعا پڑھے باسم الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم جنبني الشيطان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وجنب الشيطان ما رزقتنا یعنی میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اے اللہ ! شیطان کو مجھ سے دور رکھ اور شیطان کو اس چیز سے بھی دور رکھ جو (اولاد) ہمیں تو عطا کرے۔ پھر اس عرصہ میں ان کے لیے کوئی اولاد نصیب ہو تو اسے شیطان کبھی ضرر نہ پہنچا سکے گا۔

【99】

ولیمہ کرنے کا بیان، عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ مجھے آپ ﷺ نے فرمایا ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی ہو

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور انہیں انس بن مالک (رض) نے خبر دی کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ ہجرت کر کے آئے تو ان کی عمر دس برس کی تھی۔ میری ماں اور بہنیں نبی کریم ﷺ کی خدمت کے لیے مجھ کو تاکید کرتی رہتی تھیں۔ چناچہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس برس تک خدمت کی اور جب آپ کی وفات ہوئی تو میں بیس برس کا تھا۔ پردہ کے متعلق میں سب سے زیادہ جاننے والوں میں سے ہوں کہ کب نازل ہوا۔ سب سے پہلے یہ حکم اس وقت نازل ہوا تھا جب نبی کریم ﷺ زینب بنت جحش (رض) سے نکاح کے بعد انہیں اپنے گھر لائے تھے، آپ ان کے دولہا بنے تھے۔ پھر آپ نے لوگوں کو (دعوت ولیمہ پر) بلایا۔ لوگوں نے کھانا کھایا اور چلے گئے۔ لیکن کچھ لوگ ان میں سے نبی کریم ﷺ کے گھر میں (کھانے کے بعد بھی) دیر تک وہیں بیٹھے (باتیں کرتے رہے) آخر نبی کریم ﷺ کھڑے ہوئے اور باہر تشریف لے گئے۔ میں بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ باہر گیا تاکہ یہ لوگ بھی چلے جائیں۔ نبی کریم ﷺ چلتے رہے اور میں بھی آپ کے ساتھ رہا۔ جب آپ عائشہ (رض) کے حجرہ کے پاس دروازے پر آئے تو آپ کو معلوم ہوا کہ وہ لوگ چلے گئے ہیں۔ اس لیے آپ واپس تشریف لائے اور میں بھی آپ کے ساتھ آیا۔ جب آپ زینب (رض) کے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہ لوگ ابھی بیٹھے ہوئے ہیں اور ابھی تک نہیں گئے ہیں۔ چناچہ نبی کریم ﷺ وہاں سے پھر واپس تشریف لائے اور میں بھی آپ کے ساتھ واپس آگیا جب آپ عائشہ (رض) کے حجرہ کے دروازے پر پہنچے اور آپ کو معلوم ہوا کہ وہ لوگ چلے گئے ہیں تو آپ پھر واپس تشریف لائے اور میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا۔ اب وہ لوگ واقعی جا چکے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے اس کے بعد اپنے اور میرے بیچ میں پردہ ڈال دیا اور پردہ کی آیت نازل ہوئی۔

【100】

ایک ہی بکری ولیمہ کرنے کا بیان

اور حمید سے روایت ہے کہ میں نے انس (رض) سے سنا اور انہوں نے بیان کیا کہ جب (نبی کریم ﷺ اور مہاجرین صحابہ) مدینہ ہجرت کر کے آئے تو مہاجرین نے انصار کے یہاں قیام کیا عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے سعد بن ربیع (رض) کے یہاں قیام کیا۔ سعد (رض) نے ان سے کہا کہ میں آپ کو اپنا مال تقسیم کر دوں گا اور اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو آپ کے لیے چھوڑ دوں گا۔ عبدالرحمٰن نے کہا کہ اللہ آپ کے اہل و عیال اور مال میں برکت دے پھر وہ بازار نکل گئے اور وہاں تجارت شروع کی اور پنیر اور گھی نفع میں کمایا۔ اس کے بعد شادی کی تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ دعوت ولیمہ کر خواہ ایک بکری ہی کی ہو۔

【101】

ایک ہی بکری ولیمہ کرنے کا بیان

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت بنانی نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے زینب (رض) جیسا ولیمہ اپنی بیویوں میں سے کسی کا نہیں کیا، ان کا ولیمہ آپ نے ایک بکری کا کیا تھا۔

【102】

ایک ہی بکری ولیمہ کرنے کا بیان

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے شعیب نے اور ان سے انس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے صفیہ (رض) کو آزاد کیا اور پھر ان سے نکاح کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا اور ان کا ولیمہ ملیدہ سے کیا۔

【103】

ایک ہی بکری ولیمہ کرنے کا بیان

ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے بیان بن بشر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے انس (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ ایک خاتون (زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا) کو نکاح کر کے لائے تو مجھے بھیجا اور میں نے لوگوں کو ولیمہ کھانے کے لیے بلایا۔

【104】

کسی بیوی کا کسی بیوی سے زیادہ ولیمہ کرنے کا بیان

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے، ان سے ثابت بنانی نے، کہ انس (رض) کے سامنے زینب بنت جحش (رض) کے نکاح کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان کے جیسا اپنی بیویوں میں سے کسی کے لیے ولیمہ کرتے نہیں دیکھا۔ نبی کریم ﷺ نے ان کا ولیمہ ایک بکری سے کیا تھا۔

【105】

ایک بکری سے کم ولیمہ کرنے کا بیان

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی کا ولیمہ دو مد ( تقریباً پونے دو سیر ) جَو سے کیا تھا۔

【106】

دعوت ولیمہ قبول کرنے کا بیان اور سات دن تک اگر کوئی ولیمہ وغیرہ کھلائے (توجائز ہے) کیوں کہ آپ ﷺ نے ایک دن یا دو دن میں منحصر نہیں فرمایا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو دعوت ولیمہ پر بلایا جائے تو اسے آنا چاہئے۔ معلوم ہوا کہ دعوت ولیمہ کا قبول کرنا ضروری ہے۔

【107】

دعوت ولیمہ قبول کرنے کا بیان اور سات دن تک اگر کوئی ولیمہ وغیرہ کھلائے (توجائز ہے) کیوں کہ آپ ﷺ نے ایک دن یا دو دن میں منحصر نہیں فرمایا

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن کثیر نے یبان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، کہا کہ مجھ سے منصور نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیدی کو چھڑاؤ، دعوت کرنے والے کی دعوت قبول کرو اور بیمار کی عیادت کرو۔

【108】

دعوت ولیمہ قبول کرنے کا بیان اور سات دن تک اگر کوئی ولیمہ وغیرہ کھلائے (توجائز ہے) کیوں کہ آپ ﷺ نے ایک دن یا دو دن میں منحصر نہیں فرمایا

ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص (سلام بن سلیم) نے بیان کیا، ان سے اشعث بن ابی الشعثاء نے، ان سے معاویہ بن سوید نے کہ براء بن عازب (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں سات کاموں کا حکم دیا اور سات کاموں سے منع فرمایا۔ ہمیں نبی کریم ﷺ نے بیمار کی عیادت، جنازہ کے پیچھے چلنے، چھینکنے والے کے جواب دینے (یرحمک اللہ یعنی اللہ تم پر رحم کرے کہنا) قسم کو پورا کرنے، مظلوم کی مدد کرنے، سب کو سلام کرنے اور دعوت کرنے والے کی دعوت قبول کرنے کا حکم دیا تھا اور ہمیں نبی کریم ﷺ نے سونے کی انگوٹھی پہننے، چاندی کے برتن استعمال کرنے، ریشمی گدے، قسیہ (ریشمی کپڑا) استبرق (موٹے ریشم کا کپڑا) اور دیباج (ایک ریشمی کپڑا) کے استعمال سے منع فرمایا تھا۔ ابوعوانہ اور شیبانی نے اشعث کی روایت سے لفظ إفشاء السلام‏.‏ میں ابوالاحوص کی متابعت کی ہے۔

【109】

دعوت ولیمہ قبول کرنے کا بیان اور سات دن تک اگر کوئی ولیمہ وغیرہ کھلائے (توجائز ہے) کیوں کہ آپ ﷺ نے ایک دن یا دو دن میں منحصر نہیں فرمایا

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد (رض) نے کہ ابواسید ساعدی (رض) نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی شادی پر دعوت دی، ان کی دلہن ام اسید سلامہ بنت وہب ضروری جو کام کاج کر رہی تھیں اور وہی دلہن بنی تھیں۔ سہل (رض) نے کہا تمہیں معلوم ہے انہوں نے نبی کریم ﷺ کو اس موقع پر کیا پلایا تھا ؟ رات کے وقت انہوں نے کچھ کھجوریں پانی میں بھگو دی تھیں (صبح کو) جب نبی کریم ﷺ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ کو وہی پلایا۔

【110】

دعوت کو قبول کرلینے کے بعد اگر کوئی شخص دعوت میں نہ جائے، تو اس نے اللہ اور رسول کی نا فرمانی کی

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ولیمہ کا وہ کھانا بدترین کھانا ہے جس میں صرف مالداروں کو اس کی طرف دعوت دی جائے اور محتاجوں کو نہ کھلایا جائے اور جس نے ولیمہ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کیا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔

【111】

پائے کھلانے کی دعوت کرنے کا بیان

ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر مجھے بکری کے کھر کی دعوت دی جائے تو میں اسے بھی قبول کروں گا اور اگر مجھے وہ کھر بھی ہدیہ میں دیئے جائیں تو میں اسے قبول کروں گا۔

【112】

شادی وغیرہ میں دعوت قبول کرنے کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حجاج بن محمد اعور نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ابن جریج نے کہا کہ مجھ کو موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس ولیمہ کی جب تمہیں دعوت دی جائے تو قبول کرو۔ بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) اگر روزے سے ہوتے جب بھی ولیمہ کی دعوت یا کسی دوسری دعوت میں شرکت کرتے تھے۔

【113】

دعوت ولیمہ میں عورتوں اور بچوں کو لے جانے کا بیان

ہم سے عبدالرحمٰن بن المبارک نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو کسی شادی سے آتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی کے مارے جلدی سے کھڑے ہوگئے اور فرمایا : یا اللہ ! (تو گواہ رہ) تم لوگ سب لوگوں سے زیادہ مجھ کو محبوب ہو۔

【114】

دعوت میں کوئی بری بات دیکھے تو لوٹ آنے کا بیان، ابن مسعود (رض) ایک مکان میں تصویر دیکھ کر لوٹ آئے، ابن عمر (رض) نے ایوب (رض) کو بلایا تھا، انہوں نے دیوار پر پردہ دیکھا، ابن عمر بولے اس میں ہم پر عورتیں غالب آگئی ہیں، ابوایوب نے کہا جن لوگوں پر مجھے اس کا خوف تھا وہ بہت ہیں، مگر تم پر مجھے یہ اندیشہ نہ تھا، بخدا ! میں کھانا نہ کھاؤں گا، پھر واپس چلے گئے

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے قاسم بن محمد نے اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے ایک چھوٹا سا گدا خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ جب نبی کریم ﷺ نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہوگئے اور اندر نہیں آئے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کے چہرے پر خفگی کے آثار دیکھ لیے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں اللہ اور اس کے رسول سے توبہ کرتی ہوں، میں نے کیا غلطی کی ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ گدا یہاں کیسے آیا ؟ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا میں نے ہی اسے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور اس پر ٹیک لگائیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ان تصویروں کے (بنانے والوں کو) قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو تم نے تصویر سازی کی ہے اسے زندہ بھی کرو ؟ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جن گھروں میں تصویریں ہوتی ہیں ان میں (رحمت کے) فرشتے نہیں آتے۔

【115】

نئی دلہن کا ولیمہ میں مردوں کی خدمت کرنے کا بیان

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان محمد بن مطرف نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم (سلمہ بن دینار) نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ جب ابواسید ساعدی (رض) نے شادی کی تو انہوں نے نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو دعوت دی، اس موقعہ پر کھانا ان کی دلہن ام اسید ہی نے تیار کیا تھا اور انہوں نے ہی مردوں کے سامنے کھانا رکھا۔ انہوں نے پتھر کے ایک بڑے پیالے میں رات کے وقت کھجوریں بھگو دی تھی اور جب نبی کریم ﷺ کھانے سے فارغ ہوئے تو انہوں نے ہی اس کا شربت بنایا اور نبی کریم ﷺ کے سامنے (تحفہ کے طور پر) پینے کے لیے پیش کیا۔

【116】

شادی میں کھجوروں کا شیرہ اور وہ شربت جو نشہ نہ کرے، اس کے پلانے کا بیان

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن القاری نے بیان کیا، ان سے ابوالحازم نے، کہا کہ میں نے سہل بن سعد (رض) سے سنا کہ ابواسید ساعدی نے اپنی شادی کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کو دعوت دی۔ اس دن ان کی بیوی ہی سب کی خدمت کر رہی تھیں، حالانکہ وہ دلہن تھیں بیوی نے کہا یا سہل نے (راوی کو شک تھا) کہ تمہیں معلوم ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے لیے کیا تیار کیا تھا ؟ میں نے آپ کے لیے ایک بڑے پیالے میں رات کے وقت سے کھجور کا شربت تیار کیا تھا۔

【117】

عورتوں کے ساتھ نرمی کرنے کا بیان، آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ عورت پسلی کی طرح ہے

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورت مثل پسلی کے ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ دو گے اور اگر اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہو گے تو اس کی ٹیڑھ کے ساتھ ہی فائدہ حاصل کرو گے۔

【118】

عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کا بیان

ہم سے اسحٰق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے حسین جعفی نے بیان کیا، ان سے زائدہ نے، ان سے میسرہ نے ان سے ابوالحازم نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور میں تمہیں۔ (بقیہ اگلی حدیث دیکھیں) ۔ عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اس کے اوپر کا حصہ ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ ڈالو گے اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی باقی رہ جائے گی اس لیے میں تمہیں عورتوں کے بارے میں اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔

【119】

عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کا بیان

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے وقت میں ہم اپنی بیویوں کے ساتھ گفتگو اور بہت زیادہ بےتکلفی سے اس ڈر کی وجہ سے پرہیز کرتے تھے کہ کہیں کوئی بےاعتدالی ہوجائے اور ہماری برائی میں کوئی حکم نازل نہ ہوجائے۔ پھر جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی تو ہم نے ان سے خوب کھل کے گفتگو کی اور خوب بےتکلفی کرنے لگے۔

【120】

اپنے نفس اور بال بچوں کو آگ سے بچانے کا بیان

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے (اس کی رعیت کے بارے میں) سوال ہوگا۔ پس امام حاکم ہے اس سے سوال ہوگا۔ مرد اپنی بیوی بچوں کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے مال کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہوگا۔ غلام اپنے سردار کے مال کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہوگا ہاں پس تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے سوال ہوگا۔

【121】

بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا بیان

ہم سے سلیمان بن عبدالرحمٰن اور علی بن حجر نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، اس نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہوں نے اپنے بھائی عبداللہ بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد عروہ بن زبیر سے، انہوں نے عائشہ (رض) سے انہوں نے کہا کہ گیارہ عورتوں کا ایک اجتماع ہوا جس میں انہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ مجلس میں وہ اپنے اپنے خاوند کا صحیح صحیح حال بیان کریں کوئی بات نہ چھپاویں۔ چناچہ پہلی عورت (نام نامعلوم) بولی میرے خاوند کی مثال ایسی ہے جیسے دبلے اونٹ کا گوشت جو پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہوا ہو نہ تو وہاں تک جانے کا راستہ صاف ہے کہ آسانی سے چڑھ کر اس کو کوئی لے آوے اور نہ وہ گوشت ہی ایسا موٹا تازہ ہے جسے لانے کے لیے اس پہاڑ پر چڑھنے کی تکلیف گوارا کرے۔ دوسری عورت (عمرہ بنت عمرو تمیمی نامی) کہنے لگی میں اپنے خاوند کا حال بیان کروں تو کہاں تک بیان کروں (اس میں اتنے عیب ہیں) میں ڈرتی ہوں کہ سب بیان نہ کرسکوں گی اس پر بھی اگر بیان کروں تو اس کے کھلے اور چھپے سارے عیب بیان کرسکتی ہوں۔ تیسری عورت (حیی بنت کعب یمانی) کہنے لگی، میرا خاوند کیا ہے ایک تاڑ کا تاڑ (لمبا تڑنگا) ہے اگر اس کے عیب بیان کروں تو طلاق تیار ہے اگر خاموش رہوں تو ادھر لٹکی رہوں۔ چوتھی عورت (مہدو بنت ابی ہر ومہ) کہنے لگی کہ میرا خاوند ملک تہامہ کی رات کی طرح معتدل نہ زیادہ گرم نہ بہت ٹھنڈا نہ اس سے مجھ کو خوف ہے نہ اکتاہٹ ہے۔ پانچوں عورت (کبشہ نامی) کہنے لگی کہ میرا خاوند ایسا ہے کہ گھر میں آتا ہے تو وہ ایک چیتا ہے اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر (بہادر) کی طرح ہے۔ جو چیز گھر میں چھوڑ کرجاتا ہے اس کے بارے میں پوچھتا ہی نہیں (کہ وہ کہاں گئی ؟ ) اتنا بےپرواہ ہے جو آج کمایا اسے کل کے لیے اٹھا کر رکھتا ہی نہیں اتنا سخی ہے۔ چھٹی عورت (ہند نامی) کہنے لگی کہ میرا خاوند جب کھانے پر آتا ہے تو سب کچھ چٹ کرجاتا ہے اور جب پینے پر آتا ہے تو ایک بوند بھی باقی نہیں چھوڑتا اور جب لیٹتا ہے تو تنہا ہی اپنے اوپر کپڑا لپیٹ لیتا ہے اور الگ پڑ کر سو جاتا ہے میرے کپڑے میں کبھی ہاتھ بھی نہیں ڈالتا کہ کبھی میرا دکھ درد کچھ تو معلوم کرے۔ ساتویں عورت (حیی بنت علقمہ) میرا خاوند تو جاہل یا مست ہے۔ صحبت کے وقت اپنا سینہ میرے سینے سے اوندھا پڑجاتا ہے۔ دنیا میں جتنے عیب لوگوں میں ایک ایک کر کے جمع ہیں وہ سب اس کی ذات میں جمع ہیں (کم بخت سے بات کروں تو) سر پھوڑ ڈالے یا ہاتھ توڑ ڈالے یا دونوں کام کر ڈالے۔ آٹھویں عورت (یاسر بنت اوس) کہنے لگی میرا خاوند چھونے میں خرگوش کی طرح نرم ہے اور خوشبو میں سونگھو تو زعفران جیسا خوشبودار ہے۔ نویں عورت (نام نامعلوم) کہنے لگی کہ میرے خاوند کا گھر بہت اونچا اور بلند ہے وہ قدآور بہادر ہے، اس کے یہاں کھانا اس قدر پکتا ہے کہ راکھ کے ڈھیر کے ڈھیر جمع ہیں۔ (غریبوں کو خوب کھلاتا ہے) لوگ جہاں صلاح و مشورہ کے لیے بیٹھتے ہیں (یعنی پنچائت گھر) وہاں سے اس کا گھر بہت نزدیک ہے۔ دسویں عورت (کبشہ بنت رافع) کہنے لگی میرے خاوند کا کیا پوچھنا جائیداد والا ہے، جائیداد بھی کیسی بڑی جائیداد ویسی کسی کے پاس نہیں ہوسکتی بہت سارے اونٹ جو جابجا اس کے گھر کے پاس جٹے رہتے ہیں اور جنگل میں چرنے کم جاتے ہیں۔ جہاں ان اونٹوں نے باجے کی آواز سنی بس ان کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہوگیا۔ گیارھویں عورت (ام زرع بنت اکیمل بنت ساعدہ) کہنے لگی میرا خاوند ابوزرع ہے اس کا کیا کہنا اس نے میرے کانوں کو زیوروں سے بوجھل کردیا ہے اور میرے دونوں بازو چربی سے پھلا دئیے ہیں مجھے خوب کھلا کر موٹا کردیا ہے کہ میں بھی اپنے تئیں خوب موٹی سمجھنے لگی ہوں۔ شادی سے پہلے میں تھوڑی سے بھیڑ بکریوں میں تنگی سے گزر بسر کرتی تھی۔ ابوزرعہ نے مجھ کو گھوڑوں، اونٹوں، کھیت کھلیان سب کا مالک بنادیا ہے اتنی بہت جائیداد ملنے پر بھی اس کا مزاج اتنا عمدہ ہے کہ بات کہوں تو برا نہیں مانتا مجھ کو کبھی برا نہیں کہتا۔ سوئی پڑی رہوں تو صبح تک مجھے کوئی نہیں جگاتا۔ پانی پیوں تو خوب سیراب ہو کر پی لوں رہی ابوزرعہ کی ماں (میری ساس) تو میں اس کی کیا خوبیاں بیان کروں۔ اس کا توشہ کھانا مال و اسباب سے بھرا ہوا، اس کا گھر بہت ہی کشادہ۔ ابوزرعہ کا بیٹا وہ بھی کیسا اچھا خوبصورت (نازک بدن دبلا پتلا) ہری چھالی یا ننگی تلوار کے برابر اس کے سونے کی جگہ ایسا کم خوراک کہ بکری کے چار ماہ کے بچے کا دست کا گوشت اس کا پیٹ بھر دے۔ ابوزرعہ کی بیٹی وہ بھی سبحان اللہ کیا کہنا اپنے باپ کی پیاری، اپنی ماں کی پیاری (تابع فرمان اطاعت گزار) کپڑا بھر پور پہننے والی (موٹی تازی) سوکن کی جلن۔ ابوزرعہ کی لونڈی اس کی بھی کیا پوچھتے ہو کبھی کوئی بات ہماری مشہور نہیں کرتی (گھر کا بھید ہمیشہ پوشیدہ رکھتی ہے) کھانے تک نہیں چراتی گھر میں کوڑا کچڑا نہیں چھوڑتی مگر ایک دن ایسا ہوا کہ لوگ مکھن نکالنے کو دودھ متھ رہے تھے۔ (صبح ہی صبح) ابوزرعہ باہر گیا اچانک اس نے ایک عورت دیکھی جس کے دو بچے چیتوں کی طرح اس کی کمر کے تلے دو اناروں سے کھیل رہے تھے (مراد اس کی دونوں چھاتیاں ہیں جو انار کی طرح تھیں) ۔ ابوزرعہ نے مجھ کو طلاق دے کر اس عورت سے نکاح کرلیا۔ اس کے بعد میں نے ایک اور شریف سردار سے نکاح کرلیا جو گھوڑے کا اچھا سوار، عمدہ نیزہ باز ہے، اس نے بھی مجھ کو بہت سے جانور دے دئیے ہیں اور ہر قسم کے اسباب میں سے ایک ایک جوڑا دیا ہوا ہے اور مجھ سے کہا کرتا ہے کہ ام زرع ! خوب کھا پی، اپنے عزیز و اقرباء کو بھی خوب کھلا پلا تیرے لیے عام اجازت ہے مگر یہ سب کچھ بھی جو میں نے تجھ کو دیا ہوا ہے اگر اکٹھا کروں تو تیرے پہلے خاوند ابوزرعہ نے جو تجھ کو دیا تھا، اس میں کا ایک چھوٹا برتن بھی نہ بھرے۔

【122】

بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ کچھ فوجی کھیل کا نیزہ بازی سے مظاہرہ کر رہے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے (اپنے جسم مبارک سے) میرے لیے پردہ کیا اور میں وہ کھیل دیکھتی رہی۔ میں نے اسے دیر تک دیکھا اور خود ہی اکتا کر لوٹ آئی۔ اب تم خود سمجھ لو کہ ایک کم عمر لڑکی کھیل کو کتنی دیر تک دیکھ سکتی ہے اور اس میں دلچسپی لے سکتی ہے۔

【123】

والد کا اپنی بیٹی کو خاوند کے معاملہ میں نصیحت کرنے کا بیان

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ بہت دنوں تک میرے دل میں خواہش رہی کہ میں عمر بن خطاب (رض) سے نبی کریم ﷺ کی ان دو بیویوں کے متعلق پوچھوں جن کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل کی تھی۔ إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبکما‏ الخ۔ ایک مرتبہ انہوں نے حج کیا اور ان کے ساتھ میں نے بھی حج کیا۔ ایک جگہ جب وہ راستہ سے ہٹ کر (قضائے حاجت کے لیے) گئے تو میں بھی ایک برتن میں پانی لے کر ان کے ساتھ راستہ سے ہٹ گیا۔ پھر انہوں نے قضائے حاجت کی اور واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ پھر انہوں نے وضو کیا تو میں نے اس وقت ان سے پوچھا کہ یا امیرالمؤمنین ! نبی کریم ﷺ کی بیویوں میں وہ کون ہیں جن کے متعلق اللہ نے یہ ارشاد فرمایا کہ إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبکما‏ عمر بن خطاب (رض) نے اس پر کہا اے ابن عباس ! تم پر حیرت ہے۔ وہ عائشہ (رض) اور حفصہ (رض) ہیں پھر عمر (رض) نے تفصیل کے ساتھ حدیث بیان کرنی شروع کی۔ انہوں نے کہا کہ میں اور میرے ایک انصاری پڑوسی جو بنو امیہ بن زید سے تھے اور عوالی مدینہ میں رہتے تھے۔ ہم نے (عوالی سے) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے باری مقرر کر رکھی تھی۔ ایک دن وہ حاضری دیتے اور ایک دن میں حاضری دیتا، جب میں حاضر ہوتا تو اس دن کی تمام خبریں جو وحی وغیرہ سے متعلق ہوتیں لاتا (اور اپنے پڑوسی سے بیان کرتا) اور جس دن وہ حاضر ہوتے تو وہ بھی ایسے کرتے۔ ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں پر غالب تھے لیکن جب ہم مدینہ تشریف لائے تو یہ لوگ ایسے تھے کہ عورتوں سے مغلوب تھے، ہماری عورتوں نے بھی انصار کی عورتوں کا طریقہ سیکھنا شروع کردیا۔ ایک دن میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا تو اس نے بھی میرا ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ میں نے اس کے اس طرح جواب دینے پر ناگواری کا اظہار کیا تو اس نے کہا کہ میرا جواب دینا تمہیں برا کیوں لگتا ہے، اللہ کی قسم ! نبی کریم ﷺ کی ازواج بھی ان کو جوابات دے دیتی ہیں اور بعض تو نبی کریم ﷺ سے ایک دن رات تک الگ رہتی ہیں۔ میں اس بات پر کانپ اٹھا اور کہا کہ ان میں سے جس نے بھی یہ معاملہ کیا یقیناً وہ نامراد ہوگئی۔ پھر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور (مدینہ کے لیے) روانہ ہوا پھر میں حفصہ کے گھر گیا اور میں نے اس سے کہا : اے حفصہ ! کیا تم میں سے کوئی بھی نبی کریم ﷺ سے ایک ایک دن رات تک غصہ رہتی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں کبھی (ایسا ہوجاتا ہے) میں نے اس پر کہا کہ پھر تم نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈال لیا اور نامراد ہوئی۔ کیا تمہیں اس کا کوئی ڈر نہیں کہ نبی کریم ﷺ کے غصہ کی وجہ سے اللہ تم پر غصہ ہوجائے اور پھر تم تنہا ہی ہوجاؤ گی۔ خبردار ! نبی کریم ﷺ سے مطالبات نہ کیا کرو نہ کسی معاملہ میں نبی کریم ﷺ کو جواب دیا کرو اور نہ نبی کریم ﷺ کو چھوڑا کرو۔ اگر تمہیں کوئی ضرورت ہو تو مجھ سے مانگ لیا کرو۔ تمہاری سوکن جو تم سے زیادہ خوبصورت ہے اور نبی کریم ﷺ کو تم سے زیادہ پیاری ہے، ان کی وجہ سے تم کسی غلط فہمی میں نہ مبتلا ہوجانا۔ ان کا اشارہ عائشہ (رض) کی طرف تھا۔ عمر (رض) نے بیان کیا کہ ہمیں معلوم ہوا تھا کہ ملک غسان ہم پر حملہ کے لیے فوجی تیاریاں کر رہا ہے۔ میرے انصاری ساتھی اپنی باری پر مدینہ منورہ گئے ہوئے تھے۔ وہ رات گئے واپس آئے اور میرے دروازے پر بڑی زور زور سے دستک دی اور کہا کہ کیا عمر (رض) گھر میں ہیں۔ میں گھبرا کر باہر نکلا تو انہوں نے کہا کہ آج تو بڑا حادثہ ہوگیا۔ میں نے کہا کیا بات ہوئی، کیا غسانی چڑھ آئے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، حادثہ اس سے بھی بڑا اور اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے کہا کہ حفصہ تو خاسر و نامراد ہوئی۔ مجھے تو اس کا خطرہ لگا ہی رہتا تھا کہ اس طرح کا کوئی حادثہ جلد ہی ہوگا پھر میں نے اپنے تمام کپڑے پہنے (اور مدینہ کے لیے روانہ ہوگیا) میں نے فجر کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی (نماز کے بعد) نبی کریم ﷺ اپنے ایک بالا خانہ میں چلے گئے اور وہاں تنہائی اختیار کرلی۔ میں حفصہ کے پاس گیا تو وہ رو رہی تھی۔ میں نے کہا اب روتی کیا ہو۔ میں نے تمہیں پہلے ہی متنبہ کردیا تھا۔ کیا نبی کریم ﷺ نے تمہیں طلاق دے دی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ نبی کریم ﷺ اس وقت بالا خانہ میں تنہا تشریف رکھتے ہیں۔ میں وہاں سے نکلا اور منبر کے پاس آیا۔ اس کے گرد کچھ صحابہ کرام موجود تھے اور ان میں سے بعض رو رہے تھے۔ تھوڑی دیر تک میں ان کے ساتھ بیٹھا رہا۔ اس کے بعد میرا غم مجھ پر غالب آگیا اور میں اس بالا خانہ کے پاس آیا۔ جہاں نبی کریم ﷺ تشریف رکھتے تھے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کے ایک حبشی غلام سے کہا کہ عمر (رض) کے لیے اندر آنے کی اجازت لے لو۔ غلام اندر گیا اور نبی کریم ﷺ سے گفتگو کر کے واپس آگیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی اور نبی کریم ﷺ سے آپ کا ذکر کیا لیکن آپ خاموش رہے۔ چناچہ میں واپس چلا آیا اور پھر ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا جو منبر کے پاس موجود تھے۔ میرا غم مجھ پر غالب آیا اور دوبارہ آ کر میں نے غلام سے کہا کہ عمر کے لیے اجازت لے لو۔ اس غلام نے واپس آ کر پھر کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے آپ کا ذکر کیا تو نبی کریم ﷺ خاموش رہے۔ میں پھر واپس آگیا اور منبر کے پاس جو لوگ موجود تھے ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ لیکن میرا غم مجھ پر غالب آیا اور میں نے پھر آ کر غلام سے کہا کہ عمر کے لیے اجازت طلب کرو۔ غلام اندر گیا اور واپس آ کر جواب دیا کہ میں نے آپ کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور نبی کریم ﷺ خاموش رہے۔ میں وہاں سے واپس آ رہا تھا کہ غلام نے مجھ کو پکارا اور کہا نبی کریم ﷺ نے تمہیں اجازت دے دی ہے۔ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اس بان کی چارپائی پر جس سے چٹائی بنی جاتی ہے لیٹے ہوئے تھے۔ اس پر کوئی بستر نہیں تھا۔ بان کے نشانات آپ کے پہلو مبارک پر پڑے ہوئے تھے۔ جس تکیہ پر آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے اس میں چھال بھری ہوئی تھی۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو سلام کیا اور کھڑے ہی کھڑے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے میری طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا نہیں۔ میں (خوشی کی وجہ سے) کہہ اٹھا۔ اللہ اکبر۔ پھر میں نے کھڑے ہی کھڑے نبی کریم ﷺ کو خوش کرنے کے لیے کہا کہ یا رسول اللہ ! آپ کو معلوم ہے ہم قریش کے لوگ عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے۔ پھر جب ہم مدینہ آئے تو یہاں کے لوگوں پر ان کی عورتیں غالب تھیں۔ نبی کریم ﷺ اس پر مسکرا دیئے۔ پھر میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کو معلوم ہے میں حفصہ کے پاس ایک مرتبہ گیا تھا اور اس سے کہہ آیا تھا کہ اپنی سوکن کی وجہ سے جو تم سے زیادہ خوبصورت اور تم سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کو عزیز ہے، دھوکا میں مت رہنا۔ ان کا اشارہ عائشہ (رض) کی طرف تھا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرا دیئے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو مسکراتے دیکھا تو بیٹھ گیا پھر نظر اٹھا کر میں نبی کریم ﷺ کے گھر کا جائزہ لیا۔ اللہ کی قسم ! میں نے نبی کریم ﷺ کے گھر میں کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جس پر نظر رکتی۔ سوا تین چمڑوں کے (جو وہاں موجود تھے) میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ آپ کی امت کو فراخی عطا فرمائے۔ فارس و روم کو فراخی اور وسعت حاصل ہے اور انہیں دنیا دی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ نبی کریم ﷺ ابھی تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا : ابن خطاب ! تمہاری نظر میں بھی یہ چیزیں اہمیت رکھتی ہیں، یہ تو وہ لوگ ہیں جنہیں جو کچھ بھلائی ملنے والی تھی سب اسی دنیا میں دے دی گئی ہے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کر دیجئیے (کہ میں نے دنیاوی شان و شوکت کے متعلق یہ غلط خیال دل میں رکھا) چناچہ نبی کریم ﷺ نے اپنی ازواج کو اسی وجہ سے انتیس دن تک الگ رکھا کہ حفصہ نے نبی کریم ﷺ کا راز عائشہ سے کہہ دیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ ایک مہینہ تک میں اپنی ازواج کے پاس نہیں جاؤں گا۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر عتاب کیا تو نبی کریم ﷺ کو اس کا بہت رنج ہوا (اور آپ نے ازواج سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا) پھر جب انتیسویں رات گزر گئی تو نبی کریم ﷺ عائشہ (رض) کے گھر تشریف لے گئے اور آپ سے ابتداء کی۔ عائشہ (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے قسم کھائی تھی کہ ہمارے یہاں ایک مہینہ تک تشریف نہیں لائیں گے اور ابھی تو انتیس ہی دن گزرے ہیں میں تو ایک ایک دن گن رہی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ مہینہ انتیس کا ہے۔ وہ مہینہ انتیس ہی کا تھا۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت تخير نازل کی اور نبی کریم ﷺ اپنی تمام ازواج میں سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے (اور مجھ سے اللہ کی وحی کا ذکر کیا) تو میں نے نبی کریم ﷺ کو ہی پسند کیا۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے اپنی تمام دوسری ازواج کو اختیار دیا اور سب نے وہی کہا جو عائشہ (رض) کہہ چکی تھیں۔

【124】

اپنے خاوند سے اجازت لے کر عورت کا نفلی روزہ رکھنے کا بیان

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر شوہر گھر پر موجود ہے تو کوئی عورت اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے۔

【125】

عورت کا خفاہو کر خاوند کے بستر سے الگ رات کو سوجانے کا بیان

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سلیمان نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب شوہر اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ آنے سے (ناراضگی کی وجہ سے) انکار کر دے تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔

【126】

عورت کا خفاہو کر خاوند کے بستر سے الگ رات کو سوجانے کا بیان

ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے زرارہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر عورت اپنے شوہر سے ناراضگی کی وجہ سے اس کے بستر سے الگ تھلگ رات گزارنے تو فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت بھیجتے ہیں جب تک وہ اپنی اس حرکت سے باز نہ آجائے۔

【127】

عورت کا خاوند کی مرضی کے بغیر کسی کو گھر میں نہ آنے دینے کا بیان

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورت کے لیے جائز نہیں کہ اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھے اور عورت کسی کو اس کے گھر میں اس کی مرضی کے بغیر آنے کی اجازت نہ دے اور عورت جو کچھ بھی اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی صریح اجازت کے بغیر خرچ کر دے تو اسے بھی اس کا آدھا ثواب ملے گا۔ اس حدیث کو ابوالزناد نے موسیٰ بن ابی عثمان سے بھی اور ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے روایت کیا ہے اور اس میں صرف روزہ کا ہی ذکر ہے۔

【128】

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو تیمی نے خبر دی، انہیں ابوعثمان نے، انہیں اسامہ (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں جنت کے دروازہ پر کھڑا ہوا تو اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت غریبوں کی تھی۔ مالدار (جنت کے دروازے پر حساب کے لیے) روک لیے گئے تھے البتہ جہنم والوں کو جہنم میں جانے کا حکم دے دیا گیا تھا اور میں جہنم کے دروازے پر کھڑا ہوا تو اس میں داخل ہونے والی زیادہ عورتیں تھیں۔

【129】

خاوند کی ناشکری کرنے کا بیان (عشیر بمعنی شوہر اور خلیط بمعنی ساجھی) ہے، عشیر معاشرت سے مشتق ہے، اس میں ابوسعید نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں زید بن اسلم نے، انہیں عطاء بن یسار نے اور انہیں عبداللہ بن عباس (رض) نے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ اس کی نماز پڑھی۔ آپ نے بہت لمبا قیام کی اتنا طویل کہ سورة البقرہ پڑھی جاسکے پھر طویل رکوع کیا۔ رکوع سے سر اٹھا کر بہت دیر تک قیام کیا۔ یہ قیام پہلے قیام سے کچھ کم تھا۔ پھر آپ نے دوسرا طویل رکوع کیا۔ یہ رکوع طوالت میں پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر سر اٹھایا اور سجدہ کیا۔ پھر دوبارہ قیام کیا اور بہت دیر تک حالت قیام میں رہے۔ یہ قیام پہلی رکعت کے قیام سے کچھ کم تھا۔ پھر طویل رکوع کیا، یہ رکوع پہلے رکوع سے کچھ کم طویل تھا۔ پھر سر اٹھایا اور طویل قیام کیا۔ یہ قیام پہلے قیام سے کچھ کم تھا۔ پھر رکوع کیا، طویل رکوع۔ اور یہ رکوع پہلے رکوع سے کچھ کم طویل تھا۔ پھر سر اٹھایا اور سجدہ میں گئے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو گرہن ختم ہوچکا تھا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ ان میں گرہن کسی کی موت یا کسی کی حیات کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اس لیے جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کو یاد کرو۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی جگہ سے کوئی چیز بڑھ کرلی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ آپ ہم سے ہٹ گئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جنت دیکھی تھی یا (نبی کریم ﷺ نے فرمایا راوی کو شک تھا) مجھے جنت دکھائی گئی تھی۔ میں نے اس کا خوشہ توڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا اور اگر میں اسے توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے اور میں نے دوزخ دیکھی آج کا اس سے زیادہ ہیبت ناک منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا اور میں نے دیکھا کہ اس میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ایسا کیوں ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور ان کے احسان کا انکار کرتی ہیں، اگر تم ان میں سے کسی ایک کے ساتھ زندگی بھر بھی حسن سلوک کا معاملہ کرو پھر بھی تمہاری طرف سے کوئی چیز اس کے لیے ناگواری خاطر ہوئی تو کہہ دے گی کہ میں نے تو تم سے کبھی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔

【130】

خاوند کی ناشکری کرنے کا بیان (عشیر بمعنی شوہر اور خلیط بمعنی ساجھی) ہے، عشیر معاشرت سے مشتق ہے، اس میں ابوسعید نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے

ہم سے عثمان بن ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے، ان سے عمران نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو اس کے اکثر رہنے والے غریب لوگ تھے اور میں نے دوزخ میں جھانک کر دیکھا تو اس کے اندر رہنے والی اکثر عورتیں تھیں۔ اس روایت کی متابعت ابوایوب اور سلم بن زریر نے کی ہے۔

【131】

میاں پر بیوی کے حق کا بیان ابوجحیفہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس حدیث کو روایت کیا ہے

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو اوزاعی نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے یحییٰ ابن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عبداللہ ! کیا میری یہ اطلاع صحیح ہے کہ تم (روزانہ) دن میں روزے رکھتے ہو اور رات بھر عبادت کرتے ہو ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں یا رسول اللہ ! نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو، روزے بھی رکھو اور بغیر روزے بھی رہو۔ رات میں عبادت بھی کرو اور سوؤ بھی۔ کیونکہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔

【132】

عورت کا اپنے شوہر کے گھر کے محافظ ہونے کا بیان

ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ امیر (حاکم) ہے، مرد اپنے گھر والوں پر حاکم ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے۔ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔

【133】

اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ مرد عورتوں پر قائم رہنے والے ہیں اس لئے کہ اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی، الی قولہ بیشک اللہ تعالیٰ بڑا بلند ہے

ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے حمید نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج مطہرات سے ایک مہینہ تک الگ رہے اور اپنے ایک بالاخانہ میں قیام کیا۔ پھر آپ انتیس دن کے بعد گھر میں تشریف لائے تو کہا گیا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے تو ایک مہینہ کے لیے عہد کیا تھا نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ مہینہ انتیس (29) کا ہے۔

【134】

نبی ﷺ کا اپنی بیویوں سے اس طرح جدا ہونے کا بیان کہ خود ان کے گھروں کے علاوہ دوسری جگہ رہیں معاویہ بن حیدہ سے یہ مرفوعا مروی ہے، اگرچہ اس میں یہ زائد ہے کہ اس سے علیحدگی کرکے گھر سے باہر نہ جاوے اور پہلی حدیث بہت صحیح ہے؟

ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور مجھ سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی نے خبر دی، انہیں عکرمہ بن عبدالرحمٰن بن حارث نے خبر دی اور انہیں ام سلمہ (رض) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ نے (ایک واقعہ کی وجہ سے) قسم کھائی کہ اپنی بعض ازواج کے یہاں ایک مہینہ تک نہیں جائیں گے۔ پھر جب انتیس دن گزر گئے تو نبی کریم ﷺ ان کے پاس صبح کے وقت گئے یا شام کے وقت نبی کریم ﷺ سے عرض کیا گیا کہ آپ نے تو قسم کھائی تھی کہ ایک مہینہ تک نہیں آئیں گے ؟ آپ نے فرمایا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔

【135】

نبی ﷺ کا اپنی بیویوں سے اس طرح جدا ہونے کا بیان کہ خود ان کے گھروں کے علاوہ دوسری جگہ رہیں معاویہ بن حیدہ سے یہ مرفوعا مروی ہے، اگرچہ اس میں یہ زائد ہے کہ اس سے علیحدگی کرکے گھر سے باہر نہ جاوے اور پہلی حدیث بہت صحیح ہے؟

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے مروان بن معاویہ نے، کہا ہم سے ابویعفور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوالضحیٰ کی مجلس میں (مہینہ پر) بحث کی تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ایک دن صبح ہوئی تو نبی کریم ﷺ کی ازواج رو رہی تھیں، ہر زوجہ مطہرہ کے پاس ان کے گھر والے موجود تھے۔ مسجد کی طرف گیا تو وہ بھی لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ پھر عمر بن خطاب (رض) آئے اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اوپر گئے تو نبی کریم ﷺ اس وقت ایک کمرہ میں تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے سلام کیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ انہوں نے پھر سلام کیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ پھر سلام کیا اور اس مرتبہ بھی کسی نے جواب نہیں دیا۔ تو آواز دی (بعد میں اجازت ملنے پر) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں گئے اور عرض کیا : کیا آپ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ایک مہینہ تک ان سے الگ رہنے کی قسم کھائی ہے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ انتیس دن تک الگ رہے اور پھر اپنے بیویوں کے پاس گئے۔

【136】

عورتوں کو مارنے پیٹنے کا بیان، بیویوں کو ادب سکھانے کے لئے ایسا ماروکہ انہیں تکلیف نہ پہنچے

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن زمعہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں کوئی شخص اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح نہ مارے کہ پھر دوسرے دن اس سے ہمبستر ہوگا۔

【137】

گناہ میں اپنے خاوند کی اطاعت نہ کرنے کا بیان

ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے، ان سے حسن نے وہ مسلم کے صاحبزادے ہیں، ان سے صفیہ (رض) نے، ان سے عائشہ (رض) نے کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نے اپنی بیٹی کی شادی کی تھی۔ اس کے بعد لڑکی کے سر کے بال بیماری کی وجہ سے اڑ گئے تو وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ اس کے شوہر نے اس سے کہا ہے کہ اپنے بالوں کے ساتھ (دوسرے مصنوعی بال) جوڑے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ ایسا تو ہرگز مت کر کیونکہ مصنوعی بال سر پر رکھ کے جو جوڑے تو ایسے بال جوڑنے والیوں پر لعنت کی گئی ہے۔

【138】

عورت کا شوہر سے خوف اور روگردانی کرنے کا بیان

ہم سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے آیت وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا أو إعراضا‏ اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف سے نفرت اور منہ موڑنے کا خوف محسوس کرے۔ کے متعلق فرمایا کہ آیت میں ایسی عورت کا بیان ہے جو کسی مرد کے پاس ہو اور وہ مرد اسے اپنے پاس زیادہ نہ بلاتا ہو بلکہ اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا ہو اور اس کے بجائے دوسری عورت سے شادی کرنا چاہتا ہو لیکن اس کی موجودہ بیوی اس سے کہے کہ مجھے اپنے ساتھ ہی رکھو اور طلاق نہ دو ۔ تم میرے سوا کسی اور سے شادی کرسکتے ہو، میرے خرچ سے بھی تم آزاد ہو اور تم پر باری کی بھی کوئی پابندی نہیں تو اس کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں فلا جناح عليهما أن يصالحا بينهما صلحا والصلح خير‏ کہ پس ان پر کوئی گناہ نہیں اگر وہ آپس میں صلح کرلیں اور صلح بہرحال بہتر ہے۔

【139】

عزل کرنے کا بیان

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے عطاء نے اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ہم عزل کیا کرتے تھے۔

【140】

عزل کرنے کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، انہیں عطاء نے خبر دی، انہوں نے جابر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں جب قرآن نازل ہو رہا تھا ہم عزل کرتے تھے۔ اور عمرو بن دینار نے بیان کیا عطاء سے انہوں نے جابر (رض) سے کہ قرآن نازل ہو رہا تھا اور ہم عزل کرتے تھے۔

【141】

عزل کرنے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک بن انس نے، ان سے زہری نے، ان سے ابن محیریز نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ (ایک غزوہ میں) ہمیں قیدی عورتیں ملیں اور ہم نے ان سے عزل کیا۔ پھر ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا حکم پوچھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم واقعی ایسا کرتے ہو ؟ تین مرتبہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا (پھر فرمایا) قیامت تک جو روح بھی پیدا ہونے والی ہے وہ (اپنے وقت پر) پیدا ہو کر رہے گی۔ پس تمہارا عزل کرنا عبث حرکت ہے۔

【142】

سفر کرتے وقت عورتوں کے درمیان قرعہ اندازی کرنے کا بیان

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے، کہا کہ مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے، ان سے قاسم نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج کے لیے قرعہ ڈالتے۔ ایک مرتبہ قرعہ عائشہ اور حفصہ (رض) کے نام نکلا۔ نبی کریم ﷺ رات کے وقت معمولاً چلتے وقت عائشہ (رض) کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے چلتے۔ ایک مرتبہ حفصہ (رض) نے ان سے کہا کہ آج رات کیوں نہ تم میرے اونٹ پر سوار ہوجاؤ اور میں تمہارے اونٹ پر تاکہ تم بھی نئے مناظر دیکھ سکو اور میں بھی۔ انہوں نے یہ تجویز قبول کرلی اور (ہر ایک دوسرے کے اونٹ پر) سوار ہوگئیں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ عائشہ کے اونٹ کے پاس تشریف لائے۔ اس وقت اس پر حفصہ (رض) بیٹھی ہوئی تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں سلام کیا، پھر چلتے رہے، جب پڑاؤ ہوا تو نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا کہ عائشہ (رض) اس میں نہیں ہیں (اس غلطی پر عائشہ کو اس درجہ رنج ہوا کہ) جب لوگ سواریوں سے اتر گئے تو ام المؤمنین نے اپنے پاؤں اذخر گھاس میں ڈال لیے اور دعا کرنے لگی کہ اے میرے رب ! مجھ پر کوئی بچھو یا سانپ مسلط کر دے جو مجھ کو ڈس لے۔ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ سے تو کچھ کہہ نہیں سکتی تھی کیونکہ یہ حرکت خود میری ہی تھی۔

【143】

باب

اور اللہ نے سورة نساء میں فرمایا ولن تستطيعوا أن تعدلوا بين النساء‏ کہ اگر تم اپنی کئی بیویوں کے درمیان انصاف نہ کرسکو (تو ایک ہی عورت سے شادی کرو) ۔ آخر آیت واسعا حكيما‏ تک۔ باب : بیویوں کے درمیان انصاف کرنا واجب ہے

【144】

کنواری لڑکی سے شادی کرنے کا بیان

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے، ان سے خالد حذاء نے، ان سے ابوقلابہ نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے (راوی ابوقلابہ یا انس (رض) نے) کہا کہ اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ نبی کریم ﷺ نے (آنے والی حدیث) ارشاد فرمائی۔ لیکن بیان کیا کہ دستور یہ ہے کہ جب کنواری سے شادی کرے تو اس کے ساتھ سات دن تک رہنا چاہیے اور جب بیوہ سے شادی کرے تو اس کے ساتھ تین دن تک رہنا چاہیے۔

【145】

کنواری بیوی کی موجودگی میں ثیبہ سے نکاح کرنے کا بیان

ہم سے یوسف بن راشد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، کہا ہم سے ایوب اور خالد نے دونوں نے بیان کیا، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ دستور یہ کہ جب کوئی شخص پہلے سے شادی شدہ بیوی کی موجودگی میں کسی کنواری عورت سے شادی کرے تو اس کے ساتھ سات دن تک قیام کرے اور پھر باری مقرر کرے اور جب کسی کنواری بیوی کی موجودگی میں پہلے سے شادی شدہ عورت سے نکاح کرے تو اس کے ساتھ تین دن تک قیام کرے اور پھر باری مقرر کرے۔ ابوقلابہ نے بیان کیا کہ اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ انس (رض) نے یہ حدیث نبی کریم ﷺ سے مرفوعاً بیان کی ہے۔ اور عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں سفیان نے خبر دی، انہیں ایوب اور خالد نے کہا کہ اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ انس (رض) نے یہ حدیث نبی کریم ﷺ سے مرفوعاً بیان کی ہے۔

【146】

اپنی تمام بیویوں سے ایک ہی غسل میں مباشرت کرنے کا بیان

ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ ایک رات میں نبی کریم ﷺ اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے۔ اس وقت نبی کریم ﷺ کے نکاح میں نو بیویاں تھیں۔

【147】

ایک دن میں تمام بیویوں کے پاس جانے کا بیان

ہم سے فروہ نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہا رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز سے فارغ ہو کر اپنی ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے اور ان میں سے کسی ایک کے قریب بھی بیٹھتے۔ ایک دن نبی کریم ﷺ حفصہ (رض) کے یہاں گئے اور معمول سے زیادہ کافی دیر تک ٹھہرے رہے۔

【148】

اپنے زمانہ علالت میں کسی ایک ہی بیوی کے پاس رہنے کا بیان

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہیں ان کے والد نے خبر دی اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ کی جس مرض میں وفات ہوئی، اس میں آپ پوچھا کرتے تھے کہ کل میری باری کس کے یہاں ہے ؟ کل میری باری کس کے یہاں ہے ؟ آپ کو عائشہ کی باری کا انتظار تھا۔ چناچہ آپ کی تمام ازواج نے آپ کو اس کی اجازت دے دی کہ آپ جہاں چاہیں بیماری کے دن گزاریں۔ نبی کریم ﷺ عائشہ (رض) کے گھر آگئے اور یہیں آپ کی وفات ہوئی۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی اسی دن وفات ہوئی جو میری باری کا دن تھا اور اللہ تعالیٰ کا یہ بھی احسان دیکھو اس نے جب نبی کریم ﷺ کو اپنے یہاں بلایا تو نبی کریم ﷺ کا سر مبارک میرے سینے پر تھا اور نبی کریم ﷺ کا لعاب دہن میرے لعاب دہن سے ملا۔

【149】

مرد کا کسی ایک بیوی کو زیادہ چاہنے کا بیان

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے عبید بن حنین نے، انہوں نے ابن عباس (رض) سے سنا، انہوں نے عمر (رض) سے کہ آپ حفصہ کے یہاں گئے اور ان سے کہا کہ بیٹی اپنی اس سوکن کو دیکھ کر دھوکے میں نہ آجانا جسے اپنے حسن پر اور رسول اللہ ﷺ کی محبت پر ناز ہے۔ آپ کا اشارہ عائشہ (رض) کی طرف تھا (عمر (رض) نے بیان کیا) کہ پھر میں نے یہی بات آپ کے سامنے دہرائی آپ مسکرا دیئے۔

【150】

سوکن کا دل جلانے کی ترکیبیں کرنے اور گم شدہ چیزوں کے بارے میں غلط طور پر کہہ دینا کہ وہ مل گئیں اس کا حکم وبیان

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے اور ان سے اسماء بنت ابی بکر (رض) نے نبی کریم ﷺ سے (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن مثنٰی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے بیان کیا اور ان سے اسماء بنت ابوبکر (رض) نے کہ ایک خاتون نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میری سوکن ہے اگر اپنے شوہر کی طرف سے ان چیزوں کے حاصل ہونے کی بھی داستانیں اسے سناؤں جو حقیقت میں میرا شوہر مجھے نہیں دیتا تو کیا اس میں کوئی حرج ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ جو چیز حاصل نہ ہو اس پر فخر کرنے والا اس شخص جیسا ہے جو فریب کا جوڑا یعنی (دوسروں کے کپڑے) مانگ کر پہنے۔

【151】

غیرت کرنے کا بیان، وراد کہتے ہیں مغیرہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے فرمایا اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے پاس دیکھ پاؤں تو اسے تلوار سے مار ڈالوں گا، آپ نے فرمایا اے صحابہ (رض) کیا تمہیں سعد کی غیرت سے تعجب آتا ہے میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند اور کوئی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے بےحیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے اور اللہ سے بڑھ کر کوئی اپنی تعریف پسند کرنے والا نہیں ہے۔

【152】

غیرت کرنے کا بیان، وراد کہتے ہیں مغیرہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے فرمایا اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے پاس دیکھ پاؤں تو اسے تلوار سے مار ڈالوں گا، آپ نے فرمایا اے صحابہ (رض) کیا تمہیں سعد کی غیرت سے تعجب آتا ہے میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے امت محمد ! اللہ سے بڑھ کر غیرت مند اور کوئی نہیں کہ وہ اپنے بندے یا بندی کو زنا کرتے ہوئے دیکھے۔ اے امت محمد ! اگر تمہیں وہ معلوم ہوتا جو مجھے معلوم ہے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔

【153】

غیرت کرنے کا بیان، وراد کہتے ہیں مغیرہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے فرمایا اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے پاس دیکھ پاؤں تو اسے تلوار سے مار ڈالوں گا، آپ نے فرمایا اے صحابہ (رض) کیا تمہیں سعد کی غیرت سے تعجب آتا ہے میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور ان سے ان کی والدہ اسماء بنت ابی بکر (رض) نے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم ﷺ فرما رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں اور (اسی سند سے) یحییٰ سے روایت ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا۔

【154】

غیرت کرنے کا بیان، وراد کہتے ہیں مغیرہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے فرمایا اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے پاس دیکھ پاؤں تو اسے تلوار سے مار ڈالوں گا، آپ نے فرمایا اے صحابہ (رض) کیا تمہیں سعد کی غیرت سے تعجب آتا ہے میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نحوی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو غیرت آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو غیرت اس وقت آتی ہے جب بندہ مومن وہ کام کرے جسے اللہ نے حرام کیا ہے۔

【155】

غیرت کرنے کا بیان، وراد کہتے ہیں مغیرہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے فرمایا اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے پاس دیکھ پاؤں تو اسے تلوار سے مار ڈالوں گا، آپ نے فرمایا اے صحابہ (رض) کیا تمہیں سعد کی غیرت سے تعجب آتا ہے میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔

ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اور ان سے اسماء بنت ابی بکر (رض) نے بیان کیا کہ زبیر (رض) نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور ان کے گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کوئی مال، کوئی غلام، کوئی چیز نہیں تھی۔ میں ہی ان کا گھوڑا چراتی، پانی پلاتی، ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی۔ میں اچھی طرح روٹی نہیں پکا سکتی تھی۔ انصار کی کچھ لڑکیاں میری روٹی پکا جاتی تھیں۔ یہ بڑی سچی اور باوفا عورتیں تھیں۔ زبیر (رض) کی وہ زمین جو رسول اللہ ﷺ نے انہیں دی تھی، اس سے میں اپنے سر پر کھجور کی گٹھلیاں گھر لایا کرتی تھی۔ یہ زمین میرے گھر سے دو میل دور تھی۔ ایک روز میں آرہی تھی اور گٹھلیاں میرے سر پر تھیں کہ راستے میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات ہوگئی۔ نبی کریم ﷺ کے ساتھ قبیلہ انصار کے کئی آدمی تھے۔ نبی کریم ﷺ نے مجھے بلایا پھر (اپنے اونٹ کو بٹھانے کے لیے) کہا اخ اخ۔ نبی کریم ﷺ چاہتے تھے کہ مجھے اپنی سواری پر اپنے پیچھے سوار کرلیں لیکن مجھے مردوں کے ساتھ چلنے میں شرم آئی اور زبیر (رض) کی غیرت کا بھی خیال آیا۔ زبیر (رض) بڑے ہی باغیرت تھے۔ نبی کریم ﷺ بھی سمجھ گئے کہ میں شرم محسوس کر رہی ہوں۔ اس لیے آپ آگے بڑھ گئے۔ پھر میں زبیر (رض) کے پاس آئی اور ان سے واقعہ کا ذکر کیا کہ نبی کریم ﷺ سے میری ملاقات ہوگئی تھی۔ میرے سر پر گٹھلیاں تھیں اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ آپ کے چند صحابہ بھی تھے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنا اونٹ مجھے بٹھانے کے لیے بٹھایا لیکن مجھے اس سے شرم آئی اور تمہاری غیرت کا بھی خیال آیا۔ اس پر زبیر نے کہا کہ اللہ کی قسم ! مجھ کو تو اس سے بڑا رنج ہوا کہ تو گٹھلیاں لانے کے لیے نکلے اگر تو نبی کریم ﷺ کے ساتھ سوار ہوجاتی تو اتنی غیرت کی بات نہ تھی (کیونکہ اسماء (رض) آپ کی سالی اور بھاوج دونوں ہوتی تھیں) اس کے بعد میرے والد ابوبکر (رض) نے ایک غلام میرے پاس بھیج دیا وہ گھوڑے کا سب کام کرنے لگا اور میں بےفکر ہوگئی گویا والد ماجد ابوبکر (رض) نے (غلام بھیج کر) مجھ کو آزاد کردیا۔

【156】

غیرت کرنے کا بیان، وراد کہتے ہیں مغیرہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے فرمایا اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے پاس دیکھ پاؤں تو اسے تلوار سے مار ڈالوں گا، آپ نے فرمایا اے صحابہ (رض) کیا تمہیں سعد کی غیرت سے تعجب آتا ہے میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے، ان سے حمید نے، ان سے انس نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ اپنی ایک زوجہ (عائشہ رضی اللہ عنہا) کے یہاں تشریف رکھتے تھے۔ اس وقت ایک زوجہ (زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا) نے نبی کریم ﷺ کے لیے ایک پیالے میں کچھ کھانے کی چیز بھیجی جن کے گھر میں نبی کریم ﷺ اس وقت تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے خادم کے ہاتھ پر (غصہ میں) مارا جس کی وجہ سے کٹورہ گر کر ٹوٹ گیا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے کٹورا لے کر ٹکڑے جمع کئے اور جو کھانا اس برتن میں تھا اسے بھی جمع کرنے لگے اور (خادم سے) فرمایا کہ تمہاری ماں کو غیرت آگئی ہے۔ اس کے بعد خادم کو روکے رکھا۔ آخر جن کے گھر میں وہ کٹورہ ٹوٹا تھا ان کی طرف سے نیا کٹورہ منگایا گیا اور نبی کریم ﷺ نے وہ نیا کٹورہ ان زوجہ مطہرہ کو واپس کیا جن کا کٹورہ توڑ دیا گیا تھا اور ٹوٹا ہوا کٹورہ ان کے یہاں رکھ لیا جن کے گھر میں وہ ٹوٹا تھا۔

【157】

غیرت کرنے کا بیان، وراد کہتے ہیں مغیرہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے فرمایا اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے پاس دیکھ پاؤں تو اسے تلوار سے مار ڈالوں گا، آپ نے فرمایا اے صحابہ (رض) کیا تمہیں سعد کی غیرت سے تعجب آتا ہے میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔

ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبیداللہ بن عمرعمری نے، ان سے محمد بن منکدر نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا یا (آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ) میں جنت میں گیا، وہاں میں نے ایک محل دیکھا میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے ؟ فرشتوں نے بتایا کہ عمر بن خطاب (رض) کا میں نے چاہا کہ اس کے اندر جاؤں لیکن رک گیا کیونکہ تمہاری غیرت مجھے معلوم تھی۔ اس پر عمر (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، اے اللہ کے نبی ! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا۔

【158】

غیرت کرنے کا بیان، وراد کہتے ہیں مغیرہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے فرمایا اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے پاس دیکھ پاؤں تو اسے تلوار سے مار ڈالوں گا، آپ نے فرمایا اے صحابہ (رض) کیا تمہیں سعد کی غیرت سے تعجب آتا ہے میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی، اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خواب میں میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک محل کے کنارے ایک عورت وضو کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے ؟ فرشتے نے کہا کہ عمر بن خطاب (رض) کا۔ میں ان کی غیرت کا خیال کر کے واپس چلا آیا۔ عمر (رض) نے جو اس وقت مجلس میں موجود تھے اس پر رو دیئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا ؟

【159】

عورتوں کی غیرت اور خفگی کا بیان

ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ میں خوب پہچانتا ہوں کہ کب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو اور کب تم مجھ پر ناراض ہوجاتی ہو۔ بیان کیا کہ اس پر میں نے عرض کیا آپ یہ بات کس طرح سمجھتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں محمد ( ﷺ ) کے رب کی قسم ! اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں ابراہیم (علیہ السلام) کے رب کی قسم ! بیان کیا کہ میں نے عرض کیا جی ہاں، اللہ کی قسم یا رسول اللہ ! (غصے میں) صرف آپ کا نام زبان سے نہیں لیتی۔

【160】

عورتوں کی غیرت اور خفگی کا بیان

مجھ سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے نضر بن شمیل نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، ان سے عائشہ (رض) نے، آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے کسی عورت پر مجھے اتنی غیرت نہیں آتی تھی جتنی ام المؤمنین خدیجہ (رض) پر آتی تھی کیونکہ نبی کریم ﷺ ان کا ذکر بکثرت کیا کرتے تھے اور ان کی تعریف کرتے تھے اور نبی کریم ﷺ پر وحی کی گئی تھی کہ آپ خدیجہ کو جنت میں ان کے موتی کے گھر کی بشارت دے دیں۔

【161】

مرد کا اپنی بیٹی سے غیرت دلانے والی بات کے رفع کرنے اور انصاف کی بات کہنے کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے مسور بن مخرمہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ ممبر پر فرما رہے تھے کہ ہشام بن مغیرہ جو ابوجہل کا باپ تھا اس کی اولاد (حارث بن ہشام اور سلم بن ہشام) نے اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب سے کرنے کی مجھ سے اجازت مانگی ہے لیکن میں انہیں ہرگز اجازت نہیں دوں گا یقیناً میں اس کی اجازت نہیں دوں گا ہرگز میں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ البتہ اگر علی بن ابی طالب میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہیں (تو میں اس میں رکاوٹ نہیں بنوں گا) کیونکہ وہ (فاطمہ رضی اللہ عنہا) میرے جگر کا ایک ٹکڑا ہے جو اس کو برا لگے وہ مجھ کو بھی برا لگتا ہے اور جس چیز سے اسے تکلیف پہنچتی ہے اس سے مجھے بھی تکلیف پہنچتی ہے۔

【162】

آخرزمانہ میں مردوں کی قلت اور عورتوں کی کثرت کا بیان، ابوموسی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ سے مروی ہے کہ آخرزمانہ میں ایک مرد کے پیچھے چالیس چالیس عورتیں لگی ہوں گی، کہ اس کی پناہ ڈھونڈیں گی، کیوں کہ عورتیں زیادہ ہوں گی اور مرد کم ہوں گے

ہم سے حفص بن عمر حوضی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے، میرے سوا یہ حدیث تم سے کوئی اور نہیں بیان کرنے والا ہے۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ قرآن و حدیث کا علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت بڑھ جائے گی۔ زنا کی کثرت ہوجائے گی اور شراب لوگ زیادہ پینے لگیں گے۔ مرد کم ہوجائیں گے اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہوجائے گی۔ حالت یہ ہوجائے گی کہ پچاس پچاس عورتوں کا سنبھالنے والا (خبر گیر) ایک مرد ہوگا۔

【163】

عورت کے پاس تنہائی محرم کے علاوہ کوئی نہ جائے اور جس عورت کا خاوند موجود نہ ہو اس کے گھر جانے کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں میں جانے سے بچتے رہو اس پر قبیلہ انصار کے ایک صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! دیور کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ (وہ اپنی بھاوج کے ساتھ جاسکتا ہے یا نہیں ؟ ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دیور یا (جیٹھ) کا جانا ہی تو ہلاکت ہے۔

【164】

عورت کے پاس تنہائی محرم کے علاوہ کوئی نہ جائے اور جس عورت کا خاوند موجود نہ ہو اس کے گھر جانے کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے ابو معبد نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ محرم کے سوا کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے۔ اس پر ایک صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میری بیوی حج کرنے گئی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر تو واپس جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر۔

【165】

کیا یہ جائز ہے کہ لوگوں کی موجودگی میں کسی عورت سے علیحدگی میں گفتگو کرے

ہم سے محمد بن بشار نے حدیث بیان کی، ان سے غندر نے حدیث بیان کی، ان سے شعبہ نے حدیث بیان کی، ان سے ہشام نے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں اور نبی کریم ﷺ نے اس سے لوگوں سے ایک طرف ہو کر تنہائی میں گفتگو کی اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ (یعنی انصار) مجھے سب لوگوں سے زیادہ عزیز ہو۔

【166】

عورتوں کا بھیس بدلنے والے مردوں کا خواتین کے پاس آمدورفت کی ممانعت کا بیان

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے زینب بنت ام سلمہ (رض) نے اور ان سے ام المؤمنین ام سلمہ نے کہ نبی کریم ﷺ ان کے یہاں تشریف رکھتے تھے، گھر میں ایک مغیث نامی مخنث بھی تھا۔ اس مخنث (ہیجڑے) نے ام سلمہ کے بھائی عبداللہ بن ابی امیہ (رض) سے کہا کہ اگر کل اللہ نے تمہیں طائف پر فتح عنایت فرمائی تو میں تمہیں غیلان کی بیٹی کو دکھلاؤں گا کیونکہ وہ سامنے آتی ہے تو (مٹاپے کی وجہ سے) اس کے چار شکنیں پڑجاتی ہیں اور جب پیچھے پھرتی ہے تو آٹھ ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے (ام سلمہ سے) فرمایا کہ یہ (مخنث) تمہارے پاس اب نہ آیا کرے۔

【167】

فتنہ وفساد نہ ہونے کی صورت میں حبشیوں کا ناچ وغیرہ دیکھنے کا بیان

ہم سے اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا، ان سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا، ان سے اوزاعی نے، ان سے زہری نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ میرے لیے اپنی چادر سے پردہ کئے ہوئے ہیں۔ میں حبشہ کے ان لوگوں کو دیکھ رہی تھی جو مسجد میں (جنگی) کھیل کا مظاہرہ کر رہے تھے، آخر میں ہی اکتا گئی۔ اب تم سمجھ لو ایک کم عمر لڑکی جس کو کھیل تماشہ دیکھنے کا بڑا شوق ہے کتنی دیر تک دیکھتی رہی ہوگی۔

【168】

عورتوں کا اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے باہر نکلنے کا بیان

ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ام المؤمنین سودہ بنت زمعہ (رض) رات کے وقت باہر نکلیں تو عمر (رض) نے انہیں دیکھ لیا اور پہچان گئے۔ پھر کہا : اے سودہ، اللہ کی قسم ! تم ہم سے چھپ نہیں سکتیں۔ جب سودہ (رض) واپس نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں تو نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ نبی کریم ﷺ اس وقت میرے حجرے میں شام کا کھانا کھا رہے تھے۔ آپ ﷺ کے ہاتھ میں گوشت کی ایک ہڈی تھی۔ اس وقت آپ پر وحی نازل ہونی شروع ہوئی اور جب نزول وحی کا سلسلہ ختم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں اجازت دی گئی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لیے باہر نکل سکتی ہو۔

【169】

مسجد وغیرہ جانے کے لئے بیوی کا اپنے شوہر سے اجازت طلب کرنے کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری نے، ان سے سالم نے اور ان سے ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے کہ جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد میں (نماز پڑھنے کے لیے) جانے کی اجازت مانگے تو اسے نہ روکو بلکہ اجازت دے دو ۔

【170】

رضاعی رشتہ داروں کی طرف دیکھنے اور ان کے پاس جانے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میرے دودھ چچا (رضاعی چچا، افلح) آئے اور میرے پاس اندر آنے کی اجازت چاہی لیکن میں نے کہا کہ جب تک میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھ نہ لوں، اجازت نہیں دے سکتی۔ پھر آپ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کے متعلق پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تمہارے رضاعی چچا ہیں، انہیں اندر بلا لو۔ میں نے اس پر کہا کہ یا رسول اللہ ! عورت نے مجھے دودھ پلایا تھا کوئی مرد نے تھوڑا ہی پلایا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہیں تو وہ تمہارے چچا ہی (رضاعی) اس لیے وہ تمہارے پاس آسکتے ہیں، یہ واقعہ ہمارے لیے پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ خون سے جو چیزیں حرام ہوتی ہیں رضاعت سے بھی وہ حرام ہوجاتی ہیں۔

【171】

بیوی کو اپنے شوہر سے کسی غیر عورت کی تعریف نہ کرنے کا بیان

ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری (رح) نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی عورت کسی عورت سے ملنے کے بعد اپنے شوہر سے اس کا حلیہ نہ بیان کرے، گویا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے۔

【172】

بیوی کو اپنے شوہر سے کسی غیر عورت کی تعریف نہ کرنے کا بیان

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے شقیق نے بیان کیا، کہا میں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی عورت کسی عورت سے مل کر اپنے شوہر سے اس کے حلیہ نہ بیان کرے گویا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے۔

【173】

کسی مرد کا یہ کہنا کہ آج رات میں اپنی سب بیویوں سے ملوں گا یہ کہنے کا بیان

مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن طاؤس نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آج رات میں اپنی سو بیویوں کے پاس ہو آؤں گا (اور اس قربت کے نتیجہ میں) ہر عورت ایک لڑکا جنے گی تو سو لڑکے ایسے پیدا ہوں گے جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔ فرشتہ نے ان سے کہا کہ انشاء اللہ کہہ لیجئے لیکن انہوں نے نہیں کہا اور بھول گئے۔ چناچہ آپ تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک کے سوا کسی کے بھی بچہ پیدا نہ ہوا اور اس ایک کے یہاں بھی آدھا بچہ پیدا ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر انشاء اللہ کہہ لیتے تو ان کی مراد بر آتی اور ان کی خواہش پوری ہونے کی امید زیادہ ہوتی۔

【174】

لمبے سفر سے رات کو اپنے گھر نہ آنا اور گھر والوں پر تہمت لگانے کا موقعہ ہاتھ آنے اور ان کی عیب جوئی کا بیان

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محارب بن دثار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کسی شخص سے رات کے وقت اپنے گھر (سفر سے اچانک) آنے پر ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے تھے۔

【175】

لمبے سفر سے رات کو اپنے گھر نہ آنا اور گھر والوں پر تہمت لگانے کا موقعہ ہاتھ آنے اور ان کی عیب جوئی کا بیان

ہم سے محمد بن مقاتل مروزی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو عاصم بن سلیمان نے خبر دی، انہیں عامر شعبی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص زیادہ دنوں تک اپنے گھر سے دور ہو تو یکایک رات کو اپنے گھر میں نہ آجائے۔

【176】

اولاد کی خواہش کا بیان

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، ان سے ہشیم بن بشیر نے، ان سے سیار بن دروان نے، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جہاد (غزوہ تبوک) میں تھا، جب ہم واپس ہو رہے تھے تو میں اپنے سست رفتار اونٹ کو تیز چلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اتنے میں میرے پیچھے سے ایک سوار میرے قریب آئے۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ ﷺ تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا جلدی کیوں کر رہے ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ میری شادی ابھی نئی ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، کنواری عورت سے تم نے شادی کی یا بیوہ سے ؟ میں نے عرض کیا کہ بیوہ سے۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا، کنواری سے کیوں نہ کی ؟ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔ جابر نے بیان کیا کہ پھر جب ہم مدینہ پہنچے تو ہم نے چاہا کہ شہر میں داخل ہوجائیں لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ۔ رات ہوجائے پھر داخل ہونا تاکہ تمہاری بیویاں جو پراگندہ بال ہیں وہ کنگھی چوٹی کرلیں اور جن کے خاوند غائب تھے وہ موئے زیر ناف صاف کرلیں۔ ہشیم نے بیان کیا کہ مجھ سے ایک معتبر راوی نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ الكيس، الكيس یعنی اے جابر ! جب تو گھر پہنچے تو خوب خوب كيس کیجؤ (امام بخاری (رح) نے کہا) كيس کا مطلب ہے کہ اولاد ہونے کی خواہش کیجؤ۔

【177】

اولاد کی خواہش کا بیان

ہم سے محمد بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سیار نے، ان سے شعبی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ (غزوہ تبوک سے واپسی کے وقت) فرمایا، جب رات کے وقت تم مدینہ میں پہنچو تو اس وقت تک اپنے گھروں میں نہ جانا جب تک ان کی بیویاں جو مدینہ منورہ میں موجود نہیں تھے، اپنا موئے زیر ناف صاف نہ کرلیں اور جن کے بال پراگندہ ہوں وہ کنگھا نہ کرلیں۔ جابر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پھر ضروری ہے کہ جب تم گھر پہنچو تو خوب خوب كيس کیجؤ۔ شعبی کے ساتھ اس حدیث کو عبیداللہ نے بھی وہب بن کیسان سے، انہوں نے جابر (رض) سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا، اس میں بھی كيس کا ذکر ہے۔

【178】

عورت اندام نہانی کے بالوں کو صاف کرلے اور کنگھی کرلے

مجھ سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو سیار نے خبر دی، انہیں شعبی نے، انہیں جابر بن عبداللہ (رض) نے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ (غزوہ تبوک) میں تھے۔ واپس ہوتے ہوئے جب ہم مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو میں نے اپنے سست رفتار اونٹ کو تیز چلانے لگا۔ ایک صاحب نے پیچھے سے میرے قریب پہنچ کر میرے اونٹ کو ایک چھڑی سے جو ان کے پاس تھی، مارا۔ اس سے اونٹ بڑی اچھی چال چلنے لگا، جیسا کہ تم نے اچھے اونٹوں کو چلتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ ﷺ تھے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میری نئی شادی ہوئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر پوچھا، کیا تم نے شادی کرلی ؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ دریافت فرمایا، کنواری سے کی ہے یا بیوہ سے ؟ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا کہ بیوہ سے کی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کنواری سے کیوں نہ کی ؟ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔ بیان کیا کہ پھر جب ہم مدینہ پہنچے تو شہر میں داخل ہونے لگے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ رات ہوجائے پھر داخل ہونا تاکہ پراگندہ بال عورت چوٹی کنگھا کرلے اور جس کا شوہر موجود نہ رہا ہو وہ موئے زیر ناف صاف کرلے۔

【179】

اللہ کا قول کہ عورتیں اپنی زینت اپنے شوہروں کے سوا کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، لم یظہروا علی عوراۃ النساء تک

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا کہ اس واقعہ میں لوگوں میں اختلاف تھا کہ احد کی جنگ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے لیے کون سی دوا استعمال کی گئی تھی۔ پھر لوگوں نے سہل بن سعد ساعدی (رض) سے سوال کیا، وہ اس وقت آخری صحابی تھے جو مدینہ منورہ میں موجود تھے۔ انہوں نے بتلایا کہ اب کوئی شخص ایسا زندہ نہیں جو اس واقعہ کو مجھ سے زیادہ جانتا ہو۔ فاطمہ (رض) نبی کریم ﷺ کے چہرہ مبارک سے خون دھو رہی تھیں اور علی (رض) اپنے ڈھال میں پانی بھر کر لا رہے تھے۔ (جب بند نہ ہوا تو) ایک بوریا جلا کر آپ کے زخم میں بھر دیا گیا۔

【180】

آیت والذین لم یبلغوا الحکم منکم کی تفسیر

ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے، کہا میں نے ابن عباس (رض) سے سنا، ان سے ایک شخص نے یہ سوال کیا تھا کہ تم بقر عید یا عید کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ اگر میں نبی کریم ﷺ کا رشتہ دار نہ ہوتا تو میں اپنی کم سنی کی وجہ سے ایسے موقع پر حاضر نہیں ہوسکتا تھا۔ ان کا اشارہ (اس زمانے میں) اپنے بچپن کی طرف تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ باہر تشریف لے گئے اور (لوگوں کے ساتھ عید کی) نماز پڑھی اور اس کے بعد خطبہ دیا۔ ابن عباس (رض) نے اذان اور اقامت کا ذکر نہیں کیا، پھر آپ عورتوں کے پاس آئے اور انہیں وعظ و نصیحت کی اور انہیں خیرات دینے کا حکم دیا۔ میں نے انہیں دیکھا کہ پھر وہ اپنے کانوں اور گلے کی طرف ہاتھ بڑھا بڑھا کر (اپنے زیورات) بلال (رض) کو دینے لگیں۔ اس کے بعد بلال (رض) کے ساتھ نبی کریم ﷺ واپس تشریف لائے۔

【181】

کسی آدمی کا اپنے ساتھی سے کہنا کہ کیا تم نے آج رات زفاف کیا اور اپنی بیٹی کی کوکھ پر غصہ کے وقت کچھ چبھونے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبدالرحمٰن بن قاسم نے، انہیں ان کے والد قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ (ان کے والد) ابوبکر (رض) ان پر غصہ ہوئے اور میری کوکھ میں ہاتھ سے کچوکے لگانے لگے لیکن میں حرکت اس وجہ سے نہ کرسکی کہ رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک میری ران پر رکھا ہوا تھا۔