33. جھگڑوں کا بیان

【1】

باب: قرض دار کو پکڑ کر لے جانا اور مسلمان اور یہودی میں جھگڑا ہونے کا بیان۔

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ عبدالملک بن میسرہ نے مجھے خبر دی کہا کہ میں نے نزال بن سمرہ سے سنا، اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ایک شخص کو قرآن کی آیت اس طرح پڑھتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ سے میں نے اس کے خلاف سنا تھا۔ اس لیے میں ان کا ہاتھ تھامے آپ ﷺ کی خدمت میں لے گیا۔ آپ ﷺ نے (میرا اعتراض سن کر) فرمایا کہ تم دونوں درست ہو۔ شعبہ نے بیان کیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اختلاف نہ کرو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اختلاف ہی کی وجہ سے تباہ ہوگئے۔

【2】

باب: قرض دار کو پکڑ کر لے جانا اور مسلمان اور یہودی میں جھگڑا ہونے کا بیان۔

ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ اور عبدالرحمٰن اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ دو شخصوں نے جن میں ایک مسلمان تھا اور دوسرا یہودی، ایک دوسرے کو برا بھلا کہا۔ مسلمان نے کہا، اس ذات کی قسم ! جس نے محمد ( ﷺ ) کو تمام دنیا والوں پر بزرگی دی۔ اور یہودی نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تمام دنیا والوں پر بزرگی دی۔ اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھا کر یہودی کے طمانچہ مارا۔ وہ یہودی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور مسلمان کے ساتھ اپنے واقعہ کو بیان کیا۔ پھر آپ ﷺ نے اس مسلمان کو بلایا اور اس سے واقعہ کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے آپ ﷺ کو اس کی تفصیل بتادی۔ آپ ﷺ نے اس کے بعد فرمایا، مجھے موسیٰ (علیہ السلام) پر ترجیح نہ دو ۔ لوگ قیامت کے دن بیہوش کردیئے جائیں گے۔ میں بھی بیہوش ہوجاؤں گا۔ بےہوشی سے ہوش میں آنے والا سب سے پہلا شخص میں ہوں گا، لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کو عرش الٰہی کا کنارہ پکڑے ہوئے پاؤں گا۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی بیہوش ہونے والوں میں ہوں گے اور مجھ سے پہلے انہیں ہوش آجائے گا۔ یا اللہ تعالیٰ نے ان کو ان لوگوں میں رکھا ہے جو بےہوشی سے مستثنیٰ ہیں۔

【3】

باب: قرض دار کو پکڑ کر لے جانا اور مسلمان اور یہودی میں جھگڑا ہونے کا بیان۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ یحییٰ بن عمارہ نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے کہ ایک یہودی آیا اور کہا کہ اے ابوالقاسم ! آپ کے اصحاب میں سے ایک نے مجھے طمانچہ مارا ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، کس نے ؟ اس نے کہا کہ ایک انصاری نے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں بلاؤ۔ وہ آئے تو آپ ﷺ نے پوچھا کیا تم نے اسے مارا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے اسے بازار میں یہ قسم کھاتے سنا۔ اس ذات کی قسم ! جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تمام انسانوں پر بزرگی دی۔ میں نے کہا، او خبیث ! کیا محمد ﷺ پر بھی ! مجھے غصہ آیا اور میں نے اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا دیکھو انبیاء میں باہم ایک دوسرے پر اس طرح بزرگی نہ دیا کرو۔ لوگ قیامت میں بیہوش ہوجائیں گے۔ اپنی قبر سے سب سے پہلے نکلنے والا میں ہی ہوں گا۔ لیکن میں دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) عرش الٰہی کا پایہ پکڑے ہوئے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی بیہوش ہوں گے اور مجھ سے پہلے ہوش میں آجائیں گے یا انہیں پہلی بےہوشی جو طور پر ہوچکی ہے وہی کافی ہوگی۔

【4】

باب: قرض دار کو پکڑ کر لے جانا اور مسلمان اور یہودی میں جھگڑا ہونے کا بیان۔

ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا تھا۔ (اس میں کچھ جان باقی تھی) اس سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ کس نے کیا ہے ؟ کیا فلاں نے، فلاں نے ؟ جب اس یہودی کا نام آیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا (کہ ہاں) یہودی پکڑا گیا اور اس نے بھی جرم کا اقرار کرلیا، نبی کریم ﷺ نے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔

【5】

باب: اور اگر کسی نے کسی کم عقل کی کوئی چیز بیچ کر اس کی قیمت اسے دے دی۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، آپ نے کہا کہ ایک صحابی کوئی چیز خریدتے وقت دھوکا کھا جایا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ جب تو خریدا کرے تو یہ کہہ دے کہ کوئی دھوکا نہ ہو۔ پس وہ اسی طرح کہا کرتے تھے۔

【6】

باب: اور اگر کسی نے کسی کم عقل کی کوئی چیز بیچ کر اس کی قیمت اسے دے دی۔

ہم سے عاصم بن علی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے اور ان سے جابر (رض) نے کہ ایک شخص نے اپنا ایک غلام آزاد کیا، لیکن اس کے پاس اس کے سوا اور کوئی مال نہ تھا۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے اسے اس کا غلام واپس کرا دیا۔ اور اسے نعیم بن نحام نے خرید لیا۔

【7】

باب: مدعی یا مدعی علیہ ایک دوسرے کی نسبت جو کہیں۔

ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں شقیق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جس نے کوئی جھوٹی قسم جان بوجھ کر کھائی تاکہ کسی مسلمان کا مال ناجائز طور پر حاصل کرلے۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس حالت میں حاضر ہوگا کہ اللہ پاک اس پر نہایت ہی غضبناک ہوگا۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر اشعث (رض) نے کہا کہ اللہ کی قسم ! مجھ سے ہی متعلق ایک مسئلے میں رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ میرے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین کا جھگڑا تھا۔ اس نے انکار کیا تو میں نے مقدمہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا، کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے ؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے یہودی سے فرمایا کہ پھر تو قسم کھا۔ اشعث (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! پھر تو یہ جھوٹی قسم کھالے گا اور میرا مال اڑا لے جائے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا بیشک وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں سے تھوڑی پونچی خریدتے ہیں۔ آخر آیت تک۔

【8】

باب: مدعی یا مدعی علیہ ایک دوسرے کی نسبت جو کہیں۔

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عبداللہ بن کعب بن مالک (رض) نے، انہوں نے کعب (رض) سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن ابی حدرد (رض) سے مسجد میں اپنے قرض کا تقاضا کیا۔ اور دونوں کی آواز اتنی بلند ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی گھر میں سن لی۔ آپ ﷺ نے حجرہ مبارک کا پردہ اٹھا کر پکارا اے کعب ! انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ میں حاضر ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے قرض میں سے اتنا کم کر دے اور آپ ﷺ نے آدھا قرض کم کردینے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کم کردیا۔ پھر آپ ﷺ نے ابن ابی حدرد (رض) سے فرمایا کہ اٹھ اب قرض ادا کر دے۔

【9】

باب: مدعی یا مدعی علیہ ایک دوسرے کی نسبت جو کہیں۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر (رض) نے، انہیں عبدالرحمٰن بن عبدالقاری نے کہ انہوں نے عمر بن خطاب (رض) سے سنا کہ وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام (رض) کو سورة الفرقان ایک دفعہ اس قرآت سے پڑھتے سنا جو اس کے خلاف تھی جو میں پڑھتا تھا۔ حالانکہ میری قرآت خود رسول اللہ ﷺ نے مجھے سکھائی تھی۔ قریب تھا کہ میں فوراً ہی ان پر کچھ کر بیٹھوں، لیکن میں نے انہیں مہلت دی کہ وہ (نماز سے) فارغ ہو لیں۔ اس کے بعد میں نے ان کے گلے میں چادر ڈال کر ان کو گھسیٹا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر کیا۔ میں نے آپ ﷺ سے کہا کہ میں نے انہیں اس قرآت کے خلاف پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے سکھائی ہے۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ پہلے انہیں چھوڑ دے۔ پھر ان سے فرمایا کہ اچھا اب تم قرآت سناؤ۔ انہوں نے وہی اپنی قرآت سنائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد مجھ سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب تم بھی پڑھو، میں نے بھی پڑھ کر سنایا۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی۔ قرآن سات ق راتوں میں نازل ہوا ہے۔ تم کو جس میں آسانی ہو اسی طرح سے پڑھ لیا کرو۔

【10】

باب: جب حال معلوم ہو جائے تو مجرموں اور جھگڑے والوں کو گھر سے نکال دینا۔

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، میں نے تو یہ ارادہ کرلیا تھا کہ نماز کی جماعت قائم کرنے کا حکم دے کر خود ان لوگوں کے گھروں میں جاؤں جو جماعت میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر کو جلا دوں۔

【11】

باب: میت کا وصی اس کی طرف سے دعویٰ کر سکتا ہے۔

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ زمعہ کی ایک باندی کے لڑے کے بارے میں عبد بن زمعہ (رض) اور سعد بن ابی وقاص (رض) اپنا جھگڑا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے کر گئے۔ سعد (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! میرے بھائی نے مجھ کو وصیت کی تھی کہ جب میں (مکہ) آؤں اور زمعہ کی باندی کے لڑکے کو دیکھوں تو اسے اپنی پرورش میں لے لوں۔ کیونکہ وہ انہیں کا لڑکا ہے۔ اور عبد بن زمعہ نے کہا کہ وہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی باندی کا لڑکا ہے۔ میرے والد ہی کے فراش میں اس کی پیدائش ہوئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بچے کے اندر (عتبہ کی) واضح مشابہت دیکھی۔ لیکن فرمایا کہ اے عبد بن زمعہ ! لڑکا تو تمہاری ہی پرورش میں رہے گا کیونکہ لڑکا فراش کے تابع ہوتا ہے اور سودہ تو اس لڑکے سے پردہ کیا کر۔

【12】

باب: اگر شرارت کا ڈر ہو تو ملزم کا باندھنا درست ہے۔

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے چند سواروں کا ایک لشکر نجد کی طرف بھیجا۔ یہ لوگ بنو حنیفہ کے ایک شخص کو جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا اور جو اہل یمامہ کا سردار تھا، پکڑ لائے اور اسے مسجد نبوی کے ایک ستون میں باندھ دیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور آپ ﷺ نے پوچھا، ثمامہ ! تو کس خیال میں ہے ؟ انہوں نے کہا اے محمد ( ﷺ ) میں اچھا ہوں۔ پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو ۔

【13】

باب: حرم میں کسی کو باندھنا اور قید کرنا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے سواروں کا ایک لشکر نجد کی طرف بھیجا جو بنو حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو پکڑ لائے۔ اور مسجد کے ایک ستون سے اس کو باندھ دیا۔

【14】

باب: قرض داروں کے ساتھ رہنے کا بیان۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، اور یحییٰ بن بکیر کے علاوہ نے بیان کیا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے، ان سے عبداللہ بن کعب بن مالک انصاری نے، اور ان سے کعب بن مالک (رض) نے کہ عبداللہ بن ابی حدرد اسلمی (رض) پر ان کا قرض تھا، ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان کا پیچھا کیا۔ پھر دونوں کی گفتگو تیز ہونے لگی۔ اور آواز بلند ہوگئی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ کا ادھر سے گزر ہوا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا، اے کعب ! اور آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے گویا یہ فرمایا کہ آدھے قرض کی کمی کر دے۔ چناچہ انہوں نے آدھا لے لیا اور آدھا قرض معاف کردیا۔

【15】

باب: تقاضا کرنے کا بیان۔

ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہب بن جریر بن حازم نے بیان کیا، انہیں شعبہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوالضحیٰ نے، انہیں مسروق نے، اور ان سے خباب (رض) نے بیان کیا کہ میں جاہلیت کے زمانہ میں لوہے کا کام کرتا تھا اور عاص بن وائل (کافر) پر میرے کچھ روپے قرض تھے۔ میں اس کے پاس تقاضا کرنے گیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ جب تک تو محمد ( ﷺ ) کا انکار نہیں کرے گا میں تیرا قرض ادا نہیں کروں گا۔ میں نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم ! میں محمد ﷺ کا انکار کبھی نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں مارے اور پھر تم کو اٹھائے۔ وہ کہنے لگا کہ پھر مجھ سے بھی تقاضا نہ کر۔ میں جب مر کے دوبارہ زندہ ہوں گا تو مجھے (دوسری زندگی میں) مال اور اولاد دی جائے گی تو تمہارا قرض بھی ادا کر دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی أفرأيت الذي کفر بآياتنا وقال لأوتين مالا وولدا‏ تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور کہا کہ مجھے مال اور اولاد ضرور دی جائے گی۔ آخر آیت تک۔