32. قرض لینے اور قرض ادا کرنے کا بیان

【1】

باب: جو شخص کوئی چیز قرض خریدے اور اس کے پاس قیمت نہ ہو یا اس وقت موجود نہ ہو تو کیا حکم ہے؟

ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو جریر نے خبر دی، انہیں مغیرہ نے، انہیں شعبی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں شریک تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اپنے اونٹ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔ کیا تم اسے بیچو گے ؟ میں نے کہا ہاں، چناچہ اونٹ میں نے آپ ﷺ کو بیچ دیا۔ اور جب آپ ﷺ مدینہ پہنچے۔ تو صبح اونٹ کو لے کر میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی قیمت ادا کردی۔

【2】

باب: جو شخص کوئی چیز قرض خریدے اور اس کے پاس قیمت نہ ہو یا اس وقت موجود نہ ہو تو کیا حکم ہے؟

ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ ابراہیم کی خدمت میں ہم نے بیع سلم میں رہن کا ذکر کیا، تو انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے اسود نے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی سے غلہ ایک خاص مدت (کے قرض پر) خریدا، اور اپنی لوہے کی زرہ اس کے پاس رہن رکھ دی۔

【3】

باب: جو شخص لوگوں کا مال ادا کرنے کی نیت سے لے اور جو ہضم کرنے کی نیت سے لے۔

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ثور بن زید نے، ان سے ابوغیث نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کر دے گا۔

【4】

باب: قرضوں کا ادا کرنا۔

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوشہاب نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے ابوذر (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا۔ آپ ﷺ نے جب دیکھا، آپ کی مراد احد پہاڑ (کو دیکھنے) سے تھی۔ تو فرمایا کہ میں یہ بھی پسند نہیں کروں گا کہ احد پہاڑ سونے کا ہوجائے تو اس میں سے میرے پاس ایک دینار کے برابر بھی تین دن سے زیادہ باقی رہے۔ سوا اس دینار کے جو میں کسی کا قرض ادا کرنے کے لیے رکھ لوں۔ پھر فرمایا، (دنیا میں) دیکھو جو زیادہ (مال) والے ہیں وہی محتاج ہیں۔ سوا ان کے جو اپنے مال و دولت کو یوں اور یوں خرچ کریں۔ ابوشہاب راوی نے اپنے سامنے اور دائیں طرف اور بائیں طرف اشارہ کیا، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا یہیں ٹھہرے رہو اور آپ ﷺ تھوڑی دور آگے کی طرف بڑھے۔ میں نے کچھ آواز سنی (جیسے آپ ﷺ کسی سے باتیں کر رہے ہوں) میں نے چاہا کہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں۔ لیکن آپ ﷺ کا یہ فرمان یاد آیا کہ یہیں اس وقت تک ٹھہرے رہنا جب تک میں نہ آجاؤں اس کے بعد جب آپ ﷺ تشریف لائے تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! ابھی میں نے کچھ سنا تھا۔ یا (راوی نے یہ کہا کہ) میں نے کوئی آواز سنی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا، تم نے بھی سنا ! میں نے عرض کیا کہ ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے تھے اور کہہ گئے ہیں کہ تمہاری امت کا جو شخص بھی اس حالت میں مرے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ میں نے پوچھا کہ اگرچہ وہ اس طرح (کے گناہ) کرتا رہا ہو۔ تو آپ ﷺ نے کہا کہ ہاں۔

【5】

باب: قرضوں کا ادا کرنا۔

ہم سے احمد بن شبیب بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے یونس نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تب بھی مجھے یہ پسند نہیں کہ تین دن گزر جائیں اور اس (سونے) کا کوئی حصہ میرے پاس رہ جائے۔ سوا اس کے جو میں کسی قرض کے دینے کے لیے رکھ چھوڑوں۔ اس کی روایت صالح اور عقیل نے زہری سے کی ہے۔

【6】

باب: اونٹ قرض لینا۔

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں سلمہ بن کہیل نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابوسلمہ سے سنا، وہ ہمارے گھر میں ابوہریرہ (رض) سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے قرض کا تقاضا کیا اور سخت سست کہا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کو سزا دینی چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے کہنے دو ۔ صاحب حق کے لیے کہنے کا حق ہوتا ہے اور اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو ۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اس کے اونٹ سے (جو اس نے آپ کو قرض دیا تھا) اچھی عمر ہی کا اونٹ مل رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہی خرید کے اسے دے دو ۔ کیونکہ تم میں اچھا وہی ہے جو قرض ادا کرنے میں سب سے اچھا ہو۔ (حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے )

【7】

باب: تقاضے میں نرمی کرنا۔

ہم سے مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک نے، ان سے ربعی بن حراش نے اور ان سے حذیفہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص کا انتقال ہوا (قبر میں) اس سے سوال ہوا، تمہارے پاس کوئی نیکی ہے ؟ اس نے کہا کہ میں لوگوں سے خریدو فروخت کرتا تھا۔ (اور جب کسی پر میرا قرض ہوتا) تو میں مالداروں کو مہلت دیا کرتا تھا اور تنگ دستوں کے قرض کو معاف کردیا کرتا تھا اس پر اس کی بخشش ہوگئی۔ ابومسعود (رض) نے بیان کیا کہ میں نے یہی نبی کریم ﷺ سے سنا ہے۔

【8】

باب: کیا بدلہ میں قرض والے اونٹ سے زیادہ عمر والا اونٹ دیا جا سکتا ہے؟

ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ قطان نے، ان سے سفیان ثوری نے کہ مجھ سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ سے اپنا قرض کا اونٹ مانگنے آیا۔ تو آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اسے اس کا اونٹ دے دو ۔ صحابہ نے عرض کیا کہ قرض خواہ کے اونٹ سے اچھی عمر کا ہی اونٹ مل رہا ہے۔ اس پر اس شخص (قرض خواہ) نے کہا مجھے تم نے میرا پورا حق دیا۔ تمہیں اللہ تمہارا حق پورا پورا دے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے وہی اونٹ دے دو کیونکہ بہترین شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ بہتر طریقہ پر اپنا قرض ادا کرتا ہو۔

【9】

باب: قرض اچھی طرح سے ادا کرنا۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ پر ایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ شخص آپ ﷺ سے تقاضا کرنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے اونٹ دے دو ۔ صحابہ نے تلاش کیا لیکن ایسا ہی اونٹ مل سکا جو قرض خواہ کے اونٹ سے اچھی عمر کا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہی دے دو ۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ آپ نے مجھے میرا حق پوری طرح دیا اللہ آپ کو بھی اس کا بدلہ پورا پورا دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں بہتر آدمی وہ ہے جو قرض ادا کرنے میں بھی سب سے بہتر ہو۔

【10】

باب: قرض اچھی طرح سے ادا کرنا۔

ہم سے خلاد نے بیان کیا، ان سے مسعر نے بیان کیا، ان سے محارب بن دثار نے بیان کیا، اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ مسجد نبوی میں تشریف رکھتے تھے۔ مسعر نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے چاشت کے وقت کا ذکر کیا۔ (کہ اس وقت خدمت نبوی میں حاضر ہوا) پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ دو رکعت نماز پڑھ لو۔ میرا آپ ﷺ پر قرض تھا۔ آپ ﷺ نے اسے ادا کیا، بلکہ زیادہ بھی دے دیا۔

【11】

باب: اگر مقروض قرض خواہ کے حق میں کم ادا کرے۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے بیان کیا، ان سے کعب بن مالک نے بیان کیا، اور انہیں جابر بن عبداللہ (رض) نے خبر دی کہ ان کے والد (عبداللہ رضی اللہ عنہ) احد کے دن شہید کردیئے گئے تھے۔ ان پر قرض چلا آ رہا تھا۔ قرض خواہوں نے اپنے حق کے مطالبے میں سختی اختیار کی تو میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرما لیا کہ وہ میرے باغ کی کھجور لے لیں۔ اور میرے والد کو معاف کردیں۔ لیکن قرض خواہوں نے اس سے انکار کیا تو نبی کریم ﷺ نے انہیں میرے باغ کا میوہ نہیں دیا۔ اور فرمایا کہ ہم صبح کو تمہارے باغ میں آئیں گے۔ چناچہ جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ ہمارے باغ میں تشریف لائے۔ آپ ﷺ درختوں میں پھرتے رہے۔ اور اس کے میوے میں برکت کی دعا فرماتے رہے۔ پھر میں نے کھجور توڑی اور ان کا تمام قرض ادا کرنے کے بعد بھی کھجور باقی بچ گئی۔

【12】

باب: اگر قرض ادا کرتے وقت کھجور کے بدل اتنی ہی کھجور یا اور کوئی میوہ یا اناج کے بدل برابر ناپ تول کر یا اندازہ کر کے دے تو درست ہے۔

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے کہا کہ ہم سے انس نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے وہب بن کیسان نے اور انہیں جابر بن عبداللہ (رض) نے خبر دی کہ جب ان کے والد شہید ہوئے تو ایک یہودی کا تیس وسق قرض اپنے اوپر چھوڑ گئے۔ جابر (رض) نے اس سے مہلت مانگی، لیکن وہ نہیں مانا۔ پھر جابر (رض) آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ ﷺ اس یہودی (ابوشحم) سے (مہلت دینے کی) سفارش کریں۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور یہودی سے یہ فرمایا کہ جابر (رض) کے باغ کے پھل (جو بھی ہوں) اس قرض کے بدلے میں لے لے۔ جو ان کے والد کے اوپر اس کا ہے، اس نے اس سے بھی انکار کیا۔ اب رسول اللہ ﷺ باغ میں داخل ہوئے اور اس میں چلتے رہے پھر جابر (رض) سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ باغ کا پھل توڑ کے اس کا قرض ادا کرو۔ جب رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لائے تو انہوں نے باغ کی کھجوریں توڑیں اور یہودی کا تیس وسق ادا کردیا۔ سترہ وسق اس میں سے بچ بھی رہا۔ جابر (رض) آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ کو بھی یہ اطلاع دیں۔ آپ ﷺ اس وقت عصر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ ﷺ فارغ ہوئے تو انہوں نے آپ ﷺ کو اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی خبر ابن خطاب کو بھی کر دو ۔ چناچہ جابر (رض) عمر (رض) کے یہاں گئے۔ عمر (رض) نے فرمایا، میں تو اسی وقت سمجھ گیا تھا جب رسول اللہ ﷺ باغ میں چل رہے تھے کہ اس میں ضرور برکت ہوگئی۔

【13】

باب: قرض سے اللہ کی پناہ مانگنا۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، وہ زہری سے روایت کرتے ہیں (دوسری سند) ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے محمد بن ابی عتیق نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ نے بیان کیا، اور انہیں عائشہ (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں دعا کرتے تو یہ بھی کہتے اے اللہ ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ قرض سے اتنی پناہ مانگتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ جب آدمی مقروض ہوتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

【14】

باب: قرض دار کی نماز جنازہ کا بیان۔

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص (اپنے انتقال کے وقت) مال چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے اور جو قرض چھوڑے تو وہ ہمارے ذمہ ہے۔

【15】

باب: قرض دار کی نماز جنازہ کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعامر نے بیان کیا، ان سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ہر مومن کا میں دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ قریب ہوں۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو النبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم‏ نبی ( ﷺ ) مومنوں سے ان کی جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اس لیے جو مومن بھی انتقال کر جائے اور مال چھوڑ جائے تو چاہیے کہ ورثاء اس کے مالک ہوں۔ وہ جو بھی ہوں اور جو شخص قرض چھوڑ جائے یا اولاد چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آجائیں کہ ان کا ولی میں ہوں۔

【16】

باب: ادائیگی میں مالدار کی طرف سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام بن منبہ، وہب بن منبہ کے بھائی نے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مالدار کی طرف سے (قرض کی ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔

【17】

باب: جس شخص کا حق نکلتا ہو وہ تقاضا کر سکتا ہے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سلمہ نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص قرض مانگنے اور سخت تقاضا کرنے لگا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کی گوشمالی کرنی چاہی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو ، حقدار ایسی باتیں کہہ سکتا ہے۔

【18】

باب: اگر بیع یا قرض یا امانت کا مال بجنسہ دیوالیہ شخص کے پاس مل جائے تو جس کا وہ مال ہے دوسرے قرض خواہوں سے زیادہ اس کا حقدار ہو گا۔

باب : اگر کوئی مالدار ہو کر کل پرسوں تک قرض ادا کرنے کا وعدہ کرے تو یہ ٹال مٹول کرنا نہیں سمجھا جائے گا اور جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ میرے والد کے قرض کے سلسلے میں قرض خواہوں نے اپنا حق مانگنے میں شدت اختیار کی تو نبی کریم ﷺ نے ان کے سامنے یہ صورت رکھی کہ وہ میرے باغ کا میوہ قبول کرلیں۔ انہوں نے اس سے انکار کیا، اس لیے نبی کریم ﷺ نے باغ نہیں دیا اور نہ پھل توڑوائے بلکہ فرمایا کہ میں تمہارے پاس کل آؤں گا۔ چناچہ دوسرے دن صبح ہی آپ ﷺ ہمارے یہاں تشریف لائے اور پھلوں میں برکت کی دعا فرمائی۔ اور میں نے (اسی باغ سے) ان سب کا قرض ادا کردیا۔

【19】

باب: دیوالیہ یا محتاج کا مال بیج کر قرض خواہوں کو بانٹ دینا یا خود اس کو ہی دے دینا کہ اپنی ذات پر خرچ کرے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے حسین معلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا، اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک شخص نے اپنا ایک غلام اپنی موت کے ساتھ آزاد کرنے کے لیے کہا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے ؟ نعیم بن عبداللہ نے اسے خرید لیا اور آپ ﷺ نے اس کی قیمت (آٹھ سو درہم) وصول کر کے اس کے مالک کو دے دی۔

【20】

باب: ایک معین مدت کے وعدہ پر قرض دینا یا بیع کرنا۔

باب : ایک معین مدت کے وعدہ پر قرض دینا یا بیع کرنا اور ابن عمر (رض) نے کہا کہ کسی مدت معین تک کے لیے قرض میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ اس کے درہموں سے زیادہ کھرے درہم اسے ملیں۔ لیکن اس صورت میں جب کہ اس کی شرط نہ لگائی ہو۔ عطاء اور عمرو بن دینار نے کہا کہ قرض میں، قرض لینے والا اپنی مقررہ مدت کا پابند ہوگا۔ لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے کسی اسرائیلی شخص کا تذکرہ فرمایا جس نے دوسرے اسرائیلی شخص سے قرض مانگا تھا اور اس نے ایک مقررہ مدت کے لیے اسے قرض دے دیا۔ (جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے) ۔

【21】

باب: قرض میں کمی کی سفارش کرنا۔

ہم سے موسیٰ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ نے، ان سے عامر نے، اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ (میرے والد) عبداللہ (رض) شہید ہوئے تو اپنے پیچھے بال بچے اور قرض چھوڑ گئے۔ میں قرض خواہوں کے پاس گیا کہ اپنا کچھ قرض معاف کردیں، لیکن انہوں نے انکار کیا، پھر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ سے ان کی سفارش کروائی۔ انہوں نے اس کے باوجود بھی انکار کیا۔ آخر آپ ﷺ نے فرمایا کہ (اپنے باغ کی) تمام کھجور کی قسمیں الگ الگ کرلو۔ عذق بن زید الگ، لین الگ، اور عجوہ الگ (یہ سب عمدہ قسم کی کھجوروں کے نام ہیں) اس کے بعد قرض خواہوں کو بلاؤ اور میں بھی آؤں گا۔ چناچہ میں نے ایسا کردیا۔ جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو آپ ﷺ ان کے ڈھیر پر بیٹھ گئے۔ اور ہر قرض خواہ کے لیے ماپ شروع کردی۔ یہاں تک کہ سب کا قرض پورا ہوگیا اور کھجور اسی طرح باقی بچ رہی جیسے پہلے تھی۔ گویا کسی نے اسے چھوا تک نہیں۔ اور ایک مرتبہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک جہاد میں ایک اونٹ پر سوار ہو کر گیا۔ اونٹ تھک گیا۔ اس لیے میں لوگوں سے پیچھے رہ گیا۔ اتنے میں نبی کریم ﷺ نے اسے پیچھے سے مارا اور فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے بیچ دو ۔ مدینہ تک اس پر سواری کی تمہیں اجازت ہے۔ پھر جب ہم مدینہ سے قریب ہوئے تو میں نے نبی کریم ﷺ سے اجازت چاہی، عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے ابھی نئی شادی کی ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، کنواری سے کی ہے یا بیوہ سے ؟ میں نے کہا کہ بیوہ سے۔ میرے والد عبداللہ (رض) شہید ہوئے تو اپنے پیچھے کئی چھوٹی بچیاں چھوڑ گئے ہیں۔ اس لیے میں نے بیوہ سے کی تاکہ انہیں تعلیم دے اور ادب سکھاتی رہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا، اچھا اب اپنے گھر جاؤ۔ چناچہ میں گھر گیا۔ میں نے جب اپنے ماموں سے اونٹ بیچنے کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے ملامت کی۔ اس لیے میں نے ان سے اونٹ کے تھک جانے اور نبی کریم ﷺ کے واقعہ کا بھی ذکر کیا۔ اور آپ ﷺ کے اونٹ کو مارنے کا بھی۔ جب نبی کریم ﷺ مدینہ پہنچے تو میں بھی صبح کے وقت اونٹ لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے مجھے اونٹ کی قیمت بھی دے دی، اور وہ اونٹ بھی مجھے واپس بخش دیا اور قوم کے ساتھ میرا (مال غنیمت کا) حصہ بھی مجھ کو بخش دیا۔

【22】

باب: مال کو تباہ کرنا یعنی بے جا اسراف منع ہے۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے عمر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے ایک شخص نے عرض کیا کہ خریدو فروخت میں مجھے دھوکا دے دیا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب خریدو فروخت کیا کرو، تو کہہ دیا کر کہ کوئی دھوکا نہ ہو۔ چناچہ پھر وہ شخص اسی طرح کہا کرتا تھا۔

【23】

باب: مال کو تباہ کرنا یعنی بے جا اسراف منع ہے۔

ہم سے عثمان بن ابی شبیہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے شعبی نے، ان سے مغیرہ بن شعبہ کے غلام وراد نے اور ان سے مغیرہ بن شعبہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں (اور باپ) کی نافرمانی لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا، (واجب حقوق کی) ادائیگی نہ کرنا اور (دوسروں کا مال ناجائز طریقہ پر) دبا لینا حرام قرار دیا ہے۔ اور فضول بکواس کرنے اور کثرت سے سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

【24】

باب: غلام اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اس کی اجازت کے بغیر اس میں کوئی تصرف نہ کرے۔

ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا انہیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا، تم میں سے ہر فرد ایک طرح کا حاکم ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔ پس بادشاہ حاکم ہی ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔ ہر انسان اپنے گھر کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ سب میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مرد اپنے والد کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔