23. روزے کا بیان

【1】

باب: رمضان کے روزوں کی فرضیت کا بیان۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ابوسہیل نے، ان سے ان کے والد مالک نے اور ان سے طلحہ بن عبیداللہ (رض) نے کہ ایک اعرابی پریشان حال بال بکھرے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے پوچھا : یا رسول اللہ ! بتائیے مجھ پر اللہ تعالیٰ نے کتنی نمازیں فرض کی ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پانچ نمازیں، یہ اور بات ہے کہ تم اپنی طرف سے نفل پڑھ لو، پھر اس نے کہا بتائیے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر روزے کتنے فرض کئے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے مہینے کے، یہ اور بات ہے کہ تم خود اپنے طور پر کچھ نفلی روزے اور بھی رکھ لو، پھر اس نے پوچھا اور بتائیے زکوٰۃ کس طرح مجھ پر اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہے ؟ آپ ﷺ نے اسے شرع اسلام کی باتیں بتادیں۔ جب اس اعرابی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو عزت دی نہ میں اس میں اس سے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فرض کردیا ہے کچھ بڑھاؤں گا اور نہ گھٹاؤں گا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ مراد کو پہنچایا (آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ) اگر سچ کہا ہے تو جنت میں جائے گا۔

【2】

باب: رمضان کے روزوں کی فرضیت کا بیان۔

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھا تھا اور آپ ﷺ نے اس کے رکھنے کا صحابہ رضی اللہ عنہم کو ابتداء اسلام میں حکم دیا تھا، جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو عاشورہ کا روزہ بطور فرض چھوڑ دیا گیا، عبداللہ بن عمر (رض) عاشورہ کے دن روزہ نہ رکھتے مگر جب ان کے روزے کا دن ہی یوم عاشورہ آن پڑتا۔

【3】

باب: رمضان کے روزوں کی فرضیت کا بیان۔

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے اور ان سے عراک بن مالک نے بیان کیا، انہیں عروہ نے خبر دی کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے فرمایا قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن روزہ کا حکم دیا یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے یوم عاشورہ کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔

【4】

باب: روزہ کی فضیلت کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہیے کہ میں روزہ دار ہوں، (یہ الفاظ) دو مرتبہ (کہہ دے) اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے، (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔

【5】

باب: روزہ گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے جامع بن راشد نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے اور ان سے حذیفہ (رض) نے کہ عمر (رض) نے پوچھا فتنہ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی حدیث کسی کو یاد ہے ؟ حذیفہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے سنا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ انسان کے لیے اس کے بال بچے، اس کا مال اور اس کے پڑوسی فتنہ (آزمائش و امتحان) ہیں جس کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ بن جاتا ہے۔ عمر (رض) نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا میری مراد تو اس فتنہ سے ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح امنڈ آئے گا۔ اس پر حذیفہ (رض) نے کہا کہ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ (یعنی آپ کے دور میں وہ فتنہ شروع نہیں ہوگا) عمر (رض) نے پوچھا وہ دروازہ کھل جائے گا یا توڑ دیا جائے گا ؟ حذیفہ (رض) نے بتایا کہ توڑ دیا جائے گا۔ عمر (رض) نے فرمایا کہ پھر تو قیامت تک کبھی بند نہ ہو پائے گا۔ ہم نے مسروق سے کہا آپ حذیفہ (رض) سے پوچھئے کہ کیا عمر (رض) کو معلوم تھا کہ وہ دروازہ کون ہے، چناچہ مسروق نے پوچھا تو آپ (رض) نے فرمایا ہاں ! بالکل اس طرح (انہیں علم تھا) جیسے رات کے بعد دن کے آنے کا علم ہوتا ہے۔

【6】

باب: روزہ داروں کے لیے ریان (نامی ایک دروازہ جنت میں بنایا گیا ہے اس کی تفصیل کا بیان)۔

ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم سلمہ ابن دینار نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہوگا، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہے ؟ وہ کھڑے ہوجائیں گے ان کے سوا اس سے اور کوئی نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا پھر اس سے کوئی اندر نہ جاسکے گا۔

【7】

باب: روزہ داروں کے لیے ریان (نامی ایک دروازہ جنت میں بنایا گیا ہے اس کی تفصیل کا بیان)۔

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے معین بن عیسیٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرے گا اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے کہ اے اللہ کے بندے ! یہ دروازہ اچھا ہے پھر جو شخص نمازی ہوگا اسے نماز کے دروازہ سے بلایا جائے گا جو مجاہد ہوگا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے جو روزہ دار ہوگا اسے باب الريان سے بلایا جائے گا اور جو زکوٰۃ ادا کرنے والا ہوگا اسے زکوٰۃ کے دروازہ سے بلایا جائے گا۔ اس پر ابوبکر (رض) نے پوچھا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہوں یا رسول اللہ ﷺ ! جو لوگ ان دروازوں (میں سے کسی ایک دروازہ) سے بلائے جائیں گے مجھے ان سے بحث نہیں، آپ یہ فرمائیں کہ کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے۔

【8】

باب: رمضان کہا جائے یا ماہ رمضان؟ اور جن کے نزدیک دونوں لفظوں کی گنجائش ہے۔

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ابوسہل نافع بن مالک نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔

【9】

باب: رمضان کہا جائے یا ماہ رمضان؟ اور جن کے نزدیک دونوں لفظوں کی گنجائش ہے۔

مجھ سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا کہ مجھے بنو تمیم کے مولیٰ ابوسہیل بن ابی انس نے خبر دی، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔

【10】

باب: رمضان کہا جائے یا ماہ رمضان؟ اور جن کے نزدیک دونوں لفظوں کی گنجائش ہے۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے سالم نے خبر دی کہ ابن عمر (رض) نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان کا چاند دیکھو تو روزہ شروع کر دو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو روزہ افطار کر دو اور اگر ابر ہو تو اندازہ سے کام کرو۔ (یعنی تیس روزے پورے کرلو) اور بعض نے لیث سے بیان کیا کہ مجھ سے عقیل اور یونس نے بیان کیا کہ رمضان کا چاند مراد ہے۔

【11】

باب: جو شخص رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت کر کے رکھے اس کا ثواب۔

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔

【12】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں سب سے زیادہ سخاوت کیا کرتے تھے۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہیں ابن شہاب نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا نبی کریم ﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ ﷺ کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ سے رمضان میں ملتے، جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریم ﷺ جبرائیل (علیہ السلام) سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ سے ملنے لگتے تو آپ ﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہوجایا کرتے تھے۔

【13】

باب: جو شخص رمضان میں جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا نہ چھوڑے۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ان کے والد کیسان نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔

【14】

باب: کوئی روزہ دار کو اگر گالی دے تو اسے یہ کہنا چاہئے کہ میں روزہ سے ہوں؟

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے کہا کہ مجھے عطاء نے خبر دی، انہیں ابوصالح (جو روغن زیتون اور گھی بیچتے تھے) نے انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اللہ پاک فرماتا ہے کہ انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ گناہوں کی ایک ڈھال ہے، اگر کوئی روزے سے ہو تو اسے فحش گوئی نہ کرنی چاہیے اور نہ شور مچائے، اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہیے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ﷺ ) کی جان ہے ! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے، روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی (ایک تو جب) وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسرے) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پا کر خوش ہوگا۔

【15】

باب: جو کنوارا ہو اور زنا سے ڈرے تو وہ روزہ رکھے۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے ان سے علقمہ نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ جا رہا تھا۔ آپ نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی صاحب طاقت ہو تو اسے نکاح کرلینا چاہیے کیونکہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو بدفعلی سے محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے اور کسی میں نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے روزے رکھنے چاہئیں کیونکہ وہ اس کی شہوت کو ختم کردیتا ہے۔

【16】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جب تم (رمضان کا) چاند دیکھو تو روزے رکھو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو روزے رکھنا چھوڑ دو۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کا ذکر کیا تو فرمایا کہ جب تک چاند نہ دیکھو روزہ شروع نہ کرو، اسی طرح جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ موقوف نہ کرو اور اگر بادل چھا جائے تو تیس دن پورے کرلو۔

【17】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جب تم (رمضان کا) چاند دیکھو تو روزے رکھو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو روزے رکھنا چھوڑ دو۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک نے ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مہینہ کبھی انتیس راتوں کا بھی ہوتا ہے اس لیے (انتیس پورے ہوجانے پر) جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ شروع کرو اور اگر بادل ہوجائے تو تیس دن کا شمار پورا کرلو۔

【18】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جب تم (رمضان کا) چاند دیکھو تو روزے رکھو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو روزے رکھنا چھوڑ دو۔

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے جبلہ بن سحیم نے بیان کیا، کہ میں نے ابن عمر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مہینہ اتنے دنوں اور اتنے دنوں کا ہوتا ہے۔ تیسری مرتبہ کہتے ہوئے آپ ﷺ نے انگھوٹھے کو دبا لیا۔

【19】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جب تم (رمضان کا) چاند دیکھو تو روزے رکھو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو روزے رکھنا چھوڑ دو۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن زیاد نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، یا یوں کہا کہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا چاند ہی دیکھ کر روزے شروع کرو اور چاند ہی دیکھ کر روزہ موقوف کرو اور اگر بادل ہوجائے تو تیس دن پورے کرلو۔

【20】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جب تم (رمضان کا) چاند دیکھو تو روزے رکھو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو روزے رکھنا چھوڑ دو۔

ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی نے، ان سے عکرمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ام سلمہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ اپنی ازواج سے ایک مہینہ تک جدا رہے پھر انتیس دن پورے ہوگئے تو صبح کے وقت یا شام کے وقت آپ ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اس پر کسی نے کہا آپ نے تو عہد کیا تھا کہ آپ ﷺ ایک مہینہ تک ان کے یہاں تشریف نہیں لے جائیں گے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔

【21】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جب تم (رمضان کا) چاند دیکھو تو روزے رکھو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو روزے رکھنا چھوڑ دو۔

ہم سے عبدالعزیزبن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، ان سے حمید نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں سے جدا رہے تھے، آپ ﷺ کے پاؤں میں موچ آگئی تھی تو آپ ﷺ نے بالاخانہ میں انتیس دن قیام کیا تھا، پھر وہاں سے اترے۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے ایک مہینہ کا ایلاء کیا تھا۔ جواب میں آپ نے فرمایا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔

【22】

باب: عید کے دونوں مہینے کم نہیں ہوتے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اسحاق سے سنا، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ (رض) سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور مجھے مسدد نے خبر دی، ان سے معتمر نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے بیان کیا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ (رض) نے خبر دی اور انہیں ان کے والد نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دونوں مہینے ناقص نہیں رہتے۔ مراد رمضان اور ذی الحجہ کے دونوں مہینے ہیں۔

【23】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ہم لوگ حساب کتاب نہیں جانتے۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے بیان کیا، ان سے سعید بن عمرو نے بیان کیا اور انہوں نے ابن عمر (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ہم ایک بےپڑھی لکھی قوم ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں نہ حساب کرنا۔ مہینہ یوں ہے اور یوں ہے۔ آپ کی مرد ایک مرتبہ انتیس (دنوں سے) تھی اور ایک مرتبہ تیس سے۔ (آپ ﷺ نے دسوں انگلیوں سے تین بار بتلایا) ۔

【24】

باب: رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزے نہ رکھے جائیں۔

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص رمضان سے پہلے (شعبان کی آخری تاریخوں میں) ایک یا دو دن کے روزے نہ رکھے البتہ اگر کسی کو ان میں روزے رکھنے کی عادت ہو تو وہ اس دن بھی روزہ رکھ لے۔

【25】

باب: اللہ عزوجل کا فرمانا کہ حلال کر دیا گیا ہے تمہارے لیے رمضان کا راتوں میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو، اللہ نے معلوم کیا کہ تم چوری سے ایسا کرتے تھے، سو معاف کر دیا تم کو اور درگزر کی تم سے پس اب صحبت کرو ان سے اور ڈھونڈو جو لکھ دیا اللہ تعالیٰ نے تمہاری قسمت میں (اولاد سے)۔

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء (رض) نے بیان کیا کہ (شروع اسلام میں) محمد ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم جب روزہ سے ہوتے اور افطار کا وقت آتا تو کوئی روزہ دار اگر افطار سے پہلے بھی سو جاتا تو پھر اس رات میں بھی اور آنے والے دن میں بھی انہیں کھانے پینے کی اجازت نہیں تھی تاآنکہ پھر شام ہوجاتی، پھر ایسا ہوا کہ قیس بن صرمہ انصاری (رض) بھی روزے سے تھے جب افطار کا وقت ہوا تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے ؟ انہوں نے کہا (اس وقت کچھ) نہیں ہے لیکن میں جاتی ہوں کہیں سے لاؤں گی، دن بھر انہوں نے کام کیا تھا اس لیے آنکھ لگ گئی جب بیوی واپس ہوئیں اور انہیں (سوتے ہوئے) دیکھا تو فرمایا افسوس تم محروم ہی رہے، لیکن دوسرے دن وہ دوپہر کو بیہوش ہوگئے جب اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی حلال کردیا گیا تمہارے لیے رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا اس پر صحابہ رضی اللہ عنہم بہت خوش ہوئے اور یہ آیت نازل ہوئی کھاؤ پیو یہاں تک کہ ممتاز ہوجائے تمہارے لیے صبح کی سفید دھاری (صبح صادق) سیاہ دھاری (صبح کاذب ) سے۔

【26】

باب: (سورۃ البقرہ میں) اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ سحری کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ کھل جائے تمہارے لیے صبح کی سفید دھاری (صبح صادق) سیاہ دھاری (یعنی صبح کاذب) سے پھر پورے کرو اپنے روزے سورج چھپنے تک۔

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا کہ مجھے حصین بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، اور ان سے شعبی نے، ان سے عدی بن حاتم (رض) نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تاآنکہ کھل جائے تمہارے لیے سفید دھاری سیاہ دھاری سے۔ تو میں نے ایک سیاہ دھاگہ لیا اور ایک سفید اور دنوں کو تکیہ کے نیچے رکھ لیا اور رات میں دیکھتا رہا مجھ پر ان کے رنگ نہ کھلے، جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے تو رات کی تاریکی (صبح کاذب) اور دن کی سفیدی (صبح صادق) مراد ہے۔

【27】

باب: (سورۃ البقرہ میں) اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ سحری کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ کھل جائے تمہارے لیے صبح کی سفید دھاری (صبح صادق) سیاہ دھاری (یعنی صبح کاذب) سے پھر پورے کرو اپنے روزے سورج چھپنے تک۔

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے سہل بن سعد نے (دوسری سند امام بخاری (رح) نے کہا) اور مجھ سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، ان سے ابوغسان محمد بن مطرف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ آیت نازل ہوئی کھاؤ پیو یہاں تک کہ تمہارے لیے سفید دھاری، سیاہ دھاری سے کھل جائے لیکن من الفجر (صبح کی) کے الفاظ نازل نہیں ہوئے تھے۔ اس پر کچھ لوگوں نے یہ کہا کہ جب روزے کا ارادہ ہوتا تو سیاہ اور سفید دھاگہ لے کر پاؤں میں باندھ لیتے اور جب تک دونوں دھاگے پوری طرح دکھائی نہ دینے لگتے، کھانا پینا بند نہ کرتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے من الفجر کے الفاظ نازل فرمائے پھر لوگوں کو معلوم ہوا کہ اس سے مراد رات اور دن ہیں۔

【28】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روکے۔

ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے اور (عبیداللہ بن عمر (رض) نے یہی روایت) قاسم بن محمد سے اور انہوں نے عائشہ (رض) سے کہ بلال (رض) کچھ رات رہے سے اذان دے دیا کرتے تھے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک ابن ام مکتوم (رض) اذان نہ دیں تم کھاتے پیتے رہو کیونکہ وہ صبح صادق کے طلوع سے پہلے اذان نہیں دیتے۔ قاسم نے بیان کیا کہ دونوں (بلال اور ام مکتوم رضی اللہ عنہما) کی اذان کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا تھا کہ ایک چڑھتے تو دوسرے اترتے۔

【29】

None

بلال رضی اللہ عنہ کچھ رات رہے سے اذان دے دیا کرتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان نہ دیں تم کھاتے پیتے رہو کیونکہ وہ صبح صادق کے طلوع سے پہلے اذان نہیں دیتے۔ قاسم نے بیان کیا کہ دونوں ( بلال اور ام مکتوم رضی اللہ عنہما ) کی اذان کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا تھا کہ ایک چڑھتے تو دوسرے اترتے۔

【30】

باب: سحری کھانے میں دیر کرنا۔

ہم سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ میں سحری اپنے گھر کھاتا پھر جلدی کرتا تاکہ نماز نبی کریم ﷺ کے ساتھ مل جائے۔

【31】

باب: سحری اور فجر کی نماز میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا۔

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس (رض) نے اور ان سے زید بن ثابت (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہم نے سحری کھائی، پھر آپ ﷺ صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں (پڑھنے) کے موافق فاصلہ ہوتا تھا۔

【32】

باب: سحری کھانا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم وصال رکھا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی رکھا لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے دشواری ہوگئی۔ اس لیے آپ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا، صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس پر عرض کی کہ آپ ﷺ صوم وصال رکھتے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ میں تو برابر کھلایا اور پلایا جاتا ہوں۔

【33】

باب: سحری کھانا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، سحری کھاؤ کہ سحری میں برکت ہوتی ہے۔

【34】

باب: اگر کوئی شخص روزے کی نیت دن میں کرے تو درست ہے۔

ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع نے کہ نبی کریم ﷺ نے عاشورہ کے دن ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ جس نے کھانا کھالیا وہ اب (دن ڈوبنے تک روزہ کی حالت میں) پورا کرے یا (یہ فرمایا کہ) روزہ رکھے اور جس نے نہ کھایا ہو (تو وہ روزہ رکھے) کھانا نہ کھائے۔

【35】

باب: روزہ دار صبح کو جنابت کی حالت میں اٹھے تو کیا حکم ہے۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ کے غلام سمی نے بیان کیا، انہوں نے ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ عائشہ اور ام سلمہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا (دوسری سند امام بخاری (رح) نے کہا کہ) اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام نے خبر دی، انہیں ان کے والد عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں مروان نے خبر دی اور انہیں عائشہ اور ام سلمہ (رض) نے خبر دی کہ (بعض مرتبہ) فجر ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اپنے اہل کے ساتھ جنبی ہوتے تھے، پھر آپ ﷺ غسل کرتے اور آپ ﷺ روزہ سے ہوتے تھے، اور مروان بن حکم نے عبدالرحمٰن بن حارث سے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ابوہریرہ (رض) کو تم یہ حدیث صاف صاف سنا دو ۔ (کیونکہ ابوہریرہ (رض) کا فتوی اس کے خلاف تھا) ان دنوں مروان، امیر معاویہ (رض) کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا، ابوبکر نے کہا کہ عبدالرحمٰن نے اس بات کو پسند نہیں کیا۔ اتفاق سے ہم سب ایک مرتبہ ذو الحلیفہ میں جمع ہوگئے۔ ابوہریرہ (رض) کی وہاں کوئی زمین تھی، عبدالرحمٰن نے ان سے کہا کہ آپ سے ایک بات کہوں گا اور اگر مروان نے اس کی مجھے قسم نہ دی ہوتی تو میں کبھی آپ کے سامنے اسے نہ چھیڑتا۔ پھر انہوں نے عائشہ اور ام سلمہ (رض) کی حدیث ذکر کی۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا (میں کیا کروں) کہا کہ فضل بن عباس (رض) نے یہ حدیث بیان کی تھی (اور وہ زیادہ جاننے والے ہیں) کہ ہمیں ہمام اور عبداللہ بن عمر (رض) کے صاحبزادے نے ابوہریرہ (رض) سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ ایسے شخص کو جو صبح کے وقت جنبی ہونے کی حالت میں اٹھا ہو افطار کا حکم دیتے تھے لیکن عائشہ (رض) اور ام سلمہ (رض) کی یہ روایت زیادہ معتبر ہے۔

【36】

None

میں اپنے باپ کے ساتھ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا ( دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ) اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام نے خبر دی، انہیں ان کے والد عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں مروان نے خبر دی اور انہیں عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ ( بعض مرتبہ ) فجر ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل کے ساتھ جنبی ہوتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے تھے، اور مروان بن حکم نے عبدالرحمٰن بن حارث سے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو تم یہ حدیث صاف صاف سنا دو۔ ( کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتوی اس کے خلاف تھا ) ان دنوں مروان، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا، ابوبکر نے کہا کہ عبدالرحمٰن نے اس بات کو پسند نہیں کیا۔ اتفاق سے ہم سب ایک مرتبہ ذو الحلیفہ میں جمع ہو گئے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہاں کوئی زمین تھی، عبدالرحمٰن نے ان سے کہا کہ آپ سے ایک بات کہوں گا اور اگر مروان نے اس کی مجھے قسم نہ دی ہوتی تو میں کبھی آپ کے سامنے اسے نہ چھیڑتا۔ پھر انہوں نے عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ذکر کی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ( میں کیا کروں ) کہا کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث بیان کی تھی ( اور وہ زیادہ جاننے والے ہیں ) کہ ہمیں ہمام اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کو جو صبح کے وقت جنبی ہونے کی حالت میں اٹھا ہو افطار کا حکم دیتے تھے لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت زیادہ معتبر ہے۔

【37】

باب: روزہ دار کا اپنی بیوی سے مباشرت یعنی بوسہ، مساس وغیرہ درست ہے۔

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے حکم نے، ان سے ابراہیم نے ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ روزہ سے ہوتے لیکن (اپنی ازواج کے ساتھ) يقبل (بوسہ لینا) و مباشرت (اپنے جسم سے لگا لینا) بھی کرلیتے تھے۔ نبی کریم ﷺ تم سب سے زیادہ اپنی خواہشات پر قابو رکھنے والے تھے، بیان کیا کہ ابن عباس (رض) نے کہا کہ (سورۃ طہٰ میں جو مآرب‏ کا لفظ ہے وہ) حاجت و ضرورت کے معنی میں ہے، طاؤس نے کہا کہ لفظ أولي الإربة‏ (جو سورة النور میں ہے) اس احمق کو کہیں گے جسے عورتوں کی کوئی ضرورت نہ ہو۔

【38】

باب: روزہ دار کا روزہ کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لینا۔

ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا کہ مجھے میرے والد عروہ نے خبر دی اور انہیں عائشہ (رض) نے نبی کریم ﷺ کے حوالہ سے (دوسری سند امام بخاری (رح) نے کہا کہ) اور ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک (رح) نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بعض ازواج کا روزہ دار ہونے کے باوجود بوسہ لے لیا کرتے تھے۔ پھر آپ ہنسیں۔

【39】

باب: روزہ دار کا روزہ کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لینا۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعیدقطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن ابی عبداللہ نے، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے، ان سے ام سلمہ (رض) کی بیٹی زینب نے اور ان سے ان کی والدہ (ام سلمہ رضی اللہ عنہا) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک چادر میں (لیٹی ہوئی) تھی کہ مجھے حیض آگیا۔ اس لیے میں چپکے سے نکل آئی اور اپنا حیض کا کپڑا پہن لیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا کیا بات ہوئی ؟ کیا حیض آگیا ہے ؟ میں نے کہا ہاں، پھر میں آپ ﷺ کے ساتھ اسی چادر میں چلی گئی اور ام سلمہ (رض) اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن سے غسل (جنابت) کیا کرتے تھے اور نبی کریم ﷺ روزے سے ہونے کے باوجود ان کا بوسہ لیتے تھے۔

【40】

باب: روزہ دار کا غسل کرنا جائز ہے۔

ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ اور ابوبکر نے کہ عائشہ (رض) نے کہا رمضان میں فجر کے وقت نبی کریم ﷺ احتلام سے نہیں (بلکہ اپنی ازواج کے ساتھ صحبت کرنے کی وجہ سے) غسل کرتے اور روزہ رکھتے تھے۔ (معلوم ہوا کہ غسل جنابت روزہ دار فجر کے بعد کرسکتا ہے) ۔

【41】

باب: روزہ دار کا غسل کرنا جائز ہے۔

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ کے غلام سمی نے، انہوں نے ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میرے باپ عبدالرحمٰن مجھے ساتھ لے کر عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے، عائشہ (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ صبح جنبی ہونے کی حالت میں کرتے احتلام کی وجہ سے نہیں بلکہ جماع کی وجہ سے ! پھر آپ روزے سے رہتے (یعنی غسل فجر کی نماز سے پہلے سحری کا وقت نکل جانے کے بعد کرتے) ۔ اس کے بعد ہم ام سلمہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے اسی طرح حدیث بیان کی۔

【42】

None

اس کے بعد ہم ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے اسی طرح حدیث بیان کی۔

【43】

باب: اگر روزہ دار بھول کر کھا پی لے تو روزہ نہیں جاتا۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا کہ ہمیں یزید بن زریع نے خبر دی، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ابن سیرین نے بیان کیا، کہ ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا کہ کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب کوئی بھول گیا اور کچھ کھا پی لیا تو اسے چاہیے کہ اپنا روزہ پورا کرے۔ کیونکہ اس کو اللہ نے کھلایا اور پلایا۔

【44】

باب: روزہ دار کے لیے تر یا خشک مسواک استعمال کرنی درست ہے۔

باب : نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ جب کوئی وضو کرے تو ناک میں پانی ڈالے اور نبی کریم ﷺ نے روزہ دار اور غیر روزہ دار میں کوئی فرق نہیں کیا اور امام حسن بصری نے کہا کہ ناک میں (دوا وغیرہ) چڑھانے میں اگر وہ حلق تک نہ پہنچے تو کوئی حرج نہیں ہے اور روزہ دار سرمہ بھی لگا سکتا ہے۔ عطاء نے کہا کہ اگر کلی کی اور منہ سے سب پانی نکال دیا تو کوئی نقصان نہیں ہوگا اور اگر وہ اپنا تھوک نہ نگل جائے اور جو اس کے منہ میں (پانی کی تری) رہ گئی اور مصطگی نہ چبانی چاہیے۔ اگر کوئی مصطگی کا تھوک نگل گیا تو میں نہیں کہتا کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا لیکن منع ہے اور اگر کسی نے ناک میں پانی ڈالا اور پانی (غیر اختیاری طور پر) حلق کے اندر چلا گیا تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ یہ چیز اختیار سے باہر تھی۔

【45】

باب: جان بوجھ کر اگر رمضان میں کسی نے جماع کیا؟

ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم نے یزید بن ہارون سے سنا، ان سے یحییٰ نے (جو سعید کے صاحبزادے ہیں) کہا، انہیں عبدالرحمٰن بن قاسم نے خبر دی، انہیں محمد بن جعفر بن زبیر بن عوام بن خویلد نے اور انہیں عباد بن عبداللہ بن زبیر (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے عائشہ (رض) سے سنا، آپ نے کہا کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں دوزخ میں جل چکا۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہوئی ؟ اس نے کہا کہ رمضان میں میں نے (روزے کی حالت میں) اپنی بیوی سے ہمبستری کرلی، تھوڑی دیر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں (کھجور کا) ایک تھیلہ جس کا نام عرق تھا، پیش کیا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ دوزخ میں جلنے والا شخص کہاں ہے ؟ اس نے کہا کہ حاضر ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ لے تو اسے خیرات کر دے۔

【46】

باب: اگر کسی نے رمضان میں قصداً جماع کیا اور اس کے پاس کوئی چیز خیرات کے لیے بھی نہ ہو پھر اس کو کہیں سے خیرات مل جائے تو وہی کفارہ میں دیدے۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں تھے کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ ! میں تو تباہ ہوگیا، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا بات ہوئی ؟ اس نے کہا کہ میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے تم آزاد کرسکو ؟ اس نے کہا نہیں، پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا پے در پے دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو ؟ اس نے عرض کی نہیں، پھر آپ ﷺ نے پوچھا کیا تم کو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی طاقت ہے ؟ اس نے اس کا جواب بھی انکار میں دیا، راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر گئے، ہم بھی اپنی اسی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں ایک بڑا تھیلا (عرق نامی) پیش کیا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ عرق تھیلے کو کہتے ہیں (جسے کھجور کی چھال سے بناتے ہیں) نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ سائل کہاں ہے ؟ اس نے کہا کہ میں حاضر ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا کے اسے لے لو اور صدقہ کر دو ، اس شخص نے کہا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں، بخدا ان دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی بھی گھرانہ میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں ہے، اس پر نبی کریم ﷺ اس طرح ہنس پڑے کہ آپ کے آگے کے دانت دیکھے جاسکے۔ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اچھا جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔

【47】

باب: رمضان میں اپنی بیوی کے ساتھ قصداً ہمبستر ہونے والا شخص کیا کرے؟

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے زہری نے، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یہ بدنصیب رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہے، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ ایک غلام آزاد کرسکو ؟ اس نے کہا کہ نہیں، آپ ﷺ نے پھر دریافت فرمایا کیا تم پے در پے دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو ؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اندر اتنی طاقت ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکو ؟ اب بھی اس کا جواب نفی میں تھا۔ راوی نے بیان کیا پھر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک تھیلا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں عرق زنبیل کو کہتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے لے جا اور اپنی طرف سے (محتاجوں کو) کھلا دے، اس شخص نے کہا میں اپنے سے بھی زیادہ محتاج کو حالانکہ دو میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں آپ نے فرمایا کہ پھر جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔

【48】

باب: روزہ دار کا پچھنا لگوانا اور قے کرنا کیسا ہے۔

ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، ان سے وہیب نے، وہ ایوب سے، وہ عکرمہ سے، وہ ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے احرام میں اور روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا۔

【49】

باب: روزہ دار کا پچھنا لگوانا اور قے کرنا کیسا ہے۔

ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمری نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے روزہ کی حالت میں پچھنا لگوایا۔

【50】

باب: روزہ دار کا پچھنا لگوانا اور قے کرنا کیسا ہے۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ثابت بنانی سے سنا، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا تھا کہ کیا آپ لوگ روزہ کی حالت میں پچھنا لگوانے کو مکروہ سمجھا کرتے تھے ؟ آپ نے جواب دیا کہ نہیں البتہ کمزوری کے خیال سے (روزہ میں نہیں لگواتے تھے) شبابہ نے یہ زیادتی کی ہے کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ (ایسا ہم) نبی کریم ﷺ کے عہد میں (کرتے تھے) ۔

【51】

باب: سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق شیبانی نے، انہوں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے سنا کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے (روزہ کی حالت میں) نبی کریم ﷺ نے ایک صاحب (بلال رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول لے، انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ! ابھی تو سورج باقی ہے، آپ ﷺ نے پھر فرمایا کہ اتر کر ستو گھول لے، اب کی مرتبہ بھی انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ! ابھی سورج باقی ہے لیکن آپ کا حکم اب بھی یہی تھا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول لے، پھر آپ ﷺ نے ایک طرف اشارہ کر کے فرمایا جب تم دیکھو کہ رات یہاں سے شروع ہوچکی ہے تو روزہ دار کو افطار کرلینا چاہیے۔ اس کی متابعت جریر اور ابوبکر بن عیاش نے شیبانی کے واسطہ سے کی ہے اور ان سے ابواوفی (رض) نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھا۔

【52】

باب: سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے باپ عروہ نے بیان کیا، ان سے عائشہ (رض) نے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی (رض) نے عرض کی یا رسول اللہ ! میں سفر میں لگاتار روزہ رکھتا ہوں۔

【53】

باب: سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا۔

( دوسری سند امام بخاری (رح) نے کہا کہ) اور ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی (رض) نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی میں سفر میں روزہ رکھوں ؟ وہ روزے بکثرت رکھا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر جی چاہے تو روزہ رکھ اور جی چاہے افطار کر۔

【54】

باب: جب رمضان میں کچھ روزے رکھ کر کوئی سفر کرے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور انہیں ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ (فتح مکہ کے موقع پر) مکہ کی طرف رمضان میں چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے تھے لیکن جب کدید پہنچے تو روزہ رکھنا چھوڑ دیا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ عسفان اور قدید کے درمیان کدید ایک تالاب ہے۔

【55】

رمضان کے چند روزے رکھ کر سفر کرنے کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمٰن بن یزید بن جابر نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن عبیداللہ نے بیان کیا، اور ان سے ام الدرداء (رض) نے بیان کیا کہ ابودرداء (رض) نے کہا ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر کر رہے تھے۔ دن انتہائی گرم تھا۔ گرمی کا یہ عالم تھا کہ گرمی کی سختی سے لوگ اپنے سروں کو پکڑ لیتے تھے، نبی کریم ﷺ اور ابن رواحہ (رض) کے سوا کوئی شخص روزہ سے نہیں تھا۔

【56】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا اس شخص کے لیے جس پر شدت گرمی کی وجہ سے سایہ کر دیا گیا تھا کہ سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے۔

ہم سے آدم بن ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمٰن انصاری نے بیان کیا، کہا کہ میں نے محمد بن عمرو بن حسن بن علی (رض) سے سنا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر (غزوہ فتح) میں تھے آپ ﷺ نے دیکھا کہ ایک شخص پر لوگوں نے سایہ کر رکھا ہے، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ ایک روزہ دار ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ سفر میں رو زہ رکھنا اچھا کام نہیں ہے۔

【57】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم (سفر میں) روزہ رکھتے یا نہ رکھتے وہ ایک دوسرے پر نکتہ چینی نہیں کیا کرتے تھے۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ (رمضان میں) سفر کیا کرتے تھے۔ (سفر میں بہت سے روزے سے ہوتے اور بہت سے بےروزہ ہوتے) لیکن روزے دار بےروزہ دار پر اور بےروزہ دار روزے دار پر کسی قسم کی عیب جوئی نہیں کیا کرتے تھے۔

【58】

باب: سفر میں لوگوں کو دکھا کر روزہ افطار کر ڈالنا۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سے منصور نے، ان سے مجاہد نے، ان سے طاؤس نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے (غزوہ فتح میں) مدینہ سے مکہ کے لیے سفر شروع کیا تو آپ ﷺ روزہ سے تھے، جب آپ عسفان پہنچے تو پانی منگوایا اور اسے اپنے ہاتھ سے (منہ تک) اٹھایا تاکہ لوگ دیکھ لیں پھر آپ ﷺ نے روزہ چھوڑ دیا یہاں تک کہ مکہ پہنچے۔ ابن عباس (رض) کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے (سفر میں) روزہ رکھا بھی اور نہیں بھی رکھا اس لیے جس کا جی چاہے روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔

【59】

باب: اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ہے۔

ہم سے عیاش نے بیان کیا، ان سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے (آیت مذکور بالا) فديه طعام مسكين پڑھی اور فرمایا یہ منسوخ ہے۔

【60】

باب: رمضان کے قضاء روزے کب رکھے جائیں۔

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ (رض) سے سنا وہ فرماتیں کہ رمضان کا روزہ مجھ سے چھوٹ جاتا۔ شعبان سے پہلے اس کی قضاء کی توفیق نہ ہوتی۔ یحییٰ نے کہا کہ یہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے تھا۔

【61】

باب: حیض والی عورت نہ نماز پڑھے اور نہ روزے رکھے۔

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عیاض نے اور ان سے ابوسعید (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نماز اور روزے نہیں چھوڑ دیتی ؟ یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔

【62】

باب: اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں۔

ہم سے محمد بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن موسیٰ ابن اعین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے عمرو بن حارث نے، ان سے عبیداللہ بن ابی جعفر نے، ان سے محمد بن جعفر نے کہا، ان سے عروہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کے ذمہ روزے واجب ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھ دے، موسیٰ کے ساتھ اس حدیث کو ابن وہب نے بھی عمرو سے روایت کیا اور یحییٰ بن ایوب سختیانی نے بھی ابن ابی جعفر سے۔

【63】

باب: اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں۔

ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم بطین نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ! میری ماں کا انتقال ہوگیا اور ان کے ذمے ایک مہینے کے روزے باقی رہ گئے ہیں۔ کیا میں ان کی طرف سے قضاء رکھ سکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ضرور، اللہ تعالیٰ کا قرض اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے ادا کردیا جائے۔ سلیمان اعمش نے بیان کیا کہ حکم اور سلمہ نے کہا جب مسلم بطین نے یہ حدیث بیان کیا تو ہم سب وہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دونوں حضرات نے فرمایا کہ ہم نے مجاہد سے بھی سنا تھا کہ وہ یہ حدیث ابن عباس (رض) سے بیان کرتے تھے۔ ابوخالد سے روایت ہے کہ اعمش نے بیان کیا ان سے حکم، مسلم بطین اور سلمہ بن کہیل نے، ان سے سعید بن جبیر، عطاء اور مجاہد نے ابن عباس (رض) سے کہ ایک خاتون نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ میری بہن کا انتقال ہوگیا ہے پھر یہی قصہ بیان کیا، یحییٰ اور سعید اور ابومعاویہ نے کہا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے مسلم نے، ان سے سعید نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ ایک خاتون نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے اور عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے زید ابن ابی انیسہ نے، ان سے حکم نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ ایک خاتون نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے اور ان پر نذر کا ایک روزہ واجب تھا اور ابوحریز عبداللہ بن حسین نے بیان کیا، کہا ہم سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ ایک خاتون نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے اور ان پر پندرہ دن کے روزے واجب تھے۔

【64】

باب: روزہ کس وقت افطار کرے؟

ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ میں نے عاصم بن عمر (رض) بن خطاب سے سنا، ان سے ان کے باپ عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جب رات اس طرف (مشرق) سے آئے اور دن ادھر مغرب میں چلا جائے کہ سورج ڈوب جائے تو روزہ کے افطار کا وقت آگیا۔

【65】

باب: روزہ کس وقت افطار کرے؟

ہم سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن شیبانی نے، ان سے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (غزوہ فتح جو رمضان میں ہوا) سفر میں تھے اور نبی کریم ﷺ روزہ سے تھے۔ جب سورج غروب ہوگیا آپ ﷺ نے ایک صحابی (بلال رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ اے فلاں ! میرے لیے اٹھ کے ستو گھول، انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! آپ تھوڑی دیر اور ٹھہرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اتر کر ہمارے لیے ستو گھول، اس پر انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ تھوڑی دیر اور ٹھہرتے نبی کریم ﷺ نے پھر وہی حکم دیا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول لیکن ان کا اب بھی خیال تھا کہ ابھی دن باقی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس مرتبہ پھر فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول چناچہ اترے اور ستو انہوں نے گھول دیا اور رسول اللہ ﷺ نے پیا۔ پھر فرمایا کہ جب تم یہ دیکھ لو کہ رات اس مشرق کی طرف سے آگئی تو روزہ دار کو افطار کرلینا چاہیے۔

【66】

باب: پانی وغیرہ جو چیز بھی پاس ہو اس سے روزہ افطار کر لینا چاہئے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں جا رہے تھے، آپ ﷺ روزے سے تھے، جب سورج غروب ہوا تو آپ نے ایک شخص سے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! تھوڑی دیر اور ٹھہرئیے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول انہوں نے پھر یہی کہا کہ یا رسول اللہ ! ابھی تو دن باقی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اتر کر ستو ہمارے لیے گھول، چناچہ انہوں نے اتر کر ستو گھولا۔ نبی کریم ﷺ نے پھر فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ رات کی تاریکی ادھر سے آگئی تو روزہ دار کو روزہ افطار کرلینا چاہیے۔ آپ ﷺ نے اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔

【67】

باب: روزہ کھولنے میں جلدی کرنا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوحازم سلمہ بن دینار نے، انہیں سہل بن سعد (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میری امت کے لوگوں میں اس وقت تک خیر باقی رہے گی، جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔

【68】

باب: روزہ کھولنے میں جلدی کرنا۔

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، ان سے سلیمان شیبانی نے اور ان سے ابن ابی اوفی (رض) نے کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ آپ ﷺ روزے سے تھے، جب شام ہوئی تو آپ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا کہ (اونٹ سے) اتر کر میرے لیے ستو گھول، اس نے کہا : یا رسول اللہ ! اگر شام ہونے کا کچھ اور انتظار فرمائیں تو بہتر ہو، آپ ﷺ نے فرمایا، اتر کر میرے لیے ستو گھول (وقت ہوگیا ہے) جب تم یہ دیکھ لو کہ رات ادھر مشرق سے آگئی تو روزہ دار کے روزہ کھولنے کا وقت ہوگیا۔

【69】

باب: ایک شخص نے سورج غروب سمجھ کر روزہ کھول لیا اس کے بعد سورج نکل آیا۔

ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے اور ان سے اسماء بنت ابی بکر (رض) نے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں بادل تھا۔ ہم نے جب افطار کرلیا تو سورج نکل آیا۔ اس پر ہشام (راوی حدیث) سے کہا گیا کہ پھر انہیں اس روزے کی قضاء کا حکم ہوا تھا ؟ تو انہوں نے بتلایا کہ قضاء کے سوا اور چارہ کار ہی کیا تھا ؟ اور معمر نے کہا کہ میں نے ہشام سے یوں سنا مجھے معلوم نہیں کہ ان لوگوں نے قضاء کی تھی یا نہیں۔

【70】

باب: بچوں کے روزہ رکھنے کا بیان۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، ان سے خالد بن ذکوان نے بیان کیا، ان سے ربیع بنت معوذ (رض) نے کہا کہ عاشورہ کی صبح نبی کریم ﷺ نے انصار کے محلوں میں کہلا بھیجا کہ صبح جس نے کھا پی لیا ہو وہ دن کا باقی حصہ (روزہ دار کی طرح) پورے کرے اور جس نے کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ روزے سے رہے۔ ربیع نے کہا کہ پھر بعد میں بھی (رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد) ہم اس دن روزہ رکھتے اور اپنے بچوں سے بھی رکھواتے تھے۔ انہیں ہم اون کا ایک کھلونا دے کر بہلائے رکھتے۔ جب کوئی کھانے کے لیے روتا تو وہی دے دیتے، یہاں تک کہ افطار کا وقت آجاتا۔

【71】

باب: پے در پے ملا کر روزہ رکھنا اور جنہوں نے یہ کہا کہ رات میں روزہ نہیں ہو سکتا۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، کہا کہ مجھ سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (بلا سحر و افطار) پے در پے روزے نہ رکھا کرو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ آپ ﷺ تو وصال کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ مجھے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) کھلایا اور پلایا جاتا ہے یا (آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ) میں اس طرح رات گزارتا ہوں کہ مجھے کھلایا اور پلایا جاتا رہتا ہے۔

【72】

باب: پے در پے ملا کر روزہ رکھنا اور جنہوں نے یہ کہا کہ رات میں روزہ نہیں ہو سکتا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے صوم وصال سے منع فرمایا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ آپ تو وصال کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں، مجھے تو کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔

【73】

باب: پے در پے ملا کر روزہ رکھنا اور جنہوں نے یہ کہا کہ رات میں روزہ نہیں ہو سکتا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یزید بن ہاد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن خباب نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا مسلسل (بلاسحری و افطاری) روزے نہ رکھو، ہاں اگر کوئی ایسا کرنا ہی چاہے تو وہ سحری کے وقت تک ایسا کرسکتا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی یا رسول اللہ ! آپ تو ایسا کرتے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ میں تو رات اس طرح گزارتا ہوں کہ ایک کھلانے والا مجھے کھلاتا ہے اور ایک پلانے والا مجھے پلاتا ہے۔

【74】

باب: پے در پے ملا کر روزہ رکھنا اور جنہوں نے یہ کہا کہ رات میں روزہ نہیں ہو سکتا۔

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ اور محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے پے در پے روزہ سے منع کیا تھا۔ امت پر رحمت و شفقت کے خیال سے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ آپ ﷺ تو وصال کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، میں تمہاری طرح نہیں ہوں مجھے میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے۔ عثمان نے (اپنی روایت میں) امت پر رحمت و شفقت کے خیال سے کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں۔

【75】

باب: جو طے کے روزے بہت رکھے اس کو سزا دینے کا بیان۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلسل (کئی دن تک سحری و افطاری کے بغیر) روزہ رکھنے سے منع فرمایا تھا۔ اس پر ایک آدمی نے مسلمانوں میں سے عرض کی، یا رسول اللہ ﷺ آپ تو وصال کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا میری طرح تم میں سے کون ہے ؟ مجھے تو رات میں میرا رب کھلاتا ہے، اور وہی مجھے سیراب کرتا ہے۔ لوگ اس پر بھی جب صوم وصال رکھنے سے نہ رکے تو آپ ﷺ نے ان کے ساتھ دو دن تک وصال کیا۔ پھر عید کا چاند نکل آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر چاند نہ دکھائی دیتا تو میں اور کئی دن وصال کرتا، گویا جب صوم و صال سے وہ لوگ نہ رکے تو آپ نے ان کو سزا دینے کے لیے یہ کہا۔

【76】

باب: جو طے کے روزے بہت رکھے اس کو سزا دینے کا بیان۔

ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے دو بار فرمایا، تم لوگ وصال سے بچو ! عرض کیا گیا کہ آپ تو وصال کرتے ہیں، اس پر آپ نے فرمایا کہ رات میں مجھے میرا رب کھلاتا اور وہی مجھے سیراب کرتا ہے۔ پس تم اتنی ہی مشقت اٹھاؤ جتنی تم طاقت رکھتے ہو۔

【77】

باب: سحری تک وصال کا روزہ رکھنا۔

ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز ابن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ہاد نے، ان سے عبداللہ بن خباب نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ فرما رہے تھے، صوم وصال نہ رکھو۔ اور اگر کسی کا ارادہ ہی وصال کا ہو تو سحری کے وقت تک وصال کرلے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی، یا رسول اللہ ! آپ تو وصال کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ رات کے وقت ایک کھلانے والا مجھے کھلاتا ہے اور ایک پلانے والا مجھے پلاتا ہے۔

【78】

باب: کسی نے اپنے بھائی کو نفلی روزہ توڑنے کے لیے قسم دی۔

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جعفر بن عون نے بیان کیا، ان سے ابوالعمیس عتبہ بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی حجیفہ نے اور ان سے ان کے والد (وہب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے سلمان اور ابوالدرداء (رض) میں (ہجرت کے بعد) بھائی چارہ کرایا تھا۔ ایک مرتبہ سلمان رضی اللہ عنہ، ابودرداء (رض) سے ملاقات کے لیے گئے۔ تو (ان کی عورت) ام الدرداء (رض) کو بہت پراگندہ حال میں دیکھا۔ ان سے پوچھا کہ یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے ؟ ام الدرداء (رض) نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابوالدرداء (رض) ہیں جن کو دنیا کی کوئی حاجت ہی نہیں ہے پھر ابوالدرداء (رض) بھی آگئے اور ان کے سامنے کھانا حاضر کیا اور کہا کہ کھانا کھاؤ، انہوں نے کہا کہ میں تو روزے سے ہوں، اس پر سلمان (رض) نے فرمایا کہ میں بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک تم خود بھی شریک نہ ہو گے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وہ کھانے میں شریک ہوگئے (اور روزہ توڑ دیا) رات ہوئی تو ابوالدرداء (رض) عبادت کے لیے اٹھے اور اس مرتبہ بھی سلمان (رض) نے فرمایا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمان (رض) نے فرمایا کہ اچھا اب اٹھ جاؤ۔ چناچہ دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمان (رض) نے فرمایا کہ تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ جان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر حق والے کے حق کو ادا کرنا چاہیے، پھر آپ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا۔

【79】

باب: ماہ شعبان میں روزے رکھنے کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک (رح) نے خبری دی، انہیں ابوالنضر نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا، کہ رسول اللہ ﷺ نفل روزہ رکھنے لگتے تو ہم (آپس میں) کہتے کہ اب آپ ﷺ روزہ رکھنا چھوڑیں گے ہی نہیں۔ اور جب روزہ چھوڑ دیتے تو ہم کہتے کہ اب آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔ میں نے رمضان کو چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کو کبھی پورے مہینے کا نفلی روزہ رکھتے نہیں دیکھتا اور جتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے میں نے کسی مہینہ میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپ کو نہیں دیکھا۔

【80】

باب: ماہ شعبان میں روزے رکھنے کا بیان۔

ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ شعبان سے زیادہ اور کسی مہینہ میں روزے نہیں رکھتے تھے، شعبان کے پورے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے رہتے۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ عمل وہی اختیار کرو جس کی تم میں طاقت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ (ثواب دینے سے) نہیں تھکتا۔ تم خود ہی اکتا جاؤ گے۔ نبی کریم ﷺ اس نماز کو سب سے زیادہ پسند فرماتے جس پر ہمیشگی اختیار کی جائے خواہ کم ہی کیوں نہ ہو۔ چناچہ نبی کریم ﷺ جب کوئی نماز شروع کرتے تو اسے ہمیشہ پڑھتے تھے۔

【81】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کا بیان۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رمضان کے سوا نبی کریم ﷺ نے کبھی پورے مہینے کا روزہ نہیں رکھا۔ آپ ﷺ نفل روزہ رکھنے لگتے تو دیکھنے والا کہہ اٹھتا کہ بخدا، اب آپ بےروزہ نہیں رہیں گے اور اسی طرح جب نفل روزہ چھوڑ دیتے تو کہنے والا کہتا کہ واللہ ! اب آپ ﷺ روزہ نہیں رکھیں گے۔

【82】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کا بیان۔

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے اور انہوں نے انس (رض) سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کسی مہینہ میں بےروزہ کے رہتے تو ہمیں خیال ہوتا کہ اس مہینہ میں آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔ اسی طرح کسی مہینہ میں نفل روزہ رکھنے لگتے تو ہم خیال کرتے کہ اب اس مہینہ کا ایک دن بھی بےروزے کے نہیں گزرے گا۔ جو جب بھی چاہتا نبی کریم ﷺ کو رات میں نماز پڑھتے دیکھ سکتا تھا اور جب بھی چاہتا سوتا ہوا بھی دیکھ سکتا تھا۔ سلیمان نے حمید طویل سے یوں بیان کیا کہ انہوں نے انس (رض) سے روزہ کے متعلق پوچھا تھا۔

【83】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کا بیان۔

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابوخالد احمر نے خبر دی، کہا کہ ہم کو حمید نے خبر دی، کہا کہ میں نے انس (رض) سے نبی کریم ﷺ کے روزوں کے متعلق پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ جب بھی میرا دل چاہتا کہ آپ کو روزے سے دیکھوں تو میں آپ کو روزے سے ہی دیکھتا۔ اور بغیر روزے کے چاہتا تو بغیر روزے سے ہی دیکھتا۔ رات میں کھڑے (نماز پڑھتے) دیکھنا چاہتا تو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھتا۔ اور سوتے ہوئے دیکھنا چاہتا تو اسی طرح دیکھتا۔ میں نے نبی کریم ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے زیادہ نرم و نازک ریشم کے کپڑوں کو بھی نہیں دیکھا۔ اور نہ مشک و عنبر کو آپ کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار پایا۔

【84】

باب: مہمان کی خاطر سے نفل روزہ نہ رکھنا یا توڑ ڈالنا۔

ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہارون بن اسماعیل نے خبر دی، کہا کہ ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) نے بیان کیا، آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ میرے یہاں تشریف لائے۔ پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی، یعنی تمہارے ملاقاتیوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ اس پر میں نے پوچھا اور داؤد (علیہ السلام) کا روزہ کیسا تھا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن بےروزہ رہنا صوم داؤدی ہے۔

【85】

باب: روزے میں جسم کا حق۔

ہم سے ابن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو اوزاعی نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) نے بیان کیا، کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، عبداللہ ! کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم دن میں تو روزہ رکھتے ہو اور ساری رات نماز پڑھتے ہو ؟ میں نے عرض کی صحیح ہے یا رسول اللہ ﷺ ! آپ نے فرمایا، کہ ایسا نہ کر، روزہ بھی رکھ اور بےروزہ کے بھی رہ۔ نماز بھی پڑھ اور سوؤ بھی۔ کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تم سے ملاقات کرنے والوں کا بھی تم پر حق ہے بس یہی کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھ لیا کرو، کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملے گا اور اس طرح یہ ساری عمر کا روزہ ہوجائے گا، لیکن میں نے اپنے پر سختی چاہی تو مجھ پر سختی کردی گئی۔ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ ! میں اپنے میں قوت پاتا ہوں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ پھر اللہ کے نبی داؤد (علیہ السلام) کا روزہ رکھ اور اس سے آگے نہ بڑھ، میں نے پوچھا اللہ کے نبی داؤد (علیہ السلام) کا روزہ کیا تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن بےروزہ رہا کرتے تھے۔ عبداللہ (رض) بعد میں جب ضعیف ہوگئے تو کہا کرتے تھے کاش ! میں رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی رخصت مان لیتا۔

【86】

باب: ہمیشہ روزہ رکھنا (جس کو «صوم الدهر» کہتے ہیں)۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمرو (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ تک میری یہ بات پہنچا گئی کہ اللہ کی قسم ! زندگی بھر میں دن میں تو روزے رکھوں گا۔ اور ساری رات عبادت کروں گا میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی، میرے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہوں، ہاں میں نے یہ کہا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا لیکن تیرے اندر اس کی طاقت نہیں، اس لیے روزہ بھی رکھ اور بےروزہ بھی رہ۔ عبادت بھی کر لیکن سوؤ بھی اور مہینے میں تین دن کے روزے رکھا کر۔ نیکیوں کا بدلہ دس گنا ملتا ہے، اس طرح یہ ساری عمر کا روزہ ہوجائے گا، میں نے کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر ایک دن روزہ رکھا کر اور دو دن کے لیے روزے چھوڑ دیا کر۔ میں نے پھر کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا ایک دن روزہ رکھ اور ایک دن بےروزہ کے رہ کہ داؤد (علیہ السلام) کا روزہ ایسا ہی تھا۔ اور روزہ کا یہ سب سے افضل طریقہ ہے۔ میں نے اب بھی وہی کہا کہ مجھے اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے لیکن اس مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے افضل کوئی روزہ نہیں ہے۔

【87】

باب: روزہ میں بیوی اور بال بچوں کا حق۔

ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابوعاصم نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہوں نے عطاء سے سنا، انہیں ابوعباس شاعر نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا کہ میں مسلسل روزے رکھتا ہوں اور ساری رات عبادت کرتا ہوں۔ اب یا نبی کریم ﷺ نے کسی کو میرے پاس بھیجا یا خود میں نے آپ سے ملاقات کی۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تو متواتر روزے رکھتا ہے اور ایک بھی نہیں چھوڑتا اور (رات بھر) نماز پڑھتا رہتا ہے ؟ روزہ بھی رکھ اور بےروزہ بھی رہ، عبادت بھی کر اور سوؤ بھی کیونکہ تیری آنکھ کا بھی تجھ پر حق ہے، تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے۔ عبداللہ (رض) نے کہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر داؤد (علیہ السلام) کی طرح روزہ رکھا کر۔ انہوں نے کہا اور وہ کس طرح ؟ فرمایا کہ داؤد (علیہ السلام) ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔ اور جب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو پیٹھ نہیں پھیرتے تھے۔ اس پر عبداللہ (رض) نے عرض کی، اے اللہ کے نبی ! میرے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ میں پیٹھ پھیر جاؤں۔ عطاء نے کہا کہ مجھے یاد نہیں (اس حدیث میں) صوم دہر کا کس طرح ذکر ہوا ! (البتہ انہیں اتنا دیا تھا کہ ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جو صوم دہر رکھتا ہے اس کا روزہ ہی نہیں، دو مرتبہ (آپ ﷺ نے یہی فرمایا) ۔

【88】

باب: ایک دن روزہ اور ایک دن افطار کا بیان۔

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ نے بیان کیا کہ میں نے مجاہد سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مہینہ میں صرف تین دن کے روزے رکھا کر۔ انہوں نے کہا کہ مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے۔ اسی طرح وہ برابر کہتے رہے (کہ مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے) یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کر۔ آپ ﷺ نے ان سے یہ بھی فرمایا کہ مہینہ میں ایک قرآن مجید ختم کیا کر۔ انہوں نے اس پر بھی کہا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ اور برابر یہی کہتے رہے۔ یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تین دن میں (ایک قرآن ختم کیا کر) ۔

【89】

باب: داؤد علیہ السلام کا روزہ۔

ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوعباس مکی سے سنا، وہ شاعر تھے لیکن روایت حدیث میں ان پر کسی قسم کا اتہام نہیں تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کیا تو متواتر روزے رکھتا ہے اور رات بھر عبادت کرتا ہے ؟ میں نے ہاں میں جواب دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا، اگر تو یونہی کرتا رہا تو آنکھیں دھنس جائیں گی، اور تو بےحد کمزور ہوجائے گا یہ کوئی روزہ نہیں کہ کوئی زندگی بھر (بلاناغہ ہر روز) روزہ رکھے۔ تین دن کا (ہر مہینہ میں) روزہ پوری زندگی کے روزے کے برابر ہے۔ میں نے اس پر کہا کہ مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر داؤد (علیہ السلام) کا روزہ رکھا کر۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن روزہ چھوڑ دیتے تھے اور جب دشمن کا سامنا ہوتا تو پیٹھ نہیں دکھلایا کرتے تھے۔

【90】

باب: داؤد علیہ السلام کا روزہ۔

ہم سے اسحٰق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے اور ان سے ابوقلابہ نے کہ مجھے ابوملیح نے خبر دی، کہا کہ میں آپ کے والد کے ساتھ عبداللہ بن عمرو (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو میرے روزے کے متعلق خبر ہوگئی۔ (کہ میں مسلسل روزے رکھتا ہوں) آپ ﷺ میرے یہاں تشریف لائے اور میں نے ایک گدہ آپ ﷺ کے لیے بچھا دیا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی لیکن نبی کریم ﷺ زمین پر بیٹھ گئے۔ اور تکیہ میرے اور آپ ﷺ کے درمیان ہوگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، کیا تمہارے لیے ہر مہینہ میں تین دن کے روزے کافی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ ! (کچھ اور بڑھا دیجئیے) آپ نے فرمایا، اچھا پانچ دن کے روزے (رکھ لے) میں نے عرض کی، یا رسول اللہ کچھ اور آپ ﷺ نے فرمایا چلو چھ دن، میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! (کچھ اور بڑھائیے، مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے) آپ ﷺ نے فرمایا ! اچھا نو دن، میں نے عرض کی، یا رسول اللہ ! کچھ اور فرمایا، اچھا گیارہ دن۔ آخر آپ نے فرمایا کہ داؤد (علیہ السلام) کے روزے کے طریقے کے سوا اور کوئی طریقہ (شریعت میں) جائز نہیں۔ یعنی زندگی کے آدھے دنوں میں ایک دن کا روزہ رکھ اور ایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کر۔

【91】

باب: ایام بیض کے روزے یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخوں کے روزے رکھنا۔

ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوعثمان نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ میرے خلیل ﷺ نے مجھے ہر مہینے کی تین تاریخوں میں روزہ رکھنے کی وصیت فرمائی تھی۔ اسی طرح چاشت کی دو رکعتوں کی بھی وصیت فرمائی تھی اور اس کی بھی کہ سونے سے پہلے ہی میں وتر پڑھ لیا کروں۔

【92】

اس کا بیان جو کسی کی ملاقات کو جائے اور وہاں اپنا روزہ نفلی نہ توڑے۔

ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، انہیں یحییٰ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے حمید نے بیان کیا، اور انہوں نے انس (رض) سے سنا، نبی کریم ﷺ کے حوالہ کے ساتھ۔

【93】

باب: مہینے کے آخر میں روزہ رکھنا۔

ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مہدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے غیلان نے (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مہدی بن میمون نے، ان سے غیلان بن جریر نے، ان سے مطرف نے، ان سے عمران بن حصین (رض) نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا یا (مطرف نے یہ کہا کہ) سوال تو کسی اور نے کیا تھا لیکن وہ سن رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اے ابوفلاں ! کیا تم نے اس مہینے کے آخر کے روزے رکھے ؟ ابونعمان نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ راوی نے کہا کہ آپ کی مراد رمضان سے تھی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) کہتے ہیں کہ ثابت نے بیان کیا، ان سے مطرف نے، ان سے عمران (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے (رمضان کے آخر کے بجائے) شعبان کے آخر میں کا لفظ بیان کیا (یہی صحیح ہے) ۔

【94】

باب: جمعہ کے دن روزہ رکھنا اگر کسی نے خالی ایک جمعہ کے دن کے روزہ کی نیت کر لی تو اسے توڑ ڈالے۔

ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے عبدالحمید بن جبیر نے اور ان سے محمد بن عباد نے کہ میں نے جابر (رض) سے پوچھا کیا نبی کریم ﷺ نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ! ابوعاصم کے علاوہ راویوں نے یہ اضافہ کیا ہے کہ خالی (ایک جمعہ ہی کے دن) روزہ رکھنے سے آپ ﷺ نے منع فرمایا۔

【95】

باب: جمعہ کے دن روزہ رکھنا اگر کسی نے خالی ایک جمعہ کے دن کے روزہ کی نیت کر لی تو اسے توڑ ڈالے۔

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی بھی شخص جمعہ کے دن اس وقت تک روزہ نہ رکھے جب تک اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک بعد روزہ نہ رکھتا ہو۔

【96】

باب: جمعہ کے دن روزہ رکھنا اگر کسی نے خالی ایک جمعہ کے دن کے روزہ کی نیت کر لی تو اسے توڑ ڈالے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، (دوسری سند) اور امام بخاری (رح) نے کہا کہ مجھ سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوایوب نے اور ان سے جویریہ بنت حارث (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ ان کے یہاں جمعہ کے دن تشریف لے گئے، (اتفاق سے) وہ روزہ سے تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر دریافت فرمایا کے کل کے دن بھی تو نے روزہ رکھا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا آئندہ کل روزہ رکھنے کا ارادہ ہے ؟ جواب دیا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر روزہ توڑ دو ۔ حماد بن جعد نے بیان کیا کہ انہوں نے قتادہ سے سنا، ان سے ابوایوب نے بیان کیا اور ان سے جویریہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے حکم دیا اور انہوں نے روزہ توڑ دیا۔

【97】

باب: روزے کے لیے کوئی دن مقرر کرنا۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے، انہوں نے عائشہ (رض) سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے (روزہ وغیرہ عبادات کے لیے) کچھ دن خاص طور پر مقرر کر رکھے تھے ؟ انہوں نے کہا نہیں۔ بلکہ آپ کے ہر عمل میں ہمیشگی ہوتی تھی اور دوسرا کون ہے جو رسول اللہ ﷺ جتنی طاقت رکھتا ہو ؟

【98】

باب: عرفہ کے دن روزہ رکھنا۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے امام مالک (رح) نے بیان کیا کہ مجھ سے سالم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ام فضل (رض) کے مولی عمیر نے بیان کیا اور ان سے ام فضل (رض) نے بیان کیا۔ (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہیں امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں عمر بن عبداللہ کے غلام ابونضر نے، انہیں عبداللہ بن عباس (رض) کے غلام عمیر نے اور انہیں ام فضل بنت حارث (رض) نے کہ ان کے یہاں کچھ لوگ عرفات کے دن نبی کریم ﷺ کے روزہ کے بارے میں جھگڑ رہے تھے۔ بعض نے کہا کہ آپ ﷺ روزہ سے ہیں۔ اور بعض نے کہا کہ روزہ سے نہیں ہیں۔ اس پر ام فضل (رض) نے آپ کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ بھیجا (تاکہ حقیقت ظاہر ہوجائے) آپ اپنے اونٹ پر سوار تھے، آپ نے دودھ پی لیا۔

【99】

باب: عرفہ کے دن روزہ رکھنا۔

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، (یا ان کے سامنے حدیث کی قرآت کی گئی) ۔ کہا کہ مجھ کو عمرو نے خبر دی، انہیں بکیر نے، انہیں کریب نے اور انہیں میمونہ (رض) نے کہ عرفہ کے دن کچھ لوگوں کو نبی کریم ﷺ کے روزے کے متعلق شک ہوا۔ اس لیے انہوں نے آپ کی خدمت میں دودھ بھیجا۔ آپ اس وقت عرفات میں وقوف فرما تھے۔ آپ نے دودھ پی لیا اور سب لوگ دیکھ رہے تھے۔

【100】

باب: عیدالفطر کے دن روزہ رکھنا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن ازہر کے غلام ابوعبید نے بیان کیا کہ عید کے دن میں عمر بن خطاب (رض) کے خدمت میں حاضر تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ دو دن ایسے ہیں جن کے روزوں کی نبی کریم ﷺ نے ممانعت فرمائی ہے۔ (رمضان کے) روزوں کے بعد افطار کا دن (عیدالفطر) اور دوسرا وہ دن جس میں تم اپنی قربانی کا گوشت کھاتے ہو (یعنی عید الاضحی کا دن) ۔ امام بخاری (رح) نے کہا سفیان بن عیینہ نے کہا، جس نے ابوعبداللہ کو ابن ازہر کا غلام کہا اس نے بھی ٹھیک کہا، اور جس نے عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کا غلام کہا اس نے بھی ٹھیک کہا۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن ازہر اور عبدالرحمٰن بن عوف (رض) دونوں اس غلام میں شریک تھے) ۔

【101】

باب: عیدالفطر کے دن روزہ رکھنا۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عیدالفطر اور قربانی کے دنوں کے روزوں کی ممانعت کی تھی اور ایک کپڑا سارے بدن پر لپیٹ لینے سے اور ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے سے۔ اور صبح اور عصر کے بعد نماز پڑھنے سے (منع فرمایا) ۔

【102】

None

اور صبح اور عصر کے بعد نماز پڑھنے سے ( منع فرمایا ) ۔

【103】

باب: عیدالاضحی کے دن کا روزہ رکھنا۔

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے بیان کیا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی، انہوں نے عطاء بن میناء سے سنا، وہ ابوہریرہ (رض) سے یہ حدیث نقل کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا، نبی کریم ﷺ نے دو روزے اور دو قسم کی خریدو فروخت سے منع فرمایا ہے۔ عیدالفطر اور عید الاضحی کے روزے سے۔ اور ملامست اور منابذت کے ساتھ خریدو فروخت کرنے سے۔

【104】

باب: عیدالاضحی کے دن کا روزہ رکھنا۔

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معاذ بن معاذ عنبری نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن عون نے خبر دی، ان سے زیاد بن جبیر نے بیان کیا کہ ایک شخص ابن عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ ایک شخص نے ایک دن کے روزے کے نذر مانی۔ پھر کہا کہ میرا خیال ہے کہ وہ پیر کا دن ہے اور اتفاق سے وہی عید کا دن پڑگیا۔ ابن عمر (رض) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تو نذر پوری کرنے کا حکم دیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے اس دن روزہ رکھنے سے (اللہ کے حکم سے) منع فرمایا ہے۔ (گویا ابن عمر (رض) نے کوئی قطعی فیصلہ نہیں دیا) ۔

【105】

باب: عیدالاضحی کے دن کا روزہ رکھنا۔

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قزعہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابو سعید خدری (رض) سے سنا، آپ نبی کریم ﷺ کے ساتھ بارہ جہادوں میں شریک رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے چار باتیں سنی ہیں جو مجھے بہت ہی پسند آئیں۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی عورت دو دن (یا اس سے زیادہ) کے اندازے کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ اس کا شوہر یا کوئی اور محرم نہ ہو۔ اور عیدالفطر اور عید الاضحی کے دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے اور صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک کوئی نماز جائز نہیں اور چوتھی بات یہ کہ تین مساجد کے سوا اور کسی جگہ کے لیے شد الرحال سفر نہ کیا جائے، مسجد الحرام، مسجد الاقصیٰ اور میری یہ مسجد (مسجد نبوی) ۔

【106】

None

مجھے میرے باپ عروہ نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایام منی ( ایام تشریق ) کے روزے رکھتی تھیں اور ہشام کے باپ ( عروہ ) بھی ان دنوں میں روزہ رکھتے تھے۔

【107】

باب: ایام تشریق کے روزے رکھنا۔

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عیسیٰ سے سنا، انہوں نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے عائشہ (رض) سے (نیز زہری نے اس حدیث کو) سالم سے بھی سنا، اور انہوں نے ابن عمر (رض) سے سنا (عائشہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم) دونوں نے بیان کیا کہ کسی کو ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں مگر اس کے لیے جسے قربانی کا مقدور نہ ہو۔

【108】

None

کسی کو ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں مگر اس کے لیے جسے قربانی کا مقدور نہ ہو۔

【109】

باب: ایام تشریق کے روزے رکھنا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر (رض) نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ جو حاجی حج اور عمرہ کے درمیان تمتع کرے اسی کو یوم عرفہ تک روزہ رکھنے کی اجازت ہے، لیکن اگر قربانی کا مقدور نہ ہو اور نہ اس نے روزہ رکھا تو ایام منی (ایام تشریق) میں بھی روزہ رکھے۔ اور ابن شہاب نے عروہ سے اور انہوں نے عائشہ (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ امام مالک (رح) کے ساتھ اس حدیث کو ابراہیم بن سعد نے بھی ابن شہاب سے روایت کیا۔

【110】

باب: اس بارے میں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ کیسا ہے؟

ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے عمر بن محمد نے، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر (رض) نے، اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا عاشورہ کے دن اگر کوئی چاہے تو روزہ رکھ لے۔

【111】

باب: اس بارے میں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ کیسا ہے؟

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر (رض) نے خبر دی، ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ (شروع اسلام میں) رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء کے دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو جس کا دل چاہتا اس دن روزہ رکھتا اور جو نہ چاہتا نہیں رکھا کرتا تھا۔

【112】

باب: اس بارے میں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ کیسا ہے؟

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک (رح) نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے اور ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رکھتے۔ پھر جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہاں بھی عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اس کا لوگوں کو بھی حکم دیا۔ لیکن رمضان کی فرضیت کے بعد آپ نے اس کو چھوڑ دیا اور فرمایا کہ اب جس کا جی چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا چاہے نہ رکھے۔

【113】

باب: اس بارے میں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ کیسا ہے؟

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک (رح) نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان (رض) سے عاشوراء کے دن منبر پر سنا، انہوں نے کہا کہ اے اہل مدینہ ! تمہارے علماء کدھر گئے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ یہ عاشوراء کا دن ہے۔ اس کا روزہ تم پر فرض نہیں ہے لیکن میں روزہ سے ہوں اور اب جس کا جی چاہے روزہ سے رہے (اور میری سنت پر عمل کرے) اور جس کا جی چاہے نہ رہے۔

【114】

باب: اس بارے میں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ کیسا ہے؟

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن سعید بن جبیر نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ میں تشریف لائے۔ (دوسرے سال) آپ ﷺ نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی تھی۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے (شریک مسرت ہونے میں) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چناچہ آپ ﷺ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔

【115】

باب: اس بارے میں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ کیسا ہے؟

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ابوعمیس نے، ان سے قیس بن مسلم نے، ان سے طارق نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے ابوموسیٰ (رض) نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن کو یہودی عید کا دن سمجھتے تھے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو۔

【116】

باب: اس بارے میں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ کیسا ہے؟

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے عبیداللہ بن ابی یزید نے، اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو سوا عاشوراء کے دن کے اور اس رمضان کے مہینے کے اور کسی دن کو دوسرے دنوں سے افضل جان کر خاص طور سے قصد کر کے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔

【117】

باب: اس بارے میں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ کیسا ہے؟

ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع (رض) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسلم کے ایک شخص کو لوگوں میں اس بات کے اعلان کا حکم دیا تھا کہ جو کھاچکا ہو وہ دن کے باقی حصے میں بھی کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے نہ کھایا ہو اسے روزہ رکھ لینا چاہیے کیونکہ یہ عاشوراء کا دن ہے۔

【118】

باب: رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہ مجھے ابوسلمہ نے خبر دی، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ رمضان کے فضائل بیان فرما رہے تھے کہ جو شخص بھی اس میں ایمان اور نیت اجر و ثواب کے ساتھ (رات میں) نماز کے لیے کھڑا ہو اس کے اگلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔

【119】

باب: رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے رمضان کی راتوں میں (بیدار رہ کر) نماز تراویح پڑھی، ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ، اس کے اگلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی اور لوگوں کا یہی حال رہا (الگ الگ اکیلے اور جماعتوں سے تراویح پڑھتے تھے) اس کے بعد ابوبکر (رض) کے دور خلافت میں اور عمر (رض) کے ابتدائی دور خلافت میں بھی ایسا ہی رہا۔

【120】

باب: رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت۔

اور ابن شہاب سے (امام مالک (رح)) کی روایت ہے، انہوں نے عروہ بن زبیر (رض) سے اور انہوں نے عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت کی کہ انہوں نے بیان کیا میں عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر (رض) نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہوگا، چناچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب (رض) کو ان کا امام بنادیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں۔ عمر (رض) نے فرمایا، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔

【121】

باب: رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت۔

ہم سے اسماعیل بن اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک بار نماز (تراویح) پڑھی اور یہ رمضان میں ہوا تھا۔

【122】

باب: رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت۔

اور ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ نے خبر دی اور انہیں عائشہ (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ (رمضان کی) نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے۔ صبح ہوئی تو انہوں نے اس کا چرچا کیا۔ چناچہ دوسری رات میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہوگئے اور آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا اور تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہوگئے۔ آپ نے (اس رات بھی) نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کی۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ (لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے) بلکہ صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب نماز پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر شہادت کے بعد فرمایا۔ امابعد ! تمہارے یہاں جمع ہونے کا مجھے علم تھا، لیکن مجھے خوف اس کا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کردی جائے اور پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہوجاؤ، چناچہ جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی تو یہی کیفیت قائم رہی۔

【123】

باب: رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت۔

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک (رح) نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے کہ انہوں نے عائشہ (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ (تراویح یا تہجد کی نماز) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا، عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔

【124】

باب: شب قدر کی فضیلت۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے اس روایت کو یاد کیا تھا اور یہ روایت انہوں نے زہری سے (سن کر) یاد کی تھی۔ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور احتساب (حصول اجر و ثواب کی نیت) کے ساتھ رکھے، اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ اور جو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نماز میں کھڑا رہے اس کے بھی اگلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، سفیان کے ساتھ سلیمان بن کثیر نے بھی اس حدیث کو زہری سے روایت کیا۔

【125】

باب: شب قدر کو رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرنا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں نافع نے، اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کے چند اصحاب کو شب قدر خواب میں (رمضان کی) سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی تھی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہوگئے ہیں۔ اس لیے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری (طاق) راتوں میں تلاش کرے۔

【126】

باب: شب قدر کو رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرنا۔

ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے ابو سعید خدری (رض) سے پوچھا، وہ میرے دوست تھے، انہوں نے جواب دیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھے۔ پھر بیس تاریخ کی صبح کو نبی کریم ﷺ اعتکاف سے نکلے اور ہمیں خطبہ دیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی، لیکن بھلا دلی گئی یا (آپ نے یہ فرمایا کہ) میں خود بھول گیا۔ اس لیے تم اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے (خواب میں) کہ گویا میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ اس لیے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ پھر لوٹ آئے اور اعتکاف میں بیٹھے۔ خیر ہم نے پھر اعتکاف کیا۔ اس وقت آسمان پر بادلوں کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بادل آیا اور بارش اتنی ہوئی کہ مسجد کی چھت سے پانی ٹپکنے لگا جو کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی۔ پھر نماز کی تکبیر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کیچڑ میں سجدہ کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ کیچڑ کا نشان میں نے آپ ﷺ کی پیشانی پر دیکھا۔

【127】

باب: شب قدر کا رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرنا۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوسہیل نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ مالک بن عامر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ڈھونڈو۔

【128】

باب: شب قدر کا رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرنا۔

ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالعزیز بن ابی حازم اور عبدالعزیز دراوردی نے بیان کیا، ان سے یزید بن ہاد نے، ان سے محمد بن ابراہیم نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے جو مہینے کے بیج میں پڑتا ہے۔ بیس راتوں کے گزر جانے کے بعد جب اکیسویں تاریخ کی رات آتی تو شام کو آپ گھر واپس آجاتے۔ جو لوگ آپ کے ساتھ اعتکاف میں ہوتے وہ بھی اپنے گھروں میں واپس آجاتے۔ ایک رمضان میں آپ جب اعتکاف کئے ہوئے تھے تو اس رات میں بھی (مسجد ہی میں) مقیم رہے جس میں آپ کی عادت گھر آجانے کی تھی، پھر آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور جو کچھ اللہ پاک نے چاہا، آپ نے لوگوں کو اس کا حکم دیا، پھر فرمایا کہ میں اس (دوسرے) عشرہ میں اعتکاف کیا کرتا تھا، لیکن اب مجھ پر یہ ظاہراً ہوا کہ اب اس آخری عشرہ میں مجھے اعتکاف کرنا چاہیے۔ اس لیے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ اپنے معتکف ہی میں ٹھہرا رہے اور مجھے یہ رات (شب قدر) دکھائی گئی لیکن پھر بھلوا دی گئی۔ اس لیے تم لوگ اسے آخری عشرہ (کی طاق راتوں) میں تلاش کرو۔ میں نے (خواب میں) اپنے کو دیکھا کہ اس رات کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر اس رات آسمان پر ابر ہوا اور بارش برسی، نبی کریم ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ (چھت سے) پانی ٹپکنے لگا۔ یہ اکیسویں کی رات کا ذکر ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ ﷺ صبح کی نماز کے بعد واپس ہو رہے تھے۔ اور آپ کے چہرہ مبارک پر کیچڑ لگی ہوئی تھی۔

【129】

باب: شب قدر کا رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرنا۔

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (شب قدر کو) تلاش کرو۔

【130】

باب: شب قدر کا رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرنا۔

مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا ہمیں عبدہ بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد (عروہ بن زبیر) نے اور انہیں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے اور فرماتے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کو تلاش کرو۔

【131】

باب: شب قدر کا رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرنا۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔ (یعنی اکیسوئیں یا تئیسوئیں یا پچیسوئیں راتوں میں شب قدر کو تلاش کرو) ۔

【132】

باب: شب قدر کا رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرنا۔

ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابومجلز اور عکرمہ نے، ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا شب قدر رمضان کے (آخری) عشرہ میں پڑتی ہے۔ جب نو راتیں گزر جائیں یا سات باقی رہ جائیں۔ آپ ﷺ کی مراد شب قدر سے تھی۔ عبدالوہاب نے ایوب اور خالد سے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ شب قدر کو چوبیس تاریخ (کی رات) میں تلاش کرو۔

【133】

باب: لوگوں کے جھگڑنے کی وجہ سے شب قدر کی معرفت اٹھائے جانے کا بیان۔

ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، ان سے خالد بن حارث نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے بیان کیا، ان سے انس (رض) نے بیان کیا اور ان سے عبادہ بن صامت (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لیے تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں جھگڑا کرنے لگے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں آیا تھا کہ تمہیں شب قدر بتادوں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کرلیا۔ پس اس کا علم اٹھا لیا گیا اور امید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہوگا۔ پس اب تم اس کی تلاش (آخری عشرہ کی) نو یا سات یا پانچ (کی راتوں) میں کیا کرو۔

【134】

باب: رمضان کے آخری عشرہ میں زیادہ محنت کرنا۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابویعفور نے بیان کیا، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب (رمضان کا) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم ﷺ اپنا تہبند مضبوط باندھتے (یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔

【135】

باب: رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا اور اعتکاف ہر ایک مسجد میں درست ہے۔

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یونس نے، انہیں نافع نے خبر دی، اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے۔

【136】

باب: رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا اور اعتکاف ہر ایک مسجد میں درست ہے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے اور آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں۔

【137】

باب: رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا اور اعتکاف ہر ایک مسجد میں درست ہے۔

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک (رح) نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ بن ہاد نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ ایک سال آپ ﷺ نے انہی دنوں میں اعتکاف کیا اور جب اکیسویں تاریخ کی رات آئی۔ یہ وہ رات ہے جس کی صبح آپ ﷺ اعتکاف سے باہر آجاتے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ اب آخری عشرے میں بھی اعتکاف کرے۔ مجھے یہ رات (خواب میں) دکھائی گئی، لیکن پھر بھلا دی گئی۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ اسی کی صبح کو میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں، اس لیے تم لوگ اسے آخری عشرہ کی طاق رات میں تلاش کرو، چناچہ اسی رات بارش ہوئی، مسجد کی چھت چوں کہ کھجور کی شاخ سے بنی تھی اس لیے ٹپکنے لگی اور خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اکیسویں کی صبح کو رسول اللہ ﷺ کی پیشانی مبارک پر کیچڑ لگی ہوئی تھی۔

【138】

باب: اگر حیض والی عورت اس مرد کے سر میں کنگھی کرے جو اعتکاف میں ہو۔

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ نے خبر دی اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ مسجد میں معتکف ہوتے اور سر مبارک میری طرف جھکا دیتے پھر میں اس میں کنگھا کردیتی، حالانکہ میں اس وقت حیض سے ہوا کرتی تھی۔

【139】

باب: اعتکاف والا بےضرورت گھر میں نہ جائے۔

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا نبی کریم ﷺ مسجد سے (اعتکاف کی حالت میں) سر مبارک میری طرف حجرہ کے اندر کردیتے، اور میں اس میں کنگھا کردیتی، نبی کریم ﷺ جب معتکف ہوتے تو بلا حاجت گھر میں تشریف نہیں لاتے تھے۔

【140】

باب: اعتکاف کرنے والا سر یا بدن دھو سکتا ہے۔

ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود نے، اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں حائضہ ہوتی پھر بھی رسول اللہ ﷺ مجھے اپنے بدن سے لگا لیتے۔ اور آپ ﷺ معتکف ہوتے اور میں حائضہ ہوتی۔ اس کے باوجود آپ سر مبارک (مسجد سے) باہر کردیتے اور میں اسے دھوتی تھی۔

【141】

None

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم معتکف ہوتے اور میں حائضہ ہوتی۔ اس کے باوجود آپ سر مبارک ( مسجد سے ) باہر کر دیتے اور میں اسے دھوتی تھی۔

【142】

باب: صرف رات بھر کے لیے اعتکاف کرنا۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے، انہیں نافع نے خبر دی اور انہیں ابن عمر (رض) نے کہ عمر (رض) نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا، میں نے جاہلیت میں یہ نذر مانی تھی کہ مسجد الحرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کر۔

【143】

باب: عورتوں کا اعتکاف کرنا۔

ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل دوسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے یحییٰ قطان نے، ان سے عمرہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (مسجد میں) ایک خیمہ لگا دیتی۔ اور آپ ﷺ صبح کی نماز پڑھ کے اس میں چلے جاتے تھے۔ پھر حفصہ (رض) نے بھی عائشہ (رض) سے خیمہ کھڑا کرنے کی (اپنے اعتکاف کے لیے) اجازت چاہی۔ عائشہ (رض) نے اجازت دے دی اور انہوں نے ایک خیمہ کھڑا کرلیا جب زینب بنت جحش (رض) نے دیکھا تو انہوں نے بھی (اپنے لیے) ایک خیمہ کھڑا کرلیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے کئی خیمے دیکھے تو فرمایا، یہ کیا ہے ؟ آپ کو ان کی حقیقت کی خبر دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تم سمجھتے ہو یہ خیمے ثواب کی نیت سے کھڑے کئے گئے ہیں۔ پس آپ ﷺ نے اس مہینہ (رمضان) کا اعتکاف چھوڑ دیا اور شوال کے عشرہ کا اعتکاف کیا۔

【144】

باب: مسجد میں خیمہ لگانا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، انہیں عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے اور انہیں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے اعتکاف کا ارادہ کیا۔ جب آپ ﷺ اس جگہ تشریف لائے (یعنی مسجد میں) جہاں آپ ﷺ نے اعتکاف کا ارادہ کیا تھا۔ تو وہاں کئی خیمے موجود تھے۔ عائشہ (رض) کا بھی، حفصہ (رض) کا بھی اور زینب (رض) کا بھی، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ انہوں نے ثواب کی نیت سے ایسا کیا ہے، پھر آپ ﷺ واپس تشریف لے گئے اور اعتکاف نہیں کیا بلکہ شوال کے عشرہ میں اعتکاف کیا۔

【145】

باب: کیا معتکف اپنی ضرورت کے لیے مسجد کے دروازے تک جا سکتا ہے؟

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے امام زین العابدین علی بن حسین نے خبر دی، اور انہیں نبی کریم ﷺ کی پاک بیوی صفیہ (رض) نے خبر دی کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ میں جب رسول اللہ ﷺ اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ ﷺ سے ملنے مسجد میں آئیں تھوڑی دیر تک باتیں کیں پھر واپس ہونے کے لیے کھڑی ہوئیں۔ نبی کریم ﷺ بھی انہیں پہنچانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ جب وہ ام سلمہ (رض) کے دروازے سے قریب والے مسجد کے دروازے پر پہنچیں، تو دو انصاری آدمی ادھر سے گزرے اور نبی کریم ﷺ کو سلام کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کسی سوچ کی ضرورت نہیں، یہ تو (میری بیوی) صفیہ بنت حیی (رضی اللہ عنہا) ہیں۔ ان دونوں صحابیوں نے عرض کیا، سبحان اللہ ! یا رسول اللہ ! ان پر آپ کا جملہ بڑا شاق گزرا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان خون کی طرح انسان کے بدن میں دوڑتا رہتا ہے۔ مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے۔

【146】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتکاف کا اور بیسویں کی صبح کو آپ کا اعتکاف سے نکلنے کا بیان۔

مجھ سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے ہارون بن اسماعیل سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم سے علی بن مبارک نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے سنا، انہوں نے کہا میں نے ابو سعید خدری (رض) سے سنا، میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے شب قدر کا ذکر سنا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ! ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کیا تھا، ابوسعید (رض) نے بیان کیا کہ پھر بیس کی صبح کو ہم نے اعتکاف ختم کردیا۔ اسی صبح کو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا کہ مجھے شب قدر دکھائی گئی تھی، لیکن پھر بھلا دی گئی، اس لیے اب اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے (خواب میں) دیکھا ہے کہ میں کیچڑ، پانی میں سجدہ کر رہا ہوں اور جن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (اس سال) اعتکاف کیا تھا وہ پھر دوبارہ کریں۔ چناچہ وہ لوگ مسجد میں دوبارہ آگئے۔ آسمان میں کہیں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا کہ اچانک بادل آیا اور بارش شروع ہوگئی۔ پھر نماز کی تکبیر ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے کیچڑ میں سجدہ کیا۔ میں نے خود آپ کی ناک اور پیشانی پر کیچڑ لگا ہوا دیکھا۔

【147】

باب: کیا مستحاضہ عورت اعتکاف کر سکتی ہے؟

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ کی بیویوں میں سے ایک خاتون (ام سلمہ رضی اللہ عنہا) نے جو مستحاضہ تھیں، اعتکاف کیا۔ وہ سرخی اور زردی (یعنی استحاضہ کا خون) دیکھتی تھیں۔ اکثر طشت ہم ان کے نیچے رکھ دیتے اور وہ نماز پڑھتی رہتیں۔

【148】

باب: عورت اعتکاف کی حالت میں اپنے خاوند سے ملاقات کر سکتی ہے۔

ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن خالد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے امام زین العابدین علی بن حسین (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کی پاک بیوی صفیہ (رض) نے انہیں خبر دی (دوسری سند) اور امام بخاری (رح) نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں علی بن حسین (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ مسجد میں (اعتکاف میں) تھے آپ کے پاس ازواج مطہرات بیٹھی تھیں۔ جب وہ چلنے لگیں تو آپ نے صفیہ بنت حیی (رض) سے فرمایا کہ جلدی نہ کر، میں تمہیں چھوڑنے چلتا ہوں۔ ان کا حجرہ دار اسامہ (رض) میں تھا، چناچہ جب رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ نکلے تو دو انصاری صحابیوں سے آپ ﷺ کی ملاقات ہوئی۔ ان دونوں حضرات نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا اور جلدی سے آگے بڑھ جانا چاہا۔ لیکن آپ نے فرمایا ٹھہرو ! ادھر سنو ! یہ صفیہ بنت حیی ہیں (جو میری بیوی ہیں) ان حضرات نے عرض کی، سبحان اللہ ! یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا کہ شیطان (انسان کے جسم میں) خون کی طرح دوڑتا ہے اور مجھے خطرہ یہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی (بری) بات نہ ڈال دے۔

【149】

باب: اعتکاف والا اپنے اوپر سے کسی بدگمانی کو دور کر سکتا ہے۔

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے بھائی نے خبر دی، انہیں سلیمان نے، انہیں محمد بن ابی عتیق نے، انہیں ابن شہاب نے، انہیں علی بن حسین (رض) نے کہ صفیہ (رض) نے انہیں خبر دی (دوسری سند) اور ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا۔ وہ علی بن حسین (رض) سے خبر دیتے تھے کہ صفیہ (رض) نبی کریم ﷺ کے یہاں آئیں۔ آپ ﷺ اس وقت اعتکاف میں تھے۔ پھر جب وہ واپس ہونے لگیں تو آپ بھی ان کے ساتھ (تھوڑی دور تک انہیں چھوڑنے) آئے۔ (آتے ہوئے) ایک انصاری صحابی (رض) نے آپ کو دیکھا۔ جب نبی کریم ﷺ کی نظر ان پر پڑی، تو فوراً آپ ﷺ نے انہیں بلایا، کہ سنو ! یہ (میری بیوی) صفیہ (رض) ہیں۔ (سفیان نے ہی صفیہ کے بجائے بعض اوقات هذه صفية کے الفاظ کہے۔ (اس کی وضاحت اس لیے ضروری سمجھی) کہ شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔ میں (علی بن عبداللہ) نے سفیان سے پوچھا کہ غالباً وہ رات کو آئی ہوں گی ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ رات کے سوا اور وقت ہی کون سا ہوسکتا تھا۔

【150】

باب: اعتکاف سے صبح کے وقت باہر آنا۔

ہم سے عبدالرحمٰن بن بشر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح کے ماموں سلیمان احول نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے۔ سفیان نے کہا اور ہم سے محمد بن عمرو نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے، سفیان نے یہ بھی کہا کہ مجھے یقین کے ساتھ یاد ہے کہ ابن ابی لبید نے ہم سے یہ حدیث بیان کی تھی، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کے لیے بیٹھے۔ بیسویں کی صبح کو ہم نے اپنا سامان (مسجد سے) اٹھا لیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ جس نے (دوسرے عشرہ میں) اعتکاف کیا ہے وہ دوبارہ اعتکاف کی جگہ چلے، کیونکہ میں نے آج کی رات (شب قدر کو) خواب میں دیکھا ہے میں نے یہ بھی دیکھا کہ میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر جب اپنے اعتکاف کی جگہ (مسجد میں) آپ دوبارہ آگئے تو اچانک بادل منڈلائے، اور بارش ہوئی۔ اس ذات کی قسم جس نے نبی کریم ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ! آسمان پر اسی دن کے آخری حصہ میں بادل ہوا تھا۔ مسجد کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی (اس لیے چھت سے پانی ٹپکا) جب آپ ﷺ نے نماز صبح ادا کی، تو میں نے دیکھا کہ آپ کی ناک اور پیشانی پر کیچڑ کا اثر تھا۔

【151】

باب: شوال میں اعتکاف کرنے کا بیان۔

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو محمد بن فضیل بن غزوان نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، انہیں عمرو بنت عبدالرحمٰن نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ ہر رمضان میں اعتکاف کیا کرتے۔ آپ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اس جگہ جاتے جہاں آپ کو اعتکاف کے لیے بیٹھنا ہوتا۔ راوی نے کہا کہ عائشہ (رض) نے بھی آپ سے اعتکاف کرنے کی اجازت چاہی۔ آپ نے انہیں اجازت دے دی، اس لیے انہوں نے (اپنے لیے بھی مسجد میں) ایک خیمہ لگا لیا۔ حفصہ رضی اللہ عنہا (زوجہ مطہرہ نبی کریم ﷺ ) نے سنا تو انہوں نے بھی ایک خیمہ لگا لیا۔ زینب (رض) (زوجہ مطہرہ نبی کریم ﷺ ) نے سنا تو انہوں نے بھی ایک خیمہ لگا لیا۔ صبح کو جب نبی کریم ﷺ نماز پڑھ کر لوٹے تو چار خیمے دیکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، یہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ کو حقیقت حال کی اطلاع دی گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا انہوں نے ثواب کی نیت سے یہ نہیں کیا، (بلکہ صرف ایک دوسری کی ریس سے یہ کیا ہے) انہیں اکھاڑ دو ۔ میں انہیں اچھا نہیں سمجھتا، چناچہ وہ اکھاڑ دیئے گئے اور آپ نے بھی (اس سال) رمضان میں اعتکاف نہیں کیا۔ بلکہ شوال کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا۔

【152】

باب: اعتکاف کے لیے روزہ کا ضروری نہ ہونا۔

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے اپنے بھائی (عبدالحمید ) سے، ان سے سلیمان نے، ان سے عبیداللہ بن عمر نے، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا، ان سے عمر بن خطاب (رض) نے کہ انہوں نے پوچھا، یا رسول اللہ ! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات کا مسجد الحرام میں اعتکاف کروں گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر اپنی نذر پوری کر۔ چناچہ عمر (رض) نے ایک رات بھر اعتکاف کیا۔

【153】

باب: اگر کسی نے جاہلیت میں اعتکاف کی نذر مانی پھر وہ اسلام لایا۔

ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر (رض) نے کہ عمر (رض) نے زمانہ جاہلیت میں مسجد الحرام میں اعتکاف کی نذر مانی تھی، عبید نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے رات بھر کا ذکر کیا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کر۔

【154】

باب: رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کرنا۔

ہم سے عبداللہ بن ابی شبیہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، ان سے ابوحصین عثمان بن عاصم نے، ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہر سال رمضان میں دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔ لیکن جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا، اس سال آپ ﷺ نے بیس دن کا اعتکاف کیا تھا۔

【155】

باب: اعتکاف کا قصد کیا لیکن پھر مناسب یہ معلوم ہوا کہ اعتکاف نہ کریں تو یہ بھی درست ہے۔

ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں اوزاعی نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمرو بنت عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کے لیے ذکر کیا۔ عائشہ (رض) نے بھی آپ ﷺ سے اجازت مانگی۔ آپ نے انہیں اجازت دے دی، پھر حفصہ (رض) نے عائشہ (رض) سے کہا کہ ان کے لیے بھی اجازت لے دیں چناچہ انہوں نے ایسا کردیا۔ جب زینب بنت حجش (رض) نے دیکھا تو انہوں نے بھی خیمہ لگانے کے لیے کہا، اور ان کے لیے بھی خیمہ لگا دیا گیا۔ انہوں نے ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز کے بعد اپنے خیمہ میں تشریف لے جاتے آج آپ کو بہت خیمے دکھائی دیئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ عائشہ، حفصہ، اور زینب رضی اللہ عنھن کے خیمے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ، بھلا کیا ان کی ثواب کی نیت ہے اب میں بھی اعتکاف نہیں کروں گا۔ پھر جب ماہ رمضان ختم ہوگیا تو آپ ﷺ نے شوال میں اعتکاف کیا۔

【156】

باب: اعتکاف والا دھونے کے لیے اپنا سر گھر میں داخل کرتا ہے۔

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ وہ حائضہ ہوتی تھیں اور رسول اللہ ﷺ مسجد میں اعتکاف میں ہوتے تھے، پھر بھی وہ آپ کے سر میں اپنے حجرہ ہی میں کنگھا کرتی تھیں۔ آپ اپنا سر مبارک ان کی طرف بڑھا دیتے۔